سورۃ طٰہٰ

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
سورۃ طٰہٰ
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿طٰہٰ ۚ﴿۱﴾ مَاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡکَ الۡقُرۡاٰنَ لِتَشۡقٰۤی ۙ﴿۲﴾ اِلَّا تَذۡکِرَۃً لِّمَنۡ یَّخۡشٰی ۙ﴿۳﴾تَنۡزِیۡلًا مِّمَّنۡ خَلَقَ الۡاَرۡضَ وَ السَّمٰوٰتِ الۡعُلٰی ؕ﴿۴﴾اَلرَّحۡمٰنُ عَلَی الۡعَرۡشِ اسۡتَوٰی ﴿۵﴾لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ وَ مَا بَیۡنَہُمَا وَ مَا تَحۡتَ الثَّرٰی ﴿۶﴾وَ اِنۡ تَجۡہَرۡ بِالۡقَوۡلِ فَاِنَّہٗ یَعۡلَمُ السِّرَّ وَ اَخۡفٰی ﴿۷﴾اَللہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ؕ لَہُ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰی ﴿۸﴾﴾
حروفِ مقطعات:
﴿طٰہٰ﴾
حروفِ مقطعات میں سے ہے۔ حروف؛ حرف کی جمع ہے، مقطعات؛ قطع سے بنا ہے۔ حروفِ مقطعات کا معنی ہے وہ
حروف جن کو کاٹ کر الگ الگ پڑھا جائے جیسے
﴿الٓـمّٓ﴾
کو الف ․․․ لام․․․میم․․․ الگ پڑھتے ہیں،
﴿طٰہٰ﴾
کو بھی طا․․․ ھا․․․ الگ الگ پڑھتے ہیں اس لیے ان کو حروف مقطعات کہتے ہیں۔ ان حروف کا معنی اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں ہے۔ اگر اللہ رب العزت نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو ان الفاظ کا معنی بتایا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو نہیں بتایا۔ قرآن مجید کے جن حروف کامعنی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہ بتائیں ان کی کھود کرید میں نہیں پڑنا چاہیے۔
میں مختصراً کہتا ہوں کہ بہت سارے مفسرین حضرات یہ بات فرماتے ہیں کہ طا سے مراد یہ ہے اور ھا سے مراد یہ ہے اور بالآخر وہ بھی یہی فرماتے ہیں کہ اس کا معنی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں ہے۔ جب اصل معنی ہی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں تو بہت سارے معانی آپ حضرات کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
جب
﴿طٰہٰ﴾
اور ان جیسے حروفِ مقطعات کے معنی معلوم نہیں تو پھر ان کو قرآن مجید میں ذکر کرنے کا کیا فائدہ ہے؟ تو یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ افراد دو قسم کے ہیں: ایک قسم اہل علم کی ہے اور ایک قسم غیر اہل علم کی ہے۔ علماء کا امتحان الگ ہوتا ہے اور غیر علماء کا امتحان الگ ہوتا ہے۔ ہر آدمی کا امتحان اس کی حیثیت کے مطابق ہوتا ہے۔ غیر عالم کا امتحان اور ابتلاء یہ ہے کہ تم پڑھو! اس کی پڑھنے سے جان جاتی ہے، یہ مشکل ہے اس کے لیے اور علماء جو پڑھنے سے خوش ہوتے ہیں تو ان کی اس سے جان جاتی ہے کہ تم فلاں چیز نہ پڑھو! تواللہ تعالیٰ نے غیر عالم کا امتحان اس میں رکھا ہے کہ یہ قرآن کے معنی سیکھتے ہیں یا نہیں اور عالم کا امتحان اس میں ہے کہ جن الفاظ کے معنی میں نے نہیں بتائے تو یہ ان کی تلاش میں پڑتے ہیں یا نہیں؟ اس لیے فرمایا:
﴿طٰہٰ﴾
کہ عالم رک جائے، یہی اس کی شان ہے کہ جن آیات کے معانی غیر واضح ہیں اور انسانی عقل وہاں تک نہیں پہنچ سکتی ان آیات میں کھود کرید کیے بغیر ان کا معنی اللہ تعالیٰ کے حوالے کر دے۔
قرآن مجیدمیں ہے کہ آیات دو قسم کی ہیں؛ ایک محکمات اور دوسری متَشابہات۔ متَشابہات کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿ فَاَمَّا الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ زَیۡغٌ فَیَتَّبِعُوۡنَ مَا تَشَابَہَ مِنۡہُ ابۡتِغَآءَ الۡفِتۡنَۃِ وَ ابۡتِغَآءَ تَاۡوِیۡلِہٖ؃ وَ مَا یَعۡلَمُ تَاۡوِیۡلَہٗۤ اِلَّا اللہُ ۘ وَ الرّٰسِخُوۡنَ فِی الۡعِلۡمِ یَقُوۡلُوۡنَ اٰمَنَّا بِہٖ ۙ کُلٌّ مِّنۡ عِنۡدِ رَبِّنَا ۚ وَ مَا یَذَّکَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ ﴿۷﴾﴾136F
الاعراف7: 7
کہ جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ پن ہے وہ فتنہ پھیلانے کے لیے ان متَشابہات کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور ان کی تاویلات کرنے میں لگے رہتے ہیں حالانکہ ان آیتوں کا صحیح صحیح مطلب اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا اور جو پختہ کار اہلِ علم ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم ان پر ایمان لاتے ہیں۔
تو ہم بھی ایمان لاتے ہیں کہ
﴿طٰہٰ﴾
کا معنی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔ لہٰذا ہم اس میں کوئی بحث و کرید نہیں کرتے۔
آیات کا شان نزول:
﴿مَاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡکَ الۡقُرۡاٰنَ لِتَشۡقٰۤی ۙ﴿۲﴾﴾
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر مکہ میں جب قرآن مجید کا نزول شروع ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تہجد میں قرآن مجید کی تلاوت اتنی فرماتے کہ بسا اوقات مسلسل قیام کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک پر ورم آ جاتا۔ حدیث مبارک میں ہے:
حَتّٰى تَوَرَّمَتْ قَدَمَاهُ․137F
صحیح البخاری ، رقم: 4836
کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک پر ورم آ جاتا اورسوج جاتے۔
مشرکین نے اس پر جملے کسنا شروع کردیے۔ انہوں نے کہا کہ ان پر قرآن کیا اترا پوری مصیبت آ گئی، اچھا خاصا رات کو سوتے تھے اب پوری رات جاگتے ہیں۔ تو اللہ نے فرمایا:
﴿مَاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡکَ الۡقُرۡاٰنَ لِتَشۡقٰۤی ۙ﴿۲﴾ اِلَّا تَذۡکِرَۃً لِّمَنۡ یَّخۡشٰی ۙ﴿۳﴾﴾
اے میرے پیغمبر! ہم نے آپ پر قرآن اس لیے نہیں اتارا کہ آپ مشقت میں مبتلا ہو جائیں اور مشقت میں پڑ جائیں۔ تمام رات بیدار رہنے اور تلاوت میں مشغول رہنے کی ضرورت نہیں۔ اور ان کو کیا پتا کہ مشقت کیا ہوتی ہے، یہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری مشقت کو دیکھتے ہیں کہ آپ آنسو بہا رہے ہیں، آپ کے پاؤں مبارک سوج رہے ہیں، پوری پوری رات آپ قیام کر رہے ہیں لیکن جو راحت ہم آپ کے قلب کو دیتے ہیں اس راحت کا انہیں اندازہ ہی نہیں اور ان کو پتا ہی نہیں کہ اس میں کیا مزہ آ رہا ہے!
میں آپ کو آسان مثال دیتا ہوں کہ گرمی کا موسم ہے، حاجی نے صرف دو چادریں پہنی ہوئی ہیں، اس کے علاوہ کوئی دوسرا کپڑا نہیں ہے، نہ تیل لگا سکتا ہے اور نہ خوشبو لگا سکتا ہے، جسم میں جویں پڑیں تو ان کو باہر نہیں نکال سکتا اور کھلے میدان میں پڑا ہوا ہو تو لوگ دیکھ کر تو یہی سمجھیں گے کہ یہ شخص کتنی مشقت میں ہے لیکن اس حاجی سے پوچھو کہ اس کو مزہ کتنا آ رہا ہے، اس کو کیا لطف آ رہا ہے۔ تو قرآن کریم رات کو پڑھنے میں کیا مزہ آتا ہے یہ تو اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی جانتے ہیں۔
تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
﴿اِلَّا تَذۡکِرَۃً لِّمَنۡ یَّخۡشٰی﴾
یہ قرآن کریم تو نصیحت ہے ان کے لیے جو اللہ سے ڈریں، یہ مشرکین نہ تو اللہ سے ڈرتے ہیں اور نہ قرآن کریم کے قریب آتے ہیں تو ان کو کیسے سمجھ میں آئے گا کہ قرآن کریم میں کیا ہے۔
حضور علیہ السلام کی رات کی عبادت:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابتدا میں بڑا لمبا قیام فرماتے، بالآخر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی آیت نازل فرمائی:
﴿یٰۤاَیُّہَا الۡمُزَّمِّلُ ۙ﴿۱﴾ قُمِ الَّیۡلَ اِلَّا قَلِیۡلًا ۙ﴿۲﴾ نِّصۡفَہٗۤ اَوِ انۡقُصۡ مِنۡہُ قَلِیۡلًا ۙ﴿۳﴾﴾ 138F
المزمل 73: 1 تا 3
میرے نبی! آپ پوری رات قیام نہ فرمایا کریں، آدھی رات کر لیں یا اس سے بھی کچھ کم کر لیں، آپ تھوڑا قیام فرمایا کریں۔ تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معمول مبارک یہ بنا لیا کہ عشاء کی نماز کے بعد آپ گھر تشریف لے جاتے۔ ہاں اگر آپ کا کوئی مخصوص مشورہ ہوتا تو اس میں حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کو شریک فرماتے، ان کے علاوہ بھی اگر چاہتے تو کسی کو بلا لیتے، کچھ وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشاورت فرماتے۔ اس کے بعد گھر والوں کے ساتھ آرام کرتے اور رات کے آخری پہر میں اٹھ کر اللہ تعالیٰ کے سامنے قیام فرماتے۔
جو میرے طریقے سے روگردانی کرے وہ مجھ سے نہیں:
بلکہ ایک حدیث میں ہے کہ تین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آئے۔ انہوں نے دروازے پر دستک دی اور ازواج مطہرات سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول کیا ہے؟ ازواج مطہرات نے جواب دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیام بھی فرماتے ہیں اور سوتے بھی ہیں، روزہ بھی رکھتے ہیں اور افطار بھی فرماتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح بھی فرمائے ہیں۔ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو بہت بڑے آدمی ہیں اور ہم چھوٹے لوگ ہیں، ہم آپ کا مقابلہ کہاں کر سکتے ہیں! تو ان میں سے ایک نے یہ فیصلہ کر لیا کہ میں پوری رات قیام کروں گا اور نہیں سوؤوں گا، دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزے رکھوں گا اور کبھی افطار نہیں کروں گا اور تیسرے نے یہ فیصلہ کر لیا کہ میں کبھی نکاح نہیں کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بات سنی تو ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ تم کیا کہہ رہے ہو۔ میں تمہاری بنسبت اللہ سے زیادہ ڈرتا ہوں لیکن میری حالت یہ ہے کہ میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں، نماز بھی پڑھتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں اور شادی بھی کرتا ہوں۔ لہذا جو شخص میرے اس طریقے سے روگردانی کرے تو اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔ 139F
صحیح البخاری، رقم:5063
اصل زندگی راہِ اعتدال ہے:
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہ بات سمجھائی کہ اس کا معنی یہ نہیں کہ جو چھوٹا ہے وہ مسلسل روزے رکھے، بلکہ فرمایا کہ اعتدال کے ساتھ اپنی زندگی بسر کرو، نفل بھی پڑھو اور آرام بھی کرو، روزے بھی رکھو اور افطار بھی کرو، جو انسان اعتدال کی زندگی گزارتا ہے تو وہ کبھی پریشان نہیں ہوتا اور ٹینشن کا شکار بھی نہیں ہوتا۔ اگر کبھی پریشان ہو بھی جائے تو کسی کے ہاتھ میں ہاتھ دیا ہو، کسی کو مستقل اپنا شیخ بنایا ہوا ہو اور اس سے رابطہ بھی رکھا ہو تو ان کو بتائے کہ میرے گھر میں یہ مسئلہ ہے، وہ اس کو کوئی آیت بتائے یا ترتیب بتائے تو مسئلہ حل ہو جاتا ہے اور اگر اس سے مسئلہ حل نہ بھی ہو تب بھی آدمی کو ذہنی سکون ہوتا ہے کہ اللہ کا شکر ہے کہ میں اپنے کام میں لگا ہوا ہوں، ورنہ آدمی پریشانیوں کا شکار رہتا ہے۔
خیر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے قرآن مجید مشقت کے لیے نازل نہیں کیا، نصیحت کے لیے نازل کیا ہے۔
آسمان و زمین کی اشیاء کا علم اللہ ہی کے پاس ہے:
﴿تَنۡزِیۡلًا مِّمَّنۡ خَلَقَ الۡاَرۡضَ وَ السَّمٰوٰتِ الۡعُلٰی ؕ﴿۴﴾﴾
یہ قرآن مجید اس ذات کی طرف سے نازل کردہ ہے جس نے زمین اور بلند و بالا آسمان پیدا کیے۔
﴿اَلرَّحۡمٰنُ عَلَی الۡعَرۡشِ اسۡتَوٰی ﴿۵﴾﴾
اور رحمٰن عرش پر مستوی ہے۔ اس مسئلہ پر میں بعد میں بات کروں گا۔
﴿لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ وَ مَا بَیۡنَہُمَا وَ مَا تَحۡتَ الثَّرٰی ﴿۶﴾﴾
جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمینوں میں ہے اور جو کچھ ان کے درمیان ہے یہ سب اللہ تعالیٰ کا ہے۔ اور جو کچھ زمین کی تہہ کے نیچے ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کا ہے۔ لوگ نہ آسمانوں کی بلندی کو معلوم کر سکتے ہیں اور نہ زمین کے نیچے کے حالات کو معلوم کرسکتے ہیں۔
حضرت مولانا مفتی محمدشفیع صاحب نے معارف القرآن میں لکھا ہے کہ لوگوں نے تحقیقات کی ہیں کہ زمین کے نیچے کیا ہے، انہوں نے نیچے جانے کی کوشش کی ہے، چھ میل تک گئے ہیں اس سے آگے ان کے آلات کام نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کے نیچے مستقل چٹان ہے جو ٹوٹتی نہیں ہے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس کے نیچے کیا ہے وہ تم نہیں جانتے، میں جانتا ہوں، میرے علم کا تمہیں اندازہ نہیں ہے۔
جامع الترمذی کی روایت میں ہے -میں ان شاء اللہ آگےچل کر اسے دلیل کے طور پر بھی پیش کروں گا- کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَوْاَنَّکُمْ دَلَّیْتُمْ بِحَبْلٍ اِلَی الْاَرْضِ السُّفْلیٰ لَھَبَطَ عَلَی اللّٰہِ.140F
سنن الترمذی، رقم:3298
اگر تم ایک ڈول رسی سے باندھ کر نیچے لٹکاؤ اور وہ رسی نچلی زمین یعنی تحت الثری تک جائے تو وہ بھی ایسے ہو گی جیسے اللہ کے بالکل پاس پڑی ہو، اللہ سے وہ رسی بھی دور نہ ہو گی جو ساتویں زمین تک چلی گئی ہے ۔
سِرّ اور اخفیٰ میں فرق:
﴿وَ اِنۡ تَجۡہَرۡ بِالۡقَوۡلِ فَاِنَّہٗ یَعۡلَمُ السِّرَّ وَ اَخۡفٰی ﴿۷﴾﴾
اللہ کو بہت اونچا پکارنے کی ضرورت نہیں ہے، اللہ تو آہستہ بات بھی سنتے ہیں اور مزید آہستہ بھی سنتے ہیں۔ یہاں دو لفظ استعمال فرمائے ہیں ایک ہے لفظ
”سِرّ“
اور دوسرا ہے لفظ
”اَخْفٰى“۔
سِر کا معنی ہے خفی، پوشیدہ اور اخفی کا معنی ہے بہت زیادہ پوشیدہ۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ دونوں میں فرق یہ ہے کہ ”سِرّ“ اس پوشیدہ کو کہتے ہیں جو بندے کے دل میں ہو اور
”اَخْفٰى“
اس پوشیدہ کو کہتے ہیں جو بندے کے دل میں آنا ہے لیکن ابھی تک نہیں آیا۔ ایک تو ہمارے دل میں ہےنا مثلاً جب ہم درسِ قرآن سے فارغ ہوں گے تو میں نے کہاں جانا ہے، آپ نے کہاں جانا ہے یہ ہمارے دماغ و سوچ میں ہے، اس کو سر کہتے ہیں اور اخفی کہتے ہیں کہ کل ہم نے مزید دل میں کیا سوچنا ہے یہ ہمیں پتہ نہیں، تو آج جو تمہارے دل میں ہے اللہ تعالیٰ اس راز کو بھی جانتے ہیں اور آئندہ تمہارے دل نے جو راز سوچنا ہے اللہ تعالیٰ اس کو بھی جانتے ہیں۔
﴿اَللہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ؕ لَہُ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰی ﴿۸﴾﴾
اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور اللہ کےلیے بہت اچھے اچھے، پیارے پیارے نام ہیں۔
استواء علی العرش متَشابہات میں سے ہے:
میں ان آیات میں سے آج آپ کی خدمت میں دو آیتیں پیش کروں گا۔ یہ دو اہم آیتیں ہیں اور ان کا تعلق عقائد سے ہے۔ پہلی آیت ہے:
﴿اَلرَّحۡمٰنُ عَلَی الۡعَرۡشِ اسۡتَوٰی ﴿۵﴾﴾
اھل السنۃ و الجماعۃ کا مسلک اور مذہب یہ ہے کہ یہ آیت متَشابہات میں سے ہے ۔ متَشابہات کی دو قسمیں ہیں:
ایک قسم یہ ہے کہ جو لفظ قرآن میں استعمال ہوا ہے اس کا معنی بھی معلوم نہ ہو اور مراد بھی معلوم نہ ہو۔ جیسے لفظ
”طٰہٰ“۔
اب حرف ”طا “ کا عربی میں کوئی معنی نہیں اور حرف ”ھا“ کا بھی کوئی معنی نہیں۔ جب حروف کو آپس میں جوڑا جاتا ہے تب ان کا معنی بنتا ہے۔ آپ کہتے ہیں: الف․․․ ب․․․ ت․․․ ث․․․۔ الف کا کوئی معنی نہیں لیکن جب الف کو لام اور ہ سے جوڑیں گے تو لفظ ”اللہ“ بنے گا۔ اب اس کامعنی بھی ہوگا۔تو ”طٰہٰ“ کا معنی بھی معلوم نہیں اور مراد بھی معلوم نہیں۔
متَشابہات کی دوسری قسم یہ ہے کہ اس لفظ کا عربی میں معنی تو معلوم ہے لیکن قرآن میں اس کا مطلب کیا ہے یہ معلوم نہیں، جیسے
﴿اَلرَّحۡمٰنُ عَلَی الۡعَرۡشِ اسۡتَوٰی﴾
ہے کہ رحمٰن عرش پر مستوی ہے۔ اب رحمن کا معنی ہے بڑا مہربان، ”علی“ کا معنی ہے پر،عرش کا معنی ہے ”تخت“،استویٰ کا معنی ہے مستقر بنانا، لیکن یہاں قرآن مجید میں
﴿اَلرَّحۡمٰنُ عَلَی الۡعَرۡشِ اسۡتَوٰی﴾
کی مراد معلوم نہیں ہے۔ توپھر ان آیات کا مطلب کیا ہے؟
اھل السنۃ و الجماعۃ کا موقف:
اس کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات موجود بلا مکان ہے، اب موجود بلا مکان کو سمجھانے کے لیے ترجمہ یہ کرتے ہیں کہ ”اللہ تعالیٰ ہر جگہ پر ہے“۔ اللہ تعالیٰ جگہ سے پاک بھی ہیں اور ہر جگہ پر بھی ہیں۔ جیسے ہم کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ چھ جہات سے پاک بھی ہیں اور چھ جہات کو محیط بھی ہیں۔ کیا معنی؟ ایک اوپر کی جہت ہے فوق، ایک نیچے کی جہت ہے تحت، آگے کی جہت ہے قُدَّام، پیچھے کی جہت ہے خَلْف، دائیں کی ہے جہت یمین اور بائیں کی جہت ہے شِمال۔اللہ تعالیٰ ان چھ جہات سے پاک بھی ہیں اور ان جہات کو محیط بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی عجیب شان ہے۔
اب اللہ تعالیٰ کی صفات کے متعلق بعض باتیں ایسی ہیں کہ اگر میں وہ آپ کے سامنے ذکر بھی کروں گا تو آپ سمجھ نہیں پائیں گے، ان کو سمجھنا آپ کے بس میں نہیں ہے۔ وہ اتنی اوپر کی باتیں ہوتی ہیں کہ عام عالم نہیں سمجھ سکتا تو عوام ان کو کیسے سمجھیں گے۔ بڑا مشکل کام ہے۔ میں ان موضوعات کو نہیں چھیڑتا۔ میں موٹی موٹی باتیں عرض کرتا ہوں۔
”اللہ تعالیٰ ہر جگہ پر ہے“ کی وضاحت:
ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ پر ہے اور ہر جگہ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ جگہ سے پاک ہیں، موجود بلا مکان ہیں، اللہ تعالیٰ کو اپنے وجود کے لیے کسی جگہ کو اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اللہ تعالیٰ دیکھتے ہیں ہم بھی دیکھتے ہیں لیکن ہم میں سے کوئی ایسا بندہ ہے جس کی آنکھ نہ ہو پھر بھی دیکھے؟ کوئی ایسا بندہ نہیں ہے۔ اللہ پاک دیکھتے ہیں لیکن آنکھ سے پاک ہیں، اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کے لیے آنکھ کی ضرورت نہیں ہے، ہم پکڑتے ہیں لیکن پکڑیں گے تب جب ہاتھ ہو گا، ہاتھ نہیں ہو گا تو کیسے پکڑیں گے؟ اللہ تعالیٰ بندے کو پکڑتے ہیں
:﴿اِنَّ بَطۡشَ رَبِّکَ لَشَدِیۡدٌ ﴿ؕ۱۲﴾﴾
لیکن اللہ تعالیٰ ہاتھ سے پاک ہے، اللہ کی پکڑ بہت سخت ہے۔ ہم سنتے ہیں کان سے، کسی بندے کے کان ہی نہ ہوں پھر سنے ایسا نہیں ہو سکتا، اللہ تعالیٰ سننے میں کان کے محتاج نہیں ہیں۔ ہم بولتے ہیں جب زبان ہو، کسی کی زبان کاٹ کر پھینک دو تو وہ بول نہیں سکتا، اللہ تعالیٰ بولنے میں زبان کے محتاج نہیں ہیں، اللہ تعالیٰ صمد اور بے نیاز ذات ہے۔ صمد کہتے ہیں:
” اَلَّذِیْ لَا یَحْتَاجُ اِلٰی اَحَدٍ وَ یَحْتَاجُ اِلَیْہِ کُلُّ اَحَدٍ“
کہ کائنات میں وہ کسی چیز کا محتاج نہ ہواور کائنات کا ہر ذرہ اس کا محتاج ہو۔ صمد کا آسان ترجمہ ”بے نیاز“ کر دیا جاتا ہےتا کہ لوگ سمجھ جائیں، لمبا ترجمہ عام بندہ سنبھال نہیں سکتا۔ تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہر جگہ موجود ہے، یہ ہمارا عقیدہ ہے۔
بعض لوگوں کا نظریہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ پر نہیں بلکہ عرش پر ہیں اور ان کی دلیل یہی آیت
﴿اَلرَّحۡمٰنُ عَلَی الۡعَرۡشِ اسۡتَوٰی﴾
اور اس جیسی دیگر آیات ہیں۔ تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ دیکھو جی! اللہ تعالی کہہ رہے ہیں کہ میں عرش پر مستوی ہوں اور آپ کہتے ہو کہ اللہ تعالی عرش پر نہیں ہے؟
اللہ تعالی کے ہر جگہ ہونے کے دلائل:
ہمارا اھل السنۃ والجماعۃ کا مسلک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ پر ہے۔ پہلے اس کے دلائل ذہن نشین فرما لیں :
[1]: قرآن کریم میں ہے:
﴿وَ لِلہِ الۡمَشۡرِقُ وَ الۡمَغۡرِبُ ٭ فَاَیۡنَمَا تُوَلُّوۡا فَثَمَّ وَجۡہُ اللہِ ؕ﴾141F
البقرۃ 2: 115
مشرق بھی اللہ کا ہے اور مغرب بھی اللہ کا ہے، تم جدھر بھی رخ کرو گے ادھر اللہ کی ذات ہے۔
تو اللہ کی ذات ہر طرف ہے جیسا کہ قرآن کریم میں آ گیا ہے۔
[2]: سورۃ المجادلۃ میں ہے:
﴿ مَا یَکُوۡنُ مِنۡ نَّجۡوٰی ثَلٰثَۃٍ اِلَّا ہُوَ رَابِعُہُمۡ وَ لَا خَمۡسَۃٍ اِلَّا ہُوَ سَادِسُہُمۡ وَ لَاۤ اَدۡنٰی مِنۡ ذٰلِکَ وَ لَاۤ اَکۡثَرَ اِلَّا ہُوَ مَعَہُمۡ اَیۡنَ مَا کَانُوۡا﴾142F
المجادلۃ58: 7
اگر تین آدمیوں میں کوئی سرگوشی ہوتی ہے تو چوتھا اللہ ہوتا ہے، پانچ آدمیوں میں ہو تو چھٹا اللہ ہوتا ہے، اور سرگوشی کرنے والے اس سے کم ہوں یا زیادہ ہوں، وہ جہاں کہیں بھی ہوں اللہ ان کے ساتھ ہوتا ہے۔
[3]: ﴿وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ﴾ 143F
البقرۃ 2: 186
اگر آپ سے میرے بندے میرے بارے میں پوچھیں کہ اللہ کہاں ہے؟ تو آپ نے کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ قریب ہے، اور کتنا قریب ہے؟ فرمایا:
﴿ وَ نَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَیۡہِ مِنۡ حَبۡلِ الۡوَرِیۡدِ ﴿۱۶﴾﴾ 144F
ق50: 16
ہم بندے کی شہ رگ سے زیادہ اس کے قریب ہیں۔
اس آیت کو سمجھانے کے لیے حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں کہ جب کاغذ؛ کاغذ کے ساتھ جڑتا ہے تو بیچ میں گوند کا واسطہ ہوتا ہے لیکن گوند کاغذ کے ساتھ جڑی ہے تو اس میں کوئی واسطہ نہیں ہے۔ حضرت فرماتے ہیں کہ اسی طرح انسان اور اس کی شہ رگ اللہ تعالیٰ کے واسطے سے ملتے ہیں۔ بندہ اور اس کی شہ رگ کے درمیان واسطہ اللہ کی ذات کا ہے۔ تو گویا انسان اور اس کی شہ رگ واسطے سے ملے ہیں اور اللہ تعالیٰ انسان سے اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے کیونکہ درمیان میں کسی چیز کا واسطہ نہیں۔ 145F
خطباتِ حکیم الامت: ج17 ص431 عنوان: اقربیت کا مفہوم
[ 4]: ﴿ءَاَمِنۡتُمۡ مَّنۡ فِی السَّمَآءِ ﴾ 146F
الملک 67: 16
کیا تم اس اللہ سے نہیں ڈرتے جو آسمانوں میں ہے۔
[5]: ﴿وَ ہُوَ اللہُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ فِی الۡاَرۡضِ﴾ 147F
الانعام6: 3
اور وہی اللہ آسمانوں میں بھی ہے اور زمین میں بھی ہے۔
تو معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ پر ہے۔
میں نے آپ کے سامنے پانچ آیتیں پیش کی ہیں کہ اللہ تعالیٰ مشرق میں بھی ہے، مغرب میں بھی ہے، اللہ تعالیٰ انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے، آسمانوں میں بھی ہے اور زمین میں بھی ہے یعنی ہر جگہ پر ہے۔
اللہ کو صرف عرش پر ماننے والوں کی پہلی دلیل :
جو لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ پر نہیں، صرف عرش پر ہے وہ دلیل میں آیت
﴿ اَلرَّحۡمٰنُ عَلَی الۡعَرۡشِ اسۡتَوٰی﴾
پیش کرتے ہیں کہ اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر ہے۔
اس دلیل کا جواب:
ہم کہتے ہیں کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ اس کا معنی یہ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عرش پر ہے تو یہ ہمارے خلاف نہیں ہے، اس لیے کہ ہم کہتے ہیں اللہ تعالیٰ ہر جگہ پر ہے، عرش پر بھی ہے فرش پر بھی ہے۔ آپ کی پیش کردہ دلیل سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ عرش پر ہے لیکن یہ تو ثابت نہیں ہوا کہ اس کے علاوہ کہیں اور نہیں ہے۔ جب آپ ساری آیتیں ملائیں گے کہ اللہ تعالیٰ مشرق و مغرب میں بھی ہے، آسمانوں اور زمین میں بھی ہے، شہ رگ سے زیادہ قریب بھی ہے اور عرش پر بھی ہے تو یہ ہمارے حق میں ہے۔
ہم کہتے ہیں کہ آپ کے عقیدے کے خلاف کئی آیتیں موجود ہیں جس میں ہے کہ اللہ آسمان میں ہے، زمین میں ہے، اللہ تعالیٰ شہ رگ سے زیادہ قریب بھی ہے، مشرق میں ہے، مغرب میں ہے وغیرہ لیکن ہمارے عقیدے کے خلاف پورے قرآن مجید میں کوئی آیت موجود نہیں ہے۔ میں اس لیے آپ سے عرض کرتا ہوں کہ آپ دل بڑا رکھا کریں، ہمارے مسلک کے خلاف قرآن مجید میں کوئی آیت بھی نہیں ہے، ہمارے مسلک کے خلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث مبارک نہیں ہے، اس لیے آپ گھبرایا نہ کریں۔
اب یہ جو آیت ہے :
﴿اَلرَّحۡمٰنُ عَلَی الۡعَرۡشِ اسۡتَوٰی﴾
ہم کہتے ہیں کہ اس کا معنی اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے، اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ اللہ عرش پر ہے۔اور اگر اس آیت کا معنی وہ کر بھی دیں جو یہ لوگ کرتے ہیں کہ ”خدا عرش پر ہے“ تو ہمارے خلاف پھر بھی نہیں ہو گی۔ اس لیے ہم یہ بات عرض کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر جگہ موجود ہے۔
جو لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ صرف عرش پر ہے تو وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ
﴿اَلرَّحۡمٰنُ عَلَی الۡعَرۡشِ اسۡتَوٰی﴾،
آپ اس کا جواب سمجھ گئے ہیں؟ (جی ہاں، سامعین) دیکھیں! اگر اس آیت کا معنی یہ کریں کہ ”اللہ تعالیٰ صرف عرش پر ہے“ تو پھر اس معنی کے خلاف دوسری آیتیں بھی ہیں مثلاً اللہ مشرق میں بھی ہے، مغرب میں بھی ہے، آسمانوں میں بھی ہے، تمہارے ساتھ بھی ہے، شہ رگ سے زیادہ قریب بھی ہے۔ تو یہ ساری آیات اس آیت
﴿اَلرَّحۡمٰنُ عَلَی الۡعَرۡشِ اسۡتَوٰی﴾
کے خلاف ہو جائیں گی نا؟ حالانکہ قرآن میں اختلاف نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
:﴿وَ لَوۡ کَانَ مِنۡ عِنۡدِ غَیۡرِ اللہِ لَوَجَدُوۡا فِیۡہِ اخۡتِلَافًا کَثِیۡرًا ﴿۸۲﴾﴾ 148F
النساء 4: 82
کہ اگر قرآن کسی اور کی طرف سے ہوتا تواس میں کئی اختلاف ہوتے۔
یعنی اگر قرآن میں اختلاف آ جائے تو سمجھو کہ قرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، دلیل اس کی یہ ہے کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
اس لیے آپ ساری آیتیں ملائیں گے تو نتیجہ نکلے گا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر جگہ پر ہے۔ اس لیے اس آیت کا یہ معنی کرنا کہ صرف عرش پر ہے، بالکل غلط ہے۔ اگر معنی ” عرش پر“ کر لیں تو پھر شاید کوئی بات بنے لیکن ”صرف عرش پر“ معنی کرنا تو بالکل غلط ہے۔
اللہ کو صرف عرش پر ماننے والوں کی دوسری دلیل :
ان لوگوں کی دوسری دلیل مسلم شریف کی حدیث ہے۔ اس کا نام حدیث جاریہ ہے۔ ”جاریہ“ باندی کوکہتے ہیں۔ ایک دفعہ ایک صحابی حضرت معاویہ بن الحکم السلمی رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میری ایک باندی تھی جو احد اور جوانیہ کی طرف میری بکریاں چرایا کرتی تھی، ایک دن میں اس جگہ گیا اور دیکھا کہ ایک بھیڑیا آ گیا اور ایک بکری کو اٹھا کر لے گیا۔ میں بھی انسان ہوں، مجھے بھی غصہ آتا ہے۔ تو میں نے بہت زور سے اس کو تھپڑ مارا۔ صحابی خود فرماتے ہیں کہ جب یہ بات میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی تو آپ کو بہت زیادہ نا گوار گزری۔ میں نے محسوس کیا تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اس کو آزاد کر دوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کو لے آؤ۔ میں اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دو سوال کیے:
پہلا سوال یہ کیا :
”أَيْنَ اللهُ؟“
کہ اللہ تعالیٰ کہاں ہیں؟ تو اس نے جواب دیا: ”فِي السَّمَاءِ“ کہ وہ آسمان میں ہیں۔
دوسرا سوال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہا:
”مَنْ أَنَا؟“
کہ میں کون ہوں؟ تو اس نے جواب دیا:
”أَنْتَ رَسُوْلُ اللهِ “
آپ اللہ کے رسول ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَعْتِقْهَا فَإِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ
کہ اس کو آزاد کر دو، یہ مؤمنہ ہے۔ 149F
صحیح مسلم، رقم: 537
تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ ہر جگہ پر نہیں کیونکہ اس باندی نے یہ نہیں کہا کہ اللہ ہر جگہ پر ہے بلکہ اس نے کہا کہ اللہ آسمان میں ہے۔
اس دلیل کا جواب:
پہلی بات یہ ہے کہ یہ آپ کی دلیل نہیں بنتی کیونکہ یہ آپ کے دعویٰ کے مطابق نہیں، آپ کا دعویٰ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر ہے اور باندی نے کہا کہ اللہ آسمان میں ہے، تو آسمان بہت نیچے ہے، پھر اس کے اوپر سدرۃ المنتہی ہے، پھر کرسی ہے، پھر سمندر ہے، پھر عرش ہے۔ تو تمہارے دعوے کے مطابق یہ دلیل کیسے ہوئی؟ یہ دلیل تو ہماری بنتی ہے، کیوں کہ ہمارا دعویٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ پر ہے اور ہر جگہ میں آسمان بھی ہے۔ تو یہ ہماری دلیل ہے، تمہاری نہیں۔
انسان مکلف بقدرِ عقل:
دوسری بات یہ سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ ہے اس کو ہر بندہ سمجھ نہیں سکتا اور نہ ہر بندہ سمجھا سکتا ہے۔ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں کہ انسان مکلف بقدر عقل ہوتا ہے، جتنی اس کی عقل ہوتی ہے اللہ اتنا اس کو پابند کرتے ہیں، اس سے زیادہ اس کو پابند نہیں کرتے۔ اس پر حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے دو مثالیں دی ہیں:
ایک مثال بنی اسرائیل کی دی ہے اور ایک مثال اب کے دور کی دی ہے اور دونوں مثالیں بڑی عجیب ہیں۔
صحیح بخاری میں روایت ہے کہ ایک شخص کے مرنے کا وقت قریب آ گیا۔ جب اس کو اندازہ ہوا کہ اب میں زندہ نہیں رہ سکتا تو اس نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ جب میں مر جاؤں تو بہت سی لکڑیاں جمع کرکے آگ جلانا اور مجھے اس میں ڈال دینا، میری لاش جلانے کے بعد ہڈیوں کو پیس لینا اور اس راکھ کو کسی گرم یا کسی تیز ہوا چلنے والے دن میں پانی میں بہا دینا۔ جب وہ فوت ہو گیا تو اس کے گھر والوں نے اس کی وصیت کے مطابق یہ کام کیا اور اس کی راکھ کو پانی میں بہا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس بندے کے اعضاء کو جمع کیااور اس سے پوچھا کہ تو نے ایسا کیوں کیا تھا؟ اس بندے نے کہا:
مِنْ خَشْیَتِکَ
اے اللہ! تیرے ڈر کی وجہ سے ایسا کیا۔ تو خدا نے اس کوبخش دیا۔ 150F
صحیح البخاری، رقم: 3479
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ تو کفر ہے کہ کوئی بندہ یہ کہے کہ میرا جسم ہوگا تو اللہ عذاب دے گا اور اگر جسم نہیں ہو گا تو اللہ عذاب ہی نہیں دے گا۔ کیا اللہ عذاب دینے میں جسم کے پابند ہیں کہ جسم سالم ہے تو عذاب ہو گا، اگر جسم سالم نہیں ہے تو اللہ عذاب نہیں دے سکتا؟! اب یہ جو اس بندے نے کہا کہ
مِنْ خَشْیَتِکَ
اے اللہ! تیرے ڈر کی وجہ سے ایسا کیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے اسے معاف کر دیا۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس شخص میں عقل ہی اتنی تھی، وہ سمجھتا تھا کہ جسم ہو تو اللہ عذاب دیتے ہیں، نہ ہو تو دیتے ہی نہیں اس لیے اس کو ختم کر دو تا کہ اللہ مجھے عذاب ہی نہ دیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس کی عقل کے مطابق فیصلہ فرمایا اور فرمایا کہ میں نے تجھے بخش دیا۔
حضرت تھانوی کی پیش کردہ مثال:
دوسری مثال حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی عجیب دی۔ فرمایا کہ ایک مولوی صاحب نے ایک دیہات میں تقریر کی۔ اس نے کہا کہ اللہ کا ہاتھ بھی نہیں ہے، اللہ کی آنکھ بھی نہیں ہے، اللہ کا ناک بھی نہیں ہے، اللہ کا کان بھی نہیں ہے۔ اصل یہ ہوتا ہے کہ کس موقع پر جملہ کہنا کیسا ہے؟ ہم کہتے ہیں کہ اللہ دیکھتا ہے لیکن بغیر آنکھ کے، اللہ آنکھ سے پاک ہے۔ اللہ سنتا ہے لیکن بغیر کان کے، اللہ کان سے پاک ہے۔ ان جملوں کا مفہوم بالکل الگ ہوتا ہے لیکن وہاں عوام بھی دیہات کی تھی اور مولوی صاحب بھی دیہات کا تھا۔ تو اس نے تقریر کی اور یہ جملے کہے کہ اللہ کا ہاتھ بھی نہیں ہے، اللہ کی آنکھ بھی نہیں ہے، اللہ کا ناک بھی نہیں ہے، اللہ کا کان بھی نہیں ہے تو ایک دیہاتی اس کی تقریر سن رہا تھا۔ اس نے کہا کہ یہ اللہ ہے یا کوئی تربوز ہے -العیاذ باللہ- کہ نہ آنکھ ہے، نہ ناک ہے، نہ کان ہے کچھ بھی نہیں ہے، کیا یہ اللہ ہے؟
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اس دیہاتی بندےکو کافر نہیں کہنا، کیوں کہ اس بیچارے کی عقل ہی اتنی تھی۔ تو جتنی عقل ہو بندہ اتنا مکلف ہوتا ہے۔
حدیث جاریہ کا مطلب از حضرت تھانوی:
اب حدیث جاریہ کے بارے میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس باندی سے پوچھا
”أَيْنَ اللهُ؟“
کہ اللہ تعالیٰ کہاں ہیں؟ اور اس نے جواب دیا:
”فِي السَّمَاءِ“
کہ اللہ آسمان میں ہیں۔ باندی کا یہ جواب واقع کے مطابق درست نہیں تھا لیکن وہ چونکہ باندی ہے، بدو عورت ہے،وہ اتنی بات کیسے سمجھائے کہ اللہ ہر جگہ پر ہے، اس پر وہ دلیل کہاں سے لائے؟ تو اس نے اپنی عقل کے مطابق کہا کہ اللہ آسمان میں ہے، کیوں کہ جب ہر جگہ پر ہے تو آسمان میں بھی تو ہو گا نا!۔ یہ ایسے ہے جیسے آپ ایک چھوٹے بچے سے پوچھیں کہ اللہ تعالیٰ کدھر ہیں؟ وہ اوپر اشارہ کرتا ہے، کیونکہ بے چارہ سمجھ ہی اتنی رکھتا ہے۔ میں اس پر بھی ان شاء اللہ بات کروں گا کہ اوپر اشارہ کیوں کیے جاتے ہیں؟تو اس باندی کا جواب اگرچہ واقع کے مطابق نہ تھا لیکن چونکہ اس کی عقل کے بقدر تھا اس لیے اس کا ایماندار ہونا تسلیم کر لیا گیا۔
یہ ان لوگوں کی دوسری دلیل تھی، ان کے پاس زیادہ دلائل نہیں ہیں۔
اللہ تعالی کو صرف عرش پر ماننے والوں کا ایک شبہ:
ان کے علاوہ یہ لوگ عقلی دلیلیں پیش کرتے ہیں، عقل سے ثابت کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ہر جگہ پر نہیں ہے۔ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ ایک شخص نے مجھ سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کہاں ہے؟ میں نے کہا کہ ہر جگہ پر ہے۔ اس نے کہا کہ یہ بتائیے کہ اللہ تعالیٰ بیت الخلاء میں بھی ہے؟ -العیاذ باللہ- اب اگر میں اس سے کہتا کہ اللہ تعالیٰ وہاں نہیں ہے پھر تو اللہ تعالیٰ ہر جگہ پر نہ ہوئے، ہر جگہ ہونےکا دعوی ٹوٹ گیا اور اگر میں کہتا کہ -العیاذ باللہ - ہے تو یہ تو گستاخی ہے، ایک مسلمان کیسے کہہ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بیت الخلاء میں ہے؟!
