اللہ کا کرم

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
اللہ کا کرم
اللہ تعالیٰ کے ہاں ہماری نیکیاں اور برائیاں دونوں لکھی جاتی ہیں، قیامت کے دن ان کا حساب لگایا جائے گا جس کی نیکیاں زیادہ ہوں گی وہ جنت میں بھیجا جائے گا اور جس کی برائیاں زیادہ ہوں گی قانون کے مطابق اس کے لیے جہنم کا فیصلہ ہوگا لیکن اللہ اپنے کرم کے ساتھ شفاعت کی اجازت دیں گے چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم،صحابہ کرام، علماء، شہداء، حجاج، حفاظ، قراء اور نابالغ اولاد، قرآن کریم اور روزہ وغیرہ اہل ایمان کےلیے بخشش کی سفارش کریں گے جسے اللہ رب العزت محض اپنے فضل سے جس کے بارے میں چاہیں گے، قبول فرمائیں گے۔
اللہ تعالیٰ کا کرم ہر وقت ہماری طرف متوجہ رہتا ہے لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اس کی قدر نہیں کرتے۔ اس دنیا میں بھی نوازشات خداوندی ہمارے اوپر اتنی برس رہی ہیں اگر ہم اس کا احساس کر لیں اور ان نوازشات سے فائدہ اٹھا لیں تو ہماری دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیں۔
آئیے! کرم خداوندی کی ایک جھلک دیکھتے ہیں:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا يَرْوِي عَنْ رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ قَالَ إِنَّ اللهَ كَتَبَ الْحَسَنَاتِ وَالسَّيِّئَاتِ ثُمَّ بَيَّنَ ذَلِكَ فَمَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا كَتَبَهَا اللهُ لَهُ عِنْدَهُ حَسَنَةً كَامِلَةً فَإِنْ هُوَ هَمَّ بِهَا فَعَمِلَهَا كَتَبَهَا اللهُ لَهُ عِنْدَهُ عَشْرَ حَسَنَاتٍ إِلَى سَبْعِمِائَةِ ضِعْفٍ إِلَى أَضْعَافٍ كَثِيرَةٍ وَمَنْ هَمَّ بِسَيِّئَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا كَتَبَهَا اللهُ لَهُ عِنْدَهُ حَسَنَةً كَامِلَةً فَإِنْ هُوَ هَمَّ بِهَا فَعَمِلَهَا كَتَبَهَا اللهُ لَهُ سَيِّئَةً وَاحِدَةً۔
صحیح بخاری، باب من ھم بحسنۃ او بسیئۃ، حدیث نمبر 6491
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نیکیوں اور گناہوں کو لکھتے ہیں۔اس کی وضاحت کرتے ہوئے ہوئے فرمایا جو شخص نیکی کرنے کا ارادہ کرے اور کسی وجہ سے وہ کام کر نہ سکے تو اللہ رب العزت ایسے شخص کو) محض نیکی کا پختہ ارادہ کر لینے کی وجہ سے (مکمل اجر عطا فرماتے ہیں اور اگر وہ نیکی کا کام بھی کر لے تو اللہ رب العزت اس کو دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک اجر وثواب سے نوازتے ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ اجر و ثواب عطا فرماتے ہیں۔ اور اگر کوئی شخص برائی کا ارادہ کرے اور )خوف خدا کی وجہ سے (وہ برائی والا کام نہ کرے تو اللہ رب العزت اس کے نامہ اعمال میں اجر و ثواب لکھ دیتے ہیں اور اگر وہ گناہ کا کام کر لیتا ہے تو اس کے نامہ اعمال میں صرف ایک برائی لکھتے ہیں۔
