سورۃ الشعراء

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ الشعراء
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿ طٰسٓمّٓ ﴿۱﴾ تِلۡکَ اٰیٰتُ الۡکِتٰبِ الۡمُبِیۡنِ ﴿۲﴾ ﴾
حروفِ مقطعات:
﴿طٰسٓمّٓ ﴿۱﴾ ﴾
یہ تینوں حروف مقطعات میں سے ہیں۔ ”مقطعات“ قطع سے ہے، قطع کا معنی ہے کاٹنا۔ چونکہ ان کو اکٹھا نہیں پڑھتے بلکہ کاٹ کاٹ کر الگ الگ پڑھتے ہیں جیسے طا․․․ سین․․․ میم․․․ اس لیے ان کو حروف مقطعات کہتے ہیں اور قرآن کریم میں حروف مقطعات جہاں پر بھی ہیں یہ متشابہات میں سے ہیں۔ متشابہات ان کو کہتے ہیں جن کا معنی اللہ کے علاوہ کسی کو معلوم نہ ہو۔
بعض لوگوں نے ان دنوں میں ایک نیا نظریہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ قرآن کریم کی بعض آیات پہلے متشابہات تھیں اب وہ آیات متشابہات نہیں ہیں، کیونکہ اب لغت عام ہورہی ہے، تحقیقات ہو رہی ہیں اور الفاظ کے معانی اب کھل کر سامنے آرہے ہیں، اس لیے یہ الفاظ متشابہات نہیں رہے۔
متَشابہ اور مشتبہ میں فرق:
یہ بات یاد رکھیں کہ متشابہ الگ چیز ہے اور مشتبہ الگ چیز ہے، بعض لوگوں نے متشابہ کو مشتبہ سمجھا اور کہا کہ یہ آیات مشتبہ ہیں یعنی ان کا معنی مشتبہ ہے، ان کے معنی پر پہلے شبہات تھے، اب تحقیق ہو گئی ہے تو شبہات ختم ہوگئے۔“ میں عرض کرتا ہوں کہ متشابہات کا معنی مشتبہ ہونا نہیں ہے، مشتبہ ہونا اور ہوتا ہے اور متشابہ ہونا اور بات ہے۔ مثلاً قرآن کریم کی یہ آیت ”الٓـمّٓ “ متشابہ ہے کہ اس کا معنی اللہ ہی کو معلوم ہے، اللہ کے علاوہ کوئی اس کا معنی نہیں جانتا، یہ آیت مشتبہ نہیں ہے کہ اس پر پہلے شبہات تھے اور تحقیق سے ختم ہو گئے۔ ان دونوں میں فرق اچھی طرح سمجھ لیں۔ ہاں اگر بعض آیات بعضوں کے لیے مشتبہ ہوں کہ ان کا معنی نہ کھلے اور تحقیق کریں تو معنی کھل جائے تو یہ بات اور ہے۔ تو ہم یہ نہیں کہتے کہ قرآن کریم کی بعض آیات محکمات ہیں اور بعض مشتبہات ہیں بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ بعض آیات محکمات ہیں اور بعض متشابہات ہیں۔ متشابہات اور چیز ہیں اور مشتبہات اور چیز ہیں۔
پیغمبر پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی فکرِ امت:
﴿لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفۡسَکَ اَلَّا یَکُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۳﴾﴾
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی بے حد فکر تھی کہ لوگ کلمہ پڑھیں، دین پر آئیں اور جنت میں جائیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کڑھتے بھی بہت تھے، محنت بھی فرماتے تھے، لوگوں کی باتیں برداشت بھی بہت فرماتے تھے تو اللہ رب العزت نے یہ بات سمجھائی کہ اگر یہ لوگ آپ کی بات نہ مانیں تو کیا آپ اپنے آپ کو ختم کردیں گے؟ ”بَاخِعٌ“ کا لفظ ”بَخْعٌ“ سے نکلا ہے، ”بَخْعٌ“ کہتے ہیں جانور کو ذبح کرتے کرتے اس کی گردن کی خاص رگ تک پہنچ جانے کو، اس رگ کو ”بِخَاعٌ“ کہتے ہیں۔ تو اس کا معنی یہ ہے کہ کیا آپ ان لوگوں کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالیں گے؟ آپ خود کو مار دیں گے؟اگر یہ لوگ بات مانتے ہیں تو ان کا اپنا نفع ہے، نہیں مانتے تو ان کا اپنا نقصان ہے، آپ کاکوئی نقصان نہیں بلکہ ایک مقام پر ہے:
﴿لَا یَضُرُّکُمۡ مَّنۡ ضَلَّ اِذَا اہۡتَدَیۡتُمۡ ؕ﴾
المائدۃ 5: 105
اگر آپ ہدایت پر ہیں تو گمراہ لوگ آپ کو کچھ نقصان نہیں دے سکتے۔
آپ کے ذمے سمجھانا ہے، آپ سمجھادیں اور زیادہ فکر نہ کریں۔ اس سے یہ مسئلہ کھل کر سامنے آتا ہے کہ کسی بندے کو نیکی پر لانے کے لیے خود گناہ کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ کسی بندے کو سنت پر لانے کے لیے بدعت کا ارتکاب درست نہیں ہے کیونکہ دوسرے بندے کا سنت پر آنا یہ متوقع ہے اور ہمارا بدعت کر کے گناہِ کبیرہ کرنا متیقن ہے اور متوقع نیکی کے لیے یقینی گناہ کرنا جائز نہیں ہے۔
حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانوی نور اللہ مرقدہ فرمایا کرتے تھے: اگر کوئی شخص جہنم میں جانا چاہتا ہے تو شوق سے جائے، ہم اپنے کندھے پر بٹھا کر جہنم میں نہیں چھوڑ سکتے۔
ہدایت پر لانے کے لیے گناہ کا ارتکاب جائز نہیں:
میں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ ایک مرتبہ تبلیغ کے لیے کچھ علماء چل رہے تھے۔ ایک عالم نے مجھے فون کیا کہ لاہور میں فلاں مسجد میں ہماری جماعت ہے تو اس امام کا یہ عقیدہ ہے، اب ہم اس کے پیچھے نماز پڑھیں؟ میں نے کہا کہ بالکل نہ پڑھیں۔ اس نے کہا کہ اگر نہیں پڑھیں گے تو یہ لوگ دعوت میں جڑیں گے نہیں تو اس سے ان کی مسجد میں کام نہیں ہوگا! میں نے کہا کہ اس مسجد میں مرد ہوتے ہیں لیکن عورتیں نہیں ہوتیں۔ جس طرح مرد وں کے لیے جنت جانے کا مسئلہ ہے اسی طرح خواتین کے لیے بھی ہے۔ اگر لاہور میں کچھ اہل بدعت مرد ہیں اور آپ ان کو اھل السنۃ بناکر جنت میں لے جانا چاہتے ہیں تو لاہور میں ایسے گناہ کے اڈے بھی ہیں جہاں عورتیں زنا کرتی ہیں تو ان کو بھی زنا سے نکال کر جنت میں لے جانا چاہیے۔ اب ان کو زنا سے نکالنے کے لیے یہ حل اختیار کرنا کہ ان سے دوستی لگاؤ، زنا کرو اور جب دوستی لگ جائے پھر ان کو دین پر لے آؤ، کیا یہ جائز ہے؟ کہا: جی یہ تو جائز نہیں ہے۔
میں نے کہا کہ ایک زانیہ عورت سے زنا کر کے نکاح کی طرف لانا جائز نہیں ہے تو مبتدع آدمی کو سنت پر لانے کے لیے بدعات کر کے اپنی نماز خراب کرنا کیسے جائز ہو گا؟ فرق یہ ہے کہ زنا کی قباحت ہمارے ذہن میں ہے اور بدعت کی قباحت ہمارے ذہن میں نہیں ہے، زنا کے خلاف گفتگو ہوتی ہے تو ذہن بنا ہے کہ یہ بہت گندہ کام ہے اور بدعات کے خلاف گفتگو نہیں ہوتی تو ہمارا ذہن نہیں بنا کہ یہ بھی بہت گندہ کام ہے۔ اس لیے آپ سوشل میڈیا پر بہت سارے لوگوں کو دیکھو گے کہ وہ گندے اور فاسد العقیدہ لوگوں میں گھسے ہوتے ہیں، پوچھیں کہ کیوں؟ تو کہتے ہیں کہ جی یہ لوگ دین پر آجائیں گے۔ بات سمجھو کہ ان کو دین پر لانے کے لیے ان کے پاس جانا گناہ نہیں ہے لیکن ایسے امور کا ارتکاب کر نا کہ جس سے اپنے کمزور عقیدے والے لوگ ان اہلِ بدعت اور اہلِ کفر کو ٹھیک سمجھنا شروع کردیں تو یہ بڑی غلطی ہے۔
میں آپ کو یہاں بتاتا ہوں کہ دیکھو فلاں اہل بدعت ہے ٹھیک نہیں ہے، فلاں ملحد ہے ٹھیک نہیں ہے، پھر وہ ہمارے ادارے میں آئے، ہم اس کو کھانا بھی کھلائیں، اس کو سونے کی جگہ بھی دیں تو آپ ہم سے پوچھیں گے کہ مولانا! آپ ہمیں کہتے تھےکہ یہ ٹھیک نہیں ہےلیکن وہ آپ کے پاس آیا تو آپ نے اس کے ساتھ یہ معاملہ کیوں کیا؟ تو ہم آپ کو سمجھائیں گے کہ یہ ہمارے مہمان تھے اور مہمان کا تو حق ہوتاہے خواہ کافر ہی کیوں نہ ہو، اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ ہم ان کو ٹھیک سمجھتے ہیں، مہمان ہونے کی وجہ سے ہم نے ان کی عزت کی ہے۔ اب جب ہم یہ وضاحت کر دیں گے تو آپ کا ذہن کبھی الجھن کا شکار نہیں ہوگا۔
اس لیے آپ یہ بات اچھی طرح ذہن میں رکھ لیں۔ آپ نے کل مقتدا بننا ہے، اللہ تعالیٰ آپ سے خوب کام لے، جب آپ اہل کفر یا اہل بدعت سے کسی خاص مسئلے پر اکٹھے بیٹھیں تو اپنے ورکر کو ضرور بتائیں کہ یہ بندہ ٹھیک نہیں لیکن ہم ضرورت کے تحت اس کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ اگر یہ طریقہ اپنا لیں گے تو اس سے ورکر ٹوٹتا اورکٹتا نہیں ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکمِ تبلیغ:
﴿وَ اِذۡ نَادٰی رَبُّکَ مُوۡسٰۤی اَنِ ائۡتِ الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿ۙ۱۰﴾ قَوۡمَ فِرۡعَوۡنَ ؕ اَلَا یَتَّقُوۡنَ ﴿۱۱﴾قَالَ رَبِّ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اَنۡ یُّکَذِّبُوۡنِ ﴿ؕ۱۲﴾ وَ یَضِیۡقُ صَدۡرِیۡ وَ لَا یَنۡطَلِقُ لِسَانِیۡ فَاَرۡسِلۡ اِلٰی ہٰرُوۡنَ ﴿۱۳﴾ وَ لَہُمۡ عَلَیَّ ذَنۡۢبٌ فَاَخَافُ اَنۡ یَّقۡتُلُوۡنِ ﴿ۚ۱۴﴾﴾
اللہ رب العزت نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ فرعون کی قوم کے پاس جاؤ ، ان کو دعوت دو اور اللہ سے ڈرنے کی بات کرو! حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالی سے عرض کیا کہ اے اللہ! میں ڈر محسوس کرتا ہوں کہ وہ کہیں مجھے جھٹلا نہ دیں۔ دوسری بات یہ کہ میرا دل تنگ ہونے لگتا ہے اور میری زبان بھی نہیں چلتی اور مجھ سے ایک ایسا کام ہوا تھا کہ جس کو یہ لوگ گناہ سمجھتےہیں، ان کی نگاہوں میں ایک جرم میرے اوپر ہے۔ وہ کیا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام شہر میں نکلے تو ایک قبطی اور ایک اسرائیلی کو دیکھا کہ دونوں آپس میں جھگڑ رہے تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس قبطی کو سمجھایا لیکن وہ نہیں سمجھا ﴿فَوَکَزَہٗ مُوۡسٰی﴾ تو موسیٰ علیہ السلام نے اس کو مکا مارا، ﴿فَقَضٰی عَلَیۡہِ﴾ وہ جلالی مکا حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تھا، لگا اور بندہ مرگیا۔
دوسرے دن پھر ایسے ہوا کہ وہی اسرائیلی کسی اور سےجھگڑ رہا تھا۔ تو موسیٰ علیہ السلام نے سمجھایا لیکن وہ نہیں سمجھا تو اس کو سمجھانے کے لیے مکا اٹھایا تو اس اسرائیلی نے سمجھا کہ مجھے ماریں گے۔ اس نے کہا کہ موسیٰ! کل اس کو مارا تھا اور آج مجھے ما رہے ہیں۔ تو اس اسرائیلی کے بولنے کی وجہ سے چھپا ہوا قتل کا معاملہ کھل گیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جان بوجھ کر تو قتل نہیں کیا تھا یعنی یہ قتل عمد نہیں تھا بلکہ قتل خطا تھا جس کا گناہ نہیں ہوتا۔ موسیٰ علیہ السلام وہاں سے مدین چلے گئے۔ پھر آگے لمباقصہ ہے کہ وہاں شعیب علیہ السلام کی بیٹی سے نکاح ہوا۔ واپسی راستے میں نبوت ملی۔ واپس تشریف لائے اور اللہ تعالیٰ نے یہ ذمہ داری سونپی تو آپ علیہ السلام عرض کرنے لگے کہ اے اللہ! مجھے ایک تو یہ ڈر ہے کہ یہ مجھے جھٹلائیں گے، میں اکیلا ہوں اور یہ سارے ایک طرف ہیں تو میر ادل تنگ ہوگا، آپ میرے ساتھ میرے بھائی ہارون علیہ السلام کو بھی نبوت دےدیں تاکہ کوئی میری تائید کرنے والا ہو، اور میری زبان زیادہ کھل کر نہیں چل سکتی، اگر میں کہیں اٹکوں تو میرا بھائی بات شروع کردے، اللہ رب العزت نے موسیٰ علیہ السلام کی اس دعا کو قبول فرمایا اور حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت عطا کر کے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بھیج دیا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ جو فرمایا: ﴿وَ لَہُمۡ عَلَیَّ ذَنۡۢبٌ فَاَخَافُ اَنۡ یَّقۡتُلُوۡنِ ﴾ کہ مجھے یہ خدشہ ہے کہ وہ مجھے مار ہی نہ ڈالیں کہ تُو تو ہماری قوم کے ایک فرد کا قاتل ہے ۔ اے اللہ! اس کا کیا ہو گا؟ تو اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اس بات کے جواب میں فرمایا: ﴿کَلَّا﴾ کہ یہ تمہیں نہیں مار سکتے، ﴿فَاذۡہَبَا بِاٰیٰتِنَاۤ اِنَّا مَعَکُمۡ مُّسۡتَمِعُوۡنَ﴾ تم ہمارے دلائل لے کر جاؤ، ہم تمہارے ساتھ ہیں، تمہاری گفتگو سنیں گے۔ آگے پھر پوری گفتگوہے۔
نبی معصوم ہوتا ہے:
میں صرف ﴿وَ لَہُمۡ عَلَیَّ ذَنۡۢبٌ﴾ پر بات کرتا ہوں کہ اس کا معنی کبھی یہ نہ کرنا کہ موسیٰ علیہ السلام جرم کا اعتراف کررہے ہیں -معاذ اللہ- بلکہ جس کام کو قبطی لوگ گناہ سمجھتے تھے موسیٰ علیہ السلام نے اس کو ذکر کیا کہ ان کی نگا ہ میں ان کے بندے کا قتل یہ جرم ہے، تو ان کی نگاہ میں میں ان کا مجرم ہوں تو وہ کہیں مجھے مارنہ دیں۔ لہذا ﴿وَ لَہُمۡ عَلَیَّ ذَنۡۢبٌ﴾ سے کوئی بندہ یہ استدلال نہ کرے کہ نبی معصوم نہیں ہوتا۔
طبعی اور عقلی خوف:
اور یہ جو موسیٰ علیہ السلام خوف کی بات کرتے ہیں تو سمجھ لیں کہ ایک ہوتا ہے عقلی خوف اور ایک ہوتاہے طبعی خوف، ﴿فَاَخَافُ اَنۡ یَّقۡتُلُوۡنِ﴾ میں جس خوف کا ذکر کیا ہے یہ طبعی خوف تھا عقلی خوف نہیں تھا۔ طبعی اور عقلی خوف میں فرق یہ ہے کہ مثلاً ہمیں عقلاً محبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے والدین اوربچوں اور بیوی سے زیادہ ہے لیکن طبعاًجو محبت ہے وہ کھانے سے زیادہ ہے، گھر والوں سے زیادہ ہے، ماں باپ سے زیادہ ہے۔ عقل اور طبیعت میں فرق کا پتا اس وقت چلتاہے جب عقلی اور طبعی محبت میں تقابل ہوجائے تو پھر پتا چلتاہے کہ ایمان کیاہے۔
یعنی اگر کوئی بندہ یہ کہے کہ میں تمہاری والدہ کو گالی دوں یاتمہارے نبی کو؟ توہم کہیں گے کہ اگر آپ نے ضرور گالی دینی ہے تو ہماری ماں کودے دو، ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ نہ کہنا۔ اب دیکھو! عقلی محبت طبعی محبت پر غالب آگئی، اسی کا نام ایمان ہے۔ عام طور پرعقلی محبت مغلوب رہتی ہے اور طبعی محبت غالب رہتی ہے لیکن جب دونوں کا تقابل ہوتا ہے تو پھر عقلی محبت غالب ہو جاتی ہے اور طبعی محبت مغلوب ہو جاتی ہے۔ بندہ بسااوقات الجھن میں پڑ جاتا ہے کہ میں تو مؤمن نہیں ہوں کیونکہ مجھے حضور سے زیادہ اپنے گھر سے پیار ہے۔ تو میں بتا رہا ہوں کہ یہ طبعی پیار ہوتا ہے عقلی نہیں ہوتا۔
تو موسیٰ علیہ السلام کا خوف یہ طبعی تھا عقلی نہیں تھا، عقلاً ہر مؤمن سمجھتا ہے کہ اللہ سے ڈرنا چاہیے۔
فرعون کا احسان جتلانا:
﴿قَالَ اَلَمۡ نُرَبِّکَ فِیۡنَا وَلِیۡدًا وَّ لَبِثۡتَ فِیۡنَا مِنۡ عُمُرِکَ سِنِیۡنَ ﴿ۙ۱۸﴾ وَ فَعَلۡتَ فَعۡلَتَکَ الَّتِیۡ فَعَلۡتَ وَ اَنۡتَ مِنَ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۱۹﴾﴾
جب فرعون سے بات چلی تو فرعون نے کہا کہ ہم نے تیری پرورش کی، تجھے پالا اور تو نے اپنی عمر کے بہت سارے سال ہم میں گزارے، اور یہاں رہ کر تو نے ایک کام بھی کر ڈالا تھا، یہ اشارہ کر رہا تھا فرعون اس قتل کی طرف، پھر کہنے لگا کہ آج تو ناشکرا ہو کر ہم سے باتیں کرتا ہے! موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ تمہارا بندہ قتل ہوا تھا تو ﴿فَعَلۡتُہَاۤ اِذًا وَّ اَنَا مِنَ الضَّآلِّیۡنَ﴾ مجھ سے یہ کام ہوا تھا لیکن میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا تھا، بے خبری میں مارا گیا تھا، میرا قتل کا ارادہ نہیں تھا بس غلطی سے ہوگیاتھا۔ لیکن جب مجھے خوف ہوا کہ تم مجھے قتل کر دو گے تو میں یہاں سے چلا گیا۔ پھر اللہ نے مجھے نبوت دی ہے۔ باقی جو تم میرے اوپر احسان جتلاتے ہو تو اس احسان کی وجہ یہ تھی کہ تم نے میری قوم کو غلام بنا رکھا تھا۔