تو یہ لوگ ایسے سوال بناتے ہیں پھنسانے کے لیے تا کہ لوگ پھنس جائیں۔
اس شبہ کا جواب:
میں نے اس سے پوچھا کہ آپ کو کچھ قرآن بھی یادہے؟ اس نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے میں پورے قرآن کا حافظ ہوں۔ میں نے کہا: اب بات سمجھانی بہت آسان ہو گئی۔ میں نے پوچھا کہ آپ کے سینے میں قرآن موجودہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ میں نے کہا کہ تیرے سینے میں قرآن محفوظ ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ میں نے کہا: عقل مند آدمی! جب تیرے سینے میں قرآن مجید موجود نہیں ہے تو محفوظ کیسے ہوا؟ میں نے سمجھانے کے لیے اسے کہا کہ میں کہتا ہوں کہ میری جیب میں پیسے موجود نہیں ہیں بلکہ محفوظ ہیں تو کیا یہ صحیح ہو گا؟ کہنے لگا: نہیں، کیونکہ موجود ہوں گے تو محفوظ ہوں گے۔ تو میں نے کہا: اب بتاؤ! تمہارے سینے میں قرآن موجود ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں موجود ہے۔ میں نے کہا: اب دوسرا مسئلہ بتاؤ کہ کوئی آدمی قرآن مجید کو بیت الخلاء میں لے کر جا سکتا ہے؟ کہنے لگا: نہیں۔ میں نے کہا کہ تیسری بات بتاؤ کہ کوئی آدمی قرآن پاک بیت الخلاء میں نہیں لے کر جا سکتا تو جب تو بیت الخلاء جاتا ہے تو اپنے سینے کو پھاڑ کر قرآن پاک کو باہر نکال کر جاتا ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ میں نے کہا کہ پھر قرآن پاک کی بے ادبی کرتا ہے؟ اس نے کہا کہ میرے سینے میں قرآن موجود ہے لیکن جسم سے پاک ہے، تو میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ بھی ہر جگہ موجود ہے لیکن جسم سے پاک ہے۔
یہ جو قرآن ہمارے سامنے موجود ہے اس کو بیت الخلاء میں لے کر جانا بے ادبی ہے لیکن جو سینے میں ہے اس کو لے کر جانا بے ادبی نہیں ہے کیونکہ یہ جسم والا ہے اور وہ جسم سے پاک ہے۔ جس طرح سینے میں قرآن پاک بلا جسم ہے، بیت الخلاء میں جائیں تو اشکال نہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی بلا جسم ہے، ہر جگہ موجود ہے، اب کوئی اشکال نہیں۔
اتحاد اور حلول میں فرق:
مجھے ایک آدمی کہنے لگا کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے؟ -میں پوری دنیا میں جاتا ہوں، مجھے ہر قسم کے لوگ ملتے ہیں- میں نے اسے کہا: جی ہاں۔تو اس نے کہا کہ دنیا میں جب بھی دو چیزیں ہر جگہ موجود ہوتی ہیں تو ان دونوں میں یا اتحاد ہوتا ہے یا حلول ہوتا ہے؟ تو اب آپ بتائیے کہ اللہ تعالیٰ جس جگہ موجود ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کا اس جگہ کے ساتھ اتحاد ہوتا ہے یا حلول ہوتا ہے؟
اتحاد اور حلول کا معنی یہ ہے کہ چار پانچ چیزیں آپ اکٹھی کر لیں اور ان میں سے ہر ایک کا اپنا وجود قائم رہے تو اسے ”اتحاد“ کہتے ہیں، جیسے ہم ناشتے میں آملیٹ کھاتے ہیں، اس میں کیا ہوتا ہے؟ انڈہ، گھی، ٹماٹر، ہری مرچ اور کالی مرچ۔ تو ہر چیزالگ الگ نظر آتی ہے، یہ اتحاد ہے، اور حلول کی مثال چائے ہے، اس میں دودھ، پتی، چینی اور پانی ہوتا ہے لیکن جب چائے تیار ہوجاتی ہے تو ہر چیز کا وجود فنا ہوجاتا ہے کسی چیز کا وجود الگ الگ نہیں رہتا۔ یہ حلول ہے۔
اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا دوسری چیزوں میں اتحاد ہے یا حلول ہے؟ میں نے کہا کہ نہ اتحاد ہے اور نہ حلول ہے، اس نے کہا: اتحاد بھی نہیں حلول بھی نہیں تو پھر اللہ کیسے موجود ہیں؟ میں نے کہا کہ اتحاد اور حلول ان کا ہوتا ہے جن کا جسم ہو، اللہ جسم سے پاک ہے اور ہر جگہ موجود بھی ہے اس لیے اتحاد بھی نہیں اور حلول بھی نہیں۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ اللہ صرف عرش پر ہے وہ اس قسم کی دلیلیں پیش کرتے ہیں لوگوں کو پھنسانے کے لیے۔
اجمالاً ادب، تفصیلاً بے ادبی:
ایک اور علمی جواب ذہن میں رکھیں۔ یہ جو اس بندے نے کہا کہ کیا اللہ بیت الخلاء میں بھی ہے؟ تو اس کے جواب میں ایک اہم بات یہ سمجھیں کہ بعض چیزیں دنیا میں ایسی ہیں کہ آدمی ان کو تفصیلاً بیان کرے تو بے ادبی ہے اور اجمالاً بیان کرے تو ادب ہے۔ میں اس کی دو مثالیں بیان کرتا ہوں :
1: آپ کسی شخص سے کہو کہ تیرا بال اللہ نے بنایا، ماتھا اللہ نے بنایا، تیری آنکھ اللہ نے بنائی، تیرا منہ اللہ نے بنایا، تیرا سینہ اللہ نے بنایا، اب پاؤں تک گنتے جاؤ تو ہر عضو کا نام لے کر کہہ سکتے ہو کہ اللہ نے بنایا؟ (نہیں۔ سامعین) اگر میں سر سے لے کر پاؤں تک ہر عضو کا نام لے کر کہوں کہ یہ یہ عضو اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے تو آپ کہو گے کہ کیسا عجیب آدمی ہے، یہ بات بھلا کہنے کی تھی؟ لیکن اگر یوں کہوں کہ سر سے لے کر پاؤں تک پورا جسم اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے تو آپ کہو گے : سبحان اللہ۔
2: اگر کوئی شخص اپنی بیٹی کا نکاح کر کے کسی کو دے دے تو داماد کو یہ تو کہہ سکے گا کہ میری بیٹی کا خیال رکھنا، اس کے سارے حقوق ادا کرنا، میں نے بڑی محبت اور پیار سے پالی ہے، لیکن کیا وہ شخص سارے حقوق کا نام لے کر کہہ بھی سکتا ہے کہ فلاں فلاں حق کا خیال رکھنا؟ (نہیں۔ سامعین) اجمالاً کہے گا تو ادب ہے، تفصیلاً کہے گا تو یہ بے ادبی ہے۔ لوگ بھی کہیں گے کہ کیسا باپ ہے! شرم نہیں آتی کہ داماد سے ایسی باتیں کرتا ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا نمونہ ادب:
اس بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک صحابی سے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھو، میں نہیں پوچھ سکتا کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی میرے نکاح میں ہے۔ انہوں نے کہا: مسئلہ یہ ہے کہ
" إِنِّيْ رَجُلٌ مَذَّاءٌ "
مجھے مَذِی بہت آتی ہے۔ 151F
مسنداحمد : ج17 ص139 رقم الحدیث 23715
منی، مذی اور ودی کی تعریف:
انسان کے عضوِ خاص سے پیشاب کے علاوہ تین قسم کا پانی نکلتاہے :مَنِی، مَذِی اور وَدِی۔
جب آدمی پیشاب کے لیے بیٹھتا ہے تو کبھی کبھی ایک سفید سا پانی نکلتاہے، بسا اوقات وزن اٹھانے سے بھی نکلتا ہے، اس کو ودی کہتے ہیں۔ یہ بیماری کی وجہ سے نکلتا ہے، اور جب کوئی انسان اپنی بیوی سے گپ شپ کرتا ہے تو اس وقت جو سفید سا پانی نکلتا ہے اسے مذی کہتے ہیں، اور جب انسان اپنی بیگم سے جماع کرتا ہے تو اس وقت جو مادہ نکلتا ہے اسے منی کہتے ہیں۔ مذی اور ودی کے نکلنے سے وضو ٹوٹتا ہے اور منی کے نکلنے سے غسل واجب ہوجاتا ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ" إِنِّيْ رَجُلٌ مَذَّاءٌ " مجھے مذی بہت آتی ہے لیکن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا داماد ہوں، میں حضور سے یہ مسئلہ نہیں پوچھ سکتا، اس لیے تم پوچھ کر بتاؤ۔
اب بتائیں ! میرا اور آپ کا داماد اور سسر کا رشتہ تو نہیں ہے، میں بیان کرتے ہوئے جھجک رہا ہوں اور آپ کو سنتے ہو ئے جھجک محسوس ہو رہی ہے۔ تو اس صحابی نے جا کر پوچھا کہ اے اللہ کے رسول! ایسی صورت ہو تو غسل کرنا چاہیے یا وضو؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"إِنَّ كُلَّ فَحْلٍ يُمْذِيْ فَإِذَا كَانَ الْمَنِيُّ فَفِيْهِ الْغُسْلُ وَإِذَا كَانَ الْمَذْيُ فَفِيْهِ الْوُضُوءُ․"152F
مصنف ابن ابی شیبۃ : ج 1ص529 رقم الحدیث 972
ہر مرد کے ساتھ ایسا معاملہ ہوتا ہے، اس لیے اگر منی ہو تو غسل واجب ہوتا ہے اور اگر مذی ہو تو اس پر وضو ہوتا ہے، غسل نہیں ہوتا۔
تو بعض مسئلے آدمی اجمالاً تو پوچھ سکتا ہے، تفصیلاً نہیں پوچھ سکتا۔
تو میں کہہ رہا تھا کہ اللہ تعالی ہر جگہ پر ہے۔ کہاں کہاں پر ہے؟ اس کو تفصیل سے بتائیں گے تو بے ادبی ہو گی اور وہ چونکہ پرلے درجے کے بے ادب ہیں اس لیے گستاخ سوال ہی ایسا کرتے ہیں کہ اللہ بیت الخلاء میں ہے؟- العیاذ باللہ- کم از کم اس شخص کو سوچنا چاہیے کہ میں کیا بات کہہ رہا ہوں؟! ہمارے ہاں ادب بہت زیادہ ہے۔ اللہ ہم سب کو با ادب رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔
دعا میں ہاتھ اوپر کی طرف اٹھانے کی وجہ:
میں یہ عرض کر رہا تھا کہ اس قسم کے ان کے دلائل ہیں جن سے یہ لوگ اشکالات پیدا کرتے ہیں۔ ایک بات اور بھی سمجھیں کہ جب ہم دعا مانگتے ہیں تو ہاتھ اوپر کی طرف اٹھاتے ہیں۔ اس پر یہ لوگ کہتے ہیں دعا میں ہاتھ اوپر کی طرف اٹھانے سے پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالی اوپر ہے، اگر اللہ تعالی اوپر نہ ہوتے تو آپ ہمیشہ اوپر ہاتھ نہ اٹھاتے ۔
یہ بات یاد رکھنا! میں شروع میں بتا چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ چھ جہتوں سے پاک ہے؛ آگے، پیچھے، اوپر، نیچے، دائیں، بائیں، اور چھ جہتوں کو محیط بھی ہے۔ ان چھ جہتوں میں سے عقل کے اعتبار سے جہت فوق یعنی اوپر کی جانب کو عظمت حاصل ہے۔ ہمارے معاشرے میں اوپر کی جہت کوعظمت حاصل ہے۔ آپ کسی کو عزت دیتے ہیں تو اوپر بٹھاتے ہیں یا نیچے؟ (اوپر۔ سامعین) اس لیے ہم دعا کرتے وقت ہاتھ اوپر اٹھاتے ہیں کہ جہت فوق کو ہمارے معاشرے میں عظمت حاصل ہے، اس کا معنی یہ نہیں کہ خدا اوپر ہے۔
دیکھو! میں بیان کر رہا ہوں، میری آواز چاروں طرف جا رہی ہے اور جو بندہ پیچھے بیٹھا ہوا ہے اس کو ہم کہیں گے کہ ایسے نہیں بیٹھتے، آگے بیٹھ جاؤ اور بیان سنو! وہ کہتا ہے کہ مجھےآواز آ رہی ہے۔ آپ سب کہیں گے کہ اس نے اچھی بات نہیں کہی، کیوں کہ اگرچہ آواز چاروں طرف جا رہی ہے لیکن جب کسی کے سبق میں یا بیان میں بیٹھو تو ادب کا تقاضا یہ ہے کہ سامنے بیٹھو۔ اب کوئی یہ کہے کہ آواز تو پیچھے بھی جا رہی ہے، آگے کیوں بٹھاتے ہو؟ تو ہم کہیں گے کہ یہ ادب کا تقاضا ہے۔ اللہ ہر طرف ہے تو دعا مانگتے ہوئے ہاتھ اوپر کیوں اٹھاتے ہو؟ تو ہم کہیں گے کہ یہ ادب کا تقاضا ہے۔
میں نے اس پر بڑی مختصر سی بات کی ہے کہ ﴿اَلرَّحۡمٰنُ عَلَی الۡعَرۡشِ اسۡتَوٰی﴾ رحمٰن عرش پر مستوی ہے سے کبھی اس دھوکے میں نہ آنا کہ اللہ تعالی صرف عرش پر ہے۔
فریق مخالف سے چند سوالات:
انہوں نے تو عقلی شبہات پیش کیے اور ہم نے جوابات دیے اور ہم عقلی دلائل پیش کریں گے تو ان کا جواب ان کے پاس نہیں ہے اور واقعتاً نہیں ہے، میں کئی سالوں سے سوال کر رہا ہوں ابھی تک ہمارے سوالات کا جواب نہ کسی نے سوشل میڈیا پر دیا ہے اور نہ پرنٹ میڈیا پر دیا ہے۔
1: میں عقلی دلیل پیش کرتا ہوں - اس کو یاد رکھنا- اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ اللہ تعالی عرش پر ہے، تو اس سے پوچھو کہ اگر اللہ عرش پر ہے تو پھر عرش مکان ہوا اور اللہ تعالی مکین ہوئے۔ مکین کہتے ہیں رہنے والے کو اور مکان کہتے ہیں رہنے کی جگہ کو، مکان مکین سے بڑا ہوتا ہے، دنیا میں مجھے ایک بندے کا نام بتا دیں کہ رہنے والا بڑا ہو اور رہنے کی جگہ چھوٹی ہو، دنیا میں کوئی ایک مثال دے سکتے ہو؟ (نہیں۔ سامعین)
اگر اللہ تعالی عرش پر رہتا ہے تو اللہ مکین اور عرش مکان ہوا، اور ضابطہ ہے کہ مکان؛ مکین سے بڑا ہوتا ہے تو ”اللہ اکبر“ کا معنی کیا ہو گا؟ جب مکان؛ مکین سے بڑا ہو گا تو اللہ اکبر کا عقیدہ ٹوٹ جائے گا۔ میں نے کہا: اس کا جواب تم دے دو لیکن ابھی تک جواب نہیں آیا اور آئے گا بھی نہیں، ان شاء اللہ۔
2: اگر اللہ عرش پر ہے تو عرش مخلوق ہے اور اللہ خالق ہے، خالق ہمیشہ سے ہے مخلوق ہمیشہ سے نہیں ہے۔ اگر اللہ عرش پر ہے تو جب عرش نہیں تھا پھر اس وقت اللہ کہاں پر تھے؟
ہم پر یہ اعتراض نہیں ہو سکتا،کیونکہ ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالی ہر جگہ ہیں ، جب عرش نہیں تھا تب بھی تھے اور جب عرش ہے تب بھی ہیں لیکن وہ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی عرش پر ہے تو اب ہمارا سوال بنتا ہے کہ جب عرش نہیں تھا تو اللہ تعالی کہاں تھے؟
3: ہمارا تیسرا سوال یہ ہے کہ اگر اللہ عرش پر ہے تو اللہ خالق اور عرش مخلوق، اللہ محدود ہے یا غیر محدود؟ (غیر محددو۔ سامعین ) عرش جتنا بھی بڑا ہو محدود ہی ہو گا! اللہ خالق غیر محدود ہے اور عرش مخلوق محدود ہے، اب بتاؤ غیر محدود؛ محدود پر کیسے آ سکتا ہے؟
یہ ہمارے تین سوالات آپ یاد رکھ لیں، اگر تین نہیں تو ایک بھی یاد رکھ لیں گے توان شاء اللہ ان سے یہ ایک بھی نہیں ٹوٹے گا، آپ آزما کر دیکھ لیں۔
میں بار بار کیوں کہتا ہوں کہ اس درس قرآن کی قدر کرو، اس درس میں لوگوں کو لاؤ کہ وہ اس کو سنیں۔ یہ ہماری عقیدے کی جنگ ہے پوری دنیا میں اور یقین کریں میں تو جاتا ہوں الحمد للہ بڑے بڑے اکابر کہتے ہیں کہ مولانا صاحب! ہم سمجھتے ہیں کہ تیرا وجود اللہ کی نعمت ہے، ہر دور میں اللہ کسی ایسے بندے کو پیدا فرماتے ہیں اور اس سے اپنے دین کا دفاع کرواتے ہیں۔ دیکھو! ہم پوری دنیا میں دفاع کر رہے ہیں، کوئی ٹینشین نہیں ہے، کوئی پریشانی نہیں ہے، اللہ کریم کا شکر ہے، ہمیں کوئی لالچ نہیں ہے، کتنے بے لوث طریقے سے لگے ہوئے ہیں۔ اللہ آپ کو بھی قبول فرمائے اور اللہ ہمیں بھی قبول فرمائے ۔ (آمین۔ سامعین)
اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ:
﴿اَللہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ؕ لَہُ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰی ﴿۸﴾﴾
اسمائے حسنی پر تھوڑی سی بات کر لیتے ہیں۔ حدیث پاک ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"اِنَّ لِلہِ تِسْعَۃً وَ تِسْعِیْنَ اسْمًا مِأَۃً اِلَّا وَاحِداً مَنْ اَحْصَاھَا دَخَلَ الْجَنَّۃَ." 153F
صحیح البخاری، رقم: 2736
کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں، جو شخص ان کو یاد کر لے گا وہ جنت میں داخل ہو گا۔
ہمارے ہاں مرکز اھل السنۃ والجماعۃ میں تخصص کے لیے جو طلبہ آتے ہیں ہم ان کو یہ نام یاد کرواتے ہیں۔
اسمائے حسنیٰ کے متعلق چند باتیں:
اور اس کے متعلق دو تین باتیں یادرکھیں!
[1]: پہلی بات․․․ یہ جو حدیث میں ہے کہ جو شخص اللہ کے ننانوے نام یاد کرے اس کو جنت ملے گی، اس کا معنی ہرگز یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے صرف یہی ننانوے نام ہیں بلکہ ان کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے نام اور بھی ہیں۔ یہ فضیلت ننانوے ناموں کی ہے کہ جو ان کو یاد کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں جگہ عطا فرمائے گا۔
[2]: اسمائے حسنیٰ کو دو طرح پڑھنا جائز ہے:
پہلا طریقہ․․․
”ھُوَ اللہُ الَّذِیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ الْمَلِکُ الْقُدُّوْسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ“
دوسرا طریقہ ․․․
”یَا ھُوَ اللہُ الَّذِیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ یَا رَحْمٰنُ یَا رَحِیْمُ یَا مَلِکُ یَا قُدُّوْسُ یَا سَلَامُ یَا مُؤْمِنُ“
یاء حرفِ ندا کے ساتھ بھی پڑھ سکتے ہیں اور بغیر یاء کے بھی پڑھ سکتے ہیں، جب بغیر یاء کے پڑھیں گے تو الف لام کے ساتھ پڑھیں گے جیسے
”اَلرَّحْمٰنُ“
اور جب یا کےساتھ پڑھیں گے تو الف لام کے بغیر پڑھیں گے جیسے
”یَا رَحْمٰنُ“۔
[3]: اللہ تعالیٰ کے وہ نام جو قرآن کریم یا احادیث مبارکہ سے ثابت ہیں ان ناموں سے اللہ تعالیٰ کو پکارنا بالکل جائز ہے اور جو نام قرآن کریم یا احادیث مبارکہ میں نہیں ہیں بلکہ بہت سارے لوگ اپنی اپنی زبان میں اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی لفظ استعمال کرتے ہیں تو اب اس لفظ کا استعمال اللہ تعالیٰ کےلیے جائز ہے یا نہیں؟ اس مسئلہ کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ اگر وہ لفظ ایسا ہے جو ان لوگوں کے ہاں اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے متعین ہے، اس لفظ کو بول کر اس سے صرف اللہ کی ذات مراد ہوتی ہے اگرچہ وہ عجمی زبان کا لفظ ہو تو بھی اللہ کے لیے استعمال کرنا جائز ہے۔
ذات باری تعالیٰ کے لیے لفظ ”خدا“ کا استعمال:
جیسے ہمارے ہاں لوگ لفظ ”خدا“ کو اللہ کی ذات کےلیے استعمال کرتے ہیں،جب ہم کہتے ہیں ”خدائے پاک“ تو اس سے مراد کیا ہوتا ہے؟ (اللہ۔ سامعین) اللہ تعالیٰ کی ذات مراد ہوتی ہے۔ یہ متعین ہے۔ لہذا ہماری زبان میں خدائے پاک کہنا جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اور جو ہمارے بعض علماء فرماتے ہیں کہ ایسا کہنا ٹھیک نہیں ہے، تو میں آپ کی خدمت میں بار ہا عرض کرتا ہوں کہ میں ان کا نام نہیں لیتا اور میرے سامنے نام لے کر تردید نہ کروایا کرو، یہ مناسب نہیں ہے، ہمارے بعض حضرات بڑے عالم ہوتے ہیں، مبلغ بڑے ہوتے ہیں، واعظ بڑے ہوتے ہیں لیکن ان کا تحقیقی مزاج نہیں ہوتا اس لیے وہ ایسی باتیں فرما دیتے ہیں جو ان کی شان کے مناسب نہیں ہوتیں۔ ہر بندے کو اپنے دائرے میں رہ کر کام کرنا چاہیے، اس کا فائدہ بہت زیادہ ہوتا ہے، قاری صاحب کو صرف قرآن پڑھ کر سنانا چاہیے، اس کا ترجمہ نہیں کرنا چاہیے، تبلیغ والوں کو دیکھو وہ جب چھے نمبر بیان کریں تو کہتے ہیں کہ ”حدیث پاک میں ہے جس کا مفہوم یہ ہے ․․․“ اور یہ کہنا بھی چاہیے بہت اچھی بات ہے۔آپ اس سے پوچھیں کہ ایسے کیوں کہتے ہو؟ تو جواب دے گا کہ بھائی! میں عالم تو ہوں نہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کا ترجمہ مجھ سے صحیح نہ ہو سکے اور میں قیامت کے دن پکڑا جاؤں۔ اب ہر بندہ سمجھتا ہے کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ نہیں بیان کر رہا بلکہ مفہوم بیان کر رہا ہے، اب اس پر اعتراض کی گنجائش ختم ہو جاتی ہے، اوریہ ہمارے اکابرین نے بہت اچھا رخ دیا ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں یہ بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اس لیے ”خدا“ کا لفظ استعمال کر نا ناجائز نہیں ہے، میں آپ کو بتا چکا ہوں، آج دوبارہ بتا دیتا ہوں تا کہ آپ اچھی طرح سمجھیں۔
ایک شخص کی متکلمِ اسلام سے گفتگو:
مجھے ایک شخص کہنے لگا کہ
”خدا“
کا لفظ اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ میں نے کہا: کیوں؟ کہنے لگا: خدا کی جمع خدایان آتی ہے اور اللہ تعالیٰ ایک ہے، اللہ کئی نہیں ہو سکتے۔ میں نے کہا کہ اگر یہ مان لیا جائے تو پھر اللہ کو
”رحیم“
بھی نہیں کہنا چاہیے اس کی جمع قرآن میں
”رُحَمَآء“
آئی ہے، پھر اللہ تعالیٰ کو
”رب“
بھی نہیں کہنا چاہیے کیونکہ قرآن میں اس کی جمع
”اَرْباب“
آئی ہے، پھر اللہ تعالیٰ کو
”اِلٰہ“
بھی نہیں کہنا چاہیے کیونکہ اس کی جمع
”اٰلِھَۃٌ“
آئی ہے، اس طرح تو پھر کچھ بھی نہیں کہنا چاہیے۔
وہ کہنے لگا: ہماری دلیل ایک اور بھی ہے۔ میں نے کہا: وہ بھی سنا دو۔ کہنے لگا: دین عربی میں ہے اور ”خدا“ عجمی لفظ ہے۔ تو میں نے اسے کہا کہ یہ بتاؤ کہ روزانہ کتنی نمازیں فرض ہیں؟ کہنے لگا: پانچ۔ میں نے کہا کہ سال میں کتنے روزے فرض ہیں؟ کہنے لگا: ایک ماہ۔ میں نے کہا آپ
”اَلصَّلَوَاتُ الْخَمْسَۃُ فَرْضٌ“
اور
”صِیَامُ شَھْرٍ فَرْضٌ“
کہاکرو، یوں نہ کہو کہ پانچ نمازیں فرض ہیں، ایک ماہ کے روزے فرض ہیں۔وہ کہنے لگا: کیوں؟ میں نے کہا کہ دین عربی میں ہے، روزہ کیوں کہتے ہو؟ دین عربی میں ہے، نماز کیوں کہتے ہو؟ کہنے لگا کہ جب عربی میں بات کریں گے تو صوم و صلوٰۃ کہیں گے اور جب اردو میں کریں گے تو نماز روزہ کہیں گے،تو میں نے کہا کہ جب عربی میں بات کریں گے تو اللہ، محمد کہتے ہیں اور جب اردو میں بات کریں گے تو خدا اور پیغمبر کہیں گے، تم جو بات کرو تو ٹھیک ہے ہم کریں تو ٹھیک کیوں نہیں؟ میں نے کہا: کوئی اور دلیل ہے تو پیش کر سکتے ہو، لیکن اب خاموش ہو گیا۔
تفسیر تو پاک کردی مفسر کا کیا ہو گا؟
ایک تفسیر ہے اس کا نام ہے ”احسن البیان“، مصنف کا نام ہے محمد جونا گڑھی۔ آج کل سعودیہ سے تقسیم ہوتی ہے اور چل رہی ہے۔ اس کے مقدمے میں صلاح الدین یوسف نے لکھا ہے کہ اس پوری تفسیر میں جہاں جہاں لفظ ”خدا“ لکھا تھا ہم نے اس کو کاٹ دیا ہے اور وہاں لفظ
”اللہ“
لکھ دیا ہے،کیوں؟ اس لیے کہ لفظ ”خدا“ سے شرک کی بو آتی ہے، ہم نے اس کو مٹا کر لفظ
”اللہ“
لکھ دیا ہے تا کہ اس سے شرک کی بو نہ آئے۔ محمد جونا گڑھی فوت ہو چکا ہے، میں نے کہا کہ لفظ ”خدا“ کو کاٹ کر تفسیر کو تو توحیدی بنادیا اور مصنف تو آپ کے گمان کے مطابق مشرک مر گیا، کیوں کہ مصنف لفظ ”خدا“ لکھتا رہا اور آپ نے لفظ خدا کاٹ کر لفظ اللہ لکھ دیا، تووہ خدا خدا لکھ کر مر گیا بعد والے اللہ اللہ پڑھیں گے تو پڑھنے والے توحیدی ہو جائیں گے اور لکھنے والا شرک میں فوت ہوا، میں نے کہا کہ تفسیر تو تم نے پاک کردی اب اس کے مفسر کا کیا کرو گے؟
ہم کہتے ہیں کہ اللہ کہنا بھی ٹھیک ہے اور خدا کہنا بھی ٹھیک ہے۔ تو جب ہماری بات مانو گے تو مصنف موحد ہو گا اور ان کی بات مانو گے تو مشرک ہو گا۔ اس لیے ایسی باتیں چھوڑو جس سے امت کا نقصان ہو، امت ٹوٹتی ہو، ایسے فتووں کی زد میں پھر اپنے اکابر آ جاتے ہیں۔
اتحاد امت کے لیے چار نکاتی ایجنڈا:
امت میں اتحاد کے حوالے سے میں آپ کے سامنے چار باتیں پیش کرتا ہوں، باقی دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث اختلاف تو ختم ہوگا نہیں، کیوں کہ کسی نے اپنا مسلک تو چھوڑنا نہیں، اپنی مسجد چھوڑ کر آپ کی مسجد میں آنا نہیں، اس لیے چار کام کریں:
1: ایک دوسرے کو کافر نہ کہیں۔
2: ایک دوسرےکے اکابر کی پگڑیاں نہ اچھالیں۔
3: اپنی مسجد میں اپنا مسلک اور مسئلہ بیان کریں اور دوسرے کا نام لے کر تردید نہ کریں۔
4: کبھی قومی اور بین الاقوامی ایشوز پر اور کسی بڑے فورم پر اکٹھے ہونے کی ضرورت پڑے تو پھر سارے اکٹھے ہو جائیں۔
مثلاً ختم نبوت کا مسئلہ آئے تو سارے اکٹھے ہو جائیں، آئین کا مسئلہ آئے تو سارے اکٹھے ہو جائیں، پاکستان کے دفاع کا مسئلہ آئے توسارے اکٹھے ہو جائیں، پاکستان کو بچانے کا مسئلہ آئے سارے اکٹھے ہو جائیں، دہشتگردی پر لعنت بھیجنی ہے تو سارے اکٹھے ہو جائیں، فرقہ واریت کو ختم کرنا ہے تو سارے اکٹھے ہو جائیں۔ اب بتاؤ! میں اتحاد کا درس دے رہا ہوں یا اختلاف کا درس دے رہا ہوں؟ (اتحاد کا۔ سامعین) کتنا آسان سا نسخہ ہے اور میں لڑائی ختم کر رہا ہوں، لڑائی بڑھا نہیں رہا۔
تو خیر میں نے اسمائے حسنی کے حوالے سے بات کی ہے۔ ایسا لفظ جو عربی زبان کا نہ ہو اور یہ بھی پتا نہ ہو کہ اس کو کس معنی میں استعمال کیا جاتا ہے تو ایسے لفظ کا استعمال اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے نا جائز ہے۔
[4]: اسمائے حسنی کے حوالے سے چوتھی بات ذہن نشین فرمائیں۔ یہ بہت ہی اہم مسئلہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وہ نام جو قرآن کریم یا احادیث مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کسی اور کے لیے استعمال ہوا ہے تو اس لفظ کو اللہ کے غیر کے لیے استعمال کر سکتے ہیں اور جو لفظ اللہ تعالیٰ کے غیر کے لیے استعمال نہیں ہوا تو اس کو اللہ کے غیر کے لیے استعمال نہیں کر سکتے۔ میں اس کی مثال دیتا ہوں۔ قرآن مجید میں ہے:
﴿لَقَدۡ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ عَزِیۡزٌ عَلَیۡہِ مَا عَنِتُّمۡ حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ ﴾ 154F
التوبۃ9: 128
اے لوگو! تمہارے پاس تمہی میں سے ایک رسول آیاہے، جسے تمہاری تکلیف بہت گراں گزرتی ہے، اس نبی کو تو ہمیشہ تمہاری بھلائی کی فکر لگی رہتی ہے اور یہ نبی مؤمنوں کے لیے انتہائی شفیق اور بہت مہربان ہے۔
اس آیت میں ”رؤف“ اور ”رحیم“ صفات ہیں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حالانکہ رؤوف اور رحیم؛ اللہ تعالیٰ کے نام بھی ہیں۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ رؤوف اور رحیم کا لفظ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ نبی پاک صلی اللہ علیہ سلم کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔ تو آپ کسی بندے کو جس کا نام عبد الرؤوف ہو ”رؤوف“ کہنا چاہیں اور عبد الرحیم نامی بندے کو ”رحیم“ کہنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں لیکن پورے قرآن میں اور احادیث مبارکہ میں ”الرحمٰن“ کا نام اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کے لیے استعمال نہیں ہوا، اس لیے عبد الرحمٰن کو ”رحمٰن بھائی“ نہیں کہہ سکتے۔ ”علی“ یہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نام بھی ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ اس نام کو ختم کردو۔ معلوم ہوا کہ اس نام کو رکھ سکتے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے:
﴿اَلَـیۡسَ مِنۡکُمۡ رَجُلٌ رَّشِیۡدٌ ﴿۷۸﴾﴾ 155F
ھود11: 78
”رشید“ عام آدمی کے لیے استعمال ہو ا ہے اس لیے آپ عبد الرشید کو ”رشید بھائی“ کہہ سکتے ہیں۔
اسمائےحسنیٰ کے ذریعے دعائے مستجاب کا مجرَّب طریقہ :
اور آخر میں ایک بات عرض کر دیتا ہوں۔ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ بھائی ہم دعا مانگتے ہیں لیکن ہماری دعا قبول نہیں ہوتی، ہمیں دعا کرنے کا کوئی طریقہ بتا دو۔ تو دعا کرنے کا طریقہ یاد ر کھیں! پہلے گیارہ مرتبہ درود شریف پڑھیں، پھر سورہ حشر کے آخری رکوع
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَ لۡتَنۡظُرۡ نَفۡسٌ مَّا قَدَّمَتۡ لِغَدٍ ۚ وَ اتَّقُوا اللہَ﴾
کی تلاوت شروع کریں اور جب
﴿لَوۡ اَنۡزَلۡنَا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیۡتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنۡ خَشۡیَۃِ اللہِ﴾
تک پہنچیں تو تلاوت روک دیں۔ اس وقت یہ دعاکریں کہ اے اللہ! میری یہ ضرورت، میری یہ مصیبت، میری یہ تکلیف میرے لیے پہاڑ کی طرح ہے،آپ کی قدر ت و طاقت کے سامنے اس کی کیاحیثیت ہے؟! اے اللہ! میری اس حاجت کو پورافرمادیں۔ اس کے بعد پھر آگے تلاوت شروع کر دیں۔ پھر جب
﴿لَہُ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰی﴾
پر پہنچیں تو اللہ تعالیٰ کے ان ننانوے اسمائے حسنیٰ کو پڑھ لیں، اسمائے حسنیٰ پڑھتے ہوئےدل میں اپنی مراد کا تصور کریں اور رکوع کے اختتام پر گیارہ بار درود شریف پڑھ لیں اور آخر میں اپنی مراد مانگیں۔اس طرح دعا مانگیں تو ان شاء اللہ دعائیں قبول ہوں گی۔
اللہ تعالیٰ تکلفات سے محفوظ رکھے:
میں اکثر یہ بات مزاح میں کہتا ہوں کہ آپ قبول اس لیے نہیں فرماتے کہ میں پِیروں کے روپ میں آ کر نسخہ نہیں بتاتا۔ ہمارے ہاں بہت عجیب سا مسئلہ ہے کہ جب تک آپ مخصوص ا سٹائل اختیار نہ کریں لوگ آپ کو بزرگ ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے۔ وہ اسٹائل یہ ہیں: قاری صاحب! نماز پانچ منٹ لیٹ کرو حضرت تشریف لا رہے ہیں۔ اب آپ سمجھیں گے کہ مولانا گھمن بہت بڑے آدمی ہیں کیونکہ ان کی وجہ سے نماز لیٹ ہو گئی اور آپ کو انتظار کرنا پڑ گیا۔ اچھا! نماز پڑھ لی اور میں کہتا ہوں کہ آپ ذرا تھوڑی دیر بیٹھیں، میں تازہ وضو کر کے آتا ہوں، آپ سب کہیں گے کہ جی بہت بڑا آدمی ہے۔ درس ہو گیا، اعلان ہو گا کہ بھائی! آپ ابھی مصافحہ نہ کریں حضرت نے چائے پینی ہے، اور چائے بھی آپ خود ڈال کر دیں، بسکٹ بھی آپ دیں، چینی بھی آپ ڈال کر دیں تو سب سمجھیں گے کہ بڑا آدمی ہے۔ اور ہماری ترتیب یہ نہیں ہے بلکہ ہم تو وقت پر آتے ہیں اور وقت پرجاتے ہیں، ہم چائے میں چینی بھی خود ڈالتے ہیں اور خوداٹھا کر پی لیتے ہیں اس لیے ہمیں کوئی ولی نہیں سمجھتا۔
اللہ گواہ ہے مجھے لوگ کہتے ہیں کہ مولانا صاحب! اگر آپ پیر بننا چاہتے ہیں تو ہم آپ کو طریقہ بتا دیتے ہیں۔ میں کراچی گیا -آپ یقین فرمائیں- مجھے کراچی کے لوگوں نے کہا: اگر آپ نے بڑے لوگوں کے ہاں مقبول ہونا ہے تو سب سے پہلا کام یہ کریں کہ آپ کراچی والوں کا فون سننا چھوڑ دیں، کسی لڑکے کو فون دیں اور وہ کہے کہ حضرت مصروف ہیں، دو گھنٹے کے بعد فون کرنا، وہ پھر فون کریں تو لڑکا کہے کہ حضرت سبق میں ہیں، پھر فون کرے تو کہے کہ حضرت آرام میں ہیں، فلاں کا م میں مصروف ہیں تو اب لوگ کہیں گے کہ مولانا صاحب بہت بڑے آدمی ہیں اور آپ تو بذات خود فون اٹھاتے ہیں کہ مولانا الیاس گھمن بات کررہاہوں تو اس طرح آپ کو کون بڑا سمجھے گا؟ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان تکلفات سے محفوظ رکھے، اللہ کے ہاں بندے کی قیمت بن جائے بہت بڑی بات ہے۔
موسیٰ علیہ السلام کو عطائے نبوت:
﴿وَ ہَلۡ اَتٰىکَ حَدِیۡثُ مُوۡسٰی ۘ﴿۹﴾ اِذۡ رَاٰ نَارًا فَقَالَ لِاَہۡلِہِ امۡکُثُوۡۤا اِنِّیۡۤ اٰنَسۡتُ نَارًا لَّعَلِّیۡۤ اٰتِیۡکُمۡ مِّنۡہَا بِقَبَسٍ اَوۡ اَجِدُ عَلَی النَّارِ ہُدًی ﴿۱۰﴾﴾
کیا آپ کے پاس موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ پہنچا ہے، جب انہوں نے آگ دیکھی تو اپنے گھر والوں سے کہا کہ یہیں ٹھہرو، میں نے آگ دیکھی ہے،شاید میں اس آگ میں سے کوئی شعلہ تمہارے پاس لے آؤں یا آگ کے پاس جا کر مجھے راستے کا پتہ چل جائے۔
جب حضرت موسیٰ علیہ السلام مدین سے واپس تشریف لائے توان کے گھر والے بھی ساتھ تھے، گھر والے امید سے تھے۔ اس سفر میں کچھ بکریاں بھی آپ کے ساتھ تھیں۔ آپ راستہ بھول گئے۔ آپ کے گھروالوں کو ولادت کی تکلیف شروع ہوگئی، سردی بہت تھی، انتظامات نہیں تھے، آپ کے پاس چقماق تھا کہ پتھر کو پتھر پر مارتے تو آگ نکلتی لیکن کوشش کے باوجود اس سے آگ نہ نکلی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دور سے ایک درخت کو جلتا ہوا دیکھا تو اپنے گھر والوں سے کہاکہ یہاں ٹھہرو، میں وہاں سے آگ لے کر آتا ہو ں۔ آپ جب اس درخت کے قریب پہنچے تو عجیب منظر دیکھا کہ اس درخت کی کوئی شاخ یا پتا جلتا نہیں ہے بلکہ آگ نے درخت کے حسن اور خوبصورتی کو مزید بڑھا دیا ہے۔یہ منظر کچھ دیر تو دیکھتے رہےاور انتظار میں رہے کہ شاید کوئی آگ کی چنگاری زمین پر گرے، کوئی ٹہنی نیچے گرے تو میں اٹھا کر لے جاؤں گا۔ جب کافی دیر تک ایسا نہ ہوا تو موسیٰ علیہ السلام نے کچھ گھاس یا سوکھی لکڑی لی کہ درخت کے قریب کرتا ہوں تاکہ اسے آگ لگ جائے۔ جب آپ وہ گھاس یا سوکھی لکڑی آگ کے قریب کرتے تو آگ پیچھے ہٹ جاتی اور جب آپ پیچھے ہٹ جاتے تو آگ آپ کی طرف آجاتی۔ اس سے موسیٰ علیہ السلام کو بہت تعجب ہوا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟
درخت سے آواز آنا:
اسی دوران اس درخت سے موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالی کی طرف سے یہ آواز آئی :
﴿ اِنِّیۡۤ اَنَا رَبُّکَ فَاخۡلَعۡ نَعۡلَیۡکَ ۚ اِنَّکَ بِالۡوَادِ الۡمُقَدَّسِ طُوًی ﴿ؕ۱۲﴾﴾
اے موسیٰ! میں تمہارا رب ہوں، اپنے جوتے اتار دو کیونکہ تم اس وقت طوی کی مقدس وادی میں ہو۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب
”یٰمُوۡسٰی“
کے لفظ سے پکارا گیا تو آپ نے لبیک کہا اور عرض کیا کہ نے کہا کہ یہ تو میں پہچان گیا ہوں کہ یہ میرے اللہ کی آواز ہے لیکن آواز کس طرف سے آرہی ہے اور اللہ کس طرف ہیں؟ یہ مجھے سمجھ نہیں آرہی۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تمہارے اوپر،سامنے، پیچھے اور تمہارے ساتھ ہوں، میں ہر طرف ہوں ۔ یہ وضاحت روایات میں موجود ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وہاں پر اللہ تعالیٰ نے نبوت کی بشارت دی اور آپ سے فرمایا:
﴿وَ اَنَا اخۡتَرۡتُکَ فَاسۡتَمِعۡ لِمَا یُوۡحٰی ﴿۱۳﴾ اِنَّنِیۡۤ اَنَا اللہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعۡبُدۡنِیۡ ۙ وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکۡرِیۡ ﴿۱۴﴾﴾
میں نے تمہیں نبوت دینے کے لیے منتخب کر لیا ہے اس لیے جو وحی تم پر بھیجی جا رہی ہے اسے غور سے سنو۔ میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اس لیے میری عبادت کرو اور مجھے یاد رکھنے کے لیے نماز قائم کرو!
حضرت موسیٰ علیہ السلام واپس آئے۔ اپنی اہلیہ کو بتایا کہ مجھے نبوت ملی ہے۔ تو اس کا تذکرہ اللہ نے ان آیات میں کیا ہے۔
مقدس مقامات میں جوتے اتارنا ادب ہے:
﴿یٰمُوۡسٰی ﴿ؕ۱۱﴾ اِنِّیۡۤ اَنَا رَبُّکَ فَاخۡلَعۡ نَعۡلَیۡکَ ۚ اِنَّکَ بِالۡوَادِ الۡمُقَدَّسِ طُوًی ﴿ؕ۱۲﴾﴾
آپ جب وہاں پہنچے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آواز آئی کہ اے موسیٰ! میں تمہارا رب ہوں، اپنے جوتے اتار دو کیونکہ تم اس وقت طوی کی مقدس وادی میں ہق۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جوتے کیوں اتروائے گئے؟ بعض مفسرین فرماتے ہیں تاکہ پاؤں براہ راست اس وادی کے ساتھ لگ جائیں اور برکت حاصل ہوجائے یا وجہ یہ تھی کہ وہ جگہ پاک تھی اور موسیٰ علیہ السلام کے جوتے مردار کی کھال کے بنے ہوئے تھے۔ خیر جو بھی وجہ تھی فرمایا کہ جوتے اتاردو۔
اس آیت کے تحت مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے معارف القرآن میں لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بشیر بن خصاصیہ رضی اللہ عنہ کو قبروں کے درمیان جوتا پہن کر چلتے ہوئے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" اِذَاکُنْتَ فِیْ مِثْلِ ھٰذَا الْمَکَانِ فَاخْلَعْ نَعْلَیْکَ"
کہ جب تم اس جیسی جگہ پر چل رہے ہو تو اپنے جوتے اتار لیا کرو۔ 156F
تفسیر معارف القرآن: ج6 ص70 ، تفسیر الجامع لاحکام القرآن: ج2 ص1994
اس سے معلوم ہوا کہ اکابرین کی قبور کے پاس جو جوتے اتارے جاتے ہیں وہ ناجائز نہیں ہے۔ اس لیے میں گزارش کرتا ہوں کہ اپنے اکابر کا کوئی واقعہ بظاہر خلاف شریعت نظر آ رہا ہو تو اس میں جلد بازی سے کام نہ لیا کریں بلکہ اپنے علم کی کوتاہی کا اعتراف کریں اور اس کے متعلق دلائل تلاش کرتے رہیں۔
میں بھی جب اپنے مشائخ کی قبور پر جاتا اور بعض لوگوں کو دیکھتا کہ وہ جوتے باہر اتارتے اورننگے پاؤ ں اندر جاتے تو میں بسااوقات جوتے اتار دیتا اور جہاں چٹائی وغیرہ نہ ہوتی تو جوتے پہن کر جاتا مگر تردد میں رہتا کہ قبروں کے درمیان چلتے ہوئے لوگ جوتے کیوں اتار دیتے ہیں؟ لیکن میں نے کبھی اعتراض نہیں کیا، نہ ہی ساتھ والوں کے سامنے کسی اعتراض کا اظہار کیا، کیونکہ جب مجھے اضطراب ہے تو ساتھ والے بھی ظاہری بات ہے پریشان ہوں گے اور جواب ہمارے پاس ہے نہیں تو خاموشی بہتر ہے۔ جب درس قرآن کے لیے ان آیات کا میں نے مطالعہ کیا اور معارف القرآن کو دیکھا تو اشکال ختم ہوگیا۔ اس سے میرے اوپر اپنی جہالت کھلی کہ ہمارا علم کتنا تھوڑا سا ہوتا ہے اور کتنی جلدی اعتراض شروع کردیتےہیں۔ اس لیے اپنے علم اور اپنی کوتاہی کو دیکھنا چاہیے اور اعتراض میں جلدی نہیں کرنی چاہیے۔
نماز ایک اہم عبادت ہے:
﴿اِنَّنِیۡۤ اَنَا اللہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعۡبُدۡنِیۡ ۙ وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکۡرِیۡ ﴿۱۴﴾﴾
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا: میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اس لیے میری عبادت کرو اور مجھے یاد رکھنے کے لیے نماز قائم کرو!
﴿فَاعۡبُدۡنِیۡ﴾
میں تمام عبادات حتیٰ کہ نماز بھی آگئی ہے، پھر دوبارہ نماز کا ذکر اس لیے فرمایا کہ نماز عام عبادات کی بنسبت بہت اہم ہے، تو بطورِ خاص پھر نماز کا ذکر فرمایا۔
قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے:
﴿اِنَّ السَّاعَۃَ اٰتِیَۃٌ اَکَادُ اُخۡفِیۡہَا لِتُجۡزٰی کُلُّ نَفۡسٍۭ بِمَا تَسۡعٰی ﴿۱۵﴾﴾
قیامت آنے والی ہے، میں اس کے علم کو مخفی رکھنا چاہتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے قیامت کے وقت کو مخفی رکھا ہے، کسی کو اس کا علم نہیں ہے، نہ فرشتوں کو نہ ہی انبیاء علیہم السلام میں سے کسی کو علم ہے کہ قیامت کب آئے گی۔ قیامت کے دن ہر آدمی کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔
بری صحبت سے بچنا ضروری ہے:
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نصیحت کی جارہی ہے ہمیں سمجھانے کے لیے کہ بری صحبت سے بچیں۔ فرمایا:
﴿فَلَا یَصُدَّنَّکَ عَنۡہَا مَنۡ لَّا یُؤۡمِنُ بِہَا وَ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ فَتَرۡدٰی ﴿۱۶﴾﴾
تمہیں قیامت کے معاملے میں ایسا شخص غافل نہ کرنے پائے جو قیامت پر ایمان نہیں رکھتا اور اپنی خواہشات کے پیچھے پڑا ہوا ہے، ورنہ آپ ہلاکت میں پڑ جائیں گے۔
تو یہ ان کو بتایا جارہاہے ہمیں سمجھانے کے لیے کہ ایسے لوگوں کی صحبت سے بچنا ضروری ہے جن کے عقائد اور اعمال خراب ہوں، ان کی صحبت کی وجہ سے انسان خود تباہ و برباد ہو جاتاہے۔ حدیث پاک میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"اَلرَّجُلُ عَلٰى دِيْنِ خَلِيْلِهٖ فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُخَالِلُ․" 157F
سنن ابی داؤد، رقم: 4833
آدمی اپنے دوست کے دین پر چلتا ہے، اس لیے تم میں سے ہر کسی کو دیکھنا چاہیے کہ میری دوستی کس کے ساتھ ہے۔
سبعہ معلقہ میں ایک شعر ہے:
5Bعَنِ الْمَرْءِ لَا تَسْأَلْ وَسَلْ عَنْ قَرِيْنِهٖ فَإِنَّ الْقَرِيْنَ بِالْمُقَارِنِ يَقْتَدِيْ
کسی کے بارے میں دیکھنا ہو کہ بندہ کیسا ہے تو ا س بندے کو نہ دیکھو بلکہ اس کے دوستوں کو دیکھو، ہم نشینوں کو دیکھو، اگر یہ اچھا ہو گا تو اچھے لوگوں کےساتھ بیٹھتا ہوگا اور گندوں کے ساتھ بیٹھنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ بندہ ٹھیک نہیں ہے۔
موسیٰ علیہ السلام کے معجزات:
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ میں عصا تھا تو اللہ تعالیٰ نے پوچھا:
﴿وَ مَا تِلۡکَ بِیَمِیۡنِکَ یٰمُوۡسٰی ﴿۱۷﴾﴾
اے موسیٰ! یہ آپ کے دائیں ہاتھ میں کیا ہے؟
[1]: عصائے موسیٰ
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جواب میں عرض کیا:
﴿ہِیَ عَصَایَ ۚ اَتَوَکَّؤُا عَلَیۡہَا وَ اَہُشُّ بِہَا عَلٰی غَنَمِیۡ وَ لِیَ فِیۡہَا مَاٰرِبُ اُخۡرٰی ﴿۱۸﴾﴾
فرمایا کہ یہ میری لاٹھی ہے، میں اس پر ٹیک لگاتا ہوں اور اس سے اپنی بکریوں کے لیے درختوں سے پتے جھاڑتا ہوں اور ان کاموں کے علاوہ اس لاٹھی سے اور بھی کام لیتا ہوں۔
موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے یہ سوال کیوں فرمایا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ آئندہ چل کر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ کی اس لاٹھی کو اژدھا اور سانپ بنانا تھا اس لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پہلے متنبہ کر دیا کہ تسلی کر لیں اور قلبی اطمینان کر لیں کہ یہ لکڑی کی لاٹھی ہے۔ جب انہوں نے دیکھ لیا کہ یہ لاٹھی ہے تب اللہ تعالیٰ نے اس کو سانپ بنانے کا معجزہ ظاہر کیا ورنہ موسیٰ علیہ السلام کو یہ خیال ہو سکتا تھا کہ شاید میں رات کے اندھیرے میں لاٹھی کی جگہ سانپ کو پکڑ کر لایا ہوں۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ اس لیے فرمایا تاکہ جب یہ لاٹھی پھینکیں اور وہ سانپ بن جائے تو پہلے سے موسیٰ علیہ السلام ذہن میں ہو کہ یہ لاٹھی ہی ہے جو میرے ہاتھ میں تھی اور وہی سانپ بنی ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ تو سمجھانے کے لیے پوچھا کہ تمہارے ہاتھ میں کیا ہے؟
یہاں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے جو باتیں فرمائی ہیں وہ مانوس کرنے کے لیے ہیں کیونکہ پہلے اچانک آگ کو دیکھا، پھر آواز کو سنا تو حیرانی ہوئی۔ اس لیے اب مانوس کرنے کے لیے اللہ نے آپ سے یہ باتیں ارشاد فرمائیں۔
بعض حضرات مفسرین یہ بات فرماتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام سے جب پوچھا کہ تمہارے ہاتھ میں کیا ہے؟ تو آپ نے جواب میں تین باتیں کیوں فرمائیں؟ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ سے محبت تھی تو جس سے محبت ہوتی ہے آدمی بہانے تلاش کرتاہے کہ میں اس سے زیادہ سے زیادہ بات کرو ں۔
﴿قَالَ اَلۡقِہَا یٰمُوۡسٰی ﴿۱۹﴾ فَاَلۡقٰہَا فَاِذَا ہِیَ حَیَّۃٌ تَسۡعٰی ﴿۲۰﴾ قَالَ خُذۡہَا وَ لَا تَخَفۡ ٝ سَنُعِیۡدُہَا سِیۡرَتَہَا الۡاُوۡلٰی ﴿۲۱﴾﴾
اے موسیٰ! اس لاٹھی کو پھینکو۔ آپ نے پھینکا تو وہ ایک دوڑتا ہوا سانپ بن گیا۔ اللہ تعالی نے فرمایا کہ اس کو پکڑواور خوف محسوس نہ کرو، ہم اس کو دوبارہ اس طرح کا عصا بنا دیں گے۔
ایک بات یہ سمجھیں کہ قرآن کریم میں یہاں لفظ ”حَيَّةٌ“ ہے، ایک اور مقام پر ”ثُعْبَانٌ“ ہے۔ ثعبان کہتے ہیں بڑے اژدہا کو اور حیۃ کہتے ہیں باریک سانپ کو۔ تو دونوں آیتوں میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ جب شروع میں تھا تو یہ سانپ باریک تھا آہستہ آہستہ بڑا ہوتے ہوتے اژدہا بن گیا اور یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ تھا تو بہت بڑا اژدہا لیکن رفتار میں ایسا دوڑتا تھا جیسے باریک سانپ دوڑتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ بعض لوگ بدن میں بہت موٹے ہوتے ہیں لیکن ان کے بدن میں چستی اتنی ہوتی ہے کہ دبلے پتلے لوگوں سے بھی زیادہ تیز دوڑتے ہیں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب عصا کو پھینکا اور وہ سانپ بنا تو موسیٰ علیہ السلام دوڑے اور دوسرے مقام پر ہے کہ واپس دوڑے تو اللہ نے فرمایا کہ ڈرو مت! ہم دوبارہ اس کو عصا بنادیں گے۔
موسیٰ علیہ السلام کا ڈرنا یہ طبعی خوف تھا، بشری تقاضا تھا، یہ نہ نبوت کے خلاف ہے اور نہ ہی ایمان کے خلاف ہے، اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے، طبعی خوف ہوتاہے۔
[2]: یدِ بیضاء
﴿وَ اضۡمُمۡ یَدَکَ اِلٰی جَنَاحِکَ تَخۡرُجۡ بَیۡضَآءَ مِنۡ غَیۡرِ سُوۡٓءٍ اٰیَۃً اُخۡرٰی ﴿ۙ۲۲﴾ ﴾
دوسرا معجزہ یہ تھا کہ اپنے ہاتھ کو اپنی بغل کے نیچے ڈال دو، جب باہر نکالا تو چمکتا تھا، اس میں بے عیب سفیدی تھی۔ یہ دونشانیاں آپ کو دی ہیں۔ اب فرعون کے پاس جاؤ، اس کو دین کی دعوت دو۔ آگے آئے گا کہ کیا باتیں کرنی ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام کو اللہ نے جب نبوت عطا فرمائی تو دو معجزے عطا فرمائے۔
داعی کی ضرورت تین چیزیں:
فرعون کی طرف جانے کا حکم دیا تو موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے تین باتیں دعا میں مانگیں اور تینوں چیزیں وہ ہیں جو ایک داعی اور مبلغ کی ضرورت ہوتی ہیں :
[1]:
﴿رَبِّ اشۡرَحۡ لِیۡ صَدۡرِیۡ﴾
اے اللہ! جو بات میں سمجھانا چاہتاہو ں میرے اوپر کھول دے، بات مجھے اچھی طرح سمجھ آئے تاکہ مجھے سمجھانے میں دقت نہ ہو۔
داعی کی ضرورت یہ ہے کہ جو بات دوسروں کو سمجھانا چاہتا ہے وہ خود اچھی طرح سمجھے، آپ عقیدہ سمجھانا چاہتے ہیں تو پہلے خود سمجھیں، درس قرآن دینا چاہتے ہیں تو پہلے خود سمجھیں، پھر آدمی کو سمجھانے کا لطف آتا ہے۔
[2]:
﴿وَ یَسِّرۡ لِیۡۤ اَمۡرِیۡ﴾
اے اللہ! مجھے اسباب عطافرمادے۔
داعی کی دوسری ضرورت اسباب ہیں۔اسباب ہوں تو کام کرنا بہت آسان ہوتا ہے، اسباب نہ ہوں تو کام کرنا آسان نہیں ہوتا۔ اسباب میں بنیادی اسباب دو ہیں :
پہلا افراد اور دوسرا اموال۔ اس لیے موسیٰ علیہ السلام نے اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کو مانگا اور بطور وزیر مانگا کہ مجھے یہ دے دیں تو مجھے کام میں آسانی ہوگی۔
[3]:
﴿وَ احۡلُلۡ عُقۡدَۃً مِّنۡ لِّسَانِیۡ﴾
اے اللہ! مجھے فصیح زبان عطا فرما دیں، زبان کی لکنت ختم ہوجائے تاکہ میں بات کھل کر بتا سکوں۔ تو داعی کی یہ تین ضرورتیں ہیں۔
اور یہ بات میں بارہا کہہ چکا ہوں کہ فصیح زبان کا مطلب لفاظی نہیں ہے، فصیح زبان کا مطلب یہ ہے کہ اتنی عام فہم اور سادہ سی بات ہو کہ مخاطب کے دماغ میں اتر جائے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ تین چیزیں کیوں مانگی ہیں؟ اس کی وجہ یہ بیان فرمائی:
﴿یَفۡقَہُوۡا قَوۡلِیۡ﴾
تاکہ وہ میری بات سمجھ جائیں۔موسیٰ علیہ السلام نے یہ دعا نہیں مانگی کہ وہ میری بات کو مان لیں بلکہ فرمایا کہ وہ میری بات کو سمجھ جائیں۔
