سورۃ بنی اسرائیل

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
سورۃ بنی اسرائیل
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِیۡ بٰرَکۡنَا حَوۡلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنۡ اٰیٰتِنَا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ ﴿۱﴾﴾
تمہیدی گفتگو:
میں نے سورت بنی اسرائیل کی پہلی آیت تلاوت کی ہے۔ اس سورت میں اللہ نے واقعۂ معراج کا تذکرہ فرمایا ہے۔ اب مہینہ بھی رجب کا شروع ہے۔ اس لیے اس مناسبت سے معراج کا واقعہ قدرے تفصیل سے پیش کرتاہوں۔
اس بات میں مؤرخین کا اختلاف ہوا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معراج کس سال، کس مہینے اور کس تاریخ کو ہو ا۔ راجح اور زیادہ قوی رائے یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے گیارھویں سال معراج کے لیے تشریف لے گئے اور گیارھویں سال بھی رجب کا مہینا تھا اور ستائیس تاریخ تھی۔ چونکہ اقوال اس میں کئی ہیں اور ائمہ کا اختلاف بھی ہے اس لیے میں نے آپ کی خدمت میں صرف ایک قول پیش کیا ہے جو راجح اور سب سے بہتر ہے۔
معراج کیوں ہوا؟
پہلی بات تو یہ سمجھیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ رب العزت نے معراج کیوں کروایا ہے؟ اس کی وجہ کیا ہے؟ اصل میں اللہ رب العزت کا نظام یہ ہے کہ جب کوئی انسان اللہ کے دین کے لیے مشقت برداشت کرتا ہے تو جس قدر مشقت بر داشت کرے اللہ اس سے زیادہ اس کو عزتیں دیتا ہے۔ کچھ دیر تو انسان کو مشقت برداشت کرنی پڑتی ہے لیکن نتیجہ مشقت نہیں بلکہ نتیجہ عزت ہی ہوتا ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر کفار مکہ نے ہر قسم کے دکھ کے دروازے کھولے اور راحت کے دروازے بند کرنے کی کوشش کی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے خیا ل کے مطابق وہ جس قدر تکالیف دے سکتے تھے انہوں نے دی ہیں۔ سب سے زیادہ زیادتی کا آخری مرحلہ کسی معزز آدمی کے ساتھ اس کا بائیکاٹ ہوتا ہے۔ اہلِ مکہ نے تین سال تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بائیکاٹ کیا اور شعب ابی طالب میں تین سال تک بند رکھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شعب ابی طالب سے نکلے -آج کی زبان میں اسے جیل کہہ دیں جو بغیر چار دیواری کے تھی- اسی سال حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی غمخوار بیوی ام المئومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا۔
پیغمبر علیہ السلام کی تکالیف:
اب دیکھیں! بناتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم؛ رقیہ، ام کلثوم، اور فاطمہ رضی الہ عنہن چھوٹی چھوٹی بچیاں گھر میں ہیں او ر دنیا مخالف ہے، پورے عالم کی فکر ہے، دن را ت ایک بندہ کام میں لگا ہو اور ایک غمخوار بیوی گھر میں ہو اور وہ بھی فوت ہو جائے تو انسان کے دل پر کیا گزرتی ہے! اس لیے اس سا ل کو ”عام الحزن“ یعنی غم کا سال کہتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طائف کی طرف تشریف لے گئے۔ اہلِ مکہ بات بھی نہیں سنتے اور دکھ بھی دیتے تھے ۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سوچا شاید طائف والے میری بات سمجھ لیں ۔ طائف والوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات قبول کرنے کے بجائے مزید ظلم یہ کیا کہ طائف کے اوباش بدمعاش لڑکوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے لگا دیا۔ وہ تالیاں بھی پیٹتے تھے، حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کامذاق بھی اڑاتے تھے، حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو پتھر بھی مارتے تھے جس کی وجہ سے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں مبارک خون کی وجہ سے رنگین بھی ہوئے۔
جب نبی کا خون کسی زمین پر گر جائے تواللہ اس وقت اس زمین والوں کو زندہ نہیں رہنے دیتے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خون گرا ہے اس کے لیے اللہ نے فرشتے بھیجے، فرشتوں نے آ کر عرض کیا کہ حضور! آپ اجازت دیں تو ہم ان کو ان دو پہاڑوں کے درمیان پیس کر کے رکھ دیں گے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ اگر یہ طائف والے مسلمان نہیں ہوئے تو اللہ ان کی اولاد میں ایسے لوگ پیدا فرما دے گا جو اللہ کی عبادت کریں گے۔42F
فضائل اعمال: ص11، السیرۃ لابن ہشام: ج1 ص384وغیرہ
اس حالت میں بھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کے لیے بد دعا نہیں فرما رہے بلکہ اللہ سے امید لگائے ہوئے ہیں کہ اللہ ان کی اولاد کو اسلام کی توفیق دے گا۔اس لیے میں ان کے حق میں بد دعا نہیں کرتا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس حالت میں مکہ واپس تشریف لائے تو جب مکہ والوں نے تکلیف دینے کی انتہا کر دی تو اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کیا کہ اے میرے محبوب! اب میں تمہیں عزت دینے کی انتہاکرتا ہوں۔ انہوں نے سمجھا تھا کہ نام ونشان مٹا دیں گے لیکن ہم فرش پر نہیں بلکہ عر ش پر تیرے چرچے کرتے ہیں، یہاں فرش پر عداوت ہے آپ عرش پر اپنی عزت دیکھیں! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کے لیے جو مشقت برداشت کی ہے اس کے بدلے میں خدا نے یہ اعزاز معراج کی صورت میں بخشا ہے۔
سفرِ ِمعراج کے دو حصے:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج کا سفر دو حصوں کا ہے؛ ایک مکہ سے بیت المقدس اور ایک بیت المقدس سے عرش معلیٰ تک۔ مکہ مکرمہ سے بیت المقدس کے اس سفر کو ”اسراء“ کہتے ہیں جو سورۃ بنی اسرائیل میں ہے اور پھر وہاں سے عرش معلیٰ تک کے سفر کو ”معراج“ کہتے ہیں جس کا ذکر سورۃ النجم کی پہلی اٹھارہ آیات میں ہے۔
تو یہاں ”اسراء“ کا ذکر بھی ہے اور معراج کا ذکر بھی ہے لیکن عام طور پر چونکہ مکہ سے بیت المقدس کا سفر زمینی ہے اگرچہ عجیب تر تھا لیکن عجیب شمار نہیں ہوتا اور بیت المقدس سے عرش معلیٰ تک کا سفر عجیب تر ہے اس لیے اس پورے سفر کو اسراء کے بجائے ”معراج“ ہی کہہ دیتے ہیں۔
معراج جسمانی ہوئی ہے:
بعض لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معراجِ جسمانی کا انکار کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ معراج روحانی ہوئی ہے یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم اطہر نہیں گیا بلکہ فقط حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک گئی ہے۔
جبکہ اھل السنۃ والجماعۃ کا نظریہ یہ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف روحانی معراج نہیں بلکہ جسمانی معراج ہوئی ہے، اس لیے کہ روحانی معراج حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال نہیں ہے۔ کوئی بندہ یہاں سویا ہوا ہو اور دیکھے کہ میں آسمان پر گیا ہوں، میں عرش پر گیا ہوں، میں مکہ گیا ہوں، میں مدینہ گیا ہوں تو یہ کوئی کمال نہیں ہے کیوں کہ صرف روح تو عام بندے کی بھی جا سکتی ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اعزاز اور اعجاز یہ ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف روح نہیں بلکہ جسم بھی ساتھ جائے۔ اس لیے ہمارے علماء کہتے ہیں کہ آج کے دور میں جب کوئی کہے کہ ہم معراج مانتے ہیں تو ان سے یہ پوچھیں کہ معراج مانتے ہو یا معراجِ جسمانی مانتے ہو؟ کیوں کہ وہ کہے گا معراج اور نیت کرے گا روحانی کی، جبکہ روحانی پر اختلاف نہیں ہے، اختلاف تو معراجِ جسمانی پر ہے۔
بالکل اسی طرح جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موت کے بعد قبر مبارک میں زندہ ہیں۔ اگر کوئی بندہ کہے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ مانتے ہیں تو آپ نے پوچھنا ہے کہ حیاتِ روحانی مانتے ہو یا جسمانی مانتے ہو؟ وگرنہ لوگ دھوکہ دیں گے حیات کہہ کر اور روحانی مان کر ڈنڈی مار جائیں گے۔ معراج کہیں گے اور روحانی مان کر ڈنڈی مار لیں گے۔ ہم وفات کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات بھی جسمانی مانتے ہیں اور مکہ سے عرش تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معراج بھی جسمانی مانتے ہیں۔
معراج جسمانی پر دلائل:
معراجِ جسمانی پر تو دلائل کئی ہیں، آپ موٹے موٹے دلائل ذہن میں رکھ لیں:
دلیل نمبر1:
اللہ رب العزت اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس سفر کو ذکر کرتے ہوئے لفظ
﴿سُبۡحٰنَ﴾
کو لائے ہیں۔ لفظ
”سبحان“
عربی زبان میں وہاں استعمال ہوتا ہے جہاں کوئی عجیب واقعہ ہو۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی روح کا معراج پر جانا عجیب نہیں ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم کا جانا یہ عجیب تر ہے۔ خدا نے لفظ ”سبحان“ کہہ کر بتایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی روح نہیں بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم گیا ہے، روح تو ساتھ ہے ہی۔
دلیل نمبر2:
اللہ نے فرمایا:
﴿اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ﴾
کہ اللہ نے معراج کرایا ہے اپنے عبد کو۔ ”عبد“ صرف روح کا نام نہیں ہے، عبد اس جسم کا نام ہے جس کے اند ر روح ہو۔ تو معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم کو خدا نے معراج کروایا ہے۔
یہ دو دلیلیں تو میں نے قرآن سے پیش کی ہیں۔ اب دو دلیلیں احادیث سے ذہن میں رکھ لیں:
دلیل نمبر3:
جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم معراج سے واپس تشریف لائے تو حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ مکے والوں میں اپنے سفر کا تذکرہ نہ کیجیے گا، یہ لوگ پہلے آپ کی مخالفت کرتے ہیں ان کو اور موقع ہاتھ میں آ جائے گا۔ 43F
تفسیر ابن کثیر: ج4 ص112
اگر صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی روح گئی تھی تو پھر حضرت ام ہانی کو یہ بات کہنے کی ضرورت کیا تھی؟اس کا معنی یہ ہے کہ جسم گیا ہے اور اس کو خلافِ عادت سمجھ کر مکہ ولوں نے انکا ر کرنا ہے۔
دلیل نمبر4:
اور دوسری بات سمجھیں کہ مکہ مکرمہ میں ایک شحص بڑا عقل مند تھا اور اس عقل مند کو ابو الحکم کہتے تھے لیکن بعد میں ابوالحکم کا نام ”ابو جہل“ پڑا اور ایک شحص جسے ابو بکر کہتے تھے اس واقعے کے بعد یہ ابو بکر سے آگے ”صدیق“ بنا ہے۔ یہ صدیق کیوں بنا ہے اور وہ ابو الحکم کے بجائے ابوجہل کیوں بنا رہا؟ اس لیے کہ جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے اور فرمایا کہ میں معراج کر کے آیا ہوں، دیدارِ خدا کر کے آیا ہوں تو ابوجہل نے کہا کہ میری عقل نہیں مانتی، تو جسے ابوا لحکم یعنی حکمت والا کہتے تھے اس کا لقب ”ابو جہل“ یعنی جہالت والا ہونا چاہیے اور بعد میں ایسا ہی ہوا؛ وہ اپنی عقل سے پرکھ رہا تھا جبکہ نبوت کے معاملات عقل سے نہیں بلکہ خدا کی وحی سے ہوتے ہیں، نبی کا تو کمال یہ ہے کہ جہاں عقل جواب دے دے وہا ں سے وحی اپنا کام شروع کرتی ہے۔ ابو جہل نے حضرت ابوبکر سے کہا کہ اگر کوئی شخص یہ بات کہے کہ میں ایک رات میں عرش پر گیا اور واپس آیا ہوں تو کیا آپ مان لیں گے؟ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ یہ بتاؤ یہ بات کہی کس نے ہے؟ اس نے کہا کہ آپ کے یار نے کہا ہے۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یار نے کہا ہے تو پھر سچ ہے، پھر وہ واقعی ہو کر آئے ہیں۔
اگر روحانی معراج تھی تو پھر جھگڑا کیوں تھا؟ یہ جھگڑا تو اس پر تھا کہ جسمانی معراج ہوئی ہے۔ اگر میں آپ سے کہہ دوں کہ رات کو میں سویا تھا، خواب میں میں نے وہ جگہ دیکھی ہے جہاں سے سورج نکلتا ہے، پھر میں مدینہ میں گیا، پھر میں مکہ میں گیا۔ آپ کو کوئی بھی تعجب نہیں ہونا لیکن اگر میں کہوں کہ صبح جہاں سے سورج نکلتا ہے میں وہاں گیا، جہاں ڈوبا تھا وہاں گیا، پھر فلاں جگہ گیا، پھر فلاں جگہ گیا، ایک دن میں اتنا لمبا سفر کیا ہے تو اب آپ کو یقیناً تعجب ہو گا کہ یار مولانا صاحب کیسی بات کر رہے ہیں؟
تعجب تبھی ہوتا ہے کہ جب نبی کا معراج جسمانی مانیں، روحانی مانیں تو پھر تعجب کی بات ہی نہیں ہے۔تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معراج جسمانی ہے۔
صفتِ عبد تمام صفات میں افضل ہے:
تیسری بات سمجھیں! اللہ رب العزت نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کرایا ہے۔ پیغمبر میں ایک صفت نہیں ہے کئی ان گنت اوصاف ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک کمال نہیں ہے بلکہ بے شمار کمالات موجود ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک خصو صیت نہیں ہے بلکہ رسالت کے کئی خصائص ہیں لیکن اللہ تعالی نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف میں سے سب سے بہتر وصف کا تذکرہ کیا۔ فرمایا:
﴿سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ﴾
یہاں
”بِعَبۡدِہ“
فرمایا ہے،
”بِنَبِیِّہٖ“
نہیں فرمایا۔ کیوں کہ اللہ نے اپنے نبی کے سب اوصاف میں سب سے بہتر وصف
”عبودیت“
کو ذکر کیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ انسان میں جتنی صفتیں آتی ہیں ان تمام صفا ت میں بہتر صفت عبودیت یعنی عاجزی اور تواضع ہے۔ اب اس کو حدیث مبارک کی روشنی میں سمجھیں۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"مَنْ تَوَاضَعَ لِلہِ رَفَعَہُ اللہُ"44F
المعجم الاوسط للطبرانی: ج3 ص 382 رقم الحدیث 4894
کہ جب انسان عاجزی اختیار کرتا ہے تو اللہ اتنی ہی بلندیاں عطا فرماتے ہیں۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر دنیا میں متواضع کوئی نہیں اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر خدا نے دنیا میں بلندی بھی کسی کو عطا نہیں فرمائی ہے۔
انسان میں جس قدر تواضع بڑھتی جائے گی اللہ اسی قدر لوگو ں کے دلوں میں اس کا احترام بھی بڑھاتے جائیں گے اور بندہ جس قدر تکبر کرتا چلا جائے گا تو اللہ اسی قدر اس کو فنا کرتے چلے جائیں گے۔
اس امت کے متواضع کے ہاتھوں امت کے متکبر کا قتل:
اس سے آپ ایک چھوٹی سی بات سمجھیں! اس امت کا فرعون ابوجہل ہے۔ ابوجہل میں کبر اور تکبر کی انتہا ہے۔ دنیا میں اگر کسی نے اکڑ والے لوگ دیکھے ہوں تو شاید ابوجہل سے زیادہ اکڑنے والا کوئی نظر نہ آئے۔ یہ بے ایمان فرعون سے بھی زیادہ متکبر تھا۔ جب فرشتے فرعون کی موت کا پیغام لے کر آئے ، فرعون جب مرنے اور پانی میں بہنے لگا تو اس نے بھی کہا تھا:
﴿اٰمَنۡتُ اَنَّہٗ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیۡۤ اٰمَنَتۡ بِہٖ بَنُوۡۤا اِسۡرَآءِیۡلَ﴿۹۰﴾﴾
کہ میں اب ایمان لاتا ہوں۔ اللہ نے فرمایا: ﴿
آٰلۡـٰٔنَ وَ قَدۡ عَصَیۡتَ قَبۡلُ وَ کُنۡتَ مِنَ الۡمُفۡسِدِیۡنَ ﴿۹۱﴾﴾ 45
F
یونس10: 91
کہ اب کلمہ پڑھتا ہے، عذاب کو دیکھ کر کلمہ پڑھتا ہے، پہلے کلمہ کیوں نہیں پڑھا؟ فرعون متکبر تھا لیکن عذاب کو دیکھ کر وہ بھی کلمہ پڑھنے لگا لیکن ابوجہل کی گردن کاٹی جا رہی ہے، عذاب میں مبتلا ہے، جہنم میں داخل ہونے لگا ہے لیکن اس بے ایمان نے اس وقت بھی حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہا: او چرواہے! تو میرے سینے پر چڑھ کر بیٹھا ہے، دنیا میں اس سے بڑھ کر تیرے لیے اعزاز کیا ہے کہ تو چرواہا ہو کر سردار کے سینے پر بیٹھا ہے۔ تو اپنی تلوار سے مجھے نہ مارنا! لوگ طعنہ دیں گے کہ چرواہے کی تلوار سے کٹا ہے، یہ میری تلوار پکڑ اور اس سے مجھے قتل کر!
آپ اندازہ کریں کہ ابوجہل نے متکبرانہ انداز میں کہا کہ میری تلوار سے مجھے قتل کر تاکہ لوگ طعنہ نہ دیں کہ چرواہے کی تلوار سے سردار کا قتل ہوا تھا۔ پھر ابو جہل نے کہا کہ گلہ ادھر اوپر سے نہیں بلکہ ذرا نیچے سے کاٹنا تاکہ پتا چلے کہ سر دار کا سر پڑا ہے اور کہا کہ عبد اللہ! جا کر اپنے ساتھی) رحمتِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم (سے کہنا کہ جتنی مجھے تجھ سے دنیا میں نفرت تھی آج اس سے بھی زیادہ ہے العیاذ باللہ۔ 46F
سیرۃ المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم : ج2 ص98
اللہ کی شان دیکھیں! ابوجہل سے زیادہ متکبر کوئی نہیں اور عبد اللہ بن مسعو د رضی اللہ عنہ وہ صحابی ہیں کہ جن کے بارے میں روایات میں ہے کہ اگر ایسے شخص کو دیکھنا ہو کہ جس کے دل میں کبر کا نام ونشان تک نہ ہو تو عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو دیکھ لو! جو آدمی عبودیت کے اعلی مقام پر تھا خدا نے اس سے اس شخص کو قتل کروایا ہے جو تکبر کے آخری مقام پر تھا۔ اللہ کا نظام یہ ہے کہ جب انسان اکڑتا ہے اللہ اسے ہلاک کر دیتے ہیں۔ دعا کریں اللہ رب ا لعزت ہمیں کبر سے محفوظ فرمائے، اللہ ہمیں عاجزی عطا فرمائے۔(آمین۔ سامعین )
تو میں کہہ رہا تھا کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف میں سے صفتِ عبد کو خدا نے ذکر فرمایا کہ میں نے اپنے محبوب کو معراج کرایا ہے، یہ میرا محبوب بھی ہے اور عبد بھی ہے۔
حدیث مبارک میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کھانے کے لیے بیٹھتے تو ایسے بیٹھتے جیسے غلام بیٹھتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"آكُلُ كَمَا يَأْكُلُ الْعَبْدُ."47F
شعب الایمان للبیہقی: ج 5ص 107رقم الحدیث5975
کہ میں ایسے کھاتا ہوں جیسے غلام کھاتاہے۔
ام ہانی کے گھر سے سفر کی ابتدا:
چوتھی بات سمجھیں! حضور اکر م صلی اللہ علیہ وسلم جب معراج پر تشریف لے جانے لگے تو حضرت ام ہانی کے گھر سوئے ہیں، جبرائیل امین چھت پھاڑ کر آئے ہیں دروازے سے نہیں آئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھایا اور کعبہ لے گئے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم حطیمِ کعبہ میں سو گئے۔ وہاں سے ان کو جگایا اور زم زم کے کنویں کے پاس لے گئے۔ وہاں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک سینہ کو شَق کیا اور قلبِ اطہر کو نکال کر زم زم کے پانی سے دھویا اور سونے کا طشت جنت سے لائے تھے، اس میں ایمان اور حکمت بھرا ہوا تھا وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قلبِ اطہر میں ڈالا، پھر سینہ مبارک کو بند کیا، پھر براق سواری پر بٹھایا۔ حضرت جبرائیل نے لگام پکڑی ہے اور حضرت میکائیل نے رِکاب تھامی ہے۔ اس اعزاز کے ساتھ لے جا رہے ہیں۔ ایک طرف جبرئیل اور ایک طرف میکائیل ہے۔
حضرت ام ہانی کے گھر جب جبرائیل آئے تو دروازے سے نہیں آئے چھت پھاڑ کر آئے ہیں یہ بتانے کے لیے کہ آج کے سارے معاملات عادت سے ہٹ کر ہیں، یہ رو ٹین کی زندگی نہیں ہے، یہ روٹین سے بالکل مختلف ہے۔ حضور! آپ ذہنی طور پر تیار ہو جائیں۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم حطیمِ کعبہ کے بجائے حضرت ام ہانی کے گھر سے بھی جا سکتے تھے لیکن اللہ نے حضرت ام ہانی کے گھر کے بجائے کعبہ سے معراج کا آغاز کروا کر یہ بتایا کہ جس مقام سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج کا آغاز ہوا ہے اس کا نام کعبہ ہے اور جہاں پر اختتام ہوا ہے اس کا نام عرشِ معلیٰ ہے۔
”کعبہ“ مکانِ اول کا نام ہے اور ”عرش“ مکانِ آخر کا نام ہے۔ یہ بتانے کے لیے کہ جس طرح کعبہ سے مکانات کی ابتدا ہے اور عرش پر مکانات کی انتہا ہے اسی طرح میرے محبوب سے مقامات کی ابتدا ہے اور میرے محبوب پر مقامات کی انتہا ہے، عرش سے اوپر مکان نہیں ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کسی کا مقام نہیں ہے، عرش پر مکانات کی انتہا ہوتی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر مقامات کی انتہا ہے۔
محدثین نے لکھا ہے کہ اس سے یہ بھی پتا چلا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ کیوں کہ اگر اس کے بعد کوئی اور مقام ہوتا تو اللہ وہاں تک بھی لے کر جاتے، مقامات سارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کرا دیے۔ فرمایا کہ نبیوں کو مقامات دیے ہیں لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر سارے مقامات ختم کر کے بتا دیا کہ اس کے بعد نہ کوئی نبی آئے گا او نہ اس کے بعد کو ئی مقام ہے اور نہ ہی کوئی مکان ہے۔
حطیمِ کعبہ سے سفر کی ابتدا کی وجہ:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم معراج کے لیے گئے ہیں تو کعبہ کے دوحصے ہیں؛ ایک جو تعمیر شدہ ہے اور ایک حطیمِ کعبہ ہے جو تعمیر شدہ نہیں ہے، ثواب میں دونوں برابر ہیں لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ ایک کمرہ بنا ہوا ہے اور ایک کی دیوار پانچ فٹ کے قریب ہے۔ اس پر تین فانوس بھی لگے ہوئے ہیں۔ ایک راستہ آنے کا اور ایک راستہ جانے کا ہے ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ وہاں سے لے جا سکتے تھے جو حصہ تعمیر شدہ ہوا ہے لیکن وہاں سے لے گئے جو تعمیر شدہ نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ نے ہم غریبوں اور مسکینوں پر کرم فرمایا ہے کہ اگر کعبہ کے چھتے ہوئے حصے سے جا تے تو میں اور آپ چاہتے کہ وہ جگہ دیکھیں جہاں سے حضور گئے تھے، وہاں کے منتظمین نے کہنا تھا کہ یہ دروازہ صدر اور وزیر کے لیے کھلتا ہے ہر بندے کے لیے نہیں کھلتا، اللہ نے اس جگہ کے بجائے اس مقام سے معراج کرایا ہے جو غریبوں کی جگہ ہے، نہ آنے پر پابندی ہے نہ جانے پر پابندی ہے۔ (سبحان اللہ۔ سامعین)
اللہ رب العزت نے مساکین کا کتنا خیال فرمایا ہے!
