عُشر کے فضائل و احکام …حصہ اول

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
عُشر کے فضائل و احکام …حصہ اول
اللہ تعالیٰ نے جیسے انسان کو جسم عطا کیا اور اس سے متعلق کچھ احکام ذکر کیے بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کو مال دیا اس کے متعلق بھی احکام ذکرفرمائے ہیں، اسی کے دیے ہوئے جسم اور مال کو اسی کے حکم کے مطابق استعمال کیا جائے تو اللہ راضی ہوتے ہیں، دنیا میں برکتیں نازل فرماتے ہیں اور آخرت میں جنت عطا فرماتے ہیں۔ قرآن کریم میں ہے:
وَآتُوہُم مِّن مَّالِ اللَّہِ الَّذِیْ آتَاکُمْ
سورۃ النور، آیت نمبر 33
ترجمہ: اور ان کو الله کے اس مال میں سے دو جو اس نے تم کو عطا کیا ہے۔ دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَابْتَغِ فِیْمَا آتَاکَ اللَّہُ الدَّارَ الْآخِرَة․
سورۃالقصص، آیت نمبر 77
ترجمہ: جو کچھ الله نے آپ کو دیا ہے اس کے ذریعہ آخرت کے گھر کو حاصل کرو۔
یہ سونا چاندی، کرنسی، دولت، مال مویشی،زمین، باغات، فصلیں،کھیت کھلیان وغیرہ الله تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتیں ہیں، ان کو اللہ کے حکم کے مطابق استعمال کرنا عبادت ہے اور اس مالی عبادت کا نام زکوٰۃ، صدقۃ الفطر، قربانی اور عشر ہے۔
اسلام کے اقتصادی نظام کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اسلام دولت کو ایک جگہ منجمد نہیں رہنے دیتا بلکہ اس کو گردش میں رکھتا ہے تاکہ مال دار طبقہ مال کی کثرت و فراوانی کی وجہ سےغرور، تکبر اور ظلم پر نہ اتر آئے اسی طرح غریب بھی احساس کمتری کا شکار ہو کر مایوسی اور جرائم کا مرتکب نہ ہو۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا جذبہ جہاں لوگوں کی معاشرتی ضروریات کو پورا کرتا ہے وہاں اس کا روحانی فائدہ یہ حاصل ہوتا ہے کہ انسان کے دل سے مال کی محبت نکل جاتی ہےکیونکہ مال کی بے جا محبت جب دل میں اترتی ہے تو انسان اپنے مقصد تخلیق سے یکسر غافل ہو جاتا ہے۔چنانچہ اسلام نے مال کے متعلق چند عبادات مقرر فرما دی ہیں تاکہ معاشرہ ظلم و ستم اور جرائم سے پاک وصاف رہے۔
اسلام کے اس اقتصادی نظام کا ایک جزو عشر بھی ہے۔ جس طرح سونے چاندی پر زکوٰة واجب ہے ا سی طرح زمین کی پیداوار پر بھی زکوٰة لازم ہے، اسی کا نام ”عشر“ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے فصلیں اور باغات پکنے کو ہیں،اس لیے عشر کے متعلق کچھ احکام )وجوب، مقدار، شرائط، عام احکام شریعت اور عشر میں فرق، مصارف اور چند متفرق مسائل ( ذیل میں ذکر کیے جاتے ہیں۔
عشر کا وجوب:
قرآن مجیدمیں اللہ تعالیٰ کاارشادہے:
يَآأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا أَنْفِقُوْا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ.
سورۃ البقرۃ،آیت نمبر 267
ترجمہ: اےایمان والو! اپنی کمائی میں سے پاکیزہ چیزیں خرچ کرواوراس (پیداوار) میں سے (بھی )جو ہم نے تمہارےلیے زمین سے پیداکی ہے۔
ایک دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَآتُواْ حَقَّہُ یَوْمَ حَصَادِہِ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّہُ لاَ یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْن۔
سورۃ الانعام،آیت نمبر 141
ترجمہ: اور الله کا حق ادا کرو جب ان کی فصل کاٹواور )اللہ کی مقرر کردہ (حد سےآگے نہ بڑھو اس لیے کہ اللہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔
فائدہ: مذکورہ بالا مکمل آیت کریمہ میں فصل، باغات اور پھلوں کے جس حق کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے اس سے مراد عشر ہے۔
دسویں اور بیسویں حصے کی تقسیم:
عشر کی ادائیگی میں پیداوار کے دسویں اور بیسویں حصہ کی تقسیم کا مدار پانی پر ہے، جس کی تفصیل حدیث پاک میں اس طرح سے ہے۔
عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللهِ عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِيمَا سَقَتِ السَّمَاءُ وَالْعُيُونُ أَوْ كَانَ عَثَرِيًّا الْعُشْرُ وَمَا سُقِيَ بِالنَّضْحِ نِصْفُ الْعُشْرِ۔
صحیح بخاری، باب العشرفیمایسقی من ماء السمآء، حدیث نمبر 1483
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: جو کھیتی بارش کے پانی یاقدرتی چشمے کے پانی سے سیراب ہو یا خود بخود سیراب ہو (مثلاً نہر وغیرہ کے کنارے پر واقع ہو جس کی وجہ سے پانی دینے میں محنت نہ کرنی پڑتی ہو اور نہ ہی پانی کا خرچ ادا کیا جاتا ہو ) تو اس میں سے عشر )دسواں حصہ (لیا جائے، اور جس کھیتی میں کنویں )ٹیوب ویل، رہٹ، یا وہ نہری پانی جس کا آبیانہ ادا کیا جائے (سے پانی لیا جائے تو اس میں سے نصف عشر)بیسواں حصہ (لیا جائے۔
عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ إِلَى الْيَمَنِ، وَأَمَرَنِي أَنْ آخُذَ مِمَّا سَقَتِ السَّمَاءُ، وَمَا سُقِيَ بَعْلاً الْعُشْرَ، وَمَا سُقِيَ بِالدَّوَالِي نِصْفَ الْعُشْرِ.
سنن ابن ماجہ باب صدقۃ الزروع والثمار،حدیث نمبر1818
ترجمہ: حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سےمروی ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کی طرف عامل بنا کر بھیجا اور مجھے حکم فرمایا کہ میں بحیثیت عامل اس پیداوار سے جو آسمان )کے پانی یعنی بارش (سے سیراب ہوئی اور جو زمین نہر کے کنارے پر ہونے کی وجہ سے سیراب ہوئی )یعنی اسے خود سے پانی دینے کی ضرورت پیش نہیں آئی(تو اس میں دسواں حصہ بطور عشر کے حاصل کروں اور جو زمین )کنووں کے (ڈولوں سے سیراب ہواس میں بطور عشر بیسواں حصہ وصول کروں۔
وجوب عشر کی شرائط:
پہلی شرط: مسلمان ہوناہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عشر اہل ایمان کے لیے مقرر کردہ ایک عبادت ہے اور کافر عبادت کا اہل نہیں۔
دوسری شرط: زمین کا عشری ہونا۔ خراجی زمین پر عشر نہیں۔
فائدہ: خراجی زمین اسے کہتے ہیں کہ جس کو مسلمانوں نے صلح کے ذریعہ حاصل کیا ہو، ایسی صورت میں زمین کی شرائط اس معاہدے کے مطابق ہوتی ہیں جن پر صلح کی گئی ہے، اگر صلح نامے پر یہ شرط موجود ہے کہ یہ لوگ اپنے مذہب پر رہیں گے اور ان کی زمینیں بدستور ان کی ملکیت میں ہی رہیں گی تو ایسی زمینوں کو خراجی کہا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر مسلمانوں نےکسی علاقے کو جنگ ذریعے فتح کیا اس کے بعد مسلمانوں کے امیر نے اس علاقہ کی زمینوں کو مجاہدین اسلام میں تقسیم نہیں کیا بلکہ اپنے صوابدیدی اختیار کے مطابق ان زمینوں کو سابقہ مالکوں کی ملکیت میں بدستور قائم رکھا تو ایسی زمین کو بھی خراجی کہا جاتا ہے۔
تیسری شرط: زمین سے پیداوار کا ہونا۔ لہذا اگر کسی وجہ سے پیداوار نہیں ہوئی، مثلاً مالک نے کوتاہی برتی، یا اس نے کھیت کی خبر گیری نہیں کی، یا کسی آفت کے سبب فصل اُگی ہی نہیں توہر صورت میں عشر ساقط ہو جائے گا۔ادا نہیں کیا جائے گا۔
چوتھی شرط: پیداوار ایسی چیز ہو جس کو اگانے کا رواج ہو، اور لوگوں کی عادت یہ ہو کہ وہ اسے کاشت کر کے اس سے نفع بھی اٹھاتے ہوں۔ لہذا وہ گھاس جو خود بخود اگ آئے یا بے کار قسم کے خود رو درخت اگر کسی زمین میں پیدا ہو جائیں تو ان میں عشر نہ ہوگا۔ اگر زمین میں بانس یا گھاس وغیرہ آمدن کی غرض سے لگایا گیا ہو تو اس میں عشر ہو گا، اگر خود بخود کوئی درخت اگا ہے تو اس میں نہیں ہو گا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں دین اسلام کے ہر ہر حکم پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے اور ہمارے مال کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔
آمین بجاہ النبی الامی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم۔
والسلام
محمد الیاس گھمن
خانقاہ حنفیہ ، مرکز اھل السنۃ والجماعۃ سرگودھا
جمعرات، 29 مارچ، 2018ء