داعی کے ذمہ بات منوانا نہیں ہے، بات سمجھانا ہے۔ آج ہمارے ہاں لڑائی اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ ہم بات سمجھانے کے بجائے منوانے کی کوشش کرتے ہیں، ہمارے ذمہ سمجھانا ہے۔ آپ سمجھا دیں، مخاطب مانتا ہے تو ٹھیک اور اگر نہیں مانتا تو نہ سہی، اس کی مرضی۔ اس طرح کام کریں تو پھر لڑائی اور جھگڑے نہیں ہوتے۔
آگے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک دعا الگ مانگی:
﴿وَ اجۡعَلۡ لِّیۡ وَزِیۡرًا مِّنۡ اَہۡلِیۡ ﴿ۙ۲۹﴾ ہٰرُوۡنَ اَخِی ﴿ۙ۳۰﴾ اشۡدُدۡ بِہٖۤ اَزۡرِیۡ﴿ۙ۳۱﴾ وَ اَشۡرِکۡہُ فِیۡۤ اَمۡرِیۡ ﴿ۙ۳۲﴾﴾
یہ
﴿وَ یَسِّرۡ لِیۡۤ اَمۡرِیۡ﴾
کی تفسیر ہے کہ یا اللہ! میرے خاندان میں سے میرے بھائی ہارون کو میرا معاون بنادے۔ اس کے ذریعے میری کمر مضبوط فرمادے، اس کو میرے کام میں شامل فرمادے۔
”وزیر“ کہتے ہیں بوجھ اٹھانے والے کو۔ چونکہ وزراء سلطنت کے بادشاہوں کے بوجھ اٹھاتےہیں اس لیے انہیں ”وزیر“ کہتے ہیں۔
عبادات میں ماحول کو دخل ہے:
﴿کَیۡ نُسَبِّحَکَ کَثِیۡرًا ﴿ۙ۳۳﴾ وَّ نَذۡکُرَکَ کَثِیۡرًا ﴿ؕ۳۴﴾﴾
تاکہ ہم آپ کی تسبیح کریں اور ہم آپ کا ذکر زیادہ کریں۔
جب بھی آدمی اللہ کا ذکر کرنا چاہے تو ذکر کا ماحول ضروری ہے، ماحول سے ذکر کرنا بہت آسان ہوتاہے۔ اس لیے فرمایا کہ جب میرا بھائی میرے ساتھ ہوگا تو ذکر کرنے میں مجھے آسانی ہو گی، ماحول پیدا ہوجائے گا۔ عبادات میں عبادات کے ماحول کا بہت دخل ہے۔ قرآن کریم میں ہے:
﴿فَلۡیَعۡبُدُوۡا رَبَّ ہٰذَا الۡبَیۡتِ ۙ﴿۳﴾ الَّذِیۡۤ اَطۡعَمَہُمۡ مِّنۡ جُوۡعٍ ۬ۙ وَّ اٰمَنَہُمۡ مِّنۡ خَوۡفٍ ٪﴿۴﴾﴾
قریش کو چاہیے کہ اس گھر یعنی بیت اللہ کے رب کی عبادت کریں جس نے بھوک کی حالت میں ان کو کھانے کو دیا اور خوف کی حالت میں ان کو امن دیا۔معلوم ہوا کہ عبادات میں مزا آتا ہے جب عبادات کا ماحول ہو، ماحول اچھا ہو تو عبادت کرنی بہت آسان ہے۔ اور عبادات کے ماحول میں دو چیزوں کو بہت دخل ہے:
1: آدمی کو معاش کی پریشانی نہ ہو۔
2: آدمی کو خوف کی پریشانی نہ ہو بلکہ امن میسر ہو تو عبادات کا بہت لطف آتا ہے۔ صبح آپ نے اٹھنا ہے تہجد پڑھنی ہے، اب اگر پانی گرم مل جائے، مسجد میں ہیٹر لگا ہو، نیچے قالین بچھا ہو تو کتنی راحت سے عبادت ہوتی ہے۔ اگر پانی ٹھنڈا ہو، سرد ہوا چل رہی ہو، مسجد کا فرش ٹھنڈا ہو عبادت کتنی مشکل ہے؟! ماحول اچھا ہو یہ چیز اللہ تعالیٰ سے مانگنی بھی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اچھا ماحول عطا فرمائیں اور اگر اچھا ماحول ملے تو اس کی قدر بھی کرنی چاہیے۔
﴿قَالَ قَدۡ اُوۡتِیۡتَ سُؤۡلَکَ یٰمُوۡسٰی ﴿۳۶﴾﴾
اچھا موسیٰ! جو آپ نے دعا کی تھی ہم نے قبول کرلی ہے۔
﴿وَ لَقَدۡ مَنَنَّا عَلَیۡکَ مَرَّۃً اُخۡرٰۤی ﴿ۙ۳۷﴾﴾
اور ہم نے تم پر ایک اور مرتبہ بھی احسان کیا تھا۔ایک احسان تو یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمکلامی کاشرف بخشا، آپ کو نبوت دی، آپ کو معجزات عطا کیے، اس کے علاوہ آپ پر پہلے بھی بہت سے احسانات کیے۔ یہاں ”اُخْریٰ“ کا معنی ”بعد“ نہیں ہے بلکہ اُخْری کا معنی ”اور“ ہے۔ان احسانات کی اللہ تعالی نے اب تفصیل شروع فرمائی :
امِ موسیٰ کو پیغامِ خداوندی:
﴿اِذۡ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰۤی اُمِّکَ مَا یُوۡحٰۤی ﴿ۙ۳۸﴾﴾
جب ہم نے آپ کی ماں کے پاس پیغام بھیجاتھا جو اب وحی کے ذریعےآپ کو بتا رہے ہیں۔
فرعون اور اس کے درباریوں میں ایک بات چلی کہ بنی اسرائیل کے لوگ اس بات پر خوش ہیں کہ ہم ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اور اس بات کے منتظر ہیں کہ ان میں کوئی نبی اور رسول پیدا ہو گا ۔ میں نے پہلے عرض کیا تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ایک بیٹے تھے اسماعیل علیہ السلام اور ایک بیٹے تھے اسحاق علیہ السلام، حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے تھے حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے جن کے آگے بارہ خاندان تھے۔ انہیں بنو اسرائیل کہتے ہیں۔ ”اسرا” کا معنی عبد ہے اور ”ئیل“ کا معنی اللہ ہے۔ اسرائیل لقب تھا حضرت یعقوب علیہ السلام کا، تو بنو اسرائیل کا معنی ہے ”یعقوب کے بیٹے“ یعنی بارہ۔ ان بارہ بیٹوں کے آگے بارہ خاندان تھے اور ان کی آبادی آگے لاکھوں کی تعداد میں تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کو لے کر جب مصر سے گئے اس وقت بنی اسرائیل ساڑھے چھ لاکھ کے لگ بھگ تھے۔
فرعون کو خواب آیا اور درباریوں نے تعبیر بتائی کہ بنی اسرائیل میں ایک ایسا بچہ پیدا ہوگا جو تمہاری حکومت کو ختم کردے گا تو فرعون نے کہاکہ اس کا حل کیا ہے؟ درباریوں نے کہا کہ حل یہی ہے کہ ان کے بچوں کو قتل کریں تاکہ نہ بچہ رہے اور نہ نبی بنے۔ اس پر مشورہ ہوا اور طے یہ ہوا کہ ان کے بچوں کو ذبح کرو اور بچیاں زندہ رکھو، بچے ذبح کرتے رہے۔ جب اچھی خاصی تعداد ذبح ہونا شروع ہوگئی تو انہوں نے پھر آپس میں مشورہ کیا کہ اگر بچے یوں ذبح ہوتے رہے تو ہمارے کام تو یہی بنی اسرائیل ہی کرتے ہیں، ان کی پرانی نسل ختم ہوجائے گی اور نئی نسل مردوں کی نہیں ہوگی تو ہمارے کام کون کرے گا؟ اب انہوں نے مشورہ کیا کہ ایک سال جو بچے پیدا ہوں ان کو ذبح کرتے رہو اور جو اگلے سال پیدا ہوں ان کو زندہ رکھا جائے۔
حضرت ہارون علیہ السلام اس سال پیدا ہوئے جو بچوں کو ذبح کرنے کا نہیں تھا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اگلے سال پیدا ہوئے جو بچوں کو ذبح کرنے کا تھا۔ تو حضرت ہارون علیہ السلام کے بارے میں تو والدہ کو کوئی پریشانی نہیں تھی، پریشانی بنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ولادت والے سال۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ماں کے دل میں یہ بات ڈالی کہ موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں پریشان نہ ہوں، جب یہ بچہ پیدا ہو تو اس کو تابوت میں بند کرو اور دریا میں ڈال دو، ہم اس بچے کو تمہارے پاس ہی لائیں گے، اس کی تربیت تمہارے پاس ہی ہوگی، تم غمزدہ نہ ہو۔
قبطی کا قتل:
﴿وَ قَتَلۡتَ نَفۡسًا فَنَجَّیۡنٰکَ مِنَ الۡغَمِّ وَ فَتَنّٰکَ فُتُوۡنًا﴾
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا کہ ایک بندہ آپ سے قتل ہوا، پھر ہم نے آپ کو اس گھٹن اورپریشانی سے نجات دی اور بھی کئی آزمائشیں آپ پر آئی ہیں۔
آپ کئی سال مَدْیَنْ میں رہے ہیں، پھر بھی آپ کے مقدر میں تھا اس لیے آپ واپس آئے۔ تو حضرت موسیٰ علیہ اور ان کی والدہ پر کئی آزمائشیں بنتی ہیں جو موسیٰ علیہ السلا م کی وجہ سے ان کے گھر پر آئی ہیں۔ ان آزمائشوں کی تفصیل ایک لمبی حدیث مبارک میں ملتی ہے۔
موسیٰ علیہ السلام پر آزمائشوں کی تفصیل:
”حدیث الفتون“ کے نام سے سنن النسائی میں بڑی تفصیل کے ساتھ یہ حدیث موجود ہے کہ معروف تابعی حضرت سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان
﴿وَ فَتَنّٰکَ فُتُوۡنًا﴾
کہ اے موسیٰ! ہم نے تمہیں کئی آزمائشوں سے گزارا، اس میں اس ”فتون“ اور آزمائشوں سے کیا مراد ہے؟
تو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ان کو بتایا کہ جب وہ سال تھا اوپر جو واقعہ میں نے ذکر کیا ہے کہ فرعون اور اس کے درباریوں میں جو مشورہ ہوا کہ ایک سال کے بچوں کو زندہ رکھو اور دوسرے سال کے بچوں کو ذبح کرو تو جس سال زندہ رکھنا تھا اس سال ہارون علیہ السلام پیدا ہوئےاور آئندہ سال حضرت موسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے تو ان کی ماں بہت پریشان ہوئی کہ میرے بچے کا کیا بنے گا۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں ڈالا کہ اس بچے کو لکڑ ی کے صندوق میں ڈالو اور دریا کے حوالے کر دو۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ یہ ان آزمائشوں میں سے سب سے پہلی آزمائش تھی۔
باوجود اس کے کہ موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کے دل میں اللہ نے یہ بات ڈالی، بشارت بھی دی اور وعدہ بھی کیا لیکن پھر بھی طبعی خوف غالب تھا۔ انہوں نے بچے کو صندوق میں ڈال کر دریا کے حوالے کردیا۔ دریائے نیل کا ایک حصہ فرعون کے محل کے طرف سے ہوکر گزرتا تھا تو یہ صندوق اس طرف چلا گیا۔ آگے چٹان تھی جہاں فرعون کی کنیزیں نہاتی تھیں، کپڑے دھوتی تھیں، سارے کام کرتی تھیں تو اللہ نے اس صندوق کو ان کے قریب کر دیا۔ وہاں کنیزوں نے صندق کو اٹھایا، سوچا کہ اس کو کھولیں۔ پھر کہا کہ اگر کھولتی ہیں تو اندر سے مال نکلے گا، فرعون کی بیوی کو بتائیں گے تو وہ کہے گی کہ اس میں سے کچھ مال تم نے رکھ لیا ہوگا تو بہتر ہے کہ اس کو کھولے بغیر ہی فرعون کی بیوی کے پاس لے جائیں۔فرعون کی بیوی آسیہ کے پاس لے گئیں۔ اس نے کھولا تو اندر بچہ تھا۔
موسیٰ علیہ السلام کی محبوبیت:
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَ اَلۡقَیۡتُ عَلَیۡکَ مَحَبَّۃً مِّنِّیۡ﴾
ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو بہت محبوب بنایا تھا۔ فرعون کی بیوی نے جب دیکھا تو دیکھتے ہی دل میں اس بچے کی محبت اتر گئی۔ فرعون کی اولاد تو تھی نہیں تو اس نے کہا کہ اس کی میں تربیت کرتی ہوں۔ جب یہ بات تھوڑی سی پھیل گئی تو جو اہلکار فرعون کی طرف سے مقرر تھے کہ جب بچہ پیدا ہو تو ذبح کر دینا ہے وہ یہاں پہنچ گئے۔ انہوں نے کہا کہ اس بچے کو ہمارے حوالے کردو، ہم نے اس کو ذبح کرنا ہے۔ فرعون کی بیوی نے کہا کہ میں فرعون سے بات کر لیتی ہوں، اگر اجازت مل گئی تو ٹھیک ہے ورنہ تم اس کو ذبح کر دینا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اس واقعہ کو ذکر کر کے فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی یہ دوسری آزمائش تھی۔
خیر اس نے فر عون کے پاس جاکر بات کی کہ یہ بچہ ہےاور میں چاہتی ہوں کہ ہم اس کو پالیں، ہمارا بیٹا نہیں ہے، یہ ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنے گا۔ فرعون نےکہا کہ یہ تیری آنکھوں کی ٹھنڈک تو ہوسکتا ہے لیکن میری آنکھوں کی ٹھنڈ ک نہیں ہوسکتا۔
بعض روایات میں ہے کہ اگر فرعون یہ کہہ دیتا کہ یہ بچہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک بنے گا جس طرح اس کی بیوی نے کہا تھا تو اللہ تعالیٰ دونوں کو ہدایت عطا فرما دیتے۔
خیر بیوی کے کہنے پر فرعون نے اس بچے کو قتل سے آزاد کر دیا۔ اب اس کا مسئلہ تھا دودھ پلانے کا، تو دودھ پلانے کے لیے دایہ منگائی لیکن بچے نے دودھ نہیں پیا۔ اب یہ بڑا مسئلہ تھا کیونکہ اگر بچہ دودھ نہیں پیتا تو زندہ کیسے رہے گا؟ فرعون کی بیوی نے اپنی کنیزیں بھیجیں کہ دایہ تلاش کرو، وہ بازار میں پھر کر دایہ کو تلاش کر رہی تھیں۔ ادھر موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے اپنی بیٹی سے کہا کہ باہر جاؤ اور لوگوں سے پتا کرو کہ اس تابوت اور بچے کا کیا بنا؟ موسیٰ علیہ السلام کی بہن باہر گئی تو دیکھا کہ کنیزیں بچے کو لے کر دودھ پلا نے کے لیے دایہ کو تلاش کر رہی ہیں۔ تو موسیٰ علیہ السلام کی بہن نے کہا کہ میں ایک گھر کا پتا دیتی ہوں، وہ دودھ بھی پلائے گی اور اس کا خیال بھی رکھے گی۔ ان کنیزوں کو شک پڑا کہ کہیں یہ عورت اس بچے کی ماں یا کوئی خاص رشتہ دار ہے جو اتنے یقین سے کہہ رہی ہے کہ وہ گھر والے اس بچے کا خیال رکھیں گے۔ تو انہوں نے موسیٰ علیہ السلام کی بہن کو اس شک میں پکڑ لیا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ تیسری آزمائش کا ہے۔ اس وقت موسیٰ علیہ السلام کی بہن نے کہا کہ میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر اس گھر کا دودھ اس بچے نے پی لیا تو ان گھر والوں کو فرعون کے دربار تک رسائی مل جائے گی، پیسے زیادہ ملیں گے اور جب اتنا کچھ بادشاہ کے گھر سے ملے گا تو وہ اس کا خیال کیوں نہیں رکھیں گے؟!ان کنیزوں کو اس بات سے تھوڑی سی تسلی ہوگئی تو انہوں نے موسیٰ علیہ السلام کی بہن کو چھوڑ دیا۔
موسیٰ علیہ السلام کا اپنی ماں کا دودھ پینا:
موسیٰ علیہ السلام کی بہن فوراً گھر پہنچی اور یہ سارا قصہ والدہ کو بتایا۔ دونوں اس جگہ آئیں جہاں کنیزیں کھڑی تھیں۔ کنیزوں کے کہنے پر موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے بھی بچے کو گود میں لیا تو فوراً بچے نے ان کا دودھ پینا شروع کر دیا اور پیٹ بھر کر پیا۔ یہ بات فرعون کی بیوی کے پاس پہنچی تو بہت خوش ہوئی۔ چنانچہ اس نے موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو بلایا۔ اس نے کہا کہ تم یہاں ٹھہرو اور بچے کو دودھ پلاؤ، تمہارا خرچہ ہم دیں گے۔ موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے کہا کہ پہلے میرے پاس ایک بچہ گھر میں ہے، میں اس کو پالتی ہوں، میں اس کو گھر میں کیسے چھوڑوں؟! اگر اس کو دودھ پلانا ہے تو میرے پاس بھیج دو، میں اپنے گھر میں اس کو دودھ پلاؤں گی، اگر نہیں تو یہاں رہ کر پلانا میرے بس میں نہیں ہے، صاف انکار کیا اور خودداری سے کام لیا۔
خیرانہوں نےبچہ اس کے حوالے کر دیا۔ تو جو اللہ نے وعدہ فرمایا تھا کہ ہم اس کو آپ کے پاس واپس لوٹائیں گے وہ عدہ پورا ہوگیا۔ اب خرچہ فرعون کا ہے اور دودھ اپنے بچے کو پلاتی ہے۔ یوں حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی والدہ کے پاس رہ کر دودھ پیتے رہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا کہ جو شخص صنعت وحرفت کا کام کرے، چیزیں تیار کرے -جیسے فیکٹریاں ہوتی ہیں، کارخانے ہوتے ہیں- اور دیانت سے کام کرے تو یہ ایسے ہے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ ہے، یعنی بچہ بھی اپنا ہے اور اس بچے کو دودھ پلانے پر خرچہ بھی مل رہا ہے حالانکہ اپنے بچے کو دودھ پلانے پر تو خرچہ نہیں ملتا تو اللہ کےنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی کہ بندہ صنعت وحرفت کا کام کرے اچھی نیت سےکرے تو کا م بھی اپنا کرے گا اور ثواب بھی ملے گا۔
فرعون کی ڈاڑھی پکڑنا:
خیر کچھ دنوں کے بعد فرعون کی بیوی نے بلایا کہ لے آؤ بیٹے کو میں نے دیکھنا ہے۔ اس دوران فرعون کی بیوی نے اپنے سب درباریوں کو حکم دیا کہ جب وہ دایہ بچے کو لے کر آئے تو تم سب ہدایا دو۔ تو جس وقت موسیٰ علیہ السلام اپنی والدہ کے ساتھ گھر سے نکلے اس وقت سے لے کر محل پہنچنے تک لوگوں نے خوب ہدیے دیے۔ جب سارے ہدیے جمع ہوگئے تو اس نے یہ سارے موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کے حوالے کردیے کہ یہ بھی تمہارا مال ہے، تم اس کو لے جاؤ۔ اس کے بعد اس نے کہا کہ میں اب اس کو فرعون کے پاس لے جاتی ہوں وہ بھی اس کو ہدیے تحفے دے گا۔ جب فرعون کے دربار میں لے کر گئی، فرعون نے ان کو اپنی گود میں بٹھا لیا تو موسیٰ علیہ السلام نے اس کی ڈاڑھی کو پکڑا اور اپنی طرف جھٹکا مار کرکھینچا۔
اس سے فرعون کو شک پڑا کہ یہ وہی بچہ نہ ہو اور درباریوں نے کہاکہ یہی وہ بچہ ہے جو تیری سلطنت کے ختم ہونے کا ذریعہ بنے گا، اس کو سنبھالو۔ تو فرعون نےکہا کہ اس کو لے جاؤ اور ذبح کر دو۔ فرعون کی بیوی نے کہا کہ یہ بچہ ہے، اس کو کچھ پتا نہیں ہے، تم اس کو آزما لو، ایسا کرو کہ تم آگ کے انگارے رکھو اور موتی بھی رکھو۔ اگر یہ سمجھدار ہوا تو یاقوت کی طرف جائے گا اور اگر بچہ ہوا تو آگ زیادہ چمکتی ہے ادھر دوڑے گا۔انہوں نے یہ دونوں چیزیں رکھ دیں تو موسیٰ علیہ السلام نے انگارے اٹھا لیے۔
بعض روایات میں آ تا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام موتیوں کی طرف ہاتھ بڑھانا چاہتے تھے کہ جبرائیل امین آئے اور ان کا ہاتھ انگاروں کی طرف پھیر دیا، موسیٰ علیہ السلام نے آگ کا انگارہ ہاتھ میں پکڑا اور فوراً منہ میں ڈال دیا۔ فرعون نے فوراً انگارا کھینچ کر باہر نکالا، اس سے موسیٰ علیہ السلام کی کچھ زبان جل گئی۔ تو فرعون کی بیوی نے کہا کہ دیکھو! یہ تو بچہ ہے، اس کو تو پتا ہی نہیں ہے کہ آگ کیا ہوتی ہے اور یاقوت کیا ہوتا ہے؟! خیر اس سے اس کو تسلی ہوگئی اور اس نے بچے کو چھوڑ دیا۔
اس طرح موسیٰ علیہ السلام ان کے گھر میں پلے جوان ہوئے، ایک وقت آیا کہ موسیٰ علیہ السلام کی سب لوگ عزت کرتے تھے، احترام کرتے تھے۔
قبطی اور بنی اسرائیلی کی لڑائی:
ایک دن موسیٰ علیہ السلام نے دیکھا کہ ایک اسرائیلی اور ایک فرعونی آپس میں لڑ رہے ہیں، موسیٰ علیہ السلام کو یقین ہوا کہ فرعونی کا قصور ہے تو آپ نے چھڑانے کےلیے اس کو مکا مارا تو فرعونی قتل ہوگیا۔ اب پتا نہیں چل رہا تھا کہ قتل کس نے کیا ہے؟ یا اسرائیلی کو پتا ہے یا موسیٰ علیہ السلام کو، تیسرے بندے کو اس کی خبر نہ تھی۔ فرعون نے بندے لگائے کہ قاتل کو تلاش کرو تاکہ ہم اس کو سزا دیں لیکن قاتل مل نہیں رہا تھا۔ دوسرے دن پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام جا رہے تھے، دیکھا کہ وہی اسرائیلی ایک اور فرعونی سے لڑ رہا تھا تو موسیٰ علیہ السلام نے محسوس کیا کہ آج اسرائیلی کا قصور ہے تو آپ نے اس کو سمجھایا کہ تو روزانہ لڑتا ہے اور باز کیوں نہیں آتا؟ موسیٰ علیہ السلام نے اس کو تھوڑا سا ڈانٹا تو وہ سمجھا کہ اب مجھے ماریں گے، اس نے کہاکہ موسیٰ! کل تم نے ایک فرعونی کو مارا تھا اور آج تم مجھے مارنا چاہتے ہو۔
اتنی بات کی اور بات ختم ہوگئی۔ اس فرعونی نے بات سنی۔ اس نے فرعون کے دربار میں یہ بات پہنچادی کہ کل جو قتل ہوا تھا وہ موسیٰ نے کیا تھا۔ فرعون نے پولیس والے دوڑائے کہ جاؤ گرفتار کرو، پولیس والے تو بائی روڈ جاتے ہیں آدمی کو پکڑنے کے لیے، وہاں پر ایک درباری تھا جس نے بات سن لی تو وہ مختصر راستے سے گیااور موسیٰ علیہ السلام سے کہا موسیٰ! اپنی خیر مناؤ، وہ تجھے مارنا چاہتے ہیں۔
مدین کا سفر:
موسیٰ علیہ السلام پھر وہیں سے رات کےا ندھیرے میں نکلے اور مَدْیَنْ کا رخ کیا۔ اجنبی آدمی تھے راستے کا پتہ نہیں تھا۔ آگے سارا واقعہ آپ نے سنا ہوا ہے کہ راستے پر ایک کنواں تھا، لوگ وہاں پانی بھرتے تھے، دو بچیاں ایک طرف کھڑی تھیں، موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا کہ تم کیوں کھڑی ہو؟ کہا کہ لوگ جائیں گے تو ہم اپنی بکریوں کو پانی پلائیں گی۔ موسیٰ علیہ السلام نے ڈول نکالا اور بکریوں کو پانی پلادیا تو وہ جلد ی گھر پہنچ گئیں۔ وہ دونوں حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹیاں تھیں۔ پوچھا کہ آج تم جلدی آ گئی ہو؟ بیٹیوں نے جواب دیا کہ وہاں پر کوئی مسافر تھا، انہوں نےہماری بکریوں کو پانی پلایا ہے۔ کہا کہ اس کو بلاکر لاؤ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام وہاں گئے، حضرت شعیب علیہ السلام نے ان کے سارے حالات سنے تو فرمایا کہ تم پریشان مت ہو، فرعون کی جو سلطنت تھی تم وہاں سے نکل آئے ہو۔ میں اپنی ایک بیٹی سے تمہارا نکاح کر دوں گا، میری شرط یہ ہے کہ آٹھ سال بکریاں چراؤ اور اگر دس سال چراؤ گے تو تمہاری مرضی ہے۔ موسیٰ علیہ نے شرط قبول کر لی۔
یہ حضرت شعیب علیہ السلام نے تدبیر اختیار فرمائی کہ ویسے رکھوں گا تو یہ غیرت مند نوجوان ہے، ٹھہرے گا نہیں اور اگر مزدوری پر رکھوں گا تو رک جائے گا اور یہ بات شعیب علیہ السلام کی بیٹی نے کہی کہ آپ اس کو مزدوری پر رکھیں، یہ قوی بھی ہے اور امین بھی ہے۔ تو شعیب علیہ السلام نے پوچھا کہ تمہیں کیسے پتا چلا؟ اس نےکہاکہ ایک تو ہم نے ان کو پانی نکالتے ہوئے دیکھا، اس سے ہمیں اس کی طاقت کا پتا چلا اور جب میں بلانے کے لیے گئی تو انہوں نے آنکھیں نیچے کر کے میری پوری بات کو سنا، پھر مجھے کہاکہ میں آگے چلتا ہوں اور تم میرے پیچھے چلو، جس طرف مڑنا ہے تم اس طرف پتھر پھینکنا، میں سمجھوں گا کہ راستہ اس طرف ہے۔ تو ان دو باتوں کی وجہ سے شعیب علیہ السلام نے ان کو اپنا داماد بنایا۔
مدین سے واپسی:
پھر جب موسیٰ علیہ السلام حضرت شعیب علیہ السلام کے پاس سے واپس آرہے تھے تو اللہ تعالی نے آپ حکم دیا کہ جاؤ اور فرعون کو دعوت دو۔
﴿اِذۡہَبۡ اَنۡتَ وَ اَخُوۡکَ بِاٰیٰتِیۡ وَ لَا تَنِیَا فِیۡ ذِکۡرِیۡ ﴿ۚ۴۲﴾ اِذۡہَبَاۤ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ اِنَّہٗ طَغٰی ﴿ۚ۴۳﴾ فَقُوۡلَا لَہٗ قَوۡلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوۡ یَخۡشٰی ﴿۴۴﴾﴾
تم اور تمہارا بھائی میری یہ نشانیاں لے کر جاؤ اور میرے ذکر میں سستی نہ کرنا، فرعون کے پاس جاؤ، وہ حد سے نکل چکا ہے، اس کے پاس جا کر نرمی سے بات کرنا، شاید وہ نصیحت قبول کرے یا اللہ سے ڈر جائے۔
تو اللہ تعالیٰ نے بات کرنے کا سلیقہ بتایا ہے۔ آج جتنا بھی بڑا داعی ہو وہ موسیٰ علیہ السلام سے بڑا نہیں ہوسکتا اور جس کو دعوت دینی ہو وہ جتنا بھی گندہ ہو فرعون سے گندہ نہیں ہوسکتا تو موسیٰ اور ہارون علیہما السلام دونوں کو حکم ہے کہ بات نرم کہنا ، لہجہ کا بہت دخل ہے بندے کو سمجھانے میں، اس لیے بات اچھی ہو لیکن لہجہ نرم ہونا چاہئے۔
نرمی اور سختی کہاں کی جائے؟
قرآن کریم میں اللہ تعالی نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام سے فرمایا :
﴿فَقُوۡلَا لَہٗ قَوۡلًا لَّیِّنًا﴾
کہ فرعون سے نرم لہجہ میں بات کرنا۔ اب سوال یہ ہے کہ آج ہمارے ہاں احتجاج ہوتا ہے حکمرانوں کے خلاف، ہماری تقاریر ہوتی ہیں فرق باطلہ کے خلاف اور بہت سخت ہو تی ہیں جس کا لہجہ نرم نہیں ہوتا تو کیا یہ قرآن کریم کی اس آیت کے خلاف ہے؟
بات سمجھیں کہ یہ جو حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کو نرم بات کرنے کا حکم دیا گیا ہے یہ ابتداءً تھا کہ جب آپ پہلی بار جاؤ تو اس کو نرمی سے بات سمجھاؤ، ابتدا میں سختی نہ کرو بلکہ پیار سے سمجھاؤ اور جب حجت تام ہوجائے اور پھر بھی نہ مانے تو پھر
﴿قَوۡلًا لَّیِّنًا﴾
نہیں ہے بلکہ پھر حکم یہ ہوتا ہے:
﴿یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ جَاہِدِ الۡکُفَّارَ وَ الۡمُنٰفِقِیۡنَ وَ اغۡلُظۡ عَلَیۡہِمۡ﴾ 158F
التحریم 66: 9
اے نبی! کفار اور منافقین سے جہاد کرو اور ان پر سختی کرو!
پھر جہاد بھی ہے اور سختی بھی ہے، ابتدائی طور پر دلائل، پیار اور نرمی سے بات سمجھاؤ، جب بار بار سمجھانے کے باوجود نہ سمجھے تو پھر تنبیہ بھی جائز ہے، للکارنا بھی جائز ہے اور جب نوبت قتال تک پہنچ جائے تو پھر جہاد اور قتال بھی جائز ہے۔ یہ مراحل اخیر کے ہیں اور ہمارے حضرات جو حکمرانوں کو لتاڑتے ہیں وہ پہلے دن نہیں ہوتا، بڑے عرصہ کے بعد ہوتا ہے۔ تو دونوں میں فرق کرنا چاہیے۔
﴿قَالَا رَبَّنَاۤ اِنَّنَا نَخَافُ اَنۡ یَّفۡرُطَ عَلَیۡنَاۤ اَوۡ اَنۡ یَّطۡغٰی ﴿۴۵﴾ قَالَ لَا تَخَافَاۤ اِنَّنِیۡ مَعَکُمَاۤ اَسۡمَعُ وَ اَرٰی ﴿۴۶﴾﴾
ان دونوں نے کہا کہ یا اللہ! ہمیں ڈر ہے
﴿اَنۡ یَّفۡرُطَ عَلَیۡنَاۤ﴾
کہ وہ ہم پر زیادتی نہ کرے کہ دعوت دینے سے پہلے ہی ہمیں ختم کر دے اور ہمارے اوپر حملہ کرے،
﴿اَوۡ اَنۡ یَّطۡغٰی﴾
یا ہم اسے دعوت دیں تو مزید سرکش ہوجائے، یہ ہمیں خدشہ ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تم ڈرو مت، میں تمہارے ساتھ ہو، سن بھی رہا ہوں اور دیکھ بھی رہا ہوں۔
فرعون کو دعوت اور اس کا جواب:
﴿فَاۡتِیٰہُ فَقُوۡلَاۤ اِنَّا رَسُوۡلَا رَبِّکَ فَاَرۡسِلۡ مَعَنَا بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ۬ۙ وَ لَا تُعَذِّبۡہُمۡ ؕ قَدۡ جِئۡنٰکَ بِاٰیَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکَ ؕ وَ السَّلٰمُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الۡہُدٰی ﴿۴۷﴾﴾
تم اس کے پاس جاؤ اور اسے کہو کہ ہم دونوں تمہارے رب کے پیغمبر ہیں، اس لیے بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دو اور انہیں تکلیفیں مت دو۔
تو دو باتیں ہیں؛ ایک اس کو توحید کی دعوت دو اور دوسرا اس سے اپنی قوم کی آزادی کی بات کرو۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب اس کے پاس پہنچےاور اس کو دعوت دی تو اس نے پوچھا کہ تم کس بات کی دعوت دیتے ہو؟ کہا کہ اللہ کے دین کی دعوت دیتے ہیں، پھر کہا :تمہارا رب ہے کو ن؟ فرمایا:
﴿رَبُّنَا الَّذِیۡۤ اَعۡطٰی کُلَّ شَیۡءٍ خَلۡقَہٗ ثُمَّ ہَدٰی ﴿۵۰﴾﴾
ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کے مناسب پیدا کیا ہے اور اس کی رہنمائی بھی فرمائی، اس کو راستے بھی دکھائے۔
﴿قَالَ فَمَا بَالُ الۡقُرُوۡنِ الۡاُوۡلٰی ﴿۵۱﴾ قَالَ عِلۡمُہَا عِنۡدَ رَبِّیۡ فِیۡ کِتٰبٍ ۚ لَا یَضِلُّ رَبِّیۡ وَ لَا یَنۡسَی ﴿۫۵۲﴾﴾
فرعون نے کہا کہ اچھا! یہ بتاؤ کہ بقول تمہارے پہلے بھی نبی گزرے ہیں تو جن لوگوں نے ان کی بات نہیں مانی ان کا کیا انجام ہوا؟ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ تو اللہ ہی جانتا ہے کہ ان کا کیا انجام ہوا، یہ بات اللہ کے علم میں ہے۔ فرعون کا مقصد یہ تھا کہ جب میں یہ سوال کروں گا تو موسیٰ علیہ السلام کہیں گے کہ وہ جہنمی تھے، عذاب آیا تھا اور تباہ ہوگئے تھے تو میں اپنی قوم کوبطور مذاق کہوں گا کہ انہیں دیکھو! یہ اپنے علاوہ سب کو گمراہ سمجھتے ہیں، بس یہی نیک ہے اور کوئی نیک نہیں ہے۔ تو موسیٰ علیہ السلام نے تدبیر سے بات فرمائی کہ
﴿عِلۡمُہَا عِنۡدَ رَبِّیۡ فِیۡ کِتٰبٍ﴾
اس کا علم میرے رب کے پاس ہے اور میرےرب کو نہ غلطی لگتی ہے اور نہ ہی وہ بھولتا ہے۔
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا:
﴿مِنۡہَا خَلَقۡنٰکُمۡ وَ فِیۡہَا نُعِیۡدُکُمۡ وَ مِنۡہَا نُخۡرِجُکُمۡ تَارَۃً اُخۡرٰی ﴿۵۵﴾﴾
اسی زمین سے ہم نے تمہیں پیدا کیا ہے، اسی زمین میں ہم تمہیں واپس لے جائیں گے اور اسی زمین سے تمہیں ایک مرتبہ دوبارہ نکالیں گے۔
یہاں اللہ تعالیٰ نے ضابطہ بیان فرمایا کہ مٹی سے تم کو پیدا کیا، مٹی میں لوٹائیں گے اور اسی مٹی سے اٹھائیں گے۔ بعض روایات سے یہ بات ثابت ہے کہ جو انسان بھی پیدا ہوتاہے تو رحم مادر میں ایک تو باپ کا نطفہ ہوتاہے اور دوسراجس مٹی میں اس انسان نے دفن ہونا ہوتا ہے اس مٹی کا کچھ حصہ اللہ تعالیٰ فرشتے کے ذریعے ماں کے رحم میں ڈال دیتے ہیں۔ تو جس مٹی میں اس نے دفن ہونا ہوتا ہے وہ مٹی اس میں شامل ہوتی ہے۔ اب اس کی نوعیت کیا ہوتی ہے وہ تو اللہ ہی جانتے ہیں۔ اسی لیےکہتے ہیں کہ پہنچی وہاں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
"خُلِقْتُ أَنَا وَأَبُوْبَکْرٍ وَعُمَرَ مِنْ طِیْنَۃٍ وَاحِدَۃٍ․"159F
تاریخ ابن عساکر : ج44ص121 رقم الحدیث 46604
کہ مَیں ، ابوبکر اور عمر ایک ہی مٹی سے بنے ہیں۔
اس لیے دفن بھی ایک جگہ ہوئے اور قیامت کے دن اٹھیں گے بھی اسی جگہ سے۔
جادوگروں سے مقابلہ:
﴿قَالَ اَجِئۡتَنَا لِتُخۡرِجَنَا مِنۡ اَرۡضِنَا بِسِحۡرِکَ یٰمُوۡسٰی ﴿۵۷﴾﴾
فرعون نے کہا کہ اے موسیٰ! تم اس لیے آئے ہو تاکہ اپنے جادو سے ہمیں اپنی زمین سے نکال دو۔ ہم تمہارا مقابلہ کریں گے۔ اب مقابلہ کیسے کریں گے؟ اس کے لیے عید کا دن طے ہوا اور دوپہر کا وقت جس میں سب امیر غریب جمع ہوں۔ گراؤنڈ ایسا ہے جو اسرائیلیوں اور فرعونیوں کے درمیان میں ہے تو دونوں کے آنے میں زیادہ دیر نہ لگے اور وقت پر پہنچیں۔ فرعونی بھی آگئے، اسرائیلی بھی آگئے، ان کے ستر ہزار جادوگر بھی آئے۔ وہ موسیٰ علیہ السلام سے کہنے لگے کہ پہلے تم اپنا کرشمہ دکھاؤگے یا ہم دکھائیں؟ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ پہلے تم دکھاؤ، اس کے بعد میں معجزہ دکھاؤں گا۔ ان ستر ہزار جادوگروں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں زمین پر پھینکیں۔
جادوگروں کا قبولِ حق:
﴿فَاِذَا حِبَالُہُمۡ وَ عِصِیُّہُمۡ یُخَیَّلُ اِلَیۡہِ مِنۡ سِحۡرِہِمۡ اَنَّہَا تَسۡعٰی ﴿۶۶﴾ فَاَوۡجَسَ فِیۡ نَفۡسِہٖ خِیۡفَۃً مُّوۡسٰی ﴿۶۷﴾ قُلۡنَا لَا تَخَفۡ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡاَعۡلٰی ﴿۶۸﴾ وَ اَلۡقِ مَا فِیۡ یَمِیۡنِکَ تَلۡقَفۡ مَا صَنَعُوۡا ؕ اِنَّمَا صَنَعُوۡا کَیۡدُ سٰحِرٍ ؕ وَ لَا یُفۡلِحُ السَّاحِرُ حَیۡثُ اَتٰی ﴿۶۹﴾ فَاُلۡقِیَ السَّحَرَۃُ سُجَّدًا قَالُوۡۤا اٰمَنَّا بِرَبِّ ہٰرُوۡنَ وَ مُوۡسٰی ﴿۷۰﴾﴾
جونہی انہوں نے رسیاں پھینکیں تو ان کے جادو کے اثر سے موسیٰ علیہ السلام کو ایسے محسوس ہونے لگا کہ یہ سانپ بن کر دوڑ رہی ہیں۔ اس سے موسیٰ علیہ السلام نے اپنے دل میں خوف محسوس کیا -خوف اس وجہ سے تھا کہ ان لوگوں نے لاٹھیاں پھینکیں اور سانپ بن گئے، میں لاٹھی پھینکوں گا تو وہ بھی سانپ بن جائے گی تو قوم فیصلہ کیسے کرے گی کہ یہ جادو ہے یا معجزہ ؟ لوگ ایمان کیسے لائیں گے؟ - تواللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿لَا تَخَفۡ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡاَعۡلٰی﴾
کہ اے موسی! تم مت ڈرو، تم ہی غالب آؤگے -آج پتہ چل جائے گا کہ معجزہ کیا ہوتا ہےاور جادو کیا ہوتاہے!
جب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی لاٹھی پھینکی تو اژدہا بن گیا، اس نے سارے سانپوں کو نگل لیا۔ جادو گر وہیں سجدے میں گر گئے اور انہوں نے کہا کہ ہم ایمان لائے ہارون اور موسیٰ علیہما السلام کے پروردگار پر۔ تو فرعون نے ان سے کہا کہ تم نےملی بھگت کی ہے، تم موسیٰ علیہ السلام سے ملے ہوئے ہو، اس لیے تم نے ایسا کرتب کیا۔ میں تمہیں ایسی سزا دوں گا کہ آج تمہارا دایاں ہاتھ بایاں پاؤں او ر دایاں پاؤں بایاں ہاتھ کاٹ کے رکھ دوں گا۔ انہوں نے کہا کہ فرعون! تونے جو کرنا ہے آج کر لے،ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں، ہم بدلنے والے نہیں ہیں چاہے کچھ بھی ہوجائے۔
جادو کا اثر (احمد سعید کے اعتراض کا جواب)
یہاں یہ بات سمجھیں کہ اللہ نے فرمایا:
﴿وَ لَا یُفۡلِحُ السَّاحِرُ حَیۡثُ اَتٰی ﴿۶۹﴾﴾
کہ جادو گر کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔
اب مسئلہ جادو کا ہے۔ یہاں بعض لوگوں نے جادو کا انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ جادو کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ہمارے قریب دَور میں ایک مماتی تھا احمد سعید چتروڑی، اب فوت ہو گیا ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر والی حیات کا منکر تھا، اھل السنۃ والجماعۃ سے خارج تھا، اس نے ایک مستقل کتاب لکھی تھی”قرآن مقدس اور بخاری محدث“، اس نے اپنی اس کتاب میں صحیح بخاری کی 53 احادیث ایسی نقل کی ہیں کہ جن کو قرآن کریم کے خلاف ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان میں سے ایک حدیث صحیح بخاری کتاب الطب میں ہے کہ:
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ سَحَرَ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ مِنْ بَنِيْ زُرَيْقٍ يُقَالُ لَهُ لَبِيْدُ بْنُ الْأَعْصَمِ حَتّٰى كَانَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهُ كَانَ يَفْعَلُ الشَّيْءَ وَمَا فَعَلَهُ․160F
صحیح البخاری، رقم: 5763
کہ امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر لبید بن اعصم نے جادو کیا تھا اور اس جادو کا نتیجہ یہ نکلاکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بسا اوقات خیال آتا کہ میں نے یہ کام کیا ہے حالانکہ وہ کام کیا نہیں ہوتا تھا اور بسا اوقات یہ خیال آتا کہ میں نے یہ کا م نہیں کیا حالانکہ آپ نے وہ کام کیا ہوتا تھا، تو یہ جادو کا اثر تھا۔
اور احمد سعید نے کہا کہ قرآن کریم میں ہے :
﴿وَ لَا یُفۡلِحُ السَّاحِرُ حَیۡثُ اَتٰی ﴿۶۹﴾﴾
کہ جادو گر کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا اور ادھر امی عائشہ کہتی ہے کہ لبید بن عاصم کامیاب ہوا تھا۔ تو یہ حدیث قرآن کریم کے خلاف ہے۔ لہٰذا جادو کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
حالانکہ احمد سعید کی یہ بات بالکل ہی غلط ہے اور قرآن کریم کو نہ سمجھنے کی علامت ہے۔ علامہ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ذَهَبَ أَهْلُ السُّنَّةِ إلٰى أَنَّ السِّحْرَ ثَابِتٌ وَلَهٗ حَقِيْقَةٌ․
الجامع لاحکام القرآن للقرطبی: ج1 ص246
کہ اھل السنۃ کا موقف یہ ہے کہ جادو کی حقیقت بھی ہے اور یہ ثابت بھی ہے۔
قرآن کریم میں ہے :
﴿وَ مَاۤ اُنۡزِلَ عَلَی الۡمَلَکَیۡنِ بِبَابِلَ ہَارُوۡتَ وَ مَارُوۡتَ ؕ وَ مَا یُعَلِّمٰنِ مِنۡ اَحَدٍ حَتّٰی یَقُوۡلَاۤ اِنَّمَا نَحۡنُ فِتۡنَۃٌ فَلَا تَکۡفُرۡ ؕ فَیَتَعَلَّمُوۡنَ مِنۡہُمَا مَا یُفَرِّقُوۡنَ بِہٖ بَیۡنَ الۡمَرۡءِ وَ زَوۡجِہٖ﴾ 162F
البقرۃ2: 102
کہ یہ بنی اسرائیلی لوگ اس چیز یعنی جادو کے پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں؛ ہاروت وماروت کو دی گئی تھی۔ یہ دو فرشتے لوگوں کو اس وقت تک جادو نہیں سکھاتے تھے جب تک ان کو یہ نہ کہ دیتے کہ ہم بطور امتحان کے بھیجے گئے ہیں، اس لیے تم لوگ جادو کے پیچھے پڑ کر کفر اختیار نہ کرنا۔ پھر بھی لوگ ان سے جادو سیکھتے تھے جس کے ذریعے میاں اور بیوی کے درمیان جدائی ہو جائے۔
تو جادو کی حقیقت تو قرآن سے ثابت ہے۔ یہ کہنا کہ قرآن سے ثابت نہیں ہے یہ ٹھیک نہیں ہے۔ تو اس نے کہا کہ یہ حدیث قرآن کریم کے خلاف ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ قرآن کریم نہ سمجھنے کی وجہ سے اشکال پیش آیا۔
﴿وَ لَا یُفۡلِحُ السَّاحِرُ حَیۡثُ اَتٰی﴾
کا معنی یہ ہے کہ جادو گر جس مقصد کے لیے جادو کرتا ہے اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوتا۔ اب دیکھو! ان لوگوں نے اپنی لاٹھیاں پھینکیں، اپنی رسیاں پھینکیں تو نتیجہ کیا نکلا کہ وہ سانپ دوڑتے ہوئے نظر آرہے تھے۔ جادو تو انہوں نے کیا، جادو کا اثر بھی ہوگیا لیکن ان کے جادو سے مقصد تھا موسیٰ علیہ السلام کو شکست دینا لیکن وہ موسیٰ علیہ السلام کو شکست نہیں دے سکے، یہ ہے
﴿وَ لَا یُفۡلِحُ السَّاحِرُ حَیۡثُ اَتٰی﴾
کا معنی۔
لبید بن اعصم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا تاکہ آپ دین کی دعوت نہ دے سکیں، اس کے جادو کے باوجود آپ دین کی دعوت دیتے رہے تو جادو گر اپنے جادو میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔
میں ایک مثال سے سمجھاتا ہوں کہ کامیاب ہونے کا مطلب یہ ہے مثلاً کچھ لوگ کسی عالم پر قاتلانہ حملہ کرتے ہیں، مقصد یہ ہوتاہے کہ اس کو قتل کریں، وہ حملہ کر دیتے ہیں، عالم کو دو گولیاں لگ جاتی ہیں جس سے وہ زخمی ہوتے ہیں اور کچھ دنوں کے علاج کے بعد وہ ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ تو ہم یہ نہیں کہیں گے کہ وہ حملہ کر نہیں سکے اور ان کے حملہ کا اثر نہیں ہوا بلکہ ہم کہیں گے کہ حملہ کیا ہے، حملہ کا اثر بھی ہوا ہے لیکن حملہ کرنے والے اپنے حملے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
تو قرآن کریم میں یہ تو ہے جادوگر اپنے جادو میں کامیاب نہیں ہو سکتے، قرآن میں یہ نہیں ہے کہ جادو کا اثر ہی نہیں ہوتا۔ جادو کا اثر ہونا اور ہے اور جادو گرکا اپنے مقصد میں کامیاب ہونا اور ہے۔ دونوں میں بہت بڑا فرق ہے۔
دوسری بات․․․ اگر غور کیا جائے تو جو بات قرآن کریم میں ہے وہی بات بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے خیال میں آتا کہ میں نے یہ کا م کیا ہے حالانکہ آپ نے کیا نہیں ہوتا تھا۔ ادھرقرآن کریم میں ہے:
﴿فَاِذَا حِبَالُہُمۡ وَ عِصِیُّہُمۡ یُخَیَّلُ اِلَیۡہِ مِنۡ سِحۡرِہِمۡ اَنَّہَا تَسۡعٰی ﴾
تو جو لفظ بخاری کے ہیں وہی لفظ قرآن کریم کے ہیں۔ وہاں بھی
"يُخَيَّلُ اِلَيْهِ"
اور یہاں بھی
"يُخَيَّلُ اِلَيْهِ"۔
یعنی وہ رسیا ں اور لاٹھیاں سانپ بنے نہیں تھے لیکن دیکھنے والوں کو محسوس ہوتا تھا کہ سانپ بن گئے ہیں، اسی طرح اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خیال میں آتا کہ میں نے یہ کام کیا ہے حالانکہ کیا ہوا نہیں تھا۔ تو بخاری اور قرآن کے الفاظ تو ایک جیسے ہیں پھر یہ بخاری؛ قرآن کے خلاف کیسے ہے؟
فرعون کی حق سے روگردانی:
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعوت دی، اصلاح کی کوشش کی لیکن فرعون باز نہیں آیا، موسیٰ علیہ السلام نے معجزات دکھائے لیکن وہ پھر بھی نہیں مانا، موسیٰ علیہ السلام نے مقابلہ کیا اور فاتح ہوگئے لیکن فرعون پھر بھی نہیں مانا۔ فرعونیوں پر پھر عذاب آیا کہ جب بھی وہ کھانا کھانے لگتے تو مینڈک ہی مینڈک ہوتے برتنوں میں، کھانے میں، انہوں نےکہا کہ موسیٰ! دعا کرو۔ موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی تو عذاب ٹل گیا۔ لیکن انہوں نے پھر سرکشی کی تو پھر ان پر عذاب آیا کہ ٹڈیاں ہی ٹڈیاں ہیں۔ پھر کہا کہ جی دعا کرو! دعا کی تو یہ عذاب بھی ٹل گیا لیکن وہ لوگ پھر بھی شرارت سے باز نہیں آئے، پھر خدا کا عذاب آیا کہ جو چیز کھانے لگتے وہ خون بن جاتی۔ کہا کہ جی دعا کرو، اگر یہ عذاب دور ہوگیا تو ہم ٹھیک ہوجائیں گے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی، عذاب ٹلا لیکن یہ پھر بھی ٹھیک نہیں ہوئے۔ پھر ان کے کپڑوں میں جویں ہی جویں پڑ گئیں۔ پھر کہا کہ جی دعا کرو، یہ عذاب دور ہوگیا تو ہم ٹھیک ہوجائیں گے۔ دعا سے عذاب ٹلا لیکن وہ پھر بھی ٹھیک نہ ہوئے۔ اس طرح مختلف قسم کے ان پر عذاب آئے لیکن وہ پھر بھی ٹھیک نہ ہوئے۔
بنی اسرائیل کی آزادی:
﴿وَ لَقَدۡ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی مُوۡسٰۤی ۬ۙ اَنۡ اَسۡرِ بِعِبَادِیۡ فَاضۡرِبۡ لَہُمۡ طَرِیۡقًا فِی الۡبَحۡرِ یَبَسًا ۙ لَّا تَخٰفُ دَرَکًا وَّ لَا تَخۡشٰی ﴿۷۷﴾﴾
ہم نے موسیٰ کے پاس وحی بھیجی کہ آپ میرے بندوں کو لے کر راتوں رات یہاں سے روانہ ہو جاؤ! پھر ان کے لیے سمندر میں ایک خشک راستہ نکال لینا جس سے تمہیں یہ خطرہ بھی نہ ہو گا کہ دشمن پکڑ لے گا اور کوئی خوف بھی نہ ہوگا۔
موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ ہمیں اچانک نکلنا ہے فرعونیوں کو پتہ نہ چلے۔ اسرائیلیوں نے فرعونیوں سے کہا کہ بھائی! ہماری اپنی عید ہے، ہم وہ منانے کے لیے مصر سے باہر جا رہے ہیں اور چونکہ موقع ہماری خوشی کا ہے اس لیے ہمیں عاریۃً کچھ زیور چاہییں۔ اس بہانے سے انہوں نےکچھ زیورات مانگ لیے۔ بنی اسرائیل چھ لاکھ سے کچھ زائد افراد تھے، رات کی تاریکی میں نکلے۔ فرعون کو اس کی اطلاع ملی تو فرعون اپنا لشکر لے کر نکلا، سات لاکھ تو صرف گھڑ سوار تھے، باقی لشکر اس کے علاوہ تھا۔
موسیٰ علیہ السلام جب سمندر پر پہنچے تو منظر یہ تھا کہ آگے دریا ہے اور پیچھے فرعونی۔ موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے کہا:
﴿اِنَّا لَمُدۡرَکُوۡنَ﴾ 163F
الشعراء 26: 61
کہ ہم تو پکڑے گئے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے، ضرور رہنمائی فرمائے گا۔ خیر! موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا مارا تو سمندر میں بارہ راستے بن گئے اور پانی ایساکھڑا تھا
﴿کَالطَّوۡدِ الۡعَظِیۡمِ﴾164F
الشعراء 26: 63
کہ جیسے ایک بڑا پہاڑ ہو۔ بنی اسرائیل وہاں سے گزرے، ادھر فرعونی بھی آگئے۔ فرعونی سمندر دیکھ کر ڈرنے لگے تو فرعون نے اپنا گھوڑا پہلے ڈالا، باقی اس کے پیچھے آئے۔ جب ان کے لشکر کا پہلا گھوڑا آخری کنارے پر تھا اور آخری گھوڑا پہلے کنارے پر یعنی جب سب دریا میں چلے گئے اللہ کی طرف سے حکم آگیا کہ اب ان کو تباہ کر دو، پانی آپس میں مل گیا اور یہ سب بہہ گئے۔
فرعون نمونہ عبرت بنا:
اللہ تعالیٰ نے فرعون کی لاش کو محفوظ رکھا تاکہ بعد والے عبرت حاصل کریں ۔ موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی دریا سے نکل کر آگے گئے تو ایک قوم پر گزر ہوا جو بتو ں کی عبادت کرتے تھے۔ موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے کہا کہ اے موسیٰ! ہمیں بھی کوئی خدا بنادو تاکہ ہم اس کی پوجا کریں تو موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ تم یہاں ٹھہرو، میں اللہ کے پاس جاتا ہوں، اللہ سے دعا کرتا ہوں، کوئی کتاب لاتا ہوں عمل کرنے کے لیے۔آپ علیہ السلامنے اپنے بھائی ہارون کو سمجھایا کہ ذرا ان کا خیال رکھنا اور میرے آنے تک ان کی نگرانی کرنا۔ میں ان شاء اللہ تیس دن کے بعد آتا ہوں۔
موسیٰ علیہ السلام کی اللہ سے ہمکلامی:
وحی آگئی کہ آپ آئیں، تیس دن روزے رکھیں، پھر ہم آپ کو کتاب دیں گے۔ موسیٰ علیہ السلام نے تیس دن روزے رکھے، روزہ رکھنے سے منہ میں ایک بو پیدا ہوتی ہے تو موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے ہمکلامی کے خیال سے مسواک کی جس سے بو زائل ہوگئی۔ جب اللہ تعالیٰ سے ہمکلامی ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے پوچھا کہ اے موسیٰ! آپ نے افطار کیوں کر لیا؟ موسیٰ علیہ السلام نے کچھ کھایا پیا نہیں تھا لیکن چونکہ پیغمبر تھے اس لیے محض مسواک کرنے کو بھی اللہ تعالیٰ نے افطار کرنے سے تعبیر کیا۔ موسیٰ علیہ السلام اس حقیقت کو سمجھ گئے تو عرض کیا کہ یا اللہ! تیس دن روزے رکھنے کی وجہ سے ایک بو تھی میں نے آپ سے بات کرنی تھی تو میں نے مسواک کرکے بو کو ختم کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہمیں تو وہی بو پسند ہے اور یہ بو ہمارے ہاں مشک سے زیادہ پسندیدہ ہوتی ہے۔ لہذا آپ دس روزے مزید رکھو، پھر ہمارے پاس آنا۔
بنی اسرائیل کا بچھڑے کی عبادت کرنا:
ادھر موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے کہا کہ موسیٰ علیہ السلام نے تیس دن کا وعدہ کیا تھا، وہ تو پورے ہوگئے لیکن موسیٰ علیہ السلام کہاں گئے؟ بعض روایات میں آتا ہے کہ سامری نے ان کو مشورہ دیا یا ہارون علیہ السلام نے اپنی مرضی سے فرمایا وہ جو تمہارے پاس زیورات اور عاریت کا سامان ہے وہ تمہار انہیں ہے، یہ تمہارے پاس بطور امانت کے تھا، فرعونی جو اس سامان کے مالک ہیں وہ ہلاک ہوچکے ہیں اس لیے تم اس کو استعمال نہیں کر سکتے، یہ تمہاری ملکیت نہیں ہے۔ چنانچہ آپ علیہ السلام نے وہ سارا سامان اور زیورات جمع کرکے ایک گڑھے میں پھینکوا دیا اور کہا کہ اس کو آگ لگا کر ختم کرو۔ ان سارے زیورات اور سامان کو آگ لگا دی گئی۔ سامری آیا تو اس نے مٹھی بند کی ہوئی تھی، حضرت ہارون علیہ السلام سمجھے کہ اس کے ہاتھ میں بھی کوئی زیور ہے، اس لیے اس کو بھی کہا کہ تم بھی اپنی مٹھی کا سامان اس آگ میں ڈالو۔ اس نے کہا: میں ڈالتا ہوں لیکن ہارون! تم ایک دعا کرو کہ جو میں چاہتاہوں اللہ کرے وہ ہوجائے۔ یہ شخص منافق تھا۔ حضرت ہارون علیہ السلام نے اس کو مسلمان سمجھ کر دعا کی کہ یا اللہ! جو یہ چاہتا ہے وہ ہوجائے۔
اس نے مٹھی میں موجود چیز کو آگ میں پھینکا۔ اس کے ذہن میں تھا کہ میں سارا سونا اکٹھا کر کے ایک بچھڑا بناؤں، اس میں مٹی ڈالوں اور پھر قوم سے کہوں کہ تم اس کی عبادت کرو۔ جب وہ چیز ڈالی تو چونکہ ہارون علیہ السلام دعا کر چکے تھے اس لیے اس دعا کی وجہ سے وہ سارا سونا، چاندی، لوہا، پیتل جو کچھ اس گڑھے میں ڈالا گیا تھا سب مل کر بچھڑا بن گیا۔ اب بچھڑے سے آواز آئی۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے تھے کہ وہ بچھڑے کی آواز نہیں تھی بلکہ بچھڑا ایسا بنایا تھا کہ اس میں سے سوراخ تھا، جب پیچھے کی طرف سے ہوا تیزی سے اندر جاتی اور منہ سے نکلتی تو اس سے آواز پیدا ہوتی تھی۔ اس سامری نےکہا کہ دیکھو! تیس دن ہو گئے، موسیٰ علیہ السلام بھول گئے ہیں، دراصل خدا یہ ہے اور پتا نہیں کہ وہ کہاں سے خدا کو تلاش کر رہے ہیں!
امانت کی پاسداری:
حضرت موسیٰ علیہ السلام قوم کوجب ساتھ لے کر گئے تو بنی اسرائیل نے فرعونیوں سے عاریتاً زیورات لے کر ساتھ رکھے ہوئے تھے، باوجود اس کے کہ فرعونی ان کےمخالف تھے، ان کے بچے قتل کیے تھے اور ایک عرصہ دراز تک ان پر ظلم کیے رکھا تھا۔ اگر بدلے میں ان زیورات کو استعمال کرتے تو کر سکتے تھے لیکن حضرت ہارون علیہ السلام نے فرمایا کہ اس زیور کو استعمال نہیں کرنا، مخالف اگرچہ غرق ہو گئے ہیں اور اب یہ مال ان کو واپس نہیں کیا جا سکتا لیکن چونکہ مال ان کا ہے اس لیے میں یہ حلال نہیں سمجھتا کہ تم اسے استعمال کرو! اس لیے حکم دیا کہ یہ زیورات گڑھا کھود کے اس میں ڈال دو اور اسے آگ لگا دو۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تیرہ سال تک مکہ والوں نے ستایا ہے، کون سا ظلم ہے جو آپ پر نہیں کیا، بیٹیوں کو طلاق تک کی نوبت آئی ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو چھپ کر ہجرت فرمارہے ہیں تو مکہ والوں کا جو مال تھا وہ حضرت علی کے پاس رکھ دیا کہ علی! یہ مکہ والوں کی امانتیں ہیں، ان کے حوالے کر دینا۔ یہ ہے اسلام اور شریعت کہ کسی بندے سے ہماری کتنی مخالفت کیوں نہ ہو لیکن شرعی حدود سے تجاوز نہیں کرنا، بس اپنے جذبات کو مسلط نہیں کرنا، ہم نے موت کو سامنے رکھنا ہے، اتنا کرنا ہے جتنا اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے۔
بچھڑے کی عبادت اور تین گروہ:
خیر جب بچھڑا بن گیا تو بنی اسرائیل کے کئی گروہ ہوگئے۔ ایک گروہ نے اسے سچ مچ خدا سمجھ کر پوجنا شروع کر دیا کہ موسیٰ علیہ السلام آئیں گے تو وہ بھی اسی کو پوجیں گے۔ ایک گروہ نے انکار کر دیا کہ بھائی! یہ شرک ہے، ہم اس کے قریب بھی نہیں آتے۔ ایک گروہ وہ تھا جو کہتا تھا کہ چلو پوجتے ہیں، موسیٰ علیہ السلام جب آئیں گے تو اگر کہا کہ چھوڑ دو تو ہم چھوڑ دیں گے۔ یہ مترد قسم کے لوگ تھے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام تورات لے کر جب واپس آئے تو آگے معاملہ ہی کچھ اور تھا۔ آپ نے اپنے بھائی سے کہا کہ یہ کیا ہوا؟ اور اپنے بھائی کو ڈاڑھی اور بالوں سے پکڑ کر کھینچا کہ یہ کیا ہور ہا ہے؟ تم نے میرے جانے کے بعد ان کو سنبھالا نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ مجھے ڈر تھا کہ آپ کہیں گے کہ تم نے بنی اسرائیل کو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا، اس لیے میں نے ان کو سمجھایا، یہ باز نہیں آئے لیکن میں ان کو قتل تو نہیں کر سکتا تھا۔ اب آپ ان کو سمجھائیں۔
بنی اسرائیل کی توبہ:
موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا کہ آپ نے بہت غلط کیا۔ اب ہمیں توبہ کرنی چاہیے۔ توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ ان میں سے جو نیک ستر آدمی ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے پاس جائیں اور اللہ تعالیٰ سے معافی کی درخواست کریں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بڑی چھان بین اور تحقیق وتفتیش سے کام لے کر ستر آدمیوں کو چنا تھا۔ یہ ستر نیک آدمی اللہ تعالیٰ کے پاس گئے۔ چھان بین کے باوجود ان سترمیں بعض وہ افراد بھی شامل ہو گئے جو مترددین تھے جنہوں نے کہا تھا کہ بچھڑے کو پوج لیتے ہیں لیکن اگر موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ چھوڑ دو تو ہم چھوڑ دیں گے۔ جب کوہِ طور پر پہنچے تو زمین کو زلزلہ آیا اور وہ ستر کے ستر ہلاک ہوگئے۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا کہ اے اللہ! اگر آپ نے ان کو مارنا ہی تھا تو ان کو یہاں وفد میں آنے سے پہلے ہی ہلاک کر دیتے۔ پہلے بنی اسرائیل ہمارے خلاف باتیں کرتے ہیں پھر کہیں گے کہ تو نے ہمارے بندے مروا دیے۔ اللہ تعالیٰ نے ان ستر کو زندگی عطا فرمائی اور موسیٰ علیہ السلام پر وحی آگئی کہ ان میں سے جو لوگ اس شرک میں ملوث نہیں ہوئے تھے وہ شرک کرنے والوں کو قتل کریں اور قتل کی یہ صورت مقرر ہوئی کہ جو شخص رشتہ میں جس سے زیادہ قریب ہو وہ اپنے عزیز کو اپنے ہاتھ سے قتل کرے یعنی باپ بیٹے کو اور بیٹا باپ کو اور بھائی بھائی کو۔ چنانچہ اس طرح ان کی ایک بڑی تعداد قتل ہوئی۔جب انہوں نے اس حکم پر عمل کیا تو اللہ نے ان سب کی توبہ قبول فرما لی اورقاتل اور مقتول دونوں کی خطا معاف کر دی۔
سامری کا تعارف:
﴿وَ اَضَلَّہُمُ السَّامِرِیُّ ﴿۸۵﴾﴾
یہ سامری بد بخت تھا جس نے ان کو گمراہ اور تباہ کیا تھا۔ بعض روایات میں ہے کہ سامری کا نام بھی موسیٰ تھا اور یہ بھی اسی سال پیدا ہواتھا جس سال فرعون نے آرڈر جاری کیا تھا کہ جو لڑکا پیدا ہو اس کو ذبح کر دو اور اس کی ماں بھی اس کو ایک غار میں چھوڑ کر آگئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کےلیے یہ بندوبست فرمایا تھا کہ جبرائیل امین کو بھیجتے، وہ ایک انگلی پر شہد اور دوسری پر مکھن لگا کر اس کے منہ میں دیتے اور ساتھ اس کو دودھ پلاتے تھے، اس طرح یہ جوان ہوا۔
تو ایک موسیٰ جس کی فرعون نے تربیت کی وہ موسیٰ پیغمبر بنا اور ایک موسیٰ جس کی جبرائیل امین تربیت کرتے تھے وہ کافر اور بد بخت ہوا۔ آپ نے سنا ہے کہ بڑا مشہور شعر ہے:
6Bإِذِ الْمَرْءُ لَمْ يُخْلَقْ سَعِيْدًا
تَحَيَّرَتْ
عُقُوْلُ
مُرَبِّيْهِ وَخَابَ الْمُؤَمِّلٗ
فَمُوْسَى
الَّذِيْ رَبَّاهُ جِبْرِيْلُ كَافِرٗ
وَمُوْسَى
الَّذِيْ رَبَّاهُ فِرْعَوْنُ مُرْسَلٗ
کہ اگر آدمی کے مقد رمیں نیک بختی نہ ہو تو اس کی تربیت کرنے والوں کی عقلیں حیران ہو جاتی ہیں اور اس سے آس اور امیدیں لگانے والے مایوس ہوجا تے ہیں۔ جیسا کہ ایک وہ موسیٰ ہے کہ جس کی تربیت جبرائیل کرتے ہیں تو وہ کافر بنتا ہے اور ایک وہ موسیٰ ہے کہ جس کی تربیت فرعون کر رہا ہے تو وہ نبی بنتے ہیں۔
موسیٰ علیہ السلام نے سامری سے پوچھا کہ تو نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے جواب دیا کہ
﴿بَصُرۡتُ بِمَا لَمۡ یَبۡصُرُوۡا بِہٖ﴾
کہ میں نے وہ کچھ دیکھا ہے جو انہوں نےنہیں دیکھا۔ تو نے کیا دیکھا ہے؟ کہا کہ جبرائیل امین جب گزرتے تھے تو جہاں پاؤں رکھتے تھے تو وہاں سبزہ اگتا تھا، تو میں سمجھا کہ اس مٹی میں خاص تاثیر ہے کہ جس چیز پر اس کو ڈالا جائے گا اس میں حیات کے آثار پیدا ہو جائیں گے، میں نے وہاں سےمٹی اٹھائی اور یہ جو بچھڑا بنا تھا اس میں پھینکی تو اس نے آواز نکالنا شروع کی۔
موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ چلوانہوں نے تو توبہ کر لی ہے، اب تیری سزا یہ ہے
﴿فَاِنَّ لَکَ فِی الۡحَیٰوۃِ اَنۡ تَقُوۡلَ لَا مِسَاسَ﴾
کہ تو زندگی بھر یہ کہتا پھرے کہ میرے قریب نہ آنا․․․ میرے قریب نہ آنا ․․․․ اب جو اِس کو ہاتھ لگاتا اِس کو بھی بخار چڑھ جاتا اور ہاتھ لگانے والے کو بھی بخار چڑھ جاتا، اس طرح یہ ذلت اور خواری کے ساتھ مرا۔
انبیاء علیہم السلام کا اجتہادی اختلاف:
﴿قَالَ یَبۡنَؤُمَّ لَا تَاۡخُذۡ بِلِحۡیَتِیۡ وَ لَا بِرَاۡسِیۡ ۚ اِنِّیۡ خَشِیۡتُ اَنۡ تَقُوۡلَ فَرَّقۡتَ بَیۡنَ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ وَ لَمۡ تَرۡقُبۡ قَوۡلِیۡ ﴿۹۴﴾﴾
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حضرت ہارون علیہ السلام نے کہا: اے میری ماں کے بیٹے! میری ڈاڑھی اور سر کے بالوں کو مت پکڑو، میں تو اس بات سے ڈرتا تھا کہ تم یہ نہ کہو کہ بنی اسرائیل کے تم نے ٹکڑے کر دیے، میں نے تمہاری وجہ سے ان کا خیال کیاورنہ مجھے ان سے کیا ہمدری تھی؟
یہاں جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام دونوں کا اجتہاد تھا۔ حضرت موسی علیہ السلام کا اجتہاد یہ تھا کہ جب ان لوگوں نے شرک کیا تھا تو ان کو قتل کرنا چاہیے تھا، حضرت ہارون علیہ السلام کا اجتہاد یہ تھا کہ مجھے موسیٰ علیہ السلام کے آنے کا انتظار کرنا چاہیے اور معاملہ نرمی کا ہونا چاہیے۔ تو ایک کا اجتہاد ہے مصالحت اور ایک اجتہاد ہے مقاتلت، دونوں کا اجتہاد ہے۔ تو جب تک وحی نہ آئے اور دو نبیوں میں اختلاف ہو تو دونوں کے اس اختلاف میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ ایک حضرت داؤد اور سلیمان علیہما السلام کا واقعہ ہے اور ایک حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کا واقعہ ہے۔
مشاجرتِ صحابہ اور ہمارا موقف:
یہا ں ساتھ 84 چک ہے تو مجھے وہاں ایک شخص ملا۔ اس نے سوال کیا کہ حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما یہ دونوں آپس میں لڑے ہیں، تو ان میں حق پر کون تھا اور باطل پر کون تھا؟ میں نے کہا کہ جب دو لڑیں ایک حق پر اور دوسرا باطل پر ہو یہ ضروری نہیں، ہوسکتا ہے کہ دونوں حق پر ہوں۔ وہ کہنے لگا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ میں نے کہا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام میں اختلاف ہوا ہے تو بتاؤ ان میں حق پر کون تھا اور باطل پر کون تھا؟ کہا کہ دونوں حق پر تھے۔ تو میں نے کہا کہ دو نبیوں کے درمیان اختلاف ہو اور بات ہاتھا پائی تک پہنچ جائے اور دونوں حق پر ہیں تو دو صحابیوں میں اختلاف ہو اور بات قتل تک پہنچ جائے تو دونوں حق پر کیوں نہیں ہیں؟ کہا کہ جی وہاں تو غلط فہمی تھی، جب غلط فہمی دور ہوگئی تو اختلاف ختم ہوگیا۔ میں نے کہا کہ وہاں چونکہ وحی آتی تھی وہ غلط فہمی وحی دور کر دیتی تھی اور یہاں وحی نہیں آتی تھی اس لیے غلط فہمی باقی رہ گئی اور اختلاف بھی باقی رہ گیا ۔
تو اس سے تو ہمار اموقف ثابت ہوگیاکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وحی کا دروازہ بند ہے، نہ وحی آئی نہ غلط فہمی دور ہوئی اور آخر دم تک غلط فہمی باقی رہی۔ اب اس بات کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
قصہ حضرت آدم علیہ السلام:
﴿وَ اِذۡ قُلۡنَا لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اسۡجُدُوۡا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوۡۤا اِلَّاۤ اِبۡلِیۡسَ ؕ اَبٰی﴿۱۱۶﴾ فَقُلۡنَا یٰۤـاٰدَمُ اِنَّ ہٰذَا عَدُوٌّ لَّکَ وَ لِزَوۡجِکَ فَلَا یُخۡرِجَنَّکُمَا مِنَ الۡجَنَّۃِ فَتَشۡقٰی ﴿۱۱۷﴾﴾
اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے فرشتوں سے کہا تھا کہ حضرت آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا تھا لیکن ابلیس نے انکار کیا تھا۔ اس وقت ہم نے کہا تھا کہ اے آدم! یہ ابلیس تمہارا اور تمہاری بیوی دونوں کا دشمن ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ تم دونوں کو جنت سے نکلوا دے اور تم مشقت میں پڑ جاؤ۔
آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا۔ پھر ان کی پسلی سے حضرت حوا کو پیدا فرمایااور حکم دیا کہ اس خاص درخت کے قریب نہ جانا، باقی جو مرضی کھاؤ۔ آدم علیہ السلام بھول گئے اور اس خاص درخت کو کھا لیا۔ اس وجہ سے اللہ کی طرف سے عتاب آیا۔
جو بات سمجھنے کی ہے ذرا وہ سمجھنا۔ یہاں فرمایا :
﴿فَقُلۡنَا یٰۤـاٰدَمُ اِنَّ ہٰذَا عَدُوٌّ لَّکَ وَ لِزَوۡجِکَ فَلَا یُخۡرِجَنَّکُمَا مِنَ الۡجَنَّۃِ فَتَشۡقٰی ﴿۱۱۷﴾﴾
کہ یہ شیطان تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ ایسی شرارت کرے کہ آپ کا ذہن اس طرف نہ جائے اور یہ آپ کو جنت سے نکال دے،
﴿فَتَشۡقٰی﴾
اور تمہیں مشقت اٹھانی پڑے۔ یہ ”شقاوت“ آخرت کی شقاوت نہیں ہے بلکہ یہ دنیا کی مشقت ہے۔ آدم علیہ السلام جنت کے کھانےکھاتے تھے اور بغیر کسی مشقت اور محنت کے کھاتے تھے، جب دنیا میں آئے تو حکم ہوا کہ کاشت کرو اور اسے کاٹو اور کھاؤ، تو کھایا لیکن مشقت کے ساتھ۔
اب دیکھو! جب نکالنے کی بات کی تو دونوں کی کی ہے
﴿فَلَا یُخۡرِجَنَّکُمَا﴾
کہ کہیں یہ شیطان تم دونوں کو نہ نکال دے اور جب مشقت کی بات کی تو
﴿فَتَشۡقٰی﴾
فرمایا جس کا خطاب صرف آدم علیہ السلام کو ہے۔یعنی جنت سے تم دونوں کو نکالے گا اور اے آدم! مشقت پھر تمہیں اٹھانی پڑے گی۔ تو جب دونوں نکلیں گے تو مشقت تودونوں کو اٹھانی ہوگی، پھر اکیلے آدم کی بات کیوں کی ہے؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ مشقت والے کام ہوتے ہی مرد کے ذمہ ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آگے فرمایا:
﴿اِنَّ لَکَ اَلَّا تَجُوۡعَ فِیۡہَا وَ لَا تَعۡرٰی ﴿۱۱۸﴾ۙ وَ اَنَّکَ لَا تَظۡمَؤُا فِیۡہَا وَ لَا تَضۡحٰی ﴿۱۱۹﴾﴾
دیکھوآدم! جنت میں تمہیں بھوک کا مسئلہ نہیں ہے، پھل ہے کھانا ہے مل جاتا ہے، جنت میں لباس کا مسئلہ نہیں ہے لباس بنا بنایا ہے، تمہیں خود تیار نہیں کرنا پڑتا، جنت میں تمہیں پیاس کا مسئلہ نہیں ہے، پانی اور پینے کا سامان موجود ہے، جنت میں دھوپ کا مسئلہ نہیں ہے۔ یعنی یہاں اسباب سارے موجودہیں۔ لیکن اگر تم نے شیطان کی بات مان لی تو یہ تم دونوں کو جنت سے نکلوا دے گا۔ آدم! پھر تم مشقت میں پڑو گے، تمہیں کھانے کا انتظام کرنا پڑے گا، لباس کا انتظام کرنا پڑے گا، پینے کا انتظام کر نا پڑے گا، رہنے کے لیےمکان کا انتظام کرنا پڑے گا۔
تو یہاں خطاب آدم اور حوا دونوں کو اس لیے نہیں ہے کہ یہ چیزیں مہیا کرنا شوہر کے ذمہ ہوتا ہے، کھلانا شوہر کے ذمہ ہے، پلانا شوہر کے ذمہ ہے، مکان شوہر کے ذمہ ہے اور لباس شوہر کے ذمہ ہے۔ اس لیے فرمایا کہ آدم! اگر تم نے پھل کھالیا اور اس نے تمہیں جنت سے نکال دیا تو مشقت میں آپ نے پڑنا ہے اور یہ بنیادی ضرورتیں ہیں جو ہر شوہر کے ذمہ ہیں، اس سے زائد چیزیں شوہر کے ذمہ نہیں ہیں۔
مسئلہ بتائیں تو پوری بات سمجھائیں!
لیکن یہ بات ہمیشہ سمجھنا کہ مسائل بتاتے وقت بات پوری کرنا ورنہ نتیجہ کیا نکلے گا؟! ابھی ملائیشیا کے سفر پر مجھے براہ راست ایک آدمی نے بتایا کہ رمضان میں ہمارے پاکستا ن کے ایک بہت معروف عالم ہیں انہوں نے ٹی وی پر بیان دیا کہ بیوی کے ذمے شوہر کے کپڑے دھونا نہیں ہے، بیوی کے ذمے شوہر کے والدین کی خدمت کرنا نہیں ہے، بیوی کے ذمے شوہر کی بہن کی خدمت نہیں ہے، بیوی کے ذمے شوہر کے کسی رشتہ دار کی کوئی خدمت نہیں ہے، صرف شوہر کی حد تک ہے۔
اس آدمی نے کہا کہ مولانا! میرے گھر میں مسئلہ پیدا ہوگیا، میری بیوی نے کہاکہ میں اب تمہارے ماں باپ کی خدمت نہیں کروں گی کیونکہ میرے ذمہ نہیں ہے، دیکھو! فلاں مولانا صاحب نے کہا ہے۔ تومجھے کہنے لگے کہ مولانا صاحب! یہ بتائیں کہ شوہر کے ذمے بیوی کا نان ونفقہ اور سکنٰی ہے،کیا علاج بھی ہے؟
تو مولانا صاحب کو بتانا چاہیے تھا کہ جس طرح بیوی پر شوہر کے والدین کی خدمت نہیں ہے اسی طرح شوہر پر بیوی کے علاج کا ذمہ بھی نہیں ہے،جب اس کی ساس گھر آئے تو شوہر کے ذمے کھانا کھلانا نہیں ہے،، بیوی کہے کہ میں نے ابو سے ملنے کے لیےجانا ہے تو پھر شوہر کے ذمے نہیں ہے کہ اس کے ابو کے لیےتحفے بھیجے۔ جب یہ ماں باپ کے ہاں جاتی ہے تو مال لے کر جاتی ہے، اس کے بہن بھائی آتے ہیں تو پیسہ خرچ کرتی ہے کہ میرا بھائی آیا ہے، میری بہن آئی ہے، پھر ہم بھی اکڑ جائیں کہ ہمارے ذمے نہیں ہے۔ یہ مولانا نے آدھی بات کرکے ہمارےگھر کا ماحول تباہ کیا ہے۔
اس لیے ہمیشہ یہ خیال رکھنا! عوام میں بیان کرتے وقت اعتدال کا پورا خیال رکھنا، جب یہ بتاؤ تو ساتھ دوسرے معاملات بھی بتاؤ پھر فوراً دماغ ٹھیک ہوجاتے ہیں۔
تبلیغی بھائی کی عالمہ سے شادی کا دلچسپ واقعہ:
ایک آدمی نے تبلیغ میں کچھ وقت لگایا، دین سے محبت ہوگئی تو ان کی خواہش ہوگئی کہ میں اپنا نکاح عالمہ سے کروں تاکہ ہمارے گھر کا ماحول بہت اچھا ہو۔ اس نے عالمہ سے شادی کرلی۔ سال چھ مہینے گزر گئے تو عالمہ نے تقاضا کر لیا کہ مجھے الگ مکان بناکر دو، میں تمہارے امی ابو اور بھابیوں کے ساتھ نہیں رہ سکتی، یہ میرا شرعاً حق ہے۔ اس نے کہا کہ میں نے تو اس لیے شادی کی تھی کہ تم گھر میں ہوگی تو میری امی ابو اور بھابیوں کےلیےکچھ دین کا ماحول بنے گا، الگ مکان میں رہنا ہے تو میرے گھر میں دین کا ماحول کیسے بنے گا؟ اس نے کہا کہ بہرحال یہ میرا حق ہے آپ کسی دارالافتاء سے پوچھیں، میں ان کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔
وہ آدمی مولانا صاحب کے پاس گیا کہ آپ نے میرا نکاح کرایا تھا عالمہ کے ساتھ، میں نے سوچا تھا کہ میرے گھر کا ماحول دینی بنے گا لیکن وہ تو اور بگڑ گیا۔ مولانا صاحب نے کہا کہ اس میں حرج کی بات کون سی ہے؟ اس کا حل تو موجود ہے۔ گھر جاؤ اور بیوی سے کہو کہ میں تمہیں الگ مکان بناکر دیتا ہوں اور ایک اور لڑکی سے نکاح کرتا ہوں جو میرے ماں باپ کےساتھ رہے گی۔ اس نے جاکر عالمہ سے کہا کہ میں تمہیں الگ مکان بنا کردیتا ہوں اور میں ایک اور نکاح کرتا ہوں جو ہمارے گھر کےماحول کو دین کے مطابق رکھے۔ عالمہ نے کہا کہ کیو ں؟ کہا کہ دوسری شادی میرا حق ہے، تم اپنا حق مکان والا لے لو، میں اپنا حق دوسری شادی والا لے لیتا ہوں تو پھر اس نے فوراً کہا کہ اگر میں یہاں ٹھہر جاؤں پھر دوسری شادی کروگے؟ کہا کہ نہیں کروں گا۔ اس نےکہا کہ چلو میں ایسے ہی ٹھیک ہوں۔
اب دیکھو! دوسرا رخ بتایا تو دماغ ٹھیک ہو گیا۔ یہ رخ نہ بتاتے تو کتنے مسائل پیدا ہو جاتے۔ تو اگر بیوی کے ذمے شوہر کے ماں باپ کی خدمت نہیں ہے تو شوہر بیوی کو ماں باپ کے پاس جاتے ہوئے کتنے ہدیے دیتے ہیں کہ یہ ہدیہ تمہاری امی کا ہے، یہ تمہارے ابو کا ہے تو اس عورت کو بھی تو سوچنا چاہیے کہ کیا یہ ہدیے میرے شوہر کے ذمے ہیں؟ اور جب اس کی اپنی باری آتی ہے تو کہتی ہے کہ یہ میرے ذمے نہیں ہے․․․ یہ میرے ذمے نہیں ہے ․․․ خاوند اور بیوی کے معاملات آپس میں اعتدال سے، پیار سے، نرمی سے چلتے ہیں، دونوں کو ایک دوسرے کاخیال رکھناپڑتا ہے۔
عصمت انبیاء علیہم السلام پر اعتراض کا جواب:
﴿وَ عَصٰۤی اٰدَمُ رَبَّہٗ فَغَوٰی ﴿۱۲۱﴾﴾
آدم علیہ السلام نے وہ کام کرلیا جو کرنے کا ارادہ نہیں تھا، نتیجہ یہ نکلا کہ آدم علیہ السلام مشقت میں پڑ گئے ۔
﴿ثُمَّ اجۡتَبٰہُ رَبُّہٗ فَتَابَ عَلَیۡہِ وَ ہَدٰی ﴿۱۲۲﴾﴾
اللہ تعالیٰ نے ان پر کرم فرمایا، انہوں نے توبہ کی اور اللہ نے قبول فرمالی۔
یہاں بات سمجھو! ہم اھل السنۃ والجماعۃ احناف دیوبند کا عقیدہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام چھوٹے اور بڑے گناہوں سے معصوم ہیں، اللہ تعالی ان کی حفاظت فرماتےہیں۔ جو لوگ نبی کو معصوم نہیں مانتے وہ اس آیت کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں
﴿وَ عَصٰۤی اٰدَمُ رَبَّہٗ فَغَوٰی﴾
اور ترجمہ یہ کرتے ہیں کہ آدم علیہ السلام نے نا فرمانی کی- العیاذ باللہ- یہ اشکال ان کو ہوتا ہے جو لفظ کا ایک معنی سمجھتے ہیں، جب ایک لفظ کے دو معنی ہوں اور بندے کو دونوں آتے ہوں تو پھر اشکال نہیں ہوتا۔
لفظ
”عَصٰی“
معصیت سے ہےاور معصیت کا ایک معنی ہے نافرمانی کرنا اور دوسرا معنی ہے کہ وہ کام کرنا جس کا ارادہ نہ ہو۔ آدمی بعض کام بلا ارادی طور پر کر لیتا ہے، کرنا کچھ چاہتا ہے اور ہو کچھ جاتا ہے، اس کو بھی معصیت کہتے ہیں اور یہاں معصیت کا یہی معنی ہے کہ آدم علیہ السلام کا قطعاً یہ مقصد نہیں تھا کہ جس درخت سے اللہ تعالی نےمنع کیا ہے میں وہ درخت کھاؤں، اللہ نے فرمایا تھا کہ اس درخت سے نہیں کھانا تو وہ سمجھے کہ ایک خاص درخت سے منع فرمایا ہے، جنسِ درخت سے منع نہیں فرمایا۔ تو وہ کرنا کچھ چاہتے تھے اور صادر کچھ اور ہو گیا، تو اس معصیت کا معنی نافرمانی نہیں ہے۔
اسی طرح
”غَوٰی“
کا لفظ یہ غوایت سے مشتق ہے، اس کا ایک معنی ہے دنیاوی معاملات میں انسان کا مشقت میں پڑ جانا، راحت کا ختم ہوجانا، تکلیف میں آجانا، اور ایک اس کا معنی ہے؛ گمراہ ہوجا نا۔ تو جن کو
”غَوٰی“
کا ایک ہی معنی آتا ہے وہ اعتراض کرتے ہیں کہ آدم علیہ السلام گمراہ ہوگئے - العیاذ باللہ- اور جن کو
”غَوٰی“
کے دونوں معنی آتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہاں
”غَوٰی“
کا معنی گمراہ ہونا نہیں ہے بلکہ اس کا معنی زندگی کا تنگ ہونا اور عیش کا ختم ہونا ہے اور تنگ ہونے سے مراد یہ نہیں ہے کہ قلبی تنگی ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ مشقت پیدا ہوگئی ہے۔
ایک دفعہ میں کراچی گیا تو میں نے مستقل اسی موضوع پر بیان کیا کہ لفظ کے دو معنی ہوتے ہیں اور جو لوگ صرف ایک معنی سمجھتےہیں انہیں اشکال ہوتاہے مثلاً لفظ تقلید یہ قلادہ سے مشتق ہے، غیر مقلدین جو تقلید کے دشمن ہیں کیونکہ ان کو قلادہ کا صرف ایک ہی معنی آتا ہے؛ پٹہ اور ہم تقلید سے محبت کرتے ہیں کیوں کہ ہمیں قلادہ کے دو معنی آتے ہیں پٹہ بھی اور ہار بھی۔
مماتی ہمیشہ پیغمبر کی موت کے بارے میں اشکال میں رہتےہیں، کیوں کہ ان کو موت کا ایک ہی معنی آتا ہے یعنی خروج روح اور ہمیں موت کے دو معنی آتے ہیں؛ ایک خروجِ روح اور دوسرا حبسِ روح۔
اسی طرح دودھ پلانے کی مدت کے بارے میں غیر مقلدین کا اشکال امام صاحب پر ہے کیوں کہ ان لوگوں کو ”حمل“ کا ایک ہی معنی آتا ہے یعنی بچے کا ماں کی گود میں ہونا اور ہمیں اشکال نہیں ہوتا کیونکہ ہمیں حمل کے دو معنی آتےہیں ؛ ایک بچے کا ماں کی گود میں ہونا اور دوسرا بچے کا ماں کے پیٹ میں ہونا۔
اسی طرح
”عَصٰی“
اور
”غَوٰی“
کے بھی دو دو معنی آتے ہیں جیسا کہ میں نے ابھی عرض کیا ہے۔
یہاں اندھا تو وہاں بھی اندھا:
﴿وَ مَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِکۡرِیۡ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیۡشَۃً ضَنۡکًا وَّ نَحۡشُرُہٗ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ اَعۡمٰی ﴿۱۲۴﴾﴾
جو شخص میری یاد سے غافل ہوتا ہے تو اس کی زندگی تنگ ہوجاتی ہے۔ یا تو قبر کی زندگی تنگ ہو جاتی ہے یا دنیا کی زندگی۔ دنیا کی زندگی کے تنگ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی حرص بڑھ جاتی ہے، بہت کچھ ہونے کے باوجود انسان کا قلبی سکون تباہ ہوجاتاہے اور جب اس شخص کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اٹھائیں گے تو اندھا کر کے اٹھائیں گے۔ یہ اللہ سے کہے گا:
﴿قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرۡتَنِیۡۤ اَعۡمٰی وَ قَدۡ کُنۡتُ بَصِیۡرًا ﴿۱۲۵﴾ قَالَ کَذٰلِکَ اَتَتۡکَ اٰیٰتُنَا فَنَسِیۡتَہَا ۚ وَکَذٰلِکَ الۡیَوۡمَ تُنۡسٰی ﴿۱۲۶﴾﴾
کہ یا اللہ! میری تو آنکھیں تھیں آج تو نے مجھے اندھا کر کے کیوں اٹھایا؟ فرمایا: ہماری آیتیں تیرے پاس آئیں اور تو نے انہیں بھلا دیا تو آج کے دن تجھے بھی بھلا دیا جائے گا۔ بھلا دینے کا یہ معنی نہیں ہے کہ اللہ بھول جائیں گے بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ جس طرح اس شخص نے اللہ کی آیات کا خیال نہ رکھا آج اس کا بھی خیال نہیں رکھا جائے گا۔ اس کو ” تُنْسٰى “ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
حضرت تھانوی اور ایک غیر مقلدکادلچسپ مکالمہ:
حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک اندھا غیر مقلد آیا۔ دل کا بھی اندھا آنکھوں کا بھی اندھا۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے کہا کہ میں نے آپ سے گفتگو کرنی ہے۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرمانے لگے کہ میں نے آپ سے گفتگو نہیں کرنی۔ اس نےکہا کہ کیوں؟ فرمایا کہ گفتگو کا فائدہ نہیں ہے، اس نےکہا کہ کیوں فائدہ نہیں ہے؟ فرمایا: اس لیے نہیں ہے کہ اگر میں تمہیں سمجھاؤں گا اور تمہیں بات سمجھ آ بھی جائے تو پھر کیا ہو گا؟ اس نے کہا کہ میں مان جاؤں گا۔ فرمایا کہ مان جاؤ گے تو پھر کیا ہو گا؟ اس نے کہا: پھر آپ کے مسلک کے مطابق مجھے ہدایت مل جائے گی۔ فرمایا کہ پھر؟ کہا کہ ہدایت ملے گی تو میں جنت میں جاؤں گا۔ حضرت نے فرمایا کہ تمہیں ہدایت مل بھی جائے تب بھی تو جنت میں نہیں جا سکتا، لہٰذا تجھے سمجھانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس نے کہا: میں کیوں جنت نہیں جاسکتا؟حضرت تھا نوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: قرآن کریم میں ہے:
﴿وَ مَنۡ کَانَ فِیۡ ہٰذِہٖۤ اَعۡمٰی فَہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ اَعۡمٰی ﴾ 165F
الاسراء 17: 72
جو دنیا میں اندھا ہے وہ قیامت کو بھی اندھا ہوگا۔
تُونے تو قیامت کو ویسے ہی اندھا ہونا ہے اور اندھا جنت میں نہیں جا سکتا تو کیا فائدہ تجھے سمجھانے کا؟ اس نے کہا: حضرت!اس آیت کا مطلب یہ نہیں ہے۔ حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے فرمایا: تاویل نہ کرو، سیدھی سیدھی بات کرو، اس نے کہا کہ جی تاویل کے بغیر تو آیت حل ہی نہیں ہوسکتی۔حضرت نےفرمایا کہ یہی بات امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کریں تو تم کہتے ہو کہ تاویلیں کرتا ہے اور جب تیرا مسئلہ آیا تو تو کہتا ہے کہ تاویل کے بغیر آیت حل ہی نہیں ہوتی۔ اس نے کہا: مجھے بات سمجھ آ گئی ہے۔
تکالیف ملیں تو دو کام کریں:
﴿فَاصۡبِرۡ عَلٰی مَا یَقُوۡلُوۡنَ وَ سَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّکَ﴾
میرے پیغمبر! یہ لوگ آپ کی بات نہیں مانتے، آپ کو تنگ کرتے ہیں، الزامات لگاتے ہیں، راستے میں رکاوٹ ڈالتے ہیں تو آپ دو کام کریں:
1:
﴿فَاصۡبِرۡ عَلٰی مَا یَقُوۡلُوۡنَ﴾
ایک تو صبر کریں۔
2 :
﴿وَ سَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّکَ﴾
ذکر کریں، اللہ کو یاد کریں۔
یہ بات اچھی طرح ذہن نشین رکھیں کہ جب بھی کوئی بندہ دین کا کام کرے لوگ اس کو ستائیں، رکاوٹیں ڈالیں تو اس کا حل صرف دو چیزیں ہیں:
٭ ان کی تکالیف پر صبر اور برداشت کریں۔
٭ اللہ․․․ اللہ․․․ اللہ ․․․ کا ذکر ہر وقت اللہ کی یاد میں رہیں اور بس۔ ان دو کاموں میں لگ جائیں تو اللہ مسائل حل فرما دیتے ہیں۔ یہ قرآنی نسخہ ہے۔
پانچوں نمازوں کے اوقات کا ثبوت:
﴿وَ سَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّکَ قَبۡلَ طُلُوۡعِ الشَّمۡسِ وَ قَبۡلَ غُرُوۡبِہَا ۚ وَ مِنۡ اٰنَآیِٔ الَّیۡلِ فَسَبِّحۡ وَ اَطۡرَافَ النَّہَارِ لَعَلَّکَ تَرۡضٰی ﴿۱۳۰﴾﴾
آپ اپنے رب کی تسبیح اور حمد بیان کرتے رہیں سورج نکلنے سے پہلے اور غروب ہونے سے پہلے، اور رات کے اوقات میں بھی تسبیح کریں اور دن کے کناروں میں بھی تاکہ آپ خوش ہو جائیں۔
بعض حضرات نے فرمایا کہ اس آیت میں پانچوں نمازوں کا ثبوت ملتا ہے۔ چنانچہ
﴿قَبۡلَ طُلُوۡعِ الشَّمۡسِ﴾
(سورج نکلنے سے پہلے) سے مراد فجر کی نماز ہے،
﴿وَ قَبۡلَ غُرُوۡبِہَا﴾
(غروب ہونے سے پہلے ) سے ظہر اور عصر کی نماز مراد ہے،
﴿وَ مِنۡ اٰنَآیِٔ الَّیۡلِ﴾
(رات کے اوقات میں) اس میں مغرب اور عشاء آگئی ہے۔
﴿وَ اَطۡرَافَ النَّہَارِ﴾
(دن کے کناروں میں) اس سے فجر اور مغرب کی تاکید مراد ہے۔
﴿لَعَلَّکَ تَرۡضٰی﴾
تاکہ تم خوش ہوجاؤ یعنی صبر کرو اور نمازیں پڑھو، ذکر کرو، اس سے یہ مصیبتیں ٹل جائیں گی اور آفات ختم ہوجائیں گی۔
دنیا سے بے رغبتی اختیار کریں!
﴿وَ لَا تَمُدَّنَّ عَیۡنَیۡکَ اِلٰی مَا مَتَّعۡنَا بِہٖۤ اَزۡوَاجًا مِّنۡہُمۡ زَہۡرَۃَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا﴾
یہاں بھی نبی کو خطاب کرکے یہ بات ہمیں سمجھائی ہے کہ اے نبی! جو مال ہم نے ان کفار کو دیا ہے آپ کی نگاہ اس پر نہ اٹھے، یہ سب دنیا کا مال ہے، آزمائش کے لیے ہے، اللہ کا دیا ہوا رزق بہتر ہے اور باقی رہنے والا ہے، بس آپ خود بھی نماز پڑھیں اور گھر والوں کو بھی نماز کی ترغیب دیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو بات سمجھنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․