سورۃ الکہف

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
سورۃ الکہف
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿اَلۡحَمۡدُ لِلہِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلٰی عَبۡدِہِ الۡکِتٰبَ وَ لَمۡ یَجۡعَلۡ لَّہٗ عِوَجًا ؕ﴿ٜ۱﴾﴾
تعارف، وجہ تسمیہ اور فضائلِ سورت:
سورۃ الکہف مکی سورت ہے۔ اس میں دس رکوع اور ایک سو دس آیات ہیں۔ سورۃ الکہف کو سورۃ الکہف اس لیے کہتے ہیں کہ اس سورت میں چونکہ اصحاب کہف کا تذکرہ ہے اس لیے اس کا نام بھی سورۃ الکہف رکھا گیا ہے۔
اس سورت کے فضائل احادیث مبارکہ میں بہت زیادہ منقول ہوئے ہیں۔
ایک حدیث مبارک میں آتا ہےکہ سورت الکہف وہ واحد سورت ہے جو لمبی ہونے کے باوجود اکٹھی نازل ہوئی ہے اور جب سورۃ الکہف نازل ہوئی تو ستر ہزار فرشتے اس کو لے کر آئے۔ 75F (سبحان اللہ۔ سامعین)
تفسیر روح المعانی: ج15 ص199
ایک حدیث مبارک میں ہے جو انسان جمعہ کے دن سورۃ الکہف کی تلاوت کرے اس کے پاؤں سے لے کر آسمان تک ساری جگہ اللہ نور سے بھر دیتے ہیں۔ 76F
الترغیب والترہیب : ج1 ص298
اور اس کا اندازہ دنیا میں نہیں بلکہ قیامت کو ہو گاکہ سورۃ الکہف سے مجھے کیا ملا ہے؟ اس روشنی میں انسان قیامت کے دن اپنے سفر کو طے کرے گا۔
ایک حدیث مبارک میں ہے کہ جو انسان جمعہ کے دن سورۃ الکہف کو پڑھتا ہے تو اس جمعہ سے لےکر گزشتہ جمعہ تک کے جتنے گناہ ہیں اللہ سارے معاف فرما دیتے ہیں۔ 77F
تفسیر ابن کثیر: ج4 ص194
اور ایک حدیث مبارک میں ہے کہ جو انسان سورۃ الکہف جمعہ کے دن پڑھے اس جمعہ سے لے کر آئندہ جمعہ تک پورا ہفتہ اس آدمی کو اللہ تمام قسم کے فتنوں سے محفوظ رکھتے ہیں حتیٰ کہ اس دوران یعنی اس جمعہ سے لے کر آئندہ جمعہ تک دجال کا فتنہ بھی آ گیا تو اللہ اس شخص کودجال کے فتنے سے بھی بچا لیں گے۔ 78F
تفسیر ابن کثیر: ج4 ص194
خود عمل کریں تو دعوت دینا آسان ہوتا ہے:
یہ سورت اس قدر مؤثر ہے! اس لیے اس سورت کو بہت زیادہ پڑھنے کا اہتمام کریں۔ مجھے بھی آج چونکہ مہمانوں کی کثرت کی وجہ سے مطالعہ میں دقت پیش آتی ہے، آج بھی مصروفیت کی وجہ سےالجھن تھی کہ صبح سورۃ الکہف نہیں پڑھ سکا تو پھر میں نے آج عصر کے بعد جو تھوڑاسا وقت ہوتا ہے اس کی قصداً تلاوت کی۔ میں نے کہا باقی جمعوں میں اگر چھوٹ بھی جائے تو شاید فرق نہ پڑے لیکن آج رات تو میں نے سورۃ الکہف کی فضیلت کو بیان کرنا ہے، آدمی بیان کرے اور خود نہ پڑھے تو آدمی کو بیان کرتے ہوئے خود شرم محسوس ہوتی ہے۔
اس پر میں ایک چھوٹا سا واقعہ پیش کرتا ہوں۔ ایک صاحبِ نسبت ولی اللہ تھے۔ ان کے پاس ایک خاتون اپنے بچے کو لے کر آئی نصیحت کروانے کے لیے کہ یہ گڑ بہت کھاتا ہے، اس کو سمجھا دیں۔ بزرگ نے فرمایا: اس کو کل لے کر آنا۔ وہ اگلے دن آئی تو انہوں نے بچے کو سمجھا دیا ۔ عورت کہنے لگی: حضرت! آپ کل ہی سمجھا دیتے، یہ مجھے ایک دن کا انتظار آپ نے کیوں کروایا ہے؟ وہ فرمانے لگے: اے خاتون! کل میں نے خود گڑ کھایا تھا اس لیے مجھے نصیحت کرتے ہوئے خود شرم آ رہی تھی، بے شک تھوڑا کھایا تھا لیکن کھایا تو تھا، جب میں نے خود کھایا تھا تو اب کیسے نصیحت کروں؟ اس لیے چوبیس گھنٹے انتظار کرنے کی آپ کو تکلیف دی تھی۔ اللہ ہمیں یہ بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور اللہ ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آپ میں سے ہر بندہ یہ نیت کرے کہ ان شاء اللہ آئندہ ہر جمعہ کے دن سورۃ الکہف کی تلاوت کرے گا۔ ان شاء اللہ اللہ عمل کی توفیق عطا فرمائیں گے۔
جمعہ کے دن ان معمولات کا اہتمام کیجیے:
جمعہ کے دن کے معمولات میں سے تین معمولات کا بہت زیادہ اہتمام کیا کریں :
[۱]: ایک یہ ہے کہ ہر جمعہ سورۃ الکہف کی تلاوت فرمایا کریں۔
[۲]: دوسرا یہ کہ جہاں آپ نے عصر کی نماز پڑھی ہے اسی جگہ پر بیٹھے بیٹھے 80 مرتبہ یہ درود پاک پڑھیں:
اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدِ نِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ وَعَلٰی آلِہٖ وَسَلِّمْ تَسْلِیْمًا.
جو شخص 80بار جمعہ کے دن عصر کی نماز پڑھنے کے بعد اسی جگہ پر بیٹھ کر یہی درود پاک پڑھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وعدہ ہےاللہ رب العزت اس کے 80 سال کے گناہ معاف فرماتے ہیں اور 80 سال کی عبادات کا اجر بھی عطا فرماتے ہیں۔79F
القول البدیع للسخاوی:ص199
یہ کتنا آسان سا نسخہ ہے اور ہم کتنے نالائق ہیں کہ اس کو چھوڑ دیتے ہیں۔
اللہ کا بڑا شکر ہے کہ ہمارے اور آپ کے مدرسے مرکز اھل السنۃ والجماعۃ میں ہر جمعہ کے دن عصر کے بعد اساتذہ اور تمام طلبہ بیٹھ کر یہ درود پاک پڑھتے ہیں۔ یہ ہلکی سی کار گزاریاں میں اس لیے سناتا ہوں کہ ایسے مدرسے پر اگر کسی کا ایک روپیہ بھی لگا ہو تو وہ ذہن میں رکھے کہ 80 مرتبہ درود پاک کا اجر اللہ مجھے ضرور عطا فرما دیتے ہیں۔
[۳]: تیسرا یہ کہ جمعہ کےدن امام ایک خطبہ دے کر بیٹھے تو دوسرے خطبے اور پہلے خطبے کے درمیان میں جو ایک آدھ منٹ کاوقفہ ہےاس میں دعا کا اہتمام کیا کریں۔ یہ قبولیتِ دعا کا وقت ہے لیکن یہ خیال کریں کہ اس وقت دعا زبان سے نہیں کرنی بلکہ اپنے دل میں کرنی ہے۔ اللہ پاک زبان کی بات بھی سنتے ہیں اور اللہ پاک دلوں کی بات بھی جانتے ہیں۔ وہ علیم بذات الصدور ہے۔ چونکہ امام خطبے کے لیے جب منبر پر آ جائے تو سنتوں اور نوافل کی گنجائش بھی نہیں ہے اور اس وقت دعائیں مانگنے اور بات کرنے کی گنجائش بھی نہیں ہے۔
اب بتاؤ! آدھا منٹ کیا وقت ہوتاہے؟ ایک منٹ کیا وقت ہوتا ہے؟ بس اپنی گردن کو جھکائیں اور دل ہی دل میں کہہ دیں کہ اللہ! میرے والد صاحب بیمار ہیں انہیں شفا عطا فرما دے! میری بیٹی ہے رشتے کا انتظام فرما دے، میرا بیٹا ہے اس کی ملازمت کا انتظام فرما دے، میرا کاروبار ہے اللہ اس کے معاملات کو ٹھیک فرما دے، میں نے فلاں گناہ کیا ہے اپنے کرم سے اسے معاف فرما دے۔ میں اپنی ضروتوں کو جانتا ہوں اور آپ اپنی ضرورتوں کو جانتے ہیں، اس لیے آپ یہ تین اہتمام ضرور فرمائیں۔
میں نے تو تدریجاً تین باتیں کی ہیں۔ آپ کم ازکم ایک بات کا اہتمام فرما لیں۔ کتنا خوش قسمت ہے وہ شخص جس کو یہ تینوں چیزیں نصیب ہوں۔ دعا فرمائیں کہ اللہ پاک ہم کو ان تینوں چیزوں کا اہتمام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ( آمین)
سورت کا شانِ نزول:
حدیث پاک میں ہے کہ مشرکینِ مکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے سامنے ہمیشہ کی طرح جب اس بار بھی لا جواب ہوئے تو مشرکینِ مکہ کے بعض رؤسا اور سرداروں نے مشورہ کیا کہ ہم چونکہ ان پڑھ ہیں، یہودی اور عیسائی صاحبِ علم لوگ ہیں، تورات اور انجیل کے عالم ہیں۔ تو ہم اپنے دو تین بندے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ بھیجیں جو وہاں جا کر ان یہودیوں سے پوچھیں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ تو مشرکینِ مکہ نے نذر بن حارث اورعقبہ بن ابی معیط ان دوبندوں کومشورے کے ساتھ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ بھیجا اور یہودیوں سے کہا کہ آپ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟
یہودیوں نے کہا:ان سے جا کر تین سوال کرو۔
1: وہ نوجوان کون تھے جو غار میں جا کر چھپے اور کئی سو سال تک سوتے رہے؟
2: ان سے پوچھو کہ ذوا لقرنین کون تھا جس نے پوری زمین پر فتح حاصل کرنے کے لیے مشرق اورمغرب کا سفرکیا اور اس کا کیا واقعہ ہے؟
3: روح کے متعلق پوچھو کہ روح کیا چیز ہے؟
یہ تین سوال جا کر ان سے پوچھو۔ اگر انہوں نے صحیح جواب دے دیے تو سمجھ لینا کہ وہ سچے نبی ہیں۔ اگر جواب نہ دے سکیں تو سمجھ لینا کہ وہ اپنے دعوائے نبوت میں خدانخواستہ سچے نہیں ہیں۔
مشرکین واپس آئے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ تینوں سوال کیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ان کا جواب تمہیں کل دوں گا۔ مشرکینِ مکہ کل آئے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات معمول کے مطابق فرمائی کہ وحی آ جائے گی اور میں جواب دےدوں گا لیکن وحی نہیں آئی۔ وہ کل آئے اور پوچھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں کل جواب دوں گا۔ وہ کل پھر آ گئے یعنی پرسوں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہیں دیا۔ یوں تقریباً سترہ دن تک وحی منقطع رہی۔ وہ روزانہ آتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کل کی بات فرما دیتے۔ اس پر قرآن کریم کی یہ آیت اتری جس پر بات آگے چل کر ہو گی کہ:
﴿وَ لَا تَقُوۡلَنَّ لِشَایۡءٍ اِنِّیۡ فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَدًا ﴿ۙ۲۳﴾ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ ۫﴾
اے میرے پیغمبر!آپ ان شاء اللہ کے بغیر کوئی بات نہ فرمایا کریں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھول کر ان شاء اللہ نہیں فرمایا تو سترہ دن تک وحی بند ہو گئی۔ بالآخروحی آئی تو سورۃ الکہف اس وحی میں نازل ہوئی جس میں ان کے دو سوالات کے جوابات تفصیلاً موجود ہیں اور تیسرا سوال کہ روح کیا ہے اس پر بات سورۃ بنی اسرائیل کی آیت:
﴿وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الرُّوۡحِ ؕ قُلِ الرُّوۡحُ مِنۡ اَمۡرِ رَبِّیۡ وَ مَاۤ اُوۡتِیۡتُمۡ مِّنَ الۡعِلۡمِ اِلَّا قَلِیۡلًا ﴿۸۵﴾﴾
کے تحت ہو چکی ہے۔ اصحابِ کہف کون تھے؟ اس پر بھی قرآن نے بات کی ہے اور ذو القرنین کون تھا؟اس پر بھی قرآن کریم نے بات کی ہے۔
اصحابِ کہف کا تفصیلی واقعہ:
پہلی بات یہ سمجھیں کہ کہف اور غار کا معنیٰ کیا ہے؟ عربی زبان میں ”غار“ کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے اور ”کہف“ کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے۔ پہاڑ میں جو مختصر غار ہو اس کو غار کہتے ہیں اور جو لمبی اور وسیع غار ہو اسے عربی زبان میں ”کہف“ کہتے ہیں۔ لہٰذا اصحاب کہف کا معنیٰ یہ ہے کہ یہ نوجوان اس غار میں تھے جو قدرے لمبی تھی۔
اصحابِ کہف کا واقعہ 250ء کا ہے۔ پھر تین سو سال تک یہ لوگ سوتے رہے تو مجموعہ 550ء ہو گیا اور رسول پاک صلی اللہ علیہ سلم کی ولادت 570ء میں ہوئی۔ اس حساب سے اصحابِ کہف کے بیدار ہونے کا یہ واقعہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے 20 سال پہلے پیش آیا تھا۔
مشرک بادشاہ کے احوال؛
بادشاہ ظالم تھا، مشرک تھا اور شرک پر اپنی قوم کو مجبور کیا کرتا تھا۔ ایک دن ان کا ایک خاص میلہ تھا جہاں بتوں کی عبادت ہوتی تھی۔ اس میں چند نوجوان جو کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ اللہ رب العزت نے ان میں سے ہر ایک کے دل میں یہ بات ڈالی کہ مجھے بتوں کی عبادت کرنے کے بجائے اللہ کی عبادت کرنی چاہیے۔ چنانچہ ایک نوجوان اس مجمع سے کھسکا اور باہر جا کر درخت کے نیچے بیٹھ گیا۔ ایک اور آیا وہ بھی وہیں بیٹھ گیا۔ تیسرا آیا تو وہ بھی وہیں بیٹھ گیا۔ تو یہ حضرات تقریباً سات کے لگ بھگ تھے وہاں الگ الگ بیٹھ گئے اور ایک دوسرے کو بتا بھی نہیں رہے تھے۔ ڈر رہے تھے کہ کوئی جاسوس نہ ہو اور بادشاہ کو نہ بتا دے اور ہمیں قتل نہ کروا دے۔
آخر ایک نے پوچھ لیا کہ آپ کیوں آئے ہیں تو باری باری سب نے یہی کہا کہ ہم اس شرک سے تنگ ہیں۔ جب سب کی بات ایک ہو گئی تو سب نے اتفاق کیا اور ایک جگہ جمع ہو کر بیٹھ گئے۔ اب مشورہ کیا کہ نکل تو آئے ہیں، اب کیا کریں؟یہ بات آہستہ آہستہ شہر میں پھیلنی شروع ہوئی کہ چند نوجوان بیٹھے ہیں جو کھاتے پیتے ہیں اور اس شہر سے تعلق رکھتے ہیں اور ہمارے بتوں کی عبادت کرنے کےلیے تیار نہیں ہیں۔ ان کی یہ شکایت بادشاہ تک پہنچ گئی۔
بادشاہ نے ان کو بلا لیا اور بلا کر پوچھا تو انہوں نے ببانگ دہل بادشاہ کے سامنے کہا کہ ہم جان تو دے سکتے ہیں لیکن ہم شرک کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ بادشاہ نے ان کے شاہی لباس اتروا دیے اور ان سے کہا: میں تمہیں کچھ دن مہلت دیتا ہوں، تم مشورہ کر لو، اگر تم باز نہ آئے تو میں تمہیں سنگسار کر دوں گا۔ یہ حضرات وہاں سے نکلے اور آپس میں مشورہ کیا کہ اب کیا کریں؟ طے یہ پایا کہ یہاں سے نکل کر دور چلے جائیں اور اپنے ایمان کی حفاظت کریں۔ تو یہ ایک غار تک پہنچے اور وہاں جا کر سو گئے۔
غار میں کتنا عرصہ رہے؟
قرآن میں ہے:
﴿وَ لَبِثُوۡا فِیۡ کَہۡفِہِمۡ ثَلٰثَ مِائَۃٍ سِنِیۡنَ وَ ازۡدَادُوۡا تِسۡعًا ﴿۲۵﴾﴾
یہ تین سو سال تک سوتے رہے اور نو سال اوپر۔
تین سو سال بھی ہیں اور تین سو نو سال بھی ہیں۔ یہ کیوں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ شمسی حساب کریں تو تین سو سال بنتے ہیں اور قمری حساب کریں تو تین سو نو سال بنتے ہیں اور قمری حساب میں ہر سو سال پر تین سال بڑھ جاتے ہیں، اس لیے تین سو سال شمسی پر قمری حساب سے نو سال مزید ہو گئے۔ اس لیے اللہ نے
﴿ثَلٰثَ مِائَۃٍ﴾
بھی فرمایا اور
﴿وَ ازۡدَادُوۡا تِسۡعًا﴾
بھی فرمایا۔ تین سو سال کو الگ ذکر کیا اور نو سال کو الگ ذکر کیا تاکہ شمسی حساب بھی آ جائے اور قمری حساب بھی آ جائے۔ یہ قرآن کریم کی بلاغت ہے۔
یہ نوجوان تین سو سال کے بعد اٹھے۔ آنکھ کھلی تو بھوک لگی ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا: ایک آدمی کو بھیجو جو کھانا لے کر آئے لیکن محتاط سفر کرے، کسی کو پتا نہ چل جائے، اگر پتا چلا تو بادشاہ ہم سب کو سنگسار کر دے گا۔ تو بچتا بچاتا ایک نوجوان دکان پر پہنچا۔ جب اس نے سکے دیے روٹی اور سالن لینے کے لیے تو دکاندار نے کہا: سکے تم نے کہاں سے لیے ہیں؟ اس نے کہا: میرے اپنے ہیں۔ دکاندار نے کہا: چوری کیے ہیں؟اس نے کہا: نہیں، یہ میرے اپنے ہیں، چوری کہاں سے کیے ہیں۔
دکاندار نے کہا: یہ تین سو سال پرانے ہیں یہ تمہارے کہاں سے آئے؟ دکاندار کو شک پڑا کہ کہیں خزانہ دفن تھا جو اس نے کھولا اور چوری کر کے لایا ہے۔ دکاندار کو شک پڑا اور اس نے پولیس کے حوالے کیا کہ ہم نے ایک بندہ پکڑا ہے اور ہمیں لگتا ہے کہ یہ چور ہے۔ پولیس نے پکڑا اور بادشاہ تک لے گئے اور اب جو بادشاہ تین سو سال کے بعد تھا یہ توحید پرست اور موحد تھا، اور جو پہلا تھا وہ مشرک تھا۔
موحد بادشاہ کی خدائی امداد:
اس بادشاہ کا مسئلہ یہ تھا کہ اس کی قوم حشر کو نہیں مانتی تھی۔ قوم کا کہنا تھا کہ اللہ دوبارہ کیسے زندہ کریں گے؟ اس بادشاہ نے ایک دن رات ریت پر بیٹھ کر ننگے پاؤں اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگیں کہ اے اللہ!میری قوم آخرت کو نہیں مانتی، میری قوم حشر کونہیں مانتی، یا اللہ! کوئی ایسی دلیل مجھے عطا فرما دے کہ ان کو میں سمجھا سکوں کہ اللہ دوبارہ کیسے پیدا کریں گے؟ تو بادشاہ نے سمجھا کہ جو میں دعائیں مانگتا تھا شاید اللہ نے وہ قبول کر لی ہیں۔ بادشاہ نے اس نوجوان سے کہا: تم کون ہو؟ تمہارا نام کیا ہے؟ تمہارے باپ کا نام کیا ہے؟ پھر پتا چلا کہ اس نام کا بندہ دنیا میں کوئی نہیں ہے۔
پھر بادشاہ نے تفتیش کرائی تو پتا چلا کہ وہ جو تین سو سال پہلے بادشاہ جس کا نام دقیانوس تھا وہ جب مرا تو مرتے وقت ایک تختی لکھ کر رکھ گیا تھا کہ فلاں فلاں نام کے اتنے بندے ہیں، یہ میرے باغی ہیں اور جب بھی میرے بعد والے کسی بادشاہ کو ملیں تو ان کو وہ سنگسار کر دے یا سزائے موت دے دے۔ بادشاہ نے دیکھا تو یہ وہی لوگ ہیں۔ پھر جب ساری بات بادشاہ نے سنی تو انہوں نے بتایا کہ ہمارا بادشاہ شرک والا تھا اور شرک پر مجبور کرتا تھا، ہم نے غارمیں پناہ لی تھی، ہم سوئے رہے اور آج اٹھے تو میں کھانا لینے کے لیے آیا ہوں، اس وقت ان سکوں کو دیکھا تو پتا چلا کہ یہ تین سو سال پرانے آدمی تھے۔
بادشاہ نے کہا: مجھے غار تک لے جاؤ تاکہ میں خود اپنی آنکھوں سے دیکھوں، بادشاہ نے غار دیکھی اور ان کی زیارت بھی کی۔ بعض روایات میں ہے کہ بادشاہ ان کی زیارت نہ کر سکا اور وہ وفات پا گئے اور یہ ایک زندہ تھا۔
خیر بادشاہ نے پھر اپنی قوم کو سمجھایا کہ دیکھو! تم کہتے ہو کہ جو مر جائے گا وہ دوبارہ کیسے اٹھے گا؟ یہ دیکھو! تین سو سال سے سوئے ہوئے ہیں، ان کو کچھ بھی نہیں ہوا۔ تو جو اللہ تین سو سال تک سلا کر دوبارہ اٹھا سکتا ہے تو وہ وفات کے بعد حیات بھی دے سکتا ہے۔ یوں اس بادشاہ کی دعا اللہ نے قبول فرمائی اور دلیل کے طور پر ان کے سامنے نمونہ ظاہر ہو گیا۔ یہ تھے اصحاب کہف جوولی اللہ تھے۔
قرآن کی دعوت راہِ اعتدال :
﴿اَلۡحَمۡدُ لِلہِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلٰی عَبۡدِہِ الۡکِتٰبَ وَ لَمۡ یَجۡعَلۡ لَّہٗ عِوَجًا ؕ﴿ٜ۱﴾﴾
اللہ فرماتے ہیں: قرآن میں ٹیڑھا پن نہیں ہے بلکہ قرآن درست، معتدل اور درمیانے راستے کی بات کرتا ہے۔
یہ بات سمجھ لیں کہ قرآن حد سے تجاوز بھی نہیں کرتا اور حد سے نیچے بھی نہیں آتا بلکہ حد پر رہتا ہے۔ حد سے تجاوز کریں تو افراط ہے، حد سے اتر جائیں تو تفریط ہے اور حد پر رہیں تو اعتدال اور صراط مستقیم ہے۔ اگر حدود کراس کریں تو الحاد ہے اور حدود سے نیچے اتر آئیں تو بدعات ہیں اور حدود پر رہیں تو پھر اھل السنۃ والجماعۃ ہیں۔ قرآن کریم حدود پر رہنے کی بات کرتا ہے۔ حد سے تجاوز کرنے کی ہرگز بات نہیں کرتا۔
افراط، تفریط اور صراطِ مستقیم:
میں اس کی بہت سی مثالیں دیا کرتا ہوں۔ آپ ایک مثال ذہن نشین فرمالیں۔ کوئی کہتا ہے کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر صلوٰۃ وسلام پڑھیں تو بھی نہیں سنتے اور دوسرا کہتا ہے کہ جہاں سے بھی پڑھو تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ سے سنتے ہیں۔ تو جو کہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم قبر پر پڑھا ہوا صلوٰۃ وسلام بھی نہیں سنتے یہ الحاد والا ہے اور جو کہتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اِدھر سے بھی سنتے ہیں یہ بدعات والا ہے اور جو کہے کہ ادھر سرگودھا میں پڑھیں تو اللہ پہنچا دیتے ہیں اور قبر پر پڑھیں تو اللہ سنا دیتے ہیں یہ اھل السنۃ والجماعۃ والا ہے۔ (سبحان اللہ۔ سامعین)
﴿ فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفۡسَکَ عَلٰۤی اٰثَارِہِمۡ اِنۡ لَّمۡ یُؤۡمِنُوۡا بِہٰذَا الۡحَدِیۡثِ اَسَفًا ﴿۶﴾﴾
اے میرے پیغمبر! آپ کو ان کے ایمان لانے کی فکر ہے اور کرنی چاہیے لیکن ان کے ایمان کی اتنی فکر نہ کریں کہ اپنی جان گنوا بیٹھیں، کیوں کہ یہ دنیا دار الامتحان ہے، اس میں مؤمن بھی رہنے ہیں اور کافر بھی رہنےہیں، نہ سارے مؤمن بننے ہیں نہ سارے کافر بننے ہیں، کچھ ماننے والے ہوں گے جو جنت میں جائیں گے اور کچھ انکار کرنے والے ہوں گے جو جہنم میں جائیں گے، آپ کے ذمے محنت کرنا ہے، آپ کے ذمے ان کو جنت میں لے جانا نہیں ہے۔ اس لیے اتنی محنت نہ کریں کہ اپنی جان گنوا بیٹھیں، اتنی محنت کریں جتنا شریعت نے حکم دیا ہے۔
کسی کو راہِ راست پر لانے کے لیے گناہ کرنا جائز نہیں:
اس سے ایک مسئلہ سمجھ لیں۔ بعض لوگ غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
مجھ سے ایک آدمی نے مسئلہ پوچھا، وہ جماعت میں چل رہا تھا اور جماعت میں سارے علماء تھے۔ کہا: جی ہم فلاں طبقے کی مسجد میں ہیں اور ان کے پیچھے نماز پڑھیں تو نماز ہو جاتی ہے یا نہیں ہوتی؟ میں نے کہا: نماز نہیں ہوتی۔ مجھے کہنے لگا: جب ہم ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھیں گے تو وہ ہماری بات نہیں سنیں گے، ہم نماز اس لیے پڑھتے ہیں تاکہ وہ ہماری بات سن لیں۔
میں نے کہا: مولانا صاحب! مجھے آپ بتائیں کہ اگر کوئی لڑکی جو زنا کی عادی ہو، اس کو گناہ سے بچانے کےلیے اس کے ساتھ منہ کالا کر لیں تو کیا اس کی گنجائش ہے؟ مجھے کہتا ہے: نہیں۔ تو میں نے کہا: اس کو بھی تو جنت میں لے کر جانا ہے، تو اگر اس کے ساتھ دوستی نہیں لگاؤ گے تو تمہاری بات نہیں سنے گی تو کیا بات سنانے کے لیے دوستی لگانا جائز ہے؟ مجھے کہتا ہے: نہیں! میں نے کہا: پھر کسی کی نماز کو ٹھیک کرنے کے لیے اپنی نماز خراب کرنا کیسے جائز ہے؟ پھر کہنے لگا: مجھے بات سمجھ میں آ گئی ہے۔
دوسرے کا ایمان بچانے کے لیے اپنا ایمان خراب نہ کریں۔ دوسرے کی نماز بچانے کے لیے اپنی نماز خراب نہ کریں۔ چونکہ تبلیغی جماعت میں آپ حضرات بھی جاتے رہتے ہیں اس لیے اچھی طرح مسئلہ سمجھ لیں۔
وہ کہنے لگا: پھر ان کی مسجد میں ہم نہ جائیں؟ میں نے کہا: جایا کرو۔ کیا نماز نہ پڑھیں؟ میں نے کہا: پڑھا کرو۔ اس نے کہا: ادھر آپ کہتے ہیں کہ نہیں ہوتی اور ادھر آپ کہتے ہیں کہ پڑھا کرو! میں نے کہا: جب مسئلہ ہم بتاتے ہیں تو حل نکالنا بھی ہمارے ذمے ہے۔ مجھے کہتا ہے: جی حل کیا ہے؟ میں نے کہا: دو حل ہیں:
ایک حل یہ ہے کہ پیچھے کھڑے ہو کر پڑھ لیں اور بعد میں قضا کر لیں۔ جب آپ نے قضا کی تو نماز بھی ہو گئی اور دعوت بھی ہو گئی۔
اور دوسرا حل یہ ہے کہ آپ ان کے پیچھے نماز پڑھیں اور اقتداء صوری کریں۔ اقتداء صوری کا معنیٰ یہ ہے امام نے اللہ اکبر کہا تو آپ بھی اللہ اکبر کہیں، امام ثناء پڑھے تو آپ بھی ثناء پڑھیں، امام اعوذ باللہ پڑھے تو آپ بھی پڑھیں، امام بسم اللہ پڑھے تو آپ بھی پڑھیں، وہ فاتحہ پڑھے تو آپ بھی پڑھیں، وہ سورۃ پڑھے تو آپ بھی پڑھیں۔ دیکھنے میں آپ اس کے پیچھے ہوں لیکن درحقیقت نماز آپ کی اپنی ہو! میں نے کہا: نماز بھی ہو گئی ہے اور آپ کی دعوت بھی ہو گئی ہے۔
ہم آپ کو مسئلہ بتا کر ضائع نہیں کرتے۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ ہم دعوت کا اہتمام بھی کرتے ہیں اور مسئلہ بھی ٹھیک بتاتے ہیں۔
اصحابِ کہف اور الرقیم:
﴿اَمۡ حَسِبۡتَ اَنَّ اَصۡحٰبَ الۡکَہۡفِ وَ الرَّقِیۡمِ ۙ کَانُوۡا مِنۡ اٰیٰتِنَا عَجَبًا ﴿۹﴾﴾
فرمایا: تمہیں تعجب ہے کہ اصحابِ کہف کا واقعہ عجیب ہے۔ اصحاب کہف کا واقعہ اتنا عجیب نہیں ہے اس سے بھی عجیب تر واقعات قرآن مجید میں موجود ہیں۔ اصحابِ کہف تو سوئے رہے اور جاگ گئے۔ حضرت عزیر علیہ السلام پر تو وفات آ گئی اور وہ زندہ ہو گئے۔ سو کر جاگنا اتنا عجیب نہیں ہے جتنا وفات پا کر زندہ ہو جانا عجیب ہے۔ اس لیے اس کو اتنا عجیب نہ سمجھو بلکہ اس سے بھی عجیب واقعات اللہ نے اور بھی تمہیں دکھائے ہیں۔
ان کو اصحاب کہف بھی کہا اور اصحاب رقیم بھی کہا۔ کہف تو غار کو کہتے ہیں اور رقیم کیا ہے؟ بعض کہتے ہیں کہ ”الرقیم“ اس وادی کا نام ہے جہاں پر وہ پہاڑ ہے جس میں غار تھی۔ بعض کہتے ہیں: ”الرقیم“ اس پہاڑی کا نام ہے جس میں غار تھی اور بعض کہتے ہیں: ”الرقیم“ کا معنیٰ مرقوم ہے یعنی لکھی ہوئی، یہ جس غار میں بعد میں وفات پا گئے تھے تو مسلمان بادشاہ نے باہر تختی لکھ کر لگا دی تھی کہ فلاں فلاں ولی وفات پا گئے تھے جو اس غارمیں موجود ہیں۔ اس لیے ان کو ”اصحاب رقیم“ بھی کہتے ہیں۔
غار کا محلِ وقوع:
﴿وَ تَرَی الشَّمۡسَ اِذَا طَلَعَتۡ تَّزٰوَرُ عَنۡ کَہۡفِہِمۡ ذَاتَ الۡیَمِیۡنِ وَ اِذَا غَرَبَتۡ تَّقۡرِضُہُمۡ ذَاتَ الشِّمَالِ وَ ہُمۡ فِیۡ فَجۡوَۃٍ مِّنۡہُ ؕ ذٰلِکَ مِنۡ اٰیٰتِ اللہِ ؕ﴾
اس آیت میں اللہ نے غار کا بڑا عجیب نقشہ کھینچا ہے۔ اس کو ذرا سمجھنا! اللہ فرماتے ہیں کہ وہ غار ایسی ہے کہ جب سورج نکلتا ہےتو دھوپ دائیں جانب ہوتی ہے اور جب غروب ہوتا ہے تو بائیں جانب ہوتی ہے یعنی غار کا نقشہ اس طرح ہے کہ براہِ راست دھوپ ان پر نہیں پڑتی، غار کھلی ہے، ہوا آتی جاتی ہے لیکن براہِ راست ان کے جسم پر دھوپ نہیں پڑتی۔ اللہ ان کے جسم کو دھوپ سے بچا بھی لیتے ہیں تاکہ اٹھیں نا اور ہوا کا سلسلہ بھی رہتا ہے تاکہ سانس نہ گھٹے۔
اب یہ غار کیسی تھی؟ مفسرین فرماتے ہیں: یہ جو فرمایا کہ سورج جب نکلتا ہے تو دائیں طرف سے گزرتا ہے اور جب غروب ہوتا ہے تو بائیں طرف سے، یہ دایاں اور بایاں کس کا ہاتھ ہے؟ یا تو دایاں ہاتھ مراد ہے جب آدمی غار میں داخل ہو یا دایاں ہاتھ مراد ہے جب آدمی غار سے نکلے۔ اگر غار میں داخل ہونا مراد ہو تو اس کا معنیٰ ہے اس غار کا منہ شمال کی جانب تھا اور اگر مراد ہو داخل ہونے والا تو پھر یہ کہیں گے کہ اس کا منہ جنوب کی جانب تھا۔
لیکن بعض مفسرین فرماتے ہیں: اس کا مطلب یہ ہےکہ وہ چونکہ ولی تھے اور ان کی یہ کرامت تھی کہ باوجود اس کے کہ دھوپ اندر جا سکتی تھی لیکن پھر بھی اللہ رب العزت نہیں جانے دیتے تھے۔ کیونکہ قرآن میں ہے:
﴿ذٰلِکَ مِنۡ اٰیٰتِ اللہِ ؕ﴾
یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے اور نشانی تب ہی ہوتی ہے کہ جب عادت کے مطابق نہ ہو بلکہ عادت کے خلاف ہو۔
اصحابِ کہف کے سونے کی کیفیت:
﴿وَ تَحۡسَبُہُمۡ اَیۡقَاظًا وَّ ہُمۡ رُقُوۡدٌ ٭ۖ﴾
اللہ رب العزت فرماتے ہیں: تم دیکھو گے تو ایسے لگے گا جیسے وہ جاگ رہے ہیں حالانکہ وہ جاگ نہیں رہے تھے بلکہ سوئے ہوئے تھے۔
کیا معنیٰ؟کہ جب آدمی جاگتا ہے تو آنکھ کھلی ہوتی ہے وہ ایسے سوئے ہوئے تھے کہ آنکھ بھی کھلی ہوئی ہے اور سوئے ہوئے بھی ہیں اور جاگتے ایسے تھے کہ جسم ڈھیلا نہیں تھا ۔ جب آدمی دیکھتا تو معلوم ہوتا کہ جاگتے ہیں حالانکہ وہ جاگتے نہیں تھے، درحقیقت سوئے ہوئے تھے۔
قرآن کریم فرماتا ہے:
﴿وَ تَحۡسَبُہُمۡ اَیۡقَاظًا وَّ ہُمۡ رُقُوۡدٌ ٭ۖ﴾
تمہارا خیال ہے کہ وہ جاگ رہے ہیں حالانکہ وہ سوئے ہوئے ہیں، تو ”رقود“ کا معنیٰ ہے سونا۔
سورۃ یٰس آپ میں سے تقریباً ہرآدمی کو آتی ہے اور بعض وہ ہیں جو اہتمام سے فجر کے بعد پڑھتے بھی ہوں گے۔ سورۃ یٰس کی تلاوت فجر کے بعد کیا کریں۔
حدیث مبارک میں ہے: جو آدمی یٰس کی تلاوت صبح کے وقت کرتا ہے اللہ اس کے دن بھر کی حاجات پوری فرما دیتے ہیں۔ جب اللہ اپنے ذمے کام لے لیں تو ہم اعتماد نہیں کرتے اور کوئی بندہ جب اپنے ذمے لے لے تو ہم فوراً اعتماد کر لیتے ہیں۔ یہ انسانی طبیعت ہے۔ تو فجر کے بعد سورۃ یٰس کا اہتمام فرمایا کریں۔
قبر سونے کی جگہ ہے:
اب مسئلہ سمجھیں! سورۃ یٰس میں ہے:
﴿قَالُوۡا یٰوَیۡلَنَا مَنۡۢ بَعَثَنَا مِنۡ مَّرۡقَدِنَا﴾ 80F
یٰس36: 52
قیامت کے دن کافر اٹھ کر کہیں گے کہ ہمیں سونے کی جگہ سے کس نے اٹھا دیا ہے؟ یہ قبر سونے کی جگہ ہے یا مرنے کی جگہ ہے؟ (مرنے کی۔ سامعین) میت پڑی ہے اور قرآن کریم میں ہے کہ وہ کہیں گے کہ ہمیں سونے کی جگہ سے کس نے اٹھا دیا ہے؟
آپ قبرستان میں گئے ہوں گے تو وہاں کتبے لکھے ہوتے ہیں۔ وہاں ”مرقد“ لکھا ہوتا ہے۔ تو ”مرقد“ کا معنیٰ ہے سونے کی جگہ۔ تو یہ سونے کی جگہ ہے یا مرنے کی جگہ ہے؟ (مرنے کی جگہ ہے۔ سامعین) تو مرقد کیوں لکھتے ہیں؟ قرآن کریم میں
﴿مَنۡۢ بَعَثَنَا مِنۡ مَّرۡقَدِنَا﴾
ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس کی موت ایسے ہے جیسے سونے والے کی موت ہوتی ہے اور سونے والی کی موت یہ ہے کہ روح اندر نہیں ہوتی لیکن روح کا تعلق موجود ہوتا ہے، اس کی روح بھی اندر موجود نہیں لیکن روح کا تعلق موجود ہے۔
فرق یہ ہے کہ سونے والے کو زندہ مانتے ہیں آنکھ سے نظر آنے کی وجہ سے اور مرنے والے کوزندہ مانتے ہیں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے کی وجہ سے۔ حیات اُس میں بھی ہے اور حیات اِس میں بھی ہے، یہ نظر نہیں آ رہی کہ
﴿یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡغَیۡبِ﴾
ہے اور یہ سونے والے کی نظر آ رہی ہے۔ مشاہدے والی چیز کو ایمان نہیں کہتے، بِن دیکھے نبی کے فرمانے کی وجہ سے مانیں تو اس کو ایمان کہتے ہیں۔
اصحابِ کہف کا کتا:
﴿وَ کَلۡبُہُمۡ بَاسِطٌ ذِرَاعَیۡہِ بِالۡوَصِیۡدِ ؕ﴾
اصحابِ کہف جب چلے تو اصحاب کہف کے ساتھ ان کا کتا بھی تھا اور وہ بھی غار کے باہر پڑا ہوا تھا۔ اصحاب کہف کا کتا ان کے ساتھ کیوں تھا؟ مفسرین کہتے ہیں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ یہ چونکہ کھاتے پیتے گھرانوں کے لوگ تھے تو رکھوالی والا کتا بھی رکھا تھا اور جب یہ گئے تو کتا بھی پیچھے چلا گیا اور ان کی صحبت میں رہا لیکن اتنی بات طے ہے کہ ان ولیوں کی صحبت میں رہنے والے کتے کا تذکرہ بھی اللہ پاک نے قرآن میں فرما دیا ہے۔
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ معارف القرآن میں لکھتے ہیں کہ اگر ولی کی صحبت میں کتا آ جائے تو اس کے تذکرے اچھے ہوتے ہیں اور جب ولی کی صحبت میں انسان آ جائے تو بتائیں اس کے تذکرے کتنے اچھے ہوتے ہوں گے!
ان کے ساتھ بیٹھنے والا محروم نہیں ہوتا:
صحیح بخاری میں ایک روایت موجود ہے کہ کچھ فرشتے ایسے بھی ہیں جو ذکر کرنے والوں کو تلاش کرتے رہتے ہیں۔ جب وہ ایسی مجلس کو پا لیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہوں تو یہ فرشتے ایک دوسرے کو آواز دیتے ہیں کہ ادھر آ جاؤ! جو چیز تم تلاش کر رہے تھے وہ یہاں ہے۔ پھر وہ فرشتے ان ذاکرین کو آسمان دنیا تک اپنے پروں سے ڈھانپ لیتے ہیں۔ جب یہ مجلس ختم ہو جاتی ہے اور ذکر کرنے والے واپس چلے جاتے ہیں تو یہ فرشتے بھی آسمان کی طرف چڑھ جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کو اس محفل کا علم ہے لیکن اللہ پھر بھی ان فرشتوں سے پوچھتے ہیں کہ میرے بندے کیا کہہ رہے تھے؟ فرشتے کہتے ہیں یا اللہ! وہ لوگ آپ کی تسبیح بیان کر رہے تھے، آپ کی بڑائی بیان کر رہے تھے۔ اللہ پوچھتے ہیں کہ کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں: انہوں نے آپ کو نہیں دیکھا۔ اللہ فرماتے ہیں: اگر وہ مجھے دیکھ لیں تو کیا کریں گے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ یا اللہ! اگر وہ آپ کو دیکھ لیتے تو آپ کی عبادت زیادہ کرتے، آپ کا ذکر اور زیادہ کرتے۔
اللہ فرماتے ہیں کہ وہ لوگ مجھ سے کیا چیز مانگ رہے تھے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ وہ آپ سے جنت مانگ رہے تھے۔ اللہ پوچھتے ہیں: کیا انہوں نے میری جنت کو دیکھا ہے؟ فرشتے کہتے ہیں کہ نہیں دیکھا۔ اللہ فرماتے ہیں: اگر وہ جنت کو دیکھ لیتے تو ان کی کیفیت کیسی ہوتی؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اگر وہ دیکھ لیتے تو ان کی طلب اور زیادہ بڑھ جاتی۔ اللہ فرماتے ہیں: اچھا! یہ بتاؤ کہ وہ کس چیز سے پناہ مانگ رہے تھے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں: وہ جہنم کی آگ سے پناہ مانگ رہے تھے۔ اللہ پوچھتے ہیں: کیا انہوں نے جہنم کو دیکھا ہے؟ یا اللہ! انہوں نے جہنم کو نہیں دیکھا۔ اللہ فرماتے ہیں: اگر وہ جہنم کو دیکھ لیتے تو ان کی کیفیت کیا ہوتی؟ یا اللہ! اگر وہ جہنم کو دیکھ لیتے تو اس سے زیادہ پناہ مانگتے اور اس سے زیادہ خوف کھاتے۔
اللہ تعالی فرماتے ہیں: اے فرشتو! گواہ رہنا، میں نے انہیں بخش دیا ہے۔ ان میں سے ایک فرشتہ عرض کرتا ہے کہ ان میں فلاں بندہ بھی تھا جو ان کے ساتھ ذکر کرنے کے لیے وہاں نہیں بیٹھا تھا بلکہ اپنے کسی کام سے وہاں آ گیا تھا۔ تو اللہ فرماتے ہیں:
"هُمْ الْجُلَسَاءُ لَا يَشْقٰى جَلِيسُهُمْ ."81F
صحیح البخاری، رقم:6408
یہ ذکر کرنے والے اتنے بابرکت ہیں ان میں اپنے کام کے لیے بیٹھنے والا بھی محروم نہیں رہتا۔
جب ایک کتا اللہ کے ولی کی صحبت میں آ جائے تو اللہ اس کو محروم نہیں کرتے، انسان ولی کی صحبت میں آ جائے تو وہ محروم کیسے ہو سکتا ہے؟
کتا صاحب ِکمال ہو گیا پر اعتراض کا جواب:
یہاں پر ایک بات سمجھیں! خیبر پختونخواہ ضلع ہری پور میں میرا بیان تھا۔ بیان سے جب فارغ ہوا تو چند ایک نوجوان آئے۔ ان کے پاس دو تین کتا بیں تھیں۔ مجھ سے انہوں نے کہا: ہم نے بات کرنی ہے۔ میں نے کہا: کیا بات کرنی ہے؟ بندہ مولوی ہو تو بات کرنے کو بھی جی چاہتا ہے، اب ان سے کیا بات کریں؟
میں نے کہا: چلو آپ کا شوق بھی پورا کر لیں۔ کہنےلگے: ہمارے ہاتھ میں ”امداد المشتاق“حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ہے، آپ مانتے ہیں؟ میں نے کہا: میں مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو بھی مانتا ہوں اور ان کی ساری کتابوں کو بھی مانتا ہوں۔ آپ بسم اللہ پڑھیں، جو اعتراض ہے آپ شوق پورا کر لیں۔ کہتے ہیں: ”امداد المشتاق“ میں حضرت تھانوی صاحب نے حاجی امدا د اللہ صاحب مہاجر مکی کا ایک ملفوظ لکھا ہے کہ حاجی صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت جنید بغدادی بیٹھے تھے۔ ایک کتا سامنے سے گزرا۔ جنید بغدادی کی نگاہ اس کتے پر پڑ گئی تو وہ کتا اتنا صاحبِ کمال ہو گیا کہ شہر کے کتے اس کے پیچھے دوڑ پڑے۔ وہ کتا ایک جگہ بیٹھا تو باقی کتے اس کے ارد گرد حلقہ بنا کر بیٹھے اور مراقبہ کیا۔ 82F
امداد المشتاق: ص107
تو وہ کہنے لگے کہ دیکھو! کتنی غلط بات لکھی ہے۔
میں نے کہا: کیا غلط بات ہے اس میں؟ کہنے لگے: پہلی بات تو اس میں غلط یہ ہے کہ کتا کامل ہو گیا، کیا کبھی کتا بھی کامل ہو سکتا ہے؟ اور دوسری غلط بات یہ ہے کہ کتوں نے مراقبہ کیا، کیا کبھی کتے بھی مراقبہ کرتے ہیں؟
میں نے کہا: چلو قرآن سے پوچھ لیتے ہیں دونوں باتیں کہ حضرت تھانوی نے غلط بات کی ہے یا ٹھیک؟ کہنے لگا :قرآن سے پوچھتے ہیں؟ میں نے کہا: ہاں قرآن سے پوچھتے ہیں، جب قرآن پر اعتراض ہو تو دفاع دیوبند والے کرتے ہیں اور جب دیوبند والوں پر اعتراض ہو تو دفاع اللہ کا قرآن خود کرتا ہے۔ ( سبحان اللہ۔ سامعین)
میں نے کہا: ہمارے اکابرین جھوٹے نہیں تھے۔ اب سنو قرآن کیا کہتا ہے۔ اصحابِ کہف جو تھے وہ اس امت کے ولی ہیں یا گزشتہ امت کے؟ کہنے لگے کہ گزشتہ امت کے۔ میں نے کہا: ان کے ساتھ جو کتا ملا تھا اللہ نے قرآن میں جس کا ذکر کیا ہے تو یہ اس کا ذکر کیوں کیا ہے، اس کو اچھا سمجھ کر یا برا سمجھ کر؟کہا: اچھائی تھی تبھی تو ذکر کیا۔ میں نے کہا: اُس امت کے ولی کی صحبت میں کتا آ جائے تو بدل سکتا ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے ولی کی صحبت میں آ جائے تو کیوں نہیں بدلتا؟ قرآن کہتا ہے کہ وہ بدل گیا ہے اور تم ماننے کےلیے تیار نہیں ہو۔
پھر وہ مجھے کہنے لگا: جی کامل کیسے ہوا؟ میں نے کہا: تمہیں شک اس لیے پڑا ہے کہ تم سمجھتے ہو کہ انسان کامل ہے اور کتا ناقص ہے تو ناقص کو کامل کیسے کہہ دیا؟ کتے کو کامل کہنا یہ انسان کے مقابلے میں نہیں ہے، اس کتے کو کامل کہنا دوسرے کتوں کے مقابلے میں ہے، انسان کا مقابلہ انسان سے ہوتا ہے اور کتے کا مقابلہ کتے سے ہوتا ہے۔
جنرل کا مقابلہ جنرل سے کریں!
اس پرمجھے ایک واقعہ یاد آیا۔ جامعہ امدادیہ فیصل آباد کےمہتمم اور شیخ الحدیث حضرت مولانا نذیر احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ میرے استاذ ہیں۔ صدر ضیاء الحق کا جب حادثہ پیش آیا تو استاذ جی نے طلبہ کو جمع کر لیا اور فرمانے لگے کہ آج بہت بڑا ولی دنیا سے چلا گیا ہے۔ اب استاذ صاحب فرمانے لگے کہ تمہیں تعجب ہو گا کہ میں نے اسے کیسے ولی کہہ دیا ہے؟ وہ ڈاڑھی منڈاتا تھا تو ڈاڑھی منڈا ولی کیسے بن گیا؟ فرمایا: مجھے پتا ہے کہ تمہارے ذہن میں سوال آنا ہے۔ استاذ جی نے فرمایا کہ یہ شک تمہیں اس لیے پڑ رہا ہے کہ تم نے اس کا مقابلہ کیا ہے علماء سے اور شیخ الحدیث صاحب سے، جب اس کا مقابلہ علماء سے کریں گے تو پھر ولی نہیں ہوگا، آپ صدر کا مقابلہ دیگر صدور سے کریں پھر پتا چلے گا کہ وہ ولی تھا یا نہیں تھا؟
تاجر کا مقابلہ تاجر سے ہوتا ہے، افسر کا مقابلہ افسر سے ہوتاہے، مولوی کا مقابلہ مولوی سے ہوتاہے، انسان کا مقابلہ انسان سے ہوتا ہے اور کتے کا مقابلہ کتے سے ہوتاہے۔ اگر مولوی ہو اور ڈاڑھی منڈاتا ہو کہو نیک آدمی ہے تو کیا کوئی مان لے گا؟ (نہیں۔ سامعین) اور افسر ڈاڑھی منڈاتا ہو لیکن رشوت نہ کھاتا ہو، نماز پڑھتا ہو اور ماتحتوں کا خیال کرتا ہو تو کیا کہتے ہیں؟ جی بڑا نیک آدمی ہے۔ اگر کوئی کہے کہ اس کو نیک کیوں کہتے ہو؟ بھائی مصلے کے امام کی نیکی اور ہوتی ہے ، افسر کی نیکی اور ہوتی ہے۔ بات سمجھ آرہی ہے؟ ( جی۔ سامعین)
کتوں کا کمال اور ہوتا ہے اور انسانوں کا کمال اور ہوتا ہے۔ اگر کوئی کہے کہ کتا بڑا سمجھدار ہے۔ اب اس کا یہ معنیٰ تو نہیں کہ مسجد کے امام سے بھی بڑا سمجھدار ہے۔ سمجھداری کا معنیٰ یہ ہے کہ دشمن کو بھی سمجھتا ہے اور مالک کو بھی سمجھتا ہے۔
جانوروں کے سجدہ کرنے کا ذکر:
دوسری بات وہ مجھے کہنے لگا: کتا مراقبے میں چلا گیا، یہ قرآن کے خلاف ہے۔ میں نے کہا: کتے سجدے کرتے ہیں اور تو کہتا ہے کہ مراقبہ بھی نہیں کرتے۔ قرآن کریم میں ہے:
﴿اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللہَ یَسۡجُدُ لَہٗ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ وَ الشَّمۡسُ وَ الۡقَمَرُ وَ النُّجُوۡمُ وَ الۡجِبَالُ وَ الشَّجَرُ وَ الدَّوَآبُّ وَ کَثِیۡرٌ مِّنَ النَّاسِ﴾83F
الحج 22: 18
اللہ فرماتے ہیں کہ چوپائے اللہ کو سجدہ کرتے ہیں۔
قرآن کہتا ہے کہ جانور سجدے کرتے ہیں اور تو کہتا ہے کہ مراقبہ نہیں کرتے۔ مراقبہ کا معنیٰ گردن جھکا لینا ہے اور سجدے کا معنیٰ گردن کو زمین سے لگا دینا ہے، گردن کو زمین سے لگائے تو سجدہ ہو جاتا ہے اور گردن جھکائے تو مراقبہ کیوں نہیں ہوتا؟
میں نے کہا: حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہ کو سمجھنے کے لیے دیوبند کا دماغ چاہیے۔ آپ کا دماغ کام نہیں کرتا، اس کے لیے خوشبو دار دماغ چاہیے، بدبو دار دماغ سے کبھی بھی خوشبو سمجھ میں نہیں آتی۔
منکرینِ حیات کے اعتراض کا جواب:
﴿وَ کَذٰلِکَ بَعَثۡنٰہُمۡ لِیَتَسَآءَلُوۡا بَیۡنَہُمۡ ؕ قَالَ قَآئِلٌ مِّنۡہُمۡ کَمۡ لَبِثۡتُمۡ ؕ قَالُوۡا لَبِثۡنَا یَوۡمًا اَوۡ بَعۡضَ یَوۡمٍ ؕ قَالُوۡا رَبُّکُمۡ اَعۡلَمُ بِمَا لَبِثۡتُمۡ ؕ ﴾
اصحاب کہف جب بیدار ہوئے تو ان میں سے ایک نے پوچھا:
﴿کَمۡ لَبِثۡتُمۡ﴾
تم کتنا عرصہ سوئے ہو؟ دوسرے کہنے لگے:
﴿لَبِثۡنَا یَوۡمًا اَوۡ بَعۡضَ یَوۡمٍ﴾
ایک دن یا دن کا کچھ حصہ سوئے ہیں۔ کچھ کہنے لگے:
﴿رَبُّکُمۡ اَعۡلَمُ بِمَا لَبِثۡتُمۡ﴾
اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ تم کتنا عرصہ سوئے ہو!
مجھے بتاؤ! یہ زندہ تھے یا مردہ تھے؟ (زندہ تھے۔ سامعین) کیا ان کو پتا چلا کہ یہ کتنا عرصہ سوئے ہیں؟ (سامعین۔ نہیں) نہیں پتا چلا نا! اب ذرا ایک دلیل کا جواب آپ نے خود سمجھنا ہے۔ہم کہتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں۔ جو لوگ کہتے ہیں: انبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ نہیں ہیں۔ وہ ہمارے خلاف اپنی دلیل میں قرآن کی آیت پیش کرتے ہیں :
﴿اَوۡ کَالَّذِیۡ مَرَّ عَلٰی قَرۡیَۃٍ وَّ ہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوۡشِہَا ۚ قَالَ اَنّٰی یُحۡیٖ ہٰذِہِ اللہُ بَعۡدَ مَوۡتِہَا ۚ﴾84F
البقرۃ2: 259
حضرت عزیر علیہ السلام گزر رہے تھے، ایک تباہ شدہ بستی کو دیکھا، پوچھا: اللہ اسے کیسے زندہ کرے گا؟
﴿فَاَمَاتَہُ اللہُ مِائَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہٗ ؕ﴾
اللہ نے سو سال کے لیے ان کو موت دے دی۔ پھر اللہ نے زندہ کیا تو پوچھا: ﴿کَمۡ لَبِثۡتَ﴾ اے عزیر!کتنا عرصہ وہاں ٹھہرے ہو؟انہوں نے فرمایا: ﴿لَبِثۡتُ یَوۡمًا اَوۡ بَعۡضَ یَوۡمٍ﴾ اللہ! دن یا دن کا کچھ حصہ ٹھہرا ہوں۔ اللہ نے فرمایا: ﴿بَلۡ لَّبِثۡتَ مِائَۃَ عَامٍ﴾ نہیں بلکہ آپ سو سال تک ٹھہرے ہیں۔
اب منکرینِ حیات کہتے ہیں کہ حضرت عزیر علیہ السلام زندہ نہیں تھے۔ کیوں کہ اگر زندہ ہوتے تو انہیں پتا چل جاتا نا! میں نے پوچھا: بتاؤ اصحابِ کہف زندہ تھے یا نہیں؟ کہا: زندہ تھے۔ میں نے کہا: پھر پتا کیوں نہیں چلا؟آپ تو کہتے ہیں کہ حضرت عزیر علیہ السلام کو پتا نہیں چلا لہٰذا مردہ ہیں تو بتاؤ! اگر کوئی یہ کہے کہ اصحابِ کہف کو پتا نہیں چلا لہٰذا مردہ تھے تو مان لو گے؟کہا جی نہیں۔تو میں نے کہا کہ پتا نہ چلنا یہ مردہ ہونے کی دلیل نہیں ہے۔
آپ یہاں بیٹھے ہیں، آپ کو پتا ہے کہ میں نے کتنے منٹ تقریر کی ہے؟ (متکلمِ اسلام نے دو چار سامعین سے مخاطب ہو کر پوچھا تو جواب ملا کہ نہیں) اب آپ مردہ ہو گئے؟ (نہیں۔ سامعین) بھائی کسی چیز کا معلوم نہ ہونا یہ مردہ ہونے کی دلیل تھوڑی ہے۔ اللہ پاک دلوں کو زندہ فرمائے تو پھر یہ باتیں سمجھ میں آ جاتی ہیں۔
ایک عجیب نکتہ:
ایک اور عجیب نکتہ سنیں اور اس کو سمجھیں۔ قرآن کریم میں ہے:
﴿وَ اِنَّ یَوۡمًا عِنۡدَ رَبِّکَ کَاَلۡفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوۡنَ ﴿۴۷﴾﴾
الحج22: 47
اللہ فرماتے ہیں کہ ایک دن وہاں کا یہاں کے ہزار سال بنتے ہیں۔
اُس جہان کا ایک دن یہا ں کے؟ ( ہزار سال۔ سامعین) اور یہاں کے سو سال ہوں تو پھر وہاں کا کچھ حصہ بنے گا۔ تو عزیر علیہ السلام سے پوچھا:
﴿کَمۡ لَبِثۡتَ﴾
آپ کتنا ٹھہرے ہیں؟
انہوں نے فرمایا: ﴿لَبِثۡتُ یَوۡمًا اَوۡ بَعۡضَ یَوۡمٍ﴾
ایک دن یا دن کا کچھ حصہ ٹھہرا ہوں۔
عزیر علیہ السلام کہاں سے آئے تھے؟ (وہاں سے۔ سامعین) تو اللہ پاک وہاں کا پوچھ رہے تھے یا یہاں کا؟ (یہاں کا۔ سامعین) اللہ یہاں کا پوچھ رہے ہیں اور حضرت عزیر علیہ السلام وہاں کا بتا رہے ہیں، کیوں؟ اس لیے کہ ٹھہرے وہاں تھے تو بتایا بھی اسی جگہ کا ہے۔ اللہ نے فرمایا: میں وہاں کا نہیں بلکہ یہاں کا پوچھ رہا ہوں۔ تو وہاں کا ”بعض یوم“ ہے اور یہاں کا ”مأۃ عام“ ہے، وہاں کا کچھ ہے اور یہاں کا سو سال ہے۔ کوئی اختلاف ہے اس میں؟ (نہیں۔ سامعین) کتنی آسان سی بات ہے۔ قرآن سمجھ میں اپنی نہیں آتا اور اعتراض دوسروں پر کرتے ہیں۔ اللہ پاک قرآن سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین۔ سامعین)
قرآن کریم کا نصف حصہ:
﴿وَ لۡـیَ‍‍‍تَلَطَّفۡ﴾
یہ لفظ قرآن کریم کا نصف ہے۔ یہاں آدھا قرآن مکمل ہو گیا ۔ اس لفظ میں جو ”ت“ ہے وہ پہلے نصف میں ہے اور ”ل“ دوسرے نصف میں ہے۔ اور آپ تعجب کریں گے کہ جہاں قرآن کا بالکل درمیان ہے اللہ لفظ کیسے لائے ہیں
﴿وَ لۡـیَ‍‍‍تَلَطَّفۡ﴾
یہ لطف سے ہے۔ جب شروع ہےتو
﴿اَلۡحَمۡدُ لِلہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۱﴾﴾
اور جب ختم ہے تو
﴿قُلۡ اَعُوۡذُ بِرَبِّ النَّاسِ ۙ﴿۱﴾﴾
شان ربوبیت کو بیان کیا اور جب درمیان میں ہے تو لفظ لطف کو لائے ہیں
﴿وَ لۡـیَ‍‍‍تَلَطَّفۡ﴾۔
نرمی سے پیش آنا ذریعۂ نجات ہے:
اصحابِ کہف نے ایک بندے سے کہا: تم پیسے لے جاؤ اور پاک مال لے کر آنا اور ذرا نرمی سے معاملہ طے کرنا، تھوڑی سی بھی سختی کی تو پکڑے جاؤ گے۔ معلوم ہوتا ہے کہ سختی سے بندہ پکڑا جاتا ہےاور نرمی سے نکل جاتا ہے۔ اللہ کو سختیاں پسند نہیں ہیں اللہ کو نرمیاں پسند ہیں۔
یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ سختی اور ہوتی اور مضبوطی اور ہوتی ہے۔ میں نے سختی کا انکار کیا ہے یہ نہ ہو کہ آپ مضبوطی کا انکار کر دیں۔ ایک لوہے کی زنجیر ہوتی ہے اور ایک ریشم کا رسا ہوتا ہے۔ لوہے کی زنجیر سخت ہوتی ہے اور ریشم کا رسا مضبوط ہوتا ہے۔ مسلمان کو لوہے کی زنجیر نہیں بننا چاہیے، ریشم کا رسا بننا چاہیے، اپنے عقیدے پر مضبوط رہو، سختی نہ کرو۔
تو اللہ رب العزت اس لفظ کو درمیان میں لائے ہیں۔
اصحابِ کہف کی یاد میں مسجد بنانے میں حکمت:
﴿قَالَ الَّذِیۡنَ غَلَبُوۡا عَلٰۤی اَمۡرِہِمۡ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیۡہِمۡ مَّسۡجِدًا ﴿۲۱﴾﴾
جب اصحابِ کہف وفات پا گئے غار میں تو اب مشورہ ہوا کہ ان کی یادگار کے طور پر کوئی عمارت بنائیں۔ بالآخر فیصلہ یہ ہوا کہ یہاں بطورِ یادگار کے مسجد بنا لیں۔
مفسرین نے عجیب نکتہ لکھا ہے کہ ان کی یاد میں مسجد بنانے کا فیصلہ کیوں ہوا؟ کہا اس لیے کہ اس وقت چرچاہورہا تھا شرک اور توحید کا اور لڑائی ہو رہی تھی کہ اللہ دوبارہ زندہ کریں گے یا نہیں؟ تو چونکہ یہ زندہ مثال ان لوگوں کے لیے تھی کہ دیکھو! تین سو سال بعد اللہ نے ان کو زندہ کیا، اللہ مردے کو بھی زندہ کر سکتے ہیں۔ اگر یہاں پر مسجد نہ بناتے کوئی اور تعمیر کر لیتے تو ممکن تھا کہ لوگ ان کو سجدے کرنا شروع کر دیتے۔ مسجد بنائی یہ بتانے کے لیے کہ تم نے بھی سجدہ اس کو کرنا ہے جس کو سجدہ انہوں نے کیا تھا۔
حضرت امیر شریعت کا جملہ:
امیرِ شریعت مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ جب میں حضور کے رخسار دیکھتا ہوں تو جی کرتا ہے کہ سجدہ کر لوں، نبی کی زلفیں دیکھوں تو جی چاہتا ہے کہ جھک جاؤں لیکن جنگِ بدر میں انہی زلفوں کو زمین پر ٹیک کر نبی کو خدا سے مانگتے دیکھتا ہوں تو میں کہتا ہوں: عطاء اللہ! سجدہ اسے کر جسے یہ رخسار والا کر رہا ہے۔ مجھے پیغمبر کے سجدے نے اللہ کے سامنے جھکنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اللہ ہمیں یہ بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین۔ سامعین)
اصحابِ کہف کی تعداد:
﴿سَیَقُوۡلُوۡنَ ثَلٰثَۃٌ رَّابِعُہُمۡ کَلۡبُہُمۡ ۚ وَ یَقُوۡلُوۡنَ خَمۡسَۃٌ سَادِسُہُمۡ کَلۡبُہُمۡ رَجۡمًۢا بِالۡغَیۡبِ ۚ وَ یَقُوۡلُوۡنَ سَبۡعَۃٌ وَّ ثَامِنُہُمۡ کَلۡبُہُمۡ ؕ﴾
اصحابِ کہف کی تعداد کتنی تھی؟ قرآن کریم نے تین قول نقل کیے ہیں، بعض کہتے ہیں کہ تین تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا، بعض کہتے ہیں: پانچ تھے اور چھٹا کتا تھا اور بعض کہتے ہیں: سات تھے اور آٹھواں کتا تھا۔
اصحابِ کہف سات تھے... دلیل:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ قرآن میں ہے کہ میرے پیغمبر! آپ کہہ دیں :
﴿رَّبِّیۡۤ اَعۡلَمُ بِعِدَّتِہِمۡ﴾
صحیح تعداد ان کی اللہ ہی جانتا ہے،
﴿مَّا یَعۡلَمُہُمۡ اِلَّا قَلِیۡلٌ﴾
دنیا میں بہت کم لوگ ہیں جو ان کی تعداد کو جانتے ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
”اَنَا مِنَ الْقَلِیْلِ“
میں بھی ان چند لوگوں میں سے ہوں اور جانتا ہوں کہ کتنے تھے؟ وہ سات تھے اور آٹھوں ان کا کتا تھا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما دلیل یہ دیتے ہیں کہ جب اللہ نے پہلا اور دوسرا قول نقل کیا یعنی بعض کہتے ہیں: تین تھے اور چوتھا کتا تھااور بعض کہتے ہیں: پانچ تھے اور چھٹا کتا تھا تو اللہ نے فرمایا :
﴿رَجۡمًۢا بِالۡغَیۡبِ﴾
یہ اٹکل پچو والی باتیں ہیں اور جب تیسرا قول نقل کیا کہ وہ سات تھے اور آٹھواں کتا تھا تو اس کو اٹکل کی باتیں نہیں فرمایا۔ اس کو اٹکل کے جملے کے بعد فرمایا ہے۔ تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلے دو قول ٹھیک نہیں ہیں، تیسرا قول ٹھیک ہے۔
اور دوسری دلیل یہ ہے کہ فرمایا: جب یہ سوئے ہوئے تھے اور اٹھےتو
﴿قَآئِلٌ مِّنۡہُمۡ کَمۡ لَبِثۡتُمۡ﴾
ان میں سے ایک بندے نے کہا: تم کتنا عرصہ ٹھہرے ہو؟کتنے بندوں نے کہا؟ (ایک نے۔ سا معین)، پھر
﴿قَالُوۡا لَبِثۡنَا یَوۡمًا اَوۡ بَعۡضَ یَوۡمٍ﴾
یہاں ”قَالُوْا“ یہ جمع ہے، انہوں نے کہا: ہم ایک دن یا دن کا کچھ حصہ ٹھہرے ہیں۔ جمع کےکم از کم تین فرد ہوتے ہیں۔ پھر فرمایا:
﴿قَالُوۡا رَبُّکُمۡ اَعۡلَمُ بِمَا لَبِثۡتُمۡ﴾
دوسروں نے کہا: اللہ بہتر جانتا ہے کہ تم کتنا عرصہ ٹھہرے ہو! اب یہ تین جملے ہو گئے۔ ایک نے کہا: کتنا عرصہ ٹھہرے ہو؟ بعض نے کہا: ایک دن یا دن کا کچھ حصہ اور بعض نے کہا: اللہ بہتر جانتا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: پہلا قائل تو ایک تھا، دوسرا بھی جمع ہے اور تیسرا بھی جمع ہے اور جمع کے کم ازکم تین فرد ہوتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ تین جمع تین چھ ، جمع ایک ؛کُل سات ہوئے۔
حضرت ابن عباس کو حضور علیہ السلام کی دعا:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما یہ تفسیر کیوں فرماتے ہیں؟ یہ بھی سمجھ لیں! میں نے آپ کو سنایا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خالہ تھیں۔ ان کی والدہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کبھی بھیج دیتیں کہ جاؤ بیٹا! وہاں سو بھی جانا اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے رات کے اعمال بھی دیکھنا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اٹھے، قضائے حاجت کے لیے گئے، واپس تشریف لائے تو ابن عباس بچے تھے، انہوں نے لوٹا پانی کا بھر کر رکھ دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ پانی کس نے بھرا ہے؟
حضرت ابن عباس نے عرض کیا: میں نے بھرا ہے، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دعائیں مانگیں:
" اَللّٰهُمَّ فَقِّهْهُ فِي الدِّيْنِ وَعَلِّمْهُ التَّأْوِيْلَ"86F
المعجم الکبیر للطبرانی: ج5 ص 184 رقم الحدیث10467
اے اللہ! اس کو دین کا فقیہ بنا اور قرآن کا مفسر بنا!
جس کے لیے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ہو تو اگر اس پر بھی قرآن نہیں کھلنا تو بتاؤ قرآن کس پر کھلنا ہے؟
میں کہتا ہوں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے دعا کرائی نہیں تھی بلکہ دعا لی تھی، ہم دعائیں کراتے ہیں دعائیں لیتے نہیں ہیں، دعائیں کرانے کے بجائے دعائیں لینا سیکھ لو! دعا لینے کا مزہ اپنا ہوتا ہے اور دعا کرانے کا مزہ اپنا ہوتا ہے۔ اللہ ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
ہر نیک کام سے پہلے ان شاء اللہ کہنے کی تاکید:
﴿وَ لَا تَقُوۡلَنَّ لِشَایۡءٍ اِنِّیۡ فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَدًا ﴿ۙ۲۳﴾ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ ۫﴾
اللہ نے فرمایا: اے میرے محمد! جب بھی آپ نے کوئی کام کرنا ہو تو یہ کہا کریں ”ان شاء اللہ“ اور ان شاء اللہ کہے بغیر کوئی کام نہ کیا کریں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان شاء اللہ نہیں کہا تو سترہ دن وحی بند ہو گئی۔ یہ ناراضگی نہیں تھی بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سمجھانا مقصود تھا۔ جتنا کسی کا مقام ہوتا ہے سمجھانا اسی طرز کا ہوتا ہے۔ اللہ ہمیں یہ بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
جب کوئی کام کرنا ہو تو ان شاء اللہ کہا کرو اور جب کوئی کام کرلو تو پھر ماشاءاللہ کہا کرو۔ ہمارے بعض لوگ ما شاء اللہ اور ان شاء اللہ میں فرق نہیں کرتے۔
ایک حکایت:
کہتے ہیں کہ ایک بندے کے پاس پیسے تھے۔ کسی نے پوچھا: کہاں جا رہے ہو؟ کہا: منڈی جا رہا ہوں گھوڑا خریدنے کے لیے۔ تو اس نے کہا: بھائی! ان شاء اللہ کہا کرو! اس نے کہا: پیسے جیب میں ہیں،اب کیا ان شاء اللہ کہنا ہے۔ خیر وہ منڈی چلا گیا تو جیب کٹ گئی۔ جب شام کو واپس آیا تو لوگوں نے پوچھا: گھوڑا خریدا؟ اس نے کہا: ان شاء اللہ جب میں بازار گیا تو ان شاء اللہ میں جب وہاں پہنچا تو ان شاء اللہ میری جیب کٹ گئی۔ لوگوں نے کہا: جیب کٹ گئی اب ان شاء اللہ کہنے سے کچھ بھی نہیں ہو گا، جب جیب میں مال ہو تو بندہ ان شاء اللہ نہیں کہتا اور جب جیب کٹ جائے تو پھر ان شاء اللہ ان شاء اللہ کہتا ہے۔ (مسکراہٹ از سامعین) اللہ ہم سب کو جب کام اچھا کریں تو ان شاء اللہ کہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
برا کام کرنا نہیں چاہیے اور کبھی کریں تو پھر ان شاء اللہ نہ کہیں، گندے کام پر وعدوں کی ضرورت نہیں ہے، اچھے کاموں پر وعدوں کی ضرورت ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو قرآنِ کریم سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ( آمین)
دو آدمیوں کا قصہ:
﴿وَ اضۡرِبۡ لَہُمۡ مَّثَلًا رَّجُلَیۡنِ جَعَلۡنَا لِاَحَدِہِمَا جَنَّتَیۡنِ مِنۡ اَعۡنَابٍ وَّ حَفَفۡنٰہُمَا بِنَخۡلٍ وَّ جَعَلۡنَا بَیۡنَہُمَا زَرۡعًا ﴿ؕ۳۲﴾﴾
اللہ رب العزت نے ان آیات میں دو آدمیوں کا واقعہ بیان فرمایا ہے ہمیں سمجھانے کے لیے۔ ان میں ایک شخص وہ تھا جس کے پاس زمین بھی ہے، باغات بھی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ساری نعمتیں موجود ہیں لیکن وہ ان نعمتوں کی قدر کرنے کے بجائے کفریہ کلمات کہتا اور ان انعامات کو اللہ کی جانب سےسمجھنے کے بجائے اپنی محنت کی بنیاد سمجھتا اور اس کا خیال یہ تھا کہ میرے پاس جو دولت موجود ہے شاید اس پر کبھی زوال نہیں آئے گا۔
مدِ مقابل اہل حق اور نیک آدمی تھا، اس نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ دیکھ! اللہ نے تجھے ایک نطفہ سے پیدا فرمایا، اللہ نےتجھے مرد بنایا، اللہ نے تجھے دولت عطا فرمائی، اس پر تجھے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور جب تو اللہ کی دی ہوئی نعمت اور باغات کو دیکھے تو تجھے”ما شاء اللہ لا حول ولا قوۃ الا باللہ “ کہنا چاہیے اور اللہ کی نعمت کا شکر اد ا کرنا چاہیے۔ لیکن اس کے دماغ میں یہ تھا کہ میرے پاس دولت موجود ہے اور یہ ہمیشہ رہے گی لیکن اس کا احساس اس کو اس وقت ہوا جب اللہ رب العزت نے ان نعمتوں کو چھین لیا، باغات کو ختم کر دیا اور یہ خالی ہاتھ رہ گیا اور اس وقت یہ کہہ رہا تھا:
﴿یٰلَیۡتَنِیۡ لَمۡ اُشۡرِکۡ بِرَبِّیۡۤ اَحَدًا ﴿۴۲﴾﴾
اے کاش! میں اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا، اے کاش! میں اللہ کی نعمت کی قدر کر لیتا، لیکن اللہ فرماتےہیں:
﴿وَ لَمۡ تَکُنۡ لَّہٗ فِئَۃٌ یَّنۡصُرُوۡنَہٗ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ وَ مَا کَانَ مُنۡتَصِرًا﴿ؕ۴۳﴾﴾
جب اللہ کی گرفت آ جائے پھر اللہ سے چھڑانے والا کوئی نہیں ہوتا۔
ہر وقت اللہ کا شکر ادا کیا جائے:
جب اللہ نعمتیں عطا فرمائے اس وقت انسان کو چاہیے کہ وہ اللہ کا شکر ادا کرے، جب نعمتیں چھن گئیں اب رونے سے کیا بنے گا؟ اس میں ہمیں یہ بات سمجھائی ہے کہ اللہ کی عطا کردہ نعمت کو اللہ کی طرف سے سمجھیں، اللہ کی ان نعمتوں میں جو خدا نے ہمارے ذمے حق لگائے ہیں ان حقوق کو ادا کریں، جس طرح ہم مال کے آنے پر خوش ہوتے ہیں اسی طرح اللہ کے حکم پر مال دینے میں بھی خوش ہونا چاہیے۔
دنیا کی بے ثباتی کی مثال:
﴿وَ اضۡرِبۡ لَہُمۡ مَّثَلَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا کَمَآءٍ اَنۡزَلۡنٰہُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخۡتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الۡاَرۡضِ فَاَصۡبَحَ ہَشِیۡمًا تَذۡرُوۡہُ الرِّیٰحُ ؕ وَ کَانَ اللہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ مُّقۡتَدِرًا ﴿۴۵﴾﴾
اللہ رب العزت نے مثال دے کر دنیا وآخرت کو سمجھایا ہے۔ فرمایا: ان لوگوں کے سامنے دنیا کی یہ مثال پیش کرو کہ دنیا کی مثال بالکل ایسے ہے جیسے ہم نے آسمان سے بارش برسائی تو اس سے زمین ہری بھری ہو گئی لیکن ایک وقت آتا ہے کہ وہ ہریالی سب ختم ہوجاتی ہے اور وہ سبزہ ایسا ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے کہ ہوائیں چلتی ہیں تو اسے اڑا لے جاتی ہیں۔
اللہ نے آپ کو مال بھی دیا ہے، اللہ نے دولت بھی دی ہے، یہ دنیوی زندگی کی رونق ہے، اس نے ختم ہو جانا ہے اور باقی کیا رہے گا؟ فرمایا:
﴿وَ الۡبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیۡرٌ عِنۡدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَّ خَیۡرٌ اَمَلًا ﴿۴۶﴾﴾
اولاد بھی چلی جائےگی اور دولت بھی چلی جائے گی لیکن جو نیک عمل اللہ کے پاس بھیجا ہے وہ عمل باقی رہ جائے گا۔ اس لیے اولاد سے محبت کرنی چاہیے، مال سے محبت کرنا کوئی جرم نہیں ہے لیکن مال کا غلط استعمال کرنا جرم ہے۔
﴿وَ وُضِعَ الۡکِتٰبُ فَتَرَی الۡمُجۡرِمِیۡنَ مُشۡفِقِیۡنَ مِمَّا فِیۡہِ﴾
فرمایا: جب قیامت کے دن اعمال نامے کھولے جائیں گے تو مجرم اپنے اعمال نامہ کو دیکھ کر ڈر جائے گا اور کہے گا :
﴿یٰوَیۡلَتَنَا مَالِ ہٰذَا الۡکِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیۡرَۃً وَّ لَا کَبِیۡرَۃً اِلَّاۤ اَحۡصٰہَا﴾
ہائے ہماری بربادی! میرے نامہ اعمال میں تو ہر قسم کا عمل لکھ دیا گیا ہے۔
﴿وَ وَجَدُوۡا مَا عَمِلُوۡا حَاضِرًا ؕ وَ لَا یَظۡلِمُ رَبُّکَ اَحَدًا ﴿٪۴۹﴾﴾
جتنے اعمال انہوں نے کیے ہوں گے وہ سارے اعمال اپنے سامنے رکھے ہوئے پائیں گے اور اللہ کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرے گا۔
قیامت کے دن ایک جھگڑالو شخص کا حال:
حدیث پاک میں ہے کہ قیامت کے دن بھی بعض لوگ ایسے جھگڑالو ہوں گے کہ اللہ رب العزت جب انہیں فرمائیں گے: تم نے کیا کیا؟ تو وہ کہے گا: میں تیری توحید پر ایمان لایا، تیرے نبیوں کو میں نےمانا ہے، میں نے نیک اعمال کیے ہیں۔ اللہ نامۂ اعمال کھول کر رکھیں گے کہ تیرے نامہ اعمال میں توحید بھی نہیں ہے، میرے پیغمبر پر ایمان لانا بھی نہیں ہے، میرے نبی کی اطاعت کرنا بھی نہیں ہے، تیرے نامہ اعمال میں کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ کہے گا کہ نامۂ اعمال کا مجھے نہیں پتا، میں نے کبھی نہیں دیکھا لیکن جو بات میں کہتا ہوں بالکل سچی ہے۔
اللہ رب العزت فرمائیں گے: فرشتو! تم گواہی دو۔ فرشتے کہیں گے کہ یہ شخص جھوٹ بولتا ہے، نہ اس کے پاس توحید تھی نہ نبی پر ایمان تھا اور نہ ہی یہ نیک اعمال کرتا تھا۔ وہ کہے گا: فرشتوں کو میں نے کبھی دیکھا ہی نہیں، اللہ! یہ کہاں سے آپ گواہ لے کر آئے؟ اللہ لوح محفوظ رکھ دیں گے کہ یہ دیکھ اس میں سارا کچھ لکھا ہوا ہے۔ وہ کہے گا کہ اللہ آپ کا تو وعدہ ہے کہ آپ کبھی بندے پر ظلم نہیں کرتے تو جو چیزیں میں نے دیکھی نہیں وہ میرے خلاف گواہ کیسے بن گئی ہیں؟ تو یہ شخص قیامت کو بھی جھگڑے گا۔
پھر حدیث پاک ہے میں کہ اللہ اس کی زبان پر مہر لگا دیں گے۔ اب اس کے ہاتھ بولیں گے کہ گناہ کیا تھا؟ اللہ فرمائیں گے کہ اب ان کو جھٹلا! انسان کے جسم کے اعضاء بولیں گےکہ اللہ! اس نے ہم سے گناہ کیا تھا۔ اللہ فرمائیں گے: اب اس کو جھٹلا! لیکن یہ شخص ان گواہوں کو جھٹلا نہیں سکے گا۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ بد اعمالیوں اور بد کرداری کی وجہ سے اس کے اپنے اعضاء کی گواہی کے بعد اللہ پاک اس کو جہنم میں ڈال دیں گے اور اس کے مدِ مقابل رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" اِذَا تَابَ الْعَبْدُ أَنْسَى اللهُ الْحَفَظَةَ ذُنُوْبَهٗ وَأَنْسٰى ذٰلِكَ جَوَارِحَهٗ وَمَعَالِمَهٗ مِنَ الْأَرْضِ حَتّٰى يَلْقَى اللهَ وَلَيْسَ عَلَيْهِ شَاهِدٌ مِنَ اللهِ بِذَنْبٍ" 87F
کنز العمال: ج4 ص 87 رقم 10175
جب بندہ اپنے گناہوں سے تو بہ کرتا ہے تو اللہ فرشتوں کو اس کے گناہ بھلا دیتے ہیں، جسم کے گناہ کو بھلا دیتے ہیں، اللہ زمین کو گناہ بھلا دیتے ہیں، قیامت کے دن یہ بندہ اس حال میں خدا کے پاس جائے گا کہ کوئی اس کے خلا ف گواہی دینے والا نہیں ہو گا۔ اللہ ساری گواہی ختم کردیں گے۔ اللہ ہم سب کو گناہوں سے بچنے اور توبہ کرنے کی تو فیق عطا فرمائے۔ (آمین۔ سامعین)
حضرت موسیٰ و حضرت خضر علیہما السلام کا واقعہ:
اب یہاں آیت نمبر 60 سے آیت نمبر 82 تک حضرت موسیٰ و حضرت خضر علیہما السلام کا واقعہ اللہ رب العزت نے تفصیل سے بیان کیا ہے۔آپ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا نام بھی سنا ہے، حضرت خضر علیہ السلام کا نام بھی سنا ہے۔
حضرت خضر علیہ السلام کے بارے میں آپ نے بہت ساری بے جا باتیں بھی سنی ہیں۔ میں ان کا بھی تذکرہ کروں گا بلکہ آپ کو حیرانی ہو گی کہ بسا اوقات لوگ مصافحہ کر تے وقت انگوٹھا دباتے ہیں۔ ہم پوچھے ہیں: کیوں دبایا؟ کہتے ہیں: چیک کرتے ہیں کہ خضر تو نہیں ہے۔ میں نے کہا: انگوٹھوں سے خضر تھوڑی بنتے ہیں! پھرتو جن کے انگوٹھے کٹے ہوتے ہیں وہ سارے خضر بن جائیں گے۔ یہ بالکل غلط مشہور کر رکھا ہے کہ خضر علیہ السلام کا انگوٹھا نہیں ہو گا یا انگوٹھے کی ہڈی نہیں ہو گی۔ بھائی! آپ مجھے جانتے ہیں کہ میں کہاں کا ہوں، میرے انگوٹھے پر آپ کیسے فیصلہ کریں گے؟ میں آپ کو جانتا ہوں کہ آپ کون ہیں، انگوٹھے پر فیصلہ کیسے ہو گا؟ ہماری قوم بھی عجیب ہے۔ اللہ ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
پورے واقعہ کا پہلے خلاصہ سن لیں، پھر میں آپ کی خدمت میں قرآنِ کریم کی آیات پیش کرتا ہوں:
صحیح بخاری میں حدیث موجود ہے۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیٰ نبینا وعلیہ السلام بنی اسرائیل کو بیان ووعظ فرما رہے تھے، دین کی دعوت دے رہے تھے، ان میں سے ایک شخص نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا کہ آپ سے بڑا عالم بھی کوئی ہے؟ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھ سے بڑا عالم کوئی نہیں ہے اور یہ بات موسیٰ علیہ السلام کی بجا تھی کیونکہ موسیٰ علیہ السلام نبی و رسول ہیں، کلیم اللہ ہیں، تورات ان پرنازل ہوئی ہے، بات بالکل بجا تھی لیکن موسیٰ علیہ السلام کا اس طرح بات کہنا اللہ کو پسند نہیں آیا۔
کیوں؟ اس لیے کہ یہ دعویٰ یوں نہیں کرنا چاہیے تھا بلکہ موسیٰ علیہ السلام یوں فرماتے: میرے علم کے مطابق میرے خیال میں تو مجھ سے بڑا عالم نہیں ہے یا فرما دیتے کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن موسیٰ علیہ السلام نے جس انداز میں فرمایا کہ مجھ سے بڑا کوئی عالم نہیں اللہ رب العزت کو یہ ادا پسند نہیں آئی۔ اس ادا پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عملاً تربیت کا فیصلہ فرمایا۔ انسان جتنا بڑا ہوتا ہے اس کی تربیت بھی اتنی ہی سخت ہوتی ہے۔
مقامِ ناز اور مقامِ نیاز:
موسیٰ علیہ السلام اللہ کے محبوب بھی ہیں، اللہ کے لاڈلے بھی ہیں، کلیم اللہ بھی ہیں اور موسیٰ علیہ السلام اللہ کے ناز والے پیغمبر ہیں۔ ایک ہوتے ہیں نیاز والے اور ایک ہوتے ہیں ناز والے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام مقام ِ نیاز پرتھے، نیاز والا ہر بات کو قبول کرتا ہے اور بولتا نہیں ہے اور مقامِ ناز والا ہر بات پر بول کے پوچھتا ہے۔
ابراہیم علیہ السلام مقامِ نیاز پر تھے۔ میں نے ایک بات عرض کی تھی شاید آپ کو یاد ہو کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب معراج سے واپس تشریف آئے تو ابراہیم علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کو پچاس نمازوں کے بارے میں بتایا۔ ابراہیم علیہ السلام نے کوئی بات نہیں کی لیکن موسیٰ علیہ السلام بول پڑے کہ یہ قوم پچاس نمازیں نہیں پڑھے گی، اللہ سے کم کروا لیں۔ یہاں موسیٰ علیہ السلام کیوں بولے؟ اس لیے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام مقامِ ناز پر تھے تو ناز والے بولا کرتے ہیں، ناز والے سوالات کیا کرتے ہیں۔
آپ کسی شیخ کے مرید دیکھ لیں، کسی عالم کے عقیدت مند دیکھ لیں، کسی باپ کے بیٹے دیکھ لیں! ہر مرید ایک جیسا نہیں ہے۔ بعض مرید ہر بات پر جی جی کہتے ہیں اور بولتے نہیں ہیں اور بعض مرید تھوڑے سے بے جھجھک ہو کر بات کر لیتے ہیں۔ تو دونوں کے قسم کے مرید ہوتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے پیغمبر بھی دونوں قسم کے ہیں۔
مجمع البحرین میں خضر علیہ السلام سے ملاقات:
موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ مجھ سے بڑا کوئی عالم نہیں ہے۔ اللہ نے فرمایا: اچھا! تم سے بڑا کوئی عالم نہیں ہے تو تم اس جگہ پر جاؤ جو دو سمندروں کے ملنے کی جگہ ہے،
﴿مَجۡمَعَ الۡبَحۡرَیۡنِ﴾
دو سمندروں کے ملنے کی جگہ ہے۔
مفسرین کے اس پر کئی اقوال ہیں کہ کون سی جگہ ہے؟ لیکن ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ کون سی جگہ ہے۔ فرمایا کہ اس جگہ پر جاؤ اور اس کی علامت یہ ہے تمہارے پاس جو مچھلی موجود ہو گی یہ تمہارے پاس سے نکلے گی اور سرنگ بنا کر دریا میں داخل ہو جائے گی۔ جس جگہ پر مچھلی جائے وہاں تمہیں ہمارا ایک بندہ ملے گا اور وہ تم سے بھی بڑا عالم ہو گا، ان کے پاس وہ علم ہوگا جو تمہارے پاس بھی نہیں ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے ساتھ اپنے خادم یو شع بن نون بن افرائیم بن یوسف کو لیا۔ یہ حضرت یوسف علیہ السلام کے پڑ پوتے ہیں۔ بعض روایات میں ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نہیں بلکہ بھانجے تھے۔ یہ موسیٰ علیہ السلام کی خدمت پر مامور تھے۔ موسیٰ علیہ السلا م نے فرمایا کہ چلو! چلنا ہے۔ کہاں جانا ہے؟ جہاں دو دریاؤں کی ملنے کی جگہ ہے۔ کیوں جانا ہے؟ یہ ہمارا مقصد ہے۔
خادم کو بتانا چاہیے کہ کہاں جانا ہے!
مفتی اعظم پاکستان مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ نے بڑی عجیب بات لکھی ہے۔ فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنے خادم کو بتا دیا کہ کہاں جانا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تواضع اور ادب دیکھیں کہ خادم کو بتایا۔ فرمایا: آج اگر خادم پوچھے کہ کہاں جانا ہے؟ تو کہتے ہیں کہ تو کون ہوتا ہے پوچھنے والا؟ تو کون ہوتا ہے بک بک کرنے والا؟ بس تو گاڑی چلا جو تیرے ذمے کام ہے۔
ہم موسیٰ علیہ السلام سے تو بڑے مخدوم نہیں ہیں، انہوں نے اپنے خادم کو بتا دیا کہ میں نے فلاں جگہ جانا ہے۔ اس لیے خادم کو بتانا یہ ادب کے خلاف نہیں ہے۔ اس کی حوصلہ افزائی کا سبب ہے کہ میں نے فلاں جگہ جانا ہے۔ اسی حساب سے گاڑی سیٹ کرے گا، اسی حساب سے خدام تیاری کریں گے ورنہ وہ تیاری نہیں کریں گے۔ پھر آپ غصے بھی ان پر ہوں گے، ہاں اگر کوئی خفیہ سفر ہو تو پھر بتانا ضروری نہیں ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے بھی فرمایا کہ آپ مدینہ منورہ میں ہیں۔ مزاجِ مبارک یہ تھا کہ جب آپ نے جنگی سفر کرنا ہوتا تو صحابہ کے درمیان میں بیٹھ کر مشورہ کرتے، مشرق کی طرف کا راستہ کتنا ہے، سفر کتنا ہے، راستہ میں مقامات کیسے ہیں؟ کیوں کہ اندر جو منافق موجود ہیں، وہ دشمن کو اطلاع نہ کریں کہ تمہارےاوپر حملہ ہے۔ مشورہ مشرق کا ہوتا لیکن صبح جب سواری پر سوار ہوتے تو سفر مغرب کا ہوتا، یہ عمومی مشورہ ہوتا تھا لیکن دو چار جو خاص لوگ ہوتے تھے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما وغیرہ یہ روزانہ کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کے شوریٰ کے آدمی تھے، روزانہ ان کے ساتھ مشورہ سارے امور پر چلتا تھا ورنہ عموماً آپ مشورہ ایسے فرماتے تھے۔
مردہ مچھلی زندہ ہو کر پانی میں چلی گئی:
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت یوشع علیہ السلام سے فرمایا: چلو! انہوں نے تیاری کی، ایک مچھلی ساتھ لے لی، اس مچھلی کو تیار کر لیا کہ سفر میں کھائیں گے۔ اللہ رب العزت نے یہ تو فرمایا تھا کہ دو دریاؤں کی ملنے کی جگہ ہے اور یہ علامت بھی بتا دی تھی کہ مچھلی ہو گی وہ دریا میں چلی جائے گی لیکن یہ نہیں بتایا کہ بطورِ متعین کون سا وقت ہو گا، کون سی خاص جگہ ہو گی؟
یہ چلتے رہے۔ راستہ میں ایک جگہ پر موسیٰ علیہ السلام نے آرام کیا اور خادم صاحت جاگتے رہے۔ اچانک ان کے سامان والے تھیلے سے مردہ مچھلی زندہ ہوئی اور دریا میں سرنگ بنا کر اندر چلی گئی۔ اب بتاؤ! دریا میں تو کبھی سرنگ نہیں ہوتی، سرنگ تو پہاڑوں میں ہوتی ہے لیکن موسیٰ علیہ السلام نبی تھے اور یہ سارے واقعات خرقِ عادت پیش آ رہے تھے۔ اس خادم نے دیکھا اور بتانا بھول گیا۔ موسیٰ علیہ السلام اٹھے اور چل دیے۔
حدیث پاک میں ہے کہ ایک دن اور ایک رات کا سفر طے کیا تو موسیٰ علیہ السلام پر تھکاوٹ کے آثار ہوئے، پہلے لمبا سفر کیا تو تھکاوٹ کے آثار بھی نہیں ہیں، بھوک اور پیاس نے بھی نہیں ستایا اور اب منزل سے آگے بڑھے تو تھکاوٹ ہو گئی۔ اپنے خادم سے فرمانے لگے کہ ہمارا ناشتہ لاؤ، کھانا لاؤ! اس نے کہا: اوہو میں تو بتانا ہی بھول گیا، وہ تو کل کی بات ہے کہ مچھلی دریا میں چلی گئی تھی۔ موسیٰ علیہ السلام نے ڈانٹا نہیں بلکہ فرمایا کہ چلو! فوراً سفر واپس کرو، اسی جگہ کی تلاش میں تو ہم نکلے تھے۔
مفسرین نے لکھا ہے کہ اگر وہ بھولے تھے تو موسیٰ علیہ السلام بھی تو بھول گئے تھے، وہ مچھلی بتانا بھولا لیکن موسیٰ علیہ السلام نے بھی تو نہیں پوچھا کہ ہم جا رہے ہیں مچھلی تمہارے پاس نہیں ہے، وہ سامان کدھر ہے؟ ان کو بھی خیال نہیں آیا تو یہ بھول گئے اور وہ بھی بھول گئے۔ موسیٰ علیہ السلام مچھلی کا پوچھنا بھول گئے اور وہ مچھلی کا سمندر میں جا نا بھول گئے۔
لیلۃ التعریس کا واقعہ:
یہ بالکل ایسے ہے جیسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ا یک سفر پر جا رہے تھے، راستہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام فرمایا، رات کا آخری پہر تھا، اب صبح صادق میں کچھ وقت باقی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آرام کرو اور ایک جا کر بیٹھے اور ہمار ا پہر ہ دے۔ جب اذان ہو جائے تو وہ اٹھائے۔ کون پہرہ دے گا؟ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور! میں جگا ؤں گا۔ فرمایا: ٹھیک ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی سو گئے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی سو گئے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اپنا کجاوہ لیا اور کجاوہ سے ٹیک لگا لی اور مشرق کی طرف منہ کر کے بیٹھ گئے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ بھی سو گئے۔ ادھر سورج نکلا تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھلی۔ فرمایا کہ بلال! کیا ہوا؟ تم تو بیٹھے تھے ہمیں اٹھانے کےلیے اور تم بھی سو گئے؟ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! جس اللہ نے آپ کو سلایا اس اللہ نے مجھے بھی سلا دیا، آپ بھی سو گئے ، ہم بھی سو گئے۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اذان دو! اذان دی۔ فرمایا: سنتیں پڑھو! سنتیں پڑھیں۔ اقامت کہو، اقامت کہہ دی گئی۔ فرمایا: اب فجر کی نماز ادا کرو۔88F
صحیح مسلم، رقم : 680، وغیرہ
علماء نے لکھا ہے کہ اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کے وقت بھولنا سمجھ نہیں آتا لیکن اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم بھولے نہیں ہیں خدا نے بھلایا ہے۔ عملاًامت کو سمجھانے کے لیے کہ اگر کسی موقع پر پوری جماعت کی نیند نہ کھلے اور پوری جماعت کی نماز قضاء ہو جائے تو اب ان کو نماز کیسے پڑھنی چاہیے؟ اللہ کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات صرف زبان مبارک سے نہیں بلکہ عمل سے بات سمجھائی ہے۔ بہت سارے کام اللہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عملاً یوں کرواتے ہیں تاکہ امت کو مسائل سمجھ میں آ جائیں اور اس سے پیغمبر کو اجر ملتا ہے جب نبی عمل سے ایک بات کو سمجھاتے ہیں۔
بیٹھ کر نفل پڑھیں تو آدھا ثواب ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر نفل پڑھیں تو پورا ثواب ہے۔ یہ فرق کیوں ہے؟ علماء نے وجہ لکھی ہے کہ ایک ہے بیٹھ کر نفل پڑھنے کا اجر اور دوسرا ہے امت کو تعلیم دینے کا اجر۔ تو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا اجر ڈبل ہو جاتا ہے اور امتی کا اجر سنگل رہتا ہے۔
میں اس لیے کہتا ہوں کہ عوام جتنا بھی نیک عمل کر لے کبھی بھی عالم کے برابر ان کے اعمال نہیں پہنچ سکتے۔ یہ بات ذہین نشین فرما لیں! اگر عالم جمعہ کے دن صبح تین گھنٹے سو بھی جائے تو آپ کے نوافل اس کے برابر نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ عالم سوئے گا، پھر غسل کرےگا، مطالعہ کرے گا اور تازہ دم ہوکر ان کو درسِ قرآن دے گا، مسائل سمجھائے گا۔ اب یہ جو مسجد میں پانچ سو بندہ آیا ہے تو عالم تازہ دم ہو کر مسئلے بتا رہا ہے، اس کا سونا اپنے لیے نہیں تھا اس کا سونا بھی آپ کے لیے تھا۔ عالم کی عبادت کا آپ تصور نہیں کر سکتےکہ اس کی عبادت کا اللہ نے کیا اجر عطا فرمایا ہے! اللہ تعالی یہ باتیں ہمیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ( آمین)
عالم اور غیر عالم میں فرق:
عام بندہ اس بات کو نہیں سمجھتا! بالکل ا س کا وہی مزاج بنتا ہے جو مشرکین کا مزاج تھا۔ مشرکین کامزاج یہ تھا کہ ہم میں اور نبی میں کیا فرق ہے؟ ہم سوتے ہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی سوتے ہیں، ہم کھاتے ہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی کھاتے ہیں، ہم نکاح کرتے ہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی نکاح کرتے ہیں، ہم بازار جاتے ہیں نبی بھی بازارجاتے ہیں، ہم نے کام کیا نبی نے بھی کام کیا۔
جو دھوکا اس مشرک کو تھا یہی دھوکا آج عوام کو بھی لگتا ہے۔ ہم میں اور مولانا صاحب میں کیا فرق ہے؟ یہ نماز پڑھاتا ہے اور تنخواہ لیتا ہے ہم دکان پر جاتے ہیں تو تنخواہ لیتے ہیں۔ دونوں ہی تنخواہ لیتے ہیں، جو دھوکا اُن کو تھا وہی دھوکا اِن کو ہے۔ ان کو دھوکا لگا تو وہ نبوت کی صحبت سے محروم ہو گئے اور آج دھوکا لگے گا تو عالم کے علم سے محروم ہوں گے۔ اس عالم کے علم میں کیا فرق پڑے گا؟ لیکن ہلکی سی بے ادبی سے اللہ علم سے محروم کر دیتا ہے۔ اللہ ہمیں علم بھی عطا فرمائے، اللہ ہمیں ادب بھی عطا فرمائے۔ (آمین)
ملاقات ہو گئی:
موسیٰ علیہ السلام واپس تشریف لائے۔ یوشع بن نون ان کے ساتھ تھے۔ وہاں دیکھا کہ ایک بندہ پاؤں سے لے کر سر تک چادر اوپر لے کر سویا ہوا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے جا کر کہا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! انہوں نے سلام کا جواب دیا اور تعجب کیا کہ اس ویرانے میں کون ہے جس نے مجھے سلام کیا۔ پوچھا کون ہو؟ انہوں نے کہا: میں موسیٰ ہوں۔ انہوں نے کہا: کون سے موسیٰ؟ جواب دیا: بنی اسرائیل کا نبی۔ انہوں نے پوچھا: ہمارے پاس کیسے آنا ہوا؟ انہوں نے کہا: کچھ علم آپ کے پاس ہے جو ہمارے پاس نہیں، ہمیں اللہ نے بھیجا ہے وہ علم آپ سے سیکھنا ہے۔
حضرت خضر علیہ السلام نے فوراً فرمایا: اے موسیٰ! جو علم میرے پاس ہے میں آپ کو سکھاؤں گا لیکن اس کو سہنے کی طاقت آپ کو نہیں ہے، بہتر ہے کہ آپ مجھ سے نہ سیکھیں! موسیٰ علیہ السلام فرمانے لگے کہ میں آپ کی اتباع کروں گا، آپ کی بات مانوں گا، میں ضبط اور صبر سے کام لوں گا۔
حضرت خضر کی شرط اور حضرت موسیٰ کا عہد:
حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ تم مجھ سے وعدہ کرو کہ تم میرے ساتھ چلو اور میں جو کرتا جاؤں گا تم نے دیکھتے جانا ہے لیکن تم نے مجھ سے سوالات نہیں کرنے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں آپ کے ساتھ چلوں گا اور جو کام آپ کریں گے میں دیکھوں گا لیکن ان شاء اللہ میں پوچھوں گا نہیں۔
حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا: چلیے! حضرت موسیٰ اور خضر علیہما السلام یہ دونوں چلے ہیں۔ دریا کے کنارے جا رہے تھے۔ تھوڑی دیر سفر کرنے کے بعد دریا کے کنارے کشتی آ گئی اور یہ دونوں کشتی میں بیٹھ گئے۔ کشتی والوں نے حضرت موسیٰ اور حضرت خضر علیہم السلام کو نیک آدمی سمجھ کر کرایہ نہیں لیا، بغیر کرایہ کے کشتی میں سوار کر لیا۔ حضرت خضر علیہ السلام کشتی میں بیٹھے اور کشتی میں بیٹھتے ہی کشتی کا ایک تختہ توڑ کر پھینک دیا۔ موسیٰ علیہ السلام فوراً بول اٹھے کہ آپ نے کشتی کیوں توڑی ہے؟ حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا: میں نے کہا تھا کہ آپ نے سوال نہیں کرنا! آپ تو پہلی ہی بات پر بول پڑے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے فوراً کہا:
﴿لَا تُؤَاخِذۡنِیۡ بِمَا نَسِیۡتُ وَ لَا تُرۡہِقۡنِیۡ مِنۡ اَمۡرِیۡ عُسۡرًا ﴿۷۳﴾﴾
میرے معاملے میں تنگی پیدا نہ کریں! میں بھول گیا ہوں، آئندہ میں خیال کروں گا۔ فرمایا: ٹھیک ہے اب چلو۔ اب وہاں کشتی سے نیچے اترے۔ پھر آگے ایک کنارے پر بستی آباد تھی۔ حضرت موسیٰ اور حضرت خضر علیہما السلام وہاں گئے تو دیکھا کہ بچے کھیل رہے تھے۔ حضرت خضر علیہ السلام نے ایک نابالغ بچے کو پکڑا اور اسے قتل کردیا۔ موسیٰ علیہ السلام فوراً پوچھنے لگے:
﴿اَقَتَلۡتَ نَفۡسًا زَکِیَّۃًۢ بِغَیۡرِ نَفۡسٍ ؕ لَقَدۡ جِئۡتَ شَیۡئًا نُّکۡرًا ﴿۷۴﴾﴾
یہ آپ نے کیا کیا؟ بے گناہ بندے کو قتل کر دیا؟ حضرت خضر علیہ السلام فرمانے لگے:
﴿اَلَمْ اَقُلۡ لَّکَ اِنَّکَ لَنۡ تَسۡتَطِیۡعَ مَعِیَ صَبۡرًا ﴿۷۵﴾﴾
میں کہتا تھا کہ تم میرے ساتھ نہیں چل سکتے! اےموسیٰ! جو علم میرے پاس ہے تیرے بس میں نہیں ہے۔ موسیٰ علیہ السلام فرمانے لگے: بس یہ آخری بار ہے۔
﴿اِنۡ سَاَلۡتُکَ عَنۡ شَیۡءٍۭ بَعۡدَہَا فَلَا تُصٰحِبۡنِیۡ﴾
اب اگر سوال کروں تو پھر مجھے اپنے پاس نہ رکھنا! بس ایک موقع مجھے اور دے دیں۔
بستی والوں کی دیوار ٹھیک کرنا:
یہ دونوں حضرات پھر چل پڑے۔دورانِ سفر حضرت موسیٰ و حضرت خضر علیہما السلام ایک بستی سے گزرے تو ان بستی والوں سے انہوں نے کہا: ہمیں اپنا مہمان بنا لو، ہم مسافر لوگ ہیں۔ بستی والوں نے مہمان بنانے سے انکار کر دیا۔ اسی بستی میں ایک دیوار تھی جو کہ ٹیڑھی تھی اور گرنے کے قریب تھی۔ حضرت خضر علیہ السلام نے اپنے ہاتھ سے دیوار کوٹھیک کر دیا۔ موسیٰ علیہ السلام جلالی آدمی تھے۔ پھر بول پڑے، فرمایا: یہ ہمیں مہمان بنانے کے لیے تیار نہیں، ایک وقت کا دو بندوں کو کھانا نہیں کھلاتے اور آپ مفت میں ان کی دیواریں کھڑی کر رہے ہیں! آپ ان سے کہتے کہ میں دیوار کھڑی کرتا ہوں لیکن اس کے پیسے لوں گا، وہ پیسے ان سے لیتے اور بیٹھ کر کھانا کھا لیتے۔ حضرت خضر علیہ السلام فرمانے لگے :
﴿ہٰذَا فِرَاقُ بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنِکَ﴾
بس موسیٰ! بس ہو گئی ہے، اب میں اور آپ اکٹھے نہیں چل سکتے، تمہارا راستہ جدا ہے اور میرا راستہ جدا ہے۔
تین کاموں کی توضیح:
حضرت موسیٰ اور حضرت خضر علیہما السلام جب یہاں سے الگ ہونے لگے تو حضرت خضر علیہ السلام نے اب ان تینوں واقعات کی توضیح فرمائی کہ میں نے کشتی کا تختہ کیوں توڑا، میں نے اس نابالغ بچے کو قتل کیوں کیا اور میں نے بغیر پیسوں کے دیوار کو سیدھا کیوں کیا ہے۔ فرمانے لگے :
کشتی کا تختہ توڑنے کی وجہ:
[۱]: ﴿اَمَّا السَّفِیۡنَۃُ فَکَانَتۡ لِمَسٰکِیۡنَ یَعۡمَلُوۡنَ فِی الۡبَحۡرِ﴾
یہ کشتی مساکین کی تھی۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ ایک باپ کے دس بیٹے تھے، ان میں سے پانچ معذور تھے اور پانچ صحت مند تھے۔ پانچ صحت مند مزدوری کرتے اور اسی میں سے پانچ معذورین کو کھلاتے تھے اور معذور ں سے پیسے نہیں لیتے تھے۔ یہ کشتی ان کی تھی جس میں سوار ہوئے۔ ان لوگوں نے مفت میں سوار کیا تو حضرت خضر علیہ السلام نے انہیں یہ صلہ دیاکہ دریا کے پار ایک ظالم بادشاہ تھا اور وہ کشتیاں چھین لیتا تھا۔ چھینتا صحیح کشتی کو تھا۔ یہ بات حضرت خضر علیہ السلام کے علم میں تھی اور کشتی والوں کے علم میں نہیں ہو گا۔ حضرت خضر علیہ السلام نے کشتی میں بیٹھتے ہی ایک تختے کو توڑ دیا۔ جب اس کنارے پر جائیں تو ظالم بادشاہ کے کارندے اس کشتی کو صحیح سالم نہیں عیب دار کشتی سمجھ کر چھوڑ دیں گے اور مساکین کی یہ کشتی بچ جائے گی۔ انہوں نے کرایہ نہیں لیا اور حضرت خضر علیہ السلام نے انہیں صلہ یہ دیا کہ ان کی کشی بادشاہ سے محفوظ ہو گئی۔
باقی خضر علیہ السلام نے جو کشتی توڑی تھی تو بعض مفسرین فرماتے ہیں: تختہ نکال دیا تھا اور بعد میں اس میں آئینہ جوڑ لیا تھا۔ اگر آئینہ نہیں جوڑا تو پھٹا نکالنے کے باوجود پانی کیوں نہیں آیا؟ خضر علیہ السلام ؛اللہ کے نبی تھے۔ آگے بات آئے گی اور یہ خضر علیہ السلام کامعجزہ تھا کہ تختہ ٹوٹنے کے باوجود بھی کشتی میں پانی نہیں آیا۔ اب حضرت خضر علیہ السلام نے کشتی کو عیب دار کیا اور ظالم بادشاہ سے ان کو بچا لیا، معذورین کا جو رزق لگا ہوا تھا اس کی حفاظت ہو گئی۔
بچے کو قتل کرنے کا سبب:
[۲]: حضرت خضر علیہ السلام فرمانے لگے :
﴿وَ اَمَّا الۡغُلٰمُ فَکَانَ اَبَوٰہُ مُؤۡمِنَیۡنِ فَخَشِیۡنَاۤ اَنۡ یُّرۡہِقَہُمَا طُغۡیَانًا وَّ کُفۡرًا ﴿ۚ۸۰﴾﴾
جو بچہ میں نے قتل کیا ہے اس کے والدین ایمان والے اور نیک ہیں۔ یہ اگر بڑا ہو جاتا تو ہمیں خدشہ تھا کہ یہ سرکشی کرتا اور کفر کرتا۔
﴿فَاَرَدۡنَاۤ اَنۡ یُّبۡدِلَہُمَا رَبُّہُمَا خَیۡرًا مِّنۡہُ زَکٰوۃً وَّ اَقۡرَبَ رُحۡمًا ﴿۸۱﴾﴾
تو ہم نے چاہا کہ اس بچے کو ختم کریں اور اس بچے کے بدلے میں اللہ تعالی ان کو اچھا بیٹا دیں۔ یہ جو
﴿فَاَرَدۡنَاۤ﴾
فرما رہے ہیں تو یہ حضرت خضر علیہ السلام نے قتل کیا پھر اللہ سے دعا مانگی اور اللہ نے بدلے میں دیا۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ جن والدین کے بچے کو قتل کیا تھا اس کے بدلے میں اللہ نے ان کو بیٹی دی اور اس بیٹی سے خدا کے دو نبی پیدا ہوئے۔ فوت شدہ بچے کو تو آدمی ویسے بھول جاتا ہے۔ اب دیکھیں! اگر والدین سے بیٹا لیا ہے تو بدلے میں جو دیا ہے وہ بہتر ہے کیونکہ اس کے بطن سے نبی پیدا ہوئے ہیں اور ان کی آگے امت بھی چلی ہے۔
دیوار کو سیدھا کرنے کا مقصد:
[۳]: ﴿وَ اَمَّا الۡجِدَارُ فَکَانَ لِغُلٰمَیۡنِ یَتِیۡمَیۡنِ فِی الۡمَدِیۡنَۃِ وَ کَانَ تَحۡتَہٗ کَنۡزٌ لَّہُمَا﴾
فرمایا: ہم نے دیوار اس لیے کھڑی کی ہے کہ یہ دیوار جن بچوں کی ہےوہ یتیم ہیں اور شہر میں رہتے ہیں۔ اس دیوار کے نیچے ایک خزانہ موجود ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ بچے اس خزانہ کو لے لیں۔
﴿وَ کَانَ اَبُوۡہُمَا صَالِحًا﴾
اور ان کا والد بہت نیک آدمی تھا، دنیا سے چلا گیا، خزانہ دفن کر گیا۔ اگر یہ دیوار گر جاتی تو خزانہ نیچے سے باہر آ جاتا، لوگ خزانہ لے لیتے اور یتیم بچے محروم رہ جاتے۔ ہم نے دیوار سیدھی کھڑی کر دی تاکہ بچے جب کل بڑے ہوں گے تو دیوار کے نیچے سے اپنے باپ کا خزانہ خود لے لیں گے۔ تو ہم نے یتیم بچوں کا کام کیا ہے، ہم نے بستی والوں پر احسان نہیں کیا۔ ہماری مہمان نواز ی سے انکار بستی والوں نے کیا ہے اور ہم نے نیکی یتیم بچوں پر کی ہے۔
یہ تو مختصر قصہ تھا حضرت موسیٰ وحضرت خضر علیہما السلام کا جو میں نے آپ کی خدمت میں پیش کیا۔
بڑے کی بھول پر ڈانٹ کی وجہ:
اب چند ایک باتیں سمجھ لیں۔ بعض سوالات جو آپ کے ذہن میں آئے ہوں گے اگر نہیں آئے تو آنے چاہییں۔ اگر انسان کا دماغ کام کرے تو پھر سوال دماغ میں ضرور آنے چاہییں۔ میں بات بالکل صاف کرتا ہوں تاکہ مسئلے میں الجھن نہ رہے۔
پہلی بات تو یہ سمجھیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب بیان فرما رہے تھے اور ایک بندے نے پوچھا: آپ سے بڑا کوئی عالم ہے؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھ سے بڑا عالم کوئی نہیں۔ یہ جملہ اگرچہ ٹھیک تھا لیکن اس جملے کا انداز وہ تھا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اختیار نہیں کرنا چاہیے تھا بلکہ یوں فرماتے کہ میرے علم کے مطابق تو کوئی نہیں۔ اگر اور کوئی بڑا عالم موجود ہو تو شاید اللہ کے علم میں ہو۔
موسیٰ علیہ السلام چونکہ بہت بڑے آدمی تھے اور بڑے کی چھوٹی بات جو خلاف اولیٰ ہو اللہ تعالی اس پر تنبیہ فرما دیتے ہیں تاکہ آئندہ امت کو تعلیم ہو جائے۔
حضرت آدم علیہ السلام کو خدا نے حکم دیا :
﴿وَ لَا تَقۡرَبَا ہٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُوۡنَا مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۳۵﴾﴾89F
البقرۃ2: 35
کہ آپ نے اس درخت کے قریب نہیں جانا!
حضرت آدم وحواء علیہما السلام دونوں بھول گئے۔ بھول جانا کوئی جرم نہیں تھا لیکن اللہ نے بھولنے پر بھی ڈانٹ دیا: آدم! تمہاری شان کے لائق یہ بھولنا نہیں تھا۔
یہاں بھی یہی بات ہے کہ اے موسیٰ! تمہاری شان کے لائق یہ جملہ ٹھیک نہیں تھا۔ تو جتنا آدمی بڑا ہو اسی طرح اس کو محتاط بھی زیادہ رہنا چاہیے۔
میں اس کی ایک مثال دیتا ہوں، آپ بات ذہن میں رکھیں! ہمارے امام مسجد صاحب نماز میں سورۃ البقرۃ تلاوت کریں یا سورۃ الکہف تلاوت کریں اور اس میں بھول جائیں تو آپ کو تعجب نہیں ہو گا کہ ہمارے امام صاحب سورۃ الکہف میں بھول گئے ہیں لیکن امام صاحب اگر سورۃ الفاتحہ میں بھول جائیں تو آپ کو تعجب تو ہو گا کہ امام صاحب سورۃ الفاتحہ میں بھی بھول گئے حالانکہ بھولنا انسان کے بس میں نہیں ہے، سورۃ الفاتحہ میں بھی بھول سکتا ہے، سورۃ الکہف میں بھی بھول سکتا ہے لیکن سورۃ الکہف میں بھول جائے تو تعجب نہیں ہوتا اور فاتحہ میں بھول جائے تو تعجب ہوتا ہے ۔
اگر آپ کے امام صاحب چھٹی پر ہوں اور ایک نیک آدمی ہے، چہرے پر ڈاڑھی ہے، قاری اور حافظ بھی نہیں ہے اس نے گیارہ سورتیں جماعت میں سہ روزہ کے دوران یاد کی ہیں وہ مصلیٰ پر پہلی بار کھڑا ہوا اور وہ سورۃ الفاتحہ میں بھول جائے اور ٹانگیں بھی کانپ جائیں تو کسی کو بھی تعجب نہیں ہوگا کیوں کہ یہ پہلی بار مصلے پر آیا ہے اور سورۃ الفاتحہ عام آدمی بھولے تو تعجب نہیں ہوتا اور امام بھول جائے تو تعجب ہے۔
ایسے جملے اگر عام آدمی کی زبان سے نکلیں تو ڈانٹ نہیں پڑتی اور اگر اللہ کے نبی کی زبان سے نکلیں تو اللہ ڈانٹ دیتے ہیں کہ آپ کو یہ جملے نہیں کہنے چاہییں تھے کہ یہ آپ کی شان کے لائق نہیں ہیں۔
میں اس لیے سمجھاتا ہوں کہ آپ اعتراض نہ کر گزریں کہ پھر موسیٰ علیہ السلام نے ایسا جملہ کیسے کہہ دیا جو اللہ کو پسند نہیں تھا۔
آدم علیہ السلام بھولے تو خدا نے ڈانٹ دیا کہ اےآدم! آپ کو نہیں بھولنا چاہیے تھا۔ کوئی اور بھول جائے تو الگ بات ہے۔ چالیس سال آدم علیہ السلام روئے ہیں کہ اے اللہ! میری اس خطا کو معاف فرما دے۔ تو جیسی ڈانٹ ہے تو اس کے مطابق آدم علیہ السلام روئے ہیں۔
چالیس سال تک تکبیرِ اولیٰ فوت نہیں ہوئی:
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے امام اھل السنۃ والجماعۃ حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ سے یہ جملے اپنے کانوں سے سنے۔ اب نئی نسل تو ان سے واقف نہیں ہے اور پرانی نسل جومذہب نہیں جانتی وہ بھی واقف نہیں ہے۔ گکھڑ منڈی ضلع گوجرانوالہ حضرت کی مسجد میں میں نے قرآن مجید حفظ کیا ہے۔ میں نے اپنے کانوں سے سنا کہ حضرت فرما رہے تھے: میں دار العلوم دیوبند میں پڑھتا تھا اور ایک دن فجر کی نماز کے لیے میری آنکھ نہیں کھلی اور پہلی رکعت چلی گئی۔ میں دوسری رکعت میں نماز میں آیا۔ میرے استاذ شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ نے مجھے بلایا اور پوچھا: اے بیٹے سرفراز!تیری ایک رکعت آج قضاء کیوں ہوئی ہے؟ فرمایا: چالیس سال گزر گئے میں نے تکبیر اولیٰ نہیں جانے دی، چالیس سال گزر گئے تکبیر اولیٰ نہیں جانے دی۔ تو بڑے لوگوں کی جب ڈانٹ پڑے تو پھر بڑے یوں ہوتے ہیں۔
استاذ چھوٹا بھی ہو تب بھی اس کا ادب کیا جائے:
موسیٰ علیہ السلام کو ہلکی سی ڈانٹ پڑی ہے۔ دیکھو! کتنا لمبا سفر کیا ہے تاکہ اللہ پاک جس طرح خوش ہوں میں نے اپنے اللہ کو مَنا کر دکھانا ہے۔ اللہ تو راضی تھے، ناراض ہونے والی تو بات ہی نہیں تھی لیکن ہلکی سی تنبیہ پر نبی کس طرح میدان میں نکلے ہیں۔ اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام جب حضرت خضر علیہ السلام کے پاس آئے ہیں تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر علیہ السلام سے فرمایا:
﴿سَتَجِدُنِیۡۤ اِنۡ شَآءَ اللہُ صَابِرًا﴾
میں آپ کی بات مانوں گا، ضبط سے کام لوں گا اور جو آپ فرمائیں گے میں اتباع کروں گا۔
مفسرین نے لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بڑے ہیں اور حضرت خضر علیہ السلام چھوٹے ہیں لیکن اب موسیٰ علیہ السلام سیکھنے کے لیے آئے ہیں۔ حضرت خضر علیہ السلام استاذ بنے ہیں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام شاگرد بنے ہیں۔ اگر استاذ چھوٹا بھی ہو تو پھر بھی استاذ کا ادب شاگرد کے ذمہ ہے۔
آدمی کی عمر پچاس سال ہو جائے اور قرآن کریم نہ پڑھا ہو اور اب دل میں آئے کہ مجھے قرآن پڑھ لینا چاہیے تو وہ پندرہ سال کے بچے سے قرآن پڑھنا شروع کرے تو اب اسے یہ ذہن بنا لینا چاہیے کہ یہ میرا استاذ ہے، عمر کا چھوٹا ہے تب بھی اس کا ادب میرے ذمہ ہے۔
علمِ تشریعی اور علمِ تکوینی:
موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: میں ان شاء اللہ آپ کی مکمل بات مانوں گا۔ حضرت خضر علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام سے عرض کر دیاکہ جب آپ چلیں گے تو کچھ باتیں ایسی ہوں گی جو آپ کے بس میں نہیں ہوں گی، آپ کو صبر کرنا پڑے گا۔ یہ بات حضرت خضر علیہ السلام نے کیوں فرمائی؟ یہ بات اچھی طرح سمجھیں! حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس علمِ شریعت ہے اور حضرت خضر علیہ السلام کے پاس علمِ تکوین ہے۔ علمِ تکوین الگ ہے اور علمِ تشریع الگ ہے۔ علمِ تشریع کا معنیٰ ہے کہ نماز پڑھو، روزے رکھو، زکوٰۃ دو، گناہ سے بچو، نیک کام کرو، حلال اختیار کرو، حرام سے بچو، ماں باپ کا ادب کرو، باپ کا حق یہ ہے، اولاد کا یہ ہے .... تو یہ شریعت کا علم ہے اور تکوین کا علم یہ ہے بارش کب ہو گی؟ ہوا کب چلے گی؟فصل کب نکلے گی؟ کو ئی بندہ کب مرے گا؟ کوئی بندہ کب پیدا ہو گا؟ کوئی کب ٹھیک ہو گا؟ کب صحت مند ہو گا؟ رزق کتنا ملے گا.... یہ سب تکوینی چیزیں ہیں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذمے شریعت ہے اور حضرت خضر علیہ السلام کے ذمے تکوین ہے۔ ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اور علم ملا ہے اور حضرت خضر علیہ السلام کو اور علم ملا ہے۔ حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا: میں جو کام کروں گا چونکہ آپ کا علم ان کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا اس لیے آپ نے یقیناً اعتراض کرنا ہے۔ آپ اعتراض تو نہیں کریں گے؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: نہیں، میں اعتراض نہیں کروں گا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام یہ کیوں فرماتے ہیں کہ میں اعتراض نہیں کروں گا؟ اس لیے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس شریعت کا علم ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بھی نبی ہے، یہ شریعت کے خلاف تو کام نہیں کرے گا اس لیے مجھے اعتراض کرنے کی ضرورت کیا ہے!
آپ ناراض تو نہیں ہوں گے؟
بعض لوگ میرے پاس آتے ہیں اور مجھے کہتے ہیں: مولانا صاحب! ایک بات پوچھنی ہے، آپ ناراض تو نہیں ہوں گے؟ میں کہتا ہوں: جی ناراض ہونے والی بات ہو گی تو ناراض ہوں گے، نہیں ہو گی تو نہیں ہوں گے، میں خوامخواہ ایڈوانس کہہ دوں کہ نہیں ناراض ہوں گا! یہ غلط بات ہے۔ ناراض ہونے والی بات پر ناراضگی ہونی چاہیے، غصہ والی بات پر غصہ ہونا چاہیے۔
حضرت امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جس آدمی کو غصے والی بات پر غصہ نہ آئے وہ انسان نہیں بلکہ گدھا ہے۔ اگلا جملہ... پھر معافی مانگنے پر معاف نہ کرے تو وہ انسان نہیں بلکہ شیطان ہے۔ اب بعض لوگ غصے نہیں ہوتے اور بعض لوگ معاف بھی نہیں کرتے۔ یہ دونوں ہٹ دھرم قسم کے لوگ ہیں۔
کشتی توڑنے پر اشکال کی وجہ:
میں بات سمجھا رہا تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: میں ان شاء اللہ آپ کی بات مانوں گا۔ اب حضرت خضر علیہ السلام نے پہلا کام یہ کیا کہ جنہوں نے کشتی میں سوار کیا ان کی کشتی کا تختہ توڑ دیا۔ اب بتاؤ! کسی بندے کا نقصان کرنا یہ شریعت کے خلاف ہےیا نہیں؟ (خلاف ہے۔ سامعین) تو جب موسیٰ علیہ السلام شریعت کے خلاف کام دیکھیں گے تو کیسے برداشت کریں گے؟ انہوں نے تو کہنا ہے کہ آپ نے تختہ کیوں توڑا ہے؟ مسا کین کی کشتی آپ نے خراب کیوں کی ہے؟ اور حضرت خضر علیہ السلام کے ذمہ شریعت تھی یا تکوین تھی؟(تکوین تھی۔ سامعین) تو اللہ کی طرف سے ان کے ذمہ تھا کہ آپ نے کشتی کو سنبھالنا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام شریعت کی وجہ سے اعتراض کر رہے تھے۔
”حضرت خضر نے بچے کو کیوں مارا؟“ کا جواب
اب آگے گئے تو بچے کو قتل کردیا۔ توجہ رکھنا! آپ کے ذہن میں بھی آئے گا کہ حضرت خضر علیہ السلام نے نابالغ بچے کو بغیر جرم کے قتل کیا۔ یہ تو بہت بڑا گناہ ہے اور نبی نے اتنا بڑا گناہ کیسے کر دیا؟ اب بتاؤ! جس فرشتے کے ذمے ہے کہ فلاں کی جان لینی ہے وہ فرشتہ جان لینے کا پابند ہے کہ نہیں؟(پابند ہے۔ سامعین) یہ ظلم ہے؟ (نہیں۔ سامعین) کسی فرشتے کے ذمے ہے کہ یہ مکان فلاں گھر والوں پر گرا دو! فرشتہ گرائے گا یا نہیں؟ (گرائے گا۔ سامعین) بتاؤ! یہ ظلم ہے؟ (نہیں۔ سامعین)
تو حضرت خضر علیہ السلام کے ذمہ شریعت نہیں تھی، حضرت خضر علیہ السلام کے ذمے تکوین تھی۔ آپ نے فلاں کو مارنا ہے، مارنا چاہیے تھا کہ نہیں؟ (مارنا چاہیے تھا۔ سامعین) بتاؤبھائی! یہ تکوینی امور اللہ فرشتوں کو دیتے ہیں اور وہی تکوینی امور فرشتے کے بجائے اللہ کسی انسان کو دیں تو بندہ اعتراض کر سکتا ہے؟ (نہیں۔ سامعین) بس بات صرف اتنی ہے۔
کتنے بندے یہاں سے لاہور جاتے ہیں اور ایکسیڈنٹ ہو جاتا ہے اور وہ فوت ہو جاتے ہیں۔ یہ ایکسیڈنٹ خود ہوتا ہے یا فرشتہ کرواتا ہے؟ خود بخود تو گاڑی نہیں لگتی۔ یہ فرشتے کے ذمے ہے کہ گاڑی کا ایکسیڈنٹ کروانا ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس بندے کی موت یوں ہو گی تو فرشتہ اسی طرح موت دینے کا پابند ہے۔ اس بچے کی موت یوں ہو گی تو حضر ت خضر علیہ السلام پابند ہیں کہ آپ نے موت یوں دینی ہے۔ موسیٰ علیہ السلام شریعت والے تھے تو انہوں نے کہا: یہ ناحق قتل کیوں کیا ہے؟ موسیٰ علیہ السلام بھی ٹھیک تھے، خضر علیہ السلام بھی ٹھیک تھے۔
ایک سوال کا جواب:
اگلی بات سمجھیں! حضرت خضر علیہ السلام فرما رہے ہیں کہ اگر یہ بچہ بالغ ہو جاتا تو اس نے کافر ہونا تھا اوروالدین کی ذلت کا سبب بننا تھا۔ توجہ رکھنا! یہ سوال بڑا اہم ہے۔ یہ بچہ بالغ ہو جاتا تو یہ کافر ہوجاتا یہ اللہ کے علم میں تھا، ہم نے بالغ ہونےسے پہلے قتل کر دیا تاکہ یہ نہ بالغ ہو اور نہ ہی کافر ہو اور اس کے بدلے میں ان کو نیک اولاد مل گئی جس کے پیٹ سے اللہ نے نبی پیدا کیا اور آگے ان کی امت چلی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ جب کسی آدمی کےمقدر میں لکھا ہے کہ اس نے بڑا ہو کر کافر ہونا ہے تو یہ اللہ کے علم میں ہے کہ یہ بالغ ہوا تو کافر ہو گا۔ تو جب یہ نا بالغ ہو کر قتل ہو گیا تو پھر یہ اللہ کے علم کے خلاف نہیں ہے؟ پتا نہیں آپ کے ذہن میں سوال بھی ہے کہ نہیں! میں نے خوامخواہ ایک سوال چھیڑ دیا ہے۔ کبھی آپ کے ذہن میں سوال ہوتا نہیں ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ذہن میں سوال آیا ہو گا تومیں سوال کر کے پھنس جاتا ہوں کہ ان کے تو ذہن میں نہیں تھا، ہم نے کون سی بحث چھیڑ دی ہے۔ آپ کے ذہن میں سوال آ گیا؟ (جی۔ سامعین)
مفسرین نے اس کا بڑا پیارا جواب دیا ہے کہ وجہ یہ ہے ایک ہوتی ہے تقدیرِ مبرم، ایک ہوتی ہے تقدیرِ معلق۔ تقدیرِ مبرم کا معنی کہ بہر حال یوں ہونا ہے اور تقدیرِ معلق کا معنی کہ اگر یوں ہوا تو یوں ہونا ہے، اگر یوں ہوا تو یوں ہونا ہے۔ اگر یہ بالغ ہوا تو کافر ہونا ہے اور بالغ نہ ہوا تو کافر نہیں ہونا۔ اس کی تقدیرِ مبرم نہیں تھی بلکہ تقدیرِ معلق تھی۔ اگر بالغ ہوا تو کافر ہونا ہے، بالغ نہ ہوا تو کافر نہیں ہونا۔ بالغ ہوتا تو کافر ہوتا اور بالغ نہیں تھا اور بلوغ سے پہلے قتل ہو گیا تو کفر بھی نہیں۔ یہ تقدیرِ معلق ہے، تقدیرِ مبرم نہیں تھی۔
یتیم بچوں کا خزانہ کیا تھا؟
اس کے بعد یہ جو دیوار کا معاملہ تھا اس کو بھی ذہن میں رکھیں! دیوار کے مسئلے پر حضرت خضر علیہ السلام فرماتے ہیں: یہ دو یتیم بچوں کی دیوار ہے، ان کا والد نیک تھا، دیوار کے نیچے خزانہ موجود تھا، خزانہ کی ہم نے حفاظت کی ہے۔
پہلی بات سمجھیں کہ وہ خزانہ کیا تھا؟ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ سونا اور چاندی دفن تھا، جب یہ بچے بڑے ہوئے تو والد کا خزانہ ان کو ملا ہے۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ خزانہ سے مراد ایک سونے کی تختی تھی۔ تختی بھی ہے اور سونے کی بھی ہے یعنی ظاہری بھی خزانہ اور باطنی بھی خزانہ اور اس تختی پر لکھا ہوا کیا تھا؟ اس میں پہلا جملہ لکھا ہوا تھا:
[1]: بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
[2]: دوسرا جملہ لکھا تھا:
"عَجِبْتُ لِمَنْ يُؤْمِنُ بِالْقَدَرِ كَيْفَ يَحْزَنُ"
کہ تعجب اس آدمی پر ہے جو تقدیر کو مانتا بھی ہے پھر غمگین بھی رہتا ہے۔ تقدیر کے ماننے والے کو غمگین نہیں ہونا چاہیے، تقدیر کے ماننے والے کو خوش ہونا چاہیے کہ میرے مقدر میں جو لکھا تھا مجھے خدا نے عطا فرما دیا ہے۔
[3]: تیسرا جملہ
"وَعَجِبْتُ لِمَنْ يُؤْمِنُ بِالرِّزْقِ كَيْفَ يَتْعَبُ"
کہ تعجب اس آدمی پر ہے جو ایمان بھی رکھتا ہے کہ میرا رزق میرے مقدر کا ضرور ملنا ہے تو پھر ضرورت سے زیادہ جاگ جاگ کر محنت کیوں کرتا ہے؟ اتنی محنت کرے جتنی اس کے لیے کافی ہوجائے، ضرورت سے زیادہ مال کمانے میں پریشان کیوں ہوتا ہے۔
[4]: اور چوتھا جملہ
"وَعَجِبْتُ لِمَنْ يُؤْمِنُ بِالْمَوْتِ كَيْفَ يَفْرَحُ"
آدمی کا ایمان بھی ہے کہ میں مرنا ہے پھر ہر وقت گناہوں میں خوش بھی رہتا ہے،موت پر ایمان رکھنے والا کبھی گناہوں پر خوش نہیں ہوتا بلکہ غمگین رہتا ہے۔
[5]: پانچواں جملہ
"وَعَجِبْتُ لِمَنْ يُؤْمِنُ بِالْحِسَابِ كَيْفَ يَغْفُلُ"
آدمی کو یقین ہے کہ میرا حساب ہو گا پھر بھی اعمال سے غافل ہے۔
[6]: چھٹا جملہ
"وَعَجِبْتُ لِمَنْ يَعْرِفُ الدُّنْيَا وَتَقَلُّبَهَا بِأَهْلِهَا كَيْفَ يَطْمَئِنُّ إِلَيْهَا"
بندے کو یقین بھی ہے کہ اس دنیا نے بدلنا ہے، پھر بھی دنیا پر مطمئن ہے اور آخرت کو چھوڑا ہوا ہے۔
[7]: اور ساتواں جملہ لکھاہوا تھا :
"لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللهِ"
یہ سونے کی تختی ہے، ظاہری نعمتیں بھی ہیں اور باطنی نعمتیں بھی ہیں۔ 90F
التفسیر الکبیر للرازی: ج21 ص 163، وغیرہ
باپ کی نیکی کا اثر کئی پشتوں تک ہوتا ہے:
اور قرآن کریم میں ہے :
﴿وَ کَانَ اَبُوۡہُمَا صَالِحًا﴾
ان بچوں کا باپ بہت نیک تھا۔
مفسرین نے لکھا ہے کہ اوپر کی نسل میں سے ساتواں باپ تھا اور ایک مفسر فرماتے ہیں کہ اوپر کی نسل میں یہ دسواں باپ تھا۔ مفسرین نے بڑا عجیب نکتہ لکھا ہے: اگر ماں باپ نیک ہوں تو نیک باپ کا اثر ساتویں اور دسویں پشت تک کم از کم چلتا ہے، والد نیک ہو تو ساتویں پشت تک اللہ ان کو رزق اس باپ کی وجہ سے عطا فرماتے ہیں۔
یہاں مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر والدین عالم یا نیک ہوں اور ان کی اولاد اگر نیک نہ بھی ہو اور آپ کو تنگ نہ کرے تو نیک والدین کی اولاد کا احترام پھر بھی کرنا چاہیے۔
حضرت خضر علیہ السلام کے تین جملوں کی تشریح:
حضرت خضر علیہ السلام کے جو تین لفظ فرمائے تھے ا ن لفظوں پر ذرا غور کرنا!
[۱]: جب کشتی کے باری آئی تو خضر علیہ السلام نے فرمایا:
﴿فَاَرَدۡتُّ اَنۡ اَعِیۡبَہَا﴾
کہ میں نے چاہا کہ کشتی کو عیب دار کر دوں تاکہ بادشاہ اس کو چھین نہ سکے۔
[۲]: اورجب بچے کی باری آئی تو فرمایا:
﴿فَاَرَدۡنَاۤ اَنۡ یُّبۡدِلَہُمَا رَبُّہُمَا خَیۡرًا مِّنۡہُ زَکٰوۃً وَّ اَقۡرَبَ رُحۡمًا ﴾
ہم نے چاہا کہ اس نالائق اور نافرمان بچے کے بجائے اللہ ان کو نیک بچہ دے دیں۔ یہاں کہتے ہیں ”ہم نے چاہا کہ اللہ ان کو نیک اولاد دے“
[۳]: اورجب آگے دیوار کی باری آئی تو فرمایا:
﴿فَاَرَادَ رَبُّکَ اَنۡ یَّبۡلُغَاۤ اَشُدَّہُمَا وَ یَسۡتَخۡرِجَا کَنۡزَہُمَا﴾
تمہارے رب نے چاہا کہ جب یہ بچے بڑے ہو جائیں تو زمین کے نیچے سے ان کو خزانہ مل جائے۔
اب بتاؤ! حضرت خضر علیہ السلام نے یہ جو تینوں کام کیے ہیں یہ اپنی مرضی سے کیے یا اللہ کے حکم سے؟ (اللہ کے حکم سےکیے۔ سامعین) تو جب کشتی کو توڑا تو پھر یوں کیوں کہاکہ ”میں نے چاہا کہ اس کشتی کو عیب دار کر دوں“ اور جب بچے کو قتل کیا تو اپنا اور رب دونوں کا ذکر کیا کہ ”ہم نے چاہا“ اور جب دیوار ٹھیک کی ہے تو فرمایا کہ ”تمہارے رب نے چاہا“
مفسرین نے لکھا ہے کہ شر اور خیر کے خالق اللہ ہیں، بیماری اور صحت کے خالق اللہ ہیں لیکن ادب کا تقاضا یہ ہے جب اچھی چیز ہو تو نسبت خدا کی طرف کرنی چاہیے اور جب اچھی نہ ہو تو نسبت اپنی طرف سے کرنی چاہیے۔
 اب جو کشتی کا تختہ توڑا ہے تو بظاہر یہ اچھا کام نہیں تھا تو فرمایا :
﴿فَاَرَدۡتُّ اَنۡ اَعِیۡبَہَا﴾
کہ میں نے چاہا کہ تختہ توڑ دوں اور نسبت اللہ کی طرف نہیں کی، نسبت اپنی طرف کی ہے۔
 اور جب نابالغ بچے کو قتل کیا تو فرمایا :
﴿فَاَرَدۡنَاۤ ﴾
ہم نے چاہا۔ اب دیکھنا اس نابالغ نے قتل ہونا ہے تو بدلے میں ان کو ایک نئی بیٹی ملنی ہے۔ تو دو کام ہو گئے۔ ایک بچے کا قتل ہونا اور ایک ایسی بچی کا پیدا ہونا جس کا بیٹا نبی ہو۔ تو بچے کا قتل کرنا یہ بظاہر اچھا کام نہیں تھا اور بیٹی کا پیدا ہونا اور اس سے نبی کا پیدا ہونا یہ اچھا کام تھا۔ اب اس کی نسبت دونوں طرف سے کی ہے کہ ”ہم نے چاہا“ یعنی میں نے بچہ قتل کر دیا، خدا نے بدلے میں بیٹی دے دی۔
 جب دیوار کی باری آئی، اس کو کھڑا کیا تو یہ کام اچھا اور سراپا خیر تھا۔ اب نسبت صرف اللہ کی طرف کی ہے۔ فرمایا: ﴿فَاَرَادَ رَبُّکَ﴾ تمہارا رب چاہتا تھا۔ تو جو سراپا خیر تھا اس کی نسبت اللہ کی طرف کر دی ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ادب:
حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں :
﴿وَ الَّذِیۡ ہُوَ یُطۡعِمُنِیۡ وَ یَسۡقِیۡنِ﴾91F
الشعراء26: 79
میرا اللہ مجھے پلاتا بھی ہے، مجھے کھلاتا بھی ہے۔ آگے فرمایا:
﴿وَ اِذَا مَرِضۡتُ فَہُوَ یَشۡفِیۡنِ﴾92F
الشعراء26: 80
یہ نہیں فرمایا کہ اللہ مجھے بیمار بھی کرتا ہے اور مجھے صحت بھی دیتا ہے بلکہ فرمایا کہ جب میں بیمار ہوتا ہوں تو اللہ مجھے صحت دے دیتا ہے، حالانکہ صحت بھی اللہ دیتے ہیں اور بیماری بھی اللہ دیتے ہیں لیکن ابراہیم علیہ السلام بیماری کی نسبت اپنی طرف کرتے ہیں اور صحت کی نسبت اللہ کی طرف کرتے ہیں۔ ادب کا تقاضا ہے کہ جو چیز اچھی نہ ہو اس کی نسبت انسان اللہ کی طرف نہ کرے۔ حالات جیسے بھی ہوں خدا کی طرف سے ہیں لیکن جب نعمت ملے تو یہ کہا کریں کہ میرے اللہ نے دی ہے اور جب فاقہ ملے تو کہیں کہ میرے گناہوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ جب اللہ اچھی ہوائیں چلا دے تو اللہ کی طرف سے ہیں، جب سیلاب اور دیگر آفات آ جائیں تو پھر کہیں کہ ہمارے اعمال کی وجہ سے ہیں۔ یہ ادب کا تقاضا ہے۔
خضر علیہ السلام نبی تھے :
صحیح بات تو یہ ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام نبی ہیں، ان کے نبی ہونے کی سب سے بڑی دلیل کو ذہن میں رکھیں۔ خضر علیہ السلام کام وہ کرتے ہیں جو بظاہر شریعت کے خلاف ہیں، شریعت کے خلاف کام ولی تو کر نہیں سکتا۔ اب جو بظاہر شریعت کے خلاف ہے تو یہ وحی کی وجہ سے ہو گا کشف کی وجہ نہیں ہوگا اور جس پر وحی آئے وہ نبی ہوتا ہے، ولی نہیں ہوتا۔ لہذا حضرت خضر علیہ السلام نبی تھے۔
کیا خضر علیہ السلام زندہ ہیں؟
دوسری بحث جس کا تذکرہ کرنا میں ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ چلتی ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام زندہ ہیں یا وفات پا چکے ہیں؟ بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ خضر علیہ السلام زندہ ہیں اور بہت سارے کہتے ہیں کہ وفات پا چکے ہیں۔
آپ فیصلہ کن بات ذہن نشین فرما لیں! علماء میں سے جو کہتے ہیں کہ خضر علیہ السلام زندہ ہیں، ان کے دلائل سماعت فرمائیں:
حیاتِ خضر علیہ السلام کے دلائل:
• پہلی دلیل یہ ہے کہ مستدرک حاکم میں روایت موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب وفات پا گئے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا مجمع موجود تھا۔ ایک شخص آیا۔ اس کی کچھ ڈاڑھی سیاہ تھی اور کچھ ڈاڑھی سفید تھی۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ مجمع چیرتا ہوا حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا۔ وہاں پر کچھ کلمات کہے اور واپس چلا گیا۔ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا: اس شخص کو کوئی جانتاہے؟ تو حضرت ابو بکر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما نے فرمایا: جی ہاں!
هٰذَا أَخُوْ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْخَضِرُ عَلَيْهِ السَّلَامُ. 93F
المستدرک علی الصحیحین للحاکم:ج3 ص 605 رقم الحدیث 4448
یہ جو بندہ آیا ہے یہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا بھائی حضرت خضر علیہ السلام ہیں۔
• دوسری دلیل صحیح مسلم میں روایت موجود ہے کہ جب دجال حملہ کرتا ہوا مدینہ منورہ کے قریب پہنچے گا تو ایک شخص مدینہ منورہ سے آئے گا جو اس وقت کے لوگوں میں سے سب سے بہتر ہو گا اور وہ دجال کا مقابلہ کرے گا۔ 94F
صحیح مسلم، رقم: 2938
تفسیر قرطبی میں ہے کہ ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ یہ آدمی حضرت خضر علیہ السلام ہوں گے۔ 95F
الجامع لاحکام القرآن للقرطبی: ج2 ص1932
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت خضر علیہ السلام زندہ ہیں۔
• تیسری دلیل یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں کہ میری حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ہے اور انہوں نے مجھے یہ دعا بتائی ہے کہ فرض نماز کے بعد یہ دعا مانگا کریں۔96F
الجامع لاحکام القرآن للقرطبی: ج2 ص1932
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت خضر علیہ السلام زندہ ہیں۔
وفاتِ خضر علیہ السلام کے دلائل:
اور جوعلماء کہتے ہیں کہ حضرت خضر علیہ السلام وفات پا چکے ہیں ان کے بھی دلائل ہیں۔
 پہلی دلیل ان کی یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی اور منہ مقتدیوں کی طرف کیا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو ایک جملہ ارشاد فرمایا:
"أَرَأَيْتَكُمْ لَيْلَتَكُمْ هٰذِهٖ؟"
آج کی رات کو دیکھ لیا ہے؟ یعنی اسے ذہن میں رکھو! پھر فرمایا:
فَإِنَّ رَأْسَ مِائَةِ سَنَةٍ مِنْهَا لَا يَبْقٰى مِمَّنْ هُوَ عَلٰى ظَهْرِ الْأَرْضِ أَحَدٌ.
صحیح البخاری ، رقم: 116
آج جو لوگ زندہ ہیں تو آج کے سو سال کے بعد ان میں سے کوئی بھی زندہ نہیں ہو گا۔
تو یہ علماء کہتے ہیں کہ اگر حضرت خضر علیہ السلام اس وقت زندہ بھی تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا۔ اس لیے وہ بھی اس رات کے سو سال بعد دنیا سے چلے گئے۔
 دوسری دلیل یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تورات پڑھ رہے تھے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا:آپ تورات پڑھ رہے ہیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کی طرف دیکھ نہیں رہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو عرض کرنے لگے:
أَعُوذُ بِاللهِ مِنْ غَضَبِ اللَّهِ وَغَضَبِ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَضِينَا بِاللهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا.
میں اللہ اور اس کے رسول کی ناراضگی سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں۔ ہم اللہ کے پروردگار ہونے پر، اسلام کے دین حق ہونے پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر ایمان رکھتے ہیں!
اس پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهٖ لَوْ بَدَا لَكُمْ مُوسٰى فَاتَّبَعْتُمُوْهُ وَتَرَكْتُمُوْنِي لَضَلَلْتُمْ عَنْ سَوَآءِ السَّبِيْلِ وَلَوْ كَانَ حَيًّا وَأَدْرَكَ نُبُوَّتِيْ لَاتَّبَعَنِيْ.98F
سنن الدارمی:ج1 ص180 رقم الحدیث 469
اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں مجھ محمد کی جان ہے، اب اگر موسیٰ علیہ السلام تمہارے سامنے آجائیں اور تم ان کی پیروی کرو اور مجھے چھوڑ دو تو تم سیدھے راستے سے بھٹک جاؤ گے اور اگر آج موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے اور میری نبوت کا زمانہ پا لیتے تو وہ بھی میری اتباع کرتے۔
اب یہ حضرات کہتے ہیں کہ خضر علیہ السلام زندہ نہیں۔ اگر زندہ ہوتے تو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھتے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے مطابق بات کرتے۔
فیصلہ کن رائے:
دونوں پہلوؤوں کے جوابات موجود ہیں۔میں مکمل بحث نہیں کر رہا۔ میں نے صرف ایک اصولی بات کی ہے۔ بہترین بات یہ ہے کہ حضرت مولانا قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ جو بہت بڑے جید عالم تھے، اپنی تفسیر تفسیر مظہری میں لکھتے ہیں کہ حضرت سید احمد سرہندی مجدد الف ثانی رحمہ اللہ نے حالت ِ کشف میں حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات کی اور ان سے سوال کیا کہ آپ زندہ ہیں یا وفات پاچکے ہیں؟ تو حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ میں اور حضرت الیاس علیہ السلام دونوں دنیا سے وفات پاچکے ہیں لیکن اللہ نے ہم دونوں کو یہ قدرت اور طاقت عطا کی ہے کہ ہم کسی بھی انسان کی شکل میں آ کے کسی بھی انسان کی مدد کر سکتے ہیں۔99F
التفسیر المظہری: ج6 ص62
یہ مجدد الف ثانی رحمہ اللہ کا مکاشفہ ہے اور یہ اللہ کا نظا م ہے جس میں بندہ دخل نہیں دے سکتا۔ اب جنہوں نے دیکھا ہے وہ بھی ٹھیک ہیں اور جو کہتے ہیں کہ وفات پاگئے ہیں وہ بھی ٹھیک ہیں۔ اب اس سے ثابت ہوا کہ حضرت خضر علیہ السلا م نبی بھی ہیں اور زندہ بھی نہیں ہیں، وفات پا چکے ہیں۔ ہاں اللہ نے ان کو طاقت عطا فرمائی ہے کہ اگر وہ کسی انسان کی شکل میں متشکل ہو کر آ بھی جائیں اور کوئی بندہ دعویٰ کر بھی دے تو آپ بہت جلدی اس پہ فتویٰ بھی فٹ نہ کریں! ہاں علماء سے ضرور سے پوچھیں کہ یہ بندہ ایسے کہتا ہے، سچ بولتا ہے یا جھوٹ بولتا ہے؟ کیوں؟ اس لیے کہ کوئی بندہ دعویٰ نہ کر دے کہ آج رات مجھے خضر علیہ السلام ملے تھے اور مجھے کہا تھا کہ فلاں کو مار دو اس لیے میں نے اس لیے مار دیا۔ اس پر 302 کا مقدمہ چلے گا، عدالت میں سزائے موت ہو گی اور اس دعویٰ پر اس کی جان نہیں چھوٹے گی۔ ہمارے فتوے اس کے خلاف یہی ہوں گے۔ اللہ رب العزت ہم سب کو شریعت کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین )
ذو القرنین کا تذکرہ:
﴿وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنۡ ذِی الۡقَرۡنَیۡنِ ؕ قُلۡ سَاَتۡلُوۡا عَلَیۡکُمۡ مِّنۡہُ ذِکۡرًا ﴿ؕ۸۳﴾﴾
مشرکینِ مکہ نے یہود مدینہ سے پوچھ کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تین سوال کیے تھے۔ ان میں ایک سوال یہ تھا کہ وہ کون سا شحص ہے جس نے پوری دنیا پر حکومت کی ہے؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ نے وحی کے ذریعے مشرکینِ مکہ کے سوالات کے جواب نازل کیے۔
اللہ رب العزت کا انعام ہے کہ اللہ رب العزت دنیا میں بعض ایسے افراد کو بھیجتے ہیں کہ جو انسان ہونے کے باوجو د فرشتہ صفت ہوتے ہیں۔ بعض انسان حضر ت آدم کی اولاد میں سے ہی ہوتے ہیں لیکن ان میں صفات فرشتوں والی ہوتی ہیں اور اللہ رب العزت ان کے تقویٰ اورعمل کی وجہ سے انہیں بعض ایسی چیزیں عطا فرما دیتے ہیں جسے ہم مافوق الاسباب یا خرق عادت کہتے ہیں۔
اگر پیغمبر سے صادر ہو تو اس کا نام ”معجزہ“ ہے اور غیر پیغمبر یعنی کسی ولی سے صادر ہو تو اسے ”کرامت“ کہتےہیں۔
پوری دنیا پر حکومت کرنے والے چار اشخاص:
حضرت سکندر ذو القرنین انہی اشخاص میں سے ایک شخص ہیں۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ بعض روایات میں آتا ہے چار ایسے آدمی گزرے ہیں جنہوں نے پوری دنیا پر حکومت کی ہے۔ ان میں سے دو کافر ہیں اور دو مسلمان ہیں۔ مسلمانوں میں سے پہلے حضرت سلیمان علیہ السلام ہیں اور دوسرے حضرت سکندر ذو القرنین ہیں اور کافروں میں سے نمرود اور بخت نصر۔ اور ایک شحص ایسا آئے گا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے ہو گا اور وہ پوری دنیا پر حکومت کرے گا، وہ حضرت مہدی ہیں۔
تو حضرت ذو القرنین ان اشخاص میں سے ہیں جنہوں نے پوری دنیا پر حکومت کی ہے۔ جس طر ح اللہ رب العزت نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے ہوا کو مسخر کر دیا تھا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام دور دراز کے سفر ہوا پر کرتے تھے تو حضرت سکندر ذو القرنین کے لیے اللہ نے ابر اور بادل کو مسخر کر دیا تھا۔ یہ لمبے سفر بادل پر کرتے تھے۔ یہ اللہ کا نظام ہے۔ اللہ چاہیں تو ہوا کو مسخر کر دیں یا بادل کو اور آج کے دور میں بات سمجھ نہیں آتی کہ پوری دنیا کا سفر کیسے کیا! اللہ رب العزت نے انہیں سب راستے بتائے تھے کہ کون سا راستہ کس ملک کو جاتا ہےاور کون سا راستہ کس ملک کو جاتا ہے۔ جو اللہ شہد کی مکھی کو علم دے سکتا ہے وہ انسان کو نہیں دے سکتا؟
حضرت ذو القرنین کو دنیا میں سفر اور فتوحات کے لیے جو اسباب درکارتھے اللہ رب العزت نے وہ سارے اسباب بھی ان کو عطا فرمائےتھے۔ ان کے بارے میں مشرکین نے پوچھا تھا کہ ذو القرنین کون ہے؟ حضرت ذو القرنین نے سب سے پہلے سفر کیا ہے مغرب کا اور وہاں تک گئے ہیں جہاں سے سورج غروب ہوتا ہے۔ پھر اس کے بعد سفر کیا مشرق کا اور وہاں پر گئے ہیں جہاں سے سورج طلوع ہوتا ہے اور اس کے بعد سفر کیاہے شمال کا اور وہاں تک گئے ہیں جہاں سے آگے آبادی نہیں ہے۔
اللہ رب العزت نے انہیں رعب اور طاقت اتنی عطا فرمائی کہ جن کو بھی دعوت دیتے وہ ان کے تابع ہوتے گئے۔ کسی میں بھی ان کی مخالفت کا دم نہیں تھا۔
”ذو القرنین“ کہنے کی وجہ:
اب ذو القرنین سے مراد کیا ہے؟ ایک قول ہے علمائے شریعت کا اور ایک قول ہے علمائے طریقت کا۔ شریعت اور طریقت میں تضاد نہیں ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جو علماء ظاہری مسائل کاعلم رکھتے ہو ں انہیں علمائے شریعت کہتے ہیں اور جو علماء مسائل باطنہ کے ماہر ہوں انہیں علمائے طریقت کہتے ہیں۔ تو شریعت بھی دین ہے اور طریقت بھی دین ہے۔ علمائے شریعت کہتے ہیں کہ ”قرن“ کامعنی ہے کنارہ، چونکہ یہ مشرق اور مغرب تک گئے تھے اس لیے انہیں ”ذو القرنین“ کہتے ہیں کہ دو کناروں والا اور علمائے طریقت کہتے ہیں کہ ان کو اللہ نے ظاہر کا علم بھی دیا تھا اور باطن کا علم بھی دیا تھا۔ اس لیے اس کو دو کناروں والا کہتے ہیں۔ ایک کنارہ ظاہری علوم کا ہے اور ایک کنارہ باطنی علوم کا ہے۔
اس سے پہلے والی آیات میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سفر کا واقعہ ہے اور ان آیات میں سکندر ذو القرنین کے سفر کا قصہ ہے۔ اللہ نے دونوں کو جوڑا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کا سفر کیوں تھا؟ علم کی طلب میں اور سکند ر ذو القرنین کا سفر کیوں ہے؟ اعمالِ شریعت کے نفاذ کی طلب میں۔تو ایک علوم ہیں اور ایک ان کا نفاذ ہے۔ علوم کا سفر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ہے اور نفاذ کا سفر سکندر ذو القرنین کا ہے۔ معلوم ہوا کہ علمِ شریعت بھی ضروری ہے اور اس کا نفاذ بھی ضروری ہے۔ تو اللہ نے دونوں واقعات کو اکٹھے ذکر فرما دیا ہے۔
جواب بقدرِ سوال ہونا چاہیے:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال پوچھا گیا تھاکہ ذو القرنین کون ہے؟ قرآن کریم میں ہے کہ میرے پیغمبر آپ انہیں بتائیں:
﴿سَاَتۡلُوۡا عَلَیۡکُمۡ مِّنۡہُ ذِکۡرًا ﴿ؕ۸۳﴾﴾
یہاں یہ نہیں فرمایا
”سَاَتْلُوْا عَلَيْكُمْ ذِكْرًا“
کہ میں اس کا ذکر کرتا ہوں، اس کی باتیں بتاتا ہوں بلکہ
﴿ مِنۡہُ ذِکۡرًا﴾
فرمایا۔
”ذِكْرًا“
اور
”مِنْہُ ذِكْرًا“
میں فرق ہے۔ علماء فرماتے ہیں کہ عربی زبان میں ”مِنْ“ آتا ہے تبعیض اور بعض کے لیے۔ ایک ہوتا ہے کہ میں نے کھانا کھا لیا اور ایک ہوتا ہے کہ میں نے کھانے میں سے کھا لیا۔ یہ ” میں سے“ کا معنی ہے ”کچھ“۔ تو اللہ نے یہاں یہ نہیں فرمایا کہ اے محمد! ان کو بتاؤ کہ میں آپ کو ذو القرنین کی باتیں بتاتا ہوں بلکہ فرمایا:
﴿سَاَتۡلُوۡا عَلَیۡکُمۡ مِّنۡہُ ذِکۡرًا﴾
میں ان کی ساری باتیں نہیں بتاتا بلکہ ان کی کچھ باتیں بتاتا ہوں یعنی وہ باتیں جو تمہارے متعلق ہیں اور جو تمہیں بتانے کی ضرورت نہیں ہے وہ میں ہرگز نہیں بتاتا۔ یہ بات آپ ذہن نشین فرما لیں۔
ذو القرنین کو تمام ضروری اسباب دیے گئے:
﴿اِنَّا مَکَّنَّا لَہٗ فِی الۡاَرۡضِ وَ اٰتَیۡنٰہُ مِنۡ کُلِّ شَیۡءٍ سَبَبًا ﴿ۙ۸۴﴾﴾
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ہم نے ذو القرنین کو زمین میں اقتدار عطا فرما یا تھا اور انہیں ہر کام کےلیے ضروری اسباب بھی دیےتھے۔
اللہ کے عطا کردہ اسباب و وسائل کو استعمال کرتے ہوئے ذو القرنین مغرب کی طرف نکلے تھے، اتنا آگے گئے کہ
﴿حَتّٰۤی اِذَا بَلَغَ مَغۡرِبَ الشَّمۡسِ وَجَدَہَا تَغۡرُبُ فِیۡ عَیۡنٍ حَمِئَۃٍ ﴾
کہ ان کو ایسا محسوس ہو ا کہ جیسے کالے کیچڑ والی جگہ پر سورج غروب ہو رہا ہے حالانکہ وہ سورج غروب نہیں ہو رہا تھا بلکہ محسوس ایسے ہوتا تھا اور یہ آخری کنارہ تھا۔
اللہ فرماتے ہیں:
﴿وَّ وَجَدَ عِنۡدَہَا قَوۡمًا ۬ؕ قُلۡنَا یٰذَا الۡقَرۡنَیۡنِ اِمَّاۤ اَنۡ تُعَذِّبَ وَ اِمَّاۤ اَنۡ تَتَّخِذَ فِیۡہِمۡ حُسۡنًا ﴿۸۶﴾﴾
وہاں پر ایک قوم تھی جو کافرتھی۔ اللہ نے اجازت دی کہ آپ چاہیں تو ان کو کفر کی سزا کے طور پر قتل کر دیں اور آپ چاہیں تو قتل کرنے کے بجائے ان کو دعوت دے دیں۔ حضرت سکندر ذو القرنین نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ ان کو دعوت دیں گے، جو دینِ ابراہیمی کو قبول کرے گا ہم اس کو معاف کریں گے اور جو دینِ ابراہیمی کو قبول نہیں کرے گا ہم اس کو سزا دیں گے۔
ذو القرنین نبی تھے یا نہیں؟
یہاں ایک بات سمجھیں! اس مقام پر ہے:
﴿قُلۡنَا یٰذَا الۡقَرۡنَیۡنِ اِمَّاۤ اَنۡ تُعَذِّبَ وَ اِمَّاۤ اَنۡ تَتَّخِذَ فِیۡہِمۡ حُسۡنًا﴾
اللہ فرماتے ہیں کہ ہم نے کہا اے ذو القرنین! تم چاہو تو ان کو سزا دے دو اور تم چاہو تو ان سے نرمی والا معاملہ فرما دو۔
علماء کے درمیان بحث چلی ہے کہ ذو القرنین نبی تھے یا ولی؟ اب دیکھیں! علماء کتنی دور کی بات سوچتے ہیں کہ نبی تھے یا ولی تھے؟بعض علما کہتے ہیں کہ ولی تھے دلیل یہ ہےکہ اللہ فرماتےہیں: ”اے ذو القرنین! چاہو تو ان کو سزا دے دو اور اگر چاہو تو ان کو معاف کر دو!“ اور یہ خطاب نبی کو ہوتا ہے، غیر نبی کونہیں ہوتا۔ تو اللہ نے خطاب اس لیے کیا کہ ذو القرنین نبی تھے۔
اور بعض کہتے ہیں کہ ذو القرنین نبی تو نہیں تھے البتہ ولی تھے۔ ابراہیم علیہ السلام کے دور میں انہوں نے مکہ مکرمہ جا کر حج کیا ہے اور ابراہیم علیہ السلام نے دعائیں دی ہیں۔ یہ ابراہیم علیہ السلام کے صحابی بنے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام کی دعا کے بعد انہوں نے دنیا کا سفر شروع کیا ہے اور ان کی دعاکے بعد خدا نے یہ سارے معاملات ان کے سپرد کر دیے ہیں۔ 100F
البدایۃ والنہایۃ: ج 2ص123
باقی رہی یہ بات کہ اگر نبی نہیں تھے تو پھر اللہ نے خطاب کیسے کیا؟ اس کا علماء نے جواب یہ دیا ہے کہ یہ خطاب ایسے تھا کہ جیسے یوسف علیہ السلام ابھی چھوٹے تھے اور کنویں میں تھے تو اللہ فرماتے ہیں:
﴿وَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡہِ لَتُنَبِّئَنَّہُمۡ بِاَمۡرِہِمۡ ہٰذَا﴾ 101F
یوسف12: 15
کہ ہم نے یوسف پر وحی بھیجی تھی کہ ایک وقت آئے گا کہ تم ان کو بتاؤ گے کہ انہوں نے یہ کام کیا تھا۔ تو یوسف علیہ السلام کے دل میں اللہ نے ایک القاء فرمایا تھا اور اس کا نام اللہ نے وحی رکھ دیا۔
اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ جب پریشان تھیں کہ فرعونی سپاہی اسرائیلی بچوں کو قتل کر رہے ہیں تو میرے بیٹے کا کیا بنے گا؟ تو اللہ فرماتے ہیں:
﴿ وَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰۤی اُمِّ مُوۡسٰۤی اَنۡ اَرۡضِعِیۡہِ ۚ فَاِذَا خِفۡتِ عَلَیۡہِ فَاَلۡقِیۡہِ فِی الۡیَمِّ وَ لَا تَخَافِیۡ وَ لَا تَحۡزَنِیۡ ۚ﴾ 102F
القصص28: 7
ہم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کے دل میں یہ الہام کر دیا کہ تم اپنے بچے کو دودھ پلاتی رہو، جب تمہیں خوف ہو کہ اس کی جان کو خطرہ ہے تو اس کو صندوق میں ڈال کر سمندر میں ڈال دینا اور ڈرنا نہیں! اب موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نبی تو نہیں ہیں لیکن لفظ ”وحی“ کا آیا ہے۔
اسی طرح شہد کی مکھی کے بارے میں قرآن کریم میں ہے:
﴿وَ اَوۡحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحۡلِ﴾ 103F
النحل16: 68
خدانے شہد کی مکھی کے دل میں خیال ڈالا۔
اب یہاں پر بھی لفظ ”وحی“ استعمال ہوا ہے۔
علماء فرماتے ہیں کہ یہاں پر وہ خطاب نہیں ہے جو نبیوں کو ہوتاہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ نبی ان سے خطاب کیا کہ ہماری طرف سے ذو القرنین کو یہ پیغام دے دو کہ تم کافروں کو قتل کرو یا ان کو قید میں ڈال دو، ہم نے تمہیں اختیار دیا ہے۔
مشرک قوم کے متعلق ذو القرنین کا موقف:
سکندر ذو القرنین نے دوسری بات کو اختیا ر کیا اور اعلان فرمایا کہ :
﴿اَمَّا مَنۡ ظَلَمَ فَسَوۡفَ نُعَذِّبُہٗ ثُمَّ یُرَدُّ اِلٰی رَبِّہٖ فَیُعَذِّبُہٗ عَذَابًا نُّکۡرًا ﴿۸۷﴾﴾
اے اللہ! ان میں سے جس شحص نے ظلم کیا تو ہم اسے سخت سزا دیں گے، پھر اسے اپنے رب کے پاس پہنچا دیا جائے گا اور اللہ اس سے بھی سخت درد ناک عذاب دے گا۔
﴿وَ اَمَّا مَنۡ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَہٗ جَزَآءَۨ الۡحُسۡنٰی ۚ وَ سَنَقُوۡلُ لَہٗ مِنۡ اَمۡرِنَا یُسۡرًا ﴿ؕ۸۸﴾﴾
اور جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرے تو اس کو اچھا بدلہ ملے گا یعنی اس کا دنیا میں بھی اجر ہے اور آخرت میں بھی بدلہ ہے۔
طلوع آفتاب کی جگہ پر پہنچنا:
حضرت ذو القرنین اب مغرب سے واپس ہوئے۔ مشرق کی طرف چلے گئے۔ لمبا سفر کیا اور اتنے دور پہنچے کہ قرآن کریم میں ہے :
﴿حَتّٰۤی اِذَا بَلَغَ مَطۡلِعَ الشَّمۡسِ وَجَدَہَا تَطۡلُعُ عَلٰی قَوۡمٍ لَّمۡ نَجۡعَلۡ لَّہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِہَا سِتۡرًا ﴿ۙ۹۰﴾﴾
حضرت سکندر ذو القرنین نے دیکھا اور یوں محسوس ہوا کہ سورج یہاں سے طلوع ہو رہاہے اور ایسی قوم پر سورج طلوع ہو رہا تھا کہ جو بالکل بے پردہ قوم تھی، نہ انہوں نے مکان بنائے تھے نہ انہوں نے کپڑے پہنے تھے، جنگل میں بغیر مکان کے برہنہ رہتے تھے۔ انہوں نے زمین میں اپنے ٹھکانے بنائے ہوئے تھے۔ رات کو ان کے اند ر چلے جاتے تھے۔ دن کو کام کرتے تھے۔ بالکل جانوروں کی طرح زندگی گزارتے تھے۔
یاجوج ماجوج کو روکنے کے لیے دیوار کی تعمیر :
جب اس سفر سے فارغ ہوئے تو حضرت سکندر ذو القرنین نے شمال کی جانب لمبا سفر کیا۔ اب یہاں قرآن کریم نے جو بات کی ہے وہ یہ ہے:
﴿حَتّٰۤی اِذَا بَلَغَ بَیۡنَ السَّدَّیۡنِ وَجَدَ مِنۡ دُوۡنِہِمَا قَوۡمًا ۙ لَّا یَکَادُوۡنَ یَفۡقَہُوۡنَ قَوۡلًا ﴿۹۳﴾﴾
کہ ایسی قوم کے پاس پہنچے جو حضرت سکندر ذو القرنین کی بات کو نہیں سمجھتی تھی، اُن کی زبان اور تھی، اِن کی زبان اور تھی۔ ان سے بات کیسے کریں؟ خیر ترجمان سے یا اشاروں سے بات ہوئی۔ اس قوم نے سکندر ذو القرنین سے کہا: ہمارا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے ،اس مسئلے کو حل کریں۔ پوچھا: مسئلہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہاں ایک قوم ہے جنہیں ”یاجوج ماجوج“ کہتے ہیں، یہ ہمیں بہت تنگ کرتے ہیں، مال کھاتے ہیں، مویشی کھاتے ہیں، ہمیں نقصان پہنچاتےہیں، ہمیں ان سے بچائیں۔
اب سکندر ذو القرنین نے کسی طرح ان کو بات سمجھائی کہ ایک یہ پہاڑ ہے اور ایک ادھر پہاڑ ہے، درمیان میں لمباراستہ ہے، وہ ادھر سےآپ کے پاس آتے ہیں تو میں یہاں آپ اور ان کے درمیان ایک دیوار بنا دیتا ہوں جو بہت لمبی اور چوڑی ہو تاکہ تم بچ جاؤ! انہوں نے کہا کہ آپ بنا دیں، ہم چندہ جمع کر کے آپ کو پیسے دیتے ہیں جتنا ہمارے بس میں ہے۔ حضرت سکندر ذو القرنین نے فرمایا کہ میں پیسے تم سے نہیں لیتا،
﴿مَا مَکَّنِّیۡ فِیۡہِ رَبِّیۡ خَیۡرٌ فَاَعِیۡنُوۡنِیۡ بِقُوَّۃٍ ﴾
تم افراد مجھے دو، سامان میرے پاس موجود ہے۔
حضرت سکندر ذو القرنین نے دیوار کھڑی کی۔ تقریباً تمام مفسرین نے لکھا ہے کہ بطور کرامت اتنی بڑی لمبی دیوار حضرت سکندر ذو القرنین نے کھڑی کی۔ دیوار کیسے کھڑی کی؟ انہوں نے کہاکہ تم لوہے کے تختے لاؤ، جتنا لوہا تم لا سکتے ہو لاؤ! دونوں پہاڑوں کے درمیان لوہے پر لوہا رکھتےگئے اور ایک لمبی دیوار بنائی۔ اب ادھر بھی لوہا ادھر بھی لوہا اور درمیان میں خالی جگہ۔ اب فرمایا کہ اس میں لکڑی ڈال دو اور اتنی آگ جلاؤ کہ یہ لوہا سخت گرم ہو جائے۔ جب یہ لوہا گرم ہوا تو اس پر پگھلتا ہوا تانبا ڈال دیا۔ اب وہ دیواریں ٹھنڈی ہو گئیں اور ان کی درزیں بند ہو گئیں تو دیوار بہت اونچی، لمبی اور مضبوط بن گئی۔
یہ حضرت سکندر ذو القرنین کی کرامت ہے۔ کرامت کیوں تھی؟ مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ کرامت اس لیے کہتے ہیں کہ جب اتنی اونچی دیوار آدمی کھڑی کرے اور جب پہاڑیوں کے دو کونوں کے درمیان لوہے کے تختوں کو برابر کر کے رکھ لے اور پھر آگ جلائے تو آپ بتاؤ! جلتی ہوئی آگ کے قریب کوئی نہیں جا سکتا تو اس کو ہلاتے کیسے ہوں گے؟ پھر اتنا تانبے کو اندر ڈالا کیسے ہو گا؟ تو کرامت کے علاوہ اسباب کے تحت یہ کام ممکن نہیں تھا۔
دیوار کی مضبوطی اور شکرِ خداوندی:
آگے قرآن مجید میں ہے:
﴿فَمَا اسۡطَاعُوۡۤا اَنۡ یَّظۡہَرُوۡہُ وَ مَا اسۡتَطَاعُوۡا لَہٗ نَقۡبًا ﴿۹۷﴾﴾
دیوار اتنی بڑی بنا دی کہ یاجوج ماجوج چڑھ بھی نہیں سکتے تھے اور اتنی مضبوط بنا دی کہ وہ سوراخ بھی نہیں کر سکتے تھے۔
جب یہ دیوار مکمل ہو گئی تو حضرت سکندر ذو القرنین نے فرمایا : ﴿ہٰذَا رَحۡمَۃٌ مِّنۡ رَّبِّیۡ﴾ یہ میرا کمال نہیں ہے، میرا اللہ کا کرم ہے۔ یہ نیک آدمی کی نشانی ہوتی ہے کہ اتنا بڑا کام ہونے کے باوجود بھی نسبت اپنی طرف نہیں کرتا بلکہ نسبت اپنے خدا کی طرف کرتا ہے۔
دیوار کب ٹوٹے گی؟
جب یہ دیوار بنا دی تو اب یہ دیوار ان سے ٹوٹے گی نہیں۔ یہ کب ٹوٹے گی؟ فرمایا:
﴿فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ رَبِّیۡ جَعَلَہٗ دَکَّآءَ﴾
جب قیامت قریب آئے گی تو پھر یہ دیوار پھٹ جائے گی
۔﴿وَ کَانَ وَعۡدُ رَبِّیۡ حَقًّا ﴾
فرمایا کہ میرے اللہ کا وعدہ ہو کر رہنا ہے۔
قیامت کے قریب یہ دیوار پھٹے گی۔ پھر یاجوج ماجوج وہاں سے نکلیں گے اور زمین میں پھیل جا ئیں گے۔ بہت تباہی پھیلائیں گے، بعد میں حضرت عیسی علیہ السلام کی دعا سے اللہ تعالی ان سے اہل زمین کو نجات عطا فرمائیں گے۔ یہ مختصر سا واقعہ میں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا۔
سکندر کا کچھ تعارف:
اب آپ دو تین باتیں سمجھیں:
[1]: ہماری تاریخ میں کئی ایک سکندر گزرے ہیں۔ یہ سکندر جن کا ذکر قرآن کریم میں ہےیہ نیک آدمی تھے، نمرود کے دور کے تھے، ابراہیم علیہ السلام کی زیارت کی ہے اور مکہ مکرمہ میں جا کر حج کیا ہے، مشرق اور مغرب کا سفر کیاہے، شریعت اسلامیہ کا نفاذ کیا ہے، یاجوج ماجوج کے سامنے دیوار کھڑی کی ہے اور کفر کو طاقت کے ساتھ مسلمان کیا ہے، جو مسلمان نہیں تھے ان کو سزا دی ہے۔ یہ وہ باتیں تھیں جو ان کے بارے میں قرآن کریم میں آئی ہیں یا روایات میں آئی ہیں۔ یونان کا مشہور سکندر جسے لوگ سکندر اعظم بھی کہتے ہیں وہ اور تھا۔
یاجوج ماجوج کون ہیں؟
[2]: یاجوج ماجوج کون ہیں؟ میں تفاسیر اور احادیث کا خلاصہ پیش کر رہا ہوں۔ حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم پر جب سیلاب کا عذاب آیا تھا تو پوری دنیا سے انسان ختم ہو گئے۔ اس کے بعد دوبارہ جو نسل چلی ہے وہ حضرت نوح علیہ السلام کی نسل میں سے ہے اور یاجوج ماجوج؛ نوح علیہ السلام کے بیٹے یافث بن نوح کی اولاد میں سے ہیں۔ تو یاجوج ماجوج یہ انسان ہی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ اجساد کے لحاظ سے جانور اور درندوں کی طرح ہیں اور اپنی صفات کے اعتبار سے جنات کی طرح ہیں۔ جیسے جن میں طاقت بہت ہوتی ہے اسی طرح ان میں طاقت بہت ہوتی ہے لیکن یہ ہیں انسانوں میں سے، یہ کوئی الگ مخلوق نہیں ہے۔
دیوار ذو القرنین:
تاریخ اور جغرافیہ کی کتابوں میں پانچ بڑی بڑی دیواروں کا تذکرہ ہے اور مصنفین نے اپنے خیال اور تخمینہ سے دیوارِ ذو القرنین کو متعین کرنے کی کوشش کی ہے لیکن دلیل کسی کے پاس نہیں ہے۔ و ہ پانچ دیواریں کون سی ہیں؟
 ایک دیوارِ چین ہے جس کی لمبائی کا اندازہ بارہ سو میل سے پندرہ سو میل تک کیا گیا ہے۔
 ایک دیوارِ آذر بائیجان ہے یہ بہت بڑی دیوار ہے۔
 ایک دیوارِ سمرقندہے۔
 ایک دیوار؛ دیوارِ تبت ہے
 اور پانچویں دیوار بحیرۂ روم کے مشرقی کنارہ پر ایشیائے کو چک کے جزائر میں سے کسی جزیرہ میں واقع ہے۔
لیکن سکندر ذو القرنین نے جودیوار بنائی اور جس کا تذکرہ قر آن کریم میں ہے وہ مذکورہ پانچوں دیواروں میں سے کوئی نہیں ہے۔
حضرت مولانا ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ تفسیر معارف القرآن میں لکھتے ہیں کہ نہ ہم اس جگہ کی تعین کر سکتے ہیں اور نہ اس جگہ کا تعین کرنا ہماری شرعی ضرورت ہے۔ دیوار بنائی ہے اور یاجوج ماجوج وہاں بند ہیں اور قیامت کے قریب آ کر وہ دیوار کھلے گی اور اللہ ان کو باہر نکالیں گے۔
یاجوج ماجوج کب نکلیں گے؟
حضرت مہدی مدینہ منورہ میں پیدا ہوں گے۔ مکہ مکرمہ میں جا کر اعلان کریں گے۔ اس کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائیں گے اور عیسیٰ علیہ السلام چالیس سال تک اس دنیا میں رہیں گے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دور میں دجال کا ظہور ہو گا اور پھر یہ دنیا میں چالیس دن تک رہے گا لیکن دنوں کی تر تیب یوں ہو گی کہ پہلا دن ایک سال کے برابر، دوسرا دن ایک ماہ کےبرابر اور تیسرا دن ایک ہفتے کے برابر اور باقی دن معمول کے دنوں کے برابر ہوں گے اور ان دنوں میں وہ شمال وجنوب، مشرق و مغرب پوری کی پوری دنیا پر پھیل جائے گا۔
دجال کا خروج اور اس کی فتنہ انگیزی:
اور دجال کو اللہ ایسی قوت عطا کریں گے کہ یہ ایک علاقے میں جائے گا اور کہے گا کہ میرا کلمہ پڑھو! ہر کسی سے کہے گا کہ مجھے خدا مانو! جو نہیں مانیں گے وہ جادو کی طاقت سے انہیں ختم کر دے گا۔ گھاس ختم ہو جائے گی، پانی خشک ہو جائے گا اور جو لوگ اس کو مانیں گے وہاں زمین سے خزانے نکلیں گے۔
حدیث میں آتا ہے کہ دجال کے پیچھے خزانے ایسے جائیں گے جیسے شہد کی مکھی اپنے مالک کے پیچھے چلتی ہے۔ اب دیکھیں! کتنا مشکل ہو جائے گا ایسی حالت میں ایما ن کی حفاظت کرنا! اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام بیت المقدس کے قریب ایک جگہ ہے اس کا نام ہے ”بابِ لُد“ وہاں دجال کو قتل کر دیں گے۔ حدیث پاک میں آتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جہاں تک نگاہ جائے گی وہاں تک ان کا سانس جائے گا اور جہاں تک ان کا سانس جائے گا وہاں تک کافر مر جائیں گے۔ یعنی جس کافر کو حضرت عیسی علیہ السلام کی سانس لگے گی وہ مر جائے گا۔ اس طرح سارے کافر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دور میں ختم ہو جائیں گے اور دجال بھی قتل ہو جائے گا۔ جونہی دجال ختم ہو جائے گا تو اس کے متصل بعد ہی یاجوج ماجوج کا خروج ہو گا۔
یاجوج ماجوج کے کچھ احوال:
بعض احادیث میں آتا ہے کہ یاجوج ماجوج روزانہ اس دیوار کو چاٹتے ہیں اور جب اتنی باریک ہو جاتی ہے کہ دوسری جانب نظر آنا شروع ہو جاتا ہے تو پھر کہتے ہیں کہ کل آ کر اس کو چاٹیں گے اور جب دوسرے دن آتے ہیں تو دیوار پھر مکمل ہو جاتی ہے، اس طرح یہ روزانہ کرتے رہتے ہیں۔
حدیث پاک میں ہے کہ یہ خالص اللہ کی طرف سے ہے ورنہ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ یاجوج ماجوج جو محنت کرتے ہیں چوبیس گھنٹے کام کریں، اس طرح کہ سارے آدمی کام نہ کریں کچھ سوئیں اور کچھ کام کریں۔ کچھ کام کریں اور کچھ سوئیں۔ اچھا! اگر یہ بھی نہ کریں تو پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جب خدا نے ان کو اتنی بڑی طاقت دی ہے تو بندے پر بندہ بیٹھ کر وہ دیوار کو پھلانگنے کی ترتیب بنائیں۔ کون سا کام ہے جو نہیں ہو سکتا لیکن ان کا دماغ کام ہی نہیں کر رہا۔
جب اس دیوار میں سوراخ ہونا ہو گا تو حدیث پاک میں ہے کہ جب وہ سونے لگیں گے تو کہیں گے کہ ان شاء اللہ کل آئیں گے۔ اگر چہ یہ مسلمان نہیں بلکہ کافر ہوں گے لیکن ان شاء اللہ کی برکت سے جتنی دیوار چھوڑ کر جائیں گے اگلے دن اتنی باقی ہو گی اور کچھ دیر میں دیوار ختم ہو جائے گی۔ یہ پوری دنیا میں پھیل جائیں گے۔ پھر فوج در فوج یوں ہوں گے کہ جیسے ہر اونچی جگہ سے و ہی نکلتے ہیں اور اتنے زیادہ ہوں گے کہ دریا سے گزریں گے تو سارا پانی ختم کر دیں گے۔
یاجوج ماجوج کا فتنہ اتنا بڑا ہو گا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مسلمانوں کو لے کر کوہِ طور پر چلے جائیں گے۔ اس فتنے سے بچاؤ بڑا مشکل ہو گا۔ بالآخر حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا سے دعا مانگیں گے: یا اللہ! مسلمانوں کی حفاظت فرما، ان سے ہماری جان بچا! حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعا کی برکت سے جتنے بھی یاجوج ماجوج ہوں گے ان کی گردن میں ایک دانہ نکلے گا جس کی وجہ سے سارے مر جائیں گے اور پوری زمین میں بدبو پھیل جائےگی۔ اللہ تعالیٰ کچھ بھاری بھر کم پرندوں کو بھیجیں گے جن کی گردنیں اونٹ کی گردن کی طرح ہوں گی۔ وہ یاجوج ماجوج کی لاشوں کو اٹھائیں گے اور جہاں اللہ کا حکم ہو گا وہاں گرا دیں گے۔
اس کے بعد بارش ہو گی اورپوری زمین کو اس بد بو سے پاک کیا جائے گا۔ اب پھر بہارِ اسلام شروع ہو گی۔ دنیا میں اس قدر فراوانی ہو گی کہ اللہ تعالیٰ زمین کو حکم فرمائیں گے کہ خزانے کو باہر نکالو! برکتیں ظاہر کردو! تو برکتیں یوں ظاہر ہوں گی کہ ایک گائے کا دودھ پورے خاندان کے لیے کافی ہو گا، ایک انار کاٹیں گے تو کھانے کے لیے آدھا کافی ہو جائے گا اور دوسرے آدھے سے چھتری بنائیں گے۔ آخر کار حضرت عیسیٰ علیہ السلا م دنیا سے چلے جائیں گے۔
آپ علیہ السلام کی وفات کے کافی عرصے بعد آہستہ آہستہ کفر پھیلنے لگے گا۔ جب کفر بہت زیادہ پھیل جائے گا تو حدیث پاک میں آتا ہے کہ ایک ٹھنڈی سی ہوا چلے گی اور اس وقت کے جو مسلمان ہیں اس ہوا سے سارے فوت ہو جائیں گے۔ پھر دنیا میں صرف کفر رہ جائے گا۔ کفر پر خدا نے قیامت برپا کرنی ہے۔ جب ایک انسان بھی اس دنیا پر اللہ اللہ کہنے والا ہو گا تو اس دنیا پر قیامت نہیں آئے گی۔ پھر صور پھونکا جائے گا۔ کب سے فرشتہ کھڑا ہے کہ خدا کا حکم ہو اور میں صور پھونکوں! نہ وہ تھکتا ہے اور نہ وہ اونگھتا ہے۔ جب وہ صور پھونکے گا تو دنیا تباہ ہو جائے گی۔ چالیس سال اسی طرح گزریں گے۔ چالیس سال کے بعد پھر صور پھونکا جائے گا۔ پھر قبروں سے نکالا جائے گا۔ اللہ پاک ہم سب کو یہ باتیں سمجھنےکی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
سورۃ الکہف کے واقعات میں مناسبت:
سورۃ الکہف میں پہلے واقعہ اصحاف کہف کا تھا، پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اور پھر حضرت سکندر ذو القرنین کا۔ مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ نے بڑی عجیب بات لکھی ہے، فرمایا کہ یہ سکندر ذو القرنین اگرچہ بادشاہ تھا لیکن اصحابِ کہف سے زیادہ ولی تھا۔ مشرق اور مغرب کا بادشاہ ہو اس کے باوجود اس میں غرور نہ آئے تو اصل بندہ تو یہ ہے۔ مولانا فرماتے ہیں کہ ولی تو اصحابِ کہف بھی تھے لیکن بڑا ولی یہ تھا۔ کیوں کہ وہ ولی وہ تھے جو جابر بادشاہ سے چھپے اور غار میں عبادت کی اور یہ ولی وہ تھا جو جابر بادشاہ سے ٹکرایا اور کفر کے خلاف واضح کام کیا ہے۔ تو دونوں نے اپنے ایمان کو بچایا لیکن انہوں نے ایمان کو بچانے کے لیے غار کا رخ کیا اور انہوں نے ایمان کو بچانے اور دنیا میں دین پھیلانے کے لیے سمندوں کا رخ کیا ہے۔ اللہ ہمیں یہ باتیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
دیوارِ ذو القرنین میں سوراخ ہو چکا ہے:
آخر میں آپ سےایک بات عرض کرتا ہوں۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سوئے ہوئے تھے۔ اچانک رات کو اٹھے اور فرمایا:
لَا إلٰهَ إِلَّا اللهُ وَيْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدِ اقْتَرَبَ
کہ ہلاکت ہو عرب کےلیے ایک ایسے شر سے جو قریب آ چکا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فُتِحَ الْيَوْمَ مِنْ رَدْمِ يَأْجُوْجَ وَمَأْجُوْجَ مِثْلُ هٰذِهٖ.
یاجوج ماجوج والی جو دیوار ہے اس سے اتنا سوراخ ہو گیا ہے۔
اب یہ کتنا ہے؟ اس حدیث کے جو راوی ہیں حضرت سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ انہوں نے اپنے ہاتھ سے دس کے عدد کی شکل بنا کر دکھائی۔ 104F
صحیح مسلم، رقم: 2880
اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی جو روایت ہے کہ
"فُتِحَ الْيَوْمَ مِنْ رَدْمِ يَأْجُوْجَ وَمَأْجُوْجَ مِثْلُ هٰذِهٖ"
کہ یاجوج ماجوج والی جو دیوار ہے اس سے اتنا سوراخ ہو گیا ہے۔ اس روایت کے راوی وہیب ہیں، انہوں نے انگلیوں کے اشاروں سے نوے کے عدد کی شکل بنائی۔
" وَعَقَدَ وُہَیْبٌ بِيَدِهِ تِسْعِينَ"105F>
صحیح مسلم، رقم: 2881
جس بندے کو عدد معلوم نہیں وہ کہے گا کہ دونوں احادیث میں تعارض ہے اور جس بندہ کو عدد معلوم ہو گا وہ کہے گا کہ تعارض نہیں ہے۔
میں نے اس پر مستقل ایک فائل تیار کی ہے جس میں انگلیوں کی مدد سے گنتی گننے کا طریقہ لکھا ہے۔ اس طریقے کو ”عقد انامل“ کہتے ہیں۔ آپ اگر چاہیں تو وہ فائل مرکز اھل السنۃ والجماعۃ سے منگوا لیں۔ آپ یقین فرمائیں کہ ان دس انگلیوں کی مدد سے انسان دس ہزار تک آسانی کے ساتھ گنتی گن سکتا ہے۔
یاجوج ماجوج کی تعداد:
یاجوج ماجوج دنیا میں کتنے ہوں گے؟ حدیث پاک میں ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ رب العزت حضرت آدم علیہ السلام سے فرمائیں گے کہ آپ اپنی اولاد میں سے ان لوگوں کو اٹھائیے جو جہنمی ہیں۔ وہ عرض کریں گے: یا اللہ! جہنمی کون لوگ ہیں؟ اللہ فرمائیں گے ہر ایک ہزار میں سے نو سو ننانوے جہنمی ہیں اور صرف ایک جنتی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جب یہ بات سنی تو ڈر گئے اور عرض کیا یارسول اللہ! ہم میں سے وہ ایک جنتی کون سا ہو گا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پریشان نہ ہو کیونکہ یہ نو سو ننانوے جہنمی تم میں سے ایک اور یاجوج وماجوج میں سے ایک ہزار کی نسبت سے ہوں گے۔106F
صحیح البخاری، رقم : 4741
اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ (آمین)
متکلمِ اسلام کی نصیحت:
دوباتیں ذہن میں رکھ لیں:اللہ کے ذکر اور قرآن کریم کی تلاوت کا اہتمام کریں۔ اور اہل الذکر اور علماء کے ساتھ تعلق رکھیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ذکر کی بھی توفیق عطا فرمائے اور اہل الذکر کے ساتھ تعلق کی بھی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․