گستاخانہ خاکے …ہم کیا کریں؟

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
گستاخانہ خاکے …ہم کیا کریں؟
اللہ تعالیٰ کی لعنت ہواُس پر جو انبیاء کرام علیہم السلام بالخصوص خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس اور عزت کا لحاظ نہیں کرتا کیونکہ انسانیت کو صحیح عقائد،معاشرتی طرز عمل، باہمی رواداری،آزادی، محبت اور امن کا درس انبیاء کرام علیہم السلام بالخصوص افضل الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی دیا ہے۔
ہالینڈ کی اسلام مخالف جماعت فریڈم پارٹی کے سربراہ اور رکن پارلیمنٹ گیرٹ ولڈرز نے 10 نومبر کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کا اعلان کیا ہے اوراطلاعات کے مطابق یہ اعلان بھی کیا گیا ہے کہ گستاخانہ خاکوں کے اس مقابلے میں بذریعہ ای میل بھیجے جانے والے خاکے بھی شامل کیے جائیں گے اور یہ مقابلہ سوشل میڈیا پر براہ راست دکھایا جائے گا۔
گیرٹ ولڈرز وہ بدبخت ہے جس نے 2009 میں توہین آمیز فلم ”فتنہ“ بنائی تھی، یہ وہی بدفطرت شخص ہے جس نے پارلیمنٹ میں قرآن مجید کی ترسیل روکنے کا بل پیش کیا بلکہ مسلمانوں سے نصف قرآن پاک تلف کر دینے کا مطالبہ کرنے والا بھی یہی شخص تھا اور اسی نے ہالینڈ میں خواتین کے پردے پر پابندی کا بل بھی پیش کیا۔
خود ساختہ آزادی اظہار رائے کی آڑ میں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ خاکےدنیا کے امن و امان کو برباد کرنے کی ایسی بھونڈی اور ناپاک کوشش ہے جو ہر مذہب کے عقل مند لوگوں کے نزدیک انتہائی قابل مذمت ہے۔
اس موقع پردنیا بھر کےاہل اسلام کو کیا کرنا چاہیے؟کیا طرز عمل اور کون سی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے اس حوالے سے اختصار کے ساتھ چند تجاویز آپ کی خدمت میں پیش کی جاتی ہیں۔
1…سیاسی رہنما:
دنیا بھر کے تمام مسلم ممالک کے سیاسی رہنما انفرادی طور پر یا اجتماعی طور پر اس کے خلاف بھرپور اور موثر احتجاج ریکارڈ کرانا چاہیے۔ ہالینڈ سے سفارتی تعلقات بالکلیہ ختم کرنےچاہییں کیونکہ بین الاقوامی سطح پر سفارت کاشعبہ باہمی رواداری کے قیام کےلیےعمل میں لایا جاتا ہےلیکن جب کوئی ملک کسی دوسرے ملک کے باشندوں کی دشمنی اور ان کی دل آزاری پر اتر آئے اور باہمی رواداری کی دھجیاں بکھیرنے لگے تو دوسری جانب سے تعلقات کسی صورت برقرار نہیں رکھے جا سکتے۔
اسی طرح معاشی اور اقتصادی تعلقات کو بھی یکسر ختم کیا جائے، اقتصادی تعلقات کی بنیاد ا س وقت ختم ہو جاتی ہے جب کوئی ملک دوسرے ملک سے دشمنی مول لے۔ ہالینڈنے گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کا انعقاد کر کے دنیا بھر کے تمام اسلامی ممالک سے اپنے تعلقات از خود خراب کیے ہیں جو کہ مسلمان کسی صورت برداشت نہیں کر سکتا۔ ہم بھوکے پیاسے مر سکتے ہیں لیکن کسی ایسے ملک سے اقتصادی تعلقات کوکسی صورت قبول نہیں کرسکتے جو ملک ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ خاکے بنائے اور عالمی سطح پر اس ناقابل معافی جرم کے مقابلے کا انعقاد کرائے۔
اس حوالے سے میری گزارش ہے کہ تمام دنیا کے اسلامی ممالک کے سیاسی رہنما ہالینڈ سے سفارتی و اقتصادی تعلقات کو ختم کر یں۔ قیام امن کے لیے قائم بین الاقوامی اداروں بالخصوص او آئی سی کے سامنےتشویش کا اظہار کریں اور مسئلے کی حساسیت پر انہیں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے مجبور کیا جائے۔
2…تاجر برادری:
تجارت بین الاقوامی سطح پر تعلقات کا مضبوط ترین ذریعہ ہے، اس لیے مسلم ممالک کی تاجر برادری اگر ہالینڈ کی تمام مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کرے۔ اس طرز عمل سے ہالینڈ کے علاوہ دیگر ممالک کو بھی سبق ملے گا اور آئندہ کوئی ملک ایسی ناپاک جسارت نہیں کر سکے گا۔
اس حوالے سے میری مسلمان تاجر برادی سےگزارش ہے کہ ہماری شفاعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمانی ہےکیا ہم ان کی خاطر اپنا عارضی منافع نہیں چھوڑ سکتے؟مال کیا ہے ان کی خاطر تو جان تک کو قربان کیا جا سکتا ہے اس لیے آپ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہالینڈ کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں، اگر کوئی مسلمان تاجر ان کی مصنوعات سے اپنا کاروبار چلا رہا ہے تو اس کے متبادل انتظام کرے۔
3…عوام:
زبان خلق نقارہ خدا ہوتی ہے، عوام کا احتجاج سب سے موثر ہوتا ہے اور جب عوام اپنے ساتھ اپنے سیاسی رہنمائوں کو بھی احتجاج میں شریک کر لے تو اپنے مطالبات منوا لیتی ہے، اگر مسلمان عوام مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن، ناانصافی اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرسکتی ہے سڑکوں پر نکل سکتی ہے تو کائنات کے سب سے بڑے ظلم گستاخانہ خاکوں کے بارے سڑکوں پر کیوں نہیں آ سکتی؟
اس حوالے سے میری گزارش ہے کہ عوام ہر سطح پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرائے یہاں تک کہ ہالینڈ میں موجود مسلمان اپنے نبی کی عزت و ناموس کے لیے اور اپنے آزادی اظہار رائے کے حق کو پر امن طریقے سے حاصل کریں، اگر سیاسی معاملات میں ریلیاں، دھرنے اور احتجاج ہو سکتے ہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کی خاطر اس سے بڑھ کر ہو سکتے ہیں۔
4 …میڈیا:
رائے عامہ کی ہمواری میں میڈیا کا کردار بنیادی ہوتا ہے، میڈیا چوتھا ستون ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کے لیے اپنی اپنی بساط اور اختیارات کے مطابق اس کو استعمال میں لانا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔سوشل میڈیا سے وابستہ افراد سوشل میڈیا پر اپنی صدائے احتجاج بلند کریں اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے مالکان اس بارے مضبوط و موثر ترین لائحہ عمل کا اعلان کریں اور اس کے لیے عملی اقدامات بھی کریں۔ اخبارات میں خصوصی اشاعتوں کا اہتمام، ٹی وی پر خصوصی پروگرامز کا انعقاد کیا جائے۔
اس حوالے سے میری گزارش یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو لکھنے اور گفتگو کے لیے منتخب کیا جائے جواسلام کی روح کو سمجھتے ہوں، معاملے کی حساسیت کا ادراک رکھتے ہوں اور اس کے حل کے لیے سنجیدہ اور موثر تجاویز پیش کر سکتے ہوں۔ فکری بے راہ روی کا شکار متجددین اور مستشرقین سے مرعوب نام نہاد دانشور قوم کی رہنمائی ہرگز نہیں کر سکتے بلکہ الٹا معاملہ کو غلط رخ دیتے ہیں۔
5…علماء کرام:
مسلمان قوم اپنے مذہبی پیشوائوں کے حکم پر ہمیشہ لبیک کہتی ہے، یہ مسئلہ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کا۔ اس بارے سب سے زیادہ حق ان لوگوں کا ہے جو انبیاء کے وراث ہیں، نبی کے علم، عمل، تزکیہ اور منبر کے وارث ہیں۔
اس حوالے سے میری گزارش یہ ہے کہ خطبات جمعہ اور دیگر مذہبی اجتماعات میں عوام کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیں اور قوت دلیل اور طاقت عشق سے اس فریضے کی ادائیگی ہوتی ہے۔
درس قرآن، درس حدیث، درس فقہ، عوامی اجتماعات، کانفرنسیں، سیمینارز، جلسے اور جلوسوں، ریلیوں اور دھرنوں، اخبارات اور ٹی وی پروگراموں میں علماء کرام اس معاملے کو ترجیحی بنیادوں پر اٹھائیں۔ پرامن طریقوں سے اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہر طبقے کو اس کا احساس دلائیں۔ کیونکہ دین کی بنیاد محبت رسول پر ہے اور یہ نہ رہے تو خالی نقوش کسی کام کے نہیں رہتے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں عشق رسالت اوراتباع سنت کی توفیق نصیب فرمائے اور کثرت کے ساتھ صلوٰۃ و سلام پڑھنے اور مقاصد بعثت نبوت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین بجاہ النبی الامی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمد الیاس گھمن
خانقاہ حنفیہ، مرکز اھل السنۃ والجماعۃ، سرگودھا
جمعرات، 23اگست، 2018ء