سورۃ المائدۃ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ المائدۃ
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَوۡفُوۡا بِالۡعُقُوۡدِ ۬ؕ اُحِلَّتۡ لَکُمۡ بَہِیۡمَۃُ الۡاَنۡعَامِ اِلَّا مَا یُتۡلٰی عَلَیۡکُمۡ غَیۡرَ مُحِلِّی الصَّیۡدِ وَ اَنۡتُمۡ حُرُمٌ ؕ اِنَّ اللہَ یَحۡکُمُ مَا یُرِیۡدُ ﴿۱﴾﴾
ہمارے آج کے درسِ قرآن کا عنوان ہے ”مضامینِ سورۃ المائدۃ“۔
حضرت مسیح علیہ السلام کی دعا:
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دستر خوان کا ذکر ہے جب انہوں نے اللہ رب العزت سے دعا مانگی تھی:
﴿اللّٰہُمَّ رَبَّنَاۤ اَنۡزِلۡ عَلَیۡنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآءِ تَکُوۡنُ لَنَا عِیۡدًا لِّاَوَّلِنَا وَ اٰخِرِنَا وَ اٰیَۃً مِّنۡکَ ۚ﴾
المائدۃ 5: 114
” اے اللہ! ہمیں ایسا آسمانی دستر خوان عطا فرما جو میری امت کے لیے نشانی بنے اور آئندہ آنے والی انسانیت کے لیے بھی نشانی بنے۔“
وجہ تسمیہ سورۃ:
اللہ تعا لیٰ نے ان کو دستر خوان عطا فرمایا۔ چونکہ عربی میں دسترخوان کے لیے ”مائدۃ“ کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور اس سورۃ میں بھی ”مائدۃ“ کا تذکرہ ہے اس لیے اس پوری سورۃ کا نام بھی”سورۃ المائدۃ“ ہے۔ اسے تفسیر کی زبان میں کہتے ہیں ”وجہ تسمیہ سورۃ “ کہ سورۃ کا یہ نام رکھنے کی وجہ کیا ہے؟
عوام الناس کا مزاج:
ہمارے لوگوں کا ایک مزاج ہے،بہت سے لوگ کاروبار اور بزنس کر تے ہیں اور اس میں جائز اور ناجائز کا خیال بھی نہیں کرتے لیکن ان کی خواہش ہو تی ہے کہ وہ نام اس کو شریعت والا دیں یہ بڑےتعجب کی بات ہے۔ مثلاً:
ہوٹل بنائیں گے اور اس میں جائز اور ناجائز کا خیال بھی نہیں ہو گا لیکن کوشش ہو گی کہ نام اس کا ”المائدۃ“ رکھیں۔ کہاں”المائدۃ“ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جو خدا سے مانگا اور آسمان سے اترا۔ اور آپ ہو ٹل میں جا ئز اور ناجائز کا خیال بھی نہ رکھیں اور پھر بھی اپنے ہو ٹل کا نام”المائدۃ“رکھیں یہ ہماری سمجھ سے باہر ہے۔
دین برائے دنیا:
ہمارے ایک قریبی دوست ہیں جو مجھ سے بیعت بھی ہیں، ان کے بعض دوست کراچی میں ہیں اور بعض ریا ض میں ہیں، انہوں نے آپس میں مل کر یہ کوشش کی کہ ہم ”ٹریول ایجنسی“ بنائیں۔ انہوں نے کہا ہم نے 12 نام دیے ہیں اسی میں دو نام ملے ہیں ان میں سے ایک نام ہے ”تھا نوی ایسو سی ایشن“ اور ایک نام اور ملاہے ۔
میں نے ان سے کہا کہ تھا نوی ایسوسی ایشن نام نہ رکھیں جو دوسرا نام ہے وہ رکھ لیں! میری رائے یہ ہے کہ حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ کانام کاروبار کے لیے استعمال نہ کریں اس کو دین کے لیے ہی رہنے دیں۔
اکابر کا مزاج:
ہمارے بعض اکا برجیسے حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا مزاج یہ ہے کہ اگر آپ دکان پر جائیں سودا خریدیں تو بحیثیت عالم یہ نہ کہیں مجھ سے بھی اتنے پیسے لیں گے؟ ؟ گویا کہ آپ اپنا علم بیچ کر سودا لینا چاہتے ہیں۔ میں اپنی بات کرتاہوں کہ دکان پر جاؤں الماری کی قیمت 12500روپے کی ہے۔ اب میں ان سے کہوں کہ مجھ سے بھی آپ 12500روپے لیں گے؟اس کا مطلب ہے کہ چونکہ میں آپ کا مولوی ہوں،عالم ہوں،امام ہوں، میرے علم کی قیمت یہ ہےکہ 2000روپے کم کردیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مجھے اپنے علم کی قیمت کا احساس نہیں ہے۔
علم کی اہمیت پیدا کریں:
امام شافعی رحمہ اللہ کا مزاج یہ تھا کہ جب وہ کسی حجام سے حجامت کروانے کےلیے تشریف لے جاتے تو عام آدمیوں سے دوتین گنا زیادہ مزدوری دیتے، مزدوری تو مثلاً دس روپےہے آپ تیس روپے دیتے۔ ان سے پوچھا گیا کہ مزدوری دس روپے ہے آپ تیس کیوں دیتے ہیں؟ فرمایا:اس سے حجام کے دل میں علم کی قیمت پیدا ہوگی کہ علماء بہت اچھے لوگ ہیں۔
لمحہ فکریہ!
ایک طرف مزاج یہ ہے اور ایک طرف مزاج ہمارا ہے۔ اب بتاؤ؟ امت برباد تو ہو گی نا [میں اپنی بات کرتا ہوں با قی علماء کی نہیں ] اگر میں اپنے علم کو پیسوں کے لیے استعمال کروں گا تو میرے علم کی قیمت ختم ہو گی اور اس علم کو بے وقعت میں نے کیا ہے آ پ نے نہیں کیا، خراب تو آپ کو میں نےکیا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ ہم سب کی اصلاح فرمائے۔ [آمین۔سامعین]
کاروبار میں کوشش کریں، کاروباری نام ہی رکھیں۔ اس میں دینی نام رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، یا تو اس نیت سے رکھیں کہ میں نے خالص دین کا کام کرنا ہے تو بہت اچھی بات ہے۔
دین کی بدنامی کا سبب:
بسا اوقات ہماری وجہ سے دین بہت بدنام ہو تاہے ہماری وجہ سے، چاہیے تو یہ کہ آدمی دین کا کام کرے، اگردین کا کام نہ کر سکے تو کم ازکم دین کو بدنام کرنے کا ذریعہ تو نہ بنے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کی احتیاط:
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کو” امیر المؤمنین فی الحدیث“ کہتے ہیں۔ بہت بڑےمحدث تھے دنیا ئے حدیث میں ان کا نام بہت بلند ہے۔ ان کی سوانح حیات میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ ایک دفعہ کشتی میں سفر کر رہے تھے، اس دوران کسی مسافر سے دوستی لگ گئی باتوں باتوں میں حضرت نے ان کو یہ بھی بتایا دیا کہ میری جیب میں اشرفیوں کی تھیلی ہے جس میں اتنی رقم موجود ہے۔
تھوڑا سا سفر گزرا تو اسی شخص نے کہا میری ایک تھیلی چوری ہو گئی ہے جس میں اتنے سونے کے سکے موجود ہیں، اب ظاہر ہے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے بتا تو دیا تھا جو نہی اس نے اعلان کیا تو تلاشی شروع ہو گئی، حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے چپکے سے اس تھیلی کو نکا لا اور دریا میں گرا دیا۔ تلاشی لی گئی۔ اب کسی سے بھی سونا برآمدنہیں ہوا جب کنارے پر پہنچے اورجانے لگے تو اس نے الگ ہو کر امام بخاری رحمہ اللہ سے پوچھا کہ صوفی صاحب! آپ کی جیب میں تو پیسے تھے آپ نے مجھے خود بتایا تھا یا آپ نے جھو ٹ بولا تھا؟ آپ کے پاس نہیں تھے اگر تھے تو وہ کدھر گئے؟ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے جواب دیا اور فرمایا: پوری امت مجھ پر اعتماد کرتی ہے کہ حدیث کے معاملے میں جھوٹ نہیں بولتا، ہو سکتا ہے میں صفائی دیتا اور چوری ثابت نہ ہو تی لیکن مجھ پر چوری کا الزام تو لگ ہی جاتا، میں نے خود کو چوری کے الزام سے بھی محفوظ رکھا ہے تاکہ امت میری احادیث پر اعتماد کرے۔
امداد الباری: ج1 ص461، فضل الباری: ج1 ص55
جب اس طرح آدمی دین کا کام کرتاہے تو اللہ تعالیٰ اس کے کام میں اس کے علوم میں بہت برکتیں عطافرماتاہے۔
سورۃ کے مکی اورمدنی ہونے میں فرق:
بہر حال میں کہہ رہا تھا یہ سورۃ المائدہ ہے جس میں 16 رکوع اور 120 آیات ہیں اور سورۃ مدنی ہے۔ مدنی اور مکی میں فرق ہے۔ جو سورتیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ سے ہجرت فرمانے کے بعد اتریں انہیں مدنی کہتےہیں اور جو سورتیں اس سے پہلے اتریں انہیں مکی کہتے ہیں۔
سورۃ المائدہ مدنی کیسے ہو سکتی ہے؟
اس سورۃ کے متعلق اگرچہ بہت سے مفسرین کا خیا ل ہے کہ بہت ساری اس کی آیات حدیبیہ کے مقام پر اتری ہیں، بہت ساری حجۃ الوداع کے موقع پر اتری ہیں اوربہت ساری فتح مکہ کے موقع پر اتری ہیں۔ فتح مکہ تو مکہ میں ہے حجۃ الوداع تو مکہ میں ہے مدینہ میں تو نہیں پھر اس کو مدنی کیوں کہتے ہیں؟ اس لئیے کہ سورۃ کی اکثر آیات کا نزول رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ سے مدینہ ہجرت کے سفر کے بعد اتری ہیں۔ حدیث مبارک میں خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اَلْمَائِدَةُ مِنْ آخِرِ الْقُرْآنِ تَنْزِيْلًا فَأَحِلُّوْا حَلَالَهَا وَحَرِّمُوْا حَرَامَهَا."
تفسیر روح المعانی:ج3ص47
آخری سورتوں میں سے ایک سورۃ؛ سورۃ المائدۃہے۔ جس چیز کو حلال بتادیا اس کو حلال سمجھو اور جس کو حرام بتادیا اس کو حرام سمجھو۔تو یہ سورۃحلال اور حرام کو بیان کرنےمیں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔
ایک مسئلہ …… متعدد آیات:
ایساکیوں فرمایا؟ بعض اوقات ایک مسئلے پر ایک آیت پہلے اتری ہے اسی مسئلے پر دوسری آیت بعد میں اتری ہے۔ یہ جتنی آیات ہیں، تلاوت ہم سب آیات کی کرتے ہیں لیکن عمل ان آیا ت پر کرتے ہیں جو آخرمیں اتری ہوں۔ اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ سورۃ آخری سورتوں میں سے ہے جس کو اللہ تعالیٰ اس سورۃ میں حلال فرمائیں وہ حلال ہی رہے گی اور جس کو حرام فرمائیں وہ حرام ہی رہے گی، اب اس نے منسوخ نہیں ہونا کیونکہ یہ آخری دور کی سورۃ ہے۔
شراب اور جوئے کی حرمت:
میں اس کی چھوٹی سی مثال دیتاہوں۔ سورۃ المائدہ کی اس آیت میں ہے:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡخَمۡرُ وَ الۡمَیۡسِرُ وَ الۡاَنۡصَابُ وَ الۡاَزۡلَامُ رِجۡسٌ مِّنۡ عَمَلِ الشَّیۡطٰنِ فَاجۡتَنِبُوۡہُ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿۹۰﴾﴾
یہ شراب ہے، یہ جوا ہے، یہ جوے کے تیر ہیں۔
جوئے کے تیر:
تیروں کے ساتھ جوا کیسے ہوتاتھا؟وہ اس طرح کہ دس آدمی دس دس روپے ڈالتے اور اسی سے کوئی چیز خریدلیتے۔ یعنی ایک اونٹ خریدا ہے، بکری خریدی ہے۔وہ دس ہزار کی ہوتی یا کتنے کی بھی ہوتی دس آدمی برابر پیسے ڈالتے اور وہ خرید لیتے، اب اونٹ کویا بکری کو جب تقسیم کرنا ہے تو وہ اس طرح کرتے تھےکہ سات تیر رکھ لیتے، ایک تیر پر ایک حصہ ہے ایک تیر پر دو ہیں ایک پر تین ہیں کچھ تیر خالی ہیں تو جس کا جو تیر نکلے گا اس کو وہی حصہ ملے گا جب خریدا سب نے مل کر ہے تو حصہ سب کا ہے یہ جوئے ہی کی ایک قسم تھی جس کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں حرام کردیا کہ جو ئے سے بچو،شراب سے بچو اور ان برے کاموں سے بچو!
شراب نقصان دہ چیز ہے:
اب شراب کے بارے میں تو تین آیتیں نازل ہوئی ہیں پہلی آیت کون سی ہے؟
﴿یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡخَمۡرِ وَ الۡمَیۡسِرِؕ قُلۡ فِیۡہِمَاۤ اِثۡمٌ کَبِیۡرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ ۫ وَ اِثۡمُہُمَاۤ اَکۡبَرُ مِنۡ نَّفۡعِہِمَا ؕ﴾
البقرۃ 2: 219
آپ سےشراب کے بارے میں پو چھتے ہیں۔آپ فرمادیجیے:شراب میں فائدہ بھی ہے نقصان بھی ہے لیکن نقصان اس کا نفع سے زیادہ ہے۔ اب دیکھوحرام تو نہیں فرمایا۔
شراب نشہ آور چیز ہے:
اور دوسری آیت اتری:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقۡرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَنۡتُمۡ سُکٰرٰی حَتّٰی تَعۡلَمُوۡا مَا تَقُوۡلُوۡنَ﴾
النساء 4: 43
نشے کی حالت میں ہو تو نماز نہ پڑھا کرو نشہ اتر جائے تو نماز پڑھا کرو۔شراب کوحرام اب بھی نہیں فرمایا۔
شراب قطعی حرام ہے:
اور یہ تیسری آیت جب نازل ہوئی:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡخَمۡرُ وَ الۡمَیۡسِرُ وَ الۡاَنۡصَابُ وَ الۡاَزۡلَامُ رِجۡسٌ مِّنۡ عَمَلِ الشَّیۡطٰنِ فَاجۡتَنِبُوۡہُ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿۹۰﴾﴾
اب شراب حرام ہوئی ہے اب اس کے بعد ذرہ برابر بھی شراب استعمال نہیں کی جاسکتی۔تو مسئلہ شراب پر تو تین قسم کی آیتیں ہیں لیکن آخری یہ ہے۔
مسئلہ قرآن و حدیث میں موجود ہو ……پھر بھی:
اس سے ایک بہت بڑا مسئلہ حل ہوا،ہمیشہ لوگ کہتے ہیں اس مسئلے پر قرآن موجود ہے،اس مسئلے پر حدیث موجود ہے۔ اس سے ہم لوگ تو جلدی متاثر ہوتے ہیں کہ فلاں مسئلہ حدیث میں ہے فلاں مسئلہ قرآن میں ہے۔ اس سے متاثر نہ ہوا کریں جب بندہ کہے فلاں مسئلہ حدیث میں ہے تودیکھنا یہ ہے کہ اس حدیث کے مدمقابل کوئی اور حدیث ہے یا نہیں ۔ پھر یہ کہ دونوں حدیثوں میں سے پہلے دور کی کون سی ہے اور بعد کے دور کے کون سی ہے عمل تو تب ہوگا۔ ہم اسی سے پریشان ہو جاتےہیں۔
ترک رفع الیدین ……اختلاف روایات:
اگر کوئی کہےآپ نماز میں رفع یدین کیوں نہیں کرتے حدیث میں ہے؟ آپ شروع کردیتے ہیں۔ بھائی یہ دیکھو رفع یدین کرنے کی حدیث ہے تو آیا نہ کرنے کی بھی حدیث موجود ہے یا نہیں اگر نہ کرنے کی حدیث بھی ہو، کرنے کی بھی ہو اب کیا دیکھیں گے بعد والی کون سی ہے۔کرنے والی یا نہ کرنے والی اگر کرنے والی بعد کی ہے تو کرنا چاہیے نہ کرنے والی بعد کی ہے تو پھر نہیں کرنا چاہیے۔
اب پورا مسئلہ چونکہ علم میں نہیں ہوتا ہم صرف ایک بخاری کی حدیث دیکھتے ہیں اور اس پر کہتے ہیں بخاری نے کہا۔ اب اگرکوئی بندہ کہہ دے قرآن میں ہے کہ شراب پی لو جب نشہ اترجائے نماز پڑھ لو قرآن میں ہے تو کیا شروع کردیں گے پینا؟ [نہیں۔ سامعین ]تو صحیح بخاری میں حدیث کا ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اس پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔
صحتِ سند ؛ صحتِ عمل کی دلیل نہیں:
اس کو علماء کی زبان میں کہتے ہیں: صحتِ سند؛ صحتِ عمل کی دلیل نہیں ہے۔ اگر حدیث کوصحیح سند سے لیا ہے اس کامعنی یہ نہیں کہ اس پر عمل کرنا بھی صحیح ہے۔ بعض اوقات سند صحیح ہوتی ہے عمل کرنا صحیح نہیں ہوتا۔
کیا ”ران“ ستر میں شامل ہے؟:

حضرت امام بخاری رحمہ اللہ ایک باب قائم کرتے ہیں:”

بَابُ مَا يُذْكَرُ فِي الْفَخِذِ

“ پہلے حدیث لائے

”الْفَخِذُ عَوْرَةٌ “
صحیح البخاری: کتاب الصلوٰۃ، تحت باب ما یذکر فی الفخذ

کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ران ستر ہے۔ پھر دوسری حدیث لائے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کیا اس میں ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنے سے میرا گھٹنا ملا تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو تہبند مبارک تھا وہ تھوڑا اترا تو میں ران کودیکھتا رہا۔

صحیح البخاری، رقم: 371
اب بتاؤ؟ ادھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ستر فرمارہے ہیں ادھرستر دکھا رہے ہیں۔ اب اگر ستر ہے تو دکھا یا کیوں؟ اور ستر نہیں تو ستر فرمایا کیوں ؟
فقہاء ؛ گمراہی سے بچاتے ہیں:
اب اس سے ایک نیا طبقہ پیداہوا منکرین حدیث، وہ کہتے ہیں ہم حدیث کو نہیں مانتےاور فقہاء کاکام کیا ہے؟ فقیہ کاکام ہے وہ ایسی جلدی یہ نہیں کہتا کہ ہم دونوں کو نہیں مانتے وہ یہ دیکھتا ہے کہ اس میں حدیث پہلی کون سی ہے بعد کی کون سی ہے، احتیاط کس میں ہے کس میں احتیاط نہیں ہے۔
امام بخاری کا فیصلہ:
خود امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:”
حَدِيثُ أَنَسٍ أَسْنَدُ”
حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ران کودیکھا تھا اس حدیث کی سند بہت مضبوط ہے۔ لیکن دوسری میں فرمایا: ”
حَدِيثُ جَرْهَدٍ أَحْوَطُ
“سند اس کی مضبوط ہے عمل کرنا اس پہ ٹھیک ہے۔ یہ امام بخاری رحمہ اللہ کا خود کافیصلہ ہے۔
بخاری کی پوری بات مانیں:
میں آپ کو بتاؤں آپ یقین فرمائیں کون کون سا رونا روئیں اور کس کس فتنے کا تعاقب کریں۔ میں دبئی میں ایک مسجد میں بیٹھا تھا نماز پڑھنےکے بعد میں نے وہاں سے ایک کتاب اٹھائی اس کا نام تھا ”
المختصر من صحیح البخاری“
صحیح بخاری کا خلاصہ۔ میں نے اسی باب کو کھولا، مجھے پتا تھا کہ یہاں اس نے گڑ بڑ کرنا ہےآپ کو تو نہیں پتا نا! آپ یقین فرمائیں اس کا عنوان تھا بھی یہی کہ [ران ستر ہے یا نہیں ] اور نیچے صرف حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث نقل کی ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کاران کھل گیااورمیں اسےدیکھتا رہا اور دوسری حدیث کا ذکر بھی نہیں کیا اورامام بخاری رحمہ اللہ کے فیصلے کا ذکر بھی نہیں کیا۔
اب اگر دبئی ائیر پورٹ میں یا دبئی سا حل پر کوئی نوجوان نیکر پہن کے پھرے اور کہے جی حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ میں نے دکھا دیا تو کیا حرج ہے۔ تو بتاؤ اس کو کیا جواب دو گے؟اس نوجوان کا قصور تونہیں ہے۔میں اس لیے گزارش کر رہا تھاکہ یہ سورۃ آخری سورۃ ہے۔اب اس کا مطلب کیا ہے؟ کہ اس میں جو احکام ہیں وہ منسوخ نہیں ہوں گے۔اللہ تعالیٰ ہمیں یہ بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
دھوکہ بازوں سے بچنے کا گُر:
میں تھوڑے وقت میں اتنے چھوٹے چھوٹے اصول آپ کی خدمت میں پیش کرتاہوں اگر آپ ان کو اپنے ذہن میں بٹھائیں تو اللہ کی قسم کھا کے کہتاہوں کوئی بندہ آپ کو گمراہ نہیں کر سکتا۔کیونکہ آپ ایک مسئلے پر عمل کرتے ہیں اور اسی کے مقابلے میں کوئی آپ کے سامنے حدیث پیش کرے تو آپ کیا پو چھیں گے؟ کہ اس کے مقابلے میں کوئی حدیث ہے یا نہیں؟ وہ کہے گا، نہیں۔ تو آپ کہہ دیں مولانا صاحب سے پوچھ لیتے ہیں کہ حدیث ہےیا نہیں؟اگرکہے اس کے مقابلے میں حدیث ہے۔ تو پھر یہ دیکھیں گے کہ وہ بات پہلے کی ہے یا بعد کی؟آپ کہیں یار! یہ فیصلہ کر پھر تیری بات مان لیں گے، دوبارہ کبھی آپ کی دکان پر نہیں آئیں گے۔
ورنہ فتنہ پھیل جائے گا:
اگر آپ نے اس طرح نہ کیا بلکہ اس کی بات کو مان لیا تو پھر کیا کریں گے،ایک پمفلٹ دے گا کہ یہ اپنی بیوی کو بھی پڑھوانا۔ اب کیا ہوگا؟ پہلے ایک تھا اب دو ہیں، پھر عورتیں بعض بہت تیز ہوتی ہیں وہ پورے محلے میں بات چلاتی ہیں، پھر ہمیں بعد میں فون کریں گے مولانا صاحب ہمیں آپ کے بیان کا وقت چاہیے ہمارےمحلے میں فتنہ پیدا ہوگیاہے۔ جب ہم خود آئیں تو کہتے ہیں ضرورت کیاہے اور جب فتنہ پیدا ہو جائے تو پھر دوڑے ہیں، پھر وقت نہیں ملتا تو ناراض بھی ہوتے ہیں۔
اِکمالِ دین اور اِتمامِ نعمت کا فلسفہ:
﴿اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا﴾
المائدۃ 5: 3
یہ آیت نازل ہوئی ہے حجۃ الوداع کے موقع پر جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا آخری حج تھا اوروہ پہلا بھی تھا اور آخری بھی، آخری اس لیے کہتے ہیں کہ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حج نہیں کیا۔اس موقع پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور آیت اتنی اہم ہے کہ ایک یہودی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا اےامیر المومنین! یہ اتنی اہم آیت ہے اگر یہ آیت ہماری تورات میں نازل ہوتی توجس دن یہ آیت نازل ہوتی ہم اس دن کو بطور عید مناتے۔ اتنی اہم آیت اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطافرمائی ہے۔
آیت مبارکہ کا خلاصہ:
آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ آج کے دن ہم نے تمہارا دین کامل کردیا ہے، تمہاری نعمتیں پوری کردیں ہیں اور تمہارے دین کو بطور اسلام تمہارے لیے پسند کیا ہے کامل دین کرکے خدانے ہمارے حوالے کردیا۔
اِکمال اور اِتمام میں فرق:
اس میں دو لفظ ہیں ایک ہے ”
أَكْمَلْتُ
“اورایک ہے
”أَتْمَمْتُ“
۔ اکمال اور اتمام میں کیا فرق ہے؟ عام بندہ نہیں سمجھ سکتا۔وہ کہتا ہےجب مکمل کردیا جاتاہے توپورا بھی تو کردیا جاتا ہے پورا اور مکمل میں کیا فرق ہے؟
اب فرق سمجھیں۔ جب کسی چیز کو مکمل کردیں تو اسے”اکمال “کہتے ہیں اور جب اس کے بعد کسی چیز کی ضرورت نہ رہے اسے ”اتمام “کہتے ہیں۔ بندہ کہتا ہے میں نے آپ کو اتنا کچھ دے دیا ہے کہ اس کے بعد آپ کو ضرورت ہی نہیں رہی۔ یہ جو میں نے اتنا کچھ دےدیاہے یہ ”اکمال “ہے۔اور اس کے مزید ضرورت ہی نہیں رہی یہ ”اتمام“ہے۔ جو تمہیں چاہیے تھا میں نے دیا ہے اب تمہیں کسی درپہ جانے کی ضرورت نہیں رہی۔
دین کامل ہے توفقہ کہاں سے آئی؟
بعض لوگ اس آیت کا مفہوم غلط یہاں بیان کرتے ہیں اس کو عربی زبان میں کہتے ہیں:”
کَلِمَۃُ حَقٍّ اُرِیْدَ بَہَا الْبَاطِلُ
“کہ لفظ ٹھیک ہوتا ہے اور معنی غلط ہوتا ہے۔ بعض لوگ یوں کہتے ہیں جب دین کامل ہوگیا تو کیا اس وقت فقہ تھی؟ یہ توبعد میں آئی نا۔ جب دین کامل ہوگیا کیا اس وقت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تھے؟ یہ توبعد میں آئے نا، یہ دیکھو دین کے کامل ہونے کے خلاف ہےاور ہمیں شک پڑ جاتا ہے کہ بات تو ٹھیک کہہ رہے ہیں۔
مشکل وسوسے کا آسان جواب:
آپ پریشان نہ ہوں اس کا ایک آسان جواب ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتےہیں:
﴿اَلۡیَوۡمَ﴾
ہم نے آج کے دن دین مکمل کیا۔ ان سے پوچھو جس دن یہ آیت نازل ہوئی اس کے بعد جو کچھ آیا وہ دین میں اضافہ ہے؟ یہ آیت کب نازل ہوئی؟ وہ کہیں گے حجۃ الوداع کے موقع پر۔ پوچھو حجۃ الوداع کے موقع کے بعد نبی کریم صلی اللہ تعالی وسلم کتنے دن زندہ رہے؟
ایک قول ہے 85 دن، تو وہ جو 85 دن تھے وہ دین میں اضافہ ہوا نا؟ کہیں گے وہ تو اضافہ نہیں ہے۔ کیو ں نہیں ہے؟ جب
﴿اَلۡیَوۡمَ﴾
کہہ رہا ہے آج دین کامل ہو گیاہے۔ اس کے بعدپھر آخری آیت قرآن کی یہ تو نہیں ہے۔
آخری آیت ہے:
﴿وَ اتَّقُوۡا یَوۡمًا تُرۡجَعُوۡنَ فِیۡہِ اِلَی اللہِ ٭۟ ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفۡسٍ مَّا کَسَبَتۡ وَ ہُمۡ لَا یُظۡلَمُوۡنَ ﴿۲۸۱﴾٪﴾
البقرۃ 2: 281
یہ آخری آیت ہے تو پھر یہ آیت بھی دین میں اضافہ ہوا ہے، کیونکہ دین کے کامل ہو نےکےبعدآئی ہے۔پھر کہیں گے ”الْيَوْمَ“ کا مطلب یہ نہیں۔ ہم نے کہا کہ ”أَكْمَلْتُ“ کامطلب بھی یہ نہیں۔ تو نے ”الْيَوْمَ“ کی تاویل کی ہے،ہم نے ”أَكْمَلْتُ“ کی تاویل کی ہے ۔ اگر ہم ”الْيَوْمَ“ کا معنی نہیں سمجھےتو تُو مکمل ہو نے کا معنی نہیں سمجھا۔تاویل کرنی پڑ گئی نا؟ [جی ہاں۔سامعین]
جنت اور نابینا افراد:
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھا نوی رحمہ اللہ کے پاس ایک آدمی آیا اور تھا آنکھوں سے نابینااور غیر مقلد بھی تھا، دل کا بھی نابینا اور آنکھوں کا بھی نابینا، دونوں نعمتوں سے محروم، بصارت بھی نہیں ہے، بصیرت بھی نہیں ہے۔
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ سے عرض کرنے لگا میں نے آپ سے ایک مسئلے پر بحث کرنی ہے حضرت تھا نوی رحمہ اللہ نے فرمایا: کہ میں نے بحث نہیں کرنی، اس نے کہا کہ نہیں جی میں نے کرنی ہے حضرت نےفرمایا: میں نے نہیں کرنی، اس نے کہا: اجی...کیوں؟
فرمایا: اس لیے کہ تجھ سے بحث کرنے کا فائدہ ہی نہیں، اس نے پوچھا فائدہ کیوں نہیں ہے؟ فرمایا: میں اگر بحث کروں گا توتجھے مسئلہ سمجھ آجائے گا؟ تواس نے کہا جی آجائے گا۔حضرت نے فرمایا:پھر مان لو گے؟ اس نے کہا جی مان لوں گا۔
حضرت نے فرمایا: مان لوگے تو پھرکیا ہوگا؟ اس نے کہا ٹھیک ہوجاوں گا۔ فرمایا: ٹھیک ہوجائے گا تو،تو پھر کیا ہوگا؟ اس نے کہا جنت میں جاؤں گا۔ حضرت نےفرمایا: تجھے مسئلہ سمجھ آبھی جائے، تو مان بھی لے، توعمل بھی کرلے، تو جنت میں پھر بھی نہیں جا سکتا۔ پھرتجھ سے بحث کا فائدہ؟ اس نے کہا: کہاں لکھا ہے؟ فرمایا: قرآن میں لکھاہے تو جنت میں نہیں جاسکتا۔ اس نے کہا قرآن میں کہاں لکھا ہے؟ فرمایا قرآن کریم میں ہے:
﴿وَ مَنۡ کَانَ فِیۡ ہٰذِہٖۤ اَعۡمٰی فَہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ اَعۡمٰی وَ اَضَلُّ سَبِیۡلًا ﴿۷۲﴾﴾
الاسراء17: 72
جو دنیا میں اندھا ہے وہ قیامت میں بھی اندھا ہوگا۔ تو جنت میں اندھا تو کوئی نہیں جائے گا۔ تجھے سمجھا نے کا کیا فائدہ؟ کہتا ہے:جی اس آیت کا مطلب یہ نہیں ہے۔ فرمایا: تاویل نہ کر جب قرآن کہہ رہا ہےجو دنیا میں اندھا ہے وہ آخرت میں بھی اندھاہوگا۔ تو یہاں بھی اندھا ہے تو نے وہاں بھی اندھا ہو کر ہی اٹھنا ہے۔ تو اندھا بندہ تو جنت میں نہیں جاتا۔ تجھے سمجھانے کا کیا فائدہ؟ کہتا ہے: یہ مطلب نہیں۔
فرمایا:مطلب نہ بیان کر، امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ فر مائیں کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے، تو تم کہتے ہو تاویل نہیں کرنی چاہیےاور جب توں کہے کہ آیت کا مطلب یہ ہے تو تیری دلیل کیسے مانیں۔؟ حضرت تھا نوی رحمہ اللہ فرمانے لگے آیت میں تاویل نہ کر یں تو تیرا جنت میں جانا ثابت نہیں ہو سکتا۔اس نے کہا: جی مجھے بات سمجھ آگئی۔
الیوم سے مراد کون سا دن ہے؟
تو
﴿اَلۡیَوۡمَ﴾
میں آج کے دن سے مراد وہ دن نہیں ہے جب آیت نازل ہوئی ہے، بلکہ اس سے مراد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ہے۔ لوگ کہتے ہیں آج نوجوان بہت خراب ہو گئے ہیں۔اس کا کیا مطلب کل ٹھیک ہو جائیں گے؟ [نہیں۔ سامعین] آج سے مراد کیا ہے؟ آج کا دور آج کا زمانہ۔ ہم نے کہا جیسے ﴿
اَلۡیَوۡمَ
﴾ سے مراد خاص دن نہیں ہےبلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ہے۔
دین کےکامل ہونے سے کیا مرادہے؟
اسی طرح
﴿اَکۡمَلۡتُ﴾
سے مراد وہ نہیں جو تم نے سمجھا بلکہ
﴿اَکۡمَلۡتُ﴾
سے مراد یہ ہے کہ جو قرآن اللہ تعالیٰ نے دیا ،دینِ کامل ہے، اس کی شرح یعنی حدیث، دینِ کامل ہے،اس قرآن نے اصول دیے، دینِ کامل ہیں،جو مسائل دیے وہ دین کامل ہیں، ان اصولوں سے قیامت تک آنے والے مسائل کو نکالنے کے لیے مجتہد پیدا فرمائے،وہ جو مسائل نکالیں گے وہ دین کامل ہے۔ دین کامل کا مطلب یہ ہے: تمہیں قرآن بھی دیا ہے، تمہیں حدیث بھی دی ہے، جو مسائل اس وقت چاہئے تھے وہ بھی دیے ہیں،وہ جو قیامت تک آنے والے مسائل چاہیے تھے وہ بھی دیے ہیں، اس کےلیے اصول بھی دیے ہیں اور اصولوں کی روشنی میں مسائل نکالنے والے مجتہد بھی دیے ہیں۔ سارا کچھ لوگے تو دین کامل بنے گا۔ور نہ دین کامل بن ہی نہیں سکتا۔
ایک علمی نکتہ:
اس میں ایک چھوٹا سا نکتہ اوربھی سمجھ لیں۔ مکہ مکرمہ میں قرآن کریم نے اعلان فرمایا:
﴿ قُلۡ یٰۤاَیُّہَا الۡکٰفِرُوۡنَ ۙ﴿۱﴾ لَاۤ اَعۡبُدُ مَا تَعۡبُدُوۡنَ ۙ﴿۲﴾ وَ لَاۤ اَنۡتُمۡ عٰبِدُوۡنَ مَاۤ اَعۡبُدُ ۚ﴿۳﴾ وَ لَاۤ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدۡتُّمۡ ۙ﴿۴﴾ وَ لَاۤ اَنۡتُمۡ عٰبِدُوۡنَ مَاۤ اَعۡبُدُ ؕ﴿۵﴾ لَکُمۡ دِیۡنُکُمۡ وَلِیَ دِیۡنِ ٪﴿۶﴾﴾
اصل لفظ کیا ہے: "
لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِيَ دِينِی
ْ" اصل یہ ہے۔ وہ تو ایک عربی کا قاعدہ ہے نا یا متکلم حذف ہو جاتی ہے اور جب وقف کرتے ہیں تو ”ن“ساکن ہوجاتا ہے۔ اصل میں کیا ہے:"
لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِيَ دِينِیْ"
مکہ والو، مشرکو تمہارے لیے تمہارا دین، مجھ محمد کے لیے میرا دین، اگر تم میرا دین قبول نہیں کرتے تومیں تمہارا دین قبول نہیں کر سکتا۔
دین نبوی اور دین صحابہ:
دین کی نسبت مکہ مکرمہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف فرمائی ہے اور جب یہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی فرمایا:
﴿اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ﴾
یہ خطاب صحابہ کوفرمایا ہے۔ جب مکہ مکرمہ ہے تو "
دِیْنِیْ"
فرمایا اور جب مدینہ ہے تو"
دِيْنَكُمْ"
فرمایا۔جب دین مکہ میں تھا تو اسےدین محمد کہتے تھے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےوہ دین صحابہ کے حوالے کیا تو جب نبی دنیا سے گئے ہیں انہیں دین صحابہ کہتے ہیں۔ تو پہلے"
دِیْنِیْ"
تھا اب "
دِيْنَكُمْ"
ہے۔ "
دِیْنِیْ"
بنتا ہی وہ ہے جو "دِيْنَكُمْ" ہو۔
اب اگر یہ پوچھنا ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دین ہے یا نہیں تو کون بتائیں گے؟ [صحابہ۔ سامعین ]صحابہ نہ بتائیں تو حضور کا دین ثابت ہی نہیں ہو سکتا۔ اس لیے مکہ میں "
دِیْنِ
یْ" فرمایا اور مدینہ میں "
دِيْنَكُمْ"
فرمایا۔ اس لیے ہمارا نام کیاہے؟ [اھل السنۃ والجماعۃ۔ سامعین] سنت ہوتی ہی وہ ہے جو جماعت صحابہ دے جماعت صحابہ نہ ہو تو سنت بنتی ہی نہیں۔
آیت وضواور وضو کے فرائض:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا قُمۡتُمۡ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغۡسِلُوۡا وُجُوۡہَکُمۡ وَ اَیۡدِیَکُمۡ اِلَی الۡمَرَافِقِ وَ امۡسَحُوۡا بِرُءُوۡسِکُمۡ وَ اَرۡجُلَکُمۡ اِلَی الۡکَعۡبَیۡنِ﴾
المائدۃ5: 6
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا: جب نماز کا ارادہ کرلو تو اس وقت اپنے چہرے کو بھی دھولو، اپنے ہاتھوں کو بھی دھولو اور سرکامسح بھی کرلو اوراپنے پاؤں کوبھی دھولو،تو وضو کے فرض کتنے ہوگئے۔ [چار۔سامعین] اب قرآن میں نہیں لکھا ہوا کہ وضو کے فرض چار ہیں۔
قرآن میں کیا لکھا ہے؟ جب نماز پڑھنے لگو تو چہرے کو دھولو،ہاتھ کو دھولو، سرکا مسح کرو، پاؤں کودھولو۔ اب چار لکھا ہوا تو نہیں ہے فقہاء کے قبروں پر اللہ تعالیٰ کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے وہ آیت کاحوالہ نہیں دیتے، بس اتنا کہتے ہیں کہ وضو کے فرض چارہیں۔ لوگ کہتے ہیں جی کتھے لکھیا وے؟ [جی کہاں لکھا ہوا ہے] قرآن میں لکھا ہے۔ کہتے ہیں قرآن میں چارتو نہیں لکھا ہوا۔او بھائی! جو اندھا قرآن سمجھتا نہیں ہے وہ کیسے سمجھے گا کہ چار ہیں، ان کی آسانی کے لیے فقہاء نے سیدھی بات فرمادی کہ وضو کے فرض کتنے ہیں؟ [چار۔سامعین]
نماز ِجنازہ کی نیت:
مجھ سے ایک ساتھی کہنے لگا، وہ تھا غیر مقلد، کم عقل۔ مجھے کہتا ہے:یہ جو تمہارے ہاں جنازہ ہوتا ہے تو جنازے سے پہلے بھی کبھی کھڑے کھڑے مولانا صاحب کہتے ہیں بھئی نیت کرلو! چار تکبیر نمازِ جنازہ، ثناء واسطے اللہ تعالیٰ کے درود واسطے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے، دعا واسطے اس میت کے، منہ قبلہ کی طرف، پیچھے اس امام کے اللہ اکبر۔ نیت کرو کہتے ہیں۔یہ کہاں لکھا ہے؟
میں نے کہا بخاری شریف میں۔کہتاہے: بخاری میں کہاں لکھا ہے؟ میں نے کہا: پہلی حدیث میں۔کہتا ہے: پہلی حدیث میں کہاں لکھا ہے؟ میں نے کہا:
"إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ"
صحیح البخاری، رقم:1
اعمال کادارومدار نیت پر ہے۔
نیت کہنا اور نیت کرنا:
کہتاہے: ہمیں اس سے اختلاف نہیں ہے، یہ جو تم زبان سے کہتے ہو یہ کہاں لکھا ہے؟ میں نے کہا: ہم کہتے ہی نہیں ہیں۔ کہتا ہے؟کیا کہتے ہو؟ میں نے کہا: امام اعلان کرتا ہے نیت کرو، یا کہتاہے نیت کہو۔ کیا کہتا ہے؟ [کہتا ہے نیت کرو۔ سامعین ]کہنا زبان سے ہو تا ہے اور کرنا دل سے ہو تاہے۔
میں نے کہا:ہم یہ تو نہیں کہتے کہ زبان سے کرو، اگر ہم کہتے زبان سے کرو تو ہم سے پوچھتا۔ نہ ہم نے کہا ہےکرونہ ہم سے پوچھو، انہوں نے کی ہےتو ان سے پو چھنا چاہیے یا ہم سے؟ [ان سے۔سامعین ] اب یہ بات کوئی مشکل تو نہیں ہے نا، لیکن بلاوجہ بات پر بات کوئی نہ کوئی ایسی بات نکالتے ہیں کہ لوگ سمجھیں یہ بہت بڑا محقق ہے۔
مرکز اھل السنۃ والجماعۃ نعمتِ خداوندی ہے:
آپ نے عوام پر اعتراض کیا ہے۔ وہاں نہیں آتے جہاں سے جواب ملتے ہیں، وہاں حملے کریں گے جہاں سے جواب ملتے نہیں اور فتنہ پھیلانا بہت آسان ہو تا ہے۔ میں کبھی یہ بات کہتا ہوں کہ سرگودھا والو تم اس نعمت کی قدر کرو جب نعمت چھن جاتی ہے تو پھر بندے کو سمجھ آتی ہے ہمارے ساتھ ہوا کیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا نظام ہے دنیا میں، دنیا بھر میں کئی سوالات ہوتے ہیں نا اللہ تعالیٰ کاشکر ہے جواب کے لیے لوگ سرگودھا آتے ہیں۔
ابھی 70 لڑکے تین دن سے پورے ملک سے آئے بیٹھے ہیں کہ ہم نے مسائل سیکھنے ہیں، ہم نے دلائل سیکھنے ہیں اور اس پر ہم اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر کریں کم ہے اللہ تعالیٰ آپ کےاس فیض کوعام فرمائے۔ اس میں سب حضرات شامل ہیں کسی ایک فرد کی محنت تو نہیں ہوئی۔
تبلیغی جماعت میں ضرور وقت لگائیں:
خیر میں بتارہاتھا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے پہلے فرمایاوضواور اگر وضو نہ کرسکو پھر تیمم کا طریقہ بتادیا اگر نہ آئے تو اس کے لیے میرا آپ سے مشورہ ہے کم ازکم تین دن تبلیغی جماعت کے ساتھ لگائیں اس کے لگانے سے چلو تیمم کرنا توآجائے گا۔ہمیں تیمم کرنا بھی نہیں آتا، اللہ کی قسم استنجا کرنا نہیں آتا، سونے کی دعائیں نہیں آتیں اور اعتراض ان پر کرتے ہیں۔کہتے ہیں: اسی کوئی کافر آں؟[ہم کوئی کافر ہیں؟] ہندوؤں کے پاس جاؤ۔ کوئی ان سے کہے اچھا فلاں دعا سناؤ۔ کہتے ہیں: دعا کوئی فرض ہے؟ اچھاپھر کریں گے کیا؟ اس لیے میں آپ سے گزارش کرتا ہوں تھوڑا تھوڑا وقت لگاتے رہا کریں اس سے بہت فرق پڑتا ہے۔
مسئلہ نور وبشر:
﴿قَدۡ جَآءَکُمۡ مِّنَ اللہِ نُوۡرٌ وَّ کِتٰبٌ مُّبِیۡنٌ ﴿ۙ۱۵﴾﴾
اس آیت کو اختلافی مسئلے پر آج کے دور میں بڑے شدومد سے پیش کیا جاتا ہے آیت کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: تمہارے پاس نور بھی آیا ہے اور واضح کتاب بھی آئی ہے۔ پھر یہاں بحث چل پڑتی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نور ہیں یا بشر ہیں حالانکہ یہ بحث فضول ہے کہ نور ہیں یابشر۔
ذات نبوت اور وصف نبوت:
آسان بات کیا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ذات ہے اور دوسرا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصف۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو بشر کہتے ہیں اور نبی کے وصف کو نور کہتے ہیں، ذات کے اعتبار سے بشر ہیں اوصاف کے اعتبار سے نور ہیں۔ اس لیے ہم نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو بشر بھی مانتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نور بھی مانتے ہیں۔ اب بتاؤ کوئی الجھن رہ جاتی ہے؟ [نہیں۔ سامعین] بلاوجہ اس مسئلے کو چھیڑ کر امت کو لڑا نا اور پھر کفر کے فتوے جاری کرنے اور امت کو ٹکڑوں میں تقسیم کردینا کس قدر ظلم کی بات ہے۔
وصف نبوت کے نور ہونے کی دلیل:
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بشر ہے اور وصف کے اعتبار سے نور ہیں اور یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ پیغمبر وصف کے اعتبار سے نور کیوں ہیں؟ آگے ہے
﴿یَّہۡدِیۡ بِہِ اللہُ﴾
یہ ایسا نور ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ تمہیں ہدایت دیتا ہے۔ تو نور ہدایت وصف کو کہتے ہیں۔
﴿یَّہۡدِیۡ بِہِ اللہُ﴾
بتا رہا ہے کہ یہ وصف ہے۔
قائد جمعیت کا ”لاجواب “جواب:
اسلام آباد میں قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب دامت برکاتہم نے مجھے بلایا کسی خاص مشاورت کے لیے وہاں ایسے بات چل پڑی تو چلتے چلتے مجھے مولانا نے لطیفے کے طورپر ایک بات سنادی۔
مولانا فرمانے لگے: میں قاسم العلوم ملتان میں مدرس تھا،کتابیں پڑھا تا تھاتومیرے پاس پانچ سات لڑکے آگئے انہوں نے کہا: جی ہم نے ایک مسئلہ پوچھنا ہے۔ میں نے کہا: جی پوچھو۔ تو انہوں نے مسئلہ پوچھا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نور ہیں یا بشر؟ مولانا فرماتے ہیں: میں نے ان سے کہا تمہارا سوال ہی غلط ہے، پہلے سوال ٹھیک کرو پھر جواب دوں گا۔
انہوں نے کہا: جی سوال کیا ہے؟ مولانا نے فرمایا: نور کے مقابلے میں ظلمت آتی ہے تم پوچھوکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نور ہیں یا ظلمت ہیں؟ تو پھر میں جواب دوں گاکہ کیا ہیں۔ نور اور بشر کا توآپس میں ٹکراؤ ہی نہیں۔ ایک بندہ بشربھی ہو سکتا ہے اور صفت کے اعتبار سے نور بھی ہو سکتا ہے۔ ان دونوں میں کیا ٹکراؤ ہے؟ ٹکراؤپیدا کرو گے تو پھر ٹکراؤ بنےگا ورنہ ٹکراؤ بنتا ہی نہیں۔
قوم موسیٰ کی بے وفائی:
﴿قَالُوۡا یٰمُوۡسٰۤی اِنَّا لَنۡ نَّدۡخُلَہَاۤ اَبَدًا مَّا دَامُوۡا فِیۡہَا فَاذۡہَبۡ اَنۡتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا ہٰہُنَا قٰعِدُوۡنَ ﴿۲۴﴾﴾
یہ آیت میں صرف ایک نکتہ یا صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کی شجاعت بتانے کے لیے اس آیت کوپڑھا ہے۔ اس کا لمبا واقعہ ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو جب اللہ تعا لیٰ نے فرعون سے نجات دی،دریا سے کر اس کر گئے تو اللہ رب العزت نے موسیٰ علیہ السلام پر وحی بھیجی اپنی اس قوم کو لے کر چلو۔ کئی اقوال ہیں ایک قول یہ ہے کہ شام کوبیت المقدس میں اس قوم کو لیکرجاؤ، تم جہاد کرو اللہ تعالیٰ تمہیں فتح عطافرمادے گا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارہ قبیلے تھے اپنی قوم کے بارہ قبیلوں کے بارہ سرداروں کو بھیجا کہ جاؤآگے جاکر ان سے مذاکرات کرو ۔ یا ان کے حالات معلوم کرکے آؤ کہ ان کی فوج کدھر کھڑی ہے۔ یہ جب گئے آگے ایک قوم کھڑی تھی قوم عمالقہ انہوں نے انہیں گرفتار کیا، گرفتار کرنے کے بعد انہوں نے کہا کہ ان بارہ کو قتل کردو۔ بادشاہ سمجھ دار تھا اس نے کہا انہیں قتل نہ کرو بلکہ انہیں شان وشوکت اور اپنی طاقت دکھاؤ ان کے قد بھی بڑے تھے، دولت بھی تھی اور مضبوط بھی تھے۔ ان کو اپنی طاقت دکھائی جب وہ واپس آئے تو ڈر گئے۔ پہلےموسیٰ علیہ السلام کو ملے تو موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا یہ بات جا کے عوام کو نہ بتانا عوام میں رعب پڑ جائے گا، تم کہو جی ہم ہو کے آگئے ہیں، بسم اللہ پڑھ کر جہاد کی تیاری کرو۔
ان میں سے دونے بات نہیں بتائی ان میں سے ایک کا نام ”قالب“ اور دوسرے کا نام ”یوشع بن نون علیہ السلام“انہوں نے نہیں بتائی،باقی دس نے جاکر بتادیا اور قوم میں بزدلی پھیل گئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا جہاد کے لیےچلوتو قوم نے کہا:
﴿فَاذۡہَبۡ اَنۡتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا ہٰہُنَا قٰعِدُوۡنَ﴾
اے موسیٰ تم جاؤ اور تمہارا خدا جائے، اسی ایتھے ہی بیٹھےآں [ہم ادھر ہی بیٹھے ہیں] فتح کر کے واپس آؤ تو پھر جائیں گے، اسی نہیں جاندے [ہم نہیں جاتے] وہ یہاں بیٹھ گئے موسیٰ علیہ السلام کو تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی تھی۔
بزدل قوم پر عذاب خداوندی:
اللہ نے پھر عذاب نازل کیا،
﴿قَالَ فَاِنَّہَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَیۡہِمۡ اَرۡبَعِیۡنَ سَنَۃً ۚ یَتِیۡہُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ﴾
اللہ تعا لیٰ نے ان پر یہ سزا مسلط کی کہ یہ جس میدان میں تھے وہ 90 میل لمبا تھا اور 25 یا 40 میل چوڑا تھا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اب یہ اسی میں چالیس سال تک رہیں گے، صبح سے لےکر شام تک چلتے تو پھر جب رات کو سوتے توصبح وہی جگہ ہوتی جہاں سے چلےتھے۔
وجودِ نبوت کی برکات:
چالیس سال تک وہاں ٹھہرے رہے اور اللہ تعالیٰ کا کرم دیکھو چونکہ موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام یہ دونوں ان میں موجود تھے اللہ تعالیٰ نے اس کی نعمت بھی عطا فرمائی کہ ان کے بدن پہ جتنے کپڑے تھے نہ وہ پھٹتے نہ وہ میلے ہوتے، یہ دو نبیوں کی برکت تھی۔
اسی طرح جب یہ چلتے دھوپ ہوتی تو موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی تو ان کی دعا کی برکت سے اوپر بادل چلتا سایہ بھی دے دیا اور جب یہ ایک قسم کا کھانا کھانے سے تنگ آگئے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر من وسلویٰ دو قسم کی نعمتیں عطا فرمادیں۔ بٹیر نما جانور تھا اور سلویٰ میٹھی چیزتھی، یہ اللہ تعالیٰ نے ان کو نعمت عطا فرمادی۔ کھاتے بھی تھے یعنی اس قدر نافرمانی کے باوجود بھی چونکہ اللہ کےدو نبی ان میں موجود تھے تو نبی کی برکات کا ظہور پھر بھی ہوتا تھا۔ نبی کا وجود اتنا مقدس ہوتا ہے کہ پھر بھی ان کو خیروبرکت ملتی ہے۔
اصحاب محمد رضی اللہ عنہم کی وفاداری:
محدثین نے لکھا ہے، اصحابِ سیر نے لکھا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب صحابہ سے مشورہ کیا اب بتاؤ کیا کریں؟یہ میدان بدر ہمارے سامنے آگیا کریں کیا؟ حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے انہوں نے کہا یا رسول اللہ ہم موسیٰ علیہ السلام کی قوم نہیں ہیں جو آپ کو یہ کہہ دیں
﴿فَاذۡہَبۡ اَنۡتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا ہٰہُنَا قٰعِدُوۡنَ﴾
اللہ کی قسم ہم سمندر میں چھلانگیں لگادیں اگر آپ فرمادیں ہم موسیٰ علیہ السلام کی قوم نہیں ہیں جو کہیں آپ جاکر جہاد کریں بلکہ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم خوشی سے کھل اٹھے۔
فرمایا: کون اٹھے گا؟سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اٹھے۔ پھر فرمایا: کون؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اٹھے۔پھر فرمایا: اور کون ہے؟ حضرت سعد رضی اللہ عنہ جب اٹھے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے۔
انصار مدینہ بھی جانثار تھے:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اٹھنے سے خوش کیوں نہیں ہوئے؟ یہ تو مکہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے ہیں۔ یہ تو، ہیں ہی اس کام کے لیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش تھی کہ مدینے کے لوگ کھڑے ہوں اور جب مدینہ کے کھڑے ہوئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوگئے۔
غزوۂِ بدر …تاریخ اسلام کی پہلی جنگ:
کہ اب مکہ اور مدینے کے جانثار میرے ساتھ ہیں پھر 313 کو لے کر گئے ہیں، وہ جو تاریخ اسلام کی پہلی جنگ ہے جس نے پوری دنیا کے نقشے بدل کے رکھ دیے تو مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ نے کہا ہم موسیٰ علیہ السلام کی قوم نہیں ہیں کہ
﴿فَاذۡہَبۡ اَنۡتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا ہٰہُنَا قٰعِدُوۡنَ﴾
کہہ کے آپ کا ساتھ چھوڑ دیں۔
قوم موسیٰ نافرمان تھی کافر نہیں:
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے عجیب بات فرمائی ہے۔ فرمایا: جب یہ کہا: کہ تو جا اور تیرا خدا جائے توبظاہر تو یہ جملہ کفر والا ہے وہ تو کافر ہو گئے تھے تو موسیٰ علیہ السلام دعائیں مانگ رہے ہیں ان کے لیے، سائبان کے لیے بادل آگئے ان پر ان کو اللہ تعالیٰ کھانے کے لیے دے۔ ان کو پانی نہیں ملتاتھا تو موسیٰ علیہ السلام نے پتھر پر عصا مارا اس سے بارہ چشمے نکلے اور بارہ قبیلے اس سے پانی پی رہے ہیں تو یہ کافر تھے ہلاکت کی بددعا کرنی چاہیےتھی اور ان کو پھر بھی نعمتیں مل رہی ہیں۔ حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اسےکفر نہیں کہتے۔ کیوں؟ نافرمانی کی لیکن کفر نہیں ہے ان کا مطلب یہ تھا:
﴿فَاذۡہَبۡ اَنۡتَ وَ رَبُّکَ﴾
اے موسیٰ! تو جا اور تیرا خدا تیری مدد کرے گا تو جہاد کر خدا کی مدد سے، فتح ہو گی تو ہم تیرے ساتھ ہیں۔ حکیم الامت تھا نوی رحمہ اللہ کی تاویل دیکھیں فرمایا کافر پھر بھی نہیں بنتے، جب جائز تاویل موجود ہو کسی کا ایمان بچانے کے لیے تو ایمان بچایا کرو کفر میں مت دھکیلا کرو۔
نسل انسانی کی ابتدا:
﴿وَ اتۡلُ عَلَیۡہِمۡ نَبَاَ ابۡنَیۡ اٰدَمَ بِالۡحَقِّ ۘ اِذۡ قَرَّبَا قُرۡبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنۡ اَحَدِہِمَا وَ لَمۡ یُتَقَبَّلۡ مِنَ الۡاٰخَرِ ؕ قَالَ لَاَقۡتُلَنَّکَ ؕ قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللہُ مِنَ الۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۲۷﴾﴾
حضرت آدم علیہ السلام پہلے مرد ہیں، اماں حوا پہلی عورت ہے۔ اب آگے نسل انسانی نے چلنا تھا جس کی نکاح کے بغیر کوئی صورت نہیں تھی اس کی صورت یہ ہوتی آدم اورحوا ماں باپ تھے ان کے حمل سے ایک بیٹی اور ایک بیٹا پیدا ہوتا، یعنی جوڑے پیدا ہوتے اکیلا بچہ پیدا نہیں ہوتاتھا، جب بھی ہوتا جوڑا ہوتا۔
نکاح کا طریقہ:
ان کا نکاح یوں ہوتا کہ پہلے حمل والا بیٹا اور دوسرے حمل والی بیٹی، پہلی حمل والی بیٹی اور دوسرے حمل والا بیٹا اس طرح نکاح ہوتا تھا۔اور حضرت آدم علیہ السلام کو پہلا بیٹا جو پیداہوا اس کا نام تھا قابیل اور ساتھ اس کے بہن بھی پیدا ہوئی اور دوسرے حمل سے جوپیدا ہوئے اس لڑکے کا نام تھا ہابیل اور ساتھ بہن پیدا ہوئی۔
ہابیل و قابیل کا واقعہ:
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ لکھتے ہیں: قابیل کے ساتھ جو لڑکی پیدا ہوئی وہ بہت خوبصورت تھی اور ہابیل کے ساتھ جو پیدا ہوئی وہ بہت بد صورت تھی۔ اب قابیل کہنے لگا: جو میرے ساتھ پیدا ہوئی ہے میں اس کے ساتھ نکاح کروں گا، حالانکہ اس کے ساتھ اس کا نکاح بنتا نہیں تھا،نکاح تو ہونا تھا دوسرے حمل والی لڑکی کےسا تھ۔ اس نے کہا: میں کروں گا۔
آدم علیہ السلام نے سمجھا یا بیٹا اس کے ساتھ تیرا نکاح جائز نہیں ہے،یہ نہیں ہوسکتا۔ تو اس نے کہا: میں کروں گا۔آدم علیہ السلام کے چونکہ علم میں تھا کہ اس سے نکاح ہو سکتا ہی نہیں ہے اور یہ بھی علم میں تھا کہ اگر یہ قربانی دیں گے تو ہابیل سچا ہےاس کی قربانی قبول ہو جائے گی۔ تو حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا:چلو ایسا کرو تم دونوں قربانی دو، جس کی قربانی اللہ تعالیٰ قبول کرے گا اس کی شا دی اس لڑکی سے کردیں گے۔آپ کے ذہن میں آئےکہ ہوسکتا ہے ہابیل کی قبول ہوجاتی، یہ نہیں ہو سکتا، کیونکہ وہ تھا ہی غلط کام قبول کیسے ہوتی۔
حضرت آدم علیہ السلام کی تدبیر:
حضرت آدم علیہ السلام نے ایسی تدبیر اختیار کی کہ جس سے اپنے بیٹے کو سمجھانا بہت آسان ہوجائے۔ اب دونوں نے قربانی دے دی۔ اس وقت قربانی کےقبول ہونے کی علامت یہ ہوتی تھی، اگرجانور قربانی کرو تو بھی میدان میں رکھ دو اگر آپ کچھ غلہ دینے چاہتے ہیں وہ بھی رکھ دو، قربانی کو کھانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی، جومال صدقہ کریں اس کو رکھ دیں آسمان سے آگ آتی اور آگ اس قربانی اور صدقہ کو کھا جاتی یہ اس بات کی علامت تھی کہ قربانی قبول ہوگئی اوراگر نہ کھاتی تو یہ علامت تھی کہ قربانی قبول نہیں ہوئی۔
اب قابیل اور ہابیل دونوں نے قربانی کی۔ ہابیل نےغالبا جانور ذبح کیا اور قربان کردیا اور قابیل نے گندم وغیرہ اور جو چیزیں تھی وہ رکھیں،قابیل کی قربانی قبول نہیں ہوئی اور ہابیل کی قربانی خدا نے قبول کرلی۔
تاریخ آدمیت کا پہلا قتل:
آدم علیہ السلام نے فر مایا: بیٹا دیکھو سیدھی سی بات ہے تیرا حق نہیں بنتا ان کا بنتا ہے۔قابیل حسد کی آگ میں جلا حالانکہ خوش ہونا چاہیے تھا ہابیل سے کہا میں تجھے قتل کردوں گا۔ ہابیل نے کہا: میں کچھ نہیں کہوں گا،میں قتل ہوناتو برداشت کرلوں گا لیکن اپنے بھائی پر ہاتھ نہیں اٹھا ؤں گا،باقی میرا کیا قصور ہے بھا ئی خدانے میری قربانی قبول کرلی ہے تیری قربانی قبول نہیں کی میرا تو کوئی قصور نہیں ہے۔
بعد از قتل تدفین کا مسئلہ:
قا بیل نےہابیل کو قتل کردیا،جب قتل کرلیا تو پریشان پھرتاتھا میں اس کو کہاں دفن کروں؟قرآن کریم میں ہے:
﴿فَبَعَثَ اللہُ غُرَابًا یَّبۡحَثُ فِی الۡاَرۡضِ لِیُرِیَہٗ کَیۡفَ یُوَارِیۡ سَوۡءَۃَ اَخِیۡہِ﴾
اللہ تعالیٰ نے ایک کوا بھیجا اس نےکوے کو دیکھا کہ ساتھ ایک کوا مرا ہوا تھا وہ اسے دفن کرنا چاہ رہاتھا،وہ اپنی چونچ سے مٹی کوکھودنے لگا، اس نے دیکھا تو پتا چلا مردے کو یہاں دفن کرناہے۔
خیر و شر کی ابتدا اور اجر:
خیر میں صرف اتنا بتارہاتھا اب قیامت تک جتنے قتل کے گناہ ہوں گے یہ سارےقابیل کے سرپرہیں، چونکہ پہلا قتل اس نے کیا تھا سارے قتلوں کاگناہ اس کو ملے گا۔
حدیث مبارک میں ہے:
" مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً ، فَلَهُ أَجْرُهَا، وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ ، مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْءٌ ، وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً ، كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ ، مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْءٌ."
صحیح مسلم، رقم: 1017
جو نیک کام شروع کرلے اس کااجر اسے بھی ملتا ہے اور بعد کے سارے نیک اعمال کا اجر اسے ملتا ہے، اورجو برے کام کو شروع کرے اس کاگناہ اس کو ملتا ہے اور جو لوگ اس برائی پر عمل کریں ان سب کا گناہ اس کے نامہ اعمال میں لکھ دیا جاتا ہے۔
قبر کسے کہتے ہیں؟
رئیس المناظرین، حجۃاللہ فی الارض حضرت مولانا محمدامین اوکاڑوی رحمہ اللہ فرماتےتھے: کوے کو پتا تھا کہ قبر کسے کہتے ہیں؟آج کے دوستوں کو یہ نہیں پتا کہ قبرکسےکہتے ہیں؟ کوے کو پتا تھا کہ یہ قبر ہےجہاں مردہ دفن کرنا ہے، ہمارے دوست کہتے ہیں یہ قبر نہیں ہے، قبر وہ علیین میں ہے جہاں پر روح ہوتی ہے۔
حضرت فرماتے: جب ہم ان کے لیے دعا کرتے ہیں خدا تمہیں قبر ہی نصیب نہ کریں توکہتے ہیں ہمیں بددعائیں دیتا ہے۔ بھائی! جب اس کو قبر مانتے ہی نہیں ہو تو تمہیں نصیب ہونے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ جو مانتا ہے اسے نصیب ہونی چاہیے۔
مسائل زمینی قبر کےاور ………:
پھر عجیب بات یہ ہےکہ مسجد میں مسئلہ بیان کریں گے کہ قبر کو سجدہ کرنا حرام ہے۔اب بتاؤ؟وہ لوگ کبھی علیین میں گئے ہیں سجدہ کرنے کے لیے [نہیں۔ سامعین] کسے سجدہ کرتےہیں؟[اس قبر کو] کس کو کہتا ہے کہ قبر ایک بالشت سے اوپر نہیں ہو نی چاہیے،یہ کون سی قبر ہے؟ اسی مٹی والی۔ قبر کاطواف نہیں کرناچاہیے۔ وہ کون سی قبر ہے؟ قبر کو پکا نہیں بنانا چاہیے۔ وہ کون سی قبر ہے؟ یہی قبر ہے۔ سارے جب مسئلے بتائیں گے اسی قبرکے اور جب قبر کا مسئلہ آئے گا کہ قبر میں مردہ کہاں پر ہے؟ پھر کہتے ہیں: ایک قبر نہیں ہے،قبر اوتے وے یا تھلے وے [قبراوپر بھی ہے نیچے بھی ہے] علیین میں یا سجین میں ہے۔ کوے کو بات سمجھ آگئی تھی، ہمیں سمجھ نہیں آرہی۔
وسیلہ دے کر دعا کرنا:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَ ابۡتَغُوۡۤا اِلَیۡہِ الۡوَسِیۡلَۃَ وَ جَاہِدُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِہٖ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿۳۵﴾﴾
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ لکھتے ہیں:وسیلہ کا ایک معنی یہ ہے کہ ایک مقام ہے میدان حشر میں جو اللہ تعا لیٰ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بنایا ہے اور یہ دعا مانگنی چاہیے اللہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام وسیلہ عطافرمائے یہ بھی ٹھیک ہے۔ اور فرمایا: وسیلہ کا ایک معنی یہ ہے کہ جس طرح نیک اعمال کے ذریعے خدا کا قرب ملتا ہے،اور نیک اعمال کاوسیلہ دے کر خدا سے مانگنا جائز ہے،اسی طرح انبیاء اورصلحاء کی قربت اور مجلس سے بھی خدا کا قرب ملتا ہے لہٰذاان کا وسیلہ بھی جائز ہے۔
حضرت عمر نے حضرت عباس کا وسیلہ دیا:
پھر حضرت نے وہاں پر دو حدیثیں نقل کی ہیں۔ایک حدیث حضرت عمر رضی اللہ عنہ والی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا وسیلہ دے کر خدا سے دعا مانگی اللہ تعا لیٰ نے ان کو بارش عطا فرما دی۔
نبی کریم کا وسیلہ دے کر دعا:
ایک صحابی آئے اوران کی بینائی کا مسئلہ تھا تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ دعامانگا کرو یہ دعا اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود سکھائی ہے:
"اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّكَ مُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ ."
سنن الترمذی، رقم:3578
اے اللہ! میں تجھے تیرے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ دے کر دعا مانگتا ہوں،صحابی نے دعا مانگی توخدا نے اس کی دعا قبول فرمالی۔ تو دیکھو قرآن کریم میں ہے اللہ تعالیٰ نے حکم کس کا دیا۔
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا﴾
اے ایمان والو! خدا سے ڈرا بھی کرو اوراللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا وسیلہ تلاش بھی کیا کرو۔ تو جس طرح وسیلہ مقام کا نام ہے اسی طرح وسیلہ سے دعاکرنا ہمارا اہل السنت والجماعت کامسلک ہے۔
دین کا کام کرنے والوں کے لیے قرآنی ہدایات:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَنۡ یَّرۡتَدَّ مِنۡکُمۡ عَنۡ دِیۡنِہٖ فَسَوۡفَ یَاۡتِی اللہُ بِقَوۡمٍ یُّحِبُّہُمۡ وَ یُحِبُّوۡنَہٗۤ ۙ اَذِلَّۃٍ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ ۫ یُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ وَ لَا یَخَافُوۡنَ لَوۡمَۃَ لَآئِمٍ ؕ ذٰلِکَ فَضۡلُ اللہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۵۴﴾﴾
میں نے صرف چھوٹی سی بات سمجھانی ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اگر کچھ لوگ مرتد ہو جائیں تو آپ فکر نہ کریں اللہ ان کی جگہ پر ایسی قوم پیدا کرے گا جو دین کا کام کریں گے۔خدا کو تمہاری ضرورت نہیں تمہیں خدا کے دین کی ضرورت ہے۔ اگر ہم دین کا کام کرتے ہیں تو اللہ کا ہم پر احسان ہے ہمارا خدا پر کوئی احسان نہیں۔
مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اللہ نے اس آیت میں جو دین کا کام کرے اس کی صفات بیان کی ہیں۔
1:
﴿بِقَوۡمٍ یُّحِبُّہُمۡ وَ یُحِبُّوۡنَہٗ﴾
اللہ ان سے پیار کرتا ہے وہ اللہ سے پیار کرتے ہیں۔
2:
﴿اَذِلَّۃٍ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ﴾
مومنین کے ساتھ بہت پیار کرتے ہیں اور کافروں پر سخت ہوتے ہیں۔
3:
﴿یُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ﴾
اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہیں۔
4:
﴿وَ لَا یَخَافُوۡنَ لَوۡمَۃَ لَآئِمٍ﴾
یہ ملامت کی پرواہ نہیں کرتے۔
غیروں کی رکاوٹ اور اپنوں کے طعنے:
مفتی صاحب فرماتے ہیں: یہ بات کیوں کی ہے؟ جب بھی کوئی بندہ دینی تحریک لےکر اٹھتا ہے اس کے سامنے دو رکاوٹیں ہوتی ہے۔
(1)ایک رکاوٹ غیروں کی طرف سے ہوتی ہے۔
(2) دوسری رکاوٹ اپنوں کی طرف سے ہوتی ہے۔
مفتی شفیع رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ غیروں کی رکاوٹ کا مقابلہ توبندہ کرسکتا ہے،اپنوں کے طعنوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اللہ فرماتا ہے: جس سے خدا کام لیتا ہے اللہ اس کو توفیق عطا فرماتے ہیں کہ وہ اپنوں کےطعنوں کا مقابلہ بھی کرتاہے اور دین کے کام کو جاری رکھتا ہے۔ یہ اپنوں کا مقابلہ یعنی طعنے سہنا اور جواب نہ دینا۔ آپ نے کئی بار یہ شعر سنا ہے اور اس پر عمل کی بھی کوشش کریں۔
شہداء نے پکارا ہے تم کو

فردوس کے بالاخانوں سے

ہم راہ وفا میں کٹ آئے
 
تمہیں پیار ابھی

تک جانوں سے

اس جذبۂ گل بوسی میں کچھ

کانٹے بھی چبھ جاتے ہیں

اپنوں کے نشتر سہہ لینا ٹکرانا

فقط بیگانوں سے

اپنوں سے نہ ٹکراؤ غیروں سے ٹکرا ؤ،اللہ دین کے کام کو بہت آسان فرما دیں گے۔
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا واقعہ:
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بیٹھے ہیں،ایک صحابی اور بیٹھے ہوئے تھے، کسی مسئلہ پر یوں تکرار ہوا، صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بیٹھ کے سنتے رہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کے مسکراتے رہے ۔ تھوڑی دیر بعد صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پہ ناگواری کے آثار ظاہر ہو گئے۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یارسول اللہ! وہ بول رہا تھا اور میں چپ تھا تو آپ مسکرا رہے تھے۔ میں نے جواب دیا تو آپ کے چہرے پہ ناگواری کے آثار ظا ہر ہو گئے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے: جب تو خاموش تھا تو تیری طرف سے جواب دینے کے لیے اللہ نے فرشتہ مقرر کر رکھا تھا، اب جب آپ خود جواب دینے لگے تو وہ فرشتہ واپس چلا گیا۔ مجھےتو ناگواری اس بات کی ہے جو کام فرشتہ کررہا تھا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے کرنا شروع کر دیا ہے۔
مسند احمد: ج9 ص264 رقم الحدیث 9590
اہل حق کے خلاف منفی پروپیگنڈا:
اس لیےاپنوں کی باتیں برداشت کریں ہر بات کا جواب نہ دیا کریں، لوگ جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں جواب نہ دیا کریں۔ ابھی پچھلے دنوں میں اسلام آباد گیا تو وہاں ایک دوست ہیں بہت اچھے،ان کے بیٹے مجھے کہنے لگے: مولانا صاحب ایک بار آپ ہمارے گھر آئے ہیں اور آپ نے درس قرآن دیا ہے۔
20 یا 25 بندے ہوں گے، کچھ مستورات ہوں گی، ان کا تو مجھے پتا نہیں۔ کہتا ہے: آپ درس دے کر گئے ہی تھے کہ اس کے بعد بہت سارے لوگ آ گئے۔ کہنے لگے:اس آدمی سے بچو، اس آدمی سے بچو۔کہتا ہے: میں نے بہت کوشش کی صفائی دینے کی لیکن میں بہت پریشان ہوا۔ میں نے کہا: آپ صفائی دیتے کیوں ہیں؟ مجھے کہتا ہے: پھر کیا کہیں؟ میں نے کہا: ان سے پوچھو کہ یہ مسئلہ ٹھیک بتاتا ہے یا غلط؟ اپنے ہیں نا، وہ کہیں گے: مسئلہ ٹھیک بتاتا ہے۔اس سےکہو ہم صرف اس سے مسئلہ پوچھتے ہیں اور اس کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کرتے۔ بس اب اس کا جواب دینے کی تمہیں کیا ضرورت؟جواب مت دو۔ اللہ اپنی طرف سے جواب کے لیے ملائکہ مقرر کردے گا۔ اللہ آپ سے بھی کام لیں اللہ مجھ سے بھی کام لیں۔
قسم کی اقسام اور احکام:
﴿لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللہُ بِاللَّغۡوِ فِیۡۤ اَیۡمَانِکُمۡ وَ لٰکِنۡ یُّؤَاخِذُکُمۡ بِمَا عَقَّدۡتُّمُ الۡاَیۡمَانَ ۚ فَکَفَّارَتُہٗۤ اِطۡعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰکِیۡنَ مِنۡ اَوۡسَطِ مَا تُطۡعِمُوۡنَ اَہۡلِیۡکُمۡ اَوۡ کِسۡوَتُہُمۡ اَوۡ تَحۡرِیۡرُ رَقَبَۃٍ ؕ فَمَنۡ لَّمۡ یَجِدۡ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ ؕ ذٰلِکَ کَفَّارَۃُ اَیۡمَانِکُمۡ اِذَا حَلَفۡتُمۡ ؕ وَ احۡفَظُوۡۤا اَیۡمَانَکُمۡ ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللہُ لَکُمۡ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ ﴿۸۹﴾﴾
اس آیت میں اللہ نے قسم کا مسئلہ بیان فرمایا ہے۔ قسم کی تین قسمیں ہیں:
(1): یمین غموس
(2): یمین لغو
(3): یمین منعقدہ
یمین غموس:
یمین غموس کسے کہتے ہیں؟ایک کام آدمی نے نہ کیا ہو اور جھوٹ بول کر قسم اٹھائے کہ میں نے فلاں کام کیا ہے یا ایک آدمی نے کام کیا ہو اور جھوٹ بولے میں نے نہیں کیا، یعنی گزشتہ کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے پہ جھوٹی قسم اٹھا ئے اسے کہتے ہیں یمین غموس۔ غموس کا معنی ہوتا ہے ڈوب جانا یا ڈبودینا، یہ گویا گناہ میں ڈوب گیا ہے کہ اس نےجھوٹی قسم کیوں اٹھائی ہے؟
یمین لغو:
یمین لغو: اس کا معنی ہوتا ہے آدمی سمجھے میں نے کام کیا ہے لیکن درحقیقت نہ کیا ہو یا آدمی سمجھے کام نہیں کیا مگر درحقیقت کیا ہو اس پر قسم اٹھانے کو یمین لغو کہتے ہیں۔
یمین منعقدہ:
یمین منعقدہ وہ قسم ہے کہ آئندہ کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے پر قسم اٹھائے اسے یمین منعقدہ کہتے ہیں۔
یمین غموس کا حکم:
اور تینوں کا حکم کیا ہے؟اگر کسی گزشتہ کام کے کرنے یا نہ کرنے پہ جان بوجھ کے جھوٹی قسم اٹھائی اسے یمین غموس کہتے ہیں، اس میں گناہ تو ہوگا مگر اس میں کفارہ نہیں ہے صرف گناہ ہوگا۔
یمین لغو کا حکم:
یمین لغو:بالفرض میں ایک بات کہتا ہوں مثال کے طور پر کسی جگہ جانا تھا مگر نہیں جاسکا اور سمجھا کہ میں گیا ہوں تو کہتا ہے اللہ کی قسم میں تو گیا تھا وہ غلطی سے کہہ دیا اگر گزشتہ کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے پر بھول کر قسم اٹھائی اسے یمین لغو کہتے ہیں اس پہ کفارہ بھی نہیں اور اس پہ گناہ بھی نہیں۔
یمین منعقدہ کا حکم:
ایک ہوتا ہے؟ آئندہ کسی کام کےکرنے یا نہ کرنے پر قسم اٹھا ئے اگر اس قسم کو پورا نہیں کیا اس پر کفارہ ہوتا ہے۔ کفارہ کیا ہے؟ آدمی یا تو غلام آزاد کردے، یا دس مسکینوں کو کھانا کھلا دے، یادس کو کپڑے پہنادے یا پھر یہ کہ تین روزے رکھے اگر روزے تین رکھے تو مسلسل رکھنے پڑیں گے یہ نہیں کہ ایک آج ایک پرسوں ایک پھراگلے دن، بلکہ مسلسل تین روزے رکھیں یہ قسم کا کفارہ ہے۔ آدمی کو کوشش کرنی چاہیے کہ قسم نہ اٹھائے اگر قسم اٹھا بھی لے تو اس قسم کو ہرحال میں پورا کرنا چاہیے۔
بلاوجہ مسائل پوچھنے کی ممانعت:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَسۡـَٔلُوۡا عَنۡ اَشۡیَآءَ اِنۡ تُبۡدَ لَکُمۡ تَسُؤۡکُمۡ ۚ وَ اِنۡ تَسۡـَٔلُوۡا عَنۡہَا حِیۡنَ یُنَزَّلُ الۡقُرۡاٰنُ تُبۡدَ لَکُمۡ ؕ عَفَا اللہُ عَنۡہَا ؕ وَ اللہُ غَفُوۡرٌ حَلِیۡمٌ ﴿۱۰۱﴾﴾
اس آیت میں اللہ نے بات سمجھائی ہے کہ بلاوجہ فضول مسئلے نہ پوچھا کرو، یہ بڑا اہم مسئلہ ہے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر حج کی آیات نازل ہوئیں، تو ایک صحابی نے پوچھا: یارسول اللہ؟ زندگی میں ایک بار حج ہے یا ہر سال فرض ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے۔اس نے پھر پوچھا؟ زندگی میں ایک بار حج ہے یا ہر سال۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے: اگر میں کہہ دیتا ہرسال، تو ہرسال فرض ہوجاتا توبتاؤ تم میں سے کون کرتا؟ اس پر قرآن کریم کی یہ آیت اتری: ﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَسۡـَٔلُوۡا عَنۡ اَشۡیَآءَ اِنۡ تُبۡدَ لَکُمۡ تَسُؤۡکُمۡ﴾
اے ایمان والو! ایسے مسئلے نہ پوچھو اگر بتادئیے جائیں تو بعد میں تمہیں ناگوار گزریں۔
خلاصہ یہ ہے کہ بلا ضرورت اور بلاوجہ مسئلے نہ پوچھا کریں۔
لچر اور فضول میسجز:
عجیب بیماری چل پڑی ہے کہ میسج پہ لوگ مسئلےپوچھتے ہیں ایک،دوسرا، تیسرا، چلتےجاتے ہیں جس کا وجودہی نہیں ہوتا اور مسئلے پوچھتے رہیں گے۔ کبھی تاریخی مسئلے، اچھا یہ بتائیں کہ نوح علیہ السلام نے جو جانور اپنی کشتی میں بٹھائے تھے سب سے پہلا جانور کون سا تھا؟سب سے آخری جانور کون سا تھا؟ میں وہ کہہ رہا ہوں جو مجھ سے پوچھے جاتے ہیں اب بتاؤ اس کا کیا جواب دوں؟
اچھا یہ بتا ئیں صبح کو پھانسی ہوتی ہے۔ یہ صبح صبح کیوں ہوتی ہے، شام کو کیوں نہیں ہوتی؟ میں نے کہا: یہ جیل والوں سے پوچھو، ہم کوئی پھانسی دیتے ہیں؟ میسج اور فون پر میں ایسے کسی بھی مسئلے کا جواب نہیں دیتا۔
مسئلہ پوچھتے ہیں امی عائشہ کا جنازہ کس نے پڑھایا تھا؟ میں نے کہا: مجھے نہیں پتا۔ کیسی بات کرتے ہیں؟ میں نے کہا: اور کیا کہوں کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں؟
مسائل پوچھیں، پہیلیاں نہیں:
میں نے کہا: مسئلے پوچھو،حلال کیا ہے؟ حرام کیا ہے؟ جائز کیا ہے؟ ناجائز کیا ہے؟ لوگ مسائل نہیں پوچھتے پہیلیاں پوچھتے ہیں۔ اچھا کسی نہر سے عورت کی لاش مل گئی کیسے پتا چلے گا کہ مسلمان ہے؟ تعجب ہے کہ تمہیں عورت ہی کے مسئلے سوجھے۔ نہیں میں ہنسانے کے لیے نہیں کہہ رہاہوں بڑ ے افسوس کے ساتھ کہتا ہوں کہ یہ مسئلہ پوچھنے والا ہے جو پوچھ رہے ہیں۔ میسج چلتے چلے آرہے ہیں ۔ وہ مسئلہ پوچھیں جو ضرورت کے مطابق ہو میں نے اپنا معمول بنا رکھا ہے بلاضرورت اگر کوئی مسئلہ پوچھے تو میں جواب دیتا ہی نہیں وہ مسئلہ پوچھیں جو آپ کی زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ ان باتوں کو چھوڑدے جو اسے فائدہ نہیں دیتیں۔
منکرین فقہ کی خیانت:
﴿وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ تَعَالَوۡا اِلٰی مَاۤ اَنۡزَلَ اللہُ وَ اِلَی الرَّسُوۡلِ قَالُوۡا حَسۡبُنَا مَا وَجَدۡنَا عَلَیۡہِ اٰبَآءَنَا ؕ اَوَ لَوۡ کَانَ اٰبَآؤُہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ شَیۡئًا وَّ لَا یَہۡتَدُوۡنَ ﴿۱۰۴﴾﴾
آیت کا خلاصہ کیا ہے؟ جب مشرکین مکہ اور گزشتہ کفار کو انبیاء علیہم السلام فرماتے کہ ہماری بات مانو، اللہ کی بات مانو۔ وہ کہتے تھے:ہم تو باپ دادا کی بات مانیں گے،تمہاری خاطر باپ دادا کو چھوڑدیں؟ خاندان کو چھوڑدیں؟ تمہاری خاطر ان سب کو چھوڑدیں؟ یہ آیت اتری مشرکین اور نبی کے مابین، لیکن آج یہ آیت پیش کی جاتی ہے آپ کے خلاف اس لیے اس کا جواب اچھی طرح سمجھ لیں۔
آج کے دور میں آیت پیش کی جاتی ہے آپ کے اور میرے خلاف۔ کیا کہتے ہیں؟یہ فقہ کو مانتے ہیں یہ بزرگوں کومانتے ہیں بزرگوں نے کہا بزرگوں سے سنا بزرگوں کو مانتے ہیں۔ کہتے ہیں: کہ یہ مشرکین کا کام ہے جب مشرکین سےکہا جاتا: ﴿ تَعَالَوۡا اِلٰی مَاۤ اَنۡزَلَ اللہُ وَ اِلَی الرَّسُوۡلِ﴾ مشرک کہتے: ﴿حَسۡبُنَا مَا وَجَدۡنَا عَلَیۡہِ اٰبَآءَنَا﴾ ہمیں اپنا باپ دادا کافی ہے۔ تو گویا تقلید کرنا مشرکین کا کام ہے۔
آیت کا موقع محل اورصحیح مطلب:
ہم نے کہا: آپ نے آیت توپڑھی ہے مگر استعمال غلط جگہ کیا ہے۔ ایک آدمی تھا کسی جماعت میں گیا تو اس بے چارے نے ایک دعا سیکھ لی۔ جب ناک میں پانی ڈالیں تو کون سی دعا پڑھیں؟
"اَللّٰهُمَّ أَرِحْنِيْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ وَلَا تُرِحْنِيْ رَائِحَةَ النَّارِ."
اے اللہ! مجھے جنت کی خوشبو سنگھا دے اور جہنم کی بد بو سے بچالے۔
اب یہ چلا گیا اندر استنجے کے لیےو وہاں ادھرسوچتا رہا کہ میں نے دعا سیکھی تھی وہ کون سی ہے ؟سوچتا رہا سوچتا رہا۔پھر اس نے یہ دعا تھوڑی اونچی آواز سے پڑھی:
"اَللّٰهُمَّ أَرِحْنِيْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ وَلَا تُرِحْنِيْ رَائِحَةَ النَّارِ."
اب دیکھو! دعا پڑھنی کہاں تھی اور پڑھ کہاں رہا ہے۔ اسی طرح آیت کہاں کی تھی اورفٹ ہم پر کی ہوئی ہے کہ تم امام ابو حنیفہ کو مانتے ہو، امام شافعی کو مانتے ہو۔ تو آیت مشرکین کے خلاف ہے اور پیش کس کے خلاف کررہےہیں؟ مؤمنین کے! آپ کو میری بات پہ تعجب تو ہوتا ہوگا لیکن اس سے زیادہ میں آپ کو سمجھانے کے لیے کیا مثال دوں۔
اگر آپ کو اشکال ہو تو میں اس اشکال کو صاف کرکے قرآن کریم کی آیت پڑھ دیتا ہوں تاکہ الجھن نہ ہو کہ مثال کیسی تھی؟ قرآن کریم نے مچھر مکھی کی مثال دی ہے۔ مشرکین کہتے: اللہ کا کلام اور مکھی اور مچھر کی مثالیں! اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿اِنَّ اللہَ لَا یَسۡتَحۡیٖۤ اَنۡ یَّضۡرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوۡضَۃً فَمَا فَوۡقَہَا﴾
البقرۃ 2: 26
گویا اللہ تعالیٰ مکھی اور مچھروں کی مثالیں دے کر فرماتے ہیں کہ تمہارے کفر کی حیثیت ہی مکھی اورمچھر کی طرح ہے ہم اور کون سی مثالیں دیں؟ تمہیں ایسے لوگوں کی مثالیں نہ دیں تو اورکون سی مثالیں دیں؟ کیا مثال میں اما م کعبہ پیش کریں؟ جواب سن لو اورجواب اسی آیت میں ہے۔
ادھوری بات ادھورا نتیجہ:
آپ کو یاد ہوگا میں نے کئی بار ایک بات کی ہے کہ آدھا قرآن پڑھو نتیجہ اور ہے، پورا قرآن پڑھو نتیجہ اور ہے ۔ایک حدیث پڑھو نتیجہ اور ہے، دو حدیثیں پڑھو نتیجہ اورہے۔ آگے پڑھو جواب موجود ہے۔ اللہ فرماتے ہیں:
﴿اَوَ لَوۡ کَانَ اٰبَآؤُہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ شَیۡئًا وَّ لَا یَہۡتَدُوۡنَ ﴿۱۰۴﴾﴾
اگر باپ علم اورعمل والا نہ ہو تو پھر بھی باپ دادا کی بات مانو گے؟پتا یہ چلا اگر باپ بےعلم اور بے عمل ہو اس باپ کی بات کو دین کے معاملے میں نہیں مانا جائےگا، لیکن باب علم اور عمل والا ہو تو اس کی بات کو مانا جائےگا۔
امام ابو حنیفہ کی عبادت گزاری:
ہمارے امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا علم دیکھو تو دنیا میں اس کی مثال نہیں اور اگر عمل دیکھو تو چالیس سال عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھی ہے نہ علم میں مثال ہے نہ عمل میں مثال ہے۔
امام ابوحنیفہ کا تقویٰ:
امام صاحب عمل میں اتنے بڑے آدمی تھے، دیوار کے باہر دوپہر کو دھوپ میں کھڑے ہیں۔ اس و قت کسی نے پوچھا: امام صاحب کھڑے ہیں کوئی کام ہے؟ فرمایا: جی ہاں۔ تو آپ دیوار کے سائے میں کھڑے ہوجا ئیں۔ فرمایا: سائے میں کھڑا نہیں ہوسکتا۔ اب امام صاحب کا تقوی دیکھنا!
پوچھا کیوں؟فرمایا: اس لیےکہ میں نے اس بندے سے پیسے لینے ہیں اور جس بندے سے پیسے لینے ہوں اس سے نفع لینا سود بنتا ہے میں دھوپ میں کھڑا ہو جاؤں گا اس کی دیوار کے سائے میں کھڑا نہیں ہوں گا کہ سود میں شامل نہ ہو جائے۔ لاؤ دنیا میں ایسے عمل والی مثال!
امام ابو حنیفہ کی احتیاط:
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو پتا چلا کہ کوفہ میں کوئی بکری چوری ہوگئی ہے امام صاحب نے قصائی سے پوچھا فر مایا: یہ بتاؤ ایک بکری عام طور پر کتنے سال زندہ رہتی ہے؟ اس نے کہا: سات سال۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے سات سال تک بکری کا گوشت کھا نا چھوڑدیا کہ کہیں یہ چوری والی بکری کا گوشت نہ ہو۔ ایسا عمل والا دنیا سے تلاش کرکے لاؤ۔ ہمارے امام تو علم والے بھی ہیں عمل والے بھی ہیں۔ قرآن کریم ان کی بات ماننے سے منع نہیں کرتا، بلکہ بے علم اور بے عملوں کی بات سے منع کرتا ہے۔ اللہ ہمیں علم والے اور عمل والےآباء واجداد عطا فرمائے۔ (آمین)
قیامت کا ہولناک منظر:
﴿یَوۡمَ یَجۡمَعُ اللہُ الرُّسُلَ فَیَقُوۡلُ مَا ذَاۤ اُجِبۡتُمۡ ؕ قَالُوۡا لَا عِلۡمَ لَنَا ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ عَلَّامُ الۡغُیُوۡبِ ﴿۱۰۹﴾﴾
قیامت کا منظر اتنا ہولناک ہوگا، اللہ تعالیٰ انبیاءعلیہم الصلاۃ والسلام سے بھی پوچھیں گے تمہاری امت نے کیا جواب دیا؟ تو نبی بھی جواب نہیں دے گے، فرمائیں گے
﴿لَا عِلۡمَ لَنَا﴾
تفصیلات کا تو ہمیں بھی نہیں پتا،جتنا آپ کو پتا ہے آپ ہی بہتر جانتے ہیں اس سے زیادہ ہمیں بھی پتا نہیں۔ نبی بھی اس ہولناکی کی وجہ سے پریشان ہوں گے اس کے اور بھی بہت سارے معانی ہیں۔ میں آخری بات کہتا ہوں۔سورۃ المائدۃ میں ہے:
﴿اِنۡ تُعَذِّبۡہُمۡ فَاِنَّہُمۡ عِبَادُکَ ۚ وَ اِنۡ تَغۡفِرۡ لَہُمۡ فَاِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۱۱۸﴾﴾
یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے دن فرمائیں گے۔ عیسی علیہ السلام سے اللہ قیا مت کے دن پوچھیں گے اے عیسیٰ! تیری قوم نے مجھےچھوڑ کے تجھے خدا بنایا اورمریم کو خدا بنایا،
﴿ءَاَنۡتَ قُلۡتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوۡنِیۡ وَ اُمِّیَ اِلٰہَیۡنِ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ﴾
یہ تو نے کہا تھا؟حضرت عیسیٰ علیہ السلام جواب دیں گےیا اللہ! جب تک میں تھا میں نے تو کبھی نہیں کہا، بلکہ ان کی نگرانی بھی کی ہے۔
المائدۃ5: 116
وفات عیسیٰ اور مرزائی دجل:
﴿فَلَمَّا تَوَفَّیۡتَنِیۡ کُنۡتَ اَنۡتَ الرَّقِیۡبَ عَلَیۡہِمۡ ؕ وَ اَنۡتَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ شَہِیۡدٌ ﴿۱۱۷﴾﴾
اللہ جب آپ نے مجھے موت دےدی۔ یہ کب سوال ہوگا؟[آخرت میں۔سامعین ]مرزائی کہتا ہے: دیکھو حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں مجھے وفات دی، حالانکہ یہ سوال قیا مت کے دن ہوگااور قیامت سے پہلے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو وفات آجائے گی۔اس طرح باطل لوگ دھوکہ دیتے ہیں۔اللہ ہمیں ان سے محفوظ فرمائے۔[آمین۔سامعین]
حضرت عیسیٰ فرمائیں گےاللہ آپ نے تو مجھے وفات دے دی میں تو آگیا تھا اب پیچھے کا معاملہ تو آپ کے علم میں ہے۔اس کے بعدحضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک جملہ فرمائیں گے:
﴿اِنۡ تُعَذِّبۡہُمۡ فَاِنَّہُمۡ عِبَادُکَ﴾
اے اللہ! تو عذاب دینا چاہے تو تیرے بندے ہیں،
﴿وَ اِنۡ تَغۡفِرۡ لَہُمۡ فَاِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ﴾
اللہ اگر تو ان کو معاف کرنا چاہے تو،تو غالب بھی ہے حکمت والا بھی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ سے دعا مانگی وہ اور تھی، کیا فرمایا:
﴿فَمَنۡ تَبِعَنِیۡ فَاِنَّہٗ مِنِّیۡ ۚ وَ مَنۡ عَصَانِیۡ فَاِنَّکَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۳۶﴾﴾
ابراہیم14: 36
اللہ جو میری بات مانے وہ تو میرا ہے اور جو میری نافرمانی بھی کرے تو اے اللہ تو غفور بھی ہے تو رحیم بھی ہے۔
اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام کیا فرمارہے ہیں؟ اللہ اگر تو عذاب دے دے تو تیرے بندے ہیں اور اگر بخش دے تو پھر
﴿فَاِنَّکَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴾
تو عزیز بھی ہے، حکیم بھی ہے۔
دونوں نبیوں کے جملوں میں بنیادی فرق:
دو نوں نبیوں نے یہ فرق کیوں کیا؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا جملہ دنیا کا ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جملہ آخرت کا ہے۔ آخرت میں تو کافر کے لیے معافی کا قانون ہی نہیں ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کیا عرض کر رہے ہیں۔ اےاللہ! اگر میری بات مانیں تو میرے ہیں،پھر تو آپ ان کو معاف کرینگے،اور اگر نافرمانی بھی کریں تو،تو غفور بھی ہے تو رحیم بھی ہے۔ کیامطلب؟
مقام عدل اور رحمت:
یعنی اگر میری نافرمانی بھی کریں پھر بھی اپنی رحمت کے صدقے ان کو توبہ کی توفیق دے اور تو معاف کرسکتا ہے۔ کیونکہ یہ دنیا ہے۔ اور قیامت کے دن نہ تو بہ ہے اور نہ اس کے بعد کافر کےلیے رحمت ہےاس لیےحضرت عیسیٰ علیہ السلام کہتے ہیں اللہ اگر عذاب دے تو تیرے بندے ہیں۔ یہ مقام عدل ہے۔ اگر تو انہیں معاف کرنا چاہے یہ قانون تو نہیں ہے تو حکیم بھی ہے تو غالب بھی ہے۔
جنگ بدر کے قیدیوں کے بارے میں ……:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جملہ اپنے صحابہ کے بارے میں اس وقت فرمایا جب جنگ بدر ہوئی اور ستر قیدی مسلمانوں کی قید میں آئے تو مشورہ چلا کیا کریں۔ حضرت صدیق اکبرسے پوچھا،پھرحضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا آپ بتاؤ کیا کریں؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ عقیل حوالے کرو علی کے اور میرے رشتے دار میرے حوالے کرو،ہرکوئی اپنے اپنےرشتے دار کی گردن اڑادے۔
حضور! یہ کفر کے سرغنہ ہیں آج ہمارے قابو میں آگئے ہیں، نہیں چھوڑنا، ان کی گردنیں اڑادیں۔ اچھا صدیق آپ بتاؤآپ کیا کہتے ہو؟حضرت صدیق اکبر نے فرمایا:جیسے بھی ہیں حضور ہیں تو آپ کے ہی نا۔حضور میرا مشورہ یہ ہے کہ ان سے فدیہ لیکر آزاد کردو ان کو قتل نہ کریں ہوسکتا ہے کل کو مسلمان بنیں اور ہمارے معاون بنیں اور دین کا فائدہ ہو جائے۔اب حضرت عمر رضی اللہ عنہ دینی حمیت پر بات کرتے ہیں، صدیق بھی دین کے فائدے کی بات کرتے ہیں۔
مزاج صدیقی و فاروقی:
اس موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں صحابہ کے مزاج کا جوتوازن بیان کیا ہےوہ بڑا عجیب ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے: میرے صدیق کی مثال ایسے ہے جیسے ابراہیم اور عیسیٰ )علیہما السلام( ہیں اور میرے عمر کی مثال ایسے ہےجیسے موسیٰ اور نوح )علیہما السلام( ہیں۔اگر ان کا مزاج دیکھنا چاہو تو گزشتہ انبیاء کو دیکھو ۔نوح علیہ السلام نے عرض کیا تھا:
﴿رَّبِّ لَا تَذَرۡ عَلَی الۡاَرۡضِ مِنَ الۡکٰفِرِیۡنَ دَیَّارًا ﴿۲۶﴾ اِنَّکَ اِنۡ تَذَرۡہُمۡ یُضِلُّوۡا عِبَادَکَ وَ لَا یَلِدُوۡۤا اِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًا ﴿۲۷﴾﴾
نوح71: 26، 27
اللہ ان کو برباد کردے اگر یہ رہ گئے تو ان کی نسلیں پھر کافر پیدا ہوں گی ختم کردے ان کو، اور موسیٰ علیہ السلام نے دعا مانگی:
﴿رَبَّنَا اطۡمِسۡ عَلٰۤی اَمۡوَالِہِمۡ وَ اشۡدُدۡ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ﴾
یونس10: 88
اے اللہ ان کے مالوں کو بھی ختم فرمادے ان کے دلوں پر بھی مہر لگادے، اللہ یہ کفر پہ مریں ان کو عذاب دے دے۔ حضرت موسیٰ اور حضرت نوح علیہما السلام کیسے جلال میں تھے۔
اور حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں:
﴿فَمَنۡ تَبِعَنِیۡ فَاِنَّہٗ مِنِّیۡ ۚ وَ مَنۡ عَصَانِیۡ فَاِنَّکَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۳۶﴾﴾
ابراہیم14: 36
حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرما رہے ہیں:
﴿اِنۡ تُعَذِّبۡہُمۡ فَاِنَّہُمۡ عِبَادُکَ ۚ وَ اِنۡ تَغۡفِرۡ لَہُمۡ فَاِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۱۱۸﴾﴾
میرے صدیق کو دیکھنا ہو تو ابراہیم اور عیسیٰ کو دیکھ لو، میرے عمر کو دیکھنا ہو تو حضرت موسیٰ اور نوح کو دیکھو۔ علیہم السلام۔ یہ گزشتہ انبیاء علیہم السلام کی مثالیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں تھیں۔
جنت کے مستحق تو نہیں لیکن ……:
اور روایت میں ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ رات کواٹھے اور اس آیت کو پڑھتے رہے ۔ عشاء سےلے کر فجر تک اسی ایک آیت کو پڑھتے رہے:
﴿اِنۡ تُعَذِّبۡہُمۡ فَاِنَّہُمۡ عِبَادُکَ ۚ وَ اِنۡ تَغۡفِرۡ لَہُمۡ فَاِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۱۱۸﴾﴾
ہم بھی اللہ سے دعا ئیں مانگیں ہم یہ تو نہیں کہتے اے اللہ! تو عذاب دینا چاہے تو تیرے بندے ہیں۔ عدل کے تو ہم متحمل ہی نہیں ہم اللہ سے یہ ہی دعا مانگیں جو حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ مانگا کرتے تھے۔ اے اللہ! ہم اس لیے جنت تجھ سے نہیں مانگتےکہ ہم جنت کے مستحق ہیں اس لیے جنت مانگتے ہیں کہ ہم جہنم کو برداشت نہیں کرسکتے۔ اللہ مجھے بھی ہدایت عطا فرمائے اللہ آپ کو بھی ہدایت عطافرمائے، اللہ تعالی ہم سب کو دین کی خدمت کے لیے قبول فرمالے،اللہ آپ کو بھی توفیق دے اور مجھے بھی توفیق دے [آمین۔سامعین]
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․
دعا:
اے اللہ! ہم سب کے گناہوں کو معاف فرمادے۔ اے اللہ! خطاؤں سے درگزر فرما۔ اے مولائے کریم! جائز حاجات کو پورا فرما۔ اے اللہ! اس درس قرآن کے تسلسل کو برقرار فرما۔ اے اللہ! جتنے بھی حضرات آئے ہیں ان کا آنا قبول فرما۔ اے اللہ! جتنےبیمارہیں ان سب کو صحت عطافرما۔ اے اللہ! جتنے مقروض ہیں ان کے قرضے ادافرما۔ اے اللہ! جو اس دنیا سے جاچکے ہیں ان کی مغفرت فرما۔ آمین