پارہ نمبر:29

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
پارہ نمبر:29
سورۃ الملک
اس سورت کی پہلی آیت میں لفظ ملک ہے۔ اس کا معنی بادشاہت ہےیعنی اللہ تعالیٰ کی بادشاہت۔ اس لیے اس سورۃ کانام "ملک"رکھاگیا ہے۔ سورۃ الملک کی فضیلت یہ ہے کہ یہ عذابِ قبر سے نجات دلانے والی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی صفات:
﴿ تَبٰرَکَ الَّذِیۡ بِیَدِہِ الۡمُلۡکُ ۫ وَ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرُۨ ۙ﴿۱﴾ ﴾
سورۃ کے شروع میں اللہ تعالیٰ کی چار اہم صفات کا ذکر ہے: اللہ تعالیٰ کا موجود ہونا، اللہ تعالیٰ کا مالک اور سب سے بالاترہونا، آسمان وزمین پر اللہ تعالیٰ کی حکومت کا ہونا اور اللہ تعالیٰ کا ہر چیز پر قادر ہونا۔
موت وحیات کی پیدائش کا مقصد:
﴿الَّذِیۡ خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَ الۡحَیٰوۃَ لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ۙ﴿۲﴾﴾
موت وحیات کو پیدا کرنے کا بنیادی مقصد انسان کی آزمائش ہے کہ دنیا میں کون اچھے اعمال کرتاہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کون زیادہ اچھا عمل کرتاہے، اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کے دن اعمال کو گنانہیں جائے گابلکہ وزن کیاجائے گا۔ موت کا پہلے ذکر فرمایا حیات کا بعد میں اس میں اشارہ ہے کہ انسان کی دنیوی زندگی بالکل مختصر ہے اور موت کا واقع ہونا یقینی اور بالکل قریب ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ گناہوں سے بچیں اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاوالے کام کریں۔
تقلید واجب ہے:
﴿ وَ قَالُوۡا لَوۡ کُنَّا نَسۡمَعُ اَوۡ نَعۡقِلُ مَا کُنَّا فِیۡۤ اَصۡحٰبِ السَّعِیۡرِ ﴿۱۰﴾ ﴾
وہ لوگ کہیں گے کہ کاش ہم کسی کی بات سن لیتے یا خود ہی عقل سے کام لے لیتے تو آج جہنم میں داخل نہ ہوتے! وہاں اپنے گناہ کا اعتراف کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب ہو گا کہ اے اہل جہنم دفع ہو جاؤ۔ اس آیت سے تقلید کا ثبوت ہورہا ہے،اس لیے تقلید کرنا واجب ہے۔ تقلید کے بغیر انسان کبھی بھی شریعت پر عمل نہیں کر سکتا۔ عمل کرنا تو دور کی بات ہے تقلیدکے بغیر انسان کو عمل مل ہی نہیں سکتا۔
کفارکی حماقت:
﴿قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ اِنۡ اَہۡلَکَنِیَ اللہُ وَ مَنۡ مَّعِیَ اَوۡ رَحِمَنَا فَمَنۡ یُّجِیۡرُ الۡکٰفِرِیۡنَ مِنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿۲۸﴾﴾
کفارمکہ ؛ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی وجہ سے یہ کہا کرتے تھے کہ جب محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) فوت ہوجائیں گے تو دین اسلام ختم ہوجائے گا۔ وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کا انتظار کرتے تھے۔ یہاں انہیں بتایا جارہا ہے کہ یہ تمہاری حماقت ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو اللہ تعالیٰ وفات دے یا ان پر رحم فرماکر فتح عطافرمائے، تمہیں دونوں صورتوں میں کوئی نفع نہیں ہوگابلکہ تمہیں توہرحال میں عذاب کاسامنا کرنا ہی پڑے گا۔
سورۃ القلم
اس سورۃ میں قلم کاذکر ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے۔ اسی مناسبت سے اس سورۃ کانام "قلم"رکھ دیا گیا ہے۔
مشرکین کی تردید:
﴿نٓ وَ الۡقَلَمِ وَ مَا یَسۡطُرُوۡنَ ۙ﴿۱﴾ مَاۤ اَنۡتَ بِنِعۡمَۃِ رَبِّکَ بِمَجۡنُوۡنٍ ۚ﴿۲﴾ ﴾
مشرکین مکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو مجنون کہا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ قلم کی قسم کھاکرفرمارہے ہیں کہ اے میرے پیغمبر! آپ مجنون نہیں ہیں۔ پھر آگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت بیان فرمائی کہ آپ اخلاق کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہیں۔
دشمنانِ دین کا ذکر:
﴿وَ لَا تُطِعۡ کُلَّ حَلَّافٍ مَّہِیۡنٍ ﴿ۙ۱۰﴾ ہَمَّازٍ مَّشَّآءٍۭ بِنَمِیۡمٍ ﴿ۙ۱۱﴾ ﴾
یہ عام کفار کے بارے میں بھی ہے اور بطورِ خاص ولید بن مغیرہ کے بارے میں ہے۔ یہاں اس کی9 اخلاقی برائیاں بیان کی گئی ہیں مثلاً بہت قسمیں کھانے والا،بے وقعت شخص ہے، طعنے دیتاہے اور چغلیاں کھاتا ہے۔ اے میرے پیغمبر!اس کی اوراس جیسے دوسرے کفار کی خواہش ہے کہ آپ دین کے معاملہ میں ڈھیلے پڑجائیں، لیکن آپ ان کی باتوں میں نہ آئیں۔
باغ والوں کا واقعہ:
﴿اِنَّا بَلَوۡنٰہُمۡ کَمَا بَلَوۡنَاۤ اَصۡحٰبَ الۡجَنَّۃِ ﴿ۙ۱۷﴾ ﴾
کفار کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں وافر مقدار میں مال عطا فرمایاہے۔ یہاں باغ والوں کا واقعہ بیان کرکے کفار کو تنبیہ کی گئی ہے کہ کسی کو مال ودولت کا ملنا اس کی عند اللہ محبوبیت کی دلیل نہیں بلکہ بعض دفعہ مال کا ملنا آزمائش کےلیے ہوتا ہے۔ جس طرح باغ والوں کو اللہ تعالیٰ نے خوب نوازا تھا لیکن یہی مال ان کی آزمائش کا ذریعہ بن گیا۔ جب وہ نافرمانی اور ناشکری پر اترے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے باغ کو نیست ونابود فرما دیا۔
حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت:
﴿وَ اِنۡ یَّکَادُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَیُزۡلِقُوۡنَکَ بِاَبۡصَارِہِمۡ لَمَّا سَمِعُوا الذِّکۡرَ وَ یَقُوۡلُوۡنَ اِنَّہٗ لَمَجۡنُوۡنٌ ﴿ۘ۵۱﴾﴾
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان کافروں کو جب نصیحت کی جا رہی ہوتی ہے تو یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے گھور کردیکھتے ہیں جیسے اپنی آنکھوں سے پِھسلا دیں گے، راہِ حق سے ہٹا دیں گے۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ مکہ میں ایک شخص تھا اس کی نظر بدلگتی تھی اہل مکہ نے کہا کہ محمد(صلی اللہ علی وسلم) کو نظر لگاؤتو اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کی اس سے حفاظت فرمائی۔ اگر کسی کو نظر بد لگ جائے تو یہ آیت پڑھ کر دم کردیاجائے، ان شاء اللہ نظر کا اثر ختم ہوجائے گا۔
سورۃ الحاقہ
حاقہ قیامت کو کہتے ہیں۔ چونکہ پہلی آیت میں قیامت کا بیان کیا ہے اس لیے اس کانام بھی "حاقہ "رکھ دیا گیا ہے۔
قیامت برحق ہے:
﴿اَلۡحَآقَّۃُ ۙ﴿۱﴾مَا الۡحَآقَّۃُ ۚ﴿۲﴾ وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا الۡحَآقَّۃُ ؕ﴿۳﴾﴾
سورۃ کے شروع میں قیامت کےقائم ہونے کو بیان کیا جارہا ہے کہ وہ ہوکررہے گی۔ اس لیے قیامت کے وقوع کو ماننا ضروری ہے۔ پھر آگے اللہ تعالیٰ نے سابقہ اقوام یعنی قوم ثمود،قوم عاد،قوم فرعون اور قوم نوح کی تباہی وبربادی کا ذکر کیا ہے کہ انہوں نے اپنے انبیاء علیہم السلام کی تکذیب ونافرمانی کی۔
اہل جنت واہل جہنم کا تذکرہ:
﴿فَاَمَّا مَنۡ اُوۡتِیَ کِتٰبَہٗ بِیَمِیۡنِہٖ ۙ فَیَقُوۡلُ ہَآؤُمُ اقۡرَءُوۡا کِتٰبِیَہۡ ﴿ۚ۱۹﴾﴾
