سورۃ الفرقان

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ الفرقان
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿تَبٰرَکَ الَّذِیۡ نَزَّلَ الۡفُرۡقَانَ عَلٰی عَبۡدِہٖ لِیَکُوۡنَ لِلۡعٰلَمِیۡنَ نَذِیۡرَا ۙ﴿۱﴾﴾
برکت مطلوب نہ کہ کثرت:
”تَبٰرَکَ“
یہ برکت سے مشتق ہے۔ عربی زبان میں دولفظ استعمال ہوتے ہیں: ایک برکت او دوسرا کثرت۔
”برکت“ کامعنی ہوتا ہے کہ چیز کی مقدار کم ہو اور فوائد زیادہ ہوں، ”کثرت“ کا معنی ہوتاہے کہ مقدار زیادہ ہو اور فوائد کم ہوں۔ شریعت میں کثرت مطلوب نہیں، برکت مطلوب ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
﴿کَمۡ مِّنۡ فِئَۃٍ قَلِیۡلَۃٍ غَلَبَتۡ فِئَۃً کَثِیۡرَۃًۢ بِاِذۡنِ اللہِ﴾
البقرۃ2: 249
کتنی ایسی چھوٹی جماعتیں ہیں جو اللہ کے حکم سے بڑی جماعتوں پر غالب آئی ہیں۔
﴿لَقَدۡ نَصَرَکُمُ اللہُ فِیۡ مَوَاطِنَ کَثِیۡرَۃٍ ۙ وَّ یَوۡمَ حُنَیۡنٍ ۙ اِذۡ اَعۡجَبَتۡکُمۡ کَثۡرَتُکُمۡ﴾
التوبۃ9: 25
اللہ نے کئی مقامات پر تمہاری مدد کی ہے اور جنگ حنین میں بھی اس نے تمہاری مدد کی ہے جب تمہیں تمہاری کثرت پر ناز تھا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کے آخری دنوں میں خطبہ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا:
أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ أَظَلَّكُمْ شَهْرٌ عَظِيْمٌ شَهْرٌ مُبَارَكٌ․
صحیح ابن خزیمۃ: ج2 ص911 باب فضائل شھر رمضان
کہ ایک ایسا مہینا آ رہا ہے جو ایک عظیم مہینا ہے اور برکت والا مہینا ہے۔
یہاں بھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مہینے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے برکت کی بات کی ہے۔
”شَهْرٌ مُبَارَكٌ“
کہ یہ با برکت مہینا ہے۔
اس پر میرا پورے ایک گھنٹے کا ایک بیان ہے، آپ اسے سن لیں۔ یہ متن ہے آگے اس کی شرح ہے۔
اگرچہ ”کثرت“ بعض مقامات پر اللہ کی بہت بڑی نعمت بھی ہے۔ اللہ فرماتے ہیں:
﴿وَ اذۡکُرُوۡۤا اِذۡ کُنۡتُمۡ قَلِیۡلًا فَکَثَّرَکُمۡ﴾
الاعراف7: 86
تم اس وقت کو یاد کروجس وقت تم تھوڑے تھے تو اللہ نے تمہیں زیادہ کر دیا۔
دشمن کے مقابلے میں تعداد زیادہ ہو جانا یہ اللہ کی نعمت ہے۔ آدمی کے ماننے والے تھوڑے ہوں اور اللہ زیادہ بنا دیں تو یہ اللہ کی نعمت ہے لیکن عام طور پر کثر ت مطلوب نہیں ہوتی بلکہ برکت مطلوب ہوتی ہے۔
تو جب بھی کسی شخص کو دعا دیں تو زندگی میں کثرت کی دعا نہ دیں، برکت کی دعا دیا کریں۔ برکت اور کثرت میں فرق ہمیشہ ذہن میں رکھیں۔
حق وباطل میں فرق کرنے والی کتاب:
﴿نَزَّلَ الۡفُرۡقَانَ﴾
کتاب اللہ کا ایک نام جس طرح قرآن ہے اسی طرح ایک نام ”فرقان“ بھی ہے اور فرقان کہتے ہیں کہ جو حق اور باطل میں قوتِ دلیل کے ساتھ فرق کرے۔ قرآن کریم دلائل کی قوت سے باطل کو حق سے الگ کرتاہے اس لیے اس کو فرقان کہتے ہیں۔
دلیل ختمِ نبوت:
﴿لِیَکُوۡنَ لِلۡعٰلَمِیۡنَ نَذِیۡرَا﴾
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو
”لِلْعَالَمِ نَذِیْرًا“
نہیں فرمایا بلکہ
”لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرًا“
فرمایا اس بات کو سمجھانے کے لیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک عالم کے لیے پیغمبر نہیں ہیں بلکہ عالمین کے لیے پیغمبر ہیں۔ یہ حضو ر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت اور عظمت نبوت پر دلیل ہے کہ باقی انبیاء علیہم السلام ایک عالم کے یا ایک قوم کے نبی ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم عالمین کے نبی ہیں۔ تو اس کے بعد کسی اور نبی کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔
نبوت ایک بستی سے شروع ہوتی... ایک شہر، ایک ملک، ایک عالم، پھر عالمین۔ کوئی نبی ایک بستی کاہے، کوئی ایک شہر کا ہے، کوئی ایک ملک کا ہو گا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم عالمین کے نبی اور رسول ہیں۔ تو آپ کی نبوت میں وسعت اتنی زیادہ ہے کہ اس کے بعد مزید نبوت کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ جب نبوت اپنے تمام تر کمالات اور درجات کو پہنچ جائے تو اس کے بعد مزید نبی کی ضرورت نہیں ہے۔ تو اس آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر بھی دلیل ہے۔
مشرکین کے ایک اعتراض کا جواب:
﴿وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّاۤ اِفۡکُۨ افۡتَرٰىہُ وَ اَعَانَہٗ عَلَیۡہِ قَوۡمٌ اٰخَرُوۡنَ ۚ فَقَدۡ جَآءُوۡ ظُلۡمًا وَّ زُوۡرًا ۚ﴿ۛ۴﴾﴾
مشرکین کا ایک اعتراض یہ تھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو قرآن اتر رہاہے یہ آپ خود گھڑتے ہیں۔ مشرکین کہتے تھے:
﴿اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ اکۡتَتَبَہَا فَہِیَ تُمۡلٰی عَلَیۡہِ بُکۡرَۃً وَّ اَصِیۡلًا ﴿۵﴾﴾
کہ یہ تو پہلے لوگوں کی باتیں ہیں جو آپ نے صحابہ کو لکھوائی ہیں اور صبح وشام وہی آپ کے سامنے پڑھ پڑھ کر سنائی جا رہی ہیں۔
اس کا اللہ رب العزت نے جواب دیا ہے:
﴿قُلۡ اَنۡزَلَہُ الَّذِیۡ یَعۡلَمُ السِّرَّ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ﴾
کہ اے میرے پیغمبر! آپ فرما دیجیے کہ قرآن میری طرف سے نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔
قرآن مجید کا چیلنج:
اور اللہ کی طرف سے ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اللہ پاک نے چیلنج دیا ہے:
﴿قُلۡ لَّئِنِ اجۡتَمَعَتِ الۡاِنۡسُ وَ الۡجِنُّ عَلٰۤی اَنۡ یَّاۡتُوۡا بِمِثۡلِ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ لَا یَاۡتُوۡنَ بِمِثۡلِہٖ وَ لَوۡ کَانَ بَعۡضُہُمۡ لِبَعۡضٍ ظَہِیۡرًا ﴿۸۸﴾﴾
بنی اسرائیل17: 88
اگر تم کہتے ہو کہ یہ قرآن خدا کی طرف سے نہیں ہے تو جن وانس سارے جمع ہو جاؤ اور اس جیسی کتاب لا سکتے ہو تو لاؤ!
