پارہ نمبر:28

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
پارہ نمبر:28
سورۃ المجادلہ
"مجادلہ " کا معنی ہے بحث کرنا۔ پہلی آیات میں اس مباحثےکے ذکر ہے جو حضرت خولہ نے کیا تھا۔ اسی سے سورۃ کانام بھی مجادلہ رکھ دیا ہے۔ اس سورۃ میں بنیادی طور پر چار چیزوں کو بیان کیا گیا ہے۔ ظہار اور اس کے احکام،منافقین اور یہودیوں کی سر گوشی کے احکامات، مجلس کے آداب اور منافقین کی حقیقت۔
حضرت خولہ رضی اللہ عنہا کا واقعہ:
﴿ قَدۡ سَمِعَ اللہُ قَوۡلَ الَّتِیۡ تُجَادِلُکَ فِیۡ زَوۡجِہَا وَ تَشۡتَکِیۡۤ اِلَی اللہِ ﴿۱﴾ ﴾
حضرت اوس بن صامت رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی حضرت خولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا سے ظہار کرلیا تھا۔ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئیں۔ اس وقت تک ظہار کا حکم نازل نہیں ہواتھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس اس کے متعلق ابھی تک کوئی حکم نہیں آیا، شاید تم اپنے شوہر پر حرام ہوچکی ہو۔ حضرت خولہ باربار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ رہی تھیں کہ میرے شوہر نے طلاق کا لفظ نہیں کہا اور اللہ تعالیٰ سے فریاد کررہی تھیں، اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔
ظہار کاکفارہ :
﴿وَ الَّذِیۡنَ یُظٰہِرُوۡنَ مِنۡ نِّسَآئِہِمۡ ثُمَّ یَعُوۡدُوۡنَ لِمَا قَالُوۡا ﴿۳﴾﴾
جب کوئی شخص اپنی بیوی سے ظہار کرلے تو جب کفارہ ادا نہ کرلے اس وقت تک بیوی کے پاس نہیں جاسکتا۔ یہاں کفارے کی صورتیں بیان کی ہیں :غلام آزاد کرے۔ اگر غلام آزاد کرنے کی قدرت نہ ہو تو دو ماہ مسلسل روزے رکھے۔ اگر کسی شرعی عذر(بڑھاپے یا بیماری)کی وجہ سے روزے نہ رکھ سکے تو ساٹھ مسکینوں کو دو وقت کا پیٹ بھر کر کھانا کھلائے۔
یہود کی سر گوشی:
﴿اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللہَ یَعۡلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ مَا یَکُوۡنُ مِنۡ نَّجۡوٰی ثَلٰثَۃٍ اِلَّا ہُوَ رَابِعُہُمۡ﴿۷﴾﴾
یہودیوں کی عادت تھی کہ جب مسلمانوں کو آتا دیکھتے تو آپس میں سرگوشی کرتے تھے۔ مقصد یہ ہوتا تھا کہ مسلمان پریشان ہوں کہ شاید ہمارے خلاف سازش ہو رہی ہے۔ ان کی دیکھا دیکھی منافقین بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ اس سے مسلمانوں کو تکلیف ہوتی۔ یہود ومنافقین کو سرگوشی سے منع کیا گیا وہ پھر بھی باز نہ آئے تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کو ان کی سرگوشیوں اور سازشوں کی سب خبر ہے، یہ اپنی خیر منائیں۔
مجلس کے آداب :
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا قِیۡلَ لَکُمۡ تَفَسَّحُوۡا فِی الۡمَجٰلِسِ فَافۡسَحُوۡا﴿۱۱﴾ ﴾
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ صفہ چبوترے میں تشریف فرماتھے۔ کچھ بدری اکابر صحابہ کرام تشریف لائے، جگہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ کھڑے رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سمٹ جاؤ پھر بھی ان کی جگہ نہ بنی تو آپ نے کچھ حضرات کو مجلس سے اٹھنے کا فرمایا۔ منافقین نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ مجلس سے اٹھایا جارہا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ جب کہا جائے سمٹ کر بیٹھو تو سمٹ جاؤ۔ مجلس صدر کو یہ بھی اختیار ہے کہ کسی کو مجلس سے اٹھ جانے کا حکم بھی دے سکتاہے۔
ملاقات سے پہلے صدقہ دینا:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نَاجَیۡتُمُ الرَّسُوۡلَ فَقَدِّمُوۡا بَیۡنَ یَدَیۡ نَجۡوٰىکُمۡ صَدَقَۃً ﴿۱۲﴾ ﴾
کچھ حضرات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کرنے کےلیے تنہائی کا وقت مانگتے پھر اس سے خوب فائدہ اٹھاتے اور کافی وقت تک بات چیت کرتے رہتے۔ کچھ منافقین بھی اس طرح کرنے لگ گئے۔ اس آیت میں حکم دیا گیا کہ جس نے بھی حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے تنہائی میں وقت لینا ہو تو وہ پہلے صدقہ کرکے آئے۔ جب لوگ محتاط ہوگئے تو اگلی آیت میں پھر اس حکم کو منسوخ کردیا۔
حزب اللہ کی کامیابی:
﴿ لَا تَجِدُ قَوۡمًا یُّؤۡمِنُوۡنَ بِاللہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ یُوَآدُّوۡنَ مَنۡ حَآدَّ اللہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ لَوۡ کَانُوۡۤا اٰبَآءَہُمۡ اَوۡ اَبۡنَآءَہُمۡ﴾
یہاں حزب اللہ یعنی اہل ایمان کا حال بیان کیا ہے کہ ایسے کبھی نہیں ہو سکتا کہ وہ ان لوگوں سے پیار کریں جو اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کے رسول کےمخالف ہوں۔ حتی کہ بعض صحابہ جب اپنے باپ یا بیٹے سے اسلام کے خلاف کوئی بات سنتے تو ان سے انتقام لیتے۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے والد ابوقحافہ نے قبولِ اسلام سے قبل جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کوئی نازیبا بات کی تو آپ رضی اللہ عنہ نے انہیں تھپڑ رسید کیا۔
اللہ تعالیٰ نے حزب اللہ کو دو انعامات عطا فرمائے: دنیامیں اللہ تعالیٰ نور ایمان سے ان کی مدد فرمائیں گے۔ آخرت میں جنت اور اس کی نعمتیں عطافرمائیں گےاور اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی رضا کا سرٹیفکیٹ بھی عطا فرمادیاہے۔
سورۃ الحشر
"حشر" کا ایک معنی جمع کرنا ہے اور ایک معنی اخراج یا جلاوطنی بھی ہے۔ سورۃ کی دوسری آیت میں یہ لفظ موجود ہے۔ اسی سے اس کانام رکھ دیا ہے۔
بنو نضیر کا واقعہ:
﴿ہُوَ الَّذِیۡۤ اَخۡرَجَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ مِنۡ دِیَارِہِمۡ لِاَوَّلِ الۡحَشۡرِ ﴿۲﴾﴾
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے آئے تو یہود سے امن وامان کا معاہدہ فرمایا کہ آپس میں لڑائی نہیں کریں گے۔ اگر کسی نے مدینہ پر حملہ کیا تو مل کر دفاع کریں گے۔ انہوں نے اسے قبول کرلیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہود کے ایک قبیلہ بنو نضیر کے پاس شرائط معاہدہ لکھنے کےلیے تشریف لے گئے۔ انہوں نے سازش کی کہ اوپر سے بڑی چٹان گرادیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس معاملہ سے باخبر کیا تو آپ وہاں سے فوراً واپس تشریف لے آئے اور پیغام بھیجا کہ ہمارا معاہدہ ختم ہے۔ پھر ان کےلیے مدت مقرر کی کہ اس مدت تک مدینہ چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں۔
یہود؛ منافقین کے کہنے پر اس مدت کے بعدبھی مدینہ منورہ میں رہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مل کر ان کے قلعے کا محاصرہ کیا۔ بالآخر بنو نضیر نے ہتھیار ڈال دیے اور سوائے ہتھیاروں کے باقی سازوسامان لے کر وہاں سے چلے گئے۔ یہ ان کی پہلی جلاوطنی تھی۔ دوسری مرتبہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں انہیں جزیرہ عرب سے ہی جلا وطن کردیا گیا۔ یہ دنیوی سزا تھی۔ اخروی سزاجہنم کی صورت میں ہوگی۔
مال فئی کے مصارف :
﴿مَاۤ اَفَآءَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ مِنۡ اَہۡلِ الۡقُرٰی فَلِلہِ وَ لِلرَّسُوۡلِ وَ لِذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ﴿۷﴾﴾
گزشتہ آیت میں بنو نضیر کا واقعہ تھا کہ وہ اپنی زمینیں چھوڑ کر چلے گئے تھے یہ مال فئی تھا کیوں کہ یہ بغیر جنگ کے مسلمانوں کو حاصل ہوا تھا۔ اب یہاں سے مال فئی کے مصارف بیان فرمارہے ہیں۔ اور وہ پانچ ہیں :رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، قرابتدار،یتیم، مسکین اور مسافر۔ اللہ تعالیٰ کانام صرف تبرک کےلیے ہے۔
