عباد الرحمٰن …حصہ دوم

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 

عباد الرحمٰن …حصہ دوم

اللہ تعالیٰ نے عباد الرحمٰن کی دوسری صفت یہ ذکر فرمائی ہے:
وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُوْنَ قَالُوْا سَلَاماً۔
ترجمہ: جب ان سے جاہل لوگ بحث و مباحثہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ اچھے طریقے سے سلام کہہ کر کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں۔
فائدہ: یہ اس صورت میں ہے جب جاہل صرف بحث و مباحثہ تک رہیں اور جب وہ بحث و مباحثہ سے تجاوز کر کے ظلم و زیادتی کرنے لگیں تو پھر قرآن کریم کا حکم ہے: فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ۔
سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 194
ترجمہ: جب وہ تم پر زیادتی کریں تو تم بھی زیادتی کی مقدار اور کیفیت کے برابر بدلہ لینے کے حق دار ہو۔
یہاں دوباتیں بطور خاص سمجھیں:
1…… جاہل کسے کہتے ہیں؟
علم نہ ہونے کو جہالت کہتے ہیں اور علم پر عمل نہ کرنے کو بھی جہالت کہا جاتا ہے۔ جبکہ شریعت میں جاہل اسے کہتے ہیں جو اللہ رب العزت کا نافرمان ہو،ہمارے ہاں عام طور پر صرف یہ سمجھا جاتا ہے کہ جاہل اسے کہتے ہیں جو لا علم ہو، حالانکہ اسے بھی جاہل کہتے ہیں جو دین کا علم رکھنے کے باوجود اس پر عمل نہ کرے۔
جو حقائق کا انکار کرے، اس کے سامنے ہر چیز واضح ہو پھر بھی ضد اور عناد کی بنیاد پر اس کو جھٹلائے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ”دین اسلام“لے کر آئے، اب جو شخص اسلامی عقائد و نظریات، مسائل و احکامات، تہذیب و اخلاقیات اور معاملات و معاشرت کا کسی طور بھی انکار کرتا ہے، خواہ زبان سے یا اپنے عمل سے تو یہ شخص جاہل کہلائے گا۔ چنانچہ
قَالَ أَبُو الْعَالِيَةِ رَحِمَہُ اللہُ: سَأَلْتُ أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ {إنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى اللَّهِ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ يَتُوبُونَ مِنْ قَرِيبٍ} فَقَالُوا: كُلُّ مَنْ عَصَى اللَّهَ فَهُوَ جَاهِلٌ
قَالَ قَتَادَةَ رَحِمَہُ اللہُ: أَجْمَعَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَنَّ كُلَّ مَنْ عَصَى رَبَّهُ فَهُوَ فِي جَهَالَةٍ، عَمْدًا كَانَ أَوْ لَمْ يَكُنْ. وَكُلُّ مَنْ عَصَى اللَّهَ فَهُوَ جَاهِلٌ
وَ قَالَ مُجَاهَدٌ رَحِمَہُ اللہُ: مَنْ عَمِلَ ذَنْبًا مِنْ شَيْخٍ أَوْ شَابٍّ فَهُوَ بِجَهَالَةٍ. وَقَالَ: مَنْ عَصَى رَبَّهُ فَهُوَ جَاهِلٌ. حَتَّى يَنْزِعَ عَنْ مَعْصِيَتِهِ۔
وَقَالَ الضَّحَّاكُ رَحِمَہُ اللہُ: لَيْسَ مِنْ جَهَالَتِهِ أَنْ لَا يَعْلَمَ حَلَالًا وَلَا حَرَامًا. وَلَكِنْ مِنْ جَهَالَتِهِ: حِينَ دَخَلَ فِيهِ.
الصحیح المسند من آثار الصحابۃ فی الزھد و الرقائق
ترجمہ: حضرت ابو العالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے اس آیت إنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى اللَّهِ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ يَتُوبُونَ مِنْ قَرِيبٍ کے بارے میں سوال کیا )کہ اس میں جہالت سے کیا مراد ہے؟ ( تو انہوں نے جواب دیا کہ ہر وہ شخص جو اللہ کی نافرمانی کرتا ہے، وہ جاہل ہے۔
حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام اس بات پر متفق ہیں کہ جو شخص اپنے رب کی نافرمانی کرے خواہ جان بوجھ کر یا جان بوجھ کر نہ ہو ایسا شخص جہالت میں ڈوبا ہوا ہے کیونکہ ہر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کا نافرمان ہو، وہ جاہل ہے۔
حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جو شخص اللہ کی نافرمانی کرے خواہ وہ بوڑھا ہو یا جوان ہو وہ جاہل ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کی نافرمانی سے توبہ کر لے۔
حضرت ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جاہل اسے نہیں کہتے جو شخص حلال اور حرام کا علم نہ رکھتا ہو بلکہ جاہل وہ ہے جو حرام کو حرام جانتے ہوئے بھی اس سے نہ بچے۔
قرآن کریم کے الفاظ میں اگر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمیشہ فضول بحث و مباحثہ کی ابتداء جاہل کرتا ہے، کیونکہ خاطب فعل ہے اور اس کا فاعل جاہلون ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ عباد الرحمٰن کبھی جاہلوں کے منہ نہیں لگتے اور گالم گلوچ، سب وشتم، ہذیان گوئی، سخت ترش، نخوت اور طنز بھرے لہجے میں لمبی بحث کرنے کے بجائے وہ اچھے طریقے سے ”سلام “ کہہ کر کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں۔
قرآن کریم کے معانی میں اگر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ جاہل کو تبلیغ کرنا منع نہیں ہے، بلکہ وقتاً فوقتاً ان کو اللہ کی نافرمانی سے بچنے کےلیے احسن انداز میں دعوت دی جائے، توبہ کی تلقین کی جائے، اسلام کے احکامات سمجھائے جائیں، حلال و حرام کے بارے ان کی رہنمائی کریں۔ جاہل سمجھ کر یا جاہل کہہ کر نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، ہاں اگر وہ ضد پر اتر آتے ہیں، جاننے کے باوجود شریعت کا مذاق بناتے ہیں اور فضول قسم کا بحث و مباحثہ شروع کر دیتے ہیں تو اب ان سے کنارہ کشی اختیار کی جائے، البتہ ان کے لیےہدایت کی دعاء ضرور کی جائے۔
2……سلام سے کیا مراد ہے؟
سلام سے مراد سلسلہ کلام کو اچھے انداز میں روکنا ہے، یعنی لڑنے جھگڑنے کے بجائے نرمی کے ساتھ یہ کہہ کر بات ختم کر دی جائے کہ: سلام! مطلب یہ ہے کہ میں فضول بات کو آگے بڑھا کر لڑائی جھگڑانہیں کرنا چاہتا۔
فائدہ: قرآن کریم میں اس معنی میں سلام کا تذکرہ چند مقامات پر موجود ہے:
قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے والد سے مکالمہ موجود ہے اس کے آخر میں ہےحضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد سے کہا: سَلَامٌ عَلَيْكَ
سورۃ مریم، آیت نمبر 47
ترجمہ: آپ پر سلام!
دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَإِذَا سَمِعُوا ٱللَّغْوَ أَعْرَ‌ضُواعَنْهُ وَقَالُوا لَنَآ أَعْمَـٰلُنَا وَلَكُمْ أَعْمَـٰلُكُمْ سَلَـٰمٌ عَلَيْكُمْ لَا نَبْتَغِى ٱلْجَـٰهِلِينَ
سورۃ القصص، آیت نمبر55
ترجمہ: اور جب (ایمان والے) مشرکین سے کوئی فضول اوربے مقصد بات سنتے ہیں تو کہتے ہیں ہمارے لیے ہمارے اعمال )فائدہ مند ہیں ( جبکہ تمہارے لیے تمہارے اعمال)نقصان دہ ہیں ( تم پرسلام! ہم جاہلوں سےاُلجھنا نہیں چاہتے۔
تیسرے مقام پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَٱصْفَحْ عَنْهُمْ وَقُلْ سَلَـٰمٌ ۚ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ
سورة الزخرف، آیت نمبر89
ترجمہ: آپ ان سے منہ پھیر لیں اور کہہ دیں: اچھا جی سلام! اُنہیں جلدی (خود ہی)معلوم ہوجائے گا۔
فائدہ: دین کی بات سمجھانے میں گفتگو کا طرز مخلصانہ اور واعظانہ ہونا چاہیے، خیرخواہانہ طریقے سے بات کی جائے، یہاں تک کہ کبھی مناظرہ کی نوبت بھی آن پڑے تو بھی مقصود دوسرے کو نیچا دکھانا نہ ہو بلکہ دلیل کی قوت سے اس کی غلطی کو دور کرنے کی نیت ہو۔ چونکہ عام طور پر دین کی بات کرنے والے علماء ہی ہوتے ہیں اور حق بھی انہی کا ہے اس لیے علماء کو اس بات کا خیال کرنا چاہیے کہ ان کا طرز گفتگو مہذبانہ ہو،موضوع اور الفاظ کا انتخاب، فقروں اور جملوں کی ساخت، لب و لہجہ، آواز کا مدو جزر ان کے علمی وقار و سنجیدگی کا آئینہ دار ہو۔ قرآن کریم اس کی حکمت کی طرف ان الفاظ سے رہنمائی کرتا ہے:
اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَه عَدَاوَةٌ كَاَنَّه وَلِيٌّ حَمِيْمٌ
سورۃ فصلت آیت نمبر 41
ترجمہ: تم برائی کا جواب اچھے طریقے سے دو، اس کی وجہ سے وہ شخص جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے وہ بھی ایسا ہوجائے گا جیسے تمہارا مخلص دوست ہو۔
یہی وجہ ہے کہ بعض اہل علم نے جہل کو حلم اور علم کا متضاد قرار دیا ہے، جس میں حلم اورعلم ہو وہ جہالت سے بچ جاتا ہے۔
لوگوں کی ناگوارباتوں کے جواب میں حلم و حوصلہ، محبت، پیار اچھے ردِ عمل کے ذریعےمعاشرے کو خوشگوار بنائیں۔ دشمنیوں کو محبت میں بدلیں، باہمی نفرتوں اور دوریوں کے بھڑکنے والے شعلے بجھ جائیں گے اور معاشرے میں یکجہتی،رواداری، مروت اور محبت عام ہوگی۔
یاد رکھیں! اللہ تعالیٰ نے ہمیں مختصر سی زندگی عطا فرمائی ہے اور ہم نے اس میں کام بہت زیادہ کرنا ہےاس کے لیے ضروری ہے کہ ہم وقت کو کام کرنے میں خرچ کرکے کار آمد بنائیں، فضول باتوں اور فضول کاموں میں ضائع کرکے برباد نہ کریں۔ اللہ ہمیں عمل کی توفیق نصیب فرمائیں۔
آمین بجاہ النبی الامی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمد الیاس گھمن
خانقاہ حنفیہ، مرکز اھل السنۃ والجماعۃ سرگودھا
جمعرات، 26 اپریل، 2018ء