پارہ نمبر:30

User Rating: 2 / 5

Star ActiveStar ActiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
پارہ نمبر:30
سورۃ النبا
نبأ خبر کوکہتے ہیں۔ یہ لفظ دوسری آیت میں موجود ہے۔ اسی مناسبت سے اس کانام " نبأ "ہے۔
منکرین قیامت کا ذکر:
﴿عَمَّ یَتَسَآءَلُوۡنَ ۚ﴿۱﴾ عَنِ النَّبَاِ الۡعَظِیۡمِ ۙ﴿۲﴾ ﴾
یہاں منکرین قیامت کی باتوں کا تذکر ہ ہورہا ہے۔ "نباء عظیم "سے مراد قیامت ہے۔ کفار بطور مذاق قیامت کے متعلق فضول قسم کے سوالات کرتے تھے اس سے ان کا مقصد آخرت کو ماننا نہیں تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آنے والی آیات میں کائنات میں پھیلی ہوئی بے شمار نعمتوں کا ذکر کیا جن نعمتوں کو یہ کفار بھی تسلیم کرتے تھے گویا اللہ تعالیٰ کی قدرت کو مانتے تھے لیکن قیامت کو نہیں مانتے تھے۔ یہاں انہیں سمجھایا جارہا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ دیگر نعمتوں کو بنانے پر قادر ہے اسی طرح مرنے کے بعد انسانوں کو دوبارہ اٹھانے پر بھی قادر ہے۔
متقین کا انجام:
﴿اِنَّ لِلۡمُتَّقِیۡنَ مَفَازًا ﴿ۙ۳۱﴾ حَدَآئِقَ وَ اَعۡنَابًا ﴿ۙ۳۲﴾ وَّکَوَاعِبَ اَتۡرَابًا ﴿ۙ۳۳﴾ ﴾
گزشتہ آیات میں منکرین قیامت اور آخرت کے حالات اور عذاب کاذکر تھا۔ اب یہاں ان کے مقابلے میں ماننے والے متقین کےلیے جنت کی نعمتوں کا ذکر ہے۔ متقین کےلیے اس دن جیت ہوگی،باغات، انگور اور ہم عمر نوخیز بیویاں ہوں گی۔
آخرت کی منظر کشی:
یَوۡمَ یَقُوۡمُ الرُّوۡحُ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ صَفًّا ؕ٭ۙ لَّا یَتَکَلَّمُوۡنَ اِلَّا مَنۡ اَذِنَ لَہُ الرَّحۡمٰنُ وَ قَالَ صَوَابًا ﴿۳۸﴾
یہاں سے قیامت کے دن کی منظر کشی کی جارہی ہے کہ آخرت میں کوئی انسان یا فرشتہ کسی کی سفارش کرنے کےلیے اللہ تعالیٰ کے سامنے بات نہیں کرسکے گا ہاں جس کو اللہ تعالیٰ اجازت دیں گے وہ بھی صرف درست بات کرےگا۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جانوروں کو بھی میدان میں جمع کرکے ظالم جانور سے مظلوم جانور کا بدلہ دلواکر انہیں مٹی کردیں گے۔ اس وقت کفار عذاب کامنظر دیکھ کر تمنا کریں گے کہ کاش ہم بھی مٹی ہوجائیں۔
سورۃ النازعات
نازعات کا معنی کھینچنے کا ہے۔ یہ لفظ اس سورۃ کی پہلی آیت میں موجود ہے۔ اسی مناسبت سے اس کانام "نازعات "ہے۔
فرشتوں کی قسمیں:
﴿وَ النّٰزِعٰتِ غَرۡقًا ۙ﴿۱﴾ وَّ النّٰشِطٰتِ نَشۡطًا ۙ﴿۲﴾وَّ السّٰبِحٰتِ سَبۡحًا ۙ﴿۳﴾﴾
یہاں فرشتوں کی قسمیں کھائی ہیں کہ قسم ہے ان فرشتوں کی جو کافروں کی روحوں کو سختی سے کھینچتے ہیں،مؤمنوں کی روحوں کو نرمی سے نکالتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان روحوں کےلیےجو انہیں حکم ملتا ہے اس کا انتظام کردیتے ہیں۔ یہ قسمیں کھاکر اللہ تعالیٰ بتانا چاہتے ہیں کہ انہی فرشتوں کے ذریعے ہم صور پھنکوا کر انہی انسانوں کو دوبارہ زندہ کردیں گے۔ ہمارے لیے یہ کام کوئی مشکل نہیں ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ:
﴿ہَلۡ اَتٰىکَ حَدِیۡثُ مُوۡسٰی ﴿ۘ۱۵﴾ اِذۡ نَادٰىہُ رَبُّہٗ بِالۡوَادِ الۡمُقَدَّسِ طُوًی ﴿ۚ۱۶﴾﴾
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے نبوت عطاکرکے فرمایا کہ فرعون کے پاس جائیے وہ سر کش ہوچکاہے۔ فرعون نشانیاں دیکھ کر نہ مانا بلکہ مقابلے پر اتر آیا اور اپنے بارے میں کہا کہ میں تمہارا اعلی درجے کا پروردگار ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں غرق ہونے کی صورت میں عذاب دیا اور آخرت میں جہنم کی آگ ہوگی۔
پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی عظیم نشانیاں آسمان، زمین، رات،دن اور پہاڑوں کا ذکر فرماکر آخرت کی منظر کشی کی ہے۔ کفار باربار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے تھے کہ کب آئے گی؟یہاں انہیں جواب دیا کہ قیامت کا علم تو صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ کفار جب آخرت میں پہنچ جائیں گے تو انہیں عالم دنیا یا عالم برزخ کا زمانہ ایک شام یا ایک صبح جتنا معلوم ہوگا۔
سورۃ عبس
عبس کا معنی ہے نا خوش ہونا۔ یہ لفظ پہلی آیت میں موجود ہے اس لیے اس سورۃ کانام "عبس"ہے۔
﴿عَبَسَ وَ تَوَلّٰۤی ۙ﴿۱﴾ اَنۡ جَآءَہُ الۡاَعۡمٰی ؕ﴿۲﴾ وَ مَا یُدۡرِیۡکَ لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰۤیۙ﴿۳﴾﴾
ایک مرتبہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم قریش کے بڑے بڑے سرداروں کو تبلیغ کرنے میں مصروف تھے۔ حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے جو کہ نابینا تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سیکھنے کی درخواست کی۔ نابینا ہونے کی وجہ سے انہیں معلوم نہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس کام میں مصروف ہیں۔ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پسند نہ آئی۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طرز اللہ تعالیٰ کو پسند نہ آیا، جب کفار چلے گئے تواس وقت یہ سورۃ نازل ہوئی۔ اس واقعے سے ہمیں یہ تعلیم ملتی ہے کہ جو سچا، مخلص، طالب اور اپنا ہو اس کو وقت دینا اور اس کی طلب کو پورا کرنا؛ یہ اس کا حق ہے۔
قیامت کی منظر کشی:
﴿فَاِذَا جَآءَتِ الصَّآخَّۃُ ﴿۫۳۳﴾ یَوۡمَ یَفِرُّ الۡمَرۡءُ مِنۡ اَخِیۡہِ ﴿ۙ۳۴﴾ ﴾
گزشتہ آیات میں کائنات میں انسانوں کے فائدے کے لیے بے شمار نعمتوں کا ذکر تھا۔ اب یہاں سے آخرت کی منظر کشی کی جارہی ہے کہ جب کان پھاڑنے والی آواز(صور) آجائے گی۔ اس سے مراد فیصلے کا دن ہے اور وہ دن اتنا سخت ہوگا کہ کوئی کسی کانہیں ہوگا حتیٰ کہ آدمی اپنے بھائی سے بھاگے گا، ماں باپ سے، بیوی بچوں سے بھاگے گا۔ ایک ایک نیکی مانگتے پھریں گے لیکن کوئی کسی کو ایک نیکی دینے کےلیے تیار نہ ہوگا۔ اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ موت سے پہلے سچی توبہ کرکے اپنے رب کو راضی کرلیں اورآخرت کےلیے نیکیاں جمع کرلیں تاکہ وہاں کسی سے مانگنی نہ پڑیں۔
سورۃالتکویر
تکویر کا معنی ہے لپیٹنا۔ جب قیامت ہوگی تو سورج کو لپیٹ دیاجائے گا۔ اسی مناسبت سے اس کا نام "تکویر"ہے۔
قیامت کے حالات وواقعات:
اِذَا الشَّمۡسُ کُوِّرَتۡ ۪ۙ﴿۱﴾ وَ اِذَا النُّجُوۡمُ انۡکَدَرَتۡ ۪ۙ﴿۲﴾
سورۃ کے شروع سے لے کر آیت نمبر 14تک قیامت کا منظر پیش کیا گیا ہے۔ سورج کو لپیٹ کر بے نور کردیا جائے گا۔ ستارے ٹوٹ جائیں گے۔ پہاڑ چلادئیے جائیں گے۔ ایسا ہولناک منظر ہوگاکہ دس ماہ کی گابھن اونٹنی کی بھی کوئی پرواہ نہیں کرے گا۔ عرب کے ہاں ایسی اونٹنی بہت قیمتی ہوتی تھی، لیکن اس وقت یہ بے کار چھوڑ دی جائے گی۔ سارے جانور خوف کے مارے اکٹھے ہوجائیں گے۔ زندہ درگور کی ہوئی بچی کو لایا جائے گا اور اس سے پوچھا جائے گا کہ تجھے کس جرم میں مٹی میں دبایا گیا تھا۔ اس سے مقصود مجرمین کو سزا دینا ہوگا۔
پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام کا ذکر فرمایاجو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قرآن کریم کی وحی لایا کرتے تھے۔ آگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا کہ انہیں جو غیب کی باتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بتائی جاتی ہیں وہ کاہنوں کی طرح اس کے بتانے میں نہ تو بخل سے کام لیتے ہیں اور نہ ان کے بتانے پر پیسے لیتے ہیں۔ قرآن کریم تو ہے ہی لوگوں کےلیے نصیحت لیکن اس سے فائدہ وہ اٹھاتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں۔
