سورۃ یوسف

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
سورۃ یوسف
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿ الٓرٰ ۟ تِلۡکَ اٰیٰتُ الۡکِتٰبِ الۡمُبِیۡنِ ۟﴿۱﴾ اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ قُرۡءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ ﴿۲﴾ ﴾
ترتیب درس قرآن کے حوالےسےہما ری آج کی اس سورت کانام ”سورۃ یوسف“ ہے۔اس سورت کے بارہ رکوع اور ایک سو گیارہ آیات ہیں۔
سورت یوسف کا شان نزول:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کاچرچا مکہ سے مدینہ منورہ پہنچا تو مدینہ منورہ کے یہودی حسد کی آگ میں جلنے لگے۔ وہ اس بات کو خوب سمجھتے تھے کہ اس نبی کا دائرہ نبوت وسیع ہے اور آپ نے مکہ کے بعد مدینہ منورہ آنا ہے۔ تو انہوں نے طرح طرح کی شرارتیں شروع کیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں روڑے اٹکانے شروع کیے۔ ان کی شرارت کا طرز مشرکین مکہ سے الگ تھا۔ مشرکین مکہ جاہل تھے اور یہود مدینہ علم والے تھے۔ جہلا کی شرارتیں اپنی ہوتی ہیں اور علماء کی شرارتیں اپنی ہوتی ہیں۔ جاہل اپنے انداز سے محنت کرتاہےاورعلم والا اپنے طرز سے حملہ کرتا ہے۔جا ہل علمی بات تو کہہ نہیں سکتا البتہ وہ راستہ روکنے کے لیےطاقت کا استعمال کرتاہے۔ اسی طرح جاہل علمی بات نہیں کہہ سکتا بلکہ وہ الزامات لگاتا ہے۔تو مکے والوں نے رسول اللہ صلی اللہ پر الزامات لگائے کہ آپ معاذ اللہ جادو گر ہیں، کاہن ہیں،شاعر ہیں۔
مدینہ میں چونکہ یہود تھے۔ ان کا طرز مخالفت یہ تھا کہ مختلف قسم کے علمی شبہات ڈالتے۔ ان کا ذہن یہ ہوتاتھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امی ہیں، جواب نہیں دے سکیں گے۔ تو ہم کہہ دیں گے کہ کیسا نبی ہے جس کو مسائل کا پتا ہی نہیں ہے! اور اعتراضات بھی ان کے ایسے ہوتے تھے کہ جن کا تعلق بھی بظاہر نبوت کے ساتھ نہیں ہے۔
یہودِ مدینہ کا سوال:
یہود مدینہ نے مشرکین مکہ کےذریعےآپ سے سوال کیا کہ بتائیں! وہ کون سا نبی ہے جس کا بیٹا شام سے مصر پہنچا؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آگئی اور پوری سورت یوسف نازل ہوگئی۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری سورت سنا دی۔ انہوں نے چھوٹاسوال کیا ہےاور جواب کتنا لمبا دیا گیا۔
اس سورت میں اللہ رب العزت نے فرمایا:
﴿نَحۡنُ نَقُصُّ عَلَیۡکَ اَحۡسَنَ الۡقَصَصِ
قصے تو ہم نے اور بھی بیان کیے ہیں لیکن یوسف علیہ السلام کا قصہ سب سے اچھے انداز میں بیان ہوا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ میں زیادہ وجوہ پر بات نہیں کرتا۔
میں کئی مرتبہ آپ کی خدمت میں عرض کر چکا ہوں کہ میں آپ کے وقت کا بہت خیال کرتا ہوں۔ اگر میں نے بیان اڑھائی تین گھنٹے کا کر دیاتو آئندہ درس میں آپ نے سوچنا ہےکہ مولانا کے درس میں جائیں یا نہ جا ئیں؟درس کے بعد چاِئے نہیں، چاول بھی نہیں، کھانا بھی نہیں ہے تواتنا لمبا بیان کون سنے؟اس لیے میں آپ کی رعایت کرتے ہوئے بیان تھوڑا کرتا ہوں، صرف ضروری ضروری باتیں کرتاہوں، لمبی باتیں چھوڑدیتا ہوں۔
تو اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ باقی انبیاء علیہم السلام کے قصے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بیان فرما ئے ہیں اور یکجا کسی نبی کا قصہ بیان نہیں فرمایا، کہیں تھوڑا ساکہیں پھر تھوڑا سا، تو جتنی ضرورت ہواتنا بیان کردیا لیکن حضرت یوسف علیہ السلام کا پورا قصہ اللہ نےبالترتیب ایک جگہ بیان کیا ہے اور آغاز کہاں سے کیاہے؟ یوسف علیہ السلام کے خواب سے۔
حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ:
یوسف علیہ السلام کے والد حضرت یعقوب علیہ السلام کی دو بیویاں تھیں۔ ایک بیوی سے دس بچے ہیں اور دوسری بیوی سے صرف دو ہی بیتے ہیں۔ ایک کانام حضرت یوسف اور دوسرے کا نام بنیا مین ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے بچپن میں خواب دیکھا:
﴿اِذۡ قَالَ یُوۡسُفُ لِاَبِیۡہِ یٰۤاَبَتِ اِنِّیۡ رَاَیۡتُ اَحَدَعَشَرَ کَوۡکَبًا وَّ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ رَاَیۡتُہُمۡ لِیۡ سٰجِدِیۡنَ ﴿۴﴾﴾
کہ مجھے گیارہ ستاروں، ایک چاند اور ایک سورج نے سجدہ کیا ہے۔ اپنے والد کے سامنے اپنا خواب بیان کردیا۔ تو والد نے بتایا کہ اس خواب کا تذکرہ دوسرے بھائیوں سے نہ کرنا، ممکن ہے وہ تمہیں نقصان پہنچائیں۔ ظاہر ہے کہ والد سمجھتا ہے اپنے بیٹوں کے باہمی تعلقات کو۔جب بھائیوں کو پتا چلا تو بھائی اس وقت سے آپ علیہ السلام کے مخالف ہوگئے ۔
چونکہ نبی کی اولاد تھی، آدمی عالم کا بیٹا ہو، عالم نہ بھی ہو تو علم کی شان اس میں کچھ نہ کچھ ہوتی ہے۔ ایک آدمی بڑے خاندان کا ہواورحرکتیں چھوٹوں والی کرے پھر بھی بڑے خاندان کا ہونے کی وجہ سے اس میں خوبیاں موجود ہوتی ہیں۔
وہ نبی کے بیٹے تھے، وہ سمجھتے تھے کہ اس خواب کی جو تعبیر ہے وہ بڑی اہم ہے۔ ممکن ہے آئندہ چل کر حضرت یوسف کو بڑا مقام ملے، ا س لیے انہوں نے حضرت یوسف کے بارے میں سازشیں شروع کیں تاکہ ہم ابھی اسے ختم کردیں۔ ہمارا باپ اس سےپیار زیادہ کرتاہے، ہم سے کم کرتاہے۔ کل اس کا مقام بھی نظر آتا ہے تو کیوں نہ اس کو ختم کردیں!
یوسف علیہ السلام کے خلاف بھائیوں کی تدبیر:
انہوں نے اپنے والد حضرت یعقوب علیہ السلام سے کہا: ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمارے بھائی کو ہمارے ساتھ بھیج دیں، ہم نوجوان بھائی ہیں، اکٹھے بکریاں چرائیں گے، سیر کریں گے، کھائیں گے،پییں گے، خوشی منائیں گے۔
حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا: مجھے ڈر ہے کہ تم کھیل کود میں مصروف رہو اوریوسف کوکہیں بھیڑیا نہ کھاجائے۔مجھے یہ خدشہ ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے یہ کیوں فرمایا کہ مجھے خدشہ ہے کہ اس کو بھیڑیا نہ کھاجائے؟
مفسرین نے اس کی کئی وجوہات لکھی ہیں: اس کی ایک وجہ تویہ ہےکہ جس علاقے میں حضرت یعقوب علیہ السلام رہتے تھے اس علاقے میں بھیڑیے کثرت کے ساتھ تھے، اس لیے یہ بات فرمائی۔ بعض نے یہ لکھا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کو خواب آیا تھا کہ میرے اس بیٹے پر کچھ بھیڑیوں نے حملہ کردیا ہے تو اسے ایک بھیڑیے نے بچا لیا ہے اور پھر میرا بیٹا ایک کنویں میں چھپ گیا ہے۔اس سے ان کو خدشہ پڑا کہ شاید میرا بیٹا ان بھیڑیوں سے نقصان نہ اٹھائے۔
وہ سمجھدار تو بہت تھے۔انہوں نے اسی جملے کو پکڑ لیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو لے گئے۔ انہوں نے مشورہ کیاکہ حضرت یوسف علیہ السلام کو قتل کردیں، حضرت یوسف کےبڑے بھائی کانام یہودا تھا۔
بعض کہتے ہیں: اس کی نسل سے جو لوگ ہیں انہیں یہودی کہتے ہیں۔ تووہ ذرا رحم دل تھااور ترس کھاتاتھا۔اس نے کہا کہ دیکھو! یہ ہمارا بھائی ہے، باپ ہماراایک ہے اگر چہ ماں الگ الگ ہے، ہمیں اس بھائی کو مارنا نہیں چاہیے اور باپ کو دکھ نہیں دینا چاہیے۔
مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کے بھائیوں نے یہودا کو دھمکی دی کہ اگر تو باز نہیں آیاتو تجھے بھی قتل کر دیں گے۔ اس نے کہا: پھر بچنے کا راستہ یہی ہےکہ کوئی ایسی تدبیر کروں کہ بھائی بچ بھی جا ئے اور یہ بھی مطمئن ہوجائیں۔ اس نے کہا کہ اگر تم نے فیصلہ کر ہی لیا ہے اس بچے کو باپ سے جدا کرنے کا تو قتل نہ کرو بلکہ اس کو کسی گمنام کنویں میں ڈال دو! یا تو کوئی بچھو اس کو ڈسے گا اور یہ مرجائےگا یا کوئی قافلے والے اسے اٹھاکر لے جائیں گے، تمہاری مراد بھی پوری ہوجائےگی کہ باپ سے الگ ہوگا اور ہمارے معصوم بھائی کی جان بھی بچ جا ئےگی۔ انہوں نے اس رائے کو بالآخر پسند کیا۔ گمنام سا ایک کنواں تھا۔ حضرت یوسف چھوٹے بچے تھے۔آپ بتاؤ چھ یا سات سال کا بچہ کتنا ہوتا ہے؟ چھوٹا سا بچہ ہے،ان کو پکڑ کر کنویں کے ڈول میں رکھنے لگےتو یوسف علیہ السلام نے اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کی۔ انہوں نے قمیص اتار دی اور ہاتھ باندھ کر ڈول میں ڈال دیا۔
یوسف علیہ السلام کو کنویں میں ڈال دیا:
بعض روایات میں ہے کہ جب آدھا ڈول نیچے گیا تو رسی کاٹی اور بعض روایات میں ہے کہ خدا کا کرنا یہ تھا کہ اسی کنویں میں ایک چٹان تھوڑی سی آگے کی طرف بڑھی ہوئی تھی۔ جب ڈول نیچے گیا تو یوسف علیہ السلام اس سے نیچے اتر گئے۔ ڈول سے نکلے اور اس چٹان پر بیٹھ گئے اور بعض روایات میں ہے کہ جبرائیل امین علیہ السلام آئے۔انہوں نے وہاں سے اٹھادیا اور چٹان پر بٹھادیا۔ تین دن اور تین رات تک یوسف علیہ السلام یونہی ٹھہرے رہے۔ ان کا بھائی یہودا آتا تھا اور کچھ نہ کچھ کھانے کے لیےدے کر چلا جاتا تھا۔ اس کے دل میں ترس تھا لیکن بھائیوں کے سامنے وہ بھی بے بس تھا۔
حضرت یعقوب علیہ السلام کے پاس گئے تو انہوں نے پوچھا: یوسف کا کیا بنا؟ انہوں نے کہا: بس ابو! آپ سچ ہی کہتے تھے،ہم سے تھوڑی سی غفلت ہوگئی، ہم کھیل کود میں لگے تھے، آگے گئے تو یوسف کےپاس بھیڑیا آیا اور اسے کھاگیا۔ ان کی قمیص کو لیا اور اس قمیص کے ساتھ انہوں نے ایک دنبے یا بکرے کا خون لگایااور کہا دیکھو! یہ خون موجود ہے۔
بعض مفسرین لکھتے ہیں کہ حضرت یعقوب فرمانے لگے: بھڑیااتنا سمجھدار ہے کہ بیٹے کی قمیص کو کچھ نہیں کہااور اسے چیر پھاڑ بھی دیا ہے، تم مجھے بیوقوف بناتے ہو؟ حضرت یعقوب علیہ السلام سمجھ گئے کہ اللہ کی طرف سے ابتلا ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا: میں تمہیں تو کچھ نہیں کہتا،
﴿بَلۡ سَوَّلَتۡ لَکُمۡ اَنۡفُسُکُمۡ اَمۡرًا﴾
تم جھوٹ بولتے ہو، یہ تمہاری کوئی خفیہ تد بیر ہے،
﴿فَصَبۡرٌ جَمِیۡلٌ ؕ وَ اللہُ الۡمُسۡتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوۡنَ ﴿۱۸﴾﴾
میں اس معاملے کو اللہ کے حوالے کرتا ہوں، اللہ ہی میرے معاملے کا حل نکالے گا۔
قافلے والوں کا یوسف علیہ السلام کو کنویں سے نکالنا:
حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے غم میں ہیں اور یوسف علیہ السلام کے بھائی اپنی خوشی میں ہیں۔ یہودا خبر گیری کرتا ہے۔ ایک قافلہ جس کا راستہ یہ نہیں تھا نہ ہی وہ کنواں کسی خاص راستے پر تھا، وہ قافلہ بھٹک کر اس راستے کی طرف آیا۔
مفسرین فرماتے ہیں: وہ قافلہ بھٹکا نہیں تھا بلکہ اللہ اس قافلے کو بھٹکا کر ادھر لائے تھے کہ ہم نے یہاں سے یوسف کو نکالنا ہے۔ قافلے والوں نے ایک بندے کو بھیجا کہ اس کنویں سے پانی نکالو! اس نے جب ڈول نکالا تو بجائے پانی کے ایک خوب صورت اور چمکتا ہوا بچہ باہر آیا۔ اس نکالنے والے کا نام ملک تھا۔ اس نے کہا:
﴿یٰبُشۡرٰی ہٰذَا غُلٰمٌ﴾
کہ تمہیں مبارک ہو! ہم پانی تلاش کر رہے تھے تو اللہ نے کتنا پیارا بچہ عطا کیا ہے۔ یہودا دیکھ رہا تھا۔ اس نے اپنے بھائیوں کو بتایا۔بھائی دوڑے آئے۔ انہوں نے دیکھا کہ قافلے والوں نے یوسف علیہ السلام کو تو کنویں سے نکال لیا ہے۔ اب ان کے ذہن میں تھا کہ یہ اس کو چھوڑیں گے نہیں اوریہ بھی ذہن میں تھاکہ ہوسکتا ہے چھوڑ دیں اور یہ بھی ذہن میں تھا کہ ہوسکتا ہے اسے اپنے ساتھ لے جائیں۔
اب بھا ئیوں نے ایک نئی ترکیب چلائی۔ حضرت یو سف علیہ السلام کے بارے انہوں نے کہا: یہ ہمارا غلام ہے، تم نے چوری کیا ہے، قافلہ والوں نے کہا: ہم نے چوری کہاں کیا ہے؟ یہ تو کنویں سے نکلا ہے۔ انہوں نے کہا: ہمارا غلام دوڑا ہوا تھا، اگر تم خریدنا چاہتے ہوتو ہم تمہیں بیچنے کے لیے تیار ہیں۔ قافلہ والوں نے کہا: ہم خرید لیتے ہیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنما فرماتےہیں: انہوں نے بیس درہم میں ان کو بیچ دیا اور دس بھائیوں نے دو دو درہم تقسیم کر لیےاور ایسا کیوں کیا؟ اس کی وجہ یہ تھی ﴿وَ کَانُوۡا فِیۡہِ مِنَ الزَّاہِدِیۡنَ ﴿٪۲۰﴾﴾ وہ بے رغبت تھے، ان کو ضرورت نہیں تھی، وہ توجان چھڑانا چاہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ایسے طریقے سے یوسف جائےکہ وہاں سے واپس نہ آئے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے اس غلام کو لے لواور باندھ کر رکھنا! اس کی عادت دوڑ جانے کی ہے۔ اگر تم نے کوتاہی کی تویہ بھاگ جائے گا۔ مقصد یہ تھاکہ قافلے والے یوسف کو چھوڑیں نا۔ انہوں نے یوسف علیہ السلام کو باندھا اور مصر کے بازار میں لے گئے۔
حضرت یوسف سات سال کے بچے ہیں۔ حسن و جمال کے پیکرہیں۔ اتنا جمال اللہ نے ان کو عطا فرمایاکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےمعراج کے سفر میں حضرت یوسف کا چہرہ دیکھا تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دنیا کا آدھاحسن اللہ نے تنہا یوسف علیہ السلام کو دیاہے اور آدھا حسن خدانے دنیا میں تقسیم کیا ہے۔ بتاؤ خدا نے کتنا جمال عطا کیا ہوگا؟
یوسف بازارِ مصر میں:
یہ سب تکوینی نظام چل رہا تھا، اس بچے نے بادشاہ کےدربار میں پہنچنا تھا۔ اب لوگ خریدنے کے لیے آگئے۔ بچہ قیمتی تھا۔ قیمت لگنا شروع ہوئی۔ کسی نے کہا: میں اس کے بدلے میں چاندی دیتا ہوں۔ کسی نے کہا: میں اس کے بدلے میں سونا دیتا ہوں۔ اس کی قیمت بڑھتی چلی گئی اور قیمت اتنی بڑھ گئی کہ عام بندہ اس کو خرید ہی نہیں سکتا تھا۔
یو ں کہنا چاہیے کہ یوسف علیہ السلام کی قیمت اللہ نے اتنی لگوادی کہ عام بندہ اس کو لے ہی نہیں سکا۔ اللہ نے بتا دیا کہ میرا یوسف کتنا قیمتی ہے! بالآخر عزیز مصر کے حصے میں آئے اور اس نے بھاری رقم دے کے حضرت یوسف علیہ السلام کو خریدا۔ وہ جب گھر گیا تو اس نے حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن و جمال کو دیکھا، ان کی بول چال دیکھی، وہ سمجھا کہ یہ کل بہت بڑا آدمی بنے گا۔
تین عقلمند اور دانا لوگ:
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھےکہ دنیا میں تین لوگ ایسے گزرے ہیں کہ جنہوں نے شکلوں اور چہروں سے پہچانا ہے کہ یہ بندہ کتنا بڑا ہوگا! ان میں سے ایک عزیز مصر تھا جس نے حضرت یوسف کو بچپن میں دیکھ کر پہچانا ہےکہ بہت بڑا آدمی بنے گا اور اپنی بیوی سے کہا کہ اس کا خیال رکھنا! ایک حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹی ہے جس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا تو اپنے والد سے کہا کہ ان کو ملازم رکھ لیں، یہ طاقت ور بھی ہیں اور امانت دار بھی اور ایک حضرت ابوبکر صدیق ہیں جنہوں نے حضرت عمر کے چہرے سے پہچانا کہ بہت بڑا آدمی بنےگا۔
عزیز مصر نے یوسف علیہ السلام کو گھر میں جگہ دی ہے اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو مصلی پر جگہ دی ہے۔
بعض لوگ ہوتے ہیں کہ جو پہچان لیتے ہیں کہ اس نے بہت بڑا آدمی بننا ہے۔اور ایسے ہوتا ہے،بچپن میں بعض علامات ایسی ہوتی ہیں جو انسان کے بڑا ہونے کی دلیل بنتی ہیں۔
امام محمد ؛ امام ابو حنیفہ کی مجلس میں:
حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ مجلس میں تشریف فرما تھے۔ایک بچہ آیا اور امام صاحب سے مسئلہ پوچھاکہ اگر کوئی بندہ عشاء کی نماز پڑ ھ کر سو جائے اور پھر اس کو غسل کی حاجت ہو جائے تو عشاء کی نماز دوبارہ پڑھے یا نہ پڑھے؟ امام اعظم ابوحنیفہ نے فرمایا: عشاء کی نماز دوبارہ پڑھے۔شاگردوں کو بڑا تعجب ہوا کہ امام صاحب نے کیسا مسئلہ بتایا ہے کہ جب کوئی آدمی عشاء کی نماز پڑھ کر سوئے، غسل کی حاجت ہو جائےتو دوبارہ تو نماز نہیں پڑھی جاتی۔ حضرت امام ابوحنیفہ فرمانے لگے: یہ بچہ نہایت ذکی اور سمجھدار تھا، اس بچے نے مسئلہ عام بندے کے بارے میں نہیں پوچھا اس نے اپنے بارے میں پوچھا ہے لیکن شرمیلا اتنا ہے کہ بتا نہیں سکتا کہ مجھے رات غسل واجب ہوا تھا، یہ پوچھنا چاہ رہا ہےکہ جب میں نے عشاء کی نماز پڑھی تو میں نابالغ تھا اور رات سویا تو مجھے غسل کی ضرورت پیش آگئی، اب میں بالغ ہوا ہوں تو میں عشاء کی نماز پڑھوں یا نہ پڑھوں؟ امام صاحب نے فرمایا: جب عشاء کی نماز پڑھی یہ نابالغ تھا، اس پر نماز فرض ہی نہیں تھی تو جب فجر کی نماز سے پہلےبالغ ہوا تواب عشاء کی نماز اس پر فرض ہوگئی ہے، تو عشاء دوبارہ پڑھےگا۔ امام صاحب نے فرمایا: ”
قَدْ یُفْتِیْ ھٰذَا الصَّبِیُّ“
کہ یہ لڑکا بہت بڑا آدمی بنے گا۔
امام محمد کا سات دنوں میں قرآن حفظ کرنا:
کچھ دن گذرے اسی لڑکے کا باپ اسے لے کر درس گاہ میں آیا۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے اس نے عرض کی: حضرت! یہ میرا بچہ ہے آپ اس کو درس گاہ میں بیٹھا لیں۔ امام صاحب نے پوچھا: قرآن کا حافظ ہے؟ کہا: نہیں، فرمایا: میری ایک شرط ہے کہ لڑکا جب تک قرآن کا حافظ نہ ہو میں اپنی درس گاہ میں نہیں بٹھاتا۔
مجھے تعجب ہوتا ہے کہ لوگ قرآن وحدیث کی بات کرتے ہیں اور امام ابوحنیفہ کا رد کرتے ہیں، امام صاحب تو اس شحص کو درس گاہ میں ہی نہیں بٹھاتے جو قرآن کا حافظ نہ ہو، اس سے بڑھ کر قرآن کون جانتاہے؟ امام ابوحنیفہ کا جنازہ جہاں سے اٹھا ہےوہاں پر امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے آٹھ ہزارمرتبہ قرآن ختم کیا ہے، اب یہ بندہ قرآن نہیں سمجھتا! عجیب بات ہے۔
خیر انہوں نے کہا: میرا لڑکا قرآن کا حافظ تو نہیں ہے۔ فرمایا پھر اس کو لے جاؤ۔ اب وہ ہفتے بعد پھر آئے۔ کہا کہ اس بچے کو داخل فرما لیں۔ امام صاحب نے فرمایا: میں نے پچھلے ہفتے بھی کہا تھا کہ بچہ قرآن کاحافظ ہونا چاہیے،یہ قرآن کا حافظ نہیں آپ دوبارہ لےآئے! باپ نے کہا: آپ امتحان لے لیں، یہ ایک ہفتے میں مکمل قرآن حفظ کرکے آیا ہے۔ (سبحان اللہ۔ سامعین)
یہ بچہ ہے اور امام صاحب نے پہچان لیا کہ اس نے کل کو بہت بڑا آدمی بننا ہے۔ یہ بچہ کون ہے؟ امام اعظم ابو حنیفہ کا شاگرد ہے۔
چھوٹا محمد ایسا ہے تو بڑا محمد کیسا ہو گا؟
اہلِ کتاب کے ایک دانشور نے امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ”المبسوط“ کا مطالعہ کیا تو مسلمان ہوگیا۔ اس سے کسی نے پوچھا کہ مسلمان کیوں ہوئے؟ اس نے کہا:
”ھٰذَا کِتَابُ مُحَمَّدِکُمُ الْاَصْغَرِ فَکَیْفَ کِتَابُ مُحَمَّدِکُمُ الْاَکْبَرِ“
کہ مسلمانوں کے چھوٹے محمد کی کتاب ایسی ہے تو بڑے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کتاب کا کیا عالم ہو گا؟! اس بات نے مجھے اسلام قبول کرنے پر مجبورکردیا۔
بلوغ الامانی فی سیرۃ الامام محمد بن الحسن الشیبانی للکوثری: ص196
بچوں کو پہلے دین پڑھائیں پھر دوسری چیزیں!
بعض لوگ بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور کل کو جاکر بہت بڑے بنتے ہیں۔ بعض صفات اللہ نے بچوں میں رکھی ہوتی ہیں ہم صفات کا استعمال غلط کرتے ہیں۔ مثلاً ہمارا بیٹا ذہین ہوتا ہے تو ہم قرآن کے بجائے اسے انگلش لینگویج میں لگا دیتے ہیں، صلاحیتیں اس کی بدل جاتی ہیں اب وہ عالم بنے گا تو کیسے بنے گا؟ ہما را بیٹا ذہین ہوتا ہے اور اب ہم نے اس کو کمپیوٹرائزڈ زندگی دے دی ہے تو بتاؤ وہ قرآن پر کیسے آئے گا؟ہم کمپیوٹر کے مخالف نہیں ہیں لیکن ہم کہتے ہیں پہلے قرآن پڑھا ئیں پھر کمپیوٹر سکھائیں، پہلےقرآن سکھائیں پھر انگلش زبان پر لائیں۔ ہم نے کب انگریزی کا انکار کیا ہے! لیکن دین پہلے ہے اور دنیاوی علم بعد میں ہے۔ اللہ نے بچوں میں صلاحیتیں بہت رکھی ہوتی ہیں لیکن ہم کبھی ان صلاحیتوں ابھارتے نہیں۔
چلیں بات چل پڑی ہے تو میں ایک چھوٹی سی بات کہتا ہوں۔ عیدالفطر کے موقع پر مدارس میں چھٹیاں تھیں اور میرا گجرات میں علماء کنونشن میں بیان تھا۔ میرا ایک چھوٹا بچہ ہے دس یا گیارہ سال کا ہوگا وہ مدرسے سے گھرآیا تو میری بیوی نے کہا: اس کو بھی ساتھ لے جائیں۔ میں نے کہا: اس کو بھی ساتھ لے جاتا ہوں۔ ہم نے صبح ناشتہ نہیں کیاجلدی چلے گئے۔ راستے میں میں نے اس سے پوچھا کہ کوئی چیز کھانی ہے؟ بچہ تھا نا، اس نے کہا: کھانی ہے۔ میں نے کہا: کیا کھانا ہے؟ اس نے کہا کہ جوس دے دیں اور ساتھ چپس بھی ہوں۔ میں نے کہا: تجھے بھوک لگی ہے؟ کہتا ہے: جی ہاں۔ میں نے کہا: بھوکے آدمی کو تو نیند نہیں آتی اور تو تو گاڑی میں سو رہا ہے؟ تجھے کیسی بھوک لگی ہے؟ میں تو بیٹے سے مذاق کر رہا تھا۔
دیکھیں ذہن کیسے کام کرتا ہے! صلاحیتیں ہوتی ہیں۔ مجھے فوراً کہنے لگا، کہا: ہم فضائل اعمال کی تعلیم میں بیٹھتے تھے مدرسے میں تعلیم ہوتی ہے، اس میں ہم نے ایک واقعہ سنا کہ ایک صاحب گھر آئے اور ان کے گھر میں کھانے کے لیے کچھ نہیں تھا اور بیوی نے ہانڈی آگ پر رکھ دی اور اس میں پتھر ڈال کر اسے ہلاتی رہی اور بچے سوگئے کہ کھانا پک رہا ہے۔ اس نے کہا کہ اگر بھوکے کو نیند نہیں آتی تو فضائل اعمال کا واقعہ غلط ہے؟ یہ گیارہ سال کا بچہ ہے اور آپ استدلال دیکھیں، یہ چھوٹی بات نہیں ہے، میں جب یہ صلاحیتیں دیکھتا ہو ں تو میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں اور ہم پوری کوشش کریں گے کہ ان کو دین پر لائیں، باقی اللہ کی مرضی ہے اللہ کیا کام لینا چاہتے ہیں، ہمیں تو اندازہ نہیں۔
حضرت یوسف علیہ السلام عزیزِ مصر کے گھر میں:
خیر میں اپنے عنوان پر واپس آتا ہوں۔ میں حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں کہہ رہا تھاکہ عزیز مصر نے اپنے بیوی سے کہا: ہم نے اس کو خریدا ہے یہ ہمارے کام بھی آئےگا اور اس کو بیٹا بھی بنا سکتے ہیں۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ عزیز مصر کا بیٹا نہیں تھا، صاحبِ اولاد نہیں تھا تواس نے کہا چلو بیٹا بنا لیتے ہیں۔ حضرت یوسف اس کے گھر میں پلےاور جوان ہوئے۔ عزیز مصر کے بیوی کا نام زلیخا ہے۔ وہ حضرت یوسف پر فریفتہ ہوگئی۔ اس نے نیا جال بچھانا شروع کر دیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن سے متأثر ہوئی اور اس نے حضرت یوسف سے اپنی خواہش کا اظہار کر ڈالا۔ اپنے محل اور کمرے کے دروازے کو تالا لگایا، اگلے میں پھراگلے میں، یوں کئی تالے بند کر کےوہ ان کو اپنے کمرے میں لےگئی اور وہاں جاکر اس نے حضرت یوسف علیہ اسلام کے حسن کی تعریفیں شروع کر دیں۔ یوسف علیہ السلام سمجھ گئے کہ یہ مجھ سے گنا ہ کا تقاضا کرتی ہے۔ یوسف علیہ السلام گناہ کے لیےقطعاً تیار نہیں ہو ئے۔
عزیز مصر کی بیوی کا تقاضا:
اب جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ زلیخاہ نے ارادہ کیا حضرت یو سف علیہ السلام سے اپنی بری خواہش کو پورا کرنے کا۔ یوسف علیہ السلام تیار کیوں نہیں ہوئے؟ اس کی وجوہات تو کئی ہیں جو مفسرین نے لکھی ہیں، میں ایک آپ کے سامنے پیش کرنے لگا ہوں۔ قرآن کریم میں تو صرف اتنا ہے
﴿وَ لَقَدۡ ہَمَّتۡ بِہٖ﴾
کہ اس عورت نے گناہ کا پختہ ارادہ کر لیا،
﴿وَ ہَمَّ بِہَا﴾
حضرت یوسف علیہ السلام نے ارادہ نہیں کیا،
﴿ہَمَّ﴾
عربی زبان کا لفظ ہے، پختہ ارادہ کے معنی میں بھی آتا ہے اور طبعی میلان کے معنی میں بھی آتاہے۔ مفسرین کہتے ہیں کہ جس طرح آدمی نے گرمی کا روزہ رکھا ہو اور سامنے ٹھنڈا شربت آجائے تو پینے کو جی تو چاہتا ہے لیکن آدمی روزہ توڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اسی طرح اگر خلوت میں نا محرم عورت آجائے تو گناہ کا طبعی تقاضا پیدا ہوتا ہے لیکن اس طبعی تقاضے پر عمل کرنے کا نبی تصور بھی نہیں کر سکتا۔
">﴿وَ لَقَدۡ ہَمَّتۡ بِہٖ﴾

اس زلیخا نے تو پختہ ارادہ کر لیا تھا لیکن یوسف علیہ السلام نے ارادہ پختہ نہیں کیا، ہاں ﴿

وَ ہَمَّ بِہَا

﴾ غیر اختیاری طور پر طبعی خیال آیا لیکن یوسف علیہ السلام کے پاس چونکہ دلیل موجود تھی اور وہ دلیل علم شریعت تھا کہ زنا اور یہ گناہ کرنا حرام ہے، اس لیے یوسف علیہ السلام نے اپنے علم کے مطابق عمل کیا اور اس کے قریب جانے کا سوچا ہی نہیں ہے۔

رب کی برہان کیا تھی؟
میں بتا یہ رہاتھا کہ بسا اوقات انسان بات سمجھتا نہیں ہے۔ قرآن مجید کہتا ہے
﴿لَوۡ لَاۤ اَنۡ رَّاٰ بُرۡہَانَ رَبِّہٖ﴾
اگر یوسف علیہ السلام کے پاس دلیل نہ ہوتی، اللہ کی دلیل نہ دیکھ لیتے تو ممکن ہے کچھ ارادہ کر لیتے، اگرچہ ارادے پر عمل نہ کرتے۔ وہ دلیل کیا تھی جس نے حضرت یوسف کو گناہ سے دور رکھا ہے؟ یہ با ت سمجھنے کی ہے۔
مفسرین نے کئی واقعات نقل کیے ہیں خلاصہ سب کا ایک ہے۔ بعض نے کہاکہ زلیخا بند کمرے میں اپنا بت جس کو سجدے کرتی تھی اس پر اپنا دوپٹہ اتار کر ڈالنے لگی۔ یوسف علیہ السلام نے پوچھا یہ کیا کرتی ہو؟ اس نے کہا: میرا خدا ہے، مجھے اس سے شرم آتی ہے۔ یوسف علیہ السلام نے فرمایا: اس سے شرم آتی ہے جو دیکھ نہیں سکتا اور جو خدا دیکھتا ہے اس سے شرم نہیں آتی۔ بعض نے کہا کہ دلیل یہ دیکھی کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کا جسم اطہر ان کے سامنے آیا، جنہوں نے اپنے دانت کے نیچے انگلی رکھی ہوئی تھی، یہ بتانے کے لیے کہ بیٹا یہ جرم کبھی نہیں کرتے۔
بعض نے اس طرح کے اور واقعات لکھے ہیں لیکن مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سب کا خلاصہ یہ ہے کہ یوسف علیہ السلام کو خدا نے بچانا تھا، دلیل نبوت بھی ہے، علم شریعت بھی ہے اور طبع سلیم بھی دی تھی۔ یوسف علیہ السلام گناہ کے قریب بھی نہیں گئے، حضرت یوسف علیہ السلام نے اس کو سمجھایا تو کتنی عجیب عورت ہے! ایک شحص نے مجھ پر احسانات کیے ہیں، مجھے گھر میں ٹھکانا دیا ہے، میری بچپن میں پرورش کی ہے، میں اس گھر میں بھلا خیانت کر سکتا ہوں؟ تو کیسی بات سوچتی ہے؟ لیکن اس وقت یوسف علیہ السلام جب یہ سمجھے کہ یہ عورت مجھے چھوڑنے والی نہیں ہے تو حضرت یوسف علیہ السلام دوڑے اس دروازے کی طرف جس کو تالا لگا ہوا تھا۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یوسف علیہ السلام دوڑے تو خدا کے حکم سے تالے ٹوٹتے چلے گئے۔ معلوم ہوا کہ اپنی ہمت کے مطابق کام کرنا انسان کے ذمہ ہے، کامیابیاں عطافرمانا یہ اللہ کے ذمے ہے۔ آدمی اپنا کام کرے، ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہ بیٹھے۔
عزیزِ مصر کا سامنا:
﴿وَ اسۡتَبَقَا الۡبَابَ وَ قَدَّتۡ قَمِیۡصَہٗ مِنۡ دُبُرٍ وَّ اَلۡفَیَا سَیِّدَہَا لَدَا الۡبَابِ ؕ قَالَتۡ مَا جَزَآءُ مَنۡ اَرَادَ بِاَہۡلِکَ سُوۡٓءًا اِلَّاۤ اَنۡ یُّسۡجَنَ اَوۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۲۵﴾﴾
دروازے پر پہنچے۔ جونہی باہر نکلے تو اب نیا مسئلہ پیش آیا۔ آگے عزیز مصرسامنے کھڑا تھا۔ وہ تو ہکا بکا رہ گیا۔ کمرے سے یوسف علیہ السلام بھی آرہے ہیں اور کمرے سے زلیخا بھی آرہی ہے۔ زلیخا پیچھے دوڑ رہی ہے اور یوسف علیہ السلام آگےتھے۔ زلیخا نے -جیسے عورتوں کی عادت ہوتی ہے- فوراً وار کیااور عزیز مصر سے کہنے لگی
:﴿مَا جَزَآءُ مَنۡ اَرَادَ بِاَہۡلِکَ سُوۡٓءًا اِلَّاۤ اَنۡ یُّسۡجَنَ اَوۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ﴾
عزیز مصر! بتاؤ کہ اگر کوئی تمہاری بیوی کے ساتھ گناہ کا ارادہ کرے تو اس کی کیا سزا ہے؟ یا تو اس کو دردناک قسم کا عذاب دو یا اسے جیل میں ڈال دو۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے لیے عجیب صورتحال بن گئی۔اب چونکہ موقع ایسا تھا کہ صفائی پیش کرنا ضروری تھا، حضرت یوسف علیہ السلام نے صفائی تو اس کو دینی تھی لیکن یوسف علیہ السلام کے بولنے سے قبل اللہ نے وکیلِ صفائی کا انتظام خود فرمایا۔
یوسف علیہ السلام کی پاکدامنی کی گواہی:
﴿وَ شَہِدَ شَاہِدٌ مِّنۡ اَہۡلِہَا﴾
مفسرین فرماتے ہیں کہ وہا ں ان کے محل میں چھوٹا سا بچہ موجود تھا۔ جب عورت نے عزیز مصر کے ساتھ بات کی تو فوراً اس چھوٹے بچے کو جو بول نہیں سکتا تھا خدا نے اسے ایسی قوت گویائی عطا کی کہ اس نے کہا:
﴿اِنۡ کَانَ قَمِیۡصُہٗ قُدَّ مِنۡ قُبُلٍ فَصَدَقَتۡ وَ ہُوَ مِنَ الۡکٰذِبِیۡنَ ﴿۲۶﴾ وَ اِنۡ کَانَ قَمِیۡصُہٗ قُدَّ مِنۡ دُبُرٍ فَکَذَبَتۡ وَ ہُوَ مِنَ الصّٰدِقِیۡنَ ﴿۲۷﴾ ﴾
اے عزیز مصر! اگر حضرت یوسف کی قمیص آگے سے پھٹی ہے تو یہ عورت سچ بولتی ہے اور حضرت یوسف سچے نہیں ہیں اور اگر حضرت یوسف کی قمیص پیچھے سے پھٹی ہے تو پھر عورت جھوٹ بولتی ہے اور وہ سچے ہیں۔
جب دیکھا تو حضرت یوسف علیہ السلام کی قمیص پیچھے سے پھٹی ہوئی تھی، یوسف علیہ السلام دوڑ رہے تھے وہ پکڑ رہی تھی تو اس چھینا جھپٹی میں ان کی قمیص پیچھے سے پھٹ گئی۔ عزیز مصر نے کہا: جھوٹ تُو بولتی ہےاور الزام یوسف پر لگاتی ہے۔
مفسرین نے عجیب بات لکھی ہے کہ اگر وہاں یہ چھوٹا بچہ بول کر اتنی بات ہی کہہ دیتا کہ یوسف سچا ہے اور زلیخا جھوٹی ہے تو بات تو پھر بھی سمجھ آسکتی تھی کہ چھوٹا سا بچہ جو بول نہیں سکتا اس نے صفائی دی ہے لیکن یوں نہیں ہوا بلکہ اللہ نے اس کو بلوایا اور ساتھ دانائی کی بات بلواکر بلوایا، دلیل کے ساتھ بلوایا۔
اس بچے نے جملہ ایسا کہا کہ عام بندہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ یہ بات ٹھیک کہتا ہے، صرف یہ نہیں کہا کہ زلیخا جھوٹی ہےاور یہ سچے ہیں، تیری بیوی جھوٹ بولتی ہے اور تمہارا غلام سچ بولتا ہے۔ اس نے کہا کہ عقل کی بات ہے تم دیکھ لو! اگر دامن آگے سے پھٹا ہے تو قصور ان کا ہے لیکن اگر دامن پیچھے سے پھٹا ہےقصور تمہاری بیگم کا ہے۔
عزیز مصر کا حضرت یوسف کو اعراض کا حکم:
اب جب دیکھا تو ایسا ہی تھا
﴿فَلَمَّا رَاٰ قَمِیۡصَہٗ قُدَّ مِنۡ دُبُرٍ﴾
اب کیا کرتے! جرم تو پکڑا گیا۔ عزیز مصر نے دیکھ لیا کہ زلیخا میری بیوی جھوٹ بولتی ہے او ر یوسف علیہ السلام سچ بولتے ہیں تو عزیز مصر نے کہا
:﴿یُوۡسُفُ اَعۡرِضۡ عَنۡ ہٰذَا﴾
اے یوسف! آپ جانے دیں۔
مفسرین لکھتے ہیں کہ عجیب بات یہ ہےکہ ایسے موقع پر عزیز مصر کو طیش آنا چاہیے تھالیکن اسے طیش نہیں آیا۔ یا تو اس میں غیرت کی کمی تھی یا پھر یہ اللہ کی طرف سے انتظام ہونا تھا اس لیے اسے طیش نہیں آیا۔ اس نے حضرت یوسف علیہ السلام سے کہا: آپ جانے دیں او ر اپنی بیوی سے کہا: تیرا قصور ہے، تو اپنے قصور پر معافی مانگ، یہ بات اچھی نہیں اور ساتھ عزیز مصر نے ایک جملہ بھی کہا:
﴿اِنَّہٗ مِنۡ کَیۡدِکُنَّ ؕ اِنَّ کَیۡدَکُنَّ عَظِیۡمٌ ﴿۲۸﴾﴾
یہ تمہارا ہی مکر ہے اور تمہارے مکر بہت بڑے ہو تے ہیں۔
یہ جملہ ہر عورت کے بارے میں کبھی نہ کہنا اور ہر عورت پر فٹ نہ کرنا! نیک عورتوں کو کبھی نہ کہنا کہ عورتیں مکار ہوتی ہیں اور ان کے مکر بہت بڑے ہوتے ہیں۔ یہ ان عورتوں کے بارے میں ہے جو فاحشہ، بد کردار اور غلط قسم کی ہوں۔
اس بات کی شہرت ہوئی تو․․․․:
خیر معاملہ رفع دفع ہوگیا لیکن یہ بات عزیز مصر کے محل میں پھیل گئی۔ اب یہ گھر کا مسئلہ تھا لیکن عورتوں تک بات جا پہنچی، چلتے چلتے محل سے باہر شہر میں چرچا ہوگیا۔ یہ چرچا اس بات کا تھا کہ زلیخا اپنے غلام پرعاشق ہو گئی ہے۔ مصر کی عورتوں نے زلیخا سے کہا: زلیخا تجھے کچھ حیا کرنا چاہیے تھی، تُو عزیز مصر کی بیوی ہے اور غلام پر عاشق ہو گئی ہے! اس وقت زلیخانے کہا: تم نے اس غلام کو دیکھا نہیں، اگر دیکھ لیتیں تو مجھے کبھی بھی طعنہ نہ دیتیں۔ انہوں نے کہا: اچھا ہمیں بھی دکھا دو۔ اب ان کاوبھی دیکھنے کا شوق پیدا ہوا۔
زنانِ مصر کا یوسف علیہ السلام کو دیکھنا:
حضرت یوسف علیہ السلام اندر ہیں اور زلیخاباہر ہے۔ عورتوں کی دعوت کر دی گئی اوراس دعوت میں اس نے خاص اہتمام کیا۔ دسترخوان بچھایا گیا اور پھل اور چھریاں رکھ دی گئیں۔ تکیے سجا دیے گئے۔ پھر اس نے یوسف علیہ السلام سے کہا:
﴿اُخۡرُجۡ عَلَیۡہِنَّ﴾
آپ ذرا باہر تشریف لائیں۔ جب یوسف علیہ السلام باہر آئے تو
﴿فَلَمَّا رَاَیۡنَہٗۤ اَکۡبَرۡنَہٗ﴾
انہوں نے کہا کہ زلیخا تو ٹھیک کہتی ہے، یہ تو بلا کاحسین و جمیل ہے۔ زلیخا کو طعنہ دینے والی عورتیں ہکا بکا رہ گئیں۔ انہوں نے ایک جملہ کہا اور ایک عمل کیا۔
زنانِ مصر کا جملہ اور عمل:
رات میں نے بیان میں بھی نقل کیاتھا، جوساتھی تھے انہوں نے سنا ہوگا، جملہ یہ کہا
﴿حَاشَ لِلہِ مَا ہٰذَا بَشَرًا ؕ اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا مَلَکٌ کَرِیۡمٌ ﴿۳۱﴾﴾
یہ انسان نہیں ہے، یہ تو فرشتہ ہے۔ ساتھ انہوں نے ایک کام کیا
﴿وَ قَطَّعۡنَ اَیۡدِیَہُنَّ﴾
انہوں نے اپنی انگلیاں کاٹ ڈالیں۔ اتنے حسن وجمال کےنظارے میں مست ہوکررہ گئیں، ان کو پتا ہی نہیں چلا کہ ہم اپنی انگلیاں کاٹ رہی ہیں یا پھل کاٹ رہی ہیں۔
آپ بتائیں! کس درجے کا حسن ہوگا؟ آپ تصور کر سکتے ہیں؟ ان دونو ں جملوں کی مختصر شرح سمجھ لیں۔ میں نے رات بیان میں بھی عرض کیا تھا کہ اللہ نے انسان میں دو قسم کی صفتیں رکھی ہیں:
صفتِ ملکیت اور صفتِ بہیمیت:
1: صفتِ ملکیت
2: صفتِ بہیمیت
ملکیت کا معنی ہے فرشتہ پن اور بہیمیت کا معنی ہے ڈنگر پن۔ فرشتہ پن کا معنی مان کر چلنا اور ڈنگر پن کا معنی من مانی کرکے چلنا۔ جانور میں ایک ہی صفت ہے من مانی کرنااور فرشتوں میں ایک ہی صفت ہےمان کر چلنااور انسان میں اللہ نے دونوں صفتیں رکھی ہیں اور پھر یہ دیکھنا ہے کہ انسان من مانی کرتا ہے یا مان کر چلتا ہے؟اگر یہ من مانی کی صفت نہ ہو اور پھر انسان مان کرچلےتو یہ انسان کا کوئی امتحان نہیں ہے، امتحان تو تبھی ہوگا کہ من مانی کرنے کا مادہ موجود ہواور پھر بھی مان کر چلے۔ اگر انسان من مانی کرے او ر مان کر نہ چلے تو قرآن کہتا ہے:
﴿اُولٰٓئِکَ کَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ ؕ﴾
الاعراف7: 179
یہ جانور وں کی طرح ہیں بلکہ جانور سے بھی بد تر ہیں۔ جانو ر سے بدتر کیو ں ہیں؟ اس لیے کہ جانو ر وہ ہے جو من مانی کرے، اس نے من مانی کی ہے تو جانور کی طرح بنا ہے، جانور میں تو مان کر چلنے کا وصف بھی نہیں تھا لیکن اس میں مان کر چلنے کا وصف تھا پھر بھی من مانی کی ہےتو جانور سے بھی بدتر ہوا۔
انہوں نے کہا: ”
اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا مَلَکٌ کَرِیۡمٌ
“ کہ یہ تو فرشتہ ہے، کیونکہ اس انسان میں من مانی کا وصف موجودہےاور پھر بھی مان کرچلتا ہے، یہ فرشتوں کا کام ہےجانور کا کام نہیں ہے۔ ان عورتوں نے کہا: یہ کیسا انسان ہے کہ من مانی کرتا ہی نہیں، یہ تو مان کر چلتا ہے ”
اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا مَلَکٌ کَرِیۡمٌ
“ یہ تو فرشتہ ہے۔ پھر صرف ”مَلَکٌ“ نہیں کہا بلکہ ”مَلَکٌ کَرِیۡمٌ“ کہا۔ فرشتہ وہ ہوتا ہےجس میں مان کر چلنے کی ہی صفت ہواور مان کرچلےاور جس میں من مانی کی صفت ہو اور پھر مان کر چلے تو یہ ”مَلَکٌ“ نہیں بلکہ
”مَلَکٌ کَرِیۡمٌ
“ ہوتا ہے، یہ تو فرشتہ صفت ہے۔
جب حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں کہا تو زلیخا فوراً بول اٹھی ”
فَذٰلِکُنَّ الَّذِیۡ لُمۡتُنَّنِیۡ فِیۡہِ“
یہی ہے وہ جس کے بارے میں تم مجھے ملامت کرتی تھیں، اب دیکھ لیا تم نے؟ اب بتاؤمیں بے بس تھی یا نہیں؟
میرے محمد کو دیکھتیں تو دل کاٹ ڈالتیں!
ام المؤمنین امی عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں:
لَوَاحِيْ زَلِيْخَا

لَوْ رَأيْنَ جَبِيْنَهٗ

لَآثَرْنَ بِالْقَطْعِ

الْقُلُوْبَ عَلَى الْاَيْدِيْ

تفسیر روح المعانی:ج 13ص77
جن عورتوں نے زلیخا کو طعنہ دیا تھا انہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھا تو اپنی انگلیاں کاٹ ڈالیں، اگر میرے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیتیں تو دل کاٹ ڈالتیں۔
یہ جملہ کیو ں کہا؟ وجہ یہ ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نبی الانبیاءہیں او ر حضرت یوسف نبی ہیں۔ نبی الانبیاء وہ ہوتا ہےجس سے اوصاف نکلتے ہیں اور نبی وہ ہوتا ہے جسے اوصاف ملتے ہیں۔ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حسن نکلا ہے اور حضرت یوسف علیہ السلام کو ملا ہے، ہمارے نبی مرکزِ حسن ہیں حضرت یوسف شاخِ حسن ہیں۔ ہماے جسم میں دل مرکزِ بدن ہے اور ہمارا ہاتھ شاخِ بدن ہے۔ امی عائشہ رضی اللہ عنہا فر ماتی ہیں کہ انہوں نے شاخِ بدن کو دیکھا تو شاخِ بدن کو کاٹا، مرکزِ حسن کو دیکھ لیتیں تو مرکز بدن کو کاٹ لیتیں۔ جنہوں نے یوسف کو دیکھا اور ہاتھ کاٹے ہیں اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیتیں تو دل کاٹ لیتیں۔
یوسف علیہ السلام کا جیل جانا:
زلیخا نے کوشش کی کہ اس کی با ت مانیں لیکن حضرت یوسف اگر بات نہ مانیں تو ان کو جیل جاناپڑےگا۔ادھر یوسف علیہ السلام نے کہا:
﴿رَبِّ السِّجۡنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدۡعُوۡنَنِیۡۤ اِلَیۡہِ﴾
اے اللہ! جس گناہ کی یہ مجھے دعوت دیتی ہے، میں جیل میں تو جاسکتا ہوں گناہ نہیں کر سکتا۔
حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر رحمہ اللہ جو میرے پیرومرشد ہیں، ایک بہت پیارا جملہ فرماتےہیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے کہا:
﴿رَبِّ السِّجۡنُ اَحَبُّ﴾
عربی زبان کے دو لفظ ہیں؛ ایک لفظ حبیب ہوتاہے اور ایک لفظ احب ہوتا ہے۔ حبیب کا معنی ہوتا ہے ”پیارا“ اور احب کا معنی ہوتا ہے ”سب سے پیارا“، جیسے گرائمر میں کہتے ہیں کہ احب یہ اسم تفضیل کا صیغہ ہے۔ تو حضرت فرماتے تھے کہ اللہ کی کیسی تقدیر ہے اور خدا کی قدرت کا عالم دیکھیں کہ
﴿رَبِّ السِّجۡنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدۡعُوۡنَنِیۡۤ اِلَیۡہِ﴾
یوسف علیہ السلام کہتے ہیں کہ اللہ! گناہ کے بجائے مجھے ان کی جیل احب ہے، محبوب نہیں کہا بلکہ احب کیا۔ حضرت فرماتے ہیں: اللہ کی محبت کا جیل خانہ احب ہے تو بتاؤ اللہ کے گلزار کا عالم کیا ہو گا؟جس کی جیل محبوب ترین ہو اس کی جنت کا عالم کیا ہو گا؟
عصمتِ انبیا ء علیہم السلام:
آگے جملہ سنو، فرمایا:
﴿وَ اِلَّا تَصۡرِفۡ عَنِّیۡ کَیۡدَہُنَّ اَصۡبُ اِلَیۡہِنَّ وَ اَکُنۡ مِّنَ الۡجٰہِلِیۡنَ ﴿۳۳﴾﴾
اے اللہ! اگر آپ مجھ سے گناہ کو الگ نہ کرتے،اگر آپ میری مدد نہ فرماتے تو ہو سکتا ہے میں گناہ میں مبتلا ہو جاتا۔
یہا ں دولفظوں پر غور کرنا! حضرت یوسف گناہ سے بچے ہیں اللہ رب العزت نے فرمایا:
﴿کَذٰلِکَ لِنَصۡرِفَ عَنۡہُ السُّوۡٓءَ وَ الۡفَحۡشَآءَ﴾
کہ ہم نے یوسف سے گناہ کو دور رکھا ہے، یہ نہیں فرمایا کہ ہم نے یوسف کو گناہ سے دوررکھا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ میں اور آپ وہ ہیں کہ جو گناہ سے الگ ہوتے ہیں، نبی وہ ہو تا ہےجس سے خدا گناہ کو الگ کر تاہے۔ ہم تو گناہ سے بچتے ہیں لیکن اللہ نبی سے گناہ کو الگ کر دیتے ہیں۔
اور دوسری بات کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿کَذٰلِکَ لِنَصۡرِفَ عَنۡہُ السُّوۡٓءَ وَ الۡفَحۡشَآءَ﴾
ہم نے یوسف سے گناہ کو الگ کیا ہے اور خود یوسف علیہ السلام فرماتے ہیں:
﴿وَ اِلَّا تَصۡرِفۡ عَنِّیۡ کَیۡدَہُنَّ﴾
کہ اے اللہ! اگر آپ مجھ سے ان کے مکر کو دور نہ کرتے․․․․ معلوم ہوا کہ ان عورتو ں کا مکر بھی خدا نے دور کیا ہے اور گناہ بھی خدا نے دور کیا ہے۔
اس سے ایک مسئلہ سمجھ میں آیا کہ نبی معصوم ہے۔ معصوم ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نبی گناہ نہیں کرتا بلکہ معصوم ہونے کا معنی یہ ہےکہ اللہ اپنے نبی سے گناہ ہونے ہی نہیں دیتا۔ معصوم ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ نبی اپنی حفاظت خود کرتا ہے بلکہ معصوم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اپنے نبی کی حفاظت کرتا ہے۔کیونکہ نبی نبوت کا اعلان خود نہیں کرتا بلکہ خدا نبی سے اعلان نبوت کراتا ہے، وہ خدا نبی کو گناہوں سے بچاتا ہے۔ اگر نبی سے گناہ ہوجائے تو الزام نبی پر نہیں لگے گا بلکہ الزام خدا پر لگے گاکہ نبوت کے لیے کیسا بندہ منتخب کیا ہےجو گناہ کرتا ہے!
اللہ اپنے نبی کو بچاتا ہے․․․ مثالیں:
[1]: میں اس کی مثال دیا کرتا ہوں۔ اگر سخت گرمی میں بارہ بجے دن کواڑھائی سال یا تین سال کا بچہ سڑک پر آجائے تو لوگ اس کو نہیں کہتے کہ تُو اڑھائی سال یا تین سال کا بچہ ہے تُو سڑک پر کیوں آیا ہے؟ سردی میں رات گیارہ بجے تین سال کا بچہ باہر آ جائے اور اسے سردی لگے تو کوئی اس بچے کو نہیں کہتا کہ تو ننگے پاؤں، ننگے جسم باہر کیوں نکلا ہے؟لوگ اس کی ماں سے کہتے ہیں کہ آپ کو جننے کا شوق ہے، ان بچوں کی حفاظت نہیں کر سکتیں؟یہ آج ہم عورت سے کہتے ہیں۔ اگر اڑھائی تین سال کا بچہ گرمی سردی سےنہ بچے تو الزام بچے پر نہیں لگتا، الزام بچےکی ماں پر لگتا ہے، کیونکہ یہ بچہ دنیا میں خود نہیں آیا، ماں نے بچے کو جنا ہے،اگر بچہ خود آتا تو سردی گرمی سے بچنا خود بچے کے ذمہ ہوتا، وہ خود نہیں آیا بلکہ اسے ماں نے جنا ہے، تو جس ماں نے جنا ہے اس ماں نے بچے کو بچانا بھی ہے۔
اسی طرح نبی اپنی نبوت کا اعلان خود نہیں کرتا، اگر خود کرتا تو گناہ سے بچنا خود نبی کے ذمے ہوتا، خدا نبی کے سر پر تاجِ نبوت سجاتا ہے، تبھی تو خدا اپنے نبی کو گناہوں سے بچاتاہے۔ اگر بچہ نہ بچے تو الزام ماں پر لگتا ہے،اگر نبی نہ بچے تو الزام خدا پر لگتا ہے کیونکہ نبی انتخاب خدا ہوتا ہے۔
[2]: میں ایک مثال دیا کرتا ہوں۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مَا تَزَوَّجْتُ شَيْئًا مِنْ نِسَائِىْ وَلَا زَوَّجْتُ شَيْئًا مِنْ بَنَاتِىْ إِلَّا بِإِذْنٍ جَاءَنِىْ بِهٖ جِبْرِيْلُ عَنِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ"
حلیۃ الاولیاء لابی نعیم: ج7 ص 295 رقم 10582
میں نے جب بھی کسی کی بیٹی لی ہے تو خدا کی وحی سے لی ہے، میں نے جب بھی اپنی بیٹی کسی کو دی ہے تو خدا کی وحی سے دی ہے۔
میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گیارہ نکاح فرمائے ہیں۔ الزام ایک عائشہ پر لگا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دفاع نہیں کیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم دفاع تب کرتے جب عائشہ رضی اللہ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہوتے، حضور چپ رہے ہیں، صفائی خود خدا نے دی ہے۔کیونکہ عائشہ انتخابِ مصطفیٰ نہیں ہے، عائشہ انتخابِ خدا ہے۔ اگر انتحاب ِمصطفی ہوتی تودفاع نبی کے ذمے تھا، انتخاب خدا ہے تو دفاع خدا کے ذمے ہے۔
حضرت یوسف علیہ السلام نبی ہیں۔ انتخاب خدا کا ہے یا اپنا؟ (خدا کا۔ سامعین) تو دفاع کس نے کرنا تھا؟ (خدا نے۔ سامعین) فرمایا:
﴿کَذٰلِکَ لِنَصۡرِفَ عَنۡہُ السُّوۡٓءَ﴾
کہ ہم نے گناہ کو اس سے دور کیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اگر یوسف علیہ السلام کو ہم نہ بچاتے تو مبتلا ہوجاتے لیکن ہمارے نبی ہیں تو ہم نے ان کو بچایا ہے۔
یوسف علیہ السلام جیل خانہ میں:
حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں تدبیریں ہوئیں۔ عزیز مصر نے سمجھا کہ الزام لگا ہے لیکن یوسف ہے تو سچا، ادھر میرے گھر کا مسئلہ ہے۔ آخر یہ طے کیا کہ یوسف کو جیل میں ڈال دو۔ یوسف علیہ السلام جیل میں چلے گئے۔ کچھ عرصہ گزرا تو دوسرے قیدیوں سے دوستیاں ہو گئیں۔
مفسرین نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ حضرت یو سف علیہ السلام سے کچھ قیدیوں نے کہا: ہمیں آپ سے بڑا پیار ہے توحضرت یوسف نے فرمایا: مجھ سے پیار نہ کرو، کہنے لگے: کیوں؟ فرمایا: جب بھی مجھ سے پیار ہوا تو تکلیف مجھے آئی ہے، لہذا تم مجھ سے پیار مت کرو، میری پھوپھی نے مجھ سے پیار کیا تھا تو چوری کا الزام مجھ پر لگا تھا، میرے باپ نے پیار کیا تھا تو مجھے کنویں کی قید اور غلامی اور جلا وطنی ملی ہے، زلیخا نے پیار کیا ہے تو مجھے جیل ملی، تم پیار کرو گے تو پتا نہیں کیا ملے گا؟اس لیے مجھ سے پیار کے دعوے نہ کرو، پیار تم نے کرنا ہے اور سزا مجھے ملنی ہے۔
اللہ والوں کے ساتھ بھی عجیب معاملات ہوتے ہیں!
یوسف علیہ السلام پر پھوپھی کے گھر میں چوری کا الزام:
یوسف علیہ السلام سے پیار پھوپھی نے کیا تو الزام چوری کا لگا۔ یہ چوری کا الزام کیسے لگاتھا؟ اصل میں حضرت یوسف علیہ السلام بالکل چھوٹے بچے تھے، والدہ کا انتقال ہوگیا تھا تو پھوپھی نے ان کو اپنے گھر میں رکھ لیا۔ پھوپھی کو ان سے پیار بہت زیادہ تھا۔ جب آپ کچھ بڑے ہوئے تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے کہا: میرا بیٹا واپس کر دو، میں اسے لے جاتا ہوں۔ پھوپھی کا دل نہیں کرتا تھا واپس کرنے کو۔ اس نے واپس توکردیا لیکن ایک تدبیر کی کہ اپنا دوپٹہ لیا اور حضرت یو سف علیہ السلام کی کمر سے باندھ کر قمیص پہنا کر حضرت یعقوب کے حوالے کر دیا۔
جب جانے لگے تو انہوں نے کہا کہ میں دوپٹہ تلاش کر رہی ہوں نہیں مل رہا، نوکر کے پاس دیکھا تو نہیں مل رہا، کسی اور کے پاس دیکھا تو نہیں ملا۔ بالآ خر تلاشی لینی شروع کی تو یوسف کی کمر سے بندھا ہوا ملا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کی شریعت یہ تھی کہ جو شخص چوری کرے تو چوری کے بدلے میں وہ خود غلام بنے۔ لہذا ان کی پھوپھی نے کہا: یہ میرا چور ہے، مجھے دو۔ یوں اس طریقے سے پھوپھی نے لے لیا۔ پھوپھی کا انتقال ہوا تو یوسف علیہ السلام واپس گھر آئے۔
آپ نے ان قیدیوں سے فرمایا: پھوپھی نے پیار کیا تو چوری کا الزام لگا، باپ نے پیار کیا تو غلامی ملی، زلیخا نے پیار کیا تو جیل ملی اور تم پیار کروگے تو پتا نہیں پھر کیا ملے گا؟! اس لیے ہم سے پیا ر کے دعوے مت کرو۔ یہ ظرافت کی باتیں تھیں جو یوسف علیہ السلام ان سے فرما رہے تھے۔
ساتھی قیدیوں کا خواب اور یوسف علیہ السلام کی تعبیر:
خیر حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ جیل میں قیدی تھے۔ انہوں نے یوسف علیہ السلام سے کہا کہ ہم نے خواب دیکھا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمارے خواب کی تعبیر بتائیں۔ اس پوری سورت میں چار خوابو ں کا ذکر ہے، یوسف علیہ السلام نے کہا: کیا خواب ہے؟ ان میں سے ایک شحص نے کہا کہ میرے سر پر روٹیوں کا ایک ٹوکرا ہے اور اس میں سےکچھ پرندے اٹھا کر لے جارہے ہیں اور دوسرے قیدی نے کہا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں انگور سے شراب نچوڑکر بادشاہ کو پلا رہا ہوں۔
یوسف علیہ السلام تعبیر کے امام تھے، تعبیر ایک فن ہے جو اللہ تعالیٰ ہر کسی کو نہیں دیتے اور ہر کسی کے سامنے اپنے خواب کا تذکرہ بھی نہیں کرنا چاہیے۔
بہر حال یوسف علیہ السلام نے سمجھا کہ تبلیغ کا موقع بڑا اچھا ہے، یوسف علیہ السلام نے پہلےان کو بات سمجھائی کہ ہم جیل میں آئے ہیں جیل سے تو نکل ہی جانا ہے، یہ جو تم نے بت بنا رکھے ہیں چھوڑو ان کو، اللہ کی عبادت کرو، مجھے خدا نے علم دیا ہے،خدا نے تعبیر بتائی ہے۔اس طرح ان کی ذہن سازی شروع کی۔ فر مایا: ایک خدا بہتر ہے یا ہزاروں خدا بہتر ہیں؟ یوں ان کو پوری بات سمجھائی اور توحید کی دعوت دی۔
اب یوسف علیہ السلام نے ان کو خواب کی تعبیر بتائی۔ فرمایا کہ تم میں سے ایک شحص وہ ہے جو بادشاہ کا ساقی بنےگا اور ایک وہ ہے جس کو سولی پر چڑھا دیا جائےگا۔ تعیین کرکےیہ نہیں کہا کہ تیری تعبیر یہ ہے اور تیری تعبیر یہ ہے۔نبی دل رکھتا ہے اور دل رکھنے کے لیےفرمایا۔ یہ بھی تو بتا سکتے تھےکہ جس نے کہا کہ میں انگور نچوڑ کر شراب پلا رہا ہوں یہ بادشاہ کا ساقی بنے گا اور جس کے سر سے پرندے روٹیاں اٹھا کر لےجارہے تھے اس کو سزائے موت ہوگی۔ جس کے بارے میں خیال تھا کہ یہ بچ جائے گا اس سے فرمایا: جب تم بادشاہ کےساقی بنو گے تو بادشاہ کے سامنے میرا ذکر بھی کرنا کہ ایک بے گناہ قیدی جیل میں ہے۔قرآن کہتا ہے:
﴿فَاَنۡسٰہُ الشَّیۡطٰنُ ذِکۡرَ رَبِّہٖ فَلَبِثَ فِی السِّجۡنِ بِضۡعَ سِنِیۡنَ ﴿ؕ٪۴۲﴾﴾
اس نے کہا کہ یہ میرے ذمے ہوگیا۔ جب وہ وہاں پہنچا تو بھول گیا۔اس کو یاد ہی نہیں رہاکہ میرے ساتھ جیل میں کوئی قیدی تھا جس نے مجھے کہا تھا کہ بادشاہ کے سامنے میرا تذکرہ کرنا۔ ” بِضۡعَ سِنِیۡنَ“ کا اطلاق تین سال سے لے کر سات سال تک ہوتا ہے۔
بادشاہِ مصر کا خواب:
توبعض کہتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعد سات سال تک یوسف علیہ السلام جیل میں رہے۔ ایک دن بادشاہ نے خواب دیکھاتو اپنے درباریوں سے کہا:
﴿اِنِّیۡۤ اَرٰی سَبۡعَ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ یَّاۡکُلُہُنَّ سَبۡعٌ عِجَافٌ وَّ سَبۡعَ سُنۡۢبُلٰتٍ خُضۡرٍ وَّ اُخَرَ یٰبِسٰتٍ ؕ﴾
میں نے دیکھا ہے کہ سات موٹی گائے ہیں اور سات دبلی پتلی گائےہیں، دبلی گائیوں نے موٹی گائیوں کو کھالیا ہےاور میں نے دیکھا کہ سات ہری بھری بالیاں ہیں اور سات خشک ہیں، ﴿یٰۤاَیُّہَا الۡمَلَاُ اَفۡتُوۡنِیۡ فِیۡ رُءۡیَایَ اِنۡ کُنۡتُمۡ لِلرُّءۡیَا تَعۡبُرُوۡنَ﴿۴۳﴾﴾ اس نے کہا مجھے بتاؤاس خواب کی تعبیر کیا ہے؟ اب درباری خواب کی تعبیر تو جانتے نہیں تھے۔ انہوں نے کہا:
”اَضۡغَاثُ اَحۡلَامٍ“
بادشاہ! یہ بے تکے خیالات ہیں اور ہم خیالات کی تعبیر نہیں جانتے، ہم تو صحیح خوابوں کی تعبیر بتائیں گے۔ اب پہلے صحیح خواب بتا پھر ہم تعبیر بتائیں گے۔ اب دیکھو! کیسے چکر دیا بادشاہ کو، یہ نہیں کہا کہ ہمیں پتا نہیں ہے، کیونکہ اگر یہ کہتے تو انہیں پتا تھا کہ دربار سے خارج کر دیے جائیں گے۔
تعبیر بتانے میں متکلمِ اسلام کا طرزِ عمل:
خواب کی تعبیر ایک فن ہے۔ خواب ہر کسی کو نہ بتایا کرو، جو شحص تعبیر کا ماہر ہو اسے خواب بتایا کرو۔میں نے آپ سے کئی مرتبہ کہا ہےکہ میں خواب کی تعبیر دیتا ہوں لیکن دیتا صرف ان کو ہوں جو میرا پکا مرید ہو۔لوگ سمجھتے ہیں کہ مرید بنانے کا شوق ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ مجھے مرید بنانے کا شوق نہیں، مرید بنا کر تو بندہ خود پھنس جاتا ہے کہ ان کو مرید بنا کر تربیت کون کرےگا؟ تربیت نہیں کرےگا تو قیامت کو مواخذہ ہے، ہم شرط لگاتے ہیں وگرنہ لوگ کہتےہیں کہ تعویذ دے دو، خواب کی تعبیر دے دو، پھر پورا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے․․․ ہم کہتے ہیں کہ ہم سے مسائل پوچھو، تعویذ تو بڑا آسان کام ہے، خواب کی تعبیر تو بہت آسان کام ہے۔ مسائل تم نہیں پوچھتے اور تعبیرہم نہیں بتاتے، اپنے اپنے کام پر ڈٹے رہیں! اللہ ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
بادشاہ کا خواب اور حضرت یوسف کی تعبیر:
جب بادشاہ کے دربار میں بات چلی تو اس بندے کو یاد آیا کہ یوسف نے مجھ سے کہا تھا کہ بادشاہ کے سامنے میرا ذکرکرنا۔ اس نے کہا: بادشاہ سلامت! اگراجازت ہو تو میرے ساتھ ایک صاحب جیل میں تھے، نیک بھی تھےاورخوابوں کی تعبیر بھی بتاتے تھے، ان سے جا کر پوچھوں؟ بادشاہ نے کہا: پوچھو! تو یہ جب وہاں پہنچا تو اس نے جو جملہ کہا وہ بڑا پیارا ہے، اس نے کہا: ﴿یُوۡسُفُ اَیُّہَا الصِّدِّیۡقُ﴾ میرے دوست خواب کی تعبیر تو بتا!بادشاہ نے خواب دیکھا ہے کہ سات دبلی پتلی گائے ہیں وہ سات موٹی گائیوں کو کھا رہی ہیں اورسات بالیاں ہیں جو بالکل سوکھی ہیں اورسات ہری بھری ہیں۔ جب خواب کی تعبیر پوچھی تو یو سف علیہ السلام نے فوراً کہاکہ بادشاہ کو جاکر بتاؤکہ سات سال فصل بہت اگے گی، اگلے سات سال میں قحط پڑے گا توجو تم نے سات سال میں جمع کیا ہوگا یہ سات سالہ قحط کھا جائے گا۔
بادشاہ کے خواب کی تعبیر کی وجہ:
یہ تعبیر کیوں نکالی ہے؟ذرا اس کی وجہ سمجھیں! زمین سے فصلیں اگتی ہیں، جب بیل کنویں کو چلائیں تو پانی نکلتا ہے، وہ فصل کو لگتا ہے تو اچھی گائے یہ اشارہ ہے اچھی فصل کی طرف اور یہ جو تھا دبلی پتلی گائے تو یہ اشارہ ہےقحط سالی کی طرف، کہا کہ پہلے سات سال ہری بھری فصلیں ہوں گی، پھر سات سال میں قحط پڑے گا۔قحط سے اگر بچنا ہے تو کسانو ں سے کہو کہ جتنا ان کے پاس غلہ ہے ان کو بالیوں میں ہی رہنے دیں، ضرورت سے زائد نہ نکالیں۔ ہر سال پانچواں حصہ رکھتے جائیں، جب قحط شروع ہوگاتو جمع شدہ غلہ تمہارےکام آئےگا۔
جو سرکار ہے وہ دیہاتوں سے غلہ خریدے، بقدر ضرورت خرچ کرنا، باقی سارا خزانے میں جمع کر لینا،اگلے سال تمہارے کام آئےگا۔ تو جب سات سال کا قحط ختم ہوگاتو اگلا تم نے خواب نہیں دیکھا۔ میں ایک چیز اور بتاتا ہوں کہ اس کے ایک سال بعدپھر بارشیں خوب ہوں گی، فصل بہت ہوگی۔ یوں پچھلی قحط سالی کا جتنا تمہارا نقصان ہوگا وہ ایک سال میں سارا پورا ہو جائےگا۔ یہ اللہ کے نبی ہیں جنہوں نے خواب کی تعبیر بھی بتائی اوراضافی بشارت بھی سنائی ہے۔
اب بات سمجھنا! بادشاہ نے کہا: یہ تو بڑا نیک آدمی ہے،اس کو جیل سے نکال لاؤ تاکہ ہم اپنے کانوں سے ذرا خواب کی تعبیر سنیں۔ جب لینے کے لیے بادشاہ کا قاصد پہنچاتو یوسف علیہ السلام نے فرمایا:
﴿ارۡجِعۡ اِلٰی رَبِّکَ﴾
بادشاہ کے پاس واپس جاؤ، اس سے پوچھو:
﴿مَا بَالُ النِّسۡوَۃِ الّٰتِیۡ قَطَّعۡنَ اَیۡدِیَہُنَّ﴾
کہ ان عورتوں نے ہاتھ کیوں کاٹے؟ پہلے یہ تحقیق کرو، پھر میں باہر نکلتا ہوں۔ دیکھیں! اللہ کے نبی کیسے کھڑے ہیں! یہ قیدی وہ ہے جو جیل کاٹ رہا ہے، قیدی بھی نیک تھا لیکن بد نام ہوکر گیا تھا۔ اب باہر آنا ہے تو صفائی کے بغیر باہر نہیں آنا۔حضرت یوسف فرمانے لگے:
﴿اِنَّ رَبِّیۡ بِکَیۡدِہِنَّ عَلِیۡمٌ ﴿۵۰﴾﴾
کہ میرا رب تو جانتا ہی ہے، لیکن ذرا تحقیق کرو۔
بادشاہ سے یہ نہیں کہا کہ عزیزِ مصر کی بیوی نے مجھ پر الزام لگایا ہے، مجھے ناحق جیل میں رکھا ہے، نہیں بلکہ اس کی بیوی کا نام ہی نہیں لیا۔ فرمایا کہ جن عورتوں نے ہاتھ کاٹے ہیں ان سے پوچھو کہ ہاتھ کیوں کاٹے ہیں؟عزیزِ مصر کا پھر بھی خیال کیا ہے،پھر بھی اس کی ستر پوشی کی ہے۔
بادشاہ نے ان عورتوں کو بلایا اور کہا:
﴿مَا خَطۡبُکُنَّ اِذۡ رَاوَدۡتُّنَّ یُوۡسُفَ عَنۡ نَّفۡسِہٖ﴾
تمہارا کیا قصہ ہے جب تم نے یوسف کو ورغلانے کی کوشش کی تھی؟ تم نے کیوں ایسا ڈرامہ رچایا؟ان سب نے کہا:
﴿حَاشَ لِلہِ مَا عَلِمۡنَا عَلَیۡہِ مِنۡ سُوۡٓءٍ﴾
اللہ کی پناہ! یوسف تو نیک آدمی ہے، اس میں کوئی گناہ نہیں تھا۔ عزیز مصر کی بیوی نے کہا:
﴿الۡـٰٔنَ حَصۡحَصَ الۡحَقُّ ۫ اَنَا رَاوَدۡتُّہٗ عَنۡ نَّفۡسِہٖ وَ اِنَّہٗ لَمِنَ الصّٰدِقِیۡنَ﴾
اب تو حق واضح ہوگیا، میں کہتی ہوں کہ قصور میرا ہے وہ سچا ہے۔
اب یوسف علیہ السلام باہر آئے، بتاؤ! کتنے پروٹوکول اور اعزازسے آئے ہوں گے!
مفسرین کہتے ہیں: عجیب بات یہ ہے کہ خود بندے سے کہا کہ جاؤبادشاہ سے تذکرہ کرو، وہ بندہ بھول گیا، کیوں بھولا؟ اس کی وجہ سمجھیں: اللہ اپنے نبی کو کسی کا ممنون نہیں بناتے، اللہ اپنے نبی کو کسی کا زیر ِ احسان نہیں ہونے دیتے،اگر وہ تذکرہ کردیتا توبادشاہ رحم کرکے نیک سمجھ کر چھوڑ دیتا، الزام تو رہتالیکن خدا نے اسے بھلا دیا۔ ایسا سبب پیدا کیاکہ نبی اپنی ترتیب سے باہر آیا ہے۔
اگر میں یوسف کی جگہ ہوتا ․․․ کا مطلب:
اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑا پیارا جملہ ارشاد فرمایا کہ اگر اس موقع پر میں ہوتا ”
لَمَا أَخْبَرْتُهُمْ حَتّٰى اَشْتَرِطَ أَنْ يُّخْرِجُوْنِيْ“
تو میں شرط لگاتا کہ تعبیر بعد میں بتاؤں گا پہلے مجھے جیل سے نکالو! اور دوسرا
”وَلَوْ كُنْتُ مَكَانَهٗ لَبَادَرْتُهُمُ الْبَابَ“
کہ اگر میں ان کی جگہ ہوتا تو میں فوراً جیل سے نکل جاتا۔
الجامع لاحکام القرآن للقرطبی: ج1 ص1641
اب اس پر بندہ کے ذہن میں ایک سوال آتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یوسف علیہ السلام حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ صبر والے ہیں؟
مفسرین نے اس کا بڑا پیارا جواب دیا ہے، فرماتے ہیں: اصل میں اللہ کے نبی یہ نہیں کہنا چاہتے کہ میں کرتا بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم امت کو ترتیب بتانا چاہتے ہیں کہ یہ یوسف علیہ السلام کا جگر تھا جو ڈٹ گئے، جب تمہارے ساتھ یہ معاملہ ہوتو شرطیں نہ لگانا، بلکہ رہائی کے اسباب تلاش کرنا، بادشاہوں کے موڈ کا پتا نہیں چلتا اور یوسف علیہ السلام تو نبی تھے، ان کا مقام بہت بڑا تھا اور یوسف علیہ السلام نبی تھے تو ممکن ہے کہ بذریعہ وحی خدا نے انہیں بتادیاہوکہ اب صفائی کا موقع ہے، صفائی کے ساتھ باہر آنا ہے تو اس لیے یوسف علیہ السلام صفائی کے بعد جیل سے باہرنکلے ہیں۔
یوسف علیہ السلام کی براءت اور تواضع:
﴿وَ مَاۤ اُبَرِّیُٔ نَفۡسِیۡ ۚ اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیۡ ؕ اِنَّ رَبِّیۡ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۵۳﴾﴾
یوسف علیہ السلام نے جیل سے نکلنے سے پہلے اپنی براءت کا اظہار زیادہ ضروری سمجھا، شاہِ مصر نے ان عورتو ں کو جمع کیا، ان سے ساری بات پوچھی۔ اسے پتا چلا کہ یوسف علیہ السلام تو با لکل بے گناہ ہیں ۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے ادھر قاصد کو پیغام دیا اور ساتھ یہ فرمایا:
﴿وَ مَاۤ اُبَرِّیُٔ نَفۡسِیۡ ۚ اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیۡ﴾
اب اس میں پاکدامنی کا دعویٰ بھی تو تھا کہ یوسف علیہ السلام نے خودکو پاک دامن فر مایا ہے تو ساتھ ہی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ایک جملہ ارشاد فرمایا کر پاکدامنی کے ساتھ تواضع کا اظہا ر بھی کر دیا۔ فرمانے لگے کہ اگرچہ میں اس معاملے میں بے گنا ہ ہوں لیکن میرا یہ بے گناہ ہونا میراکمال نہیں ہے، یہ میرے اللہ کا فضل ہے۔ کیونکہ ہر انسان کا نفس گناہ کا حکم دیتا ہے مگر اللہ کرم فرمائے تو انسان گناہوں سے بچ جاتاہے۔
نفس کی تین اقسام:
علماء نے لکھا ہے کہ نفسِ انسانی اپنی ذات کے اعتبا ر سے ہمیشہ گناہوں کا حکم دیتا ہے، اس کو کہتے ہیں؛ نفس امارہ بالسوء کہ گناہ کا حکم دینے والا، لیکن جب انسان اپنے نفس کے گناہوں کے تقاضے پر عمل نہ کرے تو یہی نفس؛ امارۃ سے نکل کر نفس لوامۃ بنتا ہے یعنی برے کاموں پر ملامت کرنے والا اور اس کے تقاضے پورے نہ کرنے والااور قرآن کریم نے نفس لوامۃ کو اعزاز یہ بخشا کہ اللہ نے نفس لوامۃ کی قسم اٹھائی ہے۔ فرمایا:
﴿لَاۤ اُقۡسِمُ بِیَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ۙ﴿۱﴾ وَ لَاۤ اُقۡسِمُ بِالنَّفۡسِ اللَّوَّامَۃِ ؕ﴿۲﴾﴾
القیامۃ75: 2
اور جب انسان گناہوں کے تقاضے مسلسل دبائے اور گناہوں کے تقاضے پر بالکل عمل نہ کرے تو یہی نفس؛ لوامہ سے نکل کر نفسِ مطمئنہ بنتا ہے۔ ارشاد فرمایا:
﴿یٰۤاَیَّتُہَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّۃُ ﴿٭ۖ۲۷﴾ ارۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً ﴿ۚ۲۸﴾﴾
الفجر89: 27، 28
تو پہلے نفسِ امارہ یعنی گناہوں کا حکم دینے والا، پھر نفس لوامہ یعنی گناہوں پر ملامت کرنے والا اور پھر نفسِ مطمئنہ۔
حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے معارف القرآن میں بڑا عجیب نکتہ لکھا ہے،فرماتے ہیں کہ عام آدمی کا نفس امارہ ہوتا ہے، صالحین کا نفس لوامہ ہوتا ہے اور مسلسل محنت کے بعد جب نفس میں برے کاموں کا تقاضا ہی نہ رہے تو یہ نفس مطمئنہ بن جاتا ہے۔ صلحائے امت کا نفس مطمئنہ بنتا ہے لیکن مسلسل مجاہدات اور ریاضات کے بعد ،مگر نبی کو یہ مقام بغیر کسی محنت اور مشقت کے محض اللہ کے فضل و کرم سے حاصل ہو جاتا ہے۔ تو گویا عام آدمی کے نفس کا آخری درجہ ہے نفس مطمئنہ لیکن نبی کے نفس کا آغاز ہی نفس مطمئنہ سے ہوتا ہے۔ آپ بتا ئیں کہ نبی کس مقام پر فائز ہوتا ہے؟ انسان سوچ بھی نہیں سکتا!
تو یوسف علیہ السلام نے صفائی بھی دی ہے اور ساتھ تواضع کا اظہار بھی فرمایا ہے اور یہ طریقہ ہمارے اکابر علماء دیوبند کا بھی ہے۔
حضرت نانوتوی کا ہندو پنڈت سے مناظرہ اور تواضع:
حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ دارالعلوم دیوبند کے بانی ہیں۔ حضرت کا ایک ہندو سےمناظرہ تھا۔ مناظرے کے لیے اعلان کیا گیا۔ حضرت نانوتوی رحمہ اللہ تشریف لے آئے توحضرت نے ہندو مناظر پنڈت سے کہا: پہلے گفتگو آپ کریں۔ ہندو نے کہا کہ پہلے گفتگو آپ کریں، آپ بڑے ہیں، آپ بزرگ ہیں۔ مولانا فرمانے لگے کہ بہتر ہے کہ آپ کر لیں۔ اس نے کہا: حضرت! آپ فرمائیں، ہم آپ کو اعزاز دیناچاہتے ہیں۔ مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ فرمانے لگے کہ اس نبی کا امتی ہوں جو خاتم النبیین ہیں، تو میرا موقع بعد میں ہے مجھے بعد میں کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا حضرت! آپ شفقت فرمائیں، آپ پہلے کرلیں۔
مولانافرمانے لگے: چلو! میں تمہاری مان کر کچھ پہلے کرتا ہوں اور کچھ بعد میں کروں گا، کیونکہ میں اس نبی کا امتی ہوجو نبی اول بھی ہیں اور نبی آخر بھی ہیں، اس لیے میری باری پہلے بھی ہے اور بعد میں بھی ہے۔ اس ہندو پنڈت نے کہا کہ حضرت! ہم دلائل کی بات نہیں کرتے آپ کی منت کرتے ہیں، آپ بڑے ہیں، آپ پہلے گفتگو فرمائیں۔ مولانا نانوتوی فرمانے لگے: اگر میں نےگفتگو کی تو میرے بعد تم گفتگو کر نہیں سکوگے، میری گفتگو اول بھی ہوگی اور آخر بھی ہوگی، اس لیے میں موقع دیتا ہوں کہ گفتگو پہلے کر لو۔ انہو ں نے پھر اصرار کیا تو مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ نے تین گھنٹے کی گفتگو کی اور اللہ کے وجود کو ثابت کرکے ان کے معبودوں کی نفی کی۔
مولانا کے بیان کے بعد ثالث نے اعلان کیا تو کوئی ہندو پنڈت بیان کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوا۔ جو انہوں نے شبہات پیدا کرنے تھے مولانا نے ان تمام شبہات کا جواب پہلے دے دیا تھا، ان کی کوئی دلیل بچی ہی نہیں تھی۔ تو ہندو پنڈت جو ثالث تھا اس نے فیصلہ دیا، اس نے کہا کہ آج قاسم نانوتوی انسان نہیں بول رہا تھا بلکہ لگتا تھا کہ انسان کی زبان پر الہام کا فرشتہ بول رہا ہے۔ مولانا قاسم نانوتوی جیت گئے۔
جو میں واقعہ اصل میں سنانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ایک شحص مولانا قاسم نانوتوی کے پاس آیا، اس نے ایک عجیب حملہ کیا، اس نے کہا: مولانا قاسم نانوتوی! مسلمان آپ کی قدر نہیں کرتے، اگر آپ ہندؤوں میں ہوتے تو دہلی کے ایک ایک چوک پر آپ کا بت بنا کر پوجا جاتا۔ آپ بتائیں! کتنا بڑا حملہ تھا؟ اگر ہم ہوتے تو ہم نے فوراً کہنا تھا بالکل بات ٹھیک ہے، سرگودھا کے لوگ میری قدر نہیں کرتے، مجھے سمجھ ہی نہیں سکے۔
مولاناقاسم نانوتوی کہنے لگے: بالکل ٹھیک کہتے ہو، اگر میں تمہارے اندر ہوتا تو تم بت بناکر پوجتے کیونکہ تمہاری مجبوری ہے کہ تمہارے اندر قاسم ہوتا جو کوئی نہیں ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے مسلمانو ں میں اتنے قاسم ہیں کہ یہ کس کس کی پوجا کریں گے؟! اب دیکھو اتنا بڑا آدمی تھا اور تواضع میں ساری بات کو ختم کردیا۔
یوسف علیہ السلام کی بادشاہ کے دربار میں آمد:
حضرت یوسف علیہ السلام پاکدامن بھی ہیں اور ساتھ تواضع فرماکر عاجزی کا اظہار بھی کر دیا تاکہ اس پر نفس خوش نہ ہو کہ اپنی پاکدامنی کے دعوے کیے جارہے ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا معاملہ صاف ہوا تو بادشاہ نے کہا کہ ان کو میرے پاس لے آؤ، ہم ان کو اپنا خاص بندہ بنا کر رکھتے ہیں۔
روایات میں ہے کہ یوسف علیہ السلام کے ساتھ بادشاہ مصر جس زبان میں بات کرتا آپ اسی زبان میں جواب دیتے۔ جتنی زبانیں وہ جانتا تھا وہ بات کرتا رہا اور آپ جوا ب دیتے رہے۔ یوسف علیہ السلام نے دو زبانیں اضافی استعمال کیں، عربی زبان میں اس کو سلام کیا اور عبرانی زبان میں اس کو دعائیں دیں تو یہ بادشاہ کے سامنے ان کی فوقیت کا معاملہ تھا کہ آپ دو زبانیں وہ جانتے ہیں جو بادشاہ بھی نہیں جانتا۔ تو بادشاہ کے ذہن میں آیا کہ یہ صرف نیک ہی نہیں بلکہ عالم بھی ہے، صرف پاکدامن ہی نہیں بلکہ بہت بڑا عالم بھی ہے۔ تو بادشاہ بڑا متاثر ہوا۔اس نے کہا کہ میں نے خواب دیکھا ہے اور میری خواہش ہے کہ اس کی تعبیر آپ بتائیں، میں اپنے کانوں سے سنوں۔
تو باد نے کہا: میرا جی چاہتا ہے کہ میں خود سنوں۔ یوسف علیہ السلام نے کہا کہ آپ کے خواب کی تعبیر یہ ہے کہ سات سال خوب پیداوار ہوگی اور پھر سات سال خوب قحط ہوگا، آپ ایسا کریں کہ اپنی رعایا کو حکم دیں کہ خوب محنت کریں اور پیداوار خوب اگائیں، جتنی پیداوار ہو اس کے چار حصے استعمال کریں اور پانچواں حصہ اپنے پاس رکھ لیں اور وہ جو پانچواں حصہ ہے وہ گندم کے خوشے میں ہی رہنے دیں، اس سے گندم خراب نہیں ہوتی اور سات سال کے بعد جب قحط شروع ہو گا تو آپ کے خزانے میں تو ویسے ہی گندم جمع ہوگی او ر عوام کے پاس بھی ہوگی۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ عوام کو حکومت سے گندم لینےکی ضرورت نہیں پڑے گی۔
اب جو حکومت کے پاس گندم اور غلہ ہوگا ، باہر کے جو تاجر اور مساکین آئیں گے یہ ان کو مل جائےگا۔ حکومت کا کام بھی چلے گا اور عوام پہلے سے خوشحال ہوگی۔ عوام حکومت کی محتاج نہیں ہوگی اور باہر سے لوگ جب آپ سے گندم لینے کے لیے آئیں گے، غلہ آپ ان کو بیچیں گے تو حکومت کے خزانے میں اتنے پیسے جمع ہوں گے جتنے پہلے کبھی بھی جمع نہیں ہوئے ہوں گے۔ بادشاہ حیران ہوگیا کہ اس بندے نے خواب کی تعبیر بھی بتا ئی ہے اور تعبیر کے سا تھ تدبیر بھی بتا ئی ہے۔ نبی کا معاملہ بہت بلند ہوتا ہے۔ جتنا شفیق نبی ہوتا ہے امت کے ساتھ اتنی شفقت تو ماں بھی نہیں سوچ سکتی اپنی اولاد کے ساتھ۔
یوسف علیہ السلام وزیرِ خزانہ کے منصب پر:
بادشاہ نے یوسف علیہ السلام کو اپناخاص بندہ بنالیا اور ایک سال تک ان کو اپنا شاہی مہمان بناکر ر کھا اور ایک سال کے بعد ان کو وزیر خزانہ بنایا۔ ایک سال تک شاہی مہمان کیوں بنایا؟ مفسرین کہتے ہیں کہ اس کا خیال یہ تھا یہ عالم بھی بہت بڑا ہے اور نیک بھی بہت زیادہ ہے لیکن ابھی شاہی آداب سے واقف نہیں ہے، اس کو ذرا حکومت کے معاملات میں دخیل بھی کر دیں اور میں قریب رہ کر ان کو سال میں دیکھ بھی لوں تاکہ آئندہ منصب دو ں تو مجھے دھوکہ نہ لگے۔
حضرت یوسف علیہ السلام سے جب بادشاہ نے مشورہ کیا کہ ساری بات مجھے سمجھ آگئی ہے۔ اب ہمیں کرنا کیاچاہیے، آپ اس کا حل بتائیں، اس کے لیے انتظام کیسے کریں؟ تو یوسف علیہ السلام نے فرمایا:
﴿اجۡعَلۡنِیۡ عَلٰی خَزَآئِنِ الۡاَرۡضِ ۚ اِنِّیۡ حَفِیۡظٌ عَلِیۡمٌ ﴿۵۵﴾﴾
آپ مجھے وزیر خزانہ بنادیں، یہ کام میں سنبھال لوں گا۔ آج کے دور کا میں ترجمہ کر رہا ہوں کہ مجھے وزیر خزانہ بنادیں، کیوں؟ اس لیے کہ وزیر خزانہ میں دوصفتیں ضروری ہوتی ہیں:
1: وہ امانت دار ہو، بد دیانت نہ ہو۔
2: وہ یہ جانتا ہو کہ کہاں خرچ کر نا ہے اور کہاں خرچ نہیں کرنا اور کتنا کر نا ہے اور کتنا نہیں کرنا۔ فرمایا: ﴿اِنِّیۡ حَفِیۡظٌ عَلِیۡمٌ﴾ کہ میں حفیظ بھی ہوں اور علیم بھی ہوں، میں حفاظت بھی کرنا جانتاہوں اور مجھے یہ بھی پتا ہے کہ کہاں خرچ کر نا ہے!
عہدہ مانگنا کب جائز اور کب ناجائز؟
وزیر کی ساری صفات یوسف علیہ السلام نے دو لفظوں میں سمیٹ دی ہیں۔ اس پر بظاہر ایک اشکال ہے۔ کوئی بندہ یہ سمجھے گا کہ یوسف علیہ السلام العیاذ باللہ خود وزارت مانگ رہے ہیں حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"لَنْ نَسْتَعْمِلَ عَلٰى عَمَلِنَا مَنْ أَرَادَهُ."
سنن ابی داؤد، رقم:3579
کہ جو بندہ ہم سے کوئی عہدہ مانگے تو ہم اس کو نہیں دیتے۔
تو حدیث سے ثابت ہوا کہ عہدہ مانگنا اچھا کام نہیں ہے، نہیں مانگنا چاہیے لیکن یوسف علیہ السلام تو مانگ رہے ہیں۔مفسرین نے اس کی وجہ بتائی ہے کہ یوسف علیہ السلام اللہ کے نبی تھے اور نبی امت پر بہت شفیق ہوتے ہیں۔ یوسف علیہ السلام دیکھ رہے تھے کہ قحط آنا ہے، غریب نے پریشان ہونا ہے، بادشاہ بھی کافر ہے، عملہ بھی کافر ہے، ان کے دل میں امت کا دکھ اور درد نہیں ہے۔ اگر اس موقع پر آگے بڑھ کر میں نے یہ کام نہ سنبھالا تو ان لوگوں سے کام سنبھلے گا نہیں، اس لیے اپنے کندھوں پر بوجھ اٹھالیا تاکہ غریب کی پریشانی ختم ہوجائے۔
اس سے معلوم ہوا کہ ایسے موقع پر اگر کوئی عالم سیاست میں آجائے تو اس کو آنا چاہیے، پیچھے نہیں رہنا چاہیئے۔ آپ کہیں گے کہ شاید مولانا صاحب اپنے لیے فضا ہموار کر رہے ہیں! ارے بھائی! فضا سازگارکوئی دس بندوں میں تو نہیں کرتا، دس ہزار بندوں میں کرتا ہے، میں تو مسئلہ اس لیے سمجھا رہاہوں کہ جب بندہ خود کو اہل سمجھے اور اس کا خیا ل ہو کہ میں کنٹرول کر سکتا ہوں تو اس کو اللہ کا نام لے کر میدان میں نکل آنا چاہیے، پھر لوگوں کی باتوں کی پروا نہیں کرنی چاہیے۔
قحط اور یوسف علیہ السلام کی تدبیر:
سارا نظام حضرت یوسف علیہ السلام کے حوالے کردیا گیا۔ قرآن کا اسلوب ہے کہ پورا واقعہ بیان نہیں کرتا بلکہ جس واقعہ کی ضرورت ہوتی ہے اس کو بیا ن کرتاہے۔ اب وزیر خزانہ بنادیا گیا۔ پیداوار اگ گئی بعد میں قحط شروع ہوگیا۔ یہ بتا نے کی ضرورت ہی نہیں تھی اس لیے اب قرآن کریم نے سیدھا واقعہ بیان کیا ہے کہ قحط مصر سے نکلا اور باہر تک چلا گیا۔ اب حضرت یوسف علیہ السلام کے والد حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو بھیجا کہ تم بھی مصر جا ؤ اور جاکر سامان لے آؤ۔ اس دور میں حضرت یوسف علیہ السلام نے اصول یہ بنایا تھا کہ جو آدمی آئے گا اس کے پاس جو سواری ہوگی اس کے حصے کا غلہ اس کو لاد کر دیں گے، دوسرے بندے کے حصے کا غلہ اس کو نہیں دیں گے۔ ایک بندے کو ایک کا سامان دیں گے۔ ظاہر ہے کہ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ لوگ تھوڑا تھوڑا لے کر جائیں گے، زیادہ نہیں لے کر جائیں گے، جب ختم ہوجائے پھر آؤ، پھر ختم ہوجائے تو پھرآؤ، اب جوشحص اتنا لمبا سفر کرکے آئے گا اور غلہ تھوڑاملے گا تو وہ حساب کے ساتھ خرچ کرے گا کہ دوبارہ جانا بڑا مشکل ہے اور اگر ایک ایک بندے کو دس دس بندوں کا غلہ دے دیں گے تو لوگ جاکر ضائع کر نا شروع کر دیں گے۔
برادرانِ یوسف دربارِ یوسف میں:
تو یوسف علیہ السلام کے بھائی بھی آئے اور ان کے بھائیوں نے آکر بھی اپنا اپنا حصہ وصول کیا۔ یوسف علیہ السلام نے ان کو پہچان لیا کہ میرے بھائی ہیں لیکن وہ نہیں پہچان سکے کیونکہ جب یوسف علیہ السلام کو کنویں میں پھینکا تھا تو ان کی عمر سات سال تھی اور اب اس واقعے کو چالیس سال ہوگئے ہیں۔ ان کی عمر سینتا لیس سال ہے تو وہ کیسے پہچانتے؟ جب یہ بھائی واپس جانے لگے تو یوسف علیہ السلام نے ان کے بھا ئیوں کا جتنا پیسہ تھا وہ سارا ایک بوری میں ڈال کر واپس کر دیا اور ان سے پوچھا کہ تمہارے بھائی کتنے ہیں؟ انہوں نے کہا: جی ہمارے اتنے بھائی ہیں، ایک ہمارا چھوٹا بھائی ہے جو ہمارے والد کے پاس ہے۔ تو یوسف علیہ السلام نے کہا کہ آئندہ آؤ تو اس کو بھی لے کر آنا، اگر تم نہیں لے کر آئے تو میں تمہیں تمہارے حصے کامال نہیں دوں گا۔
یہ شرط کیوں لگائی؟ اس لیے کہ وہ کہہ رہے تھے کہ ہمارا ایک بھائی ہے۔ اب آئندہ اگر اس بھائی کو نہیں لاتے تو اس کا مطلب کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ اب ان کو مجبوراً اپنا بھائی ساتھ لانا پڑے گا یہ بتانے کے لیے کہ ہمارا ایک بھا ئی تھا جس کو ہم ساتھ لے کر آگئے ہیں۔ یوسف علیہ السلام نے ان کے ساما ن میں ان کے سارے پیسے بھی رکھ دیے۔ جب یہ واپس گئے تو انہوں نے حضرت یعقوب علیہ السلام کو ساراواقعہ سنا دیا کہ انہوں نے ہم سے پوچھا تھا تو ہم نے ایک بھائی اور بھی بتایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ اس بھائی کو لاؤ گے تو ہم غلہ دیں گے ور نہ غلہ نہیں دیں گے۔
یوسف علیہ السلام نے بھائیوں کے پیسے کیوں واپس کیے؟
﴿وَ لَمَّا فَتَحُوۡا مَتَاعَہُمۡ وَجَدُوۡا بِضَاعَتَہُمۡ رُدَّتۡ اِلَیۡہِمۡ﴾
جب انہوں نے اپنا سامان کھولاتو اندر ان کے پیسے سارے موجود تھے۔ انہوں نے کہا: ابا جی! ہمیں اناج بھی دیا گیا ہے اور پیسے بھی سارے آگئے۔ اور ہمیں کیا چاہیے؟
یوسف علیہ السلام نے یہ پیسے ان کے سامان میں کیو ں رکھے تھے؟ مفسرین نے اس کی کئی وجوہات لکھی ہیں۔ ایک وجہ تو یہ لکھی ہے کہ وہ ان کے بھائی تھے اور یوسف علیہ السلام کی مروت نے گوارا نہ کیا کہ اپنے بھائیوں سے پیسے لے کر ان کو سامان دیا جائے۔ اگرچہ بھائیوں نے ظلم کیا تھا لیکن پھر بھی بھائی ہی تھے۔ تو یوسف علیہ السلام کی غیرت نے گوارا نہیں کیا۔ اس لیے آپ علیہ السلام نے ان کو پیسے واپس کر دیے اور عین ممکن ہے کہ آپ نے اتنے پیسے خزانے میں جمع کروادیے ہوں۔
دوسری وجہ مفسرین نے یہ لکھی ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے پیسے واپس کردیے اس لیے کہ ان کے ذہن میں تھا کہ یہ لوگ غریب ہیں، جب ان کے پاس پیسے نہیں ہوں گے تو یہ دوبارہ کیسے آئیں گے؟ اس لیے پیسے رکھ دیے تاکہ یہ دوبارہ آئیں۔
اور تیسری وجہ یہ لکھی ہے کہ یوسف علیہ السلام سمجھتے تھے کہ میرے والد حضرت یعقوب نبی ہیں۔ جب یہ پیسے دیکھیں گے تو کہیں گے کہ جاؤ! یہ پیسے واپس کر کے آؤ، وہ ان کو رہنے نہیں دیں گے، ان کو ضرور بھیجیں گے۔ اس لیے یوسف علیہ السلام نے پیسے سامان میں رکھ دیے۔
بنیامین کو لے جانے کے لیے بھائیوں کا اصرار:
جب بیٹوں نے باپ کےسامنے ساری بات رکھ دی اور کہا کہ اس بھائی بنیامین کو بھی ہمارے ساتھ بھیج دیں تو والد نے کہا: بیٹا! مجھے بتاؤ!
﴿ہَلۡ اٰمَنُکُمۡ عَلَیۡہِ اِلَّا کَمَاۤ اَمِنۡتُکُمۡ عَلٰۤی اَخِیۡہِ مِنۡ قَبۡلُ﴾
پہلے میں نے یوسف کے بارے میں تم پر اعتماد کیاتو اس کو کھو بیٹھا، اب یہ چھوٹا بھی تمہیں دے کر اسے بھی ضائع کر بیٹھوں؟ میں کیسے تمہا رے ساتھ بھیج سکتا ہوں؟ مجھے بتاؤ! یہ ان کی باتیں چل رہی تھیں بعد میں سامان کھولا تو اس میں سے پیسے بھی نکلے۔ تو انہوں نے والد کو تر غیب دی کہ اباجان! سامان تھوڑا ہے، گزارہ نہیں ہوگا۔ ہم دوبارہ جاکر اور لے کر آئیں، سال گزارنا مشکل ہوگا۔ والد نے کہا کہ چلو میں بھیج دیتا ہوں لیکن ایک شرط ہے:
﴿لَنۡ اُرۡسِلَہٗ مَعَکُمۡ حَتّٰی تُؤۡتُوۡنِ مَوۡثِقًا مِّنَ اللہِ لَتَاۡتُنَّنِیۡ بِہٖۤ اِلَّاۤ اَنۡ یُّحَاطَ بِکُمۡ﴾
تم قسم کھا کر وعدہ کرو کہ تم اس کو واپس لےکر آؤ گے، اللہ کی طرف سے کوئی مصیبت آجائے تو الگ بات ہے لیکن تم وعدہ کرو کہ تم کوتاہی نہیں کروگے۔
اب ظاہر ہے والد کے دل میں پہلے یوسف علیہ السلا م کا صدمہ موجود ہے، اب چھوٹا بیٹا بھیجنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ جب انہوں نے قسم اٹھاکر وعدہ کرلیا تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے سارے بیٹے بھجوا دیے۔ جب بیٹے جانے لگے تو ایک مشورہ دیا اور ایک تدبیر دی۔ فرمانے لگے: میرے بیٹو!
یعقوب علیہ السلام کی تدبیر:
﴿یٰبَنِیَّ لَا تَدۡخُلُوۡا مِنۡۢ بَابٍ وَّاحِدٍ وَّ ادۡخُلُوۡا مِنۡ اَبۡوَابٍ مُّتَفَرِّقَۃٍ﴾
تم مصر کے ایک ہی دروازے سے سارے اکٹھے نہ داخل ہو جانا بلکہ تم الگ الگ دروازے سے شہر میں دا خل ہونا۔
مفسرین نے لکھا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے یہ بات کیوں فرمائی ہے؟ وجہ اس کی یہ تھی کہ جب یہ پہلی مرتبہ گئے تو اجنبی تھے، ان کو کوئی پہچانتا نہیں تھا، وہاں شاہی مہمان خانے میں ان کو ٹھہرایا گیا تھا، ان کو عزت بھی دی گئی تھی، اب جب واپس آئے ہیں تو ان کا ساما ن بھی واپس ہو گیا ہے، اب جب دوبارہ جارہے ہیں اور بادشاہ کے کہنے پر جا رہے ہیں تو اب لوگ تو ان کو جانتے ہیں کہ یہ بندے خاص ہیں، اب بندے خاص بھی ہوں اور نوجوان بھی ہوں اور تعداد بھی کافی ہے، سارے بھا ئی ہیں تو ہر بندے کی نظر پڑتی ہیں تو حضرت یعقوب علیہ السلام سمجھتے تھے کہ ایسا نہ ہو کہ لوگ ان کو دیکھ لیں اور نظر لگ جائے۔ اس لیے فرمایا کہ اکٹھے نہ جانا، الگ الگ دروازے سے داخل ہونا۔
نظر بد کا لگ جانا برحق ہے:
اس آیت کے تحت مفسرین نے لکھا ہے کہ نظر لگ جاتی ہے اور نظر کالگ جانا برحق ہے، اس لیے انسان کو اس کا بہت خیا ل رکھنا چاہیے۔ اس کے تحت ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک صحابی تھے سہل بن حُنیف رضی اللہ عنہ۔ ایک بات کپڑے اتارے اور غسل کرنے لگے۔ جسم کا اوپرکا حصہ نظر آرہا تھا تو عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ صحابی نے دیکھا تو ان کا جسم بہت خوبصورت اور سفید تھا، فرمایا: کتنا خوب صورت جسم ہے، میں نے زندگی میں اتنا خوب صورت جسم کبھی دیکھا ہی نہیں ہے۔ یہ کہنا تھا کہ حضرت سہل کو بہت سخت بخار ہو گیا۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس واقعہ کی خبر ہوئی تو آپ نے عامر بن ربیعہ سے بڑا عجیب جملہ فرمایا:
عَلَامَ يَقْتُلُ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ، أَلَّا بَرَّكْتَ إِنَّ الْعَيْنَ حَقٌّ.
تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو قتل کیوں کرتا ہے؟ تو نے بارک اللہ کیوں نہیں کہا، مبارک کیوں نہیں کہا،ماشاء اللہ کیوں نہیں کہا؟ اللہ کے نبی نے فرمایا: نظر لگ جاتی ہے، نظر حق ہے۔ پھر حضرت عامر بن ربیعہ سے فرمایا کہ تم وضو کرو۔ انہوں نے وضو کیا، وضو کا سارا پانی جمع کیا، وہ جمع شدہ پانی حضرت سہل بن حُنیف پر پھینکا تو نظر اتر گئی اور بخار ٹھیک ہو گیا۔
مؤطا امام مالک، رقم:3459
اس لیے نظر سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ ایسے آدمی کو دیکھیں کہ جو بہت خوبصورت ہے تو کہیں ما شاء اللہ! کسی کا بچہ دیکھیں تو کہیں: ما شاء اللہ، مبارک ہو، اس سے پھر نظر نہیں لگتی ہے۔
تدبیر اور توحید ساتھ ساتھ:
تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے کہا کہ ایک دروازے سے داخل نہیں ہونا الگ الگ دروازے سے جانا ہے اور ساتھ ایک جملہ فرمایا:
﴿وَ مَاۤ اُغۡنِیۡ عَنۡکُمۡ مِّنَ اللہِ مِنۡ شَیۡءٍ ؕ اِنِ الۡحُکۡمُ اِلَّا لِلہِ ؕ عَلَیۡہِ تَوَکَّلۡتُ ۚ وَ عَلَیۡہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُتَوَکِّلُوۡنَ ﴿۶۷﴾﴾
یہ ایک تدبیر ہے جو میں نے بتادی ہے، باقی اگر اللہ نے کسی مصیبت کا فیصلہ کر دیا ہے تو اس کو میری تدبیر بھی نہیں ٹال سکتی۔
نبی تدبیر بھی بتارہے ہیں اور توحید بھی بتا رہے ہیں۔ بعض لوگ موحد بنتے ہیں تو تدبیر چھوڑدیتے ہیں اور بعض لوگ تدبیریں اختیار کرتے ہیں تو اللہ کی توحید کو بھول جاتے ہیں۔ نبی موحد بھی ہوتا ہے اور مدبر بھی ہوتا ہے۔ اس لیے توحید بھی نہ چھوڑیں اور تد بیر بھی نہ چھوڑیں۔ بچہ بیمار ہوجائے تو ڈاکٹر کے پاس بھی لے جائیں اور اللہ سے دعا بھی مانگیں۔ اللہ سے دعامانگیں اورڈاکٹر کے پاس نہ لے کر جائیں تو یہ بچے کے ساتھ زیادتی ہے۔ ڈاکٹر سے علاج کروائیں اور اللہ سے دعانہ مانگیں تو بھی یہ زیادتی ہے۔ اس لیے دعابھی مانگیں اور دوابھی کریں۔ اللہ چاہیں گے تو شفا دیں گے، اللہ نہیں چاہیں گے تو شفا نہیں عطا فرمائیں گے۔
بنیامین کو روکنے کی تدبیر:
خیر جیسے باپ نے کہا تھا اسی طرح برادرانِ یوسف داخل ہوئے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے اس کا اہتمام کیا کہ دو دو بندو ں کو ایک ایک کمرے میں ٹھہرا دیا۔ اب ٹوٹل بھائی گیا رہ تھے۔ دو دو ایک ایک کمرے میں اورحضرت بنیامین اکیلے رہ گئے۔ تو بنیامین کو یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ میرے کمرے میں ٹھہریں گے۔ یوسف علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ دیکھو میں تمہارا بھائی ہوں، تم پریشان نہ ہونا۔ سارا واقعہ ان کو بتادیا۔ اب ظاہر ہے کہ بھائی تو مچل اٹھا کہ میں اپنے سگے بھائی کے پاس کمرے میں آرام کر رہا ہوں۔ بنیامین نے کہا اللہ کے لیے مجھے واپس نہ بھیجو! میں ان کے سا تھ رہنے پر خوش نہیں ہوں۔ یوسف علیہ السلام نے فرمایا: اس کی ایک صورت یہ ہے کہ میں تمہارے سامان میں کچھ رکھ دوں اور چوری کا الزام لگا دوں، تمہیں روک لوں، اس کے علاوہ تو کو ئی صورت موجود نہیں ہے۔ بنیامین نے کہا کہ مجھے یہ الزام برداشت ہے لیکن مجھے واپس نہ بھیجو! صبح سب کا سامان بنادیا گیا۔ ہر ایک کا اونٹ لاد دیا گیا تو جو بنیامین کا سامان تھا اس میں بادشاہ کا چاندی یا جواہرات کا پیالہ رکھ دیا گیا۔ جب یہ قافلہ چلنے لگا تو ایک آدمی نے زور سے آواز دی، اس نے کہا:
﴿اَیَّتُہَا الۡعِیۡرُ اِنَّکُمۡ لَسٰرِقُوۡنَ ﴿۷۰﴾﴾
اے قافلے والو! تم چور ہو، ٹھہر جاؤ۔ سارے رک گئے۔ انہوں نے کہا کہ تمہاری کیا چیز گم ہو گئی ہے؟ خدا کی قسم! ہم نے تو چوری نہیں کی، تم کیسی بات کرتے ہو؟ انہوں نے کہا: بادشاہ کا پیالہ گم ہوگیا ہے اور اعلان کرنے والے نے کہا کہ جو بندہ بادشاہ کا پیالہ لے کر آئے گا میں اس بات کا ضامن ہوں کہ بادشاہ اسے ایک اونٹ کے برابر غلہ اور دے گا۔ بادشاہ تلاش کر رہا ہے۔ اب جیسے تد بیر طے تھی تو اسی طرح اس اعلان کرنے والے نے اعلان کیا۔ انہوں نے کہا:
﴿تَاللہِ لَقَدۡ عَلِمۡتُمۡ مَّا جِئۡنَا لِنُفۡسِدَ فِی الۡاَرۡضِ وَ مَا کُنَّا سٰرِقِیۡنَ ﴿۷۳﴾﴾
اللہ کی قسم! تمہیں پتا ہے کہ ہم فسادی تو نہیں ہیں، چوربھی نہیں ہیں! پھر قاصد نے کہا: جو آدمی چور ثابت ہو اس کی سزاکیا ہوگی؟ انہوں نے کہا:
﴿جَزَآؤُہٗ مَنۡ وُّجِدَ فِیۡ رَحۡلِہٖ فَہُوَ جَزَآؤُہٗ﴾
جس کے سامان سے چوری کا پیالہ نکل آیا تو آپ اس کو اپنے قبضے میں رکھ لیں، یہی اس کی سزا ہے۔ انہوں نے کہا: چلو ٹھیک ہے۔ اب انہوں نے پہلے دوسرے بھائیوں سے شروع کیا، ان کے سامان میں پیالہ تو نہیں تھا، آخر میں جب بنیامین کا سامان کھولا تو اندر پیالہ موجود تھا۔ انہوں نے کہا: تم کہتے ہو کہ ہم نے چوری نہیں کی، یہ دیکھو! پیالہ تو نکل آیا۔ اللہ فرماتے ہیں:
﴿کَذٰلِکَ کِدۡنَا لِیُوۡسُفَ﴾
میں اس کا مطلب بعد میں سمجھاتا ہوں۔ اب جب ان کے بھائی کے پاس سامان نکلا تو یہ بھائی فوراً کہنے لگے:
اس کے بھائی نے بھی چوری کی تھی!
﴿اِنۡ یَّسۡرِقۡ فَقَدۡ سَرَقَ اَخٌ لَّہٗ مِنۡ قَبۡلُ﴾
اگر اس نے چوری کی ہے تو اس سے پہلے اس کے بھائی نے بھی چوری کی تھی۔ یوسف اور بنیامین ایک ماں سے تھے اور باقی بھائی دوسری ماں سے تھے۔ یہ بھی اپنے بڑے بھائی کی طرح چور ہے۔ وہ چوری کون سی تھی؟ میں نے بتایا تھا کہ یوسف علیہ السلام کی والدہ بچپن میں فوت ہوگئی تھیں۔ تو ان کی پھوپھی نے پالنے کے لیے انہیں اپنے پاس رکھا تھا۔
جب یوسف علیہ السلام کچھ بڑے ہوئے چھ یاسات سال کی عمر کے تو حضرت یعقوب علیہ السلام کہنے لگے کہ یوسف ہمیں واپس دے دو۔ تو پھوپھی نے ایک دوپٹہ لیا اور یوسف علیہ السلام کی کمر میں قمیص کے نیچے باندھ دیا۔ جب جانے لگے تو پھوپھی نے کہا کہ میرا ایک دوپٹہ گم ہوگیا ہے، مل نہیں رہا۔ ادھر دیکھا اُدھر دیکھا، بالآخر تلاشی لینی شروع کی تو حضرت یوسف علیہ السلام کی کمر کے ساتھ بندھا ہوا ملا۔ تو یعقوب علیہ السلام کو چھوڑنا پڑا۔ پھر جب تک پھوپھی زندہ رہیں حضرت یوسف علیہ السلام اپنی پھوپھی کے پاس رہے، ان کی وفات کے بعد یعقوب علیہ السلام کے پاس آ گئے۔
تو انہوں نے یہ کہا کہ اگر چھوٹے بھائی نے چوری کی ہےتو پہلےبڑ ے بھائی نے بھی چوری کی تھی حالانکہ یوسف علیہ السلام نے چوری بالکل نہیں کی تھی اور یہ سارا واقعہ ان کو پتا تھا کہ چوری نہیں کی بلکہ ہماری پھوپھی نے حیلہ کیا تھا بھتیجے کو اپنے پاس رکھنے کے لیے، لیکن یہ ایسے عجیب لوگ تھے کہ تھوڑا سا الزام لگا تو پچھلی باتیں جو غلط تھیں انہوں نے کھولنی شروع کیں۔ یوسف علیہ السلام نے دل میں فرمایا:
﴿اَنۡتُمۡ شَرٌّ مَّکَانًا ۚ وَ اللہُ اَعۡلَمُ بِمَا تَصِفُوۡنَ ﴿۷۷﴾﴾
کہ تم بڑے ہی گندے لوگ ہو، اللہ وہ ساری باتیں جانتا ہے جو تم اپنی زبان سے بیان کررہے ہو۔
اب جو بات میں سمجھانا چاہتا ہوں اسے سمجھیں! آدمی کو کتنا تعجب ہوتا ہے اس واقعے پر کہ یہ کیسا واقعہ ہے۔ یوسف علیہ السلام نے بنیامین بھائی کو رکھنا تھا تو ویسے ہی رکھ لیتے کہ یہ میرا چھوٹا بھائی ہے تم گندم لے کر جاؤ اور یعقوب علیہ السلام کو لے آؤ اور انہیں جا کر بتانا کہ تمہارا بیٹا ہوں میں، زندہ ہوں، بالکل صحیح سالم ہوں، کتنا آسان کام تھا لیکن ایسا نہیں کیا۔ پہلے ان پر چوری کا الزام لگا یا۔ پھر وہ پورے مجمع میں بد نام ہوئے ہیں۔ پھر وہا ں سے چوری برآمد ہوئی توذلت بھی ہے۔ تو اس پر یہ اشکال ہے کہ یہ کام نبی کی شان کے لائق نہیں ہے کہ ایساکرے۔ اس کا جواب اللہ نے خودقرآن میں دیا ہے:
ہم نے یوسف کو یہ تدبیر سکھائی:
﴿کَذٰلِکَ کِدۡنَا لِیُوۡسُفَ﴾
اللہ فرماتے ہیں کہ یہ تد بیر یوسف علیہ السلام کی نہیں تھی، یہ تدبیر ہماری تھی۔ کیونکہ
﴿مَا کَانَ لِیَاۡخُذَ اَخَاہُ فِیۡ دِیۡنِ الۡمَلِکِ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللہُ﴾
ان کے بادشاہ کے پاس کوئی ایسا قانون نہیں تھا جس قانون کے تحت یوسف علیہ السلام بنیامین کو روک سکتے، اس لیے اس کا حل یہی تھا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی شریعت کے مطابق فیصلہ ہو، پھر یہ روک سکتے تھے۔
یعقوب علیہ السلام کی شریعت کا قانون یہ تھا کہ جو بندہ چوری کرے اور چوری برآمد ہوجائے تو چور اس سامان والے شخص کا غلام بن جاتا ۔ یہ ایسا کیوں ہوا؟ مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ لکھتے ہیں کہ خضر اور موسیٰ علیہم السلام جب گئے تھے تو خضر علیہ السلام نے بچے کو قتل کردیا تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا تھا کہ آپ نے بچے کو کیوں مارا ہے؟ کشتی کو توڑا تو کہا کہ آپ نے کشتی کیوں توڑی ہے؟ یہ سارا واقعہ آگے آئے گا اپنے موقع پر تو ہم اس کی تفصیل بیان کریں گے۔ اب بظاہر چھوٹے بچے کو قتل کرنا کتنا بڑا جرم ہے! لیکن خضر علیہ السلام کر رہے ہیں۔ تو مفتی شفیع صاحب فرما تے ہیں کہ بعض معاملات بندے کے ہاں جرم شمار ہوتے ہیں لیکن جب اللہ تکوینی امر کے تحت فرمائیں تو پھر خدا کو کو ئی نہیں پوچھ سکتا کہ یہ آپ نے کیوں کیا ہے اور یہ کیوں نہیں کیا؟ اصل میں حضرت یعقوب علیہ السلام کے امتحانات تھے اور امتحان در امتحان در امتحان سے اللہ اپنے نبی حضرت یعقوب کو گزار رہے ہیں۔ اس لیے یہ تدبیر اللہ کی طرف سے تھی۔ لہذا یوسف علیہ السلام پر کوئی الزام نہیں۔
خیر بنیامین کو انہوں نے روک لیا۔ اب یہ بھا ئی کہنے لگے:
﴿اِنَّ لَہٗۤ اَبًا شَیۡخًا کَبِیۡرًا فَخُذۡ اَحَدَنَا مَکَانَہٗ﴾
اس کا بوڑھا باپ ہے، وہ بہت پریشان ہوگا۔ آپ اس کی جگہ ہم میں سے کسی کو روک لیں۔ یوسف علیہ السلام نے فر مایا کہ ہم اسی کو روکیں گے، ہم نے کسی اور کو روکا تو یہ ظلم ہو گا اور ہم ظلم نہیں کر سکتے۔ اب یہ سارے بھائی واپس جانے لگے تو ان کے جو بڑے بھائی یہودا تھے وہ بیٹھ گئے، وہ کہنے لگے: ہم نے پہلے بھی باپ کو دکھ دیا تھا اب دوسرا دکھ دیا تو میں واپس نہیں جاسکتا۔ تم سارے جاؤ اور ابو کو ساری بات بتادو لیکن میں جانے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ یا تو میری موت یہاں پر آئے گی یا میرے والد مجھے اجازت دے دیں۔
جب یہ لوگ واپس گئے تو انہوں نے اپنے والد حضرت یعقوب علیہ السلام سے کہا کہ آپ کا بیٹا بنیامین چوری میں پکڑا گیا ہے۔ ہم بہت افسردہ ہیں۔ اس کو چھو ڑ کر آگئے ہیں۔ اگر ہم پر آپ کو یقین نہیں آتا تو آپ ان لوگوں سے پوچھ لیں جہاں پر یہ سارا واقعہ پیش آیا اور ان لوگوں سے پوچھ لیں جو ہمارے ساتھ تھے، اب شاید آپ کو ہم پر یقین آجائے ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا:
یعقوب علیہ السلام کی بیٹوں کو سرزنش:
﴿بَلۡ سَوَّلَتۡ لَکُمۡ اَنۡفُسُکُمۡ اَمۡرًا﴾
تم جھوٹ بولتے ہو! یہ تم نے اپنی طرف سے واقعہ گھڑا ہے۔
یہ واقعہ تو بالکل سچاتھا لیکن یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹوں سے کہہ رہے ہیں کہ تم جھوٹ بول رہے ہو! حالانکہ نبی تو خلافِ واقعہ بات کبھی نہیں کہہ سکتے تو پھر بیٹوں کو ایسا کیوں کہا؟ اس کی وجہ سمجھنا!
ایک اجتہاد ہوتا ہے نبی کا اور ایک اجتہاد ہوتا ہے امتی کا۔ اب حضرت یوسف علیہ السلام نے بنیامین کو روکا یا نہیں روکا․․․ اس کی دلیل یعقوب علیہ السلام کے پاس کوئی نہیں ہے، یہ جو انہوں نے اپنے بیٹوں سے فرمایا: ”بَلۡ سَوَّلَتۡ لَکُمۡ اَنۡفُسُکُمۡ اَمۡرًا“ کہ تم نے اپنی طرف سے واقعہ گھڑا ہے، یہ ان کا اجتہاد تھا کیونکہ بیٹوں نے پہلے بھی دھوکہ دیا تھا تو حضرت یعقوب نے سوچا کہ جس طرح انہوں نے پہلے کیا ہے تو اب پھر دھوکہ دے رہے ہیں۔ تو یہ نبی کا اجتہاد ہے۔ اور ایک اجتہا د ہوتا ہے امتی کا۔ نبی اور امتی کے اجتہاد میں فرق یہ ہے کہ اگر نبی کا اجتہاد خلافِ واقعہ ہو تو اللہ وحی اتار کر اس خطا کو درست فرما دیتے ہیں اور اگر امتی سے اجتہاد میں خطا ہو جائے تو اس کی خطا قیامت تک بھی رہ سکتی ہے، لیکن مجتہد اگر خطا کر بھی جائے تو اس کی خطا پر بھی اللہ اسے جنت دیتے ہیں، جہنم اس پر پھر بھی نہیں ہے۔
جاؤ یوسف کو تلاش کرو کہنے کی وجہ:
خیر حضرت یعقوب علیہ السلام بہت پریشان ہوئے، اتنے غمزدہ تھے، اتنے غمزدہ تھے کہ رو رو کر جیسے بندے کی آنکھیں چلی جاتی ہیں تو حضرت یعقوب علیہ السلام کی آنکھیں چلی گئیں۔ قرآن کہتا ہے:
﴿وَ ابۡیَضَّتۡ عَیۡنٰہُ مِنَ الۡحُزۡنِ فَہُوَ کَظِیۡمٌ ﴿۸۴﴾﴾
حضرت یعقوب علیہ السلام کی آنکھیں سفید ہو گئیں، بینائی چلی گئی۔ ”کَظِیۡمٌ“ اس بندے کو کہتے ہیں جو بدلہ لے سکتا ہو اور پھر بھی نہ لے، اندر سے گھٹتا رہے، یعقوب علیہ السلام اندر سے گھٹتے تھے اور زبان سے اظہار نہیں کرتے تھے، روتے جاتے تھے۔ ان کے بیٹوں نے کہا:
﴿تَاللہِ تَفۡتَؤُا تَذۡکُرُ یُوۡسُفَ حَتّٰی تَکُوۡنَ حَرَضًا اَوۡ تَکُوۡنَ مِنَ الۡہٰلِکِیۡنَ ﴿۸۵﴾﴾
ابا! خدا کی قسم آپ یوسف کو یاد کرنا نہیں چھوڑیں گے، یا تو بہت بیمار ہو جائیں گےیا اپنے آپ کو ہلاک کر دیں گے۔
حضرت یعقوب علیہ السلام فرمانے لگے:
﴿اِنَّمَاۤ اَشۡکُوۡا بَثِّیۡ وَ حُزۡنِیۡۤ اِلَی اللہِ وَ اَعۡلَمُ مِنَ اللہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۸۶﴾﴾
میں اپنے غم کو اللہ کے سامنے رکھتا ہوں، تمہارے سامنے نہیں رکھتا اور اللہ سے دعا مانگتا ہوں ایک وقت آئے گا اللہ مجھے دے گا۔ جو علم میرے پاس ہے بیٹو!وہ تمہارے پاس نہیں ہے۔
﴿یٰبَنِیَّ اذۡہَبُوۡا فَتَحَسَّسُوۡا مِنۡ یُّوۡسُفَ وَ اَخِیۡہِ وَ لَا تَایۡـَٔسُوۡا مِنۡ رَّوۡحِ اللہِ ؕ اِنَّہٗ لَا یَایۡـَٔسُ مِنۡ رَّوۡحِ اللہِ اِلَّا الۡقَوۡمُ الۡکٰفِرُوۡنَ ﴿۸۷﴾﴾
میرے بیٹو! جاؤ، یوسف اور اس کے بھائی کو تلاش کرو، اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، اللہ کی رحمت سے کافر ہی مایوس ہوتے ہیں!
مفسرین نے لکھا ہے کہ اب یوسف علیہ السلام کے ملنے کا وقت قریب آگیا ہے تبھی تو فر مایا کہ تلاش کرو۔ اب بتاؤ! جب بیٹے یوسف علیہ السلام کو لے کر گئے تھے اور کنویں میں ڈالا تھا اورباپ سے کہا تھا کہ بھیڑ یے نے کھا لیا ہے تو باپ نے اس وقت کہا تھا کہ تم جھوٹ بولتے ہو! تویعقوب علیہ السلام تلاش کرنے کے لیے نکلے؟ (نہیں۔ سامعین) جب پتا ہے کہ جھوٹ بول رہے ہیں تو تلاش تو کر نا چاہیے تھا لیکن اس وقت تلاش نہیں کیا، اس کی وجہ کہ اللہ نے چونکہ حضرت یعقوب علیہ السلام کا امتحان لینا تھا تو تلاش کی طرف ذہن ہی نہیں جانے دیا، آپ گھر بیٹھ کر رو رہے ہیں لیکن بچے کو تلاش نہیں کر رہے اور آج چالیس سال بعد کیا کہہ رہے ہیں کہ جاؤ اور یوسف کو تلاش کرو! چالیس سال تک روتے رہے ہیں، تلاش نہیں کر رہے لیکن جب ملنے کا وقت قریب آیا تواب بیٹوں سے کہہ رہے ہیں کہ تلاش کرو۔
دربارِ یوسف میں بھائیوں کی سہ باری آمد:
اس سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام اب بھی مطمئن تھے کہ میرا بیٹا زندہ ہے لیکن مل نہیں رہا، جاؤ اور اسے تلاش کرو اور تلاش کرنے کدھر جاؤ؟ پھر مصر کی طرف۔ اب بیٹا گم کہا ں پر ہوا ہے اور بھیج ان کو مصر کی طرف رہے ہیں۔ یہ بیٹے پھر چل پڑے۔ عزیز مصر حضرت یوسف کے پاس پہنچے تو جاکر انہوں نے کہا :
﴿یٰۤاَیُّہَا الۡعَزِیۡزُ مَسَّنَا وَ اَہۡلَنَا الضُّرُّ وَ جِئۡنَا بِبِضَاعَۃٍ مُّزۡجٰىۃٍ فَاَوۡفِ لَنَا الۡکَیۡلَ وَ تَصَدَّقۡ عَلَیۡنَا ؕ اِنَّ اللہَ یَجۡزِی الۡمُتَصَدِّقِیۡنَ ﴿۸۸﴾﴾
اے عزیز مصر!ہمیں پھر تنگدستی نے گھیر لیا ہے، ہمارے پاس جو ٹوٹے پھوٹے پیسے تھے ہم لے کر آئے ہیں، اس کے بدلے میں آپ ہمیں غلہ دے دیں۔
مفسرین کہتے ہیں کہ دو باتیں تھیں یا تو ان کے پاس سکے کھوٹے تھے یا گھر کا سامان تھا وہ لے کر چلے گئے تھے جس کی قیمت بنتی نہیں تھی اور بازار میں بکتا نہیں تھا، اس کے بدلے میں ہمیں غلہ دے دو۔
یوسف علیہ السلام نے جب یہ منظر دیکھا تو دل بھر آیا۔ اتنا عرصہ گزرا۔ باپ کی جدائی کو، بیٹوں نے ظلم کی انتہا کر دی ہے اور آ ج کس طرح محتاج ہوکر میرے پاس آئے ہیں، حضرت یوسف علیہ السلام کا دل تو بھر آنا ہی تھا۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یعقوب علیہ السلام نے یوسف علیہ السلام کے نام ایک خط لکھا تھا، اس کا عنوان یہ تھا کہ میں یعقوب ہوں، میرے باپ کانام اسحاق ہے، ان کے باپ کا نا م ابراہیم ہے، ہم تینوں نبی ہیں اور ہمارے خاندان کو اللہ نے ہمیشہ آزمایا ہے، میرے دادا ابراہیم کو آزمایا تھا، میرے باپ اسحاق کو آزمایا تھا اور مجھے آزمایا ہے۔ پہلے آزمایا تھا یوسف کی وجہ سے اور اب آزمایا ہے بنیامین کی وجہ سے۔ اے بادشاہ مصر! نبی ہونے کی حیثیت سے گواہی دیتا ہوں کہ ہم انبیاءہیں، ہم کبھی چوری نہیں کیا کرتے، ہمارا بیٹا واپس کر دو!
اب یوسف علیہ السلام نے خط پڑھا تو دل کی کیفیت کیا ہوگی کہ باپ کو پتا ہی نہیں کہ بیٹے کو خط لکھ رہاہوں۔ اللہ نے کیسے نبی سے معاملہ چھپا کر رکھا اور اتنا عرصہ یعقوب علیہ السلا م کا امتحان لیتےرہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کا بھی امتحان ہے اور حضرت یوسف علیہ السلام کا بھی امتحان ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا امتحان اس طرح ہے کہ آپ نے بھی حضرت یعقوب کو بتانا نہیں ہے، بس معاملات چلاتے رہیں! جب یہ سارا معاملہ ہوا تو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے فرمایا:
ہاں! میں ہی یوسف ہوں:
﴿ہَلۡ عَلِمۡتُمۡ مَّا فَعَلۡتُمۡ بِیُوۡسُفَ وَ اَخِیۡہِ﴾
تمہیں یاد ہے کہ تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا معاملہ کیا تھا؟
اب بھائیوں نے نظریں بھر کے دیکھا تو انہوں نے کہا:
﴿ءَاِنَّکَ لَاَنۡتَ یُوۡسُفُ﴾
کیا تو یوسف ہے؟ اب بتاؤ کتنا عجیب معاملہ ہے! فرمایا:
﴿اَنَا یُوۡسُفُ وَ ہٰذَاۤ اَخِیۡ﴾
ہاں میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے۔
اب اندازہ کرو! یوسف علیہ السلام کے حوصلے کا، فرمایا:
﴿قَدۡ مَنَّ اللہُ عَلَیۡنَا ؕ اِنَّہٗ مَنۡ یَّـتَّقِ وَ یَصۡبِرۡ فَاِنَّ اللہَ لَا یُضِیۡعُ اَجۡرَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۹۰﴾﴾
یہ نہیں کہا کہ تم نے میرے ساتھ زیادتی کی تھی بلکہ فرمایا کہ اللہ نے میرے اوپر احسان کیا، ان کے گنا ہ بتانے کے بجائے اللہ کے احسان کا تذکرہ فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یہ میرا کمال نہیں ، جو آدمی بھی مصیبت پر صبر کرتا ہے اور تقویٰ اختیار کرتا ہے تو اللہ اس کا ساتھ دیا کرتے ہیں، اللہ اس کی نیکی کو ضائع نہیں کرتے، اللہ آزماتے ہیں، پھر کچھ وقت گزرتا ہے تو بالآخر اللہ مدد کے دروازے کھول دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا:
﴿تَاللہِ لَقَدۡ اٰثَرَکَ اللہُ عَلَیۡنَا وَ اِنۡ کُنَّا لَخٰطِئِیۡنَ ﴿۹۱﴾﴾
اے یوسف! اللہ نے آپ کو ہم پر بڑی فضیلت دی ہےاور ہم مانتے ہیں کہ ہم نے خطا کی ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا:
﴿لَا تَثۡرِیۡبَ عَلَیۡکُمُ الۡیَوۡمَ ؕ یَغۡفِرُ اللہُ لَکُمۡ ۫ وَ ہُوَ اَرۡحَمُ الرّٰحِمِیۡنَ ﴿۹۲﴾﴾
اگر تم نے مان لیا ہے تو ہم نے تم کو معاف کیا ، اور میں اللہ سے تمہارے لیے دعا مانگتا ہوں کہ اللہ بھی تمہیں معاف کر دے، اللہ بہت رحم کرنے والا ہے۔
قمیض سے بینائی کا لوٹنا:
﴿اِذۡہَبُوۡا بِقَمِیۡصِیۡ ہٰذَا فَاَلۡقُوۡہُ عَلٰی وَجۡہِ اَبِیۡ یَاۡتِ بَصِیۡرًا﴾
فرمایا: یہ میری قمیص لو اور میرے باپ کی آنکھوں پر ڈال دو ان کی بینائی واپس آجائے گی۔
مفسرین نے لکھا ہے: جب جانے لگے تو یہودا نے کہا: قمیص مجھے دے دو، اپنے باپ کو میں دو ں گا، کیونکہ جب انہوں نے حضرت یوسف کو کنویں میں ڈالا تھا تو یو سف کی جس قمیص پر بکرے کاجھوٹا خون لگا کر حضرت یعقوب علیہ السلام کو پیش کیا تھا تو وہ یہودا نے پیش کیا تھا۔ تو اب یہودا نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ جتنا بڑا گناہ ہو اتنا بڑا کفارہ ہونا چاہیے۔ وہ جھوٹا کام بھی میں نے کیا تھا تو میرا جی چاہتا ہے کہ سچا کام بھی میں کروں تو باپ خوش ہوگا۔ تو جس طرح میں نے باپ کو یوسف کی قمیص دے کر دکھ دیا تھا اب میرا جی چاہتا ہے کہ اب یوسف کی قمیص دے کر باپ کا دل خوش کروں۔
حضرت وحشی رضی اللہ عنہ کا مسیلمہ کذاب کو قتل کرنا :
میں اس پر صرف ایک واقعہ پیش کرتا ہوں۔ جنگِ احد میں ہندہ نے شرط لگائی تھی اپنے غلام وحشی سے کہ تم حضرت حمزہ کو قتل کردو تو میں تمہیں آزاد کر دوں گی چونکہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے ہندہ کے بھائی کو قتل کیا تھا میدان بدر میں۔ ہندہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی والدہ تھیں، ابھی مسلمان نہیں ہوئی تھیں۔ وحشی بڑا زبردست نیزہ باز تھا۔ اس نے برچھی نما چھوٹا نیزہ رکھا ہوا تھا۔ اس نے تاک کر مارا جو حضرت حمزہ کے پیٹ میں لگا۔ حضرت حمزہ شہید ہوگئے۔ اب وحشی وہاں سے دوڑ گیا۔ اللہ پاک نے کرم فرمایا اور وحشی کے اسلام قبول کرنے کا وقت قریب آگیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحشی کے پاس صحابی کو بھیجا کہ جاؤ وحشی کو اسلام کی دعوت دو۔ جب وہ صحابی وحشی کے پاس چلے گئے تو وحشی نے کہا کہ میں مشرک ہوں، میں نے کلمہ پڑھ لیا تو میر ے گناہوں کا کیا بنے گا؟ قرآن کی آیت اتری:
﴿اِنَّ اللہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ﴾
النساء4: 48
کہ اللہ مشرک کو معاف نہیں کرتا، باقی جن کو چاہے معاف کردیتے ہیں۔
تو شرک سے تو بہ کر لے۔ اس نے کہا کہ میں شرک سے توبہ کر لوں گا لیکن میری معافی کا وعدہ تو نہیں ہے، اللہ فرماتے ہیں کہ جن کو چاہوں معاف کروں، اب پتا نہیں کہ مجھے چاہیں گےیا نہیں چاہیں گے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صحابی آگیا تو پھر قرآن کی دوسری آیت اتر آئی:
﴿اِلَّا مَنۡ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللہُ سَیِّاٰتِہِمۡ حَسَنٰتٍ﴾
الفرقان25: 70
کہ جس آدمی نے کفر کو چھوڑ دیا اور توبہ کر لی اور نیک اعمال کیے تو اللہ ان کے گناہوں کو بھی نیکی سے بدل دیں گے۔
وحشی کے پاس پیغام بھیجا تو اس نے کہا: میں اب بھی تیار نہیں ہوں، اس میں ہے کہ تو بہ کر لے جبکہ میں تو فلاں گناہ نہیں چھوڑ سکتا، فلاں گناہ نہیں چھوڑ سکتا تو میری معافی کیسے ہوگی؟ اب دیکھو! اللہ کی رحمت جب متوجہ ہوتی ہے تو بہانے کیسے تلاش کرتی ہے اور کتنا بڑا قاتل ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کو قتل کیا ہے۔ اب تیسری آیت نازل ہوئی کہ جاکر کہو:
﴿قُلۡ یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اَسۡرَفُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَۃِ اللہِ ؕ اِنَّ اللہَ یَغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ جَمِیۡعًا﴾
الزمر39: 53
مایوس نہ ہو، اللہ سارے گناہ معاف کردیں گے۔
جب وحشی کےپاس یہ پیغام بھیجا تو اس نے کہا: اب ٹھیک ہے۔ وحشی آیا اور کلمہ پڑھ لیا اور خیر سے مسلمان ہوگیا۔
مرقاۃ المفاتیح: ج5 ص267
اب مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعویٰ کیا تو جو مسلمانوں کا قافلہ مسیلمہ کے خلاف جہاد کے لیے گیا وحشی بھی اس میں تھا۔ اب پہلے وحشی تھے اور اب حضرت وحشی رضی اللہ عنہ ہیں۔ تو وحشی کہنے لگے: میرے دل میں تھا کہ میں نے جتنا بڑا گناہ کیا ہے اتنی بڑی نیکی کروں! حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو میں نے قتل کیا تھا اب مجھے چاہیے کہ اس مسیلمہ کو ماروں۔ انہوں نے تاک کر مارا تو مسیلمہ کو قتل کردیا۔ اب حضرت وحشی رضی اللہ عنہ بڑے خوش تھے۔ فرمایا کہ جب میں کافر تھا تو میں نے بہت اچھے آدمی کو قتل کیا تھا تو جب میں نے کلمہ پڑھا ہے تو میں نے نہایت برے کو قتل کیا ہے۔ تو میں خوش ہوں کہ میں نے جتنا گناہ کیا تھا میں نے اتنی نیکی بھی کر لی۔
تو یہودا کا خیال تھا کہ میں نے حضرت یوسف علیہ السلام کی قمیص دے کر باپ کو دکھ دیا تھا تو اب مجھے یہ قمیص پیش کرنے دو تاکہ میں باپ کو خوش کر وں اور اس خوشی میں وہ مجھے معاف کر دیں۔ جب یہ قمیص لے کر گئے۔ آپ اندازہ فرمائیں کہ حضرت یعقوب علیہ کنعان میں رہتے تھے اور حضرت یوسف علیہ السلام مصر میں رہتے تھے۔ یہاں سے اڑھائی سو میل فاصلہ ہے۔ کہاں کنعان کے قریب کنویں میں ہیں تو بیٹے کا پتا نہیں ہے اور ادھر سے قمیص چلی ہے تو حضرت یعقوب علیہ السلام کہہ رہے ہیں:
﴿اِنِّیۡ لَاَجِدُ رِیۡحَ یُوۡسُفَ لَوۡ لَاۤ اَنۡ تُفَنِّدُوۡنِ ﴿۹۴﴾﴾
مجھے یوسف کی خوشبو آرہی ہے۔ اللہ کا عجیب معاملہ ہے۔ اسے کہتے ہیں؛ وحی! بیٹا قریب ہی کنعان کے کنویں میں ہے تو ان کا پتا نہیں ہے اور اڑھائی سو میل دور سے قمیص چلی ہے تو اب اللہ نے بتا دیا تھا۔ میں نے بتایا تھا نا کہ ان کے ملنے کاوقت قریب آگیا ہے اس لیے اب سارے اسباب جمع ہونا شروع ہوئے ہیں۔ فرمایا: مجھے خطرہ ہے تم نے کہنا ہے کہ یہ بہک گیا ہے ورنہ سچی بات یہی ہے کہ مجھے یوسف کی خوشبو آنا شروع ہوگئی ہے۔
یہ قمیص کون سی تھی؟
یہ قمیص کون سی تھی؟ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ یہ قمیص وہ تھی جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نمرود نے آ گ میں ڈالا تھا تو حضرت ابراہیم کو جنت سے قمیص لاکر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے پہنا دی۔ یہ قمیص ان کے بیٹے اسحاق کے پاس تھی۔ پھر ان کے بیٹے یعقوب علیہ السلام کے پاس۔ پھر حضرت یعقوب علیہ السلام نے اسی قمیص کو نلکی کی طرح بند کر کے اپنے بیٹے یوسف کے گلے میں ڈالا ہوا تھا۔ جب حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں میں ڈالا اور قمیص ان کی اتار لی اور اس پر بکری یا بھیڑ کا خون لگاکر باپ کو پیش کی تو جو ان کے گلے میں تھی تعویذ کی شکل میں نلکی کی طرح، جبرائیل علیہ السلام آئے اور وہ نلکی کھول کر حضرت یوسف علیہ السلام کو قمیص پہنا دی۔ یہ قمیص یوسف کے پاس تھی۔ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قمیص تھی جو اب ان کے پوتے یعقوب علیہ السلام کے پاس ہے تو نبی کی قمیص کی خاصیت یہ تھی کہ جب یعقوب علیہ السلام نے اس کو آنکھوں سے لگایا تو خدا نے فوراً بینائی کو لوٹایا۔ یہ بعض مفسرین کی تحقیق ہے۔
حضرت شیخ مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق بڑی عجیب ہے۔ شیخ مجدد الف ثانی فرماتے ہیں کہ یوسف کا وجودگویا کہ جنت کا وجود تھا اور جنت کے وجود سے لگنے والی قمیص کی برکت یہ تھی کہ جس کی آنکھ پر لگتی اللہ اس کی بینائی لوٹادیتے، یہ جنتی وجود کی برکت تھی کہ حضرت یعقوب کے علاوہ کسی بھی نابینا کو لگادیں تو اللہ بینائی عطا فرما دیں گے۔
خیر ان کی بینائی لوٹ آئی۔حضرت یعقوب علیہ السلام کہنے لگے:
﴿اَلَمۡ اَقُلۡ لَّکُمۡ ۙ اِنِّیۡۤ اَعۡلَمُ مِنَ اللہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۹۶﴾﴾
میں تمہیں کہتا نہیں تھا کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے، میں نبی ہوں میں تمہیں کہہ رہاتھا کہ یوسف زندہ ہے، تلاش کرو لیکن تم کہتے تھے کہ زندہ نہیں ہے، خیر انہوں نے کہا:
﴿یٰۤاَبَانَا اسۡتَغۡفِرۡ لَنَا ذُنُوۡبَنَاۤ اِنَّا کُنَّا خٰطِئِیۡنَ ﴿۹۷﴾﴾
ابا! ہم مانتے ہیں کہ ہم نے گناہ کیا تھا، آپ ہمارے لیے اللہ سے معافی مانگیں۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا:
﴿سَوۡفَ اَسۡتَغۡفِرُ لَکُمۡ رَبِّیۡ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِیۡمُ ﴿۹۸﴾﴾
ابھی نہیں، میں عنقریب تمہارے لیے اللہ سے دعاکروں گا۔ اللہ معاف کر نے والا ہے رحم کرنے والا ہے۔
مفسر ین نے اس کی وجہ یہ لکھی ہے کہ ان کی خواہش یہ تھی کہ میں تہجد کے وقت تمہارے لیے دعا کروں گا، بوقت تہجد جو قبولیت کا وقت ہوتا ہے عام وقتوں میں نہیں ہوتا، اس لیے فرمایا کہ میں عنقریب تمہارے لیے معافی مانگوں گا۔
مفسرین نے لکھا ہے کہ جب حضرت یعقوب علیہ السلا م کے پاس یہ قمیص لے کر پہنچے، یہودا تھا یا کوئی بھی تھا تو انہوں نے کہا کہ میں آپ کو خوشخبری دیتا ہوں لیکن آپ سے ایک چیز چاہتا ہوں۔ یعقوب علیہ السلام نے کہا: کیا چاہتے ہو؟ تو اس نے کہا کہ دعا کریں کہ اللہ ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمادیں۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے یہ دعامانگی۔
خوشخبری دینے والے کو ہدیہ دینا:
حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہی: اس سے ثابت ہوا کہ جب کوئی شحص خوشخبری دے تو خوشخبری دینے والے کو گفٹ دینا یہ بھی سنت ہے، کوئی اچھی خبر دے تو اس کو خوش کر نا بھی سنت ہے۔
یوسف علیہ السلام کے خواب کی تعبیر:
مفسرین لکھتے ہیں کہ یوسف علیہ السلام نے دوسو اونٹوں پر سامان لاد کر دیا اور فرمایا کہ پورے خاندان کو لے کر آؤ۔ یوسف علیہ السلام کے والد، بھابیاں، بچے سارےآئے تو یہ تقریباً بہتر یا تہتر افراد بنتے ہیں جو مصر میں شاہی مہمان بن کر داخل ہوئے اورجاکر یوسف علیہ السلام کو سجدہ کیا،یوسف علیہ السلام نے خواب دیکھا تھا نا:
﴿ اِنِّیۡ رَاَیۡتُ اَحَدَعَشَرَ کَوۡکَبًا وَّ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ رَاَیۡتُہُمۡ لِیۡ سٰجِدِیۡنَ ﴿۴﴾﴾
کہ میں نے گیا رہ ستارے دیکھے ہیں اور اس کے ساتھ چاند اور سورج بھی دیکھا ہے جو مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔
سورج حضرت یعقوب اور چاند ان کی اہلیہ ہیں۔ یہ اہلیہ کون سی تھیں؟ یا تو حضرت یوسف کی حقیقی والدہ ہیں اور اگر حقیقی والدہ فوت ہوگئی ہیں تو خالہ ہیں، پھربھی ماں ہیں۔
پہلی امتوں میں سجدہ عبادت تو حرام تھا لیکن سجدہ تعظیمی حرام نہیں تھا۔ اب اس امت میں سجدہ تعظیمی بھی حرام ہے۔ اللہ کے علاوہ کسی کو سجدہ کرنا جائز نہیں ہے۔
حضرت قیس بن سعد سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ میں ”حِیْرَہ“ میں گیا- یہ کوفہ کے قریب ایک جگہ کانام ہے- وہاں دیکھا کہ لوگ اپنے کمانڈر کو سجدہ کر رہے ہیں۔ جب میں وہاں سے واپس آیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تو ہم نے آپ سے عرض کیا کہ ہماری خواہش ہے ہم آپ کو سجدہ کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ نہیں ہو سکتا،
”لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ لأَمَرْتُ النِّسَاءَ أَنْ يَسْجُدْنَ لِأَزْوَاجِهِنَّ“
اللہ کے غیر کو سجدے کی گنجائش ہوتی تو پھر میں یہ حکم دیتا کہ بیوی اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔
سنن ابی داؤد، رقم:214

0

خیر اس موقع پر جب حضرت یوسف علیہ السلام کے خواب کی تعبیر پوری ہو گئی تو یوسف علیہ السلام نے فرمایا:
﴿یٰۤاَبَتِ ہٰذَا تَاۡوِیۡلُ رُءۡیَایَ مِنۡ قَبۡلُ ۫ قَدۡ جَعَلَہَا رَبِّیۡ حَقًّا ؕ﴾
ابو جی! میں نے بچپن میں خواب دیکھا تھا اورآپ نے تعبیر بتائی تھی اب اس کا وقت آگیا ہے، اب دیکھیں! میرا خواب کیسے سچا ہوگیا ہے۔
یوسف علیہ السلام کے اخلاقِ کریمانہ:
یہاں میں ایک بات کہہ کے اپنی بات ختم کرتا ہوں۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا:
﴿وَ قَدۡ اَحۡسَنَ بِیۡۤ اِذۡ اَخۡرَجَنِیۡ مِنَ السِّجۡنِ وَ جَآءَ بِکُمۡ مِّنَ الۡبَدۡوِ مِنۡۢ بَعۡدِ اَنۡ نَّزَغَ الشَّیۡطٰنُ بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنَ اِخۡوَتِیۡ ؕ﴾
اب ذرا نبی کے اخلاق دیکھنا! کہتے ہیں کہ اللہ نے کرم کیا کہ میرے خاندان کو دیہات سے شہر کی طرف لے آیا، پہلے شیطان نے ہمارے اور بھائیوں کے درمیان پھوٹ ڈالی تھی، اب خدا نے ہمیں اکٹھا کر دیا ہے۔
اب بتاؤ! یوسف علیہ السلام کنویں سے نکلے او ربادشاہ بنے لیکن کنویں کا ذکر نہیں کیا کہ اس سے بھائیوں کو تکلیف ہوگی، جیل کا ذکر کیا ہے کنویں کا ذکر نہیں کیا۔ جب بھائیوں نے معافی مانگ لی تو بات ختم ہوگئی۔ اب اگر پھر بات شروع کر دیتے کہ دیکھو! تم نے مجھے کنویں میں ڈالا تھا، تم نے میرے ساتھ کیا کیا تھا، بادشاہ نے میرے ساتھ کیا معاملہ کیا تھا، کنویں کی بات کاتذکرہ نہیں کیا، بھائیوں کے ظلم کی طرف اشارہ ہی نہیں کیا۔ فرمایا کہ اللہ کا کرم ہے کہ خدا نے مجھے جیل سے نکالا اور خدا کا تم پر کرم ہے کہ خدا تم کو دیہات سے شہر کی طرف لایا۔ کتنے سال الگ رہنے کے بعد خدا نے ہمیں اکٹھا کر دیا۔
میں یہ بات اس لیے کہتا ہوں کہ جب آپس میں مل بیٹھنا ہو تو پھر پچھلی باتیں بیان کرنا چھوڑ دیا کرو۔ اس سے نقصان ہوتا ہے۔
حضرت یوسف علیہ السلام کی دعا:
پھر حضرت یوسف علیہ السلام نے دعا مانگی ہے۔ فرمایا:
﴿رَبِّ قَدۡ اٰتَیۡتَنِیۡ مِنَ الۡمُلۡکِ وَ عَلَّمۡتَنِیۡ مِنۡ تَاۡوِیۡلِ الۡاَحَادِیۡثِ ۚ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۟ اَنۡتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ۚ تَوَفَّنِیۡ مُسۡلِمًا وَّ اَلۡحِقۡنِیۡ بِالصّٰلِحِیۡنَ ﴿۱۰۱﴾﴾
اے اللہ! آپ نے مجھے بادشاہت عطا کی، آپ نے مجھے خوابوں کی تعبیر کا علم دیا، یا اللہ! آپ زمین و آسمان کو پیدا کرنے والے ہیں، آپ دنیا میں میرے دوست ہیں اور آخرت میں بھی میرے کار ساز ہیں۔ اے اللہ! میں آپ سے دعا مانگتا ہوں کہ جب موت دینا ہو تو اسلام کے ساتھ دینا اور مجھے پھر نیک لوگوں کے ساتھ شامل کرنا۔
ہم بھی دعا کریں کہ اللہ ہمارا خاتمہ بھی ایمان پر فرمائیں، اللہ قیامت کے دن نیک لوگوں میں سے اٹھائیں۔ (آمین)
جب حضرت یوسف علیہ السلام نے پورے خاندان کو مصر بلایا تو بہتر آدمی تھے یا ترانوے تھے۔آگے ان کی نسل چلی ہے جنہیں ”بنی اسرائیل“ کہتے ہیں۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے۔ ایک یوسف خود ہیں اور گیارہ اور ہیں۔ حضرت یعقوب علیہ السلام جب مصر میں گئے ہیں اپنے بیٹے یوسف علیہ السلام کے پاس تو یہ کل بہتر یا ترانوے آدمی تھے اور جب فرعون سے نجات ملی اور موسیٰ علیہ السلام نے ان کو نکالا تو اس وقت بنی اسرائیل کی تعداد چھ لاکھ سے بھی زائد تھی۔ جب آئے ہیں تو تعداد بہتر ہے اور جب نکلے ہیں تو لاکھوں سے بھی زائد ہیں۔
حضرت یعقوب و یوسف علیہما السلام کی وفات:
یعقوب علیہ السلام نے وہیں وفات پائی اور یہ وصیت کی کہ مجھے شام میں دفن کرنا میرے والد اسحاق علیہ السلام کے پاس۔ اس لیے ان کو بیت المقدس میں دفن کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ عام یہودیوں میں یہ رسم چل پڑی ہے کہ وہ اپنے مردوں کو دور دور سے لے جا کر بیت المقدس میں دفن کرتے ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا مصر میں انتقال ہوا۔ جب موسیٰ علیہ السلام مصر سے بنی اسرائیل کو لے کر چلے تو تابوت میں یوسف علیہ السلام کا جسم اطہر موجود تھا، ان کا تابوت بھی وہاں سے اٹھایا اور ان کو بھی شام میں جاکر دفن کیا تھا۔ اب مصر میں موجود نہیں، وہاں سے منتقل کردیا تھا۔ یہ خلاصہ تھا جو میں نے آپ کے سامنے پیش کیاہے۔
اللہ پاک اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے ہیں:
﴿ذٰلِکَ مِنۡ اَنۡۢبَآءِ الۡغَیۡبِ نُوۡحِیۡہِ اِلَیۡکَ ۚ وَ مَا کُنۡتَ لَدَیۡہِمۡ اِذۡ اَجۡمَعُوۡۤا اَمۡرَہُمۡ وَ ہُمۡ یَمۡکُرُوۡنَ ﴿۱۰۲﴾﴾
اے میرے پیغمبر! غیب کی خبریں ہم آپ کو بتاتے ہیں، جب یوسف علیہ السلام کے بھائی مکر کر رہے تھے تو آپ ان کے پاس موجود نہیں تھے۔ یہ آپ کے نبی ہونے کی دلیل ہے کہ آپ نے کسی سے پڑھا بھی نہیں ہے اور ہم سے پوچھ کر آپ نے خبریں بتا دی ہیں۔
﴿وَ مَاۤ اَکۡثَرُ النَّاسِ وَ لَوۡ حَرَصۡتَ بِمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۰۳﴾﴾
اللہ پاک نے عجیب بات فرمائی ہے۔یہودیوں نے آپ سے کہا تھا کہ آپ ہمیں واقعہ سنائیں! آپ نے واقعہ سنا دیا لیکن یہ ایمان پھر بھی نہیں لائیں گے۔ اگر آپ چاہیں تو یہ پھر بھی ایمان نہیں لائیں گے لیکن اے نبی! آپ کو گھبرانا نہیں چاہیے ۔
﴿اِنۡ ہُوَ اِلَّا ذِکۡرٌ لِّلۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۰۴﴾٪﴾
یہ اللہ کی نشانیاں ہیں جو جہان والوں کے لیے ہیں۔ اے پیغمبر! آپ اپنا کام کریں اور یہ لوگ اپنا کام کریں۔
اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ علماء کو اپناکام کرناچاہیے اور عوام کو اپنا کام کرناچاہیے۔ عوام کے ذمے ہے کہ علما ءکی بات مانیں اور علماء کے ذمے ہے کہ عوام کو بات سمجھائیں! اگر علماء نہیں بتائیں گے تو قیامت کویہ مجرم ہوں گے اور عوام نہیں مانے گی توقیامت کو یہ مجرم ہوگی۔ اگر اس وجہ سے بیان کر نا چھوڑ دیں کہ لوگ تومانتے نہیں ہیں تو یہ نبوت کی شان کے بھی خلاف ہے اور نبی کے وارث علماء کی شان کے بھی خلاف ہے۔ اللہ ہم سب کو شریعت کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