خاتم المعصومین صلی اللہ علیہ وسلم …حصہ اول

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
خاتم المعصومین صلی اللہ علیہ وسلم …حصہ اول
اللہ تعالیٰ کے احکام کو ماننا اور ان پر عمل کرنا ضروری ہے، اللہ تعالیٰ کے احکام اس وقت معلوم ہو سکتے ہیں جب اللہ تعالیٰ کی ذات کو دیکھیں یا بات کو سنیں۔ اہل اسلام کا متفقہ عقیدہ ہے کہ اس دنیامیں رہ کر نہ تو ہم نے اللہ کی ذات کو دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی بات کو سن سکتے ہیں۔ اس لیے ایک ایسے واسطے کی ضرورت ہے جس نے اللہ کی ذات کو دیکھا یا بات کو سنا ہو خواہ وہ بلا واسطہ )براہ راست ( ہو یا بالواسطہ) بذریعہ وحی( ہو۔ اور وہ واسطہ رسول اور نبی کی ذات ہوتی ہے۔
چونکہ انبیاء و رسل علیہم السلام اللہ رب العزت کے نمائندے اور پیغامبر ہوتے ہیں باقی انسانوں کو ان کی اطاعت و فرمانبرداری کا حکم دیا جاتا ہے اور انہی کی اطاعت واتباع میں دنیا و آخرت کی کامیابیاں موجود ہوتی ہیں۔ معلوم ہوا کہ نبی اور رسول کی اطاعت و اتباع ضروری ٹھہری جب یہ ضروری ہے تو نبی اور رسول کا ایسا ہونا بھی ضروری ہےکہ وہ خود ہر طرح کے گناہوں سے پاک )معصوم (ہوں، کوئی چھوٹے سے چھوٹا، بڑے سے بڑا، جان بوجھ کریا بھول چوک کر گناہ ان سے نہ ہونے پائے۔
اگر اس عقیدہ کو تسلیم نہ کیا جائے تو یہ لازم آئے گا بلکہ یہ تصور کیا جائے کہ نبی گناہوں سے معصوم نہیں ہوتا تو پھر نبی کے اس کام کی بھی اطاعت و اتباع ضروری قرار پائے گی اور چونکہ نبی کی اطاعت درحقیقت اللہ کی اطاعت ہے نتیجہ یہ نکلے گا کہ العیاذ باللہ گناہ بھی اطاعت خداوندی قرار پائے گا، حالانکہ یہ قطعاً غلط ہے۔
اگر اسے تسلیم کر لیا جائے توپھر جنت اور جہنم سے متعلق سارے خدائی احکامات غلط قرار پائیں گے کیونکہ جنت کا تعلق اللہ کی اطاعت پر ہے اور جہنم کا تعلق اللہ کی نافرمانی یعنی گناہ پر ہے اور نبی کو ہر طرح کے گناہوں سے پاک )معصوم ( نہ ماننے سے یہ لازم آئے گا کہ گناہ بھی اطاعت خداوندی ہیں ان پر بھی جنت ملنی چاہیے۔ حالانکہ حقیقت میں ایسا ہرگز نہیں۔ اور گناہ پر جہنم بھی نہیں ملنی چاہیے کیونکہ جہنم اللہ کے نافرمانوں کے لیے ہے اور گناہ کو اطاعت مان لینے سے بندہ نافرمان ہی نہیں ٹھہرتا تو جہنم کا مستحق کیسے قرار دیا جا سکتا ہے ؟
اس لیے شریعت کا تقاضا بھی یہی ہے اور عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ جن کے سروں پر تاج نبوت و رسالت سجاتے ہیں تو ان کو ہر طرح کے گناہوں سے بچاتے ہیں۔ ذیل میں چند ایسے دلائل ذکر کیے جا رہے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی ہرطرح کے گناہوں سے پاک )معصوم(ہوتا ہے۔
قَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَيْرِ هٰذَا أَوْ بَدِّلْهُ قُلْ مَا يَكُونُ لِيْ أَنْ أُبَدِّلَهُ مِنْ تِلْقَآءِ نَفْسِي إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحٰى إِلَيَّ
سورۃ یونس، آیت نمبر 15
ترجمہ: وہ )کفار(کہتے ہیں کہ کوئی اور قرآن لے کر آؤ یا اس میں تبدیلی کرو۔ اے پیغمبر! ان سے کہہ دو کہ مجھے یہ حق نہیں پہنچتا کہ میں اپنی طرف سے اس میں کوئی تبدیلی کروں، میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر نازل کی جاتی ہے۔
فائدہ: جب پیغمبر شریعت کے حکم کو بدلنے کے لیے راضی نہیں تو وہ شریعت کے حکم کی خلاف ورزی )گناہ (کیسے کر سکتا ہے؟
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ
سورۃ الاحزاب، آیت نمبر 21
ترجمہ: حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے۔
فائدہ: اسوۂ حسنہ اس وقت بن سکتے ہیں جب خود گناہوں سے پاک ہوں۔
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى . إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوْحٰى
سورۃ النجم، آیت نمبر 3، 4
ترجمہ: اور یہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے، یہ تو خالص وحی ہے جو ان کے پاس بھیجی جاتی ہے۔
فائدہ: جب نبی کی ہر بات وحی کے مطابق ہے تو اس میں غلطی اور گناہ کا احتمال ہو ہی نہیں سکتا۔یہاں ذہن میں یہ اشکال نہیں ہونا چاہیے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی اجتہادات کو اللہ رب العزت نے ختم فرمادیا جیسے شہد کو اپنے اوپر حرام کر لینا۔ اگر آپ کی ہر بات وحی کے مطابق ہوتی تو پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس بات پر تنبیہ کیوں فرماتے؟ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی آیت منسوخ ہوجائے جس طرح آیت کے منسوخ ہونے سے اس کا غلط ہونا لازم نہیں آتا بالکل اسی طرح نبی کے اجتہاد کے ختم کرنے سے نبی کا گناہ گار ہونا قطعاً لازم نہیں آتا۔
؏ ایں خطا از صد صواب اولیٰ تر است
اللہ رب ذوالجلال کی قسم!ایسی خطا پر تو لاکھوں اربوں طاعتیں قربان ہوں۔ صلی اللہ علیہ وسلم
وَمَآ آتَاكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا
سورۃ الحشر، آیت نمبر 7
ترجمہ: رسول تمہیں جو کچھ دے وہ اس سے لے لو اورجس سے منع کرے اس سے رک جاؤ۔
فائدہ: اس آیت میں کسی کام کے کرنے اور نہ کرنے میں امت کو نبی کی اطاعت کا پابند کیا گیا ہے اور یہ تب ہو سکتا ہے جب نبی خود بھی ہر طرح کے گناہوں سے پاک )معصوم (ہو ورنہ نبی کے قول و فعل میں تضاد لازم آئے گا اور یہ بات سراسر غلط ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ أَطَاعَنِي فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ، وَمَنْ يَعْصِنِي فَقَدْ عَصَى اللَّهَ.
صحیح مسلم، باب طاعۃ الامراء، حدیث نمبر 4775
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔
فائدہ: نبی کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور نبی کی نافرمانی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی تبھی ہو سکتی ہے جب نبی ہر طرح کے گناہوں سے پاک )معصوم (ہو۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ كُنْتُ أَكْتُبُ كُلَّ شَىْءٍ أَسْمَعُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُرِيدُ حِفْظَهُ فَنَهَتْنِى قُرَيْشٌ وَقَالُوا أَتَكْتُبُ كُلَّ شَىْءٍ تَسْمَعُهُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَشَرٌ يَتَكَلَّمُ فِى الْغَضَبِ وَالرِّضَا فَأَمْسَكْتُ عَنِ الْكِتَابِ فَذَكَرْتُ ذٰلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَوْمَأَ بِاِصْبَعِهِ إِلٰى فِيهِ فَقَالَ: اُكْتُبْ فَوَالَّذِى نَفْسِى بِيَدِهِ مَا يَخْرُجُ مِنْهُ إِلاَّ حَقٌّ .
سنن ابی داؤد، باب فی کتابۃ العلم، حدیث نمبر 3648
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر و رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو بات سنتا تھااس کو لکھ لیا کرتا تھا تاکہ اسے محفوظ کروں۔ قریش نے مجھے اس بات سے روکا اور کہنے لگے کہ آپ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے سنی ہر بات لکھ لیتے ہو، آپ صلی اللہ علیہ و سلم بھی تو انسان ہیں، خوشی اور غمی میں کلام کرتے ہیں۔ تو میں نے لکھنا چھوڑ دیا۔ میں نے یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی تو آپ علیہ السلام نے اپنی انگلی مبارک کا اشارہ اپنے منہ مبارک کی طرف کرتے ہوئے فرمایا: تم لکھا کرو! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اس منہ سے سوائے حق کے کچھ نہیں نکلتا۔
فائدہ: نبی قسم اٹھا کر یہ بات بتا رہے ہیں کہ میں بولنے میں غلط بیانی سے کام نہیں لیتا کیونکہ یہ گناہ کا کام ہے مجھے اللہ رب العزت نے اس حوالے سے مکمل طور پر اپنے قبضے میں لے رکھا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے نبی کو ہر طرح کے گناہوں سے پاک )معصوم ( رکھا ہوا ہے۔
امام اعظم امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ (ت150ھ) فرماتے ہیں:
اَلْاَنْبِیَاءُ عَلَیْہِمُ الصَّلوٰۃُ وَالسَّلامُ کُلُّھُمْ مُنَزَّھُوْنَ عَنِ الصَّغَائِرِ وَالْکَبَائِرِ وَالْکُفْرِ وَالْقَبَائِحِ.
الفقہ الاکبر
ترجمہ: سارے انبیاء کرام علیہم السلام چھوٹے بڑے گناہوں، کفر اور ہر طرح کی برے کام اور بری باتوں سے پاک )معصوم ( ہوتے ہیں۔
ملاعلی قاری رحمہ اللہ (ت1014ھ) بعض محققین سے نقل فرماتے ہیں:
اِجْمَاعُ الصَّحَابَۃِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمْ عَلَی التَّاِسِّیْ بِہٖ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ فِیْ اَقْوَالِہٖ وَاَفْعَالِہٖ وَسَائِرِ اَحْوَالِہٖ حَتّٰی فِیْ کُلِّ حَالَاتِہٖ مِنْ غَیْرِبَحْثٍ وَلَا تَفَکُّرٍبَلْ بِمُجَرَّدِ عِلْمِھِمْ اَوْظَنِّھِمْ بِصُدُوْرِذٰلِکَ عَنْہُ دَلِیْلٌ قَاطِعٌ عَلٰی اِجْمَاعِھِمْ عِلٰی عِصْمَتِہٖ وَتَنَزُّھِہٖ عَنْ اَنْ یَّجْرِیَ عَلٰی ظَاہِرِہٖ اَوْبَاطِنِہٖ شَیْ ء ٌلَایُتَاَ سّٰی بِہٖ فِیْہٖ مِمَّالَمْ یَقُمْ دَلِیْلٌ عَلَی اخْتِصَاصِہٖ.
المرقاۃشرح المشکوۃ
ترجمہ: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کاآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقول،افعال اورتمام احوال میں بغیرکسی بحث وتفکر کے محض یہ جانتے ہوئے کہ یہ عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیاہے آپ کی اتباع پرمتفق ہوجاناواضح دلیل ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا آپ کی عصمت پر اجماع ہے اوراس پربھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ظاہراً و باطناً ایسی کوئی چیز صادرنہیں ہوسکتی جس کی اتباع نہ کی جا سکتی ہوجب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت پر دلیل قائم نہ ہوجائے۔
علامہ عبد العزیز پرہاڑوی رحمہ اللہ (ت1239ھ) قاضی عیاض مالکی اور محققین فقہاء اورمتکلمین )علم عقائد کے ماہرین( سے نقل کرتے ہیں:
قَالَ الْقَاضِی عَیَاضُ ذَھَبَ طَائِفَۃٌ مِّنْ مُحَقِّقِ الْفُقَہَاءِ وَالْمُتَکَلِّمِیْنَ اِلَی الْعِصْمَۃِ عَنِ الصَّغَائِرِ کَالْعِصْمَۃِ فِی الْکَبَائِرِ.
النبراس: ص283
ترجمہ: قاضی عیاض مالکی اور محقق فقہاء و متکلمین رحمہم اللہ کا عقیدہ یہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام جس طرح ہر قسم کے کبیرہ گناہوں سےپاک )معصوم (ہوتے ہیں بالکل اسی طرح ہر قسم کے صغیرہ گناہوں سے بھی پاک )معصوم(ہوتے ہیں۔
اس لیے مسلمان ہونے کے لیے یہ عقیدہ اپنانا ضروری ہے کہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام ہر طرح کے گناہوں سے پاک )معصوم(ہوتے ہیں۔ ان کے اخلاق، عادات، اقوال، افعال اور احوال ہر طرح کے گناہوں کی آمیز ش سے پاک ہوتے ہیں۔ اللہ کے منتخب کردہ پسندیدہ و برگزیدہ انسان ہوتے ہیں۔ ان کا ظاہر و باطن شیطانی و نفسانی وساوس کے غلبے اور اللہ کی نافرمانی سے پاک ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے نبی کے صدقے گناہوں سے پاک زندگی عطا فرمائے اور اگرگناہ ہو جائے تو فوراً سچی توبہ کی توفیق نصیب فرمائے۔
آمین بجاہ خاتم المعصومین صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمد الیاس گھمن
خانقاہ چشتیہ ، شاہ عالم سلنگور ملائیشیا
جمعرات، 20 دسمبر، 2018ء