سورۃ الانفطار
اس سورۃ کے شروع میں بھی اللہ تعالیٰ نے آخرت کی منظر کشی کی ہے۔ مکی سورتوں میں جا بجا عقیدہ آخرت کو دلائل سے مختلف پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ انسان نے جو اعمال دنیا میں کرکے آگےبھیجے تھے وہ انہیں بھی جان لے گا اور دنیا میں جو اعمال کرناچاہیے تھے لیکن نہ کرسکا، ان کا بھی علم ہوجائےگا۔
پھر اللہ تعالیٰ نےکراماً کاتبین کا ذکر فرمایا۔ ان کی ذمہ داری یہ ہے کہ انسان دنیا میں جو بھی اعمال کرے برے یااچھے وہ انہیں اس کے نامہ اعمال میں لکھ دیں تا کہ قیامت کے دن ہر انسان اپنے نامہ اعمال کو خود دیکھ اور پڑھ لے۔ پھر اس کے متعلق فیصلہ جنت یا جہنم کا فیصلہ کیا جائے۔ اس سے ہمیں یہ سبق مل رہا ہے کہ دنیا میں رہتے ہوئے اپنے اقوال، افعال اور اعمال کو تول تول کر کرنا چاہیے کیوں کہ ہمارا ہر قول وفعل لکھا اور محفوظ کیا جارہاہے۔
سورۃ المطففین
مطففین کامعنی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والے۔ پہلی آیت میں یہ لفظ موجود ہے۔ اسی مناسبت سے اس سورۃ کانام "مطففین"ہے۔
حقوق العباد کی اہمیت:
﴿وَیۡلٌ لِّلۡمُطَفِّفِیۡنَ ۙ﴿۱﴾ الَّذِیۡنَ اِذَا اکۡتَالُوۡا عَلَی النَّاسِ یَسۡتَوۡفُوۡنَ ۫﴿ۖ۲﴾﴾
سورۃ کی ابتدائی آیات میں ان لوگوں کےلیے ہلاکت کی سخت وعید سنائی گئی ہے جو دوسرے سے اپنا حق لیتے وقت پوراپورا وصول کرتے ہیں مگرانہیں ان کا حق دیتے وقت کمی بیشی کرکے دیتے ہیں۔ کل قیامت کے دن ؛ جہاں سب لوگ کھڑے ہوں گے؛ یہ اپنے پروردگار کو کیا منہ دکھائیں گے؟ اس سے ہمیں یہ سبق مل رہا ہے کہ حقوق العباد کی اچھے طریقے سے ادائیگی کرنی چاہیے اور آخرت کےلیے اچھی تیاری کرنی چاہیے۔
سجین اور علیین:
﴿کَلَّاۤ اِنَّ کِتٰبَ الۡفُجَّارِ لَفِیۡ سِجِّیۡنٍ ؕ﴿۷﴾ ﴾
یہاں کئی آیات میں کفار وفجار اور ابرار ونیک لوگوں کا تذکرہ ہورہاہے۔ کفار وفجار کی جب روح نکلتی ہے تو اس کا ٹھکانہ سجین یعنی نیچے کا قید خانہ ہے۔ جب ابرار لوگوں کی روح نکلتی ہے تو اس کا ٹھکانہ علیین یعنی اوپر کے بالاخانے ہیں۔ اسی طرح کفار کا نامہ اعمال ان کی روحوں کی طرح سجین میں ہوتاہے جبکہ ابرار کا نامہ اعمال ان کی روحوں کی طرح علیین میں ہوتاہے۔ پھر آگے ابرار لوگوں کےلیے جنت کی نعمتوں کاذکر ہورہاہے۔
سورۃ الانشقاق
اِذَا السَّمَآءُ انۡشَقَّتۡ ۙ﴿۱﴾ وَ اَذِنَتۡ لِرَبِّہَا وَ حُقَّتۡ ۙ﴿۲﴾
اس سورۃ کے شروع میں بھی دیگر سورتوں کی طرح قیامت کے حالات وواقعات بیان کیے گئے ہیں۔ زمین میں انسان یا انسان کے علاوہ جو کچھ ہے وہ اسے باہر نکال دے گی۔ اس وقت ہر انسان کو اپنا انجام معلوم ہوجائے گا۔
آگے اللہ تعالیٰ نے فریقین کے حالات کو بیان فرمایا کہ مؤمن کا حساب کتاب کا معاملہ آسان ہوگا اور اسے نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں ملے گا تو وہ خوش خوش اپنے گھر والوں کی طرف لوٹے گا۔ جبکہ وہ لوگ جنہیں ان کا نامہ اعمال بائیں ہاتھ میں پیچھے سے دیاجائے گا وہ اس وقت ناکامی کو دیکھ کر پھر موت کو پکاریں گے۔
سورۃ کے آخر میں دونوں کا نتیجہ بیان فرمایا کہ کفار کےلیے درد ناک عذاب ہوگااور ایمان والوں کےلیے ایسا ثواب ہوگا جو ختم ہونے والا نہیں ہوگا۔
سورۃ البروج
خندق والوں کا واقعہ:
﴿وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الۡبُرُوۡجِ ۙ﴿۱﴾ وَ الۡیَوۡمِ الۡمَوۡعُوۡدِ ۙ﴿۲﴾وَ شَاہِدٍ وَّ مَشۡہُوۡدٍ ؕ﴿۳﴾ قُتِلَ اَصۡحٰبُ الۡاُخۡدُوۡدِ ۙ﴿۴﴾ ﴾
سورۃ کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے قسمیں کھاکر اصحاب اخدود کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ یوم الموعود سے مراد قیامت کا دن ہے۔ ایک تفسیر کے مطابق شاہد سے مراد جمعہ کا دن ہےاور مشہود سے مراد عرفہ کا دن ہے۔ ایک تفسیر میں شاہد سے مراد انسان ہے اور مشہود سے مراد قیامت ہے۔
آگے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مار ہے ان خندق کھودنے والوں پر۔ اس میں اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارکہ سے 70سال پہلے پیش آیاتھا۔ ایک کافر بادشاہ تھاجوا یک مسلمان لڑکے کو مارنا چاہتا تھا لیکن وہ لڑکا ان کےلیے آزمائش بنا ہوا تھا۔ پھر اس لڑکے نے خود ہی بادشاہ کو تدبیر بتائی کہ میری موت کس طرح واقع ہو سکتی ہے۔ بادشاہ نے ویسے ہی کیا تو کافی سارے اور لوگ ایمان لے آئے۔ بادشاہ کو غصہ آیا، اس نے کہا جو دینِ حق قبول کرچکے ہیں ان کو خندقوں میں آگ دہکا کر جلادو۔ پھر آگے اہل ایمان کی کامیابی کو بیان کیا کہ وہ باغات میں ہوں گے۔
سورۃ الطارق
﴿وَ السَّمَآءِ وَ الطَّارِقِ ۙ﴿۱﴾ وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا الطَّارِقُ ۙ﴿۲﴾ النَّجۡمُ الثَّاقِبُ ۙ﴿۳﴾﴾
قسم ہے آسمان کی اور طارق کی۔ طارق کامعنی ہے جو رات کو آئے۔ فرمایا کہ آپ کو پتا ہے کہ طارق کیا ہے؟ وہ ستارہ ہے جو بالکل روشن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قسمیں کھا کر بتا یا کہ انسان پر ایک نگران فرشتہ مقرر ہے جو اس کے اعمال کو لکھتا رہتاہےیا اس کی حفاظت کرتا رہتاہے۔
بعث بعد الموت کا اثبات:
﴿فَلۡیَنۡظُرِ الۡاِنۡسَانُ مِمَّ خُلِقَ ؕ﴿۵﴾﴾
یہاں انسان کی تخلیق کو بیان کرکے منکر ین بعث بعد الموت کو سمجھایا جا رہا ہے؛ جنہیں شک تھا کہ انسان دوبارہ کیسے بنے گا؟ ہڈیوں میں جان کیسے آئے گی؟ گوشت کیسے چڑھے گا؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تم نے دیکھا ہے کہ پانی کے نطفے سے اللہ تعالیٰ انسان کو بناتا ہے تو بنے ہوئے انسان کو دوبارہ بنانا کیا مشکل ہے۔
سورۃ الاعلیٰ
اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو ایک خاص اندازے سے پیدا فرمایا ہے۔ مخلوقات میں انسانوں کو خاص طور پر چاہیے کہ وہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کے نام کی تسبیح بیان کریں۔
آگے قرآن کریم کی حقانیت اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر فرمایاکہ ہم آپ کو پڑھائیں گے اور آپ بھولیں گے نہیں؛ لہذا جلدی نہ کریں۔ ہاں جس چیز کو منسوخ کرنا ہوگااسے اللہ تعالیٰ بھلادیں گے۔ جس شخص نے اپنا تزکیہ کیا اور اللہ تعالیٰ کے نام کا ذکر کیا تو ایسا شخص کامیاب ہے۔
سورۃ الغاشیہ
غاشیہ کا معنی ہے چھا جانا، مراد اس سے قیامت ہے۔ اس سورۃ کے شروع میں قیامت کا تذکرہ کیا۔ پھر مجرمین کا کہ ان کے چہرے اترے ہوئے ہوں گے اور انہیں جہنم کی دہکتی ہوئی آگ میں داخل کیا جائے گا۔ پھر متقین اہل جنت کا تذکرہ کیا کہ وہ جنت کے انعامات سے مستفید ہوں گے۔ جنت میں بہتے ہوئے چشمے ہوں گے۔ اونچی نشستیں،پیالے قالین اور تکیے ہوں گے۔ پھر مشرکین کو سمجھانے کےلیے چار چیزوں کا تذکرہ کیا: اونٹ، آسمان، زمین اور پہاڑ۔ ان میں غوروفکر کرنے سے معلوم ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک ہے۔ پھر پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا فریضہ ذکر کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام صرف تبلیغ ہے کسی کو زبردستی منوانا نہیں ہے۔
