جن کی دعائیں جلد قبول ہوتی ہیں

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
جن کی دعائیں جلد قبول ہوتی ہیں
اللہ تعالیٰ نے دنیا کو امتحان کی اور آخرت کو جزاء و سزا کی جگہ بنایا ہے ، یہاں آزمائش کے لیے خوشیاں بھی عطاء کی ہیں کون ان کو میری نعمت اور احسان سمجھ کر شکر ادا کرتا ہے اور غم بھی پیدا فرمائے ہیں کون ان کو اپنی غلطی سمجھ کر میری طرف رجوع کرتا ہے؟
انسان کو دنیا میں یہ دونوں چیزیں نصیب ہوتی ہیں لیکن افسوس صد افسوس کہ صرف اس کو غم ہی یاد رہتے ہیں ،پریشانی کے آزمائشی لمحات میں اپنے رب سے گلے شکوے، شکایتیں اور ناشکری ہی کرتا ہے ، اس ذات کی طرف سے ملنے والی خوشیوں اور نعمتوں کو سرے سے بھلا دیتا ہے بلکہ ان کو اللہ کا محض فضل ، احسان اور کرم سمجھنے کے بجائے اپنا ”کمال “سمجھتا ہے ۔
اے کاش! ہمیں اپنی ان دونوں غلطیوں کا احساس ہو سکے، خوشیوں کو اس کی عطاء سمجھیں اور شکر ادا کریں ،مصائب اور پریشانیوں کو بھی اللہ کا انعام سمجھیں کیونکہ اللہ تعالیٰ جس مسلمان کو دنیاوی آزمائشوں میں مبتلا کرتے ہیں تو اس کی دعا ؤں کو اپنی بارگاہ میں قبولیت سے نوازتے ہیں، یہ اس ذات کا کرم ،بے پناہ کرم اور محض کرم ہی ہے ۔
اصل بات یہ ہے کہ ہمارے دل میں یہ احساس پیدا ہو جائے کہ ہم اللہ کی مخلوق ،اس پر ایمان لانے اور اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں ۔ وہ ذات ہم سے پیار کرتی ہے ،دنیا میں خوشیاں عطاء کر کے آخرت کی حقیقی خوشیوں کا احساس دلاتی ہے کہ دیکھو دنیا کی خوشیاں عارضی ہیں ان کے ختم ہونے کا دھڑکا سا لگا رہتا ہے، چھن جانے کا خوف دامن گیر رہتا ہے، جبکہ آخرت کی خوشیاں مستقل ہیں، ان کے ختم ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ کوئی چھین نہیں سکتا ہے۔
اسی طرح وہ ذات دنیاوی پریشانیاں دے کر آخرت کی حقیقی پریشانیوں سے نجات حاصل کرنے کا موقع دیتی ہےکہ دیکھو تم دنیا کی پریشانیوں کو جو وقتی اور عارضی ہیں ان کو برداشت نہیں کرسکتے تو آخرت کی لمبی پریشانیاں کیسے برداشت کر سکو گے؟
اللہ تعالیٰ ہمیں جھنجوڑنے اور غفلت سے دور کرنے کے لیے تنبیہ کے طور پر چند پریشانیوں سے دوچار کرتے ہیں تاکہ یہ بندے آخرت کی بڑی اور لمبی پریشانیوں سے بچنے کی وہ تدابیر اختیار کر سکیں جو میرے احکامات اور میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں موجود ہیں بلکہ قرآن و سنت میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عین اس وقت بھی جب کسی مسلمان پر مصائب و مشکلات نازل ہو رہے ہوتے ہیں اس وقت بھی وہ اللہ کے کرم کے سایہ میں ہوتا ہے اگر وہ کسی گناہ کی وجہ سے اس پر نازل ہو رہی ہیں تو سنبھلنے کا موقع مل رہا ہوتا ہے بلکہ اس شخص کو اس وقت اللہ تعالیٰ ایک بہت بڑی نعمت عطاء فرماتے ہیں کہ ایسے شخص کی دعا ء کو قبول فرماتے ہیں ۔
ذیل میں ہم چند ایسے اشخاص کا تذکرہ کرتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کسی نہ کسی پریشانی سے دوچار کر کے ان کی دعاؤں کو جلد قبولیت کا شرف عطاء فرماتے ہیں ۔
بے بس کی دعاء:
انسان کی زندگی میں ایسے مواقع بھی آتے ہیں کہ وہ بالکل بے بس ہوجاتا ہے ، یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب اللہ کریم اس کی دعاء کو قبول فرماتے ہیں اس لیےبھرپور کوشش کرنی چاہیے کہ ایسے وقت کو خدا کی ناشکری میں ضائع کرنے کے بجائے دعا ئیں مانگنے میں خرچ کیا جائے ۔
أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ
سورۃ النمل آیت نمبر 62
ترجمہ: )بھلا اللہ کے علاوہ اور کون ہو سکتا ہے ؟جو ( بے کس و بے بس انسان کی دعاء کو قبول اور اس سے حالات کی سختی کو دور فرماتا ہے ۔
مریض کی دعاء:
انسانی زندگی میں کبھی صحت غالب آتی ہے اور کبھی مرض غلبہ پا لیتا ہے لیکن جب انسان کسی مرض میں مبتلا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی دعاء کو قبول فرماتے ہیں، مرض اس کے گناہوں کا کفارہ اور بلندی درجات کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ ہاں اللہ سے صحت کی دعاء مانگنی چاہیے لیکن اگر مرض آ بھی جائے تو انسان کی دعا ء اللہ جلد قبول فرماتے ہیں ۔ علاج کے ساتھ ساتھ دعاؤں کا بھرپور اہتمام کرنا چاہیے ۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:لَا تُرَدُّ دَعْوَةُ الْمَرِيضِ حَتَّى يَبْدَأَ
شعب الایمان للبیہقی، فصل فی ذکر ما فی الاوجاع والامراض، حدیث نمبر 9555
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مریض جب تک حالت مرض میں رہتا ہے تو اس کی دعاء رد نہیں کی جاتی )بلکہ قبول ہوتی رہتی ہے(
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُودُوا الْمَرْضَى وَمُرُوهُمْ فَلْيَدْعُوا لَكُمْ فَإِنَّ دَعْوَةَ الْمَرِيضِ مُسْتَجَابَةٌ
الدعاء للطبرانی،باب ماجاء فی دعاء المریض لعوادہ، حدیث نمبر 1136
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مریضوں کی عیادت کیا کرو اور ان سے اپنے لیے دعاء کی درخواست کیا کرو کیونکہ مریض کی دعاء قبول ہوتی ہے ۔
فائدہ: اس سے معلوم ہوا کہ مریض کو اپنے لیے بھی دعاء کرنی چاہیے اور عیادت کے لیے آنے والوں کو بھی مریض سے دعا ء کی درخواست کرنی چاہیے ۔
مظلوم ، مسافر اور باپ کی دعاء:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثُ دَعَوَاتٍ مُسْتَجَابَاتٌ دَعْوَةُ الْمَظْلُومِ وَدَعْوَةُ الْمُسَافِرِ وَدَعْوَةُ الْوَالِدِ عَلَى وَلَدِهِ۔
جامع الترمذی، باب ما ذکر فی دعوۃ المسافر، حدیث نمبر3370
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین دعائیں قبول ہوتی ہیں: مظلوم کی دعاء ، مسافر کی دعا ء اور والد کی دعاء اپنی اولاد کے حق میں۔
مظلوم:
اللہ تعالیٰ ظلم کو پسند نہیں فرماتے۔ جو کسی کو ناحق ستائے تکلیف دے اسے ظالم کہتے ہیں اور جس کو ناحق ستایا جائے تکلیف دی جائے وہ مظلوم کہلاتا ہے اس وقت دنیا میں مسلمان بڑی تعداد میں مظلومیت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ حدیث مبارک میں مظلوم کی بددعاء سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ ایک اور حدیث میں مظلوم کی دعاء کو مستجاب کہا گیا ہے یعنی اللہ کے ہاں مظلوم کی دعاء جلد قبول ہونے والی ہے ۔
