محرم الحرام سے متعلق چند غلط تصورات

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
محرم الحرام سے متعلق چند غلط تصورات
اللہ تعالیٰ نے محرم کو اپنا مہینہ قرار دیا ہے۔ یہ اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے، دینی اعتبار سے عزت و احترام کا مہینہ ہے۔ اس کا ہر دن حرمت والا ہے، اس کے مسنون اعمال سے متعلق ہم پہلے لکھ چکے ہیں۔ جن کا خلاصہ دو باتیں ہیں پہلی یہ کہ اس ماہ میں روزے رکھے جائیں، دوسری یہ کہ اس ماہ کی دسویں تاریخ کو بطور خاص اپنے اہل و عیال پر وسعت کے ساتھ خرچ کیا جائے ہاں اتنی بات ضرور ملحوظ رکھی جائے کہ صرف دسویں محرم کا روزہ نہ رکھا جائے بلکہ ساتھ میں نویں کا یا پھر گیارہویں کا روزہ ضرور رکھا جائے۔ اب اس سے متعلق چند غلط تصورات کے بارے ذکر کرتے ہیں تاکہ افراط و تفریط سے پاک اسلام کی معتدل تعلیم ہمارےسامنے آ سکے اور ہم اس پر عمل پیرا ہو سکیں۔
1:من گھڑت احادیث پھیلانا:
ماہ محرم کے شروع ہوتے ہیں من گھڑت قسم کی احادیث اور باتیں پھیلانا شروع کر دی جاتی ہیں۔ مثلا ایک یہ غلط بات بطور حدیث مبارک کے پھیلائی جاتی ہے:
من صام تسعة أیام من أول المحرم بنی اللہ لہ قبة في الھواء، میلا في میل، لھا أربعة أبواب
ترجمہ: جس نے پہلی محرم سے لے کر نو محرم تک روزے رکھے،اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہوا میں ایک ایسا خیمہ بنائیں گے، جو ایک میل چوڑا اور ایک میل لمبا ہوگااور اس کے چار دروازے ہوں گے۔
اسی طرح دوسری یہ پھیلائی جاتی ہے:
ما من عبد یبکي یوم قتل الحسین، إلا کان یوم القیامۃ مع أولی العزم من الرسل۔
ترجمہ: شہادت حسین رضی اللہ عنہ کے دن یعنی دسویں محرم کو جو شخص ان کے غم میں روئے گا، قیامت کے دن وہ عزیمت والے رسولوں کے ساتھ ہو گا۔
اچھی طرح یاد رکھیں کہ مذکورہ بالا باتیں قطعاً حدیث نہیں بلکہ کسی نے ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غلط منسوب کر دیا اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح فرمان موجود ہے
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللهُ عَنْہُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ۔ ۔۔ مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ
صحیح بخاری، باب اثم من کذب علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم، حدیث نمبر110
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص میری طرف جھوٹی نسبت کرے یعنی جو بات میں نے کہی نہیں یا کی نہیں اس کے کرنے کی نسبت کرے یا جو بات میں نے کہی ہے یا کام کیا ہے اس کو جھٹلائے تو وہ شخص اپنا ٹھکانہ جہنم بنائے۔
2:شہداء کربلاء کا سوگ منانا:
یہ بات اچھی طرح یاد رکھیں کہ شریعت اسلامیہ میں سوگ منانے کا اجازت صرف خواتین کو ہے اور ان کی بھی مدت متعین ہے۔ طلاق یافتہ (جسے طلاق بائنہ دی گئی ہو) اسی طرح جس خاتون کا شوہر فوت ہو جائے اس کے لیے عدت کے ایام میں سوگ کرنا درست ہے اور عام رشتہ داروں کی وفات پر صرف تین دن سوگ کیا جا سکتا ہے اس سے زیادہ نہیں۔ یعنی اس عرصہ میں زیب وزینت اور بناوٴ سنگھار نہ کرے، خوشبو، سرمہ، مہندی وغیرہ نہ لگائے ایسے کپڑے جو خوشی کی تقریبات میں پہنے جاتے ہیں وہ نہ پہنے۔ باقی نوحہ کرنا، رخسار پیٹنا اور ایسا واویلا کرنا جس سے اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر حرف آتا ہے جائز نہیں۔
بہرحال مرد وں کے لیے تو کسی صورت میں سوگ کی اجازت نہیں ہے خواتین کو اجازت تو ہے لیکن اس کی بھی حد بندی ہے جس میں رہتے ہو سوگ منانا درست ہے اس شریعت کی قائم کردہ حدود کو پامال کرنا جائز نہیں۔
3:نکاح نہ کرنا:
بہت دکھ کی بات ہے کہ بہت سارے سمجھ دار لوگ بھی اس عظیم مہینے کی برکات سے فائدہ نہیں اٹھاتے، بلکہ اس میں شادی بیاہ یہاں تک کہ نکاح جیسا مسنون عمل نہیں کرتے، حالانکہ یہ سراسر جہالت والی بات ہے۔ اس مبارک مہینے میں کوئی نیک عمل ایسا نہیں جس کو نہ کیا جا سکے۔
اس موقع پر دو طرح کے طبقات آمنے سامنے آتے ہیں ایک تو اس میں نکاح کو درست نہیں سمجھتا جبکہ دوسرا طبقہ اپنی طرف سے سوشل میڈیا پر بے بنیاد قسم کے میسجز پھیلاتا ہوا نظر آتا ہے۔ ابھی محرم شروع ہونے والا ہے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ پر دکھائی دیتی ہے کہ ام المومنین سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی محرم کے مہینہ میں ہوا تھا، اسی طرح خلیفہ سوم حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت ام کلثوم کا نکاح بھی محرم میں ہوا اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا نکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی صاحبزادی حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا سے ہوا تھا۔
یہ بات اچھی طرح یاد رکھیں کہ اختلاف کے وقت حق کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے اور محض اختلاف کی بنیاد پر کسی غلط بات کا سہارا لینا اہل حق کا شیوہ نہیں ہے۔ جہاں تک بات ہے اللہ کے نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت صفیہ سے نکاح کی تو مذکورہ بالا روایت تاریخی طور پر غلط ہےالبتہ تاریخ الخمیس فی احوال انفس النفیس باب صوم عاشوراء میں ہے:تزوّج محمد صلّى الله عليه وسلم خديجة يوم عاشوراءکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سےنکاح دس محرم کو ہوا تھا۔ اسی طرح حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح کس مہینہ میں ہوا؟ اس بارے ابن عساکر نے اپنی کتاب تاریخ مدینۃ الدمشق میں اور امام طبری نے اپنی کتاب تاریخ الرسل والملوک میں محرم الحرام کے مہینے میں نکاح کے قول کو ترجیح دی ہے۔ باقی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا نکاح محرم میں نہیں ہوا۔
4:شہداء کربلا کی سبیل:
اس موقع پر عام طور پر دودھ، شربت اور ٹھنڈےپانی وغیرہ کی جگہ جگہ سبیلیں لگائی جاتی ہیں، جوکہ غیر اللہ کے نام پر ہوتی ہیں اس لیے اہل السنت والجماعت کے عقائد کے مطابق ان سبیلوں سے کچھ کھانا پینا ناجائز اور حرام ہے اس سے بچا جائے۔ ہاں جن کے ہاں غیر اللہ کے نام کی نذر ونیاز اور سبیل وغیرہ جائز ہے وہ جانیں اور ان کا کام۔
بعض باتوں کا تعلق شریعت کے ساتھ ساتھ انتظامی معاملات سے بھی بہت گہرا ہے جیسا کہ مجالس عزاء، تعزیہ اور ماتم وغیرہ میں اہل السنت والجماعت کا شریک ہونا کیونکہ اس میں فساد کا بہت قوی اندیشہ ہے جو ملکی سالمیت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ ہمارے انتظامی اداروں اور افواج پاکستان کی کوششوں کے بعد اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان اندرونی و بیرونی خطرات سے اب محفوظ ہوا ہے۔ اب ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ پاکستان کو ممکنہ دہشت گردی کے واقعات سے محفوظ بنانے کے عملی اقدامات کریں۔ قیام امن اور بقائے باہمی کی کوششوں کو سبوتاژ ہونے سے بچائیں۔
اللہ ہمیں مسنون اعمال کرنے کی اور غلط تصورات سے خود کو بچانے کی توفیق نصیب فرمائے۔
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام محمد الیاس گھمن
خانقاہ حنفیہ، مرکز اہل السنۃ والجماعۃ، سرگودھا
جمعرات، 6 ستمبر، 2018ء