سورۃ الفاتحہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ الفاتحہ
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿اَلۡحَمۡدُ لِلہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۱﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۲﴾مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۳﴾اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۴﴾اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۵﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۙ۬ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾﴾
میں نے رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کو آپ کی خدمت میں یہ عرض کیاتھا کہ ان شاء اللہ ماہانہ درس قرآن کاہمارا اس دفعہ جو شوال میں پہلا درس قرآن ہو گا، باقاعدہ قرآن کریم کی ترتیب پر ہو گا۔اس لیے بالترتیب سورۃ الفاتحۃ، سورۃ البقرۃ، سورۃآل عمران، سورۃ النساء انہی سورتوں کا درس قرآن ان شاء اللہ چلتا جائے گا۔ اس میں دوسال لگیں، تین سال لگیں اللہ رب العزت بہتر جانتے ہیں۔ جب تک مقدر ہوا کوشش کریں گے ترتیب کے ساتھ درس قرآنِ کریم چلتا رہے۔
قوم کا مزاج اور علماء کی ذمہ داری:
ہمارے ہاں درس قرآن کریم سننے والے مختلف حضرات مختلف ذوق رکھتے ہیں، بعضوں کا ذوق ہوتا ہے کہ اختلافی مسائل پر گفتگو ہو تو بڑی رغبت سے سنتے ہیں۔ بعضوں کا ذوق ہوتا ہے کہ فضائل والی گفتگو ہو تو بڑے ذوق سے سنتے ہیں اور بعضوں کا ذوق ہوتا ہے کہ خالص درسِ قرآن ہو تو پھر ان کو پسند آتا ہے۔ آدمی ہر کسی کے مزاج کی رعایت کرے یہ آدمی کے بس میں نہیں ہے۔ ا س لیے بہتر ہوتا ہے اپنی ترتیب کےمطابق کام کرتے رہیں، جن کے مزاج کی موافقت ہوگی وہ چلیں گے جن کے مزاج کے موافق نہیں ہوگا ایک وقت آئے گا اللہ ان کو موافق فرما دے گا۔
حدیث سے لگن:
مفتی اعظم پاکستان مفتی رشید احمد لدھیانوی نور اللہ مرقدہ کے بیان میں ہم شریک تھےحضرت فرمانےلگے:حدیث مبارک میں ہےاگر دودھ پیے تو دعا یوں پڑھے:"اَللّٰهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيْهِ وَزِدْنَا مِنْهُ"
سنن ابی داؤد، رقم: 3730
حضرت رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے دودھ موافق نہیں تھا، معدہ دودھ کو قبول نہیں کرتا تھا، میں دودھ پیتا رہا اور دعا کرتا رہا۔ ایک وقت آیا اللہ نے میرے معدے کو دودھ کے موافق بنا دیا۔ میں دودھ بھی پیتا رہا اوردعا بھی نہیں چھوڑی۔
اس لیے میں کہتا ہوں کہ قوم کے مزاج کا خیال کرنا اوران کی رعایت کرنا یہ بڑا مشکل ہوتا ہے۔ایک بندہ 100آدمیوں کی رعایت کرے،مشکل ہے۔ 100 بندے ایک کی رعایت کریں تو بہت آسان ہے۔ سورۃ فاتحہ کے مضامین کے حوالے سے آج درس قرآن ہوگا اور بالترتیب ہوگا۔ ان شاء اللہ
قرآن کریم کی ترتیب نزولی اوروضعی:
سورۃ فاتحہ یہ قرآن کریم کی پہلی سورۃ ہے لیکن یہ نزول کے اعتبار سے پہلی نہیں۔ قرآن کریم کی دو ترتیبیں ہیں:ایک ترتیب نزولی۔دوسری ترتیب وضعی۔
سب سے پہلے کون سی آیت نازل ہوئی، پھر کون سی نازل ہوئی، پھر کون سی نازل ہوئی۔ یہ ترتیب نزولی ہے۔
قرآن کریم میں پہلے کون سی آیت ہے، پھر کون سی آیت ہے، پھر کون سی آیت ہے۔ یہ ترتیب وضعی ہے۔
قرآن کریم کی نزول آیات کی ترتیب الگ ہے اور ان آیات کو قرآن کریم میں رکھنے کی ترتیب الگ ہے۔ آپ تمام احباب کے علم میں ہوگا کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر جو سب سے پہلے آیات نازل ہوئیں سورۃالفاتحہ کی نہیں بلکہ سورۃ العلق کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں: ﴿اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الَّذِیۡ خَلَقَ ۚ﴿۱﴾﴾ یہ پہلی آیت ہےاور یہ بھی سب کے علم میں ہے کہ ﴿ اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الَّذِیۡ خَلَقَ﴾ یہ قرآن کے شروع میں نہیں ہے بلکہ یہ قرآن کریم کے آخری پارے تیسویں پارے میں ہے اور جو سب سے پہلے آیت نازل ہوئی وہ آخری پارےمیں ہے۔
اس سے معلوم ہو ا کہ قرآن کریم کے اترنے کی ترتیب الگ ہےاور قرآن کریم میں ان آیات کو کہاں کہاں رکھنا ہے؟یعنی ترتیب وضعی بالکل الگ ہے۔
ترتیب نزولی اور وضعی حکم خداوندی ہیں:
ترتیب نزولی بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور ترتیب وضعی بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آتی کہ یہ جو آیت نازل ہوئی ہے اس کو فلاں جگہ پر رکھنا ہے۔ مثلاً جو سب سے پہلے آیت نازل ہوئی وہ ہے:
﴿ اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الَّذِیۡ خَلَقَ ۚ﴿۱﴾﴾
اور جو سب سے آخرمیں نازل ہوئی
﴿ وَ اتَّقُوۡا یَوۡمًا تُرۡجَعُوۡنَ فِیۡہِ اِلَی اللہِ ٭۟﴾
البقرۃ 2 :281
اب یہ آخری آیت ہے اور وہ پہلی آیت ہےاور پہلی آیت دیکھو تو تیسویں پارے میں ہے اور آخری آیت کودیکھو تو تیسرے پارے میں ہے۔میں عرض کر رہا تھا کہ ترتیب نزولی الگ ہے اور ترتیب وضعی الگ ہے۔
تو سورۃ فاتحہ کی آیات نزول کے اعتبار سے پہلی آیات نہیں ہیں لیکن قرآن میں رکھنے کے اعتبار سے پہلی آیات یہی ہیں۔ مفسرین کرام میں یہ مستقل بحث چلی ہے کہ وہ کون سی پہلی سورۃ ہے جو مکمل نازل ہوئی ہے؟ بعض کی رائے میں سب سے پہلے مکمل نازل ہونے والی سورۃ، سورۃ الفاتحہ ہے۔
قرآن کریم کی عظیم ترین سورۃ:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ فاتحہ کے بہت سے فضائل بیان فرمائے ہیں۔ مثلاًصحیح البخاری، کتاب التفسیر میں ہے، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں مسجد میں تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےمجھے ارشاد فرمایا:
" أَلَا أُعَلِّمُكَ أَعْظَمَ سُوْرَةٍ فِي الْقُرْآنِ قَبْلَ أَنْ أَخْرُجَ مِنَ الْمَسْجِدِ"
صحیح البخاری، رقم: 4703
مسجد سے نکلنے سے پہلے میں تجھے وہ سورۃ سکھاؤں گا جو قرآ ن کی سورتوں میں عظیم ترین سورۃ ہے۔ جب میں مسجد میں تھا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا:
﴿اَلۡحَمۡدُ لِلہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴾
یہ سورۃ فاتحہ سب سورتوں میں عظیم ترین سورۃ ہےاور قرآن میں اس کا نام رکھا ہے:
﴿وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنٰکَ سَبۡعًا مِّنَ الۡمَثَانِیۡ وَ الۡقُرۡاٰنَ الۡعَظِیۡمَ﴾
الحجر15: 87
اس کی سات آیات ہیں جن کو باربار پڑھا جاتا ہےاور یہ قرآن عظیم ہے۔
سورۃ شفا:
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا:
" يَا جَابِرُ! أَلَا أُخْبِرُكَ بِخَيْرِ سُوْرَةٍ نَزَلَتْ فِي الْقُرْآنِ؟
کہ میں تجھے وہ سورۃ نہ بتاؤں جو قرآن کریم میں سب سے بہترین سورۃ ہے؟
"قُلْتُ: بَلٰى يَا رَسُوْلَ اللهِ!"
حضور! کیوں نہیں؟مجھے وہ سورۃ بتائیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"فَاتِحَةُ الْكِتَابِ ، فِيهَا شِفَاءٌ مِنْ كُلِّ دَاءٍ"
شعب الایمان للبیہقی: ج2 ص450 رقم الحدیث 2367
\
یہ وہ سورۃ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے تمام بیماریوں کی شفا رکھی ہے۔ تمام بیماریوں کی شفا اس سورۃ میں موجود ہے لیکن بندے کا یقین اور اعتمادشرط ہے بندے کو یقین نہ ہوتو شفا ء کیسے مل سکتی ہے؟
یقین محکم اور اعتمادِ کامل:
مجھے اس بات کا ذاتی تجر بہ ہے یہ اُس وقت کی بات ہے جب میں درجہ سادسہ میں پڑھتا تھا۔ ”سادسہ“ کہتے ہیں چھٹے درجے کو۔ میں گوجرانوالہ پڑھتا تھا، ایک مسجد ہے لا نگریاں والی گلی میں، بڑی مشہور مسجد ہے اس میں جمعہ پڑھاتا تھا اور فجر کی نماز کے بعد درس قرآن بھی دیتا تھا۔ ہماری مسجد کے ایک مؤذن صاحب تھے سادہ آدمی تھے، مجھے آکر کہنے لگے ہمارے گھر میں مہمان بچی آئی ہے جس کو معمول کے مطابق ماہواری کا خون آیا اور رکا نہیں،مسلسل بیماری میں مبتلاہے۔
ہم ڈاکٹروں کے پاس گئے،کوئی فرق نہیں ہے۔ حکیموں کے پاس گئے ہیں کوئی افاقہ نہیں ہوا۔ میں نے اسی وقت)یہ میری طالب علمی کی بات ہے میں اس وقت با لکل نو عمر تھا(ایک کاغذلیا اور اس پر سورۃ فاتحہ لکھی اور ان سے کہا کہ اس کو بند کر لو، پڑھنا نہیں ہے اور اس کو بچی کے پیٹ پر باندھ دو!آپ یقین کریں وہ صبح آیا اور اس کے ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبّہ تھا۔ مجھے کہنےلگا کہ مبارک ہو! ہماری بچی ٹھیک ہوگئی ہے۔ آپ نے لکھا کیا تھا؟ میں نے کہا کہ ”سورۃ فاتحہ“۔ اب اس کا تعلق تو اعتماد کے ساتھ ہے۔
امام اہل السنت کاتعویذ اور دَم:
امام اہل السنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ سے میں نے پڑھا، علم وہاں سے شروع کیا میں ڈیرھ سال وہاں پڑھا ہوں۔ ہمارے شیخ رحمہ اللہ کی عادت تھی، کوئی بندہ تعویذ لینے آتا تواس کو فقط یہی لکھ دیتے:
بِسْمِ اللّٰهِ الَّذِىْ لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهٖ شَىْءٌ فِى الْأَرْضِ وَلَا فِى السَّمَاءِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ.