فائدہ: یہ بات اچھی طرح ذہن نشین فرما لیں کہ نیکی کی نیت سے مراد پختہ عزم ہے، کسی کے اصرار کی وجہ سے محض زبان سے ان شاء اللہ کہنا یا دفع وقتی کے لیے کسی کے سامنے نیک عمل کا ارادہ ظاہر کرنا مراد نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ نیت قابل قبول ہے جو خالص اللہ کے لیے ہو لوگوں کو خوش کرنے یا ان سے جان چھڑانے کی نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ کے بے پناہ انعامات و احسانات ہیں جن کو شمار بھی نہیں کیا جاسکتا ان میں سے ایک احسان یہ ہے جس کا تذکرہ مذکورہ بالا حدیث مبارک میں ہے کہ اگر کوئی شخص محض نیکی کرنے کا پختہ ارادہ کر لے لیکن کسی وجہ سے وہ نیکی والا کام کر نہ سکے تو بھی اللہ تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں ایک نیکی کا ثواب لکھ دیتے ہیں اور اگر نیکی والا کام کر لے تو پھر اس کا ثواب دس گنا سے لے کر سات سو گنا بلکہ بسا اوقات اخلاص کی وجہ سے اس سے بھی زیادہ عطا فرماتے ہیں۔ ایک طرف لطف و عنایات، جود و کرم کا یہ معاملہ ہے جبکہ دوسری طرف عفو ودرگزر کی انتہاء دیکھیے کہ برائی کے وقت بھی اس کا کرم ہم پر سایہ فگن رہتا ہے کہ اگر کسی نے برائی کا ارادہ کیا تو اس کے محض ارادہ کرنے پر گناہ نہیں لکھا جاتا بلکہ اگر وہ برائی کا ارادہ کرنے کے بعد خوف خدا کی وجہ سے برائی نہیں کرتا تو ایک نیکی اس کے نامہ اعمال میں درج کر دی جاتی ہے اور اگر کوئی قسمت کا مارا اللہ کی نافرمانی کر بیٹھے تو اس کے نامہ اعمال میں ایک ہی گناہ لکھا جاتا ہے۔
یعنی نیکی کے ارادے پر نیکی، اس کو کرنے پر دس گنا سے لے کر سات سو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ تک اجر۔ جبکہ برائی کے ارادہ پر گناہ نہیں، نہ کرنے پر ایک نیکی اور گناہ کر لینے پر صرف ایک گناہ۔ اس کو کرم نہ کہیں تو اور کیا کہیں؟
عَنْ نَافِعٍ رَحِمَہُ اللہُ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: مَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: رَبِّ زِدْ أُمَّتِي، فَنَزَلَتْ: مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً۔ قَالَ: رَبِّ زِدْ أُمَّتِي، فَنَزَلَتْ: إِنَّمَا يُوفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ۔
المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث نمبر 5645
ترجمہ: حضرت نافع رحمہ اللہ ؛ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ جب قرآن کریم یہ آیت نازل ہوئی )جس میں اللہ رب العزت اپنے راہ میں خرچ کرنے والوں کے اجر و ثواب کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ (وہ لوگ جو اپنے مال سے اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس دانے جیسی ہے جس سے سات بالیاں نکلی ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! میری امت کے اجر و ثواب میں اضافہ فرما۔ تو اللہ رب العزت نے یہ آیت نازل فرمائی )جس کا ترجمہ یہ ہے (وہ لوگ جو اللہ کو بہترین قرض دیتے ہیں )مراد صدقہ و خیرات وغیرہ کرتے ہیں (ان کے اجر و ثواب میں کئی گنا اضافہ کر دیا جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دعاء مانگی کہ اے اللہ میری امت کے اجر وثواب میں مزید اضافہ فرما۔ اللہ رب العزت نے آپ کی دعاء کو قبول فرماتے ہوئے یہ آیت نازل کی )جس کا مفہوم یہ ہے(صبر کرنے والوں)یعنی ان لوگوں کو جو اپنی تمام خواہشات کو پس پشت ڈال کر، تکالیف اور مصائب کو برداشت کر کےنیک اعمال کرنے والے ہیں (کوبے حساب اجر و ثواب دیا جائے گا۔
ایک طرف نیکی کے ارادے پر نیکی اور کرنے پر دس سے سات سو گنا تک اجر جبکہ دوسری طرف برائی کے ارادے پر گناہ نہیں، کر لینے پر صرف ایک گناہ اور وہ بھی مہلت کے بعد۔ یہ اس کا کرم ہی کرم اور عطا ہی عطا ہے، حدیث مبارک ملاحظہ فرمائیں:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اللَّهُ عَزَّوَجَلَّ إِذَا تَحَدَّثَ عَبْدِي بِأَنْ يَعْمَلَ حَسَنَةً فَأَنَا أَكْتُبُهَا لَهُ حَسَنَةً مَا لَمْ يَعْمَلْ فَإِذَا عَمِلَهَا فَأَنَا أَكْتُبُهَا بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا وَ إِذَا تَحَدَّثَ بِأَنْ يَعْمَلَ سَيِّئَةً فَأَنَا أَغْفِرُهَا لَهُ مَا لَمْ يَعْمَلْهَا فَإِذَا عَمِلَهَا فَأَنَا أَكْتُبُهَا لَهُ بِمِثْلِهَا وَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتِ الْمَلاَئِكَةُ رَبِّ ذَاكَ عَبْدُكَ يُرِيدُ أَنْ يَعْمَلَ سَيِّئَةً وَ هُوَ أَبْصَرُ بِهِ فَقَالَ ارْقُبُوهُ فَإِنْ عَمِلَهَا فَاكْتُبُوهَا لَهُ بِمِثْلِهَا وَ إِنْ تَرَكَهَا فَاكْتُبُوهَا لَهُ حَسَنَةً إِنَّمَا تَرَكَهَا مِنْ جَرَّايَ وَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَحْسَنَ أَحَدُكُمْ إِسْلاَمَهُ فَكُلُّ حَسَنَةٍ يَعْمَلُهَا تُكْتَبُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ وَ كُلُّ سَيِّئَةٍ يَعْمَلُهَا تُكْتَبُ بِمِثْلِهَا حَتَّى يَلْقَى اللَّهَ۔
صحیح مسلم، باب اذا ھم العبد بحسنۃ کتبت، واذا ھم بسیئۃ لم تکتب، حدیث نمبر 205
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ عزوجل نے فرمایا کہ جب میرا بندہ دل میں نیک کام کرنے کی نیت کرتا ہے تو میں اس کے لیے ایک نیکی لکھ لیتا ہوں، جب تک کہ اس نے وہ نیکی نہیں کی۔ پھر اگروہ نیکی کی تو اس کو میں اس کے لیے(ایک کے بدلے) دس نیکیاں لکھتا ہوں اور جب دل میں برائی کرنے کی نیت کرتا ہے تو میں اس سے در گزر کرتا ہوں جب تک کہ وہ برائی (پر عمل) نہ کرے اور پھر جب وہ برائی (پر عمل) کرلے تو اس کےلیے ایک ہی برائی لکھتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فرشتے کہتے ہیں کہ اے پروردگار! یہ تیرا بندہ ہے، برائی کرنا چاہتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ ان سے زیادہ اپنے بندے سے باخبر ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ دیکھتے رہو! اگر وہ برائی کرے تو ایک برائی ویسی ہی لکھ لو اور اگر نہ کرے (اور اس برائی کے ارادے سے رکا رہے) تو اس کے لیے ایک نیکی لکھ لو کیونکہ اس نے میرے ڈر سے اس برائی کو چھوڑ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کا اسلام بہتر ہوتا ہے تو پھر وہ جو نیکی کرتا ہے اس کے لیے ایک کے بدلے دس نیکیاں سات سو گنا تک لکھی جاتی ہیں اور جو برائی کرتا ہے تو اس کےلیے ایک ہی برائی لکھی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے مل جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب نیک نیت بنائے اور اخلاص کے ساتھ نیک اعمال کرنے والا بنائے۔ بری نیت اور برائیوں سے بچائے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت خاصہ کو قبول فرمائے۔
آمین بجاہ شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم
 
والسلام
محمد الیاس گھمن
خانقاہ حنفیہ، مرکز اھل السنۃ والجماعۃ، سرگودھا
جمعرات، 11اکتوبر، 2018ء