صحابہ کرام کا ایثار:
﴿وَ الَّذِیۡنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَ الۡاِیۡمَانَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ یُحِبُّوۡنَ مَنۡ ہَاجَرَ اِلَیۡہِمۡ ۚ﴿۹﴾ ﴾
یہاں انصار مدینہ کی کیفیت وحالت کو بیان کیا گیا ہے کہ وہ اپنے اوپر مہاجرین صحابہ کو ترجیح دیتے ہیں۔ خصوصاً حضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے پر کچھ مہمانوں کو کھانا کھلانے کےلیے اپنے ہاں لے گئے۔ کھانا کم تھا تو انہوں نے بہانے سے چراغ بجھا دیا۔مہمانوں نے خوب سیر ہو کھاناتناول فرمایا۔
بنو قینقاع کی شکست:
﴿کَمَثَلِ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ قَرِیۡبًا ذَاقُوۡا وَبَالَ اَمۡرِہِمۡ ۚ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ﴿ۚ۱۵﴾﴾
یہاں یہود کے ایک اور قبیلے بنو قینقاع کا ذکر کیا۔ انہوں نے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معاہدہ امن کیا تھا، پھر خود ہی جنگ کے لیے تیار ہو گئے۔ مسلمانوں کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست ہوئی اور مدینہ منورہ سے جلا وطن کیے گئے۔
منافقین شیطان کی طرح ہیں:
﴿کَمَثَلِ الشَّیۡطٰنِ اِذۡ قَالَ لِلۡاِنۡسَانِ اکۡفُرۡ ۚ فَلَمَّا کَفَرَ قَالَ اِنِّیۡ بَرِیۡٓءٌ مِّنۡکَ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اللّٰہَ رَبَّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۶﴾ ﴾
شیطان لوگوں کو کفر پر اکساتاہے جب لوگ کفر اختیار کر لیتے ہیں تو کہتاہے کہ میں بری ہوں۔ جیسے بدر کے موقع پر ہوا۔ آخرت میں بھی یہی کرے گا۔ اسی طرح منافقین بھی یہود بنو نضیر سے کہہ رہے تھے کہ تم ڈٹے رہو مدینہ سے نہ نکلو، ہم تمہاری مدد کریں گے۔ جب وقت آیا تو منافقین نے شیطان والا موقف اپنالیا۔
اسمائے حسنیٰ:
﴿ہُوَ اللہُ الَّذِیۡ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۚ اَلۡمَلِکُ الۡقُدُّوۡسُ السَّلٰمُ الۡمُؤۡمِنُ الۡمُہَیۡمِنُ الۡعَزِیۡزُ الۡجَبَّارُ الۡمُتَکَبِّرُ ﴾
سورۃ کا اختتام اللہ تعالیٰ کے اچھے ناموں کے ساتھ کیا گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ کی تعداد ننانوے بتائی ہے۔
سورۃ الممتحنہ
"ممتحنہ" کا معنی ہے امتحان لینے والی۔ اس سورۃ میں ان عورتوں کا امتحان لینے کا حکم دیا گیاہے جو مکہ مکرمہ سے ہجرت سے کرکے مدینہ منورہ آئیں۔ اس لیے اس کانام ممتحنہ رکھ دیا۔
دشمنِ خدا سے دوستی جائز نہیں:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا عَدُوِّیۡ وَ عَدُوَّکُمۡ اَوۡلِیَآءَ ﴿۱﴾﴾
ان آیات کا پس منظریہ ہے کہ حدیبیہ کے بعدجب کفار کی طرف سےصلح حدیبیہ کی عہد شکنی کی گئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش مکہ کو اطلاع کروادی کہ اب وہ معاہدہ باقی نہیں رہا۔ مدینہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ پر حملہ کی تیاری شروع فرمادی۔ مکہ کی ایک عورت سارہ نامی، مالی مددکےلیے آئی ہوئی تھی۔ اس کے ذریعے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے اپنے اہل وعیال کی خاطر ؛ جو مکہ میں تھے؛ قریش پر احسان کرنے کےلیے خط بھیجا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عنقریب مکہ پر حملہ آور ہوں گے۔ اس کے متعلق یہ آیات نازل ہوئیں کہ اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ کہ تم ان کو دوستی کے پیغام بھیجنے لگو! حالانکہ ان لوگوں نے تمہارے دینِ حق کو جھٹلایا ہے۔ ان لوگوں نے اللہ کے نبی کو اور تمہیں مکہ سے صرف اس وجہ سے نکالا تھا کہ تم اللہ رب العزت پر ایمان لاتے ہو!
کفار سے ترک موالات پر تائید:
﴿قَدۡ کَانَتۡ لَکُمۡ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیۡۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗ ۚ اِذۡ قَالُوۡا لِقَوۡمِہِمۡ اِنَّا بُرَءٰٓؤُا مِنۡکُمۡ وَ مِمَّا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ ﴿۴﴾﴾
سورۃ کے شروع میں حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کے اور اپنے دشموں پر احسان کرکے انہیں دلی دوست مت بناؤ۔ اب یہاں سے اس کی تائید کےلیے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کے اسوہ کو بیان کیا جارہا ہے کہ ان کا سارا خاندان والد سمیت شرک کی دلدل میں ڈوبا ہوا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نہ صرف ان سے براءت کا اعلان کیا بلکہ عداوت کا بھی اعلان کردیاکہ جب تک کہ تم ایک اللہ تعالیٰ کو نہ مان لو، میری تمہاری دشمنی ہے۔
مکہ سے آنے والی خواتین کا حکم :
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا جَآءَکُمُ الۡمُؤۡمِنٰتُ مُہٰجِرٰتٍ فَامۡتَحِنُوۡہُنَّ﴿۱۰﴾ ﴾
صلح حدیبیہ کی شرائط میں ایک شرط یہ تھی کہ اگر کوئی مسلمان مدینہ سے مکہ چلا گیا وہ واپس نہیں کیا جائے گا۔ جبکہ مکہ سے کوئی کافر مسلمان ہوکر مدینہ آجائے تو اسے واپس کیا جائے گا۔ کچھ مرد مکہ سے مدینہ آئے، شرط کے مطابق انہیں واپس کردیا گیا۔ اسی طرح کچھ خواتین بھی مکہ سے مسلمان ہو کر مدینہ تشریف لے آئیں تو مکہ والوں نے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں کہ خواتین اس واپسی کی شرط سے مستثنیٰ ہیں۔ لہذا انہیں واپس نہیں کیا جائے گا کیونکہ اب وہ اپنے سابقہ کافر شوہر کےلیے حلال نہیں رہیں۔ اس آیت میں ایسی آنے والی خواتین کی جانچ پڑتال کا حکم دیا گیا ہے کہ انہیں پرکھ لیاجائے کہ واقعی وہ مسلمان ہوکرآئی ہیں یا کوئی اور مقصد ہے۔ پھر ان کے نکاح اور مہر کے متعلق احکامات بیان کیے گئے ہیں۔
اہل ِایمان خواتین کی بیعت کا حکم :
﴿یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا جَآءَکَ الۡمُؤۡمِنٰتُ یُبَایِعۡنَکَ عَلٰۤی اَنۡ لَّا یُشۡرِکۡنَ بِاللہِ شَیۡئًا﴿۱۲﴾﴾
گزشتہ آیات میں ان خواتین کا بیان تھا جو مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ آئی تھیں۔ اب یہاں سےنبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیاجارہا ہے کہ اگر مہاجرات آپ سے بیعت کرنا چاہیں تو آپ انہیں بیعت فرمالیں۔ حکمِ بیعت مہاجرات کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ آگے بیعت کے الفاظ ہیں کہ تم بیعت ان باتوں پر کرو:
شرک نہیں کریں گی،چوری نہیں کریں گی، زنا نہیں کریں گی، ناحق اولاد کو قتل نہیں کریں گی، بہتان نہیں باندھیں گی اور ہر نیک بات مانیں گی۔ آپ علیہ السلام ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کریں، بے شک اللہ تعالیٰ معاف فرمانے والے ہیں۔
سورۃ الصف
"صف" کامعنی ہے قطار باندھنا۔ اس سورۃ میں مؤمنین کی صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ جہاد میں صف باندھتے ہیں۔ اسی لیے اس کانام الصف رکھا ہے۔
شان نزول :
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ ﴿۲﴾ ﴾
بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فرمایا کہ ہمیں اگر یہ معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کونسا عمل محبوب ہے تو ہم اس پر اپنی جانیں نثار کردیں گے۔ اس وقت یہ سورۃ نازل ہوئی تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ان حضرات کو بلاکر یہ سورۃ سنائی۔ اس میں تعلیم دی گئی ہے کہ کوئی ایسی بات کرنا جس میں کوئی بڑا دعویٰ ہو تو یہ مؤمن کی شان کے لائق نہیں ۔ ہوسکتا ہے کہ جس کا دعویٰ کیا ہے اسے پورا نہ کرسکے۔ اس لیے جب بھی اس طرح کی کوئی بات کرنی ہو تو ساتھ ہی ان شاء اللہ کہہ دیناچاہیے۔ پھر اگلی آیت میں بتا دیا کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند کرتے ہیں جو میدان جہاد میں نکل کر سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹ کر لڑتےہیں۔
بشارتِ عیسیٰ علیہ السلام:
﴿وَ اِذۡ قَالَ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ یٰبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللہِ اِلَیۡکُم ﴿۶﴾﴾
گزشتہ آیت میں ذکر تھا کہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تکلیف پہنچائی جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا فرمادیاتھا۔ اب یہاں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی رسالت کا ذکر ہورہا ہے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل سے تین باتیں فرمائیں:نمبر ایک اپنی رسالت کاذکر فرمایا کہ اے بنی اسرائیل! میں تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کا رسول بن کر آیا ہوں۔ نمبر دوتورات کی تصدیق فرمائی۔ نمبر تین بعدمیں آنے والے پیغمبر (حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم)کی بشارت بھی دی۔ جن کا نام "احمد" ہے۔ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو کھلی نشانیاں دکھائیں تو بنی اسرائیل کہنے لگے کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔
دین اسلام باقی اور غالب رہے گا:
﴿یُرِیۡدُوۡنَ لِیُطۡفِـُٔوۡا نُوۡرَ اللہِ بِاَفۡوَاہِہِمۡ وَ اللہُ مُتِمُّ نُوۡرِہٖ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ ﴿۸﴾ ﴾
کفاراپنے منہ سے اللہ تعالیٰ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ اپنے نور کو مکمل کریں گے اگرچہ کافروں کو یہ بات جتنی بھی بری لگے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کفاراپنےمنہ سے اس دین کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ان کے زبانی دعوے ہیں کہ ہم دین کو مٹا دیں گے لیکن یہ دین ان کے دعووں سے مٹ نہیں سکتا۔
﴿ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ٪﴿۹﴾﴾
دین اسلام غالب رہے گا۔ لیکن اس سے مرادغلبہ برہانی ہے کہ جس نے بھی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آکر دلائل وبراہین سے بات کی تو وہ مغلوب ہوا۔ پھر آخر میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں کا تذکرہ فرمایا جنہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مددو نصرت فرمائی۔
سورۃ الجمعہ
اس سورۃ کے آخر میں جمعۃ المبارک کے احکامات کو بیان کیا گیا ہے۔ اس لیے اس کا نام "الجمعہ" رکھ دیا گیاہے۔
خاتم الانبیاء کی بعثت کے مقا صد :
﴿ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ﴿۲﴾﴾
یہاں اللہ تعالیٰ نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے چار بنیادی مقاصد بیان فرمائے ہیں جوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً کیے تھے:
اللہ تعالیٰ کی آیات پڑھ کر سناتے ہیں۔ اہل ایمان کا تزکیہ نفوس فرماتے ہیں۔ یعنی اخلاق رذیلہ، عُجب، کبر، حسد، بغض اور گندے عقائد سے پاک کرتے ہیں۔ قرآن مجید کا معنی سمجھاتے ہیں اورسنت کی تعلیم دیتےہیں۔
یہودیوں کی مذمت :
﴿مَثَلُ الَّذِیۡنَ حُمِّلُوا التَّوۡرٰىۃَ ثُمَّ لَمۡ یَحۡمِلُوۡہَا کَمَثَلِ الۡحِمَارِ یَحۡمِلُ اَسۡفَارًا ﴿۵﴾﴾
یہودی کہتےتھے کہ ہم تورات کو مانتے ہیں۔ تورات میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات مذکورتھیں، یہود انہیں پڑھ بھی چکے تھے لیکن جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تویہودی آپ علیہ السلام پر ایمان نہ لائے اور تورات کی مخالفت کی۔ ان کی مثال اس گدھے جیسی ہے جس پر کتابیں لادی ہوئی ہوں۔
اہل ایمان کےلیے ہدایات:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ﴿۹﴾﴾
ان آیات میں اہل ایمان کو ہدایات دی گئی ہیں کہ دنیوی مصروفیات کی وجہ سے دین پر عمل کرنے میں رکاوٹ نہیں آنی چاہیے۔ ایک مرتبہ کچھ صحابہ کرام تجارتی قافلہ کے آنے کی اطلاع پاکر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ جمعہ ارشاد فرمانے کے دوران بغرض تجارت رزق کی خاطر چلے گئے تھے۔
اس وقت ان آیات کا نزول ہوا جس میں اہل ایمان کو ہدایات دی گئی ہیں کہ اس طرح خطبہ جمعہ کو چھوڑکرجانا جائز نہیں۔ اللہ تعالیٰ بہترین رزق دینے والے ہیں۔ پہلی اذان کے بعدسوائے جمعہ کی تیاری کے خریدوفروخت اور دیگر دنیوی امور انجام دیناجائز نہیں۔
سورۃ المنافقون
اس سورۃ میں منافقین کے نفاق کا بیان ہے اس لیے اس کا نام بھی "منافقون "رکھ دیا۔
شہادت خداوندی :
﴿اِذَا جَآءَکَ الۡمُنٰفِقُوۡنَ قَالُوۡا نَشۡہَدُ اِنَّکَ لَرَسُوۡلُ اللہِ ۚ﴿۱﴾﴾
منافقین کا طریقہ یہ تھا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آتے تو کہتے کہ ہم دل سے گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے شہادت دی کہ یہ منافقین جھوٹ بول رہے ہیں۔ یہ زبان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے کا اقرار کرتے ہیں اور دل سے انکار کرتے ہیں۔
شان نزول :
﴿یَقُوۡلُوۡنَ لَئِنۡ رَّجَعۡنَاۤ اِلَی الۡمَدِیۡنَۃِ لَیُخۡرِجَنَّ الۡاَعَزُّ مِنۡہَا الۡاَذَلَّ ؕ وَ لِلہِ الۡعِزَّۃُ وَ لِرَسُوۡلِہٖ وَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ لٰکِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ٪﴿۸﴾﴾
عرب کا ایک قبیلہ بنو المصطلق مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کےلیے تیاری میں مصروف تھا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کو لے کر خود تشریف لے گئے۔ انہیں شکست کا سامنا ہوا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چشمہ کے قریب پڑاؤ ڈالا، پانی کے معاملے میں ایک مہاجر اور انصاری صحابی کے مابین تکرار ہوئی اور معاملہ بڑھ کر جھگڑے تک جا پہنچا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھایا۔ ان کی آپس میں معافی تلافی ہوگئی۔
واپسی پر عبد اللہ بن ابی نے کہا کہ مہاجرین کو اتنا سر پر نہ چڑھاؤکہ وہ ہاتھ اٹھانے لگ جائیں اور کہا کہ مدینہ پہنچ کر عزت والے(منافقین) ذلت والوں (مہاجرین) کو نکال دیں گے۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے یہ بات سن کر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو عبد اللہ بن ابی نے انکار کردیا۔ مدینہ منورہ پہنچنے سے پہلے یہ سورۃ نازل ہوئی جس میں حضرت زید رضی اللہ عنہ کی تصدیق ہوئی اور منافقین کے نفاق کو بھی کھول کر بیان کیا گیا۔ عبد اللہ بن ابی کو جواب دیا گیا کہ اصل میں عزت اللہ تعالی،نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کےلیے ہے لیکن منافقین کوتو اس کا علم ہی نہیں ہے۔