سورۃ الفجر
اس سورۃ کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے قسمیں کھائی ہیں ذوالحجہ کی فجر کی، دس راتوں کی؛ اس سے مراد ذوالحجہ کی پہلی دس راتیں ہیں، جفت اور طاق کی؛ جفت سے مراد10 ذوالحجہ کا دن اور طاق سے مراد 9ذوالحجہ کا دن ہے۔ ان قسموں کا مقصد یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ نیک لوگوں سے اچھائی کا معاملہ فرمائیں گے اور برے لوگوں سے برائی کا معاملہ فرمائیں گے۔
پھر سابقہ اقوام ارم، ثمود، قوم فرعون اور ان کی تباہی کا ذکر کیا ہے۔ سورۃ کے آخر میں مجرمین اور متقین کے انجام کوبیان فرمایاہے کہ مجرمین قیامت کے عذاب کا نظارہ کرنے کے بعد کہیں گے کہ اے کاش ہم نے اس زندگی کےلیے آگے کچھ بھیج دیا ہوتا۔ نفس مطمئنہ سے کہا جائے گا کہ اپنے پروردگار کی طرف آجاتو اللہ تعالیٰ سے راضی وہ تجھ سے راضی اور ان سے کہاجائے گا کہ جنت میں داخل ہوجائیں۔
سورۃ البلد
اللہ تعالیٰ نے شہر مکہ کی قسم کھاکر فرمایا اے میرے پیغمبر! آپ اس شہر میں مقیم ہیں۔ مکہ مکرمہ پہلے بھی مکرم تھا مگر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری اور اقامت کی وجہ سے اس کے شرف میں اور بھی اضافہ ہوگیاہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے۔ دنیا میں ہر انسان کو مشقت کا سامنا ہوگا، راحت کا اصل مکان آخرت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو نیکی اور بدی، دونوں راستے دکھا دیے ہیں، اب اس کی مرضی جس راستے کو چاہے اختیار کر لے۔ آخر میں فریقین(دائیں اور بائیں ہاتھ والوں) کے انجام کو بیان فرمایا ہے۔
سورۃ الشمس
اللہ رب العزت نے گیارہ قسمیں کھا کر یہ مضمون سمجھایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی ذات میں گناہ کا تقاضا بھی رکھا ہے اور گناہ کو کنٹرول کرنے کی طاقت بھی اس کے مزاج میں رکھی ہے۔ وہ شخص کامیاب ہو گیا جس نے اپنے نفس کی اصلاح کر لی اور وہ شخص برباد ہو گیا جس نے اپنے نفس کو تباہ کر دیا یعنی اس کی اصلاح نہ کر سکا۔ پھر آخر میں قوم ثمود کی سرکشی اور ان کے انجام کو ذکر کیاہے۔
سورۃ اللیل
سورۃ کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے قسمیں کھاکر نیکی اور بدی کے نتیجے کو بیان کیا کہ جس شخص نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں مال دیا،تقویٰ اختیار کیااور سب سے اچھی بات کو دل سے مانا تو اللہ تعالیٰ اس کو کامیابی عطا فرما دیں گے اور جس شخص نے بخل کیا اور سب اچھی بات کو جھٹلا دیا تو اللہ تعالیٰ اس کو ناکام فرما دیں گے۔ سورۃ کے آخر میں فرمایا کہ وہ شخص جو اللہ تعالی سے بہت زیادہ ڈرتا ہے، اپنا مال راہ خدا میں خرچ کرتا ہے اور اس سے مقصود صرف اللہ تعالیٰ کی رضا ہے، ایسا شخص جہنم سے بہت دور رہے گا۔ یہ آیات حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔
سورۃ الضحیٰ
اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب سے عشق کی انتہا فرمادی۔ ابولہب کی بیوی ام جمیل نے کہاتھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )کے خدا نے اس کو چھوڑ دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یوں جواب دیا کہ قسم ہے چڑھتے دن کی روشنی کی، اور رات کی جب اس کا اندھیرا چھا جائے کہ میں خدا نے نہ تمہیں چھوڑا ہے اور نہ ہی میں ناراض ہوں۔
