عُشر کے فضائل و احکام …حصہ دوم

User Rating: 3 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar InactiveStar Inactive
 
عُشر کے فضائل و احکام …حصہ دوم
اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ احکامات میں سے ایک عشر کی ادائیگی بھی ہے جس کا تعلق عقل، اندازہ اور تخمینہ سے نہیں بلکہ شریعت کے مقرر کردہ نصاب کے مطابق ہے۔ اب چند ایسے مسائل ذکر کیے جا رہے جن کے بارے میں کثرت سے سوالات پوچھے جاتے ہیں۔
عشر کے مصارف:
مسئلہ 1: عشر کے مصارف اور مستحق وہی ہیں جو زکوٰۃ کے ہیں، یعنی ایسامسلمان جس پر نہ زکوٰۃ واجب ہو اور نہ ہی غیر ضروری سامان کو ملا کر زکاۃ کے نصاب کی مالیت بنتی ہو تو ایسا شخص زکوٰۃ و عشر کا مستحق ہے۔
مسئلہ2: زکوٰۃ کی ادائیگی کی طرح عشرکی ادائیگی کیلئے بھی مستحق شخص کومالک بنانا ضروری ہے۔ ورنہ عشر ادا نہیں ہوگا۔
مسئلہ3: مستحق افراد کو مالک بنائے بغیر عشر کا مال یا رقم کسی بھی رفاہی کام میں لگانا جائز نہیں اس سے عشر ادا نہیں ہوگا۔
مسئلہ4: جس پر عشر واجب ہوا ہے اگر وہ خود بھی عشر لینے والے مستحق افراد میں شامل ہو تو وہ اپنے عشر کا اپنی ذات کا مالک نہیں بنا سکتا، کسی دوسرے مستحق شخص کو دینا ضروری ہے۔
مسئلہ5: عشر کی جگہ بطور صدقہ رقم یا غلہ اجناس وغیرہ دینے سے عشر کی ادائیگی نہیں ہوتی خواہ عشر کی مقدار سے زیادہ بھی صدقہ کر دیا جائے۔
مسئلہ6: عشر کے مصارف میں سب سے بہترین مصرف دینی مدارس و جامعات ہیں جہاں پر دین اسلام کو پڑھا پڑھایا سیکھا اور سکھایا جاتا ہے، یہ واجب کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ ایسا صدقہ جاریہ بھی ہے جو مسلسل انسان کے نامہ اعمال میں جاری رہتا ہے۔
نوٹ: مرکز اھل السنۃ والجماعۃ سرگودھا آپ کا اپنا ادارہ ہے جس نے الحمد للہ مختصر وقت میں پوری دنیا میں اپنی خاص پہچان پیدا کی ہے، دنیا بھر میں اپنی ہمت کے مطابق قرآن، سنت اور فقہ کی اشاعت و تحفظ کو دلائل اور حکمت کے ساتھ اپنایا، اسلام کے اساسی اور بنیادی عقائد سے لےکر داخلی و خارجی فتنوں کے علمی محاسبے تک اپنی خدمات پیش کی ہیں، سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعے کچے پکے گھروں تک صحیح عقیدہ و نظریہ اور درست مسئلہ پہنچایا۔ بلامبالغہ لاکھوں لوگوں کے عقائد و ایمان کو گمراہیوں سے محفوظ رکھا۔ ایسے موقع پر آپ کا اخلاقی اور دینی حق بنتا ہے کہ آپ مرکز کے ساتھ بھر پور تعاون کریں۔
عشر اور زکاۃ میں چندبنیادی فرق:
1: زکاۃ کے واجب ہونے کے لیے مخصوص نصاب متعین ہے اس سے کم ہو تو زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی جبکہ عشر کے واجب ہونے کے لیے نصاب مقرر نہیں پیداوار کم ہو یا زیادہ اس پر عشر واجب ہوتا ہے۔
فائدہ: ہاں اگر کسی کی پیداوار پونے دو سیر سے بھی کم ہو تو اس قدر معمولی مقدار پر شریعت عشر واجب نہیں کرتی۔
2: زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے مال یا سامان وغیرہ پر سال کا گزرنا ضروری ہے جبکہ عشر میں سال گزرنا ضروری نہیں۔ بلکہ اگر کسی زمین میں سال میں دو مرتبہ فصل ہوتی ہے یا کسی باغ وغیرہ میں سال میں دومرتبہ یا اس سے بھی زیادہ مرتبہ پھل وغیرہ لگتا ہے تو ہر مرتبہ عشر ادا کرنا ضروری ہے۔
3: زکوٰۃ کی ادائیگی میں عاقل اور بالغ ہونا بھی شرط ہے جبکہ عشر کے واجب ہونے میں یہ چیزیں شرط نہیں،اس لیے اگر کوئی پاگل ہو یا ابھی تک نابالغ ہو تو اس کی زمین کی پیداوار پر عشر واجب ہوگا ان لوگوں کے سرپرست افراد ان کی طرف سے عشر ادا کریں گے۔
4: زکوٰۃ کے مال اور سامان وغیرہ کے ساتھ قرض کا تعلق ہوتا ہے یعنی اگر کسی پر قرض ہو تو اس قرض کو زکوٰۃ کے مال سے نکال کر زکوٰۃ ادا کی جاتی ہے۔ جبکہ عشر میں ایسا نہیں یعنی اگر کسی نے عشر ادا کرنا تو اس کا قرض وغیرہ عشر سے نہیں نکالا جاتا۔
5: ایسے چیزیں جن پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے جب تک وہ نصاب کے برابر باقی رہتی ہیں ان پر ہر سال زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، مثلاً کسی کے پاس سونا یا چاندی وغیرہ موجود ہو تو جب تک یہ سونا یا چاندی وغیرہ موجود رہے گی ہر سال ان پر زکوٰۃ واجب ہوتی رہے گی اور ان کی زکوٰۃ نکالنا ضروری ہوگا جبکہ عشر میں ایسا نہیں، مثلا اگر پیدا وار میں سے ایک مرتبہ عشر ادا کر دیا اس کے بعد وہ جنس غلہ وغیرہ اگرچہ کئی سال تک بھی اس کے پاس باقی رہے، ہر سال اس کا عشر نہیں نکالا جائے گا۔
یہ وہ دین کی باتیں ہیں جن کا علم اور اس پر عمل مسلمان کے لیے ضروری ہے بالخصوص وہ زمین دار لوگ جن کو اللہ کریم نے زمین جیسی نعمت سے نوازا ہے، زمین سے حاصل ہونے والے غلہ اناج وغیرہ میں اللہ کا حق ادا کرنا لازمی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خود بھی ان مسائل کو سیکھیں اور اپنے کسان بھائیوں کو بھی شریعت کے مسائل سمجھائیں۔ اللہ ہمیں دین پر دل و جان سے عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین بجاہ النبی الامی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمد الیاس گھمن
خانقاہ حنفیہ ، مرکز اھل السنۃ والجماعۃ سرگودھا
جمعرات، 5 اپریل، 2018ء
عُشر کے فضائل و احکام …حصہ سوم
اللہ تعالیٰ ہمیں اس بات کی توفیق دے کہ ہم اُس ذات کا حق ادا کریں، جس کا فائدہ ہمیں دنیا میں بھی حاصل ہوگا کہ مال میں برکت، غریب پروری اور ضرورت مندوں کی ضرورت کو پورا کرنے کا ثواب ملے گا، معاشرے میں احساس ہمدردی بڑھے گی باہمی محبت کی فضاء قائم ہوگی اس کے ساتھ ساتھ آخرت میں تو اجر ہی اجر ملے گا۔ اب عشر کے چند متفرق مسائل پیش کیے جاتے ہیں۔
1: عشرپیداوارکی جنس سے دیناضروری نہیں بلکہ اس کی قیمت سےبھی ادا کیا جا سکتاہے۔
2: عشر کے لیے ضابطہ یہ ہے کہ جتنی پیداوار حاصل ہو چاہے کم ہو یا زیادہ، اس کا عشر ادا کیا جائے۔
3: عشر جس طرح کھیتی میں واجب ہوتا ہے اسی طرح پھل اور سبزیوں میں بھی واجب ہے۔
4: اگر کسی درخت سے سال میں ایک مرتبہ سے زائد مرتبہ پھل حاصل ہوتا ہو تو جتنی مرتبہ پھل حاصل ہو گاتو ہر مرتبہ اس پر عشر واجب ہو گا۔
5: اگرکوئی سبزی ایسی ہو جو ایک مرتبہ کاٹنے کےبعددوبارہ اگ آتی ہوتوجتنی مرتبہ اسے کاٹیں گے ہر مرتبہ اس کاعشرواجب ہوگا۔
6: اگرفصل، پھل یاسبزی تھوڑی تھوڑی کرکے کاٹی جائے یاتوڑی جائے تو اس صورت میں جتنی مقدار کاٹتے یا توڑتے جائیں اسی کاعشراداکرتےجائیں۔
7: جن چیزوں کی پیداوار مقصود ہو تو ان میں عشر واجب ہوتا ہے جیسے کپاس، گندم، چاول، چنا، مکئی، سبزی، پھل وغیرہ اور جن چیزوں کی پیداوار مقصود نہ ہو بلکہ پیداوار کے ساتھ ضمنی طور پر حاصل ہوتی ہوں جیسے گندم کا بھوسہ، مکئی کا بھوسہ، چاول کا بھوسہ یا خود بخود اگ آتی ہوں جیسے گھاس وغیرہ تو اصولاً ان میں عشر واجب نہیں لیکن اگر اس قسم کی چیزوں کی پیداوار مقصود ہو خواہ بیچنے کے لیےیا ذاتی استعمال یا جانوروں کے چارہ وغیرہ کے لیے تو ان میں بھی عشر واجب ہو گا۔
8: اگر کھیتی مثلاً گندم، مکئی، جَو وغیرہ کو جانوروں کے چارے کے حصول کے لیے بویا جائے اور پختہ ہونے سے پہلے ہی کاٹ لی جائیں تو چونکہ ان چیزوں سے بھی پیداوار مقصود ہوتی ہے اس لیے ان میں بھی عشر واجب ہو گا۔
9: کسی بڑی فصل مثلاً گندم، گنا وغیرہ کے ساتھ کوئی دوسری فصل بھی ضمناً شامل کر دی جیسے لوبیا، چنے وغیرہ تو اس پر بھی عشر واجب ہے کیونکہ یہاں ان چیزوں کی پیداوار مقصود ہوتی ہے۔
10: زمین میں خود رو درخت پیدا ہو جائیں تو ان میں اور حاصل شدہ لکڑی میں عشر واجب نہ ہو گا۔ ہاں اگر ان کو لکڑی کے حصول کی غرض سے لگایا جائے تو ان پر بھی عشر واجب ہو گا۔
11: درخت سے نکلنے والی چیزوں مثلاً گوند وغیرہ پر عشر واجب نہیں۔ اسی طرح مختلف سبزیوں اور پھلوں کےبیج جوصرف کھیتی کے لیے استعمال ہوتے ہیں یا دوائی کے کام آتے ہیں (غذائی اجناس کےطورپرنہیں ہوتے) جیسے خربوزہ، تربوز وغیرہ کے بیج تو ان پر بھی عشر واجب ہے۔
12: عشری زمین سےاگرشہدنکالا جائےتواس پربھی عشرواجب ہے، شہد کے عشر میں ہر حال میں دسواں حصہ واجب ہے خواہ اس پرکتنےہی اخراجات آئیں، یہ اخراجات اس سے نکالےنہیں جائیں گے۔
13: گھرکےصحن وغیرہ میں سبزی یادرخت لگائےجائیں توان سے حاصل ہونےوالی پیداوارپرعشرنہیں، وجہ یہ ہے کہ یہ چیزیں مکان کے تابع ہیں اورمکان پرعشرنہیں لہٰذا ان چیزوں پر بھی عشر نہیں۔
14: اگرکسی نےاپنےرہائشی مکان کومسمارکرکے اسے مستقل باغ سےتبدیل کر دیاتو چونکہ اب اس کی حیثیت باغ کی ہے اس لیےاس باغ میں آنے والےپھلوں پر عشر واجب ہوگا۔
15: اگرعشری زمین مزارعت پر دی جائے (عموماً زمین زمیندار کی اور محنت، بیج، ہل وغیرہ کاشتکار کے ذمے ہوتا ہے اور پیداوار میں دونوں کا حصہ ہوتا ہے) اس صورت میں زمیندار اور کاشتکار دونوں پر اپنے اپنے حصے کی پیداوار کا عشر واجب ہے۔
16: اگرعشری زمین ٹھیکے پر دی گئی تو پیداوار کا عشر کرائے دار پر ہوگا، زمین کے مالک پر نہیں۔