یہاں اہل جنت اور اہل جہنم کو پیش آنے والے حالات کا تذکرہ ہورہا ہے۔ اہل جنت کا نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں ہوگا اور جنت کی بے شمار نعمتیں ملیں گی۔ اہل جہنم کو نامہ اعمال بائیں ہاتھ میں ملے گا اور ان کے لیے طرح طرح کے عذاب ہوں گے۔
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے:
﴿فَلَاۤ اُقۡسِمُ بِمَا تُبۡصِرُوۡنَ ﴿ۙ۳۸﴾ وَ مَا لَا تُبۡصِرُوۡنَ ﴿ۙ۳۹﴾ اِنَّہٗ لَقَوۡلُ رَسُوۡلٍ کَرِیۡمٍ ﴿ۙ۴۰﴾﴾
یہاں اللہ تعالیٰ قسمیں کھاکر فرمارہے ہیں کہ یہ کلام (قرآن کریم) کسی شاعر اور کاہن کا کلام نہیں بلکہ یہ کلام تمام جہانوں کے پروردگا ر کی طرف سے اتارا گیاہے ہے۔ اس سے مشرکین کی تردید بھی ہوگئی جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو کاہن اور شاعر کہاکرتے تھے اور یہ بھی کہتے تھے کہ یہ کلام کسی کاہن سے سن کر لے آتے ہیں۔
امام الانبیاء کی نبوت کی حقانیت:
﴿وَ لَوۡ تَقَوَّلَ عَلَیۡنَا بَعۡضَ الۡاَقَاوِیۡلِ ﴿ۙ۴۴﴾ لَاَخَذۡنَا مِنۡہُ بِالۡیَمِیۡنِ ﴿ۙ۴۵﴾ ﴾
یہاں ایک اصول بیان فرمایا جارہا ہے کہ (نعوذباللہ )اگر کوئی شخص نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرے اور پھر اللہ تعالیٰ کی طرف کسی ایسی بات کو منسوب کرے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو دنیا میں ذلیل ورسوا کردیتے ہیں۔ اگربفرض محال نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا دعوائے نبوت غلط ہوتا تو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی یہی معاملہ کیاجاتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کریم کی طرف سے برحق نبی ہیں۔
سورۃ المعارج
معارج کے معانی چڑھنے کے راستہ کے ہیں۔ یہ تیسری آیت میں موجود ہے۔ اسی وجہ سے اس سورۃ کا نام معارج رکھا گیاہے۔
اللہ تعالیٰ سے عذاب نہیں مانگنا چاہیے:
﴿سَاَلَ سَآئِلٌۢ بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ ۙ﴿۱﴾ لِّلۡکٰفِرِیۡنَ لَیۡسَ لَہٗ دَافِعٌ ۙ﴿۲﴾ مِّنَ اللہِ ذِی الۡمَعَارِجِ ؕ﴿۳﴾ ﴾
ان آیات میں نضر بن حارث کی حماقت کوبیان کیاجارہاہے۔ اس نے قرآن کریم کوجھٹلایااوراستہزاء کرنےکےلیے کہا کہ اگر یہ قرآن کریم اور دین اسلام جو محمد(صلی اللہ علیہ وسلم )لائے ہیں برحق اور سچے ہوں تو اللہ تعالیٰ ہم پر آسمان سے عذاب نازل کردے۔ اس کا مقصد استہزاء کرناتھا۔ اسے جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ بہت سخت ہے، اگر اللہ تعالیٰ نے عذاب نازل کردیا تو پھر اس عذاب کوروکنے والا کوئی نہیں ہوگا۔
قیامت کی ہولناکی:
﴿یَوۡمَ تَکُوۡنُ السَّمَآءُ کَالۡمُہۡلِ ۙ﴿۸﴾ وَ تَکُوۡنُ الۡجِبَالُ کَالۡعِہۡنِ ۙ﴿۹﴾﴾
قیامت کے دن آسمان سیاہ ہوں گے اور پہاڑ روئی کی طرح بکھر جائیں گے۔ دوست ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوتے بھی ایک دوسرے کے کچھ بھی کام نہیں آئیں گے۔ اس وقت مجرمین چاہیں گے کہ کسی بھی طرح مال وفدیہ دے کر ہم چھوٹ جائیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں " کَلَّا " ایسا ہر گز نہیں ہوگا۔
اہل جنت کے صفات:
﴿ اِلَّا الۡمُصَلِّیۡنَ ﴿ۙ۲۲﴾ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَلٰی صَلَاتِہِمۡ دَآئِمُوۡنَ ﴿۪ۙ۲۳﴾﴾
گزشتہ آیات میں قیامت کی ہولناکی کا بیان تھا۔ یہاں اہل جنت کی صفات کو بیان کرکے آخر میں فرمایا کہ یہ لوگ باغات میں عزت کے ساتھ رہیں گے۔
سورۃ النوح
اس سورۃ میں حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر موجود ہے۔ اسی مناسبت سے اس سورۃ کانام حضرت نوح علیہ السلام کے نام پر رکھ دیا ہے۔
حضرت نوح علیہ السلام کی رسالت اور قوم کو دعوت:
﴿اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَا نُوۡحًا اِلٰی قَوۡمِہٖۤ اَنۡ اَنۡذِرۡ قَوۡمَکَ ﴿۱﴾ ﴾
حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم کو 950 پچاس سال تک مسلسل اللہ تعالیٰ کی توحید کی طرف دیتے رہے۔ لیکن چند ایک افراد کے علاوہ باقی قوم حضرت نوح علیہ السلام پر ایمان نہ لائی۔ چار بتوں وُد، سُواع،یغوث اور یعوق کی پوجاکرتی رہی۔ بالآخر حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی کہ اے میرے پروردگار ان کفار میں سے کسی کو بھی روئے زمین پر باقی نہ رکھ۔ دعا قبول ہوئی اور عذاب آیا جس سے تمام کفار غرق ہوگئے۔
سورۃ الجن
کچھ جنات نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زبان سے قرآن سناتھا۔ اس سورۃ میں ان کا ذکر ہے اس لیے اس سورۃکانام بھی جن رکھ دیا گیا ہے۔
جنات کے قرآن کریم سننے کا واقعہ:
﴿قُلۡ اُوۡحِیَ اِلَیَّ اَنَّہُ اسۡتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الۡجِنِّ فَقَالُوۡۤا اِنَّا سَمِعۡنَا قُرۡاٰنًا عَجَبًا ۙ﴿۱﴾﴾
جنات وشیاطین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل آسمان کی طرف جا کر وہاں سے کچھ باتیں سن آتے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہو گئی تو جنات کو اوپر جاتے وقت شہاب ثاقب پڑتے۔ انہوں نے اپنی کچھ جماعتیں تشکیل دیں تاکہ معلوم کریں کہ ایسا کیوں ہورہا ہے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم طائف سے واپس تشریف لاتے ہوئے مقام نخلہ پر فجر کی نماز میں تلا وت فرمارہے تھے تو جنوں کی ایک جماعت وہاں سے گزر ی۔ وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زبان سے قرآن کریم سن کر ایمان لے آئے۔ پھر اپنی قوم میں جا کر تبلیغ کی تو جنات کے کئی وفود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تشریف لاکر اسلام لائے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم صرف انسانوں کے نبی نہیں بلکہ جنات اور تمام مخلوق کے بھی نبی ہیں۔
علم غیب اللہ تعالیٰ کی ذات کا خاصہ ہے:
﴿عٰلِمُ الۡغَیۡبِ فَلَا یُظۡہِرُ عَلٰی غَیۡبِہٖۤ اَحَدًا ﴿ۙ۲۶﴾ ﴾
علم غیب اللہ تعالیٰ کی ایک خاص صفت ہے جس میں کوئی اور شریک نہیں۔ البتہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں میں سے جسے غیب کی خبروں کےلیے پسند کرتاہے تو اسے بھی غیب کی خبروں پر مطلع کردیتاہے۔
سورۃ المزمل
مزمل کا معنی ہے چادر میں لپٹنے والا۔ چونکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی آئی تو آپ چادر میں لپٹ گئے۔ اس لیے اس سورۃ کانام "مزمل"ہے۔
نبی پاک کو مزمل کہنے کی وجہ:
﴿یٰۤاَیُّہَا الۡمُزَّمِّلُ ۙ﴿۱﴾ ﴾
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی اتری اور آپ کے کاندھوں پر نبوت کی عظیم ذمہ داری ڈالی جارہی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سردی لگنے لگی۔ آپ اپنی اہلیہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے اور فرمایامجھے چادر لپیٹ دو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایااے چادر میں لپٹنے والے!
تہجد کی فرضیت:
﴿قُمِ الَّیۡلَ اِلَّا قَلِیۡلًا ۙ﴿۲﴾ نِّصۡفَہٗۤ اَوِ انۡقُصۡ مِنۡہُ قَلِیۡلًا ۙ﴿۳﴾﴾
شروع شروع میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب پر تہجد کی نماز فرض قرار دی گئی تھی کہ رات کے تہائی حصے میں نماز تہجد ادا کریں۔ تہجد پڑھنے کے بہت فوائد ہیں: رات کے وقت بالکل سناٹا ہوتا ہے، مخلوق کواپنے خالق سے رازونیاز کا صحیح موقع مل جاتاہے۔ رات کے آخری حصہ میں اللہ تعالیٰ دعا کو قبول فرمالیتے ہیں۔
تہجد کی فرضیت منسوخ ہے:
﴿اِنَّ رَبَّکَ یَعۡلَمُ اَنَّکَ تَقُوۡمُ اَدۡنٰی مِنۡ ثُلُثَیِ الَّیۡلِ وَ نِصۡفَہٗ وَ ثُلُثَہٗ وَ طَآئِفَۃٌ مِّنَ الَّذِیۡنَ مَعَکَ ﴿٪۲۰﴾﴾
تقریباً ایک سال بعد اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آسانی کےلیے تہجد کی فرضیت کو منسوخ قرار دے دیا۔ اس آیت کے آخر میں چار چیزوں کا حکم دیا گیا: نماز کی پابندی کرنا،زکوۃ ادا کرنا،صدقہ دینا اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنا۔
سورۃ المدثر
مدثر کا وہی معنی ہے جو مزمل کا تھا یعنی چادر میں لپٹنے والے۔
فرائض خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم:
﴿یٰۤاَیُّہَا الۡمُدَّثِّرُ ۙ﴿۱﴾ قُمۡ فَاَنۡذِرۡ ۪ۙ﴿۲﴾ وَ رَبَّکَ فَکَبِّرۡ﴿ۙ۳﴾ وَ ثِیَابَکَ فَطَہِّرۡ ۪﴿ۙ۴﴾﴾
اللہ تعالیٰ نے محبت کا اظہار کرکے فرمایا اےچادر میں لپٹنے والے!اٹھیے اور لوگوں کو ڈرائیے۔ اپنے پروردگاکی تکبیر کہیے۔ اپنے کپڑوں کو پاک رکھیے۔ گندگی سے کنارہ کیجیے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی دو مشہور صفتیں نذیر اور بشیر ہیں، یہاں صرف نذیر کا ذکر کیااس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بالکل ابتدائی زمانہ تھا مسلمان تعداد میں کم تھے جبکہ کفار بہت زیادہ تھےاس لیے صرف صفت نذیر کا ذکر کیا۔ یہاں گندگی سے مراد بتوں کی گندگی ہے کہ ان سے اپنے آپ کو بچائیے۔
کفار کی آزمائش:
﴿عَلَیۡہَا تِسۡعَۃَ عَشَرَ ﴿ؕ۳۰﴾ وَ مَا جَعَلۡنَاۤ اَصۡحٰبَ النَّارِ اِلَّا مَلٰٓئِکَۃً ۪ وَّ مَا جَعَلۡنَا عِدَّتَہُمۡ اِلَّا فِتۡنَۃً لِّلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا﴿٪۳۱﴾﴾
جہنم کے نگران فرشتوں کی تعداد انیس بتائی۔ اس تعداد کے بتانے میں کفار کا امتحان ہے کہ وہ اس کو مانتے ہیں یا اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ بجائے ماننے کے ان میں سے ایک نے کہا سترہ سے تو میں نمٹ لوں گا باقی دو کو تم سنبھال لینا۔ انہیں جواب دیا گیا یہ فرشتے ہیں جن کا تم مقابلہ نہیں کر سکو گے۔
جہنم میں جانے کی وجہ:
﴿مَا سَلَکَکُمۡ فِیۡ سَقَرَ ﴿۴۲﴾ قَالُوۡا لَمۡ نَکُ مِنَ الۡمُصَلِّیۡنَ ﴿ۙ۴۳﴾ ﴾
جب اہل جنت، جنت میں چلے جائیں گے تو مجرمین اہل جہنم سے پوچھیں گے کہ تمہیں کس چیز نے جہنم میں داخل کردیاہے؟تو وہ کہیں گے ہم نماز نہیں پڑھتے تھے، مسکین کو جس کا حق واجب تھا کھانا نہیں کھلاتے تھے، بے ہودہ مجلس میں دین کو باطل کرنے لیے جایا کرتے تھے اورقیامت کو جھٹلاتے تھے۔
سورۃ القیامہ
سورۃ کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کی قسم کھائی ہے۔ اسی وجہ سے اس سورۃ کا نام "قیامہ "رکھ دیا گیا ہے۔
بعث بعد الموت:
﴿لَاۤ اُقۡسِمُ بِیَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ۙ﴿۱﴾ وَ لَاۤ اُقۡسِمُ بِالنَّفۡسِ اللَّوَّامَۃِ ؕ﴿۲﴾ ﴾
یہاں اللہ تعالیٰ نے دوچیزوں قیامت اور نفس لوامہ کی قسم کھا کر فرمایا کہ ہم انسان کو دوبارہ لازمی زندہ کریں گے۔ انسان کا یہ سمجھ لینا کہ ہم اس کی ہڈیوں کو زندہ نہیں کرسکیں گے یہ اس کی غلط فہمی ہے۔ ہڈیوں کو جمع کرنا توآسان ہے بنسبت انگلیوں کے پوروں کوجمع کرنے کے۔ ہم تو پوروں کو جمع کرنے پر بھی قادر ہیں۔ نفس لوامہ انسان کی طبیعت میں ایک ایسے مادہ کو کہتے ہیں جو انسان کوبرائی پر ملامت کرتا رہتاہے۔
حفاظتِ قرآن:
﴿لَا تُحَرِّکۡ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعۡجَلَ بِہٖ ﴿ؕ۱۶﴾اِنَّ عَلَیۡنَا جَمۡعَہٗ وَ قُرۡاٰنَہٗ﴿ۚ۱۷﴾ ﴾
قرآن کریم کے الفاظ ومعانی محفوظ ہیں اور محفوظ رہیں گے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جبرائیل علیہ السلام کے پڑھنے کے ساتھ ساتھ جلدی جلدی پڑھنے لگ جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ میرے نبی! قرآن کو یاد کرنے کےلیے جلدی جلدی اپنی زبان مبارک کو نہ ہلایا کریں۔ اس کو پڑھوانااور یاد کروانا ہماری ذمہ داری ہے۔
پھر اگلی آیات میں اہل جنت کا تذکرہ فرمایا کہ قیامت کے دن ان کے چہرے تروتازہ ہوں گے اور وہ اپنے رب کا دیدار بھی کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی دیدار کرنے والوں میں شامل فرمادیں۔
انسانی تخلیق کے مراحل:
﴿اَلَمۡ یَکُ نُطۡفَۃً مِّنۡ مَّنِیٍّ یُّمۡنٰی ﴿ۙ۳۷﴾﴾
یہاں اللہ تعالیٰ انسانی تخلیق کے مراحل بیان فرمارہے ہیں۔ انسان کو ان پر غور کرنا چاہیے اور اپنی اوقات کو نہیں بھولنا چاہیے۔ انسان کی ایک ناپاک قطرے سے تخلیق ہوئی ہے تو پھر اکڑ کس بات کی؟
سورۃ الدہر
دہر زمانے کو کہتے ہیں۔ پہلی آیت میں یہ لفظ موجود ہے۔ اسی مناسبت سے اس سورۃ کانام "دہر" رکھ دیا گیا ہے۔
انسانی تخلیق کا مقصد:
﴿ہَلۡ اَتٰی عَلَی الۡاِنۡسَانِ حِیۡنٌ مِّنَ الدَّہۡرِ لَمۡ یَکُنۡ شَیۡئًا مَّذۡکُوۡرًا ﴿۱﴾ اِنَّا خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ اَمۡشَاجٍ ٭ۖ نَّبۡتَلِیۡہِ ﴿۲﴾ ﴾
انسان کی حیثیت اتنی ہے کہ ایک وقت میں وہ قابل ذکر ہی نہیں تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ہی اسے قابل ذکر بنایا یعنی پیداکیا۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے سننے کےلیے کان، دیکھنے کےلیے آنکھیں دیں اور راستہ دکھایا۔ انسان کی تخلیق کا مقصد یہ ہے کہ ہم اسے آزمانا چاہتے ہیں کہ ہمارا شکر گزار بنتا ہے یا ناشکری کرتاہے۔ پھر آگے اللہ تعالیٰ نے اہل جنت کےلیے جنت کی نعمتوں کا ذکر کیا ہے۔
قرآن کریم نصیحت ہے:
﴿اِنَّ ہٰذِہٖ تَذۡکِرَۃٌ ۚ فَمَنۡ شَآءَ اتَّخَذَ اِلٰی رَبِّہٖ سَبِیۡلًا ﴿۲۹﴾ ﴾
قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ نے نصیحت بنایا ہے۔ لیکن اس سے فائدہ اور ہدایت ان کوملے گی جنہیں اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ اس کامطلب یہ ہے کہ انسان کوشش کرے، محنت کرے اور ارادہ کرے تو پھر اللہ تعالیٰ اس کو ہدایت دیتے ہیں۔ ایک بندہ ارادہ بھی نہیں کرتا تو ایسا شخص قرآن کریم سے استفادہ نہیں کرسکتا۔
سورۃ المرسلات
مرسلات کا معنی ہے ہواؤں کا چلنا۔ سورۃ کے شروع میں ہی اللہ تعالیٰ نے ہواؤں کے چلنے کی قسم کھائی ہے۔ اسی وجہ سے اس کانام بھی "مرسلات" ہے۔
ہواؤں اور فرشتوں کی قسمیں:
﴿وَ الۡمُرۡسَلٰتِ عُرۡفًا ۙ﴿۱﴾ فَالۡعٰصِفٰتِ عَصۡفًا ۙ﴿۲﴾وَّ النّٰشِرٰتِ نَشۡرًا ۙ﴿۳﴾ ﴾
یہاں اللہ رب تعالیٰ نے پانچ قسمیں کھائی ہیں۔ قسم ہے ان ہواؤ ں کی جو مسلسل چلائی جاتی ہیں، قسم ہے ان ہواؤ ں کی جو آندھیوں کی طرح چلتی ہیں، قسم ہے ان ہواؤ ں کی جو بادلوں کو اڑا کر منتشر کر دیتی ہیں اور بعد میں بادل ختم ہو جاتے ہیں۔ قسم ہے ان فرشتوں کی جو وحی لا کر حق اور باطل کو الگ کر دیتے ہیں، قسم ہے ان فرشتوں کی جو وحی کے ذریعے ذکر یعنی نصیحت لاتے ہیں۔ یا تو اس وجہ سے کہ بندہ ڈر جائے اور توبہ کر لے اور یا اس وجہ سے کہ اگر توبہ نہیں کرتا تو اس کو ڈرائیں کہ تم جہنم میں جاؤ گے۔
قرآنی اسلوب کے مطابق جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کی قسمیں کھاتے ہیں تویہ دلیل ہوتی ہیں بعد میں مذکور چیز پر اور یہاں وہ قیامت کے دن کا وقوع ہے۔ مطلب یہ ہے کہ قیامت کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے تو وہ ضرور واقع ہوگی۔
مقین کے انعامات:
﴿اِنَّ الۡمُتَّقِیۡنَ فِیۡ ظِلٰلٍ وَّ عُیُوۡنٍ ﴿ۙ۴۱﴾﴾
سورۃ کے شروع میں وقوع قیامت کا ذکر تھا۔ پھر درمیان میں اہل جہنم کے انجام کا ذکر تھا کہ ان کی جہنم کی آگ کے بڑے بڑے شعلے ہوں گے جس طر ح محل ہوتے ہیں۔ اب یہاں سےان کے مقابلے میں متقین کا انجام اور ان کےلیے جنت کی نعمتوں کا ذکرہے۔ متقین کےلیے سائے، چشمےاورمیوے ہوں گے۔ ان سے کہا جائے گا دنیامیں جو اعمال کیے تھے یہ ان کا بدلہ ہے اب مزے سے کھاؤ اور پیو۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