آگے مزید اپنے محبوب کو یقین دلانے کے لیے فرمایا کہ کیا ہم نے تمہیں یتیم نہیں پایا تھا پھر تمہیں ٹھکانا دیا،راستہ سے ناواقف پایا تو راستہ دکھایا اور تمہیں نادار پایا تو غنی کردیا۔ پھر نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ یتیم پر سختی نہ فرمانا، سائل کو ڈانٹ ڈپٹ نہ کرنا اور اپنے پروردگار کی نعمتوں کا تذکرہ کرتے رہنا۔
سورۃ الانشراح
اس سورۃ میں شق صدر کے واقعہ کا تذکرہ کیا اور فرمایا کہ ہم اپنے محبوب کا ذکر بلند کردیں گے۔ یہاں ایک اصول بیان فرمایا کہ پہلے تنگی آتی ہے پھر تنگی کے بعد آسانی آتی ہے۔ آخر میں فرمایا کہ جب مصروفیات ختم ہوجائیں تو اپنے رب کی اتنی عبادت کریں کہ آپ تھک جائیں۔ اس سے مراد نفلی عبادات ہیں۔ تودین کا کام کرنے والوں کو چاہیے کہ فرائض اور دینی کاموں سے فارغ ہونے کے بعد ذکرواذکار اور نوافل کا بھی اہتمام فرمائیں، اس سے اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط ہوتاہے۔
سورۃ التین
شروع میں اللہ تعالیٰ نے چار قسمیں کھا کر انسان کی تخلیق بیان فرمائی کہ ہم نے انسان کوبہترین سانچے میں ڈھال کر پیدا فرمایا۔ پھر انسان بڑھاپے کو پہنچ جاتاہے تو اس کی خوبصورتی اور طاقت دونوں ختم ہوجاتی ہیں۔ جوانی میں وہ جو اعمال کرتا تھا اب بڑھاپے میں نہیں کرسکتا تو اللہ تعالیٰ اس کےلیے پنشن جاری فرمادیتے ہیں کہ اسے ان اعمال کا ثواب ملتا رہتا ہے۔ پھر آخر میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیتِ اعلیٰ کا ذکر ہے۔
سورۃ العلق
قرآن کریم کی سب سے پہلی وحی جو غار حرا ءمیں نازل ہوئی وہ اس سورۃ کی پہلی پانچ آیات ہیں۔ اس کی باقی آیتیں بعد میں نازل ہوئی تھیں۔
آگے ابوجہل کی سرکشی اور بدبختی کا ذکر ہے کہ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حرم میں نماز پڑھنے سے منع کیا۔ حالانکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہدایت یافتہ تھے اور تقویٰ کاحکم دیتے تھے۔ ابوجہل کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر وہ ان حرکات سے باز نہ آیا تو ہم اس کی پیشانی کے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹیں گے۔ پھر آخر میں اللہ تعالیٰ نے محبت کے انداز میں فرمایا میرے محبوب سجدہ کیجئے اور میرے قریب ہوجایئے۔ معلوم ہوا کہ سجدہ سے اللہ تعالیٰ کا قرب نصیب ہوتاہے۔
سورۃ القدر
اس سورۃ میں یہ ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک ایسی رات عطا فرمائی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر اور افضل ہے۔ وہ لیلۃ القدر کی رات ہے جس میں لوح محفوظ سےآسمان دنیا پر قرآن کریم نازل ہوا۔ یہ رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہے۔
سورۃ البینہ
اس سورۃ میں بتایا کہ مشرک ناکام ہوں گے۔ یہود و نصاری نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے روشن دلائل دیکھنے کے بعد بھی آپ پر ایمان نہ لائے تو یہ ناکام ہوں گے۔ یہ بات سمجھائی ہے کہ جو نیک کام کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوتے ہیں۔ بطور خاص صحابہ کرام کو اللہ تعالیٰ نے انعام دیا ہے کہ" رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ" اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوگئے اور وہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہوگئے۔ یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے بہت بڑا انعام اور فضیلت ہے۔
سورۃ الزلزال
اس سورۃ میں قیامت کی ہولناکیوں کو بیان کیا۔ جب قیامت آئے گی تو زمین اپنے خزانے باہر نکال دے گی۔ دنیا میں جس نے مال کی خاطر گناہ کیے تھے وہ اس مال کو دیکھ کر کہے گایہ ہے وہ مال جس کی وجہ سے میں نے گناہ کیے تھے! اس مال کو کوئی لینے والا نہیں ہوگا تو اس وقت کو یاد کرو۔ آخرت کی تیاری کرو۔ دنیا میں کی ہوئی چھوٹی سے چھوٹی نیکی پر اللہ تعالیٰ اچھا بدلہ دیں گے اور چھوٹی سی چھوٹی برائی پر اللہ تعالیٰ سزا دیں گے۔ قیامت کے دن پورا حساب کتاب لیا جائے گا۔
سورۃ العادیات
اللہ تعالیٰ نے دوڑنے والے گھوڑوں کی قسمیں کھاکر یہ بات سمجھائی کہ گھوڑا اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر اپنے مالک کی حفاظت کرتا ہے، اس کی بات مانتاہے۔ لیکن انسان کو دیکھیے کہ وہ اپنے مالک کاکھاتا ہے لیکن اس کی بات نہیں مانتا اور شکر کے بجائے ناشکری کرتا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کا رزق کھا نے کے بعد اللہ کی اطاعت اور شکر کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائیں۔
سورۃ القارعہ
اس سورۃ میں قیامت کا ذکر کیا اور یہ بات سمجھائی کہ جن کے اعمال نیک ہوں گے قیامت کے دن ان کا اعمال نامہ وزنی ہوگا۔ اور جن کے اعمال برے ہوں گے گناہ بہت زیادہ کیے ہوں گے ان کا اعمال نامہ بہت ہلکا ہوگا۔ قیامت کے دن اعمال کو گنا نہیں بلکہ تولا جائے گا کہ اعمال میں وزن، خشوع وخضوع اور اخلاص کتنا تھا۔ تو نیک اعمال کو اخلاص کے ساتھ کرنا چاہیے۔
سورۃ التکاثر
اس سورۃ میں انسان کو سمجھایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو نعمتیں دی ہیں وہ تمہیں غفلت میں نہ ڈال دیں۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو اور قیامت کے دن ایک ایک نعمت کا تم سے حساب ہوگا۔
سورۃ العصر
اللہ تعالیٰ نے قسم کھا کر یہ بات سمجھائی ہے کہ کامیاب وہ ہوگا جس کے عقائد درست ہوں گے۔ اعمال سنت کے مطابق ہوں گے۔ پھر فرمایا وہ کامیاب ہے جو صحیح عقیدے اور نیک عمل کی دعوت دے۔ اگر دعوت دینے میں کوئی مشکل آجائے تو اس کو خندہ پیشانی سے برداشت کرے۔
سورۃ الہمزہ
اس میں اللہ تعالیٰ نے سمجھایا کہ مال گن گن کر رکھنا، بخل کرنا، چغل خوری کرنا، لوگوں کے عیب نکالنا، مذاق اڑانااور دوسروں کو طعنہ دینا یہ انسان کو برباد کردیتا ہے۔ لہذامذکورہ تمام برے اعمال سے گریز کرنا چاہیے۔
سورۃ الفیل
اس میں وہ واقعہ بیان کیا جب ابرہہ کعبہ کو گرانے کےلیے لشکر لے کر آیا تھا تو چھوٹی چھوٹی کنکریاں مارنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے چھوٹے چھوٹے پرندے ابابیل بھیجے۔ اس کے لشکر کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔ اس سے عبرت حاصل کریں اللہ تعالیٰ کے دین کو مٹانے کی بات نہ کریں بلکہ الله تعالیٰ کے دین کی مدد کریں۔
سورۃ القریش
اس سورۃ میں یہ سمجھایا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں رزق اور تمہیں امن بھی دیتے ہیں اس کا تقاضا یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنی چاہیے۔ اصل چیز تو عبادت ہے اور عبادت کا ماحول بنتا ہے اچھی معیشت اور امن سے۔ لہذا ایسے حالات پیدا کریں جن سے امن بھی ہو اور معیشت بھی اچھی ہو تاکہ سب لوگ اطمینان سے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں لگے رہیں۔
سورۃ الماعون
اس میں یہ بات سمجھائی ہے کہ بخل اور کنجوسی نہ کریں، نماز میں غفلت نہ کریں کیونکہ غفلت کرنے والوں کےلیے ہلاکت ہے۔ نماز کی پابندی کریں۔ چھوٹی چھوٹی چیزیں جو عام استعمال اور کھانے پینے کی ہوتی ہیں، انہیں دینے لینے میں کنجوسی نہ کیا کریں۔
سورۃ الکوثر
