سجود وقیام

User Rating: 2 / 5

Star ActiveStar ActiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سجود وقیام
اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص بندوں کی تیسری صفت یہ ذکر فرمائی ہے :
وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا
سورۃ الفرقان، آیت نمبر 64
ترجمہ: اور وہ اپنے رب )کی رضا حاصل کرنے( کےلیے رات سجدے اور قیام )عبادت( میں گزارتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے رات کا وقت بہت قیمتی بنایا ہے اس کے بہت زیادہ فوائد ہیں۔ چند ایک یہ ہیں :
رات کا وقت عبادت کے لیے سب سے بہتر ہے کیونکہ اس میں ریا کاری سے انسان بچ جاتا ہے۔
اس وقت عبادت میں خوب توجہ، یکسوئی، انہماک اور دلجمعی کی کیفیت نصیب ہوتی ہے۔
اس وقت دنیاوی تفکرات کم ہو جاتے ہیں۔
اس وقت انسان کو دن بھر کے اچھے اور برے اعمال کے محاسبہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔
مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ نے دن رات کے بدلنے میں عقلمندوں کے لیے نشانیاں رکھی ہیں، رات کے وقت انسان روزانہ اپنے آپ کو یہ بات سمجھائے کہ دن کو سورج نکلا ہوا تھا اس کی روشنی سے ساری دنیا فائدہ اٹھا رہی تھی لیکن رات کے اندھیرے نے اس کو بھی فنا کر دیا، اسی طرح زندگی کا سورج آج روشن ہے کل موت کا اندھیرا اسے لے ڈوبے گا، جیسے رات میں اندھیرا ہے اسی طرح انسان اپنی قبر کے اندھیرے کو بھی یاد رکھے۔ گویا رات کا وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سےجہاں ایک نعمت ہے کہ اس وقت میں عبادت کرتے ہوئے دل کی توجہات دنیا کی طرف کم ہوتی ہیں وہاں پر یہ وقت ہمیں دنیا کی بے ثباتی کی دعوتِ فکر بھی دیتا ہے۔
عباد الرحمٰن کے اوصاف میں جہاں اس بات کا تذکرہ ہوا کہ وہ اپنے چال چلن، رہن سہن اور طرز عمل سے کسی کو تکلیف نہیں دیتے وہاں پر یہ بات بھی سمجھ آ رہی ہے کہ اگر کوئی ان کو تکلیف دے تو وہ اس کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہیں اور صبر و تحمل کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ گویا حقوق العباد کی ادئیگی کے معاملہ میں عباد الرحمٰن کا رویہ حسن سلوک والا ہوتا ہے۔
اب اس آیت کریمہ میں یہ بات ذکر فرمائی کہ وہ لوگ صرف ”انسانیت“ کو سب سے بڑا مذہب قرار دے کراللہ تعالیٰ کی عبادات سے غافل اور لاپرواہ نہیں بنتے اورحقوق اللہ کی ادئیگی میں بھی کسی طرح کمی نہیں آنے دیتے بلکہ درجہ بدرجہ خالق و مخلوق کے حقوق ادا کرتے رہتے ہیں۔
قرآن کریم میں غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ فساد معاشرہ کے دو بنیادی سبب ہیں، ایک غلط اعتقادات و نظریات، دوسرا ناانصافی اور پرتشدد رویے۔ اللہ تعالیٰ نے عبادالرحمٰن کے یہ اوصاف ذکر کیے ہیں کہ وہ فساد معاشرہ کے دونوں بنیادی اسباب کو اپنے عمل اور اعتقاد سے ختم کرتے ہیں۔
آیت کریمہ میں عمدہ اسلوب بیان اور اس کی دل نشینی کی جھلک دیکھیے کہ اللہ نے دو لفظ ذکر فرمائے ہیں ایک سُجَّدًا اور دوسرا قِیَامًا۔
سجدہ:
عبدیت کی انتہاء کا نام ہےجس انتہاء پر قرب خداوندی جیسی انمول نعمت نصیب ہوتی ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہے :
وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ۔
سورۃ العلق، آیت نمبر 19
ترجمہ: سجدہ کیجیے اور قرب خداوندی کو حاصل کیجیے۔
سجدہ کرنا عبدیت اور سجدہ نہ کرنا ابلیسیت اور تکبر کی علامت ہے۔ خالق کے حکم کے مطابق سجدہ کرنا ملائکہ کا شیوہ ہے جبکہ خالق کے حکم سے دور ہو کر سجدہ نہ کرنا شیطانی طرز ہے۔ اسی سے فرمانبردار اور نافرمان میں فرق ہو جاتا ہے۔ اللہ کریم کی بارگاہ میں سجدے کرنے والے فرمانبردار اور حکم خداوندی کو پس پشت ڈال کر سجدہ نہ کرنے والے شیطان کے پیروکار ہیں۔
قیام:
عبدیت کی ابتدائی کیفیت کا مظہر ہے۔ انسان کسی کے سامنے باادب اسی وقت کھڑا ہو سکتا ہے جب اس کی عظمت دل میں ہو، اور عظمت اس وقت نصیب ہوتی ہے جب معرفت حاصل ہوجبکہ بغیر علم کے معرفت ممکن نہیں۔
قرآن کریم نے” سجدا“ کو پہلے ذکر کر کے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اصل مقصود تو عبدیت میں انتہاء ہے لیکن اس انتہاء تک پہنچنے کے لیے ابتداء کا زینہ طے کرنا پڑے گا۔
قرآن کریم میں مختلف مقامات پر ایسے لوگوں کی مدح اور تعریف کی گئی ہے جو راتوں کو اللہ کی بارگاہ میں کھڑے ہوتے ہیں، سجدے کرتے ہیں، رات کا کچھ حصہ عبادات و مناجات میں گزارتے ہیں اور سحری کے وقت اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں:
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ عَلَيْكُمْ بِقِيَامِ اللَّيْلِ فَإِنَّهُ دَأَبُ الصَّالِحِينَ قَبْلَكُمْ وَهُوَ قُرْبَةٌ إِلَى رَبِّكُمْ وَمَكْفَرَةٌ لِلسَّيِّئَاتِ وَمَنْهَاةٌ لِلْإِثْمِ.
جامع الترمذی،باب فی دعاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم حدیث نمبر 3472
ترجمہ : حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں چاہیے کہ رات کو قیام کرو۔ اس لیے کہ تم سے پہلے نیک بندوں کی عادت بھی یہی تھی یہ تمہارا اپنے رب سے قربت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے، یہ عمل تمہاری برائیوں کو مٹانے والا اور تمہیں گناہوں سے بچانے والا ہے۔
عَنْ عَلِيٍّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ فِي الْجَنَّةِ لَغُرَفًا يُرَى ظُهُورُهَا مِنْ بُطُونِهَا وَبُطُونُهَا مِنْ ظُهُورِهَا فَقَامَ إِلَيْهِ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ لِمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللّهِ قَالَ هِيَ لِمَنْ أَطَابَ الْكَلَامَ وَأَطْعَمَ الطَّعَامَ وَأَدَامَ الصِّيَامَ وَصَلَّى لِلَّهِ بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ.
جامع الترمذی، باب ماجاء فی صفۃ غرف الجنۃ حدیث نمبر 2450
ترجمہ: حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت میں ایسے شفاف کمرے ہیں کہ جن کے اندر کی طرف سے باہر کا سب کچھ نظر آتا ہے اور باہر کی طرف سے اندرکا سب کچھ نظر آتا ہے۔ ایک دیہاتی کھڑا ہوا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! یہ کن کے لیے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ اللہ نے ان لوگوں کے لیے تیار فرمائے ہیں جو نرم انداز میں گفتگو کرتے ہیں، غریبوں کو کھانا کھلاتے ہیں، اکثر روزے رکھتے ہیں اور راتوں کو اٹھ کر نمازیں (تہجد) پڑھتے ہیں جب کہ لوگ سو رہے ہوتے ہیں۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: رَحِمَ اللَّهُ رَجُلًا قَامَ مِنْ اللَّيْلِ فَصَلَّى وَأَيْقَظَ امْرَأَتَهُ فَإِنْ أَبَتْ نَضَحَ فِي وَجْهِهَا الْمَاءَ رَحِمَ اللّهُ امْرَأَةً قَامَتْ مِنْ اللَّيْلِ فَصَلَّتْ وَأَيْقَظَتْ زَوْجَهَا فَإِنْ أَبَى نَضَحَتْ فِي وَجْهِهِ الْمَاءَ۔
سنن ابی داؤد،باب قیام اللیل، حدیث نمبر1113
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرتا ہے جو آدھی رات کو اٹھتا ہے اور تہجد کی نماز پڑھتا ہے اور اپنی بیوی کو بھی جگاتا ہے اور وہ بھی نماز پڑھتی ہے اور اگر وہ انکار کرے تو وہ اس کے چہرے پر )پیار سے( پانی کے چھینٹےمارتا ہے اور اللہ اس خاتون پر بھی نظر کرم فرماتا ہے جو رات کو اٹھ کر تہجد پڑھتی ہے اور اپنے خاوند کو بھی تہجد کےلیے جگاتی ہے اور اگر وہ انکار کرے تو وہ عورت (پیار سے ) اپنے خاوند کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارتی ہے۔
اصل تو یہ ہے کہ انسان رات کو خوب عبادت کرے، نوافل ادا کرے، قرآن کریم کی تلاوت کرے، دعاو مناجات کرے، الحاح و زاری کرے، توبہ و استغفار کرے۔ اللہ کے احسانات کا شکر تو بھی ادا نہیں ہو سکتا لیکن اللہ کا کرم دیکھیں وہ تھوڑی سی اخلاص والی عبادت سے بھی راضی ہو جاتے ہیں۔
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: مَنْ صَلَّى بَعْدَ الْعِشَاءِ الْآخِرَةِ رَكْعَتَيْنِ أَوْ أَكْثَرَ فَقَدْ بَاتَ لِلَّهِ سَاجِدًا وقائما.
