افضل الانبیاء والرسل صلی اللہ علیہ وسلم … حصہ اول

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
افضل الانبیاء والرسل صلی اللہ علیہ وسلم … حصہ اول
اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں میں سب سے زیادہ فضیلت انبیاء کرام علیہم السلام کو عطا فرمائی اور انبیاء کرام علیہم السلام میں سب سے زیادہ فضیلت ان کو دی جنہیں منصب رسالت عطا فرمایا:
وَرَبُّكَ أَعْلَمُ بِمَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِيِّينَ عَلَى بَعْضٍ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا
سورۃ الإسراء، آیت نمبر 55
ترجمہ: اے پیغمبر!جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے ان کو سب سے زیادہ آپ کا رب ہی جانتا ہے اور )اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ (ہم نے انبیاء میں سے بعض کو بعض پر فضیلت بخشی اور ہم نے داود کو زبور عطا کی۔
تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ
سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 253
ترجمہ: یہ تمام رسول ہیں ان میں سے ہم نے بعض کو دوسروں پر فضیلت بخشی۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: خِيَارُ وَلَدِ آدَمَ خَمْسَةٌ: نُوْحٌ وَإِبْرَاهِيْمُ وَعِيْسَی وَمُوْسَی وَمُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَخَيْرُهُمْ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِمْ أَجْمَعِيْنَ وَسَلَّمَ.
مسند بزار، حدیث نمبر 9737
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پانچ نبی ایسے ہیں جو تمام انبیاء علیہم السلام کے سردار ہیں وہ یہ ہیں: حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد علیہم الصلوٰۃ والسلام۔ اور ان سب سردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
اس لیے تمام اہل اسلام کا عقیدہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم افضل الناس، افضل الانبیاءاور افضل الرسل ہیں۔
اللہ تعالیٰ نےامت محمدیہ کو” خیر امۃ“ یعنی سب سے بہترین امت قرار دیا ہے۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ امت محمدیہ کو یہ فضیلت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے عطا ہوئی۔ جس کی وجہ سے امت کو یہ مقام اور مرتبہ نصیب ہوا ہے۔
امت کو فضیلت ملتی ہے نبی کی وجہ سے اور انبیاء کرام علیہم السلام کو اللہ نے فضیلت بخشی ہے امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے کیونکہ فضیلت کی وجہ نبوت ہوتی ہے اور تمام انبیاء کرام علیہم السلام کو نبوت ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے ملی ہے باقی انبیاء فقط نبی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبی الانبیاء ہیں یعنی نبیوں کے بھی نبی ہیں۔ اس لیے تمام انبیاء کرام علیہم السلام سے عہد لیا گیا کہ اگرتمہارے دور میں میرا پیغمبر آ جائے تو اس پر ایمان لانا، اور اس کا دست و بازو بننا۔
وَإِذْ أَخَذَ اللّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّيْنَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي قَالُواْ أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُواْ وَأَنَاْ مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ.
سورۃ آل عمران، آیت نمبر 83
ترجمہ: اور جب اللہ نے انبیاء کرام علیہم السلام سے اس بات کا عہد لیا کہ اگر میں تم کو کتاب و حکمت عطا کروں پھر تمہارے پاس ایک رسول آئے جو اس کتاب کی تصدیق کرے جو تمہارے پاس ہے تو تم اس پرضرور ایمان لانا اور ضرور اس کی مدد کرنا اللہ نے ان انبیاء کرام سے کہا کیا تم اس بات کا اقرار کرتے ہو اور میری طرف سے سونپی جانے والے ذمہ داری قبول کرتے ہو؟ انہوں نے کہا: ہم اقرار کرتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا کہ تم ایک دوسرے کے اقرار کے گواہ بن جاؤ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہی میں شامل ہو جاتا ہوں۔
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَسْأَلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ عَنْ شَيْءٍ فَإِنَّهُمْ لَنْ يَهْدُوكُمْ وَقَدْ ضَلُّوا فَإِنَّكُمْ إِمَّا أَنْ تُصَدِّقُوا بِبَاطِلٍ أَوْ تُكَذِّبُوا بِحَقٍّ فَإِنَّهُ لَوْ كَانَ مُوسَى حَيًّا بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ مَا حَلَّ لَهُ إِلَّا أَنْ يَتَّبِعَنِي۔
مسند احمد، حدیث نمبر 14631
ترجمہ: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اہل کتاب سےکسی طرح کے )مسائل( نہ پوچھووہ خود گمراہ ہیں تمہیں سیدھی بات کیسے بتائیں گے ہوسکتا ہے کہ تم کسی غلط بات کو سچا مان بیٹھو اور حق بات کو جھٹلا بیٹھو۔ اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام دنیا میں موجود ہوتے تو ان کے لیے بھی میری اتباع کے علاوہ کوئی اور راستہ نہ ہوتا۔
اہل اسلام کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے قریب آسمان سے نازل ہوں گے اور باوجود خود نبی ہونے کے ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر عمل کریں گے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَوَّلُ مَنْ يَنْشَقُّ عَنْهُ الْقَبْرُ وَأَوَّلُ شَافِعٍ وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ.