یہ چیلنج کیسے دیا ہے؟ یہاں یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں۔ دنیا میں بعض چیزیں ایسی ہیں کہ جس جیسی چیز انسان بنا سکتے ہیں اور بعض ایسی ہیں کہ جس جیسی چیزیں انسان نہیں بنا سکتے۔ اب دیکھیں! میرے سر پر ٹوپی ہے، اس جیسی کروڑوں ٹوپیاں انسان بنا سکتے ہیں لیکن اس ٹوپی کے نیچے بال ہیں، کروڑوں انسان مل کر بھی ان جیسا ایک بال بھی نہیں بنا سکتے یعنی ایسا بال جو انسانی بدن میں ہو اور خود بخود بڑھے۔ ہمارے ہاتھ میں گھڑی ہے۔ اس جیسی کروڑوں گھڑیاں انسان بنا سکتے ہیں لیکن جس ہاتھ پر ہے اس ہاتھ جیسا ایک ہاتھ کروڑوں بندے مل کر بھی نہیں بنا سکتے۔
تو جس جیسی چیز انسان بنا سکے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کو بھی انسان نے بنایا ہے اور جس جیسی چیز انسان نہ بنا سکے تو یہ اس بات کی دلیل ہےکہ اس کو بھی انسان نے نہیں بنایا بلکہ اللہ نے بنایا ہے۔ اس لیے اللہ پاک نے فرمایا کہ اگر تمہارا دعویٰ یہی ہے کہ قرآن کریم میری کتاب نہیں توتم اس جیسی بنا کر دکھاؤ! تو اس جیسی کتاب نہ بنا سکنا اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن بھی اللہ کی کتاب ہے، کسی بندے کی نہیں ہے۔
مشرکین کے دوسرے اعتراض کا جواب:
﴿وَ قَالُوۡا مَالِ ہٰذَا الرَّسُوۡلِ یَاۡکُلُ الطَّعَامَ وَ یَمۡشِیۡ فِی الۡاَسۡوَاقِ ؕ لَوۡ لَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِ مَلَکٌ فَیَکُوۡنَ مَعَہٗ نَذِیۡرًا ۙ﴿۷﴾﴾
اس میں دوسرے اعتراض کا جواب ہے۔ ان کا ایک اعتراض یہ تھا کہ یہ کیسا نبی ہے جو کھاتا بھی ہے، پیتابھی ہے، بازاروں میں چلتا بھی ہے، فرشتہ بھی نہیں اور اس کے پاس خزانہ بھی نہیں؟ اگر نبی ہوتا تو اس کے ساتھ ملائکہ ہوتے، پیغمبر ہوتا تو یہ نہ کھاتا نہ پیتا۔ اللہ رب العز ت نے اس اعتراض کا پہلے اجمالی جواب دیا:
﴿اُنۡظُرۡ کَیۡفَ ضَرَبُوۡا لَکَ الۡاَمۡثَالَ فَضَلُّوۡا فَلَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ سَبِیۡلًا ﴿۹﴾﴾
دیکھو!یہ کیسے نکمی مثالیں پیش کرتے ہیں کہ نبی ہوتا تو اس کے ساتھ فرشتہ ساتھ ہوتا۔ لیکن اگر پیغمبر علیہ السلام کے ساتھ فرشتہ ہوتا تو پھر یہی لوگ کہتے کہ اس کے فرشتہ ہونےپر کیا دلیل ہے؟ اگر نبی ہوتا اور نہ کھاتا تو یہ کہتے کہ ہم کھاتے ہیں تو ہمارا نبی تو وہ ہونا چاہیے کہ جوکھانے والا ہو! یہ کیسی باتیں کرتے ہیں؟ تو یہ اجمالی جواب دیا ہے۔
﴿تَبٰرَکَ الَّذِیۡۤ اِنۡ شَآءَ جَعَلَ لَکَ خَیۡرًا مِّنۡ ذٰلِکَ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ۙ وَ یَجۡعَلۡ لَّکَ قُصُوۡرًا ﴿۱۰﴾﴾
یہاں سے پھر تفصیلاً جواب دیا ہے کہ اللہ چاہتے تو باغات جاری کر دیتے، اللہ چاہتے تو خزانے نازل فرما دیتے، اللہ کے لیے مشکل نہیں تھا لیکن یہ دنیا دار الابتلاء ہے، دار الامتحان ہے۔ اگر پیغمبر کے ساتھ خزانے ہوں پھر لوگ کلمہ پڑھیں گے تو خزانے دیکھ کر پڑھیں گے، ایمان بالغیب کبھی نہیں لائیں گے۔ تو اللہ فرماتے ہیں کہ ہم یہ کر سکتے ہیں لیکن ہم نے کیا نہیں ہے۔
امام صاحب قاضی القضاۃ نہیں بنے تو شاگرد کیوں بنا؟
پہلے میں ایک سوال کا جواب دیتا ہوں، اس پر پھر بات سمجھ آئے گی۔
مَیں جدہ میں تھا تو مجھے ایک شحص نے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو خلیفۂ وقت نے چیف جسٹس - قاضی القضاۃ - بننے کےلیے منصب پیش کیا تو امام صاحب نے قبول نہیں کیا۔ اس نے امام صاحب رحمہ اللہ کو کوڑے مارے پھر بھی قبول نہیں کیا۔ حضرت امام صاحب کو جیل میں ڈالا پھر بھی قبول نہیں کیا۔ زہر دے کر امام صاحب کو شہید کر دیا، امام صاحب نے آخر وقت تک اس عہدہ کو قبول نہیں کیا۔ آپ بتاؤ کہ جس امام کے ہم مقلد ہیں اس امام کا جنازہ جیل سے اٹھا ہے یا کسی مسجد سے اٹھاہے؟ (جیل سے۔ سامعین) اب اگر کوئی عالم جیل میں جائے تو اس کا ساتھ دینا چاہیے یا اس کو چھوڑ دینا چاہیے؟ (ساتھ دینا چاہیے۔ سامعین) لیکن ہم ایسا نہیں کرتے۔ مجھے دو مہینے جیل ہو جائے تو آپ میں سے پیچھے دس پندرہ رہ جائیں گے اور اگر داخلے سے پہلے جیل ہو جائے تو داخلہ کم ہو جائے گا، جو تعاون کرتے ہیں جب جیل آ جائے تو وہ تعاون چھوڑ دیتے ہیں کہ یہ مولوی صاحب تو جیل جاتے ہیں۔
متکلمِ اسلام کا تعجب:
میری ایک کتاب پر کام چل رہا ہے ان شاء اللہ چھپ کر منظرِ عام پر آ جائے گی، اس کا نام ہے ”تعجبات“۔ تو میرے تعجبات ہیں۔ ان میں سے ایک بہت بڑا تعجب یہ ہے کہ جب ہم اسٹیج پر اپنے اکابر علمائے دیوبند کی مدح کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ حضرت امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری ایسے تھے کہ کچھ ریل میں اور کچھ جیل میں، لوگ پوچھتے کہ شاہ جی! کیا حال ہے؟تو شاہ جی فرماتے: کیا پوچھنا! آدھی جیل میں کاٹی اور آدھی ریل میں کاٹی۔ تو اس کو فخر کے طور پر بیان کرتے ہیں اور جب ماننے کی بات آتی ہے تو اس کو مانتے ہیں جو ہمیشہ ریل میں ہو، اس کو نہیں مانتے جو کبھی ریل میں ہو کبھی جیل میں۔ بھائی! یا تو ”جیل جانا اکابر کی شان ہے“ ایسے بیان مت کرو اور اگر یہ اکابر کی شان ہے تو پھر ان کو مانو جو جیل جاتے ہیں، پھر ان کا ساتھ دو! مجھے تعجب ہے کہ کہتے کچھ اور ہیں کرتے کچھ اور ہیں۔
تو امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو شہید کر دیا گیا لیکن آپ نے قاضی القضاۃ کا عہدہ قبول نہیں کیا۔ حضرت امام صاحب کی دلیل بہت عجیب تھی۔ حاکمِ وقت نے کہا کہ آپ چیف جسٹس کا عہدہ قبول کریں۔ آپ نے فرمایاکہ میں اس کا اہل نہیں ہوں۔ اس نے کہا کہ نہیں، آپ کو کرنا پڑے گا۔ امام صاحب نے فرمایاکہ یہ جو میرا جملہ ہے کہ میں قاضی القضاۃ کے عہدے کا اہل نہیں ہوں میں یہ سچ بول رہا ہوں یا جھوٹ بول رہا ہوں؟ اگر میں جھوٹ بول رہا ہوں تو جھوٹے آدمی کو قاضی نہیں بنانا چاہیے اور اگر میں سچ بول رہا ہوں تو نااہل کو عہدہ نہیں دینا چاہیے۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ میں اس کا اہل نہیں ہوں۔ کیسی عجیب دلیل ہے! خیر امام صاحب قاضی نہیں بنے۔
اس امت کے پہلے قاضی القضاۃ -چیف جسٹس- قاضی ابو یوسف رحمہ اللہ ہیں۔تو مجھ سے اس بندے نے سوال کیا کہ اگر قاضی القضاۃ بننا برا تھا تو امام ابو یوسف کیوں بنے؟ اگر بننا اچھا تھا امام ابوحنیفہ کیوں نہیں بنے؟
میں ایک اصول پیش کرتا ہوں اور اس پر بہت سارے عقائد اور مسائل چھیڑا کرتا ہوں۔ اصول یہ ہے کہ جب معصوم پر اعتراض ہو تو محفوظ کو پیش کرتے ہیں اور جب ماجور پر اعتراض ہو تو محفوظ کو پیش کرتے ہیں۔ صحابہ رضی اللہ عنہم پر اعتراض ہو تو اس کا جواب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے مل جاتاہے اور جب مجتہد پر اعتراض ہو تو اس کا جواب صحابی کی زندگی سے مل جاتا ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ صحابہ نے تو نبی کو دیکھا ہے تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر کام کریں گے اور جو مجتہد ہے اس نے یا تو صحابہ کو دیکھاہے یا بعد والے کو دیکھا ہے، تو ان کی زندگی پر جو اعتراض ہو وہ صحابہ کی زندگی سے ملے گا۔
تو میں نے ان سے کہا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے مدینہ میں حکومت بھی دی، مدینہ منورہ میں آپ کو دولت بھی دی اور مدینہ منورہ میں اللہ نے آپ کو طاقت بھی دی۔ سوال یہ ہے کہ یہ تین چیزیں اللہ نے مکہ میں کیوں نہیں دیں؟ طاقت، دولت اور حکومت! اگر کوئی شحص پوچھے کہ یہ چیزیں بہتر تھیں تو مکہ میں کیوں نہیں دیں اور اگر بہتر نہیں تھیں تو مدینہ میں کیوں دی ہیں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کا حق تھا کہ آپ کو دولت بھی ملتی، آپ کو حکومت بھی ملتی اور آپ کو طاقت بھی ملتی لیکن اگر مکہ میں مل جاتی تو صحابہ پر اعتراض ہوتا کہ انہوں نے کلمہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں نہیں پڑھا بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دولت کی وجہ سے پڑھا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت کی وجہ سے پڑھاہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طاقت کی وجہ سے پڑھا ہے۔ چونکہ یہ الزام ان پر لگ سکتا تھا اس لیے اللہ نے یہ تینوں چیزیں مکہ میں نہیں دیں۔ اب جو صحابہ کلمہ پڑھ رہے تھے تو خالص محبت پیغمبر میں پڑھ رہے تھے، کوئی حاکم تھا تو حکومت چھوڑ کر خدمت میں آ رہا ہے، جو طاقت والا تھا وہ حضور پر نثار ہو رہا ہے، جو مالدار تھا وہ مال کو لٹا کر آ رہا ہے تو صحابہ نے کلمہ مال اور حکومت کی وجہ سے نہیں پڑھا بلکہ اللہ کے نبی کی محبت میں پڑھا ہے۔ لیکن جب مدینہ میں آئے ہیں تو حق چونکہ انہی کا تھا اس لیے خدا نے حکومت بھی دی ہے، طاقت بھی ہے اور پھر دولت بھی دی ہے۔
امام اعظم ابوحنیفہ قاضی القضاۃ بن جاتے تو آج دنیا میں جو لوگ مسلمان ہیں کم از کم ساٹھ ستر فیصد ان میں حنفی ہیں اتنی اکثریت کے ساتھ احناف ہوتے تو لوگ کہتے کہ حنفیت کے پھیلنے کی وجہ یہ تھی کہ امام اعظم ابو حنیفہ چیف جسٹس تھا، طاقت تھی، قلم تھا اور علم تھا اس وجہ سے حنفی مذہب پھیل گیا۔ تو ان کاجنازہ جیل سے اٹھا اور شاگرد قاضی القضاۃ بنا ہے یہ بتانے کے لیے کہ حنفیت کے پھیلنے کی وجہ قاضی القضاۃ کا عہدہ نہیں ہے لیکن چونکہ حق انہی کا تھا اس لیے ان کے شاگردوں کو دیا ہے۔
تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم دے سکتے تھے پیغمبر کو لیکن ہم نے دیا کیوں نہیں؟ اس لیے کہ یہ دنیا دار الابتلاء اور دار الامتحان ہے، اس لیے ہم ان کو نہیں دیتے۔
عذاب کی خبر دینا خوش خبری کیسے ہے؟
﴿یَوۡمَ یَرَوۡنَ الۡمَلٰٓئِکَۃَ لَا بُشۡرٰی یَوۡمَئِذٍ لِّلۡمُجۡرِمِیۡنَ وَ یَقُوۡلُوۡنَ حِجۡرًا مَّحۡجُوۡرًا ﴿۲۲﴾﴾
قیامت کے دن جب ملائکہ کو دیکھ لیں گے تو اس دن ان مجرمین کے لیے کوئی خوش خبری نہیں ہو گی یعنی خوش خبری نہیں ملے گی۔
بظاہر اعتراض ہوتا ہے کہ سورۃ آل عمران میں تو ہے:
﴿فَبَشِّرۡہُمۡ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿۲۱﴾﴾
کہ ان کفار کو عذاب کی بشارت دو اور یہاں فرماتے ہیں کہ قیامت کو ان کے لیے کوئی خوشخبری نہیں ہو گی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ جو فرمایا جا رہا ہے کہ قیامت کے دن ان کے لیے کوئی خوشخبری نہیں ہو گی اس کا معنی یہ ہے کہ جن چیزوں سے بندہ خوش ہوتا ہے وہ قیامت کے دن ان کو نصیب نہیں ہوں گی، بندہ راحت سے اور عزت سے خوش ہوتا ہے۔ نہ ان کو راحت ملے گی نہ عزت ملے گی۔
اور
﴿فَبَشِّرۡہُمۡ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ﴾
میں عذاب کا معنی خوش خبری نہیں ہے، بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ جب ان کو بار بار سمجھایا جا رہا ہے کہ تم یہ کام نہ کرو وگرنہ عذاب ہو گا تو وہ کہتے کہ ہم عذاب بھگت لیں گے لیکن تمہاری بات نہیں مان سکتے۔ تو فرمایا کہ یہ خود عذاب پر خوش ہیں نا! تو ان کو عذاب کی خوش خبر ی دے دو۔
جیسے دنیا میں کوئی شخص کہتا ہے کہ دیکھو بیٹا! باہر نہ جانا ورنہ پکڑے جاؤ گے۔ وہ باہر چلا گیا اور پکڑا گیا۔ پھر بندہ تھانے جا کر اس سے ملتا ہے کہ اب خوش ہے نا؟ میں تجھے کہتا تھا نا کہ باہر نہ جاؤ! تو وہ خوش نہیں ہوتا لیکن اصل میں تنبیہ کرنا مقصود ہوتا ہے۔
کاش میں فلاں کو دوست نہ بناتا!