۔ سنن ابی داؤد، رقم: 5088
یہی الفاظ ہر کسی کو لکھ کر دیتے۔ کوئی دَم کے لیے آتا ایک ہی دم کرتے
"بِسْمِ اللّٰهِ الَّذِىْ لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهٖ شَىْءٌ فِى الْأَرْضِ وَلَا فِى السَّمَاءِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ"
پڑھ کر اس پر پھونک مار دیتے۔اب اس کا ترجمہ کیا ہے؟ میں اللہ تعالیٰ کے نام سے دَمْ کرتا ہوں اوردنیا میں بندے کو کوئی چیز تکلیف نہیں دے سکتی۔ نہ زمین میں نہ آسمان میں،اللہ تعالیٰ سننے والا بھی ہے اور جاننے والا بھی ہے۔
سورۃ فاتحہ کےمختلف نام:
اس کا نام فاتحۃ الکتاب بھی ہے،یہ تو سب کہتے ہیں۔ فاتحۃ الکتاب کیوں کہتے ہیں؟فتح کا مطلب ہوتا ہے آغاز کرنا، شروع کرناچونکہ یہ قرآن کریم کے شروع میں ہے اس لیے اسے فاتحۃ الکتاب کہتے ہیں۔
اس سورۃ کا نام سورۃ المسئلۃ بھی ہے مسئلہ کا معنیٰ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ سے مانگناکیونکہ اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ سے مانگتے ہیں: ﴿اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ﴾ اس لیے اس سورۃ کا نام سورۃ المسئلۃ بھی ہے۔
اس سورۃ کا نام ام الکتاب بھی ہے ام کہتے ہیں جڑ کو،بنیاد کو۔ جیسےآدمی کے جسم پر سر ہے تو کہتے ہیں ام الجسد سر آدمی کے جسم کا خلاصہ ہے،بنیاد ہے،آدمی کا دماغ کام کرے تو بندہ صحیح رہتا ہے یہ دماغ کام کرنا چھوڑ دے تو بندے کا پورا وجود کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ اس لیے اس کو ام الکتاب بھی کہتے ہیں۔
اس کا نام سورۃ الشافیۃ بھی ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ نےشفا رکھی ہے اس لیے اس کو سورۃ الشافیۃ بھی کہتے ہیں۔
دم کرنے کا ثبوت صحیح بخاری سے:
اس بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے صحیح بخاری میں ایک عجیب واقعہ ذکر فرمایا ہے:صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی جماعت ایک علاقے سے گزر رہی تھی، اس علاقے والوں سے کہا کہ ہم مسافر لوگ ہیں ہمیں مہمان بنا لو تو انہوں نے مہمان بنانے سے انکار کیا۔ اللہ تعالیٰ کی شان ہے جنہوں نے انکار کیا اُس قبیلے کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا جو علاج معالجہ ان کے پاس اس دور میں تھا کیا مگر افاقہ نہ ہوا۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ جن لوگوں کو ہم نےمہمان بنانے سے انکار کیا ان سے پوچھو شاید ان کے پاس کوئی علاج ہو؟
وہ لوگ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے پاس آئے اور سارا معاملہ کہہ ڈالا کہ ہمارے سردار کو سانپ نے ڈس لیا ہے ہم اس لیے آئے ہیں کہ آپ لوگوں میں سے کوئی بندہ علاج کر سکتا ہے؟ ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ جی ہاں! میرے پاس دَم موجود ہے میں اس کا علاج کروں گا،وہ وہاں چلے گئے سورۃ فاتحہ پڑھی اور سردار پر پھونک ماری،اللہ تعالیٰ نے سردار کو شفا عطا فرما دی۔
۔ صحیح البخاری، رقم: 2276
دَمْ کی اُجرت کا مسئلہ:
اچھا اس میں ایک بات اور بھی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس حدیث کو ”کتاب الاجارۃ “میں نقل کیا ہے۔ اجارہ کا مطلب ہوتا ہے مزدور ی کرنا اور پیسے لینا۔ دم کا مسئلہ اور نقل کہاں کیا؟ کتاب الاجارہ میں۔ امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ دلیل پیش کرنا چاہتے ہیں کوئی آدمی دم کرے تو اس کے پیسے لے سکتا ہے یا نہیں لے سکتا؟امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جب وہ لوگ آئے کہ ہمارے سردار کو سانپ نے ڈسا ہے جس صحابی نے دَم کرنا تھا انہوں نے کہا کہ ہم اس شرط پر آئیں گے کہ اگر میں نے دم کیا اور تمہارا سردار ٹھیک ہوگیا تو تم اتنی بکریاں مجھے دو گے۔ انہوں نے کہا ہمیں منظور ہے۔ تو صحابی رسول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دم کیا اور سردار کو شفا مل گئی انہو ں نے بکریاں دے دیں۔
بعض صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اسے اچھا نہ سمجھا کہ قرآن کریم پر اجرت نہیں لینی چاہیے تم نے اچھا کام نہیں کیا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہماری طرح نہیں تھے، اگر ایک مسئلے پر اُلجھن آگئی تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے پوچھتےتھے۔
اگر آپ لوگوں کو اُلجھن آجائے تو عالم سے پوچھیں آپس میں کھُسر پھُسر کیوں کرتے ہو؟ میرا اپنا مزاج ہے میں یہاں بیٹھا ہوں یا سفر میں ہوں، ایک مسئلہ پوچھتا ہے دوسر ا جواب دیتا ہے میں بیٹھ کر سنتا رہتا ہوں۔ بھئی! جب ہم سے پوچھیں گے تو ہم جواب دیں گے۔ جب ہم سےنہیں پوچھیں گے تو خواہ مخواہ کیوں جواب دیں؟جب تک کوئی سوال نہ کرے تو علماء کو چاہیے کہ اس مسئلہ کا جواب نہ دیں۔ یا خود پوچھے یا عقیدت مند ہو ورنہ جواب نہ دے۔
حکیم الامت کافیصلہ:
حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ ایک سفر میں جا رہے تھے دورانِ سفرانہوں نے کسی کو ٹوکا!غالباً اس کی شلوار ٹخنوں کے نیچے تھی یا کوئی اور مسئلہ تھا، بھئی! یہ حرام ہے۔ یوں نا کیا کرو! آگے سے اس شخص نے ایسا جملہ کہا جو کفریہ تھا۔ تو حکیم الامت رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاجب شلوار ٹخنوں سے نیچے تھی تو؛ تُو فاسق تھا،مسئلے کی توہین کرکےتو کافر ہو گیا۔ آج کے بعد میں نے فیصلہ کر لیا کہ مسئلہ تب بتاؤ ں گا جب میرا عقیدت مند ہو، یا مسئلہ تب بتاؤں گا جب کوئی سائل بن کر مجھ سے پوچھےگا۔ اگر ضرورت مند بن کر پوچھے بھی نہیں اور عقیدت مند بھی نہ ہو تو میں نے اس کو مسئلہ نہیں بتانا۔
اس کا بہت فائدہ ہوتا ہے۔ آپ حضرات کےہاں میں درس کے لیے آیا ہوں،کوئی مجھے کہہ دے تو نماز پڑھاتا ہوں نہ کہے تو میں نہیں پڑھاتا۔ مجھے شوق تو نہیں تمہاری امامت کراؤں نہ ہی مجھے شوق ہے کہ 100سو نمازیوں کابوجھ اپنے سر لوں۔ اگر میری نماز میں خلل آگیا تو آپ کی ساری نمازیں بھی میرے سر پر ہیں۔ مجھے کیا ضرورت ہے بوجھ اور مصیبت اٹھانے کی؟ ان باتوں سے بندے کو کنارہ کش رہنا چاہیے۔ کہہ دیں تو ہم انکار نہیں کرتے اور نہ کہیں تو ہم مصلے پر سوار نہیں ہوتے۔ تو جب تک کسی کو عقیدت نہ ہو یا سائل بن کر نہ آئے عالم کو بلاوجہ مسئلہ نہیں بتانا چاہیے اس میں مسئلے کی توہین کا خطرہ ہوتا ہے اور توہین کرنے سے بندہ کافر ہو جاتا ہے۔
دم کی اُجرت پر نبوی فیصلہ:
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے دم کیا اور بکریاں لے لیں۔ اب صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں مسئلہ چلا کہ دم کرکے اجرت لینا مناسب ہے؟ انہوں نے کہا کہ مدینے میں جا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھیں گے،آپس میں بحث کی کیا ضرورت ہے؟ مدینہ منورہ پہنچےآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ساری بات عرض کی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دلجوئی کی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"قَدْ أَصَبْتُمْ اقْسِمُوا"
تم نے مسئلہ ٹھیک بتا یا ہے، اب بکریوں کو تقسیم کرو!
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" وَاضْرِبُوا لِي مَعَكُمْ سَهْمًا "
صحیح البخاری، رقم: 2276
میرا حصہ بھی نکالو! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کے گوشت کو کیا کرنا تھا؟یہ تو صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی دلجوئی کرنی تھی کہ تم نے بہت اچھا کام کیا ہے۔ فرمایا کہ میرا حصہ کدھر ہے؟ میرا حصہ بھی لاؤ!امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ اس کوکتاب الاجارہ کے تحت لائے ہیں۔ بتاؤ کس قدر حماقت کی بات ہے لوگ فتوےدیتے پھرتے ہیں تعویذ حرام ہے، دم حرام ہے، ان کی اجرت لینا حرام ہے۔
صدقہ پریشانیوں کا حل ہے:
میں ہر کسی کوتعویذ نہیں دیتا۔ آپ کے علم میں ہے ہمارے پاس ہر انگریزی ماہ کی پہلی جمعرات کومرکز اھل السنۃ والجماعۃ 87جنوبی سرگودھا میں اصلاحی بیان ہوتا ہے، مجلس ذکر ہوتی ہے۔ نئے لوگ مجھ سے چاروں سلاسل میں بیعت بھی ہوتے ہیں، پرانے لوگ جو مریدین ہیں وہ سب بھی اکٹھے ہوتے ہیں۔ تو میرا ایک مرید جو خوشاب سے آگے قائد آباد ہے وہاں سے آیا، کہتا ہے: امی کہتی ہیں مولانا سے تعویذ لے کر آؤ! میں نے کہا کس بات کا؟ گائے لیتے ہیں تو دودھ نہیں دیتی، دو لاکھ کی لی ہے۔ دودھ نہیں دے رہی، نقصان ہوجاتا ہے۔
میں نے کہا اس کا حل یہ ہے کہ ایک گائےصدقہ کر دو تمہاری باقی ساری گائیں ٹھیک ہو جائیں گی۔ کہتا ہے کہ تعویذ دیں۔ جو بات میں مناسب سمجھوں گا وہی بتاؤں گا۔ میں جوکہہ رہا ہوں ایک گائے اللہ تعالیٰ کے نام پر صدقہ کردو باقی ساری گائیں ٹھیک ہو جائیں گی۔ لیکن اس کو یہ بات سمجھ نہیں آئی،بہت سمجھایا باہر چلا گیا، پھر اندر آیا، کہتا ہے کہ امی کہتی ہیں صدقہ بھی کریں گے لیکن تعویذ بھی دیں۔
تعویذ میں ہر بندے کو نہیں دیتا ، ایک بندے کو دے دو، دوبارہ مسئلہ نہیں پوچھے گا تعویذ ہی پوچھے گا۔ خو ابوں کی تعبیر کیوں نہیں بتاتا؟خواب کی تعبیر بتا دو، تو دوبارہ تعبیر ہی پوچھتے رہیں گے، مسئلہ نہیں پوچھیں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ امت کے عقائد درست ہوں ان کو مسائل سمجھائے جائیں یہ تعویذوں اور خوابوں کی دنیا سے باہر نکلے۔ اس کا معنیٰ یہ نہیں کہ ہم تعویذ کو غلط سمجھتے ہیں یا ہمیں خوابوں کی تعبیر کا فن نہیں آتا نہیں بلکہ ہمیں تعویذ بھی آتے ہیں اور خوابوں کی تعبیر دینا بھی آتی ہے اور آپ کے مسائل بھی آتے ہیں۔
سورۃ کے مکی، مدنی ہونے کا اصول:
سورۃ فاتحہ مکی ہے یا مدنی؟آپ دیکھیں لکھا ہوتا ہےسورۃ الفاتحۃ مکیۃ یہ مکی سورۃ ہے۔ مکی اور مدنی کسے کہتے ہیں؟ عام بندہ یہ سمجھتا ہےکہ جوسورۃ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی وہ مکی ہے اور جوسورۃ مدینہ منورہ میں نازل ہوئی وہ مدنی ہے۔ یہ مکی اور مدنی کی تفسیر نہیں ہے۔ اصول یاد رکھیں:نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زندگی کے دواہم دور ہیں ؛ایک ہجرت سے پہلے اور ایک ہجرت کے بعد۔ وہ سورۃ یا آیات جو ہجرت سے پہلے نازل ہوئیں وہ مکی ہیں خواہ وہ طائف میں نازل ہوئی ہوں اور جوسورۃ ہجرت کے بعد نازل ہوئی وہ مدنی ہے خواہ وہ مکہ میں نازل ہو۔
اب بات سمجھ میں آگئی؟ جب نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فاتح بن کر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو قرآن کا نزول ہوا اس کو مدنی کہیں گے یا مکی؟ مدنی کہیں گے۔ تو جو سورۃ ہجرت سےقبل نازل ہوئیں وہ مکی ہیں خواہ مکہ سے باہر نازل ہوئی ہوں اور جو ہجرت کے بعد نازل ہوئیں وہ مدنی ہیں خواہ مکہ میں نازل ہوں۔
سورۃالفاتحہ کےمکی ہونے کی دلیل:
سورۃ فاتحہ مکی ہے، مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی اس کی دلیل کیا ہے؟ قرآن کریم میں ہے:
﴿وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنٰکَ سَبۡعًا مِّنَ الۡمَثَانِیۡ وَ الۡقُرۡاٰنَ الۡعَظِیۡمَ﴾
۔ الحجر15: 87
ہم نے تمہیں بار بار پڑھی جانے والی سات آیات عطا کی ہیں اور یہ آیت مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی۔ اس کا مطلب ہے کہ سورۃ فاتحہ پہلے نازل ہو چکی تھی تبھی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنٰکَ سَبۡعًا مِّنَ الۡمَثَانِیۡ وَ الۡقُرۡاٰنَ الۡعَظِیۡمَ﴾
آیت کی علامت (O):
سورۃ فاتحہ کی سات آیات ہیں۔ اس میں آپ دیکھیں گے ﴿صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ﴾ اس کےآگے گول دائرہ (O)نہیں ہے۔ ﴿غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ﴾کے آگےگول دائرہ (O)ہے۔ذرا نکتہ سمجھیے، میں نے توقرآن مجید سامنے رکھاہو ا ہے تم گھر جا کے دیکھنا سورۃ فاتحہ کی سات آیات ہیں۔ ﴿اَلۡحَمۡدُ لِلہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴾ آگے گول دائرہ ہے، ﴿الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴾ آگے گول دائرہ ہے، ﴿مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ﴾ پھر گول دائرہ ہے، ﴿اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ﴾ آگے گول دائرہ، ﴿اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ﴾ آگے گول دائرہ، ﴿صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ﴾ یہاں گول دائرہ نہیں ہےحالانکہ آیت ختم ہو رہی ہے، ﴿غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴾ آگے گول دائرہ ہے۔ اب دیکھو! جہاں آیت ختم ہوتی ہے وہاں گول دائرہ بنا ہوا ہوتا ہےتو جب یہ سات آیات ہیں، ﴿اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ﴾ پر آیت ختم ہوتی ہے گول دائرہ کیوں نہیں ہے؟
سورۃ الفاتحہ کی کل آیات اوراختلاف فقہاء:
اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ فقہی اختلاف ہے۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:سورۃ فاتحہ کی سات آیات ہیں لیکن بسم اللہ سورۃ فاتحہ کا حصہ ہے۔ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:سورۃ فاتحہ کی سات آیات ہیں،بسم اللہ اس کا حصہ نہیں ہے ﴿اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ﴾ پر ایک آیت ختم ہوجاتی ہے کیونکہ یہاں اختلاف تھا کہ آیت ختم ہوتی ہےیا نہیں؟اس لیے مصحف)قرآن کریم ( میں یہاں دائرہ نہیں لگایاجاتا۔ لیکن اس کو عام بندہ نہیں سمجھتا کہ دائرہ یہاں پر کیوں نہیں لگا ہوا۔
بدعقیدگی کا سدِّباب:
اللہ تعالیٰ آپ کو مدینہ منورہ لے جائےاور بار بار لے جائے )آمین (آپ مدینہ منورہ مسجد نبوی میں جا کر دیکھیں،اب میں آپ کو یہاں سے کیسے سمجھاؤں؟ آپ مدینے جائیں وہ پرانی ترکی مسجد کا جو پرانا ہال ہے اس میں آپ دیکھیں تو ستونوں پر پھول بنے ہوئے ہیں ایک پھول کا رنگ اور ہے دوسر ا کا ڈیزائین اور ہےاور جو ستون پربننے والے پھولوں کے ڈیزائنوں میں فرق ہے وہ خاص واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔جس کا عام بندے کو نہیں پتا ہوتا یہ پھول یوں کیوں ہے؟ اور یہ پھول یوں کیوں ہے؟آج بھی آپ مسجد نبوی میں جائیں اور باب عبدالمجید قبلے کی مخالف جائے نماز میں داخل ہوں آپ وہاں قالین اٹھائیں نیچے تین گول دائرے بنےہوئےہیں کسی کو نہیں پتا کہ یہ گول دائرے کیا ہیں؟
صحابی رسول حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کے باغ میں یہاں پرچشمے تھے یہ وہ تین گول دائروں کا نشان ہے۔ عربوں نے نشانیاں رکھی ہیں لیکن وہ اظہار کیوں نہیں کرتے؟ اس قوم نے ان کو چاٹنا شروع کر دینا ہے۔ لیکن نشانی انہوں نے رکھی ہوئی ہے۔اس لیے بدعقیدگی کی روک تھام کےلیے انہوں نے اس کو ظاہر نہیں کیا لیکن بالکل ختم بھی نہیں فرمایا بلکہ نشانیاں لگائی ہوئی ہیں۔
امام اعظم ابو حنیفہ کا تفقہ:
میں بات کر رہا تھا سورۃ فاتحہ میں سات آیات ہیں ہماری دلیل ہے سات آیات کیوں ہیں؟ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
صَلَّيْتُ خَلْفَ رَسُولِ اللّهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ رَضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ فَلَمْ أَسْمَعْ أَحَدًا مِنْهُمْ يَجْهَرُ بِ بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ.
۔ سنن النسائی، رقم: 908
میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کےپیچھے نماز پڑھی ہے،حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی ہے،حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پیچھے پڑھی ہے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پیچھے پڑھی ہے، تو جب بھی وہ نماز پڑھتے تو بسم اللہ الرحمٰن الرحیم اونچی آواز میں نہیں پڑھتے تھے۔
کیوں؟ اب بات سمجھنا اگر بسم اللہ سورۃ فاتحہ کا جز ہوتی توجب سورۃ فاتحہ جہری ہے تو بسم اللہ جہراً ہوتی بسم اللہ کو جہراً نہ پڑھنا، الحمد للہ کوجہراً پڑھنااس بات کی دلیل ہےکہ بسم اللہ سورۃ فاتحہ کا جزء نہیں ہے۔ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کی عقل اور دماغ کہاں تک کام کرتاہے کہ بسم اللہ سورۃ فاتحہ کا جز نہیں۔
صفت رب جامع الصفات ہے:
آگے دیکھیں:
﴿اَلۡحَمۡدُ لِلہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۱﴾﴾
تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے میں آپ کی خدمت میں بڑی مختصر مختصر تفسیر عرض کر رہا ہوں تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو رب العٰلمین ہے۔ قرآن کریم کا آغاز دیکھیں: ﴿اَلۡحَمۡدُ لِلہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۱﴾﴾ اور قرآن کریم کا اختتام دیکھیں ﴿قُلۡ اَعُوۡذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾ شروع بھی رب سے اختتام بھی رب پہ ہے۔ پہلےاللہ تعالیٰ ﴿اَلۡحَمۡدُ لِلہِ﴾ اپنا نام لائے ہیں اور” رب “اپنی صفت لائے ہیں اور جب قرآن ختم کیا ہے ﴿قُلۡ اَعُوۡذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾ پھر بھی اپنی صفت”رب“ لائے ہیں۔ وجہ یہ ہے صفت”رب“اللہ تعالیٰ کی وہ صفت ہے جو تمام صفات کو جامع ہے۔ رب میں خدا کی ساری صفات آجاتی ہیں،قرآن کریم کو شروع بھی ”رب“ سے کیا ہے اور ختم بھی”رب“ پر کیا ہے۔
لفظ ”رب“ پر عجیب نکتہ:
اچھا دوسری بات سمجھیں!
جب عالم ارواح میں تھے تو اللہ تعالیٰ نے سوال کیا تھا: ﴿اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ﴾
جب قبر میں جا ئیں گے تو فرشتہ سوال کیا کرے گا: "مَنْ رَّبُّکَ؟"
اور اس میں درمیانی زندگی ہے، اس میں کہا:
﴿اِنَّ الَّذِیۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا تَتَنَزَّلُ عَلَیۡہِمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ ﴾
فصلت 41: 30
پتا چلا عالم ارواح میں بھی سوال لفظ رب سے ہے۔ عالم برزخ میں بھی سوال لفظ رب سے ہے اور دنیا میں استقامت بھی ربناکہنے پر ہے۔ یہ”رب“ ایسی صفت ہے خدا کی کہ
عالم ارواح میں بھی اس کا تذکرہ ہے۔
عالم دنیا میں بھی اس کا تذکرہ ہے۔
عالم قبرمیں بھی اس کا تذکرہ ہے۔
اور عالم برزخ میں بھی اس کا تذکرہ ہے۔
اس لیے شروع بھی رب سے کیا ہے اور ختم بھی رب پر کیا ہے۔
مخلوقات کی تعداد:
”العٰلمین“ عالَم کی جمع ہے عربی زبان میں عالَم کہتے ہیں: "مَایُعْلَمُ بِہٖ شَیْئٌ" کو، جس سے کسی چیز کا پتا چلے اس کو عالَم کہتے ہیں۔ اب عالَم دنیا میں کتنے ہیں؟عالم سے مراد مخلوق ہے، مخلوقات کی تعداد کتنی ہے؟
مقاتل ابن حبان رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ مخلوقات کی تعداد 80 ہزار ہے 40 ہزار خشکی میں ہے 40 ہزار سمندر میں۔
وہب بن منبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ 18 ہزار تعداد ہے۔
صحیح قول کعب بن احبار رحمہ اللہ تعالیٰ کا ہے:دنیا میں کسی کو معلوم نہیں کہ مخلوقات کی تعداد کتنی ہے؟کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں:﴿وَ مَا یَعۡلَمُ جُنُوۡدَ رَبِّکَ اِلَّا ہُوَ﴾ دنیا میں خدا کے لشکروں کو کوئی بھی جان ہی نہیں سکتا۔
لمدثر 74: 31
اللہ تعالیٰ ہی رزَّاق ہیں:
حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سےعرض کی: اےاللہ! میرا جی چاہتا ہے کہ میں تیری ساری مخلوق کی دعوت کروں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے میرے نبی سلیمان یہ تیرے بس میں نہیں ہے۔عرض کی کہ میرا جی چاہتا ہے مجھے اجازت عطا فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں اجازت دیتا ہوں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنات کو پکانے پر لگایا نانبائی بھی ان کے جِن تھے جس نبی کے نانبائی جن ہوں بتاؤ اس نبی کی حکومت کتنی بڑی ہوگی؟
فرمایا پکانا شروع کرو!ایک یا دو ماہ پکانے پر لگے،دستر خوان لگ گیا،یہ ان کا معجزہ تھا کھانا پکاتے رہے،بغیر فریج میں رکھےاللہ تعالیٰ اس کھانے کو محفوظ فرماتے رہے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی:مخلوق کو بھیجیے کھانا لگ گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کس کو بھیجوں، سمندر والی کو یا خشکی والی کو؟ سلیمان علیہ السلام نےعرض کی اے اللہ! سمندر والی کو بھجیں،خشکی والی تو میرے سامنے ہے مجھے سمندر والی کا علم نہیں ہے۔پتا چلا کہ نبی کے پاس غیب کا علم نہیں ہوتا۔
حدیث مبارک میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مچھلی سے کہا کہ جاؤ! میرے سلیمان کی دعوت کھاؤ!مچھلی آئی اورایک لقمے میں سارا کھانا نگل گئی پھر منہ کھول دیا۔ سلیمان علیہ السلام نےعرض کی کہ اے اللہ یہ کیا؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں اس کو روزانہ ایسے تین لقمے دیتا ہوں۔ سلیمان تیری دعوت تو میری ایک مچھلی کو پوری نہیں ہو ئی۔ بتاؤ اب اس کا پیٹ کون بھرے گا؟ سلیمان علیہ السلام نے فرمایا اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو تو ہی رزق دے سکتا ہے نبی کے بس میں نہیں۔
کتنی مخلوقات ہیں دنیا میں کوئی نہیں جانتا۔ بتاؤ خدا کتنی طاقت والا ہے؟ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی طاقت پر اعتماد کی توفیق عطا فرمائے۔
تفسیر روح المعانی اور علامہ آلوسی:
علامہ محمود آلوسی مفتی بغداد رحمہ اللہ تعالیٰ بغداد کے بہت بڑے مفتی تھے انہوں نے تفسیرروح المعانی لکھی ہے۔ رات کی چاندنی میں بیٹھ کر لکھی ہے،اتنا غریب مفتی ہے لکھنے کے لیے ان کے پاس دِیا اور چراغ نہیں ہوتا تھا۔ کہتے تھے: کُنْتُ اُطَالِعُ الْکُتُبَ فِیْ ضَوْءِ الْقَمَرِ.میں رات کی چاندنی میں کتابوں کا مطالعہ کرتا۔ پھر تفسیر روح المعانی لکھی اور اس وقت کے بادشاہ کی خدمت میں پیش کی اور بادشاہ بھی عَش عَش کر اٹھاکہ ایسے علماء بھی دنیا میں موجود ہیں چاند کی چاندنی میں بیٹھ کر مطالعہ کرتے ہیں اور تفسیر قرآن کی خدمت کرتے ہیں۔
خدا کے موجود ہونے پر عقلی دلیل:
اس کتاب ”روح المعانی“ میں مفتی بغداد علامہ آلوسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ایک دیہاتی آدمی تھا، بدو تھا، اعرابی تھا وہ جنگل سے گزر رہا تھا وہاں اونٹ کی مینگنیاں پڑی تھیں ان کو دیکھ کر اس پر ایسا اثر ہوا کہ اس نے ایک ایسا فصیح وبلیغ جملہ کہا شاید دنیاوالے اتنا بڑا جملہ نہ کہہ سکیں۔ اس دیہاتی آدمی نے وہیں کھڑے ہو کر فی البدیہہ کہا:
اَلْبَعْرَةُ تَدُلُّ عَلَى الْبَعِيرِ یہ مینگنیاں بتاتی ہیں یہاں سے اونٹ گزرا ہے۔
وَاَثَرُ الْأَقْدَامِ عَلَى الْمَسِيرِ نشانات قدم بتاتے ہیں کوئی بندہ یہا ں سے گزرا ہے۔
أَفَسَمَاءٌ ذَاتُ أَبْرَاجٍ آسمان کو دیکھو جو برجوں والا ہے۔
وَأَرْضٌ ذَاتُ فِجَاجٍ اور زمین کو دیکھو جو بڑے بڑے خزانوں والی ہے۔
لَا تَدُلُّ عَلَى اللَّطِيفِ الْخَبِيرِکیا ا س سے پتا نہیں چلتا کہ دنیا میں خدا موجود ہے؟
۔ روح المعانی: ج19 ص62
اس نے کہا کہ مینگنیوں سے پتا چلتا ہے کہ اونٹ گزرا ہے قدم بتاتے ہیں کہ انسان گزرا ہے۔ یہ سمندر اور زمین بتاتی کہ دنیا میں خدا موجود ہے یہ ایک دیہاتی کا استدلال ہے۔ اللہ تعالیٰ فہم اور عقل عطا فرمائے تو دیہات کے سادے کو بھی دے دے اور نہ دے تو PhDڈاکٹر کو بھی گمراہ کر دے۔ یہ جوبڑے بڑے ڈاکٹروں نے گمراہی کا بازار گرم کیا ہےالامان و الحفیظاللہ تعالیٰ ان سے محفوظ رکھے۔
اپنے ایمان کی حفاظت کریں:
میں یہ بات بڑی کھلی کھلی کہتا ہوں کہ پروفیسروں اور ڈاکٹر وں کے درس فلاں اور درس فلاں سے خدارا خود کو بچا لو ورنہ ایمان کو برباد کر بیٹھو گے۔ ڈاکٹر کا کام ہےبھئی:
نبض دیکھو!
پیشاب چیک کرو!
مثانے چیک کرو!
دماغ چیک کرو!
جسم چیک کرو!
مسائل چیک کرنا تمہارے بس میں نہیں۔ اس سے خود کو بچاؤ۔ اپنے ایمان محفوظ کرو! ہمارے ذمہ بتانا ہے ہم بتاتے رہیں گے آپ مانیں گے تو بچ جائیں گے نہیں مانیں گے تو پھر بعد میں نہ کہناکہ اے اللہ! ہمیں بتانے والا کوئی نہیں تھا۔ ہم نے مسئلہ آپ کے سامنے عرض کر دیا ہے۔
رحمٰن ورحیم میں فرق:
﴿الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۲﴾﴾
اللہ تعالیٰ ”رحمٰن“ بھی ہے،اللہ تعالیٰ”رحیم“ بھی ہے۔ توجہ رکھنا رحمٰن اور رحیم میں کیا فرق ہے؟آپ کوئی بھی ترجمہ اٹھائیں، اس میں دو لفظ لکھے ہوتے ہیں۔
﴿الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴾
بے حد مہربان نہایت رحم کرنے والایہ لکھا ہوتا ہے۔بے حد مہربان، نہایت رحم کرنے والاکبھی آپ نے غور کیا دونوں میں فرق کیا ہے؟ بے حدمہربان اور نہایت رحم کرنے والا۔ان میں کیا فرق ہے؟ ذرا سمجھنا:
رحمٰن کہتے ہیں عام الرحمۃ۔
رحیم کہتے ہیں تام الرحمۃ۔
رحمٰن کہتےہیں جس کی رحمت ہر کسی کو ملے۔
رحیم کہتے ہیں کہ جس کی رحمت مکمل ملے۔
اَلرَّحْمٰنِ کا معنیٰ جس کی رحمت میں عموم ہو۔
اَلرَّحِيمِکا معنیٰ جس کی رحمت میں کمال ہو۔
اللہ تعالیٰ کی رحمت میں عموم بھی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی رحمت میں کمال بھی ہے۔
یہ نکتہ سمجھنا! اللہ تعالیٰ کی رحمت میں عموم بھی ہے، اللہ تعالیٰ کی رحمت میں کمال بھی ہے۔ اس لیے یہ بات کہتا ہوں دنیا میں خدا کی رحمت میں عموم ہےاور قیامت کے دن عموم نہیں ہوگابلکہ قیامت کے دن خدا کی رحمت میں کمال ہوگا۔ کیا مطلب؟ دنیامیں خدا کی رحمت کی وجہ سے
مومن بھی کھاتا ہے۔
کافر بھی کھاتا ہے۔
انسان بھی کھاتا ہے۔
جانور بھی کھا تا ہے۔
لیکن قیامت کے دن خدا کی رحمت صرف مومن کو ملے گی کافر کو نہیں مل سکتی۔ تو دنیا میں عموم ہے اور قیامت کے دن کمال ہے۔
اس لیے کہتےہیں اللہ رحمٰن فی الدنیاہےاللہ رحیم فی الاخرۃ ہے۔ اللہ تعالیٰ رحمٰن دنیا میں اور رحیم آخرت میں خدا کی رحمت سے دنیا میں تو ہر کوئی فائدہ اٹھاتا ہےلیکن موت کے بعدخدا کی رحمت سے کافر فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ اگر اٹھا ئے گا تو کون اٹھائے گا؟ صرف اور صرف مومن اٹھائے گا۔
انسان کو ”رحمٰن“ نہیں کہہ سکتے، رحیم کہہ سکتے ہیں:
اب ذرا نکتہ سمجھیں!رحمٰن بندے کو نہیں کہہ سکتے، رحیم انسان کو کہہ سکتے ہیں۔ ہمارے ملک کے وزیر داخلہ) 2012ءمیں (ان کا نام عبدالرحمٰن ملک ہے لوگ ان کو ”رحمٰن ملک“ کہتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں رحمٰن؛انسان کو کہنا جائز نہیں لیکن انسان کو رحیم کہنا جائز ہے۔
قرآن کریم میں ہے:
﴿لَقَدۡ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ عَزِیۡزٌ عَلَیۡہِ مَا عَنِتُّمۡ حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۲۸﴾﴾
سورۃ التوبۃ 9 : 128
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنے نبی کو ”رحیم“ فرمایا ہے۔ ذرا نکتہ سمجھیں انسان کو رحمٰن نہیں کہہ سکتے،رحیم کہہ سکتے ہیں۔ عبدالرحیم کو آپ رحیم بھی کہہ لیں کچھ گناہ نہیں، لیکن عبد الرحمٰن کو رحمٰن کہنا گناہ ہے۔ اب آپ کہیں گے رحیم کہہ سکتے ہیں تو رحمٰن کیوں نہیں کہہ سکتے؟
عموم اور کمال میں فرق:
میں نے دونوں میں کیا فرق بیان کیا؟رحمٰن کہتے ہیں جس کی رحمت میں عموم ہو، رحیم کہتے ہیں جس کی رحمت میں کمال ہو۔ کیا مطلب؟ایک آدمی کے پاس جتنی محبت ہے وہ ساری ایک کو دے دے، ہوسکتا ہےیانہیں ہو سکتا؟ہوسکتا ہے لیکن کوئی بندہ اپنی شفقت ہر کسی کو دے، کیا یہ بھی ہو سکتا ہے؟ یہ نہیں ہو سکتا۔ایک بندے کےپاس دس روپے ہوں دس کے دس ایک کو دے دے یہ تو ہو سکتا ہے۔ یہ رحیم ہے اور ایک بندہ ہر کسی کو دے، یہ تو نہیں ہو سکتا۔ تو جس بندے کے پاس جتنی دولت موجود ہے وہ ایک کو تو دے سکتا ہے۔ جس بندے کے پاس جتنی شفقت ہے وہ ایک کو دے سکتا ہے، لیکن اتنی شفقت کہ کائنات میں ہر کسی کو دے یہ بندے کی صفت نہیں ہو سکتی اس لیے بندے کو رحیم کہہ سکتے ہیں رحمٰن نہیں کہہ سکتے۔
اللہ تعالیٰ ہمارے مالک ہیں:
﴿مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۳﴾﴾
اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کا مالک ہے۔ یہاں
﴿مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ﴾
فرمایا۔ پہلے نکتہ سمجھا دوں، چونکہ بعض احباب نئے ہیں اس لیے عرض کرتا ہوں ۔ ﴿مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ﴾ فرمایا قاضی یوم الدین نہیں فرمایا، جج نہیں فرمایا۔ مالک کا کام اور ہوتا ہے، جج کا کام اور ہوتا ہے۔ جج قانون کا پابند ہوتا ہے، مالک قانون کا پابند نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے اور آپ کو تسلی دی ہے قیامت کو میرے پاس آؤ تو مجھے مالک سمجھ کر آنا جج یا قاضی سمجھ کر نہ آنا۔ میں قانون کا پابند نہیں ہوں۔ قانون کہے گا سزا دو میں اپنی مالک والی شان کواستعمال کروں گا رحمت کے دروازے کھول دوں گا۔
شاہی اختیارات کا استعمال:
میں سمجھانے کے لیے کہتا ہوں بندہ قتل ہوگیا F.I.Rکٹ گئی اس کو S.H.O نے گرفتار کر لیا۔ اسپیشل کورٹ یا سیشن کورٹ میں لے کر گئے اور اس نے سزائے موت دے دی۔ آپ اس کے خلاف اپیل کریں گے ہائی کورٹ نے اس سزا کو بحال رکھا، اس کے خلاف اپیل کریں گے سپریم کورٹ میں،سپریم کورٹ نے سزائے موت کو بحال رکھا تو پھر کہاں جائیں گے؟صدر مملکت کے پاس وہاں جاکر اس کے خلاف اپیل نہیں ہوتی۔ صدر مملکت سے کہتے ہیں ہمارے بیٹے نے قتل کیا ہے، اس کو سیشن کورٹ، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے سزائے موت دے دی ہے۔ ہم جناب کے پاس آئے ہیں ہمارے بیٹے کو معاف کردیا جائے۔ قانون میں معافی کی کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن کیونکہ آپ صدر ہیں، آپ ملک کے بادشاہ ہیں،آپ اپنے شاہی اختیارات استعمال کریں اور ہمارے بیٹے کو معاف کردیں۔
سفارشی کی ضرورت:
اب ذرا توجہ رکھنا جب سیشن کورٹ گئے تھے وکیل کا سہار اہے، ہائی کورٹ میں گئے وکیل کا سہارا ہے،سپریم کورٹ میں گئے ہیں وکیل کا سہار ااور صدر مملکت کے پاس گئے ہیں اب وکیل کا سہارا نہیں ہے۔ اب سفارشی تلاش کریں گے کوئیM.N.A،کوئیM.P.A، کوئی داماد، کوئی سسر تلاش کرو گے۔
قاضی کی عدالت میں وکیل جاتا ہے اور مالک کی عدالت میں سفارشی جاتا ہے۔ قیامت کے دن کوئی وکیل کام نہیں آئے گا، قیامت کو سفارشی کام آئیں گےاور سفارشی کون ہیں؟ نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:
يَشْفَعُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثَلَاثَةٌ: أَلْأَنْبِيَاءُ ثُمَّ الْعُلَمَاءُ ثُمَّ الشُّهَدَاءُ.
سنن ابن ماجۃ، رقم: 4313
کہ تین بندے شفاعت کریں گے، انبیاء بھی سفارش کریں گے، علماء سفارش کریں گے اور شہید بھی سفارش کریں گے۔ یہ وہ سفارشی ہیں جو قیامت میں کام آئیں گے۔ ایک حافظ ہے وہ 10 کو لے جائے گا، شہید 70 کو لے جائے گااور حدیث مبارک میں ہے کہ ایک عالم اپنے تمام معتقدین کو لے کر جائے گا۔
شفاعتِ پیغمبر کا عقیدہ:
انبیاء علیہم السلام کا تو کیا کہنا۔ حدیث مبارک میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں گر کر کہیں گے:
أُمَّتِي يَا رَبِّ أُمَّتِي يَا رَبِّ أُمَّتِي
اے اللہ ! میری امت، اے اللہ! میری امت
اللہ تعالیٰ فرمائیں گے:
"اِرْفَعْ رَأْسَكَ سَلْ تُعْطَهْ"
صحیح البخاری، رقم: 4712
میرے پیغمبر!سر اٹھا مانگنا تیرے ذمے ہے اور بخشنا ہمارے ذمے ہے۔ یہ قیامت کے دن کے سفارشی ہیں۔
مدرسہ سفارشی پیدا کرتا ہے:
قیامت کو وکیل کام نہیں آئے گا۔ کون کام آئیں گے؟ سفارشی۔ افسوس کہ جن سے ہمیں آج بغض ہے، جن سے ہمیں نفرت ہے۔ میں اس لیے کہتا ہوں میں بھائی اشرف سے کہہ رہاتھا کہ یہ ابوبکر پانچویں میں ہے یہ پانچ پڑھے بس کرادو اور اس کو مدرسے میں داخل کرادو۔ میں کالج کا مخالف نہیں ہوں لیکن کالج سے وکیل پیدا ہوتے ہیں۔ میں یونیورسٹی کا مخالف نہیں ہوں لیکن وہاں ڈاکٹر پیدا ہوتے ہیں اور دینی مدرسے میں آپ کے سفارشی پیدا ہوتے ہیں۔
یہ سفارشی کب کام آتے ہیں؟ لوگ کہتے ہیں کہ مولانا صاحب! دعا فرمائیں مجھےآج بھی کہہ رہے تھےہماری اس مسجد کے صدر صاحب ہیں جن کا بیٹا ہسپتا ل میں داخل ہے۔ دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کو صحت عطا فرمائیں، اب ہمیں پتا ہے بندہ ہسپتا ل میں داخل ہے پھر ڈاکٹر کام کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائے، جب مریض کی ڈیتھ(فوت ہوجائے ) اسی ہسپتال میں مولوی صاحب دعا فرمائیں۔ تو جب ڈاکٹر کام چھوڑتا ہے پھر مولوی صاحب کا کام شروع ہو جاتا ہے۔
آدمی جیل میں تھا وکیل کیس لڑ رہا تھا، جیل سے سپر یڈنٹ کا فون آگیا بھئی تمہارے ابو جی فوت ہو گئے ہیں، اب صبح وکیل کے پاس نہیں جائیں گے سیدھا مسجد میں آئیں گے جہاں وکالت کی انتہا ہے۔ اب عالم کی ابتدا ہے وکیل کا کام ختم ہو گیا مولوی صاحب شروع ہو گئے۔ لیکن عجیب بات ہے اس مولوی کی قدر نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بات سمجھنے کو توفیق عطا فرمائے۔
اللہ کی رحمت اوربندے کا اقرار جرم:
اللہ تعالیٰ مالک یوم الدین ہے یا قاضی یوم الدین
ہےبتاؤ؟اللہ تعالیٰ مالک ہے۔ اللہ تعالیٰ قیامت کو جج نہیں ہوں گے ۔ حدیث مبارک میں ہے اللہ تعالیٰ ایک بندے کو بلائیں گے اور کہیں گے تو نے یہ گناہ کیا!تونے یہ گناہ کیا!وہ ڈر کے کہے گا:اے اللہ! میں نے کیا۔اللہ میں نے کیا، کانپ رہا ہوگا میرے ساتھ کیا بنے گا؟ اللہ تعالیٰ سارے گناہ گنوائیں گے اور پھر فرمائیں گے کہ ہم نے تیرا یہ گناہ بھی معاف کیا،تیرا یہ گناہ بھی معاف کیا۔
حدیث مبارک میں ہے جب اللہ تعالیٰ ان کے گناہ معاف کریں گے اور پھر خاموش ہو ں گے تو بندہ کہے گا: اے اللہ! میرا ایک گناہ وہ تو باقی ہے۔ آپ نے تو پوچھا ہی نہیں۔ ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "فَلَقَدْ رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَضْحَكُ" میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ اتنا ہنسے "حَتّٰى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ" یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کےدندان مبارک نظر آنے لگے۔ فرمایا ابھی ڈر رہا تھا ابھی کہہ رہا ہے اللہ میرا اور گناہ بھی باقی ہے ابھی اور گناہ بھی ہے۔
۔ سنن الترمذی، رقم: 2596
تو اللہ تعالیٰ مالک ہیں، اللہ تعالیٰ قاضی تو نہیں ہیں۔مالک کا معاملہ الگ ہوتا ہے، جج کا معاملہ الگ ہوتا ہے۔ مالک کو تو کوئی نہیں پوچھ سکتا کہ کیوں معاف کیا؟
جنتیوں اور جہنمیوں کے درمیان مکالمہ:
کتنی سفارشیں چلیں گی قیامت کے دن۔ میں صرف ایک حدیث سناتا ہوں مولانا منظور احمد نعمانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے”معارف الحدیث“ میں حدیث نقل کرنے کے بعد بڑی عجیب بات فرمائی ہے کسی نیک عالم سے تعلق کتنا کام آتا ہے۔ ایک حدیث سنو!فرمایا قیامت کا دن ہوگا اہل جنت؛اہل جہنم کے پاس سے گزریں گے، ایک جہنمی ایک جنتی سے کہے گا:
”أَمَا تَعْرِفُنِي“ تو نے مجھے پہچانا نہیں؟
”أَنَا الَّذِي سَقَيْتُكَ شَرْبَةَ الْمَاءِ“ میں وہ شخص ہوں جس نے تجھے پانی پلایا تھا۔
”أَمَا تَعْرِفُنِي“ تو نے مجھے پہچانا نہیں؟
”أَنَا الَّذِي وَهَبْتُ لَكَ مَاءً تَوَضَّأْتَ بِهِ“ میں نےوضو کے لیے آپ کو پانی دیا تھا۔
شرح السنۃ للبغوی: ج7 ص520 رقم 4249
حدیث مبارک میں ہے کہ وہ سفارش کریں گے اوراس کو ساتھ لے کر جنت میں جائیں گے۔ آج اس کی قیمت نہیں ہے کسی عالم کو پانی کا گلاس دینے سے کیا ملتا ہے؟ تم سوچو گے مولاناصاحب ترغیب دینے لگے کہ ہمیں پانی پلایا کرو نہ بابا ہم تمہارا پانی پی کر کیا کریں گے تمہارا پانی تمہیں مبارک۔ یہ تمہاری دولت تمہیں مبارک ہو اللہ تعالیٰ آپ کو زیادہ عطا فرمائے۔ اللہ کی قسم! ہم کسی کی دولت دیکھ کر جلتے نہیں بلکہ خوش ہوتے ہیں کہ مسلمان کو خدا نے دولت دی ہے جلنےوالے کا منہ کالا، جل کر ہم کیا کریں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اور عطا فرمائے، میں صرف بتا رہا ہوں کہ ان چھوٹی چھوٹی نیکیوں کا آخرت میں اللہ تعالیٰ اجر عطا فرمائیں گے۔
شرک اور توحید میں فرق:
﴿اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۴﴾﴾
اللہ ہم تیری ”ہی“ عبادت کرتے ہیں اور تجھ ”ہی“سے مدد مانگتے ہیں شرک اور توحید میں کیا فرق ہے؟ مشرک ”بھی“کی رٹ لگاتا ہے اور موحد ”ہی“ کی بات کرتا ہے۔ مشرک کہتا ہے ”بھی“جبکہ موحد کہتا ہے ”ہی“مشرک کہتا ہے کہ اللہ کو”بھی“ مانتے ہیں، موحد کہتا ہے اللہ ”ہی“ کو مانتے ہیں۔
قرآن کریم کو اٹھائیں اللہ نے مشرک اور زانی کا مزاج بیان کیاہے فرمایا:
﴿وَّ الزَّانِیَۃُ لَا یَنۡکِحُہَاۤ اِلَّا زَانٍ اَوۡ مُشۡرِکٌ ۚ﴾
النور 24: 3
مشرک اور زانی ایک جیسے ہیں جس طرح مشرک ایک خدا پر بھروسہ نہیں رکھتا، قناعت نہیں کرتا۔ اسی طرح زانیہ عورت ایک مرد پر قناعت نہیں کرتی، مشرک ایک خدا پر بھروسہ نہیں کرتا۔ بدکار آدمی اپنی بیوی پر بھروسہ نہیں کرتا۔
میں کل مطالعہ کر رہا تھا ایک مفسر بڑی عجیب بات لکھتے ہیں:جو موحد ہے وہ کہتا ہے: ”اللہ ہی“ اور مشرک کہتا ہے کہ ”اللہ بھی“ اور پاک دامن عورت کہتی ہے: ”میں تیری ہی ہوں“ اور بدکار عورت کہتی ہے: ”میں تجھ سے بھی پیار کرتی ہوں“، یہ مشرک اور بدکردار کا مزاج ایک جیسا ہے۔
لفظ نعبد پر عجیب نکتہ:
مومن کہتا ہے: ﴿اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ﴾ ذرا اس پر ایک نکتہ ذہن نشین فرمائیں! ”نعبد“ اور ”نستعین“ جمع کا صیغہ ہے یا واحد کا؟ جب امام نماز پڑھاتا ہے تو کہتا ہے کہ ﴿اِیَّاکَ نَعۡبُدُ﴾ تب تو سمجھ آتی ہے لیکن جب اکیلے سنتیں پڑھ رہے ہوں تو کہتے ہیں: ﴿اِیَّاکَ نَعۡبُدُ﴾ جب تہجد پڑھتے ہیں تو کہتے ہیں ﴿اِیَّاکَ نَعۡبُدُ﴾ اکیلے ہوتے ہیں یا جمع؟ اکیلے ہوتے ہیں، پھر "إِيَّاكَ اَعْبُدُ" کہنا چاہیے کہ میں تیری عبادت کرتا ہوں۔ ﴿اِیَّاکَ نَعۡبُدُ﴾ کیوں کہتے ہیں؟ ذرا نکتہ سمجھنا! جب ﴿اِیَّاکَ نَعۡبُدُ﴾ اکیلے کہیں تو ذہن میں تصور کیا کریں دنیا میں ایک لمحہ ایسا نہیں گزرتا جب اللہ کی عبادت کرنے والا کوئی بندہ نہ ہو ﴿اِیَّاکَ نَعۡبُدُ﴾ کہہ کے اپنی عبادت کو ملائکہ کے ساتھ شامل کرو اللہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔ ملائکہ، صلحا ء، نیک لوگوں کو شامل کرو۔ نتیجہ کیا نکلے گا جب” ہم“ کہہ کر اپنی عبادت کو صلحاء کے ساتھ شریک کریں گے، اللہ ان کی عبادت کو قبول کرےگاتو ہماری عبادت کو بھی قبول فرمائے گا۔ یہ تنہائی میں "نَعْبُدُ" کا فائدہ ہے۔
فضائل اعمال کے معترضین سے ایک سوال:
اس میں ایک چھوٹا سا سوال اور کر دیتا ہوں تاکہ بات سامنے آجائے۔ آج میں ساتھیوں کو بتا رہا تھا کہ جامعہ حسینیہ شہداد پور اندرون سندھ سب سے بڑا مدرسہ ہے اور تبلیغی جماعت کا مدرسہ ہے۔ میں جب سندھ جاتا ہوں اس مدرسے والے میرا بیان بڑےاہتمام سےکرواتے ہیں۔ میں ایک بار وہاں گیا تو مہتمم صاحب ایک حبشی کو لائے اور کہنے لگے کہ یہ لڑکا اہل حدیثوں سے بہت متاثر ہے۔ یہ لڑکا آیا تبلیغ کی وجہ سے تھا، اب فضائل اعمال پر اعتراض کرتا ہے۔ میں نے پوچھا کہ آپ فضائل اعمال سے کیوں دور ہوگئے؟اس نے کہا کہ فضائل اعمال پرہمارے اعتراضات ہیں، اس لیے ہم فضائل اعمال سے کٹ گئے ہیں۔
میں نے کہا میرے کچھ قرآن پر اعتراضات ہیں آپ مجھے اس کا جواب دے سکتے ہیں؟ مجھے کہتا ہے کہ کون سا اعتراض ہے؟ میں نے کہا کہ﴿اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ﴾ یہ اللہ کا کلام ہے؟ کہنے لگا: جی! اللہ کلام ہے۔ میں نے کہا کہ ﴿اِیَّاکَ نَعۡبُدُ﴾ کا کیا معنیٰ ہے؟ کہنے لگا کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔ میں نے کہایہ تب ہو گا جب میں اور آپ قرآن پڑھیں۔ جب اللہ تعالیٰ کہے گا: ﴿اِیَّاکَ نَعۡبُدُ﴾ اللہ کسے کہتا ہے میں تیری عبادت کرتا ہوں، اللہ کس سےکہتا ہے کہ میں تجھ سے مددمانگتا ہوں؟خدا کا کلام کیسے ہے؟ خدا بندے سے مدد مانگتے ہیں؟ خدا بندے کی عبادت کرتے ہیں؟
مجھے کہتا نہیں۔ میں نے کہا کہ مجھے اس بات جوب دو! ورنہ قرآن کا انکار کرو!اس نے کہا: اعتراض تو بڑا مضبوط ہے، میں نے کہا جواب دو! اس نے کہا جواب نہیں آتا میں نےکہا تو پھر چھوڑ دوقرآن! کہتا ہے نہیں جی جواب تلاش کریں چھوڑیں کیوں؟ میں نے کہا فضائل اعمال پر اعتراض ہے جوا ب تلاش کر چھوڑ مت۔
تبلیغی جماعت کا مزاج:
کہتا ہے یہ تبلیغ والے جواب نہیں دیتے میں نے کہا جواب دیناان کا کام ہی نہیں ہے، جواب ہمارا کام ہے، ہم سے پوچھیں، دیکھو! جواب ملتا ہے یا نہیں۔ان کے ذمے فضائل ہیں اور ہمارےذمے دلائل ہیں،فضائل ان سے لودلائل ہم سے لو۔
فضائل اعمال کا علمی دفاع:
میں نےکہالاؤ جو فضائل اعمال پر اعتراض ہے۔ میں تمہارے ایک ایک سوال کا جواب دیتا ہوں۔ مجھے ایک ساتھی نے بحرین سے فون کیا کہتا ہے کہ ایک مولوی آیا ہے فضائل اعمال میں فلاں فلاں جگہ اعتراض کرتا ہے، میں نے کہا میری اس موضوع پر دو گھنٹے کی مفصل گفتگو سی ڈی میں موجود ہے، انٹر نیٹ پر اپ لوڈ ہے، وہاں سے ڈاؤن لوڈ کر کے سی ڈی بنا کر اسے تقسیم کرو۔
اللہ کی شان ہے وہ بیان کرنے کے لیے گیا، لڑکوں نے میرے اس بیان کو ڈاؤن لوڈ کیا اس کی سی ڈ یزبنالیں بیان سننے والے جب باہر نکلے تو جو میری سی ڈیز فضائل اعمال کے دفاع میں ہیں وہ تقسیم ہو گئیں۔آئندہ وہ حضرت جب دوبارہ تشریف لے گئے تو تبلیغی جماعت کے خلاف بولنے کی ہمت نہیں ہوئی کیونکہ جواب تو ہم نے دے دیے تھے۔ پھر انہوں نے کہا کہ آپ خود آئیں میرا ان دنوں وہیں کا سفر ہےمیں نےکہا پہلےC.Dآئی تھی اب ہم آئیں گے اب سارے اعتراضات اکٹھے کر و ہم دیکھتے ہیں کہ کون سا اعتراض ہے جس کا جواب نہیں بنتا۔ میں نے کہا جب اعتراض ہے تو چھوڑ دد قرآن کو! کہتا ہے کہ جواب تلاش کریں گے میں نےکہا فضائل اعمال پر اعتراض ہےفضائل اعمال نہ چھوڑو جواب تلاش کرو۔
امام اہل السنت رحمہ اللہ کاجواب:
اب ذرا اس سوال کا جواب سمجھیے سوال سمجھ گئے؟ ﴿اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ﴾ یہ کلام کس کا ہے؟ ﴿اِیَّاکَ نَعۡبُدُ﴾ کا معنیٰ ہم تیری عبادت کرتے ہیں۔ میں چھوٹا تھا وہاں حفظ کرتا تھا ہم نے اس وقت شیخ امام اہل السنت شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ سے جواب سنا تھا شیخ فرما رہے تھے جیسے ایک بچہ ا سکول میں داخل ہوتا ہے اور ہیڈ ماسڑ بچے کو سمجھاتاہے بچے جب تمہیں چھٹی چاہیے تو درخواست لکھنا:
بخدمت جناب ہیڈ ماسڑ صاحب!السلام علیکم ورحمۃ اللہ، میرے چچا کی شادی ہے مجھے دو دن کی رخصت عنایت فرمائیں۔ نیچے اپنا نام لکھ دو۔ اب کہتا ہے بخدمت جناب ہیڈ ماسٹر صاحب… لکھتا کون ہے؟ خود لکھ رہا ہے۔ استاذ فرماتے ہیں اس سے پوچھو بخدمت جناب ہیڈ ماسٹر صاحب کیوں لکھا ہے؟ یہ خود کیوں؟ چھٹی لینا چاہتا ہے؟کیا چھٹی تو نہیں لینا چاہتا؟ پھر یہ کیوں کہہ رہا ہے بخدمت جناب ہیڈ ماسٹر صاحب میرے چچا کی شادی ہے مجھے دو دن کی چھٹی چاہیے؟ کس ہیڈ ماسٹر کے چچا کی شادی ہے؟
استاذ فرمانے لگے یہ اعتراض تب تھا جب ہیڈ ماسٹر یہ درخواست اپنے لیے لکھتا، ہیڈ ماسٹر نے لکھی ہے لیکن اپنے لیے نہیں بچے کے لیے لکھی ہے۔اسی طرح ﴿اِیَّاکَ نَعۡبُدُ﴾ پر اعتراض تب تھا جب اللہ کا کلام اللہ کے لیے ہوتا،یہ اللہ کا کلام بندے کے لیے ہے کہ جب تم پڑھو تو ﴿اِیَّاکَ نَعۡبُدُ﴾ پڑھو۔ میں نے کہا کہ بتاؤ کون سا اعتراض باقی رہ گیا؟
صراط مستقیم کا معنیٰ:
﴿اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۵﴾﴾
اللہ ہم کو سیدھے راستے پر چلا۔ ایک ہوتاہے سیدھا راستہ دکھا دینا اورایک ہوتا ہے سیدھے راستے پر چلا دینا۔ ہدایت کاایک معنیٰ دکھانا ہے جس کو عربی میںإِرَاءَۃُ الطَّرِیْقِکہتے ہیں راستہ دکھانا۔ ہدایت کا دوسرا معنیٰ إیصال إلی المطلوب ہےیعنی سیدھے راستے پر چلا دے۔ ہم یہ نہیں کہتے اللہ ہمیں سیدھا راہ دکھا دے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ اے اللہ ہم کو سیدھے راستے پر چلا دے۔
اہل السنت کی پہچان ؛راہِ اعتدال:
میں اکثر آپ کی خدمت میں اختصار کے ساتھ بات عرض کرتا ہوں کہ صراط مستقیم نام ہے راہِ اعتدال کا۔نہ افراط، نہ تفریط، نہ تجاوز، نہ کمی۔ درمیانے راستے کا نام اعتدال ہے۔ بعض حد سے گزر جاتے ہیں بعض حد سے اتر جاتے ہیں۔ اھل السنۃ والجماعۃ حد سے گزرتے بھی نہیں اور حد سے اترتے بھی نہیں بلکہ حد پر رہتے ہیں اس کا نام صراط مستقیم ہے۔ میں دو چار مثالیں دیتا ہوں۔
• ایک بندہ کہتا ہے کہ خدا عرش پر ہے،ہر جگہ حاضر نہیں،ایک بندہ کہتا ہے اللہ بھی ہرجگہ پراللہ کے نبی بھی ہر جگہ پر۔ صراط مستقیم کیا ہے اللہ ہر جگہ پر نبی مدینے میں اور نبی کافیض ہر جگہ پر ہے۔
• ایک بندہ کہتا ہے کہ ننگے سر پھرو!دوسرا کہتا ہے کہ نہیں سر پر پگڑی باندھنی ہے اور سبز ہی باندھنی ہے جو انکار کرے وہ بھی غلط اور سبز کی شرط لگائے وہ بھی غلط۔ صراط مستقیم کیا ہے: پگڑی باندھو! سفید باندھ لو، سبز باندھ لو، کالی باندھ لو، جو میسر ہو وہ باندھ لو یہ صراط مستقیم ہے۔
• ایک بندہ کہتا ہے کہ دو ہاتھ سے مصافحہ نہ کرو ایک ہاتھ سے کرو اس نے دو ہاتھ کو چھوڑ دیا۔ایک کہتا ہے کہ نہیں مصا فحہ بھی کرو اور ساتھ گھٹنے بھی ٹیکو۔یہ دونوں غلط ہیں۔ صراط مستقیم کیا ہے دو ہاتھ سے مصافحہ کر و مگر گھٹنے مت ٹیکو۔
• ایک بندہ کہتا ہے کہ تراویح 20 نہیں 8 پڑھو وہ پوری بارہ تراویح کھا گیا۔ ایک کہتا ہے کہ نہیں 20 رکعات تراویح بھی پڑھواور بعد میں اجتماعی دعا بھی ضرور کرو۔ ہم کہتے ہیں تروایح 20 پڑھو دعا اپنی مانگ لو یا امام کے ساتھ مانگ لو یہ آپ کی مرضی ہے۔ یہ صراط مستقیم ہے۔
• ایک بندہ کہتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضے پر جاؤ اور سلام عرض کرو حضور صلی اللہ علیہ وسلم تب بھی نہیں سنتے اور دوسرا کہتا ہے نہیں یہاں سے پکارو تب بھی سنتے ہیں،یہ دونوں غلط کہتے ہیں۔ صراط مستقیم کیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضے پر جاؤ تو وہ خود سنتے ہیں اور یہاں سے پڑھو تو ان کی خد مت میں فرشتے پہنچا دیتے ہیں یہ صراط مستقیم ہے۔
انعام یافتہ لوگوں کا طبقہ:
﴿اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۵﴾﴾
اللہ ہم کو صراط مستقیم پر چلا دے۔
﴿صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ﴾
اللہ نے فرمایا: یہ صراط مستقیم کن کا راستہ ہے؟ ان لوگوں کا راستہ جن پر خدا نے انعام کیا۔ آپ حضرات پڑھے لکھے ہیں ہمیں تعجب ہے کہ لوگ اتنے ان پڑھ قرآن کے بارے میں کیوں بن جاتے ہیں؟ بتاؤ خدا نے صراط القرآن فرمایا؟ صراط الحدیث فرمایا؟ مجھے قرآن و حدیث کے راستے پر چلا۔نہیں بلکہ فرمایا:
﴿صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ﴾
مجھے انعام یافتہ لوگوں کے راستے پر چلا۔
بزرگوں والا راستہ:
مجھے ایک ساتھی کہنے لگا: یہ جو رائیونڈ والے )تبلیغی جماعت والے (کہتے ہیں کہ ہم نے بزرگوں سے سنا ہے،ہمارے بزرگ یوں فرماتے ہیں،بزرگوں کے نقش قدم پر چلو۔ یہ کیا بزرگ؛ بزرگ لگا رکھا ہے یہ کہاں لکھا ہے؟ میں نے کہا کہ قرآن کریم میں لکھا ہے: کہتاہے جی کہاں؟ میں نے کہا کہ سورۃ فاتحہ میں لکھا ہے۔ کہتاہے جی کدھر؟ میں نے کہا: ﴿اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۵﴾﴾ آگے کیا ہے؟﴿صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ﴾ اے اللہ! ہمیں صراط مستقیم پر چلا۔ کیا مطلب؟ ان کے راستے پر چلا جن پر تو نے انعام فرمایا اور بزرگ اسے کہتے ہیں جس پر خدا نے انعام کیا ہو۔ بزرگوں والا راستہ تو خد ا نے قرآن میں بتایا ہے۔
انعام یافتہ چارطبقات:
اور یہ کتنے طبقات ہیں؟ چار۔
1.
انبیاءکرام
2.
صدیقین
3.
شہداء
4.
صالحین اور اولیاء
یہ چار طبقے ہیں جن پر خدا نے انعام نےفرمایا۔
ہم سنی چاروں کو مانتے ہیں:
اب ذرا نکتہ سمجھنا میں کہتا ہوں ان چاروں طبقات کو ہم سنی مانتے ہیں ہم دیوبندوالے مانتے ہیں۔ باقی کوئی بھی ان چاروں کو نہیں مانتا۔ کیوں؟ مرزائیوں کودیکھو وہ انبیاءسے نکل گئے ہیں،انہوں نے اس بے ایمان کو مانا جو نبی ہی نہیں۔ جن پر خدا نے انعام کیا پہلا طبقہ کون سا ہےانبیاء کا مرزائی نکل گئے کیوں؟ وہ تو نبی کو نبی نہیں مانتے غیر نبی کے پیچھے پڑے ہیں۔
صدیقین سے رافضی نکل گئے کیونکہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نہیں مانتے وہ بھی نکل گئے۔ شہداء ،اس سے اہل بدعت نکل گئے۔ شہادت سے ڈرتے ہیں۔ صالحین، اس سے وہ دوڑ گئے جو اولیاء کو نہیں مانتے۔
انبیاء سے مرزائی نکل گئے۔
صدیقین سے رافضی نکل گئے۔
شہداء سے بدعتی نکل گئے۔
اور اولیاء سے غیر مقلد نکل گئے۔
اورہم سنی سب کو مانتے ہیں ہم دیوبند والے سب کو مانتے ہیں۔
انبیاء کوبھی مانتے ہیں۔
صحابہ کو بھی مانتے ہیں۔
شہداء کوبھی مانتے ہیں۔
اور اولیا ء کو بھی مانتے ہیں۔
دیکھو سیدھا راستہ خدا نے ہمیں عطا فرمایا ہے پھر تم دل چھوٹا کیوں کرتے ہو؟ دل چھوٹا نہ کرو دل بڑا رکھا کرو۔ خدانےتمہیں صراط مستقیم پر رکھا ہے۔
گمراہ اور مغضوب طبقہ:
﴿غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾﴾
اے اللہ!ان کے راستے پر چلا جن پر تو نے انعام فرمایا اللہ ان سے بچا لے جن پرتیر ا غضب ہے اور اللہ جو گمراہ ہوئے، ان سے بھی ہماری حفاظت فرما۔ "مغضوب" سے مراد یہودی ہیں اور "ضالین" سے مراد نصرانی عیسائی ہیں۔ کیوں؟
مغضوب اسے کہتے ہیں جس کے پاس علم ہو لیکن ضد کی وجہ سے نہ مانے۔
گمراہ اورضال اسے کہتے ہیں جو بے چارہ جہالت کی وجہ سے نہ جانے۔
ضد اور جہالت سے حفاظت:
یہودیوں کے پاس علم تھا لیکن ساتھ ضد شامل تھی اور نصاریٰ کے پاس علم نہیں تھا جہالت تھی۔ اللہ ہمیں مغضوب سے بھی بچائے اور ضال سے بھی۔ اللہ ہمیں ضد سےبھی محفوظ رکھے اور جہالت سے بھی محفوظ رکھے۔
امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے کا مسئلہ:
آخر میں دو مسئلے ہیں:سورۃ فاتحہ امام کے پیچھے پڑھنی چاہیے یانہیں؟ اھل السنۃ والجماعۃ کا مذہب یہ ہے کہ امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھنی چاہیے۔
اس پر دلیل قرآن کریم میں ہے:
﴿وَ اِذَا قُرِیَٔ الۡقُرۡاٰنُ فَاسۡتَمِعُوۡا لَہٗ وَ اَنۡصِتُوۡا لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ﴿۲۰۴﴾﴾
الاعراف 7: 204
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
أَجْمَعَ النَّاسُ عَلٰى أَنَّهَا نَزَلَتْ فِي الصَّلَاةِ .
مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہ: ج22 ص150
\
امت کا اجماع ہے یہ آیت نماز کےبارے میں اتری کہ جب نماز کے لیے امام قرآن پڑھے تو تم قرآن سنا بھی کرو اور تم چپ بھی رہا کرو۔
سننااور چپ رہنا دو حکم ہیں:
سنو بھی اور چپ بھی رہو۔ اللہ نے کتنے حکم دیے؟ دو۔
سنابھی کرو۔
چپ بھی رہا کرو۔
سنا کرو، چپ رہا کرو یہ دو حکم کیوں دیے ہیں؟ کیونکہ نمازیں دو قسم کی ہیں۔
نمبر1: جہری نمبر2: سری
جہری اور سری نماز:
جس میں امام اونچی آواز سےقرأت کرے یہ ”جہری“نماز ہے۔ جیسے فجر، مغرب اورعشاء اور جس میں امام قرأت آہستہ کرے یہ ”سری“ نماز ہے۔ جیسے:ظہر، عصر۔
کیونکہ نمازیں دو قسم کی ہیں اللہ نےبھی دو حکم دیے۔ اب بتاؤ جو آدمی سامنے سے بولےاس کو سننے والا تو نہیں کہتے،سننے والا اسے کہتے ہیں جو چپ رہے۔ تو جب امام کی آواز آئے ﴿فَاسۡتَمِعُوۡا لَہٗ﴾ سنا کرو اور ظہر، عصر میں جب آواز نہ آئے اب تم سن نہیں سکتے لیکن چپ تم نے اب بھی رہنا ہے۔ یہ سننے کا حکم جہری نمازوں کے لیےہے ان جہری نمازوں میں چپ تو رہنا ہی ہے۔اور چپ رہنے کا حکم سر ی نمازوں کے لیے ہے۔ نمازیں دو قسم کی تھیں خدا نے دونوں حکم عطا فرما دیے۔ جہری میں ﴿فَاسۡتَمِعُوۡا﴾ اور سری نماز میں ﴿اَنۡصِتُوۡا﴾ آواز نہیں آ سکتی چپ تم نے اب بھی رہنا ہے۔ اس بارے میں ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی کو سورۃ فاتحہ نہیں پڑھنی چاہیے۔
آمین آہستہ کہنے کا مسئلہ:
دوسرا مسئلہ یہ ہےکہ جب امام ﴿وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾﴾ کہے تو مقتدی کو آمین کہنی چاہیے مقتدی اونچی آواز میں آمین نہ کہے۔
آمین ؛دعا ہے یا اللہ کا نام ہے:
اس پر میں دلیل حنفیوں کے عالم کی نہیں دیتا۔ امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ جو شافعی المسلک ہیں، فرماتے ہیں یہ جو آمین ہے یا تو ”اللہ کا نام“ہے یا آمین ”دعا“ ہے، دونوں پر دلیلیں پیش کیں ہیں۔
[1]: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"آمِيْنَ" اِسْمٌ مِنْ أَسْمَاءِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ"
مصنف عبد الرزاق: ج 2 ص 64 رقم الحدیث 2653
آمین اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔
[2]: حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا مانگی اور حضرت ہارون علیہ السلام نے آمین کہی۔ قرآن کہتا ہے:
﴿قَدۡ اُجِیۡبَتۡ دَّعۡوَتُکُمَا فَاسۡتَقِیۡمَا﴾
یونس10: 89
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا کو بھی دعا کہا ہے اورہارون علیہ السلام کی آمین کو بھی دعا کہا ہے۔ اس سے پتا چلا کہ آمین دعا ہے۔
صحیح بخاری میں امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"وَقَالَ عَطَاءٌ: آمِينَ دُعَاءٌ"
صحیح البخاری: کتاب الاذان، تحت باب جہر الامام بالتامین
امام عطاء رحمہ اللہ جلیل القدر تابعی ہیں، انہوں نے فرمایا: آمین دعا ہے۔
آمین آہستہ کہنےکا استدلال:
معلوم ہوا کہ آمین اللہ کا نام ہے یا دعا ہے۔ اگر اللہ کا نام ہو تو قرآن کریم میں ہے: ﴿وَ اذۡکُرۡ رَّبَّکَ فِیۡ نَفۡسِکَ تَضَرُّعًا وَّ خِیۡفَۃً﴾ اللہ کا نام لو تو آہستہ لیا کرو۔
الاعراف 7: 205
اگر یہ آمین دعا ہے تو قرآن کریم کہتا ہے:
﴿اُدۡعُوۡا رَبَّکُمۡ تَضَرُّعًا وَّ خُفۡیَۃً ؕ﴾
الاعراف 7: 55
اللہ سے دعا آہستہ مانگو۔
اما م رازی رحمہ اللہ نے بڑی عجیب بات کہی ہے، فرماتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ میں شافعی ہوں لیکن اس مسئلے پرقرآن،امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ساتھ ہے۔ اگر آمین دعا ہے تب بھی اصل آہستہ ہے، اگر آمین اللہ کا نام ہے تب بھی ذکر آہستہ ہے۔امام رازی رحمہ اللہ کہتے ہیں شافعی ہونے کے باوجود کہ اس مسئلہ پر میں کہتا ہوں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا موقف بالکل درست ہے۔
التفسیرالکبیر للرازی: ج14 ص107
اس لیے ہم حنفی کہتے ہیں جب امام ﴿وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴾ کہے تو مقتدی کو آمین آہستہ کہنی چاہیے،مقتدی کو آمین اونچی آواز سے نہیں کہنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو شریعت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ.