عباد الرحمٰن …حصہ اول

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
عباد الرحمٰن …حصہ اول
اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ”رحمٰن“ہے، جس کا معنیٰ ہے بہت زیادہ مہربانی کرنے والا۔ اور عبد کا معنی ہوتا ہے:
الذی یرضی بما یفعلہ الرب۔
جو اپنے رب کے ہر فیصلے اور کام پر راضی ہویعنی اس کی مخلوق میں وہ بندے جو اس کی بندگی کرنے والے ہیں انہیں ”عبادالرحمٰن“ کہا جاتا ہے۔
بندگی، اطاعت، فرمانبرداری اور تسلیم و رضاء کا معیار یہ ہے کہ ان کے دل ہر طرح کےعیوب و نقائص اور گناہوں کی آلائشوں سے پاک ہوں، تواضع اور عاجزی اختیار کرنے والے ہوں، زبان کے سچے ہوں ، معاملات میں نرم طبیعت کے مالک ہوں، اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہوں، نیکی اور خیر کے کاموں کی طرف رغبت رکھنے والے ہوں ساتھ میں بری عادات اور برے اخلاق سے دور رہنے والے ہوں۔
قرآن کریم کی سورۃ الفرقان میں عباد الرحمٰن کے جن اوصاف و اخلاق کا تذکرہ ہے ہم ترتیب کے ساتھ انہیں ذکر کریں گے ۔ انشاء اللہ الرحمٰن
1 …زمین پر نرمی کے ساتھ چلنا:
عباد الرحمٰن کا پہلا وصف یہ ہے کہ وہ زمین پر نرمی یعنی تواضع کے ساتھ چلتے ہیں کیونکہ انسان کی چال چلن اس کے کردار و اخلاق اور قلبی کیفیات کی آئینہ دار ہوتی ہے، اگر تکبر اور فخر و غرور جیسی امراض میں مبتلا ہے تو چال متکبرانہ ہوگی، یا پھر مایوسی، احساس کمتری کی وجہ سے قدم گھسیٹ گھسیٹ کر چل رہا ہوگا یا پھر ریاء کاری اور دکھلاوے کی وجہ سےکہ لوگوں کی نگاہ میں صاحب کمال نظر آؤں بتکلف آہستہ آہستہ بناوٹی خشوع کے ساتھ چلتا ہوا نظر آئے گا، یہ سب باتیں غلط ہیں۔
اس بارے میں سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ سنت کے مطابق چلا جائے متعدد احادیث مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چلنے کا تذکرہ موجود ہے جن کا خلاصہ یہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفتار مبارک عام آدمی کی رفتار سے قدرے تیز تھی مگر چال مبارک ایسی تھی کہ ہموار جگہ پر چلتے ہوئے بھی ڈھلوان میں اترتے ہوئے نظر آتے تھے۔ چستی کے ساتھ مضبوط قدموں سے ایسے چلتے تھے کہ آپ کی چال سےتواضع، عاجزی، سنجیدگی، متانت ، سکون، اطمینان، عزم، ہمت اور شجاعت ٹپکتی تھی۔ تکبر، بڑائی، فخر اور غرورکے ساتھ اکڑکر نہ چلتے۔ کندھوں کو ہلاہلا کر سینہ پُھلا کر، تکلف اور تصنع )بناوٹی خشوع اور عاجزی (سے نہ چلتے۔نہ ہی پیروں کو گھسیٹ کر، بیمار، لاغر اور سست آدمی کی طرح چلتے اور نہ ہی راہ چلتے وقت ادھر ادھر توجہ کرتے بلکہ شرافت و شائستگی کے ساتھ نظریں جھکا کر سیدھے اپنی منزل کی طرف چلتے رہتے۔
چلنے کے متعلق چند اسلامی تعلیمات ملاحظہ فرمائیں:
اکڑ کر مت چلیں:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا
سورۃ الاسراء آیت نمبر 37
ترجمہ: اور زمین پر اکڑ کر مت چل۔
ایک جوتا پہن کر مت چلیں:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يَمْشِي أَحَدُكُمْ فِي نَعْلٍ وَاحِدَةٍ لِيُحْفِهِمَا جَمِيعًا أَوْ لِيُنْعِلْهُمَا جَمِيعًا
صحیح بخاری، باب لا یمشی فی نعل واحدۃ، حدیث نمبر 5856
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص ایک جوتا پہن کر نہ چلے یا تو دونوں اتار کر چلے یا پھر دونوں پہن کر۔
فائدہ: اگر ایک جوتا قریب پڑا ہے جبکہ دوسرا کچھ فاصلے) دو تین قدم ( پر ایسی صورت میں ایک جوتا پہن کر دوسرے جوتے تک جایا جا سکتا ہے،اس میں حرج نہیں۔
کبھی کبھار ننگے پاؤں بھی چلیں:
قَالَ) فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ (كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُنَا أَنْ نَحْتَفِيَ أَحْيَانًا۔
سنن ابی داؤد، کتاب الترجل، حدیث نمبر3629
ترجمہ: حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اس بات کا حکم فرماتے تھے کہ کبھی کبھی ننگے پاؤں بھی چلا کرو۔
فائدہ: ننگے پاؤں وہاں چلیں جہاں جگہ کا پاک ہونا یقینی ہو، اگر گھر میں ایسی جگہ ہے جہاں چھوٹے بچےپیشاب کرتے رہتے ہیں تو ایسی جگہ پر ننگے پاؤں بالکل نہیں چلنا چاہیے۔ نیز یہ بھی ذہن میں رہے کہ یہ امر استحبابی ہے کبھی کبھی ایسا کر لینا چاہیے۔
اہم کام کی وجہ سے تیزی سے چلیں:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول تو یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مناسب رفتار سے چلتے کبھی کوئی اہم کام ہوتا تو تیزی سے بھی چل لیتے تھے۔ چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے الادب المفرد میں اس پرباب قائم کیا ہے۔
عَنْ اِبْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: أَقْبَلَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسْرِعًا وَنَحْنُ قُعُودٌ حَتَّى أَفْزَعَنَا سُرْعَتُهُ إِلَيْنَا فَلَمَّا انْتَهَى إِلَيْنَا سَلَّمَ ثُمَّ قَالَ: قَدْ أَقْبَلْتُ إِلَيْكُمْ مُسْرِعًا لِأُخْبِرَكُمْ بِلَيْلَةِ الْقَدْرِ فَنَسِيتُهَا فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ، فَالْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ
الادب المفرد للبخاری، باب السرعۃ فی المشی، حدیث نمبر 813
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ہم لوگ بیٹھے ہوئے تھے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تیزی کے ساتھ ہماری جانب آئے، ہم لوگ آپ کے تیزی کے ساتھ آنے کی وجہ سے ڈر گئے۔ ہمارے پاس پہنچنے کے بعد آپ نے ہمیں سلام کیا اور فرمایا میں تمہارے پاس اس لیے تیزی کے ساتھ آیا کہ تم کو شب قدر کی اطلاع کروں، لیکن تمہاری باہمی باتوں کی وجہ سے میں اسے )شب قدر کی تعیین ( بھول گیا اب تم اسے )رمضان المبارک کے( آخری عشرہ میں تلاش کرو۔
نظریں جھکا کر چلیں:
چلتے وقت نگاہوں کی خوب حفاظت کریں، غیر محرم کو دیکھنے، گھورنے اور تاڑنے سے بچیں، یہ حکم عام ہے آپ پیدل ہوں یا سوار۔ دونوں حالتوں میں نظروں کو جھکا کر رکھیں۔ ڈرائیونگ کے وقت بلاضرورت دائیں بائیں نہ دیکھیں تاہم اگر سامنے سے غیرمحرم نظر آجائیں تو آنکھیں بند نہ کریں بلکہ کھلی رکھیں البتہ دل میں توبہ و استغفار کرتے رہیں۔
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِيَّاكُمْ وَالْجُلُوسَ بِالطُّرُقَاتِ…قَالُوا وَمَا حَقُّ الطَّرِيقِ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ غَضُّ الْبَصَرِ.
صحیح بخاری، باب قول اللہ تعالیٰ یا ایھا الذین اٰمنو ا لا تدخلوا بیوتا، حدیث نمبر 6229
ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: راستوں میں بیٹھو….صحابہ کرام نے عرض کی یا رسول اللہ راستے کا حق کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نگاہوں کو جھکانا۔
فائدہ: وہ نوجوان جو بازاروں میں اس لیے گھومتے ہیں تاکہ کسی کی ماں بہن کو کندھے ماریں، ان سے بدتمیزی کریں یا اسکول ٹائم راستوں میں بیٹھ کر قوم کی بچیوں کو دیکھتے رہتے ہیں ان کے لیے لمحہ فکریہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نظریں جھکانے کا حکم دیا ہے۔
باربار پیچھے مڑ کر نہ چلیں:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت شریفہ یہ تھی کہ آپ چلتے تو پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے تھے، اس لیے راستے چلنے کے اسلامی آداب میں سے ایک یہ بھی ہے۔
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الأَنْصَارِيِّ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لاَ يَلْتَفِتُ وَرَاءَهُ إذَا مَشَى۔
نوادر الاصول، لحکیم ترمذی، الأصل الرابع عشر
ترجمہ: حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب راہ چلتے تو پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے تھے۔
کبھی کبھی دوستوں کا ہاتھ تھام کر چلیں:
عَنْ بُرَيْدَةَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: خَرَجْتُ يَوْمًاأَمْشِي فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ …… فَأَخَذَ بِيَدِي فَانْطَلَقْنَا نَمْشِي جَمِيعًا۔
شعب الایمان للبیہقی، باب القصد فی العبادۃ، حدیث نمبر 3600
ترجمہ: حضرت بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ایک دن میں چل رہا تھا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ……آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری ہاتھ پکڑااور ہم ایک ساتھ چلنے لگے۔
فائدہ: ہم عمر دوستوں کا ہاتھ پکڑ کر چلنے سے محبت پیدا ہوتی ہے اور تعلق میں مضبوطی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔
چلتے ہوئے تکلیف دہ چیز ہٹادیں:
عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اَلْإِيمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ أَوْ بِضْعٌ وَسِتُّونَ شُعْبَةً فَأَفْضَلُهَا قَوْلُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَأَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الأَذَى عَنِ الطَّرِيق،
صحیح مسلم، باب شعب الایمان، حدیث نمبر 162
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان کے ستر اور کچھ یا پھر یوں فرمایا کہ ساٹھ اور کچھ شعبے ہیں ان میں سے سب سے زیادہ افضل لا الہ الا اللہ کہنا ہے اور سب سے چھوٹا راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے۔
فائدہ: حدیث میں”بضع“ عدد مبہم ہے جو تین سے لے کر نو تک بولا جاتا ہے۔
چلتےہوئے سلام کریں:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ يُسَلِّمُ الرَّاكِبُ عَلَى الْمَاشِي وَالْمَاشِي عَلَى الْقَاعِدِ
صحیح بخاری، باب تسلیم الماشی علی القاعد، حدیث نمبر 6233
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سوار شخص پیدل چلنے والے کو اور پیدل چلنے والا شخص بیٹھنے والے کو سلام کریں۔
راستے بھولنے والے کی رہنمائی کریں:
آپ کہیں جا رہے ہوں اور کوئی شخص آپ سے راستہ پوچھے اگر آپ کو معلوم ہو تو اس کی رہنمائی کر نا راستے چلنے کے اسلامی آداب میں سے ہے۔
عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ …… وَإِرْشَادُكَ الرَّجُلَ فِي أَرْضِ الضَّلَالِ لَكَ صَدَقَةٌ.
جامع الترمذی، باب ماجاء فی صنائع المعروف، حدیث نمبر 1879
ترجمہ: حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا…….راستہ بھولے ہوئے شخص کی رہنمائی کرنا بھی نیکی ہے۔
چند فوائد:

خواتین کو چاہیے کہ مردوں سے ہٹ کر چلیں اور مردوں کو بھی چاہیے کہ خواتین کے چلنے کی جگہ پر نہ چلیں۔

سڑک عبور کرتے وقت گاڑیوں والی سمت دیکھ خوب خیال اور احتیاط سے چلیں۔

پیدل چلنا ہے تو سڑک کے کناروں پر چلیں۔

گاڑی پر سوار ہوں تو ٹریفک قوانین کی پابندی کریں۔

راستہ چلتے وقت ایسی چیزیں راستے میں نہ پھینکیں جس سے کسی کو تکلیف ہوتی ہو یا گندگی پھیلتی ہو۔
اللہ تعالیٰ ہمیں عبادالرحمٰن کے اوصاف اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین بجاہ النبی الامی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمد الیاس گھمن
خانقاہ حنفیہ، مرکز اھل السنۃ والجماعۃ سرگودھا
جمعرات، 19 اپریل، 2018ء