سورۃ الانبیاء

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ الانبیاء
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿اِقۡتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُہُمۡ وَ ہُمۡ فِیۡ غَفۡلَۃٍ مُّعۡرِضُوۡنَ ۚ﴿۱﴾ مَا یَاۡتِیۡہِمۡ مِّنۡ ذِکۡرٍ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ مُّحۡدَثٍ اِلَّا اسۡتَمَعُوۡہُ وَ ہُمۡ یَلۡعَبُوۡنَ ۙ﴿۲﴾ لَاہِیَۃً قُلُوۡبُہُمۡ ؕ وَ اَسَرُّوا النَّجۡوَی ٭ۖ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا ٭ۖ ہَلۡ ہٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُکُمۡ ۚ اَفَتَاۡتُوۡنَ السِّحۡرَ وَ اَنۡتُمۡ تُبۡصِرُوۡنَ ﴿۳﴾﴾
مشرک لوگ انبیا ء علیہم السلام کی دعوت کو رد کرتے اور بنیاد یہ بناتے کہ تم بشر ہو اور ہم بھی بشر ہیں، بشر نبی نہیں ہو سکتا۔
”بشر“ کا معنی:
بشر کی تعریف یہ ہےکہ ذو عقل ہو اور محسوس ہو۔ ملائکہ اور جنات بشر نہیں ہیں، اس لیے کہ ذو عقل تو ہیں لیکن محسوس نہیں۔ حیوانات، اشجار اور احجار بھی بشر نہیں اس لیے کہ محسوس تو ہیں لیکن ذو عقل نہیں جبکہ بشر میں یہ دونوں چیز یں ضروری ہیں؛ ایک یہ کہ اس میں عقل ہو اور دوسرا وہ محسوس ہو۔ محسوس ہو نے کا معنی کہ آپ اس کو ہاتھ لگانا چاہیں تو لگا سکیں، پکڑنا چاہیں تو پکڑ سکیں، دیکھنا چا ہیں تو دیکھ سکیں۔
تو وہ لوگ بشر کا معنی نہیں سمجھتے تھے اس لیے انہیں الجھنیں ہو تی تھیں، آج کے مشرک اور نبی کے دور کے مشرک دونوں کی فکر ایک جیسی ہے۔ اُن کی فکر اور سوچ یہ تھی کہ نبوت اور بشریت جمع نہیں ہو سکتی اور اِن کی بھی یہی سوچ ہے کہ نبوت وبشریت جمع نہیں ہو سکتی۔ فرق یہ تھا کہ اُنہوں نے دیکھا تو بشر مانا لیکن نبی نہیں مانا اور اِنہوں نے نبی تو مانا لیکن بشر نہیں مانا۔حالانکہ نبی ہوتا ہی ہمیشہ بشر ہے، بشریت کے علاوہ اللہ نے کسی کو نبوت کے لیے منتخب کیا ہی نہیں ہے۔ اللہ رب العزت کا فیصلہ ہے:
﴿وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا قَبۡلَکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوۡحِیۡۤ اِلَیۡہِمۡ﴾
ہم نے جب بھی کسی کو نبی بنایا تو مرد اور بشر ہی کو بنایا۔
قرآن شعر نہیں اور نبی شاعر نہیں:
﴿بَلۡ قَالُوۡۤا اَضۡغَاثُ اَحۡلَامٍۭ بَلِ افۡتَرٰىہُ بَلۡ ہُوَ شَاعِرٌ ۚۖ فَلۡیَاۡتِنَا بِاٰیَۃٍ کَمَاۤ اُرۡسِلَ الۡاَوَّلُوۡنَ ﴿۵﴾﴾
مشرکین کا ایک الزام، اعتراض اور بہتان یہ بھی تھا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم -معاذ اللہ- شاعر ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام ؛قرآن پاک بشر کا کلام ہے، قرآن کریم میں ہے:
﴿وَ مَا عَلَّمۡنٰہُ الشِّعۡرَ وَ مَا یَنۡۢبَغِیۡ لَہٗ﴾ 166F
یٰسین 36: 69
کہ ہم نے نبی کو شعر کا علم دیا ہی نہیں اور شاعری آپ کے لائق ہی نہیں ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اشعار پڑھنا ثا بت ہی نہیں ہے۔ کبھی کبھار اگر آپ نے کوئی ایک آدھ شعر فرما دیا ہو تو الگ بات ہے یا کسی کا کوئی شعر بطورِ استشہاد و استدلال کے نقل فرما دیا ہو تو الگ بات ہے لیکن مستقل شعر پڑھنا اور کہنا آپ کا مزاج ہی نہیں تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اشعار پڑھتے ہی نہیں تھے تو مشرکین نے کیسے الزام لگایا کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شاعر ہیں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ایک شعر کا معنی وہ ہے جو ہمارے عرف میں ہے اور ایک شعر کا معنی وہ ہے جو لغتِ عرب میں ہے۔ ہمارے ہاں کلام دو قسم کا ہے :
ایک وہ کلام ہے جو مُسَجَّع اور مُقَفَّع ہو، اسے کلام شعری کہتے ہیں اور ایک کلام وہ ہے جو مُسَجَّع اور مُقَفَّع نہ ہو، اسے کلام نثر کہتے ہیں۔
ہما رے ہاں شاعر ہو نے کا مطلب یہ ہے کہ یہ کلام قافیہ بندی کے ساتھ پڑھتا ہے، اسے کہتے ہیں کہ یہ شاعری کرتا ہے اور اگر بغیر قافیہ بندی کے پڑھے تو ہم کہتے ہیں کہ نثر پڑھ رہا ہے جبکہ عر ب میں شعر خیالات اور فرضی چیزوں کو کہتے ہیں، اس لیے منطق میں جب کوئی فرضی قضیہ یا خیالی قضیہ پیش کرنا ہو تو اسے قضیہ شعریہ کہتے ہیں۔ تو مشرکین جو کہتے تھے کہ یہ شاعر ہے اس کا معنی یہ نہیں تھا کہ وہ کلا م مُسَجَّع اور مُقَفَّع ہے بلکہ اس کا معنی ہے کہ وہ کہتے تھے کہ یہ خیالی اور فرضی باتیں بیان کرتا ہے، کبھی کوئی قصہ بیان کردیتا ہے، کبھی کوئی واقعہ بیان کردیتا ہے، اس کا حقیقت سے کیا تعلق ہے۔ تو یہ معنی ہے ان کے اس قول﴿بَلۡ ہُوَ شَاعِرٌ﴾ کا۔
تقلید کا ثبوت:
﴿فَسۡـَٔلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکۡرِ اِنۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۷﴾﴾
اگر تمہیں معلوم نہیں تو اہلِ علم سے پوچھ لو۔
اس سے پتا چلا کہ آدمی دو قسم کے ہیں ؛ بعض وہ ہیں جن کےپاس علم ہے اور بعض وہ ہیں جن کے پاس علم نہیں ہے۔ جن کے پاس علم نہیں ہے وہ ان سے پوچھیں جن کے پاس علم ہے اور پوچھنا تبھی ہوتا ہے جب عمل کرنا ہو وگرنہ پوچھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اس سے تقلید ثا بت ہوتی ہے کہ غیر اہلِ علم؛ اہلِ علم سے پوچھیں۔
یہاں یہ بات ذہن میں نہ آئے کہ اس آیت سے تو ان کے لیے تقلید ثا بت ہوتی ہے جو اہلِ علم نہیں ہیں تو پھر علماء تقلید کیوں کرتے ہیں؟
اس کا جواب ذہن میں رکھ لیں کہ ایک تقلید ہوتی ہے عوام کی اور ایک تقلید ہو تی ہے خواص کی، عوام کی تقلید فروع اور اصول دونوں میں ہو تی ہے اور خواص کی تقلید فروع میں نہیں بلکہ اصول میں ہوتی ہے۔ اب چاروں ائمہ رحمہم اللہ کے بعد جتنے بھی مجتہد ہوں گے ان میں مجتہد مطلق کوئی نہیں ہو گا، اگر ہو گا تو مجتہد فی المذہب ہو گا۔ یعنی ائمہ اربعہ کے بعد کسی مجتہد کے اصول بھی اپنے ہو ں اور فروع بھی اپنے ہو ں ایسے مجتہد نہیں ہوں گے، بلکہ اصول اس کے مجتہد مطلق والے ہو ں گے اور انہی اصولوں کی روشنی میں اجتہادیہ خود کرے گا۔ اسے ”مجتہد فی المذہب“ کہتے ہیں اور ہم جو یہ کہتے ہیں کہ مجتہد مطلق اب نہیں ہو گا اس کا معنی یہ نہیں کہ اس کا آنا اب محال شرعی ہے بلکہ ہم کہتے ہیں کہ ایسے مجتہد کا پیدا ہونا اب تقریباً ناممکن ہے۔
محال عقلی، محال شرعی اور عادی:
محال کی تین قسمیں ہیں:
1: ایک ہوتا ہے محال عقلی مثلاً ایک چیز آگ بھی ہو اور پانی بھی ہو، ایک چیز روشنی بھی ہو اور اندھیرا بھی ہو، ایسا ہونا محال ہے اور یہ محال عقلی ہے یعنی عقل کی رو سے یہ جمع نہیں ہوسکتے، عقل ان کے جمع ہونے کو تسلیم نہیں کرتی۔
2: اور ایک ہوتا ہے محال شرعی یعنی شرعاً ایسا ہونا محال ہو، مثلاً دو بہنوں کو ایک نکاح میں جمع کرنا یہ شرعاً محال ہے یعنی شریعت اس کو تسلیم نہیں کر سکتی۔
3: اور ایک ہوتا ہے محال عادی یعنی محال عقلی بھی نہ ہو اور محال شرعی بھی نہ لیکن عام طور پر لوگوں کی عادت میں ایسا نہ ہوتا ہو جیسے ایک آدمی اتنا دوڑے کہ دو سو کلو میٹر فی گھنٹا اس کی رفتار ہو، اب کسی بندے کے لیے دوسو کلو میٹر فی گھنٹا دوڑنا نہ شرعاً محال ہے اور نہ ہی عقلاً محال ہے لیکن عادتاً محال ہے کیونکہ عام طور پر کسی بندے میں اتنی طاقت نہیں ہو تی کہ دوسو کلو میٹر فی گھنٹا کی رفتار سے دوڑے، اسے ”محالِ عادی“ کہتے ہیں۔
تو ہم جو کہتے ہیں کہ مجتہد مطلق اب نہیں ہو سکتا، اس کا ہونا محال ہے تو اس سے مراد محال عادی ہے، عقلاً اور شرعاً محال نہیں ہے، اور مجتہد مطلق کے اب محال ہونے کی وجہ ہے کہ ہمارے بندوں میں اتنی صلاحیتیں نہیں ہیں کہ بندہ قرآن کا بھی حافظ ہو، دس لاکھ احادیث کا بھی حافظ ہو، پھر موضوع اور صحیح کو الگ بھی کرسکتا ہو، سارے علوم بھی اس کے پاس ہوں اور اصول بھی اپنے نکالے اور اپنے اصولوں سے فروع بھی اپنے نکالے تو یہ صلاحیتیں اب نہیں ہیں، اس لیے مجتہد کا اب پیدا ہونا یہ محال عادی ہے۔
تقلید مطلق اور تقلید شخصی:
تقلید کی دوقسمیں ہیں :ایک ہے تقلید شخصی اور ایک ہے تقلید غیر شخصی جسے تقلید مطلق بھی کہتے ہیں۔ تقلید شخصی ان لوگوں کے لیے ہے جو اصحاب الترجیح نہیں ہیں، جو اصحاب الترجیح ہیں ان کے لیے تقلید شخصی نہیں ہے۔ اصحاب الترجیح وہ حضرات ہیں جن کے پاس دلائل کو پرکھنے کی صلاحیت ہو اور دلائل کی بنیا د پر کسی ایک موقف کو ترجیح دے سکتے ہوں، یہ حضرات دو فقہاء کے موقف اور ان کے دلائل کو لیتے ہیں اور ایک فقیہ کے دلائل کودیکھتے ہوئے اس کے موقف کو ترجیح دے سکتے ہیں، اور جن کے پاس اتنی صلاحیت نہ ہو تو وہ تقلید شخصی کریں۔
انبیاء بشر ہیں، خدا نہیں!
﴿وَ مَا جَعَلۡنٰہُمۡ جَسَدًا لَّا یَاۡکُلُوۡنَ الطَّعَامَ وَ مَا کَانُوۡا خٰلِدِیۡنَ ﴿۸﴾﴾
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے جو نبی بنائے ایک تو وہ ایسے جسد نہیں تھے جو کھاتے نہ ہوں یعنی یہ بشر تھے فرشتے نہیں تھے، نبی انسان ہوتا ہے فرشتہ نہیں ہوتا۔ فرشتہ نہیں کھاتا اور یہ کھاتے تھے۔ لہذا یہ انسان تھے، اور دوسری بات کہ
﴿وَ مَا کَانُوۡا خٰلِدِیۡنَ﴾
یہ ہمیشہ رہنے والے بھی نہیں تھے بلکہ فوت ہو نے والے تھے اور اللہ وہ ہے جو ہمیشہ رہتا ہے فوت نہیں ہوتا۔ تو یہاں اس بات کی نفی کرنی مقصود ہے کہ نبی بشر ہوتا ہے، نہ ہی فرشتہ ہوتا ہے اور نہ ہی خدا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ”خالد“ اللہ کی صفت ہے اور یہ تو ”خالدین“ نہیں تھے، لہٰذا یہ نہ فرشتے ہیں اور نہ ہی خدا ہیں۔
قادیانیوں کے استدلال کا جواب:
اس آیت سے قادیانی استدلا ل کرتے ہیں کہ جب سارے انبیاء فوت ہو گئے ہیں تو ان میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی ہیں، لہٰذا وہ بھی فوت ہو گئے ہیں۔ تو تم کیسے کہتے ہو کہ عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں اس بات سے بحث نہیں ہے کہ کوئی زندہ ہے یا نہیں، فوت ہوا ہے یا نہیں بلکہ اس آیت میں یہ بتانا مقصود ہے کہ نبی بشر ہوتا ہے، بشر کھاتا بھی ہے اور ہمیشہ رہتا بھی نہیں ہے، اس آیت کا یہ معنی نہیں ہے کہ انبیاء علیہم السلام فوت ہو گئے ہیں۔ تو اس آیت میں اتنا بتانا مقصود ہے کہ بشر پر خلود نہیں ہے بلکہ فنا ہے، باقی قادیانیوں کا یہ کہنا کہ ”سارے انبیاء فوت ہو گئے ہیں“ تو اس بات کا اس آیت میں تذکرہ نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جو زندگی دی ہے وہ عام قانون سے ہٹ کر دی ہے، یہ معجزہ ہے۔
قادیانیوں سے گفتگو کا طریقہ:
قادیانیوں سے جب بھی گفتگو کرنی ہو تو ان کے ساتھ بنیادی گفتگو کے موضوعات تین ہیں :
1: حیاتِ عیسیٰ اور وفاتِ عیسی علیہ السلام
2: اجرائے نبوت اور ختم ِنبوت
3: صدقِ مرزا وکذبِ مرزا
قادنیوں سے جب بھی بات کرنی پڑے تو ”صدق مرزا وکذب مرزا“ پر کریں اور وہ جب بھی بات کریں گے تو ”وفات عیسیٰ اور حیات عیسیٰ“ پر کریں گے لیکن آپ نے اس پر بات نہیں کرنی۔ اگر وہ اس موضوع کو چھیڑ بھی دیں تو آپ انہیں کہیں کہ چلیں! ہم ایک منٹ کےلیے مان لیتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام وفات پا چکے ہیں تو بتاؤ پھر کیا ہوا؟ ”حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبی آسکتے ہیں یا نہیں؟“ چلیں ہم ایک منٹ کے لیے مان لیتے ہیں کہ آسکتے ہیں تو بتاؤ پھر کیا ہوا؟ دیکھو! جھگڑا تو اس بات پر ہے کہ مرزا نبی ہے کہ نہیں؟ جس کو تم نبی مانتے ہو اس کو ثابت تو کرو! حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو جائیں تو کیا اس سے مرزا نبی بن جائے گا؟! مسئلہ تو مرزا کی نبوت کا ہے۔
تُو نمبر دار نہیں بن سکتا!
مشہور ہے کہ گاؤں میں ایک میراثی رہتا تھا۔ اس کے بیٹے نے ماں سے پوچھا کہ اگر نمبر دار مرجائے تو نمبر دار کون ہو گا؟ ماں نے کہا: اس کا بیٹا۔اس نے کہا کہ اگر وہ بھی مرجائے تو․․․․؟ ماں نے کہا کہ اس کا بیٹا، پوچھا کہ اگر وہ بھی مرجائے تو ․․․؟ ماں نے کہا کہ اس کا بیٹا۔ ماں نے جب بیٹے کے سوالات پہ سوالات سنے تو اس نے کہا: بیٹا! 100 نمبردار بھی باری باری مر جائیں تُو نے پھر بھی میراثی ہی رہنا ہے، تو نمبردار نہیں بن سکتا۔
ہم کہتے ہیں کہ تمام انبیاء علیہم السلام بشمول حضرت ادریس اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کی موت مان بھی لیں تب بھی اس خبیث مرزا غلام احمد قادیانی نے میراثی ہی رہنا ہے، یہ نبی نہیں بن سکتا۔
توحید باری تعالیٰ پر دلیل:
﴿لَوۡ کَانَ فِیۡہِمَاۤ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللہُ لَفَسَدَتَا ۚ فَسُبۡحٰنَ اللہِ رَبِّ الۡعَرۡشِ عَمَّا یَصِفُوۡنَ ﴿۲۲﴾﴾
اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ زمین وآسمان میں ایک خدا ہے، کئی خدا نہیں ہیں۔ تو یہاں تعدُّدِ اِلٰہ کی نفی کی ہے اور تعدُّدِ اِلٰہ کی نفی پر جو دلیل پیش فرمائی ہے وہ یہ آیت ہے:
﴿لَوۡ کَانَ فِیۡہِمَاۤ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللہُ لَفَسَدَتَا﴾
کہ اگر آسمان و زمین میں ایک سے زائد خدا ہو ں تو آسمان وزمین میں فساد ہو جائے گا۔ تو جب آسمان وزمین میں فساد نہیں ہے تو اس کا معنی یہ ہے کہ ایک سے زائد خدا بھی نہیں ہیں۔ اب سمجھیں کہ یہ دلیل بنتی کیسے ہے؟
ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ آسمان و زمین میں ایک ہی خدا ہے۔ مشرکین کا دعویٰ ہے کہ دو ہیں۔ تو اب ہمارا ان سے یہ سوال ہے کہ دنیامیں جو بھی کام ہو وہ دونوں کے اتفاق سے ہوگا یا اختلاف سے ہوگا؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ دونوں کے اتفاق سے ہو گا تو سوال یہ ہے کہ کیا ایک کی طاقت کافی نہیں تھی کہ دوسرے کی ضرورت پڑی ہے؟! اگر ایک کافی تھا تو دوسرا خدا کیسے ہوا؟ اور اگر ایک کافی نہیں تھا تو پھر یہ خدا کیسے ہوا؟ اور اگر آپ کہتے ہیں کہ دنیا کے کام دونوں کے اختلاف سے ہوتے ہیں تو اب الجھن یہ ہو گی کہ جب اختلاف ہو تو ایک کی بات چلتی ہے ایک کی نہیں چلتی تو جس کی نہیں چلتی وہ عاجز ہوا اور عاجز تو خدا نہیں ہوتا تو پھر خدا کسے کہو گے؟
اس لیے ہم کہتے ہیں کہ دنیا میں خدا ایک ہی ہے، ایک سے زائد نہیں۔ ”لَآ اِلٰهَ“ سے باقی اِلٰہ کی نفی کر دو اور
”اِلَّا اللهُ“
سے ایک کو مان لو تو یہ توحید ہے۔ ایک خدا کو ماننے کا نام توحید نہیں بلکہ ایک خدا کو مانیں اور ایک سے زائد خدا کی نفی بھی کریں تو یہ توحید ہے۔
ترکِ رفع یدین اور نکتہ اختلاف کی تنقیح:
یہی بات ہم غیر مقلدین سے کہتے ہیں جب ان کی اور ہماری بات رفع الیدین پر ہو تی ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ چار رکعت والی نماز میں ہم لوگ ایک مقام پر رفع الیدین کرتے ہیں اور ستائیس مقامات پر نہیں کرتے اور تم لوگ دس مقامات پر کرتے ہو اور اٹھا رہ مقامات پر نہیں کرتے۔ تو تمہارا اور ہمارا اختلاف پورا ہونا چاہیے۔
چار رکعات والی نما ز میں عقلی طور پر اٹھائیس مقامات بنتے ہیں جہاں پر رفع الیدین ہو سکتا ہے۔ چار رکعات والی نماز میں چار قیام ہیں ہر رکعت کے شروع میں ایک رفع یدین ہو تو یہ چار رفع یدین ہو گئے، رکوع میں جاتے ہو ئے رفع یدین اور رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع یدین ہو تو یہ کل بارہ ہو گئے۔ آٹھ سجدے ہیں اور سجدے میں جاتے ہوئے اور سجدے سے اٹھتے ہوئے رفع یدین ہو تو یہ سولہ رفع یدین ہو گئے۔ بارہ اور سولہ کو ملائیں تو کل اٹھائیس ہو گئے۔ ہم احناف شروع میں ایک بار رفع یدین کرتے ہیں اور باقی ستائیس مقامات پر نہیں کرتے اور غیر مقلدین شروع نماز میں، رکوع میں جاتے ہوئے اور رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے اور تیسری رکعت کے شروع میں کرتے ہیں تو یہ ٹوٹل دس مقامات ہوئے اور اٹھا رہ مقامات پر یہ لوگ رفع یدین نہیں کرتے۔ تو ہم ان سے کہتے ہیں کہ جس طرح عقیدہ تو حید پر ہماری دلیل ہے
﴿فَاعۡلَمۡ اَنَّہٗ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ﴾
167Fہے
محمد 47: 19
کہ ایک خدا کا اثبات اور باقی سب کی نفی ہے اسی طرح ترک رفع یدین کے مسئلہ میں بھی ہماری دلیل میں ایک مرتبہ رفع یدین کا اثبات اور باقی مقامات کی نفی ہے۔ ترک رفع الیدین پر ہماری دلیل حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَقَامَ فَرَفَعَ يَدَيْهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ ثُمَّ لَمْ يُعِدْ " 168F
سنن النسائی ، رقم: 1026
کیا میں تم لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں نہ بتاؤں؟ لوگوں نے کہا کہ بتائیں تو آپ نے نماز پڑھ کر دکھائی اور شروع میں رفع یدین کیا، پھر کہیں بھی نہیں کیا۔
ہم ان لوگوں سے کہتے ہیں کہ تم بھی اسی طرح ایک حدیث پیش کرو -خواہ وہ حدیث صحیح ہو، خواہ ضعیف ہو - کہ جس میں چار رکعت والی نماز میں دس مقامات پر رفع یدین کیا ہو اور اٹھا رہ مقامات پر نہ کیا ہو۔ ایسی حدیث پوری ذخیرہ احادیث میں ایک بھی موجود نہیں ہے۔
بڑھیا کا چرخہ:
میں سنایا کرتا ہوں کہ ایک عورت جنگل میں چرخہ چلایا کرتی تھی۔ کسی نے پوچھا: اسکول گئی ہو؟ کہا: نہیں، کبھی مدرسہ گئی ہو؟ نہیں، اچھا! یہ بتاؤ کہ اللہ موجود ہے؟ کہا: جی موجود ہے۔دلیل کیا ہے؟ اس بوڑھی نے کہا: یہ چرخہ دلیل ہے۔ یہ کیسے دلیل ہے؟ اس نے کہا: جب میں چلاتی ہوں تو چلتا ہے اور جب نہ چلاؤں تو نہیں چلتا، اس سے پتا چلا کہ سورج کو کوئی نکالنے والا موجود ہے، کائنات کو چلانے والا کوئی موجود ہے تبھی تو چل رہی ہے۔ تو پتا چلا کہ کائنات کو چلانے والی ذات موجود ہے اور وہ اللہ ہے۔ پھر پو چھا کہ یہ بتاؤ کہ خدا کتنے ہیں؟ اس نے کہا: ایک ہے۔ دلیل کیا ہے؟ کہا: یہ چرخہ دلیل ہے۔ وہ کیسے؟ اس نے کہا: میں جب جوان تھی تو میری ماں نے میری شادی کردی تھی اور جہیز میں مجھے یہ چرخہ دیا تھا۔ اب میں بوڑھی ہو گئی ہوں اور چرخہ اب بھی ٹھیک چل رہا ہے کیونکہ چلانے والی ایک ہے، اگر چلا نے والی دو ہوتیں تو میں کہتی کہ ادھر چلاؤ دوسری کہتی الٹا چلا ؤ تو اس سے چرخہ ٹوٹ جاتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ ایک ہے، اگر دو ہوتے تو ایک کہتا سورج مشرق سے نکالنا ہے اور دوسرا کہتا کہ مغرب سے نکالنا ہے تو سورج ٹوٹ جاتا لیکن سورج ابھی تک ٹھیک چل رہا ہے تو یہ دلیل ہے کہ چلانے والا خدا ایک ہی ہے۔
اللہ تعالیٰ کو خدا کہنا جائز ہے:
ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو ”اللہ“ بھی کہہ سکتے ہیں اور ”خدا“ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اسی مقام پر علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر عثمانی میں لکھا ہے: ”اور کامل تذلل صرف اسی ذات کے سامنے اختیار کیا جاسکتا ہے جو اپنی ذات وصفات میں ہر طرح کامل ہو، اسی کو ہم ”اللہ“ یا ”خدا“ کہتے ہیں۔“ 169F
تفسیر عثمانی: ج2 ص555
اس لیے میں یہ بات بار بار کہتا ہوں کہ ہماری پوری محنت یہ ہے کہ امت اکابرین کے ساتھ رہے، اکابرین سے ہٹ کر کوئی رائے قائم نہ کرے۔ یعنی میں اس بات پر جھگڑتا ہوں کہ لوگ اپنی رائے قائم نہ کریں بلکہ اکابرین والی رائے پر عمل پیرا ہوں اور میرے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ امت کو توڑ رہا ہے اور جو لوگ اکا بر کو چھوڑ کر اپنی رائے دیتے ہیں ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ امت کو جوڑ رہے ہیں۔ بھائی! الگ رائے دینے سے امت جڑتی ہے یا اکابرین کی رائے پر رہ کر امت جڑتی ہے؟ (اکابرین کی رائے پر رہ کر۔ سامعین) تو اس بات کا خوب اہتمام کریں کہ اکابرین کی رائے کو لیا جائے اور اپنی رائے دینے سے بچا جائے۔
موت برحق ہے:
﴿کُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَۃُ الۡمَوۡتِ ؕ وَ نَبۡلُوۡکُمۡ بِالشَّرِّ وَ الۡخَیۡرِ فِتۡنَۃً ؕ وَ اِلَیۡنَا تُرۡجَعُوۡنَ ﴿۳۵﴾﴾
ہر جاندار نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ ہم تمہیں اچھی اور بری حالتوں میں مبتلا کر کے آزماتے ہیں اور تمہیں ہماری طرف لوٹ کر ہی آنا ہے۔
﴿کُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَۃُ الۡمَوۡتِ﴾
میں صرف اتنی بات ہے کہ ہر نفس پر موت آنی ہے، اس کا معنی یہ نہیں کہ ہر ایک پر موت آئی ہے۔اس دونوں میں فرق سمجھنا بہت ضروری ہے۔
وقوعِ موت اور خبرِ موت میں فرق کرنا ضروری ہے:
جب ہم کہتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وفات کے بعد اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں تو لوگ کہتے ہیں کہ حضور تو زندہ نہیں ہیں، ان کی دلیل یہی آیت ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ بات سمجھو! ایک ہے وقوعِ موت اور ایک ہے خبرِ موت، قرآن اور حدیث نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کی خبر دی ہے، آپ کی موت کا وقوع بیان نہیں کیا۔
منکرین حیات الانبیاء سے گفتگو:
ہماری تو بات چلتی رہتی ہے۔ میں نے ایک ساتھی سے پوچھا کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں؟ اس نے کہا کہ جی ہاں! میں نے کہا: دلیل کیا ہے؟ اس نے کہا:
﴿کُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَۃُ الۡمَوۡتِ﴾
میں نے کہا: تم بھی نفس ہو؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ میں نے کہا: تم مرگئے ہو؟ کہنے لگا: نہیں! میں نے کہا: قرآن تو کہہ رہا ہے کہ
﴿کُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَۃُ الۡمَوۡتِ﴾
اور تم بھی نفس ہو لہذا تم کو بھی فوت شدہ ہونا چاہیے۔ اس نے کہا: کیا حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر موت نہیں آئی؟ میں نے کہا: میں تو آپ سے پوچھ رہا ہو ں کہ اگر موت آئی ہے تو آپ دلیل پیش کرو! اس نے کہا:
﴿ اِنَّکَ مَیِّتٌ﴾
170F
الزمر 39: 30
میں نے کہا: جب یہ آیت اتری تھی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت زندہ تھے؟ اس نے کہا: جی ہاں زندہ تھے۔ میں نے کہا: زندہ کو قرآن نے
﴿ اِنَّکَ مَیِّتٌ﴾
کیسے کہہ دیا؟ اس آیت کا مطلب تو یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر موت آئے گی، آپ وقوعِ موت پر آیت پڑھو۔ اب اس نے یہ آیت پڑھی:
﴿اَللہُ یَتَوَفَّی الۡاَنۡفُسَ حِیۡنَ مَوۡتِہَا﴾
171F
الزمر 39: 30
میں نے کہا: اس کا کیا مطلب ہے کہ موت سب پر آگئی ہے؟ اس نے کہا کہ اگر موت نہیں آئی تھی تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے دفن کیسے کیا تھا؟ میں نے کہا: صحابہ رضی اللہ عنہم نے دفن کیا تھا یہ کون سے پارے کی آیت ہے؟ وہ کہنے لگا کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر موت نہیں آئی تو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ خلیفہ کیسے بنے؟ میں نے کہا: یہ کس پارے کی آیت ہے؟ آپ لوگ قرآن مجید سے کوئی ایک آیت پیش کرو یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ میں سے ایک حدیث پیش کرو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر موت آئی ہے۔
اب اس نے کہا: بخاری شریف میں خطبہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہے:
"مَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ․"172F
صحیح البخاری ، رقم:3668
کہ جو شخص حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا وہ یہ جان لے کہ آپ وفات پا چکے ہیں۔
میں نے کہا: یہ کس پارے کی آیت ہے؟ یہ تو قرآن میں نہیں ہے، اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر موت آئی ہے اس کا ذکر نہ ہی قرآن میں ہے اور نہ ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر موت آئی ہے یہ خطبہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے۔ ہم یہ بات مان لیتے ہیں کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے فرمان سے موت ثابت ہور ہی ہے لیکن آپ لوگوں پر تعجب ہے کہ آپ نے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے فرمانے پر موت مان لی ہے تو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ جو وصیت فرمارہے ہیں کہ میری موت ہو جائے تو غسل، کفن، جنازہ کے بعد میری چار پائی کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ کے باہر رکھ دینا، اگر اجازت ملے تو دفن کرنا ․․․ تو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے اس جملہ سے آپ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کیوں نہیں مانتے؟ تو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے فرمانے پر موت تو آپ نے مان لی ہے اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے فرمانے سے آپ حیات کیوں نہیں مانتے؟!
میں بارہا کہتا ہو ں کہ آپ عقائد سمجھا بھی کریں اور آگے سمجھایا بھی کریں، بعض مرتبہ کسی کو خود سمجھ میں نہیں آتے اور بعض مرتبہ کوئی آگے سمجھا نہیں سکتا۔
خیر و شر کے ذریعے آزمائش:
﴿وَ نَبۡلُوۡکُمۡ بِالشَّرِّ وَ الۡخَیۡرِ فِتۡنَۃً﴾
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم شر اور خیر کے ذریعے آزماتے ہیں۔ کبھی ایسی چیز دیتے ہیں جو بندے کو اچھی لگتی ہے اور کبھی ایسی دیتے ہیں جو بندے کو اچھی نہیں لگتی۔ جو چیز طبیعت کے موافق ہو وہ بندے کو اچھی لگتی ہے تو اسے ”خیر“ کہہ دیتے ہیں اور جو چیز طبیعت کے موافق نہ ہو وہ بندے کو اچھی نہیں لگتی تو اسے ”شر“ کہہ دیتے ہیں۔ تو اس چیز کو ”شر“ صرف اس لیے کہہ دیتے ہیں کہ وہ بندے کی طبیعت کے موافق نہیں ہوتی ورنہ اللہ کی طرف سے جو چیز بھی ملتی ہے وہ خیر ہی خیر ہوتی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم تمہیں آزماتے ہیں اور آزمانے کا معنی یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو بندوں کے احوال کا پتا نہیں، دراصل ہوتا یوں ہے کہ مثلاً اللہ تعالیٰ نے کسی بندے کو کوئی مقام دیتا ہے تو اسے آزماتا ہے تاکہ دوسرے بندوں کو بھی پتا چل جائے کہ یہ بندہ آزمائش میں پورا اترا ہے اس لیے یہ اس مقام کا اہل تھا جو خدا نے اس کودیاہے۔
عجلت اور سرعت میں فرق:
﴿خُلِقَ الۡاِنۡسَانُ مِنۡ عَجَلٍ﴾
انسان کو جلد باز پیدا کیا گیا ہے یعنی انسان کی طبیعت میں جلد بازی ہے۔
ایک لفظ ہے ”عجلت“ اور ایک لفظ ہے ”سرعت“، عجلت کہتے ہیں جلد بازی کو اور سرعت کہتے ہیں تیزی کو۔ جلد بازی اور چیزہے اور سرعت اور چیز ہے۔ عجلت مذموم اور ناپسندیدہ ہے اور سرعت محبوب اور پسندیدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں:
﴿وَ سَارِعُوۡۤا اِلٰی مَغۡفِرَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ﴾ 173F
آل عمران 3: 133
﴿وَ سَارِعُوْا اِلٰی مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ﴾
اپنے رب کی مغفرت کی طرف تیزی سے چلو۔
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
﴿وَ یُسَارِعُوۡنَ فِی الۡخَیۡرٰتِ﴾174F
آل عمران 3: 114
بعض اہل کتاب نیک کاموں کی طرف دوڑ لگاتے ہیں اور تیزی سے سرانجام دیتے ہیں۔
سورۃ آل عمران کی اس آیت کے تحت امام فخر الدین ابو عبد اللہ محمد بن عمر بن حسین رازی الشافعی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر ”تفسیر کبیر“ میں سرعت اور عجلت کے درمیان فرق لکھا ہے۔ فرماتے ہیں:
اَلسُّرْعَةُ مَخْصُوْصَةٌ بِأَنْ يُقَدَّمَ مَا يَنْبَغِيْ تَقْدِيْمُهٗ ، وَالْعُجْلَةُ مَخْصُوْصَةٌ بِأَنْ يُقَدَّمَ مَا لَا يَنْبَغِيْ تَقْدِيْمُهٗ․
التفسیر الکبیرللرازی: ج8 ص203
سرعت کا معنی ہے کہ اس کام کو جلدی کرنا جس کو جلدی کرنا چاہیے اور عجلت کہتے ہیں کہ اس کام کو جلدی کرنا جس کو جلدی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
یہ عمومی قاعدہ ہے اگرچہ کبھی کبھی عجلت کا لفظ سرعت پر بھی بولا جاتا ہے۔ جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے عر ض کی تھی:
﴿وَ عَجِلۡتُ اِلَیۡکَ رَبِّ لِتَرۡضٰی ﴿۸۴﴾﴾ 176F
طٰہٰ 20 :84
اے اللہ! میں جلدی جلدی آیا تا کہ آپ خوش ہو جائیں۔
حدیث پاک میں ہے:
"اَلْأَنَاةُ مِنَ اللهِ وَالْعُجْلَةُ مِنَ الشَّيْطٰنِ․"177F
سنن الترمذی ، رقم: 2012
میانہ روی اللہ کی طرف سے اور عجلت شیطان کی طرف سے ہوتی ہے۔
تو سرعت کو پسند کیا ہے اور عجلت کو نا پسند کیا گیا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قوم سے مکالمہ:
﴿قَالُوۡۤا ءَاَنۡتَ فَعَلۡتَ ہٰذَا بِاٰلِہَتِنَا یٰۤـاِبۡرٰہِیۡمُ ﴿ؕ۶۲﴾ قَالَ بَلۡ فَعَلَہٗ ٭ۖ کَبِیۡرُہُمۡ ہٰذَا فَسۡـَٔلُوۡہُمۡ اِنۡ کَانُوۡا یَنۡطِقُوۡنَ ﴿۶۳﴾﴾
حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کی قوم میلے پر جانے لگی۔ ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ آپ بھی چلیں، آپ کو بھی میلہ دکھاتے ہیں۔ ابرا ہیم علیہ السلام نے ستاروں کی طرف دیکھا اور فرمایا:
﴿اِنِّیۡ سَقِیۡمٌ ﴿۸۹﴾﴾
178F
الصافات 37: 89
کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ قوم نے سمجھا کہ شاید پیٹ یا سر میں درد ہوگا جبکہ ابرا ہیم علیہ السلام فرمانا چاہتے تھے کہ میں تمہارے اس کفر کی بیماری سے بہت تنگ ہوتا ہوں، مجھے اس سے بہت تکلیف ہو تی ہے۔ تو ابراہیم علیہ السلام میلے پر نہیں گئے۔ جب یہ سارے لوگ میلے پر چلے گئے تو ابرا ہیم علیہ السلام نے کلہاڑا لیا یا جو بھی سامان ملا اس سے بتوں کو توڑا اور جو بڑا بت تھا اس کو کچھ نہیں کہا بلکہ وہ جو کلہاڑا تھا اس کے کندھے پر رکھ کر چھوڑ دیا۔ جب یہ مشرک لوگ واپس آئے اپنے چھوٹے چھوٹے خداؤں کو دیکھا کہ وہ مرے پڑے ہیں اور اپنے بڑے خدا کو دیکھا کہ وہ کلہاڑا لے کر کھڑا ہوا ہے تو انہوں نے کہا: یہ کیا ہوا؟ ہمارے خداؤں کو کس نے مارا ہے؟ انہوں نے کہا:
﴿سَمِعۡنَا فَتًی یَّذۡکُرُہُمۡ یُقَالُ لَہٗۤ اِبۡرٰہِیۡمُ ﴿ؕ۶۰﴾﴾
ہم نے سنا ہے کہ ایک نوجوان ہے جو ان کے بارے میں بڑی باتیں کرتا رہتا ہے، اچھے لفظو ں میں ان کا تذکرہ نہیں کرتا، اس کا نام ابرا ہیم ہے۔ کہنے لگے کہ بلاؤ ان کو اور لوگوں کے سامنے ان سے پوچھو۔ وہ سب کے سامنے آجائے تا کہ اس کو سزا ملے تو کسی کو اعتراض کا موقع نہ ملے۔ جب ابراہیم علیہ السلام کو سب کے سامنےلایا گیا اور ان سے پوچھا گیا کہ اے ابراہیم! کیا ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ کام آپ نے کیا ہے؟ ابرا ہیم علیہ السلام نے کہا:
﴿بَلۡ فَعَلَہٗ ٭ۖ کَبِیۡرُہُمۡ ہٰذَا فَسۡـَٔلُوۡہُمۡ اِنۡ کَانُوۡا یَنۡطِقُوۡنَ ﴿۶۳﴾﴾
نہیں، یہ حرکت ان کے اس بڑے سردار نے کی ہے، انہی بتوں سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہیں تو! مجھ سے کیا پوچھتے ہو! انہی سے پوچھو۔ تو انہوں نے کہا:
﴿لَقَدۡ عَلِمۡتَ مَا ہٰۤؤُلَآءِ یَنۡطِقُوۡنَ ﴿۶۵﴾﴾
اے ابرا ہیم! تو جانتا ہے کہ یہ تو بات بھی نہیں کر سکتے، ان سے کیا پوچھیں؟!اب وہ لوگ بڑے شرمندہ ہو ئے تو ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا:
﴿ اَفَتَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ مَا لَا یَنۡفَعُکُمۡ شَیۡئًا وَّ لَا یَضُرُّکُمۡ ﴿ؕ۶۶﴾ اُفٍّ لَّکُمۡ وَ لِمَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ ﴿۶۷﴾﴾
کیا تم اللہ کو چھوڑ کر ان چیزوں کی عبادت کر رہے ہو جو تمہیں نہ نفع پہنچاتی ہیں اور نہ نقصان پہنچاتی ہیں، تف ہے تم پر بھی اور تمہارے ان خداؤں پر بھی جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو، کیا تم میں اتنی بھی سمجھ نہیں۔
”بل فعلہ کبیرھم“ کی توضیح بالمثال:
اب سوال یہ ہے کہ ابرا ہیم علیہ السلام نے فرمایا تھا:
﴿بَلۡ فَعَلَہٗ ٭ۖ کَبِیۡرُہُمۡ ہٰذَا﴾
کہ یہ کام ان بتوں کے اس بڑے سردار نے کیا ہے، بظاہر یہ جھوٹ ہے کیونکہ بڑے بت نے تو یہ کام نہیں کیا تھا بلکہ حضرت ابرا ہیم علیہ السلام نے خود مارا تھا۔ ابراہیم علیہ السلام تو صدیق ہیں، نبی ہیں بلکہ نبی الانبیاء اور عام نبی بھی جھوٹ نہیں بولتا تو ابراہیم علیہ السلام کیسے جھوٹ بول سکتے ہیں؟! ابراہیم علیہ السلام نے کیا بولا تھا اس کو پہلے مثال سے سمجھیں- اور میں یہ بات ہمیشہ کہتاہو ں کہ بات کے موافق مثال دینا سیکھو! مثال سے بات کھلتی ہے اور مثال بیان کرنا قرآن کریم کا طریقہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسۡتَمِعُوۡا لَہٗ ﴾ 179F
الحج22 :73
اے لوگو! ایک مثال بیان کی جا رہی ہے، اسے غور سے سنو!
اللہ تعالی مثال دے کر سمجھا رہے ہیں کہ جن کو تم پوجتے ہو اور اللہ کو چھوڑ کر ان کو پکارتے ہو یہ اتنے کمزور ہیں کہ ایک مکھی کو پیدا بھی نہیں کرسکتے اور اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین کر لے جائے تو یہ اتنے کمزور لوگ ہیں کہ اس سے واپس بھی نہیں چھڑا سکتے۔ تو مثال بیان کرکے سمجھا نا یہ اللہ رب العزت کا طریقہ ہے۔
خیر میں مثال بیان کر رہا تھا کہ مثلاً ایک ادارہ میں ایک آدمی ہے جو کہ قابل ہے، شریف ہے، اس کی عزت بھی بہت ہے۔ اسی ادار ہ میں کچھ پیسے چوری ہوتے ہیں․․․ ایک بار، دوبار، تین بار․․․ اور اس آدمی کا جو مخالف اور حاسد ہے وہ ادارے والوں سے کہتا ہے کہ پیسے اسی شخص نے چوری کیے ہیں، ادارے والے اس شریف آدمی کوبلا کر پوچھتے ہیں کہ بتائیں! پیسے آپ نے چوری کیے ہیں؟ اس نے کہا: بھلا یہ ہو سکتا ہے کہ میں پیسے چوری کروں؟ ادارے والوں نے کہا: ہمیں آپ پر شک ہے۔ اب وہ شخص روتا ہے کہ تم نے کیسی بات کہہ دی کہ میں نے چوری کیے ہیں؟ بھلا میں بھی چوری کر سکتا ہو ں! وہ اپنی صفائی دے رہا ہے اور اس کو حد درجہ کا افسوس ہے کہ میرے اوپر الزام لگا ہے چوری کا۔
اب ہوا یوں کہ وہی چوری کے پیسے کسی دوسرے آدمی کی الماری سے مل گئے اور کسی نے دیکھ بھی لیے۔ اب پیسے دیکھنے والا بندہ اس ادارے کے سربراہ اور بڑے کو لاکر دکھاتا ہے کہ فلاں جگہ پیسے رکھے ہو ئے ہیں۔ وہ آ کر پیسے برآمد کرلیتا ہے، پولیس کے ذریعے اس بندے کو گرفتار کروا لیتے ہیں جس سے پیسے بر آمد ہوئے ہیں اور پولیس اسے تھانے لے جاتی ہے۔ اب جس شریف آدمی پر پہلے الزام لگ رہا تھا وہ تھا نہ میں آتا ہے اور ایس ایچ او سے کہتا ہے کہ سر! چوری تو میں نے کی ہے، آپ نے اس کو شخص کیوں پکڑا؟ ایس، ایچ، او کہتا ہے کہ ہم معذرت کرتے ہیں کہ خواہ مخواہ آپ پر الزام لگا اور ادارے کا سر براہ بھی کہتا ہے کہ ہم سے غلطی ہو گئی تھی۔
اب یہ شخص جو کہہ رہا ہے کہ چوری میں نے کی ہے اس کا کیا مطلب ہے کہ واقعی اسی نے چوری کی ہے؟ (نہیں۔ سامعین) اب جس طرح یہ کہہ رہا ہے کہ چوری تو میں نے کی ہے تم نے اس کو کیوں پکڑا ہوا ہے؟! یہ شخص ان ادارے والوں کی جہالت، حماقت، غنڈہ گردی اور ان کے بہتان کو کھولنے کےلیے چوری کی نسبت اپنی طرف کررہا ہے حالانکہ چوری اس نے کی نہیں ہے۔ اسی طرح ابرا ہیم علیہ السلام نے فر مایا:
﴿بَلۡ فَعَلَہٗ ٭ۖ کَبِیۡرُہُمۡ ہٰذَا﴾
کہ اس بڑے نے مارا ہے یعنی تم لوگ دن رات یہی رٹ لگاتے ہو کہ سب کچھ یہی کرتے ہیں، یہی خدا ہیں، بگڑی بناتے ہیں، جس کو چاہیں تباہ کر دیتے ہیں تو اسی نے مارا ہے پوچھو انہی سے! اب بات سمجھ میں آ گئی؟ (جی ہاں۔ سامعین) یہ ایسی تعبیر ہے کہ جس پر تاویل کی ضرورت نہیں ہے۔
میں اس لیے کہتا ہوں کہ قرآن کریم کی تعبیرات کو اپنے عرف کے ماحول کے مطابق بیان کرو تو پھر قرآن ایسے کھلتا ہے کہ سارے اشکال ہی ختم ہو جاتے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام نے ان لوگوں کی تجہیل، حماقت اور کوڑھ مغزی کو بیان کرنے کے لیے کہا کہ ان سے پوچھو کہ یہ سب کس نے کیا ہے؟ کیونکہ تم خود ہی کہتے ہو کہ یہ بگڑی بناتے ہیں، اولاد دیتے ہیں، یہی نفع و ونقصان کے مالک ہوتے ہیں، تو جب تمہارا عقیدہ یہی ہے کہ نقصان دینا انہی کے ہاتھ میں ہے تو یہ بڑا بت کھڑا ہے لہذا اسی نے یہ کام کیا ہے کہ باقی سب بتوں کو توڑ کے رکھ دیا ہے۔
اب دیکھو! کتنی آسان سی تعبیر ہے اور ہم اتنی لمبی تفسیر کرتے ہیں کہ خود کو بھی سمجھ میں نہیں آتی، سامع کا سمجھنا تو دور کی بات ہے!
حضرت داؤد اور سلیمان علیہما السلام کا اجتہادی اختلاف:
﴿وَ دَاوٗدَ وَ سُلَیۡمٰنَ اِذۡ یَحۡکُمٰنِ فِی الۡحَرۡثِ اِذۡ نَفَشَتۡ فِیۡہِ غَنَمُ الۡقَوۡمِ ۚ وَ کُنَّا لِحُکۡمِہِمۡ شٰہِدِیۡنَ ﴿٭ۙ۷۸﴾﴾
حضرت داؤد علیہ السلام والد تھے اور سلیمان علیہ السلام بیٹے تھے۔ دونوں نبی تھے۔ ایک آدمی کی بکریاں دوسرے کے کھیت میں چلی گئیں اور اس کے کھیت کو کھا لیا۔ اب وہ دونوں کیس لے کر حضرت داؤد علیہ السلام کے پاس گئے۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے کہا: بکریوں نے جو کھیت کھایا ہے اس کی قیمت کا اندازہ لگاؤ کہ کتنی قیمت بنتی ہے؟ قیمت لگائی گئی تو بکریوں اور کھیت کی قیمت برابر تھی۔ فرمایا کہ بکریاں اس کھیت والے کو دے دو۔
وہ دونوں حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس گئے تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا: یوں نہ کرو بلکہ جس کی بکریاں ہیں وہ اس کے کھیت میں کام کرے اور کھیت والا بکریاں لے کر چَرائے اور بکریوں کا دودھ پیے۔ جس وقت بکریوں نے کھیت کھایا تھا جب دوبارہ اتنا ہو جائے تو بکریاں بکریوں والے کو دےدو اور کھیت والا اپنا کھیت سنبھال لے۔ قرآن کریم میں ہے :
﴿فَفَہَّمۡنٰہَا سُلَیۡمٰنَ ۚ وَ کُلًّا اٰتَیۡنَا حُکۡمًا وَّ عِلۡمًا﴾
کہ ہم نے حکمت، علم اور دانائی تو دونوں کو دی تھی،
﴿فَفَہَّمۡنٰہَا سُلَیۡمٰنَ﴾
مگر سلیمان علیہ السلام کے کیا کہنے! سلیمان علیہ السلام کو اس مسئلہ میں بنسبت داؤد علیہ السلام کے سمجھ زیادہ دی تھی۔ اب فیصلہ تو دونوں کا ٹھیک تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب نص نہ ہو تو دو نبیوں کے اجتہاد میں بھی اختلاف ہو سکتا ہے۔ تو جہاں نص نہ ہو تو وہاں امتیوں کے اجتہا د میں بھی اختلاف ہو سکتا ہے۔
آپ کی بات تو آپ کا بیٹا بھی نہیں مانتا ہم کیوں مانیں؟!
حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ بڑے ہیں اور استاذ ہیں، امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ چھوٹے ہیں اور شاگرد ہیں۔ جب امام ابو یوسف اور امام محمد اپنے استاذ سے اختلاف کرتے ہیں تو غیر مقلدین کھپ ڈالتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کو ہم کیسے مانیں؟ ان کی بات تو ان کے شاگرد بھی نہیں مانتے۔ میں کہتا ہو ں کہ یا اللہ! تیرا شکر ہے کہ یہ لوگ حضرت داؤد اور سلیمان علیہما السلام کے دور میں نہیں تھے وگرنہ یہ لوگ حضرت داؤد علیہ السلام سے کہتے کہ ہم آپ کی بات کیسے مانیں؟ آپ کی بات تو آپ کا بیٹا بھی نہیں مانتا۔
تو سلیمان علیہ السلام چھوٹے نبی ہو کر بڑے نبی حضرت داؤد علیہ السلا م سے اختلاف کر سکتے ہیں تو چھوٹے مجتہد امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ اپنے سے بڑے مجتہد امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے اختلاف کیوں نہیں کرسکتے؟!
اور یہ بات الگ ہے کہ علامہ شامی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ امام ابویوسف، امام محمد، امام زفر، امام حسن بن زیاد وغیرہ قسم کھا کر یہ بات بیان کرتے تھے کہ جب بھی ہم امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے اختلاف کرتے ہیں تو وہ ہمارا اپنا قول نہیں ہوتا بلکہ کسی مسئلہ پر امام ابو حنیفہ کی دو رائے ہو تی ہیں، انہی میں سے ایک رائے کو ہم ترجیح دیتے ہیں اور معروف یوں ہو جاتا ہے کہ امام ابو حنیفہ کا مسئلہ یہ ہے اور ان کے مقابلے میں امام محمد کا مسئلہ یہ ہے، حالانکہ امام محمد کا مسئلہ اپنا نہیں ہوتا بلکہ امام ابوحنیفہ کے دو فتووں میں سے ایک کو ترجیح دی ہو تی ہے۔ 180F
رد المحتار: ج1ص159مطلب صح عن الامام انہ قال اذا صح الحدیث فہو مذہبی
مسئلہ تین طلاق (ایک خاص صورت)
ابھی چند دن قبل ایک مسئلہ آیا تھا کینیڈا سے، ایک آدمی نے اپنی بیوی کو واٹس ایپ پہ وائس میسیج میں طلاق دیتے ہوئے یوں کہا کہ ”میں تجھے ایک طلاق دیتا ہوں، میں تجھے ایک طلاق دیتا ہوں، میں تجھے ایک طلاق دیتا ہوں“ یہ تین مرتبہ اس نے کہا۔ پھر بعد میں نیچے میسیج میں لکھا کہ میں تجھے ایک طلاق دے رہا ہو ں۔
تو استفتا ء ہمارے پاس آیا۔ یہاں سے ہم نے جوا ب دیا کہ اس کو تین طلاق ہو گئی ہیں۔ پھر انہوں نے پاکستان کا ایک بہت بڑا جامعہ ہے وہاں یہ مسئلہ بھیجا تو انہوں نے کہا کہ ایک طلاق ہوئی ہے۔
تو وہ پاکستان آئے اور کہا کہ ہم ملنے کےلیے آرہے ہیں، میں نے کہا: آجائیں۔ تو میں نے ان سے کہا کہ فتوی تو وہی ہے جو تین طلاق والا ہے باقی آپ کہتے ہیں کہ میری نیت یہ تھی تو آپ کے پاس دوچیزیں ہیں؛ ایک آپ کی نیت ہے اور ایک اُس جامعہ کا فتوی ہے، ہم بہت چھوٹے ہیں اور وہ جامعہ بہت بڑا ہے۔ اب وہ کہنے لگا کہ ہم عوا م کیا کریں جب آپ علماء میں سے ایک کی رائے تین کی ہے اور ایک کی رائے ایک کی ہے؟ میں نےکہا کہ داؤ د علیہ السلام کی رائے اور تھی اور سلیمان علیہ السلام کی رائے اور تھی لیکن ہم نے تو اللہ سے نہیں کہا کہ یا اللہ! دو نبیوں کی رائے میں اختلا ف ہو گیا ہے اب ہم کیا کریں، بھائی! ایک مسئلہ پر دو نبیوں کی رائے کا اختلاف ہو تو الجھن نہیں ہوتی، ایک مسئلہ پر دو صحابہ کی رائے الگ الگ ہو جائے تو الجھن نہیں ہوتی اور ایک مسئلہ ہم دو مولویوں کی رائے مختلف ہو جائے تو کیا الجھن ہے؟
تو وہ دو آدمی تھے، ان میں سے ایک کی بیوی مجھ سے بیعت ہے وہ کہنے لگا کہ ہمیں تو کبھی بھی الجھن نہیں ہو تی اس لیے کہ ہماری گھر والی مولانا گھمن صاحب سے بیعت ہے تو جب بھی کوئی مسئلہ ہوتا ہے ہم انہی سے پوچھتے ہیں، ہم کسی اور سے پوچھتے ہی نہیں ہیں، الجھن تو تمہیں ہے کہ کبھی اس سے پوچھتے ہو اور کبھی اس سے پوچھتے ہو۔
خیر میں یہ سمجھا رہا تھا کہ دونبیوں میں اختلاف ہوا ہے۔ اگر دو امتیوں میں اختلاف ہو جائے تو پھر اس میں کون سی الجھن ہے؟
آپ اچھی طرح سمجھ لیں کہ اُس جامعہ والوں کو اشکال کہاں سے ہوا؟! دراصل فقہاء فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص طلاق کا لفظ تین بار کہے اور کہے کہ میری نیت دوسرے اور تیسرے لفظ سے تاکید کی تھی تو دیانۃً ہم یہ کہیں گے کہ ایک طلاق ہی ہوئی ہے اور قضاءً یہ کہیں گے کہ تین طلاق ہوئی ہیں۔ تو ان جامعہ والوں نے اسی وجہ سے ایک کا فتویٰ دے دیا۔ اُن کو دیانۃً اور قضاءً کے فرق نہ سمجھنے کی وجہ سے یہ مغالطہ لگا۔
قضاءً اور دیانتاً کا مفہوم:
دیانت اور قضاء کیا ہو تی ہے؟اس کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ جب کوئی بندہ اپنی بیوی سے کہے کہ تجھے طلاق ہے، تجھے طلاق ہے، تجھے طلاق ہے اور یہ الفاظ بیوی نے خود سنے ہوں یا یہ معاملہ قاضی، پنچایت اور عدالت کے سامنے پہنچ جائے تو اب اگر شوہر کہتا ہے کہ میری نیت ان الفاظ سے تاکید کی تھی یعنی میں ایک طلاق دینا چاہتا تھا اور دوسرے اور تیسرے لفظ سے میں پہلی طلاق ہی کی تاکید کر رہا تھا میری نیت دوسری اور تیسری طلاق دینے کی نہیں تھی تو اس صورت میں اس کی اس نیت کا کوئی اعتبار نہیں ہو گا بلکہ یہ تین طلاقیں شمار ہوں گی کیونکہ معاملہ اب قضاء میں آ چکا ہے۔ بیوی کو بھی اس معاملہ میں قاضی کا درجہ دیا جا چکا ہے ”اَلْمَرْأَۃُ کَالْقَاضِیْ“ کہ جب وہ الفاظ خود سن لے یا کسی معتبر ذریعے سے اس کے پاس پہنچ جائیں تو ایسے ہی حکم ہو گا کہ گویا قاضی نے سن لیے، اب خاوند کی نیت کا اعتبار نہیں ہو گا۔ یہ مطلب ہے کہ قضاءً تین واقع ہوں گی۔
اور اگر یہ الفاظ بیوی نے نہ سنے ہوں اور نہ ہی یہ معاملہ قاضی، پنچایت اور عدالت میں پہنچا ہو مثلاً خاوند نے غائبانہ طور پر اپنی بیوی سے کہا ہو کہ طلاق، طلاق، طلاق۔ پھر حلفاً کہے کہ میری نیت صرف ایک کی تھی، دوسری اور تیسری بار میں نے محض تاکید کے طور پر کہا تھا تو اب اس کی تصدیق کی جائے گی اور وہ بیوی سے رجوع کرتا ہے تو اس کی رجعت کو بھی ٹھیک قرار دیا جائے گا۔ یہ معنی ہے دیانتاً ایک طلاق کے واقع ہونے کا۔
تو جب بیوی خود سن لے کہ اس کے خاوند نے تین مرتبہ کہا ہے اور اب خاوند یہ کہتا ہو کہ میری نیت ایک کی تھی اور دو تاکید تھیں تو اب اس قاعدہ ”اَلْمَرْأَۃُ کَالْقَاضِیْ“ کی رو سے بیوی کے سامنے تین مرتبہ کہنا یا بیوی کا ان تین مرتبہ کو سن لینا ایسے ہی ہے جیسے قاضی نے تین مرتبہ طلاق کا لفظ سنا ہو، تو اس صورت میں تین ہوتی ہیں، ایک نہیں ہوتی۔
اور دار العلوم دیوبند نے ”الفاظِ طلاق کے تکرار سے تین طلاق واقع ہونے پر بعض شبہات کا جواب“ کے نام سے بیس صفحات کا ایک فتویٰ اسی نوعیت کا دیا ہے کہ ایسی طلاقیں تین شمار ہوں گی، ایک نہیں ہو گی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے کا معنی:
یہی وہ بات تھی جو اس حدیث مبارک میں ہے:
كَانَ الطَّلَاقُ عَلٰى عَهْدِ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِىْ بَكْرٍ وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلاَفَةِ عُمَرَ رَضِىَ اللهُ عَنْهُ طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاق کے بجائے ایک ہوتی تھی، لہٰذا ایک ہی شمار ہوتی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دور آیا تو لوگوں نے تین طلاقیں دینا شروع کر دیں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"إِنَّ النَّاسَ قَدِ اسْتَعْجَلُوْا فِى أَمْرٍ كَانَتْ لَهُمْ فِيهِ أَنَاةٌ فَلَوْ أَمْضَيْنَاهُ عَلَيْهِمْ فَأَمْضَاهُ عَلَيْهِم." 181F
صحیح مسلم ، رقم:1472
کہ لوگوں کو جس کام میں سہولت تھی انہوں نے اس میں جلد بازی شروع کر دی ہےیعنی جب ایک دینی تھی تو ان کو ایک دینی چاہیے تھی، جب انہوں نے تین دی ہیں تو اب تین ہی ہوں گی۔
اس روایت کی تشریح کرتے ہوئے امام ابو زکریا یحییٰ بن شرف النووی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا ایک مطلب یہ بھی بیان کیا ہے کہ پہلے کوئی شخص اپنی بیوی کو انت طالق، انت طالق، انت طالق کہہ کر طلاق دیتا تو چونکہ دوسری اور تیسری طلاق سے عام طور پر لوگ نئی طلاق کا ارادہ نہیں کرتے تھے اس لیے لوگوں کی غالب اور عام عادت کو دیکھتے ہوئےان الفاظ سے محض تاکید مراد لی جاتی تھی اور اس بندے کی نیت کا اعتبار کر لیا جاتا تھا کہ اس نے دوسری اور تیسری طلاق سے محض تاکید مراد لی ہے۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا اور لوگوں نے تین طلاقیں پے در پے دینا شروع کر دیں اور ان لوگوں کی نیت بھی عموماً طلاق کے دوسرے اور تیسرے لفظ سے استیناف یعنی نئی طلاق دینے ہی کی ہوتی تھی اس لیے جب کوئی شخص تین طلاقوں والا جملہ بولتا تو اس دور کے عرف کی بناء پر تین طلاقوں کا حکم لگایا جاتا تھا۔ 182F
شرح مسلم للنووی: ج1ص478
چونکہ اب زمانے میں فساد آگیا تھا اس لیے جو الفاظ کہہ دیے بس انہی کا اعتبار ہوتا، نیت کا اعتبار نہیں ہوتا تھا۔
خیر میں طلاق دینے والے شخص کی بات سنا رہا تھا۔ مجھے وہ شخص کہنے لگا کہ حضرت! میری تو تین طلاق دینے کی نیت نہیں تھی بلکہ صرف ایک طلاق دینے کی نیت تھی۔ میں نے اسے کہا کہ آپ دو آدمی میرے سامنے بیٹھے ہیں۔ ہم نے آپ کو فتویٰ دیا تھا جس کی وضاحت کے لیے آپ اتنا لمبا سفر کرکے یہاں آگئے۔ اب میں مثال کے طور پر کہتا ہوں کہ میں بات کرتے کرتے غصہ میں آ کر اس میز پر ہاتھ مارتا ہوں، آپ کا ہاتھ میرے ہاتھ کے نیچے آتا ہے اور آپ کی گھڑی ٹوٹ جاتی ہے۔ آپ کہتے ہیں مولاناصاحب! ہم تو آئے تھے مسئلہ سمجھنے کے لیے اور یہاں آ کر اپنی گھڑی تڑوا بیٹھے اور میں کہوں کہ اللہ کی قسم! میری نیت گھڑی توڑنے کی ہرگز نہیں تھی۔ تو بتائیں کیا میری نیت گھڑی توڑنے کی نہ بھی ہو تو کیا گھڑی نہیں ٹوٹے گی؟! اب اس کو کچھ دھچکا سا لگا کہ واقعی اگر نیت نہ بھی ہو پھر بھی کچھ ہوجاتا ہے۔ اس لیے میں آپ سے بار بار یہ کہتا ہوں کہ شریعت سمجھو! شریعت سمجھو!
حضرت ایوب علیہ السلام کا ابتلاء:
﴿وَ اَیُّوۡبَ اِذۡ نَادٰی رَبَّہٗۤ اَنِّیۡ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنۡتَ اَرۡحَمُ الرّٰحِمِیۡنَ ﴿ۚ۸۳﴾ فَاسۡتَجَبۡنَا لَہٗ فَکَشَفۡنَا مَا بِہٖ مِنۡ ضُرٍّ وَّ اٰتَیۡنٰہُ اَہۡلَہٗ وَ مِثۡلَہُمۡ مَّعَہُمۡ رَحۡمَۃً مِّنۡ عِنۡدِنَا وَ ذِکۡرٰی لِلۡعٰبِدِیۡنَ ﴿۸۴﴾﴾
حضرت ایوب علیہ السلام نے بہت زیادہ تکلیف برداشت کی، سات سال بیماری کاٹی، اولاد فوت ہو گئی، سامان ختم ہوگیا اور جسم میں بیماری کی وجہ سے چھالے پڑ گئے۔آپ کی نیک بیوی برابر آپ کی خدمت کرتی رہی۔ ایک دن شیطان طبیب کی شکل میں آیا ایوب علیہ السلام کی بیوی کے پاس، اس نے کہا کہ میں ان کا علا ج کرتا ہوں لیکن میری ایک شرط ہے۔ پوچھا کہ کیا شرط ہے؟شیطان کہنے لگا کہ جب ان کو شفا ہو جائے تو تم یہ کہنا کہ تو نے ان کو شفا دی ہے، میں اس کے علاوہ کوئی نذرانہ نہیں لوں گا۔ انہوں نے اس بات کا ذکر حضرت ایوب علیہ السلام سے کیا۔
حضرت ایوب علیہ السلام تو نبی تھے۔ آپ نے بیوی سے فرمایا کہ بھلی مانس! وہ طبیب نہیں تھا بلکہ وہ تو شیطان تھا۔آپ کو اس بات کا بہت دکھ ہوا کہ میری بیماری کی وجہ سے شیطان کا حوصلہ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ وہ میری بیوی سے یہ کلمات کہلوانا چاہتا ہے۔ تو حضرت ایوب علیہ السلام نے قسم کھا کر اپنی بیوی فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے شفا دے دے اور میں ٹھیک ہو جاؤں تو تجھے سو قمچیاں ماروں گا۔ جب آپ ٹھیک ہو گئے اور بیوی نے خدمت بھی بہت کی تھی تو اللہ نے فرمایا کہ سو تنکے لے کر اکٹھے ماردیں، آپ کی قسم پوری ہوجائے گی۔ تو یوں ان کی قسم پوری ہوگئی۔
بیماری کی حالت میں حضرت ایوب علیہ السلام نے یہ دعا مانگی تھی:
﴿اَنِّیۡ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنۡتَ اَرۡحَمُ الرّٰحِمِیۡنَ﴾
اے اللہ! مجھے یہ تکلیف لگ گئی ہے، آپ کی ذات تو رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والی ہے۔ آپ مجھ پر رحم فرمائیں!
﴿فَاسۡتَجَبۡنَا لَہٗ فَکَشَفۡنَا مَا بِہٖ مِنۡ ضُرٍّ وَّ اٰتَیۡنٰہُ اَہۡلَہٗ وَ مِثۡلَہُمۡ مَّعَہُمۡ ﴾
اللہ فرماتے ہیں کہ ہم نے ان کی دعا کو قبول کیا، ان کی بیماری کو بھی دور کر دیا، ان کو ان کے گھر والے بھی دے دیے اور اتنے لوگ اور بھی دیے۔ تو اللہ پاک نے ان کی کیسی مدد فر مائی۔
فضائل حج کی حکایت پر اعتراض کا جواب:
میں جنوبی پنجاب کے سفر پر تھا۔ مبارک پور ایک جگہ ہے وہاں میرے پاس دو غیر مقلد آئے۔ فضائل اعمال اور فضائل صدقات لے کر۔ کہنے لگے کہ پہلے ہم دیوبندی تھے، پھر اہل حدیث ہو گئے ہیں۔ میں نے کہا کہ تم جو بھی ہو جاؤ مجھے کیا تکلیف ہے، یہ کہانیاں مجھے کیوں سناتے ہو؟ لیکن جس وجہ سے تم ہوئے ہو وہ وجہ مجھے بتادو۔ انہوں نے کہا: ہم نے فضائلِ حج پڑھی ہے،اس میں شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب نے ایک واقعہ لکھا کہ ایک آدمی حج پر جارہا تھا، راستہ میں بیمار ہو گیا، اس نے اللہ سے دعا مانگی۔ دعا قبول ہو گئی۔ اب ایک آدمی وہاں آ گیا تو اس مسافر نے اس سے کہا کہ یہ تو سارا جنگل ہے، تم یہاں کہاں سے آئے ہو؟ اس بندے نے کہا: میں اللہ کا بندہ ہوں اور میں فوت ہو گیا تھا، تم نے دعا مانگی تو اللہ مجھے زندہ کیا اور تیرے علاج کےلیے بھیجا۔
تو وہ دونوں غیر مقلد مجھے کہنے لگے کہ یہ کفریہ عقیدہ ہے۔ تو ”فضائلِ حج“ میں کفر تھا اس لیے ہم نے فضائل حج کو چھوڑا اور اہلِ حدیث ہو گئے۔ میں نے کہا: میں قرآن پاک کی آیات پڑھتا ہوں، اگر ان میں یہی بات ہو جس کو تم کفر کہہ رہے ہو تو کیا اسلام کو چھوڑ کر سِکھ ہو جاؤ گے؟ کہنے لگے: قرآن میں ہے؟ میں نے کہا: میں بتاتا ہوں۔ قرآن کریم میں ہے:
﴿وَ اِذۡ قَتَلۡتُمۡ نَفۡسًا فَادّٰرَءۡتُمۡ فِیۡہَا﴾ 183F
شرح مسلم للنووی: ج1ص478
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور میں ایک بندہ قتل ہوگیا۔ پتا نہیں چل رہا تھا کہ قاتل کون ہے؟ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ وحی آئی ہے کہ گائے ذبح کرو
، ﴿فَقُلۡنَا اضۡرِبُوۡہُ بِبَعۡضِہَا﴾
اس کے گوشت کا ٹکڑا مقتول کے ساتھ لگاؤ وہ زندہ ہو کر بتائے گا کہ میرا قاتل کون ہے! جب گوشت لگایا تو وہ زندہ ہوا اور بتایا کہ میرا قاتل کون ہے۔ میں نے کہا کہ یہ واقعہ پہلے پارہ میں ہے، اگر دنیا میں کسی بندے کا زندہ ہونا تمہارے نزدیک کفر ہے تو پہلا پارہ چھوڑ دو کیونکہ تمہارے مطابق اس میں کفر آگیا ہے -معاذ اللہ-!
میں نے کہا: دوسرے پارے میں ہے :
﴿اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ خَرَجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمۡ وَ ہُمۡ اُلُوۡفٌ حَذَرَ الۡمَوۡتِ ۪ فَقَالَ لَہُمُ اللہُ مُوۡتُوۡا ۟ ثُمَّ اَحۡیَاہُمۡ ﴾184F
البقرۃ2: 243
کیا آپ کو ان لوگوں کا حال معلوم نہیں جو موت سے بچنے کے لیے اپنے ہزاروں کی تعداد میں اپنے گھروں سے نکل پڑے۔ اللہ نے انہیں فرمایا کہ مر جاؤ، پھر انہیں زندہ کیا۔ اب دیکھو! حضرت شیخ زکریا رحمہ اللہ نے تو ایک شخص کا واقعہ لکھا ہے اور یہاں اللہ تعالیٰ ہزاروں کی بات فرماتے ہیں، لہذا تم چھوڑ دو دوسرے پارے کو بھی۔
آگے تیسرے پارے میں ہے :
﴿اَوۡ کَالَّذِیۡ مَرَّ عَلٰی قَرۡیَۃٍ وَّ ہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوۡشِہَا ۚ قَالَ اَنّٰی یُحۡیٖ ہٰذِہِ اللہُ بَعۡدَ مَوۡتِہَا ۚ فَاَمَاتَہُ اللہُ مِائَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہٗ﴾ 185F
البقرۃ2: 259
حضرت عزیر علیہ السلام تھے یا کوئی اور نیک آدمی تھے، ان کا گزر ایک بستی پر ہوا جو چھتوں کے بل گری پڑی تھی، انہوں نے اس بستی کے بارے میں کہا کہ اللہ اس کو کیسے زندہ کریں گے؟ تو اللہ تعالیٰ نے ان کو سو سال تک موت دی، پھر اٹھایا۔
میں نے کہا: لو تمہارے نظریے کے مطابق ایک اور کفر آگیا، اب تیسرے پارے کو چھوڑ دو۔آگے ساتویں پارے میں ہے:
﴿وَ اُحۡیِ الۡمَوۡتٰی بِاِذۡنِ اللہِ﴾ 186F
آل عمران 3: 49
حضرت عیسیٰ علیہ السلام مردوں کو اللہ کے حکم سے زندہ کرتے تھے۔
اب ساتویں پارے کا بھی انکار کردو!
تو وہ شخص کہنے لگا کہ یہ تو معجزات ہیں۔ میں نے کہا کہ شیخ زکریا صاحب رحمہ اللہ نے جو بیان کیا وہ ولی کی کرامت تھی۔جس طرح معجزہ خلافِ شریعت نہیں ہوتا اسی طرح کرامت بھی خلافِ شریعت نہیں ہوتی۔ میں نے کہا: اہلِ حدیث ہونے کی وجہ تو یہی تھی نا! اب کوئی اور وجہ ہوتو وہ بتاؤ! اس پر وہ لاجواب ہو گیا۔
حضرت یونس علیہ السلام کا قصہ:
﴿وَ ذَاالنُّوۡنِ اِذۡ ذَّہَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنۡ لَّنۡ نَّقۡدِرَ عَلَیۡہِ فَنَادٰی فِی الظُّلُمٰتِ اَنۡ لَّاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنۡتَ سُبۡحٰنَکَ ٭ۖ اِنِّیۡ کُنۡتُ مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿ۚ۸۷﴾﴾
حضرت یونس علیہ السلام کی قوم شرک کیا کرتی تھی، آپ نے انہیں بہت سمجھایا لیکن وہ باز نہیں آئی تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر تم باز نہیں آؤ گے تو تین دن بعد تم پر عذاب آئے گا۔ جب تین دن گزرے، آخری رات آئی تو حضرت یونس علیہ السلام بستی سے باہر چلے گئے کہ قوم پر عذاب آ رہا ہے۔
قوم پیچھے سے گڑگڑائی، معافیاں مانگیں․․․ بالآخر اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو قبول کیا اور عذاب کوختم فرمادیا۔
اب اللہ نے عذاب کو ختم کیوں فرما دیا؟ اس کی ایک وجہ تو میں نے سورۃ یونس میں بیان کی تھی کہ جب آدمی پرموت کے آثار آجائیں اور آخرت کاعذاب نظرآنا شروع ہو جائے تو پھر توبہ قبول نہیں ہوتی، اسی طرح اگر دنیا کا عذاب نظر نہ آئے بلکہ دنیا کے عذاب کے اندر آدمی مبتلا ہو جائے تو پھر بھی توبہ قبول نہیں ہوتی۔ یونس علیہ السلام کی قوم کا معاملہ یہ تھا کہ اس نے نہ تو آخرت کے عذاب کو دیکھا اور نہ ہی اس پر دنیا کا عذاب شروع ہوا بلکہ اس قوم نے جب دنیا کے عذاب کےآثار دیکھے تو رو دھو کر توبہ کی تو اللہ رب العزت نے انہیں معاف فرما دیا۔ یوں ان کی توبہ قبول ہو گئی۔
بعض مفسرین نے اس کی وجہ یہ لکھی ہے کہ عذاب کو ختم فرمانا یہ عام معمول سے ہٹ کر تھا، عام معمول میں جب آثارِ عذاب آ جائیں تو اللہ تعالیٰ تو بہ کو قبول نہیں فرماتے لیکن اس قوم کے بارے میں قرآن کریم میں ان لفظوں میں ارشاد فرمایا :
﴿فَلَوۡ لَا کَانَتۡ قَرۡیَۃٌ اٰمَنَتۡ فَنَفَعَہَاۤ اِیۡمَانُہَاۤ اِلَّا قَوۡمَ یُوۡنُسَ ؕ لَمَّاۤ اٰمَنُوۡا کَشَفۡنَا عَنۡہُمۡ عَذَابَ الۡخِزۡیِ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ مَتَّعۡنٰہُمۡ اِلٰی حِیۡنٍ ﴿۹۸﴾﴾ 187F
یونس 10: 98
کہ جب بھی کوئی بستی عذاب کو دیکھ کر ایمان لائے تو ایمان لانا ان کو نفع نہیں دیتا سوائے یو نس علیہ السلام کی قوم کے۔
تو وجہ جو بھی ہو خیر یونس علیہ السلام بستی چھوڑ کر چلے گئے۔ آپ نے وحی آنے کا انتظار نہیں کیا بلکہ اپنے اجتہاد کی بنا پر پہلے چلے گئے اوریہ بات قابلِ گرفت بھی نہیں تھی کیونکہ آپ نے یہ سمجھا تھا کہ سرکش اور نافرمان قوم پر عذاب آئے تو ان سے ٹلتا نہیں ہے۔ جب تین دن کی مہلت ان کو دی گئی ہے اور انہوں نے توبہ نہیں کی تو بس اب ان پر عذاب کا آنا یقینی ہے، اس لیے وحی کا انتظار کے بغِت آپ بستی سے چلے گئے۔
جب قوم نے توبہ کر لی جس کی وجہ سے ان پر عذاب نہیں آیا تو یونس علیہ السلام نے سوچا کہ اگر میں واپس اپنی قوم میں چلا گیا تو وہ شاید مجھے جھوٹا سمجھیں۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ قوم میں یہ رسم جاری تھی کہ جس کا جھوٹا ہونا ثابت ہو جائے اس کو قتل کر دیا جاتا تھا۔ حضرت یونس علیہ السلام کو اپنی جان کا خطرہ لاحق ہو گیا کہ کہیں قوم بھی مجھے جھوٹا کہہ کر قتل نہ کر دے کیونکہ میں نے تو کہا تھا کہ تین دنوں میں عذاب آ جائے گا لیکن عذاب تو آیا نہیں۔ اس لیے آپ چلے گئے ۔
اور آپ علیہ السلام یہ سمجھتے تھے کہ میں نے یہ جو عمل کیا ہے اللہ تعالیٰ مجھے اس پر سزا نہیں دیں گے لیکن چونکہ آپ ایک جلیل القدر پیغمبر تھے اس لیے آپ کا بغیر حکم الٰہی اپنے اجتہاد کی بنا پر بستی سے چلے جانا اللہ تعالیٰ کو پسند نہ آیا تو آپ پر عتاب ہوا۔
چنانچہ ایسا ہوا کہ آپ دریا کے کنارے گئے، دیکھا کہ وہاں ایک کشتی کھڑی ہے جو لوگوں سے بھری ہوئی ہے، آپ اس میں جا کر بیٹھ گئے۔ جب کشتی آگے چلی تو ایک بھنور میں پھنس گئی۔ کشتی کےملاح نے کہاکہ لگتاہے ہماری کشتی میں اپنے آقاسے دوڑا ہوا کوئی غلام ہے اورجب ہماری کشتی میں کوئی ایسابندہ ہو تو ہماری کشتی نہیں چلا کرتی۔
یونس علیہ السلام نےفرمایا کہ وہ تو میں ہوں۔ انہوں نے کہا: یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ فرمایا کہ میں ہوں۔ اب اس بندے کو اس کشتی سےگراتےتوپھر کشتی نےچلناتھا، جب تک اس کی جان کی قربانی نہ دیتے توکشتی نےچلنا نہیں تھا۔ یونس علیہ السلام فرمانےلگے کہ مجھے دریامیں پھینک دو!
چنانچہ ان میں قرعہ اندازی ہوئی۔ قرعہ اندازی میں تینوں بار یونس علیہ السلام کا نام نکلا۔ انہوں نے یو نس علیہ السلام کو پانی میں ڈال دیا۔ اللہ کے حکم سے ایک بڑی مچھلی نے آپ کو نگل لیا۔ یونس علیہ السلام چالیس دن تک مچھلی کے پیٹ میں رہے اور یہ دعا مانگتے رہے :
﴿لَّاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنۡتَ سُبۡحٰنَکَ ٭ۖ اِنِّیۡ کُنۡتُ مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿ۚ۸۷﴾﴾
یونس علیہ السلام توبہ کرتے رہے اور جو کام آپ نے کیا تھا اسے خطا سمجھتے رہے حالانکہ یہ خطا نہیں تھی بلکہ یہ تو آپ کا اجتہاد تھا کہ نافرمان قوم پر تین دنوں میں عذاب کا آنا یقینی ہے، لہذا میں ان میں کیوں ٹھہروں ؟ مجھے چلے جانا چاہیے۔
اس کی مثال ایسے ہے کہ جیسے غزوہ احد کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تیر کمان والے دستے سے فرمایا تھا کہ جب تک میں نہ کہوں تم نے پہاڑی سے نہیں ہلنا، جب فتح ہو گئی تو ان تیر کمان والے صحابہ رضی اللہ عنہم نے دیکھا کہ اب تو ضرورت پوری ہو گئی ہے، اب ہم بھی جائیں اور جاکر مالِ غنیمت جمع کریں۔ جب یہ پہاڑی سے نیچے اترے تو پہاڑی کے پیچھے سے کفار نے حملہ کیا جس سےکافی صحابہ شہید ہو گئے، فتح بظاہر شکست میں تبدیل ہو گئی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم یہ تھا کہ جب تک میں نہ کہوں تم نے یہاں سے نہیں ہٹنا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کا یہ دستہ وہاں سے اس لیے ہٹا کہ انہوں نے سمجھا کہ اب فتح ہو گئی ہے، اب یہاں رہنے کی ضرورت نہیں رہی۔ تو ان کا ہٹنا اجتہاد کی بنا پر تھا - معاذ اللہ- یہ کوئی نافرمانی یا کوئی گناہ نہیں تھا۔
﴿ فَظَنَّ اَنۡ لَّنۡ نَّقۡدِرَ عَلَیۡہِ ﴾ کا معنی:
اس مقام پر جو الفاظ ہیں:
﴿فَظَنَّ اَنۡ لَّنۡ نَّقۡدِرَ عَلَیۡہِ﴾
اس کا معنی اچھی طرح سمجھ لیں۔
یہاں لفظ
”نَقْدِرَ“
قدرت سے مشتق نہیں بلکہ یا تو یہ لفظ ”تقدیر“ سے مشتق ہے جس کا معنی ہے فیصلہ کرنا۔ اب آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ حضرت یونس علیہ السلام نے یہ خیال کیا کہ اللہ میرے بارے میں سزا کا فیصلہ نہیں فرمائیں گے۔
یا یہ لفظ
”قَدْر“
سے مشتق ہے جس کا معنی ہے ”تنگی کرنا“، اب آیت کا مطلب ہو گا کہ حضرت یونس علیہ السلام نے یہ خیال کیا اور یہ سمجھا کہ اللہ تعالیٰ مجھ پر تنگی نہیں فرمائیں گے۔
جاہل عاملوں کے استدلال کا رد:
﴿وَ الَّتِیۡۤ اَحۡصَنَتۡ فَرۡجَہَا فَنَفَخۡنَا فِیۡہَا مِنۡ رُّوۡحِنَا وَ جَعَلۡنٰہَا وَ ابۡنَہَاۤ اٰیَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۹۱﴾﴾
حضرت مریم علیہا السلام کے پاس حضرت جبرائیل امین آئے، ان کے گریبان میں پھونک ماری جس سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہو ئی۔
کچھ جاہل عاملوں نے اس سے استدلا ل کیا ہے کہ عورتوں کے ننگے جسم پر علاج کےلیے ہاتھ پھیرنا جائز ہے معاذ اللہ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام اللہ کے نمائندے تھے اور جنسیت اور خواہشاتِ نفسانی سے بالکل پاک تھے اور دوسرا یہ کہ انہوں نے صرف پھونک ماری تھی لیکن آج کے عامل تو ہاتھ پھیرتے ہیں لہذا ان لوگوں کے لیے اس آیت کو دلیل بنانا جائز نہیں ہے۔
قبولیتِ عمل کے لیے شرط؛ صحتِ عقیدہ
﴿فَمَنۡ یَّعۡمَلۡ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَ ہُوَ مُؤۡمِنٌ فَلَا کُفۡرَانَ لِسَعۡیِہٖ ۚ وَ اِنَّا لَہٗ کٰتِبُوۡنَ ﴿۹۴﴾﴾
جو شخص نیک اعمال کرے بشرطیکہ وہ مومن ہو تو اس کی کوشش کی ناقدری نہیں کی جائے گی، ہم اس بندے کے اعمال کو لکھتے جاتے ہیں۔
یہاں اللہ تعالیٰ نے عمل کے قبول ہو نے کی شرط لگا دی ہے کہ جب عقیدہ ٹھیک ہوگا تو عمل قبول ہو گا۔ اگر عقیدہ ٹھیک نہ ہو تو اعمال قبول نہیں ہوتے۔
خروجِ یاجوج ماجوج:
﴿حَتّٰۤی اِذَا فُتِحَتۡ یَاۡجُوۡجُ وَ مَاۡجُوۡجُ وَ ہُمۡ مِّنۡ کُلِّ حَدَبٍ یَّنۡسِلُوۡنَ ﴿۹۶﴾﴾
علاماتِ قیامت میں سے ایک علامت یہ ہے کہ جو سد سکندری ہے اس کے پار یاجوج ماجوج ہیں، وہ دیوار کو توڑیں گے اور وہاں سے نکلیں گے۔ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آنے کے بعد کی بات ہے۔ یہ لوگ اس طرح پوری دنیا میں پھیل جائیں گے کہ جیسے ہر بلند جگہ سے پھسلتے ہوئے آ رہے ہوں۔کوئی ٹیلہ سے گر رہا ہو گا، کوئی پہاڑی آ رہا ہو گا اور ہر شے کو ہڑپ کرجائیں گے، پانی پییں گے تو دریا کو خشک کرکے رکھ دیں گے۔
صحیح مسلم کی کتاب الفتن میں ایک روایت موجود ہے۔ حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوئے ہوئے تھے، نیند سے بیدار ہو ئے اور فرمایا:
لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّهُ وَيْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدِ اقْتَرَبَ، فُتِحَ الْيَوْمَ مِنْ رَدْمِ يَأْجُوْجَ وَمَأْجُوْجَ مِثْلُ هٰذِهِ.
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، تباہی ہو عرب کےلیے ایک شر سے جو بہت قریب آگیا ہے۔ وہ شر کیا ہے؟ اس کی وضاحت خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دی، فرمایا کہ یاجوج اور ماجوج کی جو دیوار ہے اس میں اتنا سا سوراخ ہو گیا ہے۔
وہ سوراخ کتنا ساتھا؟
”وَعَقَدَ سُفْيَانُ بِيَدِهِ عَشَرَةً“
حدیث کے راوی حضرت سفیان نے ہاتھ سے دس کا اشارہ کر کے بتا دیا کہ اتنا سوارخ ہوا ہے۔ 188F
صحیح مسلم، رقم: 2880
دوسری روایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ہے۔ اس میں یہ الفاظ ہیں:
فُتِحَ الْيَوْمَ مِنْ رَدْمِ يَأْجُوْجَ وَمَأْجُوْجَ مِثْلُ هٰذِهِ وَعَقَدَ وُهَيْبٌ بِيَدِهِ تِسْعِينَ. 189F
صحیح مسلم، رقم: 2881
کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج یاجوج وماجوج کی دیوار سے اتنا سا سوراخ کھل گیا ہے۔ اس میں ہے کہ حدیث کے راوی وھیب نے نوے کا اشارہ کر کے بتایا کہ اتنا سوارخ مراد ہے۔
اب دونوں روایتوں کو دیکھیں تو ایک کا راوی کہتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دس کا اشارہ کیا اور دوسری کا راوی کہتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نوے کا اشارہ کیا ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کے ساتھ بتایا ہے کہ اتنا سوراخ ہو گیا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے اشارہ کیا تو ایک نے سمجھا کہ دس کا اشارہ ہے اور ایک نے سمجھا کہ نوے کا اشارہ ہے۔
بہرحال یہ دونوں احادیث وہی سمجھے گا جس کو عقد الانامل کا طریقہ آتا ہو، جس کو یہ طریقہ نہیں آتا وہ یہ ان حدیثوں کو خود کیسے سمجھے گا اور دوسروں کو کیسے سمجھائے گا؟! یہ حدیثیں تو وہی سمجھے گا جس کو یہ طریقہ آتا ہو۔ جو طریقہ نہیں جانتا وہ تو احادیث پر اعتراض کر دے گا کہ ایک راوی کہتا ہے کہ نوے کا اشارہ ہے اور دوسرا کہتا ہے کہ دس کا اشارہ ہے، تو دونوں حدیثیں کیسے ٹھیک ہو سکتی ہیں؟اس معترض سے پوچھو کہ نوے کا اشارہ ہو تو انگلی کہاں رکھتے ہیں اور دس کا اشارہ ہو تو انگلی کہاں رکھتے ہیں؟ جب تمہیں اس کا پتا ہی نہیں تو تم اعتراض کیسے کرتے ہو؟!
”عقد الانامل“ کا طریقہ ایسا ہے کہ بندے کی دونوں ہاتھ کی دس انگلیوں پر دس ہزار کی گنتی ہوجاتی ہے۔ یہ کیسے کرتے ہیں ہم نے اس پر پوری فائل بنائی ہے اور ویڈیوز بھی بنی ہوئی ہیں۔ ان شاء اللہ آپ کو پڑھائیں گے اور آپ دیکھیں گے کہ اس طریقے کو سیکھنے میں زیادہ سے زیادہ پندرہ منٹ لگتے ہیں۔ اللہ ہمیں سیکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
زمین کے وارث نیک بندے ہوں گے:
﴿وَ لَقَدۡ کَتَبۡنَا فِی الزَّبُوۡرِ مِنۡۢ بَعۡدِ الذِّکۡرِ اَنَّ الۡاَرۡضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوۡنَ ﴿۱۰۵﴾﴾
ہم نے زبور میں نصیحت کے بعد یہ لکھ دیا تھا کہ اس زمین کے وارث میرے نیک بندے بنیں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ نیک بندے ہمیشہ غالب رہیں گے۔ آج ہمیں جو حکومت نہیں ملتی تو اس کی ایک وجہ تو ہے کہ ہم نیک نہیں ہیں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم اس کے لیے کوشش بھی نہیں کرتے۔ انسان نیک ہو اور حصول کے لیے کوشش بھی کرے تو اللہ تعالیٰ بندے کو نواز دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کئی جگہ اس بات کا تذکرہ کیا ہے۔ مثلاً سورۃ النور میں فرمایا:
﴿وَعَدَ اللہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ﴾ 190F
النور24: 55
تم میں سے جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک اعمال کیے ہیں ان سے اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں اپنا خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو بنایا تھا۔
اسی طرح سورۃ الاعراف میں فرمایا:
﴿اِنَّ الۡاَرۡضَ لِلہِ ۟یُوۡرِثُہَا مَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖ ؕ وَ الۡعَاقِبَۃُ لِلۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۱۲۸﴾﴾ 191F
الاعراف7: 128
کہ زمین اللہ تعالیٰ کی ہے، وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے اور آخری انجام پرہیزگاروں کے حق میں ہوتا ہے۔ یہاں بھی انجام کے پرہیزگاروں کے حق میں ہونے کا مطلب یہی ہے کہ زمین کے وارث یہی قرار پاتے ہیں۔
کیا پیغمبر علیہ السلام ہر جگہ پر ہیں؟
﴿وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۰۷﴾﴾
اے پیغمبر! ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے سراپا رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
اس آیت سے اہلِ بدعت استدلال کرتے ہیں کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ پر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم رحمتِ خدا ہیں اور رحمتِ خدا ہر جگہ پر ہے تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہر جگہ پر ہیں۔
ہم نے کہا کہ سورج ہر جگہ پر ہے کیا یہ بات مان لو گے؟ کہتے ہیں کہ جی نہیں۔ ہم نے کہا: دلیل تو قرآن کریم میں بنتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿ہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَ الشَّمۡسَ ضِیَآءً وَّ الۡقَمَرَ نُوۡرًا﴾ 192F
یونس 10: 5
کہ اللہ وہی ہے جس نے سورج کو سراپا روشنی بنایا اور چاند کو سراپا نور بنایا۔
روشنی ہر جگہ پر ہے تو کیا اس بات کو مان لو گے کہ سورج بھی ہر جگہ پر ہے؟
کہتے ہیں کہ جی اِس آیت کا معنی یہ ہے کہ سورج تو آسمان پر اس کی روشنی ہر جگہ پر ہے۔ تو ہم نے کہا کہ اُس آیت کا معنی بھی یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں ہیں اور آپ کی رحمت ہر جگہ پر ہے۔ (سبحان اللہ۔ سامعین)
اللہ تعالیٰ ہمیں حق بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․