اب دیکھو! موسیٰ علیہ السلام نے کتنی پیاری بات فرمائی جب اس نے کہا کہ ہم نے تمہیں بیٹابناکر رکھا اور آج تم یہ باتیں کرتے ہو؟! تو موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: ﴿وَ تِلۡکَ نِعۡمَۃٌ تَمُنُّہَا عَلَیَّ اَنۡ عَبَّدۡتَّ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ﴾ کہ یہ جو تم احسان جتلا رہے ہو کہ مجھے پالا تھا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ تم نے بنی اسرائیل کو غلام بناکر رکھا ہوا تھا۔ تم نے خواب دیکھا تھا کہ تمہاری حکومت چھنے گی تو تم نے بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کرنا شروع کیا، اگر تم انہیں مارنا شروع نہ کرتے تو میں تمہارے گھر میں کبھی نہ پلتا، اللہ نے تمہارے گھر میں مجھے پالا، یہ جو تمہارے گھر میں پلا ہوں تو اس کی وجہ بھی تم خود ہو، اگر بنی اسرائیل کے بچوں کا قتل نہ ہوتا تو میری ماں کیوں مجھے دریا کے حوالے کرتی۔ تو اب سوچو کہ میری پرورش کرنے میں تمہارا کیا احسان تھا جو تم آج جتلا رہے ہو؟!
مکالمۂ فرعون:
﴿قَالَ فِرۡعَوۡنُ وَ مَا رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿ؕ۲۳﴾ قَالَ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ مَا بَیۡنَہُمَا ؕ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّوۡقِنِیۡنَ ﴿۲۴﴾ قَالَ لِمَنۡ حَوۡلَہٗۤ اَلَا تَسۡتَمِعُوۡنَ ﴿۲۵﴾ قَالَ رَبُّکُمۡ وَ رَبُّ اٰبَآئِکُمُ الۡاَوَّلِیۡنَ ﴿۲۶﴾ قَالَ اِنَّ رَسُوۡلَکُمُ الَّذِیۡۤ اُرۡسِلَ اِلَیۡکُمۡ لَمَجۡنُوۡنٌ ﴿۲۷﴾﴾
اب فرعون کہتاہے:
﴿وَ مَا رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴾
رب العالمین کیاہے؟ اس نے یہ نہیں کہا: ﴿وَ مَنْ رَّبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴾ کہ رب العالمین کون ہے بلکہ کہا کہ رب العالمین کیاہے؟ تو اس کا سوال اللہ کی حقیقت اور ماہیت کے متعلق تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا: ﴿رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ مَا بَیۡنَہُمَا﴾ اللہ آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے سب کا رب ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کا تعارف صفات کے ذریعے کروایا کیونکہ اللہ کی حقیقت اور ماہیت سمجھنا بندے کے بس میں نہیں ہے تو جس چیز کو بندہ سمجھ نہیں سکتا وہ آپ سمجھاتے کیوں؟ تو اس نے سوال اور کیا اور موسیٰ علیہ السلام نے جواب اور دیا۔
فرعون نے اپنے اردگرد کے لوگوں سے کہا کہ سن بھی رہے ہو کہ موسیٰ کیا کہہ رہاہے؟ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا :
﴿رَبُّکُمۡ وَ رَبُّ اٰبَآئِکُمُ الۡاَوَّلِیۡنَ﴾
کہ وہ تمہارا بھی خدا ہے اور تمہارے پچھلے باپ دادوں کا بھی خداہے۔ فرعون نے کہا کہ تمہارا نبی تو دیوانہ لگتاہے -معاذ اللہ- موسیٰ علیہ السلام نے اس کی بات کی پرواہ نہ کی بلکہ بات جاری رکھی اور فرمایا:
﴿رَبُّ الۡمَشۡرِقِ وَ الۡمَغۡرِبِ وَ مَا بَیۡنَہُمَا ؕ﴾
کہ اللہ تو مشرق اور مغرب اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان سب کا رب ہے۔ اب فرعون کو غصہ آیا اور اس نے کہا کہ اگر تو نے میرے علاوہ کسی اور کو معبود بنایا تو میں تجھے قید کر لوں گا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: اگر میں کوئی معجزہ پیش کروں تو پھر بھی ایسا کر و گے؟ اس نےکہا: اگر سچے ہو تو پھر لاؤ معجزہ! موسیٰ علیہ السلام نے اپنے عصا کو زمین پر مارا تو اژ دھا بن گیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے دوسرا معجزہ دکھایا کہ اپنا ہاتھ بغل میں ڈالا اور باہر نکالا تو وہ سورج کی طرح چمکنے لگا۔
حکیم کا جواب سائل کی ضرورت کے پیش نظر ہوتا ہے:
یہاں سے ایک بات یہ سمجھ میں آئی کہ سائل کا سوال کے مطابق جواب دینا ضروری نہیں ہے، مجیب کو یہ بات دیکھنی چاہیے کہ میں نے جواب کیا دینا ہے؟ یہ بڑی الجھن کی بات ہوتی ہےکہ کوئی بندہ جب سوال کرتا ہے تو ہم اسی سوال کا جواب دینا ضروری سمجھتے ہیں اور ہمیں اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ اگر ہم نے وہ جواب نہ دیا تو لوگ کیا کہیں گے؟! ہم اس کو اپنی بے عزتی سمجھتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ دیکھیں کہ جو سوال اس نے کیا ہے اگر اسی کا جواب دینا مناسب ہے تو دیں ورنہ جو مناسب ہو وہ جواب دیں اور یہ طریقہ کار اور اسلوب قرآن کریم میں کئی مقامات پر ہے۔
1: مثلاً مشرکین مکہ نے جب پوچھا تھا کہ اللہ کس چیز کا بنا ہوا ہے؟ تو اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا تھا کہ آپ فرمائیں
﴿ہُوَ اللہُ اَحَدٌ﴾
کہ اللہ ایک ہے۔
2: ایک اور مقام پر ہے
﴿یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡاَہِلَّۃِ ؕ﴾
البقرۃ2: 189
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے سوال کیا کہ چاند کے گھٹنے اور بڑھنے کی وجہ کیا ہے؟ جواب دیا:
﴿قُلۡ ہِیَ مَوَاقِیۡتُ لِلنَّاسِ وَ الۡحَجِّ ؕ﴾
تم یہ نہ پوچھو کہ چاند بڑا چھوٹا کیوں ہوتا ہے بلکہ تم یہ پوچھو کہ چاند کے فوائد کیاہیں؟ تو چند فوائد بتا دیے کہ اس سے تم عبادات اور معاملات کے اوقات طے کرتے ہو، اس سے تم مہینے متعین کر کے حج کرتے ہو۔ اسی طرح اس سے دن متعین کرکے تم رمضان کے روزے رکھتے ہو، اگر عورت کو طلاق ہوجائے تو اس کے ذریعے سے وہ عدت پوری کرتی ہے۔ تو ان کے سوال کے جواب میں اس چیز کو بیان کیا جو ان کے لیے فائدہ مند تھی اور وہ اس کو سمجھ بھی سکتے تھے۔
3: قرآن کریم میں ہے: ﴿یَسۡـَٔلُوۡنَکَ مَا ذَا یُنۡفِقُوۡنَ﴾
البقرۃ 2: 215
کہ وہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں؟ فرمایا:
﴿قُلۡ مَاۤ اَنۡفَقۡتُمۡ مِّنۡ خَیۡرٍ فَلِلۡوَالِدَیۡنِ وَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ﴾
آپ فرما دیں یہ نہ پوچھو کہ کیا خرچ کریں بلکہ یہ پوچھو کہاں خرچ کریں؟ تو بتا دیا کہ والدین، عزیز و اقارب، یتیم، مسکین اور مسافروں پر خرچ کرو! تو یہاں بھی سوال کسی اور چیز کے بارے میں ہے ، جواب اور دیا گیا۔
اس سے ایک اصول یہ سمجھ میں آیا کہ ہمیشہ ہر بندے کے سوال کے مطابق جواب نہیں دیتے بلکہ عالم کو دیکھنا چاہیے کہ یہاں کون سا جواب دینا مناسب ہےاس کے مطابق بات کہنی چاہیے۔
متکلم اسلام اور ایک ٹیلفونک کال:
آج رات میں اپنے گھر والوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، مجھے ایک شخص نے فون کیا کہ مولانا صاحب! میں حنفی ہوں۔ میں نے کہا کہ یہ کہانی مت ڈالو کہ تم کون ہو تم سوال کرو! کہنے لگا کہ یہ میں نے کتاب میں پڑھاہے کہ جب عورت کو تین طلاق ہوجائے تو یہ جوحلالہ کرتے ہیں․․․، میں نے کہا کہ دنیا میں کوئی بھی حلالہ نہیں کرتا، تم جھوٹ بولتے ہو۔ اب میں نے اس کے سوالات کے دروازے بند کیے۔ میں نے کہا کہ کون حلالہ کرتا ہے؟ کہنے لگا کہ میں نے سنا ہے کہ دیوبند والے مستقل حلالہ کرتے ہیں، ان کے پاس انتظام ہوتا ہے، دفتر ہوتا ہے․․․، میں نے کہا کہ کوئی نہیں کرتا، نہ کوئی انتظام ہوتا ہے اور نہ کوئی ایسا دفتر ہوتاہے، یہ تم لوگ جھوٹ بولتے ہو۔ میں نے اس سے کہا کہ اگر تم اپنی بیوی کو تین طلاق دے دو توتمہاری غیرت اس بات کو گوارا کرے گی کہ اس کو ایک رات کے لیے میرے پاس بھیج دو؟ کہا کہ نہیں۔ تو میں نے کہا کہ اور کس کی غیرت گوارا کرتی ہے؟ اللہ کے نبی نے اس پر لعنت بھیجی ہے، اس لیے تم لوگوں نے کیا بک بک لگارکھی ہے۔ خیر وہ اس سے تھوڑا سنبھل گیا۔ چونکہ وہ بڑی عجیب طرزسے سوال کرتے ہیں کہ یہ کہے گا کہ طلاق ہوجائے تو پھر کسی اور مرد سے نکاح کریں، پھر وہاں سے طلاق لیں اور پہلے کے پاس آجائے۔ یہ لوگ اس کی پھر ریکارڈنگ کرتے ہیں اور وہ ریکاڈنگ سنا کر کہتے ہیں کہ جی مولاناگھمن صاحب بھی کہہ رہے ہیں کہ حلالہ ہے۔
پھر اس نے کہا کہ اچھا یہ بتائیں کہ ماموں فوت ہو جائے تو ممانی سے نکاح کرنا جائز ہے؟ میں نے کہا: ممانی اور چچی سے ماموں اور چاچو کے فوت ہو جانے کے بعد یا ان کے طلاق دے دینے کے بعد نکاح جائز ہے لیکن معاشرے میں اس نکاح کو معیوب سمجھا جاتاہے۔ اب اگر میں صرف اتنا کہتاکہ نکاح جائز ہے تو اس نے کئی جاہلوں کو دھوکہ دینا تھا کہ مولانا گھمن صاحب کہتے ہیں کہ ممانی سے نکاح جائز ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ چوتھے پارے کا آخری رکوع پڑھ لو اور اس کی تفسیر دیکھ لو، تمہیں خود سمجھ میں آ جائے گا کہ نکاح کر سکتے ہیں یا نہیں؟ میرے گھر والے اس وقت ساتھ بیٹھے تھے تو مجھے کہنے لگے کہ آپ سیدھا بتا دیتے کہ نکاح کر سکتے ہیں! میں نے کہا: یہ اتنی سیدھی بات نہیں جتنا تم سمجھتی ہو، آپ کومعلوم نہیں کہ کیا جواب دینا ہوتا ہے، یہ میرا فن ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ میں نے کیا جواب دینا ہے۔ تو سوال کرنے والا کیا سوال کرتا ہے اس کو آپ نہیں سمجھتے۔
تو میں صرف اتنی بات عرض کر رہا ہوں کہ سائل جو سوال کیا کرتاہے اس کو نہ دیکھیں بلکہ آپ یہ دیکھیں کہ آپ نے جواب کیا دینا ہے؟
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعات پہلے بیان ہو چکے ہیں آپ کے علم میں ہیں، اس لیے میں ان واقعات کی تفصیل نہیں بیان کر رہا بلکہ میں خاص خاص آیات پر بات کر رہا ہوں۔
جادو گروں سے مقابلہ:
﴿قَالَ لَہُمۡ مُّوۡسٰۤی اَلۡقُوۡا مَاۤ اَنۡتُمۡ مُّلۡقُوۡنَ ﴿۴۳﴾ فَاَلۡقَوۡا حِبَالَہُمۡ وَ عِصِیَّہُمۡ وَ قَالُوۡا بِعِزَّۃِ فِرۡعَوۡنَ اِنَّا لَنَحۡنُ الۡغٰلِبُوۡنَ ﴿۴۴﴾ فَاَلۡقٰی مُوۡسٰی عَصَاہُ فَاِذَا ہِیَ تَلۡقَفُ مَا یَاۡفِکُوۡنَ ﴿ۚ۴۵﴾﴾
فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے اپنے جادوگر جمع کر لیے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جادو گروں سے فرمایا کہ پھینکو جو کچھ تم نے پھینکنا ہے۔ انہوں نے رسیاں اور لاٹھیاں پھینکیں، وہ سانپ نظر آئے۔ جب موسیٰ علیہ السلام نے عصا پھینکا تو اس نے ساری رسیوں اور لاٹھیوں کو نگل لیا، ان جادو گروں کا سارا جادو ختم ہوگیا۔ جب جادو ختم ہو گیا تو
﴿فَاُلۡقِیَ السَّحَرَۃُ سٰجِدِیۡنَ﴾
جادوگر سجدے میں گرا دیے گئے۔ انہوں نے سجدہ کیا نہیں بلکہ ان کو سجدے میں گرا دیا گیا۔
﴿فَاُلۡقِیَ ﴾
مجہول کا صیغہ ہےیعنی ان کو سجدے میں ڈال دیا گیا اور انہوں نے کہا
﴿اٰمَنَّا بِرَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿ۙ۴۷﴾ رَبِّ مُوۡسٰی وَ ہٰرُوۡنَ ﴿۴۸﴾﴾
کہ ہم رب العالمین پر ایمان لاتے ہیں جو موسیٰ اور ہارون کا رب ہے، انہوں نے صرف
﴿اٰمَنَّا بِرَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴾
کہنے پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ ساتھ
﴿رَبِّ مُوۡسٰی وَ ہٰرُوۡنَ﴾
کی وضاحت بھی کی ہے۔
جہاں ضرورت ہو وضاحت کر دینی چاہیے:
اس سے معلوم ہوتاہےکہ جہاں وضاحت ضروری ہو وہاں وضاحت ضرور کرو، مجمل بات کبھی نہ کرو! اگر وہ لوگ یہ بات کہتے کہ ہم رب العالمین پر ایمان لائے تو فرعون کہتا کہ رب العالمین تو میں ہوں، یہ تو مجھ پر ایمان لائے ہیں، اس لیے انہوں نے وضاحت سے کہا:
﴿رَبِّ مُوۡسٰی وَ ہٰرُوۡنَ﴾
کہ ہم اس رب العالمین پرایمان لائے ہیں جو موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کارب ہے۔ انہوں نے وضاحت کردی تاکہ الجھن ہی ختم ہوجائے۔ تو جہاں وضاحت کی ضرورت ہو تو وہاں نام لے کر فتنے کی وضاحت کرو، اگر ضرورت نہ ہو تو بلاوجہ مصائب اور مسائل کو اپنے گلے میں مت ڈالو۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تذکرہ:
﴿وَ اتۡلُ عَلَیۡہِمۡ نَبَاَ اِبۡرٰہِیۡمَ ﴿ۘ۶۹﴾ اِذۡ قَالَ لِاَبِیۡہِ وَ قَوۡمِہٖ مَا تَعۡبُدُوۡنَ ﴿۷۰﴾﴾
یہاں سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قصہ ذکر کیا جا رہا ہے۔ میں سارے واقعات پیش بھی نہیں کر رہا اور ان پرپوری تفصیل سے بات بھی نہیں کر رہا، میں نے آپ سے پہلے بھی کہا تھا کہ یہ دروس ہیں، ان میں کسی آیت سے کوئی مسئلہ نکلتا ہو کوئی عقیدہ حل ہوتا ہو تو ہم صرف ان آیات پر بات کرتےہیں۔
جب ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کو دعوت دی اور یہ کہا کہ تم کس کی پوجا کرتے ہو؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم بتوں کی پوجاکرتے ہیں۔ حضرت ابرا ہیم علیہ السلام نے کہا جب تم ان کو پکارتے ہو تو کیا یہ بت تمہاری باتیں سن سکتے ہیں؟ کیا یہ تمہیں نفع یا نقصان پہنچا سکتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا:
﴿بَلۡ وَجَدۡنَاۤ اٰبَآءَنَا کَذٰلِکَ یَفۡعَلُوۡنَ﴾
کہ ہمارے باپ دادا ایسا کرتے تھے تو ہم بھی یہی کریں گے۔ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا:
﴿فَاِنَّہُمۡ عَدُوٌّ لِّیۡۤ اِلَّا رَبَّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴾
یہ سب ہمارے دشمن ہیں سوائے اللہ کی ذات کے۔ دشمن ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی وجہ سے بندے جہنم میں جائیں گے۔
ادب کا تقاضا:
﴿الَّذِیۡ خَلَقَنِیۡ فَہُوَ یَہۡدِیۡنِ ﴿ۙ۷۸﴾ وَ الَّذِیۡ ہُوَ یُطۡعِمُنِیۡ وَ یَسۡقِیۡنِ ﴿ۙ۷۹﴾ وَ اِذَا مَرِضۡتُ فَہُوَ یَشۡفِیۡنِ ﴿۪ۙ۸۰﴾ وَ الَّذِیۡ یُمِیۡتُنِیۡ ثُمَّ یُحۡیِیۡنِ ﴿ۙ۸۱﴾﴾
ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کی صفات کو بیان فرمایا کہ اللہ وہ ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے، وہ میری رہنمائی فرماتا ہے،وہ مجھے کھلاتا بھی ہے اور پلاتا بھی ہے، اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو مجھے شفابھی دیتا ہے اور اللہ مجھے موت بھی دے گا اور زندگی بھی دے گا اور مجھے امید ہے وہ قیامت کے دن مجھے معاف بھی فرمائے گا۔
یہاں
﴿وَ اِذَا مَرِضۡتُ فَہُوَ یَشۡفِیۡنِ﴾
پر ادب کا تقاضا سمجھیں۔ مرض بھی من جانب اللہ ہوتا ہے اور شفا بھی من جانب اللہ ہوتی ہے لیکن بیماری عموماً آدمی کی بدپرہیزی کی وجہ سے ہوتی ہے، دنیا میں جو بیماری آتی ہے تو ننانوے فیصد امراض ایسے ہیں کہ اسبابِ مرض ہم بندے اختیار کرتے ہیں پھر بیماری آ جاتی ہے مثلاً ناموافق عذا کھا لی تو بیمار ہوگئے، سفر لمبا کیا تو بیمار ہوگئے اور موسم میں کپڑوں کا خیال نہیں کیا توبیمار ہو گئے کیونکہ اللہ نے ان چیزوں میں یہ سبب رکھا ہوتا ہے کہ اس کھانے سے یہ تکلیف ہو گی، اس کھانے سے یہ تکلیف ہوگی، اس سے یہ ہوگا اور جب اللہ سے شفا مانگیں تو اللہ یوں نہیں فرماتے کہ جب میں ایک چیز سے منع کرتا ہوں تو تم کیوں کرتے ہو، جب میں کہتا ہوں کہ ان چیزوں میں احتیاط کرو تو تم کیوں نہیں کرتے؟ یوں نہیں ہوتا بلکہ ہم مرض کے اسباب اختیار کرتے ہیں اس کے باوجود اللہ تعالیٰ شفا دیتے ہیں۔
ابراہیم علیہ السلام مرض کی نسبت اپنی طرف کرتے ہیں اور شفا کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرتے ہیں، جب ہم نے ناموافق غذا کھائی تو بیمار ہو گئے اور موافق دوا کھائی تو شفا مل گئی۔ دونوں کام ہم نے کیے ہیں لیکن مرض کی نسبت اپنی طرف ہے او رشفا کی نسبت اللہ کی طرف ہے کیونکہ مرض اچھی چیز نہیں ہے اس کی نسبت اللہ کی طرف کرنا یہ ادب کے خلاف تھا، اس لیے فرمایا کہ اسبابِ مرض اختیار کرکے بیمار میں ہو جاتا ہوں اور اللہ کا کرم یہ ہے اللہ پھر بھی شفا عطا فرما دیتے ہیں۔