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو بیان کیا کہ آپ کو کوثر عطاکی گئی ہے۔ آپ نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے۔ آپ کے مخالف ہی ختم ہوں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام قیامت تک اور قیامت کے بعد بھی رہے گا۔
سورۃ الکفرون
یہ سورۃ توحید اور شرک، ایمان اور کفر اور حق اور باطل کے درمیان حد فاصل ہے۔ جب مشرکین نے صلح کرنے کی کوشش کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوٹوک فیصلہ فرمایا کہ تمہارے لیے تمہارادین اور میرے لیے میرا دین۔
سورۃ العصر
اس سورۃ میں فتح مکہ اور لوگوں کے اسلام میں فوج در فوج داخل ہونے کا ذکر ہے۔ آخرت کی تیاری کی ترغیب دی ہے کہ اےپیغمبر! صلی اللہ علیہ وسلم، فتوحات کا وقت آگیا ہے اور لوگ جوق در جوق مسلمان ہونے لگے ہیں۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا مقصد پورا ہونے کو ہے۔
سورۃ اللہب
اس سورۃ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن ابو لہب اور اس کی بیوی کے برے انجام کو بیان کیا ہے کہ وہ کس طرح برباد ہوئے اور آخرت میں بھی وہ ہمیشہ کےلیے جہنم کے اندر رہیں گے۔ مال اور اولاد ا ن کے کام نہ آسکے۔
سورۃ الاخلاص
اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے توحید کو بیان فرمایا ہے۔ سورۃ کافرون میں شرک کا رد اور سورۃ اخلاص میں توحیدکا بیان ہے۔ یہ دو سورتیں بہت محبوب ہیں۔ فجر کی سنتوں میں پہلی رکعت میں سورۃ کافرون اور دوسری رکعت میں سورۃ اخلاص پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔
سورۃ الفلق،سورۃ الناس
آخری دو سورتوں میں یہ بات سمجھائی ہے کہ انسان کو چاہیے کہ انسانوں اور جنات کے شرور سے پناہ مانگے۔ اگر جادو سے بچنا چاہے تو اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آئے۔ وسوسوں سے بچنا چاہے تو بھی اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آئے۔ ہر حال میں انسان کو چاہیے کہ شرور و فتن سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آئے۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفاتحہ سے قرآن کریم کو شروع کیا اور سورۃ الناس پر ختم کیا۔ سورہ فاتحہ میں دو چیزیں مانگنے کی بات کی کہ اللہ تعالیٰ سے انہیں مانگیں:

مددونصرت مانگیں

صراط مستقیم مانگیں
مدد مل گئی تو دنیا میں غالب آجائیں گے اور طراط مستقیم پر آگئے تو آخرت بن جائے گی۔ اور معوذتین میں دو چیزوں سے بچنے کا حکم دیا ہے:

دنیاوی معاملات میں مخلوقات کے شر ورسے پناہ مانگیں

دینی معاملات میں وسوسہ ڈالنے والوں کے شرور سے بچیں
دنیاوی معاملات میں وسوسہ ڈالنے والوں کے شر سے بچ گئے تو دنیا اچھی رہے گی۔ دینی معاملات میں وسوسہ ڈالنے والوں کے شر سے بچ گئے تو آخرت سنور جائے گی۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے شرور و فتن سے ہمیں محفوظ رکھے۔ (آمین)
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
الحمد للہ، خلاصہ قرآن کریم؛ اللہ کریم کی مدد سے مکمل ہوا۔ اللہ تعالیٰ قبول ومنظور فرمائیں، قبولیتِ عامہ عطا فرمائیں، پڑھنے پڑھانے، سننے سنانے والوں کے لیے نافع بنائیں، ہم سب کے ایمان کی حفاظت فرمائیں اور ہماری نسلوں سے دین کا کام عافیت کے ساتھ لیتے رہیں۔ اللہ کریم قرآن مجید کو ہماری زبانوں اور آنکھوں کا نور، دلوں کی ٹھنڈک اور قبر کی بہار بنائیں۔ اللہ کریم مرکز اھل السنۃ والجماعۃ سرگودھا کے فیض کو تاقیامت دنیا بھر میں پھیلا ئیں۔
آمین یا رب العلمین، بجاہ النبی الکریم علیہ وآلہ الصلوۃ والتسلیم وبرحمتک یا ارحم الرحمین۔ اللھم لک الحمد کما ینبغی لجلال وجھک وعظیم سلطان

ک