بیوی بچوں کےلیے دعا

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 

class="subheading">بیوی بچوں کےلیے دعا

اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص بندوں کی بارہویں صفت یہ ذکر فرمائی ہے :
وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا
سورۃ الفرقان، آیت نمبر 74
ترجمہ: اور وہ )رحمان کے بندے اللہ سے( اپنے بیوی بچوں کے لیے یوں دعا مانگتے ہیں کہ اے ہمارے رب ان کو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنا اور ہمیں خداخوفی رکھنے والوں کا سردار بنا۔
اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کے اوصاف میں ایک وصف یہ ہے کہ وہ صرف اپنی ذات کی حد تک فکر مند نہیں رہتے بلکہ جس طرح وہ خود اچھے اوصاف اپناتے ہیں اسی طرح وہ اپنے گھر والوں کے لیے بھی دعاگو رہتے ہیں کہ اے اللہ ہمارے گھروالوں کو بھی اپنے دین کے لیے قبول فرما کر ہماری آنکھوں کو ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں فاسقوں اور بُروں کا سردار بنانے کے بجائے اللہ سے ڈرنے والوں کا سردار بنا۔
بیوی کی حیثیت اور تربیت:
بیوی دوہری حیثیت کی مالکہ ہے، اس کی پہلی حیثیت محبوبہ ہونے کی ہے اور دوسری حیثیت محکومہ ہونے کی ہے۔ جب ان دونوں حیثیتوں کا دونوں کو خیال رہتا ہے تو گھریلو نظام زندگی ٹھیک چلتا ہے اور جب ان دو حیثیتوں میں سے کسی حیثیت کو کوئی ایک نظر انداز کرتا ہے تو گھریلو نظام زندگی تباہ ہو جاتا ہے۔
جب مرد خود کو صرف حاکم سمجھتا ہے اور بیوی کو محکومہ تو کچھ ہی عرصہ میں بیوی تنگ دل ہو جاتی ہے اور نوبت لڑائی جھگڑے تک جا پہنچتی ہے۔ اور جب بیوی خود کو صرف محبوبہ سمجھتی ہے قرآنی حکم کے مطابق مرد کو اپنا حاکم نہیں مانتی اور اس کی بات کو خاطر میں نہیں لاتی تو معاملہ طلاق تک جا پہنچتا ہے۔
اسلام نے سب سے بہتر اسے کہا ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھائی کا معاملہ رکھے۔ اس کی چند صورتیں درج ذیل ہیں:

1.

بیوی کو قرآن، نماز اور دیگر دینی احکامات کی تعلیم دیں

2.

بیوی کی دینی تربیت کے لیے اچھی کتابیں خرید کر دیں

3.

بیوی کی جائز ضروریات کو بقدر حیثیت پورا کریں

4.

بیوی کے اچھے کاموں پر اس کی تعریف کریں

5.

بیوی کی غلطیوں کی اچھے انداز میں اصلاح کریں

6.

بیوی کے نامناسب رویے پر صبر کا مظاہرہ کریں

7.

بیوی پر شک کرنے کے بجائے اعتماد کریں

8.

بیوی کے رشتہ داروں بالخصوص والدین کا احترام کریں

9.

بیوی کو ناجائز امور سے دور رکھیں

10.

بیوی کو کچھ خرچہ ایسا بھی دیں جس کا بعد میں حساب نہ لیں
بچوں کی تربیت کے چند اہم اصول:
بچوں کی تربیت کے دو پہلو ہیں، جسمانی اور اخلاقی۔ جسمانی طور پر اسے تندرست رکھنے کےلیے اچھی اور مناسب خوراک کا بندوبست کیا جائے تاکہ ایسے بچوں کی بدولت صحت مند معاشرہ تشکیل پا سکے جبکہ اخلاقی،روحانی اور علمی تربیت کے لیےعمدہ تعلیم،اچھے معلم، اچھی تعلیم گاہیں اور اچھا ماحول دیا جائے تاکہ ان کی بدولت صالح افراد کا مقدس معاشرہ تشکیل پا سکے۔ پیدائش کےبعد اسلامی تعلیمات کے مطابق درج ذیل سارے امور انجام دیں۔

1.

گھٹی دینا)کوشش کریں کہ کسی صحیح العقیدہ عالم یا کم از کم نیک آدمی سے دلوائیں(

2.

نومولود کے دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہنا

3.

ان کا اچھا نام رکھنا

4.

ساتویں دن عقیقہ کرنا )بچے کے لیے دو بکرے جبکہ بچی کے لیے ایک بکرا( اگر دو بکروں کی استطاعت نہ ہو تو ایک بھی ذبح کیا جا سکتا ہے۔ قربانی کے بڑے جانور میں بھی عقیقہ کا حصہ ڈالا جاسکتا ہے۔

5.

سر کے بال مونڈنا، ان کے وزن کے برابر چاندی یا اس کی رقم صدقہ کرنا

6.

ساتویں دن ختنہ کرنا

7.

بولناشروع ہو تو کلمہ طیبہ اور اللہ کے مبارک نام )اسماء الحسنیٰ (یاد کرانا

8.

قرآن کریم کی تعلیم دینا

9.

نماز قائم کرنے کی عادت ڈالنا

10.

سچ بولنے کا عادی بنانا

11.

بڑوں کا ادب سکھانا

12.

طہارت و غسل کا طریقہ سمجھانا

13.

مسنون اعمال کا پابند بنانا

14.

رات کو جلد سونے اور صبح کو جلد اٹھنے کا عادی بنانا

15.

عقائد اسلامیہ اور روزمرہ کے پیش آمدہ ضروری مسائل کی تعلیم دلوانا

16.

کسی اللہ والے سے اصلاحی تعلق قائم کرانا

17.

دنیا و آخرت بہتر بنانے کی فکر پیدا کرنا

18.

غلط حرکات کی پیار و محبت اور بقدر ضرورت ڈانٹ ڈپٹ سے اصلاح کرنا

19.

غیر اخلاقی باتوں اور کاموں سے روکنا

20.

معاشرتی جرائم کے ماحول سے دور رکھنا

21.

غلط سوسائٹی، دوستی اور تعلقات سے دور رکھنا

22.

تمام ایسے ذرائع و آلات سے دور رکھنا جن سے بچوں میں غیر شعوری طور پر فکری و تہذیبی فساد پیدا ہوتا ہے۔ مثلاً فحش ویب سائٹس، ٹی وی چینلز، گانے باجے، سوشل میڈیا کا غلط استعمال

23.

معیاری عصری تعلیم گاہوں کا انتخاب کرنا، مخلوط نظام سے دور رکھنا

24.

بچوں کے ہوم ورک کی نگرانی کرنا

25.

ہر کام کو سلیقہ مندی سے کرنے کا عادی بنانا

26.

اچھے کاموں پرحوصلہ افزائی جبکہ غلط کاموں پر مناسب انداز میں احساس ندامت دلانا

27.

ان کی جسمانی صحت کا بھرپور خیال رکھنا

28.

ورزش، کھیل کود کے لیے انہیں وقت دینا

29.

خوراک معیاری دینا اگرچہ سادہ ہی ہو

30.

بازار ی مضر صحت اشیاء سے پرہیز کرانا
الغرض ان کو بھرپور پیار دینا اور ان کی تمام ضروریات کو پورا کرنا اولاد کی تربیت کہلاتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ بلوغ کے بعد بچے اور بچی کی رضامندگی معلوم کر کے مناسب رشتے مل جانے پرجلد ہی نکاح کر دینا۔
یہ دیکھنا ہو گا کہ ہم اپنے بچوں کی تربیت کیسی کر رہے ہیں؟ اگر تربیت اچھی کر رہے ہیں تو یہی اولاد آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اور اگر ہم تربیت میں غفلت برت رہے ہیں یا انہیں وقت نہیں دے پا رہے تو ہماری یہ نسل بگڑ جائے گی۔ پھر انہیں نافرمان ہونے کے طعنے دینا اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہو گا۔
ان سب کے باوجود ان کے لیے دعائیں کرنا کہ اے اللہ ہماری اولاد کو نیک بنا، یہی وجہ ہے کہ ہم جب نماز ختم کرنے لگتے ہیں تو اس میں اپنے بچوں کے اچھے مستقبل کے لیے دعا مانگتے ہیں۔ یہاں بھی قرآن کریم نے بچوں کے لیے دعا سکھلائی ہے۔ بچوں کی تربیت کےساتھ ساتھ ان کے لیے دعاؤں کا اہتمام ضرور کرنا چاہیے۔
جو شخص اپنے گھریلو نظام زندگی سے پریشان ہو اسے چاہیے کہ وہ اس دعا کو کثرت کے ساتھ اللہ سے مانگتا رہے۔ اللہ کی ذات سے پوری امید بلکہ یقین ہے کہ پریشانیاں ختم ہوں گی اور خوشیاں نصیب ہوں گی۔