سورۃ التوبۃ

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
سورۃ التوبۃ
﴿بَرَآءَۃٌ مِّنَ اللہِ وَ رَسُوۡلِہٖۤ اِلَی الَّذِیۡنَ عٰہَدۡتُّمۡ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ؕ﴿۱﴾﴾
تمہید:
درس قرآن کے لیے ہمارا آج کا موضوع ہے ”مضامینِ سورت توبہ“۔ سورت توبہ لمبی سورت ہے، اس میں 16رکوع اور 129آیات ہیں لیکن ہم نے ایک گھنٹے کے حساب سے تمام آیات کے بجائے منتخب آیات کا خلاصہ آپ کی خدمت میں پیش کرنا ہے تاکہ سورت التوبۃ کے اہم مضامین آپ کے سامنے آ جائیں۔
وجہ تسمیہ سورت:
اس میں پہلی بات تو یہ یاد رکھیں کہ اس سورت کا نام ”سورت توبہ“ بھی ہے اور ”سورت براءۃ“ بھی۔ میں نے کئی بار عرض کیا ہے کہ کسی سورت کا نام کیوں رکھا جاتا ہے اس کو عربی زبان میں کہتے ہیں ”وجہ تسمیہ“ یعنی اس سورت کا یہ نام رکھنے کی وجہ یہ ہے۔ اس سورت کو ”سورت توبہ“ کیوں کہتے ہیں؟ اس لیے کہ اس سورت مبارکہ میں بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی توبہ کا تذکرہ ہے۔ یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم غزوہ تبوک میں شرکت نہ فرما سکے تو انہوں نے بغیر کوئی عذر پیش کیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے معافی مانگی اور اللہ رب العزت نے ان کی معافی کو قبول فرما لیا، ان پر متوجہ ہوئے اور ان کی توبہ کو قبول فرما لیا۔ چنانچہ اس سورت میں آیت
﴿لَقَدۡ تَّابَ اللہُ عَلَی النَّبِیِّ وَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ وَ الۡاَنۡصَارِ﴾
التوبۃ9: 117
اور آیت
﴿وَّ عَلَی الثَّلٰثَۃِ الَّذِیۡنَ خُلِّفُوۡا﴾
کے تحت تفصیل سے ان شاء اللہ یہ واقعہ آئے گا۔
التوبۃ9: 118
اور اس سورت کو ”سورت براءۃ“ کیوں کہتے ہیں؟ اس لیے کہ اس سورت مبارکہ کے آغاز ہی میں اللہ رب العزت نے مشرکین سے براءت اور بیزاری کا اعلان فرمایا ہے۔ تو چونکہ اس سورت میں مشرکین سے براءت کا اعلان ہے اس لیے اس سورت کا نام ہی ”سورت براءۃ“ ہے۔اس سورت مبارکہ کے اکثر مضامین کا تعلق قتال و جہاد اور غزوات کے ساتھ ہے۔
شان نزول:
اس سورۃ کے نزول کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سن چھ ہجری کو عمرہ کی نیت سے مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے، حدیبیہ کے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روک لیا گیا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو روسا ئے مکہ کے ساتھ مذاکرات کےلیے بھیجا۔ بالآخر جو شرائط طے ہوئیں ان میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ اس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس چلے جائیں، آئندہ سال آئیں اور آکر عمرۃ القضاء فرمالیں۔ اس میں ایک بات یہ بھی تھی کہ دس سال تک مسلمان اور مشرکین وکفار آپس میں لڑیں گے نہیں یعنی نہ لڑنے کا معاہدہ تھا۔ اس معاہدہ کی ایک شق یہ بھی تھی کہ دیگر قبائل میں سے جس قبیلے کا جی چاہے مسلمانوں کا حلیف بنے اور جس کا جی چاہے وہ کفار کا حلیف بنے اور جو قبیلہ جس کا حلیف بنے گا وہ ان شرائط کا اسی طرح پابند ہوگا جس طرح مسلمان اور مشرکین اس معاہدے کے پابند ہیں۔
مکہ مکرمہ میں دو قبیلے تھے؛ ایک قبیلہ بنو بکر تھا اور ایک قبیلہ بنو خزاعہ تھا۔ ان میں سے قبیلہ بنو خزاعہ نے مسلمانوں کا حلیف بننے کا عہد کر لیا اور دوسرے قبیلے نے کفار کا حلیف بننے کاعہد کر لیا۔ اب ہوا یہ کہ ابھی ایک سال ہی گزر پایا تھا کہ جس قبیلے نے مشرکین کا حلیف ہونے کا وعدہ کیا تھا انہوں نے مسلمانوں کے حلیف قبیلہ بنو خزاعہ پر حملہ کیا۔ اب ظاہر ہے کہ ان پر حملہ کرنا گویا مسلمانوں پر حملہ کرنا تھا اور ایک قبیلے کا دوسرے پر حملہ کرنے کا معنیٰ یہ تھا کہ معاہدہ ٹوٹ گیا۔ اب مسلمان جب چاہیں کفار سے قتال کریں اور کفار جب چاہیں مسلمانوں سے لڑائی کریں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین مکہ کو پیغام بھیجا کہ یا تو مقتولین کی دیت ادا کریں یا حملہ آوروں سے اعلان براءت کردیں یا معاہدہ کے ختم ہونے کا اعلان کردیں۔ مشرکین نے معاہدہ حدیبیہ کے نسخ کو اختیار کرلیا۔ لیکن بعد میں ان کو بڑی پشیمانی ہوئی۔ تب مشرکینِ مکہ نے ابو سفیان کو بھیجا کہ تم مدینہ منورہ جاؤ! اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تجدیدِ عہد کرو یعنی نیا معاہدہ کرو کہ ہم آپس میں لڑیں گے نہیں۔ ابو سفیان مدینہ منورہ پہنچے اور کئی ایک اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم سے ملے۔ انہوں نے فرمایا: ہمارے بس میں نہیں کہ ہم آپ کی سفارش کریں، ہم نے کئی معاہدے کیے اور تم لوگوں نے ان معاہدوں کو توڑا ہے، اب ہم آپ کی سفارش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں کر سکتے۔
ابو سفیان واپس مکہ پہنچا اور اس نے مکہ والوں کو بتایا تم بھی تیاری کر سکتے ہو تو کرو، مسلمان تیاری کر رہے ہیں اور اب ان کے ساتھ لڑنا شاید ہمارے بس میں نہ ہو۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےسن آٹھ ہجری میں تیاری شروع کی ہےاور دس یا بارہ ہزار کا لشکر لے کر مکہ مکرمہ میں فاتح بن کر داخل ہوئے ہیں۔ فتحِ مکہ کے عنوان سے آپ اس کو سنتے رہتے ہیں اور اپنی جگہ پر جب یہ واقعہ آئے گا تو ان شاء اللہ تفصیل سے میں اس کا تذکرہ کروں گا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار ومشرکینِ مکہ کے خلاف جہاد کی تیاری شروع فرما دی لیکن اس تیاری کو مخفی رکھا۔آہستہ آہستہ یہ بات مشرکینِ مکہ تک پہنچی۔ ان کو شک یہاں سے ہوا کہ جب ہمارے معاہد قبیلے نے بنو خزاعہ پر حملہ کیا ہے اور ہم نے ان کا ساتھ دیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حلیفوں کا بہت زیادہ خیال کرتے ہیں، اللہ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم بدلہ لینے کے لیے مکہ کیوں نہیں آئے؟ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بدلہ لینے کے لیے سفر نہ کرنا اس بات کی علامت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ تیاری شروع فرما دی ہے۔
یہاں بتانا صرف یہ ہے کہ مشرکین نے جب اپنے وعدہ کی خلاف ورزی کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کی تیاری فرمائی اور مشرکینِ مکہ کو اللہ نے صاف صاف اعلان فرما دیا کہ چونکہ عہد تم نے توڑا ہے، پہل تم نے کی ہے تو اب ہماری طرف سے براءت کا اعلان ہے، تم جانو اور ہم جانیں، تم اپنی تیاری کرو ہم اپنی تیاری کریں گے۔ اس لیے اس سورت مبارکہ میں زیادہ تر وہ آیات ہیں جن کا تعلق جہاد،قتال اور غزوات کے ساتھ ہے۔
قبائل کی چار قسمیں:
مشرکینِ مکہ اور گرد ونواح کے جو قبائل تھے بنیادی طور پر ان کی چار قسمیں بنتی ہیں:
[1]: بعض وہ تھے جنہوں نے سن چھ ہجری میں عہد کیا تھا اور بعد میں عہد توڑ دیا تھا۔
[2]: بعض وہ تھے جنہوں نے نہ لڑنے کا عہد کیا تھا اور اپنے عہد پر برقرار رہے۔
[3]: تیسری قسم وہ لوگ تھے جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے معاہدہ تو کیا لیکن معاہدے کی مدت مقرر نہیں تھی کہ ہمارا نہ لڑنے کا یہ معاہدہ کب تک ہے۔
[4]: چوتھی قسم وہ تھے جن کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نہ لڑنے کا کوئی معاہدہ نہیں تھا۔
ان چاروں قِسموں کا حکم:
اللہ رب العزت نے ان چاروں طبقات کے لیے الگ الگ آیات نازل فرمائی ہیں۔
[1، 2]: وہ طبقہ جن کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں تھا یا جن کے ساتھ معاہدہ تو تھا لیکن ان کے ساتھ کوئی خاص مدت مقرر نہیں تھی ان کےلیے اعلان فرمایا:
﴿ بَرَآءَۃٌ مِّنَ اللہِ وَ رَسُوۡلِہٖۤ اِلَی الَّذِیۡنَ عٰہَدۡتُّمۡ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ؕ﴿۱﴾ فَسِیۡحُوۡا فِی الۡاَرۡضِ اَرۡبَعَۃَ اَشۡہُرٍ وَّ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّکُمۡ غَیۡرُ مُعۡجِزِی اللہِ﴾
ان دو طبقات کے لیے تو کھلا اعلان جنگ ہے کہ ہمارا اور تمہارا معاہدہ نہیں تھا یا معاہدہ تو تھا لیکن چونکہ کوئی وقت طے نہیں تھا اس لیے تم بھی آزاد ہو اور ہم بھی آزاد ہیں۔
[3]: وہ جنہوں نے معاہدہ تو کیا ہوا تھا لیکن معاہدے کو خود انہی نے توڑا ہے تو ان کےلیے قرآن کریم میں اعلان فرمایا کہ چار ماہ تک تیاری کرو جو کر سکتے ہو، چار ماہ کے بعد تمہارا اور ہمارا آپس میں میدان سجے گا، اور یہ چار ماہ کی بات کیوں کی ہے؟ یہ چار ماہ وہ تھے جنہیں ”اشہر حرم“ کہتے ہیں یعنی حرمت والے مہینے، ان میں چونکہ لڑنا جائز نہیں تھا اس لیے اللہ رب العزت نے فرمایا:
﴿فَاِذَا انۡسَلَخَ الۡاَشۡہُرُ الۡحُرُمُ فَاقۡتُلُوا الۡمُشۡرِکِیۡنَ حَیۡثُ وَجَدۡتُّمُوۡہُمۡ﴾
کہ جب یہ حرمت والے مہینے ختم ہو جائیں تو یہ لوگ جہاں ملیں انہیں قتل کر دو۔ یہ لوگ کلمہ پڑھیں یا یہاں سے دوڑ جائیں یا ان کو قتل کر دو۔
اور یہ آپ کے ذہن میں ہونا چاہیے کہ جزیرۃ العرب کے جو مشرکین ہیں ان کے لیے قانون عام کفار سے بالکل الگ ہے۔ عام کفار کےلیے قانون یہ ہے کہ کلمہ نہیں پڑھتے تو پھر جزیہ دیں اور اگر جزیہ نہیں دیتے تو پھر قتال کریں لیکن مشرکینِ مکہ اور عربوں کےلیے قانون یہ ہے کہ کلمہ یا قتال ہوگا، جزیہ دے کر وہ زندہ رہیں اس کی ان کےلیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اور جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئیں گے تو پوری دنیا کے لیے یہی ضابطہ ہو گا، اس وقت جزیہ کا قانون ختم ہو جائے گا، یا کلمہ یا قتال ہو گا۔ اس لیے قرآن کریم کی آیات کی رو سے جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئیں گےتو دنیا میں ایک بھی کافر زندہ نہیں رہے گا؛ یا کلمہ پڑھیں گے یا ان کو جہنم رسید کر دیا جائے گا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہ معجزہ ہو گا کہ کفار کو قتل کرنے کےلیے ان کو تلوار چلانے کی حاجت بھی پیش نہیں آئے گی، حضرت عیسیٰ علیہ السلام سانس لیں گے اور جہاں تک ان کے سانس کی ہوا پہنچے گی وہاں تک کافر ختم ہو جائیں گےاور یہ سانس کہاں تک جائے گا جہاں تک ان کی نگاہ کام کرے گی۔ (سبحان اللہ۔ سامعین)
یہ ان کا معجزہ ہو گا اور بہت تھوڑے ہی عرصے میں کفار اس دنیا سے ختم ہو جائیں گے۔ ایک وقت آئےگا کہ صرف کلمہ گو مسلمان اس دنیا میں رہ جائیں گے۔ اللہ رب العزت مجھے اور آپ سب کو فتنوں سے محفوظ رکھے۔ (آمین۔ سامعین)
[4]: جن مشرکین کے ساتھ معاہدہ تھا اور ان لوگوں نے اس معاہدے کی پابندی کی ہے ان کے بارے میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
﴿اِلَّا الَّذِیۡنَ عٰہَدۡتُّمۡ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ثُمَّ لَمۡ یَنۡقُصُوۡکُمۡ شَیۡئًا وَّ لَمۡ یُظَاہِرُوۡا عَلَیۡکُمۡ اَحَدًا فَاَتِمُّوۡۤا اِلَیۡہِمۡ عَہۡدَہُمۡ اِلٰی مُدَّتِہِمۡ﴾
ان کے معاہدے کو پورا کرو، جب مدت پوری ہو جائے گی تو پھر تمہارا اور ان کا اعلان جنگ ہو گا، تمہیں وعدے کی پابندی کرنی چاہیے۔
اور وہ مشرکین کہ جن کے ساتھ -جیسے پہلے میں نے عرض کیا- کہ کوئی وعدہ یا معاہدہ نہیں تھا یا معاہدہ تھا اور تعیین نہیں تھی ان کے لیے فرمایا:
﴿وَ اَذَانٌ مِّنَ اللہِ وَ رَسُوۡلِہٖۤ اِلَی النَّاسِ یَوۡمَ الۡحَجِّ الۡاَکۡبَرِ اَنَّ اللہَ بَرِیۡٓءٌ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ۬ۙ وَ رَسُوۡلُہٗ ؕ﴾
اے میرے پیغمبر! حج کے موقع پر اعلان کروا دیا جائے کہ اللہ اور اللہ کے رسول مشرکین سے بری ہیں، اے مشرکو! تم کلمہ پڑھ سکتے ہو تو پڑھو، اگر کلمہ نہیں پڑھ سکتے تو پھر تمہاری گردنیں کاٹ دی جائیں گی۔ اگر دنیا میں رہنا ہے تو کلمہ پڑھنا ہو گا اس کے علاوہ دنیا میں نہیں رہ سکتے۔
یہ میں نے چار قسم کے مشرکین کا خلاصہ بیان کیا ہے۔
میدانِ عرفات میں براءت کا اعلان:
یہ آیات جب نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کو حکم دیا کہ میدانِ عرفہ میں جب لوگ جمع ہوں گے، سارے قبائل ہوں گے تو آپ نے یہ اعلان کرنا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ یہ تمہارا اعلان تمام قبائل میں پھیل جائے گا، چنانچہ انہوں نے اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اعلان فرمایا ۔
عجیب بات ہے کہ وہ عرفہ کا دن جمعہ کا دن تھا۔ ہمارے ہاں ایک غلط بات مشہور ہے کہ جس حج میں عرفہ جمعہ کا دن ہو تو کہتے ہیں آج کا حج؛ حجِ اکبر ہے حالانکہ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ عربی زبان میں حج کو حجِ اکبر کہتے ہیں اور عمرہ کو حجِ اصغر کہتے ہیں، حج یہ بڑا حج ہے اور عمرہ یہ چھوٹا حج ہے۔
خیر اصل بات میں یہ سمجھا رہا تھا کہ سورۃ براءت میں اللہ تعالیٰ نے چونکہ مشرکینِ مکہ سے براءت کا علان فرمایا ہے اس لیے اس سورۃ کا نام سورۃ براءت بھی ہے۔
”بسم اللہ“ ہر سورت کا جزء ہے یا نہیں؟
ایک مسئلہ اور بھی ذہن نشین فرما لیں۔ قرآن کریم کی 114 سورتیں ہیں اور سورہ توبہ کے علاوہ ہر سورت کی ابتدا میں بسم اللہ موجود ہے لیکن ہر سورت کے شروع میں جو بسم اللہ ہے حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق کے مطابق یہ اس سورت کا جزء نہیں ہے، جو بسم اللہ قرآن کریم کا جزء ہے وہ یہ ہے:
﴿اِنَّہٗ مِنۡ سُلَیۡمٰنَ وَ اِنَّہٗ بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ﴿ۙ۳۰﴾﴾
النمل27: 30
ہر سورت کے شروع میں جو بسم اللہ ہے وہ سورت کا جزء نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ پھر یہ لکھی کیوں جاتی ہے؟ تو وہ اس لیے تاکہ پتا چلے کہ ایک سورت ختم ہو گئی ہے اور دوسری شروع ہو رہی ہے۔ یہ ہر دو سورتوں کے درمیان فصل اور علامت کے طور پر لکھی جاتی ہے۔
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بسم اللہ قرآن کا جزء ہے لیکن لا علی تعیین السورۃ کسی خاص سورت کا جزء نہیں ہے بلکہ بسم اللہ صرف قرآن کا جزء ہے۔ تو اس اعتبار سے رمضان المبارک میں ہمارے امام صاحب یا قاری صاحب یا حافظ صاحب جب الحمد سے لے کر والناس تک پورا قرآن کریم ہمیں سناتے ہیں تو ان کو چاہیے کہ کسی ایک سورت کے شروع میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم اونچی آواز سے پڑھ دیا کریں تاکہ مقتدی پورا قرآن سنیں، اس لیے کہ یہ قرآن کریم کا جزء ہے۔ اگر کسی حافظ نے پورے قرآن کی 114 سورتوں میں سے کسی ایک سورت کے شروع میں بھی بسم اللہ جہراً نہ پڑھا تو قرآن کریم کا اجر تو مل جائے گا لیکن تراویح میں پورے قرآن کا جو اجراونچی آواز سے پڑھنےاور سننے کا ہوتا ہے وہ ایک آیت سننے سے مقتدی محروم رہ جائیں گے۔ اگر چہ امام پڑھے گا اور مقتدی کو ثواب تو ملے گا لیکن جو اپنے کانوں سے قرآن سننے کا ثواب ہے وہ اس سے محروم رہ جائیں گے۔
سورۃ التوبۃ کے شروع میں بسم اللہ نہ ہونے کی حکمت:
بعض حضرات نے اس کی حکمت بیان کی ہے کہ اس سورت کے شروع میں بسم اللہ کیوں نہیں ہے! حکمت اور چیز ہوتی ہے، سبب اور چیز ہوتا ہے۔ بعض لوگوں نے اس حکمت اور اس نکتہ کو اصل سبب سمجھ لیا ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول یہ ہےکہ چونکہ اس سورت میں براءت کا اعلان ہے اور براءت میں رحم نہیں ہوتا بلکہ براءت میں سزا اور عقاب کا پہلو غالب ہوتا ہے، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم میں اللہ کا نام اور رحمٰن ورحیم یہ دونوں صفتیں ہیں اور ان سے رحمت اور شفقت کے پہلو نکلتے ہیں اور جب تلوار چلتی ہے تو پھر رحمت اور شفقت کے پہلو نہیں ہوتے، تو چونکہ اس سورت میں براءت کا اعلان ہے اور مشرکین کے قتل کا حکم ہے اس لیے اس سورت کے شروع میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم نہیں ہے۔ یہ حکمت ضرور ہے لیکن اصلی سبب نہیں ہے۔
شروع میں بسم اللہ نہ لکھنے کا اصلی سبب:
اصلی سبب وہ ہے جو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا۔ ظاہر ہے کہ پورے قرآن کو جمع انہوں نے کیا ہے۔ اس سورت کے شروع میں بسم اللہ نہیں تھی تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: دیکھو! یہ قرآن کریم ہے، اس میں ہماری آراء اور عقل کو دخل نہیں ہے، جبرائیل امین آتے اور ایک سورت نازل ہوتی یا ایک خاص آیت نازل ہوتی، جبرئیل امین نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی بتاتے تھے کہ یہ آیت آئی ہے اس کو فلاں سورت میں فلاں جگہ پر رکھیں اور جب سورت نازل ہوتی تو یہ بھی بتاتے کہ اس سورت کو فلاں جگہ پر رکھیں اور جب اگلی سورت شروع ہوتی یا آیت شروع ہوتی تو فرماتے کہ یہاں بسم اللہ لکھ دیں تاکہ یہ سورت الگ ہو جائے۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب سورت التوبۃ نازل ہوئی تو اس سورت کے شروع میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بسم اللہ لکھوائی بھی نہیں اور بتائی بھی نہیں ، اب ہمیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ سورۃ التوبۃ مستقل سورت ہے یا اس سے پہلے جو سورۃ الانفال ہے اس کا جزء ہے! اگر یہ اس کا جزء ہو تو بسم اللہ نہیں ہونی چاہیے اور اگر اس کا جزء نہ ہو تو بسم اللہ ہونی چاہیے لیکن نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا نہیں ہے کہ اس کا جزء ہے یا اس کا جزء نہیں ہے۔ اب ہم اس کے بارے میں کیا رائے قائم کریں؟
ایک تو یہ مسئلہ پیش آیا اور دوسری الجھن کیا تھی؟ -یہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی تحقیق اور ان کا نقطہ نظر پیش کر رہا ہوں- کہ قرآن کریم کی 114 سورتیں ہیں، سورۃ الفاتحۃ کے علاوہ جو ﴿الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾﴾ سے قرآن کریم کا آغاز ہوتا ہے اس میں ترتیب یہ ہے کہ قرآن کریم کی بعض سورتیں ایسی ہیں جن کی آیات 100 سے زائد ہیں اور بعض سورتیں وہ ہیں جن کی آیات کی تعداد 100 سے کچھ کم ہے لیکن 100 کے قریب قریب ہے اور بعض سورتیں وہ ہیں کہ جن میں آیات اس سے بھی کم ہیں۔ تو پہلے ان سورتوں کو رکھا ہے جن کی آیات کی تعداد 100 سے زیادہ ہے اور انہیں عربی زبان میں کہتے ہیں ”مِئِیْن“۔ مِئِیْن یہ مأۃ کی جمع ہے، مأۃ کہتے ہیں 100 کو اوربعد میں وہ سورتیں رکھی ہیں جن کی آیات کی تعداد 100 سے کم ہے لیکن 100 کے قریب قریب بنتی ہے، انہیں کہتے ہیں ”مثانی“ اور بعد میں وہ سورتیں آئی ہیں جن میں آیات بہت کم ہیں، انہیں ”مفصلات“ کہتے ہیں۔
پھر مفصلات کی تین قسمیں ہیں: ایک ہے طوالِ مفصل،ایک ہے اوساطِ مفصل اور ایک ہے قصارِ مفصل۔ طوالِ مفصل ؛ لمبی سورتیں ہیں، یہ ظہر اور فجر کی نماز میں پڑھتے ہیں۔ اوساطِ مفصل ؛یہ سورتیں مفصل تو ہیں لیکن درمیانی ہیں یہ عشاء اور عصر کی نماز میں پڑھتے ہیں اور قصارِ مفصل ؛ یہ سورتیں مفصل تو ہیں لیکن چھوٹی ہیں یہ مغرب کی نماز میں پڑھتے ہیں۔ یہ مستقل تقسیم ہے۔
میں اصل بات جو سمجھانا چاہ رہا تھا وہ یہ ہے کہ سورۃ التوبۃ کی آیات ہیں 129اور اس سے پہلے سورۃ الانفال کی آیات کی تعداد ہے 75۔ اب بتائیں کہ اس اصول کی رو سے سورۃ الانفال کو پہلے ہونا چاہیے تھا یا سورۃ التوبۃ کو پہلے ہونا چاہیے تھا؟ (سورۃ التوبۃ کو۔ سامعین) تو سورۃ الانفال کو بعد میں ہونا چاہیے اور سورۃ التوبۃ کو پہلے ہونا چاہیے تھا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سورۃ الانفال پہلے ہے اور سورۃ التوبۃ بعد میں ہے، اور اب یہ بالکل قیاس کے خلاف تھا۔
اب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس میں ہم سوچتے تھے کہ سورۃ التوبۃ سورۃ الانفال کا جزء ہے یا نہیں؟ جب یہ دیکھا کہ انفال کی آیات پہلے نازل ہوئی ہیں اور توبہ کی بعد میں نازل ہوئی ہیں تو پتا چلا کہ انفال پہلے ہے اور سورۃ توبہ بعد میں ہے لیکن اب سارے قیاس اور ضابطے چھوڑ دیے چونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بسم اللہ نہیں لکھوائی اس لیے ہم بھی نہیں لکھتے، البتہ اتنا کرتے ہیں کہ انفال اور توبہ کے درمیان جگہ خالی چھوڑ دی جائے یہ بتانے کےلیے کہ سورۃ انفال ختم ہو گئی ہے اور سورۃ توبہ شروع ہو گئی ہے۔
سورۃ التوبۃ پڑھتے وقت بسم اللہ پڑھنے کا مسئلہ:
بعض لوگوں نے جہالت کی بنیاد پر عوام میں ایک نیا مسئلہ نکال دیا کہ سورت التوبۃ کے شروع میں اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم پڑھتے ہیں۔ یہاں اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم نہ پڑھیں، جب سورۃ الانفال ختم کی تو بغیر بسم اللہ پڑھے سورۃ التوبۃ کو شروع کر دیں لیکن اگر تلاوت ہی سورۃ التوبہ سے آپ شروع کریں تو پھر اعوذ باللہ بھی پڑھیں اور بسم اللہ بھی پڑھیں،کیونکہ اب یہ بسم اللہ سورۃ توبہ کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ یہ بسم اللہ اس وجہ سے ہے کہ آپ نے قرآن کریم کی تلاوت کا آغاز کیا ہے اور جب قرآن کا آغاز کریں تو اعوذ باللہ بھی پڑھتے ہیں اور بسم اللہ بھی پڑھتے ہیں۔
خیر میں عرض کر رہا تھاکہ اس سورت کے شروع میں اللہ رب العزت نے مشرکین کی چاروں قسموں کا تذکرہ فرما دیا ہے۔
مخالفت نظریات سے نہ کہ ذاتیات سے:
﴿فَاِنۡ تَابُوۡا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَاِخۡوَانُکُمۡ فِی الدِّیۡنِ ؕ﴾
التوبۃ9: 11
دیکھو! قرآن کتنی عجیب بات فرماتا ہے۔ فرمایا کہ مشرکین کو تم قتل کرو اگر یہ کلمہ نہیں پڑھتے لیکن اگر یہ توبہ کریں، نماز کی پابندی کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو اب یہ تمہارے دشمن نہیں بلکہ تمہارے بھائی ہیں۔ اب ان سے نہیں لڑنا! پتا یہ چلا کہ مسلمان کی لڑائی کسی سے ذاتیات کی بنیاد پر نہیں ہوتی بلکہ نظریات کی بنیاد پر ہوتی ہے۔
مانعینِ زکوٰۃ اور حضرت ابو بکر صدیق:
حضر ت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں بعض لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے منع کر دیا تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس آیت سے استدلال پکڑا اور فرمانے لگے کہ اگر یہ زکوٰۃ نہیں دیں گےتو میں ان کے ساتھ قتال کروں گا، میں ان کی گردنیں اڑاؤں گا،میں ان سے جہاد کروں گا۔
یہ نکتہ سمجھنے کا ہے کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے کن سے قتال کرنے کا اعلان کیاہے! وہ منکرینِ زکوٰۃ نہیں تھے بلکہ مانعین زکوٰۃ تھے، انکار کا معنیٰ اور ہوتا ہے اور منع کا معنیٰ اور ہوتا ہے۔ انکار کا معنیٰ ہوتا ہے کہ میں زکوٰۃ کو مانتا ہی نہیں اور منع کا معنیٰ ہوتا ہے کہ میں مانتا تو ہوں لیکن آپ کو دیتا نہیں۔ جو بھی باطل اٹھتا ہے وہ دلیل میں قرآن پیش کرتا ہے اور معنی اپنی مرضی کا بیان کرتا ہے۔ مانعینِ زکوٰۃ نے کہا کہ ہمارے پاس قرآن سے دلیل ہے۔ پوچھا گیا کہ قرآن سے کیا دلیل ہے؟ انہوں نے کہا کہ قرآن کہتا ہے:
﴿خُذۡ مِنۡ اَمۡوَالِہِمۡ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمۡ ﴾
التوبۃ9: 103
اے نبی! آپ ان سے زکوٰۃ لیں اور ان کو پاک کریں۔
تو وہ کہنے لگے کہ یہ حکم اللہ کے نبی کو تھا، آپ کو کیسے حکم ہو گیا؟ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے تو ہم زکوٰۃ دیتے تھے، اب حضور چلے گئے ہیں ا س لیے ہم آپ کو زکوٰۃ نہیں دیتے۔
اب صدیق اکبر کا جملہ سنو! حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے: جو کام اللہ کے نبی نے کیا وہ صدیق ضرور کرے گا، اس لیے کہ میں اللہ کے نبی کا جانشین ہوں:
"وَاللہِ! لَوْ مَنَعُوْنِىْ عِقَالًا كَانُوْا يُؤَدُّونَهُ إِلٰى رَسُوْلِ اللّهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَقَاتَلْتُهُمْ عَلٰی مَنْعِہٖ"
سنن ابی داؤد، رقم: 1556
ایک رسی جو تم زکوٰۃمیں اللہ کے نبی کو دیاکرتے تھے اگرآج تم نے نہ دی تو میں صدیق تمہاری گردنیں اڑا کر رکھ دوں گا۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ایسے کھڑے ہوئے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسا بندہ بھی فرمانے لگا: ابو بکر! یہاں تو بڑے بڑے فتنے ہیں، اس لیے آپ ان لوگوں کو تھوڑا سا چھوڑ دیں، ان سے بعد میں لڑ لیں گے۔
اب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا جملہ سنیں! انہوں نے فرمایا: "
أَجَبَّارٌ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَخَوَّارٌ فِي الْإِسْلَام؟"
عمر! جب کلمہ نہیں پڑھا تھا بہت دلیر تھے اور کلمہ پڑھنے کے بعد یہ بز دلی؟ پھر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے: "
أَيَنْقُصُ وَأَنَا حَيٌّ؟
"دین میں کمی آ جائے اور ابو بکر زندہ رہے یہ نہیں ہو سکتا۔
جامع الاصول فی احادیث الرسول لابن اثیر الجزری: ج6 ص 283 رقم 6426
اور آپ یقین فرمائیں محدثین نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانے کے بعد ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اس مقام پر کھڑے تھے جس مقام پر نبی کھڑا ہوتا ہے۔ پوری امت مخالف ہو اور بندہ پھر حق بیان کرے یہ نبی کی شان ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے صحابی بھی کہہ رہے ہیں کہ ابو بکر! کچھ خیال فرمائیں، کس کس سے لڑیں گے؟
آج یہ بات لوگ ہمیں سمجھاتے ہیں کہ مولانا صاحب!آپ کس کس کے ساتھ لڑیں گے؟ میں کہتا ہوں کہ سبحان اللہ! ہم نے تھوڑی لڑنا ہے، حق بیان کرنا ہمارے ذمے ہے اور مدد ونصرت ہمارے ذمے نہیں بلکہ اللہ کے ذمے ہے، مسلمان اپنی طاقت پر تو نہیں لڑتا، مسلمان جب بھی لڑتا ہے اللہ کے بھروسے پر لڑتا ہے۔
لشکرِ اسامہ کی روانگی:
اور میں ایک عجیب بات عرض کرتا ہوں بات چل جو پڑی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دنیا سے جانے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کا لشکر بھیجا کہ جاؤ منکرینِ ختم نبوت کے خلاف جہاد کرو۔ ابھی وہ لشکر مدینے سے باہر تھا، روانہ نہیں ہوا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی جس کی وجہ سے وہ لشکر نہ جا سکا۔ بعد میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اسامہ! لشکر تیار کرو اور نکلو، تم نے منکرین ختم نبوت کو مارنا ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: ابوبکر! آپ کیسی بات کرتے ہیں؟ اِس سے بھی لڑائی، اُس سے بھی لڑائی، مدینہ تو سارا خالی ہو گیا ہے، مدینہ میں کوئی مرد نہیں رہا ، اگر عیسائیوں کو اس بات کا پتا چل گیا اور انہوں نے مدینہ منورہ پر حملہ کردیا تو بتاؤ ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کا کیا بنے گا؟ امہات المؤمنین کا کیا بنے گا؟
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرمانے لگے:
"لَوْ جَرَّتِ الْکِلَابُ بِأَرْجُلِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا رَدَدْتُ جَيْشًا وَجَّهَهٗ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ."
اتنا سخت جملہ ہے یہ صدیق اکبر ہی کہہ سکتے ہیں، اللہ کی قسم میں تو ترجمہ کرنے سے ڈرتا ہوں یعنی مجھ سے ترجمہ کرنے کی ہمت نہیں ہوتی کہ میں اس ترجمہ کو کیسے بیان کروں؟ یہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہی فرما سکتے ہیں۔ فرمایا: "
لَوْ جَرَّتِ الْکِلَابُ بِأَرْجُلِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ"
اگر مدینہ منورہ کی حالت یہ ہو جائے کہ کتے آ جائیں اور ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کو گھسیٹنا شروع کردیں تو میں یہ برداشت کر لوں گا لیکن جو قافلہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روانہ کیا ہے اس کو صدیق نہیں روک سکتا!
کنز العمال: ج5 ص241 رقم 14062
آپ اندازہ کریں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا کتنا ایمان ہو گا! کوئی بندہ تصور کر سکتا ہے!
محدثین لکھتے ہیں کہ جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس مقام پر کھڑے ہو گئے کہ مدینہ خالی ہو گیا تو اللہ رب العزت نے مشرکین، یہود اور عیسائیوں کے دل میں یہ بات ڈالی کہ مسلمان عورتوں کے بارے میں بڑے غیرت مند ہوتے ہیں، اتنے افراد انہوں نے باہر بھیج دیے ہیں تو مدینے میں کتنے رکھے ہوں گے! اس لیے ان سے بچو اور مدینے پر حملے کاسوچو بھی مت ۔ یوں انہوں نے مدینہ پر حملے کا خیال ہی چھوڑ دیا۔
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا استدلال:
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسی آیت سے استدلال فرمایا تھا:
﴿فَاِنۡ تَابُوۡا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَاِخۡوَانُکُمۡ فِی الدِّیۡنِ ؕ﴾
التوبۃ9: 11
کہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اگر یہ ایمان لائیں، توبہ کریں، زکوٰۃ دیں،نماز ادا کریں تو تمہارے بھائی ہیں۔ شخص زکوٰۃ دینے سے انکار کرتا ہے، زکوٰۃ نہیں دیتا وہ ہمارا بھائی نہیں ہے۔
اس سے اندازہ لگاؤ کہ زکوٰۃ کا ادا کرنا کتنا ضروری ہے۔ میں خدا کی قسم اٹھا کر کہتا ہوں کہ اگر مسلمان اپنی زکوٰۃ اور اپنا عشر ادا کرنا شروع کر دیں تو دنیا میں کوئی بھیک مانگنے والا بندہ تمہیں نظر نہیں آئے گا، دنیا میں کوئی تمہیں غریب کوئی بیوہ نظر نہ آئے، کوئی یتیم تمہیں سسکیاں بھرتا نظر نہ آئے۔ اللہ رب العزت ہم سب کو اپنی زکوٰۃ اور عشر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین۔ سامعین)
ترکِ جہاد کی وجوہات:
﴿قُلۡ اِنۡ کَانَ اٰبَآؤُکُمۡ وَ اَبۡنَآؤُکُمۡ وَ اِخۡوَانُکُمۡ وَ اَزۡوَاجُکُمۡ وَ عَشِیۡرَتُکُمۡ وَ اَمۡوَالُۨ اقۡتَرَفۡتُمُوۡہَا وَ تِجَارَۃٌ تَخۡشَوۡنَ کَسَادَہَا وَ مَسٰکِنُ تَرۡضَوۡنَہَاۤ اَحَبَّ اِلَیۡکُمۡ مِّنَ اللہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ جِہَادٍ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ فَتَرَبَّصُوۡا حَتّٰی یَاۡتِیَ اللہُ بِاَمۡرِہٖ ؕ وَ اللہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿٪۲۴﴾﴾
آدمی جب بھی جہاد سے جان چھڑاتا ہے تو ان آٹھ میں سے کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے، اللہ نے یہ آٹھوں وجوہات بیان فرما دی ہیں۔ کوئی جہاد میں نہیں جاتا اس لیے کہ میرے ابو موجود ہیں، میری امی جان موجود ہیں تو میں ان کو چھوڑ کر کیسے جاؤں؟ کوئی نہیں جاتا کہ میرے گھر میں چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، میں ان کو چھوڑ کر کیسے جاؤں؟ کوئی نہیں جاتا اس لیے کہ میرے چھوٹے بھائی ہیں اور میرے ابو جی دنیا سے چلے گئے ہیں تو میں ان کو چھوڑ کر کیسے جاؤں؟کوئی کہتا ہے کہ میرادل تو بہت کرتا ہے لیکن نئی نئی شادی ہے، اب بیوی چھوڑ کر کیسے جاؤں؟ اور کوئی کہتا ہے کہ میرا دل تو بہت کرتا ہے لیکن میرا خاندان نہیں مانتا، میں کیسے جاؤں؟ اور بعض کہتے ہیں کہ ہم جانا تو چاہتے ہیں لیکن ہماری دکان کا مسئلہ ہے، نئی نئی دکان شروع کی ہے، اگر ہم جہاد پر چلے گئے تو دکان کا کیا بنے گا؟ کسی کو دولت کی فکر ہے، کسی نے نیا مکان اور نئی کوٹھی بنائی ہے۔ تو کل کتنی وجوہات بنتی ہیں؟ (آٹھ۔ سامعین)
1: والدین، 2: بیٹے، 3: اولاد، 4: بھائی، 4:بیوی، 5:خاندان، 6:مال، 7: تجارت، 8:اس کے رہنے کی جگہیں یعنی مکانات۔
اللہ فرماتے ہیں: جو بندہ ان وجوہ کی بنیاد پر جہاد میں نہیں جاتا
﴿فَتَرَبَّصُوۡا حَتّٰی یَاۡتِیَ اللہُ بِاَمۡرِہٖ﴾
تو وہ اللہ کے عذاب کا انتظار کرے۔
مجاہدین کے خلاف بات نہ کرو!
میں ایک چھوٹی سی بات کرتا ہوں۔ آپ جہاد میں نہیں جا سکتے یہ بات الگ ہے لیکن جہاد کے خلاف بات کر کے کبھی اپنے ایمان کو برباد نہ کرنا!بعض لوگ جاتے بھی نہیں ہیں اور مجاہدین پر اعتراض کر کے ان کے زخموں پر نمک بھی چھڑکتے ہیں، خدا کے لیے یہ جرم کبھی نہ کرنا!
میں یہاں ایک بات سمجھانا چاہتا ہوں۔ بسا اوقات میرے سفر اتنے ٹف ہوتے ہیں کہ اللہ گواہ ہے شاید سوچنا بھی آپ کے بس میں نہ ہو۔
میرے ساتھ ایک تبلیغی مدرسہ کے چند لڑکے تھے۔ انہوں نے کہا کہ تین دن ہمیں چھٹیاں ہیں۔ ہم نے آپ کے ساتھ جانا ہے۔ میں نے کہا: یہ سہ روزہ تمہارے بس میں نہیں ہے۔ انہوں نے کہا: ہم نے آنا ہے۔ میں نے کہا: آپ میں سے جس کا جی کرے آ جائے، میرے ساتھ سفر کرے اور دیکھے کہ میرا سفر کتنی مشقت والا ہوتا ہے۔
ابھی میرا ایک ہفتے کا کشمیر کا دورہ تھا۔ اس سفر میں میرے پاس Surf گاڑی تھی جو ابھی اسلام آباد ورکشاپ میں کھڑی ہے اس پر اڑھائی لاکھ روپے خرچہ آنا ہے تب جا کر اس نے ٹھیک ہونا ہے۔ یہ ہے ایک ہفتے کے دورے کی وجہ سے خرچ۔ آپ اندازہ کریں کہ وہ کتنا ٹَف دورہ ہو گا۔ ایک ہفتے میں مَیں ایک ضلع سے داخل ہوا اور مظفر آباد سے جا کر نکلا۔ ایک ایک دن میں تین تین بیان کرنا اور چھ چھ گھنٹے پہاڑی کا سفر کرنا یہ نام لینا بہت آسان ہے لیکن سفر کرنا بہت مشکل ہے اور اللہ کا شکر ہے کہ میں دنیا بھر میں اپنے میزبان سے تقریر کے پیسے بھی نہیں مانگتا۔ اگر پیسے مانگوں تو کہتے ہیں کہ مولوی پیسے مانگتے ہیں اور نہ مانگوں تو کہتے ہیں کہ ایجنسیوں کا ہے، اس کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟ میں نے کہا: یہ سارے تاجر ایجنسیوں کے بیٹھے ہیں؟ اگر ان کے ایجنسی کے ہونے کی یہی دلیل ہے تو پھر -اللہ معاف کرے- سب ایسے ہی ہیں۔
خیر میں نے سفر کیا تووہ طالب علم ایک رات میں ہی واپس آ گئے۔ انہوں نے کہا: مولانا صاحب! یہ سفر آپ ہی کر سکتے ہیں، ہمارے لیے بہت مشکل ہے۔ میں اصل جو بات سمجھا رہا تھا وہ یہ تھی کہ میں سفر میں تھا تو مجھے ایک مولانا صاحب فرمانے لگے: آپ بہت بڑا جہاد کر رہے ہیں۔ میں نے کہا: یہ جھوٹ نہ بولو، میں تقریر کرتا ہوں، میں مناظرہ کر لوں گا لیکن اس کو جہاد مت کہو! قرآن کریم نے منافقین کی علامت بیان کی ہے کہ:
﴿وَّ یُحِبُّوۡنَ اَنۡ یُّحۡمَدُوۡا بِمَا لَمۡ یَفۡعَلُوۡا﴾
آل عمران3: 188
کہ وہ کچھ کرتے بھی نہیں ہیں اور چاہتے ہیں کہ لوگ ہمیں اس نام سے یاد کریں۔
میں نے ان سے کہا کہ میں جب جہاد نہیں کرتا تو مجھے مجاہد کیوں کہتے ہو؟ مجھے مولوی صاحب کہو ، حافظ صاحب کہو،قاری صاحب کہو، مجاہد نہ کہو!
خیر میں بات سمجھا رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اگر آٹھ وجوہ سے تم جہاد کرنا چھوڑ دو تو پھر تمہیں اللہ کے عذاب کا انتظار کرنا چاہیے۔ اللہ رب العزت ہم سب کو عذاب سے محفوظ رکھے۔ اللہ ہمیں خالص مسئلہ بیان کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین۔ سامعین)
میری آپ حضرات سے اتنی سی گزارش ہے کہ اگر آپ جہاد کر سکتے ہیں تو کریں، اگر نہیں کر سکتے تو خود کو مجاہد نہ کہیں اور مجاہدین کے زخموں پر نمک نہ چھڑکیں! یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ شاید کوئی بندہ اللہ تعالی کو اس کا جواب نہ دے سکے۔
والدین کی خدمت جہاد؟ ایک مکالمہ:
یہ چونکہ ایک وسیع موضوع ہے اس لیے میں اس پر لمبی بات نہیں کرتا، بس صرف ایک بات کرتا ہوں۔ مجھے ایک ساتھی نے کہا: جب والدین گھر میں ہوں تو پھر تو جہاد نہیں ہوتا۔ میں نے کہا: بیوی گھر میں ہو تو پھر بھی جہاد نہیں ہوتا! مجھے وہ کہتا ہے: وہ کیسے؟ میں نے کہا: اُس کی دلیل تو دے، اِس کی دلیل میں دیتا ہوں۔ کہنے لگا: ایک صحابی آئے، انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! مجھے جہاد میں جانا ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیرے والدین زندہ ہیں؟ اس نے کہا: جی ہاں زندہ ہیں۔ فرمایا: "فَفِيهِمَا فَجَاهِدْ"
صحیح البخاری، رقم:3004
ان کی خدمت کر یہی جہاد ہے۔ میں نے کہا: یہی دلیل ہے؟ اس نے کہا: جی یہی دلیل ہے۔ میں نے کہا: حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ غزوہ بدر میں جانا چاہتے تھے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری بیوی بیمار ہے، تم ان کی خدمت کرو یہی تمہارا جہاد ہے۔تو بیوی کی خدمت بھی جہاد بنا! صرف والدین کی خدمت جہاد کیسے ہوئی؟ اب وہ چپ ہو گیا۔ بعد میں کہنے لگا کہ پھر کیا مطلب ہے؟ میں نے کہا: مطلب تم سمجھو میں تمہیں سمجھاتا ہوں۔
میں نے کہا: دیکھو ایک شخص یہاں سے جاتا ہے کہ میں چلہ پر جاؤں۔ یہاں سے مرکز جائے، بستر لے جائے،پیسے جیب میں رکھ کے جائے، کہے کہ میں تو چلے کے لیے آ گیا ہوں لیکن میری امی جان سخت بیمار ہیں ۔ امیر صاحب! اگر آپ اجادت دیں تو میں گھرچلا جاؤں؟اب امیر صاحب کہہ دیں کہ بیٹا! توگھر چلا جا، یہی تیرا چلہ ہے۔ اب بتاؤ ثواب ملے گا یا نہیں؟ (ملے گا۔ سامعین ) اور ایک بندہ گھر بیٹھ کر کہے کہ میں نے چلہ پر نہیں جانا، کیونکہ میری امی جان گھر میں ہیں، میں ان کی خدمت کروں گا، یہی میرا چلہ ہے۔ کوئی پوچھے کہ تمہاراامی کی خدمت کرنا کیسے چلہ ہوا؟ وہ کہے کہ جی اُس کا امی کی خدمت کرنا چلہ بنتا ہے تو میرا خدمت کرنا کیوں چلہ نہیں؟ ہم کہیں گے کہ وہ امیر صاحب کے پاس چلا گیا تھا اور تشکیل کروا کر واپس آگیا تھا اور آپ تو گئے ہی نہیں۔اسی طرح وہ صحابی آ ئے تھے کہ حضور! میں جانا چاہتا ہوں۔ فرمایا: والدہ کی خدمت کر یہی تیرا جہاد ہے۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ میں جانا چاہتا ہوں۔ فرمایا: بیوی کی خدمت کر یہ تیرا جہاد ہے۔ لیکن خود فیصلہ نہ کرو بلکہ امیر فیصلہ کرے تو ٹھیک ہے اور ہمارا حال یہ ہے کہ ہم خود فیصلے شروع کردیتے ہیں کہ میں نہیں جاتا کہ میرا فلاں عذر ہے۔
بعض لوگ ہمیں کہتے ہیں کہ اگر جہاد ضروری ہوتا تو فلاں مفتی صاحب کیوں نہیں جاتے؟ میں نے کہا: مفتی صاحب کوئی دلیل شرعی ہیں؟ ان کا اپنا کوئی عذر ہو گا۔میرا اپنا عذر ہے، کسی کا اپنا عذر ہو گا، ہمارے عذروں کی وجہ سے مسئلے نہیں بدلا کرتے۔ مسئلہ وہی بیان کریں جو اللہ نے بیان فرما دیا ہے۔ اللہ ہمیں حق اور سچ مسئلہ بیان کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین۔ سامعین)
غزوہ حنین کا واقعہ:
﴿لَقَدۡ نَصَرَکُمُ اللہُ فِیۡ مَوَاطِنَ کَثِیۡرَۃٍ ۙ وَّ یَوۡمَ حُنَیۡنٍ ۙ اِذۡ اَعۡجَبَتۡکُمۡ کَثۡرَتُکُمۡ﴾
التوبۃ9: 25
یہ بڑا اہم مسئلہ ہے جو سمجھنے کا ہے۔ ان آیات میں اللہ رب العزت نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تذکرہ فرمایا ہے اور غزوہ حنین کا تذکرہ کیا ہے۔ اللہ رب العزت نے جب مکہ مکرمہ مسلمانوں کے ہاتھ پہ فتح کرا دیا تو مکہ مکرمہ سے سات آٹھ میل کے فاصلے پر ایک جگہ ہے ”حنین“، یہ طائف اور مکہ کے درمیان ہے۔ وہاں پر کچھ لوگ جمع ہوئے۔ قبیلہ ہوازن جو بہت بڑا قبیلہ تھا ان کے سردار مالک بن عوف تھے جو بعد میں مسلمان ہوئے تھے۔ وہ خود اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سردار جمع کر لیے اور میں نے کہا کہ -العیاذ باللہ- محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں سے لڑائی لڑی ہے جو اناڑی تھے، یہ ہم سے لڑیں گے تو ان کو سمجھ آ جائے گی، اس لیے تم اپنے سردار اکٹھے کرو۔
سارے لوگ اکٹھے ہو گئے تو انہوں نے کہا: اپنی عورتیں لے آؤ، بچوں کو بھی لے آؤ، سامان بھی لے آؤ تاکہ واپسی کے سارے راستے ختم ہو جائیں۔ یہ لوگ جمع ہو گئے۔ ان کی تعداد کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔ایک روایت ہے کہ چوبیس ہزار تھے اور ایک روایت میں ہے کہ چار ہزار تھے۔
مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ان دونوں روایتوں میں تطبیق یہ ہے کہ عورتیں، بچے اور بوڑھے سب ملاؤ تو چوبیس ہزار تھے اور صرف جنگجو شمار کرو تو پھر تعداد چار ہزار بنتی ہے۔
اور مسلمانوں کی تعداد بارہ ہزار تھی ۔ دس ہزار تو وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے جو مکہ مکرمہ کی فتح کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آئے تھے اور دو ہزار وہ تھے جو فتح مکہ کے موقع پر مکہ اور اطرافِ مکہ میں سے مسلمان ہوئے تھے تو وہ بھی ساتھ شامل ہوگئے۔
یہ چودہ ہزار کا لشکرتو مجاہدین کا تھا۔ ان کے ساتھ مکہ کے بعض وہ لوگ بھی شامل ہو گئے جن کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف پرانی نفرتیں اور کدورتیں تھیں۔ غزوہ بدر میں ان کے کچھ آدمی مارے گئے تھے، اور کسی کے غزوہ احد میں مارے گئے تھے۔ تو انہوں نے سوچا کہ ہم بھی ساتھ چلتے ہیں۔ اگر یہ طائف والے ان مسلمانوں پر غالب آ گئے تو ہم بھی اپنے ہاتھ صاف کر لیں گے اور اگر یہ مسلمان ان طائف والوں پر غالب آ گئے تو مالِ غنیمت میں ہمیں بھی مال مل جائے گا۔ تو کچھ لوگ یوں تماشائی بن کر ان کے ساتھ چلے۔
شیبہ بن عثمان کا واقعہ:
روایات میں آتا ہے کہ ایک شخص تھے جن کا نام شیبہ بن عثمان تھا، وہ اپنا واقعہ خود بیان کرتے ہیں کہ میرا باپ حضرت حمزہ کے ہاتھ سے اور میرا چچا حضرت علی رضی اللہ عنہما کے ہاتھ سے غزوہ بدر میں قتل ہوا تھا۔ میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ میں مسلمانوں کے ساتھ چل پڑتا ہوں اور میں کوشش کروں گا کہ مجھے موقع ملے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر -العیاذ باللہ- حملہ کر دوں۔ میں اس نیت سے ساتھ چلا۔ یہ بڑا عجیب درد بھرا اور دلچسپ واقعہ ہے۔
شیبہ بن عثمان کہتے ہیں کہ میں موقع پا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا کہ اللہ کے نبی کو قتل کردوں لیکن دیکھا کہ دائیں جانب حضرت عباس رضی اللہ عنہ موجود تھے اور بائیں طرف حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ موجود تھے۔ پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کی جانب سے آیا کہ پیچھے سے حملہ کر دوں۔ بس میں حملہ کرنے ہی والا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھ لیا تو مجھے بلا لیا۔ میں آ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینے پر ہاتھ پھیرا۔ جوں ہی میرے سینے پر ہاتھ رکھا اور دعا دی کہ یا اللہ! اس سے شیطان کو دور کر دے۔ میں نے دل میں ایسی ٹھنڈک محسوس کی جو میں بتا نہیں سکتا۔
اب جو میں نے اپنی نظر اٹھائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنے کان، آنکھ اور جان سے زیادہ عزیز ہو گئے تھے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم فرمایا کہ کفار سے جا کر لڑو! چنانچہ میں کفار سے ہمت و جرات سے لڑا۔ جب اس غزوہ سے واپس آئے تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے فرمانے لگے کہ تو اس ارادے سے آیا تھا کہ تو مجھ پر حملہ کر دے لیکن اللہ نے تجھ سے نیک کام لینے کا ارادہ کیا تھا اور وہ ہو کر رہا۔ تو شیبہ بن عثمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں آیا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرنے کےلیے اور جب واپس ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی فوج کا سپاہی بنا ہوا تھا۔ (سبحان اللہ۔ سامعین)
تمہیں میرے ہاتھ سے کون بچائے گا؟
اسی غزوہ حنین کے سفر میں ایک اور واقعہ پیش آیا۔ ایک صحابی ہیں جن کا نام تھا حضرت ابو بردہ بن نیار رضی اللہ عنہ۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کے نیچے آرام فرما رہے تھے، ایک کافر آیا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار اپنے ہاتھ میں لی، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سوئے ہوئے تھے، آپ کی آنکھ کھل گئی تو اس کافر نے کہا: "یَا مُحَمَّدُ! مَنْ يَمْنَعُكَ مِنِّی؟" اے محمد! بتاؤ تمہیں میرے ہاتھ سے اب کون بچائے گا؟ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ۔ یہ جملہ کہنا تھا کہ وہ کافر کانپ گیا اور تلوار اس کے ہاتھ سے گر پڑی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تلوار اٹھائی اور فرمایا: " مَنْ يَمْنَعُكَ مِنِّی "اب تجھے میرے ہاتھ سے کون بچائے گا؟حضرت ابو بردہ بن نیار رضی اللہ عنہ کہنے لگے: یا رسول اللہ! مجھے اجازت دیں کہ میں اس کا کام تمام کردوں۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے: میرے ساتھ میرے اللہ کا وعدہ ہے کہ جب تک میرا دین پوری دنیا میں غالب نہ ہو جائے مجھے دنیا کا کوئی بندہ نقصان نہیں پہنچا سکتا، چھوڑ دو اس کو۔
امتاع الاسماع للمقریزی: ج14 ص14، وغیرہ
خیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ آگے بڑھے۔ اب ان کی تعداد ہے بارہ ہزار اور مقابلے میں کفار کی تعداد ہے چار ہزار۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے دل میں ایک بات آ گئی کہ جب ہم جنگِ بدر میں تین سو تیرہ تھے تو غالب آ گئے تھے، اُس وقت تیر اور تلواریں تھوڑی تھیں، اب تو اسلحہ بہت زیادہ ہے اور تعداد بھی بہت زیادہ، آج تو ہم کسی سے مغلوب نہیں ہوں گے۔ یہ بات دل میں آنی ہی تھی کہ جنگ کا نقشہ بدل گیا۔ ادھر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور ادھر سے کفار آرہے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب آئے تو ان مشرکین نے اتنا سخت حملہ کیا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اس موقع پر پاؤں اکھڑ گئے۔
قبیلہ ہوازن نے آگے سے حملہ کیا، بعض گھاٹیوں میں چھپ کر بیٹھے تھے انہوں نے وہاں سے حملہ کیا۔ گرد و غبار نے دن کو رات کا منظر بنا دیا۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: -ان کی آواز اونچی تھی- اے عباس! آواز لگاؤ اور انصار مدینہ سے کہو کہ تم کدھر ہو؟ تم نے حضور کے ساتھ مرنے اور جینے کا وعدہ کرلیا تھا! حدیبیہ والوں کو آواز لگاؤ کہ تم نے میرے ہاتھ پر موت کا وعدہ کیا تھا! فلاں قبیلے کو آواز لگاؤ! حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے با آواز بلند آواز لگائی۔ یہ آواز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کانوں میں پڑنی تھی کہ فوراً واپس آئے اور پھر دشمن پر حملہ کر دیا۔
حضور علیہ السلام کی ثابت قدمی:
محدثین فرماتے ہیں کہ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ جب اچانک حملہ ہوا تو اس وقت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تنِ تنہا دشمن کی طرف بڑھ رہے تھے اور فرما رہے تھے:
" أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبْ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ"
صحیح البخاری، رقم : 4316
کہ میں جھوٹا نبی نہیں ہوں، میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔
فقہاء نے لکھا ہے آدمی کو اپنی قومیت کے نعرے لگانے تو جائز نہیں ہیں لیکن میدانِ جنگ میں قومیت کا نعرہ لگائے تو پھر جائز ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں کہ میں عام بندہ نہیں ہوں، عبد المطلب سردار کا بیٹا ہوں، مجھے تم جانتے ہو میں کون ہوں؟ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم رِجز پڑھ رہے ہیں اور آگے بڑھ رہے ہیں۔
جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم واپس پلٹے تو پوری جنگ کا نقشہ ہی بدل گیا۔ اب دشمن قبیلہ کے بہت سارے لوگ قتل ہوئے، باقی دوڑ گئے اورقلعہ میں چھپ گئے۔ اب جب چھپےتو کئی دن گزر گئے۔ دور سے تیر مارتے تھے لیکن باہر نکل کر تو لڑ نہیں سکتے تھے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا محاصرہ کیا۔ بالآخر وہ تنگ ہوئے اور ان کے بارہ سردار جمع ہو کر حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے۔ انہوں نے کہا: اے محمد! آپ رحمۃ للعٰلمین ہیں، کچھ کرم فرمائیں، کچھ شفقت فرمائیں، ہم پر احسان فرمائیں۔
ان کے چھ ہزار بندے قیدی بنے، چوبیس ہزار اونٹ مال غنیمت میں آئے، چالیس ہزار بکریاں مالِ غنیمت میں آئیں اور چالیس من چاندی مال غنیمت میں آئی۔ بتاؤ! کتنا بڑا مال غنیمت میں آیا۔
قیدیوں کی واپسی:
اب انہوں نے کہا: اللہ کے نبی! ہم پر ترس کھائیں، رحم کریں، احسان فرمائیں، شفقت فرمائیں، ہمارے آدمی بھی دے دیں اور ہمارا سامان بھی دے دیں۔ یا رسول اللہ! اگر یہ بات ہم کسی عیسائی بادشاہ سے کہتے تو وہ بھی ہم پر رحم کھاتا، آپ تو رحمۃ للعٰلمین ہیں۔
مفسرین فرماتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عقل کو داد دینی چاہیے کہ کیسا بہترین فیصلہ فرمایا۔ اس لیے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو پہلو تھے:
 ایک پہلو یہ ہے کہ یہ مالِ غنیمت ہے اور میرے صحابہ کا حق ہے اور صحابہ کا حق انہیں کیسے دے دوں؟
 اور دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ آ گئے ہیں میرے پاس عاجز بن کر اب اگر میں نہ دوں تو وہ کہیں گے دیکھو کیسا نبی ہے! اس کو ترس ہی نہیں آتا!
تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے: تم ایسا کرو کہ یا تو اپنے افراد لے لو یا اپنا مال لے لو۔ انہوں نے کہا: ہمارے قیدی واپس کردیں۔
چنانچہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جمع کر کے فرمایا: دیکھو! قیدی بھی تمہارا حق ہیں اور مال بھی تمہارا حق ہے لیکن مجھ سے وہ بھیک مانگنے کے لیے آئے ہیں، انہوں نے اپیل کی ہے، ان کو خالی واپس نہیں بھیجنا چاہیے تو میرا ارادہ ہے بندے ان کو دے دیں اور مال تمہیں دے دیں۔ بتاؤ! تمہاری کیا رائے ہے؟
صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: جی لبیک، لبیک،لبیک حضور! جیسے فرمائیں ہم راضی ہیں۔ اب اللہ کے نبی کا فیصلہ دیکھنا! حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہو سکتا ہے کہ تم میری تقریر سن کر جذباتی ہو گئے ہو۔ اس لیے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام میں سے جو سردار تھے ان تمام کو جمع کیا اور فرمایا کہ تم اپنے اپنے قبیلے کو الگ بٹھا کر یہ بات ان سے پوچھو کہ آیا یہ تمہارا جذباتی فیصلہ ہے یا نظریاتی؟ تم نے جوش میں آ کر یہ بات کی ہے یا میرے فیصلے کو دل سے مانتے ہیں؟ تو سرداروں نے اپنے اپنے قبیلے سے علیٰحدہ علیٰحدہ اجازت لینے کے بعد حضور علیہ السلام سے عرض کیا کہ سب لوگ دل سے اپنا حق چھوڑنے کو تیار ہیں، سب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو دل سے مانتے ہیں۔تب جا کر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قبیلہ ہوازن کے چھ ہزار قیدی ان کو واپس کر دیے اور جتنا مال تھا وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیا ن تقسیم کر دیا۔
مالِ غنیمت کی تقسیم کا ایک واقعہ:
اور ایک روایت میں آتا ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس موقع پرایک بڑا عجیب معاملہ پیش آیا۔ جو لوگ مکہ سے نئے نئے مسلمان ہو کر آئے تھے ان کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دل کھول کر مال دیا۔ اس کو ایک سو بکریاں دے دو، اسے دو سو بکریاں دے دو، اس کو پانچ سو دے دو، اس کو ہزار دے دو، اور جو انصارِ مدینہ تھے ان کو مال نسبتاً کم دیا۔
ایک انصاری کے دل میں بات آئی اور بات تو دل میں آ ہی جاتی ہے بشری تقاضے کی وجہ سے، انہوں نے کہا: دیکھو! جو لوگ مکہ سے آئے تھے وہ اپنے تھے اس لیے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو زیادہ دیا ہے اور ہمیں تھوڑا دیا ہے، یہ کوئی الزام، غیبت یا بہتان نہیں تھا یہ بشری لحاظ سے ایک بات زبان سے کہہ دی۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو جمع کر دیا۔ اب حضور کا جملہ سننا! حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس موقع پر فرمانے لگے: مدینے والو! تم مجھے ایک بات تو بتاؤ! تم یہ چاہتے ہو کہ میں مال ان کو دے دوں اور خود تمہارےساتھ چلا جاؤں یا تم چاہتے ہو کہ مال تمہیں دے کر خود ان کے ساتھ چلا جاؤں! تم کیا چاہتے ہو؟
انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! سارا مال ان کو دے دیں لیکن آپ ہمارے ساتھ چلیں۔ (سبحان اللہ۔ سامعین)فرمایا: تم سمجھتے نہیں کہ میں نے مال دے کر ان کو واپس کیا ہے اور میں خود تمہارے ساتھ جا رہا ہوں، میرا مرنا اور جینا تمہارے ساتھ ہے!
وفائے پیغمبر:
میرے پیغمبر کی وفا دیکھو! مکہ فتح ہو گیا ہے، اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تو مکہ میں دفن ہو سکتے تھے لیکن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں نہیں بلکہ جن صحابہ نے آپ سے وفا کی 2ہے اللہ کے نبی نے ان کے ساتھ اپنی موت اور حیات کے فیصلے کیے ہیں۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم واپس مکہ نہیں گئے بلکہ اللہ کے نبی مدینہ منورہ میں ہی رہے اور آج پوری دنیا مکہ مکرمہ کو چھوڑ کر مدینہ منورہ جا رہی ہے کیونکہ حضور مدینہ منورہ میں آرام فرما ہیں۔ اللہ ہمیں یہ بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین۔ سامعین)
مدینہ میں دوہری برکتیں دے دے!
ہم اللہ کے نبی کا مدینہ بھی مانتے ہیں اور اللہ کے نبی کا مکہ بھی مانتے ہیں۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ہے کہ اے اللہ! جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا فرمائی ہے اور آپ نے مکہ میں برکتیں دی ہیں، مدینہ میں دہری برکتیں عطا فرما دیں! اور اللہ نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں قبول فرمائی ہیں۔
محدثین نے تو بہت ساری باتیں اس پر لکھی ہیں، میں ایک اور عنوان پر بات کہتا ہوں۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یا اللہ! آپ نے مکہ میں جوبرکتیں دی ہیں مدینہ میں دوہری برکتیں عطا فرما دیں۔ اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول فرمائی ہے۔ عام طور پر علماء تو یوں بات فرماتے ہیں کہ مکہ میں جو انعامات ہیں مدینہ میں اس سے دوہرے انعاما ت ہیں لیکن میں اس کو دوسرے انداز میں کہتا ہوں کہ مکہ میں تو لوگ اس لیے جاتے ہیں کہ ادھر ایک نماز پر ایک لاکھ کا اجر ملتا ہے اور مدینہ میں تو ایک نماز کا ایک لاکھ اجر نہیں ہے تو پھر یہ مکہ کے بجائے مدینہ کیوں جا رہے ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کے نبی نے دعا مانگی ہے کہ اللہ! مدینہ کو دوہری برکتیں دے دے! ثواب اگرچہ تھوڑا ملتا ہے لیکن جاتے پھر بھی مدینہ ہیں۔ اس کا مطلب کہ لوگ ثواب کو نہیں دیکھ رہے لوگ نبی کی عقیدت کو دیکھ رہے ہیں۔
روضہ اطہر کے ذرات کی فضیلت:
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہاں موجود ہیں ؟ (مدینہ میں۔ سامعین) اور مؤمن کی شان ہے کہ وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کو دیکھتا ہے۔ ہم تو مکہ بھی مانتے ہیں اور مدینہ بھی مانتے ہیں۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ نے فضائل اعمال میں اھل السنۃ والجماعۃ احناف دیوبند کا ایک عقیدہ لکھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس قبر مبارک میں مدفون ہیں اس کی مٹی کے ذرے جو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود سے ملے ہوئے ہیں یہ مکہ سے بھی اعلیٰ ہیں، کعبہ سے بھی اعلیٰ ہیں، عرش و کرسی سے بھی اعلیٰ ہیں۔ (سبحان اللہ۔ سامعین)
فضائل اعمال پر اعتراض کا جواب:
ایک غیر مقلدبیان کر رہے تھے اور فضائل اعمال ہاتھ میں تھی۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمۃ اللہ علیہ کی بات کی تردید کر رہے تھے طنزیہ انداز میں۔ اس نے کہا کہ تمہارے بوڑھے شیخ نے فضائل اعمال کے شروع میں لکھا ہے کہ مجھے ڈاکٹر نے کہا کہ تمہاری عقل کمزور ہے تم دماغی کام نہ کیا کرو، اس کے بعد میں نے فضائل اعمال لکھی ہے۔ تو وہ غیر مقلد کہنے لگا کہ دماغ کام کرتا نہیں تھا اور فضائل اعمال لکھ دی ہے۔ میں نے کہا: آپ کیسی بات کہتے ہیں؟ ڈاکٹر نے تو کہا کہ آپ دماغی کام نہ کرو، یہ تو نہیں کہا کہ آپ کا دماغ خراب ہو گیا ہے؟ اب دیکھو!کوئی شخص کسی بوڑھے آدمی سےکہتا ہے کہ بھائی آپ بوڑھے ہیں، کمزور ہیں، آپ دماغی کام نہ کریں تو اس کا معنیٰ یہ ہے کہ اس کا دماغ ٹھیک نہیں ؟! میں کہتا ہوں کہ ان کا دماغ تو ٹھیک تھا لیکن دماغ تیرا خراب ہو گیا ہے جو تجھے حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ کی بات سمجھ نہیں آ رہی۔
وہ غیر مقلد کہتا ہے کہ دیکھو! حضرت شیخ زکریا فرماتے ہیں کہ مٹی کے وہ ذرے جو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر سے ملے ہو ئے ہیں یہ کعبہ سے بھی افضل ہیں۔ کہنے لگا کہ میں تبلیغی جماعت والوں سے کہتا ہوں کہ جب تم نماز پڑھو تو منہ کعبہ کی طرف نہ کرو، تم لوگ منہ مدینہ کی طرف کرو کیونکہ مدینہ کعبہ سے افضل ہے۔
اب لوگ پریشان ہوتے ہیں کہ بڑی وزنی دلیل دی ہے۔ میں نے کہا: آپ پریشان نہ ہوا کریں، آپ ہم سے رجوع فرما لیا کریں۔ مریض بڑے سے بڑا بھی ہو تو ڈاکٹر کے پاس لے جایا کریں، گھر میں رہیں تو پریشانی تو ہوتی ہے۔ میں نے اس کا جواب دیا۔ میں نے کہا کہ تمہارے ہاں عرش کعبہ سے افضل ہے تو جب تم نماز پڑھو تو منہ اوپر کر لیا کرو! لوگ پوچھیں کہ ایسا کیوں کر رہے ہو تو ان سے کہنا کہ عرش؛ کعبہ سے افضل ہے۔ تم ایسا کر لیا کرو تاکہ ہمیں پتا چلے کہ جس کو تم افضل مانتے ہو اسے کعبہ بھی مانتے ہو لیکن تم نے یہ بات نہیں کرنی۔
کعبہ مرکزِ عبادت اور روضہ مرکزِ عقیدت:
ہم ہیں حضرت شیخ زکریا رحمۃ اللہ علیہ اور علماء دیوبند کو ماننے والے، ہم کہتے ہیں کہ ایک ہوتی ہے عبادت اور ایک ہوتی ہے عقیدت۔ ہم منہ کعبہ کی طرف کرتے ہیں کیونکہ کعبہ مرکزِ عبادت ہے اور ہمارا دل روضہ کے ساتھ دھڑکتا ہے کیوں روضہ مرکزِ عقیدت ہے۔ ( سبحان اللہ۔ سامعین) اب دیکھو! ہمیں تو کوئی الجھن نہیں، ہم تو دونوں باتوں کو تسلیم کر لیتے ہیں۔
لوگ آیت ٹھیک پڑھتے ہیں لیکن معنی غلط کرتے ہیں:
﴿اِتَّخَذُوۡۤا اَحۡبَارَہُمۡ وَ رُہۡبَانَہُمۡ اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ وَ الۡمَسِیۡحَ ابۡنَ مَرۡیَمَ ﴾
التوبۃ9: 31
بعض لوگ قرآن کی آیت ٹھیک پڑھتے ہیں اور معنیٰ ومطلب غلط بیان کرتے ہیں۔ یہ میرا مستقل ایک عنوان ہے۔ اس پر میں ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں تاکہ عقیدہ سمجھ میں آئے۔ قرآن کریم میں ہے:
﴿اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّہُمۡ مَّیِّتُوۡنَ ﴿۫۳۰﴾﴾
الزمر39: 30
اب لوگ آیت پڑھتے ہیں اور مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ ”تم نے بھی مر جانا ہے اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مر جانا ہے تو دونوں ایک جیسے ہیں۔“
ہم نے کہا: آیت تو تم نے ٹھیک پڑھی ہے لیکن مطلب غلط بیان کیا ہے۔ اگر دونوں کی موت ایک جیسی ہے تو اللہ یوں فرماتے: ” اِنَّكَ وَهُمْ مَيِّتُوْنَ“ بلکہ اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےلیے میت کا لفظ الگ لائے ہیں اور امت کے لیے الگ لائے ہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ امتی کی موت الگ ہے اور نبی کی موت الگ ہے۔
اس آیت کے متعلق اگر میں بلاغت اور معانی کی بات کروں، فن کی بات کروں تو وہ آپ کو سمجھ نہیں آنی اس لیے میں ایک مثال دیتا ہوں تا کہ آپ کو بات سمجھ میں آ جائے۔ جب جلسہ ہوتا ہے تو اسٹیج پر اعلان ہوتا ہے کہ بھائیو! کھانا کھا کر جائیں، ہم نے مہمانوں کے لیے کھانے کا انتظام کیا ہے۔ اب آپ مولانا صاحب سے کھانےکا اعلان کروائیں مسجد عثمانیہ میں اور میں دعا کروا کر وہیں نیچے بیٹھ جاؤں تو مولانا صاحب مجھے کہیں گے کہ مولانا گھمن صاحب! کیا ہوا؟ میں کہتا ہوں: آپ نے اعلان فرمایا ہے نا کہ مہمان کھانا کھا کر جائیں تو میں بھی ان کے ساتھ بیٹھ گیا ہوں۔
مولانا مجھے فرماتے ہیں کہ آپ کا کھانا ان کے ساتھ نہیں بلکہ ادھر کمرے میں ہے۔ اب بتاؤ اس کا کیا مطلب ہے؟ وہی پلاؤ جو آپ کھا رہے ہیں وہی اس کمرے میں ہے؟ کیا یہی معنی ہے؟ (نہیں۔ سامعین) یہ جو کہہ رہے ہیں تمہارا کھانا ادھر ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں کھانا اور ہے اور وہاں کھانا اور ہے۔ اگرایسا نہیں تھا تو یہ کیوں کہا آپ کا کھانا ادھر ہے۔ میں کہتا ہوں: جس طرح مولانا اور خطیب کو یہ بات کہنا کہ آپ یہاں نہ کھائیں، آپ کا کھانا ادھر ہے، اس کامطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ کھانا الگ ہے اور یہ کھانا الگ ہے ۔
اب دیکھو! اللہ یہاں فرماتے ہیں: ﴿
اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّہُمۡ مَّیِّتُوۡنَ ﴿۫۳۰﴾﴾
نبی کو
﴿مَیِّتٌ﴾
الگ فرمایا اور امت کو
﴿مَّیِّتُوۡنَ﴾
الگ فرمایا۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ نبی کی موت الگ ہے اور امتی کی موت الگ ہے۔ میں نے کہا: بعض لوگ آیت ٹھیک پڑھتے ہیں لیکن مطلب غلط بیان کرتے ہیں۔
منکرِ تقلید سے گفتگو کا طریقہ:
اب یہ آیت
﴿اِتَّخَذُوۡۤا اَحۡبَارَہُمۡ وَ رُہۡبَانَہُمۡ اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ وَ الۡمَسِیۡحَ ابۡنَ مَرۡیَمَ ﴾
وہ لوگ ہمارے خلاف پڑھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہودو نصاریٰ کی عادت یہ تھی کہ انہوں نے اولیاء کو اور مولویوں کو خدا بنا رکھا تھا اور انہوں نے بھی ابوحنیفہ کو خدا بنا رکھا ہے۔ اُن کے مولوی جو بات کہتے تھے وہی مانتے تھے اور اِن کا امام ابو حنیفہ جو بات کہتا ہے یہ وہی مانتے ہیں۔
میں نے کہا کچھ خدا سے ڈرو! اللہ کی بات اپنے امام سے سمجھنا یہ کوئی جرم کی بات نہیں۔ اگر کوئی بندہ تمہیں یہ بات کہے تو میں آسان لفظوں میں آپ کو اس کی بات کا جواب دینا سکھاتا ہوں کہ پھر آپ اس سے پوچھیں کہ تم قرآن کس سےپڑھتے ہو؟ وہ کہے گا: قاری صاحب سے۔آپ اس سے پوچھیں: قرآن کا ترجمہ کس سے پڑھتے ہو؟ وہ کہے گا: مولوی صاحب سے۔ اس سے پوچھو: قرآن ہے کس کا؟ وہ کہے گا: اللہ پاک کا۔ اب اس سے کہو: جب قرآن اللہ پاک کا ہے تو اللہ سے کیوں نہیں پڑھتے؟ مولوی صاحب سے کیوں پڑھتے ہو؟وہ کہے گا: کلام خدا کا ہے لیکن پڑھتے مولویوں سے ہیں۔ اس پر آپ نے کہنا ہے کہ حدیث تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے لیکن سمجھتے امام ابو حنیفہ سے ہیں، تم اللہ کا قرآن مولوی سے پڑھو تو یہ تقلید شرک نہیں اور ہم اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے سمجھ لیں تو بتاؤ یہ تقلید شرک کیسے ہے؟
تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ بعض لوگ آیت ٹھیک پڑھتے ہیں لیکن اس کا مطلب غلط بیان کرتے ہیں۔ اللہ ہمیں صحیح مطلب سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین۔ سامعین)
غازِ ثور کا واقعہ:
﴿اِلَّا تَنۡصُرُوۡہُ فَقَدۡ نَصَرَہُ اللہُ اِذۡ اَخۡرَجَہُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ثَانِیَ اثۡنَیۡنِ اِذۡ ہُمَا فِی الۡغَارِ اِذۡ یَقُوۡلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللہَ مَعَنَا ۚ﴾
التوبۃ9: 40
یہ واقعہ آپ نے سنا ہے۔ میں نے صرف آپ کی خدمت میں ایک دلیل پیش کرنی ہے۔ وہ دلیل یہ ہے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت فرمائی، مکہ سے مدینہ گئے، راستے میں غارِ ثورمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن تک قیام فرمایا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ تھے۔ جب مشرکین غار کے باہر آئے اگر وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں مبارک کو دیکھتے تو دیکھ سکتے تھے۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو بڑا غم ہوا۔ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! میں بڑا پریشان ہوں۔ پریشانی کی وجہ یہ نہیں تھی کہ میرا کیا بنے گا؟ بلکہ پریشانی کی وجہ یہ تھی کہ دشمن کو پتا چلا تو حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم گرفتار ہو جائیں گے۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”
لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللہَ مَعَنَا
“ ابوبکر! تو غمزدہ نہ ہو، خدا ہم دونوں کے ساتھ ہے، صرف یہ نہیں کہا کہ میرے ساتھ ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو لے کر جا رہے تھے، آگے دریاہے اور پیچھے فرعون کی فوجیں ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے کہا: اب کیا کریں؟ آگے جائیں تو دریا ہے اور پیچھے جائیں تو فرعون کی فوج ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا:
﴿اِنَّ مَعِیَ رَبِّیۡ سَیَہۡدِیۡنِ ﴿۶۲﴾﴾
الشعراء26: 62
اللہ میرے ساتھ ہے ، وہ میری راہنمائی کرے گا۔
اس سے پتا چلا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنی قوم پر اعتماد نہیں تھا اس لیے فرمایا: خدا میرے ساتھ ہے، میری مدد فرمائے گا۔ ساتھ میں قوم کی مدد بھی ہو جائے گی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر اعتماد تھا، اس لیے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صدیق! خدا مجھے بھی بچائے گا اور خدا تجھے بھی بچائےگا۔
اس سے ایک نکتہ سمجھ میں آیا کہ
﴿مَعَنَا﴾
کیوں فرمایا؟ صدیق غمزدہ ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کہیں پکڑے نہ جائیں۔ اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جملہ نقل کردیا
﴿لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللہَ مَعَنَا﴾
کیونکہ مشرکینِ مکہ نے کہا تھا کہ جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دے -نعوذ باللہ- ان کا سر لائے یا زندہ گرفتار کر لائے تو اس کو ایک سو اونٹ انعام میں دیں گے۔ ابوبکر صدیق کا سر لائے یا زندہ گرفتار کر لائے تو اس کو بھی ایک سو اونٹ انعام دیں گے۔تو جو انعام اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے طے تھا وہی انعام صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے لیے طے تھا۔ انعام دونوں کا ایک تھا تبھی تو لفظ ایک جیسا لائے ہیں
﴿اِنَّ اللہَ مَعَنَا﴾
جو انعام میرا ہے وہ انعام تیرا ہے، تو جو خدا میرا ہے وہ خدا تیرا ہے، صدیق خدا مجھے بھی بچائےگا اور خدا تجھے بھی بچائےگا۔ (سبحان اللہ۔ سامعین)
اور میں کہتا ہوں کہ اگر آپ کا ذوق تازہ ہو تو نکتہ سمجھنا کتنا آسان ہے کہ جو انعام اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے وہی انعام صدیق اکبر کا ہے۔ پتا چلا کہ مکہ کا مشرک بھی سمجھتا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مقام صدیق کا ہے۔ (سبحان اللہ۔ سامعین) لیکن آج کا کافر بے ایمان یہ بات نہیں سمجھتا۔
صحابیتِ صدیق اکبر:
﴿ اِذۡ یَقُوۡلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللہَ مَعَنَا﴾
ہر صحابی کا اپنا اپنا اعزاز ہے۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا اعزاز یہ ہے کہ قرآن نے ان کو صحابی کہا ہے۔
﴿اِذۡ یَقُوۡلُ لِصَاحِبِہٖ﴾
اس لیے علماء نے لکھا ہے:
"مَنْ أَنْكَرَ صُحْبَةَ أَبِيْ بَكْرٍ فَقَدْ كَفَرَ لِإِنْكَارِهٖ كَلَامَ اللهِ تَعَالىٰ"
تفسیر البحر المحیط: ج5 ص45
جو شخص حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا انکار کرے وہ مسلمان نہیں رہتا،کیونکہ حضرت ابو بکر صدیق کی صحابیت پر قرآن کی نص موجود ہے۔ (سبحان اللہ۔ سامعین)
چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین پیغمبر کے صحابہ نے بننا تھا اورجس کو قرآن نے صحابی کہا وہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ تو پتا چلا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جانشین اور خلیفہ بلا فصل صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہیں۔
غزوہ تبوک:
﴿وَّ عَلَی الثَّلٰثَۃِ الَّذِیۡنَ خُلِّفُوۡا ؕ حَتّٰۤی اِذَا ضَاقَتۡ عَلَیۡہِمُ الۡاَرۡضُ بِمَا رَحُبَتۡ وَ ضَاقَتۡ عَلَیۡہِمۡ اَنۡفُسُہُمۡ وَ ظَنُّوۡۤا اَنۡ لَّا مَلۡجَاَ مِنَ اللہِ اِلَّاۤ اِلَیۡہِ ؕ ثُمَّ تَابَ عَلَیۡہِمۡ لِیَتُوۡبُوۡا ؕ اِنَّ اللہَ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ ﴿۱۱۸﴾٪﴾
میں مضمون سمیٹتا ہوں۔ غزوہ تبوک کا موقع تھا۔ یہ پہلا غزوہ تھا کہ جس میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف صاف فرمایا کہ تبوک جانا ہے تیاری کرو، چندے دو، افراد لاؤ، بھرپور تیاری کرو۔ عموماً ایسا ہوتا تھا کہ جب بھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی علاقے میں جہاد کےلیے جاتے تو جہاں جانا ہوتا اس جگہ کا نام نہیں لیتے تھے تاکہ منافقین ہمارا اصل مقام کسی کو بتا نہ دیں۔ جب اعلان ہوا کہ اس غزوہ میں سارے مسلمان چلیں تو بعض مسلمان یہ حکم ملتے ہی فوراً تیار ہو گئے لیکن دس مسلمان ایسے تھے جو وقتی سستی کی وجہ سے نہ جا سکے۔ غزوہ تبوک کا یہ سفر پچاس دن کا تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ سے واپس تشریف لائے تو ان دس مسلمانوں میں سے سات نے اپنی توبہ و ندامت کا اظہار اس طرح کیا کہ انہوں نے اپنے آپ کو مسجد کے ستونوں کے ساتھ باندھ دیا کہ اللہ معاف کرے گا تو ہم اپنے آپ کو کھولیں گے ورنہ ہم یونہی بندھے رہیں گے۔ ان کی توبہ قبول ہو گئی تو ان کو کھول دیا گیا۔
ان میں باقی جو تین حضرات تھے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! ہم صاف صاف اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہیں، ہم سے غلطی ہوئی ہے، ہم آپ کی خدمت میں آئے ہیں، اب اللہ کےلیے ہمیں معاف فرما دیں۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے: دیکھو! تم نے میرے ساتھ کوئی دھوکے بازی نہیں کی، تم نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ ہمارا عذر بھی نہیں تھا۔ کسی کی کھجوریں پکی ہیں، کسی کے گھر کا مسئلہ ہے، یہ چھوٹے چھوٹے مسائل تھے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے: میں اس وقت تک معافی کا اعلان نہیں کر سکتاجب تک اللہ رب العزت آسمان سے تمہاری معافی کا اعلان نہ فرمائیں اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ان کے ساتھ بولنا چھوڑ دو، بات چیت بند کر دو۔
بتاؤ! یہ کتنا مشکل مسئلہ تھا کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم بھی بات نہیں فرماتے، صحابہ رضی اللہ عنہم بھی بات نہیں کرتے، سب نے ان سے بات چیت کرنی چھوڑ دی ہے۔ یہ کل تین صحابہ تھے؛ مرارہ بن ربیع العمری،ہلال بن امیہ واقفی اور کعب بن مالک رضی اللہ عنہم۔ یہ پورا واقعہ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے خود بیان فرمایا۔ کہتے ہیں کہ میں مسجد نبوی میں جاتا تھا، باقی دونوں تو بزرگ تھے، بوڑھے تھے، وہ گھر میں بیٹھ گئے، باہر نکلنے کی ہمت نہیں تھی، گھر میں بیٹھ کر ہی روتے رہتے تھے لیکن میں مسجد نبوی میں جا کر نماز پڑھتا اور میں اپنی آنکھوں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا رہتا کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا میرے ساتھ معاملہ کیا ہے۔
میں دیکھتا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دیکھ رہے ہیں لیکن چونکہ اللہ کا حکم تھا کہ بولنا نہیں اس لیے مجھ سے بولتے نہیں تھے۔ جب میری نگاہ پڑتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نگاہ کو بدل لیتے۔ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: چالیس دن اس طرح گزر گئے۔ ادھر سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پیغام بھی آیا کہ اپنی بیویوں سے بھی الگ ہو جاؤ، تم نے بیویوں کے قریب بھی نہیں جانا۔ ایک صحابی حضرت مرارہ بن ربیع العمری رضی اللہ عنہ بوڑھے بھی تھے، ان کی بیوی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گئی اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میرا خاوند بوڑھا ہے، آنکھوں سے کمزور ہے، گھر کے کام کا مسئلہ ہے، ان کی خدمت کا مسئلہ ہے، مجھے اجازت دیں کہ میں ان کے پاس ٹھہروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کے پاس رہو لیکن ان کو قربت کا موقع نہ دو۔ انہوں نے کہا: حضور! وہ تو ویسے ہی بوڑھے ہیں۔ فرمایا: ان کو قربت کا موقع نہ دو، البتہ ان کے گھر میں ٹھہر سکتی ہو۔
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں جوان تھا، جب یہ حکم ہوا تو میں نے اپنی بیوی سے کہا: تم اپنے میکے چلی جاؤ۔ میرے بعض متعلقین نے مجھے فرمایا کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا توتم کیوں اسے کہتے ہو کہ میکے چلی جائے؟ انہوں نے کہا: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بیویوں سے الگ رہو، میں جوان آدمی ہوں، ممکن ہے مجھ سے خطا ہو جائے اس لیے میں نے اپنی بیوی کو اس کے میکے میں بھیج دیا ہے، معلوم نہیں کہ اللہ کے نبی کیا حکم جاری فرمائیں۔
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: یقین جانو! زمین وسیع اور کشادہ ہونے کے باوجود تنگ ہو گئی تھی، میرے لیے جینا مشکل ہو گیا۔ اس سے بڑا ایک امتحان یہ پیش آیا کہ ایک عیسائی بادشاہ نے اپنا قاصد بھیجا اور ریشمی رومال پر پیغام لکھ کر بھیجا کہ تم کو تمہارے محمد نے چھوڑ دیا ہے - صلی اللہ علیہ وسلم - ہمارے پاس آجاؤ، ہم تمہارا اعزاز و اکرام کریں گے۔ یہ کتنا بڑا امتحان تھا۔ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے اس ریشمی رومال کو لیا اور تندور میں ڈال دیا۔ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر اس سے بڑی قربانیاں بھی دے سکتے ہیں، یہ اللہ کا حکم ہے اس لیے ہم اسے برداشت کریں گے۔
کہتے ہیں کہ پچاس دن گزر گئے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رات کے وقت وحی آئی کہ ان کو بتائیں کہ خدا نے ان کےلیے رضامندی کا اعلان کردیا ہے۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: یا رسول اللہ! کعب بن مالک کو ابھی اس بات کی اطلاع کر دی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا ہوا تو سب کی نیند خراب ہوگی، لوگ دوڑیں گے ان کو خوشخبری دینے کےلیے، اس لیے امت کو آرام کرنے دو۔
جب صبح ہوئی تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا۔ حضرت ابوبکر صدیق بھی دوڑے، حضرت عمربن خطاب بھی دوڑے خوشخبری دینے کےلیے۔ایک صحابی پہاڑی پر چڑھے اور زور سے آواز دی تاکہ ان سے کوئی سبقت نہ لےجائے۔
حضرت کعب فرماتے ہیں کہ میں مسجد نبوی میں داخل ہوا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں۔ باقی صحابہ آپ کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ مجھے دیکھ کر سب سے پہلے حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ میری طرف بڑھے انہوں نے کہا: بھائی! تمہیں مبارک ہو۔ پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک خوشی سے چمک رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ دن ایسا ہے جو تمہاری زندگی میں پیدائش سے لے کر آج تک تمام دنوں میں سے سب سے زیادہ بہتر ہے، اس سے پہلے زندگی میں کبھی تم نے ایسی خوشی کا دن نہیں دیکھا ہو گا، میں تمہیں مبارک دیتا ہوں کہ اللہ نے تمہاری توبہ قبول فرما لی ہے۔
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا آپ نے معاف فرمایا ہے یا اللہ نے معاف فرمایا ہے؟فرمایا: اللہ نے آسمان سے تمہاری معافی کا اعلان فرما دیا ہے۔ (سبحان اللہ۔ سامعین)
مفسرین فرماتے ہیں کہ پچاس دن کی حکمت بظاہر یہ سمجھ آتی ہے کہ غزوہ تبوک پچاس دن کے سفر کا تھا اس لیے ان کی توبہ پر بھی پچاس دن لگے ہیں۔
صاف گوئی کی اہمیت:
مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس آیت سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اگر انسان سے غلطی ہو جائے تو اپنے بڑوں کے سامنے حیلے اور بہانے پیش نہ کرے بلکہ صاف صاف یہ بات کہہ دے کہ مجھ سے غلطی ہو گئی ہے۔ آپ مجھے معاف فرمادیں۔ بڑوں کے سامنے حیلے اور بہانے نہ کیا کرو! صاف صاف اپنا جرم معاف کروا لیا کرو، یہ بہتر ہے، اور دوسری یہ بات ارشاد فرمائی کہ جہاد کو چھوڑنا بہت بڑا جرم ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس جرم کو جرم سمجھا ہے لیکن ہماری حالت یہ ہے کہ جہاد بھی نہیں کرتے اور اس جرم کو جرم بھی نہیں سمجھتے۔ جرم سمجھیں گے تو اللہ رب العزت توبہ کی توفیق عطا فرمادیں گے اور اگر جرم نہیں سمجھیں گے تو پھر توبہ کی توفیق بھی نہیں ہوگی۔ اللہ ہم سب کو ایمان کی موت عطا فرمائے۔ (آمین۔ سامعین)
حصولِ تقویٰ کا طریقہ:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَ کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ ﴿۱۱۹﴾﴾
گناہوں کو چھوڑو، تقویٰ اختیار کرو! اور یہ تقویٰ حاصل کیسے ہو گا؟ فرمایا: صادقین کے ساتھ رہو، اللہ ان کی صحبت سے تمہیں تقویٰ کی نعمت عطا فرما دیں گے۔
ہمارے شیخ حضرت شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ بڑی پیاری بات فرماتے ہیں کہ اگر کسی سے کہو نا کہ تم بیعت کر لو! تو کہتے ہیں جی! اب پیر کہاں ہیں جن کی بیعت کریں؟ فرمایا: جب پیٹ میں درد ہو تو کوئی نہیں کہتا کہ کہاں ہیں حکیم اجمل، جس سے دوائی لیں... پیٹ میں درد ہو تو فوراً دوڑتے ہیں اور جب طریقت کا مسئلہ ہو تو پھر کہتے ہیں کہ اب وہ پیر کہاں ہیں؟ پیٹ میں درد ہو تو چھوٹے چھوٹے ڈاکٹر کو قبول کر لیتے ہیں، یہ کوئی نہیں کہتا کہ حکیم اجمل نہیں رہا تو علاج نہیں کروائیں گے۔
مجھے اس پر ایک واقعہ یاد آیا کہ حضرت لاہوری رحمۃ اللہ علیہ جب فوت ہو گئے تو ان کا تعزیتی جلسہ تھا شیرانوالہ باغ لاہور میں، علماء اس موقع پر بیانات فرماتے رہے کہ حضرت لاہوری رحمۃ اللہ علیہ چلے گئے، اب ان جیسا کون آئے گا، حضرت بہت بڑے تھے۔ مولانا غلام غوث ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے آدمی تھے اور حضرت کا اپنا ایک مزاج عجیب تھا، بڑی کھلی طبیعت کے آدمی تھے، مولانا غلام غوث ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ اس موقع پر فرمانے لگے کہ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی چلے گئے اب وہ نہیں آئیں گے، مولاناحسین احمد مدنی چلے گئے وہ نہیں آئیں گے، علامہ محمد انور شاہ کشمیری چلے گئے وہ نہیں آئیں گے، اب اس بوڑھےغلام غوث ہزاروی پر گزارا کرنا سیکھو! جب میں مرجاؤں گا تو میں بھی واپس نہیں آؤں گا۔
ان نعمتوں کی قدر کریں!
میں تو یہ بات نہیں کہتا، میں تو بہت چھوٹا ہوں لیکن اتنی بات کہتا ہوں کہ ہم پر گزارا کرنا سیکھو! جب ہم مرجائیں گے تو تمہیں یہ بھی نظر نہیں آنا! یہ بات میں کس درد سے تمہیں سمجھاؤں؟ اللہ ہمیں یہ باتیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
امام اھل السنۃ حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ کے بیٹے مولانا عزیز الرحمٰن شاہد جدہ میں ہوتے ہیں، جب واپس آئے تو میرا گوجرانولہ اسٹیڈیم میں ختم نبوت کا جلسہ تھا، میں وہاں شرکت کےلیے گیا تو میں نے سوچا کہ ان سے بھی مل لیں۔ جب میں ان سے ملا تو مجھے فوراً کہنے لگے: مولانا! مجھے بہت تعجب ہوتا ہے کہ ہم تجھے گھر کا بندہ سمجھ کر قدر نہیں کرتے لیکن میں جدہ ائیر پورٹ پر تھا تو وہاں ایک انڈین مسلمان مجھے ملا۔ مجھے کہنے لگا: آپ کہاں جا رہے ہیں؟ میں نے کہا: پاکستان۔ اس نے کہا: پاکستان کے علماء کو جانتے ہو؟ میں نے کہا: بعضوں کو جانتا ہوں۔ اس نے سب سے پہلے آپ کا نام لیا اور کہا کہ مولانا الیاس گھمن کو جانتے ہو؟ میں بہت حیران ہوا کہ لوگوں کے ہاں آپ کی کیا قیمت ہے۔
حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی صاحب دامت برکاتہم انڈیا کے چودہ روزہ دورہ پر تھے۔ میں معہد الفقیر جھنگ گیا تو مدرسے کے شیخ الحدیث ہیں مولانا حبیب اللہ نقشبندی صاحب تو انہوں نے مجھے یہ بات سنائی، مجھے کہنے لگے کہ ہم چودہ روزہ دورے پر تھے تو پیر صاحب کہتے ہیں: مجھے دو باتوں پر بہت تعجب ہوا۔ ایک یہ کہ ہم دار العلوم دیوبند گئے ہیں، سہارنپور گئے ہیں تو یہاں کے لوگ پوچھتے ہیں کہ مولانا گھمن صاحب کا کیا حال ہے؟ مولانا حبیب اللہ نقشبندی مجھے فرمانے لگے کہ ہم تو تجھے عام خطیب سمجھتے ہیں اور دارالعلوم دیوبند اور سہارنپور کے مشائخ آپ سے کتنی عقیدت رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں دوسرا مجھے اس بات پر بہت تعجب ہوا کہ وہاں مسئلہ چلا کہ ویڈیو سی ڈی کا کیا حکم ہے؟ وہ سب کہتے ہیں کہ حرام ہے ناجائز ہے، مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے جواز کا فتویٰ دیا ہے تو ہم نے جواب لکھ کر دےدیا ہے۔ مولانا حبیب اللہ نقشبندی کہتے ہیں کہ ہم نے ان سے پوچھا کہ مولانا الیاس گھمن صاحب تو ویڈیو سی ڈی بناتے ہیں تو وہ حضرات کہنےلگے کہ ان کو کچھ نہ کہو۔
اس کی وجہ کیا ہے؟ آپ کو اندازہ نہیں۔ ہماری ویڈیو سی ڈی نے انڈیا میں کتنا کام کیا ہے! انڈیا کا ایک مولوی ہے معراج ربانی۔ آپ ذرا اس کو سنیں کہ اس نے سعودی عرب میں کھلے عام تبلیغی جماعت کو یہود کا ایجنٹ، ڈاکو، چور،جیب کترے ... جو باتیں وہ تبلیغی جماعت کے بارے میں کہہ سکتا تھا وہ اس نے کہی ہیں۔ بحمداللہ تعالیٰ چار سال گزر گئے ہیں جب سے ہماری سی ڈیز میں ان کو جواب ملا ہے تو ابھی تک معراج ربانی کا تبلیغی جماعت کے خلاف بیان نہیں آیا۔ آپ کو تو یہاں شبِ جمعہ کا مرکز مل جاتا ہے، یہ سعودیہ والوں سے پوچھو کہ جن کوانٹر نیٹ دیکھنا پڑتا ہے، ان سے پوچھو کہ ہماری ضرورت کتنی ہے؟
اٹلی کے ہمارے ایک دوست ہیں، پچھلی مرتبہ رائیونڈ اجتماع پر آئے تھے۔ وہ مجھے کہنے لگے: مولانا! بہت پریشان ہیں۔ میں نے کہا: کیا ہوا؟ کہنے لگے کہ تبلیغی جماعت کے خلاف توصیف الرحمٰن غیر مقلد نے سی ڈی بنائی ہے، سال سال لگائے ہوئے ہمارے بندے اہل حدیث ہوئے ہیں، چار چار ماہ والے بندے اہل حدیث ہوئے ہیں اور خدا آپ کو جزائے خیر دے، اگر آپ اس کا جواب نہ دیتے تو ہمارے لیے اٹلی میں جینا مشکل تھا۔ ان سی ڈیز نے بریکر کا کام کیا ہے، اب کوئی بھی لڑکا اہل حدیث ہوتا ہے تو ہم کہتے ہیں سی ڈی دیکھو! جب دلائل آتے ہیں تو لوگ واپس لوٹنا شروع ہوتے ہیں۔ اب اس کی تمہارے ہاں تو قیمت نہیں ہے، تم سرگودھا میں رہتے ہو، یہ باہر والوں سے پوچھو جہاں یہ مسائل پیش آتے ہیں اور پھر ان کا علاج ہوتا ہے۔ اللہ ہم سب کو قبول فرمائے، اللہ ہمیں توفیق عطا فرمائے۔
کارگزاری بتانی چاہیے:
ایک شیخ صاحب ہیں، آج ہم ان کے گھر بیٹھے تھے تو بھائی زکریا کہنے لگے کہ لوگ قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کے بہت مخالف ہیں۔ میں نے کہا: قصور مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا نہیں بلکہ قصور جمعیت علماء اسلام کا ہے۔ کہنے لگے: وہ کیسے؟ میں نے کہا: وہ یہ بات بتائیں کہ مولانا اسمبلی میں لڑائی کون سی لڑتے ہیں۔ ہم تو مولانا کے کارنامے بتاتے نہیں،اخبار تو ان کو کبھی کچھ لکھتا ہے کبھی کچھ لکھتا ہے، ہم کانوں کے کچے ہوتے ہیں تو فوراً ان باتوں پر یقین کر لیتے ہیں۔
تبلیغی جماعت سے لوگوں کو عقیدت کیوں ہے؟ اس لیے کہ تبلیغ والے اپنی کارگزاریاں سناتے ہیں کہ ہماری جماعت مراکش گئی، سوڈان گئی، فلاں جگہ گئی۔ میں کارگزاری سناؤں تو کہتے ہیں کہ ان کو ریاء کا بڑا شوق ہے، یہ اپنے ہی قصے سناتے ہیں۔ میں نے کہا: تبلیغ والے سناتے ہیں تو جائز ہے اور میں سناؤں تو ناجائز کیسے ہے؟ کارگزاری سناتا ہوں تو آپ کےسامنے آتا ہے کہ میرا دنیا میں کتنا کام ہے! کارگزاری نہ سنائیں تو پتا کیسے چلےگا؟ سی ڈیز آپ نے میری دیکھنی نہیں، کیسٹیں میری آپ نے سننی نہیں، کتابیں آپ نے میری پڑھنی نہیں، اب میں بھی نہ بتاؤں تو تمہیں بتائے گا کون کہ ہم کون سا کام کرتے ہیں؟ اللہ ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
امت کے لیے پیغمبر علیہ السلام کی شفقت:
یہ سورۃ التوبۃ کی آخری آیتیں ہیں، ان میں اللہ فرماتے ہیں:
﴿لَقَدۡ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ عَزِیۡزٌ عَلَیۡہِ مَا عَنِتُّمۡ حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۲۸﴾ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَقُلۡ حَسۡبِیَ اللہُ ۫٭ۖ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ؕ عَلَیۡہِ تَوَکَّلۡتُ وَ ہُوَ رَبُّ الۡعَرۡشِ الۡعَظِیۡمِ ﴿۱۲۹﴾٪﴾
اللہ فرماتے ہیں: مؤمنو! تمہیں مبارک ہو کہ ہم نے تمہیں ایسا پیغمبر دیا ہے جو تم سے بہت محبت کرتا ہے، تمہاری مشقت پر اس کو تکلیف ہوتی ہے، وہ شفقت والا بھی ہے، رحمت والا بھی ہے، میرے محمد کو دکھ محسوس ہوتا ہے۔ یہ چھوٹی بات نہیں ہے گناہ ہم کرتے ہیں اور تکلیف حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوتی ہے۔
ایک حدیث مبارک میں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تُعْرَضُ عَلَيَّ أَعْمَالُكُمْ
" میں دنیا چھوڑ جاؤں گا تو تمہارے اعمال قبر میں مجھ پر پیش ہوں گے۔ اس کا فائدہ کیا ہو گا؟ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم خود فرماتے ہیں: "فَمَا رَأَيْتُ مِنْ خَيْرٍ حَمِدْتُ اللّهَ عَلَيْهِ" تم نیک کام کرو گے تو میں اللہ کا شکر ادا کروں گا، "
وَمَا رَأَيْتُ مِنَ شَرٍّ اسْتَغْفَرْتُ اللّهَ لَكُمْ"
تم گناہ کرو گے تو میں تمہارے لیے وہاں خدا سے مغفرت مانگوں گا۔
مسند البزار: ج5 ص308 رقم الحدیث1925
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے جانے کے بعد بھی امت کے لیے غم زدہ اور پریشان ہیں۔
ایک عجیب دعا:
میں ایک مرتبہ کتاب ”حیاۃ الحیوان“ پڑھ رہا تھا۔ علامہ دِمْیَرِی نے اس میں ایک عجیب واقعہ لکھا ہے ۔ ایک آدمی تھے، وہ کہتے تھے کہ میں جب بیمار ہوتا تو دعا ان لفظوں سے مانگتا: ”اے اللہ! میں پریشان ہوں، بیمار ہوں اور مصیبت زدہ ہوں اور مؤمن کے دکھ کو دیکھ کر شیطان خوش ہوتا ہے اور مؤمن کے دکھ کو دیکھ کر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پریشان ہوتے ہیں، اے اللہ! میرے اِس دکھ کو ختم فرما کے شیطان کو پریشان کر دے اور حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم کو روضے میں خوش کر دے“ اللہ تعالیٰ میری اس دعا کو قبول فرما لیتے تھے اور میرے دکھ کو دور کر دیتے تھے۔
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جو آدمی یہ آیت
﴿حَسۡبِیَ اللہُ ۫٭ۖ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ؕ عَلَیۡہِ تَوَکَّلۡتُ وَ ہُوَ رَبُّ الۡعَرۡشِ الۡعَظِیۡمِ ﴿۱۲۹﴾٪﴾
صبح وشام سات مرتبہ پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس آدمی کے تمام کام آسان فرما دیتے ہیں۔
الجامع لاحکام القرآن للقرطبی: ج1 ص 1510
ہمیں بھی ان آیات کےپڑھنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین۔ سامعین)
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․