چھٹی نصیحت ہمیشہ حق بات کہیں

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
﴿ہمیشہ حق بات کہنا ﴾
حدیث مبارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےچھٹی نصیحت یہ ارشاد فرمائی:
قُلِ الْحَقَّ وَإِنْ كَانَ مُرًّا
سچی بات کہو اگرچہ کڑوی ہی کیوں نہ لگے۔
حدیث کا درست مفہوم:
حدیث پاک کا درست مطلب یہ ہے کہ انسان کو ہمیشہ حق کا ساتھ دینا چاہیے سچی بات کہنی چاہیےکیونکہ سچ میں نجات ہے۔گفتگو کے آداب کی رعایت کرتے ہوئے )جس کی قدرے تفصیل بعد میں آ رہی ہے (حق بات کہنے میں ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہونا چاہیے اگرچہ کسی کو یا خود کو سننے میں کڑوی اور ناگوار ہی محسوس کیوں نہ ہو ۔
حدیث کا غلط مفہوم:
بعض لوگ اس حدیث پاک کو بے موقع استعمال کرتے ہیں جس سے حدیث کا مفہوم بدل جاتا ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد باقی نہیں رہتی۔ وہ غلطی یہ کرتے ہیں کہ حق بات اسے سمجھتے ہیں جس میں درشت اور طنز آمیز لہجہ ، الفاظ کی کرختگی ، انداز میں بھدا پن مزید یہ کہ الفاظ کا غیر مناسب انتخاب کر کے بدتمیزی کے ساتھ گفتگو کی جائے۔ اور یہ سارا کچھ کرنے کے بعد اپنے عمل کو حدیث کے مطابق ثابت کرنے کے لیے کہہ دیتے ہیں کہ شریعت میں حکم ہے قُلِ الْحَقَّ وَإِنْ كَانَ مُرًّا۔
پھر اس کا معنیٰ اور مطلب بھی بالکل غلط بیان کرتے ہیں کہ حق بات ہوتی ہی ایسی ہے کہ کڑوی لگے۔ یہ حدیث کا غلط معنیٰ ہے کیونکہ حق بات کو ضرور کڑوا کر کے ہی کہنا نہ تو حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد ہے اور نہ اس کی اجازت دی جا سکتی ہے ۔
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ حق تو میٹھا ہوتا ہے اس لیے کہتے رہنا چاہیے لیکن اگر کسی کو حق کڑوا لگے تو اس کو کڑوا لگنے کی وجہ سے حق نہیں چھوڑنا چاہیے ۔ جیسے انگور میں تو مٹھاس ہوتی ہے لیکن بخار والے کو یہ مٹھاس بھی کڑوی سی لگتی ہے ۔
سننے والے کے مزاج کے خلاف :
حدیث مبارک میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بات کے کڑوا ہونے کا تعلق سننے والے کے ساتھ ہے ۔ یعنی کبھی کہنے والا تو گفتگو کے آداب کی رعایت رکھ کر ہی بات کرتا ہے ہاں کبھی سننے والے کو اپنے مزاج کے خلاف ہونے کی وجہ سے کڑوی لگ جاتی ہے ۔
کہنے والے کے مزاج کے خلاف :
اس کا دوسرا معنی یہ بھی ممکن ہے کہ حق بات ہی کہنی چاہیے اگرچہ وہ اپنے نفس ،مزاج اور طبیعت کے خلاف ہونے کی وجہ سے کڑوی ہی کیوں نہ لگے۔ اس معنی کی تائید قرآن کریم کی اس آیت سے بھی ہوتی ہے ۔
یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَآءَ لِلّٰہِ وَ لَوْ عَلٰی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ ۔
سورۃ النساء،رقم الآیۃ: 135
ترجمہ: اے ایمان والو!تم انصاف قائم کرنے اور اللہ کے لیے گواہی دینے والے بنو۔اگرچہ )وہ ( خود اپنے یا والدین یا رشتہ داروں کے خلاف کیوں نہ ہو۔
درست بات کا حکم اور انعامات :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا اتَّقُوْا اللهَ وَقُولُوْا قَوْلًا سَدِيْدًا يُّصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُّطِعِ اللَّهَ وَرَسُوْلَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيْمًا ۔
سورۃالاحزاب ،رقم الآیۃ: 71،70
ترجمہ: ایمان والو!اللہ سے ڈرو اور ہمیشہ درست بات کہو اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی اصلاح اورتمہارے گناہوں کو معاف فرمادیں گے اور جو شخص بھی اللہ اور اس کے رسول کی صحیح طور پر بات مانتااور اس پر عمل کرتا ہے تو ایسا شخص بڑی کامیابی حاصل کرنے والا ہے۔
اعمال کی درستگی:
