سورۃ الاعراف

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ الاعراف
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿الٓـمّٓصٓ ۚ﴿۱﴾ کِتٰبٌ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ فَلَا یَکُنۡ فِیۡ صَدۡرِکَ حَرَجٌ مِّنۡہُ لِتُنۡذِرَ بِہٖ وَ ذِکۡرٰی لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۲﴾ اِتَّبِعُوۡا مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکُمۡ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ لَا تَتَّبِعُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اَوۡلِیَآءَ ؕ قَلِیۡلًا مَّا تَذَکَّرُوۡنَ ﴿۳﴾﴾
تمہید:
قیامت کے دن میدان حشر میں تین قسم کےلوگ ہوں گے، انسانیت تین طبقات میں تقسیم ہوگی:
1: اصحاب الجنۃ، 2:اصحاب النار،3: اصحاب الاعراف۔
جنت، جہنم کا نام تو سنا ہے، اعراف کا نام بعض لوگوں نے سنا ہے اور بعض لوگوں نے نہیں سنا، قیامت کے دن تین قسم کے لوگ ہوں گے،بعض وہ کہ جن کے نیک اعمال زیادہ ہیں اور بعض وہ کہ جن کے گناہ اور اعمال بد زیادہ ہیں،اور بعض وہ کہ جن کے نیک اعمال اور برے اعمال مساوی (برابر )ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان حضرات کو جن کے نیک اعمال زیادہ ہوں گے ان کو جنت میں بھجوادیں گے اور وہ لوگ جن کے اعمال بد زیادہ ہوں گے ان کو جہنم میں بھجوادیں گے۔ اور وہ لوگ جن کے نیک اعمال اور برے اعمال برابر ہوں گے ان کو اعراف میں رکھا جائےگا۔
اعراف کسے کہتے ہیں؟:
اعراف ”عُرْف“ سے ہے، ”عُرْف“ کا معنی ہوتا ہے تعارف۔عرف، اعراف کامطلب جنت اورجہنم کے درمیان ایک دیوار ہے، اس دیوار کے بالائی حصہ کا نام اعراف ہے۔ اس کو اچھی طرح سمجھ لیں، اعراف ہے عرف سے، عرف کہتے ہیں تعارف اور معروف کو، جو چیز بلندی پر ہو وہ معروف ہوتی ہے اور پہچان لیا جاتا ہے، چونکہ قیامت کے روز بعض لوگ وہ ہوں گے جو اس بالائی دیوار پر ہوں گے، ان کے جتنے گناہ ہیں اتنے ہی نیک اعمال ہوں گے۔
نیک اعمال زیادہ تو اصحاب جنت اور گناہ زیادہ ہوں تو اصحاب النار اور اگر نیک اعمال اور گناہ برابر ہیں تو
اصحاب اعراف
۔ جنت میں جانے والوں کو اصحاب الجنۃ کہتے ہیں اور جہنم میں جانے والوں کو اصحاب النار کہتے ہیں اور اس دیوار پر رہنے والوں کو اصحاب الاعراف کہتے ہیں۔
وجہ تسمیہ سورۃ:
تو اس سورۃ کانا م اعراف کیوں ہے؟ اس لیے کہ اس میں اعراف کا تذ کرہ ہیں۔ اب آپ کہیں گے کہ اس میں تو اصحاب الجنۃ بھی ہیں اور اصحاب النار بھی ہیں، تو نام اصحاب الجنۃ اور اصحاب النار رکھنے کے بجائے اعراف کیوں ہے؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ اعراف درمیانی چیز ہے، جنت ایک طرف اور جہنم ایک طرف، درمیان میں اعراف ہے، تو درمیان میں اعراف ہونے کی وجہ سے اس سورۃ کا نام اعراف رکھا گیاہے، اس میں اعراف کا مستقل تذ کرہ ہے ۔
اور قرآن کریم میں تینوں طبقات کا تذکرہ کیا گیا ہے:
﴿وَ نَادٰۤی اَصۡحٰبُ الۡجَنَّۃِ اَصۡحٰبَ النَّارِ اَنۡ قَدۡ وَجَدۡنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا﴾
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جنت والے جہنم والوں سے کہیں گےجو خدا نے ہم سے وعدہ کیا ہم نے اس کو سچا پالیا،
﴿فَہَلۡ وَجَدۡتُّمۡ مَّا وَعَدَ رَبُّکُمۡ حَقًّا﴾
جو خدا نے تمہارے ساتھ جہنم کا وعدہ کرلیا تھا آج تم نے پالیا؟ جہنم والے کہیں گے تم سچ کہتے ہو ہم دنیا میں نہ اس بات کو مانتے تھے اور نہ سمجھتے تھے، لیکن آج یہ پتا چلا ہے کہ خدا کی جنت کی بات بھی سچی ہے اور جہنم کی بات بھی سچی ہے۔
جہنم والے کہیں گے:
﴿وَ نَادٰۤی اَصۡحٰبُ النَّارِ اَصۡحٰبَ الۡجَنَّۃِ اَنۡ اَفِیۡضُوۡا عَلَیۡنَا مِنَ الۡمَآءِ اَوۡ مِمَّا رَزَقَکُمُ اللہُ﴾
جہنم والے جنت والوں سے کہیں گے جو اللہ تعالی نے تمہیں نعمتیں عطا فرمائی اور پانی جو تم کو دیا ہےاس میں سے کچھ ہمیں بھی دے دیں، جنت والے کہیں گے یہ جنت کی نعمتیں اللہ تعالی نے جہنم والوں پر حرام قرار دی ہیں، یہ جنت کی نعمتیں تمہیں مل نہیں سکتیں۔
اعراف والوں کا تذکرہ ہے:
﴿وَ نَادٰۤی اَصۡحٰبُ الۡاَعۡرَافِ رِجَالًا یَّعۡرِفُوۡنَہُمۡ بِسِیۡمٰہُمۡ﴾
کہ یہ جو اعراف والے ہیں یہ جنت والوں کو بھی پہچانتے ہیں اور جہنم والوں کو بھی پہچانتے ہیں۔جنت والوں سے کہیں گے:
﴿سَلٰمٌ عَلَیۡکُمۡ﴾
ان کا دل یہ چاہے گا کہ جنت میں داخل ہوں، لیکن یہ جا نہیں سکیں گے۔ کیونکہ گناہ ان کے نیک اعمال کے برابرہوں گے اورجب جہنم والوں کو دیکھیں گے اس وقت کہیں گے:
﴿اَلَا لَعۡنَۃُ اللہِ عَلَی الظّٰلِمِیۡنَ ﴿ۙ۱۸﴾﴾
اعراف والے آخر کار جنت میں:
لیکن ایک وقت آئے گا اللہ تعالی اعراف والوں کوبھی جنت میں داخل فرمادیں گے۔ یہ پھر بھی خوش قسمت ہیں کہ آخر ان کو جنت ہی میں چلے جانا ہے۔ اب دو طبقے رہ جائیں گے بعد میں، جنت والے اور جہنم والے،اللہ تعالی مجھے اور آپ سب کو جنت والا بنائے (آمین۔سامعین)
کریم ذات کسے کہتے ہیں؟
ہم بےشک مجرم، نالائق اور گناہ گار ہیں، لیکن اپنے اعمال کے بجائے اللہ تعالی کی رحمت پہ نظر رکھنی چاہیے کہ کریم کہتے ہی اسے ہیں جو نالائقوں کو عطا فرمائیں، جو مستحق کو دے اسے کریم نہیں کہتے، کریم اسے کہتے ہیں جو غیر مستحقین کو عطا فرمائیں، ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ اے اللہ آپ کریم ہیں ہم جنت کے مستحق نہیں ہیں، آپ اپنے فضل اور کرم سے ہمیں بھی جنت میں جگہ عطا فرمائیں۔
مقطعات کسے کہتے ہیں؟:
﴿الٓـمّٓصٓ ۚ﴿۱﴾﴾
انہیں عربی زبان میں حروف مقطعات کہتے ہیں۔ مقطعات کیوں کہتے ہیں؟ حروف جمع ہے حرف کی، مقطعات جمع ہے
مقطعۃ
کی، اور
مقطعۃ
بنا ہے قطع سے، قطع کا معنی ہوتا ہے کاٹنا، چونکہ یہ وہ حروف ہیں جن کو الگ الگ کرکے پڑھا جاتا ہیں، ایک کو دوسرے سے کاٹ کے پڑھا جاتا ہے، اس لیے ان کو مقطعات کہتے ہیں۔ مثلا دیکھئے :
﴿الٓـمّٓصٓ ۚ﴿۱﴾ کِتٰبٌ اُنۡزِلَ﴾
اب ” کِتٰبٌ“ اس کو یوں نہیں پڑھتے کہ ک، ت، ب، الگ الگ کرکے، بلکہ اس کو ملاکر” کِتٰبٌ“ پڑھتے ہیں، اسی طرح
”اُنۡزِلَ“
کو الگ الگ، ا،ن،ز، ل، یوں نہیں پڑھتے بلکہ ملاکر
”اُنۡزِلَ
“ پڑھتے ہیں۔لیکن
”الٓـمّٓصٓ“
کو ملاکر نہیں پڑھتے بلکہ” الف “ کو الگ پڑھتے ہیں،” لام“ کو الگ پڑھتے ہیں، ” میم “ کو الگ پڑھتے ہیں اور”صاد “ کو الگ پڑھتے ہیں۔ یہ حروف جو الگ الگ پڑھے جاتے ہیں ان کو حروف مقطعات کہتے ہیں۔
حروف مقطعات ؛ متشَابہات میں سے ہیں:
ان کے بارے میں مفسرین علیہ الرحمہ کا فیصلہ ہےکہ یہ حروف مقطعات متَشابہات میں سے ہیں۔ متَشابہات قرآن کریم کی ان آیات کو کہتے ہیں کہ جن کا معنی اللہ تعالی کے علاوہ کوئی نہیں جانتا یہ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان راز ہیں۔ اس لیے بندے کو اس راز میں دخل دینے کی ضرورت ہی نہیں۔ مقطعات، متَشابہات اللہ تعالی اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ایک راز ہے۔ اس لیے ایک عام آدمی کو اس راز میں دخل دینا ہی نہیں چاہیے۔
بعض حضرات کے ذہن میں ایک سوال آتا ہے کہ جب ان کا معنی کوئی بندہ جانتا ہی نہیں تو ان کے نازل کرنے کا فائدہ کیا ہے؟ اس کے علماء نے کئی جوابات دئیے ہیں، آپ بنیادی طور پر دو جواب ذہن نشین فرما لیں۔
اہل علم کے امتحان کے لیے:
پہلا جواب یہ ہے کہ ایک امتحان عالم کا ہے اور ایک امتحان غیر عالم کا ہے، غیر عالم سے کہتے ہیں پڑھو او ر عالم سے کہتے ہیں کہ بس کرو، رکو۔ عالم کا امتحان کیا ہے؟ بس کرو، اور غیر عالم کا امتحان کیا ہے؟ پڑھو۔ اگر کوئی بچہ محنت نہ کرے اسے آپ کہتے ہیں بیٹا! عشاء کے بعد پڑھا کرو۔ اور کوئی بچہ بہت پڑھے اسے آپ کہتے ہیں بیٹا !تھوڑی دیر سویا بھی کرو۔
تو دونوں کو الگ الگ بات کہتے ہیں نا! نہ پڑھنے والے سے کہتے ہیں پڑھا کرو اور پڑھنے والے سے کہتے ہیں تھوڑی دیر سویا بھی کرو۔ تو غیر عالم سے کہتے ہیں دین کا علم حاصل کر لیا کرو، اور عالم سے کہتے ہیں کہ کسی جگہ رکا بھی کرو۔ تو غیر عالم کا امتحان یہ ہے کہ پڑھا کریں اور عالم کا امتحان یہ ہے کہ بعض جگہوں پہ رک جائے۔
﴿الٓـمّٓصٓ﴾
کا معنی جب اللہ تعالی کے علاوہ کسی کو معلوم ہی نہیں ہے تو علماء کو چاہیے کہ یہاں رک جائیں اور اس کے معانی بیان کرنے کی ہمت نہ کریں۔ بعض لوگ بلاوجہ اپنا علم جھاڑنے کے لیے ان کے معانی بیان کرنے کی کوشش کرتےہیں۔
سب سے بہترین بات یہ ہے کہ یہ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان راز ہے، اس کا معنی ہمیں معلوم نہیں ہے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور مان لیتے ہیں۔ تویہ مقطعات غیر علماء کے امتحان کے لیے نہیں ہیں بلکہ علماء کے امتحان کے لیے ہیں۔
گمراہی سے بچنے کے لیے:
اس کا دوسرا جواب سمجھیں کہ ایک امتحان اللہ تعالی یوں لیتے ہیں کہ عام آدمی کو ناز ہوتا ہے اپنی گرائمر پہ، عام آدمی کو ناز ہے اپنی ادبیت پہ، لوگ گمراہ کیوں ہوتے ہیں؟ بعض لوگ گمراہ ہوتے ہیں اپنی کم علمی کی وجہ سے، اور بعض لوگ گمراہ ہوتے ہیں زیادتِ علم کی وجہ سے۔ بعض لوگ گمراہ ہوتے ہیں کم علمی کی وجہ سے اور بعض لوگ گمراہ ہوتے ہیں علم کے زیادہ ہونے کی وجہ سے۔ بعضوں کا دماغ تھوڑا ہوتا ہے اور علم زیادہ ہونے کی وجہ سے ان سے سنبھالا نہیں جاتا، اس لیے وہ اپنے اکابرین کے خلاف بولنا شروع کردیتے ہیں، علماء کے خلاف بولنا شروع کردیتے ہیں۔
کون کیسے گمراہ ہوتا ہے؟:
توبعض گمراہ ہوتے ہیں علم کے نہ ہونے سے اور بعض گمراہ ہوتے ہیں علم کے زیادہ ہونے سے اور یہ علم کے زیادہ ہونے والا گمراہ کب ہوتاہے؟ جب یہ علم مطالعے سے حاصل کرلیتا ہے، علم کسی استاذ کے سامنے دو زانو بیٹھ کر حاصل نہیں کرتا۔ اگر علم حاصل کریں کتابوں سے پھر شکوک وشبہات پیدا ہوتے ہیں، اور جب استاذ سے علم حاصل کریں تو شکوک وشبہات ختم ہوجاتے ہیں۔ آدمی جہاں پھنس جاتا ہے استاذ سے پوچھ لیتا ہے اور اس کو کوئی شبہ پیدا نہیں ہوتا، اگر استاذ سے رابطہ نہ ہو شبہ پیدا ہوگا اور اس شبہ کو پکا کرلے گا،آئندہ مزید امت کو گمراہ کرنا شروع کردے گا۔
اہل علم کی آزمائش:
تو یہ آیات مقطعات، متَشابہات کیوں ہیں؟ ان آیات میں اللہ تعالی علماء کو بتانا چاہتے ہیں کہ تم نے عربیّت اور ادب پہ ناز کیا کرنا ہے تمہارا علم تو اتنا ہے کہ تمہیں ”الف“ کا معنی بھی نہیں آتا۔ تم نے کیا کرنا ہے تمہارا علم تو یہ ہے کہ تمہیں تو ”لام“ کا معنی بھی نہیں آتا، تمہیں ”میم“ کا معنی بھی نہیں آتا، اور تمہیں ”صاد“ کا معنی بھی نہیں آتا۔ تم ہمارے علم کے مقابلے میں اتنا تھوڑا علم رکھتے ہو کہ الف اور لام کا معنی بھی نہیں جانتے۔
عاجزی کا اعتراف:
اس لیے اگر تم قرآن کریم پڑھنا اور امت کو سمجھانا چاہتے ہو تو اپنی عاجزی کا اعتراف کرو۔ اللہ تعالی علم دے تو پتا چلتا ہے اگر اللہ تعالی نہ دے تو الف کے معنی کا بھی پتا نہیں چلتا، بس اللہ تعالی عطا فرمائیں تو پورا قرآن کریم سمجھ آتا ہےاور نہ عطا فرمائیں تو الف کا معنی بھی سمجھ نہیں آتا، حروف مقطعات انسان کے امتحان کے لیے ہیں۔
تسلی برائے حبیبِ کبریاﷺ:
﴿کِتٰبٌ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ فَلَا یَکُنۡ فِیۡ صَدۡرِکَ حَرَجٌ مِّنۡہُ لِتُنۡذِرَ بِہٖ وَ ذِکۡرٰی لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۲﴾﴾
اللہ تعالی نے اس آیت میں اپنی پیغمبر کو تسلی دی ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑا دکھ اور بڑا درد ہوتا کہ اے اللہ تعالی میں سمجھاتا ہوں یہ سمجھتے نہیں ہے، میں منواتا ہوں یہ مانتے نہیں ہے، میں دلائل بیان کرتا ہوں قبول ہی نہیں کرتے، اللہ یہ جنت کے بجائے جہنم میں جائیں گے، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بہت پریشان ہوتے۔
نبی کا منصب حکم خدا پہنچانا ہے، منوانا نہیں:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے میرے پیغمبر!
﴿ کِتٰبٌ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ﴾
میں نے یہ کتاب اس لیے نازل فرمائی،
﴿لِتُنۡذِرَ بِہٖ﴾
تاکہ اس کے ذریعے آپ امت کو ڈرائیں، اور اگر یہ بات نہیں مانتے تو درمیان میں فرمایا:
﴿فَلَا یَکُنۡ فِیۡ صَدۡرِکَ حَرَجٌ مِّنۡہُ﴾
ان کے نہ ماننے کی وجہ سے آپ کا دل تنگ نہیں ہونا چاہیے۔ آپ کے ذمے سمجھانا ہے آپ کے ذمے منوانا نہیں ہے۔
دین کے داعی دل چھوٹا نہ کریں:
ہمارے بہت سارے لوگ پریشان ہوتے ہیں کہ جی دلائل دیتے ہیں لوگ مانتے ہی نہیں ہے، میں نے سمجھا یا وہ سمجھتے ہی نہیں ہے۔ میں نے کہا جو نبی کی بات نہیں مانتا وہ میری اور آپ کی نہ مانے تو کیا فرق پڑتا ہے۔ ایک بندہ رسول کی بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہے وہ میری اور آپ کی بات قبول نہ کرے تو بتائیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ آپ مثبت انداز میں دلائل کے ساتھ بات پیش کریں اگر لوگ قبول کرلیں تو ان کا فائدہ ہے اگر قبول نہ کریں تو ان کا نقصان ہے۔ آپ اس پہ دل چھوٹا نہ کیا کریں ۔
ابلیس کی نخوت:
﴿قَالَ مَا مَنَعَکَ اَلَّا تَسۡجُدَ اِذۡ اَمَرۡتُکَ ؕ قَالَ اَنَا خَیۡرٌ مِّنۡہُ ۚ خَلَقۡتَنِیۡ مِنۡ نَّارٍ وَّ خَلَقۡتَہٗ مِنۡ طِیۡنٍ ﴿۱۲﴾﴾
ان آیات میں اللہ رب العزت نے حضرت آدم علیہ السلام کا قصہ بیان فرمایااور ان کے مقابلے میں ابلیس کا تذکرہ کیا۔ یہ قصہ آپ نے کئی بار سنا ہے، میں پورا قصہ بیان نہیں کرتا میں بنیادی طورپر کچھ نکات اور نظریات بیان کرتا ہوں۔
سجدہ کا حکم ابلیس کو بھی تھا:
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایاتو تمام ملائکہ سے فرمایا کہ تم میرے آدم کو سجدہ کرو، حضرت آدم کو سجدہ کرنےکا حکم صرف ملائکہ کو دیا، ابلیس کانام لے کر نہیں فرمایا تو بھی سجدہ کرلے۔ لیکن ابلیس چونکہ ان میں موجود تھا اور ابلیس کو حکم خود بخود ہے اگرچہ ابلیس فرشتہ تھا نہیں لیکن عبادت کرنے کی وجہ سے اس کا شمار ملائکہ میں ہوتاتھا۔
﴿اسۡجُدُوۡا لِاٰدَمَ﴾
اگرچہ خطاب ملائکہ کو کیا ہے لیکن جو جو ملائکہ میں شامل تھے یہ خطاب ان سب کے لیے موجود تھا، سب ملائکہ نے سجدہ کیا لیکن ابلیس نے سجدہ کرنے سے انکار کردیا، ابلیس نے کہا میں سجدہ نہیں کروں گا۔
ابلیس ؛سجدے کا انکاری:
اللہ تعالیٰ نے ابلیس سے پوچھاکہ اے ابلیس تو بتا جس آدم کو میں نے سجدے کا حکم دیا ،تُو نے اس کو سجدہ کیوں نہیں کیا؟
﴿مَا مَنَعَکَ اَلَّا تَسۡجُدَ اِذۡ اَمَرۡتُکَ﴾
جب میں نے حکم دیا تو تونے سجدہ کیوں نہیں کیا؟
شیطانی دلائل:
ابلیس کہنے لگا:
﴿اَنَا خَیۡرٌ مِّنۡہُ ۚ خَلَقۡتَنِیۡ مِنۡ نَّارٍ وَّ خَلَقۡتَہٗ مِنۡ طِیۡنٍ ﴿۱۲﴾﴾
اللہ آپ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا اور مجھے آپ نے آگ سے پیدا کیا۔ آگ افضل ہوتی ہے بنسبت مٹی کے، تو افضل سجدہ کیوں کرے آدم کو جو مٹی سے بنا ہے؟ اگر آپ نے سجدہ کروانا تھا تو مجھے آپ افضل نہ بناتے، افضل مجھے بنایا اور مجھے کہتے ہیں سجدہ بھی کرو، اس لیے میں سجدہ نہیں کرتا۔
ابلیس کی بنیادی غلطی:
آپ ذرا اس بات کو سمجھیں کہ ابلیس کو غلطی لگی کہاں سے ہے؟ اس نے خود کو اعلیٰ کیسے سمجھ لیا؟ ابلیس کا ذہن یہ تھا کہ آدم مٹی سے بنا ہے اور میں آگ سے بنا ہوں، اور آگ مٹی سے اعلیٰ ہوتی ہے۔
ابلیس کی دلیل کا علمی رد:
حالانکہ آگ اعلیٰ نہیں ہے، آگ ادنی ٰہے اور مٹی اعلیٰ ہے۔ یہ میں ابلیس کی دلیل کا جواب دینے لگا ہوں جو آپ نے شاید نہ سنی ہو، ابلیس آگ سے بنے ہیں اور حضرت آدم علیہ السلام مٹی سے بنےہیں، ابلیس کی دلیل کاخلاصہ کیا تھا کہ آگ اعلیٰ ہے اور مٹی ادنیٰ ہے، اور ہم کہتے ہیں نہیں مٹی اعلیٰ اور آگ ادنیٰ ہے، اس کی وجہ کیا ہےکہ ابلیس کا ذہن یہ تھا کہ جب آگ جلاؤ تو اوپر جاتی ہے اور مٹی اوپر پھینکو تو نیچے آتی ہے، اس سے پتا چلا یہ ادنیٰ اور وہ اعلیٰ ہے۔
ہم کہتے ہیں نہیں آگ میں خِفَّت [ہلکاپن] بھی ہے، آگ میں حِدَّت بھی ہے، آگ میں طیش بھی ہے، آگ میں حرارت بھی ہے، آگ میں اکڑ بھی ہے، آگ میں علوبھی ہے۔ لیکن اس کے مقابلے میں مٹی کو دیکھو مٹی میں متانت بھی ہے، مٹی میں سنجیدگی بھی ہے، مٹی میں تواضع بھی ہے، مٹی میں حلم بھی ہے، اور مٹی میں تثبت بھی ہے۔ آگ کبھی اوپر اور کبھی نیچے، مٹی کو جب بھی اوپر پھینکو ایک جگہ پرہے مٹی جم جاتی ہے۔ آگ نہیں جمتی، مٹی میں ٹھہراؤ ہے آگ میں نہیں ہے، مٹی میں تواضع ہے آگ میں کبر ہے، آگ میں اکڑ ہےمٹی میں عاجزی ہے، اور آگ میں ٹھہراؤ نہیں مٹی میں تثبت ہے، آگ میں دیکھو حلم نہیں مٹی میں دیکھو بردباری ہے،لہٰذا مٹی اعلی ٰہے آگ ادنی ٰہے۔
ابلیس سمجھتا تھا کہ نہیں آگ اعلیٰ ہے مٹی ادنی ٰہے، میں سجدہ کیوں کروں؟ اب آپ بتائیں آگ اعلیٰ ہے یامٹی؟ [مٹی۔سامعین ]آگ تو کچھ بھی برداشت نہیں کرسکتی، مٹی تو سارا کچھ برداشت کرتی ہے۔
مٹی کی خصوصیات اور مزاج:
مٹی کیسے برداشت کرتی ہے؟ کہ مٹی کے سینے میں بلڈنگ بناؤ تب بھی اٹھالیتی ہے، مٹی پر پانی رکھوتب بھی اٹھالیتی ہے، مٹی پر آگ جلاؤ تب بھی اٹھا لیتی ہے، مٹی پہ پاخانہ پھینک دوتب بھی اٹھا لیتی ہے، مٹی پہ خوشبو گرادو تب بھی اٹھالیتی ہے۔
تو مٹی کے مزاج میں تواضع بھی ہے اور مٹی کے مزاج میں عاجزی بھی ہے، مٹی کے مزاج میں انکساری بھی ہے، مٹی کے مزاج میں حلم بھی ہے، اور اہم بات کیا ہے کہ مٹی کے مزاج میں تثبت بھی ہے۔ آگ کو دیکھو تو اس میں ٹھہراؤ نہیں اور مٹی کو دیکھو اس میں ٹھہراؤ ہے۔ اب بتاؤ اعلیٰ کون ہے؟ مٹی یا آگ۔ [مٹی۔سامعین] ابلیس کہتا تھا کہ آگ افضل ہے۔
اب آپ لوگ ذرا مجھے یہ بتاؤ کہ مجھ جیسا بندہ سمجھ سکتا ہے کہ مٹی آگ سے افضل ہے۔ تو کیا اللہ تعالی کو پتا نہیں تھا؟ پتا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے جواب نہیں دیا۔ ابلیس نے کہا: ﴿اَنَا خَیۡرٌ مِّنۡہُ﴾ اللہ میں آگ سے بنا ہوں اور میں اعلیٰ ہوں۔
ہر سوال کا جواب نہ دینابھی خدائی اصول ہے:
خدا نے ابلیس کو جواب نہیں دیا۔ پتا یہ چلا کہ ہر بات کا جواب نہیں دیتے۔ ہمارے لوگ پریشان ہیں کہ فلاں نے جواب کیوں نہیں دیا؟ فلاں نے جواب کیوں نہیں دیا؟ ہر بات کا جواب نہیں دیتے۔ اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو جواب نہیں دیا فرمایا اُخْرُجْ“ جواب نہیں دیا فرمایا میری جنت سے بھی نکل جا۔ جب ہم حکم دیتے ہیں آگے سے دلیلیں نہیں دیتے، پتا یہ چلا ایک طرف چھوٹا ہے اور ایک طرف بڑا ہے، اگر بڑا چھوٹے کو بات کہے اور چھوٹا دلیل دے تو بڑا دلیل کا جواب نہیں دیتا، پوچھتا ہے کہ جب میں نے حکم دیا تو تونے مانا کیوں نہیں ہے؟ ابلیس کو وہاں سے نکال دیا اس کاجواب نہیں دیا، اس لیے ہر بات کا جواب نہ ضروری ہوتاہے اور نہ آپ جواب کے لیے پریشان ہوا کریں۔
جب شیطان نے دعا مانگی:
جب اللہ تعالیٰ نے ابلیس سے فرمایا :
﴿فَاخۡرُجۡ ﴾
کہ نکل جا، تو ابلیس نے کہا:
﴿اَنۡظِرۡنِیۡۤ اِلٰی یَوۡمِ یُبۡعَثُوۡنَ ﴿۱۴﴾﴾
اللہ میں ایک آپ سے دعا مانگتا ہوں، آپ نے نکال تو دیا ہی ہے نا۔ لیکن آپ میری ایک دعا، میری ایک چیز ہے مجھے عطافرمادیجئے، اللہ تعالی نے فرمایا مانگ کیا مانگتا ہے؟
اس نے کہا:
﴿اَنۡظِرۡنِیۡۤ اِلٰی یَوۡمِ یُبۡعَثُوۡنَ ﴿۱۴﴾﴾
اللہ جب لوگوں کو قیامت کو دوبارہ اٹھا یا جائے گا نا اس وقت تک کے لیے مجھے زندگی دیجئے، مجھے مہلت دیجئے، اللہ تعالیٰ سے جب ابلیس نے یہ دعا مانگی ہے، تو اللہ تعالی نے یوں نہیں فرمایا کہ جا تجھے اس دن تک مہلت ہے، نہیں، نہیں، فرمایا:
﴿اِنَّکَ مِنَ الۡمُنۡظَرِیۡنَ ﴿۱۵﴾﴾
کہ تجھے مہلت ہے، اور کتنی ہے؟ دوسرے مقام پر ہے کہ ﴿اِلٰی یَوۡمِ الۡوَقۡتِ الۡمَعۡلُوۡمِ﴾ کہ ایک خاص وقت تک تجھے مہلت دیتے ہیں۔
الحجر15: 38
شیطان کی شیطانی:
ابلیس نے کہا: اللہ! مجھےمہلت دیں! قیامت تک نہیں بلکہ
﴿اِلٰی یَوۡمِ یُبۡعَثُوۡنَ ﴿۱۴﴾﴾
تک۔ قیامت کے دو حصے ہیں، قیامت کو صور پھونکا جائے گا دومرتبہ، ایک مرتبہ جب صورپھونکا جائے گا تو سارے لوگ مر جائیں گے، اور جب دوبارہ صورپھونکا جائےگا تو پھرمردے اٹھ جائیں گے۔ ابلیس کتنا چالاک تھا آپ نے ابلیس کی دعا پر غور نہیں کیا، یہ نکتہ آپ نے کبھی نہیں سنا جو میں سنانے لگا ہوں، ابلیس کی چالاکی دیکھیں، صور دو مرتبہ پھونکا جائے گا، جب ایک بار صور پھونکا جائےگا تو سارے مرجائیں گے، اور جب دوبارہ پھونکا جائے گا تو پھر سارے مردے اٹھائے جائیں گے۔
تو ابلیس نے کیا کہا؟
﴿اَنۡظِرۡنِیۡۤ اِلٰی یَوۡمِ یُبۡعَثُوۡنَ ﴿۱۴﴾﴾
اللہ مجھے اس وقت تک زندگی دینا جب مردے اٹھائے جائیں گے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں اس وقت تک زندگی دیں گے، اس کامطلب یہ ہوا کہ شیطان پر موت آنی ہی نہیں، جب پہلا صور پھونکا جائے گا تو سب کو مرنا ہے، تو ابلیس نے یہ نہیں کہا کہ مجھے اس وقت موت دینا جب سارے لوگ مریں گے بلکہ ابلیس نے یہ کہا کہ مجھے اس وقت تک مہلت دینا اس وقت تک مجھے موت نہیں دینا۔
وقت معلوم کا معنیٰ:
اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا: اس وقت تک مہلت دیتا ہوں بلکہ فرمایا: تجھے مہلت دیتا ہوں لیکن وقت معلوم تک، وقت معلوم کا معنی جب تک سارے نہیں مریں گے اس وقت تک تجھے بھی مہلت دیں گے۔ اور جب سارے مریں گے تو تجھ پر بھی موت آنی ہے۔
خدا کو دھوکہ دینے کی شیطانی کوشش ناکام:
ابلیس بہت چالاک تھا، اس نے عجیب دعا مانگی ہے لیکن یہ نہیں سوچا کہ میں خدا کو دھوکا دینا چاہتاہوں، خدا کو دھوکہ کون دے سکتا ہے؟ فرمایا:
﴿وَ مَا یَخۡدَعُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡفُسَہُمۡ وَ مَا یَشۡعُرُوۡنَ ؕ﴿۹﴾﴾
تو اسی طرح ابلیس کو ماننے والے منافق بھی خدا کو دھوکا دینا چاہتے ہیں۔ فرمایا کہ نہیں،نہیں، تم خدا کو دھوکہ نہیں دے سکتے۔
البقرۃ 2: 9
جمعہ کی پہلی اذان اور کاروبار:
اسی سورۃ میں ایک تذکرہ ہے اصحاب السبت کا، سبت کہتے ہفتہ کے دن کو، ہمارے لیے حکم ہے کہ جمعہ کی پہلے اذان کے بعد کاروبار کرنا جائز نہیں ہے، جمعہ کے دن کے کاروبار کرنے پر پابندی نہیں، جمعہ کی اذان کے بعد کاروبار پر پابندی ہے۔
جمعہ کے دن کی چھٹی:
ہمارے بعض لوگ بہت عجیب ہیں، ہم کہتے ہیں جمعہ کے دن چھٹی ہو، ہم اس سے بحث نہیں کرتے کہ جمعہ یاہفتہ اور اتوار کے دن چھٹی ہو، میں مسئلہ یہ سمجھا رہا ہوں کہ جمعہ کے دن چھٹی کرنا یہ شریعت نہیں ہے۔ جمعہ کی پہلی اذان کے بعد چھٹی ہو یہ شریعت ہے۔
جمعہ کے دن آپ کاروبار کریں جب پہلی اذان ہوجائے تو آپ کاروبار بندکریں اور جمعہ کی تیا ری کریں اور جب جمعہ ہوجائے تو پھر کاروبار شروع کریں۔ قرآن کریم میں کیا ہے؟ کبھی قرآن کریم بھی پڑھا کرو:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ﴾
الجمعۃ 62: 9
اور جب اذان ہوجائے اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف دوڑو اور کاروبار بند کرو۔ اگر دکان کھلی ہے تو بند کرو اگر ہے ہی بند، پھر بند کیا کرنا ہے؟
چھٹی برائے نماز جمعہ:
اس لیے ہمارا مطالبہ یہ نہیں ہوتا کہ جمعہ کے دن کی چھٹی کرو، بلکہ ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ جمعہ کے وقت کی چھٹی کرو، جمعہ کے دن کی کرو یا نہ کرو لیکن جمعہ کے وقت کی چھٹی کرو۔ ﴿فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ﴾ اور جب جمعہ کی نماز ہو جائے،﴿فَانۡتَشِرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ﴾ زمین پر جاؤ، ﴿وَ ابۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِ اللہِ﴾ اور کاروبار کرو، رزق کو تلاش کرو کون منع کرتا ہے؟
اصحاب السبت کی ناجائز تاویلیں:
ہم پر جمعہ کی نماز کے وقت کی پابندی ہے، اور ان پر ہفتہ کے دن کی پابندی ہےکہ تم ہفتہ کے دن کام نہ کرنا، اور ہفتہ کے دن کاشکار نہ کھیلنا، انہوں نے ایک نیا حیلہ نکالاکہ دریا کے ساتھ تالاب نکالا، دریا اور تالاب کے درمیان انہوں نے ایک نالا بنا لیا، اور اس پر ایک ناکا لگایا،ہفتہ کا دن آتا تو وہاں سے تختہ اٹھا لیتے، اور مچھلیاں ادھر چلی جاتی، اور وہ وہاں سے پکڑلیتے، اور کہتے کہ ہم نے ہفتہ کے دن شکار نہیں کیا بلکہ یہ تو خود آئی ہیں۔ بھئی خود کرو تو بھی گناہ ہے اور یوں کرو تو بھی گناہ ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم خدا کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں۔
ابلیس نے دھوکے دینے کے لیے دعا مانگی لیکن اللہ تعالیٰ ابلیس کی چالیں سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا نہیں تجھے اس وقت تک مہلت نہیں دوں گا،بلکہ ایک خاص وقت تک مہلت دوں گا۔
ابلیس میں تین عین موجود تھے:
اس پر ایک بات سمجھیں، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ابلیس عابد بھی تھا، آسمان کے چپے،چپے پہ سجدے کرتا تھا۔ اور سجدے کرنے کی وجہ سے فرشتوں کے صفوں میں جا بیٹھا، ابلیس عابد بھی تھا، ابلیس عالم بھی تھا، ابلیس کو مسئلوں کا بھی پتا تھا، یہ ساری باتیں تھی، ابلیس عارف بھی تھا، عارف کا مطلب اللہ تعالی کے مزاج کو جانتا تھا۔ اللہ تعالی نے حکم دیا سجدہ کر، ابلیس نے نہیں کیا، جب بات نہیں مانی ، اللہ تعلالی غصے میں آئے، یہ خدا کے مزاج کو جانتا تھا۔ اللہ تعالیٰ غصے میں ہوں بندہ مانگے تب بھی دیتے ہیں۔ اسے کہتے ہیں عارف، یہ مزاج کو جانتا تھا۔ اس لیے غصے کی حالت میں بھی خدا سے مانگ لیا، وہاں سے دوڑا نہیں ہے، جاتے ہوئے بھی کہا اے اللہ مجھے ایک چیز چاہئے، اللہ تعالی ٰنے فرمایا لے لو۔ یہ عارف تھا اللہ تعالیٰ کے مزاج کو جانتا تھا۔
چوتھا عین موجود نہیں تھا:
حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا جملہ سننا، فرمایا ابلیس عابد بھی تھا، ابلیس عالم بھی تھا، ابلیس عارف بھی تھا۔ لیکن ابلیس عاشق نہیں تھا۔
عاشق دلیل کا مطالبہ نہیں کرتا:
ابلیس میں یہ ساری صفات تھیں لیکن ابلیس عاشق نہیں تھا کیوں؟ اس لیے کہ عاشق دلیل نہیں پوچھتا عاشق حکم پر عمل کرتاہے۔ اس میں ساری خوبیاں موجود تھیں، لیکن ایک کوالٹی کم تھی کہ یہ عاشق نہیں تھا، اگر عاشق ہوتا نا پھر یہ نہ کہتا کہ کیوں سجدہ کروں میں تو اعلیٰ ہوں۔ خدا حکم دیتے فورا سجدہ کرلیتا، اللہ تعالیٰ ہم سب کو عبادت کی توفیق بھی دیں، اللہ تعالیٰ معرفت بھی دے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو علم بھی دےاور اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہم سب کو اپنا عشق بھی عطا فرمائیں۔
ابلیس کی جھوٹی قسم:
﴿قَالَا رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ اَنۡفُسَنَا ٜ وَ اِنۡ لَّمۡ تَغۡفِرۡ لَنَا وَ تَرۡحَمۡنَا لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ ﴿۲۳﴾﴾
حضرت آدم علیہ السلام سے خطاہوگئی،آدم علیہ السلام بھول گئے، اور بھول کر خطا کرلی ہے، اور بھلوایا کس نے؟ ابلیس نے، اور چکر اتنا سخت دیا اور اتنی سخت انہوں نے گیم کھیلی کہ حضرت آدم علیہ السلام جیسا بندہ بھی فوراً اس کی چال کو نہ سمجھ سکا۔ حضرت آدم علیہ السلام سے کہا کہ اس درخت کو کھا لے، آدم علیہ السلام نے فرمایا مجھے اللہ تعالی نے منع کیا ہے، ابلیس نے خدا کی قسم اٹھائی، اس نے کہا میں خدا کی قسم اٹھا کر کہتا ہوں کہ جو خدا نے تمہیں منع کیا تھا، اس کا معنی یہ نہیں تھا کہ تم نے ہمیشہ نہیں کھانا۔
جب تمہیں پیدا کیا ابھی تمہارے مزاج میں ابھی تمہارے معدے میں یہ پھل کھانے کی ہمت نہیں تھی، اس لیے منع کیا تھا، اب تو تم بڑے ہوگئے ہو، اب کھالو تو کیا حرج ہے؟ اور یہ جو اس نے حضرت آدم علیہ السلام کودھوکہ دیا ہےنا، اسی طرح کا دھوکہ غزوہ احد میں اصحاب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو شیطان نے دیا ہے۔
احد کے میدان میں:
وہ دھوکہ کس طرح تھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے میدان میں صحابہ کی تشکیل فرمائی۔ فرما یا دیکھو یہ پیچھے درّہ ہے، خالی جگہ ہے ، میں پچاس آدمی یہاں ٹھہرا رہا ہوں، ہمیں فتح ہو یا شکست تمہیں یہاں سے ہٹنا نہیں ہے۔ صحابہ کرام وہاں ٹھہر گئے اور جم گئے۔
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ابھی کلمہ نہیں پڑھا اور مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ ابھی تو” رضی اللہ عنہ“ بنے نہیں تھے، حضرت خالد، مشرکین مکہ کی طرف سے لڑنے کے لیے آئےاور تھے بہت بڑے جرنیل، جب مشرکین مکہ کو شکست ہوئی وہ دوڑے، تو خالد چونکہ میدان جنگ کو سمجھتے تھے وہ جرنیل تھے اس نے کہا میرے خیا ل میں دوڑنے کے بجائے ذرا پیچھے سے ہو کے اس درے سے مسلمانوں پر حملہ کریں۔
ظاہری شکست کے اسباب:
اس درے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پچاس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ٹھہرایا تھا، فرمایا تم نے یہاں سے ہلنا نہیں ہے،جب دشمن دوڑگیا، مسلمان مال غنیمت جمع کرنے لگے، ایک صحابی نے کہا کہ چلو ہم بھی چلیں، دوسرے صحابی نے کہا نہیں، نہیں، ہم نہیں جائیں گے۔ کہا کیوں نہیں جاؤ گے؟ کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا تھا میں جب تک نہ کہوں تم کو یہاں سےجانا نہیں ہے۔
دوسرے نے کہا تم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی منشاء سمجھے نہیں ہو، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ تھا کہ جب تک جہاد جاری ہو میں نہ بلاؤں تو تم نے نہیں آنا، اب تو جہاد ختم ہوگیاہے، فتح ہوگئی ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جس مقصد کے لیے ہمیں یہاں ٹھہرا یا تھا اب وہ مقصد پورا ہوگیا ہے، اب چلو اور جاکر ان کا ہاتھ بٹاؤ، اور مال غنیمت جمع کرو۔مقصد یہ تھا کہ تم اس وقت تک نہیں ہٹنا جب تک جنگ ختم نہ ہو،اب جنگ ختم ہوگئی ہٹنے میں حرج نہیں ہے۔ دشمن ادھر سے آیا ہے، اور فتح شکست میں بدل گئی ہے۔
آدم علیہ السلام کو شیطان نے دھوکہ دیا:
ادھر بالکل اسی طرح ابلیس نے آدم علیہ السلام سے کہا خدا نے تم سے کہا تھا یہ درخت کے پھل نہ کھانا کیونکہ اس وقت تمہارے معدے میں اور تمہارے پیٹ میں اس پھل کا تحمل نہیں تھا، اب تمہارا معدہ ٹھیک ہے، اب تم بڑے ہوگئے ہو اب کھانے میں کیا حرج ہے، ابلیس نے کہا میں خدا کی قسم اٹھاکر کہہ رہاہوں میں جھوٹ نہیں بولتا۔ جب خدا کا نام لیا چونکہ خدا کے نام سے آدم علیہ السلام کو محبت تھی تو آدم علیہ السلام نے سوچا کہ خدا کانام لے کر بھی بھلا کوئی جھوٹ بول سکتا ہے۔فوراً پھل کھالیا، جوں ہی پھل کھانا تھا حضرت آدم اور حوا علیہما السلام کے جسم پہ جنت کا جو لباس تھا وہ اتر گیا، اور قرآن کریم میں ہے اب دونوں نے درخت کے پتوں سے اپنے جسم کو ڈھانپنا شروع کیا۔
شیطانی دھوکہ…… انسانیت ننگی ہو رہی ہے:
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب حضرت آدم اور حوا علیہما السلام کو شیطان نے دھوکہ دیا،
﴿فَدَلّٰىہُمَا بِغُرُوۡرٍ﴾
جب دھوکہ دیا تو سب سے پہلا کام کیا کروایا، ان کو پھل کھلوایا پھل کھانے سے ان کےکپڑے اتر گئے، اس وقت بھی شیطان نے پہلا دھوکہ دے کے کپڑے اتروائے، اب بھی جب شیطان دھوکہ دیتا ہے تو انسانیت کو ننگا کردیتا ہے۔ پہلا حملہ شیطان کا یہ ہوگا کہ ان کے لباس چھوٹے کرو ، مختصر کرو، آہستہ آہستہ ننگا کروادو، یہ شیطان کے حملوں کا حصہ ہے۔
آدم علیہ السلام شیطانی دھوکے کا شکار کیوں ہوئے؟:
آدم علیہ السلام کے سامنے اس نے خدا کا نام لیا نیک آدمی تھے فورا نام سنا کہ اللہ تعالیٰ کا نا م لےکر بھی کوئی جھوٹ بول سکتا ہےایسا ہوہی نہیں سکتا۔
ہمارے ہاں ایک واقعہ لکھا ہے کہ بادشاہ عالمگیر رحمہ اللہ کے دور میں ملا جیون رحمہ اللہ بہت بڑے آدمی تھے، ان کی کتابیں ہمار ے ہاں درس نظامی میں شامل ہیں، نیک بھی تھے، عالم بھی تھے، متقی بھی تھے، ان کے پاس ایک بندہ آیا اس نے آکر کہا کہ حضرت یہ جو سامنے دریا ہے نا اس پر جو پل ہے عالم گیر بادشاہ اس کو یہاں سے اکھاڑ کر کہیں اور لے جانا چاہتا ہے، اگر وہاں لے کر چلاگیا تو ہمارا بہت نقصان ہوگا، آپ جائیں اور عالم گیر سے سفارش کریں کہ یہاں سے پل اٹھا کروہاں نہ لے جائے، حضرت جانے لگے شاگردوں نے کہا بھئی کدھر جارہے ہو، شاگردوں سے کہا کہ ایک غریب آدمی آیا ہوا تھا کہ بادشاہ پل یہاں سے اکھاڑ کر وہاں لے جارہا ہے، تو میں چاہتا ہوں کہ جاکر عالمگیر سے سفارش کروں ان بےچاروں کا نقصان نہ ہو۔
انہوں نے کہا حضرت قبلہ آپ بھی عجیب آدمی ہیں کبھی پل بھی اٹھا کر بدل سکتے ہیں؟ کہ ادھر سے اٹھائیں اور وہاں لے جائیں۔ اب حضرت ملا جیون رحمہ اللہ کا جواب سنو فرمانے لگے یہ تو ہوسکتا ہے کہ پل بدل جائے لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ مسلمان بدل جائے،مسلمان کیسے جھوٹ بول سکتا ہے؟اس لیے میں جا رہا ہوں سفارش کرنے کے لیے۔ جو آدمی نیک ہوتا ہے وہ دوسروں کو نیک سمجھتا ہے۔
جھوٹی قسم شیطانی خصلت اور منافق کی عادت:
آدم علیہ السلام بھی سمجھتے تھے کہ خدا کا نام لے کر کوئی جھوٹ نہیں بول سکتا، ابلیس نے خدا کا نام لے کر قسم کھائی تو آدم علیہ السلام نے اعتبار کرلیا، پتا چلا کہ منافق قسم کھا کر بات کریں، توبھی اعتبار کبھی نہیں کرنا۔ اس لیے منافق کی علامت یہ ہے کہ منافق بات بات پر قسم کھاتا ہے، اور مسلمان سمجھتا ہے کہ بھئی اللہ تعالیٰ کا نام لے کر کون جھوٹ بول سکتاہے۔
جنت سے زمین کی طرف کا سفر:
اس ابلیس نے ان کو دھوکہ دیا آدم اور حوا دونوں کو جنت سے نکال دیا گیا، یہ دونوں روتے رہے چالیس سال تک روتے رہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو حج پہ لے جائے۔ ادھرمیدان عرفات میں جاتے ہیں دعائیں مانگتے ہیں۔
میدان عرفات کا نام عرفات کیوں؟:
میدان عرفات، عرفات یہ معرفت سے ہے، معرفت کا معنی پہچاننا ہے، حضرت آدم اور حوا اس میدان میں جمع ہوئے، ایک دوسرے کو پہچان لیا اس میدان کا نام میدان عرفات ہے، پہچاننے کی جگہ وہاں جاکر بندہ خدا سے دعائیں مانگتا ہے۔
آدم و حوا علیہما السلام کی دعا:
آدم اور حوا علیہما السلام نے چالیس سال تک دعائیں مانگی ہیں:
﴿قَالَا رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ اَنۡفُسَنَا ٜ وَ اِنۡ لَّمۡ تَغۡفِرۡ لَنَا وَ تَرۡحَمۡنَا لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ ﴿۲۳﴾﴾
منکرینِ وسیلہ کا استدلال:
بعض لوگ یہ آیت پڑھتے ہیں اور آیت پڑھ کر دھوکہ دیتے ہیں، میں اس دھوکہ کو صاف کرنے لگاہوں، میں نے اپنے کانوں سے بیان سنا ایک مولانا بیان فرمارہے تھے کہ دیکھو آدم اور حوا علیہما السلام دونوں نے یہ دعامانگی ہے:
﴿قَالَا رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ اَنۡفُسَنَا ٜ وَ اِنۡ لَّمۡ تَغۡفِرۡ لَنَا وَ تَرۡحَمۡنَا لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ ﴿۲۳﴾﴾
کسی نبی کا وسیلہ دے کر تو دعا نہیں مانگی نا، جب آدم اور حوا نے وسیلہ دے کر دعا نہیں مانگی، تو تم وسیلے دے کر دعائیں کیوں مانگتے ہو؟
منکرین وسیلہ کو مدلل جواب:
میں نے کہا: قبلہ! تم نے قرآن کریم تو پڑھا ہے ساتھ حدیث بھی تو پڑھ لیتے، مستدرک علی الصحیحین میں ہے، امام حاکم رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے، حضرت آدم علیہ السلام نے کہا: "
يَا رَبِّ أَسْأَلُكَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ لِمَا غَفَرْتَ لِيْ"
اے اللہ! میں آپ کو محمد کا واسطہ دےکر دعا مانگتا ہوں کہ میرے گناہ کو معاف کردیں۔ اے اللہ! میں محمد کا وسیلہ دے کر دعامانگتاہوں، اللہ تعالیٰ نے پوچھا: "
وَكَيْفَ عَرَفْتَ مُحَمَّدًا وَلَمْ أَخْلُقْهُ؟"
میں نےتو حضرت محمد کو پیدا نہیں کیااے آدم آپ نےمحمد کو کیسے پہچان لیا ہے؟
انہوں نے کہا: "
لِأَنَّكَ لَمَّا خَلَقْتَنِي بِيَدِكَ
" اے اللہ! جب آپ نے مجھے پیدا فرمایا، "
وَنَفَخْتَ فِيَّ مِنْ رُوحِكَ
" اے اللہ! اس وقت جب آپ نے میرے بدن میں روح کو ڈالا ہے،
"رَفَعْتُ رَأْسِي"
میں نے سر اٹھایا ،
"فَرَأَيْتُ عَلٰى قَوَائِمِ الْعَرْشِ مَكْتُوبًا لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ"
میں نے عرش کے پاؤں میں لکھا ہوا دیکھا ”
لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ“
، مجھے اس وقت یقین آگیا
"فَعَلِمْتُ أَنَّكَ لَمْ تُضِفْ إِلَى اسْمِكَ إِلَّا أَحَبَّ الْخَلْقِ إِلَيْكَ"
اپنے نام کے ساتھ اسی کا نام آپ لکھتے ہیں جو آپ کو پوری کائنات میں محبوب ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: "
صَدَقْتَ يَا آدَمُ"
آدم! آپ نے بالکل ٹھیک کہا ہے، "
إِنَّهُ لَأَحَبُّ الْخَلْقِ إِلَيَّ
" پوری مخلوق میں میرا محمد مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے،
"اُدْعُنِي بِحَقِّهِ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكَ
" تونے میرے محمد کا وسیلہ دے کر مانگا ہے تو میں نے تجھے معاف کردیا ہے۔ "
وَلَوْلَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُكَ"
اگر محمد نہ ہوتے تو میں تمہیں پیدا ہی نہ کرتا۔
المستدرک علی الصحیحین للحاکم: ج3 ص517 رقم الحدیث 4286
ہم قرآن و حدیث دونوں کو مانتے ہیں:
میں نے کہاہم منکر حدیث تو نہیں کہ قرآن لے لیں اور حدیث چھوڑیں، ہم قرآن والی دعابھی مانتے ہیں اور حدیث والی دعا بھی مانتےہیں۔ وسیلہ دیں توبھی ٹھیک ہے اور وسیلہ نہ دیں توبھی ٹھیک ہے، لیکن وسیلہ کا انکار تو نہ کریں۔
درس قرآن کی آڑ میں احادیث کا انکار:
بعض لوگ یوں قرآن پڑھ کر دھوکہ دیتے ہیں اور لوگ کیا کہتے ہیں ماشاءاللہ جی بڑا درس قرآن ہے۔ کیوں؟ حدیثوں کا انکارہے! یہ کون سا درس ِقرآن ہے جس میں حدیثوں کا انکار کردیا جائے۔ ہم قرآن بھی مانتے ہیں اور ہم احادیث بھی مانتے ہیں، اور یادرکھیں کوئی قرآن کا انکار کرے تب بھی ایمان ختم ہوتا ہے اور کوئی حدیث کا انکار کرے تب بھی ایمان ختم ہوتاہے، تو ایک دعا قرآن میں ہے اور ایک دعا حدیث میں ہے، ہم قرآن والی دعابھی مانتے ہیں اور حدیث والی دعا بھی مانتے ہیں، دونوں مانتے ہیں۔
نماز کا ادب:
﴿یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ خُذُوۡا زِیۡنَتَکُمۡ عِنۡدَ کُلِّ مَسۡجِدٍ وَّ کُلُوۡا وَ اشۡرَبُوۡا وَ لَا تُسۡرِفُوۡا ۚ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الۡمُسۡرِفِیۡنَ ﴿٪۳۱﴾﴾
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نماز کا ادب بیان فرمایا۔ فرمایا کہ جب تم نماز پڑھنے لگو اور نماز پڑھنے کے لیے مسجد جانے لگو تو
:﴿یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ خُذُوۡا زِیۡنَتَکُمۡ عِنۡدَ کُلِّ مَسۡجِدٍ﴾
فرمایا: تم لباس اچھا پہننا، صرف یہ نہیں فرما یا کہ لباس پہننا، بلکہ فرمایا لباس اچھا پہننا،
﴿کُلُوۡا وَ اشۡرَبُوۡا﴾
کھایا بھی کرو اور پیا بھی کرو، ﴿وَ لَا تُسۡرِفُوۡا﴾ لیکن اعتدال سے بڑھا نہ کرو، میں دونوں لفظوں پہ بات کرتاہوں۔
﴿خُذُوۡا زِیۡنَتَکُمۡ﴾ جب نماز کے لیے جاؤ، ﴿عِنۡدَ کُلِّ مَسۡجِدٍ ﴾ مسجد سے مراد ”صلوٰۃ“ ہے، جب نماز پڑھنے کے لیے جاؤ تو کپڑا کون سا پہنو؟ صرف لباس یا اچھا لباس؟[اچھا لباس۔سامعین] صرف لباس نہیں بلکہ اچھا لباس پہنناہے۔
ہمارے مزاج اور فقہی مسئلہ:
اس لیے فقہاء نے لکھا ہے اگر لباس اچھا نہ ہو اور آدمی نماز پڑھے ایسے لباس سے نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ ہمارے ہاں مزاج کیا ہے، جو لباس رات کو پہن کے سوتے ہیں صبح اسی لباس کے ساتھ مسجد میں جاتے ہیں، نماز پڑھ لیتے ہیں، اور جب دفتر جاتے ہیں تو لباس بدل لیتے ہیں، ایسے لباس میں نماز پڑھنا مکروہ ہے جس لباس کو پہنتے ہوئے مجمع میں جانے سے آپ کو شرم محسوس ہو۔
اچھا لباس کب پہنیں؟:
بڑا تعجب ہوتا ہے ہم فجر میں اٹھتے ہیں اور کپڑے بالکل تیار ہیں پھر بھی نہیں پہنتے۔کہتے ہیں میں ذرا نماز پڑھ آؤں،نماز پڑھ لی اب ناشتہ کرنا ہے، ناشتہ کیا پھرکہے گا ذرا کپڑا لے آ، مجھے اب بازار جانا ہے۔ بھئی کدھر جانا ہے؟ شادی میں، میں ذرا نماز پڑھ لوں پھر کپڑے بدلتا ہوں، کیونکہ وضو کرتے ہیں پھر خراب ہوجاتے ہیں، عجیب بات نہیں ہے!
قرآنی حکم:
میں اس لیے کہتاہوں کہ قرآن سمجھ لیا کریں،
﴿خُذُوۡا زِیۡنَتَکُمۡ عِنۡدَ کُلِّ مَسۡجِدٍ ﴾
صرف لباس نہیں پہننا بلکہ زینت والا لباس پہننا ہے۔
لباس کی دو بنیادی خوبیاں:
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿قَدۡ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡکُمۡ لِبَاسًا یُّوَارِیۡ سَوۡاٰتِکُمۡ وَ رِیۡشًا﴾
کہ دیکھو اللہ تعالیٰ نے جو تمہیں لباس عطاکیا ہے نا، اس میں دو خوبیاں ہیں:
نمبر 1:
﴿یُّوَارِیۡ سَوۡاٰتِکُمۡ﴾
ستر عورت جس سے پردہ پوشی ہو۔
نمبر2:
﴿رِیۡشًا﴾
لباس زینت کا ذریعہ ہو۔
پردہ پوشی بھی ہو اور زینت بھی ہو۔ نماز میں پردہ پوشی کابھی خیال کرو اور زینت کا بھی خیال کرو۔ اللہ تعالیٰ کے دربار سے دنیا کا کون سا دربار بہتر ہے؟ اس لیے میری آپ سے گزارش ہے کہ یہ نیت کریں کہ جب مسجد میں آئیں گے تو اچھے سے اچھا لباس پہن کر آئیں گے۔
مسجد کے آداب:
مسجد میں آئیں تو خوشبو لگاکر آؤخوشبو کوئی مہنگی تو نہیں ہے، بہت زیادہ مہنگی خوشبو نہیں خریدسکتے توسستی ہی خریدلو، دو تین مہینے نکل جاتے ہیں، آدمی اچھی خوشبو کا اہتمام کرے۔
قرآن سے ماخوذ ایک فقہی اصول:
آگے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَّ کُلُوۡا وَ اشۡرَبُوۡا وَ لَا تُسۡرِفُوۡا﴾
کھاؤ اور پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو، مفتی شفیع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے فرمایا کھاؤ، اور پیو یہ نہیں فرمایا کہ کیا کھاؤ اور کیا پیو، کیوں؟ فرماتے ہیں کہ یہاں سے ایک اصول نکلا، میں گرائمرکی اور تفصیلی بات نہیں کرتا، اصول یہ نکلا ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا کھاؤ یہ نہیں فرمایا کیا کھاؤ۔اللہ تعالی ٰنے فرمایا پیو یہ نہیں فرمایا کہ کیا پیو۔ اس سے اصول یہ نکلا کہ تمام اشیاء میں اصل اباحت ہے، تمام اشیاء میں اصل جواز ہے، تمام اشیاء ایمان والوں کے لیے حلال ہیں، حلال پر دلیل نہیں چاہیے، حرام پر دلیل چاہیے۔
تقویٰ کا ہیضہ:
بعض لوگ متقی نہیں ہوتے بلکہ ان کو تقویٰ کا ہیضہ ہوتاہے۔ وہ بلاوجہ بعض حلال چیزوں کو بھی حرام کہتے ہیں۔ تو حلال چیزوں کو حرام نہ کہو، تمام اشیاء میں اصل جواز، حلت، اور اباحت ہے۔ حرام پر دلیل چاہیے ، حلال پر دلیل نہیں چاہیے۔
دنیا میں جتنی بھی چیزیں خدا نے پیدا کی ہیں وہ سب انسانوں کے لیے حلال ہیں، اور جو جو حرام ہیں، خنزیر سے بچو حرام ہے، دم مسفوح سے بچو حرام ہے، مردار سے بچو حرام ہے۔ فلاں چیز سے بچو جو حرام ہے، تو جو جو چیزیں حرام تھیں سب بتادیں اور ان سب کے علاوہ بقیہ حلال ہیں۔ اس لیے جب تک حرمت پہ دلیل نہ ہوتو بلاوجہ چیزوں کو حرام نہ کہا کرو۔
شریعت کا مزاج…… عہد فاروقی کا ایک واقعہ:
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے ساتھ ایک جنگل کے ساتھ گزر رہے تھے۔ جنگل میں پانی موجود نہیں تھا، ایک جگہ پر پہنچے وہاں پر پانی مل گیا، پانی کھڑا ہوا تھا، صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کو ضرورت تھی کہ وضو کریں اور پانی پییں، ایک دیہاتی آدمی وہاں جنگل میں تھا ایک صحابی نے آواز لگا کر پوچھنے لگے بھائی ہماری ایک بات سنو، اس نے کہا وہ کیا؟ تو اس صحابی نے کہا ہمیں یہ بتاؤ اس پانی سے درندے پانی تو نہیں پیتے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا انہیں نہ بتانا فرمایا بھئی جب چیز خدا نے حلال دی ہے، توتم بلاوجہ پوچھ کرحرام کیوں کرتے ہو؟ تمہیں پانی کی ضرورت تھی تمہیں مل گیا، اور تم نے تفتیش شروع کردی ہے۔ پانی کا استعمال شروع کردو اگر کوئی بندہ کہے کہ درندہ منہ ڈالتا ہے تو چھوڑدینا، جب تک نہ کہیں استعمال کرنا۔
یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سوچ ہے، یہ بات آپ کی سمجھ میں کیوں نہیں آنی اس لیے کہ آپ کو گھرمیں پانی تازہ مل جاتا ہے،گھر میں نہ ملے اور ضرورت پڑے تو آپ کو باہر بازار سے پانی مل جائے گا۔ پانی نہ ملے نا تو اس وقت سمجھ آتا ہے شریعت کے اس مسئلے کی حقیقت کیا ہے۔ بسا اوقات بندہ کو مال ملتا ہے نا تو بندے کو یہ مثالیں سمجھ نہیں آتیں۔
بھوکا کیوں مانگتا ہے؟:
کہتے ہیں کہ ایک گاڑی جارہی تھی۔ ٹریفک سگنل پر گاڑی رکی ، ایک مانگنے والا آیا کہ مجھے کچھ دےدو روٹی کھانی ہے، اب بچہ اپنے باپ سے پوچھتا ہے، یہ کیا کہتا ہے؟ اس نے کہا بیٹا یہ پیسے مانگتا ہے، بیٹے نے کہا یہ کیوں مانگتا ہے؟ کہا بیٹا اس کو بھوک لگی ہےروٹی کھانے کے لیے مانگ رہا ہے۔ توبیٹے نے کہا ابو پھر پرا ٹھے کھالے مانگتا کیوں ہے؟ اس نے کہا بیٹا تو ٹھیک کہتا ہے!
جب آدمی منرل واٹر کے علاوہ کوئی پانی ہی نہ پیتاہواس کو یہ بات کیا سمجھ آئےگی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا مت بتاؤ، پانی استعمال کرو جب کوئی کہے گا درندے منہ ڈالتے ہیں تو پھر چھوڑدینا۔ یہ اس کو سمجھ نہیں آتی جو صبح اورشام منرل واٹرپیتا ہو۔
اعتدال کا کیا مطلب؟:
میں کہہ رہاتھا :
﴿وَّ کُلُوۡا وَ اشۡرَبُوۡا وَ لَا تُسۡرِفُوۡا﴾
کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اعتدال کا خیال کرو۔ اعتدال کا کیا مطلب؟ فقہائے کرام نے ایک مسئلہ لکھا ہے کہ کھانے کا ایک لقمہ جس کےبارے میں آپ کو پتا ہو کہ یہ بیماری کا سبب بنتا ہے اس ایک لقمہ کا کھانا حرام ہے۔ یہ ہے:
﴿وَ لَا تُسۡرِفُوۡا﴾
اور جب یہ خدشہ نہ ہو تو آپ جتنا کھا سکتے ہو کھالو اس پر شریعت آپ کومنع نہیں کرتی اور پابندی بھی نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ ہر جگہ پر موجود ہیں:
﴿اِنَّ رَبَّکُمُ اللہُ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ ۟ یُغۡشِی الَّیۡلَ النَّہَارَ یَطۡلُبُہٗ حَثِیۡثًا ۙ وَّ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ وَ النُّجُوۡمَ مُسَخَّرٰتٍۭ بِاَمۡرِہٖ ؕ اَلَا لَہُ الۡخَلۡقُ وَ الۡاَمۡرُ ؕ تَبٰرَکَ اللہُ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۵۴﴾﴾
ہمارا اھل السنۃ والجماعۃ کا نظریہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کےنبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینے میں ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فیض ہرجگہ پر ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات ہرجگہ پر ہے۔ یہ ہمارا نظریہ ہے۔
جب اللہ عرش پر مستوی ہیں تو……؟:
بعض لوگ کہتے ہیں نہیں اللہ کی ذات ہر جگہ پر نہیں، وہ سورۃ الاعراف کی آیت
﴿اِنَّ رَبَّکُمُ اللہُ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ ۟ یُغۡشِی الَّیۡلَ النَّہَارَ یَطۡلُبُہٗ حَثِیۡثًا ۙ وَّ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ وَ النُّجُوۡمَ مُسَخَّرٰتٍۭ بِاَمۡرِہٖ ؕ اَلَا لَہُ الۡخَلۡقُ وَ الۡاَمۡرُ ؕ تَبٰرَکَ اللہُ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴾
بطور دلیل آپ کے سامنے پیش کریں گے، بھئی اگر اللہ ہر جگہ پر ہیں تو قرآن نے کیوں کہا: ﴿ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ﴾ اللہ عرش پر مستوی ہے اگر ہرجگہ پر ہے تو عرش پر مستوی کیسے ہے؟
جواب:
ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہرجگہ پر ہیں۔ تو بتاؤ جب ہرجگہ پر ہیں توعرش پربھی ہیں؟ [جی ہاں۔ سامعین ]تو یہ آیت ہماری دلیل یا ہمارے خلاف بنے گی؟ یہ آیت ہمارے عقیدہ ہرجگہ ہونے کے خلاف ہے؟ [نہیں۔ سامعین ]جب ہرجگہ ہیں تو عرش پر بھی ہیں۔ تو یہ آیت ہمارے خلاف نہیں یہ تو ہماری دلیل ہے۔پھر ایک بندہ آپ سے کہے گا کہ جب اللہ ہرجگہ پر ہے تو اللہ تعالی نے کیوں فرمایا : ﴿ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ﴾ اللہ مستوی علی العرش ہے اللہ تعالیٰ اتنا کہہ دیتے کہ اللہ ہرجگہ پر ہے؟
اللہ کے ہرجگہ ہونے پر قرآنی دلائل:
اور دلائل قرآن کریم میں موجود ہیں کہ خدا تعالیٰ ہرجگہ پر ہیں۔
[1]: ﴿وَ لِلہِ الۡمَشۡرِقُ وَ الۡمَغۡرِبُ ٭ فَاَیۡنَمَا تُوَلُّوۡا فَثَمَّ وَجۡہُ اللہِ ؕ اِنَّ اللہَ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۱۱۵﴾﴾
البقرۃ 2: 115
مشرق بھی اللہ کا اور مغرب بھی اللہ کا، تم جدھر رخ پھیروگے وہاں اللہ تعالیٰ موجود ہیں۔
[2]: قرآن کریم میں ہے :
﴿مَا یَکُوۡنُ مِنۡ نَّجۡوٰی ثَلٰثَۃٍ اِلَّا ہُوَ رَابِعُہُمۡ﴾
تم تین ہو تو چوتھا اللہ ہے ،
﴿وَ لَا خَمۡسَۃٍ اِلَّا ہُوَ سَادِسُہُمۡ﴾،
تم پانچ ہو تو چھٹا اللہ ہے،
﴿وَ لَاۤ اَدۡنٰی مِنۡ ذٰلِکَ وَ لَاۤ اَکۡثَرَ اِلَّا ہُوَ مَعَہُمۡ اَیۡنَ مَا کَانُوۡا﴾
تم کم ہو یا زیادہ اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہے۔
المجادلۃ58: 7
[3]: قرآن کریم میں ہے:
﴿وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ﴾
البقرۃ 2: 186
میرے پیغمبر! اگر میرے بندے پوچھیں کہ میں کہاں ہوں؟ انہیں بتاؤ خدا قریب ہیں۔ اگر پوچھیں کتنا قریب ہیں؟ تو بتانا:
﴿وَ نَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَیۡہِ مِنۡ حَبۡلِ الۡوَرِیۡدِ ﴿۱۶﴾﴾
تمہارے شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔
ق50: 16
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہارے شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں۔
اللہ شہ رگ سے زیادہ قریب کیسے ہیں؟:
ذرا اس میں ایک نکتہ سمجھنا، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ لامثال ہیں، خدا کی مثال دے نہیں سکتے، لیکن اگر میں تمہیں مثال نہ دوں تو آپ لوگ بات کو سمجھیں گے نہیں، یہ حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ کے لفظ ہیں۔ فرمایا مثال سمجھو!
اللہ تعالیٰ شہہ رگ سے زیادہ قریب ہیں اس کی مثال کیا ہے، ایک کاغذ دوسرے کاغذ سے ملا ہے، اور درمیان میں گوند لگی ہے، کاغذ کاغذ سے ملا بواسطہ گوند ہے، اور گوند کاغذ سے ملی بلاواسطہ ہے، فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ شہ رگ سے زیادہ قریب ہیں، ایک بندہ اور ایک بندہ کی شہ رگ ہیں، بندہ اور شہ رگ آپس میں ملے ہیں لیکن بواسطہ خدا ملے ہیں، اگر خدا نہ ہو تو یہ شہ رگ اور بندہ مل سکتے ہی نہیں ہے، اگر دوکاغذوں کے درمیان گوند نہ ہودونوں کاغذ ایک دوسرے سے مل سکتے ہی نہیں ہیں، تو جس طرح گوند کاغذ سے بلاواسطہ ملتی ہے، کاغذاورکاغذ آپس میں بواسطہ گوند ملتے ہیں، اسی طرح شہ رگ بندے سے بواسطہءِ خدا ملتی ہے۔ اور خدا شہ رگ سے بلاواسطہ ملتاہے۔
﴿ وَ نَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَیۡہِ مِنۡ حَبۡلِ الۡوَرِیۡدِ ﴿۱۶﴾﴾
اللہ تعالیٰ شہ رگ سے زیادہ قریب ہیں۔
مستوی ہونے کا مطلب:
میں سوال کا جواب دے رہاتھا کہ جب اللہ ہرجگہ پر ہیں تو مستوی علی العرش کیوں فرمایا؟ اس کا جواب سمجھنا مستوی کا معنی ہے کہ اللہ تعالی عرش پہ غا لب ہے۔ یہ کیوں فرمایا، میں مثال دوں گا تو بات سمجھ آئے گی، ایک بچے کے باپ کے پاس سائیکل ہے اور دوسرے بچے کے باپ کے پاس سائیکل اور موٹرسائیکل ہیں، اور تیسرے لڑکے کے باپ کے پاس سائیکل، موٹرسائیکل اور گاڑی تینوں ہیں۔
ایک کہتا ہے میرے ابو کے پاس سائیکل ہے اور دوسرا کہتا ہے میرے ابو کے پاس اسکوٹر ہے اور تیسرا کہتا ہے میرے ابو کے پاس کار ہے۔ اب دیکھو کار تو کہتا ہے یہ سائیکل اور موٹرسائیکل کی بات نہیں کرتا، کیوں؟ بھئی سائیکل اور موٹرسائیکل تو ان کے پاس بھی ہے لیکن کارتو ان کے پاس نہیں تھی نا! اس لیےاس نے کار کانام لیا، سائیکل اور موٹرسائیکل کا نام نہیں لیا۔
ظاہری ملکیت اور حقیقی ملکیت:
اللہ تعالیٰ فرمائیں مکان میرا ہے، کوئی بندہ کہہ دے گا نہیں مکان میرا ہے، ظاہری ملک تو میری ہے نا! اللہ تعالیٰ فرمائیں پانی میرا ہے، کوئی بندہ کہہ دے گا ایک تالاب میرے پاس بھی تو ہے، ظاہری ملک تو اس کی ہے نا! اللہ تعالی ٰفرماتے ہیں کائنات کا مالک میں ہوں، ایک بندہ کہتا ہے کہ پلازے کامالک میں ہوں، کچھ تو بتائے گا! خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا۔ بلکہ فرمایا :
﴿ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ﴾
تم زمین کی بات کرتے ہومیرا تو عرش پر بھی غلبہ ہے۔
اوریہ صاحب یہ عقیدہ بنا کر بیٹھا ہے کہ خدا عرش پہ رہتا ہے (العیاذ باللہ) اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ عرش پہ ہے، اس کامعنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پہ غالب ہیں، اللہ تعالیٰ کی عرش پہ حکومت ہے۔
فرعونی تدبیریں ناکام ہو گئیں:
﴿وَ اُلۡقِیَ السَّحَرَۃُ سٰجِدِیۡنَ ﴿۱۲۰﴾ۚۖ قَالُوۡۤا اٰمَنَّا بِرَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۲۱﴾ۙ رَبِّ مُوۡسٰی وَ ہٰرُوۡنَ ﴿۱۲۲﴾﴾
حضرت موسی ٰعلیہ السلام نے اعلان نبوت فرمایا، توحید کا اعلان فرمایا، فرعون اور اس کے درباری بہت پریشان ہیں کہ یہ جادوگر ہیں۔ کیوں؟ انہوں نے معجزہ کو جب دیکھا تو اس کو جادو کہہ دیا، حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا تمام جادوگروں کو جمع کرو ہم مقابلہ کرلیتے ہیں، ادھر سے سترہزار جادوگرہیں ادھر موسی علیہ السلام اکیلے مقابلے میں کھڑے ہیں۔ انہوں نے رسیاں پھینکیں وہ سانپ بنے نہیں ہیں، لیکن سانپ نظر آئے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی لاٹھی پھینکی ہے، وہ سانپ نظر نہیں آیا ہے بلکہ سانپ بنا ہے۔ اس نے سب کچھ ہڑپ کرلیا۔
قرآن کریم میں ہے جتنے جادوگر تھے وہ سمجھتے تھے کہ موسیٰ علیہ السلام کاجادو نہیں ہے، جادو والا سمجھتا ہے، یہ سامنے معجزہ ہے۔
جب جادوگر ایمان لے آئے:
قرآن نے کہا :
﴿وَ اُلۡقِیَ السَّحَرَۃُ سٰجِدِیۡنَ ﴿۱۲۰﴾ۚ﴾
وہ سارے جادوگر جو تھےسب سجدے میں گرگئے۔ سورۃ الاعراف میں ہے ان جادوگروں نے کہا:
﴿اٰمَنَّا بِرَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۲۱﴾ۙ﴾
ہم رب العٰلمین پر ایمان لاتے ہیں۔ آگے فرمایا:
﴿رَبِّ مُوۡسٰی وَ ہٰرُوۡنَ ﴿۱۲۲﴾﴾
موسیٰ اور ہاورن کے رب پر ایمان لائے ہیں۔ صرف اتنا کیوں نہیں کہا کہ رب العٰلمین پر ایمان لائے ہیں؟ یہ کیوں کہا موسی اور ہارون کے رب پر ایمان لاتے ہیں؟
اگر وہ صرف کہتے کہ رب العٰلمین پر ایمان لائےہیں تو فرعون کہتا رب العٰلمین تومیں ہوں! دیکھو مجھے یہ بھی مان گئے ہیں، کہا نہیں نہیں ہم اس رب العٰلمین پر ایمان لائے ہیں جو ہارون اور موسیٰ علیہما السلام کا رب ہے۔ ہم تجھے نہیں مانتے اسے مانتے ہیں۔
بسا اوقات وضاحتی بیان دینا ضروری ہوتا ہے:
جب وضاحت کرنی پڑے پھر مسئلہ کھول کے بیان کرنا اگر نہیں کھولوگے تو الجھن ہوگی، اگر وہ درباری کہتے :
﴿اٰمَنَّا بِرَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴾
رب العٰلمین پر ایمان لائے ہیں، فرعون کہتا یہ میرے ہیں، انہوں نے کہا نہ نہ صرف رب العٰلمین نہیں بلکہ
﴿رَبِّ مُوۡسٰی وَ ہٰرُوۡنَ﴾
کہہ کر بتایا ہم تیرے نہیں ہم موسیٰ اور ھارون کے ہیں۔ ہم تیرے گروپ کے نہیں فلاں گروپ کے ہیں۔
معراج جسمانی تھا محض روحانی نہیں:
اھل السنۃ والجماعۃ کا نظریہ یہ ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج جسمانی ہوئی ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں معراج جسمانی نہیں روحانی ہوئی ہے، آپ کہیں کہ نہیں نہیں ہم صرف معراج نہیں کہتے بلکہ ہم معراج جسمانی کہتے ہیں تاکہ الجھن ختم ہوجائے کہ ہم کون ہیں۔
حیات النبی کا شفاف عقیدہ:
الحمد للہ آج فضا بدل گئی ہے وہ لوگ بھی کہتے ہیں ہم بھی تو حیات کے قائل ہیں ہم کون سے منکر ہیں؟ آپ ان سے پوچھیں کہ تم کون سی حیات کو مانتے ہو؟ حضور کا زمین والا جسم زندہ مانتے ہو یا صرف روح کوزندہ مانتے ہو؟ وہ کہے گا نہیں نہیں میں زندگی مانتا ہوں لیکن برزخی۔ آپ کہیں برزخی تو میں بھی مانتا ہوں۔ جھگڑا یہ نہیں ہے کہ برزخ میں زندہ ہیں۔ یہ بتا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی روح زندہ ہے یا جسم زندہ ہے؟ کہے گا جی روح۔ ہم نے کہا تو ہمارا نہیں ہے، ہم کہتے ہیں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم برزخ میں زندہ ہیں صرف روح نہیں بلکہ جسد مبارک بھی زندہ ہے۔
جیسے فرعون کےدربارمیں سترہزارجادوگروں نے یہ نہیں کہا:
﴿اٰمَنَّا بِرَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴾
رب العٰلمین کہتے تو فرعون کہتا یہ میرے ہیں۔بلکہ کہا :
﴿رَبِّ مُوۡسٰی وَ ہٰرُوۡنَ﴾
اسی طرح ہم بھی صرف برزخی نہیں کہتے بلکہ برزخ کے ساتھ دنیا والے جسم کو بھی زندہ مانتے ہیں۔
حیات جسمانی اور حیات برزخی:
کوئی بندہ برزخی مانے اور دنیاوی جسم کو زندہ نہ مانے وہ حیاتی نہیں ہے، وہ حیات کا قائل نہیں ہے وہ تمہیں دھوکہ دیتا ہے، اس لیے وہ تمہیں کہے گا حیات یہ بھی مانتا ہےاور میں بھی مانتا ہوں، یہ حیات ادنیٰ مانتے ہیں ہم اعلی مانتے ہیں۔
آپ متاثر نہ ہوناکہ علامہ صاحب نے بڑی دلیل دی ہے، یہ حیات ادنیٰ مانتاہے اورہم اعلیٰ مانتے ہیں،اعلیٰ کون سی ہے؟ کہتے ہیں ہم تو حضورکو جنت الفردوس میں زندہ مانتے ہیں، اوپر مانتے ہیں۔ ہم نے کہا حضور تو نیچے ہیں اوپر تو کیسے زندہ مانتا ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اوپر ہیں یا مدینہ میں ہیں؟ [مدینہ میں ہیں۔ سامعین] تو اوپر کیسے زندہ مانتا ہے؟ دیکھو جی دھوکہ کتنا ہے؟ ہم تو اعلیٰ زندگی مانتے ہیں اور یہ ادنی ٰزندگی مانتے ہیں۔
اہل السنت والجماعت کا عقیدہ:
ہم جنت الفردوس میں مانتے ہیں اور یہ روضہ میں مانتے ہیں۔ ہم نے کہا نہ جہاں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا جسد اطہر ہے اس قبر کے مٹی کے ذرے جو حضور کے وجود سے ملے ہیں وہ جنت الفردوس سے بھی اعلیٰ ہیں۔اعلیٰ یہ نہیں ہے کہ اوپر مان، اعلی یہ ہے کہ وہاں مان جہاں حضور رہتے ہیں۔ اس دھوکے میں مت پڑو۔
﴿اٰمَنَّا بِرَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۲۱﴾ۙ رَبِّ مُوۡسٰی وَ ہٰرُوۡنَ ﴿۱۲۲﴾﴾
انہوں نے کہا: ہم موسیٰ کے رب پر ایمان لائے ہیں۔ صرف رب العٰلمین نہیں کہا۔ صرف رب العٰلمین کہتے تو فرعون نے دھوکہ دینا تھا۔ اسی طرح اگر تم برزخی حیات کہوگے تمہیں مماتی نے دھوکہ دینا ہے۔ اس لیے کہو ہم حضور کو زندہ مانتے ہیں لیکن زمینی قبر روضہ مبارک میں زندہ مانتے ہیں۔
عملی زندگی میں عقیدہ حیات النبی کی اہمیت:
ایک شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ مولانا صاحب اگر زندہ نہ مانیں تو اس سے عملی زندگی میں کیا فرق پڑتا ہے؟ پریکٹیکل لائف میں کیا فرق پڑتا ہے؟ میں نے کہا اگر تمہیں پتا ہو کہ تمہارے ادارے کو باس چیک کرتاہے، اور یہ پتا ہو کہ چیک نہیں کرتا، فرق پڑتا ہے کہ نہیں؟ کسی شاپ کو ہیڈکوارٹر کو چیک کرتا ہو تو فرق پڑتاہے کہ نہیں پڑتا؟ یہ پتا ہوکہ اعمال پیش ہوتے ہیں اور یہ پتا نہ ہو کہ اعمال پیش ہوتے ہیں فرق پڑے گا کہ نہیں؟ فرق تو پڑتا ہے!
عرضِ اعمال کا عقیدہ:
جب عقیدہ ہوکہ سوموار کو میرے اعمال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خدمت پیش ہونے ہیں، تو حیا بھی کروں گا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف نہ ہو۔ میں نے کہا کیوں فرق نہیں پڑتا؟ تو اپنے گھر جائیں اور آپ کے والد صاحب بہرے ہوںتب سلام کرنے کا مزہ آتا ہے یا سنتے ہوں تو مزہ آتا ہے؟
کہتا ہے سنتے ہیں تب مزہ آتا ہے۔ میں نے کہا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضے پہ جائے اور تیرا عقیدہ ہو کہ نہیں سنتے تجھے سلام میں لطف کیا آنا ہے؟ لطف تب آئے گاجب یہ عقیدہ ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سنتے بھی ہیں اور جواب بھی دیتے ہیں۔ کہنے لگا جواب دیتے ہیں؟ میں نے کہا جی ہاں! کہتا ہے ہم سنتے نہیں ہیں؟ میں نے کہا بھئی ہرکسی کو سنائی نہیں دیتا۔
حضرت مدنی کا عقیدہ:
شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ گئے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضے پہ اور کہتے ہیں ”
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا جَدِّیْ!“
روضے سے جواب آتا ہیں ”
وَعَلَیْکَ السَّلَامُ یَا وَلَدِیْ
!“ تجھے اور مجھے جواب سنائی نہ دے اس کا مطلب یہ ہے کہ سنتے ہی نہیں ہیں؟ بھئی ہمیں آواز آئے تب بھی سنتے ہیں اور اگر ہمیں آواز نہ آئے تب بھی سنتے ہیں۔
سماع باری تعالیٰ اور سماع النبی:
آپ ایک بار کہیں”اللہ“ کیا اللہ تعالیٰ نے سنا؟ اور جواب بھی دیا؟ جب آپ کو سنائی نہیں دیا تو کہہ دیں اللہ نہیں سنتا! کیونکہ ہم نے جو نہیں سنا، ہم خدا تعالیٰ کانام بھی لیتے ہیں اور خدا تعا لیٰ جواب بھی دیتے ہیں، ہم نہیں سنتے اس کامطلب کیا یہ ہے کہ خدا نے جواب ہی نہیں دیا؟
درود پڑھنے کا لطف کب آئے گا؟:
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے روضے پہ درود پڑھ اس نیت سے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سنتے ہیں، پھر دیکھ پڑھنے کا مزہ کتنا آتا ہے۔ تیرے آنکھ سے آنسو نکلے جب یہ ذہن تو ہو نا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم روضے میں سنتے ہیں۔ میں نے کہا جب سنتے نہیں تو وہاں جاتا کیوں ہے؟
روضہ پر صلوٰۃ و سلام:
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ پہ جا کر
”اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللہِ
“ کہنا ہے۔ چلو اس کو اگر تو نہیں مانتا صرف سلام کو مانتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روضے پہ جاکر کہے
: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ
؟ کہتا ہے جی مانتاہوں۔ میں نے کہا جب سنتے نہیں تیرے عقیدے کے مطابق تو کیوں مانتا ہے؟ تو کہتاہے جی یہ تو دعاہے۔ میں نے کہا پھر روضہ پہ نہ جانا، دعا ادھر سے مانگ لے ادھر منہ کر اورکہہ دے
”اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ
“ لوگ پوچھیں کیوں؟ کہو جی یہ تو دعاہی ہے وہاں کے بجائے میں نے یہاں مانگ لی ہے۔ تو کہہ پھر ہمیں پتا چلے تجھ میں اور ان میں کیا فرق ہے۔
خوش بختوں کو جواب بھی سنائی دیتا ہے:
کہنے لگا اگر سنتے ہیں تو جواب کیوں نہیں سنائی دیتا؟ تو میں نے کہا حضرت حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر گئے ہیں، سلام کیا: ”اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا جَدِّیْ!“ جواب آیا: ”وَعَلَیْکَ السَّلَامُ یَا وَلَدِیْ!“
آپ نے اللہ اکبر کہا اللہ نے سنا؛یا نہیں سنا؟ جواب دیا؛ یا نہیں ؟ آپ نے سنا نہیں تو اس کا کیا مطلب ہے انہوں نے جواب ہی نہیں دیا؟
شریعت نہ ماننے والے جانوروں سے بدتر:
﴿وَ لَقَدۡ ذَرَاۡنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیۡرًا مِّنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ ۫ لَہُمۡ قُلُوۡبٌ لَّا یَفۡقَہُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اَعۡیُنٌ لَّا یُبۡصِرُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اٰذَانٌ لَّا یَسۡمَعُوۡنَ بِہَا ؕ اُولٰٓئِکَ کَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡغٰفِلُوۡنَ ﴿۱۷۹﴾﴾
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اگر یہ بات نہیں مانتے یہ جانور کی طرح ہیں۔ آگے فرمایا نہیں نہیں بلکہ یہ جانور سے بھی بدتر ہیں۔ کیا اتنا کہنا کافی نہیں تھا کہ یہ جانور کی طرح ہیں بدتر کیوں فرمایا؟ اس کی وجہ ہے کہ انسان کی دو خصلتیں ہیں، ملکیت اور بہیمیت۔
مزاج انسانی میں دو صفتیں:
تو انسان کے مزاج میں اللہ نے دو صفتیں رکھی ہیں ایک مان کر چلنا اور ایک اپنی من مانی کرنا جانوروں کے مزاج میں ایک صفت ہے من مانی کرنا اور فرشتوں کے مزاج میں ایک صفت ہے مان کر چلنا اور انسان میں دونوں رکھی ہیں اور اختیار پورا دیا ہے کہ چاہے تو مان کر چلے اور چاہے تو اپنی من مانی کرے۔
حضرت یوسف اور زلیخا:
اس کے ساتھ ایک اور بات سمجھتے جائیے حضرت یوسف علیہ السلام پر زلیخافریفتہ ہوگئی مصر کی عورتوں نے طعنہ دیا کہ غلام پر فریفتہ ہوگئی ہے زلیخا نے کہا کہ تم نے غلام کو دیکھا نہیں ہے اگر دیکھ لیتیں تو کبھی طعنہ نہ دیتیں۔ انہوں نے کہاکہ چلو دکھا دو ۔ زلیخا نے دعوت کی اور دستر خوان بچھا دیا۔
عالم الغیب صرف اللہ:
زلیخا نے کہا:
﴿اُخۡرُجۡ عَلَیۡہِنَّ﴾
آپ ذرا باہر تشریف لائیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام باہر آئے ۔ نبی علم غیب نہیں جانتا ان کے علم میں نہیں کہ باہر کون سا تماشا لگا رکھا ہے ۔تو انہوں نے دستر خوان پر سے پھل اٹھائے ہوئے تھے چھریاں ہاتھ میں تھیں اس پر ابھی بات نہیں کرتا انہوں نے جب حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھا تو کہا:
﴿مَا ہٰذَا بَشَرًا ؕ اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا مَلَکٌ کَرِیۡمٌ ﴿۳۱﴾﴾
یہ یوسف بشر نہیں ہے فرشتہ ہے حضرت یوسف علیہ السلام بشر تھے کہ فرشتہ؟
ماھذا بشرا کا جملہ:
انہوں نے کیا کہا بشر نہیں ہیں فرشتہ ہیں انہوں نے بات صحیح کہی تھی یا غلط؟ (غلط) تو اللہ کو انکی بات کی تردید کرنی چاہیے تھی اس کو بیان کیوں نہیں فرمارہے ہیں جب اس کو بیان کیا تو معلوم ہوا کہ ان کاجملہ ٹھیک تھا : ﴿مَا ہٰذَا بَشَرًا﴾، اگر غلط ہوتا تو اللہ تعالی تردید کرتے اللہ نے تردید نہیں کی تو معلوم ہوا جملہ ٹھیک ہے۔
جملے کا صحیح مطلب:
جملے کا مطلب کیا ہے یہ سمجھیں انسان میں دو خصلتیں ہیں فرشتہ پن ڈنگر پن فرشتوں کے مزاج میں ایک ہی ہے مان کر چلنا اور جانوروں میں ایک ہے من مانی کرنا اور انسان کے مزاج میں دونوں ہیں اگر یہ من مانی کرے تو اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہ جانور ہے بلکہ جانور سے بھی بدتر ہے کیونکہ جانور کے مزاج میں مان کر چلنا تھا ہی نہیں انسان کے مزاج میں مان کر چلنا رکھا تھا لیکن پھر بھی من مانی کرے۔
جملے کی وضاحت ایک مثال سے:
مثلاً:آپ کی گاڑی ہے آپ نے پندرہ لاکھ کی لی ہے موٹروے پر جارہے ہیں اے سی نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے اور آپ کے ساتھ دوسری ایک گاڑی جا رہی ہے تیرہ لاکھ کی جو نان اےسی ہے تو اب آپ کہتے ہیں کہ ہماری گاڑی تو نان اےسی سے بھی بدتر ہے کیونکہ اس میں تو اےسی تھا ہی نہیں لیکن اس میں تھا لیکن کام نہیں کر رہا تو اسی طرح انسان کے مزاج میں من مانی کرنا بھی ہے اور مان کر چلنا بھی ہے اور جب یہ من مانی کرے تو جانور سے بھی بدتر ہے کیونکہ جانور کے مزاج میں مان کر چلنا تھا ہی نہیں اس کے مزاج میں تو مان کر چلنا تھا لیکن پھر بھی یہ من مانی کرتا ہے تو یہ جانور سے بھی بدتر ہے اب اس جملے پر چلیں جو ان عورتوں نے کہا تھا "ماھذا بشرا" کہ یوسف علیہ السلام بشر نہیں بلکہ فرشتہ ہیں اور صرف فرشتہ نہیں بلکہ کریم فرشتہ ہے۔
”معزز فرشتہ“ کا مطلب:
عام فرشتہ نہیں بلکہ کریم فرشتہ ہے۔ کیا معنی حضرت یوسف علیہ السلام انسان ہیں اس کے مزاج میں دونوں صفتیں ہیں مان کر چلنا بھی اور من مانی کرنا بھی تو
﴿مَا ہٰذَا بَشَرًا﴾
کہ یہ وہ بشر نہیں ہے جو من مانی کرتا ہے بلکہ یہ وہ بشر ہے جو مان کر چلتا ہے مان کر چلے تو، ”مَلَکٌ“ ہے لیکن ملک وہ ہوتا ہے جس کے مزاج میں مان کر چلنا ہوتا ہے تو یہ انسان جب مان کر چلے تو فرشتہ اور اس کے مزاج میں من مانی ہے پھر بھی یہ مان کر چلے تو یہ ملک کریم ہے ۔ اگر یہ من مانی کرے تو یہ جانور نہیں بلکہ یہ جانور سے بھی بدتر ہے کیونکہ جانور کے مزاج میں تو صرف من مانی ہے اور اس کے مزاج میں تو مان کر چلنا تھا لیکن یہ پھر بھی من مانی کرتا ہے تو یہ جانور سے بھی بدتر ہے انسان کے مزاج میں دونوں چیزیں ہیں اگر من مانی کرے تو یہ جانور سے بھی بدتر ہے اور اگر مان کر چلے تو فرشتوں سے بھی آگے گزرجاتا ہے۔
نماز میں آمین آہستہ کہیں:
﴿وَ اذۡکُرۡ رَّبَّکَ فِیۡ نَفۡسِکَ تَضَرُّعًا وَّ خِیۡفَۃً وَّ دُوۡنَ الۡجَہۡرِ مِنَ الۡقَوۡلِ بِالۡغُدُوِّ وَ الۡاٰصَالِ وَ لَا تَکُنۡ مِّنَ الۡغٰفِلِیۡنَ ﴿۲۰۵﴾﴾
ہمارے ہاں مسئلہ ہے جب امام صاحب
﴿وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾﴾
کہے تو مقتدی آمین کہے آہستہ یا اونچی (آہستہ ) آہستہ کہنے کی دلیل کیا ہے میں دلیل دینے لگا ہوں دیکھ لینا۔
شوافع کا اعتراف:
ہم آمین آہستہ کیوں کہتے ہیں؟ امام فخرالدین رازی، شافعی المسلک ہیں تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں اور امام شافعی رحمہ اللہ کا مسلک بلند آواز سے آمین کہنا ہے لیکن اس کے باوجود یہ شافعی عالم لکھتے ہیں کہ جب امام ﴿وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾﴾ کہے تو مقتدی آمین آہستہ آواز سے کہے۔ دلیل قرآن مجیدکی یہ آیت مبارکہ ہے اور یہ امام اعظم امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک کا ساتھ دیتی ہے۔
آمین ؛دعا ہے یا اللہ کا نام ہے:
آمین ہے کیا؟ آمین یا تو دعا ہے یا اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ایک اسم ہے۔
[1]: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"آمِيْنَ" اِسْمٌ مِنْ أَسْمَاءِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ"
مصنف عبد الرزاق: ج 2 ص 64 رقم الحدیث 2653
آمین اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔
[2]: امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"وَقَالَ عَطَاءٌ: آمِينَ دُعَاءٌ"
صحیح البخاری: کتاب الاذان، تحت باب جہر الامام بالتامین
امام عطاء رحمہ اللہ جلیل القدر تابعی ہیں، انہوں نے فرمایا: آمین دعا ہے۔
اب یہ دعا ہو یا ذکر، ہر دو صورت میں آہستہ کہیں گے۔ قرآن دعا کے بارے میں کہتا ہے:
﴿اُدۡعُوۡا رَبَّکُمۡ تَضَرُّعًا وَّ خُفۡیَۃً ؕ﴾
اللہ سے دعا آہستہ مانگو۔

اور اگر اللہ کا نام ہو تو قرآن کہتا ہے

:﴿وَ اذۡکُرۡ رَّبَّکَ فِیۡ نَفۡسِکَ تَضَرُّعًا وَّ خِیۡفَۃً﴾

اللہ کا نام لو تو آہستہ لیا کرو۔

الاعراف 7: 205
امام فخرالدین رازی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ آمین آہستہ کہو کیونکہ اگر یہ دعا ہے تو بھی قرآن آہستہ کہنے کا حکم دیتا ہے اور اگر اللہ کا نام ہے تو ذکر کے بارے میں بھی قرآن آہستہ کرنے کا حکم دیتا ہے۔
امام رازی کی دیانت:
امام رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگرچہ میں شافعی المسلک ہوں لیکن دیانت کا تقاضا یہ ہے کہ اس مسئلے میں قرآن امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا ساتھ دیتا ہے اور پھر فرمایا: میں اس مسئلہ میں وہی کہتا ہوں جو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا۔
التفسیرالکبیر للرازی: ج14 ص107
دعا؛ آہستہ یا بلند آواز سے؟
میں نے ایک جگہ بیان کیا اور کہا کہ آمین دعا ہے اور آہستہ آوازسے کرنی چاہیے۔ ایک ساتھی کا فون آیا کہ ایک آدمی نے اپنے رسالے میں مضمون لکھا ہے اور اعتراض کیا ہے اس کا جواب دو۔ میں نے کہا: اعتراض کیا کیا ہے؟ تو اس نے لکھا ہے کہ یہ کہتے ہیں: دعا آہستہ کرنی چاہیے تو پھر رائیونڈ والے اونچی آواز سے کیوں دعا کرتے ہیں۔ سوال تو ٹھیک ہے۔ اب اگر یہ سوال بیان کے بعد آپ سے ہوتو آپ نے پھر پھنس جانا ہے۔ رائیونڈ والے اونچی آواز سے کرتے ہیں تو دعا دو قسم کی ہے؛ ایک وہ جو اپنے لیے کرتے ہیں اور ایک وہ جو دوسروں کے لیے کرتے ہیں اور جب اپنے لیے کرے تو اس کا اور خدا کا معاملہ ہے تو یہاں آہستہ کرنی چاہیے اور رائیونڈ والے بتاتے ہیں کہ میں کیادعامانگ رہاہوں تاکہ دوسروں کو بھی پتا چل جائے کہ کیا دعا ہورہی ہے لیکن جب امام ﴿وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾﴾ کہتا ہے اور یہ آمین کہتا ہے تو اس کی آمین اپنے لیے ہے اس لیے آہستہ آواز سے کرنی ہے اور اگر دوسروں کو ساتھ ملانا ہو تو جہر ہوتا ہے اب بات سمجھ آئی کہ آہستہ آواز سے کیوں کی جاتی ہے۔
مثال سے مسئلہ کی وضاحت:
مثلاابھی بھائی عبدالوحید یوسف کہہ رہے تھے بچوں کے لیے اور ایک عورت بیمار ہے اس کے لیے دعاکرنی ہے تو اب میں اونچی آواز سے کروں گا کہ اللہ بیماروں کو صحت دے تو آپ کہیں گے کہ لو ابھی بیان میں کہا تھا کہ دعا آہستہ آواز میں مانگنی ہے اور اب خود ہی اونچی آواز سے دعا کررہے ہیں تو بھائی جب میں خود دعا مانگوں گا تو آہستہ اور جب آپ ساتھ ہوں گے تو اب دعا اونچی آواز سے نہیں کررہا بلکہ آپ کو بتا رہا ہوں کہ بیماروں کے لیے دعاکریں اب لوگ مسئلہ سنتے نہیں ہیں اعتراض کردیتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ سب کو بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․