تفسیر بغوی، تحت ھذہ الآیۃ
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :جو شخص عشاء کی نماز کے بعد دو رکعات یا اس سے زیادہ )نفل (پڑھتا ہے تو وہ اللہ کے لیے رات سجدے اور قیام کرنے والا ہے۔
یہاں یہ بات بطور خاص ذہن نشین فرما لیں کہ بھلے رات بھر عبادت کریں جی بھر کر کریں لیکن باجماعت نماز کی ادائیگی میں غفلت نہ کریں اس لیے کہ باجماعت نماز ادا کرنے کے فضائل بہت زیادہ ہیں۔
عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ صَلَّى الْعِشَاءَ فِي جَمَاعَةٍ كَانَ كَقِيَامِ نِصْفِ لَيْلَةٍ وَمَنْ صَلَّى الْعِشَاءَ وَالْفَجْرَ فِي جَمَاعَةٍ كَانَ كَقِيَامِ لَيْلَةٍ۔
سنن ابی داؤد، باب فی فضل صلاۃ الجماعۃ، حدیث نمبر 468
ترجمہ: حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی گویا اس نے آدھی رات عبادت کی اگر اس نے فجر کی نماز بھی جماعت کے ساتھ پڑھی تو وہ ایسا ہے کہ گویا وہ ساری رات عبادت کرتا رہا۔
فائدہ : بعض لوگ شوق میں رات بھر کی نفلی عبادات تو شروع کر دیتے ہیں لیکن فرائض میں کوتاہی کرتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک حدیث ملاحظہ فرمائیں:
عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ , أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فَقَدَ سُلَيْمَانَ بْنَ أَبِي حَثْمَةَ فِي صَلاةِ الصُّبْحِ، وَأَنَّ عُمَرَ غَدَا إِلَى السُّوقِ وَكَانَ مَنْزِلُ سُلَيْمَانَ بَيْنَ السُّوقِ وَالْمَسْجِدِ، فَمَرَّ عُمَرُ عَلَى أُمِّ سُلَيْمَانَ الشِّفَاءِ، فَقَالَ: لَمْ أَرَ سُلَيْمَانَ فِي الصُّبْحِ، فَقَالَتْ: بَاتَ يُصَلِّي فَغَلَبَتْهُ عَيْنَاهُ، فَقَالَ عُمَرُ: لأَنْ أَشْهَدَ صَلاةَ الصُّبْحِ أَحَبُّ إِليَّ مِنْ أَنْ أَقُومَ لَيْلَةً
موطا امام مالک، باب فضل صلاۃ الفجر فی الجماعۃ، حدیث نمبر 243
ترجمہ: حضرت ابو بکر بن سلیمان بن ابو حثمہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ایک دن حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فجر کی جماعت میں سلیمان بن ابو حثمہ رحمہ اللہ کو شریک نہ پایا، صبح جب آپ کسی کام کی وجہ سے بازار کی طرف نکلے، اور سلیمان بن ابو حثمہ رحمہ اللہ کا گھر مسجد اور بازار کے درمیان میں پڑتا تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سلیمان بن ابو حثمہ رحمہ اللہ کی والدہ سے اس بارے دریافت کیا کہ سلیمان فجر کی نماز میں جماعت میں کیوں شریک نہیں ہوا تو ان کی والدہ نے کہا : رات بھر وہ)نفلی( نماز پڑھتا رہا ہے فجر کی نماز کے وقت اس پر نیند غالب آگئی اس لیے جماعت میں شریک نہیں ہو سکا، ان کی والدہ کی یہ بات سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ) آپ کے بیٹے کا یہ طریقہ سراسر غلط ہے (میرے نزدیک رات بھر کی نفلی عبادات میں مشغول ہونے سے بہتر ہے کہ وہ فجر کی نماز باجماعت ادا کرے۔