پانچویں نصیحت زیادہ ہنسنے سے اجتناب کریں

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
﴿زیادہ ہنسنے سے اجتناب کرنا ﴾
حدیث مبارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےپانچویں نصیحت یہ ارشاد فرمائی:
إِيَّاكَ وَكَثْرَةَ الضَّحِكِ فَإِنَّهُ يُمِيتُ الْقَلْبَ وَيَذْهَبُ بِنُورِ الْوَجْهِ
بہت زیادہ ہنسنے سے بچو کیونکہ یہ چیز دل کو مردہ اور چہرے کی رونق کو ختم کر دیتی ہے۔
جنت ، جہنم اور دنیا:
اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ ایسی بنائی ہے جہاں سُکھ، سُکھ اور سُکھ ہیں اس کا نام ”جنت“ہے۔ ایک جگہ ایسی بنائی ہے جہاں دُکھ،دُکھ اور دُکھ ہیں اس کانام ”جہنم“ ہے اور ایک جگہ ایسی بنائی ہے جہاں سُکھ بھی ہیں اور دُکھ بھی اس کا نام ”دنیا“ ہے۔
اسلام اور فطری حقائق :
ہم دھوپ چھاؤں کی اس دنیا میں بستے ہیں جہاں کبھی خوشیاں ملتی ہیں اور کبھی پریشانیاں آتی ہیں جن کے فطری نتائج ہمارے اوپر مرتب ہوتے ہیں اسلام ان کو تسلیم کرتا ہے اور اس بارے رہنمائی بھی کرتا ہے مصائب و آلام کا مقابلہ کرنے کےلیے عافیت کی دعا اور اس کے اسباب اختیار کرنےکے ساتھ ساتھ طبعی خوش مزاجی ، خندہ روی اور مسکرانے کو معاون بھی قرار دیتا ہے۔اس سے زندگی خوشگوار ، آسودہ ، طمانیت بھری اور مسرور کن بن جاتی ہے۔ اس کی وجہ سے انسان کو اللہ کی نعمتوں پر شکر کی توفیق نصیب ہوتی ہے مزید یہ کہ مایوسی جو انسان کے ایمان اور جسم دونوں کے لیے زہر قاتل ہے وہ بھی ختم ہو جاتی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ زندگی ) سیرت )میں دیکھا جائے تو آپ کے مبارک چہرے پر مسکراہٹ ”مسکراتی“ نظر آتی ہے ۔
مسکرانا سنتِ رسول ﷺ ہے :
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ جَزْءٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنَّهُ قَالَ : مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَكْثَرَ تَبَسُّمًا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
جامع الترمذی، باب فی بشاشۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، الرقم: 3641
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن حارث بن جَز ء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سےزیادہ مسکرانے والا کوئی نہیں دیکھا۔
ملاقات کے وقت مسکرانا:
عَنْ جَرِيرٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ مَا حَجَبَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنْذُ أَسْلَمْتُ وَلَا رَآنِي إِلَّا تَبَسَّمَ فِي وَجْهِي۔
صحیح البخاری، باب التبسم والضحک، الرقم: 6089
ترجمہ: حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب سے میں نے اسلام قبول کیا تو مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس آنے سے نہیں روکا جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا تو مسکرا کر دیکھا ۔
رسول اللہ ﷺ مسکرا دیے:
عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يُؤْتَى بِالرَّجُلِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيُقَالُ: اعْرِضُوا عَلَيْهِ صِغَارَ ذُنُوبِهِ قَالَ فَتُعْرَضُ عَلَيْهِ وَيُخَبَّأُ عَنْهُ كِبَارُهَا فَيُقَالُ عَمِلْتَ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا كَذَا وَكَذَاوَهُوَ مُقِرٌّ لَا يُنْكِرُ وَهُوَ مُشْفِقٌ مِنَ الْكِبَارِ فَيُقَالُ: أَعْطُوهُ مَكَانَ كُلِّ سَيِّئَةٍ عَمِلَهَاحَسَنَةً۔ قَالَ: فَيَقُولُ: إِنَّ لِي ذُنُوبًا مَا أَرَاهَا. قَالَ: قَالَ أَبُوْ ذَرٍّ : فَلَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ۔
مسند احمد ، الرقم: 21393
ترجمہ: حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ایسےشخص کوجانتاہوں جوسب سے پہلے جنت میں جائےگااور اس شخص کوبھی جانتاہوں جوسب سے آخر میں دوزخ سے نکالاجائےگا۔پھر آپ نے ارشاد فرمایا: قیامت کےدن ایک شخص حق تعالیٰ کےدربارمیں پیش کیاجائےگا اور حکم ہو گا کہ اس کےچھوٹےچھوٹے گناہ اس پر پیش کیےجائیں اور اس کے بڑے بڑے گناہ ظاہر نہ کیےجائیں۔ پھر اس سے پوچھاجائےگاکہ کیا تو نے فلاں فلاں روزیہ چھوٹے چھوٹے گناہ کیےہیں؟ وہ اپنے گناہوں کااقرارکرے گا، اس وقت انکار کی گنجائش نہ ہوگی۔ وہ شخص دل میں نہایت خوفزدہ ہوگا کہ یہ تو چھوٹے گناہ ہیں، میرے بڑے گناہوں کا کیابنے گا؟ اسی دوران حکم ہوگاکہ اس کے ہر چھوٹے گناہ کے بدلہ میں اس کو ایک نیکی دےدو۔ وہ شخص یہ حکم سنتے ہی بول اٹھے گا کہ ابھی تومیرے بہت سے گناہ باقی ہیں جو یہاں نظر نہیں آرہے۔ اس کے بعدحضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی بات نقل کرنے کے بعد اتنا ہنسے کہ دندان مبارک ظاہر ہوگئے۔
عَنْ عَبْدِ اللهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي لَأَعْلَمُ آخِرَ أَهْلِ النَّارِ خُرُوجًا مِنْهَا وَآخِرَ أَهْلِ الْجَنَّةِ دُخُولًا رَجُلٌ يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ كَبْوًا (حَبْوًا) فَيَقُولُ اللهُ اذْهَبْ فَادْخُلِ الْجَنَّةَ فَيَأْتِيهَا فَيُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهَا مَلْأَى فَيَرْجِعُ فَيَقُولُ يَا رَبِّ وَجَدْتُهَا مَلْأَى فَيَقُولُ اذْهَبْ فَادْخُلِ الْجَنَّةَ فَيَأْتِيهَا فَيُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهَا مَلْأَى فَيَرْجِعُ فَيَقُولُ يَا رَبِّ وَجَدْتُهَا مَلْأَى فَيَقُولُ اذْهَبْ فَادْخُلِ الْجَنَّةَ فَإِنَّ لَكَ مِثْلَ الدُّنْيَا وَعَشَرَةَ أَمْثَالِهَا أَوْ إِنَّ لَكَ مِثْلَ عَشَرَةِ أَمْثَالِ الدُّنْيَا فَيَقُولُ تَسْخَرُ مِنِّي أَوْ تَضْحَكُ مِنِّي وَأَنْتَ الْمَلِكُ فَلَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ وَكَانَ يَقُولُ ذَاكَ أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً۔
صحیح البخاری، باب صفۃ الجنۃ والنار ، الرقم: 6571
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: میں اس شخص کوپہچانتاہوں جوسب سے آخر میں دوزخ سے نکلے گا اور وہ آدمی گھسٹتا ہوا نکلے گا،اس کوحکم ہوگاکہ جاؤ جنت میں داخل ہوجاؤ! وہ جنت میں داخل ہونے کے لیے جائے گا تو دیکھے گاکہ تمام لوگوں نےاپنی اپنی جگہ ٹھکانہ پکڑا ہوا ہے (یعنی جنت میں جگہ نہیں ہے) وہ واپس آئے گااور اللہ تعالیٰ سے صورت حال عرض کرے گا۔ پھر اس سے کہا جائے گاکہ تجھے دنیا کاوہ زمانہ یادہےجس میں تم رہا کرتے تھے(یعنی دنیا کتنی فراخ اور کشادہ تھی) وہ عرض کرے گا:جی ہاں یاد ہے۔ حکم ہوگا کہ اب تم کچھ تمناؤں کا اظہار کرو! چنانچہ جو اس کا دل چاہے گا وہ اپنی ان خواہشات کا اظہار کرے گا۔پھر اس کو کہا جائے گا کہ جن چیزوں کی تم نے آرزو کی ہے وہ بھی تم کو دیا اور پوری دنیاسے دس گنا مزید زیادہ بھی تم کو دیا۔ وہ شخص کہے گا: یااللہ! آپ توبادشاہ ہیں،آپ بھی میرے ساتھ مذاق کرتے ہیں۔راوی فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر ہنسےکہ آپ کےدندان مبارک ظاہر ہوگئے۔
دوستوں کی محفل میں مسکرانا :
عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ:جَالَسْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكْثَرَ مِنْ مِائَةِ مَرَّةٍ فَكَانَ أَصْحَابُهُ يَتَنَاشَدُونَ الشِّعْرَ وَيَتَذَاكَرُونَ أَشْيَاءَ مِنْ أَمْرِ الجَاهِلِيَّةِ وَهُوَ سَاكِتٌ فَرُبَّمَا يَتَبَسَّمُ مَعَهُمْ۔
جامع الترمذی، باب ماجاء فی انشاد الشعر، الرقم: 2850
ترجمہ: حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں سوبار سے بھی زیادہ مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ شعر کہتے اور زمانہ جاہلیت کی باتیں کیا کرتے تھے۔ آپ خاموش رہتے اور کبھی کبھار ان کے ساتھ مسکرا لیا کرتے تھے ۔
دشمن کی شکست پر مسکرانا :
عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَعَ لَهُ أَبَوَيْهِ يَوْمَ أُحُدٍ قَالَ : كَانَ رَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ قَدْ أَحْرَقَ الْمُسْلِمِينَ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اِرْمِ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي قَالَ فَنَزَعْتُ لَهُ بِسَهْمٍ لَيْسَ فِيهِ نَصْلٌ فَأَصَبْتُ جَنْبَهُ فَسَقَطَ فَانْكَشَفَتْ عَوْرَتُهُ فَضَحِكَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى نَظَرْتُ إِلَى نَوَاجِذِهِ.
صحیح مسلم ، باب فضل سعد بن ابی وقاص ، الرقم: 6316
ترجمہ : حضرت عامر بن سعد اپنے والد سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احد کے دن سعد کے لیے اپنے والدین کو ایک جملے میں اکٹھا ذکر فرمایا: مشرکین میں سے ایک شخص نے مسلمانوں کو جلایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد رضی اللہ عنہ سے فرمایا: میرے ماں باپ تم پر قربان تیر چلاؤ! حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے بغیر پھل والے تیر کو اس کے پہلو پر کھینچ مارا جس کی وجہ سے وہ گر پڑا اور اس کی شرمگاہ ظاہر ہو گئی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیے اتنا مسکرائے کہ میں نے آپ کی ڈاڑھیں مبارک دیکھ لیں۔
مسکرانے کی حد :
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسْتَجْمِعًا قَطُّ ضَاحِكًا حَتَّى أَرَى مِنْهُ لَهَوَاتِهِ إِنَّمَا كَانَ يَتَبَسَّمُ۔
صحیح البخاری، باب التبسم والضحک، الرقم: 6092
ترجمہ: ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی اتنے زور سے)قہقہہ لگا کر( ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حلق مبارک نظر آئے۔
مردہ دل :
قہقہہ لگا کر ہنسنے کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے ۔ اس سے دل مردہ ہو جاتا ہےاور انسان غفلت کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے جس کی وجہ سے خیر وشر کی پہچان مٹ جاتی ہے اور اپنا ابدی مستقبل آنکھوں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ دنیا بھر کے لوگ اس دل کی دھڑکن کی وجہ سے اسے زندہ کہہ سکتے ہیں لیکن اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک فکرِآخرت سے محروم ہوجانے والا دل ”مردہ “ہوتا ہے۔مزید یہ کہ اس پر نصیحت اثر نہیں کرتی ۔
بے نور چہرہ :
زیادہ قہقہے لگانے اور ضرورت سے زائد ہنسنے کی وجہ سےچہرے کا نور چھن جاتا ہے۔ انسان کی بات بے وزن ہوجاتی ہےایسے انسان کی لوگوں کے دلوں میں عزت ختم یا کم از کم ؛ کم ہوجاتی ہے ،سنجیدگی اور متانت سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ باوقار شخصیت کا نقش مٹ جاتا ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان کی معاشرے میں حیثیت کم ہو جاتی ہے۔
جلوت و خلوت:
ہاں یہ ٹھیک ہے کہ ہنسنے کے موقع پر ہنسنا چاہیے لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ راتوں کو تنہائیوں میں بندہ اللہ کے حضور رونا بھول جائے ۔ لوگوں کے ساتھ میل جول کے وقت چہرے پر مسکراہٹ اور خلوت میں اللہ کے حضور رونا، جس انسان میں یہ اوصاف اکٹھے ہوجائیں اس بندے کی قسمت کے کیا کہنے! اللہ ہم سب کو ایسی زندگی نصیب فرمائے ۔
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم </