سورۃ النحل

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
سورۃ النحل
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿اَتٰۤی اَمۡرُ اللہِ فَلَا تَسۡتَعۡجِلُوۡہُ ؕ سُبۡحٰنَہٗ وَ تَعٰلٰی عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ ﴿۱﴾﴾
تمہیدی باتیں:
آج ہمارے درس قرآن کا عنوان ہے ”سورۃ النحل کے مضامین“۔ اس سورت کا ایک نام سورۃ النحل ہے اور ایک نام سورۃالِنعَمبھی ہے۔ نِعَم کا معنی ہے نعمتیں۔ تو اس سورت میں اللہ پاک نے بہت سارے انعامات کا تذکرہ فرمایا ہے جو اللہ نے انسان کو عطا فرمائے ہیں۔ مثلاً اس میں ایک بہت بڑی نعمت یہ ہے کہ انسان کو دودھ کے لیے بھینس عطا فرمائی۔ بھینس گھاس کھاتی ہے تو اس کا ایک حصہ گوبر بن جاتا ہے اور ایک حصہ دودھ بنتا ہے۔ گوبر اور خون کے درمیان میں سے اللہ پاک خالص دودھ عطا فرماتے ہیں، یہ اللہ کا کتنا بڑا احسان اور اللہ کی کتنی بڑی نعمت ہے۔
اللہ نے اس قسم کی بہت سی نعمتوں کا تذکرہ فرمایا ہے اس لیے اس سورت کا نام ”سورۃ النعم“ بھی ہے کیوں کہ اس میں خاص نعمتوں کا تذکرہ ہے لیکن سورت کا معروف نام سورۃ النحل ہے۔ عربی زبان میں ”نحل“ کہتے ہیں شہد کی مکھی کو۔ کیونکہ اس سورت مبارکہ میں شہد کی مکھی اور شہد کا بطورِ خاص ذکر فرمایا اس لیے اس سورت کا نام بھی سورۃ النحل رکھ دیا گیا۔
اس سورت کے 16 رکوع ہیں اور 128 آیات ہیں۔ میں عرض کیا کرتا ہوں کہ ساری آیات کی تفصیل ذکر نہیں کی جاتی چند آیات کی تفصیل اور پھر پوری سورت کا خلاصہ آپ کی خدمت میں ذکر کر دیا جاتا ہے۔
شہد کی مکھی:
اس سورت کی آیت نمبر 68 میں اللہ نے شہد کی مکھی کا تذکرہ فرمایا ہے۔ اللہ رب العزت شہد کی مکھی کے دل میں کئی طرح کے پیغام بھیجتے ہیں۔ ان میں ایک یہ ہے:
﴿اَنِ اتَّخِذِیۡ مِنَ الۡجِبَالِ بُیُوۡتًا وَّ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا یَعۡرِشُوۡنَ ﴿ۙ۶۸﴾﴾
شہد کی مکھی کو حکم یہ ہے کہ شہد کا وہ چھتا جس پر وہ شہد بناتی ہے اسے پہاڑ پر لگائے یا کسی درخت پر لگائے یا کسی اونچی منزل پر بنائے یعنی شہد کا مخصوص چھتا جس پر شہد بننا ہو اس کو زمین پر نہیں لگانا! اس چھتے کو بطورِ خاص غلاظت سے پاک صاف رکھنا ہوتا ہے اس لیے اللہ اس کو بلند جگہ رکھنے کا حکم فرماتے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ شہد کو اللہ پاک نے صاف رکھنا ہےتو بلند جگہ پر بھی رکھوایا، پھر شہد کے چھتے کو اللہ پاک نے فرمایا:
”بُیُوۡتًا“
یہ جمع ہے ”بیت“ کی، بیت کہتے ہیں مکان کو۔ عام طور پر جو مکان انسان کے رہنے کے لیے ہوتے ہیں عر بی زبان میں ان کو بیت کہتے ہیں۔ اللہ پاک نے شہد کی مکھی کی جگہ کے لیے بھی وہی لفظ استعمال کیا ہے جو انسان کے مکان کے لیے ہے یعنی بیت۔تو جس طرح انسان کے گھر کو بیت کہتے ہیں تو شہد کی مکھی کے گھر کو بھی بیت کہتے ہیں۔ اللہ پاک انسان کے گھر کی حفاظت بھی کرتے ہیں اور شہد کی مکھی کے گھر کی حفاظت بھی کرتے ہیں۔
جس طرح انسانی سوسائٹی میں ایک بڑا ہوتا ہے اور باقی اس کے ماتحت ہوتے ہیں بالکل اسی طرح شہد کی مکھیوں میں بھی ایک بڑا ہوتا ہے اور باقی اس کے ماتحت ہوتے ہیں۔ شہدکی مکھی کے بڑے کو ”ملکہ“ کہتے ہیں ۔ ان کا جسم اور قد بھی عام مکھیوں سے قدرے بڑا ہوتا ہے۔ یہ ملکہ باقی سب مکھیوں کی ڈیوٹیاں لگا دیتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس ملکہ کو اتنی طاقت عطا فرما دیتے ہیں کہ یہ سیزن میں یومیہ ایک ہزار سے زیادہ انڈے دیتی ہے جس سے بچے پیدا ہوتے ہیں ۔ خاص قسم کی گھنگھناہٹ پیدا کرنے کے لیے شہد کی مکھی ایک منٹ میں گیارہ ہزار مرتبہ اپنے پروں کو حرکت دیتی ہے اور اس سے ایک خاص قسم کی آواز پیدا ہوتی ہے۔ شہد کی مکھی جب پھولوں کا رس چوسنے کے لیے سفر کرتی ہے تو آدھا کلو شہد تیار کرنے کے لیے اسے مجموعی طور پر 55 ہزار کلومیڑ کا سفر طے کرنا پڑتاہے اور ایک سفر میں ایک مکھی پچاس سے لے کر سو تک پھولوں سے رس چوستی ہے اور اس سے شہد تیار ہوتا ہے جو کہ چھوٹی محنت نہیں ہے۔
شہد کی مکھی اتنی محنت کرتی ہے۔ بارہ کلو میڑ فی گھنٹا کی رفتار سے سفر کرتی ہے اور پچپن ہزار کلومیڑ کا سفر طے کرتی ہے۔ اگر کوئی شہد کی مکھی راستے میں کسی گندگی پر بیٹھ جائے اور پھرشہد کے چھتے میں آئے تو مکھیوں کی جو ملکہ ہوتی ہے اس نے باقاعدہ پولیس رکھی ہوئی ہوتی ہے، یہ پولیس یا گارڈ باہر پہرہ دیتے ہیں، جب ایسی مکھی آئے تو اس کو چھتہ سے باہر ہی روک لیتے ہیں اور اسے قتل کر دیتے ہیں کہ تم صاف چیزوں کے بجائے گندگی لے کر کیوں آئی ہو؟
شہد کا چھتا؛ عظیم کاریگری کا نمونہ:
اللہ پاک نے جو شہد ہمارے لیے پیدا فرمایا ہے اس کا اتنا انتظام فرماتے ہیں۔ اور آپ حیران ہوں گے کہ خوردبین جس سے چھوٹی چھوٹی چیزیں دیکھا کرتے ہیں اس خورد بین میں ایک عکسہ اور شیشہ ہوتا ہے، شہد کی مکھی کی آنکھیں بھی خورد بین کی طرح کام کرتی ہیں۔ اب انسان اس کو سوچنا چاہے تو سوچ بھی نہیں سکتا۔ شہد کی مکھی جس مکان میں شہد بناتی ہے پہلے اس مکان میں مخصوص چھتا بنتا ہے۔ وہ چھتا خاص قسم کے مواد سے تیار ہوتا ہے ۔ شہد کی مکھی جو چھتا بناتی ہے اس کے خانے نہ مثلث ہیں نہ مربع ہیں نہ مخمس ہیں بلکہ مسدس ہیں یعنی تین بھی نہیں، چار بھی نہیں، پانچ بھی نہیں ہے بلکہ چھ کونوں والے خانے ہیں۔
مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ چھ کیوں ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس خانے کے تین کونے ہوں اسے آپ جب بھی صاف کریں گے تو کچھ نہ کچھ اس میں ذرے رہ جائیں گے، چار ہوں گے تب بھی رہ جائیں گے، پانچ ہوں گے تب بھی رہ جائیں گے اور اگر آپ مسدس یعنی چھ کونے والا ایک خانہ بنائیں تو اس کے ہر کونے کے درمیا ن میں بالکل بھی فاصلہ نہیں ہوتا اس لیے مکھی مسدس شکل کو اختیار کرتی ہے۔ یہ مکان میں چھوٹے چھوٹے کمرےہیں جیسے ہمارے مکان میں کمرے ہوتے ہیں۔ اس طرح ایک ایک کمرہ مسد س بنتا ہے۔دنیا میں آپ کو کوئی انجینئر اتنا اچھا کام کرنے والا نہیں ملے گا جو اللہ مکھی کے ذریعے لیتے ہیں۔
شہد کی مکھی کو پیغام:
﴿وَ اَوۡحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحۡلِ﴾
جس طرح نبی پر اللہ اپنا کلام اتاریں اسے ”وحی“ کہتے ہیں، مکھی پر وحی تو نہیں ہوتی لیکن اللہ نے لفظ وحی والا استعمال کر کے اس کو براہِ راست یہ حکم دیا کہ پہاڑوں درختوں اور اونچی جگہوں پر اپنا گھر بنا۔
﴿فَاسۡلُکِیۡ سُبُلَ رَبِّکِ ذُلُلًا ؕ﴾
اور مکھی کے لیے اللہ رب العزت راستے بہت آسان بنا دیتے ہیں۔ یہ گزشتہ دور میں سمجھنا مشکل تھا لیکن آج کے دور میں سمجھنا بہت آسان ہے۔ اب دیکھیں! ہمارے لیے ایک راستہ زمین پر ہے اور ایک راستہ فضا میں جہازوں کے لیے ہے، ہم جیسابندہ جو اِن چیزوں کے علم کو نہیں جانتا وہ نہیں سمجھ سکتا کہ فضا میں ائیر لائن کا راستہ کیسے ہوتا ہے؟ گویا یہ راستہ پہلے مکھیوں کے لیے تھا اور آج جہازوں کے لیے بنا ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے فضائی راستے موجود ہیں جو آج انسان جہازوں کے لیے استعمال کرتا ہے اور ہزروں لاکھوں سال سے ان کو شہد کی مکھی استعمال کر رہی ہے۔
تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے:
﴿یَخۡرُجُ مِنۡۢ بُطُوۡنِہَا شَرَابٌ مُّخۡتَلِفٌ اَلۡوَانُہٗ فِیۡہِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ ؕ﴾
فرمایا مکھی کے پیٹ سے پینے کی ایسی چیز نکلتی ہے جس کے رنگ مختلف ہیں، اس میں انسان کی بیماری کے لیے اللہ نے شفا رکھی ہے۔
حدیث میں ہے کہ ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کرنے لگا کہ میرا بھائی بیمار ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے شہد پلاؤ! اس نے شہد پلایا۔ آ کر پھر کہنے لگا کہ بیماری ابھی ویسے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر وہی مشورہ دیا۔ اس نے جا کر پلایا لیکن بیماری ابھی بھی ویسے تھی۔ تیسری بار پھر آیا اور آ کر کہا کہ اب بھی کوئی فرق نہیں۔ تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"صَدَقَ اللهُ وَكَذَبَ بَطْنُ أَخِيْكَ"
اللہ کا قرآن سچا ہے اور تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے،
"اِسْقِهِ عَسَلًا"
اس کو پھر جا کر شہد پلاؤ! اس نے جا کر پھر پلایا تو مریض ٹھیک ہو گیا۔33F
صحیح البخاری ، رقم : 5684
شہد کی مکھی کے بارے میں حدیث:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اَلذُّبَّانُ كُلُّهَا فِي النَّارِ يَجْعَلُهَا عَذَابًا لِأَهْلِ النَّارِ إِلَّا النَّحْل" 34F
الجامع لاحکام القرآن للقرطبی: ج2 ص 1781
یعنی دوسرے تکلیف دینے والے جانداروں کی طرح مکھیوں کی بھی تمام قسمیں جہنم میں جائیں گی مگر شہد کی مکھی جہنم میں نہیں جائے گی۔
تو اللہ تعالیٰ مکھیوں کی تمام اقسام کو عذاب دینے کے لیے جہنم میں نہیں ڈالیں گے بلکہ اس لیے ڈالیں گے کہ یہ مکھیاں جہنمیوں کو عذاب دیں، ان کو کاٹیں اور انہیں تکلیف دیں لیکن شہد کی مکھی وہ واحد جانور ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ جہنم میں عذاب دینے کے لیے تو درکنار جہنمیوں کو عذاب دینے کے لیے بھی نہیں بھیجیں گے۔
اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عام حالات میں شہد کی مکھیوں کو مارنے سے منع بھی کیا ہے کہ ان کو قتل نہ کرو۔
سنن ابی داؤد، رقم: 5267
ہاں اگر وہ آپ کو تکلیف دینا چاہ رہی ہو اور آپ نے اپنے آپ کو بچانے کے لیے کوئی تدبیر کی اور وہ مر گئی تو یہ بات الگ ہے لیکن کوشش کیا کریں کہ اس کو قتل نہ کریں۔
دنیا کی حقیقت:
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دنیا میں دو چیزیں انسان کے لیے بڑی اہم ہیں؛ انسان کا لباس اور انسان کی خواراک۔ دنیا میں سب سے بہترین اور قیمتی اور نرم لباس ریشم کا ہے اور دنیا میں سب سے بہترین مشروب شہد کا ہے۔
"أَشْرَفُ لِبَاسِ ابْنِ آدَمَ فِيْهَا لُعَابُ دُوْدَةٍ"
دنیا میں انسان کا سب سے قیمتی لباس ریشم کے کیڑے کا لعاب ہے،
"وَ أَشْرَفُ شَرَابِهٖ رَجِيْعُ نَحْلَةٍ"
اور اس کا نفیس لذت بخش مشروب شہد کی مکھی کا فضلہ ہے۔
الجامع لاحکام القرآن للقرطبی: ج2 ص 1782
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دنیا کی حقارت بیان فرمائی ہے کہ سب سے قیمتی لباس بھی ایک جانور کا تھوک ہے اور سب سے قیمتی مشروب بھی ایک جانور کا فضلہ ہے۔
اللہ ہمیں یہ ساری باتیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
جانوروں کی پیدائش:
﴿وَ الۡاَنۡعَامَ خَلَقَہَا ۚ لَکُمۡ فِیۡہَا دِفۡءٌ وَّ مَنَافِعُ وَ مِنۡہَا تَاۡکُلُوۡنَ ﴿۪۵﴾﴾
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے کچھ نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے اور جانوروں کا بطور خاص ذکر فرمایا ہے۔ فرمایا کہ چوپایوں کو اللہ ہی نے تمہارے لیے بنایا ہے، ان میں تمہارے لیے سردی سے بچنے کا سامان ہے یعنی جانوروں کی اون سے تم گرم لباس بنا کر سردی سے اپنا بچاؤ کرتے ہو۔ مزید فرمایا کہ ان میں تمہارے لیے اور بھی منافع ہیں اور ایک نفع یہ بھی ہے کہ تم ان کا گوشت کھاتے ہو۔
آگے فرمایا کہ ان جانوروں پر تم بوجھ لادتے ہو جو تم اٹھا کر نہیں لے جا سکتے تھے، یہ جانور تمہارا بوجھ بھی اٹھاتے ہیں۔
﴿وَّ الۡخَیۡلَ وَ الۡبِغَالَ وَ الۡحَمِیۡرَ لِتَرۡکَبُوۡہَا وَ زِیۡنَۃً ؕ﴾
یہاں تین قسم کے جانوروں کا ذکر کیا: گھوڑا، خچر اور گدھا ۔ ان کو کیوں پیدا کیا؟ تو یہاں یہ فائدے ارشاد فرمائے:
1 :
﴿لِتَرۡکَبُوۡہَا﴾
کہ تم ان پر سواری کرو۔
2 :
﴿وَ زِیۡنَۃً﴾
تاکہ تمہاری زینت کا سبب بنیں۔
گھوڑے کا گوشت نہ کھائیں:
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ کی دور نظری دیکھیں! امام صاحب فرماتے ہیں کہ اس آیت سے پتا چلتا ہے کہ گھوڑے کا گوشت نہیں کھانا چاہیے۔ کیوں کہ اللہ نے پہلے ذکر فرمایا:
﴿وَ الۡاَنۡعَامَ خَلَقَہَا﴾
کہ اللہ ہی نے جانور پیدا فرمائے، پیدا اس لیے فرمائے کہ
﴿لَکُمۡ فِیۡہَا دِفۡءٌ ﴾
اس کے اون کا لباس استعمال کر کے سردی سے بچو،
﴿وَّ مَنَافِعُ﴾
اس سے نفع حاصل کرو،
﴿وَمِنۡہَا تَاۡکُلُوۡنَ﴾
اور ان کو کھاؤ، لیکن جب گھوڑے کی باری آئی تو فرمایا:
﴿لِتَرۡکَبُوۡہَا وَ زِیۡنَۃً﴾
کہ گھوڑے کو اس لیے پیدانہیں کیا کہ اسےکھاؤ بلکہ اس اس لیے پیدا کیا کہ اس پر سواری کرو اور اس سے زینت کا کام لو۔
حضرت امام صاحب کا دماغ دیکھیں! قرآن کی آیت سے استدلال فرمایا کہ گھوڑے کو کھانا جائز نہیں ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ اللہ نے گھوڑے، خچر اور گدھے کا اکٹھا ذکر فرمایا اور فرمایا:
﴿لِتَرۡکَبُوۡہَا وَ زِیۡنَۃً﴾
پہلے اور جانوروں کا ذکر کر دیا اور بعد میں ان تین کا اکٹھا ذکر کر دیا۔ معلوم ہوا کہ جس طرح گدھے کو نہیں کھا نا چاہیے، جس طرح خچر کو نہیں کھانا چاہیے اسی طرح گھوڑے کو بھی نہیں کھانا چاہیے۔ گھوڑے کے کھانے سے بچنا چاہیے۔
فقہاء نے اس کی وجوہات اور بھی لکھی ہیں۔ مثلاً صاحبِ ہدایہ نے ایک وجہ یہ لکھی ہے کہ گھوڑا چونکہ جہاد کا آلہ ہے اس لیے گھوڑے کا گوشت نہ کھانے میں گھوڑے کا احترام ہے اور اس لیے گھوڑے کو نہیں کھانا چاہیے کہ اگر آلات جہاد کو کھانا شروع کر دیں تو آلاتِ جہاد کم ہو جائیں گے اور شریعت نے آلات جہاد بڑھانے کا حکم دیا ہے، کم کرنے کا حکم نہیں دیا ہے۔
بہر حال میں نے صرف یہ عرض کیا ہے کہ گھوڑے کو کھانا نہیں۔ آپ ایمانداری کے ساتھ بتائیں کہ جس جانور کو عام حالات میں کھانا مکروہ ہے اس جانور کی قربانی کرنا کیسے جائز ہو گا؟ اور آج لوگوں نے نیا مسئلہ نکال رکھا ہے، پہلے گھوڑے کی قربانی پر فتوے دیتے تھے اور اب گھوڑے کی قر بانی شروع بھی کردی ہے کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو زندہ کیا جا رہا ہے ! اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک کام کو نہ فرمائیں تو وہ سنت کیسے ہو سکتی ہے؟
سمندر کے فائدے:
﴿وَ ہُوَ الَّذِیۡ سَخَّرَ الۡبَحۡرَ لِتَاۡکُلُوۡا مِنۡہُ لَحۡمًا طَرِیًّا وَّ تَسۡتَخۡرِجُوۡا مِنۡہُ حِلۡیَۃً تَلۡبَسُوۡنَہَا﴾
وہی ذات ہے جس نے سمندر تمہارے لیے مسخر کر دیے ہیں یعنی تمہارے کام پر لگا دیے ہیں تاکہ تم اس میں سے تازہ گوشت کھاؤ اور اس میں سے زیورات نکالو جنہیں تم پہنتے ہو!
تازہ گوشت سے مراد مچھلی ہے:
مفسرین نے اس آیت کے تحت لکھا ہے کہ یہ جو اللہ رب ا لعزت نے فرمایا ہے کہ ہم نے سمندر کو تمہارے کے لیے مسخر کر دیا ہے تاکہ تم اس میں سے تازہ گوشت کھاؤ، اس سے مراد مچھلی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مچھلی ایسا جانور ہے اگر زندہ ہو تب بھی تازہ ہے اور اگر تم اسے مار دو تب بھی تازہ ہے۔ اس آیت سے پتا چلا کہ مچھلی کو ذبح کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ نے ان کے گوشت کو تازہ قرار دیا ہے، لہذا ذبح کیے بغیر استعمال کی جاتی ہے۔
منکرینِ حیات الانبیاء کے استدلال کا جواب:
﴿وَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ لَا یَخۡلُقُوۡنَ شَیۡئًا وَّ ہُمۡ یُخۡلَقُوۡنَ ﴿ؕ۲۰﴾ اَمۡوَاتٌ غَیۡرُ اَحۡیَآءٍ ۚ وَ مَا یَشۡعُرُوۡنَ ۙ اَیَّانَ یُبۡعَثُوۡنَ ﴿٪۲۱﴾﴾
ان آیات کو بطور خاص سمجھیں !
اللہ رب العزت نے ان آیات میں مشرکینِ مکہ کی یا ان سے پہلے کے مشرکین جو بتوں کی عبادت کرتے تھے، ان کی تر دید کی ہے، فرمایا:
یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر جن چیزوں کی پوجا کرتے ہیں وہ کسی چیز کو بھی پیدا نہیں کر سکتے۔
﴿وَّ ہُمۡ یُخۡلَقُوۡنَ﴾
بلکہ یہ تو خود پیداہوتے ہیں یعنی یہ خالق نہیں ہیں بلکہ خود مخلوق ہیں،
﴿اَمۡوَاتٌ﴾
یہ مردہ ہیں،
﴿غَیۡرُ اَحۡیَآءٍ﴾
ان میں زندگی نہیں ہے،
﴿وَ مَا یَشۡعُرُوۡنَ ۙ اَیَّانَ یُبۡعَثُوۡنَ﴾
اور ان کو خود پتا نہیں کہ کب اٹھیں گے۔ لہذا ایسے آدمی کو معبود نہ مانو، ایسے آدمی کی عبادت نہ کرو او ر اس کو خدا نہ سمجھو۔
یہ آیت خدا نے بتوں کے بارے میں نازل کی ہے۔ بہت سے حضرات اس آیت سے دلیل یہ پکڑتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام بھی وفات کے بعد مردہ ہیں، انبیاء علیہم السلام بھی اپنے قبروں میں زندہ نہیں ہیں، دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿وَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ ﴾
کہ جن کو وہ اللہ کے علاوہ پکارتے ہیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ کے علاوہ بت بھی ہیں، اللہ کے علاوہ جن بھی ہیں، اللہ کے علاوہ فرشتے بھی ہیں، اللہ کے علاوہ انسانوں میں نبی بھی ہیں،
﴿مِنۡ دُوۡنِ اللہِ﴾
عام ہے، اللہ کے علاوہ جو بھی ہیں وہ سارے اس آیت میں شامل ہو جائیں گے۔ دلیل سمجھ میں آ گئی ان کی؟ (جی ہاں۔ سامعین)
کہ اللہ کے علاوہ جس کی بھی یہ پوجا کریں یہ سارے کے سارے
﴿اَمۡوَاتٌ﴾
ہیں یعنی مردہ ہیں،
﴿غَیۡرُ اَحۡیَآءٍ﴾
اور یہ زندہ نہیں ہیں۔ اس میں نبی بھی شامل ہیں اور غیر نبی بھی شامل ہیں۔ قرآن نے سب کو مردہ کہہ دیا ہے۔اور
﴿وَ مَا یَشۡعُرُوۡنَ ۙ اَیَّانَ یُبۡعَثُوۡنَ﴾
ان کو پتا ہی نہیں ہے کہ کب اٹھائے جائیں گے؟ اگر یہ زندہ ہوتے تو ان کو پتا ہوتا، جب ان کو پتا ہی نہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ زندہ نہیں ہیں۔ اس سے پتا چلا کہ نبی زندہ بھی نہیں ہے اور نبی قبر میں سنتا بھی نہیں ہے۔
منکرِ حیات سے گفتگو:
گزشتہ سے پیوستہ عید الفطر کی بات ہے، میں وہاں 87 جنوبی اپنے مرکز میں بیٹھا ہوا تھا۔ منڈی بہاؤ الدین کے ایک عالم مجھ سے بیعت ہیں وہ مجھے ملنے کے لیے آئے۔ ان کے ساتھ دو ساتھی اور بھی تھے۔ تو ان کے ساتھ جو آدمی آئے تھے انہوں نے مجھ سے اسی آیت پر بات کی کہ مولانا صاحب! آپ تو کہتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں اورقرآن کہتا ہے کہ مردہ ہیں، زندہ نہیں ہیں ۔ میں نے کہا کہ دلیل کیا ہے؟ انہوں نے کہا: قرآن میں ہے:
﴿وَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ﴾
کہ جن کو یہ مشرکین پوجتے ہیں اللہ کے علاوہ،
﴿اَمۡوَاتٌ﴾
وہ سارے کے سارے اموات ہیں۔
﴿مِنۡ دُوۡنِ اللہِ﴾
میں تو نبی بھی شامل ہے۔ اس سے پتا چلا کہ نبی بھی اموات ہیں اور
﴿وَ مَا یَشۡعُرُوۡنَ ۙ اَیَّانَ یُبۡعَثُوۡنَ﴾
ان کو پتا ہی نہیں ہے کہ کب اٹھائے جائیں گے؟ جب انہیں پتا ہی نہیں تو یہ زندہ بھی نہیں ہیں۔
میں نے ان سے کہا کہ آپ کی دلیل کی بنیاد دو چیزیں ہیں:
1: اللہ نے
﴿اَمۡوَاتٌ﴾
کہا کہ یہ مردے ہیں۔
2:
﴿وَ مَا یَشۡعُرُوۡنَ ۙ اَیَّانَ یُبۡعَثُوۡنَ﴾
کہ ان کو پتا نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے؟
میں نے کہا کہ اگر اس آیت کو آپ بطور دلیل پیش کرتے ہیں تو آپ سے دو سوال ہیں :
(1): اللہ نے فرمایا:
﴿اَمۡوَاتٌ غَیۡرُ اَحۡیَآءٍ﴾
۔ یہاں صرف
﴿اَمۡوَاتٌ﴾
فرمایا یا
﴿غَیۡرُ اَحۡیَآءٍ﴾
بھی فرمایا؟ کہا کہ
﴿غَیۡرُ اَحۡیَآءٍ﴾
بھی فرمایا۔ میں نے کہا کہ اموات کا معنی تو ہے کہ مردے ہیں،غیر احیاء کا کیا معنی ہے؟ کہنےلگے کہ ”زندہ نہیں ہیں“۔ تو میں نے کہا کہ جب ”اموات“ فرما دیا تھا تو اب بتاؤ ”غیر احیاء“ کہنے کا کیا مطلب تھا؟
مثلاً میں کہتا ہوں کہ مجھے بھوک لگی ہے۔ اس کا کیا معنی ہے کہ میں نے کھانا کھایا ہے یا نہیں؟ (نہیں کھایا، سامعین ) اب میں آپ سے کہوں کہ ”مجھے بھوک لگی ہے، میں نے کھانا نہیں کھایا۔“ تو آپ کہیں گے کہ مولانا صاحب! آپ کو بھوک لگی ہے ا س سے ہمیں سمجھ آ گیا ہے کہ آپ نے کھانا نہیں کھا یا ہے، اس لیے آپ کو یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ”میں نے کھانا نہیں کھایا“ ۔
میں نے کہا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿اَمۡوَاتٌ﴾
اور آگے فرمایا :
﴿غَیۡرُ اَحۡیَآءٍ﴾
تو جب ”اموات“ کامعنی بھی زندہ نہیں ہیں تو پھر ”غیر احیاء“ کہنے کی ضرورت کیا ہے؟ میں نے کہا کہ ایک تو آپ یہ بتائیں!
(2): دوسرا میں نے ان سے کہا کہ قرآن میں ہے :
﴿وَ مَا یَشۡعُرُوۡنَ ۙ اَیَّانَ یُبۡعَثُوۡنَ﴾
کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے یہ انہیں پتا ہی نہیں ہے۔
آپ نے کہا تھا کہ چونکہ انہیں پتا نہیں ہے لہذا زندہ بھی نہیں ہیں۔ مجھے بتائیں! آپ یہاں سے کب اٹھیں گے؟ وہ کہنے لگے: ہمیں پتا نہیں۔ میں نے کہا کہ آپ زندہ ہیں یا مردہ؟ کہنے لگے: زندہ ۔ میں نے کہا کہ ہمیں تو سمجھ نہیں آ رہی کہ آپ زندہ ہیں یا مردہ؟ بات سمجھ آ گئی ہے؟ (جی ہاں۔ سامعین)
میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ میں کب اٹھوں گا؟ (نہیں۔ سامعین) اس سے معلوم ہوا کہ آپ زندہ نہیں ہیں کیونکہ آپ کو پتا ہی نہیں۔ میں نے کہا: اگر پتا نہ چلنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ زندہ نہیں ہیں تو آپ لوگوں کو بھی پتا نہیں ہے، اب بتاؤ میں آپ کو زندہ مانوں یا مردہ مانوں؟ کہنے لگے کہ زندہ مانیں! میں نے کہا کہ جب آپ کو پتا نہیں تو زندہ کیسے؟ اگر آپ کو پتا نہیں تو آپ زندہ اور اگر ان کو پتا نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے تو وہ بھی زندہ!
میں نے ان سے کہا کہ اچھا یہ بتائیں کہ ہماری موت کب آئے گی؟ کہا کہ پتا نہیں۔ میں نے کہا کہ آپ زندہ ہیں یا مردہ؟ کہا کہ زندہ۔ میں نے کہا: جس طرح اس جہان میں پتا نہیں کہ موت کب آنی ہے؟ اسی طرح قبر کے بعد پتا نہیں کہ کب اٹھنا ہے۔ تو یہاں بھی زندہ اور وہاں بھی زندہ۔ یہاں مرنے کا پتا نہیں اور وہاں دوبارہ اٹھنے کا پتا نہیں۔ یہ تو اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ مردہ ہیں۔ آپ کوئی دلیل پیش کریں!
میت کی دو قسمیں:
باقی یہ جو آپ نے نقل کیا:
﴿اَمۡوَاتٌ غَیۡرُ اَحۡیَآءٍ﴾
اللہ نے یہاں پہلے فرمایا:
﴿اَمۡوَاتٌ﴾
اور پھر فرمایا:
﴿غَیۡرُ اَحۡیَآءٍ﴾۔
پہلے اموات کہا اور پھر غیر احیاء کہا، اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کریم میں ایک مقام پر ہے:
﴿اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّہُمۡ مَّیِّتُوۡنَ ﴿۫۳۰﴾﴾ 37F
الزمر39: 30
یہاں صرف ”میت“ کہا، ساتھ ”غیر احیاء“ نہیں کہا۔ پتا یہ چلا کہ دنیا کی میت دو قسم کی ہیں: ایک میت وہ ہے کہ جس میں روح آئی اور نکل گئی یہ بھی میت ہے، اور ایک میت وہ ہے کہ جس میں سرے سے روح آئی ہی نہیں۔ بات سمجھ میں آ گئی؟
انسان پر موت آئے تو یہ ”میت“ ہے لیکن یہ ایسا میت ہے کہ جس میں پہلے روح تھی اور نکل گئی اور ایک میت یہ ہے جیسے میرے سامنے یہ موبائل ہے،یہ مردہ ہے یا زندہ؟ (مردہ۔ سامعین) اس میں کبھی روح آئی ہے؟ (نہیں۔ سامعین) اب یہ ایسا میت ہے کہ جس میں روح آئی ہی نہیں ہے۔ جس میں روح آئے اور نکل جائے اس
کو ”مَیِّتٌ“
کہتے ہیں اور جس میں روح آئی ہی نہ ہو اس کو
”مَیِّتٌ غَیْرُ حَیٍّ“
کہتے ہیں۔
اللہ رب ا لعزت نے یہاں صرف
﴿اَمۡوَاتٌ﴾
نہیں فرمایا بلکہ
﴿اَمۡوَاتٌ غَیۡرُ اَحۡیَآءٍ﴾
فرمایا ہے کہ اے مشرکو! خدا کو چھوڑ کر جن کی تم پوجا کرتے ہویہ ایسے مردے ہیں کہ جن میں کبھی روح آئی ہی نہیں ہے۔ تو ان سے مراد نبی نہیں بلکہ یہاں مراد بت ہیں، نبی میں روح آئی اور نکلی اور اس بت میں روح آئی ہی نہیں۔ جس میں روح آئے اور نکل جائے وہ ”میت“ ہوتا ہے اور جس میں روح آئے ہی نہیں اسے ”مَیِّتٌ غَیْرُ حَیٍّ“ کہتے ہیں۔ تو یہ آیت بتوں کے بارے میں ہے، یہ انبیاء علیہم السلام کے بارے میں نہیں ہے۔
اور یہ جو آپ کہتے ہیں کہ
﴿مِنۡ دُوۡنِ اللہِ﴾
میں اللہ کے ما سوا انسان، نبی، فرشتہ اور جن سب شامل ہیں تو میں نے کہا کہ کچھ غور کریں کہ
﴿مِنۡ دُوۡنِ اللہِ﴾
کا کلہاڑا کس پر چلا رہے ہیں؟
﴿مِنۡ دُوۡنِ اللہِ﴾
کواتنا عام نہ کریں ورنہ نقصان ہو گا۔ کہنے لگے کہ وہ کیسے؟ میں نے کہا: قرآن کریم میں ہے:
﴿اِنَّکُمۡ وَ مَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ حَصَبُ جَہَنَّمَ ؕ﴾ 38F
الانبیاء21: 98
اے مشرکو! تم بھی اور اللہ کے علاوہ جس کو تم پکارتے ہو وہ سارے جہنم کا ایندھن ہو۔
اگر
﴿مِنۡ دُوۡنِ اللہِ﴾
میں نبی مراد ہے العیاذ باللہ تو نبی کو جہنم کا ایندھن کہہ سکتے ہو؟ اگر
﴿مِنۡ دُوۡنِ اللہِ﴾
میں مراد فرشتے ہوں تو فرشتو ں کو جہنم والا کہہ سکتے ہو؟ میں نےکہا کہ
﴿مِنۡ دُوۡنِ اللہِ﴾
سے مراد نبی نہیں بلکہ مراد بت ہیں کہ یہ مشرکین خود بھی جہنم میں جائیں گے اور جن بتوں کی وہ پوجا کرتے ہیں وہ بت بھی جہنم میں جائیں گے۔
میں نے ان سے کہا کہ اپنے عقیدے کی بہت اصلاح فرمایا کریں۔ مجھے کہنے لگے: اچھا! اگر اس سے مراد بت ہوں تو پھر یہ جو اللہ نے فرمایا ہے کہ ان کو پتا نہیں کہ کب اٹھا ئے جائیں گے؟ کیا بت بھی اٹھائے جائیں گے؟ میں نے کہا: اٹھائے جائیں گے۔ کہنے لگے کہ کہاں لکھا ہے؟ میں نے کہا : قرآن میں ہے:
﴿اِنَّکُمۡ وَ مَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ حَصَبُ جَہَنَّمَ ؕ﴾
کہ اے مشرکو! تم بھی اور خدا کے علاوہ جن کی تم پوجا کرتے ہو تم سب جہنم کا ایندھن ہو!
بت پہلے سے تو جہنم میں نہیں جائے گا، البتہ یہاں سے اٹھے گا تو جہنم میں جائے گا۔ تو مشرک نے بھی وہیں جانا ہے اور اس کے بت نے بھی وہیں جانا ہے۔
میں بار بار عقائد پر اس لیے بات کرتا ہوں کہ عقائد کے معاملے میں آپ دل بڑا رکھا کریں، ہمارے عقائد قرآن وسنت کے بالکل موافق ہیں۔
تقلید کا ثبوت:
﴿وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوۡحِیۡۤ اِلَیۡہِمۡ فَسۡـَٔلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکۡرِ اِنۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۴۳﴾﴾
توجہ رکھنا! ہم تقلید کو مانتے ہیں، اس پر دلیل یہی آیت ہے۔ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم نے آپ سے پہلے بھی انسانوں ہی کو نبی بنا کر بھیجا ہے۔ اگر تمہارے پاس علم نہیں ہے تو اہلِ علم سے پوچھ لو۔
آدمی کے پاس دلیل نہ ہوتو اہلِ علم سے پوچھنا اسی کا نام ”تقلید“ ہے۔
ایک شحص مجھ سے کہنے لگا کہ اگر تقلید کا حکم قرآن میں ہے تو تقلید کا لفظ قرآن میں دکھاؤ؟ میں نے کہا کہ تم اللہ کو ایک مانتے ہو؟ کہا: جی ہاں، ایک مانتا ہوں۔ میں نے کہا کہ اللہ کو ایک ماننے کو کیا کہتے ہیں؟ کہتا ہے: ”توحید“۔ میں نے کہا کہ پورے قرآن میں مجھے توحید کا لفظ دکھا دیں؟ اس نے کہا: نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ پھر توحید کو ماننا چھوڑ دے! کہتا ہے کہ توحید کا لفظ نہیں ہے لیکن تو حید کامعنی تو موجود ہے۔ میں نے کہا کہ تقلید کا لفظ تو نہیں ہے لیکن تقلید کامعنی تو موجود ہے۔ ہم تقلید کرتے ہیں اور تقلید کا ذکر قرآن کریم میں ہے۔
عالم باعمل سے مسئلہ پوچھیں:
اس پر ایک چھوٹا سا نکتہ ذہن نشین فرما لیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿فَسۡـَٔلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکۡرِ اِنۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ﴾
اگر تمہارے پاس علم نہیں ہے تو
﴿فَسۡـَٔلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکۡرِ ﴾
اہل ذکر سے پوچھ لو، یہاں یہ نہیں فرمایا کہ اہلِ علم سے پوچھ لو۔
اس سے معلوم ہوا کہ ہر اہلِ علم سے نہیں پوچھنا بلکہ ایسے اہلِ علم سے پوچھو جو اہلِ علم بھی ہو اور اہل ذکر بھی ہو۔ کیا مطلب کہ علم بھی ہو اور علم یاد بھی ہو۔ جس کو علم یاد ہو وہ گناہ نہیں کرتا۔ علماء فرماتے ہیں کہ اس کے پاس علم بھی ہو اور عمل بھی ہو۔ جو خود نہیں بچتا وہ قوم کو کیسے بچائے گا؟ اگر میں خود نماز نہیں پڑھتا تو تمہیں کیسے سمجھاؤں گا؟ میری اپنی شلوار ٹخنوں سے نیچے ہے تو تمہاری کیسے اوپر کراؤں گا؟ میری اپنی ڈاڑھی پوری نہیں ہے تو تمہاری کیسے رکھواؤ ں گا؟ میرے گھر میں ٹی وی ہے تو تمہاری جان ٹی وی سے کیسے چھڑاؤں گا؟ میری اپنی بیوی پردہ نہیں کرتی تو تمہیں کیسے پردہ سمجھاؤں گا؟ میں خود سود کھاؤں گا تو تمہیں کیسے بتاؤں گا کہ سود حرام ہے؟ اس لیے فرمایا کہ علم اس سے پوچھو جس کے پاس علم بھی ہو اور عمل بھی ہو۔
حدیث حجت ہے:
﴿وَ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الذِّکۡرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیۡہِمۡ وَ لَعَلَّہُمۡ یَتَفَکَّرُوۡنَ ﴿۴۴﴾﴾
اے میرے پیغمبر! ہم نے آپ کی طرف قرآن اتارا تاکہ آپ ان کو معنی سمجھائیں! معلوم ہوتا ہے کہ معنی وہ ہے جو نبی کا فرمان ہو۔
ہم قرآن بھی مانتے ہیں اور حدیث بھی مانتے ہیں۔ اسے علماء کی زبان میں ”حجیت حدیث“ کہتے ہیں۔ ہم قرآن کو بھی دلیل مانتے ہیں اور حدیث کو بھی دلیل مانتے ہیں۔
بچی کی پیدائش اور مشرکین مکہ کی حالت:
﴿وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُمۡ بِالۡاُنۡثٰی ظَلَّ وَجۡہُہٗ مُسۡوَدًّا وَّ ہُوَ کَظِیۡمٌ ﴿ۚ۵۸﴾﴾
ان آیات میں مشرکینِ مکہ کی بری عادت کو بیان کیا ہے کہ ان کے ہاں لڑکا پیدا ہوتا تو بڑے خوش ہوتے اور اگر لڑکی پیدا ہوتی تو ان کا چہرا سیاہ ہو جاتا اور وہ دل ہی دل میں کڑھتے رہتے،
﴿یَتَوَارٰی مِنَ الۡقَوۡمِ مِنۡ سُوۡٓءِ مَا بُشِّرَ بِہٖ ؕ﴾
اس خوشخبری کو برا سمجھ کر لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے کہ کسی کو پتا نہ چلے کہ ان کے ہاں بچی پیدا ہوئی ہے، اور پریشان ہوتے کس بات پر ہیں؟
﴿اَیُمۡسِکُہٗ عَلٰی ہُوۡنٍ اَمۡ یَدُسُّہٗ فِی التُّرَابِ ؕ﴾
اس بات پر کہ ذلت برداشت کر کے اس بچی کو رکھ لوں یا اس کو زندہ درگور کر دوں؟
اللہ نے ان کی مذمت بیان کی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آج بھی بچے کی پیدائش پر خوش ہونا اور بچی کی پیدائش پر غمگین ہونا یہ مؤمن کا کام نہیں ہے، یہ مشرک کا کا م ہے۔
اور آپ حیران ہوں گے کہ مفتی محمدشفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ”معارف القرآن“ میں ایک عجیب نکتہ لکھا ہے بلکہ انہوں نے تو حدیث کا حوالہ بھی دیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ایک حدیث میں ہے کہ ایسی عورت جس کے ہاں پہلی بچی پیدا ہو تو یہ عورت برکت والی ہے۔ کیوں کہ جب اللہ نے قرآن مجید میں بچی کی پیدائش کی بات کی ہے تو بیٹوں اور بیٹیوں کی اللہ نے ترتیب یہ بیان کی ہے :
﴿ یَہَبُ لِمَنۡ یَّشَآءُ اِنَاثًا وَّ یَہَبُ لِمَنۡ یَّشَآءُ الذُّکُوۡرَ ﴿ۙ۴۹﴾ اَوۡ یُزَوِّجُہُمۡ ذُکۡرَانًا وَّ اِنَاثًا ۚ وَ یَجۡعَلُ مَنۡ یَّشَآءُ عَقِیۡمًا ؕ اِنَّہٗ عَلِیۡمٌ قَدِیۡرٌ ﴿۵۰﴾﴾39F
الشوریٰ42: 49، 50
ترتیب یہ بتائی کہ اللہ جسے چاہیں بیٹیاں دیں، جسے چاہیں بیٹے دیں، جسے چاہیں بیٹیاں اور بیٹے دونوں دیں اور جسے چاہے بانجھ کر دیں۔
اللہ تعالی نے بات بیٹی سے شروع کی ہے۔ جس عورت کے ہاں پہلی بیٹی پیدا ہو وہ زیادہ سعادت مند ہے اور ہم ہیں کہ بیٹی کی پیدائش پر پریشان ہیں، بیٹے کی پیدائش پر خوش ہیں۔ بیٹے کی پیدائش پر خوش ہونا اور بیٹی کی پیدائش پر پریشان ہونا یہ مؤمن کا کام نہیں ہے، یہ مشرک کا کام ہے۔ ہم پریشان اس وجہ سے ہیں کہ ہم نے نکاح کو اتنا مہنگا کر دیا ہے کہ اب بیٹی کی پیدائش پر پریشان ہوتے ہیں کہ بارات سنبھالنا پڑے گی، جہیز دینا پڑے گا.... تو دو بیٹیوں کے نکاح کیسے کروں گا؟ لیکن اگر سنت عمل پر آ جاتے نہ بارات نہ جہیز بلکہ سادہ سادہ نکاح کرتے تو اللہ کی قسم بیٹی کے حوالے سے گھر رحمت کا گہوارہ بن جاتا زحمت کا گھر کبھی نہ بنتا۔ مشکل ہم نے خود پیدا کی ہے، شریعت کا قصور تو نہیں ہے۔
میں ایک بات عرض کرتا ہوں آپ ذہن میں رکھ لیں! ہمارے ہاں عموماً مزاج یہ ہے کہ جس عورت کے ہاں ایک دو تین چار بیٹیاں پیدا ہوں تو ہم اس عورت کو منحوس سمجھتے ہیں اور اس پر مشورے شروع کر دیتے ہیں کہ اس کو طلاق دے دیں، کیوں کہ اس کے ہاں بیٹا پید انہیں ہوا، اس کی بیٹیاں ہی پیدا ہوتی ہیں حالانکہ اگر عورت کے ہاں بیٹا پیدا نہ ہو تو اس میں عورت کا قصور تو نہیں ہے، اگر مقدر میں بیٹا ہو گا تو بیٹا پیدا ہو گا، مقدر میں بیٹی ہو گی تو پھر بیٹی پیدا ہو گی۔
قصور تیرا ہے یا میرا!
شاید آپ کو یاد ہو گا کہ میں نے اس پر آپ کی خد مت میں ایک واقعہ پیش کیا تھا کہ ایک آدمی ابوحمزہ تھا، اس کی بیوی کے ہاں پہلی بیٹی، دوسری بیٹی، تیسری بیٹی، چوتھی بیٹی پیدا ہوئی۔ اس نے ارادہ کیا کہ میں بیوی کو فارغ کر دوں۔ اس لیے اس نے گھر میں آنا چھوڑ دیا۔ بیوی اس کی سمجھدار تھی اور بلا کی شاعرہ تھی، اس بیوی نے اپنے شوہر کے نا م پر ایک خط لکھا:
0Bمَا لِأَبِيْ حَمْزَةَ لَا يَأْتِيْنَا
1Bغَضْبَانَ أَنْ لَّا نَلِدَ الْبَنِيْنَا
ہمارے شوہر ابو حمزہ کو کیا ہوگیا کہ ہمارے پاس نہیں آتے، وہ ناراض ہو گئے کہ ہمارے ہاں بیٹا نہیں ہوتا۔
2Bتَاللهِ مَا ذٰلِكَ فِيْ أَيْدِيْنَا
3Bفَنَحنُ كَالْأَرْضِ لِزَارِعِيْنَا
اللہ کی قسم! یہ ہمارے اختیارمیں نہیں ہے، ہماری مثال زمین کی ہے اور تمہاری مثال کسان کی ہے۔
وَإِنَّمَا نَأْخُذُ مَا أُعْطِيْنَا
4Bوَنُنْبِتُ مَا ذَرَعُوْہُ فِیْنَا
زمین اسی بیج کو لیتی ہے جو بیج کسان ڈالتا ہے اور زمین وہی پودا اگاتی ہے جو کسان نے بیج ڈالا ہوتا ہے۔
ابو حمزہ! اب بتا کہ یہ میرا قصور ہے یا تیرا قصور ہے؟40F
تفسیر الشعراوی: ج1 ص4942 باب 59، وغیرہ
یونیورسٹی کے ایک پروفیسر صاحب ہیں وہ آج ہمارے ہاں جمعہ میں آئے اورکہہ رہے تھے کہ ہم نے دنیا ٹی وی پر آپ کے درس میں آپ سے یہ اشعار سنے تھے، وہ شعر آپ مجھے لکھ کر دے دیں۔
اور مجھے بڑا تعجب ہوا کہ ایک عالم ہیں، مجھ سے بیعت ہیں اور ضلع اوکاڑہ میں ہوتے ہیں۔ وہ مجھے کہہ رہے تھے کہ ہم نے آپ کا دنیا ٹی وی والا درس ڈاؤن لوڈ کیا ہے اور میں نے کچھ خواتین کو دیا سکول میں اور میں نے کہا کہ ہمارے مولانا کا یہ کلپ سکول میں عورتوں کو سناؤ! اس نے کہا کہ جی یہ کلپ اس لیے مقبول نہیں کہ یہ ایک عالم کا ہے۔ اگر یہ کسی اسکول ٹیچر، پروفیسر یا ڈاکٹر کا ہوتا تو لوگ کہتے کہ دیکھو! کتنا بڑا آدمی ہے یہ، کتنی نکتے کی بات کی ہے! لیکن اب یہ نکتہ نکتہ کیوں نہیں بن رہا اس لیے کہ یہ پروفیسر کا نہیں بلکہ مولوی کا کلپ ہے۔ انہوں نے بتایاکہ عورتوں نے کہا: اگر یہ کوئی کالج کا پروفیسر ہوتا تو لوگ کہتے کہ یہ عورتوں کے حقوق کے بارے میں بات کرتا ہے۔
تلاوت سے پہلے تعوذ کا حکم:
﴿فَاِذَا قَرَاۡتَ الۡقُرۡاٰنَ فَاسۡتَعِذۡ بِاللہِ مِنَ الشَّیۡطٰنِ الرَّجِیۡمِ ﴿۹۸﴾﴾
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب قرآن مجید کی تلاوت کرنے لگوتو
”أَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ“
پڑھ لیا کرو۔
جان اور ایمان کے دشمن سے بچاؤ کا طریقہ:
قرآن پڑھنے سے پہلے
”أَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ“
پڑھنے کی بات کیوں کی ہے؟ اس لیے کہ انسان کے دشمن دو ہیں:
1: انسان
2: شیطان
چونکہ دشمن دو ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اپنے ان دونوں دشمنوں سے بچو! جو کافر انسان؛ مسلمان کا دشمن ہے اس سے بچنے کے لیے اللہ نے مسلمان کو جہاد کی نعمت عطا کی ہے اور جو شیطان ہمارا دشمن ہے اس سے بچنے کے لیے اللہ نے تعوذ کی نعمت ہمیں عطا فرمائی ہے۔ جہاد کریں گے تو کافر دشمن سے بچ جائیں گے جو انسان ہے اور اعوذ باللہ پڑھیں گے تو شیطان سے بچ جائیں گے جو بے ایمان ہے۔ اللہ چاہتے ہیں کہ انسان کی جان کی بھی حفاظت ہو اور انسان کے ایمان کی بھی حفاظت ہو۔ لہذا جہاد بھی ضرروی ہے اور تعوذ بھی ضروری ہے۔
کافر انسان چونکہ نظر آتا ہے اس کو آدمی طاقت سے روک سکتا ہے اور شیطان ایسا کافر ہے جونظر نہیں آتا اس لیے اس کو اعوذ باللہ پڑھ کر اللہ کی غیبی طاقت سے روکا جائے گا۔ شیطان کو روکنے کے لیے غیبی طاقت چاہیے کیونکہ جب شیطان نظر نہیں آ رہا تو غیبی طاقت کی ضرورت ہے۔
دل میں ایمان ہو تو کلمہ کفر کہنے کا حکم:
﴿مَنۡ کَفَرَ بِاللہِ مِنۡۢ بَعۡدِ اِیۡمَانِہٖۤ اِلَّا مَنۡ اُکۡرِہَ وَ قَلۡبُہٗ مُطۡمَئِنٌّۢ بِالۡاِیۡمَانِ وَ لٰکِنۡ مَّنۡ شَرَحَ بِالۡکُفۡرِ صَدۡرًا فَعَلَیۡہِمۡ غَضَبٌ مِّنَ اللہِ ۚ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۰۶﴾﴾
حضرت عمار رضی اللہ عنہ ؛ حضرت یاسر رضی اللہ عنہ کے بیٹے ہیں اور حضرت یاسر رضی اللہ عنہ کی بیوی حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا مکہ مکرمہ میں تھیں، غلامی کی زندگی تھی، جب مسلمان ہو گئیں تو کافروں نے سزائیں دینا شروع کیں۔ حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابیہ اور مسلمان عورت ہیں۔ جب دشمن نے سزا دی تو ایک ٹانگ ایک اونٹ سے باندھی اور دوسری ٹانگ دوسرے اونٹ سے باندھی اور اونٹوں کو مخالف سمت میں چلایا تو حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کے جسم کے دو ٹکڑے ہو گئے لیکن اس شہیدہ نے اپنی زبان سے کلمہ کفر نہیں کہا۔
ہمارے اسلام کا سب سے پہلا شہید مرد نہیں بلکہ عورت ہے، ان کے شوہر حضرت یاسر رضی اللہ عنہ کو دشمن نے اتنا مارا کہ انہوں نے جان دے دی لیکن اپنی زبان سے کلمۂ کفر نہیں کہا۔ حضرت عمار رضی اللہ عنہ ان کے بیٹے تھے۔ جب انہیں مارا اور جان سے مارنے کی دھمکی دی تو حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے اپنی زبان سے ایسے کلمات کہہ دیے جو ایمان والے نہیں تھے، جان بچ گئی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خد مت میں آئے اور عرض کی: یا رسول اللہ! ابو شہید ہو گئے، اماں بھی شہید ہو گئی اور میں بچ گیا ہوں، میں نے کچھ کلمات زبان سے کہہ دیے ہیں جو مجھے نہیں کہنے چاہیے تھے تو میرے لیے کیا حکم ہے؟ اللہ نے ان کی تسلی کےلیے قرآن اتاراہے، فرمایا:
﴿مَنۡ کَفَرَ بِاللہِ مِنۡۢ بَعۡدِ اِیۡمَانِہٖۤ اِلَّا مَنۡ اُکۡرِہَ وَ قَلۡبُہٗ مُطۡمَئِنٌّۢ بِالۡاِیۡمَانِ﴾
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: عمار! تمہارے دل میں ایمان تھا؟ کہا: حضور! دل میں ایمان تھا، میں نے بچنے کے لیے زبان سے کہا تھا۔ تو اللہ نے صفائی میں قرآن کی آیت نازل کردی، فرمایا اس سےکہہ دو کہ تمہارا ایمان بالکل ٹھیک ہے۔
جان بچانے کے لیے کلمۂ کفر کہنے کی شرائط:
یہاں اچھی طرح مسئلہ ذہن نشین فرما لیں! ایک مسئلہ ہے ایمان کا، ایک مسئلہ ہے اعمال کا۔ اگر آدمی کو یہ خطرہ ہو کہ اگر میں نے زبان سے کلمۂ کفر نہ کہا تو میری جان چلی جائے گی یا میرا کوئی عضو ختم ہو جائے گا تو اگر اس نے اپنی جان بچانے کے لیے زبان سے کلمۂ کفر کہہ دیا بشرطیکہ اس کے دل میں ایمان ہو تو شریعت نے اس کی اجازت دی ہے۔ اجازت کا معنی یہ نہیں کہ ضرور کریں لیکن اگر ایمان پر جان دے اور شہید ہو جائے تو یہ عزیمت اور بڑا مرتبہ ہے۔ اگر جان بچا لی اور کلمۂ کفر کہہ دیا تو یہ رخصت کا مرتبہ ہے۔ رخصت کی شریعت میں گنجائش موجود ہے۔
لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ جس آدمی نے دھمکی دی ہے وہ واقعی جان سے مارنے پر قادر بھی ہو، اس کے پاس طاقت بھی ہو اور آپ کو پورا یقین بھی ہو کہ مار دے گا، ایسے نہیں کہ کوئی ہلکی سی دھمکی دے دے اور آپ زبان سےکلمۂ کفر شروع کر دیں۔
دو قسم کے اعمال کے نفاذ و عدمِ نفاذ کا مسئلہ:
ایمان کے علاوہ جو ہمارے مسائل ہیں وہ دو قسم کے ہیں:
بعض کلمات وہ ہیں کہ زبان سے کہنے سے بندے کو کچھ نہیں ہوتا جب تک آدمی دل سے راضی نہ ہو مثلاً خرید وفروخت کا معاملہ ہے۔خرید و فروخت مکمل تب ہوتی ہے جب انسان دل سے کرے، صدقہ تب ہوتا ہے جب انسان دل سے کرے، زکوٰۃ تب ادا ہوتی ہے جب انسان دل سے دے وگرنہ ادائیگی نہیں ہوتی لیکن بعض چیزیں ایسی ہیں کہ دل سے راضی نہ بھی ہو محض زبا ن سے کہہ دے تب بھی ہو جاتی ہیں۔ حدیث مبارک میں تین چیزیں بیان فرمائی گئی ہیں:
"ثَلاَثٌ جِدُّهُنَّ جِدٌّ وَهَزْلُهُنَّ جِدٌّ النِّكَاحُ وَالطَّلاَقُ وَالرَّجْعَةُ."41F
سنن ابی داؤد، رقم 2194
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین چیزیں ایسی ہیں کہ اگر حقیقت میں ہوں تب بھی ہو جاتی ہیں اور اگر مذاق میں ہوں تب بھی ہوجاتی ہیں اور وہ تین چیزیں: نکاح، طلاق اور رجوع ہیں۔
نکاح کے حوالے سے یہ بات ذہن نشین فرما لیں کہ اگر ایک مرد اور ایک عورت اور دو گواہ موجود ہوں اور یہ مذاق مذاق میں ایجاب و قبول کر لیں اور خاوند بیوی بن جائیں تو حقیقتاً نکاح ہو جاتا ہے۔اسی طرح اگر مذاق مذاق میں بیوی سے کہہ دے کہ تجھے طلاق ہے تو بیوی کو طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ ایک شخص کی بیوی عدت میں تھی اور اس نے مذاق میں رجوع کیا تو رجوع ہو جائے گا۔
اس لیے علماء نے لکھا ہے کہ اگر ایک شخص کسی سے کہے کہ میں تجھے مار دوں گا ورنہ زکوٰۃ مجھے دے دے اور یہ شخص زکوٰۃ ادا بھی کر دے گا تو شرعاً زکوٰۃ ادا نہیں ہو گی کیونکہ زکوٰۃ تب ادا ہو گی جب آدمی دل سے دے اور یہ دل سے نہیں دےرہا اس لیے ادائیگی شمار نہیں ہو گی۔ اگر کوئی شخص کہے کہ یہ مکان مجھے بیچ دے ورنہ میں تجھے مار دوں گا، اگر وہ مجبور ہو کر بیچ بھی دے تو جب تک دل سے نہیں بیچے گا یہ مکان اس آدمی کی ملک میں نہیں آئے گا لیکن اگر کوئی آدمی کسی بندے کے سر پر بندوق رکھے کہ میں تجھے گولی مار دوں گا وگرنہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے اور یہ مجبور ہو کر طلاق دے دے تو بھی طلاق ہو جائے گی کیوں کہ طلاق کا تعلق دل کے ساتھ نہیں بلکہ اس کا تعلق زبان کے ساتھ ہے۔ اس لیے امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ طلاق مکرہ یعنی جبر کے ساتھ دی جانے والی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ (آمین)
ابراہیم علیہ السلام کا تذکرہ:
﴿اِنَّ اِبۡرٰہِیۡمَ کَانَ اُمَّۃً قَانِتًا لِّلہِ حَنِیۡفًا ؕوَ لَمۡ یَکُ مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ﴿۱۲۰﴾ۙ شَاکِرًا لِّاَنۡعُمِہٖ ؕ اِجۡتَبٰہُ وَ ہَدٰىہُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ ﴿۱۲۱﴾ وَ اٰتَیۡنٰہُ فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً ؕ وَ اِنَّہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۱۲۲﴾ؕ﴾
ان آیات میں اللہ رب العزت نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تذکرہ فرمایا کہ ابراہیم علیہ السلام ایک آدمی تھے لیکن پوری جماعت والا کام کیا، خدانے انہیں فرد نہیں فرمایا بلکہ ابرا ہیم علیہ السلام کو امت کہا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام اللہ کے فرمانبردار تھے، مشرکین میں سے نہ تھے، اللہ کی نعمتوں کی شکر اداکرتے تھے، اللہ نے ان کو چن لیا تھا اور انہیں سیدھا راستہ دکھایا تھا۔ ہم نے ان کو دنیا میں بھی نعمتیں دیں اور آخرت میں بھی ان کا شمار ہمارے نیک صالح بندوں میں ہو گا۔
ملت اور امت میں فرق:
اللہ اپنے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے ہیں:
﴿اَنِ اتَّبِعۡ مِلَّۃَ اِبۡرٰہِیۡمَ حَنِیۡفًا ؕ﴾
میرا ابراہیم اس مقام پر ہے کہ اے پیغمبر! آپ بھی ان کی ملت کی اتباع فرمائیں۔
ملت اور چیز ہے اور امت اور چیز ہے۔ دونوں میں فرق سمجھیں۔ اصولوں کے مل جانے سے اور اصولوں کے ایک ہونے سے ملت بنتی ہے امت نہیں بنتی اور اصول و مسائل ایک ہوں تو پھر ملت نہیں بلکہ امت بنتی ہے۔ ہم ملت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہیں اور امت حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیں۔ اصول وہی ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہیں اور اصول و مسائل دونوں وہی ہیں جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں۔
دعوتِ دین کے طریقے:
﴿اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَ الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ﴾
اس آیت میں اللہ پاک نے دعوت کی ترتیب بتائی ہے کہ جب آپ نے دعوت دینی ہے تو تین طریقے استعمال کریں:
[1]:
﴿بِالۡحِکۡمَۃِ﴾
دلیل سے بات کرو۔
[2]:
﴿الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ﴾
فضائل اور تر غیب سے بات کرو۔
[3]:
﴿وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ﴾
اور اگر شبہات پیش کیے جائیں توان کو اچھے انداز سے رد بھی کرو۔
ایمان و عمل پہ لانا اور بچانا:
ان تین طریقوں کو میں اپنی زبان میں سمجھانے کے لیے دو جملے کہتا ہوں کہ ہمارے ذمے دو کام ہیں:
1: امت کو ایمان واعمال پر لانا۔
2: امت کے ایمان واعمال کو بچانا۔
امت ایمان واعمال پر آتی ہے فضائل سے اور امت کاایمان واعمال بچتا ہے دلائل سے، تبلیغ والوں کے ذمے لانا ہے اور ہمارے ذمے بچانا ہے۔
حضرت مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ نے جو کام شروع کیا وہ اعمال پر لانے والا ہے اور ہم نے جو کام شروع کیا وہ بچانے والا ہے، لانے والی محنت کرنے والے کا نام حضرت مولانا الیاس دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ہے اور بچانے والی محنت کرنے والے کا نام بھی حضرت تو نہیں لیکن مولوی محمد الیاس گھمن ہے۔ (سبحان اللہ۔ سامعین)
میں رائیونڈ اجتماع پر تھا۔ جیسے علماء میں پیار محبت کی باتیں چلتی ہیں تو مجھے ایک ساتھی نے کہا کہ مولانا صاحب! یہ کام جو آپ کرتے ہو کہ اس عقیدے پر یہ اعتراض ہے اور یہ جواب ہے، یہ اعتراض ہے اور یہ جواب ہے، یہ کہا ں لکھا ہے؟ میں نے کہا: جو کام آپ کر رہے ہو وہ کہاں لکھا ہے؟ مجھے کہنے لگے کہ یہ تو قرآن میں ہے۔ میں نے کہا کہ آیت پڑھیں تو انہوں نے یہی آیت پڑھی :
﴿اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَ الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ﴾
میں نے کہا کہ آیت پوری ہو گئی ہے یا کچھ باقی ہے؟ کہنے لگے: آدھی ہوئی ہے۔ میں نےکہا کہ پوری پڑھیں! آگے ہے:
﴿وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ﴾"
میں نے کہا کہ
﴿اُدۡعُ﴾
والا کام آپ کا ہے اور
﴿جَادِلۡہُمۡ﴾
والا کام میر ا ہے،
﴿اُدۡعُ﴾
کا معنی لانا ہے اور
﴿جَادِلۡہُمۡ﴾
کا معنی بچانا ہے۔ آپ بڑے ہیں آپ کا ذکر پہلے ہے، ہم چھوٹے ہیں ہمارا ذکر بعد میں ہے۔
رائیونڈ مرکز اور سرگودھا مرکز:
میں نے کہا کہ ہم نے لانا بھی ہے اور بچانا بھی ہے۔ ایک مر کز رائیونڈ بنا ہے اور ایک مرکز آپ کے سرگودھا چک 87 جنوبی لاہور روڈ پر مرکز اھل السنۃ والجماعۃ بنا ہے۔ آپ آج مان لیں تب بھی آپ نے ماننا ہے اور پچاس سال بعد مان لیں تب بھی آپ نے مانناہے۔ ماننا تو ہے ہی، کوئی جلدی مانتا ہے اور کوئی دیر سے مانتا ہے۔ رائیونڈ مرکز کا کام ہے لانا اور ہمارے مرکز کا کام ہے بچانا، لانا بھی ہم نے ہے اور بچانا بھی ہم نے ہے، بتاؤ تبلیغ والے لارہے ہیں یا نہیں؟ (لا رہے ہیں۔ سامعین) اور ہم بچا رہے ہیں یا نہیں؟ (بچا رہے ہیں۔ سامعین) آپ کے پاس ثبوت ہے کہ نہیں ہے آپ پوری دنیا میں جا کر دیکھ لیں۔ دنیا کے جس کونے میں آپ جائیں گے ان شاء اللہ آپ کو وہاں ہماری محنت نظر آئے گی کہ ہم نے امت کو بچایا کیسے ہے۔
فضائل نماز اور نماز اھل السنۃ والجماعۃ:
میں سمجھانے کے لیے کہتا ہوں کہ اگر آپ نے نمازی بنانا ہو تو فضائلِ نماز پڑھیں اور جب نمازی کو بچانا تو پھر تو پھر دلائلِ نماز پڑھیں۔ حضرت شیخ زکریا رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب فضائلِ نماز ہے اور میری کتاب دلائلِ نماز ہے، آپ فضائلِ نماز پڑھیں تو امت نماز پر آ جائے گی اور جب غیر مقلد کھسر پھسر کریں تو ہماری کتاب ”نماز اھل السنۃ والجماعۃ“ پیش کریں ان شاء اللہ آپ کے نمازی بچ جائیں گے۔
رائیونڈ جائیں سہ روزہ لگائیں اور کوئی دلیل پوچھے تو آپ کو نہیں آنی۔ یہ میں مذاق نہیں کر رہا، مسجد میں بیٹھ کر کہہ رہا ہوں کہ ماہانہ سہ روزہ کی دلیل تمہیں رائیونڈ مرکز نہیں دے گا، دلائل آپ کو سرگودھا مرکز دے گا۔ نہ یقین آئے تو یہاں بیٹھا ہوا کوئی ایک شخص پیش کر دو جو یہ کہے کہ میں سہ روزہ لگاتا ہوں اور اس کی یہ دلیل ہے۔ ہاں وہ یہ تو کہے گا کہ ہمارے بزرگوں کی ترتیب ہے لیکن دلیل اس کے پاس نہیں ہے۔
ہم کہتے ہیں کہ ہمارے بزرگوں کی تر تیب ہے اور اس ترتیب پر دلیل یہ ہے! میں اپنے ساتھیوں سے کہتا ہوں کہ ہمارے حضرات جو فرماتے ہیں کہ بزرگوں نے فرمایا.... بزرگوں سے سنا.... تو مخالف اعتراض کرتے ہیں کہ ہم قرآن پیش کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ بزرگوں نے فرمایا۔ میں نے کہا کہ ہم قرآن سے ثابت کریں گے کہ بزرگوں کی باتیں بھی ماننی ہیں۔
توڑ نہیں، جوڑ پیدا کریں!
تو ہم نے لانا بھی ہے اور ساتھ بچانا بھی ہے۔ صبح سے لے کر شام تک آپ کاؤنٹر پر کھڑے ہو کر مال جمع کرتے ہیں اور جب جمع ہو جائے تو کاؤنٹر پر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں؟ (نہیں۔ سامعین) اس جمع کیے ہوئے مال کو اپنے لاک میں رکھتے ہیں، بینک میں رکھتے ہیں، گھر لے کر آتے ہیں ۔ تو کمانے کا طریقہ اور ہوتا ہے اور جمع کیے ہوئے مال کو محفوظ کر نے کا طریقہ اور ہوتا ہے۔ لانے والا طریقہ دعوت والا ہے اور بچانے والا طریقہ دلائل والا ہے۔ ہم دونوں کام کرتے ہیں یا ایک کام کرتے ہیں؟(دونوں کام کرتے ہیں۔ سامعین)
میں ایک جگہ جلسہ پر تھا۔ تو رائیونڈ کا اجتماع ہوتا ہے 6 دن کا اور ہمارا 87 مرکز کا اجتماع ہوتا ہے 6 گھنٹوں کا۔ میں نے کہا کہ آپ 6 دن والا مانتے ہیں اور 6 گھنٹے والا نہیں مانتے! بھائی جب ہم نے چھ دن والا مانا ہے تو آپ چھ گھنٹے والا تو مانیں! اس لیے کہ ہم نے امت کو لے کر چلنا ہے، امت میں توڑ پیدا نہیں کرنا۔ اللہ ہمیں جوڑ کی توفیق عطا فرمائے۔
ایمان وتقویٰ:
﴿اِنَّ اللہَ مَعَ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا وَّ الَّذِیۡنَ ہُمۡ مُّحۡسِنُوۡنَ ﴿۱۲۸﴾٪﴾
اس آیت میں اللہ نے یہ بات سمجھائی ہے کہ اللہ کی مدد ان کے ساتھ ہے جو ایمان بھی لائیں اور تقویٰ بھی اختیار کریں۔ دعاکریں کہ اللہ ہمیں ایمان پر ثابت قدمی بھی عطا فرمائے اور تقویٰ کی نعمت بھی عطا فرمائے۔ (آمین)
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․