﴿یٰوَیۡلَتٰی لَیۡتَنِیۡ لَمۡ اَتَّخِذۡ فُلَانًا خَلِیۡلًا ﴿۲۸﴾﴾
مکہ کے مشرکین میں عقبہ بن ابی معیط ایک مشرک سردار تھا۔ اس کی عادت یہ تھی جب سفر سے واپس آتا تو معزز لوگوں کی دعوت کرتا۔ اس نے دعوت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بلایا تو حضور بھی تشریف لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تُو اللہ کی وحدانیت اور میری رسالت کی گواہی دے تو میں تیرا کھانا کھاؤ ں گا وگرنہ نہیں کھاؤں گا۔ اس نے کلمہ پڑھ لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا کھا لیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے گئے۔
عقبہ بن ابی معیط کا ایک گہرا دوست تھا ابی بن خلف۔ اس کو پتا چلا کہ عقبہ مسلمان ہو چکا ہے تو وہ سخت غصہ ہوا۔ وہ عقبہ کے پاس آیا اور اس سے کہا کہ عقبہ! میں نے سنا ہے کہ تم نے کلمہ پڑھ لیا ہے؟ اس نے کہا کہ پڑھا تو ہے لیکن میری مجبوری تھی کہ مکہ کے معزز مہمان محمد صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے ہوئے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ تو کلمہ نہیں پڑھے گا تو میں کھانا نہیں کھاؤں گا۔ اگر میں نہ پڑھتا تو وہ کھانے سے اٹھ جاتے تو سارے لوگ اٹھ جاتے، یوں میری بہت بےعزتی ہو جاتی۔ تو میں نے اپنی عزت رکھنے کے لیے کلمہ پڑھ لیا تھا۔
ابی بن خلف نے کہا کہ تو جب تک ان کے چہرے پر نعوذ باللہ تھوکے گا نہیں میں تیری باتوں کو قبول نہیں کر سکتا اور ہماری دوستی نہیں چل سکتی، اب جا اور یہ کام کر! تو عقبہ گیا اور ابی بن خلف کے کہنے پر العیاذ باللہ یہ کام کر گزرا۔ پھر یہ دونوں بدر میں قتل ہوئے۔
تو فرمایا کہ یہی عقبہ قیامت کو یہی باتیں کرے گا:
﴿یٰوَیۡلَتٰی لَیۡتَنِیۡ لَمۡ اَتَّخِذۡ فُلَانًا خَلِیۡلًا ﴿۲۸﴾﴾
اے کاش! میں ابی بن خلف کو اپنا دوست نہ بناتا اور آج یہ جہنم اور ذلت کی سزا مجھے نہ بھگتنی پڑتی!
یہ واقعہ تو خاص ہے لیکن آپ یہ تو سمجھتے ہیں کہ اصول تفسیر کا ایک مسلمہ ضابطہ ہے :
”اَلْعِبْرَۃُ بِعُمُوْمِ اللَّفْظِ لَا بِخُصُوْصِ السَّبَبِ“
آیات اپنے مورد کے ساتھ خاص نہیں ہوتی وہاں عموم الفاظ کا اعتبار ہوتاہے اور شان نزول کےباہر بھی آپ اس کو بیان فرما سکتے ہیں۔ آج بھی جب انسان گناہ کرتا ہے تو اس گناہ کی بہت بڑی وجہ دوستی ہوتی ہے۔ اللہ ہمیں یہ بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
تقدیر؛ علمِ الٰہی اور امرِ الہی دونوں کامجموعہ ہے:
﴿وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا مِّنَ الۡمُجۡرِمِیۡنَ ؕ وَ کَفٰی بِرَبِّکَ ہَادِیًا وَّ نَصِیۡرًا ﴿۳۱﴾﴾
اللہ نے اپنے پیغمبر کو تسلی دی ہے کہ یہ جو آپ کے سامنے باتیں کرتے ہیں، الزام لگاتے ہیں، آپ کی بات نہیں مانتے تو آپ حوصلہ رکھیں! یہ معاملہ آپ کے ساتھ نہیں ہے بلکہ ہر نبی کے ساتھ ان کے دور میں ایسا ہوتا تھا۔
یہاں ایک سوال سمجھیں:
﴿وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ﴾
سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ ہر دور میں ہر نبی کے لیے دشمن خود بناتے ہیں تو پھر دشمن کا کیا قصور ہے؟
اس سوال کا جواب سمجھنے سے پہلے تقدیر کا معنی سمجھیں! عام بندے سمجھتے ہیں کہ تقدیر صرف امر ِالہی کا نام ہے حالانکہ تقدیر صرف امر ِالہی کا نام نہیں ہے بلکہ علمِ الہی اور امر ِالہی دونوں کے مجموعے کا نام تقدیر ہے۔ اللہ کے علم میں تھا کہ میں فلاں بندے کو اختیار دوں گا تو وہ بندہ اپنے اختیار سے یہ کام کرے گا۔ یہ ”علمِ الٰہی“ ہوا، اور اللہ نے اس کو لکھ دیا کہ فلاں بندہ یہ کام کرے گا تو یہ ”امرِالٰہی“ ہوا۔ اب علمِ الٰہی؛ امرِ الٰہی کے خلاف ہو یا امرِ الٰہی؛ علمِ الٰہی کے خلاف ہو ایسا نہیں ہو سکتا۔ تو تقدیر صرف ”علمِ الٰہی“ کا نام نہیں بلکہ تقدیر علمِ الہی اور امرِ الہی کے مجموعے کا نام ہے۔ اور بندہ مجبور محض ہو ایسا بھی نہیں کیونکہ ہونا بندے کے اختیار کے ساتھ تھا۔ یہ ہے تقدیر کا معنی!
اب اشکال کا جواب سمجھیں کہ
﴿وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا﴾
کا معنی یہ ہے کہ اللہ کے علم میں تھا کہ میں نبی بھیجوں گا، پھر لوگوں کو اختیارات دوں گا تو کچھ اختیار سے مانیں گے اور کچھ اختیار سے دشمن بنیں گے۔ تو خدا نے لکھ دیا کہ ہر نبی کے ساتھ دشمن ہوں گے۔ اس لیے نہیں کہ خدانے لکھ دیا ہے تو دشمن ہو گئے بلکہ خدا کے علم میں تھا کہ ہوں گے تو لکھ دیا اور کوئی کام خدا کے علم کے خلاف نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہتے ہیں کہ اللہ کی تقدیر کے خلاف کچھ بھی نہیں ہوتا۔
خواہشات کو خدا بنانے کا معنی:
﴿اَرَءَیۡتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ ؕ اَفَاَنۡتَ تَکُوۡنُ عَلَیۡہِ وَکِیۡلًا ﴿ۙ۴۳﴾﴾
یہاں اللہ رب العزت نے فرمایا کہ بہت سارے لوگ ہیں جو اپنی خواہش کو خدا بنا لیتے ہیں۔ اپنی خواہش کو خدا بنانے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اللہ کی بات چھوڑے اور اپنی خواہش کے مطابق کام کرے۔
صفتِ ملکیت صفتِ بہیمیت:
﴿اَمۡ تَحۡسَبُ اَنَّ اَکۡثَرَہُمۡ یَسۡمَعُوۡنَ اَوۡ یَعۡقِلُوۡنَ ؕ اِنۡ ہُمۡ اِلَّا کَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ سَبِیۡلًا ﴿٪۴۴﴾﴾
یہاں کفار کے بارے میں فرمایا کہ یہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ جانور سے بھی بد تر ہیں۔
اس کی دو وجوہات ذہن نشین فرما لیں! ایک وجہ تو میں عام طور پر پیش کرتا ہوں۔ اللہ رب العزت نے انسان کی فطرت میں گناہ کرنے کا مادہ بھی رکھاہے اور اس گناہ کو کنٹرول کرنے کی قوت بھی رکھی ہے۔ ہم اس کو سمجھانے کے لیے یو ں کہتے ہیں کہ اللہ نے ہر بندے کی جبلت میں دو چیزیں رکھی ہیں:
1: ملکیت 2: بہیمیت
” ملکیت“ کا معنی ہے فرشتہ پن اور بہیمیت کا معنی ہے ڈنگر پن۔ فرشتہ پن کا معنی مان کر چلنا اور ڈنگر پن کا معنی من مانی کرنا۔ تو جب انسان کے مزاج میں من مانی ہے اور جانور کے مزاج میں من مانی ہے تو جب یہ من مانی کرتاہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
﴿کَالۡاَنۡعَامِ ﴾
کہ یہ جانور کی طرح ہو گیا ہے کہ جانور کا کام من مانی کرنا تھا اور یہ بھی من مانی کر رہا ہے۔ مزید یہ کہ جانور کی فطرت میں مان کر چلنا نہیں تھا ااور اس کی فطرت میں مان کر چلنا بھی تھا لیکن پھر بھی من مانی کر رہا ہے تو فرمایا
﴿بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ سَبِیۡلًا﴾
یہ جانور سے بھی بد تر ہو گیا ہے۔
میں اس کی مثال دیتا ہوں۔ یہاں سرگودھا سے اسلام آباد ایک کوچ نان اے سی چلتی ہے اورایک اے سی والی چلتی ہے۔ اے سی والی کوچ کا کرایہ زیادہ ہے۔ آپ اے سی کوچ میں پانچ سو روپے دے کر بیٹھتے ہیں۔ راستے میں اے سی کوچ کا ائیر کنڈیشن خراب ہو گیا۔ اب نان اے سی کی کھڑکیا ں کھلی ہیں اور ہوا چل رہی ہے لیکن اے سی کوچ میں حبس ہے۔ کرایہ بھی زیادہ لیا۔ اب راستے میں آپ اے سی کوچ کو کیا کہتے ہیں کہ ”یہ نان اے سی کی طرح ہے“ یا ”نان اے سی سے بھی بدتر ہے“ نان اے سی سے بھی بد تر ہے۔ کیونکہ نان اے سی میں اے سی تھا بھی نہیں اور کام کرتا بھی نہیں تھا اور اس میں اے سی ہے اور پھر بھی کام نہیں کرتا تو یہ نان اے سی سے بد تر ہے۔
فرمایا:
﴿اِنۡ ہُمۡ اِلَّا کَالۡاَنۡعَامِ ﴾
کہ یہ جانوروں کی طرح ہیں
﴿بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ سَبِیۡلًا﴾
یہ جانور کی طرح تو ہے کہ جانور من مانی کرتاہے اور یہ بھی من مانی کرتا ہے لیکن جانور کے مزاج میں مان کر چلنا نہیں تھا اس لیے من مانی کرتا ہے اور اس کے مزاج میں مان کر چلنا تھا پھر بھی من مانی کرتاہے تو یہ اس سے بھی بدتر ہے۔
زنانِ مصر کے جملے کی وضاحت:
حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ آپ کے ذہن میں ہو گا۔ زلیخا کو جب مصر کی عورتوں نے طعنہ دیا تو زلیخا نے کہا کہ تم نے یوسف علیہ السلام کو دیکھا ہے؟ کہا کہ نہیں دیکھا۔ اس نے کہا : تم نے اس غلام کو دیکھا نہیں، اگر دیکھ لیتی تو مجھے کبھی بھی طعنہ نہ دیتی۔ خیر اس نے دکھانے کے لیے دستر خوان لگایا۔ پھل رکھے چھریاں رکھیں۔ قرآن کریم میں ہے:
﴿وَ اٰتَتۡ کُلَّ وَاحِدَۃٍ مِّنۡہُنَّ سِکِّیۡنًا﴾
اس نے ہر عورت کو چھری دے دی اور پھل رکھ دیے۔ یوسف علیہ السلام سے کہا:
﴿اخۡرُجۡ عَلَیۡہِنَّ﴾
آپ تشریف لائیں! یوسف علیہ السلام جب باہر آئے۔ نبی تھے، علم غیب نہیں ہے، کیا پتا کہ باہر کیا تماشا ہے۔ جب ان عورتوں نے دیکھا
﴿وَ قَطَّعۡنَ اَیۡدِیَہُنَّ﴾
تو اپنی انگلیاں کاٹیں اور زبان سے جملہ کہا :
﴿مَا ہٰذَا بَشَرًا﴾
یہ بشر نہیں ہے۔ اب دیکھو! یوسف علیہ السلام بشر تھے اور یہ کہتی ہیں کہ بشر نہیں ہے اور پورے قرآن میں اللہ نے ان کے جملے کی تردید نہیں کی۔ جس سےمعلوم ہوتا ہے کہ ان کا جملہ ٹھیک ہے۔
اب بظاہر یہ ہمارے اھل السنۃ و الجماعۃ احناف دیوبند کے عقیدے کے خلاف ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نبی ہیں اور ہم نبی کو بشر مانتے ہیں۔ وہ عورتیں ان کو بشر نہیں کہتیں اور قرآن تردید نہیں کر رہا تو جب قرآن کوئی بات ذکر کرے اور تردید نہ کرے تو وہ ہماری شریعت ہوتی ہے۔ تو جب تر دید نہیں کی تو بظاہر پتا چلتا ہے کہ وہ جملہ ٹھیک تھا۔
ہم کہتے ہیں کہ یوسف علیہ السلام بشر یعنی انسان ہیں اور انسان کی فطرت میں تقاضا گناہ بھی ہوتا ہے اور تقاضائے گناہ کے کنٹرول کرنے کی طاقت بھی ہوتی ہے۔ تقاضائے گناہ کو ”بہیمیت“ کہتےہیں اور تقاضائے گناہ کے کنٹرول کرنے کی طاقت کو ”ملکیت“ کہتے ہیں۔ تو جو ان عورتوں نے کہا تھا:
﴿مَا ہٰذَا بَشَرًا﴾
تو اس میں بشریت کی نفی نہیں ہے بلکہ بشریت کی ضمن میں بہیمیت کی نفی ہے۔ مطلب یہ کہ یہ وہ بشر نہیں ہے جو گناہ کرتا ہو، دلیل یہ ہے کہ
﴿اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا مَلَکٌ کَرِیۡمٌ﴾
یہ وہ بشر نہیں ہے جو گناہ کرے، یہ وہ بشر ہے جوگناہ نہ کرے، اور جو گناہ نہ کرے اسے
”مَلَکٌ“
کہتے ہیں، پھر صرف
”مَلَکٌ“
نہیں کہا بلکہ
”مَلَکٌ کَرِیۡمٌ“
کہا۔ کیونکہ جس ذات کی طبیعت میں گناہ کا تقاضا نہ ہو اور وہ گناہ نہ کرے اسے
”مَلَکٌ“
کہتے ہیں اور جس ذات کی طبیعت میں گناہ کا تقاضا ہو اور پھر بھی گناہ نہ کرے تو اسے
”مَلَکٌ کَرِیۡمٌ“
کہتے ہیں۔
ہم اہلِ بدعت سے کہتے ہیں کہ اگر یہ تمہاری دلیل ہے تو تمہارے دعویٰ کے مطابق تو نہیں ہے۔ کیونکہ تمہارا دعویٰ یہ ہے کہ ”نبی بشر نہیں ہوتا“ لیکن تمہارا یہ دعویٰ تو نہیں کہ ”نبی فرشتہ ہوتا ہے“۔ یہ تمہاری دلیل تب بنتی جب تمہارا دعویٰ ہوتا کہ نبی بشر نہیں ہوتا بلکہ فرشتہ ہوتا ہے۔ تم کہتے ہو کہ ”نبی فرشتہ نہیں ہوتا“ اور وہ عورتیں کہہ رہی ہیں کہ ”یہ فرشتہ ہے“... تو تردید جس طرح
﴿مَا ہٰذَا بَشَرًا﴾
کی نہیں ہے اسی طرح تردید
﴿اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا مَلَکٌ کَرِیۡمٌ﴾
کی بھی نہیں ہے تو بتاؤ! یہ تمہاری دلیل کیسے بنی؟
سائے کا کم زیادہ ہونا:
﴿اَلَمۡ تَرَ اِلٰی رَبِّکَ کَیۡفَ مَدَّ الظِّلَّ ۚ وَ لَوۡ شَآءَ لَجَعَلَہٗ سَاکِنًا ۚ ثُمَّ جَعَلۡنَا الشَّمۡسَ عَلَیۡہِ دَلِیۡلًا ﴿ۙ۴۵﴾﴾
اللہ رب العزت نے اپنی قدرت بتائی ہے کہ دیکھو! اللہ سائے کو کیسے پھیلا دیتا ہے اور اگر اللہ چاہتا تو سائے کو ایک ہی جگہ ٹھہرا کر رکھتا۔ پھر اللہ نے سورج کو اس پر دلیل بنا دیا ہے۔
جب سورج نکلتا ہے تو سایہ مغرب کی طرف بڑھتا ہے۔ جب سورج زوال کے وقت اوپر آتا ہے تو سایہ سمٹ جاتا ہے یا کالعدم ہو جاتا ہے۔ جب سورج مغرب کی طرف جاتا ہے تو سایہ مشرق کی طرف جاتا ہے۔ اللہ فرماتے ہیں:
﴿ثُمَّ قَبَضۡنٰہُ اِلَیۡنَا قَبۡضًا یَّسِیۡرًا ﴿۴۶﴾﴾
پھر ہم آہستہ آہستہ اس سائے کو اپنی طرف سمیٹتے رہتے ہیں۔ سورج مغرب کی طرف جا رہا ہے توسایہ سمٹ رہا ہے، جب شام ہوتی ہے توسایہ ختم ہو جاتا ہے۔
یہاں
﴿قَبَضۡنٰہُ اِلَیۡنَا﴾
سے کیا مراد ہے کہ ہم سائے کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں! آپ کو یاد ہو گا، میں نے عرض کیا تھا کہ
﴿بَلۡ رَّفَعَہُ اللہُ اِلَیۡہِ﴾
النساء4: 158
والی آیت کے تحت علامہ فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
اَلْمُرَادُ الرَّفْعُ اِلٰی مَوْضِعٍ لَایَجْرِیْ فِیْہِ حُکْمُ غَیْرِ اللّٰہِ.
التفسیر الکبیر للرازی: ج11 ص104
کہ جہاں ظاہری حکم بھی اللہ کا ہو اور حقیقی حکم بھی اللہ کا ہو تو وہاں نسبت اللہ اپنی طرف کرتے ہیں۔ یہاں اس آیت
﴿ثُمَّ قَبَضۡنٰہُ اِلَیۡنَا﴾
میں سائے کے سمٹ جانے کا ذکر ہے تو اس میں ظاہری اختیار بھی اللہ کا ہے اورحقیقی اختیار بھی اللہ کا ہے۔ اس لیے اس کو اللہ اپنی طرف منسوب کرتے ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ جہت سے پاک ہیں، جسم سے پاک ہیں اور مکان سے پاک ہیں۔
نعمت الہیہ:
﴿وَ ہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَ لَکُمُ الَّیۡلَ لِبَاسًا وَّ النَّوۡمَ سُبَاتًا وَّ جَعَلَ النَّہَارَ نُشُوۡرًا ﴿۴۷﴾﴾
اللہ نے اپنی قدرتیں بیان کی ہے۔ اللہ نے رات کو لباس بنایا۔ جس طرح لباس اپنے پورے جسم کو ڈھانپ لیتا ہے اسی طرح رات پوری انسانیت کو ڈھانپ لیتی ہے۔
﴿وَّ النَّوۡمَ سُبَاتًا﴾
نیند کو راحت کا ذریعہ بنایا۔
”سَبْتٌ“
کا معنی ”کاٹنا“ ہوتا ہے اور نیند بھی چونکہ تھکاوٹ کو کاٹ کر رکھ دیتی ہے اس لیے اس کو
” سُبَاتًا“
فرمایا۔
﴿وَّ جَعَلَ النَّہَارَ نُشُوۡرًا ﴿۴۷﴾﴾
اور دن کو زندگی بنایا ہے۔ یعنی دن میں بندہ اٹھ کر چلتا ہے اس لیے اس کو فرمایا ہے کہ ہم نے دن کو زندگی بنا دیا ہے۔ یہ اللہ کا کرم ہے کہ را ت آتی ہے تو سب کو نیند آتی ہے، دن ہوتا ہے تو سارے جاگتے ہیں۔ اگر اللہ یوں نہ فرماتے تو کسی کے دل میں رات کو سونا ہوتا، کسی کے دل میں دن کو سونا ہوتا تو پوری دنیا کا نظام درھم برھم ہو جاتا۔ خدا نے پوری انسانیت کا مزاج ایک جیسا بنا دیا ہے کہ رات کو سونا ہے اور دن کو جاگنا ہے۔ اس لیے اصل کام کا وقت دن اور سونے کا وقت رات ہے۔
قرآن کے ذریعے جہاد کرنے کا معنی:
﴿فَلَا تُطِعِ الۡکٰفِرِیۡنَ وَ جَاہِدۡہُمۡ بِہٖ جِہَادًا کَبِیۡرًا ﴿۵۲﴾﴾
کفارکی بات مت مانیں اور قرآن کریم کو لے کر کفار کا مقابلہ کریں۔
یہاں ”جہاد“ کا معنی جہاد نہیں کرنا، جہاد کا معنی مقابلہ کرنا ہے۔ پھر اشکالات ختم ہو جائیں گے۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین فرمائیں۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ جہاد ہر اس کام کو کہتے ہیں جس میں مشقت ہو۔ دلیل یہ ہے کہ اللہ نے دعوت بالقرآن کو جہاد فرمایا، لہذا جہاد کا معنی قتال نہیں کرنا چاہیے۔ جب کوئی یہ بات کرے تو آپ ان سے پہلاسوال یہ کریں کہ جہاد فرض مکہ میں ہوا یا مدینہ میں؟ وہ کہیں گے: مدینہ میں۔ آپ کہیں کہ یہ آیت تو مکی ہے، تو جب جہاد مدینہ میں فرض ہوا تو مکہ میں اللہ کس کو جہاد فرما رہے ہیں؟ معلوم ہوا کہ یہ بات غلط ہے جو آپ نے کی ہے۔
ہاں بسا اوقات قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ لغوی معنی کولے کر جہاد کا لفظ استعمال فرماتے ہیں۔ اس کا معنی ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ اس سے قتال کی نفی ہو رہی ہے۔ لغوی معنی استعمال ہو رہا ہے او ر لغۃً مشکل کا م کو جہاد کہا جائے تو ہم بھی اس کے مخالف نہیں لیکن شرعاً، اصطلاحاً اور عرفاً جہاد کامعنی صرف قتال ہے۔
نسبی و سسرالی رشتے:
﴿وَ ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ مِنَ الۡمَآءِ بَشَرًا فَجَعَلَہٗ نَسَبًا وَّ صِہۡرًا﴾
وہی ذات ہے جس نے پانی کے قطرے سے انسان بنایا ہے، پھر اس کو نسبی تعلقات بھی دیے اور سسرالی تعلقات بھی دیے۔
”نَسَبًا“
کہتے ہیں جو ماں اور باپ کی طرف سے رشتہ ہو اور
”صِهْرًا“
کہتے ہیں جو بیوی کی طرف سے رشتہ ہو۔ ایک گندہ قطرہ پانی تھا اور خدا نے کتنے تعلقات اس کے ساتھ جوڑ دیے ہیں۔
پیغمبر کی صفات کا خلاصہ:
﴿وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّ نَذِیۡرًا ﴿۵۶﴾ ﴾
پیغمبر کی جتنی صفات ہیں ان کا خلاصہ دوصفتیں ہیں: مبشر اور نذیر۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ دین خلاصتاً دو چیزوں کا نام ہے،
﴿وَ مَاۤ اٰتٰىکُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوۡہُ ٭ وَ مَا نَہٰىکُمۡ عَنۡہُ فَانۡتَہُوۡا﴾
اوامر اور نواہی۔
اللہ فرماتے ہیں:
﴿ فَمَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ خَیۡرًا یَّرَہٗ ؕ﴿۷﴾ وَ مَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ ٪﴿۸﴾﴾
الزلزال99: 7، 8
اس لیے خیر کو لینا ہے اور شر سے بچناہے۔ اوامر پر عمل کرنا ہے اور نواہی سے بچناہے۔
اور موت کے بعد ابدی اور دائمی ٹھکانے دو ہی ہیں: جنت یا جہنم۔ ”بَشِیْراً“ کا معنی کہ جنت کی طرف بلاتا ہے اور ”نَذِیْراً “ کامعنی کہ جہنم سے بچاتا ہے۔ تو ہمارے ذمے کام ہے کہ پیغمبر کے وصف بشیر کو بھی اختیار کریں اور نبی کی صفتِ نذیر کو بھی اختیار کریں۔
جو یہ کہتے ہیں کہ صفت بشیر ہی کو لیں تو وہ آدھے دین کی بات کرتے ہیں، ہم مرکز سے آدھے دین کی نہیں بلکہ پورے دین کی بات کرتے ہیں۔ اگر اللہ قرآن میں کہتے ہیں کہ نکاح کرو تو ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ زنا نہ کرو! اور یہ کہا ہے کہ حلال پانی پیو تو یہ بھی کہا ہے کہ شراب نہ پیو! اگر یہ کہا ہے کہ حلال جانور کھاؤ تو یہ بھی کہا ہے کہ خنزیر مت کھاؤ! اگر یہ کہا ہے کہ توحید اختیار کرو تو یہ بھی کہا ہے کہ شرک سے بچو! اگر حکم ہے کہ سنت پر چلو تو یہ بھی حکم ہے کہ بدعت سے بچو! اس لیے نبی کا صحیح وارث وہ ہے جو امت کو دونوں باتیں بتائے کہ آپ نے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا!
دینی امور پر اجرت کا جواز:
﴿قُلۡ مَاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ مِنۡ اَجۡرٍ ﴾
اے پیغمبر! آپ فرما دیجیے کہ میں تمہیں دین کی بات بتاتا ہوں لیکن اس پر میں تم سے اجر نہیں مانگتا۔
اس آیت کو سمجھیں گے تو اشکال ختم ہو جائے گا۔
یہاں مسئلہ چلتا ہے کہ اجرت علی تعلیم الدین جائز ہے یا نہیں؟ دین کا کام کریں تو اس پر اجرت لینا جائز ہے یا نہیں؟ یاد رکھنا! ایک ہے کہ آدمی دین کا کام کرے اور اجرت کے لیے کرے یہ سوال ہے، ایک ہے کہ دین کا کا م کرے اور اجرت کے لیے نہ کرے یہ اجرت علی تعلیم الدین نہیں ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تجارت فرماتے تھے لیکن جب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کا کام شروع کیا تو تجارت آپ نے چھوڑ دی، پھر آپ کا گزر بسر کہاں سے ہوتا تھا؟ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا مال تھا، حضرت خدیجہ اپنے شوہر کو مال دے رہی تھیں یا نبی کو دے رہی تھیں؟ (نبی کو دے رہی تھیں۔ سامعین) شوہر کے ذمہ بیوی کا خرچہ ہے یا بیوی کے ذمہ شوہر کا خرچہ ہے؟ (شوہر کے ذمہ بیوی کا خرچ ہے۔ سامین) اب حضرت خدیجہ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مال دے رہی ہیں تو یہ نبی کو دے رہی ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں تجارت نہیں کی، صحابہ رضی اللہ عنہم ہدایا دیتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایہ ملتے تو تھے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ میں تم سے مانگتا نہیں ہو ں۔ اس سے ایک بات تو یہ سمجھیں کہ دین کا کام پیسوں کے لیے کرنا یہ حرام ہے، دین کا کام کریں اور ضرورت کے تحت پیسے آپ کو ملیں اور آپ لے لیں تو یہ جائز ہے۔
اور دوسری بات اچھی طرح سمجھیں! یہ جو اللہ کے نبی نے فرمایا تھا:
﴿مَاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ مِنۡ اَجۡرٍ ﴾
یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا تھا یا کفار سے فرمایا تھا؟ (کفار کو۔ سامعین) کفار مخالف تھے یا معتقد تھے؟ (مخالف تھے۔ سامعین) اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مخالف! میں تم سے پیسے نہیں مانگتا، اللہ کے لیے دین بیان کرتا ہوں۔
اور آج کے دور میں اجر ت کس سے لی جاتی ہے، مخالف سے یا موافق سے؟ (موافق سے۔ سامعین) ) ہمارا مسئلہ تو موافقین کا ہے اور لوگ دلیل مخالفین کی دیتے ہیں۔ تو یہ تو دیکھو کہ دلیل دعویٰ کے مطابق ہے بھی یا نہیں؟
بھائی! آپ اپنے معتقد کے پاس جائیں، وہاں بیان کریں اور کہیں کہ میں کھانا بھی آپ کے ہاں کھاؤں گا تو بتاؤ کہ وہ آپ کا معتقد اس کو براسمجھتاہے؟ (نہیں۔ سامعین) اور آپ جائیں مشرک کو بات سمجھانے کے لیے اور اس سے کہیں کہ جی! ہم دودھ بھی پییں گے، کیا آپ ایسے کہتے ہیں؟ (نہیں۔ سامعین) جب مخالف سے دین کی بات ہو تو آپ مخالف کو سمجھائیں تو کہتے ہیں کہ میرا کوئی ذاتی نفع نہیں ہے، میں اپنی گاڑی پر آیا ہوں، اپنا خرچ کرتا ہوں، میں آپ سے اجرت لیے بغیر آپ کی خیرخواہی کے لیے آیا ہوں۔
تو موافق کی بات الگ ہوتی ہے اور مخالف کی بات الگ ہوتی ہے۔ قرآن تو سمجھو! اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو فرما رہے ہیں ﴿مَاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ مِنۡ اَجۡرٍ﴾ تو یہ بات مشرکین سے فرما رہے ہیں، یہ صحابہ رضی اللہ عنہم سے نہیں فرما رہے تھے۔
اور مسجد کا امام جو تنخواہ لیتا ہے یہ کسی مشرک اور کافر سے نہیں لیتا، یہ اپنے معتقد سے لیتا ہے۔ اس سے یہ بات بھی سمجھیں کہ جو مخالفین ہیں وہ نہیں سمجھے تو انہوں نے اعتراض کیا ہے اور ہم نہیں سمجھے تو ہم جواب نہیں دے پائے۔
اللہ ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
عباد الرحمٰن کی صفات:
﴿وَ عِبَادُ الرَّحۡمٰنِ الَّذِیۡنَ یَمۡشُوۡنَ عَلَی الۡاَرۡضِ ہَوۡنًا وَّ اِذَا خَاطَبَہُمُ الۡجٰہِلُوۡنَ قَالُوۡا سَلٰمًا ﴿۶۳﴾﴾
ان آیات میں اللہ رب العزت نے عباد الرحمٰن کی صفات بیان فرمائی ہیں کہ عباد الرحمٰن کون ہوتے ہیں؟ ہم سب کو چاہیے کہ عباد الرحمٰن بنیں اور ان صفات کو اپنانے کی کوشش کریں۔ اللہ کے بندے کون ہیں؟ فرمایا:
1: ﴿الَّذِیۡنَ یَمۡشُوۡنَ عَلَی الۡاَرۡضِ ہَوۡنًا﴾
اکڑ کر نہیں چلتے بلکہ عاجزی سے چلتے ہیں۔
2: ﴿وَّ اِذَا خَاطَبَہُمُ الۡجٰہِلُوۡنَ قَالُوۡا سَلٰمًا﴾
جب جاہل ان سے بات کریں تو وہ ان کو سلام کہہ دیتے ہیں۔
یہاں جاہل سے مراد غیر عالم نہیں ہے۔ یہاں جاہل سے مراد جہالت والا ہے۔ بے شک عالم ہو لیکن جاہلوں کی طرح چلے۔ جس طرح حدیث پاک میں ہے :
" مَنْ تَرَكَ الصَّلَاةَ مُتَعَمِّدًا فَقَدْ کَفَرَ"
المعجم الاوسط للطبرانی: ج 2ص 299رقم الحدیث 3348
یہاں کفر کا معنی یہ نہیں کہ کافر ہو گیا بلکہ یہاں کفر کا معنی ہے کہ اس نے کافروں والا کام کیا ہے۔
تو یہاں جاہل سے مراد یہ نہیں کہ عالم نہ ہو، یہاں جاہل سے مراد ہے کہ جو جاہلوں کی طرح چلے، بعض لوگوں کے پاس علم بھی ہو گا لیکن وہ ضدی ایسے ہوتے ہیں جیسے جاہل ہوتے ہیں۔ ان کوسلام کہنے کا معنی یہ نہیں کہ السلام علیکم رحمۃ اللہ وبرکاتہ کہا جائے بلکہ سلام کا معنی یہ ہےکہ ان سے جان چھڑاؤ!
3: ﴿وَ الَّذِیۡنَ یَبِیۡتُوۡنَ لِرَبِّہِمۡ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا﴾
یہ رات گزارتے ہیں سجدے اور قیام کی حالت میں یعنی یہ تہجد کا اہتمام کرتے ہیں۔
4: ﴿وَ الَّذِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا اصۡرِفۡ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ ٭ۖ اِنَّ عَذَابَہَا کَانَ غَرَامًا﴾
اپنی زبان سے کہتے ہیں: اے اللہ! ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا دے، جہنم کا عذاب بہت سخت ہے۔
5: ﴿وَ الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَنۡفَقُوۡا لَمۡ یُسۡرِفُوۡا وَ لَمۡ یَقۡتُرُوۡا وَ کَانَ بَیۡنَ ذٰلِکَ قَوَامًا﴾
میانہ روی کرتے ہیں، نہ تو فضول خرچی کرتےہیں اور نہ ہی بخل سے کام لیتے ہیں،
﴿وَ کَانَ بَیۡنَ ذٰلِکَ قَوَامًا﴾
بلکہ یہ اعتدال کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔
6: ﴿وَ الَّذِیۡنَ لَا یَدۡعُوۡنَ مَعَ اللہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ ﴾
اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہیں پکارتے یعنی یہ شرک نہیں کرتے۔
7: ﴿وَ لَا یَقۡتُلُوۡنَ النَّفۡسَ الَّتِیۡ حَرَّمَ اللہُ اِلَّا بِالۡحَقِّ﴾
ناحق کسی کو قتل نہیں کرتے۔
8: ﴿وَ لَا یَزۡنُوۡنَ﴾
یہ زنا نہیں کرتے۔ زنا کا معنی صرف یہ نہیں کہ آدمی بد فعلی کرے۔ حدیث پاک میں ہے کہ ہاتھ کا زنا پکڑنا ہے، آنکھ کا زنا دیکھنا ہے۔ تو یہ سب زنا کی قسمیں ہیں۔
﴿وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡ ذٰلِکَ یَلۡقَ اَثَامًا ﴿ۙ۶۸﴾ یُّضٰعَفۡ لَہُ الۡعَذَابُ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ وَ یَخۡلُدۡ فِیۡہٖ مُہَانًا ﴿٭ۖ۶۹﴾﴾
جو شخص بھی یہ کام کرے گا تو اپنے کیے کی سزا بھگتے گا، قیامت کے دن اس کو دگنا عذاب بھی ہو گا اور ذلیل ہو کر ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جو اللہ فرما رہے ہیں
﴿وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡ ذٰلِکَ یَلۡقَ اَثَامًا﴾
تو یہ کفر کا عذاب بیان فرما رہے ہیں یعنی
﴿لَا یَدۡعُوۡنَ﴾
کی ضد ہو گی
”يَدْعُوْنَ“۔
اگر اللہ کے ساتھ کسی اِلٰہ کو پکارے یعنی کفر کرے اور ساتھ قتل بھی کرےتو اس کا عذاب کیا ہو گا؟ دوام ہو گا کیونکہ کفر ہے اور ذلیل بھی ہو گا۔ اس کی وجہ میں بتا چکا ہوں کہ مؤمن فاسق اگر جہنم میں جائے گا تو اس کو ذلیل نہیں کیا جائے گا بلکہ گناہوں سے پاک کیا جائے گا۔ مؤمن کا جہنم میں جانا ذلت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ گناہوں سے پاک ہونے کی وجہ سے ہے۔ اس لیے مؤمن کو جہنم میں جو عذاب ہو گا اس کو حقیقتاً عذاب نہیں کہتے، ہاں صورت عذاب کی ہوتی ہے درحقیقت تزکیہ ہوتا ہے۔ عذاب اور ہے اور تزکیہ اور ہے۔
﴿اِلَّا مَنۡ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللہُ سَیِّاٰتِہِمۡ حَسَنٰتٍ ؕ وَ کَانَ اللہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿۷۰﴾﴾
جو توبہ کرے، ایمان لائے اور نیک عمل کرے تو اللہ اس کے گناہوں کو نیکیوں سے بدل دیتے ہیں۔ اللہ غفور ہیں کہ گناہوں کو معاف کر دیتے ہیں اور اللہ رحیم ہیں کہ پھر بدل کر نیکیاں عطا فرما دیتے ہیں۔
جب اللہ دو صفتیں اکٹھی ذکر فرمائیں تو عام طور پر پہلی صفت دعویٰ ہوتی ہے اور دوسری دلیل ہوتی ہے۔ اللہ رب العزت ”غفور“ ہیں کیوں؟ اس لیے کہ تم مستحقِ رحمت ہو اور اس لیے بھی کہ وہ ”رحیم“ بھی ہے۔
9: ﴿وَ الَّذِیۡنَ لَا یَشۡہَدُوۡنَ الزُّوۡرَ ۙ﴾
فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔
10: ﴿وَ اِذَا مَرُّوۡا بِاللَّغۡوِ مَرُّوۡا کِرَامًا﴾
اور جب گناہ کی جگہ سے گزریں تو گزر جاتے ہیں، وہاں کھڑے نہیں ہوتے۔
11: ﴿وَ الَّذِیۡنَ اِذَا ذُکِّرُوۡا بِاٰیٰتِ رَبِّہِمۡ لَمۡ یَخِرُّوۡا عَلَیۡہَا صُمًّا وَّ عُمۡیَانًا﴾
جب قرآن کریم کی آیات پڑھیں تو اندھے اور بہرے ہو کر مشرکین کی طرح گرتے نہیں ہیں بلکہ قرآن کو سمجھتے ہیں، اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور عمل کرتے ہیں۔
12: ﴿وَ الَّذِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا ہَبۡ لَنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعۡیُنٍ وَّ اجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا﴾
اور یہ کہتے ہیں کہ اللہ! ہماری گھر والیوں اور ہماری اولاد کو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک کا ذریعہ بنا اور ہمیں متقین کا امام بنا!
اب دیکھو! اس سے کیا بات ثابت ہو رہا ہے؟ کہ متقین کا پیشوا بننا یہ بری چیز نہیں ہے۔ دعا مانگتے ہیں کہ اے اللہ! ہمیں متقین کا پیشوا بنا دے! کیا معنی کہ ہم نیکی کا ایسا کام کریں کہ لوگ ہمیں دیکھ کر نیکیاں کریں، وہ نیکیاں کریں گے تو ان کا ثواب ہمیں بھی ملے گا۔
﴿اُولٰٓئِکَ یُجۡزَوۡنَ الۡغُرۡفَۃَ بِمَا صَبَرُوۡا وَ یُلَقَّوۡنَ فِیۡہَا تَحِیَّۃً وَّ سَلٰمًا﴿ۙ۷۵﴾ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ حَسُنَتۡ مُسۡتَقَرًّا وَّ مُقَامًا ﴿۷۶﴾﴾
اللہ ان کو صبر کی وجہ سےجنت کے بالا خانے دیں گے، وہاں ان کا استقبال دعاؤں اور سلام کے ساتھ کیا جائے گا۔ ان میں ہمیشہ رہیں گے، یہ بہت بہترین ٹھکانہ ہے۔
منکرین کو تنبیہ:
﴿قُلۡ مَا یَعۡبَؤُا بِکُمۡ رَبِّیۡ لَوۡ لَا دُعَآؤُکُمۡ ۚ فَقَدۡ کَذَّبۡتُمۡ فَسَوۡفَ یَکُوۡنُ لِزَامًا ﴿٪۷۷﴾﴾
اے پیغمبر! آپ فرما دیجیے کہ اگر تم اللہ کو نہیں پکارتے تو اللہ کو تمہاری کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اب جبکہ تم نے جھٹلا ہی دیا ہے تو اب اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ تمہیں عذاب ضرور ملے گا۔
اللہ ہم سب کو شریعت سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․