اچھے تذکرے کی خواہش:
﴿وَ اجۡعَلۡ لِّیۡ لِسَانَ صِدۡقٍ فِی الۡاٰخِرِیۡنَ ﴿ۙ۸۴﴾
ابراہیم علیہ السلام نے جہاں اور دعائیں مانگی ہیں وہاں ایک دعا یہ بھی مانگی کہ اے اللہ! میرا اچھا تذکرہ بعد والوں کی زبان پر جاری فرمادے۔ اس سے بظاہر عام بندے کو شبہ ہوتاہے کہ یہ ریا ہے، حالانکہ یہ ریا نہیں ہے یعنی لوگ میرا اچھا تذکرہ کریں، مجھے اچھے لفظوں سے یاد کریں اس میں ریا اور دکھلاوا نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں ایسا کام کر جاؤں جو صدقہ جاریہ بن جائے اور لوگ اس کام کی وجہ سے جنت میں جائیں تو جب نیک کام کی بنیاد میں رکھو ں گا تو لوگ مجھے اچھے لفظوں سے یاد کریں گے۔ آدمی کے دل میں یہ خواہش ہو کہ لوگ مجھے اچھے لفظوں سے یاد کریں یہ جائز ہے بشرطیکہ اس آدمی کی خواہش حبِ جاہ اور حبِ دنیا کی نہ ہو کہ جب لوگ مجھے اچھا سمجھیں گے تو میری عزت کریں گے، مجھے پیسے دیں گے اور مجھے لیڈر بھی مانیں گے، اور دوسری شرط یہ ہے کہ آدمی ایسے عمل کی وجہ سے یہ خواہش نہ رکھے جو اس نے کیا نہ ہو مثلاً اس کی خواہش ہو کہ میں جب کمرے میں چلا جاؤں اور دروازہ بند کر لوں اور میں نوافل بھی نہ پڑھوں اور لوگ سمجھیں کہ یہ اندر جا کے نوافل پڑھتاہے تو یہ جائز نہیں ہے، اور تیسری شرط یہ ہے کہ آدمی اس خواہش کے لیے کہ لوگ مجھے اچھا سمجھیں کوئی غلط کام کرے تو یہ بھی جائز نہیں ہے جیسے آج ہمارے ہاں بیماری چل پڑی ہے کہ اہلِ باطل کوبھی ساتھ ملاؤ تاکہ لوگ سمجھیں کہ یہ بڑا امت کو جوڑنے والا ہے تو یہ ٹھیک نہیں ہے۔
ہاں اگر مقصود یہ ہو کہ لوگ مجھے اچھا سمجھیں گے تو میری بات سنیں گے، اچھا سمجھیں گے تو میری بات قبول کریں گے، اچھاسمجھیں گے تو دینی امور میں میرا ساتھ دیں گے تو یہ جائز ہے، اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا خود مانگی ہے:
اَللّٰهُمَّ اجْعَلْنِيْ شَكُوْرًا وَاجْعَلْنِيْ صَبُوْرًا وَاجْعَلْنِيْ فِيْ عَيْنِيْ صَغِيْرًا وَفِيْ أَعْيُنِ النَّاسِ كَبِيْرًا․
مسندالبزار: ج10 ص315 رقم الحدیث4439
اے اللہ! مجھے شکر کرنے والا بندہ بنا دے، مصیبت آئے تو اس پر صبر کرنے والا بنا دے، مجھے میری اپنی نگاہوں میں چھوٹا کر دے اور دوسروں کی نگاہوں میں بڑا کر دے۔
لوگ بڑا سمجھیں گے تب آپ کی بات مانیں گے، جب بڑا نہیں سمجھیں گے تو آپ کی بات کیسے مانیں گے؟! ہمارےشیخ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
”وَفِيْ أَعْيُنِ النَّاسِ كَبِيْرًا“
بننے کے لیے
”فِيْ عَيْنِيْ صَغِيْرًا“
ہونا ضروری ہے، جب بندہ اپنی نگاہ میں اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے تو پھر لوگوں کی نگاہوں میں ذلیل بن جاتاہے۔ اللہ رب ا لعزت ہم سب کو لوگوں کی نگاہ میں بڑا کرے تاکہ لوگ ہم سے فائدہ اٹھائیں، اور یہ بات اچھی طرح یاد رکھنا! ایسے اسباب اختیار کرنا کہ جس سے لوگ ہماری بات کو سنیں یہ جائز ہے اور یہ بھی ایک سبب ہے کہ لوگ ہمیں اچھا سمجھیں۔
حضرت مولانا ابرار الحق ہردوئی کی مرید کو نصیحت:
حضرت مولانا ابرار الحق ہردوئی رحمۃ اللہ علیہ کو ان کے ایک مرید نے خط لکھا کہ حضرت! میں دکان پر ہوتا ہوں، کبھی وقت بھی مل جاتا ہے تو اس میں باتیں بہت ہوتی ہیں تومیں کیا کروں؟! فرمایاکہ تسبیح ساتھ رکھ لو اور ذکر کیا کرو۔ اس نے پھر خط لکھا: حضرت ہاتھ میں تسبیح رکھ کر ذکر کرتا ہوں تو دل میں خیال آتا ہے کہ لوگ مجھے نیک سمجھتے ہیں۔ حضرت فرمانے لگے کہ تم کیا چاہتے ہو کہ لوگ تمہیں برا سمجھیں پھر ٹھیک ہے؟ بھائی آپ کی خواہش نہیں ہے کہ لوگ آپ کو اچھا سمجھیں لیکن آپ کے عمل سے پھر بھی وہ اچھا سمجھتے ہیں تو اس کو خدا کی نعمت اور کرم سمجھیں۔
حضرت نوح علیہ السلام کی تبلیغ:
﴿ کَذَّبَتۡ قَوۡمُ نُوۡحِۣ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ﴿۱۰۵﴾ۚۖاِذۡ قَالَ لَہُمۡ اَخُوۡہُمۡ نُوۡحٌ اَلَا تَتَّقُوۡنَ﴿۱۰۶﴾ۚ﴾
حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا جب ان سے ان کے بھائی حضرت نوح علیہ السلام نے کہا کہ تم ڈرتے کیوں نہیں ہو؟ نوح علیہ السلام اللہ کے نبی ہیں اور قوم کافر ہے پھر بھی نوح علیہ السلام کو ان کابھائی کہا جا رہا ہے تو یہ دینی بھائی نہیں بلکہ یہ قومی بھائی ہیں۔ ان کی قوم شرک کرتی تھی۔ حضرت نوح علیہ السلام نے محنت کی لیکن قوم نہیں مانی اور آپ علیہ السلام نے ساڑھے نو سو سال تبلیغ کی ہے اور آخر کا ر بد د عا کی کہ اللہ! اس قوم کو ہلاک فرمادیں۔
حضرت ھود علیہ السلام کی تبلیغ:
﴿ کَذَّبَتۡ عَادُۨ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ﴿۱۲۳﴾ۚۖ اِذۡ قَالَ لَہُمۡ اَخُوۡہُمۡ ہُوۡدٌ اَلَا تَتَّقُوۡنَ﴿۱۲۴﴾ۚ﴾
قوم عاد نے بھی رسولوں کو جھٹلایا جب ان سے ان کے بھائی حضرت ہود علیہ السلام نے کہا کہ تم ڈرتے کیوں نہیں ہو؟
حضرت ہود علیہ السلام ان کےقومی بھائی تھے۔ ان کی قوم چونکہ ظالم بھی تھی اور بڑی بڑی عمارتیں بھی بناتی تھی تو فرمایا کہ تم ایسے کام نہ کیا کرو، فضول عمارتیں نہ بنایا کرو۔ آپ حضرات ایک بات یاد رکھیں کہ بڑے سے بڑا مکان بنانا شرعاً جائز ہے جب اس کی ضرورت ہو اور ضرورت نہ ہو بلکہ صرف نام ونمود کے لیے بڑا مکان کیا چھوٹا سامکان بھی بنانا جائز نہیں ہے۔
حضرت صالح علیہ السلام کی تبلیغ:
﴿ کَذَّبَتۡ ثَمُوۡدُ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ﴿۱۴۱﴾ۚۖ اِذۡ قَالَ لَہُمۡ اَخُوۡہُمۡ صٰلِحٌ اَلَا تَتَّقُوۡنَ ﴿۱۴۲﴾ۚ ﴾
قوم ثمود نے بھی رسولوں کی تکذیب کی جب ان سے ان کے بھائی حضرت صالح علیہ السلام نے کہا کہ تم ڈرتے کیوں نہیں ہو؟
حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم کو بہت سمجھایا مگر قوم نہیں مانی۔ بالآخر قوم کے مانگنے پر ایک معجزہ یعنی اونٹنی ایک چٹان سے نکلی۔ طے ہوا کہ ایک دن یہ اونٹنی پانی پیے گی اور ایک دن قوم کے جانور پانی پییں گے۔ اس قوم نے صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو مار ڈالا تو ان پر خدا کا عذاب آیا اور وہ لوگ برباد ہو گئے۔
حضرت لوط علیہ السلام کی تبلیغ:
﴿کَذَّبَتۡ قَوۡمُ لُوۡطِۣ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ﴿۱۶۰﴾ۚۖ اِذۡ قَالَ لَہُمۡ اَخُوۡہُمۡ لُوۡطٌ اَلَا تَتَّقُوۡنَ ﴿۱۶۱﴾ۚ﴾
حضرت لوط علیہ السلام کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا جب ان سے ان کے بھائی حضرت لوط علیہ السلام نے کہا کہ تم ڈرتے کیوں نہیں ہو؟حضرت لوط علیہ السلام اہل سدوم کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے تھے۔آپ کی قوم عمل بد کرتی تھی، وہ لوگ لڑکوں کے ساتھ غیر فطری فعل کرتے۔ اس گناہ پر ان کی پوری قوم کو تباہ کر دیا گیا۔
غیر فطری عمل حرام ہے:
یہاں اس آیت
﴿وَ تَذَرُوۡنَ مَا خَلَقَ لَکُمۡ رَبُّکُمۡ مِّنۡ اَزۡوَاجِکُمۡ﴾
پر ایک نکتہ سمجھ لیں۔ یہاں
”مِنۡ اَزۡوَاجِکُمۡ“
میں
مِنْ
بیانیہ ہے یا تبعیضیہ ہے۔ اگر
مِنْ
بیانیہ ہو تو اس کا معنی یہ ہو گا کہ تم نے چھوڑ دیا اس کو جو خدا نے تمہارے لیے بنایا ہے یعنی تمہاری بیویاں، ان کو چھوڑ کر تم مردوں سے اپنی حاجت پوری کرتے ہو! اور اگر
مِنْ
تبعیضیہ ہو تو پھر معنی ہو گا کہ تم نے بعض وہ چھوڑ دیا جو خدانے تمہاری بیویوں میں سے تمہارے لیے بنایا تھا یعنی تم اپنی بیویوں کا قبل چھوڑ کر دُبر استعمال کرتے ہو۔
تو اگر
مِنْ
تبعیضیہ ہو تواس آیت سے یہ بھی ثابت ہوگا کہ جس طرح مرد سے لواطت حرام ہے اسی طرح اپنی منکوحہ سے بھی حرام ہے، اگرچہ اس کی حرمت پر مستقل حدیث موجود ہے۔ اللہ کےنبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا:
"مَلْعُونٌ مَنْ أَتٰى امْرَأَتَهُ فِى دُبُرِهَا."
مسند احمد :ج9 ص416 رقم الحدیث 10158
وہ شخص ملعون ہے جو اپنی عورت کے ساتھ غیر فطری عمل کرے۔ اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔
وحی کا نزول قلب اطہر پر:
﴿ وَ اِنَّہٗ لَتَنۡزِیۡلُ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۹۲﴾ؕ نَزَلَ بِہِ الرُّوۡحُ الۡاَمِیۡنُ ﴿۱۹۳﴾ۙ عَلٰی قَلۡبِکَ لِتَکُوۡنَ مِنَ الۡمُنۡذِرِیۡنَ ﴿۱۹۴﴾ بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیۡنٍ ﴿۱۹۵﴾ؕ ﴾
یہ قرآن مجید رب العالمین کا نازل کیا ہوا ہے، اسے فرشتہ روح الامین لے کر اترا ہے، یہ قرآن مجید آپ کے دل پر اتارا ہے تاکہ آپ پیغمبروں میں شامل ہو جائیں جو لوگوں کو ڈراتے ہیں اور یہ قرآن مجید عربی زبان میں نازل ہوا ہے جو اللہ تعالیٰ کے پیغام کو واضح کرنے والی ہے۔
اس آیت میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کو ”الروح الامین“ فرمایا گیا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےقلب اطہر پر وحی لاتے تھے۔ میں کئی بار یہ بات عرض کر چکا ہوں کہ جب امتی سوجائے تو اس کا دل اور آنکھ دونوں سو جاتے ہیں اور جب پیغمبر سو جائے تو نبی کی آنکھ سوتی ہے اور نبی کا دل جاگتا ہے اور وحی پیغمبر کی آنکھ اور کان پر نہیں بلکہ دل پر آتی ہے اس لیے پیغمبر جاگتے ہوں اور جبرائیل علیہ السلام آئیں تب بھی وحی ہے اور پیغمبر سوجائیں اور خواب دیکھیں تو تب بھی وحی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وحی کا تعلق پیغمبر کے قلبِ اطہر سے ہے اورجب حضور جاگ رہے ہوں دل تب بھی جاگتاہے اور اگرنبی سو رہے ہوں دل تب بھی جاگتا ہے۔
ایک علمی نکتہ:
”الرُّوۡحُ الۡاَمِیۡنُ“
سے مجھے یاد آیا کہ میں نے آپ کی خدمت میں آیت
﴿مَا ہٰذَا بَشَرًا ؕ اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا مَلَکٌ کَرِیۡمٌ﴾
پیش کی تھی اور بتایا تھا کہ جس میں تقاضائے معصیت نہ ہو اورپھر معصیت نہ کرے اس کو
”مَلَکٌ “
کہتے ہیں اور اگر تقاضائے معصیت ہو اور اس کو کنٹرول کرے اس کو
﴿مَلَکٌ کَرِیۡمٌ﴾
کہتے ہیں۔ اس پر کل عصر کے بعد ایک طالب علم نے مجھ سے سوال کیا تھا کہ اللہ نے قرآن کریم میں جبرائیل امین کو ”رسول“ بھی کہا اور ”کریم“ بھی کہا، فرمایا:
﴿اِنَّہٗ لَقَوۡلُ رَسُوۡلٍ کَرِیۡمٍ﴾۔
میں نے کہا کہ جبرائیل کو
﴿رَسُوۡلٍ کَرِیۡمٍ﴾
کہا یا
﴿مَلَکٌ کَرِیۡمٌ﴾
کہا؟ جواب دیا کہ
﴿رَسُوۡلٍ کَرِیۡمٍ﴾
کہا، میں نے کہا کہ ملک کریم الگ ہوتاہے رسول کریم الگ ہوتاہے، دونوں میں فرق سمجھ آ جائے تو جواب سمجھ میں آ گیا، اور دوسری بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ ایک لفظ جب دو جگہ پر آئے تو ہر مرتبہ اس کا ایک ہی معنی نہیں ہوتا۔ کبھی ایک لفظ کے کئی معنی ہوتے ہیں، خود لفظ ”کریم“ کے علامہ آلوسی بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے پانچ معنی لکھے ہیں۔
عرب کے ہاں شعر کا مفہوم:
﴿وَ الشُّعَرَآءُ یَتَّبِعُہُمُ الۡغَاوٗنَ ﴿۲۲۴﴾ؕ اَلَمۡ تَرَ اَنَّہُمۡ فِیۡ کُلِّ وَادٍ یَّہِیۡمُوۡنَ﴿۲۲۵﴾ۙ وَ اَنَّہُمۡ یَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا یَفۡعَلُوۡنَ ﴿۲۲۶﴾ۙ﴾
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے شعراء کی مذمت بیان فرمائی ہے کہ شعراء کے پیچھے گمراہ لوگ چلتے ہیں اور شاعر ہر قسم کی وادی میں بھٹکتے رہتے ہیں اور ایسی بات کہتے ہیں جو کرتے نہیں ہیں۔ اس لیے ان سے بچناچاہیے۔
ہمارے ہاں شعر کا معنی اور ہے، جس کو ہم شعر کہتے ہیں یہ شعر عرفی اور شعر اصطلاحی ہے ورنہ لغتِ عر ب میں شعر کامعنی مسجَّع اور مقفّٰی کلام نہیں ہوتا بلکہ لغتِ عرب میں شعر کا معنی ہوتاہے ایسی بات جو فرضی ہو اور غیر تحقیقی ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو شعر نہیں پڑھتے تھے، اگر شاعر کا معنی ہو مسجَّع اور مقفّٰی کلام کہنے والا تو پھر حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ شاعر کیوں کہتے تھے حالانکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم تو شعر نہیں پڑھتے تھے؟ اور اللہ بھی فرماتے ہیں:
﴿وَ مَا عَلَّمۡنٰہُ الشِّعۡرَ وَ مَا یَنۡۢبَغِیۡ لَہٗ﴾
کہ ہم نے نبی کو شعر نہیں سکھایا اور شعرنبی کے لائق ہی نہیں ہے۔
عرب جن کی فطرت میں شاعری تھی، وہاں دس دس سال کی بچی سو سو اشعار کے قصیدے پڑھتی تھی تو وہ جانتے تھے کہ شعر کا معنی کیا ہے اور حضور پاک شعر نہیں پڑھتے تھے لیکن وہ پھر بھی کہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شاعر ہیں۔
تو عرب کے اس ماحول میں شاعر کا معنی یہ ہے کہ یہ خیالی باتیں کرتاہے، فرضی باتیں کرتاہے -العیاذ باللہ- من گھڑت باتیں کرتا ہےجن کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لیے اہلِ منطق ادلہ فرضیہ کو او ر غیر تحقیقی بات کو ”ادلہ شعریہ“ کہتے ہیں۔ کبھی آپ منطق میں پڑھیں گے کہ یہ دلیل شعری ہے۔ اس کا معنی یہ ہوتا ہے کہ یہ غلط دلیل ہے، غیر تحقیقی بات ہے، فضول سی بات ہے۔ یہ بات سمجھ میں آ گئی؟ (آگئی۔ سامعین) اسی وجہ سے عرب کہتے تھے کہ یہ شاعر کا کلام ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی تردید فرماتے ہیں کہ یہ شاعر کا کلام نہیں ہے۔
البتہ عرف اور اصطلاح میں شاعر اسے کہتے ہیں جو مقفّٰی اور مُسجَّع کلام کرے اور یہاں
﴿وَ الشُّعَرَآءُ یَتَّبِعُہُمُ الۡغَاوٗنَ﴾
میں شعراء سے مراد مُسجَّع اور مقفّٰی کلام کہنے والے شعراء ہیں، ان کی عادت یہ ہوتی ہے کہ یہ عموماً ایسی باتیں کرتے ہیں جن کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس لیے فرمایا کہ ان کے پیچھے وہی لوگ چلتے ہیں جو گمراہ ہیں اور خود یہ شاعر لوگ بھی بھٹکتے رہتے ہیں، کبھی ادھر جاتے ہیں اور کبھی ادھر جاتے ہیں۔
﴿اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ ذَکَرُوا اللہَ کَثِیۡرًا وَّ انۡتَصَرُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا ظُلِمُوۡا ؕ﴾
ہاں! جو ایمان لائیں، نیک عمل کریں، اللہ کا ذکر کثرت کے ساتھ کریں اور اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد اس کا بدلہ لیں تو ان کے لیے شعر کہنا جائز ہے۔ معلوم ہوا کہ جن اشعار میں خیالی باتیں ہوں تو وہ ٹھیک نہیں ہیں لیکن اگر شعر وشاعری اللہ کے دین کے لیے ہو اور دین پر ہونے والے ظلم کے انتقام کے لیے ہو، نبوت کی شان میں مدح کے لیے ہو تو پھر کہنا جائز ہے بلکہ بعض مقامات پر مستحب ہے اور خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"إِنَّ مِنَ الشِّعْرِ لَحِكْمَةً."
سنن ابن ماجۃ، رقم: 3756
کہ اشعار میں دانائی اور حکمت ہوتی ہے۔ شعر میں آدمی چھوٹے سے جملے میں بہت بڑی بات کہہ دیتا ہے جو کہ نثر میں نہیں کہہ پاتا۔ غالب شاعر تھا، وہ کہا کرتا تھا :
عشق نے

غالب نکما کر دیا

ورنہ ہم

بھی آدمی تھے کام کے

مولانا محمد احمد صاحب بہت بڑے عالم اور بزرگ تھے، وہ فرماتے تھے :
عشق

نے احمد ہے کمّا کر دیا

ورنہ ہم

تو آدمی تھے نام کے

غالب کے ہاں عشق اور تھا اور ان کے ہاں عشق اور تھا، وہ عشق مجازی کا رونا روتا تھا اور یہ عشق حقیقی کی باتیں کرتے تھے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاج مبارک تھا کہ مسجد نبوی کے منبر پر حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو بٹھاتے اور فرماتے: حسان! ہماری مدح میں شاعری کرو اور جب وہ شعر پڑھتے تو اللہ کے نبی دعائیں دیتے:
اَللّٰهُمَّ أَيِّدْهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ․
المعجم الکبیر للطبرانی: ج2 ص418 رقم الحدیث 3501
اے اللہ! جبرائیل امین کے ذریعے حسان کی مدد فرما! حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے شاعری میں حضور صلی اللہ علیہ کی مدح کا حق ادافرمایا ہے۔
حضرت حسان رضی اللہ عنہ کا قصیدہ:
صحیح مسلم میں یہ واقعہ موجود ہے کہ ابوسفیان نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو اور مذمت میں کلام کہا۔ اس وقت تک ابوسفیان مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حسان کو بلاؤ! آپ نے حضرت حسان سے فرمایا: ابوسفیان کو جواب دو لیکن یہ یاد رکھنا کہ میرا او ر ابوسفیان کانسب اوپر ایک ہے، کہیں ہمارا نسب بھی مجروح نہ ہوجائے، اس لیے تم پہلے ابوبکر صدیق کے پاس جا کر نسب سمجھ لو کیونکہ وہ علم الانساب کے ماہر ہیں۔ پھر حضرت حسان حضرت ابوبکر صدیق کے پاس گئے،وہاں سے واپس لوٹ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: یا رسول اللہ! ابوبکر صدیق نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نسب مجھے بتا دیا ہے، اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا پیغمبر بنا کر بھیجا ہے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش میں سے ایسے نکال لوں گا جیسے گوندھے ہوئے آٹے میں سے بال کو نکال لیا جاتا ہے۔ ام المؤمنین امی عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ روح القدس ہمیشہ تیری مدد کرتے رہیں گے جب تک تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے مخالفین کو جواب دیتا رہے گا۔ پھر حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں قصیدہ پڑھا اور ابوسفیان کو فی البدیہہ جواب دیا۔ فرمایا:
هَجَوْتَ

مُحَمَّدًا فَأَجَبْتُ عَنْهُ

وَعِنْدَ

اللّهِ فِى ذَاكَ الْجَزَاءُ

تو نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو اور برائی کی ہے تو میں نے حضور کی طرف سے اس کا جواب دیا اور اس کا اصل بدلہ اللہ تعالیٰ ہی دے گا۔
هَجَوْتَ

مُحَمَّدًا بَرًّا تَقِیًّا

رَسُوْلَ اللّهِ

شِيْمَتُهُ الْوَفَاءُ

تو نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو اور برائی کی ہےجو نیک اور پرہیزگار ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور آپ کی خصلت وفا کرنا ہے۔
فَإِنَّ

أَبِىْ وَوَالِدَتِیْ وَعِرْضِىْ

لِعِرْضِ

مُحَمَّدٍ مِنْكُمْ وِقَاءُ

میرے ماں باپ اور میری عزت و آبرو؛ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت وآبرو بچانے کے لیے قربان ہیں۔
ثَكِلْتُ

بُنَيَّتِىْ إِنْ لَمْ تَرَوْهَا

تُثِيْرُ

النَّقْعَ مِنْ کَنَفِیْ كَدَاءُ

اگر تم گھوڑوں کو مقام کداء کے دونوں جانب سے گرد و غبار اڑاتا ہوا نہ دیکھو تو میں خود پر گریہ اور آہ و زاری کروں گا۔ مطلب یہ کہ تم پر ہم نے حملہ نہ کیا تو سمجھو میں ختم ہو گیا۔
يُبَارِیْنَ

الْأَعِنَّةَ مُصْعِدَاتٍ

عَلٰى

أَكْتَافِهَا الْأَسَلُ الظِّمَاءُ

ایسے گھوڑے جو تمہاری طرف دوڑتے ہوئے آئیں گے، ان کے کندھوں پر ہم نے ایسے نیزے رکھے ہوئے ہیں جو تمہارے خون کے پیاسے ہیں۔
تَظَلُّ

جِيَادُنَا مُتَمَطِّرَاتٍ

تُلَطِّمُهُنَّ

بِالْخُمُرِ النِّسَاءُ

ہمارے گھوڑے تمہاری طرف دوڑتے ہوئے آئیں گے اور ان گھوڑوں کے چہروں کو ہماری عورتیں اپنے دوپٹوں سے صاف کرتی ہیں۔
فَإِنْ

أَعْرَضْتُمٗ عَنَّا اعْتَمَرْنَا

وَكَانَ

الْفَتْحُ وَانْكَشَفَ الْغِطَاءُ

اگر تم ہم سے نہ بولو تو ہم عمرہ کر لیں گے اور فتح ہمارا مقدر ہو گی اور حقائق سے پردہ اٹھ جائے گا۔
وَإِلَّا

فَاصْبِرُوْا لِضِرَابِ يَوْمٍ

يُعِزُّ

اللّهُ فِيْهِ مَنْ يَشَاءُ

ورنہ اس دن کا انتظار کرو جس دن اللہ تعالیٰ عزت والوں کو عزت دے گا۔
وَقَالَ اللّهُ

قَدْ أَرْسَلْتُ عَبْدًا

يَقُوْلُ

الْحَقَّ لَيْسَ بِهِ خَفَاءُ

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے ایک بندے کو رسول بنا کر بھیجا ہے جو حق سچ بات کہتا ہے اور اس کی بات میں کسی شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہے۔
وَقَالَ اللّهُ

قَدْ أَرْسَلْتُ جُنْدًا

هُمُ

الْأَنْصَارُ عَزْمَتُهَا اللِّقَاءُ

اور اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے کہ میں نے ایک لشکر بھیجا ہے جو انصار ہیں اور ان کا مقصد صرف دشمن کا مقابلہ کرنا ہے، اس کے علاوہ ان کا کوئی مقصد اور غرض نہیں ہے۔
لَنَا

فِىْ كُلِّ يَوْمٍ مِنْ مَعَدٍّ

سِبَابٌ أَوْ

قِتَالٌ أَوْ هِجَاءُ

ہم تو ہر روز ایک نہ ایک چیز کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں، کبھی کافروں کی بری عادات اور غلط کاموں پر ان کی مذمت کرنے میں لگے ہوئے ہیں، کبھی کافروں سے جنگ کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور کبھی ان کافروں کی ہجو کرنے میں لگے ہیں۔
فَمَنْ

يَهْجُوْ رَسُوْلَ اللّهِ مِنْكُمْ

وَيَمْدَحُهُ

وَيَنْصُرُهُ سَوَاءُ

تم میں سے جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرے اور ان کی تعریف کرے یا ان کی مدد کرے، سب برابر ہے۔ یعنی کوئی فرق نہیں پڑتا۔
وَجِبْرِيلٌ

رَسُوْلُ اللّهِ فِيْنَا

وَرُوْحُ

الْقُدْسِ لَيْسَ لَهُ كِفَاءُ

اورجبریل امین کو ہمارے پاس خدا کی طرف سے بھیجاگیا ہے اور روح القدس کاکوئی بھی مد مقابل نہیں ہے۔ یعنی جب اللہ کا اتنا عظیم اور مقرب فرشتہ ہم میں ہے تو تم کس طرح ہم سے مقابلہ کرو گے؟!
صحیح مسلم، رقم: 2490
اب دیکھو! حضور صلی اللہ علیہ وسلم شاباش دے رہے ہیں۔ تو حضور کی مدح میں ایسے قصیدےپڑھنا جائز ہیں، اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ میں محفل حمدو نعت کے حق میں ہوں، جو لوگ مخالفت کرتے ہیں وہ ٹھیک نہیں کرتے۔ بھائی! اگر نعت کا طرز اچھا نہیں ہے تو نعت کہنے کو برا نہ کہو بلکہ کوشش کرو کہ طرز اچھا ہو جائے! اگر نعت خواں کوئی بدعت شروع کردے تو بدعت کو ختم کرنے کی کوشش کرو لیکن نعت خوانی کو برا نہ کہو! تو ان بنیادوں پر ان محفلوں کی مخالفت کبھی نہیں کرنی چاہیے۔
فتح خیبر کے موقع پر اشعار کا تبادلہ:
حضور اکر م صلی اللہ علیہ وسلم خیبر کی طرف گئے ہیں۔ خیبر میں یہود کا معروف ومشہورپہلوان مرحب ہے، اس کے ہاتھ میں تلوارہے۔ وہ یہ اشعار پڑھتا ہوا مقابلے کے لیے نکلا:
قَدْ

عَلِمَتْ خَيْبَرُ أَنِّيْ مَرْحَبُ

شَاكِي

السِّلَاحِ بَطَلٌ مُجَرَّبُ

پورا خیبر جانتا ہے کہ میرا نام مرحب ہے، میں اسلحہ اٹھائے ہوئے ہوں، بہت بہادر پہلوان ہوں اور تجربہ کار آدمی ہوں۔
أَطْعَنُ

أَحْيَانًا وَ حِيْنًا أَضْرِبُ

إِذَا

الْحُرُوْبُ أَقْبَلَتْ تَلَهَّبُ

جب جنگ شروع ہوتی ہےاور شعلے مارتی ہے تو اس وقت میں کبھی نیزے کا وار کرتا ہوں اور کبھی تلوار سے حملہ کرتا ہوں۔
مرحب کی یہ بات سن کر حضرت عامر رجز پڑھتے ہوئے آگے بڑھے، فرمایا:
قَدْ

عَلِمَتْ خَيْبَرُ أَنِّيْ عَامِرٗ

شَاكِي

السِّلَاحِ بَطَلٌ مُغَامِرٗ

اگر خیبر تجھے جانتا ہے کہ تو مرحب ہے تو خیبر مجھے بھی جانتا ہے کہ میرا نام عامر ہے، میں بھی اسلحہ سے لیس ہوں، بہادر پہلوان ہوں اور جب لڑتا ہوں تو موت کی پرواہ نہیں کرتا۔ اب میدان ہمارا فیصلہ کرے گا۔
حضرت عامر آگے بڑھے اور مرحب پر وار کیا، آپ کی تلوار چھوٹی تھی، وار کیا تو مرحب پیچھے ہٹ گیا اور تلوار اپنے گھٹنے کو لگی، حضرت عامر شہید ہوگئے۔ بعضوں نے کہا کہ ان کے اعمال ختم ہو گئے کیونکہ اپنی تلوار سے فوت ہوئے ہیں؟ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے: عامر کو اللہ دوہرا اجر دے گا۔ محدثین فرماتے ہیں کہ ایک اجر شہید ہونے کا اور ایک اجر اپنوں کی باتیں سننے کا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت عامر کی جگہ پر آگے بڑھے اور یہ رجز پڑھتے ہوئے آگے بڑھے:
أَنَا

الَّذِيْ سَمَّتْنِيْ أُمِّيْ حَيْدَرَهْ

كَلَيْثِ

غَابَاتٍ كَرِيْهِ الْمَنْظَرَهْ

أُوْفِيْهِمٗ

بِالصَّاعِ كَيْلَ السَّنْدَرَه

میں وہ شخص ہوں کہ میری ماں نےمیرا نام حیدر یعنی شیر رکھاہے، میں جنگل کے شیر کی طرح ہوں کہ میری ہیبت دیکھ کر مجھ سے دنیا ڈرتی ہے، آج تجھے ناپ ناپ کر دوں گا۔
آپ رضی اللہ عنہ نے ایک وار کیا، مرحب کے سر کے دوٹکڑے کر دیے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہورہےہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض نہیں ہورہے۔ لیکن ہم اپنے آپ کو دیکھیں کہ ہم کیسے صوفی ہیں! ہم کیسے متقی ہیں! ہم کیسے داعی اور مبلغ ہیں کہ ہم ان باتوں پر ناراض ہوتےہیں۔ میں بار بار کہتا ہوں کہ اپنے ایمان کی فکر کرو! اگر کوئی ضدی کافرہو اور مر جائے تو اس کے مرنے پر افسوس نہیں ہے بلکہ اس کافر کے مرنے پر خوشی ہے۔ آپ نے وہ واقعہ پڑھا ہو گا کہ ایک جنگ کے موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اعلان فرما رہے ہیں :
مَنْ قَتَلَ قَتِيْلًا فَلَهُ سَلَبُهُ․
السنن الکبریٰ للبیہقی: ج 6 ص607 رقم الحدیث 13142
کہ جو شخص کسی کافر کو قتل کرے گا تو اس کافر کا سامان اس مجاہد کے لیے انعام ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ترغیب دے رہے ہیں۔
میں اس لیے عرض کرتا ہوں کہ دعوت کا معنی ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہم شرعی حدود کا بیڑا غرق کر کے رکھ دیں۔ میں نے کتنی بار آپ کو سمجھایا ہے کہ مرکز کی یہ خوبی ہے کہ ہم غلط بات نہیں کہتے اور میں اپنے فضلاء کو نصیحت کرتا ہوں کہ آپ اگر حق بات نہیں کہہ سکتے تو خاموش ہوجانا لیکن غلط بات کبھی نہ کہنا، آپ جہاد کا صحیح معنی نہیں بیان کر سکتے تو خاموش ہو جانا لیکن غلط معنی کبھی بیان نہیں کرنا! آپ کسی کا ساتھ نہیں دیتے تو چپ ہوجانا لیکن ان کے زخموں پر نمک مت چھڑکنا! جہنم کے دروازے اپنے لیےمت کھولنا! اللہ ہمیں یہ باتیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
در سخن مخفی منم:
خیر میں عرض یہ کر رہا تھا کہ آدمی مؤمن ہو اور نیک اعمال کرے اور اللہ کو یاد کرے اور اس پر ظلم ہو تو بدلے کے لیے شعر کہے تو شریعت نے اس کی اجازت دی ہے، اس لیے ہر شعر برا نہیں ہوتا۔ میں اس پر اکثر یہ واقعہ سنایا کرتا ہوں کہ ایک بار ایران کے بادشاہ کے منہ سے ایک جملہ نکل گیا :
در ابلق کسے کم دیدہ موجود
”ابلق“ وہ موتی ہوتا ہے جو سفید ہواور اس میں سیاہی کی آمیزش ہو۔ اس نے کہا کہ ایسا موتی دنیا میں کسی نے نہیں دیکھا۔ یہ”کم“ بمعنی عدم ہے۔ اب اس نے اپنے سرکاری شعرا ء سے کہا کہ اس شعر کو پوراکرو۔ انہوں نے بہت کوشش کی لیکن شعر پورا نہیں ہوا۔ یہ مصرعہ چلتے چلتے ہندوستان پہنچا۔ عالمگیر بادشاہ کی بیٹی زیب النساء آئینہ کے سامنے کھڑی آنکھوں میں سرمہ ڈال رہی تھی۔ جب اس نے آنکھوں میں سرمہ ڈالا تو آنکھ سے ایک آنسو نکلا جس کے اند ر سیاہ سرمہ ملا ہواتھا۔ اس نے فوراً شعر تیار کر لیا۔ یہ خاتون نیک بہت تھی اور شاعرہ بھی تھی۔ اس نے کہا:
در ابلق

کسے کم دیدہ موجود

مگر

اشکِ بتانِ سرمہ آلود

کہ دنیا میں ابلق موتی یعنی وہ موتی جس میں سفیدی اور سیاہی ملی ہوتی ہے کسی نے نہیں دیکھا لیکن محبوب کی آنکھ کا آنسو کہ جب اس میں سرمہ مل جائے تو وہ ابلق موتی بن جاتا ہے۔
کیسا اس خاتون نے کلام کیا۔ اب عالمگیر نے کہا کہ یہ لو شعر اور ایران کے بادشاہ کو بھیج دو۔ بادشاہ کو جب یہ مکمل شعر ملا تو بادشاہ عش عش کر اٹھا کہ یہ کیسا شاعر ہے جس نے شعر مکمل کیا ہے! اور شاعر کا ذوق دیکھو کہ اس نے کتنی بلند بات کی ہے! شعر وشاعری میں تو یہی باتیں ہوتی ہیں نا جس پر سبھی مرتے ہیں۔ اب بادشاہ نے کہاکہ اس شاعر کو ہمارے دربار میں لاؤ ہم اس کی زیارت کرنا چاہتے ہیں، ہم اسے انعام دیں گے۔ یہ پیغام عالمگیر کے پاس آیا تو عالمگیر پریشان ہوا کہ بیٹی کو ایرانی بادشاہ کے دربار میں کیسے بھیجوں! بیٹی نے جب اپنے والد کی پریشانی دیکھی تو کہا بادشاہ کو ہمارا یہ شعر بھیج دیجیے۔ وہ شعر یہ تھا:
در سخن مخفی منم

چوں بوئے گل در برگِ گل

ہر کہ دیدن میل

دارد در سخن بیند مرا

میں اپنے کلام میں اس طرح چھپی ہوئی ہوں جس طرح پھول میں اس کی خوشبو چھپی ہوتی ہے۔ جو شخص مجھے ملنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ وہ میرا کلام دیکھ لے، کلام دیکھنے سے ہی ملاقات ہو جائے گی۔ جس طرح آپ خوشبو کو نہیں دیکھ سکتے البتہ پھول کے ذریعے اسے محسوس کر سکتے ہیں اسی طرح ہمیں بھی نہیں دیکھ سکتے البتہ کلام کے ذریعے محسوس کر سکتےہیں! بادشاہ سمجھ گیا کہ یہ شاعر مرد نہیں ہے بلکہ عورت ہے اور یہ عورت ہمارے دربارمیں آنے والی نہیں ہے۔ تو دیکھو شاعری سے بندہ کیسی بات کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․