صحیح مسلم، باب تفضيل نبينا صلی الله علیہ وسلم علی جميع الخلائق، حدیث نمبر 4223
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں قیامت کے دن تمام اولاد آدم کا سردار ہوں گا، میں وہ پہلا انسان ہوں گا جس کی قبر کھلے گی، گناہگاروں کی سب سے پہلے سفارش کرنے والا میں ہی ہوں گا اور میں ہی وہ پہلا انسان ہوں گا جس کی سفارش کو قبول کیا جائے گا۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْأَرْضُ فَأُکْسَی حُلَّةً مِنْ حُلَلِ الْجَنَّةِ، ثُمَّ أَقُوْمُ عَنْ يَمِيْنِ الْعَرْشِ لَيْسَ أَحَدٌ مِنَ الْخَلَائِقِ يَقُوْمُ ذَلِکَ الْمَقَامَ غَيْرِي.
جامع الترمذی، باب فی فضل النبی صلی الله علیہ وسلم، حدیث نمبر3544
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں پہلا وہ انسان ہوں جس کی قبر سب سے پہلے کھلے گی، مجھے جنتی کا لباس پہنایا جائے گا پھر میں اللہ کے عرش کے دائیں طرف کھڑا ہوں گا ۔ میرے علاوہ یہ مقام کسی اور کو نصیب نہیں ہو گا۔
عَنْ أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا کَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ کُنْتُ إِمَامَ النَّبِيِّيْنَ، وَخَطِيْبَهُمْ، وَصَاحِبَ شَفَاعَتِهِمْ غَيْرَ فَخْرٍ.
جامع الترمذی، باب فی فضل النبی صلی الله علیہ وسلم، حدیث نمبر 3546
ترجمہ: حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں قیامت والے دن میں تمام انبیاء کا امام، ان کا ترجمان اور شفیع ہوں گا اور میں اسے اپنا ذاتی کمال سمجھنے کے بجائے محض اللہ کا کرم سمجھتا ہوں۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا قَالَ: جَلَسَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْتَظِرُوْنَهُ قَالَ فَخَرَجَ حَتَّی إِذَا دَنَا مِنْهُمْ سَمِعَهُمْ يَتَذَاکَرُوْنَ فَسَمِعَ حَدِيْثَهُمْ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: عَجَبًا إِنَّ اللہَ عَزَّوَجَلَّ اتَّخَذَ مِنْ خَلْقِهِ خَلِيْـلًا، اتَّخَذَ إِبْرَاهِيْمَ خَلِيْـلًا، وَقَالَ آخَرُ: مَاذَا بِأَعْجَبَ مِنْ کَـلَامِ مُوْسَی: کَلَّمَهُ تَکْلِيْمًا، وَقَالَ آخَرُ: فَعِيْسَی کَلِمَةُ اللہِ وَرُوْحُهُ، وَقَالَ آخَرُ: آدَمُ اصْطَفَاهُ اللہُ، فَخَرَجَ عَلَيْهِمْ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔ فَسَلَّمَ وَقَالَ: قَدْ سَمِعْتُ کَـلَامَکُمْ وَعَجَبَکُمْ أَنَّ إِبْرَاهِيْمَ خَلِيْلُ اللہِ وَهُوَ کَذَلِکَ وَمُوْسَی نَجِيُّ اللہِ وَهُوَ کَذَلِکَ، وَعِيْسَی رُوْحُ اللہِ وَکَلِمَتُهُ وَهُوَ کَذَلِکَ، وَآدَمُ اصْطَفَاهُ اللہُ وَهُوَ کَذَلِکَ، أَلَا وَأَنَا حَبِيْبُ اللہِ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا حَامِلُ لِوَاءِ الْحَمْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ وَ أَوَّلُ مُشَفَّعٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ يُحَرِّکُ حِلَقَ الْجَنَّةِ فَيَفْتَحُ اللہُ لِي فَيُدْخِلُنِيْهَا وَمَعِيَ فُقَرَاءُ الْمُؤْمِنِيْنَ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا أَکْرَمُ الْأَوَّلِيْنَ وَالْآخِرِيْنَ عَلَی اللہِ وَلَا فَخْرَ.
جامع الترمذی، باب فی فضل النبی صلی اللہ علیہ وسلم، حدیث نمبر 3549
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما روایت ہے کہ کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تشریف فرما تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار فرما رہےتھے اتنے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور قریب سے ان کی باہمی گفتگو سنی۔ ایک صحابی نے کہا: واہ کیا شان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنایا۔ دوسرے صحابی فرمانے لگے: یہ موسیٰ علیہ السلام کے اللہ سے کلام کرنے سے زیادہ تعجب والی بات نہیں اللہ نے حضرت موسیٰ سے کلام فرمایا ہے۔ تیسرے صحابی نے فرمایا: حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو کلمۃ اﷲ اور روح اللہ ہیں۔ چوتھے صحابی نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو چن لیا۔ یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں السلام علیکم فرمایا اور یہ ارشاد فرمایا: میں نےآپ لوگوں کی باہمی گفتگو سنی اور جن باتوں پر تم تعجب کر رہے تھے وہ بھی سنیں واقعی یہ سچ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ ہیں، حضرت موسیٰ علیہ السلام نجی اللہ ہیں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام روح اللہ اور کلمۃ اللہ ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالی نے چن لیا۔ یقیناً یہ ان کا فضل و کمال اور اللہ کے ہاں عزت و مقام ہے۔ لیکن ایک بات اچھی طرح یاد رکھنا کہ میں )محمد ( اللہ تعالیٰ کا حبیب ہوں اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں۔)یعنی میں اس کو اپنا کمال نہیں سمجھتا بلکہ اللہ کا فضل سمجھتا ہوں ( قیامت کے دن میں )اللہ کی (حمد کا جھنڈا اٹھانے والا ہوں گا اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں۔)اس کو میں اپنی ذاتی کمال کی طرف منسوب نہیں کرتا بلکہ خاص اللہ ہی کا احسان مانتا ہوں ( قیامت کے دن سب سے پہلا ) گناہگاروں کی ( سفارش کرنے والا بھی میں ہی ہوں گا اور سب سفارش کرنے والوں میں سے پہلے میری ہی سفارش کو قبول کیا جائے گا اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں۔ ) اس میں اپنا ذاتی کمال سمجھ کر فخر نہیں کرتا بلکہ محض اللہ کا فضل سمجھتا ہوں (اور سبب سے پہلے جنت کا دروازہ میں ہی کھٹکھٹاؤں گا۔ اللہ تعالیٰ میرے لئے اسے کھولے گا اور مجھے اس میں داخل فرمائے گا۔ میرے ساتھ اہل ایمان فقراء اور غرباء ہوں گے اور مجھے اس بات پر کوئی فخر نہیں )یعنی اس پر فخر کے بجائے اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں ( اور میں اللہ کی بارگاہ میں تمام اولین و آخرین میں سب سے زیادہ عزت والا ہوں لیکن مجھے اس بات پر کوئی فخر نہیں)یعنی اتنی زیادہ عزت و شرافت کے باوجود اسے میں اپنی خوبی سمجھنے کے بجائے محض اللہ ہی کی عطا تسلیم کرتا ہوں (
عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَا أَوَّلُهُمْ خُرُوْجًا وَأَنَا قَائِدُهُمْ إِذَا وَفَدُوْا، وَأَنَا خَطِيْبُهُمْ إِذَا أَنْصَتُوْا، وَأَنَا مُشَفِّعُهُمْ إِذَا حُبِسُوْا، وَأَنَا مُبَشِّرُهُمْ إِذَا أَيِسُوْا. اَلْکَرَامَةُ، وَالْمَفَاتِيْحُ يَوْمَئِذٍ بِيَدِي وَأَنَا أَکْرَمُ وَلَدِ آدَمَ عَلَی رَبِّي، يَطُوْفُ عَلَيَّ أَلْفُ خَادِمٍ کَأَنَّهُمْ بَيْضٌ مَکْنُوْنٌ، أَوْ لُؤْلُؤٌ مَنْثُوْرٌ.
سنن الدارمی، حدیث نمبر 49
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: )جب قبروں سے لوگوں کو نکالا جائے گا تو ( سب سے پہلے میں نکلوں گا، میں لوگوں کا قائد ہوں گا جب وہ وفد بن کر جائیں گے۔ جب وہ خاموش ہوں گے تو میں ہی ان کا ترجمان ہوں گا۔ جب وہ روک دیئے جائیں گے تو میں ہی ان کی سفارش کرنے والا ہوں گا۔ جب وہ مایوس ہوں گے تو میں ہی انہیں خوشخبری دینے والا ہوں گا۔ قیامت کے دن عزت اور جنت کی چابیاں میرے ہاتھ میں ہوں گی۔ میں اپنے رب کی بارگاہ میں تمام اولادِ آدم میں سب سے زیادہ عزت و شرافت والا ہوں۔ قیامت کے دن میرے اردگرد ایک ہزار خادم پھریں گے گویا کہ وہ مخفی حسن ہیں یا فرمایا کہ بکھرے ہوئے چمکدار موتی ہیں۔
عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا عَنْ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ جِبْرِيْلَ قَالَ: قَلَّبْتُ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا فَلَمْ أَجِدْ رَجُلًا أَفْضَلَ مِنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ أَرَ بَيْتًا أَفْضَلَ مِنْ بَيْتِ بَنِي هَاشِمٍ.
معجم اوسط طبرانی، حدیث نمبر6285
ترجمہ: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھ سے جبریل امین نے کہا: میں نے تمام روئے زمین کو دیکھا ہے، میں نے سب سے زیادہ فضیلت والا آپ ہی کو دیکھا ہے اور گھرانوں میں سب سے اچھا گھر انہ بنی ہاشم کا پایا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع کی توفیق نصیب فرمائے۔
آمین بجاہ افضل الانبیاء والمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمد الیاس گھمن
خانقاہ حنفیہ، مرکز اہل السنۃ والجماعۃ سرگودھا
جمعرات، 6 دسمبر، 2018ء