17: زمین کوکاشت کےقابل بنانےسےلےکرفصل پکنےتک جتنےاخراجات ہوتےہیں مثلاً ہل چلانا، زمین سے اضافی جڑی بوٹیوں کو ختم کرنا، بیج ڈالنا، پانی دینا، کھاد ڈالنا،اسپرےکرنا ان اخراجات کوعشر کی ادائیگی سےنہیں نکالاجائےگابلکہ اخراجات نکالےبغیر زمین کی کل پیداوارپرعشرواجب ہوگا۔
18: فصل پکنےکےبعد ہونے والے اخراجات کوبھی نہیں نکالا جائے گا۔ اس لیے کٹائی کی اجرت، تھریشروغیرہ کاخرچہ بھی نکالے بغیرعشر ادا کیاجائےگا۔
19: اگر پیداوار کامالک مقروض ہےتوبھی اس پرعشرواجب ہوگا،قرض کو پیداوار سے نہیں نکالاجائےگا۔
20: کھیتی بونے اور باغ میں پھول آنے سے پہلے عشر ادا کرنا جائز نہیں، البتہ کھیتی اگنے اور باغ میں پھول آنے کے بعد یعنی پھل ظاہر ہونے سے پہلے پہلے عشر کو نقدی کی صورت میں ادا کرنا جائز ہے۔
21: فصل، پھل یا سبزی پکنے سے پہلے پہلے اس قابل ہو جائے کہ اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہو تو عشر واجب ہو جاتا ہے۔
22: اگر کسی نے فصل یا پھل کو پکنے سے پہلے کاٹ لیا یا توڑ لیا تو جس مقدار کے برابر فصل کاٹی یا پھل توڑے تو اسی کے برابر عشر ادا کرنا واجب ہے۔
23: اگر کسی نے پوری فصل یا پھل کو یا پھر اس کے کسی حصہ کو قابل استعمال ہونے کے بعد خود ختم کر دیا مثلاً مکمل یا بعض پیداوار کو خود استعمال کر لیا خواہ جانور کے چارہ کے طورپر کھلا کر ہی کیوں نہ ہو تو اس کے ذمہ سے عشر ختم نہیں ہوتا بلکہ اس کو استعمال شدہ مقدار کا حساب لگا کر عشر ادا کرنا واجب ہوگا۔
24: اگر کسی نے خود ضائع یا استعمال نہیں کیا بلکہ آسمانی آفت سیلاب، تیز آندھی، طوفانی بارش، بجلی کے گرنے یا آگ وغیرہ لگنے سے ساری فصل تباہ ہو گئی یا چوری ہو گئی تو اس کے ذمے عشر واجب نہیں، ہاں البتہ اگر مکمل تباہ یا چوری نہیں ہوئی، بلکہ کچھ پیداوار باقی ہے تو اس کا عشر ادا کرنا واجب ہوگا۔
25: اگر کسی شخص نے دوسرے کی پیداوار کو ضائع کر دیا تو زمین کا مالک اس ضائع کرنے والے سے تاوان وصول کرے اور اس میں سے عشر ادا کرے۔ ہاں جب تک ضائع کرنے والا تاوان ادا نہیں کرتا تب تک مالک کے ذمے عشر ادا کرنا ضروری نہیں۔
26: بعض درخت، فصل، پودے ایسے ہیں کہ جن سے پھل مقصود نہیں ہوتا بلکہ ان کے پتے کام آتے ہیں مثلاً تمباکو، پان وغیرہ ان کے پتوں میں عشر واجب ہوگا۔
27: اگر کسی نے زمین پر کھڑی فصل، درخت یا باغ پر لگے پھل کو پکنے کے بعد فروخت کیا تو اس کا عشر ادا کرنا فروخت کرنے والے پر واجب ہوگا، خریدار پر نہیں۔
28: اگر فصل یا پھل پکنے سے پہلے فروخت کیا تو اب عشر خریدار کے ذمہ ہے، فروخت کرنے والے کے ذمہ نہیں۔
29: وہ زمین جو وقف کی ہے مثلاً کسی رفاہی ادارے، مسجد، مدرسہ وغیرہ کی ہے اگر وہ عشری زمین ہے تو اس سے حاصل شدہ پیداوار کا عشر ادا کرنا ضروری ہے۔
30: وہ پہاڑ اور جنگل جو کسی کی ملکیت میں نہیں اور عشری زمین میں ہیں ان سے جو شخص بھی پھل حاصل کرے گا اس پر عشر ادا کرنا واجب ہے۔ والسلام
محمد الیاس گھمن
خانقاہ چشتیہ ، شاہ عالم، سلنگور، ملائیشیا
جمعرات، 12 اپریل، 2018ء