شرک نہ کرنا

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
شرک نہ کرنا
اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص بندوں کی چھٹی صفت یہ ذکر فرمائی ہے :
وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللّهِ إِلَهًا آخَرَ
سورۃ الفرقان، آیت نمبر 68
ترجمہ: ”اور وہ اللہ کے علاوہ کسی بھی دوسرے معبود کی عبادت نہیں کرتے۔ “
اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کے اوصاف میں ایک وصف ”شرک نہ کرنا “ ہے یعنی وہ اپنا معبود، خالق، مالک، مختار کل، مشکل کشا اور حاجت روا صرف اور صرف اللہ رب العزت کو مانتے ہیں، اس میں اور کسی کو بھی شریک نہیں ٹھہراتے۔
اس سے پہلے پانچ صفات کا تعلق ایسے نیک کاموں سے تھا جن کو وہ کرتے تھے اب چند ایسے گناہوں کا تذکرہ شروع ہو رہا ہے جن سے وہ بچتے ہیں۔ چنانچہ گناہوں میں سب سے بڑا گناہ شرک ہے۔
شرک کسے کہتے ہیں؟:
اللہ تعالیٰ کی ذات میں یا اللہ تعالیٰ کی ایسی صفت میں کسی اور کو شریک ٹھہرانا جو صفت صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لیے خاص اور مقرر ہے۔
مشرک اللہ پر بہتان باندھتا ہے:
وَمَن يُشْرِكْ بِاللّهِ فَقَدِ افْتَرٰى إِثْمًا عَظِيمًا
سورۃ النساء، آیت نمبر 48
ترجمہ: اور جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہرائے تو یقیناً اس نے بہت بڑے گناہ کا بہتان باندھا۔
شرک ناقابل معافی جرم:
إِنَّ اللّٰه لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا۔
سورۃ النساء، آیت نمبر 116
ترجمہ: اللہ تعالیٰ شرک کو ہرگز معاف نہیں فرمائیں گے اور اس کے علاوہ جتنے گناہ ہیں ان میں سے جس کو چاہیں گے معاف فرما دیں گے۔ اور جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا تو پکی بات ہے کہ وہ بہت دور کی گمراہی میں جاپڑا۔
جنت حرام ؛جہنم واجب:
إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّهُ عَلَيهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ
سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 72
ترجمہ: بے شک جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہے اللہ نے اس پر جنت حرام کردی ہے، اس کا ٹھکانا جہنم ہے اور ظالموں کی مدد کرنے والا کوئی نہیں۔
مشرک کے اعمال بے کار :
أُوْلٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ وَفِي النَّارِ هُمْ خَالِدُونَ
سورۃ التوبۃ، آیت نمبر 17
ترجمہ: یہی )مشرک( لوگ ہیں، ان کے اعمال بے کار اور رائیگاں ہوگئے اور یہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آگ میں رہیں گے۔
مشرک ناپاک ہے:
إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ
سورۃ التوبہ، آیت نمبر 28
ترجمہ: یقینی بات ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانے والےناپاک ہیں۔
مشرک کی کوئی حیثیت نہیں:
وَمَن يُشْرِكْ بِاللهِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ
سورۃ الحج، آیت نمبر 31
ترجمہ: اور جو کوئی اللہ کےساتھ کسی کو بھی شریک ٹھہرائے تو گویا وہ آسمان سے گرگیا، اب یا تو اسے پرندے اٹھا کر لے جائيں گے یا ہوا اسے دور دراز کی جگہ جاکر پھینک دے گی۔
شرک بہت بڑا ظلم ہے:
إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ
سورۃ لقمان، آیت نمبر 13
ترجمہ: یقیناً شرک بہت بڑا ظلم ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ

مشرک اللہ پر بہتان باندھنے والا ہوتا ہے۔

مشرک ناقابل معافی جرم )شرک (کا ارتکاب کرنے والا ہوتا ہے۔

مشرک بہت بڑی گمراہی کا شکار ہوتا ہے۔

مشرک کے اعمال بے کار اور برباد ہوجاتے ہیں۔

مشرک کی سرے سے کوئی حیثیت ہی نہیں ہوتی۔

مشرک ناپاک ہوتا ہے۔

مشرک ظلم کرنے والا ہوتا ہے۔

مشرک ہمیشہ کے لیے جنت سے محروم ہوجاتا ہے۔

 مشرک ہمیشہ کے لیے جہنم کا ایندھن بن جاتا ہے۔

شرک فی الصفات:
بعض لوگ اللہ کی ذات میں تو کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے یعنی شرک فی الذات سے بچتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی صفات خاصہ کے ساتھ کسی اور کو بھی شریک ٹھہرا لیتے ہیں مثلاً : روزی دینا، اولاد دینا، پریشانیوں کو دور کرنا، خوشیاں دینا، نفع اور نقصان دینا یہ ایسے کام ہیں جن کا مالک صرف اور صرف اللہ رب العزت ہے۔ اللہ کے ماسوا کسی کو بھی خواہ وہ ولی ہو یا نبی ہو، انسان ہو یا فرشتہ ہو، جاندار یا غیر جاندار، زندہ ہو یا مردہ الغرض کسی کو بھی یہ قدرت اور اختیار نہیں کہ وہ روزی دے، اولاد دے، نفع پہنچائے یا نقصان سے بچائے، پریشانیوں کو دور کرے یا خوشیاں عطاکرے۔
غیر اللہ سے مدد مانگنا :
یہ بات بھی اچھی طرح ذہن میں رکھ لیجیے کہ اسباب کو اختیار کیے بغیر مدد کرنا یہ اللہ رب العزت کا خاصہ ہے اگر کوئی انسان اللہ کے ماسوا کسی اور سے اس درجے کی مدد مانگتا ہے تو وہ توحید کی حقیقت سے غافل ہے۔
اور اگر ایسے کاموں میں مدد مانگتا ہے جو بندے کی طاقت میں داخل ہیں اور اسباب اختیار کرنے سے پورے ہو جاتے ہیں تو ایسی صورت میں کسی سے مدد مانگنا شرک نہیں ہو گا۔ جیسے کسی بھوکے، پیاسے کو کھلا پلا کر اس کی مدد کرنا، کسی مریض کو دوائی دے کر اس کے مرض کو دور کرنے میں مدد کرنا وغیرہ۔
دم اور تعویذ جائز ہیں :
دم اور تعویذ بطور علاج جائز ہیں، بعض لوگ تعویذ ہی کو نفع یا نقصان کا مالک سمجھ لیتے ہیں جو کہ کسی صورت درست نہیں۔ نفع دینے اور نقصان سے بچانے میں اصل ذات اللہ تعالیٰ ہی کی ہے لیکن اللہ رب العزت نے جیسے بعض دوائیوں میں بعض بیماریوں کا علاج رکھ دیا ہے اور اسے اسباب میں داخل فرما دیا ہے اسی طرح بعض کلمات کو بعض بیماریوں کا علاج بنا دیا ہے اور اسے بھی اسباب میں داخل فرما دیا ہے۔ جس طرح بعض مرتبہ دوائی اور طریقہ علاج بے اثر ہو جاتا ہے اسی طرح بعض مرتبہ دم اور تعویذ سے بھی کام پورا نہیں ہوتا۔
عَنْ أَبِي خُزَامَةَ عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ رُقًى نَسْتَرْقِيهَا وَدَوَاءً نَتَدَاوَى بِهِ وَتُقَاةً نَتَّقِيهَا هَلْ تَرُدُّ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ شَيْئًا قَالَ هِيَ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ
جامع الترمذی، باب ماجاء فی الرقی والادویۃ، حدیث نمبر 1991
ترجمہ: حضرت ابو خزامہ فرماتے ہیں کہ میرے والد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: یا رسول اللہ! تعویذ، دوائی اور ڈھال کے بارے میں آپ کیا ارشاد فرماتے ہیں : کیا یہ چیزیں اللہ کی تقدیر کو بدل سکتی ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان چیزوں سے جو فائدہ پہنچتا ہے وہ بھی تقدیر میں لکھے ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔
معلوم ہوا کہ بطور علاج دم اور تعویذ درست ہیں جیسا کہ دوائی کو بطور علاج کے استعمال کرنا درست ہے۔ بعض لوگ اسے بھی شرک کہہ دیتے ہیں جو کسی طرح بھی درست نہیں۔
چند کبیرہ گناہ:
عَنْ عَبْدِ اللهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ سَأَلْتُ أَوْ سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الذَّنْبِ عِنْدَ اللهِ أَكْبَرُ قَالَ أَنْ تَجْعَلَ للهِ نِدًّا وَهُوَ خَلَقَكَ قُلْتُ ثُمَّ أَيٌّ قَالَ ثُمَّ أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَكَ خَشْيَةَ أَنْ يَطْعَمَ مَعَكَ قُلْتُ ثُمَّ أَيٌّ قَالَ أَنْ (ثُمَّ أَنْ) تُزَانِيَ بِحَلِيلَةِ جَارِكَ قَالَ وَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ تَصْدِيقًا لِقَوْلِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللهِ إِلَهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ]
صحیح بخاری، باب قولہ والذین لا یدعون مع اللہ الھا اخر، حدیث 4761
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا اللہ کے ہاں سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اللہ کا شریک ٹھہرائے حالانکہ اس نے ہی تجھے پیدا فرمایا ہے۔ پھر سوال کیا کہ اس کے بعد کون سا گناہ زیادہ بڑا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اپنی اولاد کو اس خوف سے قتل کر ڈالے کہ وہ تیرے ساتھ کھانے پینے میں شریک ہو جائے گا۔ پھر سوال کیا کہ اس کے بعد کون سا گناہ زیادہ بڑا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا )بدکاری(کرے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کی تصدیق کے لیے قرآن کریم )سورۃ الفرقان (کی یہ آیت نازل ہوئی : وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ۔
عباد الرحمن میں صرف وہی لوگ ہی شامل ہو سکتے ہیں جن کے عقائد درست، اعمال مسنون اور اخلاق اچھے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اسلام والی زندگی اور ایمان والی موت نصیب فرمائے۔ شرک سے محفوظ فرما کر پکا موحد بنائے۔