سورۃ الرعد

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ الرعد
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿الٓـمّٓرٰ ۟ تِلۡکَ اٰیٰتُ الۡکِتٰبِ ؕ وَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ الۡحَقُّ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۱﴾﴾
تمہیدی گفتگو:
سورۃ الرعد مدنی سورۃ ہے۔ اس میں چھ رکوع اور تینتالیس آیات ہیں۔ اس سورۃ کا نام سورۃ الرعد کیوں ہے؟ اس لیے کہ اس کی تیرھویں آیت ﴿وَ یُسَبِّحُ الرَّعۡدُ بِحَمۡدِہٖ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ مِنۡ خِیۡفَتِہٖ﴾ میں رعد کا ذکر ہے۔ عربی زبان میں بادلوں کے ایک دوسرے سے ٹکرانے سے جو کڑک دار آواز پیدا ہوتی ہے اسے ”رعد“ کہتے ہیں لیکن یہاں یہ مراد نہیں۔ یہاں ”رعد“ سے مراد ایک فرشتہ ہے جس کا نام رعد ہے، اس کو اللہ رب العزت نے بارشوں کے برسانے پر مقرر فرمایا ہے۔
یہ رعد فرشتہ خود بھی اللہ کی حمد کی تسبیحات پڑھتا ہے اور دوسرے فرشتے بھی اللہ کے خوف سے اللہ کی تسبیحات پڑھتے ہیں۔ چونکہ اس سورۃ میں لفظ رعدسے مراد فرشتہ ہے تو فرشتے کے تذکرہ کی وجہ سے اس سورۃ کا نام ”سورۃ الرعد“ رکھا گیا ہے۔ اسے عربی اصطلاح میں”تَسْمِیَۃُ الْکُلِّ بِاسْمِ الْجُزْءِ“ کہتے ہیں یعنی جزء کی وجہ سے کل کا نام رکھنا۔
﴿اَللہُ الَّذِیۡ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیۡرِ عَمَدٍ تَرَوۡنَہَا ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ وَ سَخَّرَ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ﴾
اللہ رب ا لعزت نے اپنی قدرت کو بیان فرمایا ہے کہ اےمیرے پیغمبر! کتاب میں نے دی ہے اور یہ لوگ مانتے نہیں ہیں اور ان کو یہ احساس نہیں ہےکہ میری قدرت کتنی بڑی ہے! کئی آسمان میں نےکھڑے کر دیے ہیں جن کے نیچے ایک ستون بھی نہیں ہے، دیکھو میری کتنی طاقت ہے! ان منکرین کی میرے سامنے کیا حیثیت ہے؟! لیکن پھر بھی میں ان کو کچھ بھی نہیں کہتا، میں نے ان کو ڈھیل دے رکھی ہے اور یہ ڈھیل کا معنیٰ سمجھتے ہیں کہ میں ان کی گرفت نہیں کر سکتا! یہ لوگ میری طاقت کو نہیں دیکھتے۔ ہم نے کتنی بڑی بلڈنگ کھڑی کی ہے اور اس کے نیچے کوئی ستون نہیں ہے۔ دنیا کا کوئی تعمیر کرنے والا مستری اور انجنیئر آپ پیش کر سکتے ہیں جو بلڈنگ کھڑی کرے اور نیچے کوئی ستون نہ ہو؟ (نہیں۔ سامعین) اللہ کو دیکھیں کہ کتنی بڑی بلڈنگ کھڑی کی ہے!
”استویٰ علی العرش“ کا معنیٰ:
اس کے بعد فرمایا:
﴿ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ
پھر اللہ عرش پر مستوی ہوئے۔
اس کا معنیٰ بعض لوگوں نے غلط سمجھا ہے۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ عرش پر رہتے ہیں، حالانکہ اس کا یہ معنیٰ نہیں کہ اللہ عرش پر رہتے ہیں بلکہ اس کا یہ معنیٰ ہے کہ اللہ کا عرش پر غلبہ ہے،اللہ کا عرش پر قبضہ ہے،اللہ کا عرش پر حکم چلتا ہے۔
عرش کا ذکر کرنے کی وجہ:
کسی بندے کے ذہن میں سوال آتا ہےکہ آسمان پر بھی تو خدا کا غلبہ ہے، زمین پر بھی خدا کا غلبہ ہے تو اس میں اہم بات کون سی تھی جو ﴿ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ﴾ فرمادیا؟
اس بات کا جواب سمجھانے کے لیے میں ایک مثال دیا کرتا ہوں کہ ایک لڑکے کے والد کے پاس سائیکل ہے۔ دوسرے کے والد کے پاس سائیکل بھی ہے اور موٹر سائیکل بھی ہے۔تیسرے کے والد کے پاس سائیکل بھی ہے، موٹر سائیکل بھی ہے اور کار بھی ہے۔ ان تینوں کی آپس میں اگر بحث ہو جائے تو ایک کہتا ہے کہ میرے باپ کے پاس سائیکل ہے۔ دوسرا کہتا ہے کہ میرے باپ کے پاس موٹر سائیکل ہے۔ تیسرا کہتا ہے کہ میرے ابو کے پاس کار ہے۔ اب بتاؤ! جس کے پاس کار ہے کیا اس کے پاس سائیکل یا موٹر سائیکل نہیں ہے؟سائیکل بھی ہے اور موٹر سائیکل بھی ہے لیکن وہ کہہ رہا ہے کہ میرے ابو کے پاس کار ہے، یہ سائیکل اور موٹر سائیکل کی بات نہیں کر رہا بلکہ یہ کار کی بات کر رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایسی چیز بتا رہا ہے جو دوسرے کے باپ کے پاس نہیں ہے۔
یہاں اللہ رب العزت سمجھا رہے ہیں کہ زمین کا مالک بھی میں ہوں لیکن ظاہری طور پر انسان کو ملک میں دے رکھی ہے، زمین کی حیثیت کیا ہے آسمان کی حیثیت کیا ہے؟ زمین تمہیں نظر آ رہی ہے اور آسمان تک تم جا نہیں سکتے لیکن آسمان نظر آ رہے ہیں۔ میں وہ خدا ہوں جس کا غلبہ اس عرش پر بھی ہے جس تک تمہاری رسائی کا تصور بھی نہیں! میری طاقت کے سامنے تم ٹھہر سکتے ہو؟ لیکن پھر بھی تم میرا تحمل دیکھو، میرا حلم دیکھو کہ میں تمہیں کچھ نہیں کہتا۔
سورج اور چاند کا مسخر ہونا:
﴿وَ سَخَّرَ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ ؕ﴾
اللہ نے سورج اور چاند کو مسخر فرمایا ہے۔ یہ اپنے وقت پر نکلتے ہیں اور اپنے وقت پر ڈوبتے ہیں۔ مجال ہے کہ یہ ہلکا سا دائیں بائیں ہوجائیں! بتاؤ اللہ کتنی قدرت اور طاقت والے ہیں۔
اللہ ہر جگہ پر ہے:
﴿ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ﴾
”پھر اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہوا“ اس کا معنی ضرور سمجھیں۔ میں یہ بات اس لیے عرض کر رہا ہوں کہ بسا اوقات بعض لوگ اس کے معنی کے متعلق غلط فہمی میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ ہمارا اھل السنۃ والجماعۃ کا نظریہ ہے کہ اللہ کی ذات ہر جگہ موجود ہے،غیر مقلدین کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ کی ذات عرش پر موجود ہے اور ہر جگہ پر موجود نہیں ہے۔
میں اس دفعہ رمضان المبارک میں دو دن کےلیے ملک بحرین گیا تو ایک ساتھی ملاقات کےلیے آیا جو پہلے ہمارا تھا لیکن اب مسلک بدل چکا تھا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ اللہ کی ذات کہاں پر ہے؟میں نے کہا: ہر جگہ پر ہے۔ مجھے کہنے لگا: ہماری دکان میں بھی ہے؟ العیاذ باللہ، میں نے کہا: رمضان کہاں پر ہے؟کہنے لگا: ہر جگہ۔ میں نے کہا: تمہاری دکان میں بھی ہے؟ تو چپ ہو گیا۔ میں نے کہا: بتاؤ! اب جواب نہیں آ رہا۔ میں نے کہا: جس طرح رمضان با برکت ہے خواہ بازار میں بھی ہو لیکن نظر نہیں آتا، اللہ ہر جگہ پر ہے لیکن نظر نہیں آتا۔ رمضان مبارک ہے اور جسم سے پاک ہے اسی طرح اللہ مبارک ہے اور جسم سے پاک ہے۔اس کا جسم سے تعلق ہی کیا ہے؟ مجھے کہنے لگا: اللہ ہر جگہ پر ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ اس نے کہا: اس کی دلیل کیا ہے؟ میں نے کہا: قرآن کریم میں پہلے پارے میں ہے:
﴿وَ لِلہِ الۡمَشۡرِقُ وَ الۡمَغۡرِبُ ٭ فَاَیۡنَمَا تُوَلُّوۡا فَثَمَّ وَجۡہُ اللہِ ؕ اِنَّ اللہَ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۱۱۵﴾﴾ 0F
البقرۃ 2: 115
مشرق بھی اللہ کا اور مغرب بھی اللہ کا، جدھر تم رخ کرو گے ادھر اللہ کی ذات موجود ہے۔
مجھے کہنے لگا: اس سے مراد اللہ کا علم ہے، اللہ کی قدرت ہے، اللہ کی ذات مراد نہیں ہے۔ میں نے کہا: یہ جو تمہاری دکان میں قرآن کا ترجمہ اور تفسیر ہے یہ میرے عالم کا ہے یا تمہارے عالم کا ہے؟ کہا: جی، ہمارے عالم کا ہے۔ اس تفسیر کا نام ”احسن البیان“ ہے جس کا ترجمہ محمد جونا گڑھی غیر مقلد نے کیا ہے۔میں نے کہا: اس کو اٹھاؤ اور دیکھو یہ کیا ترجمہ کرتا ہے؟اب اس نے ترجمہ کیا ہے:
”اور مشرق اور مغرب کا مالک اللہ ہی ہے۔ تم جدھر بھی منہ کرو ادھر ہی اللہ کا منہ ہے۔“ 1F
تفسیر احسن البیان: ص95
میں نے کہا: علم کا بھی منہ ہوتا ہے؟ قدرت کا بھی منہ ہوتا ہے؟ کہنے لگا: نہیں۔ میں نے کہا: منہ کس کا ہوتا ہے؟ کہتا ہے: ذات کا۔ میں نے کہا: یہی بات تو میں کہتا ہوں کہ جدھر رخ کرو گے وہاں اللہ کی ذات موجود ہے۔
غیر مقلدین کی چال:
جب یہ پھنستے ہیں تو پھر علماء کی بات کرتے ہیں اور جب نہیں پھنستے تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کرتے ہیں۔ وہ مجھے کہنے لگا: میں اپنے شیخ سے پوچھوں گا۔ میں نے کہا: شیخ سے نہ پوچھو، اللہ سے پوچھو! مجھے کہتا ہے: کیوں؟ میں نے کہا: بندہ ؛ عالم سے پوچھے تو مشرک ہوتا ہے تُو موحد ہے تُو خدا سے پوچھا کر! ہم امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے پوچھیں تو شرک ہے اور تم کسی مولوی سے پوچھو تو شرک نہیں ہے! مجھے کہتا ہے: اللہ کی بات ہم کیسے سمجھ سکتے ہیں؟اس پر میں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ہم کیسے سمجھ سکتے ہیں؟ قرآن اللہ کا ہے اور پڑھتے قاری سے ہیں، قرآن اللہ کا ہے اور سمجھتے مولوی سے ہیں، حدیث نبی کی ہے اور سمجھتے امام سے ہیں۔ میں نے کہا: اس میں شرک والی کون سی بات ہے؟
خیر میں سمجھا رہا تھا کہ اللہ کی ذات ہر جگہ موجود ہے۔
کفار کا بعث بعد الموت کا انکار:
﴿وَ اِنۡ تَعۡجَبۡ فَعَجَبٌ قَوۡلُہُمۡ ءَ اِذَا کُنَّا تُرٰبًا ءَ اِنَّا لَفِیۡ خَلۡقٍ جَدِیۡدٍ ۬ؕ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِرَبِّہِمۡ﴾
اے میرے پیغمبر! اگر آپ کو اس پر تعجب ہے کہ یہ لوگ آپ کی بات نہیں مانتے، آپ کے کھلے ہوئے معجزات دیکھنے کے باوجود انکار کرتے ہیں تو اس سے بھی زیادہ تعجب ان کی اس بات پر ہے کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب ہم مٹی بن جائیں گے تو کیا ہم از سرِ نو پیدا کیے جائیں گے؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟
ان لوگوں کی بات اتنی عجیب کیوں ہے؟ اس لیے کہ جب یہ کچھ بھی نہیں تھے تو خدا نے پیدا کر دیا، اب ان کا ڈیزائن موجود ہے تو اب ان کو پیدا کرنا کیا مشکل ہے؟ بھائی ایک بلڈنگ کا میٹریل بھی نہ ہو، بلڈنگ کا نقشہ بھی نہ ہو، بلڈنگ کا کچھ بھی نہ ہو وہ بلڈنگ بنانا آسان ہے اور پھر اس بلڈنگ کو گرا کر دوبارہ بنانا یہ تو اس سے بھی زیادہ آسان ہے! تو اللہ فرماتے ہیں کہ کتنا تعجب ہے ان پر کہ یہ کہتے ہیں کہ بوسیدہ ہڈیوں کو کون پیدا کرے گا؟ اللہ نے ایک مقام پر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا:
﴿قُلۡ یُحۡیِیۡہَا الَّذِیۡۤ اَنۡشَاَہَاۤ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ؕ﴾ 2F
یٰس 36: 79
اے پیغمبر! آپ ان کو بتائیں کہ جس خدا نے پہلے پیدا کیا تھا وہی خدا ان کو دوبارہ پیدا کریں گے۔
حضرت عزیر علیہ السلام کا واقعہ:
حضرت عزیر علیہ السلام نے ایک بار کہا تھا۔ قرآن کریم میں یہ واقعہ موجود ہے:
﴿اَوۡ کَالَّذِیۡ مَرَّ عَلٰی قَرۡیَۃٍ وَّ ہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوۡشِہَا ۚ قَالَ اَنّٰی یُحۡیٖ ہٰذِہِ اللہُ بَعۡدَ مَوۡتِہَا ۚ﴾ 3F
البقرۃ2: 259
عزیر علیہ السلام کا نام تو قرآن میں نہیں ہے۔ بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ اس سے مراد حضرت عزیر علیہ السلام ہیں ۔ آپ ایک بستی سے گزرے جو خدا کے عذاب کا شکار تھی یا معمول کے مطابق اس کی مدت گزر گئی اور وہ بستی گری پڑی تھی۔ عزیر علیہ السلام نے تعجب سے اللہ پاک سے عرض کیا: یا اللہ! یہ بستی ختم ہو گئی ہے، اب اس کو دوبارہ کیسے کھڑا کریں گے؟ عزیر علیہ السلام کے پاس روٹی تھی، انگور تھے، روٹی کے ٹکڑے لیے اور انگور کا سرکہ لیا اور اس کو بنایا جیسے سالن بناتے ہیں، یہ ان کے ہاتھ میں تھا،
﴿فَاَمَاتَہُ اللہُ مِائَۃَ عَامٍ﴾
خدا نے وہیں موت دے دی۔ اب روٹی پاس پڑی ہے اور عزیر علیہ السلام فوت ہو گئے۔
﴿فَاَمَاتَہُ اللہُ مِائَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہٗ﴾
سو سال کے بعد اللہ تعالیٰ عزیر علیہ السلام کو دنیا میں لائے۔ پوچھا:
﴿کَمۡ لَبِثۡتَ﴾
اے عزیر! آپ کتنا عرصہ ٹھہرے ہیں؟ کہا:
﴿لَبِثۡتُ یَوۡمًا اَوۡ بَعۡضَ یَوۡمٍ﴾
کہ یا اللہ! دن یا دن کا کچھ حصہ ٹھہرا ہوں۔ فرمایا:
﴿بَلۡ لَّبِثۡتَ مِائَۃَ عَامٍ﴾
نہیں، بلکہ آپ سو سال رہ کر آئے ہیں، آپ کو اندازہ نہیں۔
یہ عین ایمان ہے:
ساتھ ساتھ اس چیز کی بھی وضاحت کر دوں تاکہ کسی کو دھوکہ نہ لگے۔ وہ یہ کہ حضرت عزیر علیہ السلام کے تعجب کرنے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ان کو اللہ تعالیٰ کی قدرت پر یقین نہیں تھا، ان کو یقین تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ ایک ہوتا ہے عین الیقین۔ عین الیقین کا معنیٰ ہوتا ہے کہ آدمی دیکھے اور یقین آئے اور ایک ہوتا ہے ”بن دیکھے“۔ حضرت عزیر علیہ السلام اللہ کی بات پر یقین رکھتے تھے لیکن وہ چاہتے تھے کہ میں آنکھوں سے بھی دیکھوں اور یہ ایمان کے خلاف نہیں ہے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا تھا کہ اے اللہ! میرا دل چاہتا ہے کہ میں آپ کو دیکھوں! اب بتاؤ کہ کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ پر یقین نہیں تھا؟ (یقین تھا۔ سامعین) لیکن آپ فرما رہے تھے کہ اللہ! میرا جی چاہتا ہے کہ میں تجھے دیکھوں! تو یہ ایمان کے خلاف نہیں ہے۔
حضرت عزیر کے واقعہ سے بعض لوگوں کے استدلال کا جواب:
اس واقعہ سے بعض لوگوں نے استدلال کیا ہے کہ انبیاء علیہم السلام موت کے بعد زندہ نہیں ہوتے۔ ہمارا اھل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام موت کے بعد اپنی قبروں میں زندہ ہوتے ہیں۔
میں آپ سے ایک بات عرض کرتا ہوں کہ عقائد کے معاملہ میں جھجکا نہ کریں، سینہ تان کر بات کیا کریں،دلیری سے بات کیا کریں،ہم ہیں نا! پھر آپ کو کیا پریشانی ہے؟ پوری دنیا مطمئن ہو کر سوئی ہے کہ ہم موجود ہیں، الحمد للہ، اور یہ بات میں مذاق میں نہیں کہہ رہا، آپ دنیا کے کسی ملک میں جائیں گے یا جن کا سوشل میڈیا سے تعلق ہو تو وہ آپ کو بتائیں گے کہ ہم مسلک پر مطمئن ہیں، کیوں کہ ہمارا یہ خادم [مولانا محمد الیاس گھمن صاحب] زندہ ہے۔تمہیں ہماری محنت کا اندازہ نہیں ہے، اس لیے میں کبھی کبھی احساس دلانے کے لیے یہ بات کہتا ہوں۔ اللہ پاک ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
عقائد پر کمپرومائز نہ کریں!
ہمارا عقیدہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں۔ عقائد پر کوئی کمپرومائز نہیں۔ جو کمپرومائز کرتا ہے وہ ہمارے ساتھ نہ چلے، وہ کسی اور عالم کو تلاش کرے جس نے عقائد میں خلط ملط کرنا ہے، وہ کوئی اور پیر تلاش کرے، وہ ہمیں معاف کرے۔ ہمارے ساتھ وہ چلے جس نے خالص عقیدہ رکھنا ہے۔ خالص عقیدے پر خالص مدد آتی ہے، خالص دین پر خالص مدد آتی ہے، خالص عقیدے پر اللہ خالص جنت عطا فرماتے ہیں۔ تو خالص مال لینا ہے یا ملاوٹ والا؟ (خالص۔ سامعین) باطل الگ ہے اور ہم حق والے الگ ہیں۔ ہم اس دنیا میں باطل سے الگ ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ قیامت میں اللہ کریم ہمیں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رکھیں۔ (آمین)
اشکال کی وضاحت:
اب وہ لوگ یہ استدلال کرتے ہیں کہ عزیر علیہ السلام سو سال تک رہے۔ جب اللہ پوچھتے ہیں کہ آپ کتنا عرصہ رہے؟ تو جواب دیا:
﴿لَبِثۡتُ یَوۡمًا اَوۡ بَعۡضَ یَوۡمٍ﴾
کہ میں ایک دن یا ایک دن کا کچھ حصہ رہا۔
یہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر عزیر علیہ السلام زندہ ہوتے تو انہیں پتا چل جاتا کہ کتنا عرصہ ٹھہرا ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ زندہ نہیں تبھی تو پتا نہ چلا۔
ہمارا جواب:
میں نے کہا کہ میں پہلے آپ کے اس نظریے کی تردید قرآن سے کرتا ہوں۔ دیکھو! اصحابِ کہف سوئے تھے یا فوت ہو گئے تھے؟ (سوئے تھے۔ سامعین) فوت تو نہیں ہوئے تھے؟ (نہیں۔ سامعین) بتاؤ سویا ہوا زندہ ہوتا ہے یا مردہ؟ (زندہ ہوتا ہے۔ سامعین)
اصحابِ کہف کا واقعہ:
اصحابِ کہف کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ وہ جب اٹھے تو ان میں سے ایک نے پوچھا:
﴿کَمۡ لَبِثۡتُمۡ﴾
کہ تم لوگ کتنا عرصہ ٹھہرے ہو؟ تو انہوں نے جواب میں کہا تھا:
﴿لَبِثۡنَا یَوۡمًا اَوۡ بَعۡضَ یَوۡمٍ﴾
کہ ہم ایک دن یا ایک دن کا کچھ حصہ ٹھہرے ہیں۔
حضرت عزیر علیہ السلام نے فرمایا تھا
﴿لَبِثۡتُ یَوۡمًا اَوۡ بَعۡضَ یَوۡمٍ﴾
اور وہی جملہ اصحابِ کہف نے فرمایا کہ
﴿لَبِثۡنَا یَوۡمًا اَوۡ بَعۡضَ یَوۡمٍ﴾
کہ ایک دن یا دن کا کچھ حصہ۔ اب بتاؤ! کیا اصحابِ کہف زندہ نہیں تھے؟ (زندہ تھے۔ سامعین) پتا تو ان کو بھی نہیں چلا کہ کتنا عرصہ ٹھہرے رہے تو پھر ان کے متعلق بھی کہو کہ یہ زندہ نہیں تھے۔معلوم ہوا کہ پتا نہ چلنا اس بات کی دلیل نہیں کہ زندہ نہیں۔ بسا اوقات بندہ زندہ ہوتا ہے لیکن پتا نہیں چلتا۔
ایک عجیب نکتہ:
ایک اور عجیب نکتہ میں آپ کو پیش کرنے لگا ہوں جو آپ کے لیے سمجھنا آسان ہو گا اور بہت کم ہی یہ نکتہ آپ نے سنا ہو یا شاید کبھی بھی آپ نے نہ سنا ہو۔ اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
﴿وَ اِنَّ یَوۡمًا عِنۡدَ رَبِّکَ کَاَلۡفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوۡنَ ﴿۴۷﴾﴾ 4F
الحج22: 47
کہ قیامت کا ایک دن دنیا کے ہزار سال کے برابر ہے۔
اور یہاں کے سو سال ہوں تو پھر وہاں کا کچھ حصہ بنے گا۔ اللہ رب العزت نے عزیر علیہ السلام سے پوچھا:
﴿کَمۡ لَبِثۡتَ﴾
آپ کتنا عرصہ ٹھہرے ہیں؟ انہوں نے عرض کیا:
﴿لَبِثۡتُ یَوۡمًا اَوۡ بَعۡضَ یَوۡمٍ﴾
کہ ایک دن یا دن کا بعض حصہ۔ عزیر علیہ السلام کہاں سے آئے تھے؟ (وہاں سے۔ سامعین) اور اللہ پاک وہاں کا پوچھ رہے تھے یا یہاں کا؟ (یہاں کا۔ سامعین ) اللہ یہاں کا پوچھ رہے ہیں اور حضرت عزیر علیہ السلام وہاں کا بتا رہے ہیں، کیوں؟ اس لیے کہ ٹھہرے جو وہاں تھے تو بتایا بھی اسی جگہ کا۔ اللہ نے فرمایا کہ میں وہاں کا نہیں بلکہ یہاں کا پوچھ رہا ہوں۔ وہاں کا بعض یوم ہے اور یہاں کا مأۃ عام ہے، وہاں کا کچھ ہے اور یہاں کا سو سال ہے۔ اب بتاؤ! کوئی اختلاف ہے اس میں؟ (نہیں۔ سامعین ) کتنی آسان سی بات ہے۔
قدرتِ خداوندی کی دلیل:
میں بات یہ سمجھا رہا تھا کہ حضرت عزیر علیہ السلام کے قصے میں اللہ نے بتایا ہے کہ بندہ اگر اس دنیا سے چلا جائے تو میں اس کو اس دنیا میں واپس بھی لا سکتا ہوں اور حضرت عزیر علیہ السلام سے اللہ نے فرمایا کہ ذرا ہماری قدرت دیکھو!
﴿فَانۡظُرۡ اِلٰی طَعَامِکَ وَ شَرَابِکَ لَمۡ یَتَسَنَّہۡ﴾
کہ اپنے کھانے اور پانی کو دیکھو! سو سال گذرنے کے باوجود بالکل تازہ ہے، گلا سڑا نہیں۔
﴿وَ انۡظُرۡ اِلٰی حِمَارِکَ﴾
ذرا اپنے گدھے کو دیکھو جس پر سوار ہو کر آئے تھے۔ وہ گدھا بالکل گل سڑ گیا تھا۔ تو فرمایا:
﴿وَ انۡظُرۡ اِلَی الۡعِظَامِ کَیۡفَ نُنۡشِزُہَا ثُمَّ نَکۡسُوۡہَا لَحۡمًا ؕ﴾
دیکھو! ہم اس کی ہڈیاں کیسے جمع کرتے ہیں پھر اس پر کیسے گوشت چڑھاتے ہیں۔ تو یوں اللہ رب العزت نے اسے زندہ کر کے کھڑا کر دیا۔ فرمایا کہ اگر ہم چاہیں سو سال میں کھانا سالم رکھ لیں اور چاہیں تو گدھے کو ہڈیاں بنا کر پھر ان پر گوشت چڑھا کر یوں زندہ کریں۔ عزیر علیہ السلام نے اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھا ہے۔
تو اللہ اس سورت میں بھی فرما رہے ہیں کہ
﴿وَ اِنۡ تَعۡجَبۡ فَعَجَبٌ قَوۡلُہُمۡ ءَ اِذَا کُنَّا تُرٰبًا ءَ اِنَّا لَفِیۡ خَلۡقٍ جَدِیۡدٍ﴾
اے میرے پیغمبر!آپ کو اس بات پر تعجب ہے کہ یہ مانتے نہیں لیکن اس سے زیادہ تعجب اس بات پر ہے کہ یہ کہتے ہیں کہ جب ہم مٹی بن جائیں گے تو اللہ ہمیں دوبارہ کیسے زندہ کرے گا؟
اللہ تعالیٰ دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے... واقعہ:
صحیح بخاری میں ایک حدیث ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک آدمی کی موت کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنی اولاد سے کہا:
”فَإِنِّي لَمْ أَعْمَلْ خَيْرًا قَطُّ“
میں نے کبھی کوئی نیک کام نہیں کیا، ”فَإِذَا مُتُّ فَأَحْرِقُونِي“ جب میں مر جاؤں تو مجھے جلا دینا، میرے جسم کی ہڈیوں کو کوٹ کوٹ کر ریزہ ریزہ کرنا اور جس دن آندھی چلے تو میرے اس جسم کے ذروں کو بکھیر دینا، میں ڈرتا ہوں کہ مجھے عذاب نہ ہو۔ اس کی اولاد نے باپ کی وصیت پر عمل کیا، لاش کو جلایا اور اس کے جسم کے ذروں کو ہوا میں بکھیر دیا۔ حدیث میں ہے کہ
” فَجَمَعَهُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ “
اللہ عزوجل نے اسے جمع کیا، پوچھا:
”مَا حَمَلَكَ؟“
تم نے ایسے کیوں کیا؟ اس نے جواب دیا:
”مَخَافَتُكَ“
اللہ! میں نے یہ کام تیرے ڈر کی وجہ سے کیا۔ اللہ نے فرمایا: چلو میں نے تجھے معاف کر دیا۔ 5F
صحیح البخاری، رقم:3478
حکیم الامت کی تحقیق:
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی عجیب بات فرمائی ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ علماء نے اس حدیث پر بڑی لمبی چوڑی بحثیں کی ہیں کہ جب وہ اس کا قائل نہیں تھا تو مسلمان نہیں ہوا، جب مسلمان نہیں ہوا تو مغفرت کیسے ہوئی؟ حضرت نے فرمایا کہ وجہ یہ نہیں کہ قائل نہیں تھا بلکہ وہ قائل تھا لیکن جتنی انسان کی عقل ہو بندہ اتنا ہی مکلف ہوتا ہے، اس کا خیال یہ تھا کہ جسم ہو تو خدا عذاب دیتا ہے اور جب جسم نہ ہو تو خدا عذاب نہیں دیتا، اس لیے اس نے کہا کہ اللہ! میں نے تیرے ڈر کی وجہ سے ایسے کیا۔ چونکہ اس کی نیت ٹھیک تھی اس لیے اللہ نےفرمایا کہ جاؤ میں نے تمہیں معاف کیا۔
حضرت متکلمِ اسلام کے زمانہ طالب علمی کا واقعہ:
مجھے اچھی طرح یا د ہے، یہ زمانہ طالب علمی کی بات ہے، میں چوتھے سال میں جامعہ امدادیہ فیصل آباد میں پڑھتا تھا تومیں ایک بار 87 جنوبی سرگودھا اپنے گھر آیا۔ چوتھے سال میں آدمی کی کیا عمر ہوتی ہے! ہمارے ایک رشتہ دار تھے جو جرمنی سے آئے تھے، وہ کسی کے ہاتھ چڑھ گئے تھے۔ انہوں نے مجھ سے سوالات کیے۔ مجھے کہنے لگے: آپ کہتے ہیں مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ آدمی قبر میں جائے گا تو مٹی میں مل جائے گا، پھر دوبارہ زندہ ہو گا اور اس کو عذاب ہوگا۔ یہ بات تو اللہ کی شانِ عدل کے خلاف ہے۔ میں نے کہا: کیوں؟کہنے لگے کہ گناہ تو اس جسم نے کیے ہیں اور یہ مٹی ہو گیا ہے۔ اللہ دوبارہ جو جسم بنائیں گے وہ تو اور ہوگا، تو گناہ اِس جسم نے کیے ہیں اور عذاب دوسرے جسم کو مل رہا ہے یہ تو عدل کے خلاف ہے۔
میں نے کہا: اس طرح نہیں ہے، آپ بات سمجھے نہیں ہیں، یہ تب ہو گا جب پہلے والا جسم الگ ہو اور بعد والا جسم الگ ہو۔ ہم کہتے ہیں کہ پہلے والا جسم جس کو اللہ نے مٹی میں ملایا ہے وہی دوبارہ درست ہو گا، اللہ اسی کو دوبارہ پیدا فرمائیں گے اور عذاب بھی اسی جسم کو ہو گا۔لہٰذا یہ عدل کے خلاف نہیں ہے۔
آج کے دور کا گمراہ فرقہ اور مشرکین مکہ:
میں معذرت کے ساتھ کہتا ہوں۔ ایک لڑائی مسلمانوں کی مشرکینِ مکہ سےتھی اور ایک لڑائی ہماری آج کے لوگوں سے ہے۔ ہم فتویٰ تو نہیں لگاتے نہ شرک کا نہ کفر کا لیکن اتنی بات ضرور کہتے ہیں کہ یہ ضلالت اور گمراہی سے خالی نہیں ہیں۔ مشرک کہتے تھے:
﴿مَنۡ یُّحۡیِ الۡعِظَامَ وَ ہِیَ رَمِیۡمٌ ﴿۷۸﴾﴾ 6F
یٰس36: 78
کہ بوسیدہ ہڈیاں دوبارہ کون زندہ کرے گا؟
اور یہ بھی کہتے ہیں کہ جب ایک آدمی کو جانور نے کھا لیا اور وہ جانور کے پیٹ سے نکل گیا تو اس کو عذاب کیسے ہو گا؟ایک آدمی دریا میں گرا اور اس کا وجود پانی میں تحلیل ہو گیا تو اس کو عذاب کیسے ہو گا؟ایک آدمی کو آگ میں جلایا گیا اور اس کا جسم راکھ ہو کر بکھر گیا تو اس کو عذاب کیسے ہو گا؟
آج یہ اشکال وہ لوگ کرتے ہیں جو اپنے آپ کو مسلمان کہلواتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیا اس قبر میں عذاب وثواب ہوگا؟
ہم نے کہا: خدا تمہیں عقل عطا فرمائے۔ مشرک بھی یہی کہتا تھا کہ جب یہ ہڈی بوسیدہ ہو گئی تو خدا اسے پیدا کیسے کرے گا؟ اور تم بھی یہی کہتے ہو کہ جب یہ جسم مٹی بن گیاتو خدا اس کو عذاب کیسے دے گا؟ پانی میں گَل گیا تو عذاب کیسے دے گا؟یا ہوا میں بکھر گیا تو خدا اس کو عذاب کیسے دے گا؟جانور نے کھا لیا تو خدا عذاب کیسے دے گا؟ہم نے کہا: بھائی! عذاب ہم نےنہیں دینا، عذاب خدا نے دینا ہے۔ وہ صمدبھی ہے اور قدیربھی ہے۔اب بتاؤ! کون ان لوگوں کو سمجھائے؟ آپ پھر بھی کہتے ہیں کہ وہ ہمارے ہیں۔ پتا نہیں آپ کیسے ”اپنا“ کہہ لیتے ہیں یا یہ بات ہمیں نہیں سمجھ آ رہی یا آپ کو زیادہ سمجھ آ گئی ہے۔
اسی قبر میں مردے کو عذاب وثواب ہوتا ہے جہاں آپ اسے دفن کرتے ہیں۔ ہم یہ مانتے ہیں کہ جو نیک ہے اس کی روح علیین میں ہے اور جو کافر ہے اس کی روح سجین میں ہے لیکن عذاب اسی جسم کو ہوتا ہے۔ آپ لوگ یہ بتائیں کہ عذاب اللہ نے دینا ہے یا ہم نے دینا ہے؟ (اللہ نے دینا ہے۔ سامعین) تو کیا اللہ عذاب دینے میں سارے جسم کے محتاج ہیں کہ سارا جسم سالم ہو تو پھر دے سکتےہیں اور اگر جسم ذروں میں بکھر جائے تو عذاب نہیں دے سکتے؟ آپ کیسی بات کرتے ہیں؟ جسم کے ذرے الگ الگ ہوں تو اللہ پھر بھی عذاب دے سکتے ہیں۔
چھپکلی کی مثال:
ہم نے دنیا میں چھپکلی کو تڑپتے دیکھا ہے، اس کی دُم کہیں ہوتی ہے اوردھڑ کہیں اور ہوتا ہے، کچھ وقت وہ دُم بھی تڑپتی رہتی ہے یا نہیں؟ (تڑپتی ہے۔ سامعین) کچھ وقت تڑپنا تو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ اس لیے یہ کیسی باتیں تم کہہ دیتے ہو کہ اللہ عذاب کیسے دے گا؟ اللہ ہمیں یہ باتیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
عذاب اور ثواب اسی قبر میں ہے:
اسی قبر میں عذاب ہے جہاں مردے کو دفن کیا ہے، اسی قبر میں ثواب ہے جہاں مردے کو دفن کیا ہے۔ ہاں روح وہاں پر ہے اور جسم یہاں پر ہے، روح اور جسم کے تعلق سے ثواب اور عذاب ہوتا ہے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے کہ جس طرح آدمی سویا ہوا ہو، آپ اس کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہوں اور اچانک وہ ہل جائے آپ اسے کہتے ہیں کہ بھائی! کیا ہوا تجھے؟ وہ کہے کہ مجھے خواب آیا ہے کہ مجھے فلاں شخص نے ڈنڈا مارا ہے۔ آپ اس سے کہیں کہ تو جھوٹ بولتا ہے، تو ہمارے پاس سویا ہوا ہے، کس نے تجھے ڈنڈا مارا ہے؟ اب بتاؤ! یہ سونے والا سچ کہہ رہا ہے یا نہیں؟ (سچ کہہ رہا ہے۔ سامعین) کیوں؟ اس لیے کہ یہ ڈنڈا اس کی روح کو لگا ہے اور جسم محسوس کر رہا ہے، ہمیں نظر نہیں آ رہا۔ تو جس طرح سونے والے کو لگ رہا ہے لیکن ہمیں نظر نہیں آ رہا اسی طرح قبر والے کو بھی لگ رہا ہے لیکن ہمیں یہ بھی نظر نہیں آ رہا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"فَيَصِيْحُ صَيْحَةً يَسْمَعُهُ الْخَلْقُ غَيْرَ الثَّقَلَيْنِ." 7F
مسنداحمد:ج11 ص183 رقم الحدیث 13381
اس قبر میں جو عذاب ہوتا ہے اسے جن و انس کے علاوہ ہر مخلوق سنتی ہے۔
دوسری روایت میں ہے:
"لَوْلَا أَنْ لَا تَدَافَنُوْا لَدَعَوْتُ اللهَ أَنْ يُسْمِعَكُمْ عَذَابَ الْقَبْر." 8F
مسنداحمد:ج10 ص496 رقم الحدیث 12491
کہ میں اس لیے تمہیں عذاب قبر دکھائے جانے کی دعا نہیں کرتا کہ اگر تمہیں نظر آ گیا تو تم اپنے مردے دفن کرنا چھو ڑ دو گے۔
اور ایک حدیث مبارک میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خچر پر سوار ہو کر جا رہے تھے تو خچر بدکا۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ وہاں کچھ قبریں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کسی کو معلوم ہے کہ یہ کس کی قبریں ہیں؟ایک بندے نے عرض کیا: جی ہاں! میں ان جانتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ لوگ کب مرے تھے؟ اس آدمی نے عرض کیا: یہ لوگ زمانہ جاہلیت میں مرے تھے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان لوگوں کو ان قبروں میں عذاب ہو رہا ہے۔ 9F
صحیح مسلم، رقم:2867
اب سوال یہ ہےکہ یہ خچر بدکا تھا تو کیاعلیین وسجین سے گزر رہا تھا یا اسی قبرستان سے گزر رہا تھا؟ (اسی قبرستان سے۔ سامعین) اگرعذاب وہاں ہو رہا تھا تو خچر یہاں سے کیسے بدکا؟ اتنی دور سے خچر نے کیسے سن لیا؟ یہ بات سمجھ میں آ رہی ہے؟ (جی ہاں۔ سامعین) معلوم ہوا کہ عذاب اصل تو سجین میں روح کو ہو رہا تھا لیکن روح کے تعلق سے اسی قبر میں پڑے جسم کو بھی ہو رہا تھا جس کو خچر سن کر بدکا تھا۔
ثواب و عذابِ قبر پر اشکال کا جواب:
بعض اشکال ایسے ہوتے ہیں جو بڑے وزنی معلوم ہوتے ہیں، اس لیے ان کو حل کرنا چاہیے۔ ایک شخص نے مجھ سے سوال کیا کہ ہمارے پاس قبرستان میں کتنی قبریں ایسی ہیں کہ وہاں سے ہمارے جانور گزرتے رہتے ہیں لیکن وہ تو کبھی نہیں بدکے۔ اگر اسی قبر میں عذاب ہوتا ہے تو جانور آج کیوں نہیں بدکتے؟
میں جواب کو سمجھانے کے لیے دو مثالیں دیتا ہوں۔
[1]: میں نے کہا: ہمارا گھوڑا جس نے ریل گاڑی کو نہیں دیکھا اور اچانک دیکھے تو بدکتا ہے کہ نہیں؟(بدکتا ہے۔ سامعین) اور جن کے گھوڑے ریل گاڑی کی پٹڑی کی ساتھ رہتے ہیں کبھی وہ بھی بدکے ہیں؟ (نہیں۔ سامعین)
[2]: ہم اچانک کبھی ایسی جگہ پر جا کر سوئیں جہاں سے ریل گزرتی ہے تو بتاؤ کہ وہاں نیند آتی ہے؟ (نہیں۔ سامعین) اور جن کے گھر ریل کی پٹڑی کے ساتھ ہیں ان کی آنکھ ہی نہیں کھلتی۔ میں نے کہا: بھائی! یہ گدھے اور خچر تو روزانہ ان قبرستانوں میں عذاب دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں تو یہ کیسے بدکیں گے؟ کبھی کبھار ہو تو بدکیں، یہ روزانہ دیکھیں تو بدکیں گے کیسے؟
انسان کی حفاظت کا انتظام:
﴿لَہٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنۡۢ بَیۡنِ یَدَیۡہِ وَ مِنۡ خَلۡفِہٖ یَحۡفَظُوۡنَہٗ مِنۡ اَمۡرِ اللہِ ؕ﴾
اللہ رب العزت اپنی شانِ کریمی بیان فرما رہے ہیں۔ فرمایا: ہم نے انسان کے آگے اور پیچھے ایسے فرشتے متعین کر دیے ہیں جو ہر وقت انسان کی حفاظت کر رہے ہیں۔ خدا کی کتنی شان کریمی ہے اور ہمیں نظر ہی نہیں آ رہی۔
روح المعانی میں علامہ آلوسی بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کے تحت لکھا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ آدمی کے دائیں اور بائیں ہر وقت فرشتے متعین ہیں جو گڑھے میں نہیں گرنے دیتے، حادثات نہیں ہونے دیتے اور جب اللہ کسی بندے کو تکلیف دینے کا فیصلہ فرماتے ہیں تو پھر فرشتے ہٹا لیے جاتے ہیں اور بندے پر تکلیف آ جاتی ہے۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس سے بھی عجیب بات فرماتے ہیں کہ فرشتے انسان پر متعین ہیں جو اس کی حفاظت کرتے ہیں حتیٰ کہ گناہوں سے بھی اس کی حفاظت کرتے ہیں اور اگر یہ گناہ کر بھی لیتا ہے تو پھر کچھ دیر کے لیے نہیں لکھتے تاکہ یہ توبہ کر کے اسے ختم کر لے اور جب یہ توبہ کر کے بھی معاف نہیں کرواتا تو پھر آخر ان کو گناہ لکھنا پڑتا ہے تولکھ دیتے ہیں۔
حضرت کعب احبار رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر اللہ رب ا لعزت نے انسان کی حفاظت کے لیے فرشتے متعین نہ کیے ہوتے تو جنات انسان کا جینا مشکل کر دیتے۔
حق اور باطل کی مثال:
﴿اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَسَالَتۡ اَوۡدِیَۃٌۢ بِقَدَرِہَا فَاحۡتَمَلَ السَّیۡلُ زَبَدًا رَّابِیًا ؕ﴾
اللہ تعالیٰ نے اس میں حق اور باطل کی مثال بیان فرمائی ہے۔ اللہ فرماتے ہیں کہ حق اور باطل کی مثال ایسی ہے جیسے بارش برستی ہے تو وادیاں بہہ پڑتی ہیں،اس میں ناکارہ چیز یعنی کچرا بھی ہوتا ہے اور اس میں کام کی چیز یعنی پانی بھی ہوتا ہے ، کچرا اور جھاگ اوپر ہوتا ہے تو بندہ سمجھتا ہے کہ جھاگ بہت زیادہ ہے لیکن کچھ دیر کے بعد جب پانی تھمتا ہے تو جھاگ ختم ہو جاتی ہے اور پانی جس سے سبزہ اگنا ہوتا ہے وہ نیچے رہ جاتا ہے۔ ایسے ہی باطل کا طوفان آتا ہے تو جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے، پھر حق نیچے سے ابھر آتا ہے۔
ہدایت ملنے کی دو صورتیں:
﴿اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ تَطۡمَئِنُّ قُلُوۡبُہُمۡ بِذِکۡرِ اللہِ ؕ اَلَا بِذِکۡرِ اللہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ ﴿ؕ۲۸﴾﴾
دنیا میں دو قسم کے لوگ ہیں اللہ کی ہدایت کا نظام ایسا ہے کہ کبھی بندہ محنت کرتا ہے تو اسے ہدایت مل جاتی ہے اور کبھی بندہ محنت نہیں کرتا بلکہ اللہ اسے ویسے ہی چن لیتے ہیں۔ کبھی نمازیں پڑھ رہا ہے، روزے رکھ رہا ہے تواللہ مغفرت فرما دیتے ہیں اور کبھی اللہ اس کی مغفرت کا ایسا بہانہ تلاش کرتے ہیں کہ بندے کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ اللہ معافی کا انتظام فرما لیتے ہیں۔
میں اس پر کئی واقعات پیش کر سکتا ہوں لیکن ابھی صرف دو واقعے آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ ایک گزشتہ امت کا اور ایک اس امت کا۔
گزشتہ امت میں بنی اسرائیل کی ایک بدکردار عورت تھی۔ راستے میں ایک کنویں سے اس کا گزر ہوا۔ کنویں کے قریب ایک کتا پانی نہ ملنے کی وجہ سے پیاس سے سسک رہا تھا۔ عورت زانیہ ہے،عورت فاحشہ ہے، عورت بدکردار ہے۔ اس عورت نے دوپٹے کو پھاڑا ، اس سے ڈول کی رسی بنا کر کنویں میں اتارا اور اس سے پانی نکال کر اس کتے کو پلایا۔ اس عمل کی وجہ سے اللہ نے اس عورت کی بخشش فرما دی۔ 10F
صحیح البخاری، رقم: 3321
فضائل درود شریف حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ کا رسالہ ہے۔ میں ان حضرات سے کہتا ہوں جو تبلیغی جماعت سے وابستہ ہیں کہ اس فضائلِ اعمال کی تعلیم کرائیں جس میں فضائل درود شریف موجود ہے۔ بعض ناشروں نے فضائلِ درود شریف کو الگ کر دیا ہے اور باقی فضائل اعمال کو اکٹھا چھاپ دیا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ فضائل درود شریف ٹھیک تھا تو الگ کیوں کیا ہے؟
میں نے کہا: حضرت شیخ نے لکھا ہے لیکن دکانداروں نے الگ کیا ہے۔ فضائلِ نماز حضرت شیخ زکریا رحمۃ اللہ علیہ نے لکھی، فضائلِ قرآن حضرت شیخ زکریا رحمۃ اللہ علیہ نے لکھی،فضائلِ رمضان حضرت شیخ زکریا رحمۃ اللہ علیہ نے لکھی، فضائلِ درود بھی حضرت شیخ زکریا رحمۃ اللہ علیہ نے ہی لکھی۔ یہ سارے رسالے حضرت شیخ کے ہیں۔ آپ نے صرف ایک ہی رسالے کو الگ کر دیا اور باقیوں کو اکٹھے کر دیا، یہ کیوں کیا؟
خیر میں جو واقعہ سنا رہا تھا وہ فضائل درود شریف میں حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک خاتون حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ کہنے لگی کہ میری بیٹی کا انتقال ہو گیا ہے اور میری یہ خواہش ہے کہ میں اس کو خواب میں دیکھوں۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ایسا کرو کہ عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد چار رکعت نفل نماز پڑھنا اور ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ کےبعد الھکم التکاثر پڑھنا اور اس کے بعد لیٹ جانا۔ سونے تک حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر درود پڑھتی رہنا۔
اس عورت نے یہی کام کیا۔ خواب میں کیا دیکھتی ہے کہ اس کی بیٹی نہایت سخت عذاب میں مبتلا ہے۔ تارکول کا لباس پہنا ہوا ہے۔ دونوں ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ پاؤں میں آگ کی زنجیر ہے۔ وہ عورت صبح اٹھی تو بہت پریشان تھی۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور خواب کا یہ ماجرا انہیں سنایا۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ بیٹی کی طرف سے صدقہ کرو، شاید اللہ رب ا لعزت تیرے صدقے کی وجہ سے تیری بیٹی کو معاف فرما دے گا۔
اگلے دن حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے خود خواب دیکھا کہ جنت کا ایک حسین باغ ہے جس میں ایک اونچے تخت پر ایک نہایت خوبصورت لڑکی بیٹھی ہوئی ہے۔ اس لڑکی نے حسن بصری سے کہاکیا آپ نے مجھے پہچانا؟ حسن بصری فرمانے لگے کہ میں نے تو تمہیں نہیں پہچانا۔ وہ لڑکی کہنے لگی کہ میں وہی لڑکی ہوں جس کی ماں کو آپ نے درود شریف پڑھنے کا حکم دیا تھا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ تمہاری ماں میرے پاس آئی تھی اس نے تو بتایا تھا کہ تمہارا حال خراب ہے۔
لڑکی کہنے لگی کہ میری حالت وہی تھی جو میری ماں نے آپ کو بتائی تھی۔ پوچھا کہ تمہاری حالت درست کیسے ہوئی؟ کہنے لگی کہ ہم ستر ہزار آدمی اسی عذاب میں مبتلا تھے کہ ایک نیک صالح بزرگ کا گزر ہمارے قبرستان پر ہوا، انہوں نے ایک دفعہ درود شریف پڑھ کر اس کا ثواب ہم سب کو پہنچا دیا۔ اللہ تعالیٰ کے حضور وہ درود شریف ایسا قبول ہوا کہ اللہ نے اس کی برکت سے ہم سب کو اس عذاب سے آزاد کر دیا۔11F
فضائل درود شریف: ص170، ص171
یہ درود پاک کی فضیلت ہے۔ ایک مرتبہ آپ بھی درود پاک پڑھ لیں:
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ•
ہم بھی دعا کرتے ہیں یا اللہ جو درود پاک پڑھا ہے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت تک آنے والے جتنے مسلمان ہیں، اللہ اس کا ثواب ان سب کو عطا فرما۔
اللہ سے مانگنے میں بخل نہیں کرنا چاہیے:
ہم مانگنے میں کیوں بخل کرتے ہیں! دینا اللہ نے ہے، ہم نے تھوڑی دینا ہے، آپ اللہ کی شان کے مطابق مانگا کریں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ چھوٹا سا درود ہے اس کا ثواب کس کس کو دیں گے؟ یہ ہمارا کام تھوڑی ہے، یہ اللہ کا خزانہ ہے، اللہ کی شان کے مطابق مانگا کرو! ہمارے درود کی وجہ سے ہمارا دشمن بھی بخشا جائے تو ہمیں کوئی تکلیف ہے؟ (سامعین۔ نہیں) ہمیں خوش ہونا چاہیے۔ہمیں گالیاں دینے والا بخشا جائے ہمیں خوش ہونا چاہیے، ہماری غیبت کرنے والا بخشا جائے ہمیں خوش ہونا چاہیے، ہمارے راستے میں روڑے اٹکانے والا بخشا جائے ہمیں خوش ہونا چاہیے۔کسی کے جہنم میں جانے سے ہمارا کیا فائدہ ہے؟ اللہ پاک ہر مسلمان کو جنت کی نعمت عطا فرمائے اور جو کفار زندہ ہیں اللہ ان کو ہدایت کی دولت عطا فرمائے۔ (آمین)
منکرین رسالت کی تردید:
﴿وَ یَقُوۡلُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَسۡتَ مُرۡسَلًا ؕ قُلۡ کَفٰی بِاللہِ شَہِیۡدًۢا بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنَکُمۡ ۙ وَ مَنۡ عِنۡدَہٗ عِلۡمُ الۡکِتٰبِ ﴿٪۴۳﴾﴾
اللہ فرماتے ہیں کہ اتنے دلائل کے باوجود کافر اب بھی کہتے ہیں کہ تو پیغمبر نہیں ہے۔ اےمیرے پیغمبر! آپ ان سے زیادہ بحث نہ کریں، بس چھوٹی سی بات ان سے کہہ دیں۔ وہ بات کیا ہے؟
﴿قُلۡ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًۢا بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنَکُمۡ ۙ وَ مَنۡ عِنۡدَہٗ عِلۡمُ الۡکِتٰبِ ﴿٪۴۳﴾﴾div>
آپ فرما دیا کریں کہ میری نبوت پر دو قسم کی دلیلیں ہیں؛ دلائلِ نقلیہ اور دلائلِ عقلیہ۔ دلائلِ عقلیہ معجزات ہیں اور دلائلِ نقلیہ آسمانی کتابیں ہیں۔ میری نبوت پر یقین نہیں ہے تو بتاؤ! میرے اشارے سے چاند کیسے ٹوٹا تھا؟ میری نبوت پر یقین نہیں ہے تو بتاؤ زہر تم نے کھلایا میں کیسے بچا ہوں؟ تین سو تیرہ کو فتح کیسے ملی ہے؟یہ میری نبوت پر دلائل ہیں اور اگر پھر بھی تم نہیں مانتے تو جاؤ تورات پڑھ لو، جاؤ انجیل پڑھ لو، جاؤ زبور پڑھ لو، آسمانی کتابوں کے علماء سے پوچھو! تمہیں وہ بتائیں گے کہ میری نبوت برحق ہے یا نہیں؟
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر دلائلِ عقلیہ بھی ہیں اور دلائلِ نقلیہ بھی ہیں۔ وہ نہیں مانتا جس کے پاس عقل نہیں ہے یا وہ نہیں مانتا جس کے پاس کتاب نہیں ہے۔اللہ کا کرم ہے کہ اللہ نے مسلمان کو عقل بھی دی ہے اور اللہ نے مسلمان کو آسمانی کتب کا علم بھی دیا ہے۔ اللہ ہم سب کو اس نعمت کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ( آمین)
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․