دعاء میں وسیلہ

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
دعاء میں وسیلہ
اللہ تعالیٰ سے دعاء مانگتے وقت نیک اعمال اور نیک اشخاص کا توسل )وسیلہ پیش کرنا(قرآن و سنت کی روشنی میں جائز بلکہ مستحب )پسندیدہ(، اقرب الی الاجابۃ )قبولیت کے زیادہ قریب(اور آداب میں سے ہے ۔
شریعت میں توسل سے مراد اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا ہے، وہ چاہے ہر اُس نیک عمل کے ساتھ حاصل کیا جائے جو اللہ تعالیٰ کو محبوب ہو ، مثلاً نماز ، روزہ ، زکوٰۃ، حج ، ذکر اذکار ،تلاوت ، نفلی عبادات ، سماجی و رفاہی خدمات ، لوگوں سے حسن سلوک وغیرہ یا پھر اہل اسلام کی مقدس شخصیات انبیاء کرام ، صحابہ و اہل بیت عظام اور اولیاء اللہ کو وسیلہ بنا کر حاصل کیا جائے ۔
اس بات کو آسان انداز میں سمجھنے کے لیے ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ توسل دو طرح کا ہوتا ہے، توسل بالاعمال اور دوسرا توسل بالذات ۔
توسل بالاعمال:
هُوَ التَّقَرُّبُ إِلَى اللهِ تَعَالىٰ بِطَاعَتِهِ وَعِبَادَتِهِ وَاِتِّبَاعِ أَنْبِيَائِهِ وَرُسُلِهِ وَبِكُلِّ عَمَلٍ يُّحِبُّهُ اللهُ وَيَرْضَاهُ .
التوصل الی حقیقۃ التوسل
ترجمہ: وسیلہ بالاعمال سے مراد اللہ تعالیٰ کی اطاعت، عبادت، اس کے انبیاء و رسل کی اتباع اور ہر اس عمل کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کرنا ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہو اور اللہ اس سے راضی ہو۔
توسل بالذات:
وَاَنْ یَّتَوَسَلَ بِالنَّبِیِّ صَلَّى الله عَليْهِ وَسَلَّمَ وَبِاَحَدٍ مِّنَ الْاَوْلِیَاءِ الْعِظَامِ جَائِزٌ بِاَنْ یَّکُوْنَ السُّوَال مِنَ اللہِ تَعَالیٰ وَ یَتَوَسَّلَ بِوَلِیِّہِ وَ نَبِیِّہِ صَلَّى الله عَليْهِ وَسَلَّمَ ۔
امداد الفتاویٰ، ج6 ص327
ترجمہ: نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم اور کسی ولی کی ذات سے وسیلہ کیا جائے جس کی صورت یہ ہے کہ مانگا تو اللہ تعالیٰ ہی سے جائے لیکن واسطہ ولی یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہو۔
توسل میں دعاء مانگی اللہ ہی سے جاتی ہے لیکن جب نیک اشخاص خصوصاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کا وسیلہ دیا جاتا ہے تواللہ تعالیٰ اپنے محبوب کی لاج رکھتے ہوئے دعاء کو جلد قبول فرماتے ہیں ۔
اھل السنۃ والجماعۃ کا متفقہ عقیدہ:
اسی طرح اھل السنۃ والجماعۃ دیوبند کی متفقہ دستاویز ”المہند علی المفند“ میں ہے درج ہے :
عِنْدَنَا وَعِنْدَ مَشَايِخِنَا يَجُوْزُ التَوَسُّلُ فِي الدَّعْوَاتِ بِالْأَنْبِيَاءِ وَ الصَّالِحِيْنَ مِنَ الْأَوْلِيَاءِ وَ الشُّهَدَاءِ وَ الصِّدِّيْقِيْنَ فِيْ حَيَاتِهِمْ وَ بَعْدَ وَفَاتِهِمْ بِأَنْ یَقُوْلَ فِيْ دُعَائِهٖ:اَللّهُمَّ إِنِّي أَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِفُلَانٍ أَنْ تُجِيْبَ دَعْوَتِيْ وَ تَقْضِيَ حَاجَتِيْ۔۔ إِلٰى غَيْرِ ذٰلِكَ۔