مسافر:
انسان کا جسم راحت کا خواہش مند ہوتا ہےلیکن حالت سفر میں اسے صعوبت و پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، اللہ کریم کا کرم دیکھیے کہ انسان پر سفر کی ہلکی سے پریشانی آتی ہے تو اللہ اس پر اپنا کرم یہ فرماتے ہیں کہ اس کی دعاء کو جلد قبول فرما لیتے ہیں۔
والد:
اولاد اللہ کی نعمت ہے، اللہ جسے یہ نعمت عطاء فرماتا ہے تو اس کی ذمہ داریاں بھی بڑھا دیتا ہے:پرورش، رہائش، خوراک، تعلیم، تربیت اخلاق، ادب اور دینی احکامات پر عمل کی پابندی کرانا یہ والدین پر اولاد کے بنیادی حقوق ہیں۔ ان حقوق کی ادائیگی میں بسا اوقات انسان کو پریشانیاں بھی لاحق ہوتی ہیں، ایسے وقت میں ایک باپ کی دعاء کو اللہ تعالیٰ جلد قبول فرماتے ہیں ۔
عادل حکمران ، روزہ دار اور مظلوم کی دعاء:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَةٌ لَا تُرَدُّ دَعْوَتُهُمْ الْإِمَامُ الْعَادِلُ وَالصَّائِمُ حَتَّى يُفْطِرَ وَدَعْوَةُ الْمَظْلُومِ يَرْفَعُهَا اللَّهُ دُونَ الْغَمَامِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَتُفْتَحُ لَهَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَيَقُولُ بِعِزَّتِي لَأَنْصُرَنَّكِ وَلَوْ بَعْدَ حِينٍ
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین طرح کے لوگوں کی دعائیں رد نہیں کی جاتیں: عادل حکمران، روزہ دار اور مظلوم کی دعاء قیامت کے دن بادلوں کے اوپر چلی جائے گی اور آسمان کے دروازے اس کے لیے کھول دیئے جائیں گے اللہ تعالیٰ فرمائیں گے مجھے میری عزت کی قسم میں تیری مدد ضرور کروں گا اگرچہ کچھ وقت کے بعد ہو۔
عادل حکمران:
جس کو کسی قوم پر حاکم بنا دیا جائے ، تو اس قوم کو انصاف فراہم کرنا حاکم کے ذمہ ہوتا ہے ، معاشرے میں جرائم کی کثرت اور مجرموں کا طاقتور ہونا ایک زمینی حقیقت ہے، ایسے میں انصاف کی فراہمی سب سے مشکل کام ہوتا ہے لیکن جس شخص کو اللہ تعالیٰ اس مشکل مرحلے سے گزارتے ہیں تو اس کو دنیا میں یہ انعام عطاء فرماتا ہے کہ ایسے شخص کی دعاء کو جلد قبول فرماتے ہیں ۔
روزہ دار:
روزے میں صبح صادق سے غروب آفتاب بھوک ،پیاس اور جائز جنسی تعلقات سے رکنا ہوتا ہے اگرچہ یہ کچھ وقت کے لیے ہوتا ہے صبح سحری میں بھی کھانا وغیرہ کی اجازت ہوتی ہے اور شام کو افطاری میں بھی کھانے پینے کا حکم ہے۔ اس تھوڑے سے وقت میں اللہ کو راضی کرنے اور اس کا حکم ماننے کے لیے جو برداشت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے کہ کھانے پینے کی تمام چیزیں سامنے رکھی ہوئی ہیں لیکن بندہ کچھ نہیں کھا رہا اس پر اللہ تعالیٰ دنیا میں ہی یہ انعام عطاء فرماتے ہیں کہ ایسے شخص کی دعاء کوقبول فرماتے ہیں ۔
نوٹ: مذکورہ بالا حدیث مبارک میں تیسرا طبقہ مظلومین کا ہے چونکہ اس بارے پہلی حدیث میں بات ہو چکی ہےاس لیے دوبارہ ذکر نہیں کی جا رہی ۔
غازی ، حاجی اور عمرہ کرنے والے کی دعاء:
میدان کارزار میں اعلائے کلمۃ اللہ کےلیے جذبہ سرفروشی کے ساتھ سربکف سپاہی مشکل حالات کا سامنا کرتا ہے، ان مشکلات پر اللہ تعالیٰ یہ انعام عطاء فرماتے ہیں کہ اللہ ایسےشخص کی دعاء کوقبول فرماتے ہیں۔ حج اور عمرہ کرنے والوں کو بھی اللہ تعالیٰ یہ سعادت نصیب فرماتے ہیں کہ ان کی دعاؤں کو جلد قبول فرماتے ہیں ۔
عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُما عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْغَازِي فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْحَاجُّ وَالْمُعْتَمِرُ وَفْدُ اللَّهِ دَعَاهُمْ فَأَجَابُوهُ وَسَأَلُوهُ فَأَعْطَاهُمْ۔
سنن ابن ماجہ، باب فی فضل دعاء الحاج، حدیث نمبر 2884
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: غازی فی سبیل اللہ ، حج کرنے والے اور عمرہ کرنے والے اللہ کے مہمان ہیں ان کو اللہ نے پکارا تو انہوں نے لبیک کہا وہ اللہ سے دعاء مانگتے ہیں تو اللہ ان کو عطاء فرماتے ہیں ۔
ذاکر، مظلوم اور عادل حکمران کی دعاء:
، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ : ثَلاثَةٌ لاَ يَرُدُّ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ دُعَاءَهُمُ الذَّاكِرُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ كَثِيرًا وَدَعْوَةُ الْمَظْلُومِ وَالإِمَامُ الْمُقْسِطُ ۔
الدعاء للطبرانی، باب دعاء المظلوم، حدیث نمبر 1316
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین لوگوں کی دعاء اللہ تعالیٰ رد نہیں فرماتے:کثرت کے ساتھ اللہ کا ذکر کرنے والا، مظلوم اور انصاف کرنے والے حکمران کی دعا ء ۔
ذکر اللہ کرنے والا:
اللہ تعالیٰ کے ذکر کے بے پناہ فضائل و مناقب اور اس کے فوائد و ثمرات ہیں۔جن میں سے کچھ کا تذکرہ میں اپنی کتاب وعظ و نصیحت جلد اول میں کر چکا ہوں وہاں دیکھ لیے جائیں۔ ایسا شخص جو کثرت کے ساتھ اللہ کا ذکر کرتا ہے تو اس کی دعاء بھی اللہ جلد قبول فرماتے ہیں۔
نوٹ: مظلوم اور عادل حکمران کی بات پہلے گزر چکی ہے اس لیے مذکورہ بالا حدیث کے تحت ذکر نہیں کی جا رہی ۔
عدم موجودگی میں دعاء:
کسی کے سامنے اس کی اچھائی بیان کرنا بھی اچھی بات ہے لیکن اس میں کبھی دنیاوی اغراض ومقاصد کو دخل ہوتا ہےاور جو دعاء اپنے مسلمان بھائی کی عدم موجودگی میں کی جائے اس میں یہ شائبہ بھی نہیں ہوتا اس اخلاص کی وجہ سے اللہ تعالی ایسے مسلمان کی دعاء کو قبول فرماتے ہیں جو اپنے ایک مسلمان بھائی کےلیے اس کی عدم موجودگی میں کرے۔
عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا مِنْ عَبْدٍ مُسْلِمٍ يَدْعُو لِأَخِيهِ بِظَهْرِ الْغَيْبِ إِلاَّ قَالَ الْمَلَكُ: وَلَكَ بِمِثْلٍ۔
صحیح مسلم، باب فضل الدعاء للمسلمین بظہر الغیب، حدیث نمبر 7027
ترجمہ: حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی مسلمان اپنے بھائی کی عدم موجودگی میں اس کے لیے دعاء کرتا ہے تو ایک مقرر فرشتہ اس کے جواب میں کہتا ہے کہ جو تو نے اپنے بھائی کے لیے مانگا ہے اللہ تجھے بھی وہی عطاء کرے۔