زمزم کے پانی سے قلبِ اطہر دھونے میں حکمت:
پھر حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا شقِ صدر ہوا۔ زم زم کے پانی سے اللہ کے رسول کے قلبِ اطہر کو دھویا گیا۔ یہاں محدثین نے مستقل بحث چھیڑی ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے قلبِ اطہر کو دھونے کے لیے وہاں سے آب کوثر کا پانی آ سکتا تھا، آب کوثر کے بجائے زم زم کے پانی کا استعمال کیوں ہوا؟ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ زم زم کا پانی آبِ کوثر سے بھی افضل ہے اس لیے آب کوثر کے بجائے زم زم کے پانی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلبِ اطہر کو دھویا۔
براق کی رفتار:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری براق کے بارے میں آیا ہے کہ اتنی تیز رفتار تھی کہ جہاں نگاہ پڑتی وہیں اس کا قدم پڑتا تھا۔ کوئی شحص کہے کہ اتنی تیز رفتار تھی؟ ہم نے کہا کہ نام دیکھ کے تو سمجھ آ جانی چاہیے کہ اتنی تیز رفتار کیوں ہے؟ ”براق“ بَرْقٌ سے ہے، برق کا معنی بجلی ہے، دنیا کی بجلی میں رفتار کتنی ہے! آپ بتائیں کہ پشاور میں آپ بٹن آن کریں تو کراچی میں لائٹ جل جاتی ہے، یہ تو دنیا کی بجلی ہے جو ایک سیکنڈ میں ہزاروں کلومیڑ کا فاصلہ طے کرتی ہے اور یہ توجنت کی تھی۔ اگر وہ ایک سیکنڈ میں کروڑوں کلومیڑ کا فاصلہ طے کر لے تو یہ عقل کے خلاف نہیں ہے۔
ایمان و حکمت سے قلب کو بھر نا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سونے کا طشت لایا گیا تھا جس میں ایمان اور حکمت تھی۔اس کو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے قلبِ اطہر میں ڈال دیا گیا۔
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ اپنی کتاب ”نشر الطیب بذکر النبی الحبیب صلی اللہ علیہ وسلم“ میں لکھتے ہیں کہ کسی بندے کے ذہن میں سوال آتا ہے کہ سونے کے برتن کو استعمال کرنا تو جائز ہی نہیں ہے تو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس کا استعمال کیسے ہو ا؟
حضرت فرماتے ہیں کہ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ یہ مکہ میں استعمال ہوا اور سونے کے برتن کے استعمال پر پابندی مدینہ منورہ میں ہوئی۔
اور دوسرا جواب یہ دیا کہ سونے کا برتن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے استعمال نہیں فرمایا بلکہ ملائکہ نے استعمال کیا ہے۔ یہ حکم انسانوں کے لیے ہے ملائکہ کے لیے نہیں ہے۔
اور تیسرا جواب یہ دیا ہے کہ یہ سارے معاملات معراج کے لیے تھے جو امورِ آخرت سے تعلق رکھتے تھے اگرچہ اس عالم میں تھے لیکن تھے اگلے عالم کے، اور جب ہم اگلے عالم میں جائیں گے تو وہاں سونے کا استعمال مرد بھی کریں گے اور عورتیں بھی کریں گی، نبوت نے کر لیا تو خلافِ عادت اور خلافِ شرع نہیں ہے۔
زمینی سفر کے پانچ مقامات پر ٹھہراؤ!
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے چلے تو راستے میں جبرائیل امین علیہ السلام نے کہا کہ یہاں اتریں دو رکعات پڑھیں، یہ ”یثرب“ ہے آپ کی ہجرت کی جگہ۔ پھر سوار ہوئے آگے چلے۔ جبرائیل امین نے پھر کہا: یہاں بھی دو رکعات نماز پڑھیں، یہ ”مدین“ ہے حضرت شعیب علیہ السلام کا علاقہ۔ پھر وہاں سے چلے۔ جبرئیل امین نے پھر کہا کہ یہاں بھی دو رکعات نفل پڑھیں۔ یہ ”طورِ سیناء“ ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خدا سے ہم کلام ہونے کی جگہ۔ پھر وہاں سے آگے چلے، دو رکعات نفل پڑھیے یہ ”بیت اللحم“ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جائے پیدائش ہے۔ وہاں سے آگے چلے تو ”بیت المقدس“ آ گیا۔ اس میں بھی دو رکعات نماز پڑھی۔یہ بہت سارے انبیاء علیہم السلام کی مسجد اور قبلہ ہے۔ چونکہ آپ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اس لیے آپ کو باقی انبیاء علیہم السلام کے خاص خاص مقامات دکھائے جا رہے ہیں۔
ابھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسجدِ اقصیٰ ہی میں تھے کہ ایک مؤذن نے اذان دی اور اقامت کہی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہم صف باندھ کر کھڑے ہوئے، انتظار کر رہے تھے کہ امامت کون کرائے گا؟ تو جبرئیل امین نے میرا ہاتھ پکڑا اور مصلے پر کھڑا کر دیا تو میں نے سب کو نماز پڑھائی۔ نماز پڑھانے سے جب میں فارغ ہوا تو جبرئیل امین نے مجھ سے کہا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ نے کن لوگوں کو نماز پڑھائی ہے؟میں نے کہا: مجھے معلوم نہیں۔ عرض کیا کہ آپ نے انبیائے کرام علیہم السلام کو نماز پڑھائی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم امام بنے ہیں اور باقی انبیاء علیہم السلام مقتدی بنے ہیں۔
دو رکعت سے کم کوئی نماز نہیں:
اب یہاں پر دو مسئلےسمجھنا!
[۱]: دنیا میں اتنا لمبا سفر اور اتنے تھوڑے وقت میں کبھی کسی نے طے نہیں کیا۔ اس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ آپ بتائیں! جب سفر بہت لمبا ہو اور وقت بہت تھوڑا ہو تو نماز چھوٹی سے چھوٹی پڑھتے ہیں یا بڑی سے بڑی پڑھتے ہیں؟ (چھوٹی پڑھتے ہیں۔ سامعین) اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یثرب یعنی مدینہ میں دو رکعات پڑھیں، مدین میں دو رکعات پڑھیں، طورِ سینا میں دو رکعات پڑھیں، بیت اللحم میں دو رکعات پڑھیں اور بیت المقدس میں دو رکعات پڑھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ مقامات پر نماز پڑھی ہے اور اس لمبے سفر میں تھوڑے وقت میں چھوٹی سے چھوٹی نماز دو رکعات پڑھی ہے۔ اس سے پتا چلا کہ دو رکعات سے کم نماز کا شریعت میں کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ اگر ایک رکعت کا جواز ہوتا تو کسی جگہ پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک رکعت تو پڑھ لیتے نا! اس لیے کم از کم دو رکعات ہیں، ایک رکعت وتر کی کوئی ہم سے بات نہ کرے۔
ایک رکعت وتر پڑھنے والوں سے سوال:
اور میں آپ سے کہا کرتا ہوں کہ جو بندہ آپ سے ایک رکعت وتر کا کہے تو اگر آپ زیادہ دلائل نہ دے سکتے ہوں تو ایک دلیل ذہن میں رکھ لیں۔ آپ اسے کہنا کہ ہم وتر کی تین رکعتیں پڑھتے ہیں۔ پہلی رکعت میں ﴿سَبِّحِ اسۡمَ رَبِّکَ الۡاَعۡلَی﴾ اور دوسری میں
﴿قُلۡ یٰۤاَیُّہَا الۡکٰفِرُوۡنَ﴾
اور تیسری میں
﴿قُلۡ ہُوَ اللہُ اَحَدٌ ﴾
پڑھتے ہیں۔ یہ ہم نے حدیث کی روشنی میں تین رکعتیں اور تین سورتیں بتائی ہیں۔
اگر آپ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وتر ایک رکعت پڑھتے تھے تو ایک حدیث آپ بھی بتادیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک رکعت پڑھتے تھے اور یہ سورت پڑھتے تھے۔ اگر نہیں ملتی تو مان لیں کہ وتر ایک نہیں بلکہ تین رکعات ہیں۔
امام کے پیچھے قرأت نہ کی جائے:
[۲]: دوسرا مسئلہ یہ سمجھیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم امام بنے اور باقی انبیاء علیہم السلام مقتدی بنے ہیں۔ نمازیوں کی تین قسمیں ہیں :
1: امام بھی امتی اور مقتدی بھی امتی۔
2: امام نبی اور مقتدی صحابہ۔
3: امام بھی نبی اور مقتدی بھی نبی۔
تو جہ رکھنا! ہمارے ہاں جامع مسجد عثمانیہ سرگودھا میں جو جماعت ہو رہی ہے امام مولانا محمد عمر صاحب بھی امتی ہیں اور ہم بھی امتی ہیں، مدینہ منورہ میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم امام تھے اور نبی تھے ، صحابہ مقتدی تھے اور امتی تھے اور بیت المقدس میں امام بھی نبی ہے او ر مقتدی بھی نبی ہیں۔
آپ بتائیں کہ کون سی نماز سب سے افضل ہوسکتی ہے؟ ( جس میں امام بھی نبی ہو اور مقتدی بھی نبی ہوں۔ سامعین) اب آپ سب سے افضل نماز دیکھ لیں اس میں امام نے سورۃ الفاتحہ پڑھی ہے اور کسی آیت یا کسی حدیث یا کسی تاریخ کی کتاب میں نہیں ہے کہ انبیاء علیہم السلام نے امام کے پیچھے فاتحہ پڑھی ہے۔ معلوم ہوا کہ بہترین نماز وہ ہے کہ جب امام فاتحہ پڑھے تو مقتدی فاتحہ نہ پڑھیں۔ قیامت کے دن اللہ فرمائیں کہ جن لوگو ں نے امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھی تھی وہ کھڑے ہو جاؤ ہم نے اِن کو اُن کے پیچھے لے کر جانا ہے جنہوں نے فاتحہ نہیں پڑھی تھی، ہم کھڑے ہوں گے اور انبیاء علیہم السلام کے پیچھے چل پڑیں گے۔
انبیاء علیہم السلام کی نماز قابل قبول ہے اور ہماری نماز قابل قبول نہیں ہے؟ اس فتویٰ لگانے والے کو کچھ شرم اور عقل کرنی چاہیے کہ میں فتویٰ کیا لگا رہا ہوں کہ جس نے امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں ہوگی! اس کا معنی کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیہم السلام کی نماز نہیں ہوئی ہے، یہ فتویٰ ہم پر نہیں ہے یہ براہِ راست اللہ کے انبیاء علیہم السلام پر فتویٰ لگ رہا ہے۔ اس لیے یہ فتوے اتنے جلدی نہ لگایا کرو۔ اللہ ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین۔ سامعین)
نماز انبیاء علیہ السلام کے اجسام نے پڑھی ہے:
ایک مسئلہ اور سمجھیں۔ انبیاء علیہم السلام نے بھی نماز پڑھی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پڑھی ہے۔ باقی انبیاء علیہم السلام مقتدی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے امام بنے ہیں۔ اب یہاں بحث چلی ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے اجسام مثالی تھے یا اجساد مثالی نہیں تھے بلکہ جسد عنصری کے ساتھ تھے؟ ہمارا موقف یہ ہے کہ جس طرح نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم دنیا والے جسم کے ساتھ تھے باقی انبیاء علیہم السلام بھی دنیا والے جسم کے ساتھ تھے۔ اعزاز تو تب ہی بنے گا نا کہ آگے دنیا والا جسم ہوا اور پیچھے بھی دنیا والے جسم ہوں او ر اگر آگے دنیا والا جسم ہو اور پیچھے روحیں ہوں تو اعزاز کیسے ہو گا؟
انبیاء جب قبروں میں ہیں تو بیت المقدس میں کیسے؟
ایک شحص نے مجھے اٹک سے فون کیا اور کہنے لگے کہ مولانا صاحب! اگر یہ بات مان لی جائے جو آپ لوگو ں کا عقیدہ یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام اپنی قبرو ں میں زندہ ہیں، اپنی قبروں میں نماز پڑھتے ہیں جب انبیاء علیہم السلام قبروں میں نماز پڑھتے ہیں تو بیت المقدس میں نماز پڑھنے والے کون تھے؟ اور اگر بیت المقدس میں نماز پڑھنے والے انبیاء ہیں تو بتائیں پھر قبروں میں کون تھے؟ وہ ثابت یہ کرنا چاہتا تھا کہ قبروں میں تو انبیاء علیہم السلام ہیں دنیا والے جسم کے ساتھ اور یہاں معراج کے موقع پر بیت المقدس میں انبیاء علیہم السلام کی روحیں آئی ہیں تاکہ اعتراض نہ ہو۔
میں نے کہا کہ ہم دیوبند والے ہیں، ہم اپنے عقیدے کا تحفظ کرنا جانتے ہیں اور ہم بڑے شرحِ صدر سے عقیدہ بیان کرتے ہیں، ہم اس طرح نہیں کرتے کہ ہمارے پاس دلیل نہ ہو۔ میں اکثر حضرات سے کہتا ہوں کہ ہمارے اکابر نے یہ فرمایا ہے... میں صرف یوں نہیں کہتا کہ ”ہمارے اکابر نے یہ فرمایا ہے“ بلکہ میں کہتا ہوں کہ ”ہمارے اکابر نے فرمایا اور ہمارے اکابر کے فرمانے کی یہ وجہ ہے...“ ہم اپنے اکابر کے مسئلے کو دلیل سے بیان کرتے ہیں، بغیر دلیل کے بیان نہیں کرتے۔
آمدم بر سرِ مطلب:
جو بندہ آپ سے کہے کہ ”امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھیں تو نماز نہیں ہوتی“ آپ اس سے پوچھنا کہ یہ فتویٰ جامع مسجد عثمانیہ والوں پر ہے یا بیت المقدس کے انبیاء علیہم السلام پر ہے؟ یہ فتویٰ کس پر لگا رہے ہو؟ حنفیوں پر لگا رہے ہو یا بیت المقدس کے انبیا ء علیہم السلام پر لگا رہے ہو؟ اگر ان کی ہوجاتی ہے تو پھر ہماری کیوں نہیں ہوتی؟
مذکورہ اشکال کا جواب:
میں نے اس سے کہا: آپ کہاں سے ہیں؟ مجھے کہتا ہے کہ جی میں اٹک کا ہوں۔ کہاں پڑھتے ہو؟ کہتا ہے: راولپنڈی میں۔ میں نےکہا کہ کیوں جھوٹ بولتے ہو؟ اس نے کہا کہ جھوٹ نہیں ہے، میں سچ کہتا ہوں۔ میں نے کہا کہ تم جھوٹ کہتے ہو! اس نے کہا: کیسے؟ میں نے کہا کہ اٹک میں رہتے ہو تو راولپنڈی کیسے پڑھتے ہو؟ مجھے تمہاری بات سمجھ نہیں آ رہی! کہتا ہے کہ مولانا صاحب! میں رہتا اٹک میں ہوں لیکن پڑھنے کے لیے پنڈی آتا ہوں۔ میں نے کہا کہ انبیاء علیہم السلام رہتے قبروں میں ہیں لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھنے کے لیے بیت المقدس آئے ہیں، جس طرح تو رہتا اٹک میں ہے اور پڑھنے کے لیے پنڈی آیا ہے، وہ رہتے قبروں میں ہیں لیکن حضور کے پیچھے نماز پڑھنے کے لیے بیت المقدس آئے ہیں۔ ان کا بیت المقدس میں آنا قبروں میں رہنے کے خلاف نہیں ہے۔
توضیح بالمثال:
مجھ سے آپ پوچھیں کہ مولانا صاحب! آپ کہا ں رہتے ہیں؟ میں کہوں کہ 87 جنوبی میں۔ آپ کہیں کہ آپ تو عثمانیہ مسجد سرگودھا میں ہیں! میں کہوں گا کہ یا ر میں رہتا 87 میں ہوں لیکن یہاں درس دینے کے لیے آیا ہوں۔ اسی طر ح انبیاء علیہم السلام رہتے قبروں میں ہیں اور بیت المقدس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھنے کے لیے آئے تھے۔
بیت المقدس سے عرش معلیٰ کا سفر:
بیت المقدس تک کا سفر براق پر ہوا ہے۔ اب اگلا سفر معراج کا شروع ہونے والا ہے۔ ”معراج“ سیڑھی کو کہتے ہیں۔ سیڑھی کیسی ہے؟ اس کی شان اللہ ہی جانتا ہے۔ نبی بھی بے مثال ہے، اللہ بھی بے مثال ہے، معراج کی پوری رات بھی بے مثال ہے، وہاں کی سیڑھیا ں بھی بے مثال ہیں۔ ہم بتا تو سکتے ہیں شاید سمجھا نہ سکیں۔
اور دنیا میں آج بھی مختلف قسم کی سیڑھیاں ہیں۔ پہلے سیڑھیاں لکڑی کی ہوتی تھیں، اب فولڈنگ والی سیڑھیاں اور لوہے والی سیڑھیاں ہیں۔ اب لفٹ کی صورت میں سیڑھیاں آئی ہیں۔ ہمارے دور کی سیڑھیاں بدل رہی ہے تو اللہ نے کون سی سیڑھی دی یہ تو خدا ہی جانتا ہے۔
تین پیالے ان سےمراد:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں جانے لگے۔ حدیث پاک میں ہے کہ فرشتے نے آپ کے سامنے تین پیالے پیش کیے؛ ایک پیالہ پانی کا، ایک دودھ کا اور ایک شراب کا۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ کا پیالہ استعمال فرمایا۔ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا کہ یا رسول اللہ!اگر آپ پانی کا پیالہ پی لیتے تو آپ کی امت سیلاب میں غرق ہو جاتی، اگر آپ شراب کا پیالہ پی لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی، آپ نے فطرت کا خیال کیا ہے اور آپ نے دودھ کا استعمال کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں ہدایت بھی رہے گی اور اس امت میں علم بھی رہے گا ان شاء اللہ۔ گمراہ کر نے والے آئیں گے لیکن نہیں کر سکیں گے، خدا تعالیٰ قیامت تک ایسے علم والے حضرات رکھیں گے جو امت کی صحیح رہنمائی کرتے رہیں گے۔ اللہ ہمیں ان کے ساتھ رکھیں جو صحیح رہنمائی کرنے والے ہیں۔
آسمانوں پر انبیاء علیہ السلام سے ملاقاتیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس سے چلے۔ پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام سے ملاقات ہو ئی، دوسرے آسمان پر حضرت عیسیٰ اور یحییٰ علیہما السلام سے ملاقات ہوئی، تیسرے آسمان پر حضرت یوسف سے، چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام سے، پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام سے، چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔
اس ملاقات میں حکمتیں:
علماء نے نکتہ لکھا ہے کہ ....
 پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام سے ملاقات کیوں ہوئی؟ کیونکہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے باپ ہیں، پوری انسانیت کے والد ہیں، ان کا حق یہ تھا کہ پہلے ان سے ملاقات ہو۔
 اس کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کیوں ہوئی؟ اس لیے کہ عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پر گئے ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی زندہ آسمان پر گئے ہیں، دونوں زندہ جانے والوں کو خدا نے ملا دیا۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام ان کے کزن تھے اس لیے ساتھ ان کی ملاقات بھی کرائی ہے۔
 اس کے بعد حضرت یوسف علیہ السلام سے ملاقات کیوں ہوئی؟ کیونکہ یوسف علیہ السلام کو بھائیوں نے دکھ دیا تھا، تو ان سے ملاقات میں حضور علیہ السلام کو بتانا مقصود ہے کہ جس طرح یوسف علیہ السلام کو ان کے بھائیوں نے ستایا تھا اسی طرح آپ کو بھی رشتہ داروں نے ستایا ہے، ایک وقت آیا کہ حضرت یوسف علیہ السلام جب فاتح بنے تو
﴿لَا تَثۡرِیۡبَ عَلَیۡکُمُ الۡیَوۡمَ﴾ 48F
یوسف12: 92
کہا تھا۔ میرے محمد! ایک دور آئے گا کہ آپ بھی یوسف علیہ السلام کی طر ح مخالفین کی خطائیں معاف کریں گے، جن مراحل سے وہ گزرے ہیں آپ بھی ان مراحل سے گزریں گے۔
 اس کے بعد حضرت ادریس علیہ السلام سے ملاقات کیوں ہوئی؟ اس لیے کہ ادریس علیہ السلام انبیاء علیہم السلام میں سے وہ نبی ہیں جنہوں نے ملوک یعنی بادشاہوں کو خط لکھے ہیں۔ تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بادشاہوں کو خطوط لکھنے ہیں اس لیے خدا نے دونوں کی ملاقات کرائی ہے۔
 حضرت ہارون سے ملاقات کیوں ہوئی؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب کوہِ طور پر گئے تو پیچھے قوم نے شر ک کیا تھا تو مشرکین کو قتل کیا ہے۔ اللہ نے ملاقات کروا کر بتایا کہ آپ کی قوم کے مشرکین کو بھی قتل کیا جائےگا، تو بدر میں بھی قتل ہوئے، احد میں بھی قتل ہوئے، فتحِ مکہ کے موقع پر بھی عنادی افراد قتل ہوئے۔
 موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات کیوں ہوئی؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی شام میں جہاد کیا ہے، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی شام کے جہاد کے لیے تبوک تک تشریف لائے ہیں، شام، موسیٰ علیہ السلام کے بعد ان کے جانشین حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کے ہاتھوں فتح ہوا ہے تو اشارہ فرمایا کہ شام آپ کے ہاتھوں نہیں لیکن آپ کے جانشین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں فتح ہو گا۔
 سب سے اوپر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات کیوں ہوئی؟ کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم اس کعبہ کے محافظ ہیں اور ابراہیم علیہ السلام اس کعبہ کے بانی ہیں۔ فرمایا کہ محافظ؛ بانی کو بھی دیکھ لے۔
بیت المعمور جو بالکل کعبہ کے وسط پر ہے وہاں ابراہیم علیہ السلام ٹیک لگا کر بیٹھے ہیں، ستر ہزار فرشتے روزانہ اس بیت کا طواف کرتے ہیں، جو فرشتہ ایک بار آیا دوبارہ اس کی باری قیامت تک نہیں آئے گی۔
سدرۃ المنتہیٰ پر آمد:
پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے اوپر چلے گئے اور سدرۃ المنتہی پر پہنچے۔ ”سدرۃ“ بیری کا نام ہے۔ بیری یوں نہ سمجھیں جیسے ہمارے ہاں کی بیری ہوتی ہے۔ وہ بیری کیسی ہے یہ خدا ہی جانتا ہے!
متکلمِ اسلام کا خواب اور امامِ اھل السنۃ کی تعبیر:
سدرۃ پر مجھے ایک بات یاد آئی۔ میں ایسی باتوں کا عموماً تذکرہ کرتا نہیں ہوں لیکن میرے پاس یہ تحریریں لکھی ہوئی موجود ہیں۔ ہمارے اساتذہ کو پتا ہے کہ ایسی تحریروں کا پورا ایک رجسٹر ہے۔ میں اساتذہ سے کہتا ہوں کہ اس کو میرے مرنے کے بعد چھاپیں، اس کو میری زندگی میں شائع نہ کریں، بعض وہ خواب ہیں جو لوگو ں نے ہمارے بارے میں دیکھے ہیں اور بعض وہ ہیں جو میرے اپنے خواب ہیں۔
مجھے اڈیالہ جیل میں 302 کے جھوٹے کیس میں 25 سال کی قید تھی۔ تو میں نے اس وقت ایک خواب دیکھا۔ وہ خواب میں نے لکھ کر امام اھل السنۃ والجماعۃ شیخ التفسیر والحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ کو بھیجا۔ وہ خواب یہ تھی کہ میں نے بیری کا ایک درخت دیکھا جس پرموٹے موٹے بیر لگے ہیں۔ میں اور مجھ سے جو دو چھوٹے بھا ئی ہیں وہ اس سے بیر توڑ رہے ہیں اور اپنی جھولیوں میں ڈال رہے ہیں۔ اچانک میری آنکھ کھلی اور میری زبان پر یہ آیت جا ری تھی:
﴿فِیۡ سِدۡرٍ مَّخۡضُوۡدٍ ﴿ۙ۲۸﴾ وَّ طَلۡحٍ مَّنۡضُوۡدٍ ﴿ۙ۲۹﴾﴾
”سدر“ بیری کو کہتے ہیں۔ آپ حیرا ن ہوں گے کہ حضرت شیخ مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ عجیب معبر تھے۔ انہوں نے مجھے جواب لکھا کہ تم اور تمہارے بھائیوں کے مال اور اولاد میں اللہ بہت برکت دے گا۔ میں نے جب وہ تعبیر دیکھی تو جو میرے ساتھ جیل میں ساتھی تھے شام کومیں نے ان سے کہا کہ میری رہائی آ گئی ہے۔ انہوں نے مذاق میں کہا کہ تم نے بہت چالاکی کی ہے! ان کا خیال یہ تھا کہ اندر اندر سے اس نے ہائی کورٹ میں رٹ کی اور ہمیں بتایا ہی نہیں ہے اور آج کسی سپاہی نے بتایا ہو گا کہ تمہاری رہائی ہو گئی ہے اور تم جانے والے ہو۔ انہوں نے تعجب سے کہا کہ ہمیں کیوں نہیں بتایا؟ میں نے کہا کہ میرے وکیل نے کیس نہیں لڑا، وہ تو لڑے گا ان شاء اللہ لیکن میں نے امام اھل السنۃ کو خواب لکھ بھیجا تھا تو انہوں نے مجھے تعبیر دی ہے۔ پھر میں نے مذاق کے طور پر کہا کہ جیل میں رہ کر مال میں برکت ہوتی ہے لیکن اولاد کی برکت کے لیے تو مجھے باہر جانا پڑے گا نا! یعنی جیل میں رہ کر مال تو بڑھ سکتا ہے اولا د کیسے بڑھی گی؟
آج ہماری ایک بیوی نہیں بلکہ تین بیویاں ہیں تو برکت ہوئی ہے یا نہیں؟ (ہوئی ہے۔ سامعین) ایک وقت وہ تھا کہ میرے پاس سائیکل تک نہیں تھی اور اب میری ستر لاکھ کی گاڑی ہے۔ اب بتاؤ! یہ برکت ہے یا نہیں؟ میں پیسے کماتا تھوڑی ہوں۔ آپ تو میرے شہر کے ہیں، اس لیے آپ کو اس کی قیمت محسوس نہیں ہوتی اور باہر کے لوگ جب کبھی کبھی دیکھتے ہیں نا کبھی ٹیلی فون پر بات ہو جائے، کبھی مصافحہ ہو جائے تو اس کی قیمت ان کو سمجھ آتی ہے، آپ کو تو پتا ہے کہ درس ہونا ہی ہونا ہے... خیر یہ تو میں ویسے مذاق کر رہا تھا۔ اللہ میرے اور آپ کے سارے اعمال کا بدلہ آخرت میں عطا فرمائے۔ یہ تو ویسے بات چلی ہے تو میں نے کہہ دیا ہے۔
آج کی زبان میں ”سدرۃ المنتہیٰ“ کو اس طرح سمجھیں کہ یہ اوپر سے نیچے آنے والے احکامات اور نیچے سے اوپر جانے والے اعمال کا جنکشن ہے۔ نیچے سے جو اعمال جاتے ہیں وہاں رک جاتے ہیں پھر اوپر جاتے ہیں، اوپر والے احکام وہاں رکتے ہیں پھر نیچے آتے ہیں۔ تو ”سدرۃ المنتہیٰ“ جنکشن ہے۔ یہاں جبرائیل امین رک گئے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے بھی اوپر گئے ہیں۔ جبرائیل امین نے کہا کہ حضور! ہماری پرواز یہاں تک ہے، اس سے آگے جانے کی ہمیں اجازت نہیں ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پھر وہاں سے اوپر گئے ہیں، پھر آگے ”صریف الاقلام “ تک گئے ہیں۔ ”صریف الاقلام “ کا معنی کہ تقدیر کے قلم کے چلنے کی آواز آ رہی ہے۔ یہ تقدیر کے قلم خدا کے حکم سے چلتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس سے اوپر گئے۔ اب اللہ کے نبی مکان سے لامکان تک پہنچے ہیں۔ اللہ کے نبی نے اللہ رب العزت کی بات کو براہِ راست سنا ہے اور اللہ کی ذات کو براہِ راست دیکھا ہے۔
معراج کی رات دیدارِ باری تعالیٰ:
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"رَأَیْتُ رَبِّیْ عَزَّ وَجَلَّ."49F
الخصائص الکبریٰ للسیوطی: ج1ص268
میں نے اللہ رب العزت کو دیکھا ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"رَأَيْتُ النُّوْرَ الْأَعْظَمَ." 50F
الخصائص الکبریٰ للسیوطی: ج1ص262
میں نے نو ر اعظم کو دیکھا ہے۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے بلاواسطہ گفتگو بھی کی ہے اور خدا کا دیدار بھی بلا واسطہ کیا ہے۔
دیدارِ باری تعالیٰ پر اعتراض کے جوابات:
میں اس پر بیانات کرتا رہتا ہوں، آپ سنتے رہتے ہیں، میں نے بتایا تھا کہ ایک مولوی صاحب نے ہمارے دیوبند کے اس عقیدے پر اعتراض کیا۔ کہنے لگا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خدا کو نہیں دیکھ سکتے۔ کیوں کہ یہ حدیث قرآن کے خلاف ہے۔ قرآن کریم میں ہے:
﴿لَا تُدۡرِکُہُ الۡاَبۡصَارُ ۫ وَ ہُوَ یُدۡرِکُ الۡاَبۡصَارَ ۚ وَ ہُوَ اللَّطِیۡفُ الۡخَبِیۡرُ ﴿۱۰۳﴾﴾51F
الانعام 6: 103
کہ کوئی آنکھ بھی خدا کو نہیں دیکھ سکتی اور جس حدیث میں ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو یہ حدیث قرآن کے خلاف ہے۔ لہذا ہم اس حدیث کو نہیں مانتے جو قرآن کے خلاف ہو۔
میں نے کہا کہ دیوبند والے حدیث بھی مانتےہیں اور قرآن بھی مانتے ہیں۔ میں نے کہا: قبلہ! اللہ آپ کو ہدایت عطا فرمائے۔ ہم تو تبلیغی، خانقاہی، دیوبندی لوگ ہیں، ہم بد دعائیں نہیں دیتے ہم تو دعائیں دیتے ہیں کہ اللہ تمہیں ہدایت عطا فرمائے اور ہدایت کے بعد جنت میں جگہ عطا فرمائے۔ تو بتاؤ کہ آپ جنت میں اللہ کا دیدار کرو گے؟ اس نےکہا کہ جی ہاں۔ میں نے کہا کہ کہا ں لکھا ہے؟ کہا کہ حدیث میں لکھا ہے کہ اہلِ جنت؛ جنت میں خدا کا دیدار کریں گے۔ میں نے کہا کہ میں اس حدیث کو نہیں مانتا؟ مجھے کہتا ہے: کیوں؟ میں نے کہا کہ یہ حدیث قرآن کی اس آیت کے خلاف ہے:
﴿لَا تُدۡرِکُہُ الۡاَبۡصَارُ﴾
کہ کوئی آنکھ بھی خدا کو نہیں دیکھ سکتی۔
تو آپ کیسے دیکھیں گے؟ کہتا ہے کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں رہ کر کوئی بندہ خدا کو نہیں دیکھ سکتا، میں تو جنت میں خدا کو دیکھوں گا۔ میں نے کہا کہ ہم کب کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کو فرش پر دیکھا ہے، ہم بھی تو کہتے ہیں کہ عرش پر جا کر دیکھا ہے، تم جنت میں جا کر دیکھ لو تو قرآن کے خلاف نہیں ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم عرش پر جا کر دیکھیں تو یہ قرآن کے خلاف کیسے ہے؟
حضرت عائشہ کا موقف ہمارے خلاف نہیں:
یہاں ایک بات اچھی طرح سمجھیں تاکہ آپ کو کوئی بندہ دھوکہ نہ دے سکے۔ اگر کوئی کہے کہ ام المؤ منین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت صحیح بخاری میں موجود ہےکہ امی عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کا دیدار نہیں کیا! جو کہتا ہے کہ دیدار کیا ہے وہ جھوٹ بولتا ہے۔
اگر کوئی آپ سے یہ بات کہے تو پھر آپ نے کہنا ہے کہ بخاری کی حدیث ہمارے بالکل خلاف نہیں ہے۔ اچھی طرح سے یہ بات سمجھیں کہ یہ ہمارے خلاف کیوں نہیں ہے؟
اصل میں امی عائشہ رضی اللہ عنہا سمجھا رہی ہیں کہ انہی آنکھوں سے زمینی ماحول میں کوئی شخص خدا کا دیدار نہیں کر سکتا۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمین پر دیدار نہیں کیا بلکہ عرش پہ جا کے کیا ہے، جب عالم بدل گیا ہے تو پھر خدا کا دیدار کیا ہے۔ اب امی عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت ہمارے خلاف نہیں ہے۔
توضیح بالمثال:
اور دوسرا جواب یہ ذہن میں رکھیں! میں اسے سمجھانے کے لیے ایک مثال دیا کرتا ہوں۔ میں آپ حضرات کی عثمانیہ مسجد میں درسِ قرآن دینے کے لیے آیا ہوں۔ اب میرے جا نے کے بعد ایک نوجوان کہتا ہے کہ مولانا الیاس گھمن صاحب نے اقبال کالونی کو نہیں دیکھا۔ دوسرا کہتا ہے کہ دیکھا ہے۔ اب دونوں میں جھگڑا ہو گیا۔ قاری صاحب نے دونوں کو بلا لیا کہ بیٹا کیوں لڑ رہے ہو؟
ایک نے کہا کہ میں کہتا ہوں کہ مولانا الیاس گھمن صاحب نے اقبال کا لونی نہیں دیکھی اور یہ کہتا ہےکہ دیکھی ہے۔ تو قاری صاحب نے پوچھا: تو کہتا ہے کہ دیکھی ہے تو تیری دلیل کیا ہے؟ اس نے کہا کہ جی عثمانیہ مسجد اقبال کالونی میں ہی ہے، مولانا صاحب کی آنکھیں ہیں، جب یہا ں آئے ہیں تو بھائی اشرف کے گھر بیٹھےہیں، وضو کیا ہے، وہاں سے مسجد آئے ہیں تو اقبال کالونی دیکھی ہے نا۔
اب دوسرے سے پوچھا کہ تو کہتا ہے کہ اقبال کالونی کو نہیں دیکھا تو تمہاری دلیل کیا ہے؟ وہ کہتا ہے: جی میر ا مطلب یہ ہےکہ اقبال کالونی کے سارے گھروں کو نہیں دیکھا، چیدہ چیدہ دیکھا ہے۔ قاری صاحب نے کہا کہ بات تو دونوں کی ٹھیک ہے اس کے لیے لڑنےکی کیا ضرورت ہے؟
اب یہاں بھی یہی بات سمجھیں کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کو دیکھا ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ اجمال کے درجے میں دیکھا ہے اور امی عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نہیں دیکھا تو مراد یہ ہے کہ تفصیل کے درجے میں نہیں دیکھا۔ تو اجمالاً دیکھاہے تفصیلاً نہیں دیکھا۔ امی عائشہ رضی اللہ عنہا کی بات بھی ٹھیک ہے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی بات بھی ٹھیک ہے۔
ہم دیوبند والے تمہیں آپس میں نہیں لڑاتے تو صحابہ رضی اللہ عنہم کو آپس میں لڑائیں گے؟ ہم لڑانے والی بات نہیں کرتے ہم تو جوڑنے والی بات کرتے ہیں۔
تین عبادات کے بدلےتین انعامات:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا دیدار کیا ہے۔ وہاں اللہ رب العزت نے پوچھا: میرے محبوب! میرے پاس آئے ہو، کیا لائے ہو؟ جناب حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرض کیا:
"التَّحِيَّاتُ لِلهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ"
" التَّحِيَّاتُ لِلہِ"
اے اللہ! میری زبانی عبادتیں آپ کے لیے ہیں۔
" وَالصَّلَوَاتُ "
اے اللہ! میری بدنی عبادتیں آپ کے لیے ہیں۔
" وَالطَّيِّبَاتُ "
اے اللہ! میری مالی عبادتیں آپ کے لیے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تینوں عبادتیں اللہ کی خدمت میں پیش کی ہیں؛ زبان بھی آپ کے لیے،بدن بھی آپ کے لیےاور مال بھی اللہ کے لیے۔ اللہ تعالیٰ نے ان تینوں کے بدلے میں تین انعامات عطا فرمائے ہیں:
1:
"التَّحِيَّاتُ لِلهِ"
کے بدلے:
”السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ “
2:
"وَالصَّلَوَاتُ"
اس کے بدلے:
” وَرَحْمَةُ اللَّهِ “
3:
"وَالطَّيِّبَاتُ "
اس کے بدلے: ”
وَبَرَكَاتُهُ“
کیا معنی کہ میرے محبوب! تیری زبانی عبادت میرے لیے تو میرا زبانی سلام تیرے لیے، تیری بدنی عبادت میرے لیے تو میری رحمت تیرے لیے، تیرا مال میرے لیے تو اس مال کی برکتیں تیرے لیے۔ تین چیزیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کی ہیں، اللہ رب العزت نے تین چیزیں بطور انعام کے دی ہیں۔
تشہد کے جملوں کا باہمی ربط:
ہم تشہد پڑھتے تو ہیں لیکن سمجھتے نہیں کہ ہم کیا پڑھ رہے ہیں اور ان دونوں کا آپس میں جوڑ کیا ہے؟ جب ہم مسجد میں آئیں تو دعا مانگتے ہیں:
"اَللَّهُمَّ افْتَحْ لِىْ أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ."
اے اللہ! میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کے سامنے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عرض کیا تھا:
"اَلتَّحِيَّاتُ لِلهِ وَالصَّلَوَاتُ"
کہ اللہ میں نماز تیرے لیے پڑھتا ہوں۔ تو اللہ نے جواب میں فرمایا تھا:
"وَرَحْمَةُ اللہِ"
کہ میرے نبی! میری رحمتیں تیرے لیے ہیں۔ جب ہم مسجد میں آئیں تو کہتے ہیں کہ یا اللہ! عر ش پر حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا نماز میں پڑھتا ہوں اور آپ نے فرمایا تھا کہ رحمتیں میں بھیجتا ہوں۔ یا اللہ! نماز ہم پڑھتے ہیں، اب رحمت کے دروازے آپ کھول دیں۔
اور جب ہم مسجد نے جانے لگتے ہیں تو یہ دعا پڑھتے ہیں:
اَللّٰهُمَّ إِنِّىْ أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ." 52F
صحیح مسلم، رقم : 713
اے اللہ! میں آپ سے آپ کا فضل مانگتا ہوں۔
قرآن کریم میں ہے:
﴿فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانۡتَشِرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَ ابۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِ اللہِ﴾
الجمعۃ62: 10
کہ جب نماز سے فارغ ہوجاؤ تو زمین میں پھیل جاؤ اور رزق تلاش کرو!
تو ہم مسجد سے باہر نکلتے ہوئے دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ! آپ نے قرآن میں اعلان فرمایا ہے کہ
﴿ وَ ابۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِ اللہِ﴾
کہ مسجد میں جا کر نماز پڑھو اور باہر جا کر اللہ کا فضل تلاش کرو۔ تو ہم اب مسجد سے باہر جانے لگے ہیں اور آپ سے مانگ کر جا رہے ہیں۔ مانگنا ہمارے ذمے ہے اور عطا کرنا آپ کے ذمے ہے۔
تو یہ اللہ کےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سوال ہے او ریہ اللہ کا جواب ہے۔
ایک واؤ کے ساتھ یا دو واؤ کے ساتھ؟
اس پر ایک علمی لطیفہ یاد آیا۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ تشریف فرما ہیں۔ ایک بدو آدمی دیہات سے آیا اور اس نے امام اعظم ابوحنیفہ سے سوال کیا :
أَ بِوَاوٍ أَوْ بِوَاوَیْنِ؟ کہ ایک واؤ کے ساتھ یا دو واؤ کے ساتھ؟
امام صاحب نے فرمایا:
بِوَاوَیْنِ.
کہ دو واؤ کے ساتھ۔
اس نے دعا دی:
" بَارَکَ اللہُ فِیْکَ کَمَا بَارَکَ فِیْ لَاوَلَا!"
اللہ آپ میں ایسی برکتیں دے جیسے ”لا“ اور ”لا“ میں ہیں۔
امام صاحب نے فرمایا: آمین۔
وہ شخص دعا دے کر چلا گیا۔ شاگروں نے پوچھا: استاذ جی نہ ہمیں سوال سمجھ میں آیا نہ جواب سمجھ میں آیا، نہ ہمیں دعا سمجھ میں آئی او ر نہ آمین سمجھ میں آئی۔
امام صاحب نے فرمایا کہ اس نے مجھ سے پوچھا کہ حدیث میں التحیات دو قسم کی منقول ہیں، ایک التحیات وہ ہے جس میں” واؤ“ دو ہیں:
"اَلتَّحِيَّاتُ لِلهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ"
اور دوسری التحیات وہ ہے جس میں واؤ ایک ہے:
"التَّحِيَّاتُ لِلهِ الطَّيِّبَاتُ وَالصَّلَوَاتُ لِلہِ"
تواس بدو نے مجھ سے پوچھا ہے کہ ہم التحیات کون سا پڑھا کریں؟ ایک واؤ والا یا دو واؤ والا؟ میں نے اسے کہا کہ دو واؤ والا پڑھا کرو۔ پھر اس نے مجھے بہت پیاری دعا دی۔ اللہ نے جب اپنے نور کی مثال بیان فرمائی تو ارشاد فرمایا:
﴿مَثَلُ نُوۡرِہٖ کَمِشۡکٰوۃٍ فِیۡہَا مِصۡبَاحٌ ؕ اَلۡمِصۡبَاحُ فِیۡ زُجَاجَۃٍ ؕ اَلزُّجَاجَۃُ کَاَنَّہَا کَوۡکَبٌ دُرِّیٌّ یُّوۡقَدُ مِنۡ شَجَرَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ زَیۡتُوۡنَۃٍ لَّا شَرۡقِیَّۃٍ وَّ لَا غَرۡبِیَّۃٍ ۙ﴾
النور24: 35
اللہ نے زیتون کے درخت کی بات کی ہے۔ فرمایا کہ زیتون کا درخت ایسا ہے کہ اس جیسا درخت نہ مشرق میں ہے نہ مغرب میں ہے۔ خدا نے دو بار ”لا“ استعمال کیا ہے زیتون کے درخت کے لیے۔ تو مجھے اس دیہاتی نے کہا:
" بَارَکَ اللہُ فِیْکَ کَمَا بَارَکَ فِیْ لَاوَلَا!"
اللہ آپ کی علم میں اس طرح برکتیں دے جس طرح زیتون کے درخت میں برکت دی ہے، اس جیسا مشرق او ر مغرب میں درخت نہیں ہے آپ جیسا امام مشرق اور مغرب میں کوئی نہ ہو!
اس بدو نے کیسی پیاری بات کی اور حضرت امام صاحب کے دماغ کا اندازہ فرمائیں! بندہ سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا دشمن وہ شحص ہے جو علم کا دشمن ہے، جس کو علم سے پیار ہے وہ امام صاحب کا کبھی مخالف نہیں ہو سکتا۔
معراج کے تحفے:
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے ملاقات کی اور واپس تشریف لے آئے۔ اللہ پاک نے تین چیزیں بطورِ خاص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دی ہیں:
1: سورۃ البقرۃ کی آخری آیتیں دی ہیں۔
2: یہ تحفہ دیا کہ جو شخص شرک نہ کرے اگرچہ کبیرہ گناہ بھی کرے تو ایک وقت آئے گا کہ اللہ اس کو معاف فرما دیں گے۔
3: پچاس نمازیں عطا کی ہیں۔
نمازیں؛ پچاس سے پانچ رہ گئیں:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے۔ راستے میں موسیٰ علیہ السلام ملے تو انہوں نےپوچھا کہ کیاملا ہے؟فرمایا: پچاس نمازیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ یہ نہیں پڑھیں گے، میں نے آزمایا ہے، اللہ سے کم کروا لیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے گئے۔ اللہ نے پانچ کم کر دیں، باقی پینتالیس رہ گئیں۔ موسیٰ علیہ السلام نےکہا کہ یہ پینتالیس بھی نہیں پڑھیں گے، کم کروا لیں۔ پھر واپس گئے تو چالیس رہ گئیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ یہ چالیس بھی نہیں پڑھیں گے۔ یوں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نومرتبہ گئے، پینتالیس معاف ہو گئیں، اب پانچ باقی رہ گئیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ یہ پانچ بھی نہیں پڑھیں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اے موسیٰ! اب تو مجھے اللہ سے یہ کم کراتے ہوئے حیا آتی ہے۔
ادھر سے وحی آ گئی کہ اے میرے محبوب! ہم اپنے قانون کو نہیں بدلتے، یہ پڑھیں گے پانچ لیکن ہم اجر پچاس کا دیں گے۔ جاؤ! انہیں بشارت دے دو، ہم نے پینتالیس پڑھنے میں کم کی ہیں لیکن ثواب ہم نے پورا دینا ہے۔ خدا کا کتنا کرم ہے!
مقامِ ناز اور مقامِ نیاز:
حضرات مفسرین نے ایک عجیب جملہ کہا ہے کہ پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں، پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے تو بات شروع کر دی لیکن ابراہیم علیہ السلام نے کوئی بات نہ کی۔ علماء نے اس کی بڑی پیاری وجہ لکھی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام مقامِ ناز پر تھے اور ابراہیم علیہ السلام مقامِ نیاز پر تھے۔ مقامِ نیاز والا نہیں بولتا بلکہ مانتا ہی جاتا ہے اور موسیٰ علیہ السلام مقامِ ناز پر تھے اور جس کو ناز ہو وہ بو ل بھی پڑتا ہے۔ ابراہیم؛ خلیل اللہ ہیں اور حضرت موسیٰ؛ کلیم اللہ ہیں، حضرت ابراہیم مقامِ خُلَّت پر تھے اور حضرت موسیٰ مقامِ کلام میں تھے۔ انہوں نے تکلم کیا ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خاموشی اختیار کی ہے۔
یہ تین انعام جو بطور خاص حضور صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں اللہ ہمیں ان کو ماننے کی تو فیق عطا فرمائے۔ (آمین۔ سامعین)
تعارف و وجہ تسمیہ سورت:
سورت بنی اسرائیل مکی سورت ہے۔اس میں 12 رکوع اور 111 آیات ہیں۔ اس سورت کا نام سورت بنی اسرائیل کیوں ہے؟ اس لیے کہ اس سورت کی ابتدا ہی میں اللہ رب العزت نے بنی اسرائیل کا تذکرہ کیا ہے۔
میں اس سے قبل یہ بات عرض کر چکا ہوں کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کو ”اسرائیل“ کہتے ہیں۔ ”اسرا“ کا معنی عبد ہے اور ”ئیل“ کا معنی اللہ ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کا نا م یعقوب تھا اور ان کا لقب تھا اسرائیل یعنی عبد اللہ، اللہ کا بندہ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے اور ہر بیٹے سے آگے مستقل ایک قبیلہ بنا۔ اس نسبت سے ان کے بارہ قبائل بنے اور ان بارہ قبائل کو ”بنی اسرائیل“ یعنی حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد کہا جاتا ہے۔ انہی بنی اسرائیل ہی میں سے یہودی ہیں اور انہی میں سے عیسائی ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی اولاد اور یہود ا کی اولاد آگے چلی۔ یہودا کی جو اولاد ہے انہی کا نام ”یہودی“ ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی انہی کی اولاد میں سے ہیں۔ قیامت کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے اور یہودیت کو قتل کریں گے۔
عیسیٰ علیہ السلام کے نزول پر بھی میں ان شاء اللہ کبھی آئندہ بحث کروں گا کہ نزولِ عیسیٰ علیہ السلام کی حکمتیں کیا ہیں؟ عیسیٰ علیہ السلام کیوں تشریف لائیں گے؟ بہر حال جب عیسیٰ علیہ السلام آئیں گے تو یہودیت اور عیسائیت ختم ہو جائے گی۔ تو اس سورت کا نام ”سورت بنی اسرائیل“ ہے۔
قبولیت اعمال کی شرائط:
﴿مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ الۡعَاجِلَۃَ عَجَّلۡنَا لَہٗ فِیۡہَا مَا نَشَآءُ لِمَنۡ نُّرِیۡدُ ثُمَّ جَعَلۡنَا لَہٗ جَہَنَّمَ ۚ یَصۡلٰىہَا مَذۡمُوۡمًا مَّدۡحُوۡرًا ﴿۱۸﴾وَ مَنۡ اَرَادَ الۡاٰخِرَۃَ وَ سَعٰی لَہَا سَعۡیَہَا وَ ہُوَ مُؤۡمِنٌ فَاُولٰٓئِکَ کَانَ سَعۡیُہُمۡ مَّشۡکُوۡرًا ﴿۱۹﴾ کُلًّا نُّمِدُّ ہٰۤؤُلَآءِ وَ ہٰۤؤُلَآءِ مِنۡ عَطَآءِ رَبِّکَ ؕ وَ مَا کَانَ عَطَـآءُ رَبِّکَ مَحۡظُوۡرًا ﴿۲۰﴾﴾
ان تین آیات میں اللہ رب العزت نے قبولیتِ اعمال کی تین شرطیں بیان فرمائی ہیں۔ شیطان کی ایک محنت یہ ہے کہ کوئی آدمی نیک عمل نہ کرے اور اس کی دوسری محنت یہ ہے کہ اگر کوئی نیک عمل کرے تو اس طرح کرے کہ اس کا نیک عمل قبول نہ ہو۔ مثلاً مسجد میں اگر آ جائے تو نماز ٹھیک طرح ادا نہ ہو اور قبول نہ ہو۔ اس کی پہلی محنت کہ کوئی شحص رمضان کا روزہ نہ رکھے او ر دوسری محنت کہ اگر روزہ رکھ لے تو اس سے روزے میں اعمال ایسے کروائے کہ اس کا روزہ قبول نہ ہو۔ اس کی پہلی محنت کہ انسان حج نہ کرے اور دوسری محنت کہ اگر حج کرے تودورانِ حج اس سے ایسے اعمال سرزد کروائے کہ اس کا حج قبول نہ ہو۔ شیطان کی دونوں محنتیں ہیں۔
شیطان کی پہلی محنت اور اس کا توڑ:
شیطان کی جو پہلی محنت تھی انسان نیک عمل ہی نہ کرے یہاں اس محنت کا توڑ بیان کیا گیا ہے۔ توڑ یہ ہے کہ آدمی نیک عمل کرے۔ اس کے لیے دو چیزیں ہیں:
[1]: بوقتِ عمل انسان مستحکم ارادہ اور عزم کرے، ہمت سے کام لے۔
[2]: اپنی زبان سے کہے:
”لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ“
اللہ ایسے بندے کو نیک اعمال کی توفیق عطا فرما دیتے ہیں۔ آپ اس کی ایک مثال سمجھ لیں۔ جب مؤذن اذان دیتا ہے تو ہم مؤذن کی اذان کے ساتھ ساتھ جواب دیتے ہیں:
” اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ“
کے جواب میں
” اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ“، ”اَشْھَدُ اَنْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ“
کے جواب میں
”اَشْھَدُ اَنْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ“، ”اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ“
کے جواب میں
”اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ“ ،
اور
”حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ“
کے جواب میں
”حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ“
نہیں اور
”حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ“
کے جواب میں
”حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ“
نہیں، پھر
” اَللّٰہُ اَکْبَرْ اَللّٰہُ اَکْبَرْ“
کے جواب میں
” اَللّٰہُ اَکْبَرْ اَللّٰہُ اَکْبَرْ“
اور
”لَا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ“
کے جواب میں
”لَا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ“۔
تو سوال یہ ہے کہ پوری اذان میں جو کلمات مؤذن کہتا ہے ہم بھی وہی کلمات کہتے ہیں لیکن جب مؤذن
”حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ“
کہتا ہے تو نہ تو ہم جواب میں یہ کہتے ہیں کہ
”حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ“
اور نہ ہم یہ کہتےہیں کہ جی ہاں! ہم نماز کے لیے آرہے ہیں بلکہ ہم کہتے ہیں کہ
”لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ“
یہ تبدیلی کیوں؟ اس لیے کہ زبان سے کہنا کہ اللہ بہت بڑا ہے یہ آسان ہے اور عمل سے ثابت کرنا یہ مشکل ہے۔
زبان سے کہنا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں یہ آسان ہے اور جب برادری ایک طرف ہو اور نبی کا حکم دوسری طرف ، تو عمل سے ثابت کرنا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں یہ بڑا مشکل ہے۔ اس لیے اللہ پاک نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے یہ حکم دیا کہ جب
”حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ“
کی باری آئے تو کہنا کہ
”لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ“
کہ اے اللہ! ہم نے زبان سے آپ کو بڑا مان لیا ہے اب عمل کی باری ہے تو یہ ہے مشکل کام لیکن اگر آپ طاقت دے دیں تو پھر مشکل نہیں ہے۔ اس لیے آدمی ہمت کرے، دکاندار ہے تو دکان چھوڑ دے، اذان شروع ہو تو گاہک کو روک دے اور ساتھ
”لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ“
کہے۔ اللہ اس بندے کو نماز کی توفیق ضرور عطا فرمائیں گے، آپ تجربہ کر کے دیکھ لیں۔
شیطان کی دوسری محنت اوراس کا توڑ:
اور جہاں تک دوسری محنت ہے کہ انسان عمل کرے اور قبول نہ ہو تو اس پر شیطان تین محنتیں کرتا ہے :
[1]: پہلے محنت کرے گا کہ آدمی کا عقیدہ ٹھیک نہ ہو، جب عقیدہ ٹھیک نہیں ہو گا تو عمل قبول نہیں ہو گا۔
اللہ رب ا لعزت نے قرآن میں ارشاد فرمایا:
﴿لَئِنۡ اَشۡرَکۡتَ لَیَحۡبَطَنَّ عَمَلُکَ وَ لَتَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ ﴿۶۵﴾﴾55F
الزمر39: 65
اللہ نے امت کو سمجھانے کے لیے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب فرمایا ہے۔ لیکن اس کو سمجھانےسے پہلے میں یہاں ایک مثال دوں گا تا کہ آپ کے لیے اس آیت کو سمجھنا ذرا آسان ہو جائے۔ مدینہ منورہ میں ایک عورت نے چوری کی۔ اس عورت کا نام فاطمہ ہے اور قبیلہ بنی مخزوم ہے۔ جب اس فاطمہ مخزومیہ کی چوری ثابت ہو گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا ہاتھ کاٹ دو، یہی سزا ہے چور کی۔ اب ان کی سفارشیں آنا شروع ہو گئیں کہ حضور! یہ بڑے خاندان کی عورت ہے، اس کا ہاتھ نہیں کاٹنا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا "56F
صحیح البخاری، رقم :3475
اگر فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم چوری کرے گی تو محمد تب بھی اس کا ہاتھ کاٹ دے گا۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا چوری کریں، ایسا بالکل نہیں ہو سکتالیکن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات کیوں فرمائی ہے؟ یہ امت کو سمجھانے کے لیے فرمایا ہے کہ میں نبی حدود میں امیر غیر، چھوٹے بڑے کا فرق نہیں کر سکتا۔
اب سمجھیں کہ یہ جو اللہ نے فرمایا:
﴿لَئِنۡ اَشۡرَکۡتَ لَیَحۡبَطَنَّ عَمَلُکَ وَ لَتَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ ﴿۶۵﴾﴾
اے پیغمبر! اگر آپ نے بھی شرک کیا تو آپ کے سارے اعمال ضائع ہو جائیں گے۔
نبی کے بارے میں شرک کا تصور کرنا بھی جرم ہے لیکن خطاب اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ہے اور یہ امت کو سمجھانے کے لیے ہے۔
شیطان کی پہلی محنت یہ ہے کہ بندے کے عقائد خراب کروں اور ہماری [مولانا محمد الیاس گھمن صاحب کی] پہلی محنت یہ ہےکہ بندےکے عقائد کو درست کریں۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ میری محنت پوری دنیا میں یہ ہےکہ بندے کے عقائد ٹھیک کروں ... عقائد ٹھیک کروں ...کیونکہ اعمال کے قبول ہونے کی بنیاد عقیدہ ہے۔
[2]: شیطان کی محنت ہوتی ہے کہ اگر اس کا عقیدہ ٹھیک ہے تو نیت خراب کروں تاکہ یہ اللہ کے لیے کام نہ کرے، لوگوں کے لیے کام کرے، جب لوگوں کے لیے کام کرے گا تو نتیجہ یہ نکلے گاکہ عمل قبول نہیں ہو گا۔
اخلاصِ نیت ضروری ہے:
ایک حدیث مبارک میں ہے کہ قیامت کے دن اللہ پہلے شہید کو اٹھائیں گے اور پوچھیں گے کہ تو نے میرے لیے کیا کیا ہے؟ وہ کہے گا:
قَاتَلْتُ فِيْ سَبِيْلِكَ حَتَّى اسْتُشْهِدْتُ.
اے اللہ! میں نے تیرےنام پر جان دی اور شہید ہو گیا۔
اللہ فرمائیں گے: تو جھوٹ بولتا ہے۔
إِنَّمَا أَرَدْتَ أَنْ يُقَالَ: فُلَانٌ جَرِيءٌ.
یہ تو نے اس لیے کیا تھا کہ لوگ کہیں کہ بڑا دلیر آدمی ہے، وہ لوگو ں نے کہہ دیا ہے، اب اس کو جہنم میں ڈال دو!
اللہ پھر عالم کو کھڑا کر کے پوچھیں گےکہ تو نے میرے لیے کیا کیا؟
وہ کہے گا:
"تَعَلَّمْتُ الْعِلْمَ وَقَرَأْتُ الْقُرْآنَ وَعَلَّمْتُهُ فِيْكَ.
اے اللہ! میں نے علم سیکھا اور قرآن پڑھا اور آپ کی رضا کے لیے پڑھایا۔
اللہ فرمائیں گے کہ تو جھوٹ بولتا ہے۔
"إِنَّمَا أَرَدْتَ أَنْ يُقَالَ: فُلَانٌ عَالِمٌ وَفُلَانٌ قَارِیئٌ.
تو قرآن اس لیے پڑھاتا تھا تاکہ لوگ کہیں کہ یہ بہت بڑا مولوی ہے، بہت بڑا قاری ہے، زبردست خطیب ہے، وہ تو لوگو ں نے کہہ دیا ہے، اب اس کو الٹے منہ جہنم میں ڈال دو!
پھر اللہ سخی سے پوچھیں گےتو نے کیا کیا؟
وہ کہے گا:
"مَا تَرَكْتُ مِنْ شَيْءٍ تُحِبُّ أَنْ أُنْفِقَ فِيْهِ إِلَّا أَنْفَقْتُ فِيْهِ لَكَ ."
اے اللہ! جتنا تو نے مجھے مال دیا میں نے سارا تیرے نام پر لگا دیا۔
اللہ فرمائیں گے کہ تو بھی جھوٹ بولتا ہے۔
"إِنَّمَا أَرَدْتَ أَنْ يُقَالَ: فُلَانٌ جَوَادٌ."
یہ تو نے اس لیے کیا تھا کہ لوگ کہیں کہ یہ تو بڑا سخی ہے، وہ لوگوں نے کہہ دیا ہے، اب اسے جہنم میں ڈال دو! 57F
شعب الایمان للبیہقی: ج 5ص 325 رقم الحدیث 6805
اب بتاؤ! عالم ہونا کتنا بڑا اعزاز ہے! شہید ہونا کتنا بڑا اعزاز ہے اور سخی ہونا کتنا بڑا اعزاز ہے! لیکن یہ تینوں جہنم میں کب جائیں گےجب ان کی نیت ٹھیک نہیں ہو گی اور اگر نیت ٹھیک ہو گئی تو کیا ہی کہنے۔
تصحیحِ نیت کا اجر:
ایک واقعہ عرض کرتا ہوں، اس کو ذہن نشین فرما لیں! بنی اسرائیل کے لوگوں میں سے ایک شخص قیامت کے دن اللہ کے دربار میں آئے گا، اللہ رب ا لعزت اس کے نامہ اعمال میں ایک ریت کے ٹیلے کے برابر گندم اور آ ٹے کا صدقہ لکھ دیں گے۔ وہ کہے گا: اللہ! میں تو غریب تھا، اتنی گندم تو میں نے زندگی میں دیکھی بھی نہیں ہے یہ میرے نامہ اعمال میں کہاں سے آ گئی؟
اللہ رب العزت فرمائیں گے کہ فلاں بستی سے تو گزرا اور اس بستی میں فقر اور قحط تھا۔ تو نے وہاں کہا تھا: اگر اس ٹیلے کے برابر آج میرے پاس آٹا ہوتا میں غریبوں پر صدقہ کرتا، نیت تو نے کی ہے اور لکھ ہم نے لیا ہے۔
اب نیت خراب ہو تو مولوی صاحب بھی پھنسے پڑے ہیں اور نیت ٹھیک ہو تو تاجر بھی نکل گیا ہے۔ اس لیے شیطا ن کی محنت ہوتی ہے کہ نیت خراب ہو۔
[3]: اگر عقیدہ بھی ٹھیک ہو اور نیت بھی ٹھیک ہو تو شیطان کی محنت ہوتی ہے کہ عمل سنت کے مطابق نہ کرے۔ شیطان یہ محنت کرے گا اور عمل سنت کے مطابق نہیں کرنے دے گا۔
آج دنیا میں جتنی بدعات ہو رہی ہیں یہ کس بنیاد پر ہیں؟ لوگ بڑے اخلاص کے ساتھ اپنے باپ کو بخشوانے کے لیے ایسے اعمال کرتے ہیں جن سے باپ کی بخشش تو کجا خود اولاد گناہ گار ہو جاتی ہے۔
عمل کی قبولیت کی شرائط:
اللہ نے ان آیات میں تین شرطیں بیان فرمائیں جن کی وجہ سے انسان کا عمل قبول ہوتا ہے۔ فرمایا :
﴿وَ مَنۡ اَرَادَ الۡاٰخِرَۃَ وَ سَعٰی لَہَا سَعۡیَہَا وَ ہُوَ مُؤۡمِنٌ﴾
عقیدہ بھی ٹھیک ہو، نیت بھی ٹھیک ہو اور عمل بھی سنت کے مطابق ہو۔
﴿فَاُولٰٓئِکَ کَانَ سَعۡیُہُمۡ مَّشۡکُوۡرًا ﴿۱۹﴾﴾
پھر یہ نہیں کہ ہم اجر دیتے ہیں بلکہ ہم اس کے عمل کی قدر بھی کرتے ہیں۔
اجر اور قدر میں فرق:
اجر اور ہوتا ہے اور قدر اور ہوتی ہے۔ ہم اجر کے پیچھے دوڑتے ہیں اور اللہ نے اجر کی بات نہیں فرمائی، اللہ نے قدر کی بات فرمائی ہے۔ اجر اور چیز ہے قدر اور چیز ہے۔ اجر کا معنی ہے ”مزدوری“ اور قدر کا معنی ہے ”پروٹوکول“۔ مزدوری الگ چیز ہے اور پروٹوکول الگ چیز ہے۔
اگر آپ وزیر اعلیٰ پنجاب کی تنخواہ جا کر پوچھیں تو کسی فیکٹری کے جی ایم کی تنخواہ بھی اس سے زیادہ ہو گی۔ جب وزیر اعلیٰ کے اجر کو دیکھیں گے تو اجر اس کا کم ہے اور جی ایم کا زیادہ ہے اور جب پروٹوکول کو دیکھیں گے تو وزیر اعلیٰ نے جب لاہور سے چلنا ہے تو یہ حکم جاری ہو جاتا ہے کہ سرگودھا تک راستے میں کوئی جی ایم کھڑے نہیں ہونے دینا! روڈ خالی کرا دو! کیوں کہ وزیر اعلیٰ صاحب آ رہے ہیں۔ اجر اور ہوتا ہے اور قدر اور چیز ہوتی ہے۔
اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ میں اجر دوں گا، فرمایا: عقیدہ ٹھیک ہوا، نیت ٹھیک ہوئی اور عمل سنت کے مطابق ہوا تو پھر میں تمہارے عمل کی قدر کروں گا۔ جب شاہ قدر کرتا ہے تو اپنی حیثیت کے مطابق دیتا ہے اور جب شہنشاہ قدر کرتا ہے تو اپنی شان کے مطابق نوازتا ہے۔
شاہ کی قدر دانی یہ ہے تو شہنشاہ کا عالم کیا ہو گا؟
حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ بغداد میں قحط پڑ گیا۔ ایک آدمی نے جوہڑ سے پانی کا ایک مٹکا بھرا اور بادشاہ کے پاس پہنچا۔ بادشاہ نے پوچھا: کیسے آئے ہو؟اس نے کہا کہ بغداد میں قحط تھا تو میں نے سوچا کہ بادشاہ سلامت پیاسے ہوں گے، ان کی خدمت میں پانی پیش کردوں۔ بادشاہ نے سمجھا کہ یہ شخص سادہ ہے لیکن ہے مخلص، یہ سمجھتا نہیں ہے کہ بادشاہ کے پاس مال کون سا ہوتا ہے۔ چنانچہ بادشاہ نے کہا کہ یہ مٹکا لے لو اور اس کے مٹکے کو ہیرے، جواہرات اور سونے سے بھر کر دے دو!
وہ بڑا خوش ہوا کہ میں نے مشکل وقت میں بادشاہ کو پانی دیا ہے تو بادشاہ نے خوش ہو کر مجھے بدلے میں سونا دیا ہے۔ بادشاہ نے اپنے وزیر سے کہا کہ یہ جس راہ سے آیا ہے اس راہ سے واپس نہ جائے، اس کو واپسی پر ہمارے باغات اور چشموں سے گزارنا تاکہ اس کو پتا چلے کہ ہمیں تیرے پانی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اب اس نے سر پر مٹکا اٹھایا ہوا ہے اور بادشاہ کے باغات سے گزر رہا ہے۔ یہ بیچارہ پسینہ پسینہ ہو گیا کہ یہ بادشاہ اگر ان پھلوں کے جوس پیتا رہے تو اس کے پاس جوس ختم نہ ہو، میں نے پانی دے کر کون سا کمال کیا ہے!
حکیم الامت حضرت مولا نااشرف علی تھانوی فرماتے ہیں: جب شاہ قدر کرتا ہے تو جوہڑ کے پانی کے بدلے میں جواہرات دیتا ہے اور جب شہشاہ قدر کرتا ہے تو ایسی نعمتیں دیتا ہے جن کا انسان تصور بھی نہیں کر سکتا! تو شاہ کی قدر اور ہوتی ہے اور شہنشاہ کی قدر اور ہوتی ہے۔
اللہ کی شانِ بے نیازی و شانِ سرفرازی:
ہم جو نیک اعمال کرتے ہیں تو اللہ کو ہمارے نیک عمل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہم خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے سبحان اللہ کہا تو اللہ ہمیں جنت دے دیں گے۔ یہ اللہ کو ضرورت نہیں ہے کہ اللہ ہمارے سبحان اللہ کا محتاج ہے، وہ تو ہے ہی سبحان اس کو ہمارے سبحان کی ضرورت کیا ہے؟ یہ سبحان کہنا اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کو ہمارے سبحان کی ضرورت نہیں ہے۔
تو جب آ دمی عمل کرے بشرطیکہ اس کا عقیدہ بھی ٹھیک ہو اور اس کی نیت بھی ٹھیک ہو اورعمل بھی سنت کے مطابق ہو تو اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
﴿فَاُولٰٓئِکَ کَانَ سَعۡیُہُمۡ مَّشۡکُوۡرًا ﴿۱۹﴾﴾
ہم اسے صرف اجر نہیں دیتے بلکہ اس کی قدر کرتے ہیں۔
عبادت خدا کی اور ادب والدین کا:
﴿وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ وَ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا ؕ اِمَّا یَبۡلُغَنَّ عِنۡدَکَ الۡکِبَرَ اَحَدُہُمَاۤ اَوۡ کِلٰہُمَا فَلَا تَقُلۡ لَّہُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنۡہَرۡہُمَا وَ قُلۡ لَّہُمَا قَوۡلًا کَرِیۡمًا ﴿۲۳﴾ وَ اخۡفِضۡ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحۡمَۃِ وَ قُلۡ رَّبِّ ارۡحَمۡہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا ﴿ؕ۲۴﴾﴾
ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے توحید کے بعد والدین کا ادب بیان کیا ہے۔ فرمایا کہ تم نے سجدہ خدا کو کرنا ہے اور ادب تم نے والدین کا کرنا ہے۔ آگے اللہ نے والدین کے لیے پانچ چیزیں فرمائی ہیں:
[1]:
﴿فَلَا تَقُلۡ لَّہُمَاۤ اُفٍّ ﴾
ان کو
”اف“
بھی نہیں کہنا۔ ماں باپ سے بڑے سے بڑا نقصان ہو جائے تو اس زندگی والے اس نقصان پر آپ نے یہ نہیں کہنا: ابا جی! یہ کیا کیا ہے؟
[2]:
﴿وَّ لَا تَنۡہَرۡہُمَا﴾
اور ماں باپ کو ڈانٹنا بھی نہیں ہے۔
[3]:
﴿وَ قُلۡ لَّہُمَا قَوۡلًا کَرِیۡمًا﴾
ان کے ساتھ شرافت سے بات کرنی ہے
[4]:
﴿وَ اخۡفِضۡ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحۡمَۃِ﴾
والدین کے لیے ہمیشہ اپنے بازؤوں کو بچھاکر رکھناہے ، جی جی کرتے رہنا ہے!
[5]: ﴿وَ قُلۡ رَّبِّ ارۡحَمۡہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا﴾ اور ساتھ اللہ سے دعائیں بھی مانگنی ہیں کہ اے اللہ! میرے ابا جی اور امی جی پر رحم فرما! میں تو خدمت کرتا ہوں، آپ بھی رحم فرمادیں!
تو اللہ نے والدین کے بارے میں یہ بات فرمائی ہے۔
آیت میں ذکر خدا ہے تو ذکر مصطفیٰ کہاں ہے؟
اب یہاں ایک بات سمجھیں! ایک معاملہ والدین کا ہے اور ایک معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ عموماً آپ نے سنا کہ جب بھی اللہ کا نام ہو اس کے بعد اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہوتا ہے۔ جب خدا کا ذکر ہو تو بعد میں مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر بھی ہوتا ہے۔ یہاں ذکرِ خدا تو ہے لیکن ذکرِ مصطفیٰ نہیں ہے بلکہ اللہ کے ذکر کے بعد والدین کا ذکر ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ذکرِ خدا کے بعد ذکرِ مصطفیٰ کیوں نہیں ہے؟ یہ مضمون تو بہت لمبا ہے لیکن میں ساری باتیں اختصار سے کہہ رہا ہوں۔ یہاں ذکرِ مصطفیٰ موجود ہے لیکن اسے دیکھنے والی آنکھ ہر بندے کے پاس نہیں ہے۔ اگر آنکھ موجود ہو تو نظر آئے گا کہ یہاں ذکرِ مصطفیٰ کیسے ہے۔
یہ بات سمجھیں! عبادت ہر حال میں خدا کی ہے اور ادب ہر حال میں والدین کا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آدمی کے پاس صحت ہو تب بھی سجدہ خداکو، اگر بیماری ہو تب بھی سجدہ خدا کو، دولت ہو تب بھی سجدہ خدا کو، فقر ہو تب بھی سجدہ خدا کو، اللہ اولاد دیں تب بھی سجدہ خدا کو، اولاد دے کر واپس بلالیں تب بھی سجدہ خدا کو! پتا چلا کہ جس طرح سجدہ ہر حال میں خدا کو ہے اسی طرح ادب ہر حال میں والدین کا ہے، والدین مسلمان ہوں یا والدین کافرہوں، والدہ رات مصلی پر گزارے یا والدہ رات سینما میں گزارے ہر حال میں ماں کا ادب اولاد کے ذمہ ہے۔
کوئی بیٹا یہ نہیں کہہ سکتا کہ تو تہجد نہیں پڑھتی، رات بازار میں گزارتی ہے، میں تیری خدمت نہیں کروں گا، ماں گندی سے گندی ہو لیکن بیٹے کی جنت اسی ماں کے قدموں میں ہے۔ یہ ماں اور خدا کا معاملہ ہے۔ باپ سود کھائے یا باپ تجارت کرے یہ باپ اور خدا کا معاملہ ہے، بیٹا اس بنیاد پر باپ کو رد نہیں کر سکتا کہ تو سو د خور ہے ۔ بیٹے کے لیے جنت کا دروازہ یہی باپ ہے۔
یہ بات اچھی طرح ذہن نشین فرما لیں! کبھی جو تھوڑا ساتقویٰ آ جائے، آدمی ڈاڑھی رکھ لے، نماز پڑھ لے اور نیک بن جائے تو اپنے سود خور باپ کے خلاف بکنا شروع ہوجاتا ہے، بے نماز باپ کی بے ادبی کرتاہے اور باپ غلط ہو تو باپ کے خلاف زبان درازی کرتا ہے۔ یاد رکھو! باپ جیسا بھی ہو وہ باپ ہے۔ کبھی بھی انسان باپ کے خلاف نہ بد زبانی کرے، نہ باپ کے خلاف بد گمانی کرے۔ ہاں اگر باپ کی باتیں شریعت کے خلاف ہوں تو اپنے باپ کے لیے دعائیں ضرور کرتا رہے۔
مولانا صاحب! میرے والد کے لیے دعا کریں:
مجھ سے کراچی کے ایک ساتھی بیعت ہیں اور ان کے گھر والے بھی مجھ سے بیعت ہیں۔ان کے والد صاحب کا بڑا مسئلہ ہے کہ انہوں نے سود کے لیے بینک میں پیسہ جمع کرا دیا ہے اور گھر میں ٹی وی رکھا ہوا ہے، ہر وقت وہی دیکھتے رہتے ہیں ۔ میں بڑا حیران ہوتا ہوں۔ وہ بیعت والا ساتھی جب بھی آتا ہےتو کہتا ہے کہ مولانا صاحب! دعا فرمائیں اللہ ہمارے والد صاحب کو ہدایت عطا فرمائے اور میں کوشش کر رہا ہوں کہ امی اور ابو دونوں کو عمرے پر لے جاؤں اور حرم میں لے جا کر کہہ دو ں کہ اللہ! جو میرے بس میں تھا میں نے کر دیا، میں نے سود کی جگہ زم ز م پلادیا ہے، اب اندر تو صاف فرما دے! تو والدین کے ساتھ معاملہ ایسا ہونا چاہیے۔
خیر میں مختصر ا کہہ رہاہو ں تاکہ بات لمبی نہ ہو۔ یہاں یہ بات سمجھیں کہ سجدہ خدا کو کیوں اور ادب والدین کا کیوں؟ اللہ کو سجدہ اس لیے ہے کہ اللہ پاک کے کلمہ ”کُنْ“ سے ہم پیدا ہوئے ہیں اور ماں باپ کا ادب اس لیے ہے کہ ماں با پ ہماری پیدائش کا سبب ہیں۔ سببِ حقیقی اللہ کی ذات ہے اور سببِ ظاہری ماں باپ کی ذات ہے۔
اب حقیقت پر غور کریں گے تو نظر آئےگا کہ میری پیدائش کا سبب میرے ماں باپ ہیں، ان کی پیدائش کا سبب ان کے ماں باپ ہیں، ان کی پیدائش کا سبب ان کے ماں باپ، اسی طرح اگر اوپر چلتے جائیں تو ہم سب کی پیدائش کا سبب ہمارے جد امجد حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کا سبب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ حدیث مبارک میں ہے کہ اللہ رب العزت نے حضرت آدم علیہ السلام سے فرمایا تھا:
"وَلَوْلَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُكَ"58F
المستدرک علی الصحیحین للحاکم: ج3 ص517 رقم الحدیث 4286
اے آدم! اگر ہم نے محمد مصطفی کو پیدا نہ کرنا ہوتا تو میں تجھے وجود ہی نہ دیتا!
اب پتا چلا کہ ہم سب کی پیدائش کا سبب آدم علیہ السلام ہیں اور حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کا سبب حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اب بتاؤ کہ جن کی وجہ سے تنہا مجھے وجود ملا ہے اگر ان کا ادب کرنا ضروری ہے تو جن کی وجہ سے پوری کائنات کے سارے انسانوں کو وجود ملا ہے تو ان کا ادب والدین سے بڑھ کر ضروری ہے!
اس لیے میں کہہ رہا تھا کہ والدین کے ساتھ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر موجود ہے لیکن اس کو دیکھنے کے لیے آنکھ ہونی چاہیے، آنکھ ہو تو پھر نظر آتا ہے۔ اور اس بات کو سمجھانے کے لیے میں آپ کو کئی ایک مثالیں دے چکا ہوں اگر آپ کو یاد ہو، میں ایک دو مثالیں ابھی بھی دے دیتا ہوں:
مقتدی کا اجر بتایا امام کا اجر سمجھ میں آیا:
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب آدمی با جماعت نماز پڑھے تو ایک نماز پر ستائیس نمازوں کا ثواب ملتا ہے۔
صحیح البخاری، رقم: 645
اب یہ اجر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتدی کے لیے بتایا ہے یا امام کے لیے بتایا ہے؟ (مقتدی کے لیے۔ سامعین) اور اگر مصلی پر اما م نہ ہو تو مقتدی کو یہ اجر ملے گا؟ (نہیں۔ سامعین) مقتدی کا اجر بتایا ہے تو امام کا اجر سمجھ میں آیا ہے۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم امام کا اجر بتا دیتے تو مقتدی کا اجر سمجھ میں نہیں آنا تھا، اس لیے مقتدی کا اجر بتایا تو امام کا اجر سمجھ میں آ گیا۔
سینگ، بال، کھر کا اجر بتایا تو گوشت کا خود بخود سمجھ میں آیا:
حدیث پاک میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"بِکُلِّ شَعْرَۃٍ حَسَنَۃٌ."
60Fجب آدمی قربانی کرتا ہے تو ایک ایک بال کے بدلے میں اللہ اسے نیکی عطا فرماتے ہیں۔
سنن ابن ماجۃ، رقم: 3127
اب بتاؤ! بال کھاتے ہیں یا گوشت کھاتے ہیں؟ (گوشت کھاتے ہیں۔ سامعین) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ ایک ایک بوٹی کے بدلے میں نیکی ملتی ہے بلکہ فرمایا کہ
” بِکُلِّ شَعْرَۃٍ حَسَنَۃٌ “
کہ ایک ایک بال کے بدلے میں نیکی ملتی ہے۔ اگر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بوٹیوں کا اجر بتا دیتے تو بال کا اجر سمجھ میں نہیں آنا تھا۔ لوگ کہتے کہ بال تو ہم پھینک دیتے ہیں۔ تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بال کا اجر بتایا ہےتو بوٹی کا اجر خود بخود سمجھ میں آیا ہے۔
شہید کی حیات بتائی تو نبی کی حیات میں آئی:
یہ بات سمجھتے جانا! ہمارا عقیدہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں لیکن قرآن کریم میں ہے :
﴿وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ یُّقۡتَلُ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ اَمۡوَاتٌ ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ وَّ لٰکِنۡ لَّا تَشۡعُرُوۡنَ ﴿۱۵۴﴾﴾61F
البقرۃ2: 154
کہ شہید زندہ ہے۔ یہاں یہ نہیں فرمایا کہ نبی زندہ ہے۔ یہاں شہید کی زندگی بتائی ہے۔ علماء نے لکھا کہ جب شہید؛ نبی کا امتی ہو کر زندہ ہے تو نبی پھر بڑھ کر زندہ ہے، اب اللہ نے شہید کی زندگی بتائی ہے نبی کی نہیں بتائی ، کیوں کہ اگر اللہ قرآن میں بتا دیتے کہ نبی زندہ ہے تو شہید کو زندہ کون مانتا؟ لوگوں نے کہنا تھا کہ ہم اس لڑکے کو جانتے ہیں، یہ ہماری مسجد کے قریب رہتا تھا، ہم نےکبھی اس کو نماز پڑھتے نہیں دیکھا، اس کے تو چہرے پہ ڈاڑھی بھی نہیں تھی، یہ شہید ہو گیا ہے تو ہم اسے زندہ کیسے مان لیں؟ اب اگر اللہ ؛نبی کی حیات بتا دیتے تو شہید کی حیات سمجھ میں نہیں آنی تھی، شہید کی حیات بتائی ہے تو نبی کی حیات سمجھ میں آئی ہے۔
پیغمبر علیہ السلام کے ادب کے تقاضے:
اس طرح اگر اللہ یہاں فرما دیتے کہ
”وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْا اِلَّا اِيَّاهُ وَبِمُحَمَّدٍ اِحْسَانًا“
سجدہ تم خدا کو کرو اور ادب مصطفیٰ کا کرو تو والدین کا ادب سمجھ میں نہیں آنا تھا۔ اللہ نے
﴿وَ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا﴾
فرمایا ہے
”وَبِمُحَمَّدٍ اِحْسَانًا“
سمجھ میں آیا ہے۔
اب ذرا بات سمجھیں! کہ جب سجدہ خدا کو کرنا ہے اور ادب کائنات میں سب سے بڑھ کر مصطفیٰ کا کرنا ہے تو پھر اگلے جو پانچ احکام ہیں ان کا مطلب کیا ہو گا؟ اس کا مطلب ذوق سے سمجھ میں آتا ہے، بغیر ذوق کے سمجھ میں نہیں آتا۔
[1]:
﴿فَلَا تَقُلۡ لَّہُمَاۤ اُفٍّ ﴾
والدین کا ادب کرنا فرض ہے، ان کو ”اف“ کہنا گناہ ہے تو نبی کا ادب کرنا ایمان ہے اور ”اف“ کہنا کفر ہے۔
[2]:
﴿وَّ لَا تَنۡہَرۡہُمَا﴾
والدین کا ادب کرنا فرض ہے او ر ان کو ڈانٹنا جرم ہے، نبی کا ادب کرنا ایمان ہے او ر نبی کے سامنے اونچا بولنا بھی کفرہے۔
[3]:
﴿وَ قُلۡ لَّہُمَا قَوۡلًا کَرِیۡمًا﴾
والدین کا ادب کرنا فرض ہے اور والدین کے سامنے بے ہودہ بات کرنا جرم ہے۔ نبی کا ادب کرنا ایمان ہے اور نبی کے سامنے ایسا جملہ کہنا جس سے توہین کا پہلو نکلتا ہو ایسا جملہ کہنا بھی کفر ہے۔
[4]:
﴿وَ اخۡفِضۡ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحۡمَۃِ﴾
والدین کا ادب کرنا فرض ہے تووالدین کے سامنے نظروں کو جھکانا اور بازو بچھانا فرض ہے۔ نبی کا ادب کرنا ایمان ہے اور نبی کے نام پر گردن کٹانا بھی ایمان ہے۔ (سبحان اللہ۔ سامعین)
میں بار بار کہہ رہا ہوں کہ کسی آدمی میں علمی ذوق نہ ہو تو اس کو میری تقریر کا مزا نہیں آئے گا، ہماری گفتگو کے لیے علمی ذوق ہونا بہت ضروری ہے۔ میں ایک جملہ کہنے لگا ہوں۔
[5]:
﴿وَ قُلۡ رَّبِّ ارۡحَمۡہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا﴾
یہ والدین کے لیے دعا ہے کہ اے اللہ! ان پر رحم فرما اور ان پر ایسا کرم فرما جیسے میں بچہ تھا تو مجھ پر یہ شفقت کرتے تھے، آج یہ بوڑھے ہیں تو ان پر آپ شفقت فرمائیں ۔
میانہ روی کی تعلیم:
﴿وَ لَا تَجۡعَلۡ یَدَکَ مَغۡلُوۡلَۃً اِلٰی عُنُقِکَ وَ لَا تَبۡسُطۡہَا کُلَّ الۡبَسۡطِ فَتَقۡعُدَ مَلُوۡمًا مَّحۡسُوۡرًا ﴿۲۹﴾ ﴾
اللہ پاک نے کیسا پیارا اصول بیان فرما دیا کہ جب پیسہ خرچ کرنے پر آؤ تو اتنا بھی خرچ نہیں کرنا کہ خود فقیر ہو جاؤ اور اتنا بھی نہ روکنا کہ خود بخیل ہو جاؤ! نہ تم نے بخیل ہونا ہے اور نہ تم نے فقیر ہونا ہے، درمیانہ راستہ اختیار کرو، اللہ کے راستے میں خرچ بھی کرتے رہو اور اپنی ضرورت کے لیے پیسے رکھتے بھی رہو!
اولاد کو قتل نہ کرو!
﴿وَ لَا تَقۡتُلُوۡۤا اَوۡلَادَکُمۡ خَشۡیَۃَ اِمۡلَاقٍ ؕ نَحۡنُ نَرۡزُقُہُمۡ وَ اِیَّاکُمۡ ؕ اِنَّ قَتۡلَہُمۡ کَانَ خِطۡاً کَبِیۡرًا ﴿۳۱﴾﴾
اس وقت کے مشرک اور آج کے دور کے نام نہاد مسلمانوں کے دماغ ایک جیسے ہیں۔ وہ بھی کہتے تھے کہ اولاد کو قتل کرو، اگر یہ زندہ رہے تو انہیں کہاں سے کھلائیں گے؟ اور آج بھی لوگ یہی کہتے ہیں کہ بچے دو ہی اچھے! اگر زیادہ ہوں گے تو ہم انہیں کہاں سے کھلائیں گے۔
پہلے دور اور آج کے دور کے کافر میں فرق:
میں بار بار عرض کرتا ہوں کہ وقت کم ہوتاہے، ایک ایک جملے پر بولنے کو جی چاہتاہے۔ حضرت مولانا سید ابولحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ ہمارے بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں۔ مولانا علی میاں فرماتے تھے کہ پہلے کے کافر کو سمجھنا بہت آسان تھا اور آج کے کافر کو سمجھنا بڑا مشکل ہے، کیوں کہ پہلے جب آدمی نظریہ بدلتا تھا تو اپنا نام بھی بدلتا تھا۔ کہتا تھا کہ میں مسلمان نہیں ہوں میں عیسائی ہوں، مسلمان نہیں ہوں میں فلاں فرقے کا ہوں اور آج کا مسلمان نظریہ بدلتا ہے اور نام نہیں بدلتا، نام مسلمانو ں والا ہوتا ہے اور اندر عقیدہ مسلمانوں والا نہیں ہوتا، اس لیے آج کا کفر سمجھنا بہت مشکل ہے اور آج کے کفر کی اطلاع بھی بڑی مشکل ہے۔
مشرکین کا نظریہ یہ تھا کہ اگر یہ اولاد باقی رہی تو ہم کھلا ئیں گے کہاں سے؟ لہذا ان کو مار دو اور آج کے مسلمان کا عقیدہ ہے کہ اگر اولاد زیادہ ہو گئی تو سنبھالیں گے کیسے؟ لہذا گولیاں استعمال کرنی شروع کر دو! دونوں کے نظریہ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ میں بات تمہیں ہنسانے کے لیے نہیں کہہ رہا، آپ کو پتا ہے کہ لطیفے سنانا میرا مزاج نہیں ہے، میں کوئی لطیفہ بھی سناؤں تو خالص عقیدے کی اصلاح کے لیے سناتا ہوں۔
ہاں البتہ ضرورت کی وجہ سے وقفہ کرنا پڑے تو اس کی شریعت میں گنجائش ہے۔ مثلاً کسی کی اہلیہ کے ہاں بڑا آپریشن ہوا، بچہ پیدا ہوگیا، اب آئندہ اگر بچہ نو ماہ میں ہو گیا تو پھر اس کو بڑے آپریشن کی ضرورت ہوگی تو اس کے لیے سنبھالنا بڑا مشکل ہو گا، اگر اس طرح کا کوئی عذر ہو اور وقفہ کریں تو یہ مسئلہ الگ ہے۔ لہذا اس دماغ کی اصلاح کر نا بہت ضروری ہے۔ اللہ ہمیں یہ بات سمجھنے کی توفیق عطافرمائے۔ (آمین)
انسان اشرف المخلوقات ہے:
﴿وَ لَقَدۡ کَرَّمۡنَا بَنِیۡۤ اٰدَمَ وَ حَمَلۡنٰہُمۡ فِی الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ وَ رَزَقۡنٰہُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلۡنٰہُمۡ عَلٰی کَثِیۡرٍ مِّمَّنۡ خَلَقۡنَا تَفۡضِیۡلًا ﴿٪۷۰﴾﴾
اس آیت میں اللہ رب العزت نے بنی آدم کی فضیلت کا تذکرہ فرمایا ہے کہ ہم نے بنی آدم کو فضیلت بھی دی ہے، ان کو دریا اور خشکی میں سواریاں بھی دی ہیں، ہم نے ان کو پاکیزہ رزق بھی دیا ہے اور اپنی مخلوقات میں سے بہت بڑی مخلوق پر فضیلت اور ترجیح بھی دی ہے۔
فضیلت والی مخلوقات دو ہیں:
1: انسان 2: فرشتے
فرشتے اس لیے فضیلت والے ہیں کہ وہ خالص نورانی مخلوق ہیں۔
﴿لَا یَعۡصُوۡنَ اللہَ مَاۤ اَمَرَہُمۡ وَ یَفۡعَلُوۡنَ مَا یُؤۡمَرُوۡنَ ﴿۶﴾﴾
التحریم 66: 6
فرشتوں میں اللہ نے گناہ کا مادہ ہی نہیں رکھا۔
اور انسان میں گناہ کا مادہ رکھا ہے اور پھر بھی انسان نیک کام کرتا ہے تو ملائکہ سے بھی آگے نکل جاتا ہے۔
انسان اور فرشتوں میں افضل کون ہے؟
اللہ نے انسان کو تمام مخلوقات پر فضیلت عطا فرمائی ہے۔ اس ضمن میں ایک بات ذہن نشین فرما لیں! انبیاء علیہم السلام کی جماعتِ مقدسہ تمام فرشتوں حتی کہ بڑے بڑے چار فرشتوں؛ جبرائیل، میکائیل، اسرافیل اور ملک الموت علیہم السلام سے بھی افضل ہے۔ پھر یہ چار فرشتے انبیاء علیہم السلام کے علاوہ عام انسانوں سےافضل ہیں اور عام انسانوں میں سے جو اولیاء، اتقیا اور صالحین ہیں یہ عام ملائکہ سے افضل ہیں اور عام ملائکہ عام انسانوں سے افضل ہیں۔
یہی ترتیب مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے معارف القرآن میں بیان فرمائی ہے اور یہی تفصیل مفتی شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر عثمانی میں ارشاد فرمائی ہے۔
انسان کی فضیلت کی وجوہات:
انسان فرشتوں سے بھی اعلی کیوں ہے؟ مفسرین نے اس کی کئی وجوہات لکھی ہیں۔ میں اتنی بات کہتا ہوں کہ انسان صورتاً بھی اعلیٰ ہے اور انسان سیرۃً بھی اعلیٰ ہے۔ اللہ نے انسان کی جو ظاہری صورت قرآن کریم میں بیان کی ہے :
﴿لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ ۫﴿۴﴾﴾
کہ جتنی بھی مخلوقات موجود ہیں سب سے خوب صورت شکل اللہ نے انسان کو عطافرئی ہے۔
تو چاند سے زیادہ خوبصورت نہ ہوئی تو تجھے تین طلاق!
مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ نے سورۃ التین میں اسی آیت کے تحت ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ عیسیٰ بن موسیٰ ہاشمی جو خلیفہ ابوجعفر منصور کے دربار کے مخصوص لوگوں میں سے تھے اور اپنی بیوی سے بہت محبت رکھتے تھے ایک روز چاندنی رات میں بیوی کے ساتھ بیٹھے ہوئے تو بول اٹھے:
أَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثًا إنْ لَّمْ تَكُوْنِيْ أحْسَنُ مِنَ الْقَمَرِ!
کہ اگر تو چاند سے زیادہ خوبصورت نہیں تو تجھے تین طلاق۔
میں نے کہا کہ چلو یہاں ایک بات تو سمجھ آ گئی کہ یہ جو ذاکر نائیک بیچارہ بار بار کہتا ہے کہ تین طلاق ایک ہوتی ہے کیوں کہ وہ غصے میں طلاق دے دیتے ہیں تو میں نےکہا کہ اس نے تو غصے میں نہیں دی، اس نے تو گود میں رکھ کر طلاق دی ہے، اس نے تو پیار کے ساتھ طلاق دی ہے۔
تو عیسیٰ بن موسیٰ ہاشمی کا یہ جملہ کہنا تھا کہ عورت اٹھ کر پردے میں چلی گئی کیوں کہ ایک طلاق ہو تو رجوع ہو سکتا ہے اور جب تین طلاق دیں تو رجوع بھی نہیں سکتا تھا۔
اس سے پتا چلا کہ ا س زمانے میں مرد حضرات کو تو چھوڑیں عورتیں بھی سمجھتی تھیں کہ تین طلاق دیں تو تین ہی ہوتی ہیں۔ اب وہ پریشانی کے عالم میں خلیفہ ابو جعفر منصور کے دربار میں گیا تو بادشاہ نے علماء کو بلا کر مسئلہ دریافت کیا کہ بتائیں! طلاق ہوئی یا نہیں ہوئی؟ سب علماء نے کہا کہ جی تین طلاقیں ہو گئی ہیں۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے ایک شاگرد وہاں موجود تھے جو بالکل خاموش بیٹھے ہوئے تھے۔ فقیہہ کی عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنے علم کو جلدی ظاہر نہیں کرتا، اس سے کوئی پوچھے گا تو پھر بولے گا، عالم کو بولنے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے بلکہ طلب کو دیکھ کر فتویٰ دینا چاہیے۔
خلیفہ نے ان سے پوچھا کہ آپ بتائیں! انہوں نے فرمایا کہ میں تو یہی عرض کروں گا کہ ایک طلاق بھی نہیں ہوئی۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیوں؟ انہوں نےکہا کہ قرآن کریم میں ہے :
﴿لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ ۫﴿۴﴾﴾
اللہ نے انسان کو ساری مخلوقات سے خوب صورت بنایا ہے۔ تو چاند بھی ایک مخلوق ہے، جب اللہ فرمائیں کہ سب سے خوب صورت انسان ہے تو قرآن سے ان کی بیوی کا چاند سے زیادہ خوب صورت ہونا ثابت ہو گیا، لہذا ایک طلاق بھی نہیں ہوئی۔63F
الجامع لاحکام القرآن للقرطبی:ج2 ص 3344
یہ امام صاحب کے شاگر دکا علم تھا، بتائیں کہ امام صاحب کا علم کتنا وسیع ہو گا؟
چور پکڑا گیا اور طلاق بھی نہیں ہوئی:
اس پر بات چل پڑی ہے تو میں ایک واقعہ پیش کرتا ہوں۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے دور میں کچھ چور آئے اور ایک محلہ میں انہوں نے چوری کی اور گھر کا سارا سامان چوری کر کے لے گئے۔
مالک مکان نے انہیں دیکھ لیا اور پہچان لیا کہ یہ کون ہیں۔ چوروں نے سوچا کہ یہ صبح تھانیدار کو بتا دے گا تو ہم پکڑیں جائیں گے، اب کیا کریں؟ ایک نے کہا کہ اس کو قتل کر دو۔ دوسرے نے کہا کہ قتل نہیں چھپتا، یہ معاملہ بڑا مشکل ہے کچھ اور کرو! ان چوروں نے کہا کہ اس سے طلاق کی قسم لے لو! چنانچہ مالک مکان سے کہا کہ ہم تجھے مار دیں گے، اگر جان بچانا چاہتے ہو تو یہ قسم کھا لو کہ اگر تم نے کسی کو ہمارے بارے میں بتایا کہ یہ چور ہیں تو تیری بیوی کو تین طلاق۔ اس نے جان کے خوف سے قسم کھا لی۔ چور تسلی سے چلے گئے۔ اس سے پتا چلا کہ اس وقت کے چور بھی سمجھتے تھے کہ تین طلاق دیں تو تین ہوتی ہیں۔ بادشاہ، وزیر اور عورتوں کا کیا کہنا چوروں کو بھی علم تھا کہ تین طلاق دو تو تین ہوتی ہیں۔
خیر صبح ہوئی تو اس نے دیکھا کہ وہی چور اس کا سامان بازار میں فروخت کر رہے ہیں۔ اب یہ بیچارہ بتا بھی نہیں سکتا کیونکہ اگر بتاتا ہے تو اس کی بیوی کو تین طلاق پڑتی ہے۔ یہ شخص حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں گیا اور کہا کہ امام صاحب! میرے گھر میں رات کو چوری ہو گئی ہے اور چور محلے کے ہیں، میری کچھ مدد فرمائیں! امام صاحب نےکہا کہ تم مجھے بتاؤ میں گرفتار کرا دیتا ہوں۔ اس نے کہا کہ بتاؤں گا تو بیوی نہیں رہے گی، اگر نہیں بتاتا تو مال نہیں رہے گا، اب میں تو پھنس گیا ہوں۔ امام صاحب نے پوچھا کہ مسئلہ کیا ہے؟ اس نے ساری بات بتائی۔ امام صاحب نے فرمایا کہ تو فکر نہ کر!
امام صاحب نے تھانیدار سے کہا کہ محلے کے سارے لڑکو ں کو جمع کر دو اور اس مالک مکان سے کہا کہ تو مسجد کے دروازے پر کھڑا ہو جا! تھانیدار سے کہا کہ ایک ایک لڑکے کو بلاؤ اور اس سے پوچھو کہ کیا اس لڑکے نے چوری کی ہے؟ مالک مکان سے کہا کہ اگر وہ چور نہ ہو تو کہ دینا کہ اس نے چوری نہیں کی، اور جب چور آئے تو تو نے چپ کر جانا ہے، تو نے بولنا نہیں ہے۔ اب تھانیدار نے ایک لڑکے کو بلایا اور اس مالک مکان سے پوچھا: اس نے چوری کی ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ پھر پوچھا: یہ چور ہے؟ کہا: نہیں۔ یہ چور ہے؟ کہا: نہیں۔ جب چور آیا اور اس سے پوچھا کہ یہ چور ہے؟ تو اب وہ خاموش ہو گیا۔ تو امام صاحب نے فرمایا کہ اس کو پکڑ لو، یہی چور ہے۔
اب دیکھو چور بھی پکڑا گیا اور بیوی کو طلاق بھی نہیں ہوئی، طلاق تو تب ہوتی جب وہ یہ بتاتا کہ یہ چور ہے۔ اسی لیے آج لوگ امام صاحب کے مخالف ہیں کہ اما م صاحب چوروں کو پکڑ لیتے تھے۔ تو لوگ امام صاحب سے ناراض ہوتے ہیں کہ اما م صاحب چوروں کو پکڑتے کیوں تھے؟ اس لیے آپ حضرات پریشان نہ ہوا کریں۔ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے آدمی تھے۔
امام اعظم نے امام اعمش کی مشکل حل کر دی:
تین طلاق پر ایک واقعہ میں اور پیش کر دوں۔ حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے ایک استاذ امام اعمش تھے جن کی آنکھیں چندھیائی ہوئی تھیں جنہیں عربی زبان میں ”اعمش“ کہتے ہیں۔ وہ خوب صورت نہیں تھے لیکن ان کی بیوی خوب صورت تھی۔ اس لیے ان کے گھر میں اَن بَن رہتی تھی۔ کبھی کوئی بات، کبھی کوئی بات.... ایک مرتبہ رات گھر میں کوئی بات بڑھ گئی تو امام اعمش نے غصے میں آ کر اپنی بیوی کو کچھ کہہ دیا تو بیوی چپ ہو گئی، ناراض ہوگئی اور خاموش ہو کر بیٹھ گئی اور ان سے بات کرنا بند کردی۔ امام اعمش رحمہ اللہ نے غصے میں آ کر کہا: اگر تو نے صبح کی اذان تک مجھ سے بات نہ کی تو تجھے تین طلاق! امام اعمش نے غصے میں آ کر کہہ تو دیا لیکن وہ تو اور پکی ہو گئی اور نہ بولی۔ وہ تو جان پہلے سے چھڑانا چاہتی تھی، وہ بہانے تلاش کر رہی تھی۔
اب امام اعمش رحمہ اللہ پریشان ہوئے کہ اس نے تو بولنا نہیں ہے۔ وہ اسی وقت رات کو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے دروازے پر گئے اور دستک دی۔ کہا: ابوحنیفہ! میں پریشان ہوں، اس مسئلہ کا حل تو بتائیں۔ مسئلہ بتایا تو امام صاحب فرمانے لگے کہ اپنی مسجد کے مؤذن سے کہیں کہ آج فجر کی اذان آپ کے کہنےپر نہیں بلکہ آج میرے کہنے پر دے! جس وقت میں اسے کہہ دوں تو وہ اس وقت اذان دے۔ انہوں نے کہا کہ پھر؟ امام صاحب نے کہا کہ آپ سکون کے ساتھ آرام فرمائیں، اگلا کام میرا ہے۔ امام اعمش جا کر سوئے لیکن اب نیند نہ آئے۔ ان کو پتا تھا کہ بیوی نے بولنا نہیں ہےاور اذان ہوجانی ہے۔ اب پریشانی ہے۔
امام صاحب فجر کی اذان شروع ہونے سے مثلاً ایک گھنٹہ پہلے ان کی مسجد میں گئے اور مؤذن سے کہا کہ اذان دو! اس نے کہا کہ ابھی تو وقت شروع نہیں ہوا۔ فرمایا کہ تمہیں امام اعمش نے کچھ کہا تھا؟ جی کہا تھا کہ آج صبح کی اذان ابوحنیفہ کے کہنے پر دینا۔ امام صاحب نے فرمایا کہ پھر اذان دے دیں۔ مؤذن اٹھا اور اس نے اذان دے دی۔ جب اذان کی آواز امام اعمش کے گھر پہنچی تو امام اعمش کی بیوی بول پڑی کہ اب خوش ہے؟ یعنی میں نہیں بولی اور طلاق ہو گئی ہے۔
حضرت امام اعمش پھر امام صاحب کے دروازے پر گئے کہ ابوحنیفہ! آپ کہتے تھے کہ طلاق نہیں ہو گی وہ تو ہو گئی۔ امام صاحب نےفرمایا! آپ آرام فرمائیں، یہ میرا کام ہے۔ انہوں نے کہا کہ ابوحنیفہ! میں اپنی بیوی کا مزاج سمجھتا ہوں۔ امام صاحب نے فرمایا کہ میں شریعت کا مزاج میں سمجھتا ہوں، آپ آرام فرمائیں۔ امام اعمش گھر گئے لیکن نیند کیسے آئے۔ ایک گھنٹے کے بعد مؤذن نے اعلان کیا کہ آج اذان وقت سے پہلے دی تھی، اب میں وقت پر اذان دینے لگا ہوں۔ امام اعمش نے بیوی سےکہا کہ اب خوش ہے؟ بیوی نے کہا: لگتا ہے کہ تو ابوحنیفہ سے مل کر آیا ہے۔
انسان؛ سیرت اور صورت میں اعلیٰ مخلوق:
تو خیر میں عرض کر رہا تھا کہ اللہ نے انسان کو تمام مخلوقات پر فوقیت دی ہے صورت میں بھی او ر سیرت میں بھی۔
انسان کی صورت بھی تمام مخلوقات سے بہتر ہے اور صورت کا بہتر ہونا تو ہر بندہ مشاہدہ کر رہا ہے کہ جس قدر حسنِ صورت اللہ نے انسان کو دیا ہے اس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ دنیا میں سوائے انسان کے کوئی ایک جاندار بھی ایسا نہیں جو انسان کی طرح ہاتھ سے کھاتا ہو، جو بھی کھائیں گے یا تو اپنے منہ سے کھائیں گے یا پاؤں اور منہ کا اکٹھا استعمال کریں گے، صرف ہاتھ کے ذریعے منہ میں لقمہ ڈالتا ہو یہ انسان کا خاصہ ہے، دوسری کوئی مخلوق نقل کر کے چند لقمے تو انسان کی طرح کھائے گی لیکن مستقل ہاتھ سے کھانا یہ انسان کا خاصہ ہے۔
پھر دنیا میں جس قدر مخلوقات غذائیں کھا رہی ہیں تو ان غذاؤں کی بھی دو قسمیں ہیں:
1: مفرد غذا 2: مرکب غذا
کوئی آدمی صرف گڑ کھا لے تو یہ مفرد غذا ہے، صرف چینی کھا لے تو یہ بھی مفرد ہے، صرف پھل کھا لے یہ بھی مفرد ہے، صرف گنا چوس لے یہ بھی مفرد ہے، اب کئی کو جمع کر کے نئی غذا تیار کرنا یہ انسان کا خاصہ ہے، انسان کے علاوہ جتنی مخلوقات ہیں ان کی غذا مفرد ہے اور انسان کی غذا مفرد بھی ہے اور مرکب بھی ہے۔ آپ دیکھ لیں! گوشت اور سبزی ملا کر کھا رہا ہے جبکہ کسی مخلوق کو دیکھیں تو وہ صرف سیب کھا رہا ہے، کسی کو دیکھیں تو وہ صرف کیلا کھا رہا ہے، ایک ایک چیز ہی کھانی ہے اور انسان کو دیکھ لیں کہ سیب بھی ہے، کیلا بھی ہے، اور فروٹ بھی ہیں اور سب کو ملاکر فروٹ چاٹ بنا کر کھا رہا ہے۔
تو دنیا میں جتنے بھی حیوانات کی قسمیں ہیں ان سب کی غذا مفرد ہے اور مرکب غذا صرف انسان کا خاصہ ہے۔
اس کی وجہ انسان کی حسنِ صورت بھی ہے اور حسنِ عقل بھی ہے۔ جس قدر دنیا میں مخلوقات موجود ہیں اس قدر عقل کسی کے پاس نہیں جس قدر اللہ رب العزت نے انسان کو عطا فرمائی ہے۔ انسان کی صورت، انسان کی عقل، انسان کا کردار، انسان کی سیرت یہ ایسی ہیں جن کی بنیاد پر اللہ نے انسان کو تمام مخلوقات پر فوقیت عطا فرمائی ہے۔
فضیلتِ انسان کی وجوہات:
میں یہاں دو باتیں بڑی اہمیت سے پیش کرنا چاہتا ہوں، آپ اُن پر توجہ دیں:
[1 ]: جو علم انسان کے پاس موجود ہے وہ علم انسان کے علاوہ کسی کے پاس موجود نہیں۔ آپ کہیں گے کہ وہ کیسے؟ انسان کے پاس وہ علم ہے جسے ”علم الٰہی“ کہتے ہیں، علم الٰہی پہلے نبی کو ملتا ہے پھر نبی کی وساطت سے آگے امت کو ملتا ہے۔ تورات، زبور، انجیل اور قرآن کو اللہ نے فرشتوں کو نہیں دیا، اللہ نے اپنا یہ کلام جنوں کو نہیں دیا، اللہ نے یہ کلام انسانوں کو دیا ہے، تو انسان کے پاس وہ علم ہے جسے ”علم الٰہی“ کہتے ہیں۔
[2 ]: جو بات میں سمجھانے لگا تھا وہ یہ کہ انسان اور باقی مخلوقات میں کیا فرق ہے؟ بعض مخلوقات میں عقل ہے لیکن خواہشات نہیں اور بعض مخلوقات میں شہوات ہیں لیکن عقل نہیں ہے، انسان ایسی مخلوق ہے کہ جس میں عقل بھی ہے اور شہوت بھی ہے۔ تو جن میں صرف شہوات ہیں وہ حیوان ہیں اور جن میں محض عقل ہے شہوات نہیں وہ ملائکہ ہیں۔ انسان میں شہوات بھی ہیں اور عقل بھی ہے۔ اگر انسان عقل کو چھوڑ کر شہوات اختیار کرے تو
﴿اُولٰٓئِکَ کَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ ؕ﴾
الاعراف7: 179
یہ جانوروں سے بھی بدتر ہے اور اگر یہ شہوات کو چھوڑ کر عقل اختیار کرے تو یہ فرشتوں سے بھی آگے نکل جاتا ہے۔ تو یہ انسان کے وہ کمالات ہیں جو کسی اور مخلوق میں نہیں ہیں۔ اسی لیے اللہ رب العزت نے اپنا نائب انسان کو بنایا ہے۔ جبرئیل علیہ السلام جیسے مقدس فرشتے کو بھی نہیں بنایا۔ فرمایا:
﴿اِنِّیۡ جَاعِلٌ فِی الۡاَرۡضِ خَلِیۡفَۃً ؕ﴾
البقرۃ2: 30
کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں تمہاری کیا رائے ہے؟ فرشتوں کی رائے معلوم کرنے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ اللہ مشورہ کر رہے تھے۔ اللہ رب العزت امت کو درس دینا چاہتے تھے کہ جب تم کوئی کام کرو تو مشورہ کر لیا کرو۔ یہ ہمیں راستہ دکھایا ہے ورنہ اللہ کو مشورہ کی ضرورت نہیں۔ اس کے جواب میں فرشتوں نے کہا:
﴿اَتَجۡعَلُ فِیۡہَا مَنۡ یُّفۡسِدُ فِیۡہَا وَ یَسۡفِکُ الدِّمَآءَ﴾
اے اللہ! آپ ایسے انسان کو پیدا کریں گےجو زمین میں فساد کرے گا، خون بہائے گا؟
اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿اِنِّیۡۤ اَعۡلَمُ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۳۰﴾﴾
جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔
میں صرف ایک بات عرض کرتا ہوں کیونکہ مجھے پوری سورت کو بیان کرنا ہوتا ہے، میں مختصر مختصر باتیں کرتا جاتا ہوں۔ آپ حضرات نے ابھی رمضان المبارک میں بھی احادیث مبارکہ سنی ہوں گی کہ عید کے دن اللہ رب العزت ملائکہ سے پوچھتے ہیں کہ اے ملائکہ تم مجھے بتاؤ!
"مَا جَزَاءُ الْأَجِيرِ إِذَا عَمِلَ عَمَلَهُ؟ فَتَقُولُ الْمَلَائِكَةُ: إِلٰهَنَا وَسَيِّدَنَا! جَزَاؤُهُ أَنْ تُوَفِّيَهُ أَجْرَهُ"66F
شعب الایمان للبیہقی: ج 3ص 336رقم الحدیث 3695
جو مزدور اپنی مزدوری پوری کرے اس کی اجرت اور جزا کیا ہے؟ فرشتے کہتے ہیں: اللہ! اس کی جزا یہ ہے کہ اس کی مزدوری پوری دے دی جائے۔ پھر جب انسان عیدگاہ سے واپس لوٹتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اے فرشتو! گواہ بن جاؤ، میں نے اپنے بندوں کو معاف کر دیا ہے۔
آپ نے کئی ایسی احادیث سنی ہوں گی کہ جن میں ہوتا ہے کہ اللہ فرماتے ہیں کہ فرشتو! گواہ بن جاؤ، فرشتو! گواہ بن جاؤ۔ ان پر سوال یہ ہوتا ہے کہ اللہ ملائکہ کو گواہ کیوں بناتے ہیں؟
محدثین نے اس کی وجہ یہ لکھی ہے کہ جب اللہ نے انسان کو پیدا کیا تو اللہ نے پوچھا تھا:
﴿اِنِّیۡ جَاعِلٌ فِی الۡاَرۡضِ خَلِیۡفَۃً﴾
کہ میں زمین میں انسان کو اپنا خلیفہ بنانے لگا ہوں، تمہاری رائے کیا ہے؟ انہوں نے کہا تھا کہ یہ فساد کرے گا اور خون بہائے گا تو اب اللہ تعالیٰ ان فرشتوں کو وہ ماضی یاد دلاتے ہیں کہ تم نے کہا تھا کہ انسان فساد کریں گے، اب تمہی گواہ بنو کہ میں نے انہیں معاف کر دیا ہے۔ اب تم گواہ رہو کہ یہ جولائی کی گرمی کے روزے رکھتا ہے، تم گواہ رہو کہ یہ رات کو تراویح پڑھتا ہے، تم بھی گواہ رہو کہ یہ رات کو تہجد پڑھتا ہے، تم گواہ رہو کہ حق پر ہونے کے باوجود حق کو معاف کر دیتا ہے۔ تو تمہی نے کہا تھا کہ یہ خون بہاتا ہے۔ اب یہ دیکھو کہ میں کیسے معاف کرتا ہوں! اس لیے فرشتوں کو گواہ بنا کر ایسی باتیں ارشاد فرماتے ہیں۔
اللہ ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
جو یہاں اندھا وہ وہاں بھی اندھا (ایک واقعہ):
﴿وَ مَنۡ کَانَ فِیۡ ہٰذِہٖۤ اَعۡمٰی فَہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ اَعۡمٰی وَ اَضَلُّ سَبِیۡلًا ﴿۷۲﴾﴾
جو شحص دنیا میں دین سے آنکھیں بند کر کے اندھا ہو جائے تو قیامت کے دن اس کی آنکھیں بند ہوں گی، وہ جنت میں نہیں جا سکتا۔
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک غیر مقلد آ گیا۔ آنکھ کا بھی اندھا ہے اور دل کا بھی اندھاہے۔ اس نے کہا کہ حضرت! میں نے آپ سے امام ابوحنیفہ کے چند مسائل پر بات کرنی ہے کیوں کہ امام ابوحنیفہ تاویلیں بہت کرتے ہیں۔ حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ تو نے بات کرنی ہے پر میں نے تم سے نہیں کرنی۔ اس نے کہا: کیوں؟ حضرت تھانوی فرمانے لگے کہ اگر میں نے تجھے قائل کر بھی لیا تو فائدہ کوئی نہیں۔ اس نے کہا: فائد ہ کیوں نہیں؟ اگر آپ نے مجھے قائل کر لیا تو میں مان لوں گا۔ حضرت نے فرمایا: اگر تو نے مان لیا تو پھر؟ اس نے کہا کہ آپ کے مذہب کے مطابق ہدایت پر آؤں گا۔ فرمایا: پھر؟ اس نے کہا کہ ہدایت پر آؤں گا تو جنت میں جاؤ ں گا۔ فرمایا: اگرتم ہدایت پر آؤ گے تو جنت میں پھر بھی نہیں جا سکتے۔ اس نے کہا : جی وجہ؟ فرمایا: قرآن کریم میں ہے:
﴿وَ مَنۡ کَانَ فِیۡ ہٰذِہٖۤ اَعۡمٰی فَہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ اَعۡمٰی وَ اَضَلُّ سَبِیۡلًا﴾
کہ جو دنیا میں اندھا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا ہو گا۔ تو اندھا بندہ جنت میں نہیں جا سکتا تو تجھ سے بحث کرنے کا فائدہ کیا ہوا؟ وہ کہنے لگا کہ نہیں نہیں اس آیت کا مطلب یہ ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ تاویل نہیں کرنی، تاویل نہیں کرنی، اس نے کہا کہ آیت کا مطلب یہ ہے۔ فرمایا: نہیں، مطلب کیا ہوتا ہے؟ جب امام اعظم ابوحنیفہ فرمائیں کہ آیت کا مطلب یہ ہے تو تم کہتے ہو کہ تاویل کی ہے اور اب تو خود تاویل کیوں کرتا ہے؟ اس نے کہا کہ تاویل نہ کریں تو قرآن حل نہیں ہوتا۔ حضرت تھانوی نے فرمایا کہ یہی بات امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ تم تاویل کرو تو ٹھیک ہے اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تاویل کریں تو غلط ہے۔ بڑی عجیب بات ہے۔
”اللہ کہاں ہے؟“ کے عنوان پر مکالمہ:
میں ایک مرتبہ بحرین میں تھا، رمضان المبارک میں ایک غیر مقلد مجھے ملا تو کہا کہ اللہ کہاں پر ہے؟ میں نے کہا کہ ہر جگہ پر ہے۔ اس نے کہا کہ ہر جگہ پر ہے تو دلیل پیش کریں۔ میں نے کہا کہ قرآن کریم میں ہے:
﴿وَ لِلہِ الۡمَشۡرِقُ وَ الۡمَغۡرِبُ ٭ فَاَیۡنَمَا تُوَلُّوۡا فَثَمَّ وَجۡہُ اللہِ﴾67F
البقرۃ2: 115
مشرق بھی اللہ کا مغرب بھی اللہ کا، جدھر رخ کرو گے ادھر اللہ موجود ہے۔
مجھے کہتا ہے کہ یہاں اللہ کی ذات نہیں بلکہ اس سے مراد ہے کہ اللہ کی صفت علم موجود ہے۔ اس کے دفتر میں غیر مقلد عالم محمد جونا گڑھی کا ترجمہ قرآن موجود تھا۔ میں نے کہا کہ یہ ترجمہ تمہارے عالم کا ہے؟ کہتا ہے: جی ہاں۔ میں نے کہاکہ اس آیت کا ترجمہ پڑھ کیا لکھاہے؟ اب محمد جوناگڑھی صاحب نے ترجمہ لکھاہے:
”اور مشرق اور مغرب کا مالک اللہ ہی ہے۔ تم جدھر بھی منہ کرو ادھر ہی اللہ کا منہ ہے۔“ 68F
تفسیر احسن البیان: ص95
میں نےکہا کہ منہ علم کا ہوتاہے یا ذات کا ہوتا ہے؟ منہ قدرت کا ہوتا ہے یا ذات کا ہوتا ہے؟ میں نے کہا کہ اس سے پتا چلا کہ اللہ کی ذات ادھر ہے جدھر تم منہ کرو گے۔ جب پھنس گیا تو مجھے کہتاہے کہ میں اس کا جواب اپنے شیخ صاحب سے لا کر دوں گا۔ میں نے کہا کہ شیخ صاحب سے نہیں تُو اس کا جواب اللہ پاک سے لے! مجھے کہتا ہے کہ اللہ سے کیوں لیں؟ میں نےکہا کہ جب ہم آیت امام ابوحنیفہ سے سمجھیں تو تم کہتے ہو کہ مشرک ہو اور جب تو آیت اپنے شیخ سے سمجھے گا تو تُو مؤمن ہو گا؟ کہتا ہے کہ جی اللہ سے تو نہیں سمجھ سکتے۔ تو میں نے کہا کہ پھر اپنے شیخ کے بجائے امام اعظم ابوحنیفہ سے سمجھ جو صحابہ رضی اللہ عنہم کا شاگرد ہے۔ آج کے دور کے بندے کو تو تم مانتے ہو اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور کے بندے کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہو! اللہ ہمیں یہ بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
عصمتِ انبیاء علیہم السلام:
مضمون تو لمبا ہے میں اختصار سے بات کرنے لگا ہوں، ہم اہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ ہے کہ نبی معصوم ہیں اللہ رب العزت نبی کو گناہوں سے محفوظ رکھتے ہیں نبی سے گناہ نہیں ہونے دیتے، اللہ فرماتے ہیں:
﴿وَ اِنۡ کَادُوۡا لَیَفۡتِنُوۡنَکَ عَنِ الَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ لِتَفۡتَرِیَ عَلَیۡنَا غَیۡرَہٗ ٭ۖ وَ اِذًا لَّاتَّخَذُوۡکَ خَلِیۡلًا ﴿۷۳﴾ وَ لَوۡ لَاۤ اَنۡ ثَبَّتۡنٰکَ لَقَدۡ کِدۡتَّ تَرۡکَنُ اِلَیۡہِمۡ شَیۡئًا قَلِیۡلًا ﴿٭ۙ۷۴﴾﴾
اب جس کو عربی گرائمر آتی ہوتو مزہ اس کو آتا ہے۔اللہ فرماتے ہیں: میرے پیغمبر! آپ جو ان کی بات نہیں مانتے اور ہدایت پر رہتے ہیں ہم آپ کی حفاظت کرتے ہیں اور اگر ہم آپ کو ثابت قدم نہ رکھتے تو نتیجہ یہ نکلتا کہ آپ تھوڑا سا مائل ہونے کے ہلکا سا قریب ہو جاتے۔
یہاں لفظ دیکھیں:
﴿وَ لَوۡ لَاۤ اَنۡ ثَبَّتۡنٰکَ﴾
اگر ہم آپ کو ثابت قدم نہ رکھتے، تو
﴿لَقَدۡ﴾
عربی میں قریب کے معنی کے لیے آتا ہے، پھر فرمایا:
﴿کِدۡتَّ﴾
اس کا معنی ہے قریب، پھر
﴿تَرۡکَنُ﴾
فرمایا، اس کامعنی ہے مائل ہونا،
﴿شَیۡئًا ﴾
کا معنی ہے تھوڑا سا اور
﴿قَلِیۡلًا﴾
کا معنی ہے بہت تھوڑا۔
اب آپ آیت سمجھیں! اس آیت میں اللہ نے اپنے نبی کی فطرت بیان فرمائی ہے کہ نبی کی فطرت اتنا عمدہ ہوتی ہے کہ اگر ہم آپ کو ثابت قدم نہ رکھتے تو قریب تھا کہ آپ مائل ہو جاتےتھوڑاسا بہت تھوڑا سا۔ اب یہ ”بہت تھوڑا“ میرے اور آپ کے اعتبار سے نہیں ہے یہ اللہ کے اعتبار سے ہے۔ جب اللہ کسی چیز کو ”بہت تھوڑا“ فرما دیں تو بتاؤ وہ کتنا تھوڑا ہو گا؟ اس سے اندازہ کریں کہ نبی کی طبیعت کتنی صاف ہوتی ہے! اللہ فرماتے ہیں: میرے پیغمبر! ہم نے ثابت قدم رکھا اور آپ ا ن کی بات نہیں مانتے، اگر ہم آپ کو ثابت قدم نہ رکھتے تو بالکل معمولی سا آپ کسی درجے میں ان کی طرف مائل ہونے کے ہلکا سا قریب ہو جاتے یعنی اللہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی فطرت بیان فرماتے ہیں کہ جو باطل کو قبول کرتی ہی نہیں ہے چہ جائیکہ اللہ کی حفاظت کا پردہ اس پر موجود ہو تو پھر پیغمبر باطل کی طرف کیسے جا سکتے ہیں؟ نبی کا مزاج ایسا ہے کہ نبی باطل کے قریب ہی نہیں جاتا۔
صدیق عکسِ جمالِ پیغمبر؛
اگر کسی شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عکس دیکھنا ہو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج کو سمجھنا ہو تو اس کی دنیا میں سب سے بہترین مثال پیغمبر کا صدیق ہوتا ہے، وہ صدیق کو دیکھ لے تو پیغمبر کا مزاج سمجھ آ جائے گا۔ اس لیے کہ صدیق وہ ہوتا ہے جو پیغمبر کا عکس ہو، پیغمبر کے مزاج کو سمجھتا ہو اسے صدیق کہتے ہیں اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس حیثیت سے صدیق اور صدیق اکبر ہیں رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
بانی دار العلوم دیوبند قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ صدیق وہ ہوتا ہے جو باطل کو اس طرح پھینک دیتا ہے جس طرح معدہ مکھی کو پھینک دیتا ہے، جس طرح معدہ مکھی کو قبول نہیں کرتا اسی طرح صدیق وہ ہے جو کذب کو قبول ہی نہیں کرتا۔کبھی آپ نے سنا ہے کہ کسی کے معدہ میں مکھی چلی گئی ہو؟ مکھی اگر معدہ کی طرف جائے بھی تو انسان خود بخود ڈکار لینا شروع کر دیتا ہے اوراس کو باہر پھینکتا ہے، اور حضرت نانوتوی رحمہ اللہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ معدہ جس طرح مٹھاس قبول کرتا ہے اس طرح صدیق وہ ہے جو صداقت کو قبول کرتا ہے۔
دنیا میں معدہ کا نظامِ ہضم بہترین بنانے کی سب سے مضبوط چیز میٹھا ہے۔ عموماً لوگ کھانے کے بعد میٹھا کھاتے ہیں، کیوں؟ اس لیے کہ معدہ کی خاصیت یہ ہے کہ اس کو معدہ بہت جلد قبول کرتا ہے۔ اگر کسی کے معدہ میں مرچیں بھی موجود ہوں تو اس کو ختم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس میں مٹھاس ڈال دیں، جس طرح معدہ مٹھاس قبول کرتا ہے، صدیق اسی طرح حق کو قبول کرتا ہے۔
مجھے ایک بات پر بہت تعجب تھا اور سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ بہت ساری باتیں ایسی ہیں جو انسان کو بہت دیر کے بعد سمجھ میں آتی ہیں۔ یہ سن 1994 کی بات ہے، میں اس وقت کینیا گیا اور کینیا سے آگے زمبیا کے ایک شہر دساکا اور چپاٹا میں گیا، یہ میری زندگی کا پہلا سفر تھا، اس وقت میری عمر 24سال ہو گی۔ تو مجھے کہا گیا کہ وہاں راستے میں فلاں شہر میں ایک پاکستانی مولانا صاحب ہیں وہ آپ کے میزبان ہیں اور آپ کو وہ کھانا کھلا کر چپاٹا چھوڑ کر آئیں گے۔ پہلی بار ہم وہاں گئے ہیں تو ہندوستان کے گجراتی لوگ کھانا پکانے میں بہت مشہور ہیں، ان کے ہاں ہماری دعوت تھی۔تو میں نے دیکھا کہ کھانا بعد میں آیا اور میٹھا پہلے آ گیا۔ مجھے بڑا تعجب ہو گیا کہ ہم تو میٹھا بعد میں کھاتے ہیں یہ پہلے کیوں لائے؟ تو جو پہلے مولانا صاحب بیٹھے تھے انہوں نے کہا کہ گجراتیوں کا مزاج ہے کہ یہ میٹھا پہلے کھاتے ہیں،تو میں نے بھی کھا لیا اور کھانا بھی کھا لیا۔
اب جو بات میرے لیے نا قابلِ فہم تھی وہ یہ تھی کہ عموماً کھانے کے بعد میٹھا کھایا جاتا ہے اور یہ کھانے سے پہلے میٹھا لے آیا۔ چلتے چلتے یہ بات مجھے سال 2013 میں یعنی انیس سال بعد سمجھ آئی، تو حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کا یہ جملہ پڑھا کہ صدیق صداقت کوایسے قبول کرتا ہے کہ جیسے معدہ مٹھاس کو قبول کرتا ہے۔ مجھے اب سمجھ میں بات آئی کہ وہ لوگ پہلے کیوں کھاتے ہیں! جس نے کھانا تھوڑا کھانا ہو اور بعدمیں کھانا ہضم کرنا ہو تو وہ کھانے کے بعد میٹھا کھائے تاکہ جو کچھ کھایا وہ ہضم ہو جائے اور جس نے کھانا خوب کھانا ہو وہ کھانے سے پہلے میٹھا کھاتا ہے تاکہ پہلی خوراک کو معدہ ہضم کر دے اور اوپر کھانا خوب کھائیں! مجھے اس وقت سمجھ میں آئی کہ وہ لوگ میٹھا پہلے کیوں کھاتے ہیں!
میں نے کہا: اگر اللہ مجھے اب وہاں لے گئے تو میں ان کو بتاؤں گا کہ آپ لوگ میٹھا پہلے کیوں کھاتے ہیں۔ مجھے انیس سال بعد یہ بات سمجھ میں آئی۔ میں نے اللہ کا کتنا شکر ادا کیا میں بتا نہیں سکتا۔ آدمی کا دلی ذوق ہوتو پھر کتنی خوشی ہوتی ہے کہ یار کتنے عرصے سے میرے ذہن میں ایک نکتہ تھا، تو اللہ کا شکر ہے کہ آج وہ حل تو ہو گیا۔ اللہ ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
نماز پنجگانہ کا تذکرہ:
﴿اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوۡکِ الشَّمۡسِ اِلٰی غَسَقِ الَّیۡلِ وَ قُرۡاٰنَ الۡفَجۡرِ ؕ اِنَّ قُرۡاٰنَ الۡفَجۡرِ کَانَ مَشۡہُوۡدًا ﴿۷۸﴾﴾
اس آیت میں اللہ رب العزت نے پانچوں نمازوں کا ذکر فرمایا ہے۔ اس میں فرمایا: اے پیغمبر! آپ نماز قائم کریں
﴿لِدُلُوۡکِ الشَّمۡسِ﴾
سورج کے مائل ہونے کے بعد سورج کے چھپ جانے تک، رات کے چھا جانے تک۔
سورج مائل اس وقت ہوتا ہےجسے حدیث میں ”زوال“ کہتے ہیں۔ تو اب زوالِ شمس کے بعد ہے ”ظہر“ ا س کے بعد ہے ”عصر“، اس کے بعد ہے ”مغرب“ اور اس کے بعد ہے ”عشاء“۔ کب تک؟
﴿اِلٰی غَسَقِ الَّیۡلِ﴾
رات کے چھا جانے تک۔ تو سورج کے زائل ہونے کے بعد سے رات کے چھا جانے تک چار نمازوں کا بیان ہے۔
آگے فرمایا:
﴿وَ قُرۡاٰنَ الۡفَجۡرِ﴾
یہاں ”قرآن“ سے مراد صلوٰۃ ہے یعنی نمازِ فجر مراد ہے۔ اللہ نے یہاں صلوۃ کے بجائے قرآن فرمایا، کیوں کہ فجر کی نماز میں عام نمازوں کی بنسبت قرآن اتنا زیادہ پڑھا جاتا ہے کہ خدا نے نماز کا نام ہی قرآن رکھ دیا ہے۔ تواس آیت میں پانچوں نمازیں آ گئی ہیں۔
فقاہتِ امام اعظم ابو حنیفہ:
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی فقہ دیکھیں! عربی زبان میں دو لفظ ہیں؛ ایک ہے ”شفق احمر“ اور ایک ہے ”شفق ابیض“۔شفق کہتے ہیں کہ جب سورج غروب ہوتا ہے تو اس کے بعد ایک سرخی ہوتی ہے اور ایک سفیدی۔ اب جب سورج غروب ہو گا تو پہلے مشرق کی جانب سرخی ہوگی، پھر سرخی ختم ہوتی جائے گی اس کے بعد سفیدی آئے گی۔ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سورج غروب ہونے کے بعد تھوڑی سی سرخی رہ جاتی ہے اسے کہتے ہیں ”شفق احمر“۔ اس سرخی کے ختم ہونے کے بعد ایک سفیدی آتی ہے اسے کہتے ہیں ”شفق ابیض“۔ امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عشاء کا وقت اس وقت شروع ہوتا ہے جب شفق احمر اور شفق ابیض ختم ہو جائیں، کیوں کہ قرآن کہتا ہے:
﴿اِلٰی غَسَقِ الَّیۡلِ﴾
پانچوں نمازیں کب ہیں؟ سورج کے مائل ہونے کے بعد رات کے چھا جانے تک، اور رات کا چھا جانا تب شمار ہوتا ہے جب سفیدی اور سرخی دونوں ختم ہو جائیں۔ آپ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی فقاہت دیکھیں! اللہ ہمیں اتنے عظیم فقیہ کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین۔ سامعین)
نماز تہجد کا اہتمام کیجیے!
﴿وَ مِنَ الَّیۡلِ فَتَہَجَّدۡ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ ٭ۖ عَسٰۤی اَنۡ یَّبۡعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحۡمُوۡدًا﴿۷۹﴾﴾
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے میرے پیغمبر! آپ تہجد کی نماز پڑھیں۔
”تہجد“ عربی زبان کا لفظ ہے اور عجیب بات ہے کہ اس لفظ کے متضاد معنی ہیں۔ عربی زبان میں جاگنے کو بھی
”ہَجْدٌ“
کہتے ہیں اور عربی زبان میں سونے کو بھی ”ہَجْدٌ“ کہتے ہیں۔ اب تہجد کا معنی بعض لوگ کہتے ہیں کہ آدمی عشاء کی نماز پڑھے پھر سوجائے اور پھر اٹھ کر تہجد پڑھے، یہ سونا ضروری نہیں ہے اس لیے کہ
﴿وَ مِنَ الَّیۡلِ فَتَہَجَّدۡ بِہٖ﴾
کا معنی یہ ہے کہ آپ نیند کم کریں، رات کا کچھ حصہ جاگیں! اگر آدمی سویا اور سو کر پھر اٹھا تو اس نے نیند کچھ کم کی ہے اور اگر عشاء کی نماز پڑھی اور سویا نہیں اور پھر تہجد پڑھی، پھر تہجد پڑھنے کے بعد سویا تو اس نے بھی نیند کچھ کم کی ہے۔ تو اگر پہلے پڑھ لے تو اس نے بھی نیند کم کی ہے اور صبح اٹھ کر پڑھ لے تو اس نے بھی نیند کم کی ہے۔ دونوں صورتوں میں نیند کا کم کرنا یہ لفظ دونوں کو شامل ہے۔
اس لیے تہجد کے نوافل کا افضل وقت یہ ہے کہ آدمی سو جائے اور صبح اٹھ کر آٹھ رکعات پڑھے اور اگر کسی کو اندیشہ ہو کہ صبح نہیں اٹھ سکتا تو وہ عشاء کی نماز کے بعد تہجد کی نیت سے آٹھ رکعات پڑھ کر سو جائے۔ اللہ رب العزت اس کو آٹھ رکعات تہجد کا مکمل اجر وثواب عطا فرمائیں گے۔
پہلے امت پر تہجد فرض تھی جس کا ذکرسورۃ مزمل میں موجود ہے، بعد میں تہجد کا حکم ختم ہو گیا، اس کے بجائے پانچ نمازیں آ گئیں اور اب تہجد سنت غیر مؤکدہ ہے۔ اگر کوئی پڑھے گا تو اجر ملے گا اور اگر نہیں پڑھے گا تو کوئی گناہ نہیں۔
ترکِ تہجد پر وعید کیوں؟
آپ کے ذہن میں اس پر ایک سوال ضرور آئے گا کہ جب یہ سنت مؤکدہ نہیں ہے تو بعض احادیث میں تہجد کے ترک کرنے پر وعید کیوں ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ وعید اس وقت ہے جب آدمی تہجد کی عادت بنا لے پھر تہجد چھوڑ دے، تو یہ مناسب نہیں ہے۔ نفل نماز ضروری تو نہیں ہے لیکن اگر نفل نماز کی عادت بنا لے اور پھر چھوڑ دے تو اللہ تعالیٰ ناراضگی کا اظہار فرماتے ہیں۔
تہجد امت کے لیے بھی سنت ہے اور پیغمبر کے لیے بھی سنت ہے۔ یہ جو بعض حالات میں مشہور ہےکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر تہجد فرض تھی، یہ بعض حضرات کی رائے ہے، ترجیح اس بات کو ہے کہ تہجد آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فرض نہیں تھی، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ اگر کسی وجہ سے تہجد نہیں پڑھ سکے تو سورج نکلنے کے بعدآٹھ رکعات پڑھ لیا کرتے تھے تاکہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا دائمی معمول ختم نہ ہو۔
”روح کیا چیز ہے؟“ کا جواب:
﴿وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الرُّوۡحِ ؕ قُلِ الرُّوۡحُ مِنۡ اَمۡرِ رَبِّیۡ وَ مَاۤ اُوۡتِیۡتُمۡ مِّنَ الۡعِلۡمِ اِلَّا قَلِیۡلًا ﴿۸۵﴾﴾
اہلِ مکہ کو الجھن یہ تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نیک ہیں، صادق ہیں، امین ہیں لیکن نبوت کا دعویٰ کر لیا، شاید یہ حکومت کرنا چاہتے ہیں تو انہوں نے مدینہ کے یہودی علماء سے رابطہ کیا کہ تم کوئی سوال بتاؤکہ ہم وہ سوال کریں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کا جواب نہ دے سکیں۔
یہ اہلِ باطل کا طریقہ ہے کہ اہل حق کو خاموش کرانے کے لیے اہل باطل سے رابطہ کریں گے کہ کوئی ایسا سوال بتاؤ جس کا جواب مولوی نہ دے سکیں۔
تو مکہ والوں نے یہودیوں کے پاس وفد بھیجا۔ یہود نے تین سوال بتائے کہ اگر تینوں کا جواب دیں تو پھر بھی نبی نہیں اوراگر تینوں کا جواب نہ دیں تو پھر بھی نبی نہیں اور اگر دو کا جواب دیں اور ایک کا جواب نہ دیں تو پھر نبی ہیں۔ انہوں نے تین سوال یہ بتائے:
(1) : ان سے پوچھنا کہ وہ نوجوان کون تھے جو غار میں چھپ گئے تھے؟ آگے اصحابِ کہف کا واقعہ آ رہا ہے۔
(2): وہ کون سے بادشاہ ہیں جنہوں نے پوری دنیا پر حکومت کی؟
(3): روح کے بارے میں ان سے پوچھیں کہ روح کیا ہے؟
چنانچہ یہ لوگ یہود سے سوال پوچھ کر مدینہ منورہ سے مکہ واپس حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان لوگوں نے یہ تین سوالات کیے۔ آگے سورۃ کہف میں اس کی تفصیل آئے گی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس کا جواب کل دوں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان شاء اللہ کہنا بھول گئے۔ وہ لوگ کل پھر آئے۔ فرمایا: کل جواب دوں گا۔ کل پھر آئے۔ فرمایا: کل دوں گا۔ یوں سترہ یا انیس دن تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نہیں آئی۔ اس کے بعد جب انہوں نے شور وغل مچا دیا تو پھر اللہ پاک نے وحی نازل فرمائی :
﴿وَ لَا تَقُوۡلَنَّ لِشَایۡءٍ اِنِّیۡ فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَدًا ﴿ۙ۲۳﴾﴾69F
الکہف18: 23
اے میرے پیغمبر! یہ بات کبھی نہ کہنا کہ میں یہ کام کل کروں گا بلکہ ان شاء اللہ کہہ کر بات کرنا!
ان شاء اللہ نہ کہنے کی وجہ سے سترہ دن وحی بند رہی پھر یہ آیت اتری ۔ آگے اصحاب کہف کا اور سکندر ذو القرنین کا واقعہ ان شاء اللہ تفصیل سے آئے گا۔ فرمایا انہیں بتاؤ کہ جو لوگ ایک عرصہ غار میں رہے وہ اصحابِ کہف تھے اور جس آدمی نے پوری دنیا میں حکومت کرنے کے لیے پوری دنیا کا چکر کاٹا اس کا نام ذوالقرنین ہے۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سوالوں کے جواب دے دیے اور تیسرے کے جواب میں اللہ نے یہ آیت نازل کی:
﴿وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الرُّوۡحِ ؕ قُلِ الرُّوۡحُ مِنۡ اَمۡرِ رَبِّیۡ﴾
اے پیغمبر! ان کو یہ نہیں بتانا کہ روح کیا چیز ہے، انہیں یہ بتانا کہ روح امر ربی ہے، اس کی تفصیل مجھے معلوم نہیں۔
”روح کیا ہے؟“ کا جواب اجمالی دینے کی وجہ:
یہاں پر علماء نے دو باتیں بہت اہم لکھی ہیں:
[1]: روح کی تفصیل انہیں اس لیے نہیں بتائی کہ ان کا دماغ اتنا نہیں تھا کہ وہ روح کو سمجھ سکیں۔ جیسے قرآن کریم میں ہے:
﴿قُلۡ ہُوَ اللہُ اَحَدٌ ۚ﴿۱﴾ اَللہُ الصَّمَدُ ۚ﴿۲﴾ لَمۡ یَلِدۡ ۬ۙ وَ لَمۡ یُوۡلَدۡ ۙ﴿۳﴾ وَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ ٪﴿۴﴾﴾
لوگوں نے سوال کیا کہ آپ یہ بتائیں کہ اللہ کیا ہے؟ اب جواب میں یہ نہیں بتایا کہ اللہ کیا ہے۔ فرمایا انہیں بتائیں اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے، اللہ کسی کا بیٹا نہیں، اللہ کا کوئی باپ نہیں اور اللہ کا ہمسر بھی کوئی نہیں۔
انہوں نے یہ تو نہیں پوچھا کہ اللہ کون ہے؟ انہوں نے پوچھا تھا کہ اللہ کیا ہے؟ لیکن جواب یہ دیا گیا کہ اللہ کون ہیں! اسی طرح قرآن کریم میں ہے:
﴿یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡاَہِلَّۃِ ؕ﴾70F
البقرۃ2: 189
انہوں نے پوچھا کہ چاند کیا ہے؟ جواب دیا:
﴿قُلۡ ہِیَ مَوَاقِیۡتُ لِلنَّاسِ وَ الۡحَجِّ ؕ﴾
کہ چاند کیوں ہے؟
اب دیکھیں! سوال کیا ہے اور جواب کیا ہے! تو انہوں نے پوچھا تھا کہ روح کیا ہے؟ جواب دیا کہ
﴿قُلِ الرُّوۡحُ مِنۡ اَمۡرِ رَبِّیۡ﴾
[2]: اللہ رب ا لعزت نے تعلیم دی ہے کہ عوام کے سامنے اتنی ہی بات کرو جتنی وہ سمجھ سکیں اور جو نہ سمجھ سکیں وہ مسئلے عوام میں لانے ہی نہیں چاہییں۔
قرآن کے تین چیلنجز:
﴿قُلۡ لَّئِنِ اجۡتَمَعَتِ الۡاِنۡسُ وَ الۡجِنُّ عَلٰۤی اَنۡ یَّاۡتُوۡا بِمِثۡلِ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ لَا یَاۡتُوۡنَ بِمِثۡلِہٖ وَ لَوۡ کَانَ بَعۡضُہُمۡ لِبَعۡضٍ ظَہِیۡرًا ﴿۸۸﴾﴾71F
بنی اسرائیل17: 88
یہ بات آپ جانتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے منکرین قرآن کو تین مرتبہ چیلنج دیا ہے۔ پہلا چیلنج یہاں پر ہے:
[۱]: ﴿قُلۡ لَّئِنِ اجۡتَمَعَتِ الۡاِنۡسُ وَ الۡجِنُّ عَلٰۤی اَنۡ یَّاۡتُوۡا بِمِثۡلِ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ لَا یَاۡتُوۡنَ بِمِثۡلِہٖ وَ لَوۡ کَانَ بَعۡضُہُمۡ لِبَعۡضٍ ظَہِیۡرًا ﴿۸۸﴾﴾
تم کہتے ہو کہ قرآن اصلی نہیں ہے تو جن وانس سارے جمع ہو جاؤ اور اس جیسا کوئی قرآن لا سکتے ہو تو لاؤ!
جب سارے عاجز ہو گئے پھر ان کو چیلنج دیا کہ تم کہتے ہو کہ یہ قرآن اصلی نہیں ہے تو....
[۲]: ﴿قُلۡ فَاۡتُوۡا بِعَشۡرِ سُوَرٍ مِّثۡلِہٖ مُفۡتَرَیٰتٍ وَّ ادۡعُوۡا مَنِ اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۱۳﴾﴾72F
ھود11: 13
کہ تم اس طرح کی دس سورتیں بنا لاؤ!
جب دس سورتوں سے بھی عاجز آ گئے توپھر اللہ نے چیلنج دیا:
[۳]: ﴿ وَ اِنۡ کُنۡتُمۡ فِیۡ رَیۡبٍ مِّمَّا نَزَّلۡنَا عَلٰی عَبۡدِنَا فَاۡتُوۡا بِسُوۡرَۃٍ مِّنۡ مِّثۡلِہٖ﴾73F
البقرۃ2: 23
کہ ایک سورت تو لاؤ، اب تم ایک سورت بھی قیامت تک نہیں لاسکتے اب تم جہنم کا ایندھن ہونے کے لیے تیا ر ہو جاؤ!
تو تدریجاً چیلنج کیا ہے۔ پہلے پورے قرآن کا، پھردس سورتوں کا اور پھر ایک سورت کا اور آج پندرہ سو سال گزر گئے یہ چیلنج آج تک موجود ہے، دنیا کے سارے کافر مل کر ایک سورت بھی نہیں لا سکے۔ اللہ ہمیں یہ بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
کفار کے بے جا سوالات کے معقول جوابات:
﴿وَ قَالُوۡا لَنۡ نُّؤۡمِنَ لَکَ حَتّٰی تَفۡجُرَ لَنَا مِنَ الۡاَرۡضِ یَنۡۢبُوۡعًا ﴿ۙ۹۰﴾ اَوۡ تَکُوۡنَ لَکَ جَنَّۃٌ مِّنۡ نَّخِیۡلٍ وَّ عِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الۡاَنۡہٰرَ خِلٰلَہَا تَفۡجِیۡرًا ﴿ۙ۹۱﴾ اَوۡ تُسۡقِطَ السَّمَآءَ کَمَا زَعَمۡتَ عَلَیۡنَا کِسَفًا اَوۡ تَاۡتِیَ بِاللہِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ قَبِیۡلًا ﴿ۙ۹۲﴾﴾
میرے پیغمبر! ان کے بہت سارے بے جا قسم کے مطالبے ہیں۔ مثلاً ان کا ایک مطالبہ یہ تھا ہم آپ پر ایمان لائیں گے لیکن شرط یہ ہے کہ آپ زمین سے پانی کے چشمے نکالیں اور کھجوروں اور انگوروں کے باغات لائیں۔ ہم آپ پر ایمان لائیں گے لیکن ہماری شرط یہ ہے کہ آپ آسمان پر چڑھیں اور وہاں سے سنہری ٹکڑے لائیں۔ ہم آپ پر ایمان لائیں گے ہماری شرط یہ ہے آپ آسمان سے کتاب لے کر آئیں اور بتائیں کہ یہ کتاب لایا ہوں۔
اللہ پاک نے فرمایا: اے پیغمبر! آپ ان کو بتائیں﴿سُبۡحَانَ رَبِّیۡ﴾ میرا اللہ پاک ہے، یہ کام میرے بس میں نہیں ہے، ﴿ہَلۡ کُنۡتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوۡلًا﴾ میں انسان بھی ہوں اور رسول بھی ہوں، مجھ سے مطالبہ وہ کرو جو انسان کے بس میں ہو، وہ مطالبات مجھ سے نہ کرو جو انسان کے بس میں نہیں ہیں۔ ہاں! اگر دنیا میں انسان نہ ہوتے بلکہ فرشتے رہتے تو اللہ فرشتے کو نبی بنا کر بھیج دیتا، وہ آسمان سے جا کر کتابیں لے آتا۔
نبی کے بشر ہونے کی حکمت:
اب دیکھو! کتنی وضاحت سےا للہ پاک نے ارشاد فرمایا اور ہمیں تعجب ہوتا ہے اب بھی بعض لوگ پیغمبر کی بشریت کا انکار کرتے ہیں!
اس کے بارے میں اصول ذہن نشین فرما لیں۔ اگرکوئی بندہ آپ سے پوچھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہیں یا نور ہیں؟ جواب آپ نے یہ دینا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ذات کے اعتبار سے بشر ہیں اور وصف کے اعتبار سے نور ہیں، ہم اللہ کے نبی کو بشر بھی مانتے ہیں ذات کے اعتبار سے اور نور بھی مانتے ہیں وصف کے اعتبار سے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نورِ ہدایت بھی ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم بشر بھی ہیں۔ بشر بنانا اس لیے ضروری تھا کہ اللہ کے نبی بشروں کی طرف جا رہے تھے، اگر اللہ کے نبی بشر نہ ہوتے اور بشری تقاضے نہ سمجھتے توآپ بتائیں بشریت کی ضرورتوں کا ان کو احساس کیسے ہوتا؟
میں یہ بات سمجھا چکا ہوں کہ اگر اللہ کے نبی کا نابالغ بچہ نہ ہوتا اور نا بالغ بچہ فوت نہ ہوتا تو نابالغ بچے کی موت پر دکھ کتنا ہوتا ہے یہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے پتا چلتا؟ بعض باتیں علم سے نہیں بلکہ تجربات کی بنیاد پر سمجھ میں آتی ہیں کہ اس میں دکھ اور درد کتنا ہوتا ہے! اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یتیمی نہ دیکھی ہوتی تو یتیم کی کیفیت کیا ہوتی ہے یہ اللہ کے نبی کیسے معلوم کرتے؟ اگر پیغمبر کے ساتھ پیٹ نہ ہوتا، بھوک سے نہ گزرتے تو کیسے پتا چلتا کہ غریب کی ضرورت کیا ہے؟ پیغمبر کی بیٹیوں کو طلاق نہ ہوتی تو پیغمبر کیسے سمجھتے کہ بیٹی کی طلاق کا درد کیا ہوتا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انسان تھے۔ ہجرت کےلیے مجبور نہ کیا جاتا تو مکان کے چھوڑنے پر دکھ کتنا ہوتا ہے یہ تو وہی محسوس کر سکتا ہے جس کا مکان ہو اور مکان سے نکالا جائے۔ چونکہ انبیاء علیہم السلام کو بشروں کی طرف بھیجا گیا تھا اس لیے اللہ اپنے نبی کو بشر بنا کر بھیجتے ہیں تاکہ بشری ضرورتیں پیغمبر کے علم میں ہوں اور پیغمبر ان کو محسوس بھی فرمائیں۔
باری تعالیٰ کے دو نام؛ اللہ اور رحمٰن:
﴿قُلِ ادۡعُوا اللہَ اَوِ ادۡعُوا الرَّحۡمٰنَ ؕ اَیًّامَّا تَدۡعُوۡا فَلَہُ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰی ۚ وَ لَا تَجۡہَرۡ بِصَلَاتِکَ وَ لَا تُخَافِتۡ بِہَا وَ ابۡتَغِ بَیۡنَ ذٰلِکَ سَبِیۡلًا ﴿۱۱۰﴾ وَ قُلِ الۡحَمۡدُ لِلہِ الَّذِیۡ لَمۡ یَتَّخِذۡ وَلَدًا وَّ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ شَرِیۡکٌ فِی الۡمُلۡکِ وَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَ کَبِّرۡہُ تَکۡبِیۡرًا ﴿۱۱۱﴾٪﴾
ان آیات کا خلاصہ تین باتیں ہیں، ان کو ذہن نشین فرما لیں :
[1]: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دعا مانگ رہے تھے: یا اللہ! یا رحمٰن! تو مشرکین کہنے لگے کہ ہمیں تو آپ کہتے ہیں کہ خدا ایک ہے اور خود دو خداؤں کو پکار رہے ہیں؟ اس کے جواب میں اللہ پاک نے فرمایا:
﴿قُلِ ادۡعُوا اللہَ اَوِ ادۡعُوا الرَّحۡمٰنَ ؕ اَیًّامَّا تَدۡعُوۡا فَلَہُ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰی﴾
کہ رحمٰن بھی اللہ کا نام ہے، اللہ بھی اسی کا نام ہے، چاہو تو اللہ کہہ کر پکارو اور چاہو تو رحمٰن کہہ کر پکارو۔ اللہ ان کا ذاتی نام ہے اور رحمٰن ان کا صفاتی نام ہے۔ ذات کے اعتبار سے اللہ ایک ہے اور صفتیں اس کی کئی ہیں۔ تو یا اللہ کہنا بھی ٹھیک ہے اور یا رحمٰن کہنا بھی ٹھیک ہے۔
قرأت میں میانہ روی کا حکم:
[2]: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح تہجد کے لیے اٹھتے اور قرأت اونچی آواز سے فرماتے تو مشرکین آ کر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو روکتے۔ مشرکین کو تکلیف ہوتی تھی قرآن کیوں پڑھتے ہیں! عجیب بات یہ کہ انہیں قرآن سننے میں مزا بھی آتا تھا، چھپ چھپ کر سنتے بھی تھے لیکن دوسرں کو منع بھی کرتے تھے کہ تم ان کے قریب نہ جانا۔ تو اللہ رب العزت نے فرمایا:
﴿وَ لَا تَجۡہَرۡ بِصَلَاتِکَ وَ لَا تُخَافِتۡ بِہَا وَ ابۡتَغِ بَیۡنَ ذٰلِکَ سَبِیۡلًا﴾
میرے پیغمبر! آپ درمیانی راستہ اختیار کریں۔ اگر قرأت اونچی آواز سے کریں گے تو یہ بدکیں گے اور قرآن بہت آہستہ پڑھیں گے اور مغرب یا فجر یاعشاء کی نماز ہے تو مقتدی سن نہیں سکیں گے، اس لیے آپ درمیانہ راستہ اختیار کریں تاکہ مشرکین روکنے پر مجبور بھی نہ ہوں اور مقتدی آرام سے سن بھی سکیں۔
حدیث مبارک میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نماز میں بہت آہستہ تلاوت فرما رہے ہیں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ بہت اونچا قرآن پڑھ رہے ہیں۔ جب وہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ قرآن آہستہ کیوں پڑھتے ہیں؟ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ!
”قَدْ أَسْمَعْتُ مَنْ نَاجَيْتُ“
آہستہ اس لیے پڑھتا ہوں کہ جس ذات کو سنا رہا ہوں وہ تو سن رہی ہے! اے عمر! آپ اونچا کیوں پڑھتے ہیں؟ انہوں نے کہا: حضور!
”أُوقِظُ الْوَسْنَانَ وَأَطْرُدُ الشَّيْطَانَ“
اپنے آپ سے نیند اور شیطان کو بھگانے کے لیے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صدیق! آپ تھوڑا اونچا پڑھ لیا کریں، فاروق! آپ تھوڑا آہستہ پڑھ لیا کریں۔ 74F

سنن ابی داؤد، رقم:1329

تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کا خیال فرمایا۔
اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک ذات ہے:
[3]: مشرکین تین قسم کے تھے؛ بعض مشرک وہ تھے جو بتوں کو خدا بناتے ہیں، یہود وہ تھے جو حضرت عزیر علیہ السلام کو خدا کا بیٹا بناتے تھے اور عیسائی وہ تھے جو عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا بنا تے تھے۔ تو کسی نے خدا کا بیٹا بنا دیا اور کسی نے خدا کے مقابلے میں بتوں کو مان لیا۔
اللہ رب العزت نے فرمایا: دنیا میں مددگار تین قسم کے ہیں، یا وہ چھوٹا ہو یا برابر کا ہو یا بڑا ہو۔ اگر چھوٹا ہو تو اسے ”اولاد“ کہتے ہیں اور برابر ہو تو اسے ”شریک“ کہتے ہیں اور بڑا ہو اسے ”مددگار“ کہتے ہیں۔ تو اللہ رب العزت کے نہ کوئی برابر، نہ چھوٹا ہے اور نہ بڑا ہے، اللہ ہر قسم کے شریکوں سے پاک ہیں۔ فرمایا:
﴿وَ قُلِ الۡحَمۡدُ لِلہِ الَّذِیۡ لَمۡ یَتَّخِذۡ وَلَدًا وَّ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ شَرِیۡکٌ فِی الۡمُلۡکِ وَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَ کَبِّرۡہُ تَکۡبِیۡرًا﴾
میرے پیغمبر! آپ ان سے کہیں کہ اللہ کا کوئی بیٹا نہیں ہے۔ کوئی اللہ کے برابر بھی نہیں ہےاور کوئی بھی اللہ کا حمایتی اور مددگار نہیں ہے۔ اللہ ہی بڑا ہے، اللہ ہی کی بڑائی بیان کرو۔
دعا کریں کہ اللہ رب العزت ہم سب کو ہر قسم کے شرک سے محفوظ رکھے، اللہ خالص سنت اور اتباع توحید کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․