سورۃ التغابن
تخلیقاتِ باری تعالیٰ کا تقاضا:
﴿ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ فَمِنۡکُمۡ کَافِرٌ وَّ مِنۡکُمۡ مُّؤۡمِنٌ ؕ وَ اللہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ ﴿۲﴾﴾
اللہ تعالیٰ وہ ذات ہے جس نےانسانوں کو پیدا کیا۔ اس کا تقاضا یہ تھا کہ سب انسان اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے۔ ایسا نہ ہوسکاکیونکہ بعض کافر ہو گئے اور بعض مؤمن ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ انسانوں کے اعمال سے باخبر ہے۔
ہار جیت کے دن کفار کی حسرت :
﴿یَوۡمَ یَجۡمَعُکُمۡ لِیَوۡمِ الۡجَمۡعِ ذٰلِکَ یَوۡمُ التَّغَابُنِ ﴿۹﴾﴾
تغابن قیامت کے دن کو کہتے ہیں اس کا معنی ہے ہار جیت کا دن۔ جب قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اہل جنت کو جنت میں داخل فرمادیں گےتواس وقت کفاراس بات پر حسرت کریں گے کہ کاش ہم بھی دنیا میں اہل جنت کی طرح اعمال کرتے تو ہم بھی ان کے ساتھ جنت میں ہوتے۔
ازواج واولاد کی دشمنی کا مطلب:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّ مِنۡ اَزۡوَاجِکُمۡ وَ اَوۡلَادِکُمۡ عَدُوًّا لَّکُمۡ فَاحۡذَرُوۡہُمۡ﴿۱۴﴾ ﴾
یہاں بیوی اور بچوں کا ذکر کیاجارہا ہےکہ بیوی بچے انسان کے دشمن ہیں۔ لیکن یہ ہر بیوی بچوں کے متعلق نہیں بلکہ اس سے مراد وہ بیوی بچے ہیں جو انسان کےلیے دین پر عمل کرنے میں رکاوٹ بنیں۔ اگر وہ اس سے باز آجائیں تو انسان کو ان سے در گزر کرنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ بھی معاف فرمانے والے ہیں۔
سورۃ الطلاق
اس سورۃ میں طلاق کے احکامات بیان فرمائے گئے ہیں۔ اسی وجہ سے اس کانام "طلاق"رکھا گیاہے۔ اس سورۃ میں شوہر اور بیوی کو تقویٰ اختیار کرنے کی بھی ترغیب دی گئی ہے۔
طلاق دینے کا طریقہ:
﴿یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقۡتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوۡہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ وَ اَحۡصُوا الۡعِدَّۃَ وَ اتَّقُوا اللہَ رَبَّکُمۡ ﴿۱﴾﴾
جب مرد اور عورت کا نکاح کے ذریعے رشتہ قائم ہوجائے تو حتی الامکان طلاق نہیں دینی چاہیے۔ ہاں اگر میاں بیوی کے درمیان معاملات میں کشیدگی پیدا ہو گئی ہو جس کی وجہ سے طلاق دینے کی نوبت آجائے تو یہاں طلاق دینے کا طریقہ سمجھایا جا رہا ہے کہ :نمبر ایک، ایک طلاقِ رجعی دی جائے۔ نمبر دو ایسے طہر میں طلاق دی جائے جس میں شوہر نے بیوی سے جماع نہ کیا ہو۔ طلاق رجعی دینے کا فائدہ یہ ہوگا کہ اگر میاں بیوی کے درمیان وہ غلط فہمی یا وہ غصہ جس کی وجہ سے طلاق دی اگر دورہوجائے تو دوبارہ رجوع کے ذریعے اپنے نکاح کا رشتہ قائم کرسکیں گے۔ جماع کے بغیر والے طہر میں طلاق دینے کا فائدہ یہ ہوگا کہ عورت کی عدت لمبی نہیں ہوگی۔ طلاق رجعی کی عدت کے دوران عورت اپنے شوہر کے گھر میں رہ کر عدت گزارے گی۔ اس مدت کا نفقہ شوہر کے ذمے ہوگا۔
آئسہ اور حاملہ کی عدت:
﴿وَ الِّٰٓیۡٔ یَئِسۡنَ مِنَ الۡمَحِیۡضِ مِنۡ نِّسَآئِکُمۡ اِنِ ارۡتَبۡتُمۡ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلٰثَۃُ اَشۡہُرٍ ۙ وَّ الِّٰٓیۡٔ لَمۡ یَحِضۡنَ ؕ وَ اُولَاتُ الۡاَحۡمَالِ اَجَلُہُنَّ اَنۡ یَّضَعۡنَ حَمۡلَہُنَّ﴿۴﴾﴾
یہاں مختلف عورتوں کی عدت کو بیان کیا جارہا ہے۔ آئسہ وہ عورتیں ہیں جن کو ماہواری نہیں آتی؛ عمر کم ہونے کی وجہ سے یا عمر بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے؛ طلاق کے بعد ان کی عدت تین ماہ ہے۔ حاملہ عورت کی عدت وضع حمل ہے یعنی بچے کی ولادت ہوتے ہی عدت پوری ہوجائے گی۔
قدرتِ خداوندی :
﴿اَللہُ الَّذِیۡ خَلَقَ سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ وَّ مِنَ الۡاَرۡضِ مِثۡلَہُنَّ ﴿٪۱۲﴾ ﴾
انسانوں کو سمجھایا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کائنات میں پھیلی ہوئی بے شمار قدرت کی نشانیوں کو دیکھ کر اور اپنی عقل سلیم کو استعمال کرکے اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آؤ۔ قدرت خداوندی کی نشانیوں میں سے سات آسمانوں اور اسی طرح سات زمینوں کی پیدائش شامل ہے۔
سورۃ التحریم
اس سورۃ میں اس واقعہ کا ذکر ہے جس میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اوپر شہد کو حرام قرار دیا تھا۔ اسی وجہ سے اس کانام تحریم رکھا گیا ہے۔
شان نزول :
﴿یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللہُ لَکَ ۚ تَبۡتَغِیۡ مَرۡضَاتَ اَزۡوَاجِکَ ؕ وَ اللہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱﴾﴾
حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول مبارک یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کے بعد ترتیب وار ازواج مطہرات کے گھر تشریف لے جاتے۔ حسب معمول آپ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے، انہوں نے آپ کو شہد پیش کیا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ وحفصہ رضی اللہ عنہما کے پاس تشریف لی گئے تو انہوں نے کہا کہ آپ نے مغافیر کھایاہے؟آپ نے فرمایا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ بو محسوس ہورہی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھالی کہ میں شہد نہیں پیوں گا۔
اس وقت یہ آیت نازل ہوئی اور از راہ شفقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ آپ نے اپنی بیویوں کی خوشنودی حاصل کرنے کےلیے حلال چیز(شہد)کوحرام قرار کیوں قرار دیا؟قسم توڑ کر کفارہ ادا کریں۔ آگے آیات میں پوری تفصیل موجود ہے۔
اہل ایمان کو خالص تو بہ کرنے کاحکم :
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا تُوۡبُوۡۤا اِلَی اللہِ تَوۡبَۃً نَّصُوۡحًا ؕ﴿۸﴾﴾
اے ایمان والو! خالص توبہ کرو۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے تھے خالص توبہ یہ ہے کہ جو گناہ کیا ہے اس پر آدمی کو ندامت ہو جائے،جو فرض چھوڑ دیا تھا اس کی قضا کر لے،کسی کا مال لیا تھا تو اس کو واپس کر دے،کسی سے زیادتی کی تھی تو اس سے معافی مانگ لے، آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم کر لےاور جس طرح نفس کو گناہ کرتے دیکھا تھا اسی طرح نفس کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے بھی دیکھے۔ خالص توبہ کرنے پر گناہوں کی معافی کا وعدہ ہے اور ایسے باغات ملیں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی خالص توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