انسان کے اکثر اعمال کا تعلق چونکہ اس کی زبان کے ساتھ ہے۔ جب بندہ زبان کو قابو میں کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دوسرے اعمال کی اصلاح فرما دیتے ہیں اور یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ جب باقی اعمال کی اصلاح ہوجائے تو بندہ اللہ کا محبوب بن جاتا ہے اور اللہ نے اپنے پیاروں کے لیے جنت تیار کر رکھی ہے جہاں کی سب سے بڑی نعمت ذات باری تعالیٰ کا دیدار ہے ۔کتنی خوش نصیبی کی بات ہے کہ انسان اپنی زبان کو قابو میں کر لے اور اس کی وجہ سے اس کے باقی اعضاء سے سرزد ہونے والے اعمال بھی درست ہوں گے نتیجتاً اللہ ایسے بندے کو جنت میں اپنا دیدار نصیب فرمائیں گے ۔ اللھم اجعلنا منہم
گناہوں کی معافی:
زبان کو مناسب موقع پر مناسب طور پر استعمال کرنا یعنی گناہوں کے بجائے نیکیوں میں استعمال کرنا بذاتِ خود گناہوں سے معافی کا ذریعہ ہے ۔ جو شخص اپنی زبان کو قابو میں کر لیتا ہے وہ گویا توبہ کی ایک عملی شکل اختیار کرلیتا ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں ۔ اعمال کی اصلاح کا مطلب بھی حصول جنت ہے اور گناہوں کی معافی کا مطلب بھی یہی ہے کہ جو چیز جنت میں جانے کےلیے رکاوٹ بنتی ہے یعنی گناہ ۔ تو اللہ ان گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں اور ایسے بندے کو جنت عطا فرما دیتے ہیں ۔
زبان کو اکثر اوقات بند رکھنا چاہیے اور جب گفتگو کے وقت کھولا جائے تو اسے بے لگام نہ چھوڑا جائے بلکہ اس کا درست استعمال کیا جائے ۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ گفتگو کے بارے چند شرعی آداب درج کر دیے جائیں ۔
حسن سلوک والی گفتگو :
اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں گفتگو کے بارے میں ہمیں حکم دیا ہے کہ جب آپسی گفتگو کی جائے تو ایک دوسرے کے ادب آداب کی رعایت رکھتے ہوئے اور مناسب موقع، مناسب لہجہ، مناسب الفاظ اور مناسب آواز کے ساتھ کی جائے۔
وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا
سورۃ البقرۃ ،رقم الآیۃ: 83
ترجمہ: لوگوں سے حسن سلوک سے گفتگو کرو۔
صاف اور واضح گفتگو:
عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا قَالَتْ:مَا كَانَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْرُدُ سَرْدَكُمْ هَذَا وَلَكِنَّهُ كَانَ يَتَكَلَّمُ بِكَلَامٍ يُبَيِّنُهُ فَصْلٌ يَحْفَظُهُ مَنْ جَلَسَ إِلَيْه۔
جامع الترمذی، باب فی کلام النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، الرقم: 3639
ترجمہ: ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری طرح جلدی جلدی بات چیت نہ فرماتے تھے بلکہ آپ بالکل صاف اور واضح بات کرتے تھےاور ہر بات دوسری سے جداہوتی تھی جسے آپ کے پاس بیٹھنے والا ہر شخص اچھی طرح ذہن نشین کرلیتاتھا۔
گفتگو میں بات کو دہرانا:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ:كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعِيْدُ الكَلِمَةَ ثَلَاثًا لِتُعْقَلَ عَنْهُ۔
جامع الترمذی، باب فی کلام النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، الرقم: 3640
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم (بعض مرتبہ) اپنی بات کوتین تین مرتبہ دہراتے تھےتاکہ سننے والااچھی طرح بات سمجھ لے۔
بلاضرورت گفتگو :
عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: سَأَلْتُ خَالِي هِنْدَ بْنَ أَبِي هَالَةَ وَكَانَ وَصَّافًا ۔۔ قُلْتُ: صِفْ لِي مَنْطِقَه ۔۔۔لَا يَتَكَلَّمُ فِي غَيْرِ حَاجَةٍ۔
شعب الایمان،فصل فی خلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، الرقم: 1362
ترجمہ: حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے مروی ہے میں نے اپنے ماموں ہند بن ابی ہالہ سے عرض کی: مجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کے اوصاف بتائیں! انہوں نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم بلاضرورت گفتگو نہیں فرماتے تھے۔
اس حوالے سے پہلے بھی ایک حدیث ذکر کی جا چکی ہے کہ انسان کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ فضول اور بے فائدہ باتوں اور کاموں کو چھوڑ دے۔ اس لیے گفتگو میں بلاضرورت باتیں نہیں کرنی چاہییں۔ بسیار گوئی ایک ایسا کام ہے جوعقل مند لوگوں کے ہاں کم عقلی کی علامت ہے ۔
