سورۃ ابراہیم

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ ابراہیم
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿الٓرٰ ۟ کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ اِلَیۡکَ لِتُخۡرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ۬ۙ بِاِذۡنِ رَبِّہِمۡ اِلٰی صِرَاطِ الۡعَزِیۡزِ الۡحَمِیۡدِ ۙ﴿۱﴾﴾
سورت کا تعارف:
سورۃ ابراہیم مکی سورۃ ہے، اس میں سات رکوع اور بانوے آیات ہیں۔ سورۃ ابراہیم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تذکرہ ہے اور ان کی دعاؤں کا ذکر ہے اس لیے اس مناسبت سے اس سورۃ کا نام ”ابراہیم“ رکھا گیا ہے۔
مکہ مکرمہ میں زیادہ محنت عقائد پر ہوئی ہے اور مدینہ میں زیادہ تر احکام نازل ہوئے ہیں اور عقائد میں سے سب سے اہم پہلا عقیدہ توحید ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی دعوتِ توحید میں گزری ہے اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ توحید کا تذکرہ ہو اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر نہ ہو۔ جب سورۃ میں توحید کے مضامین بکثرت ہوں گے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تذکرے بھی ضرور ہوں گے۔
﴿الٓرٰ﴾․․․ اس سورۃ کو الف، لام، را سے شروع کیا ہے اور الف، لام، را حروفِ مقطعات میں سے ہیں۔ مقطعات یہ مقطعۃ کی جمع ہے، مقطعۃ یہ قطع سے بنا ہے اور قطع کا معنی ہوتا ”کاٹنا“ چونکہ ان حروف کو کاٹ کاٹ کر پڑھتے ہیں الف․․․ لام․․․ را ․․․ اس وجہ سے ان کو مقطعات کہا گیا ہے۔ ان حروف کا معنی اللہ کی ذات کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ اگر اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے سامنے بیان نہیں فرمایا۔ جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں بتایا تو ہمیں بھی حق نہیں ہے کہ ہم اس کی کھود کرید کریں، اس لیے کہتے ہیں کہ الف، لام، را حروفِ متَشابہات میں سے ہیں اور متَشابہات جمع ہے متَشابہ کی۔ متَشابہ یہ اشتباہ سے بنا ہے، اشتبا ہ کا مطلب کہ جس کا معنی مشتبہ ہو، جس کا معنی معلوم نہ ہو، اس کو متَشابہات کہتے ہیں۔
متَشابہات کی اقسام:
متَشابہات کی دو قسمیں ہیں:
1: جس کا معنی معلوم ہو اور مراد معلوم نہ ہو۔
2: جس کا معنی بھی معلوم نہ ہو اور مراد بھی معلوم نہ ہو۔
• جس کا معنی معلوم ہو لیکن مراد غیر معلوم ہو جیسے حدیث مبارک میں ہے:
"يَدُ اللهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ." 12F
المستدرک علی الصحیحین للحاکم:ج1 ص316 رقم الحدیث 399
اللہ کا ”ید“ جماعت پر ہے۔
اب ”ید“ کا معنی تو معلوم ہے کہ عربی میں اس کا معنی ہاتھ ہے لیکن یہاں ”ید“ سے مراد کیا ہے؟ یہ ہمیں معلوم نہیں ہے ۔
• اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام سے فرمایا:
﴿وَ اصۡنَعِ الۡفُلۡکَ بِاَعۡیُنِنَا﴾ 13F
ھود11: 37
”اعین“ جمع ہے عین کی۔ عین کا معنی عربی زبان میں آنکھ ہے لیکن یہاں عین سے مراد کیا ہے یہ اللہ ہی جانتے ہیں۔ اس کو کہتے ہیں کہ معنی معلوم ہو اور مراد غیر معلوم ہو۔
• قرآن کریم میں ہے:
﴿یَوۡمَ یُکۡشَفُ عَنۡ سَاقٍ﴾ 14F
القلم68: 42
جب قیامت کے دن ساق سے پردہ ہٹا دیا جائے گا۔
اب ”ساق“ کا معنی پنڈلی یہ تو ہمیں معلوم ہے لیکن جب اللہ کے لیے لفظ ”ساق“ آئے تو اس وقت معنی کیا ہوتا ہے؟ یہ ہمیں معلوم نہیں ہے۔ اسے معلوم المعنی اور غیر معلوم المراد کہتے ہیں۔
بالکل اسی طرح
”اَلرَّحۡمٰنُ عَلَی الۡعَرۡشِ اسۡتَوٰی ﴿۵﴾“
15Fہے۔
طٰہٰ 20: 5
”استویٰ“ کا معنی بھی معلوم ہے۔ ”علیٰ“ کا معنی بھی معلوم ہے اور ”عرش“ کا معنی بھی معلوم ہے لیکن جب یہ اللہ کےلیے کہاجائے تو اس وقت اس کامعنی کیا ہوتا ہے یہ ہمیں معلوم نہیں ہے۔ اسے معلوم المعنی اور غیر معلوم المراد کہتے ہیں۔
اور متَشابہ کی ایک قسم غیر معلوم المعنی غیر معلوم المراد بھی ہے کہ ان کا لغوی معنی بھی معلوم نہیں اور یہ بھی معلوم نہیں کہ ان کی کیا مراد ہے! جیسے ﴿الٓرٰ﴾ الف․․․ لام․․․ را ․․․ کا معنی اور مراد دونوں معلوم نہیں۔ اس لیے اس کے معنی کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے۔ بعض حضرات کو یہ عادت ہوتی ہے کہ ایسی باریک باتیں پیش کرتے رہتے ہیں اور لوگ کہتے ہیں کہ جی فلاں تو بہت بڑا محقق ہے، دیکھو کیسے کیسے معنی بیان کیے ہیں! تو جس معنی کے بیان کرنے کی اللہ رب العزت اجازت نہیں دیتے آپ اس کو کیوں بیا ن کرتے ہیں؟ قرآن کریم میں ہے:
﴿ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ مِنۡہُ اٰیٰتٌ مُّحۡکَمٰتٌ ہُنَّ اُمُّ الۡکِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ ؕ﴾
وہ اللہ ہی ہے جس نے قرآن مجید کو آپ پر نازل کیا ہے، اس میں بعض آیات محکمات ہیں جو کہ ام الکتاب ہیں یعنی اصل اصول یہی آیات ہیں جن کے معانی اور مفہوم میں کسی قسم کا اشتباہ یا التباس نہیں ہوتا، اور بعض آیات متَشابہات ہیں۔
﴿فَاَمَّا الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ زَیۡغٌ فَیَتَّبِعُوۡنَ مَا تَشَابَہَ مِنۡہُ ابۡتِغَآءَ الۡفِتۡنَۃِ وَ ابۡتِغَآءَ تَاۡوِیۡلِہٖ﴾
جن لوگوں کے دل میں کجی اور ٹیڑھ پن ہے وہ فتنہ پھیلانے کے لیے ان متَشابہات کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور ان کی تاویلات کرنے میں لگے رہتے ہیں۔
﴿وَ مَا یَعۡلَمُ تَاۡوِیۡلَہٗۤ اِلَّا اللہُ ؔ وَ الرّٰسِخُوۡنَ فِی الۡعِلۡمِ یَقُوۡلُوۡنَ اٰمَنَّا بِہٖ ۙ کُلٌّ مِّنۡ عِنۡدِ رَبِّنَا ۚ وَ مَا یَذَّکَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ ﴿۷﴾﴾ 16F
آل عمران3: 7
حالانکہ ان آیات کا صحیح صحیح مطلب اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا، اور جو لوگ راسخ فی العلم ہیں وہ کہتے ہیں
”اٰمَنَّا بِہٖ“
کہ ہم ان پر ایمان لے آئے ہیں، یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہے اور نصیحت صرف عقلمند لوگ ہی حاصل کرتے ہیں۔
اس لیے یہاں پر اپنی گردن کو جھکا دینا چاہیے۔ اللہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ تمہارے علم کی طاقت اتنی ہے کہ تم ایک الف کا معنی نہیں جانتے تو پورے قرآن کا معنی تم کیا سمجھو گے! اپنی اوقات دیکھو الف، لام،را کا معنی تمہیں نہیں آتا اور بحث کبھی میرے نبی سے ہے اور کبھی میرے قرآن سے ہے۔
کتاب کے نازل کرنے کا مقصد:
﴿کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ اِلَیۡکَ لِتُخۡرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ﴾
اے پیغمبر! ہم نے آپ کی طرف قرآن کو نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو ظلمات سے نور کی طرف نکالیں۔
”ظلمات“ سے مراد کفر، شرک اور بدعات کے اندھیرے ہیں اور ”نور“ سے مراد توحید کی، سنت کی اور اعمال حسنہ کی روشنی ہے۔ آپ یہاں ایک نکتہ سمجھیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ؛ کفر اور شرک کے لیے لفظ ”ظلمات“ جمع لائے ہیں اور توحید و سنت کے لیے لفظ ”نور“ مفرد لائے ہیں یہ سمجھانے کے لیے کہ کفر کی کئی قسمیں ہوتی ہیں اس لیے ظلمات کو جمع لائے اور نور کا لفظ مفرد لائے یہ بتانے کے لیے کہ ایمان ایک ہی ہوتا ہے، بدعات کی کئی قسمیں ہوتی ہیں لیکن سنت کی قسمیں نہیں ہوتیں سنت ہر علاقہ میں ایک ہی ہوتی ہے۔ مثلاً سونے کا جو سنت طریقہ ہے وہی سرگودھا پاکستا ن میں ہے، وہی سونے کا طریقہ امریکہ میں ہے، وہی سعودی عرب میں ہے جبکہ بدعات کی کئی قسمیں ہیں، ہر علاقہ کی بدعت الگ ہوتی ہے۔
سنت اور بدعت کی مثال:
گندم کی بھی فصل ہوتی ہے اور چاول کی بھی فصل ہوتی ہے، ہم گندم بھی کاشت کرتے ہیں اور چاول بھی کاشت کرتے ہیں، ان فصلوں کے ساتھ ساتھ جڑی بوٹیاں بھی ہوتی ہیں جو گندم اورچاول کی فصل کو خراب کرتی ہیں، اب کھیت میں جڑی بوٹیوں کی تو کئی قسمیں ہوتی ہیں لیکن گندم اور چاول کی کئی قسمیں نہیں ہوتیں، تو بدعات کی کئی قسمیں ہوتی ہیں لیکن سنت کی کئی قسمیں نہیں ہوتیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ کفر اور شرک کو ختم کرنے کے لیے توحید اور سنت کی روشنی کو لانا ہو گا، اسی طرح بدعات کو ختم کرنے کے لیے سنت کی پیروی کرنی ہو گی۔
حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے بہت بڑے خلیفہ ہیں مولانا عبد الغنی پھولپوری رحمہ اللہ، ایک شخص ان کامرید ہوا جو پہلے بدعتی تھا۔ ہمارے ہاں بیعت کو خشک طبقہ قبول نہیں کرتا، وہ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ بدعتیوں کا کام ہے حالانکہ بیعت لینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے اور بیعت کرنا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا طریقہ ہے تو جو کام اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہو تو وہ بدعت کیسے ہو سکتا ہے؟
کبھی بیعت علی الایمان ہوتی کہ کوئی کافر کلمہ پڑھتا اور مسلمان ہو جاتا، کبھی بیعت علی ارکان الاسلام ہوتی کہ بندہ مؤمن ہے تو وہ بیعت کرتا کہ میں ارکان کی پابندی کروں گا، کبھی بیعت علی الموت ہوتی کہ ایک مسلمان ہے وہ اس بات پر بیعت کرے کہ میں مر تو سکتا ہوں لیکن حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتا۔ ان تینوں قسموں کی بیعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہوتی تھی اور ان تینوں قسموں کی بیعت آج بھی ہے۔
حضرت مولانا عبد الغنی پھولپوری رحمہ اللہ سے اس بدعتی نے بیعت ہونے کے بعد پوچھا: حضرت! کیا میں درودِ تاج اور درودِ ماہی پڑھ سکتا ہوں؟ تو حضرت فرمانے لگے: بھائی! ایک درود وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنایا ہے اور ایک درود وہ ہے جو مولویوں نے بنایا ہے،آپ بتاؤ! کون سا درود بہتر ہے؟ اس نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والا۔ فرمایا: ”اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ“ والا درود یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اور یہ جو درود ہیں یہ بعد کے مولویوں کے ہیں، تجھے جس سے زیادہ پیار ہے تو وہ پڑھ لیا کر۔ تو اس کو بات سمجھ آ گئی۔
نبی کی وحی اپنی قوم کی زبان میں ہوتی ہے:
﴿وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوۡمِہٖ لِیُبَیِّنَ لَہُمۡ ؕ﴾
اللہ رب العزت نے یہاں ایک ضابطہ بیان فرمایا کہ ہم نے جب بھی کوئی نبی بھیجا ہے تو ا س پیغمبر کو وہی زبان دے کر بھیجا ہے جو زبان اس کی قوم کی تھی۔
اللہ نے یہ نہیں فرمایا
”وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا بِلِسَانِ اُمَّتِہٖ“
کہ ہم نبی کو اس کی امت کی زبان دے کر بھیجتے ہیں بلکہ فرمایا:
﴿اِلَّا بِلِسَانِ قَوۡمِہٖ﴾
کہ ہم نبی کو اس کی قوم کی زبان دے کر بھیجتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ یہ فرماتے کہ ہم نبی کو اس امت کی زبان دے کر بھیجتے ہیں تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عربی میں بھی بات کرتے، اردو، انگلش اور فارسی میں بھی بات کرتے، اللہ نے ”اُمَّتِہٖ“ کے بجائے ”قَوۡمِہٖ“ فرمایا ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم قریش تھی اور ان کی زبان عربی تھی، اس لیے اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عربی زبان دے کر بھیجا ہے۔
نبی سارے جہاں کے ہیں تو ایک زبان میں وحی کیوں؟
اشکال یہ ہوتا ہے کہ جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سارے جہان کے نبی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک قوم کی زبان دے کر کیوں بھیجا گیا ہے؟
اس کی کئی وجوہات ہیں:
[۱]: پہلی وجہ تو یہ ہے کہ قومِ عرب میں اگرچہ بڑے بڑے گناہ تھے لیکن ان میں بعض صفات ایسی تھیں جس میں وہ لوگ بے مثال اور یکتا تھے۔ وہ صفات کسی اور قوم میں نہیں تھیں۔ مثلاً سخاوت اس قوم کا مزاج تھا، یہ لوگ بڑے سخی تھے اور شجاعت اس قوم کا مزاج تھا، یہ بڑے ہی بہادر لوگ تھے اور وفا ان لوگوں کا مزاج تھا اور شاید کہ ان جیسی وفا باقی قوموں میں ہو! اور مہمان نوازی ان لوگوں کا مزاج تھا، جنگ کرنا ان لوگوں کا مزاج تھا․․․ تو یہ اوصاف ایسے تھے جو دین کی اشاعت کے لیے کافی تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو عربی زبان دے کر بھیجا تاکہ دین کی اشاعت ہو۔
یہ بات واضح ہے کہ دین کی اشاعت کے لیے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے، یہ پیسا اشاعت دین کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے۔ پیسا ہو گا تو دین کی اشاعت ہوگی۔ عرب قوم میں سخاوت تھی، جب ان میں نبی آیا اور اس نے ان کو زکوٰۃ دینے کا کہا تو ان لوگوں نے اپنا پیسا بہا دیا۔ ان لوگوں میں شجاعت تھی کہ یہ لوگ بڑے بہادر تھے۔ جب ان کو جہاد کرنے کا حکم دیا گیا تو بڑی دلیری کے ساتھ انہوں نے جہاد کیا۔ ان لوگوں نے اپنے گھر کو چھوڑا، اپنے وطن کو چھوڑا اور جہاد کرنے کے لیے نکل پڑے۔
یہ اوصاف ان لوگوں میں تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال دیکھیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ان اوصاف کو نہیں بدلا بلکہ ان کے اوصاف کا رخ بدلا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بہت ہی غصے والے آدمی تھے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس غصے کو بزدلی میں نہیں بدلا بلکہ غصے کا رخ بدلا ہے،غصہ کا ازالہ نہیں کیا بلکہ امالہ کیا اور فرمایا: اے عمر!کافروں کو مارنا ہے،اپنوں کو نہیں مارنا!
تو بعض اوصاف اللہ نے عربوں کو ایسے دیے ہیں جو کسی اور میں نہیں ہیں۔
[۲]: اور دوسری وجہ یہ ہے کہ آسمان کی دفتری زبان عربی ہے۔ ملائکہ کی زبان عربی ہے، جنت اور جہنم والوں کی زبان عربی ہے اور مرنے کے بعد قبر میں بھی عربی زبان ہے چاہے کوئی انگریز ہو، پختون ہو، پنجابی ہوکسی بھی زبان والا ہو تو فرشتے نے پوچھنا ہے:
”مَنْ رَّبُّکَ“
اس وجہ سے اللہ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عربی زبان دی ہے۔
[۳]: اور تیسری وجہ یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک جتنے انبیاء علیہم السلام ہیں وہ دائرۂ نبوت ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مرکزِ دائرہ نبوت ہیں اور جو مرکز ہوتا ہے وہ بالکل درمیان میں ہوتا ہے۔ مکہ مکرمہ کو دیکھا جائے تو وہ زمین کے درمیان میں ہے، اسی وجہ سے اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو زمین کے درمیان میں بھیجا ہے تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ نبی ہم سے دور ہیں اور فلاں سے قریب ہیں بلکہ اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو زمین کے مرکز میں بھیج کر سب کو راضی کردیا اور مرکزِ زمین والوں کی زبان عربی تھی، اس لیے قرآن بھی عربی زبان میں دیا اور اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو زبان بھی عربی دی ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”أَحِبُّوا الْعَرَبَ لِثَلَاثٍ“
کہ تین وجوہات کی بنا پرعرب کے ساتھ پیار کیا کرو؛
”لِأَنِّيْ عَرَبِيٌّ“
کیونکہ میں عربی ہوں،
”وَالْقُرْآنُ عَرَبِيٌّ“
اور قرآن بھی عربی ہے
”وَكَلَامُ أَهْلِ الْجَنَّةِ عَرَبِيٌّ“
اور اہلِ جنت کی زبان بھی عربی ہو گی۔ 17F
المعجم الکبیر للطبرانی: ج5 ص324 رقم الحدیث 11278
اسی لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کے لیے ایک زبان کا انتخاب فرمایا ہے اور باقی زبانوں کے ترجمے کا انتظام فرما دیا ہے۔ اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اقوامِ عالم کا نبی بنایا ہے۔ اگر قرآن ہر قوم کی زبان میں ہوتا تو قرآن کو محفوظ رکھنا بہت ہی مشکل ہوجاتا، اس وجہ سے اللہ نے ایک زبان کا انتخاب کیا ہے اور وہ عر بی زبان ہے۔
[۴]: اور چوتھی وجہ قرآن کو عربی زبان میں نازل کرنے کی یہ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پوری کائنات کے نبی ہیں اور قرآن کو ایسی زبان میں ہونا چاہیے تھا جس میں جامعیت ہو۔ اور یہ جامعیت باقی تمام زبانوں میں نہیں بلکہ عربی زبان میں تھی۔ اس وجہ سے قرآن مجید کو عربی زبان میں نازل کیا ہے۔
حضور علیہ السلام پوری کائنات کے نبی ہیں:
اور آگے اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کو خطاب کر کے فرمایا:
﴿وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا مُوۡسٰی بِاٰیٰتِنَاۤ اَنۡ اَخۡرِجۡ قَوۡمَکَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ﴾
اور ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو بھی دلائل دے کر بھیجا تاکہ وہ اپنی قوم کو ظلمات سے نور کی طرف نکالیں۔
یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےلیے فرمایا گیا ہے
﴿لِتُخۡرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ﴾
کہ آپ لوگوں کو نکالیں ظلمات سے نور کی طرف اور موسیٰ علیہ السلام کے لیے فرمایا گیا ہے
﴿اَنۡ اَخۡرِجۡ قَوۡمَکَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ﴾
کہ آپ اپنی قوم کو نکالیں ظلمات سے نور کی طرف۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوری کائنات کے نبی ہیں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام پورے لوگوں کے نبی نہیں بلکہ ایک قوم کے نبی ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نبی القوم ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نبی الناس ہیں۔
احمد سعید ملتانی کے اعتراض کا جواب:
﴿وَ اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِقَوۡمِہِ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَۃَ اللہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ اَنۡجٰکُمۡ مِّنۡ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ یَسُوۡمُوۡنَکُمۡ سُوۡٓءَ الۡعَذَابِ وَ یُذَبِّحُوۡنَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَ یَسۡتَحۡیُوۡنَ نِسَآءَکُمۡ ؕ وَ فِیۡ ذٰلِکُمۡ بَلَآءٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ عَظِیۡمٌ ٪﴿۶﴾﴾
اس وقت کو یاد کرو جب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے یہ بات کہی تھی کہ اس نعمت کو یاد کرو جو اللہ نے تم پر کی ہے، وہ نعمت یہ ہےکہ اللہ نے تمہیں فرعون کے لوگوں سے نجات دی ہے، وہ لوگ تمہیں تکلیف دیتے تھے، تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ رکھتے تھے، اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارا بڑا امتحان تھا۔
ہم واقعات کی تفصیل میں نہیں جاتے، ہم عقائد پر بات کرتے ہیں، نظریات پر بات کرتے ہیں کہ انسان کا نظریہ ٹھیک ہونا چاہیے۔ ہمارے پاکستان کا ایک آدمی تھا جس نے کتاب لکھی”قرآن مقدس اور بخاری محدث“ اس کتاب میں اس نے بخاری شریف کی ایسی باون حدیثیں پیش کی ہیں جو اس کے ذہن کے مطابق قرآن کے خلاف ہیں۔ کہتا ہے کہ فلاں حدیث صحیح نہیں ہے، فلاں حدیث صحیح نہیں ہے، کیوں صحیح نہیں؟ اس لیے کہ قرآن کے خلاف ہے۔ اس کا نام ہے احمد سعید ملتانی، اس نے یہ کتاب لکھی۔ یہ خود تو اب فوت ہو گیا ہے لیکن اس کی کتاب موجود ہے۔ اس کتاب میں اس نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نکاح کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
﴿فَانۡکِحُوۡا مَا طَابَ لَکُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ مَثۡنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ ۚ﴾ 18F
النساء4: 3
کہ ”نساء“ کے ساتھ نکاح کرو، دو کے ساتھ یا تین یا چار کے ساتھ۔
تو اللہ نے لفظ ”نساء“بولا ہے۔ احمد سعید کہتا ہے کہ ”نساء“ کا لفظ عاقلہ بالغہ پر بولا جاتا ہے اور امام بخاری نے حدیث ذکر کی ہے کہ جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا امی عائشہ کے ساتھ نکاح ہوا تو اس وقت امی عائشہ کی عمر 6 سال تھی اور رخصتی کے وقت ان کی عمر 9 سال تھی۔ کہتا ہے کہ یہ حدیث قرآن کے خلاف ہے کیوں کہ قرآن کہتا ہے کہ نساء سے نکاح کرو اور نساء بالغہ عورت کو کہتے ہیں جبکہ حدیث میں اس کے بر عکس ہے، کیونکہ نکاح کے وقت حضرت عائشہ کی عمر چھ سال تھی تو چھ سالہ بچی ہوتی ہے عورت نہیں ہوتی! اب اگر ہم اس حدیث کو صحیح مانیں تو اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے خلاف کام کیا ہے اور اگر قرآن کو صحیح مانیں تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری نے جھوٹ بولا ہے۔ تو اس نے یہ اعتراض کیا ہے بخاری شریف پر۔
ہمارے ہاں مزاج یہ ہے کہ جو آدمی اٹھے اور اکابر کی تحقیقات پر پانی پھیر دے تو لوگ کہتے ہیں کہ یہ بہت بڑا آدمی ہے۔ میں نے کہا: اگر یہی بات ہے تو سب سے بڑا آدمی تو پھر ابلیس کو کہنا چاہیے کیوں کہ وہ خدا کے سامنے کھڑا ہو گیا تھا جب اللہ نے حکم دیا تھا کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کرو! تو ابلیس نے تکبر کی وجہ سے انکار کر کے اپنے اعلیٰ ہونے پر دلیل دی کہ میں آگ سے پیدا ہوا ہوں اور آدم علیہ السلام مٹی سے پیدا ہوئے ہیں، آگ اوپر ہوتی ہے اور مٹی نیچے ہوتی ہے، لہذا افضل؛ مفضول کو سجدہ نہیں کرتا۔ تو پھر ابلیس کو بھی ”علامہ“ کہنا چاہیے لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے جواب دیا ”فَاخْرُجْ“ دفع ہوجا! تو ہم سے بحث کرتا ہے!
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ”بدائع الفوائد“ میں مٹی کے آگ سے افضل ہو نے پر سترہ دلائل پیش کیے ہیں۔ 19F
بدائع الفوائد لابن القیم: ج4 ص949 تا 953
تو اللہ کو ان دلائل کا علم نہیں تھا؟ بالکل تھا لیکن اللہ نے اسے جواب نہیں دیا بلکہ فرمایا:نکل جا !
تو میں سمجھا رہا تھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ فلاں بہت بڑا آدمی ہے، فلاں بڑا علامہ ہے، کیوں؟ اس لیے کہ اس نے فلاں کے خلا ف لکھا ہے، فلاں کے خلاف لکھا ہے حالانکہ یہ بڑے پن کی نشانی نہیں ہے، یہ چھوٹے پن کی نشانی ہے، اکابرین کے خلاف لکھنے سے آدمی بڑا نہیں بنتا۔
میں احمد سعید کا جواب دینے لگا ہوں۔ میں کہتا ہوں کہ اللہ نے قرآن مجید میں فرمایا:
﴿وَ اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِقَوۡمِہِ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَۃَ اللہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ اَنۡجٰکُمۡ مِّنۡ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ یَسُوۡمُوۡنَکُمۡ سُوۡٓءَ الۡعَذَابِ وَ یُذَبِّحُوۡنَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَ یَسۡتَحۡیُوۡنَ نِسَآءَکُمۡ ؕ﴾
وہ وقت یاد کرو جب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ اللہ کی نعمت کو یاد رکھو جب اللہ نے تم کو فرعون کے لوگوں سے نجات دی ، وہ تمہیں تکلیف دیتے تھے، تمہارے بچوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری بچیوں کو زندہ رکھتے تھے۔
اللہ نے بچوں کے لیے ”ابناء“ کا لفط بولا ہے اور ابناء کے مقابلے میں بچیوں کے لیے”نساء“ کا لفط بولا ہے۔ جس طرح ابناء سے مراد بچے ہیں اسی طرح نساء سے مراد بچیاں ہیں۔ میں نے کہا کہ بخاری شریف کی روایت قرآن کے خلاف تب ثابت ہو گی جب نساء کا معنی صرف بالغ عورت ہو اور لیکن قرآن نا بالغ کو بھی نساء کہہ رہا ہے تو پھر بخاری کی یہ حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہے۔
اب امام بخاری رحمہ اللہ نے بات غلط کی یا ان علامہ صاحب نے بات غلط کی ہے؟ ان علامہ صاحب نے بات غلط کی ہے۔ ہم نے تو دلیل سے بات کی ہے، ہم نے اس پر فتوی نہیں لگایا۔ اب تعجب اس بات پر ہوتا ہے کہ لوگ اس جواب دینے کو بھی سختی کہتے ہیں، ہمیں یہ بات سمجھ نہیں آتی۔ بھائی! میں مسئلہ سمجھا رہا ہوں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے درست بات کی ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے غلطی نہیں کی، جو اعتراض کرتا ہے اس کو تو جواب دینا چاہیے۔ اب جواب دینا کون سی سختی ہے؟
فضائل اعمال پر اعتراض کیا گیا تو ہم نے اس کا جواب دیا۔ میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ بتاؤ! اعتراض کرنا جرم ہے یا اس کا جواب دینا جرم ہے؟ اعتراض کرنا جرم ہے لیکن جواب دینا جرم نہیں ہے۔ جو شخص اکابر پر اعتراض کرے آپ اس کو فرقہ واریت نہیں کہتے اور جو اکابر کا دفاع کرے آپ اس کو فرقہ واریت کہتے ہیں۔ یہ عجیب بات ہے! لیکن ہم اس کی پروا نہیں کرتے، ہم اپنے اکابر کا دفاع کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے ان شاء اللہ۔
گزشتہ اقوام کے دو اعتراض اور انبیاء کے جواب:
﴿جَآءَتۡہُمۡ رُسُلُہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ فَرَدُّوۡۤا اَیۡدِیَہُمۡ فِیۡۤ اَفۡوَاہِہِمۡ وَ قَالُوۡۤا اِنَّا کَفَرۡنَا بِمَاۤ اُرۡسِلۡتُمۡ بِہٖ وَ اِنَّا لَفِیۡ شَکٍّ مِّمَّا تَدۡعُوۡنَنَاۤ اِلَیۡہِ مُرِیۡبٍ ﴿۹﴾ قَالَتۡ رُسُلُہُمۡ اَفِی اللہِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ یَدۡعُوۡکُمۡ لِیَغۡفِرَ لَکُمۡ مِّنۡ ذُنُوۡبِکُمۡ وَ یُؤَخِّرَکُمۡ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی ؕ قَالُوۡۤا اِنۡ اَنۡتُمۡ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُنَا ؕ تُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ تَصُدُّوۡنَا عَمَّا کَانَ یَعۡبُدُ اٰبَآؤُنَا فَاۡتُوۡنَا بِسُلۡطٰنٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۱۰﴾﴾
پہلی قوموں کے پاس جب ان کے رسول واضح دلائل لے کر آئے اور انہوں نے اپنی قوم کو دعوت دی تو قوم نے دو اعتراضات کیے:
[1]: پہلا اعتراض انبیاء علیہم السلام کی توحید اور ایمان کی دعوت پر تھا۔ قوم کے لوگوں نے کہا:
﴿اِنَّا کَفَرۡنَا بِمَاۤ اُرۡسِلۡتُمۡ بِہٖ وَ اِنَّا لَفِیۡ شَکٍّ مِّمَّا تَدۡعُوۡنَنَاۤ اِلَیۡہِ مُرِیۡبٍ﴾
کہ جس چیز کی طرف تم ہمیں بلاتے ہو یعنی توحید پر یقین رکھنے اور ایمان لانے کی طرف تو ہم اس کے منکر ہیں اور ہمیں تمہاری اس دعوت میں شک ہے۔
[2]: اور دوسرا اعتراض ان کا یہ تھا:
﴿اِنۡ اَنۡتُمۡ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُنَا﴾
کہ تم ہماری طرح بشر ہو۔
قوم نے یہ اعتراضات کیے تو انبیاء علیہم السلام نے ان کے جوابات دیے۔ پہلے اعتراض کا جواب یہ دیا کہ
﴿اَفِی اللہِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ﴾
کہ کیا تم لوگوں کو اللہ کے بارے میں شک ہے؟ اس کی توحید میں شک ہے؟ حالانکہ اللہ کی ذات تو وہ ذات ہے کہ جس نے آسمان و زمین کو بنایا ہے۔ تو آسمان و زمین کو بنانا خود اللہ کی وحدانیت کی دلیل ہے! لہذا جب آسمان و زمین کی تخلیق جیسی عظیم دلیل موجود ہے تو تمہارا شک کرنا نہایت تعجب کی بات ہے!
اور جب انہوں نے دوسرا اعتراض کیا کہ نبی ہماری طرح بشر نہیں ہو سکتا تو انبیاء علیہم السلام نے ان کو جواب میں فرمایا:
﴿اِنۡ نَّحۡنُ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُکُمۡ وَ لٰکِنَّ اللہَ یَمُنُّ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖ﴾
کہ تمہاری یہ بات ٹھیک ہے کہ آپ بھی بشر ہیں اور ہم بھی بشر ہیں لیکن اللہ تعالیٰ جس پر چاہتے ہیں اپنا خصوصی احسان کرتے ہیں۔ تو اللہ نے ہم پر بھی احسان کیا کہ ہمیں نبی بنایا۔ بشریت؛ نبوت کے منافی نہیں ہے۔
انبیاء کا بشر ہونا ہمارے لیے اعزاز ہے:
ایک اعتراض اس وقت تھا اور ایک اعتراض آج کے اس دور میں کیا جاتا ہے۔ اُن لوگوں نے اعتراض یہ تھا کہ نبوت اور بشریت اکٹھی نہیں ہو سکتیں اور آج کے بعض لوگوں نے بھی یہی کہا ہے کہ نبوت اوربشریت اکٹھی نہیں ہو سکتیں۔ بس دونوں میں فرق اتنا ہے کہ انہوں نے بشر مانا لیکن نبی نہیں مانا اور انہوں نے نبی تو مانا لیکن بشر نہیں مانا، انہوں نے نبی کو دیکھا تھا اور انہوں نے نبی کو دیکھا نہیں ہے۔
اور ہم اھل السنۃ والجماعۃ نبی بھی مانتے ہیں اور بشر بھی مانتے ہیں، نبی ہوتا ہی بشر ہے اور جو بشر نہ ہو وہ نبی کیسے بن سکتا ہے؟ یہ تو ہمارے لیے اعزاز کی بات ہے کہ اللہ نے نبی کا انتخاب انسانوں میں سے کیا ہے۔ اللہ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے:
﴿لَقَدۡ مَنَّ اللہُ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذۡ بَعَثَ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ﴾ 20F
آل عمران3: 164
اللہ نے مومنین پر احسان کیا ہے کہ انہی میں سے نبی کو پیدا فرمایاہے۔
یہ ہمارے لیے اعزاز کی بات ہے کہ نبی ہم میں سے ہے، اور کتنی کم عقلی کی بات ہے جو اپنے اعزاز کو چھوڑتا ہے۔ ہم نبی کو بشر بھی مانتے ہیں اور نور بھی مانتے ہیں اور اہلِ بدعت نبی کو بشر نہیں مانتے بلکہ نور مانتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب عرش پر گئے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے جانے والا کون ہے؟ حضرت جبرئیل علیہ السلام جو نوریوں کا سردار ہے، نوریوں کا سردار خادم ہے اور بشر کا سردار کا مخدوم ہے اور مخدوم خادم سے اعلیٰ ہوتا ہے۔
شیطان کا اظہارِ براءت کرنا:
﴿وَ قَالَ الشَّیۡطٰنُ لَمَّا قُضِیَ الۡاَمۡرُ اِنَّ اللہَ وَعَدَکُمۡ وَعۡدَ الۡحَقِّ وَ وَعَدۡتُّکُمۡ فَاَخۡلَفۡتُکُمۡ ؕ وَ مَا کَانَ لِیَ عَلَیۡکُمۡ مِّنۡ سُلۡطٰنٍ اِلَّاۤ اَنۡ دَعَوۡتُکُمۡ فَاسۡتَجَبۡتُمۡ لِیۡ ۚ فَلَا تَلُوۡمُوۡنِیۡ وَ لُوۡمُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ﴾
جب ہر بات کا فیصلہ ہو جائے گا یعنی قیامت والے دن جب جنتی جنت میں چلے جائیں گے اور جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے تو اس وقت شیطان ان لوگوں سے کہے گا جو شیطان کی بات مانتے تھے، شیطان کہے گا کہ اللہ نے تم سے جو وعدہ کیا تھا تو اللہ نے اپنے اس وعدے کو پورا کر دیا۔ میرا تمہارے اوپر کوئی جبر نہیں تھا، صرف اتنی بات تھی کہ میں نے تمہیں دعوت دی تھی اور تم نے میری دعوت کو قبول کر لیا تھا، اس لیے تم مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنے آپ کو ملامت کرو!
کلمہ طیبہ اور کلمہ خبیثہ کی مثالیں:
﴿اَلَمۡ تَرَ کَیۡفَ ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصۡلُہَا ثَابِتٌ وَّ فَرۡعُہَا فِی السَّمَآءِ ﴿ۙ۲۴﴾ تُؤۡتِیۡۤ اُکُلَہَا کُلَّ حِیۡنٍۭ بِاِذۡنِ رَبِّہَا ؕ وَ یَضۡرِبُ اللہُ الۡاَمۡثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمۡ یَتَذَکَّرُوۡنَ ﴿۲۵﴾ وَ مَثَلُ کَلِمَۃٍ خَبِیۡثَۃٍ کَشَجَرَۃٍ خَبِیۡثَۃِۣ اجۡتُثَّتۡ مِنۡ فَوۡقِ الۡاَرۡضِ مَا لَہَا مِنۡ قَرَارٍ ﴿۲۶﴾﴾
یہاں اللہ تعالیٰ نے مثالیں دے کر بات سمجھائی ہے۔ ایک مثال کلمہ طیبہ کی ہے اور ایک مثال کلمہ خبیثہ کی ہے۔ کلمہ طیبہ سے مراد کلمہ ایمان اور توحید ہے۔ کلمہ خبیثہ سے مراد کفر اور شرک کا کلمہ ہے۔ فرمایا: کلمہ طیبہ اس پاک درخت کی طرح ہے جس کی جڑیں مضبوط ہوں اور اس کی شاخیں آسمان کی طرف بلند ہوں اور کلمہ خبیثہ اس درخت کی طرح ہے جو زمین کے اوپر سے ہی اکھاڑ لیا جاتا ہے، اس درخت کو زمین میں کوئی استحکام اور جماؤ نہیں ہوتا یعنی اسے اکھاڑیں تو فوراً اکھڑ آتا ہے۔
وہ درخت جس کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں ،مفسرین فرماتے ہیں کہ اس سے مراد کھجور کا درخت ہے اور وہ درخت جس کی جڑیں مضبوط نہیں ہوتیں اس سے مراد حنظل ہے جو ہلکے سے جھٹکے سے اکھڑ آتا ہے۔ اسی طرح جس نے کلمہ کفر کہا تو وہ ہلکے سے جھٹکے سے ختم ہو جائے گا جس نے کلمہ ایمان کہا تو اللہ تعالیٰ اس کو دنیا میں بھی ثابت قدم رکھیں گے اور آخرت میں بھی ثابت قدم رکھیں گے اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے:
﴿یُثَبِّتُ اللہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِالۡقَوۡلِ الثَّابِتِ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ﴾
21Fکہ کلمہ تم پڑھو، میں تمہیں دنیا میں بھی ثابت قدم رکھوں گا اور موت کے بعد بھی ثابت قدم رکھوں گا۔
ابراہیم 14: 27
عذاب قبر کا ثبوت:
مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں کہ دس آیات قرآنی اور ستر کے قریب احادیث سے ثابت ہے کہ جس قبر میں میت کو دفن کیا جاتا ہے اس ہی قبر میں اگر میت نیک ہو تو اس کو ثواب ملتا ہے اور اگر میت گناہ گار ہو تو اس کو عذاب ہوتا ہے اس میت کی روح کو اس کی طرف لوٹا کر۔
اس پر محدثین نے کئی احادیث لکھی ہیں، میں آپ کے سامنے ایک حدیث بیان کرتا ہوں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب بندے کو قبر میں اتارا جاتا ہے، ملائکہ آتے ہیں، اسے بٹھاتے ہیں، پھر تین سوال کرتے ہیں:
”مَنْ رَبُّكَ؟ وَمَا دِينُكَ؟ وَمَنْ نَبِيُّكَ؟“
بندہ ان تین سوالوں کا جواب دے دیتا ہے تو ایک فرشتہ آسمان سے اعلان کرتاہے کہ اللہ فرما رہے ہیں:
”أَنْ قَدْ صَدَقَ عَبْدِىْ “
کہ میرے بندے نے سوالوں کا صحیح جواب دیا ہے،
”فَأَفْرِشُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ“
اس کو جنت کا بچھونا دو!
”وَأَلْبِسُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ“
اس کو جنت کا لباس دے دو!،
”وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى الْجَنَّةِ“
جنت کی طرف سے دروازہ کھول دو!
”فَيَأْتِيهِ مِنْ رَوْحِهَا وَطِيبِهَا“
جنت کی ہوائیں اور جنت کی خوشبو اس قبر میں پہنچ جاتی ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
”فَذٰلِكَ قَوْلُ اللّهِ تَعَالٰی ﴿یُثَبِّتُ اللہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِالۡقَوۡلِ الثَّابِتِ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ﴾
کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان
”یُثَبِّتُ اللہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِالۡقَوۡلِ الثَّابِتِ“
کا یہی مطلب ہے۔ 22F
سنن ابی داؤد، رقم: 4753
اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ ہمارے جو عزیز، رشتہ دار اس دنیا سے جا چکے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی قبرو ں میں وسعتیں عطا فرمائے، اللہ ان کی قبر کی تنگیاں ختم فرمائے۔ (آمین)
تشہد میں
﴿رَبِّ اجۡعَلۡنِیۡ﴾
پڑھنے پر اعتراض کا جواب:
﴿رَبِّ اجۡعَلۡنِیۡ مُقِیۡمَ الصَّلٰوۃِ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ ٭ۖ رَبَّنَا وَ تَقَبَّلۡ دُعَآءِ ﴿۴۰﴾ رَبَّنَا اغۡفِرۡ لِیۡ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَوۡمَ یَقُوۡمُ الۡحِسَابُ ﴿٪۴۱﴾﴾
یہاں اس سورت کے آخر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کئی دعائیں ذکر کی گئی ہیں۔ میں صرف ایک دعا پڑھتا ہوں جو میں نے مسئلہ سمجھانا ہے۔ جب ہم تشہد میں بیٹھتے ہیں تو یہ دعا پڑھتے ہیں: ﴿رَبِّ اجۡعَلۡنِیۡ مُقِیۡمَ الصَّلٰوۃِ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ ٭ۖ رَبَّنَا وَ تَقَبَّلۡ دُعَآءِ ﴿۴۰﴾ رَبَّنَا اغۡفِرۡ لِیۡ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَوۡمَ یَقُوۡمُ الۡحِسَابُ ﴿٪۴۱﴾
﴿رَبِّ اجۡعَلۡنِیۡ مُقِیۡمَ الصَّلٰوۃِ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ ٭ۖ رَبَّنَا وَ تَقَبَّلۡ دُعَآءِ ﴿۴۰﴾ رَبَّنَا اغۡفِرۡ لِیۡ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَوۡمَ یَقُوۡمُ الۡحِسَابُ ﴿٪۴۱﴾
ہمارا مسلک یہ ہے کہ امام کے پیچھے ہم قرأت نہیں کرتے اور امام کے پیچھے قرأت نہ کرنے پر لوگ ہم پر بہت سارے اعتراضات کرتے ہیں، ان اعتراضات میں سے ایک اعتراض یہ بھی کرتے ہیں کہ تم تو کہتے ہو کہ امام کے پیچھے قرأت نہیں کرنی چاہیے اور خود امام کے پیچھے تشہد میں جو دعا پڑھتے ہو
﴿رَبِّ اجۡعَلۡنِیۡ مُقِیۡمَ الصَّلٰوۃِ﴾
یہ بھی تو قرآن ہے۔ تو تم امام کے پیچھے یہ قرآن کیوں پڑھتے ہو؟
ہم ان کو جواب دیتے ہیں کہ تشہد میں یہ ضروری نہیں کہ
﴿رَبِّ اجۡعَلۡنِیۡ مُقِیۡمَ الصَّلٰوۃِ﴾
ہی پڑھیں، اس کے علاوہ بھی آپ اور دعائیں بھی پڑھ سکتے ہیں، اس میں آپ کو اختیار ہے اور ہم جو تشہد میں امام کے پیچھے
﴿رَبِّ اجۡعَلۡنِیۡ مُقِیۡمَ الصَّلٰوۃِ﴾
پڑھتے ہیں تو یہ بطور قرأت نہیں بلکہ بطورِ دعا کے پڑھتے ہیں، قرأت سمجھ کر پڑھیں تو حکم اور ہے اور دعا سمجھ کر پڑھیں تو حکم اور ہے، اور قرآن تو نماز میں قیام کی حالت میں پڑھتے ہیں قعود کی حالت میں نہیں پڑھتے، قعود کی حالت میں دعائیں پڑھی جاتی ہیں قرآن نہیں اور جو ہم نے دعا پڑھی ہے قعود میں تو اگر چہ یہ قرآن میں ہے لیکن ہم قرآن سمجھ کر نہیں بلکہ دعا سمجھ کر پڑھتے ہیں۔ میں اس کی مثال دیتا ہوں۔ قرآن میں ”فرعون“ کا لفظ ہے، اگر اس کو قرآن سمجھ کر پڑھو تو 50 نیکیاں ملتی ہیں اور اگر اس کو قرآن سمجھ کر نہ پڑھو تو کوئی نیکی نہیں ۔
اسی طرح نماز جنازہ میں پہلی تکبیر کے بعد ثناء پڑھی جاتی ہے اور دوسری تکبیر کے بعد درود شریف پڑھا جاتا ہے اور تیسری تکبیر کے بعد دعا پڑھی جاتی ہے اور چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھیرا جاتا ہے۔ بعض لوگ پہلی تکبیر کے بعد سورۃ فاتحہ پڑھتے ہیں، اگر ان سے پوچھا جائے کہ تم سورۃ فاتحہ کیوں پڑھتے ہو؟ تو وہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے پڑھی ہے اس لیے ہم پڑھتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ سورۃ فاتحہ کو بطورِ دعا پڑھنا تو ٹھیک ہے لیکن بطور قرأت پڑھنا جائز نہیں ہے اور ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ جس کو نماز جنازہ کی دعا نہیں آتی وہ
”رَبَّنَا اغۡفِرۡ لِیۡ“
پڑھ لے یا اور کوئی دعا پڑھ لے، اور سورۃ فاتحہ دعا ہے یا نہیں؟ (دعا ہے۔ سامعین) اگر کوئی بندہ سورۃ فاتحہ کو قرآن سمجھ کر نہیں بلکہ دعا سمجھ کر پڑھتا ہے تو اب حکم اور ہے اور اگر قران سمجھ کر پڑھے تو حکم اور ہے! دونوں میں بہت بڑا فرق ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ اس کو بطور دعا پڑھیں تو حکم اور ہے اور اگر اس کو بطور قرآن پڑھیں تو حکم اور ہے۔
جنازے پر سورۃ فاتحہ کو واجب کہنے والوں سے سوالات:
جو لوگ جنازےپر سورۃ فاتحہ پڑھنا ضروری سمجھتے ہیں وہ یہ دلیل پیش کرتے ہیں:
"لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ."23F
صحیح البخاری، رقم: 756
کہ جو فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی، اور نماز جنازہ بھی نماز ہے اس لیے یہ بھی بغیر فاتحہ کے نہیں ہوتی۔
جب وہ یہ دلیل دیتے ہیں تو آپ نے ان سے کہنا ہے کہ کہ اگر یہی بات ہے کہ نماز جنازہ بھی نماز ہے تو نماز تو رکوع کے بغیر بھی نہیں ہوتی، نماز جنازہ بھی نماز ہے تو نماز تو سجدہ کے بغیر بھی نہیں ہوتی، نماز جنازہ بھی نماز ہے تو نماز تو تشہد کے بغیر بھی نہیں ہوتی۔ تو اس میں رکوع، سجدہ بھی کر و! تشہد بھی کرو! یہ تم کیوں نہیں کرتے؟
اگر وہ کہیں کہ اِس نماز سے مراد اور نماز ہے تو آپ نے کہنا ہے کہ اُس نماز سے مراد بھی اور نماز ہے۔ اگر تم سورۃ فاتحہ کو قرأت سمجھ کر پڑھتے ہو تو اس میں رکوع اور سجدہ بھی کرلو! اگر وہ کہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے سورۃ فاتحہ کیوں پڑھی؟ تو آپ نے کہنا ہے کہ اگر سورۃ فاتحہ فرض ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں نہیں پڑھی اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نے کیوں نہ پڑھی؟ اگر سورۃ فاتحہ پڑھنی فرض ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور باقی صحابہ پڑھتے۔
خیر میں بتا رہا تھا کہ اگر آپ سے کوئی پوچھے کہ امام کے پیچھے قرأت نہیں کرنی تو پھر تشہد میں
﴿رَبِّ اجۡعَلۡنِیۡ مُقِیۡمَ الصَّلٰوۃِ﴾
کیوں پڑھتے ہو؟ تو آپ نے کہنا ہے کہ ہم قرأت سمجھ کر نہیں پڑھتے بلکہ دعا سمجھ کر پڑھتے ہیں۔
اللہ ہم سب کو بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․