ترجمہ: ہمارے نزدیک اور ہمارے مشائخ کے نزدیک دعا میں انبیاء ،اولیاء، شہداء اور صدیقین کا توسل جائز ہے، ان کی زندگی میں بھی اور وفات کے بعد بھی، آدمی یوں دعاء کرے: اے اللہ! فلاں بزرگ کے وسیلہ سے میری دعا قبول فرما اورمیری اس ضرورت کوپورافرما۔
نوٹ : توسل بالاعمال اور توسل بالذوات کے جائز ہونے پر یوں تو بہت زیادہ دلائل ہیں لیکن یہاں پر ہم صرف تین دلیلیں ذکر کرتے ہیں ، پہلی توسل بالاعمال کی اور دوسری دو توسل بالذوات کی ۔
أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ انْطَلَقَ ثَلَاثَةُ رَهْطٍ مِمَّنْ كَانَ قَبْلَكُمْ حَتَّى أَوَوُا الْمَبِيتَ إِلَى غَارٍ فَدَخَلُوهُ فَانْحَدَرَتْ صَخْرَةٌ مِنَ الْجَبَلِ فَسَدَّتْ عَلَيْهِمُ الْغَارَ فَقَالُوا إِنَّهُ لَا يُنْجِيكُمْ مِنْ هَذِهِ الصَّخْرَةِ إِلَّا أَنْ تَدْعُوا اللهَ بِصَالِحِ أَعْمَالِكُمْ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْهُمُ اللَّهُمَّ كَانَ لِي أَبَوَانِ شَيْخَانِ كَبِيرَانِ وَكُنْتُ لَا أَغْبِقُ قَبْلَهُمَا أَهْلًا وَلَا مَالًا فَنَأَى (فَنَاءَ) بِي فِي طَلَبِ شَيْءٍ يَوْمًا فَلَمْ أُرِحْ عَلَيْهِمَا حَتَّى نَامَا فَحَلَبْتُ (فَحَمَلْتُ) لَهُمَا غَبُوقَهُمَا فَوَجَدْتُهُمَا نَائِمَيْنِ وَكَرِهْتُ أَنْ أَغْبِقَ قَبْلَهُمَا أَهْلًا أَوْ مَالًا فَلَبِثْتُ وَالْقَدَحُ عَلَى يَدَيَّ أَنْتَظِرُ اسْتِيقَاظَهُمَا حَتَّى بَرَقَ الْفَجْرُ فَاسْتَيْقَظَا فَشَرِبَا غَبُوقَهُمَا اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتُ فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَفَرِّجْ عَنَّا مَا نَحْنُ فِيهِ مِنْ هَذِهِ الصَّخْرَةِ فَانْفَرَجَتْ شَيْئًا لَا يَسْتَطِيعُونَ الْخُرُوجَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ الْآخَرُ اللَّهُمَّ كَانَتْ لِي بِنْتُ عَمٍّ كَانَتْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيَّ فَأَرَدْتُهَا عَنْ (عَلَى) نَفْسِهَا فَامْتَنَعَتْ مِنِّي حَتَّى أَلَمَّتْ (أَلْمَمَتْ) بِهَا سَنَةٌ مِنَ السِّنِينَ فَجَاءَتْنِي فَأَعْطَيْتُهَا عِشْرِينَ وَمِائَةَ دِينَارٍ عَلَى أَنْ تُخَلِّيَ بَيْنِي وَبَيْنَ نَفْسِهَا فَفَعَلَتْ حَتَّى إِذَا قَدَرْتُ عَلَيْهَا قَالَتْ لَا أُحِلُّ لَكَ أَنْ تَفُضَّ الْخَاتَمَ إِلَّا بِحَقِّهِ فَتَحَرَّجْتُ مِنَ الْوُقُوعِ عَلَيْهَا فَانْصَرَفْتُ عَنْهَا وَهِيَ أَحَبُّ النَّاسِ إِلَيَّ وَتَرَكْتُ الذَّهَبَ الَّذِي أَعْطَيْتُهَا اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتُ فَعَلْتُ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ عَنَّا مَا نَحْنُ فِيهِ فَانْفَرَجَتِ الصَّخْرَةُ غَيْرَ أَنَّهُمْ لَا يَسْتَطِيعُونَ الْخُرُوجَ مِنْهَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ الثَّالِثُ اللَّهُمَّ إِنِّي اسْتَأْجَرْتُ أُجَرَاءَ فَأَعْطَيْتُهُمْ أَجْرَهُمْ غَيْرَ رَجُلٍ وَاحِدٍ تَرَكَ الَّذِي لَهُ وَذَهَبَ فَثَمَّرْتُ أَجْرَهُ حَتَّى كَثُرَتْ مِنْهُ الْأَمْوَالُ فَجَاءَنِي بَعْدَ حِينٍ فَقَالَ يَا عَبْدَ اللهِ أَدِّ (أَدِّي) إِلَيَّ أَجْرِي فَقُلْتُ لَهُ كُلُّ مَا تَرَى مِنْ أَجْرِكَ (أَجْلِكَ) مِنَ الْإِبِلِ وَالْبَقَرِ وَالْغَنَمِ وَالرَّقِيقِ فَقَالَ يَا عَبْدَ اللهِ لَا تَسْتَهْزِئُ بِي فَقُلْتُ إِنِّي لَا أَسْتَهْزِئُ بِكَ فَأَخَذَهُ كُلَّهُ فَاسْتَاقَهُ فَلَمْ يَتْرُكْ مِنْهُ شَيْئًا اللَّهُمَّ فَإِنْ كُنْتُ فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ عَنَّا مَا نَحْنُ فِيهِ فَانْفَرَجَتِ الصَّخْرَةُ فَخَرَجُوا يَمْشُونَ ۔
صحیح بخاری ، باب من استاجر اجیرا فترک الاجیر اجرہ ، حدیث نمبر 2272
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ : تم سے پہلی امتوں میں سے تین شخص ایک سفر پر نکلے، دوران سفر رات ہوگئی اور بارش بھی ہونے لگی تو ایک غار میں رات گذارنے کے لیے وہ حضرات داخل ہوگئے؛ لیکن تھوڑی ہی دیر بعد ایک بڑا سا پتھر لڑھک کر نیچے آیا اور غار کے دھانے کو بند کردیا، یہ دیکھ کر انہوں نے آپس میں مشورہ کیاکہ اس آزمائش سے نجات کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟
مشورہ سے یہی طے ہوا کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے اپنے نیک عمل کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ سے دعاء کرے،چنانچہ وہ اپنے اپنے عمل کے حوالے سے دعائیں کرنے لگے۔ پہلے شخص نے دعاء کرتے ہوئے کہا:
یا اللہ! تو جانتا ہے کہ میرے ماں باپ بوڑھے تھے اور شام کو میں سب سے پہلے انہی کو دودھ پلاتا تھا، ان سے پہلے میں اہل وعیال اور غلام وخادم کو نہیں پلاتاتھا،ایک دن میں اپنے جانوروں کے چارہ کی تلاش میں دور نکل گیا اور جب واپس آیا تومیرے والدین سو چکے تھے، میں نے دودھ دوہا اور ان کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا تو دیکھا کہ وہ گہری نیند میں ہیں، میں نے ان کو جگانا مناسب نہیں سمجھا اور ان سے پہلے اپنے اہل وعیال اور غلاموں کو پلانا بھی گوارا نہیں کیا، میں دودھ کا پیالہ ہاتھ میں پکڑے، ان کے سرہانے کھڑا، ان کے جاگنے کا انتظار کررہا تھا، حتی کہ صبح ہوگئی، جب وہ خود بیدار ہوئے تو میں نے انہیں ان کے شام کے حصے کا دودھ پلایا، یا اللہ! تو جانتا ہے کہ میں نے یہ کام صرف تیری رضا اور خوشنودی کے لیے کیا تھا۔ تجھے اس کا واسطہ ہمیں اس مصیبت سے نجات عطا فرما ، دعاء کے نتیجے میں وہ چٹان تھوڑی سی سرک گئی، لیکن باہر نکلنا ممکن نہ تھا۔
دوسرے شخص نے دعا کرتے ہوئے کہا: یا اللہ! تو جانتا ہے کہ میری ایک چچازاد بہن تھی، جو مجھے سب سے زیادہ محبوب تھی، حتی کہ وہ محبت اپنے انتہا کو پہنچ چکی تھی، ایک مرتبہ میں نے اس سے اپنی نفسانی خواہش پوری کرنے کا ارادہ کیا، لیکن وہ آمادہ نہیں ہوئی اور انکار کردیا، حتی کہ ایک وقت آیا کہ قحط سالی نے اسے میرے پاس آنے پر مجبور کردیا، میں نے اسے اس شرط پر ایک سو بیس دینار دیے کہ وہ اپنے آپ سے نہ روکے ، وہ آمادہ ہوگئی، جب میں تنہائی میں اسے لے گیا وہ ہرطرح سے میرے قابو میں آگئی تھی، یہاں تک کہ وہ میری مکمل دسترس میں تھی اسی دوران اس نے مجھ سے کہا کہ اللہ سے ڈر!اس کے ان الفاظ نے یا اللہ تیرا خوف میرے اوپر طاری کردیا اور میں اس سے دور ہوگیا، حالانکہ وہ عورتوں میں مجھے سب سے زیادہ محبوب تھی،اور میں نفسانی خواہشات کو پورا بھی کر سکتا تھا لیکن تیرے خوف سے میں نے گناہ چھوڑ دیا میں نے سونے کے وہ دینار بھی اس کو دے دیے۔یا اللہ! اگر میں نے یہ کام تیری رضا کے لیے کیا تھا تو ہمیں اس مصیبت سے نجات عطا فرما چنانچہ وہ چٹان کچھ اور سرک گئی، لیکن باہر نکلنے کا راستہ اب بھی بدستور ناکافی تھا۔
تیسرے شخص نے دعاء مانگتے ہوئے کہا : یا اللہ! تجھے میری حقیقت حال اچھی طرح معلوم ہے ،میں نے اپنے کام کے لیے کچھ مزدوروں کو اجرت پر رکھا تھا، سب کی اجرت میں نے ادا کردی، صرف ایک مزدور ناراض ہو کر اپنی مزدوری لیے بغیر چلا گیا، میں نے اس کی مزدوری سے غلہ خریدا، اسے بویا، پھر اس سے بتدریج بکری، گائے اور غلام وغیرہ خریدے، حتی کہ بہت سارا مال جمع ہوگیا ۔کچھ عرصہ کے بعد وہ آیا اور کہنے لگا کہ اللہ کے بندے! مجھے میری اجرت ادا کردے، میں نے کہا: یہ اونٹ، گائے، بکریاں اور غلام جو تجھے نظر آرہے ہیں، یہ سب تیری اجرت کا ثمرہ ہیں، ان سب کے تم مالک ہو، اس نے کہا: اللہ کے بندے! مجھ سے مذاق نہ کر، میں نے کہا : میں تم سے مذاق نہیں کررہا ہوں، حقیقت بیان کررہا ہوں، چنانچہ وہ سارے کا سارا مال لے کر چل دیا، یا اللہ! اگر میں نے یہ کام صرف تیری رضا کی خاطر کیا ہے، توہمیں اس مصیبت سے نجات عطا فرما۔ وہ چٹان بالکل ہٹ گئی اور غار کا منہ کھل گیا او ر تینوں باہر نکل آئے۔
عَنْ اَنَسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ إِذَا قَحَطُوا اسْتَسْقَى بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا فَتَسْقِينَا وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا قَالَ فَيُسْقَوْنَ۔
صحیح بخاری،باب سوال الناس الامام الاستسقاء اذا قحطوا، حدیث نمبر 1010
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب لوگ قحط میں مبتلا ہوتے تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس بن عبدالمطلب کے وسیلہ سے دعا ء کرتے اور فرماتے کہ اے اللہ! ہم تیرے پاس تیرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ لے کر آیا کرتے تھے تو تو ہمیں سیراب کرتا تھا، اب ہم لوگ اپنے نبی کے چچا (حضرت عباس رضی اللہ عنہ) کا وسیلہ لے کر آئے ہیں، ہمیں سیراب فرما۔ راوی کا بیان ہے کہ لوگ سیراب کئے جاتے( یعنی بارش ہوجاتی)
عن عثمان بن حُنَيْف : أن رجلا ضريرَ البصر أتى النبيَ صلى الله عليه و سلم فقال ادعُ اللهَ لی أن يعافيَني . فقال إن شئتَ أخرت لك وهو خير وإن شئتَ دعوتُ۔ فقال ادعه . فأمره أن يتوضأ فيحسن وضوءه ويصلي ركعتين . ويدعو بهذا الدعاء اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْکَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ يَا مُحَمَّدُ إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِکَ إِلَی رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَی اللَّهُمَّ شَفِّعْهُ فِيَّ
سنن ابن ماجۃ، باب صلوٰۃ الحاجۃ
ترجمہ: حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک نابیناآدمی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور درخواست کی کہ اللہ سے میرے لئے عافیت اور تندرستی کی دعا مانگیئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر چاہو تو آخرت کے لئے دعاء مانگوں، یہ تمہارے لئے بہتر ہے اور چاہو تو (ابھی) دعا ء کر دوں ؟ اس نے عرض کیا:
دعاء فرما دیجئے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا کہ اچھی طرح وضو کرو اور دو رکعتیں پڑھ کر یہ دعاء مانگو:
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْکَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ يَا مُحَمَّدُ إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِکَ إِلَی رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَی اللَّهُمَّ شَفِّعْهُ فِيَّ
ترجمہ: اے اللہ ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں اور آپ کی طرف متوجہ ہوتا ہوں رحمت والے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے، اے محمد! میں نے آپ کے وسیلہ سے اپنے پروردگار کی طرف توجہ کی اپنی اس حاجت کے سلسلہ میں تاکہ یہ حاجت پوری ہو جائے، اے اللہ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش میرے بارے میں قبول فرما لیجئے ۔
خلاصہ کلام:
خلاصہ یہ کہ دعاء بغیر وسیلے کے بھی قبول ہوتی ہے لیکن نیک اعمال اور نیک اشخاص بالخصوص امام الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے توسل سے جلد قبول ہوتی ہے نہ تو وسیلہ فرض اور واجب ہے کہ اس کے بغیر دعاء مانگنا درست نہ ہو اور نہ ہی وسیلہ شرک اور بدعت ہے کہ اس کے ساتھ دعاء مانگنے والا مشرک اور بدعتی ٹھہرے بلکہ مستحب چیز ہے اس کی وجہ سے اللہ کریم جلد اپنے بندوں کی دعاؤں کو قبول فرماتے ہیں۔ افراط و تفریط سے پاک معتدل مسلک اھل السنۃ والجماعۃ کا ہے ۔