ادائیگی الفاظ کی رعایت:
عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: سَأَلْتُ خَالِي هِنْدَ بْنَ أَبِي هَالَةَ وَكَانَ وَصَّافًا۔۔ قُلْتُ: صِفْ لِي مَنْطِقَهُ ۔۔۔ يَفْتَحُ كَلَامَهَ وَيَخْتِمُهُ بِأَشْدَاقِهِ۔
شعب الایمان،فصل فی خلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، الرقم: 1362
ترجمہ: حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے اپنے ماموں ہند بن ابی ہالہ سے عرض کی : مجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کے اوصاف بتائیں! انہوں نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام گفتگو اول سے لے کر آخر تک الفاظ کی درست ادائیگی کے ساتھ ہوا کرتی تھی۔(نوک زبان سےکٹے ہوئے لفظ ادانہیں فرماتے تھے)
معنی خیز اور جامع گفتگو :
عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: سَأَلْتُ خَالِي هِنْدَ بْنَ أَبِي هَالَةَ وَكَانَ وَصَّافًا۔۔ قُلْتُ: صِفْ لِي مَنْطِقَهُ ۔۔۔ يَتَكَلَّمُ بِجَوَامِعِ الْكَلِمِ۔
شعب الایمان،فصل فی خلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، الرقم: 1362
ترجمہ: حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے اپنے ماموں ہند بن ابی ہالہ سے عرض کی : مجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کے اوصاف بتائیں!تو انہوں نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم جامع کلمات کے ساتھ گفتگو فرماتے تھے۔ (جوامع الکلم کا معنی یہ ہے کہ بات ادھوری نہ فرماتے تھے بلکہ مکمل فرماتے تھے (
کمی زیادتی سے پاک گفتگو:
عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: سَأَلْتُ خَالِي هِنْدَ بْنَ أَبِي هَالَةَ وَكَانَ وَصَّافًا۔۔ قُلْتُ: صِفْ لِي مَنْطِقَهُ ۔۔۔فَصْلٌ لَا فُضُولَ وَلَا تَقْصِيرَ۔
شعب الایمان،فصل فی خلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، الرقم: 1362
ترجمہ: حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے اپنے ماموں ہند بن ابی ہالہ سے عرض کی : مجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کے اوصاف بتائیں! تو انہوں نے فرمایا:آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام بالکل ایک دوسرے سے ممتاز ہوتاتھا، نہ اس میں فضول بات ہوتی تھی اور نہ ہی کوتاہی ۔
نرم خوئی:
عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: سَأَلْتُ خَالِي هِنْدَ بْنَ أَبِي هَالَةَ وَكَانَ وَصَّافًا۔۔ قُلْتُ: صِفْ لِي مَنْطِقَهُ ۔۔۔ دَمْثٌ لَيْسَ بِالْجَافِي وَلَا الْمُهِينِ۔
شعب الایمان،فصل فی خلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، الرقم: 1362
ترجمہ: حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے اپنے ماموں ہند بن ابی ہالہ سے عرض کی : مجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کے اوصاف بتائیں! تو انہوں نے فرمایا:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نرم خو تھے۔ آپ نہ تو سخت مزاج تھےاور نہ ہی کسی کی تذلیل فرماتے تھے۔
فیصلہ کریں:
ہم سب ہر روز کسی نہ کسی سے ضرور گفتگو کرتے ہیں اس حوالے سے ہم یہ فیصلہ کر لیں کہ آئندہ گفتگو کرتے وقت مذکورہ بالا آداب کی مکمل رعایت کریں گےاپنی گفتگو کو فضول گوئی، بے ہودہ گوئی ، یاوہ گوئی سے پاک کریں گے۔
قولِ فیصل:
مزید یہ کہ اپنی گفتگو کو ادب و احترام، سنجیدہ، معنی خیز، جامعیت، نرم خوئی اور سلیقہ شعاری کے ساتھ مزین کریں گے تو یقین جانیے کہ ہمیں قولِ سدید کی نعمت بھی مل جائے گی ، قولِ حسن کی توفیق بھی نصیب ہوگی اور قولِ حق کا موقع بھی ملے گا اور قولِ فیصل کی قوت بھی عطا ہوگی۔ اللہ رب العزت ہماری نسلوں کو بھی دین کی سمجھ، دین پر عمل،دین کی اشاعت اور دین کے تحفظ کےلیے قبول فرمائے۔
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم