سورۃ الحجر

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
سورۃ الحجر
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿الٓرٰ ۟ تِلۡکَ اٰیٰتُ الۡکِتٰبِ وَ قُرۡاٰنٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۱﴾﴾
تمہیدی باتیں:
سورۃ الحجر مکی سورت ہے۔ اس میں چھ رکوع او ر ننانوے آیات ہیں۔ اس سورت کو سورۃ الحجر اس لیے کہتے ہیں کہ اس سورت میں اللہ رب العزت نے اصحاب الحجر کا ذکر کیا ہے۔ ”حجر“ ایک وادی کا نام ہے جو حجاز اور شام کے درمیان واقع ہے۔ اس میں قوم ثمود آباد تھی۔ قوم ثمود کی طرف اللہ رب العزت نے حضرت صالح علیہ السلام کوپیغمبر بنا کر بھیجا تھا۔ ان کا تذکرہ آگے آئے گا۔ چونکہ اس سورت میں خاص اس جگہ کا تذکرہ کیا گیا ہے اس لیے اسی مناسبت سے اس سورت کا نام سورۃ الحجر رکھا گیا ہے۔
قرآن ؛ کامل و واضح کتاب:
﴿الٓرٰ ۟ تِلۡکَ اٰیٰتُ الۡکِتٰبِ وَ قُرۡاٰنٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۱﴾﴾
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں قرآن مجید کے لیے دو لفظ ارشاد فرمائے ہیں:
1:کتاب 2: قرآن مبین
”الکتاب“ سے مراد یہ ہے کہ قرآن ایسی کتاب ہے کہ جو کامل اور مکمل ہے اور ساتھ ہی فرمایا ”قرآن مبین“ کہ یہ مکمل بھی ہے اور واضح بھی ہے۔ اس کتاب کے بعد مزید کسی آسمانی کتاب کی ضرورت بھی نہیں اور وضاحت اتنی مضبوط ہے کہ مزید وضاحت کی ضرورت بھی نہیں۔
قرآن کریم کا اعجاز یہ ہے کہ دنیا کے نصابوں سے با لکل مختلف ہے۔قرآن کریم کا اعجاز ہے کہ جو وقت آپ نے اس کو دینا ہے اسی وقت میں قرآن یاد بھی ہوجا تا ہے اور تھوڑے سے وقت میں قرآن سمجھ میں بھی آ جاتا ہے۔اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ قرآن کامل اور مکمل کتاب بھی ہے اور واضح بھی، اس کے بعد مزید کسی آسمانی کتاب کی ضرورت نہیں رہتی۔
کفار کی حسرت کہ کاش ہم مسلمان ہوتے!
﴿ رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَوۡ کَانُوۡا مُسۡلِمِیۡنَ ﴿۲﴾﴾
دنیا میں بسا اوقات جہالتِ علمی کی وجہ سے مسلمان کافروں کو دیکھ کر رشک کرتا ہے کہ اے کاش! ہم بھی ان جیسے ہوتے۔ لیکن یہ دنیا بہت عارضی ہے، موت اور حشر کے بعد جب مسلمان کو جنت میں مقامات ملیں گے اور کافر کو جہنم میں عذاب ملے گا اور ہر آئے دن اس کے کسی خاص کفر کی وجہ سے عذاب میں ترقی ہو گی تو پھر ہر موقع پر کافر یہ تمنا کرے گا ﴿لَوۡ کَانُوۡا مُسۡلِمِیۡنَ﴾ کہ اے کاش! ہم بھی مسلمان ہوتے۔
مسلمان؛ کافر سے بہتر ہے:
عجیب بات ہے کہ معاملہ تو انجام پر ہے، معاملہ تو دار لجزاء پر ہے، معاملہ تو نتائج پر ہے، آج تک کسی آیت میں، کسی حدیث مبارک میں ہم نے نہیں پڑھا اور نہ کسی سے آپ نے سنا ہو گا کہ موت کے بعد کسی انسان کی تمنا ہو کہ کاش کہ میں کافر ہوتا لیکن ہر کافر کی تمنا ہو گی کہ کاش میں مسلمان ہوتا! تو آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مسلمان جتنا بھی نالائق ہو بہرحال مسلمان ہے اور کافر جتنا بھی اچھا ہو بہرحال وہ کافر ہے۔ مسلمان گندے سے گندا ہو لیکن اچھے سے اچھے کافر سے پھر بھی اچھا ہے۔ اس لیے کافر جتنا بھی اچھا ہو وہ کافر ہی ہے اور مسلمان بظاہر جتنا بھی گندا ہو بہرحال وہ مسلمان ہی ہے۔ اللہ ہمیں اس نعمت کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ہم چونکہ مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہوئے ہیں، اسلام کی ہمیں محنت کرنی نہیں پڑی، بغیر محنت کے ہمیں کلمہ اور ایمان ملا ہے اس لیے عموماً آج ہمیں اس کلمہ کی قدر نہیں ہے، اس کلمہ کے الفاظ کی قدر اس وقت ہو گی کہ جب قبر میں منکر نکیر پوچھیں گے:
"مَنْ رَبُّکَ؟ ، مَنْ نَبِیُّکَ؟ مَادِیْنُکَ؟ "
کہ بتا تیرا رب کون ہے؟ تیرا نبی کون ہے اور تیرا دین کیا ہے؟ اس وقت احساس ہو گا کہ اس کلمہ کی اہمیت کیا ہے! دنیا بہت تھوڑی ہے اور آخر ت بہت لمبی ہے۔
ایمان کی قدر کیجیے!
میں صرف گزارش یہ کر رہا ہوں کہ دنیا میں کوئی ایسا مسلمان نہیں اور نہ آپ ثابت کر سکتے ہیں، نہ آپ نے کہیں سنا ہے کہ جس کی یہ تمنا ہو کہ کاش میں کافر ہوتا اور کوئی ایسا کافر نہیں کہ جس کی یہ تمنا نہ ہو کہ اے کاش میں مسلمان ہوتا! تو بالآخر نتیجہ اللہ پاک نے اسلام کا رکھا ہے۔ اس لیے مسلمان ایمان پر اللہ کا جس قدر شکر ادا کریں وہ کم ہے۔ اللہ ہمیں اس کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
یا بعض حضرات نے یوں لکھا ہے کہ جب جہنم میں کافر بھی ہو گا اور اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے مسلمان بھی اگر جہنم میں چلا گیا تو اس مسلمان کو کافر جب یہ طعنہ دے گا کہ تم کلمہ پڑھ کر جہنم میں اور ہم بغیر کلمہ پڑھے جہنم میں، تو بتاؤ! تم میں اور ہم میں فرق کیا ہوا؟ جب یہ طعنہ دے گا تو اللہ کی رحمت جوش میں آئے گی، اللہ تعالیٰ حکم دیں گے کہ ہر وہ شحص جس کے دل میں ذرہ برابر ایمان موجود ہے ا س کو جہنم سے نکالو اور جنت میں بھیج دو۔
اب کافروں کو حسرت ہو گی
﴿لَوۡ کَانُوۡا مُسۡلِمِیۡنَ﴾
اے کاش! کہ ہم مسلمان ہوتے۔ تو یہ نام کے مسلمان کو بھی معمولی مسلمان نہ سمجھیں۔ ہمارے اکابر کا عام اور نام نہاد مسلمانوں کے بارے میں عجیب نظریہ ہے۔
بے نمازی مسلمانوں کے متعلق حضرت تھانوی کا نظریہ:
حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ ایک جگہ پر بہت عجیب بات ارشاد فرماتے ہیں کہ جو مسلمان نماز نہیں پڑھتا یہ اچھا کام نہیں کرتا، اور کہتے ہیں کہ اگر تم کسی بے نمازی مسلمان سے بات کرو گے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اس کا نماز نہ پڑھنا یہ اللہ پر ناز کی وجہ سے ہے۔ جب اس سے پوچھو کہ نماز کیوں نہیں پڑھتا؟ اگر اس کا تھوڑا سا بھی اللہ سے تعلق ہو تو وہ کہتا ہے کہ جنت تیری نہیں ہے، جنت اللہ کی ہے، اللہ نے ہمیں بخش ہی دینا ہے اور ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں، ہم نے جنت میں چلے ہی جانا ہے۔ اگر یہ شخص نماز نہیں بھی پڑھتا تو بھی اس کو اللہ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر ناز ہے۔
اور یہ نا ز ایسی چیز ہوتی ہے کہ اللہ اس کی بڑی قدر کرتے ہیں لیکن ناز دل کے ساتھ ہو، یہ بھی دیکھے کہ میری زبان اور دل ایک ساتھ ہیں یا میری زبان اور دل ایک ساتھ نہیں۔ اللہ رب العزت ہمیں اس کی قدر کر نے کی توفیق عطا فرمائے۔
حفاظتِ قرآن:
﴿اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ ﴿۹﴾﴾
اللہ رب العزت نے فرمایا کہ قرآن مجید ہم نے ہی نازل کیا ہے اور اس قرآن کریم کی حفاظت بھی ہم ہی کریں گے۔ اس لیے اگر کوئی مسلمان قرآن شریف کی حفاظت کے لیے محنت یاکوشش کرتا ہے تویہ سمجھو کہ اللہ نے جو وعدہ فرمایا ہے اس وعدے میں اسباب کے درجے میں اللہ نے کسی مسلمان کو استعمال کرنا ہے۔ خوش قسمت وہ شحص ہے کہ جس کا قلب قرآن کریم کے محفوظ کرنے کے لیے استعمال ہو، جس کا سینہ اس کی حفاظت کے لیے استعمال ہو، یہ اس مسلمان کی سعادت اورخوش بختی ہے۔
جہاں تک تورات اور انجیل کا معاملہ ہے تو اللہ رب العزت نے ان کی حفاظت کا ذمہ خود نہیں لیا بلکہ علمائے تورات اور انجیل کے ذمے تھا کہ حفاظت تم نے کرنی ہے اور قرآن کے بارے میں اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ اس کی حفاظت تم نے کرنی ہے بلکہ فرمایا کہ نازل بھی ہم نے کیا ہے اور حفاظت بھی ہم نے کرنی ہے۔ قرآن کریم قیامت تک کے لیے محفوظ ہو گا۔
مفتی اعظم پاکستا ن مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کے تحت تفسیر معارف القرآن میں ایک بڑی عجیب بات لکھی ہے۔ حضرت فرماتے ہیں کہ یہ جو قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ قرآن نازل بھی ہم نے کیا ہے اور قرآن کی حفاظت بھی ہم کریں گے، اس وعدے میں صرف قرآن شامل نہیں ہے بلکہ اس میں احادیث بھی شامل ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک ہیں قرآن کے الفاظ اور ایک ہے قرآن کا معنی، قرآن کے الفاظ نے بھی قیامت تک رہنا ہے اور قرآن کے معنی نے بھی قیامت تک رہنا ہے۔ قرآن کے الفاظ تو ہمیں نظر آتے ہیں اور اس کا معنی وہ ہے جسے احادیث کہتے ہیں۔ اس لیے کہ قرآن کریم کے نازل کرنے سے مقصد صرف قرآن مجید کے الفاظ کی تلاوت نہیں بلکہ قرآن مجید پرعمل بھی کرنا ہے، عمل تب کریں گے جب قرآن کا معنی آئے گا۔ اس لیے قرآن کے الفاظ نے بھی رہنا ہے اور معانی نے بھی رہنا ہے۔ قرآن بھی قیامت تک محفوظ رہے گا اور احادیث بھی، قرآن کو محفوظ کرنے والے بھی سینے ہوں گے اور احادیث کو محفوظ کرنے والے بھی قیامت تک سینے ہی رہیں گے۔
نعمتِ باری تعالیٰ کا بیان:
﴿وَ الۡاَرۡضَ مَدَدۡنٰہَا وَ اَلۡقَیۡنَا فِیۡہَا رَوَاسِیَ وَ اَنۡۢبَتۡنَا فِیۡہَا مِنۡ کُلِّ شَیۡءٍ مَّوۡزُوۡنٍ ﴿۱۹﴾ وَ جَعَلۡنَا لَکُمۡ فِیۡہَا مَعَایِشَ وَ مَنۡ لَّسۡتُمۡ لَہٗ بِرٰزِقِیۡنَ ﴿۲۰﴾ وَ اِنۡ مِّنۡ شَیۡءٍ اِلَّا عِنۡدَنَا خَزَآئِنُہٗ ۫ وَ مَا نُنَزِّلُہٗۤ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعۡلُوۡمٍ ﴿۲۱﴾﴾
اللہ رب العزت نے فرمایا: زمین کو ہم نے پھیلا دیا اور اس میں پہاڑ بنا کر رکھ دیے اور زمین میں ہر قسم کی چیزیں توازن کے ساتھ پیدا کر دی ہیں۔ زمین میں ہم نے تمہارے لیے رزق کا سامان پیدا کر دیا ہے اور ان مخلوقات کا رزق بھی پیدا کر دیا ہے جنہیں تم روزی نہیں دیتے۔ہمارے پاس ہر چیز کے خزانے ہیں اور ہم انہیں مناسب مقدار میں اتارتے رہتے ہیں۔
توزان کے ساتھ پیدا کرنے کا معنی یہ ہے کہ جس قدر چیزیں زمین میں موجود ہیں ہم ایک دم ساری چیزیں نہیں اگا دیتے بلکہ جتنی ضرورت ہوتی ہے اتنی اگا دیتے ہیں۔ مثلاً زمین کی تہ میں جتنی گندم موجود ہے ساری گندم نہیں نکال لیتے بلکہ انسانوں کی ضرورت کے مطابق نکالتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اگر زمین کی تہہ میں موجود سارا اناج ایک با ر نکالیں اور انسان اسے سنبھالنا چاہے تب بھی نہیں سنبھال سکے گا، اس لیے اللہ کرم یہ کرتے ہیں کہ ﴿وَ مَا نُنَزِّلُہٗۤ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعۡلُوۡمٍ﴾ جتنی ضرورت ہوتی ہے اتنی نکالتے رہتے ہیں۔
اور آسمان کے بارے میں یہ بات فرمائی کہ: ﴿وَ اَرۡسَلۡنَا الرِّیٰحَ لَوَاقِحَ فَاَنۡزَلۡنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَسۡقَیۡنٰکُمُوۡہُ ۚ وَ مَاۤ اَنۡتُمۡ لَہٗ بِخٰزِنِیۡنَ ﴿۲۲﴾﴾ ہم ہوائیں بھی چلاتے ہیں جو بادلوں کو پانی سے بھر دیتی ہیں اور آسمان سے بارشیں بھی ہم برساتے ہیں، پھر اس پانی سے تمہیں سیراب بھی ہم کرتے ہیں اور جس قدر ہمارے خزانہ میں پانی ہے ہم آسمان سے سارا پانی بیک وقت گرا دیں تو تم اس سارے پانی کو محفوظ نہیں رکھ سکتے۔
پھر اللہ رب العزت نے نظام ہی ایسا بنایا ہے کہ سمندر موجود ہیں، سمندر میں پانی ہے، وہاں سے آبی بخارات اوپر اٹھتے ہیں، پھر ہوائیں چلتی ہیں، بادل کی شکل بنتی ہے اور جہاں جتنی ضرورت ہوتی ہے تو اللہ وہاں آسمان سے بارش برسا دیتے ہیں، اکٹھی برف آتی ہے تو بڑے بڑے گلیشیرز کی صورت میں جم جاتی ہے اور جتنی ضرورت ہوتی ہے پگھلتی رہتی ہے اور زمینوں کو سیراب کرتی رہتی ہے۔
اب دیکھیں اللہ رب العزت نے ایسا نظام بنایا ہے کہ ساری دنیا والے مل کر بھی ایسا نظام نہیں بنا سکتے۔ یہ اللہ رب العزت کا نظام ہے۔
تخلیقِ آدم اور سجدہ ملائکہ:
﴿وَ اِذۡ قَالَ رَبُّکَ لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیۡ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنۡ صَلۡصَالٍ مِّنۡ حَمَاٍ مَّسۡنُوۡنٍ ﴿۲۸﴾ فَاِذَا سَوَّیۡتُہٗ وَ نَفَخۡتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ فَقَعُوۡا لَہٗ سٰجِدِیۡنَ ﴿۲۹﴾﴾
ان آیات میں اللہ رب العزت نے حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کا واقعہ بیان کیا ہے، پھر حضرت آدم علیہ السلام کے سجدے کا، پھر ابلیس کے انکار کرنے کا، پھر ابلیس کے مہلت مانگنے کا اور اللہ تعالیٰ کے مہلت دینے کا کسی قدر اللہ نے ذکر فرمایا ہے۔ شروع میں آپ نے پڑھا تھا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿اِنِّیۡ جَاعِلٌ فِی الۡاَرۡضِ خَلِیۡفَۃً ؕ﴾ 24F
البقرۃ2: 30
اے فرشتو! میں زمین میں اپنا خلیفہ پیدا کر رہا ہوں۔
اور یہاں فرمایا:
﴿وَ اِذۡ قَالَ رَبُّکَ لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیۡ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنۡ صَلۡصَالٍ مِّنۡ حَمَاٍ مَّسۡنُوۡنٍ ﴿۲۸﴾﴾
کہ میں مٹی کا بشر پیداکر رہا ہوں۔
وہاں فرمایا تھا کہ خلیفہ پیدا کر رہا ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو خلیفہ ہے وہی بشر ہے اور جو بشر ہے وہی اللہ کا خلیفہ ہے۔ اللہ نے اپنی خلافت کی نعمت بشر کو دی ہے، اپنی خلافت نور کو نہیں دی ہے، اس لیے اس دنیا میں نور ہونا کمال نہیں ہے بلکہ بشر ہونا کمال ہے۔
بشریت کمال کا نام ہے:
اب بتاؤ! یہ بات سمجھ آئے تو انسان ذہن بنا لیتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہیں کیونکہ اللہ نے فرشتوں کو خلیفہ نہیں کہا بلکہ بشر کے بارے میں فرمایا کہ میں نے اس کو اپنا خلیفہ بنایا ہے۔ تو ہمارا اعزاز اس میں ہے کہ ہم انہیں بشر مانیں لیکن صفات کے اعتبار سے نبی کو نور بھی مانیں۔ ہم پیغمبر کو ذات کے اعتبار سے بشر مانتے ہیں اور صفات کے اعتبار سے نو ر بھی مانتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن کا جواب:
مجھے یاد ہے کہ ہم ایک مرتبہ اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمٰن صاحب کے پاس بیٹھے تھے۔ میں بڑی عزت کے ساتھ مولانا صاحب کا نام لیتا ہوں، آپ میں سے بہت سے حضرات مولانا صاحب کے خلاف بھی ہوں گے، میں آپ کو اختلاف کرنے سے منع نہیں کرتا لیکن عموماً اختلافات ان لوگوں کو ہوتےہیں جنہوں نے مولانا صاحب کو قریب سے نہیں دیکھا بلکہ صرف مولاناصاحب کے بارے میں سنا ہے، جو قریب سے دیکھتا ہے وہ سارے اختلافات بھول جاتا ہے۔
ایک بندے کی سیاست میں پوری زندگی گزر جائے، والد اس کا سیاست میں رہا ہو، نہ اس میں اخلاقیات کا مسئلہ ہے نہ اس میں مالیات کا مسئلہ ہے، تمہیں دنیا میں تلاش کرنے سے ایساسیاست دان نہیں ملے گا۔ ایک ہوتا ہے کہ اخبار میں کوئی کالم آئے، کالم تو مخالفت میں لکھے جاتے ہیں لیکن کبھی کوئی شحص ان کے بارے میں اخلاقیات اور مالیات کے بارے میں ثبوت نہیں دے سکتا، اس ڈاڑھی کے ساتھ اسمبلی میں رہنا، اس پگڑی کے ساتھ اسمبلی میں رہنا، اس مسنون لباس میں رہ کر فرعونِ وقت کو للکارنا یہ ہر بندے کے بس کی بات نہیں، بڑوں بڑوں کا پتہ پانی ہو جاتا ہے۔ یہ مولانا صاحب ہیں کہ اس ماحول میں رہ کر بھی دین کی بات کرتے ہیں، مولاناجب کام آتے ہیں تب ہمیں احساس ہوتا ہے۔
اب دیکھیں! حکومت نے کتنی بڑی تعداد میں فارم تقسیم کیے مدارس کے لیے، مدارس کا تھوڑا سا مسئلہ بنا تو اب بھی مولانا صاحب کا بیان آ گیا کہ ہم ڈٹ کر مقابلہ کریں گے اور مدارس کا تحفظ کریں گے، اب سب کو احساس ہو گیا کہ مولانا کتنے قیمتی آدمی ہیں۔ اللہ ہمیں ان کی قدر کی توفیق عطا فرمائے۔
خیر ہم وہاں بیٹھے تھے تو مولانا فضل الرحمٰن صاحب فرمانے لگے کہ میں قاسم العلوم ملتان میں کتابیں پڑھاتا تھا، مدرس تھا تو اس وقت میرے پاس چند ایک نوجوان آئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے آپ سے ایک مسئلہ پوچھنا ہے۔ میں نے کہا: پوچھیں۔ تو انہوں نے کہا کہ یہ بتائیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نور ہیں یا بشر ہیں؟ مولانا صاحب نے کہا کہ میں نے انہیں کہا کہ آپ کا سوال ٹھیک نہیں ہے، پہلے سوال ٹھیک ہو تو پھر جواب ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوال کیوں ٹھیک نہیں؟ مولانا صاحب نے فرمایا کہ آپ سوال کرتے کہ نور ہیں یاظلمت؟ پھر میں جواب دیتا کہ نور ہیں کیونکہ نور اور ظلمت میں ٹکراؤ ہے، نور اور بشر میں تو کوئی ٹکراؤ نہیں ہے، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ذات کے اعتبار سے بشر ہیں اور اوصاف کے اعتبار سے نور بھی ہیں، اس میں تو ٹکراؤ ہے ہی نہیں تو آپ نے ٹکراؤ کیسے پیدا کیا ہے!
تخلیقِ آدم کے مراحل:
میں صرف گزارش یہ کر رہا تھا کہ اللہ نے اس آیت میں فرمایا:
﴿اِنِّیۡ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنۡ صَلۡصَالٍ مِّنۡ حَمَاٍ مَّسۡنُوۡنٍ﴾
پہلے اللہ رب العزت نے مٹی پیدا فرمائی، پھر اس مٹی کو اپنی قدرت سے گوندھنے کا انتظام فرمایا، پھر اس مٹی کا خمیر پیدا فرمایا اور ایک عرصہ تک مٹی رہ جائے تو جیسے بو آنا شروع ہو جائے تو وہ ایسے سڑی ہوئی مٹی بن گئی، پھر اس کو خشک کیا اور خشک کرنے کے بعد پھر حضرت آدم علیہ السلام کو وجود بخشا۔
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ نرم مٹی سے بنانا آسان ہے، نرم مٹی کوخشک کیا پھر بنا یا تو جو مشکل کام تھا خدا کی قدرت نے وہ ظاہر فرمایا۔ چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام کا پہلے وجود بنا لیا۔
﴿وَ نَفَخۡتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ﴾
پھر اللہ نے اس میں روح کو ڈالا۔ اب یہاں جو لفظ ہے ذرا وہ سمجھیں۔ اللہ رب ا لعزت فرماتے ہیں:
﴿وَ نَفَخۡتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ﴾
کہ میں نے آدم میں اپنی روح کو ڈالا۔ اب اس کا معنی یہ تو نہیں ہے کہ اللہ کی روح ہے اوروہ ڈالی ہے۔ تو یہ روح کی نسبت اللہ نے اپنی طرف کیوں کی ہے؟ اصل میں ہمارے ہاں ایک ہوتا ہے مضاف اور ایک ہوتا ہے مضاف الیہ۔ جیسے گرائمر کی زبان میں کہتے ہیں کہ یہ میری مسجد ہے... یہ میرا کھانا ہے... یہ میری گاڑی ہے... اسے اضافت کہتے ہیں۔ اللہ رب العزت بعض چیزوں کو اعزاز دینے کے لیے نسبت اپنی طرف کرتے ہیں۔ اسے اضافتِ تشریفیہ کہتے ہیں جیسے سارے انسان اللہ کے بندے ہیں لیکن جن کو اللہ اعزاز دیتے ہیں توانہیں خطاب کرتے ہیں:
﴿یٰۤاَیَّتُہَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّۃُ ﴿٭ۖ۲۷﴾ ارۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً ﴿ۚ۲۸﴾ فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ ﴿ۙ۲۹﴾﴾ 25F
الفجر89: 27تا30
اللہ تعالی نیک لوگوں سے فرماتے ہیں کہ یہ میرے بندے ہیں حالانکہ بندے تو سارے اللہ کے ہیں لیکن جن کو اللہ اعزاز دینا چاہتے ہیں ان کی نسبت اللہ اپنی ذات کی طرف فرماتے ہیں۔ یہاں بھی حضرت آدم علیہ السلام کی روح کو خدا نے اعزاز بخشا ہے اس لیے فرمایا کہ میں نے اپنی روح کو ڈالا۔یعنی ہر کسی کی روح تو میں نے پیدا کی ہے لیکن اعزاز دینے کے لیے اللہ نے نسبت اپنی طرف کی ہے ۔
﴿فَسَجَدَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ کُلُّہُمۡ اَجۡمَعُوۡنَ ﴿ۙ۳۰﴾﴾
تمام فرشتوں نے آدم کو سجدہ کیا۔
یہاں پورا واقعہ تو نہیں ہے۔ سورۃ البقرۃ میں ہے کہ جب اللہ رب العزت نے آدم علیہ السلام کو پیدا فرما دیا تو فرشتوں سے فرمایا:
﴿اسۡجُدُوۡا لِاٰدَمَ﴾
26F
البقرۃ2: 34
کہ حضرت آدم علیہ السلام کو سب مل کر سجدہ کرو۔ یہاں اس سورت میں ہے:
﴿فَسَجَدَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ کُلُّہُمۡ اَجۡمَعُوۡنَ ﴿ۙ۳۰﴾﴾
تمام فرشتوں نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا،
﴿اِلَّاۤ اِبۡلِیۡسَ ؕ﴾
لیکن ابلیس نے سجدہ نہیں کیا۔
البقرۃ2: 34
ابلیس کو سجدے کا حکم نہیں تو اس پر عتاب کیوں؟
اب عام بندے کے ذہن میں سوال آتا ہے کہ حکم تو دیا تھا فرشتوں کو، اگر ابلیس نے سجدہ نہیں کیا تو اس پر الزام کیوں ہے؟
اس کا جواب سمجھیں کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم فرشتوں کو دیا گیا، الگ سے ابلیس کو حکم کیوں نہیں دیا اس لیے کہ ابلیس انہی ملائکہ میں رہتا تھا اس لیے مستقل فرد کو حکم دینے کی ضرورت نہیں تھی، جو ملائکہ میں رہتا تھا اس کو بھی یہی حکم تھا جو ملائکہ کو تھا۔ اس لیے فرمایا کہ تم سارے سجدہ کرو اور ابلیس سمجھتا تھا کہ مجھے سجدہ کا حکم ہے۔ اسی وجہ سے ابلیس نے یہ نہیں کہا کہ اللہ مجھے تو حکم ہی نہیں ہے تو میں سجدہ کیوں کروں؟ اس کو پتا تھا کہ مجھے حکم ہے اس لیے ابلیس نے جب سجدے سے انکار کیا۔ تو اللہ نے فرمایا کہ تو نے سجدہ کیوں نہیں کیا؟ اور یہاں عجیب بات یہ ہے:
﴿اِلَّاۤ اِبۡلِیۡسَ ؕ اَبٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنَ مَعَ السّٰجِدِیۡنَ ﴿۳۱﴾﴾
اصل میں تو مزہ انہی کو آتا ہے جو کچھ عر بی بلاغت سمجھتے ہوں، ان کو قرآن کے الفاظ کا مزہ آتا ہے۔ یہاں فرمایا:
﴿اَبٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنَ مَعَ السّٰجِدِیۡنَ ﴿۳۱﴾﴾
یہ نہیں فرمایا
”اَبٰی اَنْ یَّسْجُدَ“
کہ ابلیس نے انکار کیا کہ میں سجدہ نہیں کرتا بلکہ فرمایا کہ ابلیس نے انکار کیا کہ وہ سجدہ کرنے والوں میں سے ہو جائے، انکار کیا سجدہ کرنے والوں کے ساتھ ہونے سے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اصل حکم ملائکہ کو تھا لیکن ابلیس چونکہ ان میں سے تھا اس لیے ضمنی حکم اس کو بھی تھا۔
میں بسا اوقات یہ نکات پیش کردیتا ہوں۔ ہر آدمی کو سمجھ نہ بھی آئے تو جن کو بلاغت سے تعلق ہے ان کو ضرور سمجھ آئے گا کہ میں نے جو نکتہ بیان کیا اس نکتے کی حیثیت کیا ہے؟
ابلیس کی دلیل کا خدائی جواب:
خیر اس نے انکار کر دیا۔ اللہ نے پوچھا:
﴿یٰۤـاِبۡلِیۡسُ مَا لَکَ اَلَّا تَکُوۡنَ مَعَ السّٰجِدِیۡنَ ﴿۳۲﴾﴾
اے ابلیس! تو سجدہ کرنے والوں میں سے کیوں نہیں ہوا؟
ابلیس نے جواب دیا:
﴿لَمۡ اَکُنۡ لِّاَسۡجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقۡتَہٗ مِنۡ صَلۡصَالٍ مِّنۡ حَمَاٍ مَّسۡنُوۡنٍ ﴿۳۳﴾﴾
میں سجدہ اس مٹی کے وجود کو نہیں کر سکتا۔
دوسرے مقام پر ہے کہ ابلیس نے کہا تھا:
﴿خَلَقۡتَنِیۡ مِنۡ نَّارٍ وَّ خَلَقۡتَہٗ مِنۡ طِیۡنٍ ﴿۱۲﴾﴾ 27F
الاعراف7: 12
کہ مجھے آپ نے آگ سے پیدا کیا اور آدم کو آپ نے مٹی سے پیداکیا۔ تو مٹی کو آگ کیسے سجدہ کرے؟ آگ تو شعلے والی ہے اور اوپر جاتی ہے، مٹی کو اوپر پھینکو تو نیچے آتی ہے، مٹی میں عاجزی ہے اور میرے اندر بلندی ہے۔ تو بلند ؛پست کو بھلا سجدہ کر سکتا ہے؟
یہ ابلیس نے عقلی دلیل پیش کی ہے۔ اس دلیل کو توڑا جا سکتا تھا لیکن اللہ نے توڑا نہیں ہے، اللہ نے فرمایا کہ تو یہا ں سے نکل جا! یہ میرا حکم تھا اور تو اس میں اعتراض کرتا ہے۔ خدا کےحکم کےسامنے عقل کی بات نہیں کرتے بلکہ خدا کے حکم کو مالک کا حکم سمجھ کر قبول کر لینا چاہیے، اس لیے تمہیں اعتراض نہیں کرنا چاہیے تھا۔
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے سترہ دلائل اس بات پر پیش فرمائے ہیں کہ مٹی؛ آگ سے افضل ہے۔ 28F
بدائع الفوائد لابن القیم: ج4 ص949 تا 953
تو کیا یہ دلائل خدا کے علم میں نہیں تھے؟ جس خدا نے ابن القیم کو دلائل دیے ہیں تو خداکے علم میں وہ دلائل ہیں لیکن اللہ نے دلیل نہیں دی۔ معلوم ہوا کہ ہر موقع پر دلیل نہیں دیتے بلکہ بعض اوقات بغیر دلیل دیے اسے نکال دیتے ہیں۔ ہر موقع دلیل کا نہیں ہوتا۔
سب سے پہلا اجماع اور پہلا منکرِ اجماع:
اور اس سے ایک بات اور ذہن میں رکھ لیں۔ یہ ہمارا استدلال نہیں ہے ہمارے مشائخ کا ہے۔ جس کا استد لال ہو میں نام لے کر بتاتا ہوں۔ ہمارے جھنگ کے ایک بزرگ ہیں حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی صاحب دامت برکاتہم، ہمارے مسلک دیوبند کے بہت بڑے شیخ ہیں۔ حضرت فرماتے ہیں کہ اس تاریخِ انسانی میں جس مسئلے پر سارے جمع ہوئے ہیں وہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنا ہے اور جس نے اس اتفاق کا سب سے پہلے انکار کیا اس کا نام ابلیس ہے۔ معلوم ہوا کہ ملائکہ نے حضرت آدم علیہ السلام کے سجدے پر اتفاق کر لیا اور ابلیس نے انکار کر دیا۔ تو سب سے پہلے دنیا میں اجماع کا انکار کر نے والا ابلیس ہے۔ جو اجماع کو مانے گا وہ جنت میں ملائکہ کے مقام کو پہنچ جائے گا اور جو اجماع کا انکار کرے گا وہ ابلیس کے مقام تک پہنچ جائے گا یعنی جہنم میں۔
آپ اندازہ فرمائیں کہ اجماع کی اہمیت کتنی زیادہ ہے! یہ سب سے پہلا اجماع ہے جس کی شیطان نے مخالفت کی ہے اور اجماع کس کا ہے؟ ملائکہ اور فرشتوں کا اور جس نے انکار کیا وہ ابلیس ہے۔ تو جو ملائکہ کی صفت کو اختیار کرے گا تو وہ جنتی ہے اور جو ابلیس کی صفت اختیار کرے گا تو وہ جنت کے بجائے جہنم میں ہو گا۔
ابلیس نے انکار کیا تو اللہ نے فرمایا:
﴿فَاخۡرُجۡ مِنۡہَا فَاِنَّکَ رَجِیۡمٌ ﴿ۙ۳۴﴾﴾
یہاں ایک بات اچھی طرح سمجھ لیں۔ میں پہلے بھی کئی مرتبہ عر ض کر چکا ہوں کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام اپنی قبور میں زندہ ہیں، یہ ہمارا عقیدہ ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا روضہ اطہر، قبر مبارک یہ جنت کا ٹکڑاہے، یہ بھی ہمارا نظریہ ہے۔
”روضہ جنت ہے“ پر اشکال کا جواب:
ایک صاحب کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا روضہ یہ جنت نہیں ہے اور کہنے والے بھی آپ کےشہر سرگودھا کے ہیں اور جنت نہ ہونے کی دلیل انہوں نے یہ دی کہ صحیح بخاری میں حدیث موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مسجد نبوی والی جگہ کو کھداوایا مسجد نبوی کو تعمیر کرنے کے لیے تو وہاں چند ایک ہڈیاں نکلیں جو مشرکین کی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو باہر پھینکوا دیا او ر وہاں مسجد نبوی تعمیر کی۔ اب وہ دلیل دینے لگے کہ اگر یہ جنت ہے تو جنت میں تو مشرک کی ہڈی نہیں ہو سکتی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جنت نہیں ہے۔
ہم نے کہا کہ اس کا آسان سا جواب تو قران کریم میں ہے کہ جب اللہ پاک نے حکم دیا تھا فرشتوں کو کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کرو تو ابلیس نے سجدہ نہیں کیا۔ ابلیس کہاں رہتاتھا؟ جنت میں، آپ تو کہتے ہیں کہ مشرک کی ہڈی نہیں ہو سکتی اور یہاں تو پورا ابلیس جنت میں ہے۔
اب وہ کہنے لگے کہ آگے بھی پڑھیں، اللہ نے آگے فرمایا ہے:
﴿فَاخۡرُجۡ ﴾
کہ اللہ نے اسے وہاں سے نکال دیا۔ تو میں نے کہا کہ بخاری میں بھی آگے پڑھیں، اس میں ہے کہ مشرک کی ہڈی تھی لیکن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نکال دی۔ اِس جنت سے مشرکین کی ہڈی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکالی ہے اور اُس جنت سے ابلیس کو خدا نے نکالا ہے، یہ بھی جنت ہے اور وہ بھی جنت ہے۔
اچھا عجیب بات یہ ہے کہ پھر یہی لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں قرآن بہت آتا ہے۔ اس بات پر آپ نے قرآن کوچھوڑ کر احادیث کو لے لیا ہے اورہم نے احادیث کو بھی نہیں چھوڑا، ہم نے قرآن کو بھی نہیں چھوڑا کیونکہ ہمارے اکابر کو قرآن بھی آتا ہے اور ہمارے اکابر کو احادیث بھی آتی ہیں، قرآن بھی ہمارا ساتھ دے رہا ہے اور حدیث بھی ہمارا ساتھ دے رہی ہے۔
مجھے ایک شحص کہنے لگا کہ آپ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا روضہ جنت ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ کہنے لگا: حدیث کون سی ہے؟ میں نے کہا کہ صحیح بخاری میں ہے:
مَا بَيْنَ بَيْتِيْ وَمِنْبَرِيْ رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ. 29F
صحیح البخاری، رقم : 1195
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میرا ممبر اور جو میرا حجرہ ہے اس کے درمیا ن کی جگہ جنت ہے۔
بعض دلائل ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں تھوڑی سی توجہ دینی پڑتی ہے پھروہ سمجھ میں آ جاتے ہیں۔ بسا اوقات میں ایک دلیل بار بار اس لیے دیتا ہوں کہ اگر پہلے درس میں نہ بھی سمجھ آئے تو جب کو ئی شحص اس کو آپ کے خلاف استعمال کرے گا تو خدانخواستہ اس کا جواب آپ کو نہ بھی آئے لیکن یہ تو ذہن میں ہو گا کہ اس کا جواب ہے۔ اگر وہ کہے کہ کون سا جواب ہے؟ تو کہو گے کہ میرے ذہن میں نہیں آ رہا لیکن میں نے اس کا جواب سنا تھا، مجھے یاد نہیں رہا، یہ تو نہیں ہوگا کہ جواب ہے ہی نہیں۔
خیر جب میں نے اسے صحیح بخاری کی روایت پیش کی تو اس نے کہا کہ جو درمیان والی جگہ جنت ہے تو اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کاگھرتو شامل نہیں ہے۔ میں نے اسے کہا: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا ہے:
"مَا بَيْنَ بَيْتِيْ وَمِنْبَرِيْ رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ."
کہ میرے گھر اور منبر کے درمیا ن جو جگہ ہے وہ جنت کا ٹکڑا ہے۔
آپ مجھے بتائیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جو منبر ہے وہ کہاں پر ہے؟ کہا کہ ریاض الجنۃ میں ہے۔ میں نے کہا: وہ جنت میں ہے یا نہیں؟ کہا کہ ہے۔ میں نے کہا: پھر یہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر ہے یہ باہرکیسے ہے؟ میں نے کہا کہ دیکھیں! اگر گھر اور منبر کے درمیان والی جگہ جنت ہے او ر گھر اورممبر اس میں شامل نہیں ہے تو منبرتو آج بھی ریاض الجنۃ میں ہے۔ آپ مسجد نبوی میں جا کر دیکھ لیں۔ میں نے کہا کہ منبر کو نکال دو پھر ریاض الجنۃ سے۔کہنے لگا کہ منبر تو نہیں نکال سکتے۔ تو میں نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کمرے کو پھر کیوں نکال رہے ہو؟
اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر بھی جنت ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا روضۃ بھی جنت ہے۔ اللہ ہمیں یہ بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ابلیس عاشق نہیں تھا:
خیر اللہ رب العزت نے اسے فرمایا کہ یہاں سے نکل جا! تو اس نے فوراً کہا:
﴿رَبِّ فَاَنۡظِرۡنِیۡۤ اِلٰی یَوۡمِ یُبۡعَثُوۡنَ ﴿۳۶﴾﴾
کہ اللہ! مجھے قیامت تک کے لیے مہلت دے دے۔ توجہ رکھنا! جب اللہ نے حکم دیا کہ سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا لیکن ابلیس نے سجدہ نہیں کیا۔ پھر اللہ نے اس پر لعنت بھیجی ہے۔ تو اللہ رب العزت لعنت کس پر بھیجتے ہیں؟ جس سے پیار کریں یا جس پر غصہ ہوں؟ (جس پر غصہ ہوں۔ سامعین)
اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ حالتِ غضب میں ہیں اور فرما رہے ہیں کہ اس ابلیس پر میری لعنت ہو اور اس وقت یہ ابلیس کیا کہہ رہا ہے کہ
﴿رَبِّ فَاَنۡظِرۡنِیۡۤ ﴾
وہ دعا مانگ رہا ہے اور اللہ حالت غضب میں ہیں۔ بتاؤ! اگر باپ غصے میں ہو اور اپنے بیٹے سے کہے کہ نکل جاؤ تو وہ کہے ابو جی! مجھے پیسے تو دو۔ بندہ کہے گا کہ عجیب بات ہے کہ باپ نے گھر سے نکالا ہے اور یہ کرایہ مانگ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ابلیس پر ناراض ہو رہے ہیں کہ نکل جا، تو ملعون ہے اوروہ کہہ رہا ہے:
﴿رَبِّ فَاَنۡظِرۡنِیۡۤ اِلٰی یَوۡمِ یُبۡعَثُوۡنَ ﴾
اے اللہ! مجھے قیامت تک کی مہلت دے دو۔ اللہ نے فرمایا:
﴿فَاِنَّکَ مِنَ الۡمُنۡظَرِیۡنَ﴿ۙ۳۷﴾ اِلٰی یَوۡمِ الۡوَقۡتِ الۡمَعۡلُوۡمِ ﴿۳۸﴾﴾
کہ جاؤ! وقت مقرر تک ہم نے تمہیں مہلت دے دی ہے۔
حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس سے معلوم ہوا کہ شیطان عالم بھی تھا، عارف بھی تھا اور عابد بھی تھا، عالم کا پتا ایسے چلا کہ اللہ اسے فرما رہے ہیں کہ تو نے سجدہ کیوں نہیں کیا؟ تووہ جواب میں دلیل دے رہا تھا تو دلیل دینا عالم کا کام ہے۔ حضرت تھانوی فرماتے ہیں کہ عالم بھی بہت بڑا تھا، اتنا بڑا عالم تھا کہ خدا کے سامنے بحث کر رہا ہے اور فرمایا: عارف بھی تھا جو اللہ کے مزاج کو سمجھتا ہو۔ معرفتِ خداوندی بھی اس کو تھی۔ عارف اس لیے تھا کہ وہ سمجھتا تھا کہ اللہ جتنے بھی غصے میں ہوں اللہ غصے سے مغلوب نہیں ہوتے اس حال میں بھی مانگیں تو دے دیتے ہیں۔ عابد بھی تھا کہ عبادت کرتے کرتے ملائکہ کی صف میں بیٹھا ہوا ہے، عابد اتنا ہے ملائکہ میں اس کاشمار ہے لیکن حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس میں ایک چیز کی کمی تھی کہ یہ عاشق نہیں تھا۔ اگر عاشق ہوتا تو اللہ کے سامنے دلائل سے بات نہ کرتا بلکہ بات مان لیتا۔ کیوں کہ جب آدمی کو کسی سے عشق ہوتا ہے تو اس کے دل کو دکھایا نہیں کرتا، دلیلوں سے بات نہیں کرتا بلکہ بات سمجھ نہ بھی آئے تب بھی مان لیتا ہے۔
تذکرہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ:
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ عابد بھی تھے، عالم بھی تھے، عارف بھی تھے اور عاشق بھی تھے۔ اس لیے انہوں نے کبھی یہ نہیں دیکھا کہ مجھے بات سمجھ میں آ رہی ہے یا سمجھ میں نہیں آ رہی، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس قدر عشقِ پیغمبر میں فنا ہیں کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بیت اللہ میں ہیں، مشرکین نے انہیں اتنامارا اتنا مارا کہ صدیق کو پہچاننا مشکل ہو گیا تھا، اٹھا کر گھر لائے گئے۔ جب تھوڑی سی ہوش آ گئی تو پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ ماں نے کہا کہ اب بھی تو حضور کی بات کر تا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ماں! میں نے قسم اٹھا رکھی ہے کہ جب تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرا نہ دیکھوں گا میں ایک گھونٹ بھی پانی نہیں پیوں گا، پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ دکھاؤ کہ حضور ٹھیک ہیں یا نہیں؟ ٹھیک ہیں تو پھر پانی پیوں گا۔
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو افسوس یہ تھا کہیں ایسا نہ ہو کہ میں بچ جاؤں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہوں۔ پہلے دیکھ لوں پھر پانی پی لوں گا۔ اس لیے اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے تو صدیق نے دنیا میں رہ کر کیا کرنا ہے!
اب دیکھیں! صدیق اکبر عاشق پیغمبر ہیں۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو خبر ملی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے عرش پر گئے ہیں اور واپس آئے ہیں۔ ابو جہل نے کہا تھا کہ میں نہیں مانتا کیوں کہ وہ عقلیات کی بات کر رہا تھا۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ چونکہ عارف بھی تھے، عابد بھی تھے، حضور کے عاشق بھی تھے جب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ یہ بتائیں کہ اگر کوئی بندہ یہ بات کہے کہ میں ایک رات میں عرش پر گیا اور واپس آیا ہوں تو ابوبکر آپ مان لیں گے؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جانتے تھے کہ ابوجہل بہت بے ایمان ہے خیر کی اس سے توقع نہیں ہے۔ صدیق اکبر نے پہلا سوال یہ کیا کہ ابوجہل! پہلے یہ بتا کہ اس بات کا کہنے والا کو ن ہے؟ اگلی بات پھر کریں گے کہ ماننی ہے یا نہیں ماننی! ابو جہل نے کہا کہ آپ کے دوست نے کہا ہے۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ پھر ہوا ہے، پھر نہ پوچھنا کہ ہوا ہے یا نہیں ہوا۔
اللہ ہمیں عالم بھی بنائے، اللہ ہمیں عارف بھی بنائے، اللہ ہمیں عابد بھی بنائے اور اللہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا عاشق بھی بنائے۔ تو حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ عالم بھی تھا، یہ عارف بھی تھا اور یہ عابد بھی تھا، کمی یہ تھی یہ عاشق نہیں تھا اس لیے یہ مار کھا گیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عشقِ پیغمبر کو بھی پیدا کریں، جب تک یہ باتیں پیدا نہ ہوں تو شریعت پر عمل کرنا بڑا ہی مشکل ہوتا ہے اور دلائل کا جواب دینا تو بہت ہی مشکل ہو جاتا ہے۔
کبھی کبھی عاشقانہ جواب بھی دیا کریں!
حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی رحمہ اللہ کا میں نے ایک بیان سنا۔ حضرت فرمانے لگے کہ میرا ایک مرتبہ شاہدرہ میں عیسائی پادری کے ساتھ مناظرہ ہوا۔ عیسائی پادری نے مجھ سے سوال یہ کیا کہ تم مسلمان خنزیر نہیں کھاتے، تم بکرا کھا لیتے ہو اس کی کیا وجہ ہے؟ حضرت فرمانے لگے: میں نے اسے عقلی دلیل پیش کی کہ دیکھو! خنزیر اور بکرے میں فرق یہ ہے کہ خنزیر حلال اور حرام میں امتیاز نہیں کرتا۔ اس نے کہا کہ یہ تو کوئی بنیاد نہیں ہے، اگر حلال حرام میں تمیز نہ کرنے کی بات ہے تو وہ تو بکرا بھی نہیں کرتا۔ اس نے کہا کہ ایک بکرا پیدا ہو اس کو یہاں باندھ لو اور ایک بکری اس کے ساتھ ہی پیدا ہوئی ہو تو اس کو بھی یہیں باندھ لو تو اس بکرے کو تو نہیں پتا کہ یہ میری بہن ہے۔ تو بکرا بھی حلال حرام کا خیال نہیں کرتا اور خنزیر بھی نہیں کرتا۔ تو دونوں برابر ہوئے نا!
حضرت اوکاڑوی رحمۃ اللہ علیہ فرمانے لگے کہ میرا خیال تھا کہ میں نے اس کو بڑی اچھی دلیل دی ہے، جب دلیل ٹوٹی تو میرے دل میں فوراً وہ بات آئی جو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ ہر موقع پر عالمانہ بات نہ کرو اس موقع پر عاشقانہ بات کرو۔ حضرت اوکاڑوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ہمیں خدا نے حکم دیا ہے کہ بکرا کھا لو اور حکم دیا ہے کہ خنزیر نہ کھاؤ! ہم حکمِ الہی کے پابند ہیں، ہم یہ نہیں دیکھتے کہ حکم کیوں دیا ہے؟ ہاں اس پر ہم سے بات کر لو کہ یہ اللہ کا حکم ہے یا اللہ کا حکم نہیں ہے؟ ہم ثابت کریں توٹھیک اور اگر ثابت نہ کریں تو ہماری کمزوری ہے۔
ابلیس کی تمنا:
خیر میں یہ بات سمجھا رہا تھا کہ ابلیس نے اللہ سے دعاکی تو اللہ نے قبول فرما لی۔ جب واپس جانے لگا تو اس نے کہا:
﴿رَبِّ بِمَاۤ اَغۡوَیۡتَنِیۡ لَاُزَیِّنَنَّ لَہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَاُغۡوِیَنَّہُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ﴿ۙ۳۹﴾﴾
کیونکہ اس کو خدا کے وعدے پر یقین تھا، اس کو پتا تھا کہ اب خدا نے وعدہ کر لیا ہے، میں کچھ بھی کہتا رہوں تو مجھے اللہ نے قیامت سے پہلے ہلاک نہیں کرنا ہے۔ تو اس نے کہا کہ یا اللہ! چونکہ آپ نے مجھے یہاں سے رد کر دیا اس لیے میں بھی زمین میں انسانوں کی نظروں میں گناہوں کو محبوب بنا دوں گا اور میں سب کو گمراہ کر کے چھوڑوں گا اور خود اس نے کہا:
﴿اِلَّا عِبَادَکَ مِنۡہُمُ الۡمُخۡلَصِیۡنَ ﴿۴۰﴾﴾
ہا ں اللہ! یہ بات ٹھیک ہے کہ میں سب کو گمراہ کر لوں گا لیکن جو تیرے مخلص بندے ہیں ان کو گمراہ کرنا میرے بس میں نہیں ہے۔
اب آپ کے ذہن میں ایک سوال آئے گا اور یہ سوال آنا بھی چاہیے کہ اگر شیطان کا کسی مخلص بندے پر زورنہیں چلتا تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ کسی نیک بندے سے گناہ نہ ہو حالانکہ نیک سے نیک بندہ ہو گنا ہ اس سے بھی ہوجا تاہے تو پھر اس کا کیا مطلب ہے کہ اللہ کے نیک بندوں پر اس کا بس نہیں چلے گا؟ اس آیت سے کچھ آگے اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿اِنَّ عِبَادِیۡ لَیۡسَ لَکَ عَلَیۡہِمۡ سُلۡطٰنٌ اِلَّا مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الۡغٰوِیۡنَ ﴿۴۲﴾﴾
تو جس کو چاہے گمراہ کر لیکن میرے جو بندے ہوں گے ان پر تیرا زور نہیں چل سکتا۔
اللہ رب العزت نے بھی فرما دیا اور شیطان بھی کہہ رہا ہے کہ میرا زور مخلص بندوں پر نہیں چل سکتا اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ نیک سے نیک بندہ بھی گناہ کر گزرتا ہے۔ پھر آخر ان آیات کا مطلب کیا ہو گا؟
حضرت مفتی اعظم پاکستا ن مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کا آسان سا مطلب یہ ہے ایسا زور چلنا کہ موت تک گناہ کریں اور جہنم میں چلے جائیں ایسازور اللہ کے نیک بندوں پر نہیں چل سکتا۔ ابلیس کی تمنا یہ ہے کہ میں ایسا زور لگاؤں گا کہ اپنے ساتھ جہنم میں لے جاؤں گا، خدا کا جو نیک بندہ ہے اگر اس سے گناہ ہو بھی گیا تو بعد میں وہ توبہ کرے گا۔
ایک صحابی کا قصہ:
جیسے ایک صحابی اور ایک ولی کا واقعہ ہے ۔ صحابی کا واقعہ یہ ہے کہ ان سے زنا ہو گیا۔ وہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور اعتراف کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اعراض فرمایا۔ انہوں نے پھر اعتراف کیا، پھر اعتراف کیا، پھر اعتراف کیا۔ جب چار مرتبہ اعتراف کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو سنگسار کر دو! جب انہیں سنگسا ر کرنے لگے تو پتھر لگتے ہی وہ دوڑے۔ جب ان کی موت واقع ہو گئی تو کسی نے ان کے بارے میں سخت بات کہہ دی تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے:
"قَدْ تَابَ تَوْبَةً لَوْ تَابَهَا أُمَّةٌ مِنَ الْأُمَمِ لَقُبِلَ مِنْهُمْ" 30F
مسند البزار: ج10 ص197 رقم الحدیث 4283
اب اس کے بارے میں کوئی جملہ نہ کہنا! اس نے اتنی مقبول توبہ کی ہے کہ اگر امتوں میں سے کوئی امت اس طرح توبہ کرتی تو یہ توبہ پوری امت کی طرف سے کفایت کر جاتی۔
اب دیکھیں! شیطان نے کوشش کی تھی کہ میں بدکاری کرا کر جہنم میں لے جاؤں گا، ان سے بدکاری بھی ہوئی ہے لیکن توبہ اتنی بڑی سطح پر چلی گئی ہے کہ بدکاری کرنے کی باوجود بھی بندہ جنت میں جا رہا ہے، اس لیے فرمایا کہ ابلیس کا ایسا زور نہیں چلے گا کہ بندہ جہنم میں چلا جائے۔
ایک ولی کا قصہ:
اسی طرح ایک ولی کا قصہ ہے۔ ہمارے استاذ صاحب فرماتے تھے کہ ایک ولی تھے، عالم تھےاور وہ تہجد کی بڑی پابندی فرماتے تھے۔ ایک روز معمول کے مطابق ان کا ارادہ ہوا کہ تہجد پڑھوں لیکن انہوں نے محسوس کیا کہ جیسے کوئی ان کے پاؤں کو دبا کر سلا رہا ہے۔ خیر غفلت ہو گئی اور وہ تہجد نہیں پڑھ سکے۔ تہجد فرض نہیں ہے سنت ہے لیکن وہ اپنی اس تہجد کو برقرار رکھنے کے لیے جب اٹھے تو فجر کی سنتیں پڑھیں، نماز پڑھی، پھر ذکر میں مشعول رہے اور اشراق کی نماز پڑھی اور عشاء کے بعد جو رات کی تہجد تھی وہ بھی پڑھ لی۔
تہجد کی قضا تو ان کے ذمے نہیں تھی لیکن کمی کو پورا کرنے کے لیے پڑھی اور پھر رونا شروع کردیا کہ اے اللہ! میں کتنے عرصے سے تہجد پڑھ رہا تھا، آج میری تہجد قضا ہو گئی ہے، میں تہجد نہیں پڑھ سکا، اےاللہ! تو مجھے معاف فرما دے، میرے معمول میں کمی آئی ہے۔ یہ رونا تھا کہ دوسرے دن وہ شحص آیا جس نے پاؤں دبا کر سلا دیا تھا۔ اس نے اٹھایا کہ اٹھیں اور تہجد پڑھ لیں۔ اس ولی نے اس شخص کو پکڑ لیا کہ خلوت خانے میں یہ کون ہے؟ یہاں تو کوئی بندہ آ ہی نہیں سکتا۔
اس نے کہا کہ بس آپ اٹھیں اور تہجد پڑھیں۔ مجھے نہ پوچھیں کہ میں کون ہوں؟ انہوں نے پھر اصرار سے پوچھا تو اس نے کہا کہ میں شیطان ہوں۔ انہوں نے پوچھا کہ تُو شیطان ہے اور تہجد کے لیے اٹھا رہا ہے! شیطان نے کہا کہ کل جو سلایا تھا اور آپ روئے ہیں تو وہ عمل تہجد سے بھی آگے نکل گیا ہے، اس لیے میں نے اٹھایا کہ اٹھ کر تہجد ہی پڑھ لیں۔
تو جو اللہ کے نیک بندے ہیں ان کے ساتھ شیطان چھیڑ چھاڑ تو کرتا ہے لیکن اس کے بدلے میں جو توبہ کرتے ہیں تو پھر شیطان کو بھی افسوس ہوتا ہے کہ میں یہ چھیڑ چھاڑ نہ کرتا تو بہتر تھا۔
گمراہوں ٹھکانہ جہنم ہے:
﴿وَ اِنَّ جَہَنَّمَ لَمَوۡعِدُہُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ ﴿۴۳﴾﴾
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو تیری بات مانے گا وہ جہنم میں جائے گا۔
اس کے بعد فرمایا:
﴿لَہَا سَبۡعَۃُ اَبۡوَابٍ ؕ ﴾
کہ جہنم کے سات دروازے ہیں۔ اللہ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے۔
جہنم کے سات دروازے ہیں اور جنت کے آٹھ دروازے ہیں۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ ”سبعۃ ابواب“ سے جہنم کے سات طبقات مراد ہیں۔ ان سات طبقات کے نام جہنم، لظىٰ، حطمۃ، سعير، سقر، جحيم اور هاويہ ہیں۔
بعض کہتے ہیں کہ کھلی ایک جہنم ہے اسی کے سات دروازے مراد ہیں جس طرح عام دروازے ہوتے ہیں۔
یہاں میں ایک بات عرض کرتا ہوں کہ جہنم کے دروازے سات ہیں اور جنت کے دروازے آٹھ ہیں۔ یہ آٹھواں دروازہ کیوں ہے؟ حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر معارف القرآن میں لکھا ہے۔ معارف القرآن دو الگ الگ تفسیر یں ہیں، ایک مفتی اعظم پاکستا ن مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ہے اور دوسری مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ کی ہے۔
حضرت کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جہنم کے سات دروازے مخصوص اعمال والوں کے لیے جہنم میں جانے کے ہیں اورجنت کے سات دروازے مخصوص اعمال والوں کے لیے جنت میں جانے کے ہیں لیکن جنت کا ایک دروازہ اضافی رکھا ہے کہ جس سے اہلِ توحید بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ تو جنت کا ایک دروازہ بغیر حساب والوں کے لیے ہو گا کہ جن کے لیے اعمال کا مسئلہ ہی نہیں ہو گا، ان کے لیے اعلان ہو گا کہ تمہارا دروازہ یہ ہے۔
ابراہیم علیہ السلام کے مہمان:
﴿ وَ نَبِّئۡہُمۡ عَنۡ ضَیۡفِ اِبۡرٰہِیۡمَ ﴿ۘ۵۱﴾ اِذۡ دَخَلُوۡا عَلَیۡہِ فَقَالُوۡا سَلٰمًا ؕ قَالَ اِنَّا مِنۡکُمۡ وَجِلُوۡنَ ﴿۵۲﴾ قَالُوۡا لَا تَوۡجَلۡ اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلٰمٍ عَلِیۡمٍ ﴿۵۳﴾﴾
اس سورت مبارکہ میں اللہ رب العزت نے ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ بالکل اختصار سے بیان فرمایا ہے۔ لوط علیہ السلام کا بھی ذکر کیا ہے اور حضرت شعیب علیہ السلام کا بھی کچھ ذکر فرمایا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں صرف اتنی بات فرمائی ہے کہ ابراہیم علیہ السلام تشریف فرما تھے تو کچھ فرشتے انسانی شکل میں ان کے پاس آئے۔ ابراہیم علیہ السلام بہت مہمان نواز تھے۔ بغیر پوچھے ان کے لیے بچھڑا ذبح کیا اور کھانا پکا کر ان کے پاس لے آئے۔ جب بچھڑا سامنے رکھ دیا تو انہوں نے کھانے سے انکار کر دیا۔ ابراہیم علیہ السلام کو تھوڑا سا خوف محسوس ہوا کہ یہ کیسے مہمان ہیں جو کھا نا نہیں کھاتے؟ کہیں یہ میرے لیے نقصان کا سبب نہ ہوں۔ اس وقت ملائکہ نے کہا کہ اے ابراہیم! آپ ہم سے ڈریں مت، ہم آپ کے پاس کھانا کھانے کے لیے نہیں آئے،
﴿اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلٰمٍ عَلِیۡمٍ ﴿۵۳﴾﴾
ہم تو آپ کو ایک بہت بڑے علم والے بیٹے کی خوشخبری دینے کے لیے آئے ہیں، اس لیے آپ ڈر محسوس نہ کریں۔ آپ علیہ السلام نے انہیں فرمایا:
﴿اَبَشَّرۡتُمُوۡنِیۡ عَلٰۤی اَنۡ مَّسَّنِیَ الۡکِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُوۡنَ ﴿۵۴﴾﴾
میں تو بوڑھا ہو گیا ہوں، بڑھاپے میں آپ مجھے بچے کی بشارت دیتے ہو!
انہوں نے کہا:
﴿بَشَّرۡنٰکَ بِالۡحَقِّ فَلَا تَکُنۡ مِّنَ الۡقٰنِطِیۡنَ ﴿۵۵﴾﴾
ہم نے آپ کو سچی خوشخبری دی ہے، آپ اللہ کی رحمت سے مایوس مت ہوں۔ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا:
﴿وَ مَنۡ یَّقۡنَطُ مِنۡ رَّحۡمَۃِ رَبِّہٖۤ اِلَّا الضَّآلُّوۡنَ ﴿۵۶﴾﴾
کہ اللہ کی رحمت سے ناامید تو گمراہ آدمی ہی ہوتا ہے، میں ناامید تو نہیں بس ویسے میں نے تعجب میں کہا ہے کہ میں بوڑھا ہوں اور تم مجھے بشارت دے رہے ہو۔
پھر ابراہیم علیہ السلام نے ان ملائکہ سے محسوس کیا کہ یہ صر ف بچے کی بشارت دینے کے لیے نہیں آئے ہیں، لگتا ہے کہ کو ئی کام اور بھی ہے۔ فرمایا کہ تم نے بیٹے کی تو مجھے بشارت دی ہے، کوئی اور مقصد ہو تو وہ بھی بتا دو! حضرت ابراہیم علیہ السلام نبی تھے تو محسوس ہوا کہ ان فرشتوں کا کوئی اور مقصد بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم آپ کی طرف تو نہیں آئے آپ کو تو صرف بشارت دینی تھی، اللہ نے ہمیں لوط علیہ السلام کی قوم کی طرف عذاب دینے کے لیے بھیجا ہے۔
فرشتوں کی لوط علیہ السلام کے پاس آمد:
جب وہاں پر پہنچے تو لوط علیہ السلام نے فرمایا:
﴿اِنَّکُمۡ قَوۡمٌ مُّنۡکَرُوۡنَ ﴾
کہ تم اجنبی لوگ لگتے ہو اور مجھے بہت دکھ ہے کہ تم میرے مہمان بنو گے۔ میری بد بخت قسم کی قوم ہے، یہ مردوں پر جنس پرستی کی وجہ سے ہاتھ ڈالتے ہیں، میں تمہاری حفاظت اپنی قوم سے کیسے کروں گا؟ یہ جنس پرستی کا جو مرض ہے یہ لوط علیہ السلام کی قوم سے چلا ہے، اس سے پہلے جنس پرستی کا کو ئی تصور بھی نہیں تھا، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ قرآن کریم میں ہے کہ فرشتوں نے لوط علیہ السلام سے کہا:
﴿فَاَسۡرِ بِاَہۡلِکَ بِقِطۡعٍ مِّنَ الَّیۡلِ وَ اتَّبِعۡ اَدۡبَارَہُمۡ وَ لَا یَلۡتَفِتۡ مِنۡکُمۡ اَحَدٌ وَّ امۡضُوۡا حَیۡثُ تُؤۡمَرُوۡنَ ﴿۶۵﴾﴾
کہ آپ فکر نہ کریں، آپ تیاری کریں اور رات کو کسی وقت اپنے گھر والوں کو لے کر یہاں سے نکلیں اور خود ان کے پیچھے پیچھے چلیں۔ آپ میں سے کوئی بھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے بلکہ جہاں تک جانے کا حکم ہے وہیں تک چلتے رہیں۔
حضرت لوط علیہ السلام نے تیا ری کی۔ ادھر قوم کو پتا چلا کہ لوط علیہ السلام کے پاس مہمان آئے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے:
﴿وَ جَآءَ اَہۡلُ الۡمَدِیۡنَۃِ یَسۡتَبۡشِرُوۡنَ ﴿۶۷﴾﴾
یہ لوگ ایک دوسرے کو خوش خبری دیتے ہو ئے لوط علیہ السلام کے پاس پہنچے۔ اندازہ کریں کہ لوط علیہ السلام کس قدر غم زدہ ہو کر یہ بات فرماتے ہوں گے کہ:
﴿اِنَّ ہٰۤؤُلَآءِ ضَیۡفِیۡ فَلَا تَفۡضَحُوۡنِ ﴿ۙ۶۸﴾ وَ اتَّقُوا اللہَ وَ لَا تُخۡزُوۡنِ ﴿۶۹﴾﴾
کہ یہ میرے مہمان ہیں، اللہ کے لیے مجھے رسوا نہ کرو! خدا سے ڈرو اور مجھے غمگین نہ کرو!
قوم ِ لوط کی بدبختی:
لیکن قوم ایسی بد بخت تھی کہ اس نے کہا:
﴿اَوَ لَمۡ نَنۡہَکَ عَنِ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۷۰﴾﴾
کہ اے لوط! ہم نے تمہیں کئی بار منع نہیں کیا کہ اپنے گھر میں دنیا جہان کے لوگوں کو مہمان نہ بنایا کرو۔
لوط علیہ السلام فرمانے لگے:
﴿ ہٰۤؤُلَآءِ بَنٰتِیۡۤ اِنۡ کُنۡتُمۡ فٰعِلِیۡنَ ﴿ؕ۷۱﴾﴾
تمہاری بیویاں جو میری روحانی بیٹیا ں ہیں وہ تمہارے گھروں میں موجود ہیں اس لیے تم کیوں اس جر م کا ارتکاب کر تے ہو؟ لوط علیہ السلام مسافرتھے۔ اپنا علاقہ نہیں تھا، عراق کے علاقے سے چلے تھے شام میں ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ گئے، وہاں سے حکم ہوا تو ہجرت کر کے بستی سدوم میں گئے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ نبی ہیں اور اجنبی علاقے میں رہتے ہیں اور اللہ کے حکم کی وجہ سے وہا ں پہنچے ہیں تو کس قدر ان کو شرمندگی ہو گی جب ان کے مہمانوں پر قوم ہاتھ ڈالتی ہو گی۔ سوائے جزع فزع کے لوط علیہ السلام اور کیا کر سکتے تھے؟ لوط علیہ السلام نے بس ایک حسرت کا جملہ کہا تھا جو یہاں نہیں ہے ایک دوسرے مقام پر ہے، فرمایا:
﴿لَوۡ اَنَّ لِیۡ بِکُمۡ قُوَّۃً اَوۡ اٰوِیۡۤ اِلٰی رُکۡنٍ شَدِیۡدٍ ﴿۸۰﴾﴾ 31F
ھود11: 80
کاش آج میری طاقت ہوتی یا میرا مضبوط قبیلہ ہوتا تو تم یہ حرکت کبھی نہ کرتے۔ خیر لوط علیہ السلام کو فرشتوں نے کہا کہ آپ ہماری پر واہ نہ کریں، ہم ان کو ہلاک کرنے کے لیے ہی آئےہیں۔اللہ رب العزت نے اس جگہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کی قسم کھا کر فرمایا:
﴿لَعَمۡرُکَ اِنَّہُمۡ لَفِیۡ سَکۡرَتِہِمۡ یَعۡمَہُوۡنَ ﴿۷۲﴾﴾
کہ ہم آپ کی ذات کی قسم اٹھا کر کہہ رہے ہیں کہ حضرت لوط علیہ السلام کی یہ قوم مد ہوشی اور بے حیائی میں اتنی مست تھی کہ ان کو احساس ہی نہیں ہوا کہ پیغمبر ہمیں کس عذاب سے ڈر ا رہا ہے اور ہمیں کس گناہ سے روکتا ہے؟! وہ لوگ بے حیائی پر ڈٹے رہے۔ بالآخر لوط علیہ السلام رات کو نکلے اور یہ پیچھے رہ گئے۔ لوط علیہ السلام کی اہلیہ وہ زانیہ نہیں تھی، کافرہ ضرور تھی۔
نبی کے گھر میں کافرہ عورت تو آ سکتی ہے لیکن نبی کے گھر میں زانیہ عورت کبھی نہیں آ سکتی۔ اس لیے کہ ہمارے معاشرے میں جس قدر عیب زنا کو سمجھا جاتا ہے اس قدر عیب کفر کو نہیں سمجھا جاتا۔ اس لیے اللہ اپنے نبی کے گھر میں کبھی بھی فاحشہ عورت کو نہیں آنے دیتے۔ ہاں کافرہ عورت آ سکتی ہے۔ اس عذاب میں ان کی بیوی بھی رہ گئی اور باقی لوگ بھی رہ گئے۔ قرآن کہتا ہے کہ یہ اتنا سخت عذاب تھا کہ:
قومِ لوط پر عذاب:
﴿فَجَعَلۡنَا عَالِیَہَا سَافِلَہَا وَ اَمۡطَرۡنَا عَلَیۡہِمۡ حِجَارَۃً مِّنۡ سِجِّیۡلٍ﴿ؕ۷۴﴾﴾
پہلے اللہ نے اس بستی کو پہلےاوپر لے جا کر نیچے کی طرف پلٹا اور پھر اوپر سے ان پر پتھر برسائے۔ آج بھی وہ بستی اس طرح تباہ شدہ ہے۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ بحرِ میت انہی بستیوں کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے۔ اس وقت سے لے کر آج تک نہ اس پانی میں کوئی مچھلی رہ سکی ہے نہ اس پانی میں کوئی اور جانور رہ سکا ہے۔ اللہ ہم سب کی ان عذابوں سے حفاظت فرمائے۔ (آمین۔ سامعین)
اصحابِ حِجر والوں کا انجام:
﴿وَ لَقَدۡ کَذَّبَ اَصۡحٰبُ الۡحِجۡرِ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ﴿ۙ۸۰﴾﴾
حِجر والوں نے اپنے رسولوں کو جھٹلایا۔
جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیا ہے کہ وادی حجر میں قوم ثمود آباد تھی۔ ان کی طرف حضرت صالح علیہ السلام کو پیغمبر بنا کر بھیجا گیا تھا۔ انہوں نے اپنی قوم کو دعوت دی لیکن قوم نے آپ کو جھٹلایا جس کے نتیجے میں اللہ نے اس قوم کو ایک ہیبت ناک آواز کے ذریعے ہلاک کر دیا۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب قوم ثمود کی طرف حضرت صالح علیہ السلام کو پیغمبر بنا کر بھیجا گیا تھا اور انہوں نے آپ کو جھٹلایا تھا تو پھر یہاں جمع کا صیغہ کیوں لائے؟ یعنی یہ کیوں کہا
﴿وَ لَقَدۡ کَذَّبَ اَصۡحٰبُ الۡحِجۡرِ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ﴿ۙ۸۰﴾﴾
کہ حِجر والوں نے اپنے رسولوں کو جھٹلایا حالانکہ جھٹلایا تو ایک نبی کو تھا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ تمام انبیا علیہم السلام کی دعوت مشترک ہوتی ہے اس لیے ایک نبی کو جھٹلانا گویا تمام انبیاء کی دعوت کا انکار کرنا ہے۔ اس لیے یہاں جمع کا لفظ لائے یعنی حِجر والوں نے اپنے رسولوں کو جھٹلایا۔
سورۃ الفاتحہ کو ”قرآن عظیم“ کہنے کی وجہ:
﴿وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنٰکَ سَبۡعًا مِّنَ الۡمَثَانِیۡ وَ الۡقُرۡاٰنَ الۡعَظِیۡمَ ﴿۸۷﴾﴾
اللہ رب العزت نے ان قوموں کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا کہ اے میرے پیغمبر! آپ کی قوم اگر آپ کی بات نہ مانے تو آپ گزشتہ انبیاء علیہم السلام کو دیکھیں۔ وہ بھی اپنی قوموں کو دعوت دیتے رہے ہیں اس لیے آپ بھی قوم کو دعوت دیتے رہیں۔ اگر یہ نہ مانیں تو آپ در گزر فرمائیں، آپ سختی نہ فرمائیں، جو دلائل آپ کے پاس ہیں آپ ان کو دے دیں اور دعا بھی مانگیں۔ اے پیغمبر! آپ کا اعزاز یہ ہے کہ ہم نے آپ کو وہ سورت دی ہے جو بار بار پڑھی جاتی ہے اور اس سورت کو اللہ نے قرآن عظیم بھی فرمایا ہے۔ مراد اس سے سورۃ الفاتحہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے خاص طور پر عطا فرمائی تھی۔
یہاں پر دو باتیں سمجھ لیں:
[۱]: پہلی بات جو مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمائی ہے کہ یہاں پر قرآن عظیم سے مراد ”فاتحہ“ ہے۔ اللہ نے سورۃ فاتحہ کو قرآن عظیم کیوں فرمایا؟ اس کی وجہ یہ ہےکہ پورے قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے چھ مضامین بیان فرمائے ہیں:
توحید،
رسالت،
قیامت،
احکام،
ماننے والے،
نہ ماننے والے
یہ چھ مضامین اللہ نے سورۃ الفاتحہ میں اختصار سے بیان فرما دیے ہیں:
[1]:
﴿اَلۡحَمۡدُ لِلہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۱﴾﴾
میں تو حید۔
[2]:
﴿مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۳﴾﴾
میں قیامت
[3]:
﴿اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۴﴾﴾
میں احکام
[4، 5]:
﴿صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ﴾
میں رسالت اور ماننے والے
[6]:
﴿غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾﴾
میں نہ ماننے والے
اس لیے فاتحہ کو قرآن عظیم کہا کہ اس میں الفاظ تھوڑے ہیں اور پورے قرآن کا خلاصہ موجود ہے اور نمار کی جتنی بھی رکعتیں ہیں باقی سورت ہو یا باقی سورت نہ ہو لیکن فاتحہ پڑھی جاتی ہے۔ جیسے عشاء کی پہلی دو رکعتوں میں فاتحہ بھی ہے اور دوسری سورت بھی ہے اور آخری دو رکعتو ں میں فاتحہ تو ہے لیکن اور کوئی سورت نہیں ہے۔ مغرب کی پہلی دو رکعتوں میں فاتحہ بھی ہے اور دوسری سورت بھی ہے اور آخری یعنی تیسری رکعت میں سورۃ الفاتحہ تو ہے لیکن دوسری کوئی سورت نہیں ہے۔
آپ کو تعجب ہو گا کہ ہر رکعت میں سورۃ الفاتحۃ کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ چاہتے ہیں کہ بندہ میرے سامنے کھڑا ہے، بندہ مجھ سے بات کر نا چاہتا ہے تو میرا کلام پڑھے، پورا قرآن ہر رکعت میں بندہ اللہ کے سامنے نہیں پڑھ سکتا تو اللہ نے فرمایا کہ فاتحہ پڑھو گویا کہ تم نے سارا قرآن پڑھ لیا ہے۔ ایک تو یہ ذہن میں رکھ لیں۔
[۲]: اور دوسری بات کہ آپ یہ دو کتابیں اپنے پاس رکھ لیں؛ ایک مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ کی کتاب ”سیرت المصطفی صلی اللہ علیہ وسلم“ اور دوسری ڈاکٹر عبد الحئی عارفی رحمہ اللہ کی کتاب ”اسوۂ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم“۔
ان دونوں کتابوں کا اہتمام فرمائیں۔ یہ دو کتابیں ہر شحص کے پاس ضرور ہونی چاہییں۔ ان میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی کے حالات آپ کے سامنے موجود ہوں گے۔ ”اسوۂ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم“ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کے خلیفہ مجاز ڈاکٹر عبد الحئی عارفی رحمہ اللہ نے لکھی ہے، ایک جلد میں ہے اور سارے معمولات جمع کیے ہیں کہ کھانا کیسے ہے، پینا کیسے ہے، پگڑی کیسے باندھنی ہے، ٹوپی کیسے پہننی ہے، سونا کیسے ہے؟ یہ سب معمولات جمع کر دیے ہیں۔
پیغمبر پاک علیہ السلام کو تسلی:
جب اللہ رب العزت نے یہ ساری باتیں ارشاد فرمائیں تو آخر میں ایک جملہ یہ ارشاد فرمایا:
﴿وَ لَقَدۡ نَعۡلَمُ اَنَّکَ یَضِیۡقُ صَدۡرُکَ بِمَا یَقُوۡلُوۡنَ ﴿ۙ۹۷﴾ فَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّکَ وَ کُنۡ مِّنَ السّٰجِدِیۡنَ ﴿ۙ۹۸﴾﴾
اے پیغمبر! ہم جانتے ہیں کہ یہ لوگ جو باتیں بناتے ہیں ان کی وجہ سے آپ کا سینہ تنگ ہوتا ہے۔ ہمیں اس بات کا پتا ہے۔ اب اس کا حل یہ ہے
﴿فَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّکَ وَ کُنۡ مِّنَ السّٰجِدِیۡنَ ﴿ۙ۹۸﴾﴾
کہ آپ اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے رہیے اور سجدہ کرنے والوں میں شامل رہیے!
اس آیت کے تحت مفسرین نے لکھا ہے خصوصاً مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کہ اللہ نے اپنے نبی کو تسلی دی ہے کہ آپ دعوت دیتے ہیں اور یہ قبول نہیں کرتے تو آپ کا دل تنگ ہو تو اس کا حل یہ ہے کہ آپ اللہ کی تعریف بھی کریں، اللہ کو سجدے بھی کریں۔ معلوم ہوا کہ دکھ پر خدا کو یاد کرنے سے خدا دکھ کو ختم فرما دیتے ہیں اور آپ کو تسلی مل جائے گی۔
عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اشکال کا جواب:
﴿وَ اعۡبُدۡ رَبَّکَ حَتّٰی یَاۡتِیَکَ الۡیَقِیۡنُ ﴿٪۹۹﴾﴾
پیغمبر! آپ اللہ کو یاد کیا کریں۔ یہ کفار آپ کی بات نہ بھی مانیں تو بھی آپ وفات تک اللہ کی عبادت میں لگے رہیں۔ آپ سے آپ کی عبادت کے بارے میں سوال ہو گا، ان کی عبادت کے بارے میں سوال نہیں ہو گا۔
اس آیت سے یہ مسئلہ ذہن نشین فرما لیں کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں نماز پڑھتے ہیں۔ جو حضرات یہ کہتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں نماز نہیں پڑھتے وہ اس آیت کو ہمارے خلاف بطور دلیل کے پیش کرتے ہیں اور یہ دلیل کیسے ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم میں ہے:
﴿وَ اعۡبُدۡ رَبَّکَ حَتّٰی یَاۡتِیَکَ الۡیَقِیۡنُ﴾
کہ اے پیغمبر! آپ موت آنے تک عباد ت کریں! یہ نہیں کہ موت کے بعد بھی عبادت کریں اور تم جو حدیث پیش کرتے ہو کہ:
"اَلْأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِيْ قُبُوْرِهِمْ يُصَلُّوْنَ"32F
مسند ابی یعلی الموصلی: ص658 رقم الحدیث3425
انبیاء علیہم السلام زندہ ہیں اپنی قبروں میں نماز پڑھتے ہیں، جبکہ قرآن کہتا ہے کہ موت تک نماز ہے اور حدیث کہتی ہے کہ قبروں میں بھی نماز ہے۔ تو یہ حدیث قرآن کے خلاف ہو گئی۔ ان کی دلیل سمجھ میں آ گئی؟ (جی ہاں۔ سامعین)
اب بندہ سمجھتا ہے کہ یہ بہت بڑا علامہ ہے، بہت بڑا شیخ القرآن ہے کہ حدیثیں بھی قرآن کے خلاف ثابت کرتا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو قرآن کے خلاف ثابت کر دیا یہ کتنا بڑا عالم ہے! لوگ اس کا نام ”علامہ“ رکھتے ہیں جو نبی کی حدیثوں کو قرآن کے خلاف ثابت کرتے ہیں۔
بابا! یہ عالم نہیں ہے، اس سے بڑا جاہل کون ہو سکتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو قرآن سے ٹکراتا ہے!
عبادتِ تکلیفی اور عبادتِ تلذذی:
حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا بہت پیارا جواب دیا ہے۔ حضرت تھانوی فرماتے ہیں کہ عبادت کی دو قسمیں ہیں:
ایک عبادت تکلیفی ہے اور ایک عبادت تلذذی ہے۔ عبادت تکلیفی اسے کہتے ہیں کہ نماز پڑھیں تو ثواب ملے اور عبادت نہ کریں تو گناہ ملے۔ اب فجر کی نماز پڑھیں گے تو ثواب ملے گا اور نہیں پڑھیں گے تو گناہ ملے گا۔ انسان نماز پڑھنے کا مکلف ہے، اور عبادت تلذذی کا معنی یہ ہے کہ عبادت کریں گے تو مزا آئے گا اور عبادت نہیں کریں گے تو مزا نہیں آئے گا۔ اس کا گناہ او ر ثواب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
آپ کو یا د ہو گا کہ میں نے مثال دے کر یہ بات سمجھائی تھی کہ رمضان میں آپ اگر افطاری کریں تو ثواب ملے گا اور اگر چیزیں موجود ہوں اور افطاری پھر بھی نہ کریں تو ثواب ملے گا یا گنا ہ ہو گا؟(گناہ ہو گا۔ سامعین) اب افطاری کے وقت یہ جو آپ کولڈ ڈرنک استعمال کرتے ہیں، شربت استعمال کرتے ہیں، جوس استعمال کرتے ہیں اس کے استعمال کرنے پر ثواب ہے اور نہ استعمال کرنے پر گناہ ہے تو افطاری کے وقت جو کھانا پینا ہے یہ تکلیفی ہے، اور جب تراویح کے بعد آپ کہتے ہیں کہ ہم نے تراویح پڑھ لی ہے، اب آئس کریم ہونی چاہیے، اب اگر آئس کریم نہ کھائیں تو پھر گناہ نہیں ہو گا، کھائیں گے تو مزا آئے گا۔ تویہ تراویح والی جو آئس کریم ہے یہ تلذذی ہے۔
حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یہ جو دنیا میں عبادت ہے یہ عبادت تکلیفی ہے، ہمارے پیغمبر! موت تک آپ نے عبادت تکلیفی کرنی ہے، اور جو قبر میں نماز ہے وہ تکلیفی نہیں ہے وہ تلذذی ہے۔ تو آیت میں عبادت اور ہے اور حدیث میں عبادت اور ہے۔ اب بتائیں ٹکراؤ کیسےہے؟ قرآن اور بات کہہ رہا ہے، حدیث اور با ت کہہ رہی ہے۔ اللہ پاک ہمیں یہ بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
جب جنتی جنت میں جائیں گے تو جنت میں اللہ کی نعمتوں کو کھائیں گے تو کہیں گے:
”الحمد للہ!“
تویہ عبادت نہیں ہے؟ (عبادت ہے۔ سامعین) تو جب قرآن میں ہے کہ موت کے بعد عبادت نہیں ہے تو یہ جنت میں کیسے عبادت کریں گے؟ ہم کہتے ہیں کہ یہ عبادت تلذذی ہو گی۔ اللہ ہم سب کو جنت عطا فرمائے۔ (آمین)
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․