سورۃ یونس

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
سورۃ یونس
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿الٓرٰ ۟ تِلۡکَ اٰیٰتُ الۡکِتٰبِ الۡحَکِیۡمِ ﴿۱﴾ اَکَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا اَنۡ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی رَجُلٍ مِّنۡہُمۡ اَنۡ اَنۡذِرِ النَّاسَ وَ بَشِّرِ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنَّ لَہُمۡ قَدَمَ صِدۡقٍ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ؕؔقَالَ الۡکٰفِرُوۡنَ اِنَّ ہٰذَا لَسٰحِرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۲﴾ ﴾
میرے نہایت واجب الاحترام بزرگو! مسلک اھل السنۃ والجماعۃ سے تعلق رکھنے والے بزرگو، نوجوان دوستو اوربھائیو! آپ حضرات کےعلم میں ہےکہ ہمارے آج کے درس قرآن کا عنوان ہے”مضامینِ سورۃ یونس“
وجہ تسمیہ:
سورۃ یونس مکی سورت ہے۔ اس میں گیارہ رکوع ہیں اورایک سو نو آیات ہیں۔ میں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ قرآن کریم کی ایک سو چودہ سورتوں میں سے ہر ایک سورت کے نام کی ایک خاص وجہ ہے، اسے عربی زبان میں وجہ تسمیہ کہتے ہیں کہ اس سورت کا نام رکھنے کی وجہ یہ ہے۔ اس سورۃ کو سورۃ یونس اس لیے کہتے ہیں کہ اس مکمل سورت میں اللہ نے حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کا تذکرہ فرمایا ہےاور یونس علیہ السلام کا نام لے کر ذکر فرمایا ہے۔ فرمایا:
﴿فَلَوۡ لَا کَانَتۡ قَرۡیَۃٌ اٰمَنَتۡ فَنَفَعَہَاۤ اِیۡمَانُہَاۤ اِلَّا قَوۡمَ یُوۡنُسَ﴾
یونس10: 98
اللہ رب العزت نے ایک ضابطہ بیان فرمایا کہ جب بھی کوئی قوم ایمان لائے تو اس قوم کا ایمان اس قوم کو نفع دیتا ہے لیکن اگر ایمان نہ لائے تو خدا کے عذاب سے وہ قوم نہیں بچ سکتی ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم وہ واحد قوم ہے کہ جس نے اللہ کے عذاب کے آثار دیکھے تو گڑ گڑا کر تمام مردوں، عورتوں اور بچوں نے توبہ کی، اللہ رب العزت نے ان کی توبہ قبول فرمائی اور ان کی توبہ کی برکت سے ان کوعذاب سےمحفوظ فرما لیا۔ اس آیت کریمہ کا پہلے صحیح مطلب سمجھیں۔ اس کے بعد بعض مفسرین نے جو غلط مطلب بیان کیا ہے میں آپ کی خدمت میں پیش کر کے اس کی تردید بھی کروں گا تاکہ صحیح بات آپ کے ذہن میں آئے۔
یونس علیہ السلام کا قصہ:
اصل قصہ یہ ہے کہ عراق ایک ملک کا نام ہے اور موصل وہاں ایک بہت بڑے شہر کا نام ہے۔ اس کی ایک بستی ہے جس کا نام ”نینویٰ“ ہے۔ اس بستی کی طرف حضرت یونس علیہ السلام کواللہ تعالیٰ نے نبی بناکر بھیجا اورا س بستی کےرہنے والوں کی تعداد ایک لاکھ یاکچھ زائد تھی۔ خود قرآن کریم نے متعین نہیں فرمائی:
﴿وَ اَرۡسَلۡنٰہُ اِلٰی مِائَۃِ اَلۡفٍ اَوۡ یَزِیۡدُوۡنَ ﴿۱۴۷﴾ۚ﴾
الصافات 37: 147
قرآن کریم نےفرمایا کہ ایک لاکھ یاکچھ زائدتھے۔
بعض مفسرین فرماتےہیں: اللہ کے توعلم میں تھا کہ تعداد کتنی ہے تواللہ نےیوں کیوں فرمایا کہ یہ لوگ ایک لاکھ تھے یازائد تھے! اللہ توصاف فرماتے کہ ایک لاکھ تھے یا اتنے تھے۔ تو دراصل اس کی وجہ یہ ہے کہ بسااوقات اِسے ہم اپنی زبان میں کسرکہتےہیں کہ دہائیوں سے کچھ تعداد بڑھ جائے توکبھی اس کوشمارکرتے ہیں اور کبھی اس کو شمارنہیں کرتے۔ اگرکسروں کوشمار کریں توایک لاکھ سےزائدتھے اوراگر شمارنہ کریں توایک لاکھ بنتے تھے۔ اس لیے ان کودیکھنے والے لوگ کہتے تھے کہ ایک لاکھ کےکچھ لگ بھگ ہیں۔ اس لیے اللہ پاک نے تعداد متعین نہیں بیان فرمائی بلکہ جو بات اس وقت کےلوگ کہتےتھے اس کےمطابق گفتگو فرمائی ہے۔
حضرت یونس علیہ السلام نے اپنی قوم کومسلسل دعوت دی لیکن آپ کی قوم نے ان کی دعوت کوقبول نہیں کیا۔ وحی آئی اےمیرے پیغمبر! ان کو بتاؤ کہ اب تین دن کے بعد تمہارے اوپر اللہ کاعذاب آنےوالا ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام نے وحی کے مطابق اپنی قوم کو بتایا کہ تین دن کےبعد تمہارے اوپر عذاب آنے والا ہے۔ جب تین دن گزرے، آخری رات آئی تو حضرت یونس علیہ السلام بستی سے باہر چلے گئے کہ قوم پر عذاب آ رہا ہے۔
ان کی قوم نےدیکھا کہ عذاب کے آثار آنے شروع ہوئے،آندھی،بادل گرجنا شروع ہوئے توقوم کےسمجھدار بندوں نے کہا کہ یونس علیہ السلام اللہ کےنبی ہیں اورنبی کی بات کبھی غلط نہیں ہوتی، اس لیے یونس علیہ السلام کی بات کےمطابق عذاب آنا ہے۔ توذرا جاکر دیکھو کہ یونس علیہ السلام اس بستی میں ہیں یانہیں؟ یہ کیوں کہا؟ اس لیے کہ جب خدا کسی بستی پرعذاب نازل فرماتےہیں توعذاب نازل فرمانےسے پہلے نبی کو وہاں سےنکال لیتےہیں۔
تویہ دیکھو کہ یونس علیہ السلام یہاں بستی میں ہیں یانہیں؟توبعض لوگوں نےجاکر دیکھا توپتا چلاکہ یونس علیہ السلام اس بستی میں نہیں ہیں، بستی کو چھوڑچکےہیں۔ ان کےبڑوں نےکہا: اس کا مطلب یہ ہے کہ اب طے ہواہے کہ خدا کاعذاب آرہاہے، اس لیے بستی سےنکل جاؤ اورمیدان میں جمع ہوکر رودھوکر اللہ تعالیٰ سےمعافی مانگو شاید اللہ اس عذاب کوختم فرمادے۔ انہوں نے تہہ دل سے توبہ کی، دل سےندامت اختیار کی، رونا اور گڑگڑانا شروع کیا تواللہ رب العزت نےان سے عذاب کوٹال دیااورختم فرمادیا۔
حضرت یونس علیہ السلام توبستی سے دور جنگل کی طرف چلے گئے تھے۔ اب وہ عذاب کےآثار دیکھ رہےتھے لیکن عذاب نہیں آیاتو سوچا اب اگرمیں واپس جاؤں گا تومیری قوم سمجھے گی کہ نبی نے جھوٹ بولاہے اور اس قوم کا دستور یہ تھا کہ جو بندہ جھوٹ بولتا اس کو قتل کردیتے۔ اب یونس علیہ السلام نے سوچا کہ اگر واپس گیا تو میری قوم مجھے جھوٹا سمجھے گی توہوسکتاہے کہ مجھے ماردے۔
یونس علیہ السلام نے اپنی جان بچانے کےلیے یہی بہتر سمجھا کہ اس بستی کوچھوڑ کرکسی اورطرف چلاجاؤں۔ چنانچہ یونس علیہ السلام دریاکے کنارے پہنچے۔ سفرکا ارادہ فرمایا۔ آگےکشتی تیار کھڑی تھی۔ یونس علیہ السلام بیٹھے اور ملاح نےکشتی چلائی۔ کشتی چل پڑی۔ جب دریا کے درمیان میں کشتی پہنچی تو اب نہ آگے جاتی ہے اور نہ پیچھے آتی ہے۔ پوچھا: جی کشتی کیوں نہیں چل رہی؟ کشتی کےملاح نے کہاکہ لگتاہے ہماری کشتی میں اپنے آقاسے دوڑا ہوا کوئی غلام ہے اورجب ہماری کشتی میں کوئی ایسابندہ ہو تو ہماری کشتی نہیں چلا کرتی۔
یونس علیہ السلام کا بستی سے چلے جانا:
یونس علیہ السلام نےفرمایا کہ وہ تو میں ہوں۔ لوگوں نے کہا: یہ کیسے ہوسکتاہے؟ یونس علیہ السلام نےفرمایاکہ میں ہوں۔ انہوں نے کہا: یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اب اس بندے کو اس کشتی سےگراتےتوپھر کشتی نےچلناتھا، جب تک اس کی جان کی قربانی نہ دیتے توکشتی نےچلنا نہیں تھا۔ یونس علیہ السلام فرمانےلگے کہ مجھےدریامیں پھینک دو، یہ قصور تومیں نےکیاہے۔ خودقرآن کریم میں ہے:
﴿اِذۡ اَبَقَ اِلَی الۡفُلۡکِ الۡمَشۡحُوۡنِ ﴿۱۴۰﴾ۙ﴾
الصافات 37: 140
”آبق“ عربی زبان میں اس غلام کوکہتےہیں جواپنے مالک کی اجازت کےبغیر کہیں چلاجائے۔اللہ رب العزت نےیونس علیہ السلام کےلیے یہ لفظ استعمال کیاہے کہ جس طرح مالک کی اجازت کےبغیر غلام جائے اسی طرح ہمارانبی یونس ہماری اجازت کےبغیر گیاتھا۔ کیوں؟ کہ انبیاءعلیہم السلام کی سنت یہ ہےکہ وہ کسی علاقےسے ہجرت تب کرتے ہیں جب اللہ تعالیٰ صاف طورپر ہجرت کاحکم دے۔ یونس علیہ السلام ہجرت کا حکم آنے سے پہلے ہی اپنا علاقہ چھوڑ کر چلے گئے۔
یونس علیہ السلام کا تشریف لے جاناگناہ تو نہیں ہے کیونکہ یونس علیہ السلام کےذہن میں تھا کہ میری قوم جھوٹا سمجھےگی اور قتل کردے گی، میرے قتل کی وجہ سے پھران پر عذاب آئے گا کہ نبی کومار دیاہےتوبہتریہی ہے کہ میں کسی اورطرف چلاجاؤں لیکن چونکہ وحی نہیں آئی تھی کہ آپ بستی کوچھوڑکر چلےجائیں، بغیر وحی کےگئے تھے اور یہ گناہ تو نہیں تھا لیکن نبی کی شان کےلائق نہیں تھا کہ بغیر پوچھے یوں چلے جائیں۔اب وہ لوگ ماننے کےلیے تیارنہیں ہیں۔چنانچہ ان میں قرعہ اندازی ہوئی۔ جب قرعہ نکالا تویونس علیہ السلام کانام تھا۔ وہ پھر بھی تیار نہ ہوئے کہ اللہ کےنبی کو ہم کیسے پھینکیں؟ دوبارہ قرعہ ڈالا تو پھران کےنام تھا۔ تیسری مرتبہ قرعہ ڈالا تو پھر ان کانام تھا۔
مچھلی کے پیٹ میں:
قرآن کریم میں ہے:
﴿فَسَاہَمَ فَکَانَ مِنَ الۡمُدۡحَضِیۡنَ ﴿۱۴۱﴾ۚ﴾
الصافات 37: 141
جب قرعہ اندازی کی گئی تو قرعہ حضرت یونس علیہ السلام کےنام نکلا۔ انہیں حکم دیاگیا کہ اس کو پھینک دو۔ ادھر حضرت یونس علیہ السلام کا سمندر میں گرناتھا کہ خدانےمچھلی کوحکم دیا کہ توجا کرکھڑی ہوجا! اورمیرے یونس کو سمندر کی گہرائی میں گرنےنہیں دینا۔ مچھلی آگے تیار کھڑی ہے۔ یونس علیہ السلام نےچھلانگ لگائی اورمچھلی نے اپنے پیٹ کےاندر لےلیا۔ مچھلی کو اللہ کاحکم یہ تھا کہ یونس علیہ السلام کونگلنا نہیں، کھانانہیں بلکہ ان کی حفاظت کرنی ہے۔
یونس علیہ السلام کتنا عرصہ مچھلی کےپیٹ میں رہے؟حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتےہیں: چالیس دن اور چالیس راتیں مچھلی کےپیٹ میں رہے۔ اب اللہ نےحکم دیا کہ میرےیونس کوباہر نکالو! مچھلی نےمنہ کھولا اوریونس علیہ السلام کودریا کےکنارےپھینک دیا۔چالیس دن مچھلی کےپیٹ میں حرارت اورگرمی کی وجہ سے ان کےبدن کےسارے بال ختم ہوگئے۔
جیسے آپ دوگھنٹےپانی میں اپنے ہاتھ رکھیں۔ آپ دیکھیں گے کہ آپ کاکیاحشر ہوتاہے! وہ توچالیس دن مچھلی کےپیٹ میں رہے ہیں۔ جسم کمزور ہوگیا، بدن لاغر ہوگیا، بال اترگئے۔ اللہ رب العزت نے انتظام یہ فرمایا۔
﴿وَ اَنۡۢبَتۡنَا عَلَیۡہِ شَجَرَۃً مِّنۡ یَّقۡطِیۡنٍ ﴿۱۴۶﴾ۚ ﴾
الصافات 37: 146
”یقطین “عربی زبان میں اس درخت کوکہتےہیں کہ جس کاتنا نہ ہو جسے ہم بیل کہتے ہیں۔ اب یہ بیل کونسی تھی؟ مفسرین فرماتے ہیں کہ یہ کدو کی بیل تھی۔ تویونس علیہ السلام اس کدوکی بیل کےسائے میں رہتے، گرمی سے بچتے، جنگل کی ہرنی کاخدانے انتظام فرمایا کہ وہ صبح شام آکر یونس علیہ السلام کودودھ پلاتی۔ اس سے آہستہ آہستہ ان کی صحت بحال ہوئی اورپھر یونس علیہ السلام نے اپنا کام شروع فرمادیا۔
مچھلی کےپیٹ میں گئے تویہ دعامانگی:
﴿لَّاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنۡتَ سُبۡحٰنَکَ ٭ۖ اِنِّیۡ کُنۡتُ مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿ۚ۸۷﴾﴾
الانبیاء 21: 87
بھول جانا جرم نہیں ہے:
حضرت یونس علیہ السلام ظالم نہیں تھے۔ اپنے منصب اورشان کےلائق یہ ارشاد فرمایا تھا۔ جیسے میں اس کی مثال دیاکرتاہوں۔ یہ مولانا عمر صاحب ہماری مسجد کےامام ہیں، ہم مقتدی ہیں، رمضان المبارک آنےوالا ہے،اگریہ سورۃ آل عمران میں بھول جائیں توآپ کوتعجب نہیں ہوگا۔اگرسورہ بقرہ میں بھول جائیں تو بھی آپ کوتعجب نہیں ہوگا۔ ساتھی کہیں گے کہ بھائی! حافظ صاحب ہیں، بھول بھی جاتےہیں لیکن اگر سورہ فاتحہ میں بھول جائیں توا ب آپ کو تعجب ہوگا! آپ نےکہناہے: مولانا صاحب کوذہنی ٹینشن تونہیں ہے؟ خیرتوہے؟ سورہ فاتحہ میں بھول گئے! جس طرح ہماری مسجد کاامام سورہ فاتحہ میں بھولے توتعجب ہوتاہے اسی طرح جب نبی کوئی ایسی بات کہے جونبی کی شان کےلائق نہ ہو تونبی کہتاہے: اللہ میں نے ظلم کیاہے، مجھے ایسانہیں کرنا چاہیےتھا، آپ مجھے معاف فرمادیں ۔ یہ عاجزی اس لیے تاکہ اللہ کے دربارسے معافی جلدی ملے۔
یونس علیہ السلام نےتسبیح پڑھی ہے اور اگریونس علیہ السلام یہ تسبیح نہ پڑھتے توقرآن کریم میں ہے:
﴿فَلَوۡ لَاۤ اَنَّہٗ کَانَ مِنَ الۡمُسَبِّحِیۡنَ ﴿۱۴۳﴾ۙ لَلَبِثَ فِیۡ بَطۡنِہٖۤ اِلٰی یَوۡمِ یُبۡعَثُوۡنَ ﴿۱۴۴﴾ۚ﴾
الصافات 37: 144
کہ قیامت تک مچھلی کےپیٹ میں رہتے۔ تسبیح پڑھی تواللہ پاک نے باہر نکال دیا۔
توبہ کب قبول ہوتی ہے اور کب نہیں!
اب جوبات سمجھنے کی ہے ذرا وہ سمجھیں کہ قوم پرعذاب کیوں نہیں آیا؟ یہ جومعروف ضابطہ ہے کہ جب آدمی اللہ کے عذاب کامشاہدہ کرے اور اس وقت توبہ کرےتو توبہ قبول نہیں ہوتی اس کا مطلب یہ ہے کہ جب آدمی پرموت کےآثار آجائیں اور آخرت کا عذاب نظرآنا شروع ہو جائے توپھر توبہ قبول نہیں ہوتی، اسی طرح اگر دنیا کاعذاب نظر نہ آئے بلکہ دنیا کے عذاب کےاندر مبتلاہوجائے توپھر بھی توبہ قبول نہیں ہوتی۔
تویونس علیہ السلام کی قوم نے نہ تو آخرت کے عذاب کو دیکھا ہے نہ ان پر دنیا کا عذاب شروع ہوا ہے بلکہ دنیا کے عذاب کےآثار آئےتھے۔ انہوں نے رو دھو کر توبہ کی تو اللہ رب العزت نے انہیں معاف فرما دیا تو یوں ان کی توبہ قبول ہو گئی۔یونس علیہ السلام کی قوم کا عذاب کیوں ٹلاہے، یہ بات سمجھ میں آگئی؟ (جی ہاں۔ سامعین)
مودودی صاحب اور حضرت یونس علیہ السلام:
میں اس بات پر باربار کیوں زور دے رہاہوں؟ ہمارےپاکستان کےایک شخص ہیں جو دنیاسے جا چکے ہیں۔ ابوالاعلیٰ مودودی صاحب ان کانام ہے، تفہیم القرآن تفسیر کی کتاب لکھی ہے۔ اس آیت کےتحت وہ تحریر کرتےہیں:
”اللہ تعالیٰ کسی قوم کو اس وقت تک عذاب نہیں دیتا جب تک اس پر اپنی حجت پوری نہیں کر لیتا۔ پس جب نبی ادائے رسالت میں کوتا ہی کر گیا اور اللہ کے مقرر کردہ وقت سے پہلے بطورِ خود اپنی جگہ سے ہٹ گیا تو اللہ تعالیٰ کے انصاف نے اس کی قوم کو عذاب دینا گوارا نہ کیا۔ “
تفہیم القرآن: ج2 ص312 طبع 1964
کتنابڑاجرم ہے یہ ذہن بنانا کہ نبی سےفریضۂ رسالت کی ادائیگی میں کوتاہی ہوگئی ہے۔اگرنبی سےفریضۂ رسالت میں کوتاہی ہوگئی ہےتوپھر اورکون ساگناہ ہے جونبی سےنہیں ہوسکتا؟حالانکہ وجہ یہ نہیں تھی۔ مودودی صاحب یہ سمجھے ہیں کہ عام قانون تو یہی ہے کہ قوم عذاب کو دیکھ لے اور پھر توبہ کرے توتوبہ قبول نہیں ہوتی لیکن یونس علیہ السلام کی قوم کی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے عذاب دیکھاہے اور توبہ کی ہے تو پھربھی ان کی توبہ قبول ہوگئی ہے۔ یہ خیال اگرچہ بعض مفسرین نے ظاہر کیا ہے لیکن کسی نے بھی اس خصوصیت کا سبب یہ نہیں لکھا کہ العیاذ باللہ نبی سےکوتاہی ہوئی ہے اس لیے قوم کی توبہ قبول ہوئی ہے بلکہ جن مفسرین نے بھی اسے قومِ یونس کی خصوصیت کہا ہے تو انہوں نے وجہ یہ لکھی ہے کہ قوم نے سچے دل سے توبہ کی تھی اس لیے توبہ قبول ہوئی۔ یا یہ کہ اللہ کے علم میں تھا کہ یہ قوم مخلص ہے اس لیے توبہ قبول کی لیکن مودودی صاحب نے جو وجہ لکھی ہے کہ قوم نے عذاب دیکھا اور توبہ کی تو توبہ تو قبول نہیں ہونی چاہیے تھی لیکن ہوئی کیوں ہے کیونکہ نبی سے کوتاہی ہوئی ہے العیاذ باللہ ․․․
حالانکہ آیت کا مطلب یہ نہیں ہے،میں نے آپ کو سمجھایا ہے کہ دنیا کے عذاب میں آدمی داخل ہو جائے تو توبہ قبول نہیں ہوتی اور آخرت کے عذاب کو دیکھ لے تو بھی توبہ قبول نہیں ہوتی، آخرت کا عذاب کب دیکھتا ہے؟ جب آدمی کی روح نکلنا شروع ہوتی ہے، جب موت کے آثار آ جائیں۔ نہ ان کی روح نکلنا شروع ہوئی ہے اور نہ ان پر عذاب آیا ہے، ابھی دنیا کے عذاب کے آثار کو دیکھا ہی تھا اور دنیا کے عذاب کے آثار کو دیکھ کر کوئی توبہ کرے تو توبہ قبول ہوتی ہے۔ تو آیت کا مطلب یہ ہے کہ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم وہ واحد قوم ہےجس پر عذاب کے آثار آئے تو انہوں نے توبہ کی ہے اس لیے ان کی توبہ قبول ہوئی ہے، اس کےعلاوہ باقی قوموں نےعذاب کو آتے دیکھا توکبھی توبہ نہیں کی اس لیے ان کی توبہ کبھی قبول بھی نہیں ہوئی۔
قومِ یونس کی توبہ قبول، فرعون کی نہیں․․․ وجہ فرق:
آپ کےذہن میں ایک سوال آئےگاکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کوجب اللہ تعالیٰ نےفرعون سےنجات دی ہے توموسیٰ علیہ السلام دریاسےگزرگئے ہیں، بنی اسرائیل بھی گذرگئے ہیں، ان کےپیچھے فرعون اپنے لشکر کےساتھ آیا، یہ لوگ گھوڑوں پرسوارتھے، موسیٰ علیہ السلام آگےگذرے۔ اب فرعون سمجھتاتھاکہ یہ نبی ہے اور نبی برحق ہے اوراس کامعجزہ ہے کہ دریانے راستے دیے۔ اگرمیں دریامیں گیا تومیں نے غرق ہوجاناہے۔ وہ یہ بات سمجھ رہاتھا۔ اس لیے بعض روایات کےاندرہے کہ فرعونی آگے گئے کیوں؟ یہ چونکہ گھوڑوں پرسوارتھے تودست قدرت سےآگے گھوڑیاں آئیں، گھوڑے ان کے پیچھے دوڑے، یہ روکنا چاہتےتھے لیکن نہیں روک سکے اور ان کے گھوڑے دریا کی طرف چلے گئے۔ جب دریا کی موجیں ملیں اور فرعون کوخدا کےعذاب نےگھیرا تو اس وقت فرعون کہنے لگا:
﴿اٰمَنۡتُ اَنَّہٗ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیۡۤ اٰمَنَتۡ بِہٖ بَنُوۡۤا اِسۡرَآءِیۡلَ وَ اَنَا مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ﴿۹۰﴾﴾
کہ جس خدا پربنی اسرائیل ایمان لائےہیں میں بھی اس پر ایمان لاتاہوں۔
فرعون نے عذاب دیکھا، ایمان تویہ بھی لےآیا لیکن اس کی توبہ قبول نہیں ہوئی۔ اللہ نے فرمایا:
﴿آٰلۡـٰٔنَ وَ قَدۡ عَصَیۡتَ قَبۡلُ وَ کُنۡتَ مِنَ الۡمُفۡسِدِیۡنَ ﴿۹۱﴾﴾
کہ اب توبہ کرتاہے عذاب دیکھنے کےبعد! پہلے تو فساد کرتاتھا،تیر ے لیے معافی کی کوئی گنجائش نہیں ہے․․․ اور ادھر یونس علیہ السلام کی قوم نے عذاب دیکھا، یہ ایمان لائی، اس نے توبہ کی توخدا نےقبول کرلی ہے۔
اب ذرا اس کا جواب سمجھیں! حضرت یونس علیہ السلام کی قوم نے عذاب کےآثار دیکھےتھے، اورفرعون عذاب میں داخل ہوگیاتھا۔عذاب کےآثار دیکھیں اورتوبہ کریں توتوبہ قبول ہوتی ہے اورجب عذاب شروع ہوجائے اور پھر توبہ کرے توتوبہ قبول نہیں ہوتی۔
فرعون کی لاش؛ نشانِ عبرت:
یہاں ایک اوربات سمجھیں کہ جب موسیٰ علیہ السلام کی قوم سمندرسے گذر گئی اور فرعون غرق ہوگیا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نےاپنی قوم کوبتایا کہ فرعون غرق ہوگیاہے، فرعونی مارے گئےہیں۔ اللہ کاشکراداکرو۔ مسلسل غلامی میں رہنے کےنتیجے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم ماننے کے لیے تیار نہیں تھی کہ فرعون بھی غرق ہوسکتاہے؟ فرعون بھی بربادہوسکتاہے؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: وہ بربادہوگیاہے، مرگیاہے، عذاب آگیاہے، فرعون ختم ہوگیاہے، دل بڑا کرو اور حوصلہ کرو، ابھی تک غلامی کےآثار تمہارے اندرسے جانہیں رہے۔ اللہ رب العزت نے کرم فرما دیاکہ فرعون کی لاش کواٹھایا اور سمندر سے باہر پھینک دیا کہ یہ دیکھو! فرعون مراپڑاہے، اب تویقین کرلو۔ قرآن کریم میں ہے:
﴿فَالۡیَوۡمَ نُنَجِّیۡکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوۡنَ لِمَنۡ خَلۡفَکَ اٰیَۃً ؕ﴾
یونس10: 92
آج ہم تیرے بدن کومحفوظ رکھیں گے تاکہ تو بعدمیں آنےوالوں کےلیے عبرت بن جائے کہ یہ وہ شخص تھاجوسجدےکراتاتھا لیکن آج ہڈیوں کاڈھانچہ پڑاہواہےاورکوئی اس کوپوچھنے کےلیے تیارنہیں۔
فرعون باہر پڑا ہے تو عذابِ قبر کیسے؟
اب اس میں ایک نکتہ سمجھیں جو میں سمجھانے لگاہوں۔ بتائیں! فرعون کافرتھایانہیں؟ بہت بڑاکافرتھا، صرف کافرنہیں بلکہ کافرگر بھی تھا،یہ کافر بناتاتھا لیکن اس کے باوجود اب فرعون کی لاش پڑی ہے۔ آپ حضرات نےسناہے کہ مصرمیں فرعون کی لاش کوانہوں نے مسالہ لگاکر رکھاہواہے۔ یہ فرعون کون ساہے؟ یہ وہی فرعون ہے جوموسیٰ علیہ السلام والاہےیاکوئی اور فرعون ہے؟ اس میں دونوں رائے موجود ہیں۔ چونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر میں تھے، مصرکےہربادشاہ کوفرعون کہتےتھے جیسےہمارےبادشاہ کوصدرکہتےہیں۔ بہر حال فرعون آج بھی پڑاہواہے۔
اھل السنۃ والجماعۃ کاعقیدہ یہ ہےکہ آدمی کےجسم کوعذاب ہوتاہے روح کےتعلق کےساتھ۔ وہ لوگ جوجسم کے عذاب کے قائل نہیں ہیں وہ کہتےہیں کہ دیکھو! فرعون کی لاش پڑی ہے، اگراس کو عذاب ہوتا تونظر آتا، فرعون کاجسم گرم ہوتا، کوئی آگ نظرآتی، کچھ توپتا چلتا، اب ہم کیسےمانیں کہ فرعون کےجسم کوعذاب ہوتاہے؟ حالانکہ قرآن کریم میں ہے:
﴿اَلنَّارُ یُعۡرَضُوۡنَ عَلَیۡہَا غُدُوًّا وَّ عَشِیًّا ۚ وَ یَوۡمَ تَقُوۡمُ السَّاعَۃُ ۟ اَدۡخِلُوۡۤا اٰلَ فِرۡعَوۡنَ اَشَدَّ الۡعَذَابِ ﴿۴۶﴾﴾
المؤمن40: 46
کہ صبح وشام ان پر آگ پیش ہوتی ہے اورجب قیامت کادن ہوگا تو حکم ہو گا کہ فرعونیوں کوجہنم میں داخل کر دو!
جہنم میں داخل نہیں کیا، بلکہ صبح وشام ان پرجہنم کی آگ پیش ہوگی۔ لوگ کہتےہیں کہ اگر جسم کوعذاب ہوتاہے توفرعون کےجسم پر عذاب تونظرنہیں آرہا، فرعون کاجسم تو ٹھنڈاپڑاہواہے اس کےاندرتو آگ ہےہی نہیں۔
حضرت عمر کا استدلال کہ عذاب جسم کو ہوا ہے:
میرے اللہ کاکرم دیکھیں کہ منکرین عقیدہ اھل السنۃ نے جو جو اعتراضات کرنےتھے، اللہ نے ان کےجوابات پیغمبر کےصحابہ سےدلوادیئے۔ (سبحان اللہ۔ سامعین)
تحفہ اثنا عشریہ فارسی زبان میں ہے، اردو میں اس کاترجمہ ہوچکاہے۔ یہ کتاب حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کے بیٹے حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ نے لکھی ہے اوراس میں ایک واقعہ لکھاہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تشریف فرماتھے اورایک یہودی آیا اس یہودی نے آکر حضرت عمر رضی اللہ عنہ سےکہا: امیر المؤمنین! آپ مسلمانوں کاعقیدہ یہ ہےکہ جب آدمی مرجائے اورقبرمیں جائے توجسم کو عذاب ہوتاہے، یہ دیکھو میرے ہاتھ میں دو کھوپڑیاں ہیں۔ یہ دونوں یہودی تھے، یہودیت پر مرے ہیں۔ اگران کو جہنم کاعذاب ہوتاتو یہ کھوپڑیاں گرم ہوتیں۔ آپ اس پر ہاتھ لگائیں، کھوپڑی ٹھنڈی ہے۔ اس سےمعلوم ہوتاہے کہ آگ کا عذاب نہیں ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دماغ اورعقل مبارک پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے کہاں تک پہنچی ہے! حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا جواب سننا۔
وہاں دو پتھر پڑے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ان پتھروں کو لاؤ! وہ دو پتھر لایا۔ فرمایا کہ ان دو پتھروں پر ہاتھ رکھو! اس نے رکھے۔ پوچھا: یہ پتھر ٹھنڈے ہیں یا گرم؟ اس نے کہا کہ ٹھنڈے ہیں۔فرمایا: معلوم ہوا کہ ان پتھروں میں آگ نہیں ہے تبھی تو ٹھنڈے ہیں۔ اس نے کہا: جی ہاں، آگ نہیں ہےتبھی تو ٹھنڈے ہیں۔ فرمایا کہ ان کو رگڑو۔ اس نےجب دونوں پتھروں کو رگڑنا شروع کیا توپتھر گرم ہونا شروع ہوگئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بتاؤ! جب اندر آگ نہیں تھی تو یہ گرم ہونا کیسے شروع ہوگئے؟ اور اگر اندر آگ تھی تو بتاؤ ٹھنڈے کیوں تھے؟
اس نے کہا کہ امیر المئو منین یہ اندر آگ تھی لیکن نظر نہیں آرہی تھی، جب رگڑا تو محسوس ہوئی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے: جس طرح پتھر وں میں آگ ہے، رگڑیں تو پتا چلتا ہے اسی طرح ان ہڈیوں میں آگ ہے نبی بتائیں تو پتا چلتا ہے، پتھرو ں کی آگ تم نے مان لی ہے مشاہدے کی وجہ سے اور ہم ہڈی میں آگ مانتے ہیں پیغمبر کے فرمانے کی وجہ سے، عقل تو دھوکہ کھاسکتی ہے لیکن پیغمبر کی بات کبھی دھوکہ نہیں کھا سکتی۔
علامہ انور شاہ کشمیری کا تذکرہ:
حضرت علامہ انورشاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ حجۃ المسلمین حضرت شیخ الہند محمود حسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ کے مایہ ناز شاگرد اور چلتی پھر تی لائبریری تھے۔ علامہ انورشاہ کشمیری بہت بڑے آدمی تھے۔ خدا نے غضب کا علم دیا تھا،اتنا حافظہ دیا تھا،اتنا تقویٰ دیا تھا کہ آپ تصور کرنا بھی چاہیں تو نہیں کر سکتے۔ علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ ایک مرتبہ جامع ازہر مصر میں گئے اور وہاں ایک کتاب دیکھی۔ فرمایا: یہ کتاب مجھے دکھاؤ۔ کتاب دیکھی۔ تو شاہ صاحب نے فرمایا کہ یہ کتاب مجھے دے دو، میں ہندوستان لے جاتا ہوں اور دیوبند سے چھپواکر یہ کتاب تمہیں واپس کر دوں گا۔ وہ لوگ کہنے لگے: نہیں، شاہ صاحب ہم کتاب نہیں دے سکتے، آپ مطالعہ کریں، نوٹ کریں، بہرحال ہم کتاب نہیں دے سکتے۔ توحضرت علامہ انور شاہ کشمیری صاحب نے کتاب لی، مطالعہ کیا۔ ہندوستان آکر اس کو چھپوایا اور چھپواکر اس کا نسخہ مصر ؛جامعہ ازہر میں بھجوا دیا۔ یہ علامہ انور شاہ کشمیری کا حافظہ تھا جو دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث تھے۔
جب بہاولپور کی عدالت میں مرزائیوں کےخلاف پہلا کیس چلا جو ”مقدمہ بہاولپور“ کے عنوان سے چھپا ہوا ہے۔ علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ دیوبند سے تشریف لائے۔ عدالت میں بحث شروع ہوگئی۔ جو مرزائی مناظر تھا اس نے ہماری کتاب فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت کا حوالہ پیش کیا کہ آپ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارا دین متواتر ہے اور تواتر کی ہر قسم کا منکر کافر ہے تو آپ لوگ امام رازی رحمہ اللہ پر کفر کا فتوی ٰلگائیں کیونکہ علامہ بحرالعلوم نے ”فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت “ میں لکھا ہے کہ امام رازی نے تواتر معنوی کا انکار کیا ہے۔
حضرت شاہ صاحب جج کوفرمانے لگے کہ جج صاحب! یہ شخص عبارت غلط پڑھ رہا ہے، یہ جھوٹ بولتا ہے، یہ عبارت کتاب میں موجود نہیں ہے۔ شاہ صاحب کو جج نے کہا: علامہ صاحب! آپ کے پاس تو کتاب بھی نہیں ہے، آپ کیسے فرمار ہے ہیں کہ یہ عبارت غلط پڑ ھ رہاہے؟ شاہ صاحب فرمانے لگے: جو بات میں کہتا ہوں اگر یہ بات غلط ہو تو میں شکست لکھ دوں گا۔
جج نےکہا کہ اتنی گارنٹی کے ساتھ کیسے فرما رہے ہیں آپ؟ حضرت شاہ صاحب فرمانے لگے کہ بتیس سال پہلے میں نے اس کتاب کا مطالعہ کیا تھا اگر حوالہ غلط ہو تومیں شکست لکھ دوں گا۔ اس کتاب میں ہے کہ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ جو حدیث ہے ”لَا تَجْتَمِعُ اُمَّتِیْ عَلَی الضَّلَالَۃِ “ یہ حدیث تواتر معنوی کے مرتبے کو نہیں پہنچی، تو امام رازی نے اس حدیث کے متواتر معنوی ہونے کا انکار فرمایاہے، یہ نہیں کہ انہوں نے خود تواتر معنوی کے حجت ہونے کا انکار کیا ہو۔ اس بندے نے عبارت میں دجل سے کام لیا ہے۔ فرمایا کہ اس سے کہیں کہ عبارت پڑھے۔ قادیانی مناظر نے جب عبارت پڑھی تو بالکل وہی بات نکلی جو حضرت شاہ صاحب نے فرمائی تھی۔
انوار انوری: ص42، 43
عذاب روح اور جسم دونوں کو․․․ شاہ صاحب کا استدلال:
حضرت شاہ صاحب کے بارے میں ہمارے استاذ فرماتے تھے کہ جب آپ بازار میں جاتے تھے تو کان میں روئی رکھ لیتے تھے۔ کسی نے پوچھا کہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ فرمایا کہ جو بات کان میں چلی جائے وہ نکلتی نہیں ہے تو میں ڈرتا ہوں کہ گانا کان میں نہ چلا جائے اور وہ نہ نکلے تو میں اس کے عذاب کو کیسے سنبھالوں گا؟یہ تھے ہمارے اکابر۔ علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کا میں نے تھوڑا سا تعارف اس لیے کروایا تاکہ جب میں حضرت کی بات سناؤں تو آپ کو سمجھ آئے کہ یہ کتنے بڑے آدمی کی بات ہے!
حضرت انور شاہ صاحب فرماتے تھے کہ جسم اور روح دونوں کو عذاب کیوں ہوتا ہے؟مثال دینے کے لیے سمجھاتے کہ ایسے سمجھو کہ دو آدمی باغ میں گئے مالٹے چوری کرنے کے لیے- میں اپنے لحاظ سے مثال دوں گا نا- اور ان میں سے ایک بندہ اندھا ہے اور ایک لنگڑا ہے۔ لنگڑے کے پاؤں نہیں ہیں وہ چل نہیں سکتا اور اندھے کی آنکھیں نہیں ہیں وہ دیکھ نہیں سکتا اور دونوں کا جی چاہتا ہے مالٹا کھانے کو۔ اب چوری کریں تو کیسے کریں؟ اندھے نے لنگڑے سے کہا کہ تو میرے کندھے پر بیٹھ جا اورمجھے بتاتا جا، میں چلتا جاتا ہوں۔ اب اندھا چلتاہے اور لنگڑا بتاتا ہے تو جب وہ مالٹے کو چوری کر کے لے آئے، کھا ہی رہے تھے کہ پکڑے گئے۔ تو مالک سزا اندھے کودے گا یالنگڑے کو ؟ دونوں کو دے گا۔ اس لیے کہ اگر لنگڑا نہ ہوتا تو راستہ کون دکھاتا اور اگر یہ اندھا نہ ہوتا تو اس کو لے کر کون جاتا؟تو دونوں چوری میں شریک تھے۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ بالکل یہی مثال انسان کے جسم او ر روح کی ہے۔ جسم یوں سمجھو کہ جیسے چل سکتا ہے مگر آنکھیں نہیں اور روح ایسی ہے کہ جس میں آنکھیں ہیں مگر ٹانگیں نہیں ہیں۔ روح بغیر جسم کے کہیں جا ہی نہیں سکتی، دنیا میں جسم چلے گا تو روح ساتھ چلے گی، روح کی روشنی ہوگی تو جسم چلے گا، روح کی روشنی ہوگی تو اس کو نظر آئے گا۔ تو جس طرح اندھا اور لنگڑایہ دونوں مل کر چوری کرتے ہیں تو سزابھی دونوں کو ہوتی ہے، مزے جو دونوں نے لیے ہوتے ہیں اسی طرح جسم اور روح جب دونوں مل کر دنیا میں گناہ کے مزے لیتے ہیں تو قبر میں عذاب بھی دونوں کو بھگتنا پڑتا ہے، ایسا نہیں ہوتا کہ مزے کوئی اور لے اور عذاب کسی اور کو ہو۔
ہمارے بعض لوگ ایسے سادہ ہیں․․․ کہتے ہیں اس جسم کو عذاب نہیں ہوتا، اللہ اس جسم کے بجائے ایک اور جسم مثالی دیتے ہیں جو اس جسم کی فوٹواسٹیٹ ہوتی ہے، خدا اس جسم کو عذاب دیتا ہے۔ میں نے کہا: سبحان اللہ! مزے یہ جسم لیتاہے اور سزا کسی اور جسم کو مل رہی ہے تو پھر یہ جسم جس قدر مزے کرے کوئی فکر کی بات نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ جب اس کو عذاب ہی نہیں ہونا تو مزے سے گناہ کرتے پھرو! اللہ ہم سب کو بات سمجھنے کی توفیق عطافرمائے۔ کبھی یہ مسئلہ آگے مستقل آیاتو اس پر میں دلائل پیش کروں گا کہ ہم اھل السنۃ والجماعۃ کے دلائل کیا ہیں اور اس پر ہونے والے شبہات کے جوابا ت کیا ہیں ان شاء اللہ۔
حروفِ مقطعات کے نزول کی حکمت:
﴿الٓرٰ ۟ تِلۡکَ اٰیٰتُ الۡکِتٰبِ الۡحَکِیۡمِ ﴿۱﴾﴾
﴿الٓرٰ﴾
یہ حروف مقطعات ہیں۔ ا س پر تفصیل سے ہم بات کر چکے ہیں۔ حروف مقطعات کا علم اللہ کے پاس ہے یا اللہ اور اس کے پیغمبر کا راز ہے، دنیا میں کوئی اس کو جانتا نہیں ہے۔
ایک نکتہ سمجھنے کا ہے کہ اللہ نے حروفِ مقطعات اتارے ہیں اور لوگوں کو معنی نہیں بتایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس مسئلہ کا تعلق لوگوں کے فائدے کے ساتھ ہو تو بتانا چاہیے اور جس مسئلے کاتعلق فائدے کے ساتھ نہ ہو تو اس کو چھیڑنا نہیں چاہیے۔ بعض لوگوں کا کسی مسئلے کے ساتھ دور کا تعلق بھی نہیں ہوتا لیکن چسکے لینے کے لیے مسئلے پوچھتے رہتے ہیں، کوئی نہ کوئی بات چھیڑے رکھتے ہیں حالانکہ فضول بات سے بچنا چاہیے۔
نبی کے بشر ہونے کی وجہ:
﴿اَکَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا اَنۡ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی رَجُلٍ مِّنۡہُمۡ اَنۡ اَنۡذِرِ النَّاسَ وَ بَشِّرِ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنَّ لَہُمۡ قَدَمَ صِدۡقٍ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ؕؔ قَالَ الۡکٰفِرُوۡنَ اِنَّ ہٰذَا لَسٰحِرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۲﴾﴾
اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب ہم نے اپنے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی بنا کر بھیجا تو مشرکین مکہ کہنے لگے: کیا بھلا نبی انسان بھی ہو سکتا ہے؟ نبی کوئی فرشتہ ہوتاتو ہم بات مانتے! ہماری طرح کھاتا ہے، ہماری طرح پیتا ہے، ہماری طرح بازار کو چلتا ہے، ہماری طرح بیویاں ہیں، ہماری طرح بچے ہیں، کیا یہ نبی ہے؟
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان کو اس بات پر تعجب ہے کہ انسان کیسے نبی ہوسکتا ہے؟ اس کا بڑا آسان جواب یہ ہے کہ نبی کے ذمے ایمان والوں کو خوشخبریاں دینا اور کافر وں کوڈرانا ہے۔ اگر یہ کام فرشتے کے ذمے ہوتا تو لوگ کہتے کہ اس کو کیا پتا روزہ کسے کہتے ہیں؟ اس کو بھوک لگے تو سمجھ آئے نا؟ ان کو کیا پتا گناہ سے بچنا کسے کہتے ہیں؟ ان میں تو گناہ کی خواہش ہی نہیں ہے، ان کو کیا پتا کہ سامنے لڑکی آئے تودل پر کیا گزرتی ہے؟ تو اللہ فرماتے ہیں: ہم نے فرشتے کو نہیں بلکہ بشر کو نبی بنا کر بھیجا ہے اور نبی میں سارے تقاضے اللہ رب العزت رکھ دیتے ہیں لیکن ان بشری تقاضوں پر جن کاتعلق گناہ سے ہو نبی عمل نہیں کرتا،اب بتاؤ! اگر یہ فرشتہ ہوتا تو بات کیسے سمجھتا؟ کسی شحص کی ماں مر جائے اب اس کی تعزیت کرنی ہے تو جس کی ماں مر جا ئے اس کو تو پتا ہے کہ ماں کے مرنے کا غم کیا ہوتا ہےاور فرشتے کی ماں نہیں ہوتی تو اس کو ماں کے مرنے کا غم کیا ہوگا؟ کسی آدمی کا بچہ فوت ہوجائے تو اس کو پتا ہوتا ہے کہ بچے کے فوت ہونے پر انسان پر کیا گزرتی ہے؟ فرشتے کی اولاد ہی نہیں ہے، وہ کیا بتا ئے گا کہ درد کیا ہوتا ہے؟
اللہ کا نظام دیکھو! اللہ کے نبی نے امت کو مسئلہ سمجھانا تھا کہ نابالغ اولاد کے فوت ہونے پر کیا ملتاہے تو اللہ نے نبی کی نابالغ اولاد ہی دنیا سے اٹھالی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پتا ہے کہ اولاد کا درد کیا ہوتا ہے! اس لیے اللہ کے نبی لوگوں کو جب سمجھاتے ہیں تو بات جلدی سمجھ میں آجاتی ہے۔
آسمان وزمین چھ دن میں بنانے میں تعلیمِ امت:
﴿اِنَّ رَبَّکُمُ اللہُ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ یُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ ؕ﴾
اللہ تبارک وتعالیٰ نے زمین وآسمانوں کو چھ دنوں میں پیدا فرمایا اور پھر اللہ عرش پر مستوی ہوگئے۔
جب سورج اور چاند ہی نہیں تھا تو چھ دن اور چھ رات کا مطلب کیاہے؟ مفسرین نے فرمایا ہے کہ جس قدر چھ دن اور چھ راتوں کے وقت کی مقدار بنتی ہے تو خدا نے اتنے وقت میں آسمان او ر زمین کو بنا دیا ہے، اور مفسرین یہاں ایک نکتہ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ لفظ ”کُنْ“ فرما کر آسمان اور زمین بناسکتے تھے یہ چھ دن اور چھ راتیں لگانے کی ضرورت کیا تھی؟ بلکہ ہم کہتے ہیں کہ اللہ لفظ ”کُنْ“ بھی نہ فرمائیں توپھر بھی یہ بن سکتے تھے، کُنْ کہنے کی بھی ضرورت کیا ہے؟
اللہ پاک نے ایسا کیوں فرمایا؟ دراصل انسانیت کو یہ بات سمجھانے کے لیے ایسا کیا ہے کہ اے انسان دیکھو! خدانے دنیا کا نظام اسباب کے ساتھ جوڑا ہے، اللہ بغیر اسباب کے پیدا فرمانا چاہیں تب بھی فرماسکتے ہیں لیکن اسباب اور تدریج کے ساتھ خدا نے معاملہ جوڑا ہے۔ پہلے بچہ ہے، پھر جوان ہے، پھر بوڑھا ہے، پھر موت ہے۔ پہلے دو روپے، پھر دس روپے، پھر سو روپے آہستہ آہستہ تمام معاملات چلتے ہیں۔ تو اس سے یہ سبق دینا مقصود ہے کہ انسان کوکبھی بھی جلد باز نہیں ہونا چاہیے، اللہ کا یہ جو نظام ہے تدریج کا اس نظام کاقائل ہوکر بندے کو تدریج کے ساتھ ہی چلنا چاہیے۔
قمری اور شمسی نظام:
﴿ہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَ الشَّمۡسَ ضِیَآءً وَّ الۡقَمَرَ نُوۡرًا وَّ قَدَّرَہٗ مَنَازِلَ لِتَعۡلَمُوۡا عَدَدَ السِّنِیۡنَ وَ الۡحِسَابَ ؕ مَا خَلَقَ اللہُ ذٰلِکَ اِلَّا بِالۡحَقِّ ۚ یُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّعۡلَمُوۡنَ ﴿۵﴾﴾
آگے اللہ رب العزت نے چاند اور سورج کی بات کر کے ایک مسئلہ سمجھایا ہے۔ ایک نظام شمسی ہے اور ایک نظام قمری ہے۔ میں اس پر لمبی بات کروں گا تو فلکیات کا مسئلہ چھڑ جائےگا،اس لیے میں اس پر مختصر سی بات کر تا ہوں۔ ہم نظام شمسی کو بھی مانتے ہیں اور نظام قمری کوبھی مانتےہیں۔ اللہ نے فرمایا:
اللہ وہ ہے جس نے سورج کوروشنی بنایا ہے اور چاند کو نور اور چاندنی بنایا ہےاور پھر اس کی منزلیں مقرر کی ہیں تاکہ تم ان کے ذریعے سالوں کی گنتی معلوم کر سکو اور حساب معلوم کر سکو۔ اللہ نے اس نظام کو برحق پیدا کیا ہے، اللہ یہ نشانیاں کھول کھول کر بیان کرتا ہے ان لوگوں کے لیے جو سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔
سورج کی منزلیں 365 ہیں اور چاند کی 28 یا 29 ہیں۔ اس لیے سورج 365 دنوں میں اپنا دورہ مکمل کرتا ہے اور چاند ایک مہینے میں اپنا سفر طے کرتاہے۔ ایک جگہ کا نام ”منزل“ ہے۔ چاند کے 30 یا 29 سٹاپ ہوتے ہیں لیکن چونکہ ایک رات کونظر نہیں آتا اس لیے اس کے عموماً 28 سٹاپ شمار کیے جاتے ہیں۔ تو فرمایا کہ شمسی مہینوں کاحساب بھی ہے اور قمری کاحساب بھی ہے۔ ہمارے پاکستان میں شمسی حساب چلتا ہے لیکن شریعت کے احکام کاتعلق شمسی نظام سے نہیں ہے بلکہ قمری نظام کے ساتھ ہے۔ اگر حج کرنا ہو تو چاند کا اعتبار ہوگا، روزے رکھنے ہوں تو چاند کی تاریخ کا اعتبار ہوگا۔ اگر خدا نخواستہ عورت کو طلاق ہو یا خاوند فوت ہوجائے تو اس کی عدت میں قمری نظام کا حساب ہوگا، زکوٰۃ اداکرنی ہے تو قمری مہینے کا حساب ہوگا۔ تو شریعت کے احکام کا تعلق قمری نظام کے ساتھ ہے لیکن اپنے کاروبار کو اگر کوئی شحص شمسی نظام سے چلانا چاہے تو شریعت اس کو منع بھی نہیں کرتی اور یہ گناہ بھی نہیں ہے لیکن نظام وہ بنائیں جو قمری ہے۔
اس لیے علماء نے لکھا ہے کہ چاند کی تاریخ کویاد رکھنا یہ فرضِ کفایہ کے درجے میں ہے۔ اگر ایک ضلع میں کسی کو بھی پتا نہ ہو تو یہ سارے گناہ گار ہوں گے اور اگر دو چار کو پتا ہو تو باقی ضلع گناہ سے بچ جائے گا۔ اس لیے اہتمام کرناچاہیے کہ شمسی کے ساتھ قمری حساب کا بھی خیال فرمائیں۔
”نبی رحمت ہے تو ہر جگہ ہے“ کا جواب:
ایک عقیدے کے حوالے سے اس آیت کو بطور دلیل ذہن میں رکھ لیں۔ ہمارا اھل السنۃ والجماعۃ احناف دیوبند کا عقیدہ ہے کہ اللہ رب العزت کی ذات ہر جگہ پر ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مدینہ منورہ میں اپنی قبر مبارک میں ہے۔ جو لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ کے نبی ہر جگہ موجود ہیں ان کی دلیل قرآن کی یہ آیت ہے:
﴿وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۰۷﴾﴾
الانبیاء 21: 107
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے اپنے نبی کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا۔ اب یہ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ کے نبی رحمۃ للعالمین ہیں تو بتاؤ دنیا میں کوئی ایسی جگہ ہے جہا ں خدا کی رحمت نہ ہو؟ اللہ کی رحمت تو ہر جگہ پر ہے۔اللہ کے نبی خدا کی رحمت ہیں اور خدا کی رحمت ہر جگہ پر ہے تو ثابت ہوا کہ نبی بھی ہر جگہ پر ہے۔
میں اس کا جواب دینے لگا ہوں۔ اللہ رب العزت فرماتے ہیں: ﴿ہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَ الشَّمۡسَ ضِیَآءً﴾ کہ ہم نے سورج کو روشنی بنایا ہے۔ روشنی ہرجگہ پر ہے تو سورج ہر جگہ پر، پھر کہو کہ سورج بھی حاضر وناظر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نہیں، سورج تو ہر جگہ پر نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ آیت کا مطلب پھر کیا ہوگا؟ کہتے ہیں کہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ سورج آسمان پر ہے اور اس کی روشنی ہر جگہ پر ہے۔ میں نے کہا کہ پھر اُس آیت کا معنی یہ ہے کہ نبی پاک مدینہ میں ہیں اور نبی کی رحمت ہر جگہ پر ہے۔ (سبحان اللہ۔ سامعین)
تو جو آپ کی دلیل ہے وہی ہماری دلیل ہے۔ تو جب آپ اس کا جواب دیں گے تو آپ کی اس دلیل کا جواب بھی بن جائے گا۔
جنتیوں کے تین جملے:
﴿دَعۡوٰىہُمۡ فِیۡہَا سُبۡحٰنَکَ اللّٰہُمَّ وَ تَحِیَّتُہُمۡ فِیۡہَا سَلٰمٌ ۚ وَ اٰخِرُ دَعۡوٰىہُمۡ اَنِ الۡحَمۡدُ لِلہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿٪۱۰﴾﴾
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جنتی لوگوں کے تین جملوں کا ذکر کیا ہے۔ پہلے جملے سمجھیں اور پھر عقیدہ سمجھیں۔ تین جملے یہ ہیں کہ جنتی جب جنت میں جائیں گے اور اللہ کی نعمتیں دیکھیں گے تو کہیں گے
: سُبۡحٰنَکَ اللّٰہُمَّ، سُبۡحٰنَکَ اللّٰہُمَّ، سُبۡحٰنَکَ اللّٰہُمَّ۔
بعض روایات میں یوں بھی آتا ہے کہ جب جنتی کوئی چیز لینا چاہیں گے، دل میں خیال آئے گا اور زبان سے الحمد اللہ کہیں گے تو فرشتے وہ چیزیں ان کے سامنے پیش کر دیں گے تو جنتی سب سے پہلے کہیں گے: سبحان اللہ! مکان کیسا ہے، حوریں کیسی ہیں، فلاں چیزکیسی ہے!
حوارانِ بہشت کا تذکرہ:
حوروں کے تذکرے کیا کرو، یہ عیب کی بات نہیں ہے۔ ہم عجیب لوگ ہیں! جو شرم کی باتیں نہیں ہیں ان میں شرم آتی ہے اور جو شرم کی ہیں اس میں بے شرمی کرتے ہیں۔ لڑکیوں کی باتیں کرتے ہیں تومحسوس نہیں ہوتا، حوروں کی باتیں کریں گے تو کہیں گے کیسا مولوی ہے، شرم نہیں آتی، منبر پر بیٹھ کر حوروں کی باتیں کرتا ہے۔
اللہ نے قرآن میں حوروں کا تذکرہ اس لیے کیا ہے تاکہ اس لعنت سے بچو اور جنت کی حوروں کی طلب کرو، ہم ان کے تذکرے پر شرم محسوس کرتے ہیں اور آپ حیران ہوں گے کہ قرآن کریم میں اللہ نے حوروں کی اٹھارہ صفتیں بیان فرمائی ہیں۔ قرآن نے جنت کی حوروں کا ایسا تذکرہ کیا ہے تاکہ مسلمان میں طلب پیدا ہو اور جنت کی حور کا مشتاق ہوجائے۔
میری عادت ہے کہ میں جب قرآن کی آیت پڑھتا ہوں اور مسئلہ سمجھاتا ہوں تو محاورات کے مطابق بات کرتا ہوں تاکہ بات لوگوں کے دماغ میں اتر جائے۔ اللہ پاک نے حوروں کی ایک صفت یہ بیان فرمائی ہے:
﴿لَمۡ یَطۡمِثۡہُنَّ اِنۡسٌ قَبۡلَہُمۡ وَ لَا جَآنٌّ ﴿ۚ۷۴﴾﴾
الرحمٰن55: 74
کہ یہ اَن ٹچ قسم کی لڑکی ہوگی۔ اس سے بہتر میں ترجمہ کیا کرسکتاہوں؟ اور یہ قرآن کہہ رہاہے میں تو نہیں کہہ رہا۔ اللہ انسان کے دل میں جو جائز تقاضے رکھتے ہیں تو ان جائز تقاضوں کو پورا کرنے کی جگہ خدا نے جنت رکھی ہے۔
خود کو خدا کے حوالے کرو!
میں خلاصۃً ایک بات کہہ دیتاہوں، اس بات کو اچھی طرح سمجھو۔ دنیا میں وہ کرو جو اللہ چاہتا ہے اور جنت میں وہ ہوگا جو تم چاہتے ہو! اس سے میں مختصر بات تو نہیں کہہ سکتا۔ یہ جو لڑکیاں تم دنیا میں چاہ رہے ہو، جنت میں اللہ ان سے بہتر دے گا اور ایک نہیں دے گا ہزاروں کی تعداد میں دے گا، میں تمہیں یہ بات کیسے سمجھاؤں؟
جنت کا بازار:
بازار میں جاؤ تو جی چاہتا ہے کہ میرے بال ایسے ہوں، میرا پف ایسا ہو،میری زلفیں ایسی ہوں، کتنی خواہشیں ہوتی ہیں اور پھر اسٹائل بنا بنا کر نوجوان پھرتے ہیں۔ خدا نے جنت میں ایک بازار بنایا ہے اور اس کا نام ہے ”سوق الصور“ تصویر وں کا بازار۔ پورے بازار میں تصویریں لگی ہوئی ہوں گی۔ آپ دیکھیں گے، آپ چاہیں گے کہ میں اس طرح ہوجاؤں ، آپ خواہش کریں گےتو آپ اسی طرح ہوجائیں گے۔ سبحان اللہ! اب تصویر بدل گئی۔ جب گھر جائیں گے تو بیگم پہچان لے گی کہ یہ وہی ہے، یہ نہیں ہوگا کہ حور کہے کہ یہ کون آگیا؟
اب بتاؤ کہ جو ہمارے دل کے تقاضے ہیں خدا نے ان کو پورا کرنے کی جگہ کون سی رکھی ہے؟ جنت رکھی ہے۔
میں تمہیں کیسے سمجھاؤں؟ اللہ کی قسم! اگربندے کو سمجھ آجائے تو بندہ لعنت بھیجتا ہے دنیا پر اور گناہوں والی زندگی پر۔ پھر وہ طلب کرتا ہے کہ اللہ مجھے وہ جنت والی زندگی عطا فرمادیں۔ گناہوں کے ماحول سے بچو۔ میں کس درد سے کہوں! جو گناہ کر لیے ہیں، اللہ سے توبہ کرو! بس دل میں تھوڑے سے تصور کی ضرورت ہے، اللہ سارے گناہوں کو معاف کر دیں گے۔ بھائی! توبہ کر سکتے ہیں یا نہیں؟ (کر سکتے ہیں۔ سامعین) میں بھی کرتا ہوں کہ اللہ میرے سارے گناہوں کو معاف فرمائیں اور آپ بھی کہہ لیں۔ اللہ آپ کے گناہوں کو بھی معاف فرمادیں۔
جنتیوں کا سلام:
جنت میں جائیں گے تو سب سے پہلے کیا کہیں گے؟
﴿سُبۡحٰنَکَ اللّٰہُمَّ﴾
بات توجہ سے سننا! اور اس کے بعد
﴿وَ تَحِیَّتُہُمۡ فِیۡہَا سَلٰمٌ﴾
پھر کہیں گے السلام علیکم․․․ السلام علیکم․․․ ایک دوسرے کو ملیں گے تو سلام کریں گے۔ آپ کسی شادی کی جگہ پر جائیں اور خوب صورت ٹینٹ لگے ہوں تو پہلے کیا کہیں گے؟ واہ جی واہ! ما شاء اللہ، سواد آ گیا اور بعد میں کہتے ہیں: السلام علیکم! اچھا آپ کو بھی دعوت ہے!
جنت میں جائیں گے تو سب سے پہلے سبحان اللہ، سبحان اللہ اور پھر کہیں گے اچھا ماشاء اللہ یہ بھی آگیا، اب ایک دوسرے کو بھی سلام کریں گے اور فرشتے بھی سلام کریں گے:
﴿سَلٰمٌ ۟ قَوۡلًا مِّنۡ رَّبٍّ رَّحِیۡمٍ ﴿۵۸﴾﴾
یٰسین 36: 58
اللہ بھی سلام کریں گے۔
اور جب یہ دو مرحلے مکمل ہوجائیں گے تو پھر قرآن کہتا ہے:
﴿وَ اٰخِرُ دَعۡوٰىہُمۡ اَنِ الۡحَمۡدُ لِلہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿٪۱۰﴾﴾
یونس 10: 10
آخر میں کہیں گے: الحمد للہ اے اللہ! تیرا ہی کرم ہے، اللہ! تیرا ہی شکر ہے، ہم جیسے نالائقوں پر تو نے کتنا کرم فرما دیا ہے۔
عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم:
یہ بات تو سمجھ آگئی ہے؟ میں یہ جملے سمجھاتا رہوں تو اللہ کی قسم آپ وجد میں آئیں کہ قرآن نے کیسی عجیب بات فرمائی ہے! لیکن میں صرف ایک بات کہتا ہوں بتائیں سبحان اللہ کہنا عبادت ہے یا نہیں؟ عبادت ہے، اور سلام کہنا؟ یہ بھی عبادت ہے، اور الحمد للہ رب العالمین کہنا یہ سب عبادات ہیں۔ جنتی لوگ یہ کہاں کہیں گے؟ (جنت میں۔ سامعین) موت کے بعد یا پہلے؟ (موت کے بعد۔ سامعین) تو جب ہم یہ بات کہتے ہیں:
"اَلْأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُوْرِهِمْ يُصَلُّوْنَ."
مسند ابی یعلی الموصلی: ص658 رقم الحدیث3425
کہ انبیاء علیہم السلام زندہ ہیں اور قبروں میں نماز پڑھتے ہیں، تو ہمارے خلاف لوگ آیت پڑھتے ہیں کہ قرآن کہتا ہے:
﴿وَ اعۡبُدۡ رَبَّکَ حَتّٰی یَاۡتِیَکَ الۡیَقِیۡنُ ﴿٪۹۹﴾﴾
الحجر 15: 99
کہ اے نبی! موت تک عبادت کریں۔
لوگ کہتے ہیں کہ یہ حدیث تو قرآ ن کی آیت کے خلاف ہے، کیونکہ جب عبادت ہے ہی موت تک تو نبی قبر میں عبادت کیسے کرتا ہے؟ تو جب حدیث آیت کے مخالف ہو تو حدیث کو چھوڑ دیتے ہیں اور قرآن کو لے لیتے ہیں۔
یہ وہ شبہات ہیں جو یہ لوگ پیدا کرتے ہیں اور آپ سمجھتے ہیں کہ علامہ صاحب بڑے مفسرِ قرآن ہیں کہ حدیث کا انکار کر دیا! یہ عجیب مفسرِ قرآن ہے۔ جو حدیثوں کا انکار کرے وہ مفسر قرآن کیسے ہوسکتا ہے؟
اس سے پوچھو کہ اگر موت کے بعد عبادت نہیں ہے تو قرآن کیوں کہتا ہے کہ جنت میں جنتی کہیں گے: سبحا ن اللہ۔ جواب سمجھ میں آیا؟(جی ہاں۔ سامعین)
دوسرا آپ ان کے مولوی صاحب سے پوچھیں کہ اب جواب دو کہ ایک آیت کہتی ہے کہ موت کے بعد عبادت نہیں ہے اور دوسری آیت کہتی ہے کہ جنت میں عبادت کریں گے۔ دونو ں آیتوں کا ٹکراؤ ختم کرو! وہاں تو تمہارا کہنا تھا کہ حدیث قرآن کے خلاف ہے اور یہاں تو ایک آیت دوسری آیت کے خلاف ہوگئی۔
میں جواب دینے لگا ہوں، ذراجواب سمجھنا! دنیا میں وہ عبادت ہے جسے آدمی کرے تو اجر ملتا ہے عبادت نہ کرے تو ثواب نہیں ملتا، اور موت کے بعد وہ عبادت ہے جس کے کرنےپر ثواب نہیں ہے بلکہ اس کے کرنے میں لذت اور مزے ہیں۔ یہ جو جنت میں سبحان اللہ کہیں گے یہ ثواب کے لیے کہیں گے؟ نہیں، یہ مزے لینے کے لیے کہیں گے اور دنیا میں ایک مرتبہ سبحان اللہ کہنے سے جنت میں درخت لگ جائے گا۔ اب جنت میں سبحان اللہ کہنے پر درخت نہیں لگنا۔ یہ جو دنیا میں سبحان اللہ کہا ہے اس پر درخت لگا ہے۔ جب اس درخت کو دیکھے گا تو کہے گا: سبحان اللہ۔ اب یہ سبحان اللہ اس وجہ سے نہیں کہ ایک اور درخت لگے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ میں نے دنیا میں کہا تھا تو دیکھو اس سے کتنا بڑا درخت لگا ہے، اب یہ سبحان اللہ درخت لگوانے کے لیے ہے یا مزے لینے کے لیے؟ (مزے لینے کے لیے ہے۔ سامعین) ہم دنیا میں نماز پڑھتے ہیں۔ پڑھیں گے تو اجر ملے گا، نہیں پڑھیں گے تو گناہ ملے گا لیکن نبی قبر میں نماز کیوں پڑھتے ہیں؟ اس لیے کہ نمازپڑھیں گے تو مزاآئے گا۔ بات سمجھ میں آگئی ہے؟ (جی ہاں۔ سامعین)
میں یہ عقیدے اس لیے سمجھاتا ہوں کہ لوگ کہتے ہیں کہ ان کے عقیدے قرآن کے خلاف ہیں۔ بھائی قرآن پڑھیں تو سمجھ آئے کہ قرآن کے خلاف ہیں یا نہیں؟
اکابر علمائے دیوبند کا عقیدہ اور قرآن کے خلاف ہو! یہ ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ ہمارے اکابر قرآن کے خلاف نہیں تھے، قرآ ن کی خدمت کرنے والے تھے۔
ذکر کرنے اور بیمار کے دعا کرنے کی ترتیب:
﴿وَ اِذَا مَسَّ الۡاِنۡسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنۡۢبِہٖۤ اَوۡ قَاعِدًا اَوۡ قَآئِمًا ۚ﴾
یونس 10: 12
اللہ نے دوجگہوں پر عجیب بات فرمائی ہے۔ یہاں فرماتے ہیں کہ جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو انسان لیٹ کر بھی اللہ سے کہتا ہے: یا اللہ! میری تکلیف دور کر دے، پھر بیٹھ کر کہتا ہے: اللہ! میری تکلیف کو دور کر دے۔ پھر کھڑے ہوکر کہتا ہے: اللہ! میری تکلیف کو دور کر دے۔ ترتیب کیا رکھی ہے کہ پہلے لیٹے ہوئے، پھر بیٹھے ہوئے اور پھر کھڑے ہوئے۔ اور جب ذکر کی باری آئی تو فرمایا:
﴿الَّذِیۡنَ یَذۡکُرُوۡنَ اللہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوۡدًا وَّ عَلٰی جُنُوۡبِہِمۡ﴾
آل عمران 3: 191
اللہ کے ولی کھڑے ہو کر ذکر کر تے ہیں، تھک جائیں تو بیٹھ کر کرتے ہیں، پھر تھک جائیں تو لیٹ کے کرتے ہیں۔
ذکر میں قیام سے بیٹھنے کی طرف ترتیب ہے اور بیماری میں بیٹھنے سے کھڑے ہونے کی طرف ترتیب ہے۔ اللہ نے انسان کی فطرت بیان کی ہے کہ پہلے کھڑا ہوتا ہے، تھک جائے تو بیٹھ جاتا ہے اور بیٹھا ہو تو لیٹ جاتا ہے، تو جب بیماری آئے تو لیٹا ہو تو بیٹھ جاتا ہے پھر کھڑا ہوکر دعا مانگتا ہے۔ تو دونوں کی ترتیب الگ الگ ہے۔ اللہ ہمیں ذکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)
گنجائش نکالو! کا خدائی جواب:
﴿وَ اِذَا تُتۡلٰی عَلَیۡہِمۡ اٰیَاتُنَا بَیِّنٰتٍ ۙ قَالَ الَّذِیۡنَ لَا یَرۡجُوۡنَ لِقَآءَنَا ائۡتِ بِقُرۡاٰنٍ غَیۡرِ ہٰذَاۤ اَوۡ بَدِّلۡہُ ؕ قُلۡ مَا یَکُوۡنُ لِیۡۤ اَنۡ اُبَدِّلَہٗ مِنۡ تِلۡقَآیِٔ نَفۡسِیۡ ۚ اِنۡ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوۡحٰۤی اِلَیَّ ۚ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اِنۡ عَصَیۡتُ رَبِّیۡ عَذَابَ یَوۡمٍ عَظِیۡمٍ ﴿۱۵﴾﴾
اللہ نے مشرکین کے اعتراض کا جواب دیا ہے۔ مشرکین کے سامنے جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم قرآن پڑھتے تھے تو مشرکین وہ بات کرتے تھے جو لوگ آج ہمیں کہتے ہیں۔ توجہ سے سمجھنا! ہمیں لوگ کہتےہیں: مولانا صاحب! کوئی گنجائش نکالو! دسواں تو بدعت ہے کچھ تبدیلی کرو، ہماری مجبوری ہے۔ قل ہیں تو بدعت لیکن کچھ نہ کچھ گنجائش نکالو! جب اللہ کے نبی قرآن پڑھتے تھے تومشرکین کہتے تھے ﴿ائۡتِ بِقُرۡاٰنٍ غَیۡرِ ہٰذَاۤ ﴾ کہ یہ قرآن نہیں کوئی اور لاؤ، اچھا یہ نہیں ہو سکتا ﴿اَوۡ بَدِّلۡہُ ؕ﴾ یا تھوڑی سی تبدیلی کر دیں۔ اور یہی بات آج لوگ ہمیں کہتے ہیں: مولوی صاحب! ہم سمجھتے ہیں کہ بات ٹھیک نہیں ہے لیکن ہماری مجبوری ہے، کچھ گنجائش نکالیں۔ یہ بات جو مشرکین مکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے آج وہی بات لوگ نبی کے ورثاء سے کہتےہیں۔
اللہ کے نبی نے جواب دیا:﴿
مَا یَکُوۡنُ لِیۡۤ اَنۡ اُبَدِّلَہٗ مِنۡ تِلۡقَآیِٔ نَفۡسِیۡ﴾
میں قرآن کو نہیں بدل سکتا، یہ میرے بس میں نہیں
﴿اِنۡ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوۡحٰۤی اِلَیَّ﴾
میں تو وحی کا پابند ہوں،
﴿اِنِّیۡۤ اَخَافُ اِنۡ عَصَیۡتُ رَبِّیۡ عَذَابَ یَوۡمٍ عَظِیۡمٍ ﴿۱۵﴾﴾
اگر میں نے وحی کو بدل دیا تو میں بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ اس لیے یہ میرے بس میں نہیں ہے۔
ہم بھی امت سے یہ بات کہتے ہیں کہ ہم سے مسائل بدلنے کی توقع نہ رکھو! ہمارے بس میں نہیں ہے، عمل کر سکتے ہو تو کر لو، نہیں کر سکتے تو بدلنا ہمارے بس میں نہیں ہے۔
آپ مجھےبتائیں! آپ علماء سے محبت کرتے ہیں یا نہیں؟ کیوں کرتے ہیں؟ اس لیے کرتے ہیں نا کہ آخرت میں ہمارے کام آئیں، اس لیے کرتے ہیں کہ قیامت کے دن ہماری سفارش کریں، اس لیے ان کی بیعت کرلو، ان کے پیچھے نماز پڑھو، ان کے مدرسے میں چندہ دو! تو دنیا کے لیے یا آخرت کے لیے؟(آخرت کےلیے۔ سامعین) لیکن یہ بتاؤ کہ آخرت میں تمہارے کام کون سے مولوی صاحب آسکتے ہیں؟ تمہاری سفارشیں کون کریں گے؟ حق گو علماء کرام! حق کو بیان کرنے والے، ملامت کی پروا نہ کرنے والے اور قوم سے مفاد نہ رکھنے والے علماء یہ قیامت کے دن ہمارے سفارشی ہوں گے۔ دعاکریں کہ اللہ ہمیں ایسے علماء سے جوڑ کر رکھیں۔ (آمین)
اولیاء کو دنیا اور آخرت میں بشارت:
اللہ رب العزت نے اولیاء کے بارے میں ایک جملہ فرمایا:
﴿لَہُمُ الۡبُشۡرٰی فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ ؕ لَا تَبۡدِیۡلَ لِکَلِمٰتِ اللہِ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿ؕ۶۴﴾﴾
ان کے لیے دنیا کی زندگی میں بھی خوشخبری ہے اور آخرت میں بھی، اللہ کی باتوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔ تو اللہ رب العزت اپنے ولی کودنیا میں بھی بشارت دیتے ہیں او ر آخرت میں بھی بشارت دیتےہیں۔
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ دنیا میں بشارت یہ ہوتی ہے کہ وہ خود اچھا خواب دیکھتا ہے یا لوگ اس کے بارے میں اچھے خواب دیکھتے ہیں اور دوسری اس کی نشانی یہ ہے کہ بغیر مفاد کے لوگ اس سے پیار کرتے ہیں اور موت کے بعد اللہ اسے جنت کی نعمت عطا فرمادیتے ہیں۔
جادو سے بچنے کے لیے وظیفہ قرآنی:
﴿فَلَمَّاۤ اَلۡقَوۡا قَالَ مُوۡسٰی مَا جِئۡتُمۡ بِہِ ۙ السِّحۡرُ ؕ اِنَّ اللہَ سَیُبۡطِلُہٗ ؕ اِنَّ اللہَ لَا یُصۡلِحُ عَمَلَ الۡمُفۡسِدِیۡنَ ﴿۸۱﴾ وَ یُحِقُّ اللہُ الۡحَقَّ بِکَلِمٰتِہٖ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡمُجۡرِمُوۡنَ ﴿٪۸۲﴾﴾
یاد رکھیں! میں ایک بات سمجھانے لگا ہوں۔ پوری دنیا میں آج ایک مسئلہ ہے کہ مولوی صاحب! کوئی حساب کتاب لگائیں، دکان نہیں چلتی ہے، جادو ہوگیا ہے، اثرات ہوگئے ہیں، فلاں عامل کے پاس گئے اس نے بتایا ہے۔ بھائی! جس عامل کے پاس بھی جائیں گے تو اس نے آپ کو بتانا تو ہے نا؟ وہ ایسی بات بتائیں گے کہ آپ واقعتاً پریشان ہوں تاکہ آپ ان سے علاج شروع کروادیں۔
اب بات سمجھیں: یہ دو آیتیں تین مرتبہ صبح اور تین مرتبہ شام کو پڑھیں گے تو جادو اثر نہیں کرے گا۔ اگرجادو ہوگا تو اس کی برکت سے بچاؤ ہو جائے گا۔ اس سے آسان نسخہ میں آپ کی خدمت میں کیا پیش کروں؟ لیکن آپ کوقیمت کیوں نہیں سمجھ آنی، اس لیے کہ مفت میں بتادیا ہے۔
آپ مرکز میں تشریف لاتے، ہزار روپے خرچ کرتے، دو ہزار جیب میں ڈالتے اور میں پرچی میں لپیٹ کر دیتا تو آپ کہتے کہ مولوی صاحب نے بڑا بہترین نسخہ بتایا ۔ آسان بات قوم کی سمجھ میں نہیں آتی نا!
بحمداللہ میرا سالہاسال سے یہ معمول چلا آرہا ہے کہ میں صبح کو تین مرتبہ پڑھتا ہوں اور شام کو بھی پڑھتا ہوں اور آپ کو مشورہ دیتا ہو ں کہ آپ بھی صبح وشام تین مرتبہ پڑھیں تو جادو اثر نہیں کرےگا۔ اگرہوگا بھی تو اللہ اس کو اپنی قدرت سے ختم کردیں گے۔
آمین آہستہ کہنے کی دلیل:
﴿قَالَ قَدۡ اُجِیۡبَتۡ دَّعۡوَتُکُمَا فَاسۡتَقِیۡمَا وَ لَا تَتَّبِعٰٓنِّ سَبِیۡلَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۸۹﴾﴾
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا کا ذکر فرمایا ہے اور میں نے اس سے ایک مسئلہ سمجھانا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے دعا مانگی تھی:
﴿رَبَّنَا اطۡمِسۡ عَلٰۤی اَمۡوَالِہِمۡ وَ اشۡدُدۡ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ﴾
اے اللہ! آپ نے فرعون ا ور اس کی قوم کو مال دیا ہے،دولت دی ہے لیکن یہ لوگ امت کو برباد کرتے ہیں، اللہ! ان کے مالوں کو مسخ کرکے رکھ دیں۔
حدیث میں آتاہے کہ ان کے جو باغات تھے وہ بھی تباہ ہو گئے، سارے اموال کو خدانے ختم کر دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: یا اللہ! ان کے دلوں کو بھی سخت کردے اب ایمان تو لائیں گے نہیں، اب ان کو عذاب دے دے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿قَدۡ اُجِیۡبَتۡ دَّعۡوَتُکُمَا﴾
اے موسیٰ اور ہارون! ہم نے تم دونوں کی دعا قبول کرلی ہے۔ دعا مانگ رہے ہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور اس دعا پر آمین فرمارہے ہیں حضرت ہارون علیہ السلام۔
توجہ رکھنا! امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں -باوجود شافعی مسلک ہونے کے- کہ اس آیت سے پتا چلا ہے کہ یہ جو امام نماز میں
﴿وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴾
پڑھتا ہے اور ہم آمین کہتے ہیں یہ آمین دعا ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام دعا مانگتے ہیں اور حضرت ہارون علیہ السلام آمین کہتے ہیں۔ اللہ نے دونوں سے فرمایا:
﴿قَدۡ اُجِیۡبَتۡ دَّعۡوَتُکُمَا﴾
کہ ہم نے تم دونوں کی دعا قبول کر لی ہے۔ اس سےپتا چلا کہ آمین دعاہے اور دعا کے بارے میں قرآن کریم کہتا ہے:
﴿اُدۡعُوۡا رَبَّکُمۡ تَضَرُّعًا وَّ خُفۡیَۃً﴾
الاعراف7: 55
کہ جب تم دعامانگو تو گڑگڑاکر مانگو اور آہستہ مانگو۔
امام رازی فرماتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ میں امام شافعی کا مقلد ہوں لیکن حق یہ ہے کہ آمین آہسۃ کہنے پر قرآن امام اعظم ابوحنیفہ کا ساتھ دیتا ہے۔
التفسیرالکبیر للرازی: ج14 ص107
یہ چھوٹی دلیل نہیں ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے مقلد امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ جنہوں نے تیس جلدوں میں عربی میں تفسیر کبیر لکھی ہے وہ فرما رہے ہیں: ”وَنَحْنُ نَقُوْلُ بِھٰذَا الْقَوْلِ“ کہ اس مسئلے میں ہم بھی وہی کہتے ہیں جو امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں۔اللہ ہمیں اپنے مسلک کی قدر کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ اللہ ہم سب کو بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
پیغمبر علیہ السلام کو تسلی:
بس میں آخری آیت پر بات کر کے بات ختم کرتا ہوں:
﴿وَ اتَّبِعۡ مَا یُوۡحٰۤی اِلَیۡکَ وَ اصۡبِرۡ حَتّٰی یَحۡکُمَ اللہُ ۚ وَ ہُوَ خَیۡرُ الۡحٰکِمِیۡنَ ﴿۱۰۹﴾٪﴾
اللہ رب العزت نے اپنے پیغمبر سے فرمایا: میرے پیغمبر! آپ ان سے فرمادیں کہ اگر یہ اطاعت کریں گے تو اپنے لیے، اگر گمراہ ہوں گے تو عذاب ان پر ہوگا، اے پیغمبر! آپ وحی کی اتباع کریں اور صبر کرتے رہیں، اللہ فیصلہ فرمادیں گے اور اللہ بہترین فیصلہ فرمانے والے ہیں۔
اس آیت میں اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی ہے اور اس میں علماء کےلیے بھی ہدایت ہے کہ علماء کو چاہیے دلائل کے ساتھ اپنے مسلک کو بیان کرتے رہیں، اگر قوم قبول کرے تو ان کا شکریہ ادا کریں اور اگر قوم قبول نہ کرے تو زیادہ پریشان نہ ہوں۔ بس بات کہہ کر اللہ کے حوالے کردیں۔
اللہ مجھے اور آپ سب کو اپنے مسلک کو سمجھنے کی اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․