سورۃ القصص

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
سورۃ القصص
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿طٰسٓمّٓ ﴿۱﴾ تِلۡکَ اٰیٰتُ الۡکِتٰبِ الۡمُبِیۡنِ ﴿۲﴾ نَتۡلُوۡا عَلَیۡکَ مِنۡ نَّبَاِ مُوۡسٰی وَ فِرۡعَوۡنَ بِالۡحَقِّ لِقَوۡمٍ یُّؤۡمِنُوۡنَ ﴿۳﴾﴾
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ:
اس سورت میں تفصیل کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ کو نقل فرمایا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ قرآن کریم میں کئی ایک مقامات پر ہے، سورت طٰہٰ میں، اس سورۃ القصص میں،سورۃ الاعراف میں اور بھی کئی سورتوں میں ہے۔
حدیث الفتون:
موسیٰ علیہ السلام کا پورا واقعہ سنن النسائی کتاب التفسیر میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔ یہی واقعہ آپ دیکھنا چاہیں تو
﴿وَ فَتَنّٰکَ فُتُوۡنًا﴾
سورۃ طٰہٰ کے تحت تفسیر ابن کثیر میں دیکھ لیں، وہاں موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ اول تا آخر واقعہ موجود ہے اور یہ حدیث پاک ”حدیث الفتون“کے نام سے معروف ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اس حدیث میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ بڑی تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے قبل فرعون مصر پر حاکم تھا۔ فرعون اور اس کے درباریوں میں یہ بات معروف تھی کہ بنی اسرائیل کے لوگ اس بات پر خوش ہیں کہ ان کی قوم میں بادشاہ بھی ہوں گے، ان کی قوم میں نبی بھی ہوں گے اور یہ بشارت حضرت ابراہیم علیہ ا لسلام نے دی ہے۔ پہلے ان لوگوں کا خیال تھا کہ وہ نبی یوسف بن یعقوب ہیں، وہ فوت ہوگئے تو پھر ان کا خیال ہوا کہ کوئی اور نبی آنا ہے جو ہماری عزت کا باعث بنے گا، ہمیں غلامی سے نکالے گا۔ تو فرعون کی جو شوریٰ تھی انہوں نے مشورہ دیا کہ آپ ایسا کریں کہ ان کے بچے قتل کریں اور خدمت کے لیے ان کی بچیاں زندہ رکھیں، نہ ان میں کوئی لڑکا ہو گا اور نہ بادشاہ بنے گا۔ اس کے لیے انہوں نے ایک پولیس متعین کر دی کہ جس گھر سے اطلاع ملے کہ یہاں بچے کی پیدائش ہوئی ہے اس کو لے کر ذبح کر دو۔ کچھ عرصہ جب بچوں کی اچھی خاصی تعداد ذبح کر لی تو اب ان کے ہاں اہم مسئلہ پیدا ہوا کہ بنی اسرائیل کے لوگ ہماری خدمت کرتے ہیں، جب ان کے بچے ذبح ہو جائیں گے تو ہماری خدمت کون کرے گا؟ اب انہوں نے دوبارہ اپنی اسمبلی کا اجلاس بلوایا۔ پھر مشورہ میں یہ طے ہوا کہ ایک سا ل بچوں کو ذبح کریں اور ایک سال بچوں کو زندہ رکھیں کیونکہ جو تھوڑے زندہ رہیں گے ان کی تعداد اتنی کم ہو گی کہ ہمارے اوپر حکومت نہیں کر سکیں گے۔ اب انہوں نے یہ طے کر لیا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کے ہاں حضرت ہارون علیہ السلام اس سال پیدا ہوئے جس سال بچوں کو ذبح نہیں کرنا تھا اس لیے حضرت ہارون علیہ السلام کی پیدائش پر ان کی والدہ کو کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ آئندہ وہ سال تھا کہ جس سال بچوں کو ذبح کرنا تھا اس سال حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ امید کے ساتھ تھیں تو ان کو یہ پریشانی بہت زیادہ تھی کہ اگر اس سال میرے ہاں بچہ پیدا ہوا تو یہ لوگ اسے مار دیں گے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں
﴿وَ فَتَنّٰکَ فُتُوۡنًا﴾
کہ یہ آزمائش ان آزمائشوں میں سے سب سے پہلی آزمائش تھی جو موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کے لیے تھی اور اس مرحلے سے موسیٰ علیہ السلام کی والدہ گزری ہیں۔
ام موسیٰ کی طرف پیغام اور قادیانی استدلال:
﴿وَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰۤی اُمِّ مُوۡسٰۤی اَنۡ اَرۡضِعِیۡہِ ۚ فَاِذَا خِفۡتِ عَلَیۡہِ فَاَلۡقِیۡہِ فِی الۡیَمِّ وَ لَا تَخَافِیۡ وَ لَا تَحۡزَنِیۡ ۚ اِنَّا رَآدُّوۡہُ اِلَیۡکِ وَ جَاعِلُوۡہُ مِنَ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ﴿۷﴾﴾
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ جب امید کے ساتھ تھیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس وحی بھیجی کہ جب تمہارا بچہ پیدا ہو جائے تو اسے دودھ پلاتی رہنا، جب کوئی خطرہ محسوس ہو تو اس بچے کو دریا میں ڈال دینا اور ڈرنا مت نہ ہی غمگین ہونا۔ ہم اس بچے کو تمہارے پاس ضرور بالضرور پہنچائیں گے اور اسے رسول بنائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ تسلی دی موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو۔ یہ اشارہ تھا کہ آپ کا بچہ آپ کی گود میں پلے گا، اس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی، یہ قتل نہیں ہو گا اور یہ بڑا بھی ہو گا۔
یہ جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ پر وحی آئی اس کے لیے قرآن کریم میں یہ الفاظ ہیں
﴿وَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰۤی اُمِّ مُوۡسٰۤی﴾
اس سے مرزا قادیانی اور اس کی جماعت استدلال کرتی ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نبی نہیں تھیں پھر بھی ان پر وحی آئی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وحی ختم نہیں ہوئی بلکہ وحی کا دروازہ کھلا ہوا ہے اور اسی طرح اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی کی طرف بھی وحی فرمائی ہے
﴿وَ اَوۡحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحۡلِ﴾
النحل16: 68
وحی الہام اور وحی نبوت:
یہاں ایک بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ وحی کی دو قسمیں ہیں:
ایک ہوتی ہے وحی الہام اور ایک ہوتی ہے وحی نبوت۔ ان اقسام کو وحی تشریعی اور وحی غیر تشریعی بھی کہتے ہیں۔ وحی الہام وہ ہوتی ہے کہ جس پر وحی ہو اس کا تعلق اس کی ذات کے ساتھ ہو اور وحی نبوت وہ ہوتی ہے کہ جس پر وحی نازل ہو اس وحی کا تعلق اس کی ذات کے ساتھ نہ ہو بلکہ دوسرے افراد کے ساتھ ہو۔ پیغمبر پر جو وحی آتی ہے اس کا تعلق اس پیغمبر کی ذات سے نہیں ہوتا بلکہ اس کا تعلق پیغمبر کی دعوت، پیغمبر کی تبلیغ اور پیغمبر کی شریعت کے ساتھ ہوتا ہے اور یہ جو مکھی پر وحی آئی ہے اس کا تعلق دوسروں سے نہیں ہے بلکہ مکھی کی ذاتی زندگی سے ہے، اسی طرح موسیٰ علیہ السلام کی والدہ پر وحی آئی ہے تو اس وحی کا تعلق ان کی ذاتی زندگی سے ہے۔ یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ بسا اوقات ہم ”وحی“ کے لفظ سے پریشان ہو جاتے ہیں اور ہمارا عام طور پر جواب یہ ہوتا ہے کہ ایک ہے وحی لغوی اور ایک ہے وحی اصطلاحی، اور
﴿وَ اَوۡحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحۡلِ﴾
میں وحی لغوی مراد ہے۔ اس لیے اچھی طرح سمجھ لیں کہ وحی الہام اور وحی نبوت الگ الگ چیز ہیں، وحی نبوت یہ پیغمبر کے ساتھ خاص ہے اور وحی الہام یہ پیغمبر کے ساتھ خاص نہیں ہے، کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنا کوئی پیغام کسی کے دل میں ڈالتے ہیں تو یہ وحی الہام ہے۔
پھر بسا اوقات ہم وحی لغوی اور وحی اصطلاحی کے الفاظ کہتے ہیں تو یہ اصطلاحی وحی نبی کے ساتھ خاص ہے اور لغوی وحی بمعنی پیغام یہ غیر نبی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔
امِ موسیٰ کی پریشانی:
خیر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو تسلی مل گئی۔ ان کے ہاں بیٹا پیدا ہوا۔ انہوں نے بچے کو صندوق میں ڈال کر دریا کے حوالے کردیا۔ جب انہوں نے بچے کو دریا میں ڈالنا تھا تو اس وقت شیطان نے وسوسہ ڈالا، اس نے کہا کہ دیکھو! بچے کو اپنے پاس رکھو، دریا کی موجوں میں جائے گا تب بھی مر جائے گا اور اگر کوئی اس کو اٹھا لے گا اور ذبح ہو جائے گا تو تمہارے سامنے تو قتل ہو گا، اس کوخود کفن دو گی،دفن کرو گی، اپنے بیٹے کو دیکھ تو لو گی اور اگر ایسی جگہ چلا گیا تو تمہیں دیکھنا بھی نصیب نہیں ہو گا۔ اب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو جو اللہ کی طرف سے الہام تھا وہ اس موقع پر بھول گیا کہ خدا نے مجھے تسلی دی کہ ایسا نہیں ہو گا، اس لیے انہیں تھوڑی سی پریشانی بھی ہوئی۔ یہ عام طور پر بندے کو بات سمجھ نہیں آتی کہ جب اللہ کی طرف سے الہام تھا تو بھول کیسے گیا؟ اب دیکھو! قرآن کریم اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے نازل فرمایا اور قرآن کریم کے حافظ کو آیات یاد بھی ہوتی ہیں اور وہ ان کو سمجھتا بھی ہے لیکن جب اس پر کوئی مصیبت آتی ہے تو کبھی صبر کا دامن چھوڑ بھی دیتا ہے۔ جب کوئی اسے یاد کرائے کہ قرآن میں ہے:
﴿وَ اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَ الصَّلٰوۃِ﴾
البقرۃ 2: 45
کہ صبر اور نماز کے ذریعے اللہ سے مدد مانگو! اب اس حافظ کو یاد آ جاتا ہے اور پھر اس کو صبر کی توفیق مل جاتی ہے۔ تو دیکھو کہ اس کے پاس اللہ کا پیغام ہوتا ہے لیکن پھر بھی بھول جاتا ہے۔
اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کے پاس پیغام موجود تھا لیکن وہ بھول گئیں۔ یہ میں نے اس لیے عرض کیا کہ بسا اوقات بندے کو الجھن ہوتی ہے کہ اللہ کا پیغام کیسے بھول گئی؟ دیکھیں! حضرت آدم علیہ السلام جنت میں تھے، اللہ نے فرمایا تھا:
﴿وَ لَا تَقۡرَبَا ہٰذِہِ الشَّجَرَۃَ﴾
البقرۃ 2: 35
اس درخت کے قریب نہ جانا لیکن آدم علیہ السلام بھول گئے۔ اب آدمی کو تعجب ہوتا ہے کہ جب اللہ کا حکم تھا تو بھولے کیسے؟! شیطان نے کیسے بھلا دیا؟تو اس سوال کے جواب کی میں نے آسان سی صورت بتائی ہے کہ قرآن کے حافظ کو قرآن یاد ہوتا ہے، عالم کو کسی مسئلے پر آیات یاد ہوتی ہیں لیکن موقع پر بھول جاتا ہے اور بعد میں اس کو یاد آ جاتی ہیں۔
صندوق دریا میں ڈال دیا:
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے موسیٰ علیہ السلام کو ایک صندوق میں ڈالا اور دریائے نیل کے حوالے کر دیا۔ دریائے نیل کا ایک حصہ فرعون کے محل کے طرف سے ہوکر گزرتا تھا تو یہ صندوق اس طرف چلا گیا۔ آگے چٹان تھی جہاں فرعون کی کنیزیں نہاتی تھیں، کپڑے دھوتی تھیں، سارے کام کرتی تھیں تو اللہ نے اس صندوق کو ان کے قریب کر دیا۔ انہوں نے صندوق دیکھا تو کہا کہ اگر اس کو کھولیں تو ہو سکتا ہے کہ اس میں کوئی مال ہو اور جب سامان فرعون کی بیوی کو دیں تو ہو سکتا ہے کہ وہ شک کرے کہ تم نے کچھ مال تم نے رکھ لیا ہوگا تو بہتر ہے کہ اسی کے پاس جا کر صندوق کھو لیں۔ جب فرعون کی بیوی آسیہ اس نے صندوق کو کھولا، دیکھا تو پہلی نظر میں اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کی محبت اس کے دل میں ڈال دی،
﴿وَ اَلۡقَیۡتُ عَلَیۡکَ مَحَبَّۃً مِّنِّیۡ﴾
اللہ فرماتے ہیں کہ اے موسیٰ! ہم نے خاص طور پر آپ پر اپنی محبت ڈالی ہے کہ جو آپ کو دیکھتا ہے آپ اس کے محبوب بن جاتے ہیں۔
ولی سے محبت کی وجہ:
بعض علماء نے اس سے استدلال کیا ہے کہ جس طرح اللہ نے موسیٰ علیہ السلام پر محبت ڈال دی تھی تو جو اللہ کا ولی ہوتا ہے اللہ اس کو بھی شانِ محبوبیت عطا فرما دیتے ہیں کہ لوگ اس سے محبت کرتے ہیں۔ اس پر بھی آپ کو شبہ ہو گا کہ کتنے ولی ہیں کہ لوگ ان سے نفرت کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ محبت کیسے ڈالتے ہیں؟ یہ بات یاد رکھنا! محبوبیت کا معنی ہوتا ہے کہ جو لوگ اللہ سے پیار کرتے ہیں وہ اس ولی سے بھی پیار کرتے ہیں اور جو اللہ سے پیار نہیں کرتے وہ اللہ کے اس ولی سے کیسے پیار کریں گے؟ محبت تو ولی اور اللہ سے تعلق کی وجہ سے ہے، اللہ سے محبت ہو گی تو اللہ کے ولیوں سے محبت بھی ہو گی۔ اب دیکھو! حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کائنات کی محبوب ترین شخصیت ہیں اور ابو جہل جب قتل ہونے لگا تو اس نے اس وقت کہا تھا کہ محمد - صلی اللہ علیہ وسلم- کو میرا پیغام دینا کہ جتنی نفرت میں آپ سے پہلے کرتا تھا آج اس سے زیادہ کرتا ہوں۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ جب اس کو اللہ سے پیار نہیں تو اللہ کے محبوب سے کیسے پیار ہو گا؟!
اس کو میں عام مثال میں یوں سمجھاتا ہوں کہ مثلاً ہمارا ادارہ مرکز اھل السنۃ والجماعۃ ہے، جو آدمی اس سے پیار کرتا ہے تو وہ یہاں پڑھنے والے طالب علم سے بھی پیار کرتا ہے اور جو مرکز سے نفرت کرتا ہے وہ طالب علم سے بھی پیار نہیں کرے گا۔
موسیٰ علیہ السلام کی محبوبیت:
خیر اس کے دل میں محبت ڈالی۔ اس نے کہا کہ اس کو سنبھال کے رکھتے ہیں۔ اس کو مارتے نہیں ہیں۔ اس کو بچہ پیارا لگا۔ جونہی گھر میں یہ خبر پھیلی تو وہ جو فرعون نے سپاہی چھوڑے تھے بچوں کو قتل کرنے کے لیے وہ فوراً پہنچ گئے، یہ بچہ ہمیں دے دو ہم نے اس کو ذبح کرنا ہے۔ فرعون کی بیوی نے کہا کہ میں فرعون سے بات کر لیتی ہوں، اگر اجازت مل گئی تو ٹھیک ہے ورنہ تم اس کو ذبح کر دینا۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اس واقعہ کو ذکر کر کے فرماتے ہیں کہ
﴿وَ فَتَنّٰکَ فُتُوۡنًا﴾
کی آزمائشوں میں سے یہ دوسری آزمائش تھی۔
وہ فرعون کے پاس گئی تو اس نے فرعون کو بچہ دکھایا اور کہا کہ میں چاہتی ہوں کہ ہم اس کو پالیں، اس کو مارنا نہیں ہے، یہ ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنے گا۔ فرعون نے کہا کہ یہ تیری آنکھوں کی ٹھنڈک تو ہوسکتا ہے لیکن میری آنکھوں کی ٹھنڈک نہیں ہوسکتا۔ فرعون نے کہا کہ اس کو ذبح کر دو! بیوی نے کہا کہ ذبح مت کرو، ایک بچے کے زندہ رہنے سے کون سی حکومت آتی ہے؟! ہر سال تم ذبح کرتے ہو، اگر ایک زندہ رہ گیا تو کون سی بادشاہت ان کی وجہ سے آنی ہے؟فرعون نے کہا کہ تیرے کہنے پر میں اسے چھوڑ دیتا ہوں۔
بعض روایات میں ہے کہ جب فرعون نے یہ کہا کہ یہ تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے مجھے اس کی حاجت نہیں ہے، اگر وہ یہ جملہ کہہ دیتا کہ یہ تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہو گا تو میری آنکھوں کی ٹھنڈک بھی ہو گا تو اللہ اس کو ایمان کی توفیق عطا فرما دیتے۔ اس کی بیوی کو ایمان کی توفیق ملی ہے کیونکہ اس نے کہا تھا کہ یہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔
موسیٰ علیہ السلام کا اپنی ماں کا دودھ پینا:
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دودھ پلانے لگے تو آپ کسی کا دودھ نہیں پیتے تھے۔ دایہ تلاش کیں لیکن آپ کسی کا دودھ نہیں پیتے تھے۔ آسیہ نے موسیٰ علیہ السلام کو کنیزوں کے حوالے کیا کہ اس کو شہر میں لے جاؤ اور کوئی ایسی عورت تلاش کرو جس کا دودھ یہ پی لیں۔ کنیزیں بازار میں پھر کر دایہ کو تلاش کر رہی تھیں۔ ادھر موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے اپنی بیٹی سے کہا کہ باہر جاؤ اور لوگوں سے پتا کرو کہ اس تابوت اور بچے کا کیا بنا؟ موسیٰ علیہ السلام کی بہن باہر گئی تو دیکھا کہ کنیزیں بچے کو لے کر دودھ پلا نے کے لیے دایہ کو تلاش کر رہی ہیں۔
موسیٰ علیہ السلام کی بہن نے ان سے کہا کہ میں تمہیں ایک عورت بتاتی ہوں وہ دودھ بھی پلائے گی اور اس کا خیال بھی رکھے گی اور اس کی خیر خواہ بھی ہو گی۔ ان کنیزوں کو شک پڑا کہ ایسا نہ ہو کہ یہ عورت اس بچے کوئی خاص رشتہ دار نہ ہو جو اتنے یقین سے کہہ رہی ہے کہ اس گھر والے اس بچے کا خیال رکھیں گے۔ تو انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب کہ تم جانتی ہو بچہ کس کا ہے؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ
﴿وَ فَتَنّٰکَ فُتُوۡنًا﴾
کی آزمائشوں میں سے یہ تیسری آزمائش ہے۔
اس نے کہا کہ میرا مطلب یہ نہیں کہ میں اس کی ماں کو جانتی ہوں بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ اگر اس گھر کا دودھ اس بچے نے پی لیا تو اس عورت کو فرعون کے دربار میں ایک مقام مل جائے گا، اس کو پیسے ملیں گے تو وہ بچے کے ساتھ ضرور خیر خواہی کرے گی، میں تو یہ کہنا چاہتی ہوں۔ ان کنیزوں کو اس بات سے تھوڑی سی تسلی ہوگئی تو انہوں نے موسیٰ علیہ السلام کی بہن کو چھوڑ دیا۔ موسیٰ علیہ السلام کی بہن فوراً گھر پہنچی اور یہ سارا قصہ والدہ کو بتایا۔ دونوں اس جگہ آئیں جہاں کنیزیں کھڑی تھیں۔ کنیزوں نے بچہ موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کے حوالے کیا، انہوں نے دودھ پلانا شروع کر دیا تو فوراً بچے نے ان کا دودھ پینا شروع کر دیا اور پیٹ بھر کر پیا۔
فرعون کی بیوی نے یہ بات سنی کہ بچے نے دودھ پینا شروع کر دیا ہے تو وہ بہت خوش ہوئی۔ اس نے موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو اپنے پاس بلایا۔ وہ چلی گئیں۔ اس نے کہا کہ تم یہاں ٹھہرو اور بچے کو دودھ پلاؤ، تمہارا خرچہ ہمارے ذمے ہو گا۔ موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے شانِ بے نیازی کا مظاہرہ کیا تاکہ پتا نہ چلے کہ یہ اسی بچے کی ماں ہے، کہا کہ پہلے میرے پاس ایک بچہ گھر میں ہے، میں اس کو پالتی ہوں، میں اس کو گھر میں کیسے چھوڑوں؟! یہ حضرت ہارون تھے جو ایک سال پہلےپیدا ہوئے تھے۔ اگر اس کو دودھ پلانا ہے تو میرے پاس بھیج دو، میں اپنے گھر میں اس کو دودھ پلاؤں گی اور میں تمہیں ضمانت دیتی ہو ں کہ اس بچے کا خیال بھی رکھوں گی۔ فرعون کی بیوی نے کہا کہ مجھے اس سے پیار بہت ہے، میں اس سے جدا نہیں رہ سکتی۔ انہوں نے کہا کہ بہر حال میں آپ کے محل میں نہیں رہ سکتی۔ تو اس نے موسیٰ علیہ السلام کو ان کی ماں کے حوالے کر دیا۔
موسیٰ علیہ السلام کا فرعون کی ڈاڑھی پکڑنا:
جب موسیٰ علیہ السلام کچھ تھوڑے سے بڑے ہوئے چلنے کے قابل ہوئے تو فرعون کی بیوی نے پیغام بھیجا کہ بچہ ہمیں دکھانے کے لیے لاؤ، میں اس کو دیکھنا چاہتی ہوں۔ موسیٰ علیہ السلام کو لایا گیا۔ فرعون کی بیوی نے شاہی حکم جاری کیا کہ جب وہ دایہ بچے کو لے کر آئے تو تم سب ہدایا دو۔ موسیٰ علیہ السلام اپنی والدہ کے ساتھ گھر سے نکلے تو ان کی والدہ کو ہدیے ملنا شروع ہو گئے۔ ظاہر ہے کہ شاہی حکم تھا۔ جب دربار میں پہنچے تو بہت سارے ہدیے جمع ہوگئے، اس نے یہ سارے ہدیے موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کے حوالے کردیے کہ یہ بھی تمہارا مال ہے، تم اس کو لے جاؤ۔
اس کے بعد فرعون کی بیوی نے کہا کہ میں چاہتی ہوں کہ اس کو فرعون سے بھی کچھ ہدیہ مل جائے۔ تو وہ موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے دربار میں لے گئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کی گود میں تھے۔ آپ نے فرعون کی ڈاڑھی کو پکڑ کر ایسے کھینچا کہ فرعون زمین کی طرف جھک گیا۔ اسی وقت اس کی شوریٰ نے کہا کہ یہ وہی بچہ ہے جو تمہاری حکومت ختم کرے گا، اس کو ذبح کر دو ورنہ تمہارے لیے مسئلہ پیدا ہو گا۔ اسی وقت فرعون نے آرڈر جاری کیا کہ اس کو ذبح کر دو۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ چوتھا موقع تھا آزمائش کا۔ یہ موسیٰ علیہ السلام پر ایک اور امتحان تھا۔
فرعون کی بیوی کھڑی ہوئی۔ اس نے کہا: یہ ظلم نہ کرو، دیکھو! تم نے مجھ سے وعدہ کیا ہے، اپنے وعدے کی لاج رکھو! اگر تمہیں شبہ ہے تو یہ شبہ دور کر لیتے ہیں۔ میں ایک طرف دو موتی رکھ دیتی ہوں اور ایک طرف آگ کے دو انگارے رکھ دیتی ہوں۔ اگر یہ موتی کی طرف جائے تو سمجھو کہ یہ سمجھ دار ہے اور اس نے جان بوجھ کر تمہیں جھٹکا دیا ہے اور اگر انگاروں کی طرف جائے تو سمجھو کہ بچہ ہے، بس جان بوجھ کر نہیں کیا غفلت میں کیا ہے جیسے بچے بڑوں کے ساتھ کر دیتے ہیں۔ فرعون مان گیا تو دو موتی اور دو آگ کے انگارے موسیٰ علیہ السلام کےسامنے رکھ دیے گئے۔
بعض روایات میں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام جانے لگے موتی کی طرف تو جبرئیل علیہ السلام نے ہاتھ پکڑ کر دوسری طرف کیا اور بعض روایات میں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام خود گئے اور آگ کے انگارے کو لیا۔ اب ظاہر ہے کہ بچہ آگ کے انگارے کو لے تو بچہ پھینکتا نہیں ہے، وہ پریشان ہو جاتا ہے کہ میں اس کے ساتھ کیا کروں؟ یہ میں شبہ کا جواب دے رہا ہوں کہ انہوں نے آگ کا انگارہ رکھا کیسے؟ گرم تھا تو فوراً پھینک دیتے،چھوڑ دیتے، ہاتھ میں کیسے رکھ لیا؟ آپ کسی بچے کے ہاتھ میں برف دو وہ ٹھنڈی ہوتی ہے وہ بچہ روتا ہے لیکن پھینکتا نہیں ہے، اس کو سمجھ نہیں آتی کہ میں اس کے ساتھ کروں کیا! تو موسیٰ علیہ السلام نے آگ کا انگارہ اٹھا یا اور پھر فرعون نے آگے بڑھ کر آگ کا انگارہ نیچے کیا۔ فرعون کی بیوی نے کہا کہ میں تمہیں کہتی تھی کہ یہ بچہ ہے، تم خواہ مخواہ پریشان ہو گئے ہو۔ اس وقت واپس لے آئی اور موسیٰ علیہ السلام کو ان کی والدہ کے حوالے کر دیا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام پرورش پاتے رہے، جوان ہوئے۔ ان کو دربارِ شاہی کا تقرب ملا۔ اس لیے ان کا ایک خاص مقام تھا۔ کوئی چھیڑ خانی نہیں کرتا تھا کہ یہ فرعون کے دربارکے خاص آدمی ہیں۔ یہ اپنی قوم بنی اسرائیل کا خیال بھی رکھتے تھے، کسی کو زیادتی نہیں کرنے دیتے تھے اور کسی کو ڈانٹ بھی دیتے تو کوئی بولتا بھی نہیں تھا کہ یہ فرعون کے خاص آدمی ہیں۔
قبطی کا قتل:
اسی دوران موسیٰ علیہ السلام جب گھر سے باہر نکلے تو دیکھا کہ ایک قبطی یعنی فرعون کے قبیلے کا آدمی ایک اسرائیلی یعنی موسیٰ علیہ السلام کے قبیلے والے آدمی سے جھگڑا کر رہا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کو سمجھایا کہ تم کیوں ظلم کرتے ہو؟ کیوں زیادتی کرتے ہو؟موسیٰ علیہ السلام سمجھے کہ زیادتی قبطی کی ہے تو آپ نے چھڑانے کےلیے اور تھوڑی سی تنبیہ کرنے کے لیے اس کو مکا مارا تو وہ مر گیا۔ موسیٰ علیہ السلام بھی چلے گئے اور اسرائیلی بھی چلا گیا۔ اب بات مشہور ہو گئی کہ کسی اسرائیلی نے اس کو قتل کر دیا ہے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ قتل تو ہو گیا لیکن قاتل کون ہے؟قاتل تلاش کر رہے تھے اور قاتل ملتا نہیں تھا۔
موسیٰ علیہ السلام اس پر پریشان تھے کہ میرا پتا چل گیا تو فرعون مجھے قصاص میں مار دے گا۔ یہ چھپ رہے تھے کہ میرا پتا نہ چلے۔ دوسرے دن موسیٰ علیہ السلام آئے تو وہی اسرائیلی آدمی کسی اور قبطی سے جھگڑا کر رہا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام وہاں تشریف لے گئے۔ آپ نے پہلے تو اس قبطی کو سمجھایا پھر اس اسرائیلی کو تنبیہ کی۔ کہا کہ تو ہی جھگڑالو ہے تیری عادت ہے جھگڑا کرنا، تو کل بھی جھگڑا کر رہا تھا اور آج بھی جھگڑا کر رہا ہے۔
جب موسیٰ علیہ السلام اس پر غصہ ہوئے اور تھوڑا سا آگے بڑھے تو اس کو شک پڑا کہ آج میری باری ہے، یہ اسرائیلی فوراً بول پڑا کہ کل بھی آپ نے ایک بندے کو قتل کیا تھا اور آج مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں! اتنی بات ہوئی۔ خیر جھگڑا ختم ہو گیا اور وہ قبطی چپ چاپ وہاں سے چلا گیا اس نے جا کر دربار میں شکایت کی کہ قاتل موسیٰ علیہ السلام ہیں اور دلیل کے طور پر یہ واقعہ پیش کیا۔ فرعون نے بندے بھیجے کہ جاؤ اور موسیٰ کو قتل کر دو۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ یہ پانچواں موقع ہے آزمائش کا۔
فرعون کے آدمی موسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کےلیے نکل پڑے۔ یہ لوگ شہر کی بڑی سڑک کے ذریعے موسیٰ علیہ السلام کی تلاش میں نکلے بائی روڈ جیسے سرکاری گاڑیاں چلتی ہیں اور موسیٰ علیہ السلام کی حمایت والا ایک شخص تھا جسے پتا چل گیا کہ سپاہی موسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کے لیے نکل پڑے ہیں، وہ گلی کوچوں سے ہوتا ہوا موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچا اور آ کر موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ موسیٰ! دوڑو تمہارے قتل کا فیصلہ ہو گیا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام وہاں سے نکلے اور پھر مدین کی طرف چل پڑے۔
شہری افضل یا دیہاتی، ایک دلچسپ مکالمہ
﴿وَ جَآءَ رَجُلٌ مِّنۡ اَقۡصَا الۡمَدِیۡنَۃِ یَسۡعٰی﴾
اس پر مجھے ایک واقعہ یادآیا۔ میں درجہ اولیٰ جامعہ بنوریہ کراچی میں تھا تو ہمارے ایک استاد تھے جامعہ بنوریہ میں انہوں نے درجہ ثالثہ میں بات شروع کر دی کہ شہری دیہاتی سے افضل ہوتا ہے۔ جب چھٹی ہوئی تو لڑکے ملے تو انہوں نے مجھے بھی کہا کہ آج ہمارے ہاں یہ بات چلی ہے۔ میرا چونکہ شروع سے ہی گفتگو کا مزاج تھا تو میں نے طلبہ سے کہا کہ دعا کرو استاد جی ہماری کلاس میں یہ بات شروع کریں۔ خیر انہوں نے اگلے دن ہماری کلاس میں یہ بات شروع کر دی کہ شہری دیہاتی سے افضل ہوتا ہے اور وہ تھے تو پکے تبلیغی لیکن مزاج ان کا گفتگووالاتھا۔
یہ بات طے شدہ ہے کہ کوئی خارجی وجہ نہ ہو تو بالذات شہری دیہاتی سے افضل ہوتا ہے، دیہاتی سخت دل ہوتے ہیں، بات نہیں سمجھتے، تعلیم نہیں ہوتی یہ باتیں اپنی جگہ پر ہیں لیکن چونکہ ہم نے تھوڑی سی بات کرنی تھی اس لیے میں نے کہا: استاد جی! شہری دیہاتی سے افضل ہوتا ہے یہ بات دلیل کے ساتھ ہے یا بغیر دلیل کے ہے؟ فرمانے لگے: بہت سے دلائل ہیں۔ میں نے کہا کہ ہمیں بھی کوئی دلیل دے دیں۔ استاد جی فرمانے لگے: قرآن کریم میں ہے:
﴿وَ جَآءَ رَجُلٌ مِّنۡ اَقۡصَا الۡمَدِیۡنَۃِ یَسۡعٰی﴾
کہ ایک شہری آدمی تھا جس نے موسیٰ علیہ السلام کی جان چھڑائی تھی۔ میں نے کہا: استاد جی! یہ بندہ شہری نہیں تھا دیہاتی تھا،
”اَقۡصَا“
اقصی مضاف ہے اور
”الۡمَدِیۡنَۃِ“
مضاف الیہ ہے اور مضاف مضاف الیہ میں اصل تغایر ہوتا ہے، وہ شہر سے نہیں تھا بلکہ شہر سے باہر دیہات سے آیا تھا، وہ ہمارا بندہ تھا آپ کا نہیں تھا۔ آپ کوئی اور دلیل پیش فرمائیں۔
استاد جی فرمانے لگے کہ قرآن کریم میں ہے:
﴿اَلۡاَعۡرَابُ اَشَدُّ کُفۡرًا وَّ نِفَاقًا﴾
کہ دیہاتی کفر اور نفاق میں بہت سخت ہوتے ہیں۔میں نے کہا کہ اسی قرآن کریم میں ہے:
﴿وَ مِنۡ اَہۡلِ الۡمَدِیۡنَۃِ مَرَدُوۡا عَلَی النِّفَاقِ﴾
کہ مدینہ یعنی شہر کے لوگوں میں بھی کچھ لوگ نفاق میں ماہر ہو گئے ہیں، اور قرآن نے دیہاتیوں کی تعریف بھی کی ہے:
﴿وَ مِنَ الۡاَعۡرَابِ مَنۡ یُّؤۡمِنُ بِاللہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ﴾
کہ دیہاتیوں میں سے کئی لوگ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لاتے ہیں اور اللہ تنبیہ بھی فرماتے ہیں :
﴿اَلَاۤ اِنَّہَا قُرۡبَۃٌ لَّہُمۡ﴾
کہ انہی دیہاتیوں کے لیے فضیلت بھی ہے۔ استاذ جی! آپ نے ایک حصہ تو پیش کیا اور دو حصے آپ نے چھوڑ دیے، اب یہ دلیل بھی ٹوٹ گئی۔
مجھے کہتے ہیں کہ جو دیہاتی تہبند پہنتے ہیں اس سے کبھی کبھی بندے کا ستر کھل جاتا ہے۔میں نے کہا کہ ہمارا تو کبھی کبھی کھلتا ہے اور شہریوں کا تو روزانہ کھلتا ہے۔ حدیث پاک میں علاماتِ قیامت میں ایک علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ ایسی عورتیں ہوں گی کہ کپڑے پہنے ہوں گی لیکن پھر بھی ننگی ہوں گی تو شہری تو کپڑے پہن کر بھی ننگے ہوتے ہیں اور ہمارا تو کبھی کبھی ستر کھلتا ہے۔ میں نے کہا کہ استاد جی! ہمارا تہبند کبھی کبھی کھلتا ہے تو آپ کو نظر آ گیا ہے اور شہریوں کا ہر وقت پینٹ پہن کر بھی کھلا ہوتا ہے ہم نے تو کبھی اعتراض نہیں کیا۔
میں نے کہا کوئی اور دلیل؟ مزاح میں فرمانے لگے: تم مان لو! میں نے کہا: استاذ جی ہم تو نہیں مانتے کیونکہ میں نے تو پہلے آپ سے کہا تھا کہ دلیل کے ساتھ یا بلا دلیل؟ تو آپ نے فرمایا تھا دلیل کے ساتھ، آپ شروع میں فرماتے کہ بلا دلیل مان لو تو ہم مان لیتے، اب تو استاد جی دلیل سے بات چلے گی۔ بس گاڑی رک گئی پھر آگے نہیں چلی۔ اگرچہ بالذات شہری، دیہاتی سے افضل ہوتا ہے لیکن میں نے محبت میں استاذ جی سے تھوڑی سی گفتگو کرلی۔
اور طالب علمی میں میری عادت تھی شاید آپ کو یقین نہ آئے، بسا اوقات درس گاہ میں ہماری تین تین دن بات چلتی رہتی تھی، سبق رک جاتے تھے،لگے رہتے تھے استاد بھی اورہم بھی، اور الحمدللہ مجھے یاد نہیں ہے کہ کبھی بھی کسی گفتگو میں نتیجہ یہ نکلا ہو کہ ہم پیچھے ہٹ گئے ہوں! کبھی صَرف پر بحث ہو جاتی، کبھی حیات پر بات ہو جاتی، کبھی کسی اور مسئلے پر شروع ہو جاتے۔ جب کبھی درس گاہ میں استاد جی حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر مماتیت کے خلاف دلائل دیتے تو میں مماتیت کی طرف سے شروع ہو جاتا کہ استاد جی یہ آیت بھی ہے، یہ آیت بھی ہے، استاد جی کہتے: اچھا! کچھ دانے ایسے بھی ہیں! ان کو شک پڑتا کہ شاید یہ مماتی ہے لیکن حاشا وکلا کبھی بھی کسی استاذ کی رتی برابر بھی دل میں حقارت نہ آئی اور نہ آنی چاہیے۔ یہ درس گاہ کا ماحول ہوتا ہے۔ خانقاہ کا ماحول الگ ہوتا ہے اور درس گاہ کا ماحول الگ ہوتا ہے۔
خانقاہ اور درس گاہ کے ماحول میں فرق:
ایک خاتون ہیں اور مجھ سے بیعت ہیں۔ انہوں نے مسئلہ پوچھا، میں نے بتایا۔ اس نے کہا: ایسا کیوں؟ میں نے کہا کہ آپ میری شاگرد نہیں ہیں، مجھ سے بیعت ہیں، جب شاگرد ہو اور درس گاہ میں ہو تو پھرکیوں کیوں کرنا اور جب بیعت ہوں تو پھر کیوں کیوں نہیں کرتے، پھر بات مانتے ہیں۔ درس گاہ کا مزاج قیل و قال والا ہے اور خانقاہ کا مزاج حال والا ہے، شیخ کےسامنے بات نہیں کرتے، بات سمجھ میں نہ آئے تب بھی خاموش ہو جائیں اور درس گاہ میں ہوں اور بات سمجھ میں نہ آئے تو کھل کر دلیل مانگتے ہیں اور دلیل سے بات کرتے ہیں۔
بیویاں بھی اور مریدنیاں بھی!
الحمدللہ میری بیویاں بھی ہیں اور مجھ سے بیعت بھی ہیں، اس لیے ہم کبھی شوہر بن کر بات کرتے ہیں اور کبھی پیر بن کر بات کرتے ہیں، جب شوہر بن کر بات کریں تو ان کو حق ہوتا ہے کہ آگے سے بات کریں۔ بیوی میں دو حیثیتیں ہوتی ہیں ایک محبوب ہوتی ہے اور دوسری محکوم ہوتی ہے، چونکہ محکوم ہے تو اس کا حق ہے کہ بات مانے اور چونکہ محبوب ہے تو اس کا حق ہے کہ کچھ بات منوائے۔ کچھ لوگ محکومیت دیکھتے ہیں تو محبوبیت نہیں دیکھتے اس لیے وہ ہر وقت حاکم بنتے ہیں اور کچھ شانِ محبوبیت دیکھتے ہیں اور شانِ محکومیت نہیں دیکھتے اس لیے وہ ہر بات مانتے ہیں۔ اس لیے ہر بات نہ مانیں کہ وہ آپ کی محکوم بھی ہے اور ہمیشہ ڈانٹ ڈپٹ نہ کریں کہ وہ آپ کی محبوب بھی ہے، یہ دو چیزیں سامنے رکھیں گے تو آپ کے مزاج میں اعتدال آئے گا۔
یہ جو میں آپ سے ہنستے ہنستے باتیں کہتا ہوں یہ زندگی کے اصول ہیں۔ اگر آپ ان کو سمجھ جائیں تو گھروں میں جھگڑے نہیں ہوں گے۔ اس لیے ہمیشہ ذہن میں دونوں باتیں یاد رکھنا! محکوم بھی اور محبوب بھی تو پھر جھگڑا کبھی نہیں ہو گا۔ تو میں نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ ہماری چاروں بیویاں بھی ہیں اور مرید بھی ہیں، کبھی شوہر بن جاتے ہیں اورکبھی پیر صاحب بن جاتے ہیں۔
پیغمبر کی بیوی اور عام امتی میں فرق:
قرآن کریم میں ہے:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَرۡفَعُوۡۤا اَصۡوَاتَکُمۡ فَوۡقَ صَوۡتِ النَّبِیِّ﴾
الحجرات49: 2
اے ایمان والو! تم اپنی آواز نبی کی آواز سے اونچی نہ کیا کرو! نبی کے سامنے اونچی آواز سے بولیں توسارے عمل تباہ اور ایمان ختم ہو جائے گا لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں اس سے مستثنیٰ ہیں رضی اللہ تعالیٰ عنہن، وہ صرف امتی نہیں ہیں بلکہ پیغمبر کی بیویاں بھی ہیں، ان کو وہ حق حاصل ہے جو کسی اور کو نہیں ہے، امتی نبی سے ناراض ہو تو امتی کا ایمان ختم ہو جاتا ہے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم امی عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرماتے ہیں کہ جب تو ناراض ہوتی ہے تو مجھے پتا چل جاتا ہے۔ کب؟ فرمایا کہ جب تو خوش ہو تو کہتی ہے رب محمد کی قسم! اور جب تو کہے کہ رب ابراہیم کی قسم! تو میں سمجھ جاتا ہوں کہ آج عائشہ مجھ سے خوش نہیں ہے۔
مسند احمد: ج17 ص295 رقم الحدیث 24199
یہ بیوی کی شان ہے۔ یہ ہمیشہ ذہن میں رکھیں گے تو پھر لڑائی جھگڑے اور فسادات ختم ہو جاتے ہیں۔
موسیٰ علیہ السلام کا سفرِ مدین:
خیر! موسیٰ علیہ السلام وہاں سے نکلے اور مَدْیَن کی طرف چل پڑے۔ مدین کے قریب تھے کہ ایک کنواں نظر آیا۔ دیکھا کہ لوگ وہاں اپنے مویشیوں کو پانی پلا رہے تھے اور دو نوجوان بچیاں پیچھے ہٹ کر کھڑی ہیں، اپنی بکریوں کو پانی نہیں پلا سکتیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے پردے کے ساتھ نظریں جھکا کر ان سے پوچھا کہ تمہارا کیا مسئلہ ہے، تم کیوں کھڑی ہو؟ ان عورتوں نے جواب دیا کہ کہ ہم اس وقت تک اپنی بکریوں کو پانی نہیں پلاتیں جب تک یہ لوگ یہاں سے چلے نہ جائیں! موسیٰ علیہ السلام کو ان عورتوں پر ترس آیا، آپ خود کنویں پر تشریف لے گئے اور کنویں میں سے پانی کھینچا اور ان عورتوں کی بکریوں کو پلا دیا۔ وہ عورتیں وہاں سے چلی گئیں۔ بعض روایات میں ہے کہ لوگ وہاں اپنے جانوروں کو پانی پلاتے اور جب فارغ ہوتے تو کنویں پر ایک بھاری پتھر رکھ کر اس کو بند کر دیتے تا کہ اس میں کوئی گندگی نہ پڑے اور یہ عورتیں چونکہ پتھر ہٹا نہیں سکتی تھیں اس لیے لوگوں کی بکریوں کے بچے ہوئے پانی پر اکتفا کرتیں اور اپنی بکریوں کو پلاتیں۔ اور یہ پتھر ایسا بھاری تھا کہ دس بندے مل کر اس کو اٹھاتے تھے لیکن موسیٰ علیہ السلام نے اکیلے اس پتھر کو اٹھایا اور کنویں سے پانی نکال کر بکریوں کو پانی پلا دیا۔
حضرت شعیب علیہ السلام سے ملاقات:
حضرت موسیٰ علیہ السلام وہاں سے فارغ ہوئے تو ایک درخت کے سائے کے نیچے بیٹھ گئے اور یہ دعا کی:
﴿رَبِّ اِنِّیۡ لِمَاۤ اَنۡزَلۡتَ اِلَیَّ مِنۡ خَیۡرٍ فَقِیۡرٌ ﴿۲۴﴾﴾
اے اللہ! میں محتاج ہوں،مجھے آپ کا فضل و کرم چاہیے۔ ان دونوں لڑکیوں نے جا کر اپنے والد حضرت شعیب علیہ السلام سے سارا واقعہ بیان کیا۔ آپ نے ایک بیٹی کو بھیجا کہ جاؤ ان کو بلا کر لاؤ! وہ بلانے کےلیے آئی تو موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: میں آگے چلتا ہوں اور تم میرے پیچھے پیچھے چلو، پیچھے سے مجھے بتانا کہ دائیں جانا ہے یا بائیں جانا ہے۔ جب گھر پہنچ گئے تو موسیٰ علیہ السلام نے حضرت شعیب علیہ السلام کو پورا واقعہ سنایا۔ جب واقعہ سن لیا تو حضرت شعیب علیہ السلام نے انہیں تسلی دی اور فرمایا:
﴿لَا تَخَفۡ ٝ۟ نَجَوۡتَ مِنَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۲۵﴾﴾
کہ یہاں پریشان نہ ہونا! یہ مصر اور فرعون کی شاہی کا علاقہ نہیں ہے نہ ہی اس کی یہاں تک دسترس ہے اور نہ اس کا حکم یہاں تک چلتا ہے، آپ اس حوالے سے مطمئن ہو جائیں!
حضرت شعیب علیہ السلام کی ایک بیٹی نے ان سے کہا کہ ابو جان! آپ ان کو ملازمت پر رکھ لیں اس لیے کہ یہ قوی بھی ہیں اور امین بھی ۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی بیٹی سے پوچھا: تمہیں کیسے پتا چلا کہ یہ قوی بھی ہے اور امین بھی ہے؟ اس نے کہا کہ قوت تو ہم نے اس بات سے دیکھی ہے کہ انہوں نے خود پتھر اٹھایا اور ڈول کھینچ کر بکریوں کو پانی پلایا، اور امین کیسے؟ کہا کہ ابا جی! اس نے آنکھ بھر کر ہمیں نہیں دیکھا، اپنی آستین سے چہرہ چھپا کر ہم سے بات کرتے تھےاور ہمیں فرمایا کہ تم پیچھے چلو میں تمہارے آگے چلتا ہوں، اس سے ہمیں معلوم ہوا کہ یہ امین بھی ہیں۔ چنانچہ شعیب علیہ السلام نے فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ ان دو بیٹیوں میں سے ایک کے ساتھ آپ کا نکاح کر دوں لیکن ہماری شرط ہے کہ آٹھ سال آپ بکریاں چرائیں گے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھے یہ شرط منظور ہے۔ اس کے بعد شعیب علیہ السلام نے ان کو ملازم رکھا۔
ملازمت اور عہدے کے لیےچار اہم صفات:
دیکھیں! کسی شخص کو آپ نے عہدہ دینا ہو یا ملازمت دینی ہو تو دو چیزیں تو یہ ہیں اور دو ان کے علاوہ ہیں، ان چار کا خیال کرنا چاہیے:
1: وہ قوی وبا صلاحیت ہو، آپ کا کام کر سکتا ہو اور قوی سے مراد طاقت ور نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ جو کام آپ اس سے لینا چاہتے ہیں اس میں قوی ہو۔
2: امانت دار ہو۔
اس کے علاوہ جو دو چیزیں ہیں ان کا ذکر سورت یوسف میں ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے شاہِ مصر سے فرمایا تھا:
﴿اجۡعَلۡنِیۡ عَلٰی خَزَآئِنِ الۡاَرۡضِ ۚ اِنِّیۡ حَفِیۡظٌ عَلِیۡمٌ ﴿۵۵﴾﴾
یوسف 12: 55
کہ آپ مجھے خزانوں کے انتظامات سپرد کر دیں! اس کے لیے آپ نے دو چیزیں بیان فرمائی ہیں: ایک یہ کہ مجھے حفاظت کرنے کا سلیقہ بھی آتا ہے اور دوسرایہ کہ میرے پاس اس فن کا علم بھی ہے۔اس لیے قوت اور امانت داری کے علاوہ دو اور چیزیں بھی ہونی چاہییں:
3: حفیظ ہو، نگرانی اس کا مزاج ہو، اشیاء کی حفاظت کرے۔
4: علیم ہو، اس کے پاس اس فن اور معاملہ کا علم بھی ہو۔
یہ چار چیزیں بالکل الگ تھلگ ہیں۔ ایک بندے کے پاس علم ہوتا ہے لیکن کمزور ہے کہ کام نہیں کر سکتا، لکھنا کیسے ہے اس کو پتا ہے لیکن اس کا ہاتھ کام نہیں کرتا یعنی خطاط نہیں ہے، اب یہ علیم تو ہو گا لیکن قوی نہیں ہو گا، اس لیے اس کو لکھنا بھی آتا ہو اور لکھ سکتا بھی ہو۔ تو جو کر سکتا ہو وہ قوی ہے اور جو جانتا ہو وہ علیم ہے۔ پھر یہ حفیظ بھی ہو۔ حفیظ کا معنی کہ ایک بندہ جانتا بھی ہے کام کر بھی سکتا ہے لیکن اپنے کیے ہوئے کام کو سنبھالتا نہیں ہے، حفاظت نہیں کرتا۔ اب اس کوآپ کیا کریں گے؟! تو بندہ قوی بھی ہو، امین بھی ہو، حفیظ بھی ہو اور علیم بھی ہو۔ یہ چار صفتیں ہوں پھر آپ بندہ رکھیں۔
حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹی سے نکاح:
خیر حضرت شعیب علیہ السلام سے معاملہ طے ہو گیا۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے جو حق مہر رکھا تھا وہ بظاہر مال نہیں تھا بلکہ ان کا کام تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ ہمارے اس دور میں ایسا کرنا جائز ہےیا نہیں؟
تو اس کے لیے پہلی بات تو یہ سمجھیں کہ ہمارے ہاں حق مہر میں مال ہونا شرط ہے، بکریاں چرانا یہ مال نہیں ہے۔ ہاں یہ حضرت شعیب علیہ السلام کی شریعت کا معاملہ تھا اور ان کی شریعت میں جائز تھا۔ دوسری بات یہ جو حضرت شعیب علیہ السلام نے حق مہر رکھا تھا ہو سکتا ہے کہ وہ حق مہر بھی مال ہو۔ مال اس طرح ہو گا کہ آپ آٹھ سال کام کریں گے اور ہر مہینے آپ کو اتنی تنخواہ ملے گی اور وہ تنخواہ آپ کا حق مہر ہو گا۔ آج بھی اگر کوئی بندہ اپنی بیٹی کسی کو نکاح میں دیتا ہے اور حق مہر کی یہ صورت بنا لے کہ آپ ہمارے پاس ایک سال کام کریں گے۔ جو ایک سال کام کریں گے اس کے جتنے پیسے ملیں گے وہ پیسے حق مہر ہوں گے، ہم مہر کے پیسے نہیں لیں گے بلکہ اتنے پیسوں کا کام لیں گے تو یہ کام پیسوں کے بدلے میں ہوا؟ اس لیے یہ مال ہی ہے اور اس کو حق مہر بنانا جائز ہے۔
بکریاں چرانے کو حق مہر بنانا کیسا ہے؟
یہاں ایک سوال یہ ہے کہ نکاح حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹی کا ہورہا ہے اور حضرت شعیب علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ملازم رکھ رہے ہیں اپنا! تو حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹی کو حق مہر کیا ملا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ بکریاں حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹی کی ہوں اور یہی بکریاں موسیٰ علیہ السلام چراتے ہوں اور حضرت شعیب علیہ السلام نے ملازمت کی محض نسبت اپنی طرف کی ہو۔ تو جب بکریاں بیٹی کی ہیں تو ملازمت بھی انہی کی کر رہے ہیں تو جو مزدوری بیٹی نے دینی تھی اس کے پیسے نہیں دیے بلکہ پیسے کے بدلے میں کام کر لیا۔
آج بھی اگر کوئی شخص نکاح کرے اور حق مہر کے طور پر پیسے نہ رکھے بلکہ حق مہر کے طور پر کوئی کام رکھ لے تو فقہاء کہتے ہیں کہ جائز ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ وہ کام عورت کی ذات سے تعلق نہ رکھتا ہو، گھر سے باہر تعلق رکھتا ہو کیونکہ شوہر بن کر بیوی کی خدمت کرے تو یہ شوہر کےلیے عیب ہے، اس میں شوہر کی خفت ہے، ایسی چیز حق مہر نہ رکھو مثلاً کوئی کہے کہ ہم بیٹی دیتے ہیں اور حق مہر یہ ہے کہ آپ نے اس کے سر کی مالش کرنی ہے تو یہ حق مہر صحیح نہیں۔ ہاں اگر یہ کہے کہ نکاح کر کے دیتے ہیں اس کا جو بزنس ہے وہ تم سنبھالو گے اوراس پر جو بندہ ہم نے رکھا ہے اس کی بیس ہزار تنخواہ ہے وہ آپ کو نہیں دیں گے بلکہ وہ تمہارا حق مہر ہو گا تو یہ بات ٹھیک ہے، اس کی گنجائش موجود ہے۔
موسیٰ علیہ السلام کی مصر واپسی اور عطائے نبوت:
خیر! حضرت موسیٰ علیہ السلام وہاں ٹھہرے۔ آٹھ سال کی پیشکش اُن کی طرف سے تھی اور دو سال انہوں نے اپنی طرف سے پورے کیے کیونکہ شعیب علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ آٹھ سال شرط ہے اور دس سال پورے کرو تو تمہاری مرضی ہے۔ تو دس سال پورے کیے۔ نکاح ہوا اور بیوی کو لے کر واپس آ رہے تھے۔ رات سرد اور اندھیری تھی اور موسیٰ علیہ السلام کی بیوی امید سے تھیں۔ان کو درد زہ شروع ہوا۔ موسیٰ علیہ السلام کے پاس چقماق تھا کہ پتھر کو پتھر پر مارتے تو آگ نکلتی لیکن کوشش کے باوجود اس سے آگ نہ نکلی۔ آپ نے دور سے دیکھا کہ ایک جگہ آگ ہے تو بیوی کو چھوڑ کر آگ لینے کےلیے چلے گئے۔ جب وہاں پہنچے تو وہ آگ نہیں تھی بلکہ وہ تو تجلئ الہٰی تھی، جس سے درخت چمک رہا تھا۔ موسیٰ علیہ السلام کو حکم ہو ا:
﴿یٰمُوۡسٰی ﴿ؕ۱۱﴾ اِنِّیۡۤ اَنَا رَبُّکَ فَاخۡلَعۡ نَعۡلَیۡکَ ۚ اِنَّکَ بِالۡوَادِ الۡمُقَدَّسِ طُوًی ﴿ؕ۱۲﴾﴾
طٰہٰ 20: 12
کہ اے موسیٰ! میں تمہارا رب ہوں، آپ اپنے جوتے اتار دیں کیونکہ آپ اس وقت طوی کی مقدس وادی میں ہیں۔
جوتے اتار کر موسیٰ علیہ السلام آئے اور اللہ کا کلام سنا۔ واقعہ تو آپ کے ذہن میں ہے نا! وہاں سے موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے دعا مانگی یا اللہ! آپ نے مجھے نبی بنایا لیکن میری زبان میں لکنت ہے اور مجھ سے ان کا بندہ قتل ہوا ہے، ان کی نظر میں میں ان کا مجرم ہوں تو آپ میرے ساتھ میرے بھائی ہارون کو وحی دے دیں۔ اللہ تعالیٰ نے دعا کو قبول فرمایا۔ حضرت ہارون علیہ السلام کو نبی بنا دیا۔ حضرت ہارون کو حکم دیا کہ موسیٰ علیہ السلام آ رہے ہیں، مصر سے باہر نکل کر موسیٰ علیہ السلام کا استقبال کرو۔
مقدس مقامات میں جوتے اتارنا:
یہاں ایک مسئلہ یاد رکھنا! یہ جو موسیٰ علیہ السلام مقدس وادی میں گئے اور اپنے جوتے اتار دیے، یہ اب بھی مسئلہ ہے کہ جب بھی کسی مقدس اور ایسے مقام پر جائیں جس کا آپ کی نظروں میں احترام ہے تو وہاں جوتے اتار دینے چاہییں۔
ایک حدیث پاک میں ہے کہ حضرت بشیر بن خصاصیہ رضی اللہ عنہ کو قبروں کے درمیان جوتا پہن کر چل رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا تو فرمایا:
" اِذَاکُنْتَ فِیْ مِثْلِ ھٰذَا الْمَکَانِ فَاخْلَعْ نَعْلَیْکَ."
الجامع لاحکام القرآن للقرطبی: ج2 ص1994
کہ جب ایسی جگہوں پر ہو تو اپنے جوتے اتار دیا کرو۔
اس سے معلوم ہوا کہ اکابرین اور اولیاء اللہ کی قبور کے پاس جو جوتے اتارے جاتے ہیں وہ ناجائز نہیں ہے بلکہ یہ حدیث پاک سے ثابت ہے۔
حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کی دربارِ فرعون میں آمد:
حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام دونوں فرعون کےدربار میں گئے کہ ہمیں اللہ نے حکم دیا ہے کہ تمہیں دعوت دیں، تم کلمہ پڑھو اور شاہی چھوڑو اور خدا کی عبادت کرو اور بنی اسرائیل کو آزاد کرو۔ اس نے کہا کہ کون ہے رب؟ کہا:
﴿رَبُّنَا الَّذِیۡۤ اَعۡطٰی کُلَّ شَیۡءٍ خَلۡقَہٗ ثُمَّ ہَدٰی ﴿۵۰﴾﴾
طٰہٰ 20: 50
ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کے مناسب پیدا کیا ہے اور اس کی رہنمائی بھی فرمائی، اس کو راستے بھی دکھائے۔
فرعون کے ساتھ مکالمہ:
یہ بات پیچھے گزر چکی ہے۔ خیر مکالمہ چلتا رہا۔ فرعون نے کہا کہ تمہیں یاد ہے کہ ہم نے تمہاری تربیت کی اور آج ہمیں سناتے ہو؟! موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ جو تم مجھے پالا ہے دودھ پلایا ہے کون سا احسان کیا ہے؟ تم نے بنی اسرائیل کو غلام بنا کر رکھا، بچے تم ذبح کرتے تھے، اگر تم یہ کام نہ کرتے تو میں تمہاری تربیت میں کبھی نہ آتا، یہ جو تم نے میری پرورش کی ہے، بچپن میں پالا ہے تو یہ میرے اوپر احسان نہیں کیا۔ فرعون نے پوچھا کہ کوئی دلیل بھی ہے تمہارے پاس تو پیش کرو! موسیٰ علیہ السلام نے عصا پھینکا تو وہ اژدھا بن گیا، فرعون دوڑا اور تخت کے نیچے چھپ گیا اور موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ اس سانپ کو سنبھالو! موسیٰ علیہ السلام نے ہاتھ رکھا تووہ پھر عصا بن گیا۔
یہ عصا استنبول ترکی میں آج بھی موجود ہے اور میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، بالکل سادہ سا عصا ہے۔ یوسف علیہ السلام کا عمامہ بھی استنبول میں موجود ہے اور بھی بہت سی نادر چیزیں وہاں پر موجود ہیں۔ چونکہ وہاں خلافت عثمانیہ تھی تو دور دور سے وہاں چیزیں لے کر آئے تھے۔پانچ سوسال سے ایک سیکنڈ بھی ایسا نہیں گزرا کہ وہاں چوبیس گھنٹے قرآن کریم کی تلاوت نہ ہوتی ہو! وہاں قاری حضرات متعین ہیں اور بہت عجیب منظر ہے، انسان پر بہت عجیب کیفیت طاری ہوتی ہے۔ پھر دوسرا معجزہ آپ نے ید بیضاء دکھایا۔ فرعون اس سے بہت پریشان ہوا۔
جادوگروں سے مقابلہ:
جب موسیٰ علیہ السلام چلے گئے تو اس نے اپنے درباریوں کو جمع کیا، مشورہ ہوا توکہا کہ یہ جادو ہے۔ جادو گر بلاؤ۔ اس کے لیے عید کا دن طے ہوا اور یہ عید کا دن دس محرم کا دن تھا اور آج بھی جب آپ سبق پڑھ رہے ہیں تو آج بھی دس محرم ہے، یہ بھی عجیب اتفاق ہے۔ تو ستر ہزار جادو گر آئے۔ انہوں نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ آپ پھینکیں گے لاٹھی یا ہم پھینکیں؟ فرمایا: تم پھینکو! انہوں نے لاٹھیاں پھینکیں :
﴿فَاِذَا حِبَالُہُمۡ وَ عِصِیُّہُمۡ یُخَیَّلُ اِلَیۡہِ مِنۡ سِحۡرِہِمۡ اَنَّہَا تَسۡعٰی ﴿۶۶﴾﴾
طٰہٰ 20: 66
جونہی انہوں نے رسیاں پھینکیں تو ان کے جادو کے اثر سے موسیٰ علیہ السلام کو ایسے محسوس ہونے لگا جیسے سانپ دوڑ رہے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی لاٹھی پھینکی تو اس نے سارے سانپوں کو ہڑپ کر لیا۔ جادوگروں نے اسی وقت کلمہ پڑھا۔ وہ سمجھ گئے کہ یہ جادو نہیں ہے، یہ معجزہ ہے اور وہ موسیٰ علیہ السلام کے صحابی بن گئے۔ اب حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام ایک طرف ہیں اور فرعون دوسری طرف ہے۔ دعوت چلتی رہی، فرعون نہیں مانتا تھا، عذاب آتا تو کہتا کہ دعا کرو! موسیٰ علیہ السلام دعاکرتے اور عذاب ٹل جاتا تو فرعون پھر سرکش ہو جاتا، پھرعذاب آتا، یہ گڑگڑاتا، موسیٰ علیہ السلام دعا کرتے اور عذاب ٹل جاتا۔ واقعات آپ سارے سن چکے ہیں، کبھی جوئیں، کبھی مینڈک،کبھی خون،کبھی ٹڈی کا عذاب آتا لیکن فرعون ضدی اور سرکش تھا، نہیں مانا۔
بنی اسرائیل کی آزادی:
خیر ایک وقت آیا کہ اللہ پاک نے حکم دیا موسیٰ علیہ السلام کو کہ آپ رات کے وقت نکلیں! دن کے وقت اسرائیلیوں نے فرعونیوں سے کہا کہ بھائی! ہماری اپنی عید ہے، ہم وہ منانے کے لیے مصر سے باہر جا رہے ہیں اور چونکہ موقع ہماری خوشی کا ہے اس لیے ہمیں عاریۃً کچھ زیور چاہییں۔ اس بہانے سے انہوں نےکچھ زیورات مانگ لیے۔ رات کے وقت موسیٰ علیہ السلام نے خودکو، اپنے بھائی کو اور اسرائیلوں کو ساتھ لیا اور نکل گئے۔ فرعون کو اطلاع ملی تو فرعون اپنا لشکر لے کر نکلا، سات لاکھ صرف فرعون کے گھوڑ سوار تھے، باقی لشکر اس کے علاوہ تھا۔ موسیٰ علیہ السلام جب دریا پر پہنچے تو منظر یہ تھا کہ آگے دریا ہے اور پیچھے فرعونی۔ موسیٰ علیہ السلام کی قوم جب دریا پر پہنچی تو انہوں نے کہا :
﴿اِنَّا لَمُدۡرَکُوۡنَ ﴿ۚ۶۱﴾﴾
الشعراء 26: 61
کہ ہم تو مارے گئے، اب ہمارا کیا بنے گا، سامنے دریا ہے اور پیچھے فرعون ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا:
﴿اِنَّ مَعِیَ رَبِّیۡ سَیَہۡدِیۡنِ ﴿۶۲﴾﴾
اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ موسیٰ علیہ السلام پر وحی آئی کہ اپنا عصا مارو! عصا مارا تو بارہ راستے بن گئے۔ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے تھے۔ ہر قبیلہ ایک ایک راستے سے گزر گیا۔
یعقوب علیہ السلام کا لقب اسرائیل تھا۔ ”اسرا“ کا معنی ہے عبد اور ”ئیل“ کا معنی ہے اللہ، اسرائیل کا معنی اللہ کا بندہ اور بنی اسرائیل کا معنی ہے اسرائیل کے بیٹے۔ ان کے بارہ بیٹے تھے، سب سے بڑا بیٹا یہودا تھا اور سب سے چھوٹا بنیامین تھا اور بارہ بیٹوں سے آگے بارہ قبیلے چلے ہیں جو ”بنی اسرائیل“ کہلاتے ہیں اور ان کی آبادی آگے لاکھوں کی تعداد میں تھی۔ شریعت نے آج بھی معاشرت میں قبائل کی حیثیت کو تسلیم کیا ہے۔ تو وہاں بھی ایک راستہ نہیں بنا بلکہ بارہ راستے بنے ہیں، ہر قبیلہ اپنے راستے سے گزرا، جب ان کو وادی تیہ میں پانی کی ضرورت پڑی تھی تو چار کونوں والا پتھر تھا اور ہر کونے سے تین چشمے نکلے یوں بارہ قبیلے اور بارہ چشمے بنے، وہاں بھی قبائل کو تسلیم کیا اور اس کا بڑا خیال رکھا ہے۔
لشکرِ فرعون کی غرقابی:
خیر بنی اسرائیل آگے تھے اور فرعون اور اس کا لشکر پیچھے تھا، موسیٰ علیہ السلام کا آخری بندہ سمندر سے گزر رہا تھا اور فرعون کا آخری بندہ سمندر میں داخل ہو رہا تھا تو حکم ہوا اورپانی آپس میں مل گیا۔ اب فرعونی غرق ہو گئے۔ جب بنی اسرائیلی دریا پار کر گئے تو چونکہ یہ غلامی میں رہے تھے اور غلام کے دل سے اپنے حاکم کا خوف کبھی نہیں جاتا۔ تو انہوں نے کہا کہ فرعون کا کیا بنا؟ فرمایا کہ وہ تباہ ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا نہ ہو کہ وہ زندہ ہو اور آ جائے۔ اللہ تعالی نے دریا کو حکم دیا کہ فرعون کو باہر نکال کر پھینک دو۔ دریا نے فرعون کی لاش کو باہر پھینک دیا۔ یہ اس لیے باہر پھینکا تھا تاکہ بنی اسرائیلی اس کو دیکھ لیں، ان کو پھر تسلی ہوئی کہ فرعون مر گیا ہے، ایک تو ان کو تسلی ہو گئی اور دوسرا بعد والوں کے لیے عبرت کا نشان بنا دیا۔ فرعون آج بھی وہاں پر ہے اس کو عذاب ہو رہا ہے۔
بنی اسرائیل کی عجیب فرمائش:
بنی اسرائیلی آگے ایک جگہ پر پہنچے تو انہوں نے کچھ بت دیکھے تو موسیٰ علیہ السلام سے کہا:
﴿یٰمُوۡسَی اجۡعَلۡ لَّنَاۤ اِلٰـہًا کَمَا لَہُمۡ اٰلِـہَۃٌ﴾
الاعراف 7: 138
کہ اے موسیٰ! جیسے ان لوگوں کے بت ہیں تو ہمیں بھی ایسے بنا کر دیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: تم کیسے عجیب لوگ ہو، جاہلوں والی باتیں کرتے ہو! پھر فرمایا: ابھی تم یہیں ٹھہرو! میں کوہ طور پر جاتا ہوں، اللہ سے دعا کرتا ہوں، کوئی کتاب لاتا ہوں عمل کرنے کے لیے۔موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر گئے تورات کو لینے کےلیے، آپ نے تیس روزے رکھے۔ تیس روزے رکھنے کے بعد موسیٰ علیہ السلام نے مسواک کے ساتھ اچھی طرح اپنا منہ صاف کیا۔ جب کوہ طور پر پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: موسیٰ! آج تمہارا روزہ نہیں ہے؟یہ سمجھانے کےلیے کہا۔ جی! روزے تو پورے ہو گئے ہیں۔ کہا کہ تمہارے منہ سے خوشبو کیوں آ رہی ہے، بو ختم ہوگئی؟! کہا: جی وہ تو میں نے مسواک کر لی ہے۔ فرمایا مسواک کیوں کی؟عرض کیا کہ آپ کے دربار میں آ رہا تھا تو میری خواہش تھی کہ میرے منہ سے خوشبو آئے۔ فرمایا: روزے دار کے منہ کی جو بو ہے وہ مجھے مشک سے زیادہ پسند ہے، جاؤ دس روزے اور رکھو اور روزے والی خوشبو کو باقی رہنے دو۔ موسیٰ علیہ السلام نے پھر دس روزے رکھے۔ اب یہاں آپ کو ہو گئے چالیس دن۔ پیچھے قوم نے کہا کہ ہم سے وعدہ کیا تھا کہ تیس دن بعد آؤں گا اور تیس دن بعد نہیں آئے، کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ سامری نے کہا کہ وہ بھول گیا ہے، وہ خدا کوتلاش کر رہا ہے جبکہ خدا ہمارے پاس ہے۔
بچھڑے کی پوجا کا قصہ:
حضرت ہارون علیہ السلام نے بنی اسرائیل سے فرمایا کہ وہ جو تمہارے پاس زیورات اور عاریت کا سامان ہے وہ تمہار انہیں ہے، یہ تمہارے پاس بطور امانت کے تھا، فرعونی جو اس سامان کے مالک ہیں وہ ہلاک ہوچکے ہیں اس لیے تم اس کو استعمال نہیں کر سکتے، ان کے زیور اپنے پاس رکھنا جائز نہیں ہے۔ آپ علیہ السلام نے وہ سب زیور ایک گڑھے میں پھینکوا کر آگ لگوا دی اور یہ جو سامری تھا آیا، اس کے ہاتھ میں مٹی تھی، حضرت ہارون یہ سمجھے کہ اس کے ہاتھ میں کوئی زیور ہے جو اس نے چھپایا ہوا ہے۔ کہا کہ تم نے کیا چھپایا ہوا ہے؟ تم بھی پھینکو! اس نے کہا کہ میرے پاس زیور نہیں ہیں مٹی ہے، جب حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور ہمارے لشکر کے آگے آگے تھے تو جس گھوڑے پر وہ سوار تھے جہاں ان کا گھوڑا پاؤں رکھتا وہاں سبزہ اگتا تھا تو میں سمجھا کہ اس مٹی میں حیات ہے، میں نے وہ مٹی سنبھال کر رکھی ہے۔ میں اسے ایک شرط پر اس آگ میں پھینکوں گا کہ آپ دعا کریں کہ جو میں چاہتاہوں اللہ کرے وہ ہوجائے۔ حضرت ہارون علیہ السلام نے دعا کی کہ یا اللہ! جو یہ چاہتا ہے وہ ہوجائے۔ سامری نے وہاں مٹی پھینکی اور دعا مانگی کہ میں چاہتا ہوں کہ مٹی پورا بچھڑا بن جائے۔ اب ہارون علیہ السلام اللہ سے دعا مانگ چکے تھے، دعا قبول ہو گئی اور جب مٹی پھینکی تو وہ ساری مٹی اکٹھی ہوئی اور وہ ایک بچھڑا بن گیا اور اس بچھڑے سے آواز نکلنا شروع ہو گئی۔ آواز نکلنے کی وجہ یہ تھی کہ بچھڑا اندر سے خالی تھا، منہ کا بھی سوراخ تھا، پیچھے بھی سوراخ تھا، جب ہوا پیچھے سے ہو کر تیزی سے منہ کے ذریعے گزرتی تو آواز آتی۔ سامری نے کہا کہ خدا تو یہ ہے اور موسیٰ علیہ السلام بھول گئے ہیں، اس لیے اس کی پوجا کرو۔
اب بنی اسرائیل کے تین قسم کے گروہ ہوگئے تھے۔ بعضوں نے پوجنا شروع کر دیا۔ بعضوں نے کہا کہ ہم اس کے قریب بھی نہیں جائیں گے، یہ تو شرک ہے۔ بعضوں نے کہا کہ چلو پوجتے ہیں، موسیٰ علیہ السلام جب آئیں گے تو اگر کہا کہ چھوڑ دو تو ہم چھوڑ دیں گے۔ یہ متردد لوگ تھے۔
پاس کر یا برداشت کر!
مظفر گڑھ میں میرا ایک جگہ پر بیان تھا تقلید کے عنوان پر تو ایک آدمی نے چٹ لکھ کر دی کہ کوئی آسان سی مثال دے کر تقلید کا مسئہ سمجھا دیں! میں نے کہا: ہمارے ہاں ٹریکٹر ٹرالی چلتی ہے اور اس کے پیچھے لکھا ہوتا ہے :
1: ہارن دو راستہ لو
2: پاس کر یا برداشت کر
3: نہ چھیڑ ملنگاں نو ں
پہلی قسم ”ہارن دو راستہ لو“․․․یہ مجتہد ہے، اپنی محنت سے آگے بڑھتا ہے، دوسری قسم ”پاس کر یا برداشت کر“․․․ اس میں ”پاس کر“ یہ مجتہد ہے اور ”برداشت کر“ یہ مقلد ہے اور جو پاس بھی نہ کرسکے اور برداشت بھی نہ کرے اور اندر ہی اندر سے جلتا رہے یہ ہے غیر مقلد، بس گاڑی دوڑا رہا ہے نہ آگے جا سکتا ہے اور نہ ہی برداشت کر سکتا ہے۔تیسری قسم”نہ چھیڑ ملنگاں نوں“․․․ انہیں کوئی غرض نہیں دنیا میں کیا ہو رہاہے! کبھی تیجہ،کبھی ساتواں،کبھی عرس،کبھی برسی بس خوراک پر خوراک ہے، یہ ہیں ” نہ چھیڑ ملنگاں نوں“۔
موسیٰ علیہ السلام جب واپس آئے تو دیکھ کر بہت غصے ہوئے۔ آپ نے تورات کی تختیاں ڈالیں اور حضرت ہارون علیہ السلام کو پکڑا سر کے بالوں اور ڈاڑھی سے اور کھینچا کہ یہ تو نے کیا کیا؟ تم نے میرے جانے کے بعد ان کو سنبھالا نہیں ہے؟ حضرت ہارون علیہ السلام نے کہا کہ جی! میں سمجھتا تھا کہ اگر میں نے ان کو مارا تو یہ دو فرقوں میں تقسیم ہو جائیں گے تو آپ کہیں گے کہ امت کو تقسیم کر دیا ہے، میں تو آپ کی وجہ سے خاموش تھا کہ آپ آئیں اور جو فیصلہ فرمائیں وہ کر لیں گے، موسیٰ علیہ السلام کا غصہ پھر ختم ہو گیا۔ اب ان کا کیا کریں کہ انہوں نے اتنا بڑا جرم کیا ہے؟!
بنی اسرائیل کی توبہ:
موسیٰ علیہ السلام نے کہا اب ہمیں توبہ کرنی چاہیے۔ توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ ان میں سے جو نیک ستر آدمی ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے پاس جائیں اور اللہ تعالیٰ سے معافی کی درخواست کریں۔ ستر آدمیوں کو لے کر آپ دعا کےلیے کوہ طور پر گئے۔ اصل حکم تو یہ تھا کہ وہ لوگ جائیں جو نیک اور ولی ہیں لیکن ان میں بعض وہ لوگ بھی چلے گئے جو مترددین تھے جنہوں نے کہا تھا کہ بچھڑے کو پوج لیتے ہیں لیکن اگر موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ چھوڑ دو تو ہم چھوڑ دیں گے۔ کوہِ طور پر گئے تو ان متردد لوگوں کی وجہ سے زلزلہ آیا اور وہ ستر کے ستر ہلاک ہوگئے۔ موسیٰ علیہ اسلام نے اللہ سے عرض کیا کہ یا اللہ! ان کی حرکتوں کی وجہ سے آپ ہمیں عذاب دیں گے؟ بنی اسرائیل کہیں گے کہ تو نے ہمارے بندے مروا دیے۔ اللہ تعالیٰ نے ان ستر کو زندگی عطا فرمائی اور موسیٰ علیہ السلام پر وحی آگئی کہ ان کی توبہ یہی ہے کہ ان میں سے جو لوگ اس شرک میں ملوث نہیں ہوئے تھے وہ شرک کرنے والوں کو قتل کریں ، جو شخص رشتہ میں جس سے زیادہ قریب ہو وہ اپنے عزیز کو اپنے ہاتھ سے قتل کرے یعنی باپ بیٹے کو اور بیٹا باپ کو اور بھائی بھائی کو، اب یہ بہت مشکل مرحلہ تھا لیکن انہوں نے اس حکم پر عمل کیا، بالآخر اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی۔
قومِ جبارین کے خوف سے بنی اسرائیل کا پیچھے ہٹنا:
اب وہاں سے آگے نکلے، حکم تھا کہ آپ ملک شام جائیں! جب ملک شام کے ایک شہر پہنچے جس پر جبارین کا قبضہ تھا، یہ ہیبت ناک قوم تھی، شکل بھی ان کی عجیب وغریب تھی اور قد بھی ان کے لمبے لمبے تھے۔ موسیٰ علیہ السلام اس شہر میں داخل ہونا چاہتے تھے لیکن قوم نے کہا:
﴿یٰمُوۡسٰۤی اِنَّا لَنۡ نَّدۡخُلَہَاۤ اَبَدًا مَّا دَامُوۡا فِیۡہَا فَاذۡہَبۡ اَنۡتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا ہٰہُنَا قٰعِدُوۡنَ ﴿۲۴﴾﴾
المائدۃ 5: 24
اے موسیٰ! جب تک یہ قوم اس شہر میں موجو دہے ہم اس میں ہرگز داخل نہیں ہوں گے، آپ اور آپ کا رب جا کے لڑو، ہم تو یہیں بیٹھیں گے، ہم نہیں لڑیں گے۔
موسیٰ علیہ السلام ان کے اس رویے سے نہایت غمگین ہوئے اور ان کےلیے بد دعا کی۔ اس بددعا کا نتیجہ یہ ہواکہ یہ چالیس سال تک اس وادی تیہ میں رہے۔ صبح سے لے کر شام تک چلتے اور شام کو رک جاتے، جب صبح اٹھتے تو پھر وہی جگہ ہوتی۔ بس اتنا تھا کہ ان کو کپڑے دے دیے گئے جو میلے بھی نہیں ہوتے تھے اور کھانے کےلیے بٹیر اور ترنجبین ملے تو یہ لوگ اس سے بھی تنگ آئے۔ تو چالیس سال تک یہ لوگ اسی وادی میں رہے اور موسیٰ علیہ السلام کا انتقال بھی یہیں ہوا۔ اس کے بعد حضرت ہارون علیہ السلام اور ان کے خلیفہ حضرت یوشع بن نون علیہ السلام شام گئے اور پھر شام کے اس شہر کو فتح کیا۔ تو یہ میں نے پورا واقعہ مختصرا آپ کو سنایا جو مختلف سورتوں میں مختلف مواقع پر تھوڑا تھوڑا بیان کیا گیا ہے۔
اب بعض آیات کے متعلق کچھ باتیں سن لیں:
نبی سے گناہ نہیں ہوتا:
﴿قَالَ رَبِّ اِنِّیۡ ظَلَمۡتُ نَفۡسِیۡ فَاغۡفِرۡ لِیۡ فَغَفَرَ لَہٗ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِیۡمُ ﴿۱۶﴾﴾
اس پر ایک سوال ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام کا گناہ نہیں تھا تو موسیٰ علیہ السلام نے
﴿رَبِّ اِنِّیۡ ظَلَمۡتُ نَفۡسِیۡ﴾
کیوں فرمایا؟
اس کا جواب سمجھیں کہ موسیٰ علیہ السلام سے جو قتل ہوا تھا یہ قتل عمد نہیں تحا بلکہ قتل خطا تھا جو گناہ نہیں ہے اور معصیت بھی نہیں ہے لیکن موسیٰ علیہ السلام چونکہ نبی تھے اور نبی اپنی شان کے مطابق بات کرتا ہے کہ یا اللہ! مجھے خطاءً بھی نہیں مارنا چاہیے تھا، آپ مجھے معاف فرما دیں۔
حضرت ہارون علیہ السلام کی معاونت:
﴿وَ اَخِیۡ ہٰرُوۡنُ ہُوَ اَفۡصَحُ مِنِّیۡ لِسَانًا فَاَرۡسِلۡہُ مَعِیَ رِدۡاً یُّصَدِّقُنِیۡۤ ۫ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اَنۡ یُّکَذِّبُوۡنِ ﴿۳۴﴾﴾
موسیٰ علیہ السلام نے کہا: یا اللہ! میری زبان بھی لکنت والی ہے اور مجھ سے ان کا ایک بندہ بھی قتل ہو گیا ہے تو آپ ہارون علیہ السلام کو میرے ساتھ بھیج دیں، ان کی زبان مجھ سے زیادہ صاف ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ داعی کو اسبابِ ضروریہ اختیار کرنے چاہییں اور اسباب کا اختیار کرنا توکل کے خلاف نہیں ہوتا۔ کسی بھی علاقے میں آپ کام کرنے کےلیے جائیں تو وہاں کوشش کریں کہ آپ کے ہمنواہہوں، اس کے لیے اللہ سے دعا بھی کریں اور محنت کے ساتھ افراد بھی پیدا کریں تو یہ دعوت کے خلاف نہیں ہے۔
اعمالِ دنیا کی آخرت میں صورتِ مثالیہ:
﴿وَ جَعَلۡنٰہُمۡ اَئِمَّۃً یَّدۡعُوۡنَ اِلَی النَّارِ ۚ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ لَا یُنۡصَرُوۡنَ ﴿۴۱﴾﴾
ہم نے ان کو ایسے مقتدا بنایا تھا جو لوگوں کو آگ کی طرف بلاتے تھے اور جب قیامت کا دن ہو گا تو ان کی مدد نہیں کی جائے گی۔
اللہ تعالیٰ نے مقتدا کو ”امام“ کہا ہے۔ فرعون کے درباری یہ اپنی قوم کے امام اور مقتدا تھے اور یہ ائمہ جہنم تھے، اسی لیے کہا
﴿اَئِمَّۃً یَّدۡعُوۡنَ اِلَی النَّارِ﴾
کہ یہ لوگ ائمہ ضلالت تھے اور یہ جہنم کی طرف بلاتے ہیں۔ جس طرح ضلالت کے ائمہ ہوتے ہیں اسی طرح ہدایت کے ائمہ بھی ہوتے ہیں،
﴿وَ جَعَلۡنَا مِنۡہُمۡ اَئِمَّۃً یَّہۡدُوۡنَ بِاَمۡرِنَا﴾
ائمہ ہدایت لوگوں کو جنت کی طرف بلاتے ہیں۔
الم السجدۃ 32: 24
اب دیکھو! بظاہر شبہ ہے کہ
﴿یَّدۡعُوۡنَ اِلَی النَّارِ﴾
یہ لوگ آگ کی طرف بلاتے ہیں حالانکہ یہ آگ کی طرف تو نہیں بلاتے تھے، پھر یہ کیوں کہا کہ یہ آگ کی طرف بلاتے ہیں؟
اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ یہ ایسے اعمال کی دعوت دیتے تھے جو اعمال جہنم کی طرف پہنچا تےتھےتو گویا یہ جہنم کی طرف بلاتے تھے۔
دوسرا جواب․․․ علامہ محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کی رائے یہ ہے کہ دنیا میں جتنے اعمال ہیں ان اعمال کی عالَم مثال میں ایک صورت ہوتی ہے، دنیا میں جو گناہ ہے اس کی عالَم مثال میں جو صورت ہے وہ نار ہے، یہ بلاتے تو ”گناہ“ کی طرف ہیں لیکن اس گناہ کی مثالی صورت ”نار“ ہے، تو یہاں جو کہا کہ یہ ”النَّارِ“ کی طرف بلاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ عالَم مثال میں اعمالِ سیئہ کی جو صورتِ مثالیہ ہے اس کی طرف بلا رہے ہیں۔ اس لیے اب اس پر کوئی اشکال ہی نہیں ہوتا۔
اس کوسمجھ لیا ہو تو اس کے ذریعے ایک چھوٹا سا اشکال دور کر لیں۔ ہم کہتے ہیں کہ قبر میں ثواب وعذاب جسد اصلی و عنصری کو ہوتا ہےاور مماتی کہتے ہیں کہ قبر میں ثواب و عذاب جسدِ مثالی کو ہوتا ہے اور وہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی ”اشرف الجواب“ آپ کے سامنے پیش کریں گے کہ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ صوفیا کا عقیدہ یہ ہے کہ قبر میں ثواب و عذاب جسد مثالی کو ہوتا ہے، تو مماتی کہتے ہیں کہ اکابر ہمارے ساتھ ہیں، تمہارے ساتھ نہیں ہیں۔ اب یہ ایسا اشکال ہے کہ بسا اوقات اچھا خاصا بندہ اس کا جواب نہیں دے پاتا۔
اب جواب سمجھیں اور یہ جواب
﴿وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الرُّوۡحِ﴾
الاسراء17: 85
کے تحت تفسیر عثمانی میں دیکھنا، علامہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بدن سے جو روح نکلتی ہے اس روح کی شکل وہی ہوتی ہے جو جسم کی ہوتی ہے تو روح متشکل بشکل الجسد الاصلی ہوتی ہے، یہ جو روح کی شکل جسد اصلی والی ہے تو یہ جسد عنصری کی طرح ہے یا نہیں؟ (ہے۔ سامعین) تو جسد مثالی ہوا۔ تو علامہ کشمیری فرماتے ہیں کہ صوفیاء جسد مثالی اس روح کو کہتے ہیں جو جسد عنصری کی طرح ہوتی ہے۔
ہم کہتے ہیں کہ ثواب و عذاب ہوتا ہے جسد عنصری کو جس کا تعلق روح کے ساتھ ہوتا ہے اور صوفیاء کہتے ہیں کہ ثواب و عذاب ہوتا ہے روح کو جو جسد مثالی ہے تو صوفیاء روح کے ثواب و عذاب کے قائل ہیں اور ہم بھی اصالۃً روح کے ثواب و عذاب کے قائل ہیں، روح کے واسطہ سے جسد کے قائل ہیں تو صوفیاء کی اور ہماری رائے ایک ہے، اسے نزاع لفظی کہتے ہیں۔ جسے ہم روح کہتے ہیں صوفیاء اسے ہی جسدِ مثالی کہتے ہیں اور مماتی کہتے ہیں کہ نہ جسد عنصری کو عذاب ہوتا ہے، نہ روح کو بلکہ ان سے الگ ایک اور جسم ہے اس جسم کی طرح تووہ جسم مثالی ہے اس کو عذاب ہوتا ہے۔ اب آپ بتائیں! اکابر کا ذوق ہمارا ہے یا ان کا ہے؟ (ہمارا۔ سامعین)
بات اس لیے کہتا ہوں کہ تعبیرات سمجھو، اپنے اکابر کے علوم کو سمجھو گے تو الجھن نہیں ہوگی اوریہ جواب تم نے سن لیا تو کبھی ٹینشن نہیں ہو گی، جب یہ بات ذہن میں نہیں ہو گی توپھر تم بھی کہو گے کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ بات تو ان والی کرتے ہیں ہماری تو نہیں کرتے۔
دو مرتبہ اجر کا معنی:
﴿اُولٰٓئِکَ یُؤۡتَوۡنَ اَجۡرَہُمۡ مَّرَّتَیۡنِ بِمَا صَبَرُوۡا وَ یَدۡرَءُوۡنَ بِالۡحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ﴿۵۴﴾﴾
اہل کتاب میں سے جو یہود ہیں یہ پہلے تورات پر ایمان لائے پھر قرآن کریم پر ایمان لائے، پہلے موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے، نصاریٰ پہلے پھر انجیل پر ایمان لائے پھر قرآن کریم پر ایمان لائے، پہلے عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے، قرآن کہتا ہے کہ ان کو دوہرا اجر ملے گا۔ سوال یہ ہے کہ ان کو دوہرا اجر کیوں ملے گا؟
بعض حضرات جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ پہلے تورات پر ایمان لائے، پھر قرآن پر لائے تو دوہرا اجر ملے گا، پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے اور پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر تو دوہرا اجر، پہلے انجیل پر ایمان لائے پھر قرآن پر لائے تو دوہرا اجر، پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر تو دوہرا اجر۔ تو دوہرا اجر ملنے کی یہ وجہ ہے۔
اسی طرح ایک حدیث پاک بھی ہے کہ ایک شخص اپنی باندی کی تعلیم و تربیت اچھی کرے اور اس کو آزاد کرنے کے بعد اس سے بھی نکاح کرے تو اللہ اس کو دوہرا اجر دیں گے۔
صحیح البخاری، رقم: 97
ایک اجر آزاد کرنے کا اورایک اجر نکاح کرنے کا۔
ایک اور حدیث پاک میں ہے کہ جو غلام اپنے آقا کی خدمت بھی کرے اور اللہ کی عبادت بھی کرے تو اس کو دوہرا اجر ملے گا۔
صحیح البخاری، رقم: 2546
اس لیے کہ ایک تو یہ مالک کی بات مانتا ہے اور دوسرا ایک اللہ کی مانتا ہے۔
ہم کہتے ہیں کہ یہ جواب ٹھیک نہیں کہ پہلے ایمان تورات اور انجیل پر تھا اور اب قرآن پر ہے، جب عمل دو ہیں تو اجر بھی دو ہرا ہے، کیوں ٹھیک نہیں اس لیے کہ دو عملوں پر دوہرا اجر تو ہر بندے کو ملتا ہے پھر ان اہلِ کتاب کی کیا خصوصیت ہے؟!
اور اس جواب کی تائید قرآن نہیں کرتا کیونکہ قرآن کریم یہ نہیں کہتا
”یُؤْتَوْنَ اَجْرَیْنِ“
بلکہ کہتا ہے
﴿یُؤۡتَوۡنَ اَجۡرَہُمۡ مَّرَّتَیۡنِ﴾
دو اجر کا ملنا الگ ہے اور
”مرتین“
الگ ہے، اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ ان کو دو اجر ملیں گے بلکہ فرمایا کہ ان کو دو مرتبہ اجر ملے گا، دو مرتبہ اجر اور ہوتا ہے اور دوہرا اجر اور ہوتا ہے۔ مثلاً ایک آدمی نے روزہ بھی رکھا اور نفلی نماز بھی پڑھی تو اس کو دو اجر ملیں گے، ایک آدمی نے روزہ بھی رکھا اور گرمی میں رکھا ہے اس کو دو اجر نہیں بلکہ دوہرا اجر ملے گا۔ تو دوہرا اور ہوتا ہے اور دو اور ہوتے ہیں،دونوں میں بہت بڑا فرق ہے۔
تو اس سوال کا اصل جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اپنی عطا ہے کہ اللہ کس عمل پر کتنا ثواب دیتے ہیں، بعض اعمال قرآن کریم اور احادیث میں ایسے آئے ہیں کہ جس میں ایک عمل پر خدا نے دوہرے اجر کا وعدہ کیا ہے، وہ اللہ کی مرضی کہ اللہ کیوں کرتے ہیں اس پر بندہ کچھ کہہ نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کے بارے میں ارشاد فرمایا:
﴿نُّؤۡتِہَاۤ اَجۡرَہَا مَرَّتَیۡنِ﴾
الاحزاب33: 31
ازواج مطہرات کو ہر عمل پر دوہرا اجر ملتا ہے۔ اہلِ کتاب جو پہلے اپنے نبی پر ایمان لائے اور پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے ان کو بھی دوہرا اجر ملتا ہےیہ ان کی خصوصیت ہے۔
ہدایت دینا اللہ کے اختیار میں ہے:
﴿اِنَّکَ لَا تَہۡدِیۡ مَنۡ اَحۡبَبۡتَ وَ لٰکِنَّ اللہَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُہۡتَدِیۡنَ ﴿۵۶﴾﴾
آپ جس کو ہدایت دینا چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ جس کو چاہتا ہے اسے ہدایت عطا فرماتا ہے اور اللہ ہدایت قبول کرنے والوں کو خوب جانتا ہے۔
میں اس کو بطور دلیل کے پہلے پیش کر چکا ہوں کہ بعض لوگ کہتے ہیں :
﴿اِنَّکَ لَا تُسۡمِعُ الۡمَوۡتٰی﴾
کا مطلب ہے آپ مردوں کو سنا نہیں سکتےلہذا مردے سنتے بھی نہیں ہیں۔ تو میں نے کہا کہ کوئی بندہ یہ کہہ دے کہ
﴿اِنَّکَ لَا تَہۡدِیۡ مَنۡ اَحۡبَبۡتَ﴾
کا مطلب ہے کہ جس کو آپ چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے تو اس کا معنی یہ ہے کہ ہدایت ملتی بھی نہیں ہے، تو کیا یہ معنی درست ہو گا؟!
صحیح مطلب یہ ہے کہ ہدایت دینا آپ کے اختیار میں نہیں ہے اسی طرح مردوں کو سنانا بھی آپ کے اختیار میں نہیں ہے۔
قارون کا تذکر:
﴿اِنَّ قَارُوۡنَ کَانَ مِنۡ قَوۡمِ مُوۡسٰی فَبَغٰی عَلَیۡہِمۡ ۪ وَ اٰتَیۡنٰہُ مِنَ الۡکُنُوۡزِ مَاۤ اِنَّ مَفَاتِحَہٗ لَتَنُوۡٓاُ بِالۡعُصۡبَۃِ اُولِی الۡقُوَّۃِ ٭ اِذۡ قَالَ لَہٗ قَوۡمُہٗ لَا تَفۡرَحۡ اِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ الۡفَرِحِیۡنَ ﴿۷۶﴾﴾
قارون بنی اسرائیل کا ایک شخص تھا۔ بعض روایات میں ہے کہ یہ موسیٰ علیہ السلام کے چچا کا بیٹا تھا۔اس کے پاس مال اتنا زیادہ تھا کہ اس کے خزانے کی چابیاں اونٹ اٹھاتے تھے، یہ فرعون کا خاص آدمی تھا اور بنی اسرائیل پر فرعون کی طرف سے نگران مقرر تھا۔ جب بنی اسرائیل فرعون کے تسلط سے نکل آئے تھے تو یہ بھی بنی اسرائیل کے ساتھ آیا تھا۔ اسے اپنے سامان اور مال و جائیداد پر بہت ناز تھا۔ یہ اونٹوں پر مال لاد کر نکلتا اور فخر وتکبر کرتا تھا۔ اس وقت جو نیک لوگ تھے وہ اس کو سمجھاتے تھے کہ ایسا کام نہ کر! یہ کہتا کہ یہ مال اللہ نے مجھے نہیں دیا بلکہ میں نے اپنے فن سے کمایا ہے، جو لوگ دنیا کے طالب تھے وہ تمنا کرتے کہ کاش ہمیں بھی ایسا مال مل جاتا۔ ایک وقت آیا کہ اللہ نے زمین میں اس کو مال کے ساتھ دھنسا دیا۔ جب یہ زمین میں دھنسایا گیا تو جن لوگوں نے قارون کے مال کی خواہش کی تھی وہ کہنے لگے کہ اللہ کا شکر ہے کہ اللہ نے ہمیں اِن نیک لوگوں کے ساتھ ہی رکھا، اگر ہم اِس کے ساتھ ہوتے تو ہم بھی تباہ و برباد ہو جاتے۔ قارون اپنے مال پر اتراتا تھا تو خدا نے مال سمیت اس کو دفن کر دیا۔
گناہ کا پختہ ارادہ بھی باعث پکڑ ہے:
﴿تِلۡکَ الدَّارُ الۡاٰخِرَۃُ نَجۡعَلُہَا لِلَّذِیۡنَ لَا یُرِیۡدُوۡنَ عُلُوًّا فِی الۡاَرۡضِ وَ لَا فَسَادًا ؕ وَ الۡعَاقِبَۃُ لِلۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۸۳﴾﴾
آخرت والا گھر تو ہم نے ان لوگوں کے لیے بنایا ہے جو زمین میں بڑائی کا ارادہ بھی نہیں کرتے اور فساد مچانے کا ارادہ بھی نہیں کرتے اور اچھا انجام تو متقین کے لیے ہے۔
یہاں یہ بات سمجھیں کہ یہاں یہ نہیں فرمایا:
”نَجْعَلُہَا لِلَّذِیْنَ لَا یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ“
کہ وہ لوگ فساد نہیں مچاتے بلکہ فرمایا:
﴿نَجۡعَلُہَا لِلَّذِیۡنَ لَا یُرِیۡدُوۡنَ عُلُوًّا فِی الۡاَرۡضِ وَ لَا فَسَادًا﴾
کہ فساد مچانے کا ارادہ نہیں کرتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ سرکشی اور فساد جس طرح جرم ہے اسی طرح سرکشی اور فساد کا پختہ ارادہ کرنا بھی جرم ہے۔ گناہ کا مصمم ارادہ کرنا بھی گناہ ہوتا ہے۔ یہ جو ہم کہتے ہیں کہ ارادہ گناہ؛ گناہ نہیں ہے تو اس کا معنی یہ ہے کہ دل میں گناہ کا خیال آجائے اور آدمی گناہ نہ کرے تو یہ گناہ نہیں ہے اور اگر بندہ یہ ارادہ کر لے کہ میں نے یہ گناہ کرنا ہے، اس کے پورے اسباب بھی جمع کر لے لیکن پھر گناہ نہ کر سکے تو جو گناہ کرنا تھا اور نہ کر سکا اس کی تو سزا نہیں ملے گی لیکن اس نے جو پختہ ارادہ کیا ہے اس پر اس کو سزا ضرور ملے گی۔
نیکی اور برائی کا بدلہ:
﴿مَنۡ جَآءَ بِالۡحَسَنَۃِ فَلَہٗ خَیۡرٌ مِّنۡہَا ۚ وَ مَنۡ جَآءَ بِالسَّیِّئَۃِ فَلَا یُجۡزَی الَّذِیۡنَ عَمِلُوا السَّیِّاٰتِ اِلَّا مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۸۴﴾﴾
جو شخص نیک عمل کرے گا تو اللہ اس شخص کو اس نیک عمل سے بڑھ کر بہتر بدلہ عطا فرمائیں گے۔ ”خیر“ کا لفظ فرمایا، ”خیر“ اسم تفضیل کا صیغہ ہے لیکن یہاں یہ متعین نہیں ہے کہ کتنا دیں گے۔ اس کا ادنی درجہ
﴿مَنۡ جَآءَ بِالۡحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشۡرُ اَمۡثَالِہَا﴾
ہے کہ نیکی کا بدلہ کم از کم دس گنا ہو گا اور زیادہ کتنا ہو گا یہ اللہ ہی بہتر جانتے ہیں۔
اور جو گناہ کرے گا تو گناہ کے بدلے میں اللہ صرف ایک ہی گناہ دیں گے۔ اس میں یہ نہیں ہو گا کہ گناہ ایک کرے تو بدلے میں اللہ دس گنا عذاب دے بلکہ ایک گناہ کا بدلہ صرف ایک ہو گا۔
آپ علیہ السلام کے ساتھ مکہ واپسی کا وعدہ:
﴿اِنَّ الَّذِیۡ فَرَضَ عَلَیۡکَ الۡقُرۡاٰنَ لَرَآدُّکَ اِلٰی مَعَادٍ ؕ قُلۡ رَّبِّیۡۤ اَعۡلَمُ مَنۡ جَآءَ بِالۡہُدٰی وَ مَنۡ ہُوَ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۸۵﴾﴾
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے مدینہ ہجرت فرما کر چلے۔ جب مقام
جحفہ
پر پہنچے جو مدینہ کے راستے کی مشہور منزل رابغ کے قریب ہے تو اس وقت مکہ مکرمہ کے راستہ پر نظر پڑی تو بیت اللہ اور وطن یاد آیا، اسی وقت جبرائیل امین یہ آیت لے کر نازل ہوئے
﴿اِنَّ الَّذِیۡ فَرَضَ عَلَیۡکَ الۡقُرۡاٰنَ لَرَآدُّکَ اِلٰی مَعَادٍ﴾
اللہ کے نبی! جس اللہ نے آپ پر قرآن نازل کیا ہے وہ اللہ آپ کو مکہ دوبارہ لائے گا۔
اس آیت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی ہے اور ایک وقت آیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پھر دوبارہ مکہ مکرمہ تشریف لائے۔
مصیبت آئے تو مسئلہ نہ بدلیں:
میں اس لیے یہ بات سمجھاتا ہوں کہ یہ طے شدہ ہے کہ اہلِ حق کےساتھ اللہ تعالی کی مدد ہے، درمیان میں ابتلا، امتحان اور کچھ آزمائشیں آتی ہیں، اس وقت دنیا میں پوری امت کا ذہن بن گیاہے کہ مسئلہ بدل دو، مسئلہ چھوڑ دو تاکہ مشقت نہ آئے ۔ کیس، پرچہ، جیل نہیں ہونی چاہیے ایسی پالیسیاں اختیار کرو!
لیکن ہمارا مؤقف یہ ہے کہ دین کا مسئلہ ٹھیک بیان کرو،حق کو صحیح بیان کرو اور پوری پالیسی ایسی رکھو کہ جیل اور یہ تکلیفیں نہ آئیں لیکن اس کے باوجود بھی اگر جیل اور تکلیف آ جائے تو پھر مسائل نہ بدلنا، پھر حق کو نہ چھوڑنا، پھر بھی آتی ہیں تو آنے دو، پھر اللہ کے لیے برداشت کرو، ہمیشہ کے لیے دنیا میں نہیں رہنا، دکھ اور سکھ دنیا کا حصہ ہیں، موت کے بعد کے معاملات اصل ہوتے ہیں۔ ہمیشہ یہ فکر کرنا کہ کبھی تکلیف نہ ہو یہ کیسے ہو سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿اَحَسِبَ النَّاسُ اَنۡ یُّتۡرَکُوۡۤا اَنۡ یَّقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا وَ ہُمۡ لَا یُفۡتَنُوۡنَ﴾
العنکبوت 29: 2
بندہ ایمان والا ہو اور اس پر آزمائش نہ آئے، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟! اگر کوئی شخص ایمان والا ہو اور زندگی بھر کوئی آزمائش نہیں آئی تو اس کو اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے کہ میں کیسا مؤمن ہوں؟ اس لیے میں بسا اوقات علماء سے عرض کرتا ہوں کہ جب ہم تذکرہ کرتے ہیں کہ ہمارے اکابر وہ تھے جنہوں نے جیل کاٹی․․․ ہمارے اکابر وہ تھے جنہوں نے مار کھائی ․․․ہمارے اکابر وہ تھے جنہوں نے ظلم سہے لیکن دین کا ساتھ نہیں چھوڑا، تو تقریریں یوں کریں گے اور جب ماننے کی باری آئے گی تو مانیں گے ان کو جن کے پاس صرف ریل ہے، جن کے ہاں جیل کا نام ونشان بھی نہیں ہے۔ بھائی! جب ان اکابر کا تذکرہ کرتے ہو کہ جن کے پاس ریل اور جیل دونوں تھے تو پھر چلو بھی ان کے ساتھ جن کے پاس ریل اور جیل دونوں ہیں، تذکرہ ا ن کا جن کےپاس جیل ہے اور ماننا ان کو جو جیل کا نام سن کر حق کو بدل دیں۔ یا للعجب! اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائیں۔ (آمین)
میں کہتا ہوں کہ شریعت کا خیال کریں، قانون کے دائرے میں رہ کر کام کریں،قانون کو مت توڑیں لیکن اگر کبھی ایسا مسئلہ پیش آ جائے کہ دین کو چھوڑنے میں راحت ملتی ہو اور دین کو لینےمیں تکلیف آتی ہو تو پھر تکلیف کو راحت پر ترجیح دیں، ایک وقت آئے گا کہ اللہ تکلیف ختم فرما کر راحت عطا فرمائیں گے۔ (آمین)
پیغمبر پاک کو نصیحت:
﴿وَ مَا کُنۡتَ تَرۡجُوۡۤا اَنۡ یُّلۡقٰۤی اِلَیۡکَ الۡکِتٰبُ اِلَّا رَحۡمَۃً مِّنۡ رَّبِّکَ فَلَا تَکُوۡنَنَّ ظَہِیۡرًا لِّلۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۫۸۶﴾﴾
کبھی آپ نے سوچا بھی نہیں تھا کہ آپ پر وحی آئے گی لیکن یہ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر رحمت ہے، آپ پہلے بھی کفار کے معاون نہیں تھے آپ آئندہ بھی نہ ہونا۔
بڑا سمجھائے تو فوراً صفائی پیش نہ کریں!
اس سے یہ بات سمجھ آئی کہ جب استاد شاگرد کو،شیخ اپنے مرید کو اور بڑا اپنے چھوٹے کو سمجھائے کہ بیٹا! گھر جاؤ تو نمازوں کا خیال کرنا! آگے سے یہ نہ کہیں کہ جی! میں تو خیال کرتا ہوں بلکہ خاموشی سے سنو اور کہو کہ ان شاء اللہ، استاد جی ایسا ہو گا۔
میرے پیغمبر! آپ کافروں کے معاون پہلے بھی نہیں تھے لیکن آئندہ بھی نہ ہونا! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تھوڑا کہا تھا کہ یا اللہ! میں پہلے بھی نہیں تھا تو اب کیسے ہوں گا!
اور یہ نصیحت یاد رکھ لیں کہ جب کوئی بڑا کسی چھوٹے کو نصیحت کرے تو اس وقت چھوٹا اپنی صفائی نہ دے، وہ صفائی دے گا تو بڑے کے دل میں ایسا تکدر آئے گا کہ آئندہ وہ نصیحت کرنے کے لیے تیار نہیں ہو گا۔
اگر کسی بڑے کو چھوٹے کے بارے میں غلط اطلاع ہو اور اس پر وہ بڑا اس چھوٹے کو ڈانٹ لے تو اس وقت چھوٹا سنتا رہے، اس وقت صفائی نہ دے بلکہ کسی مناسب موقع کا انتظار کرے کہ میں نے ایک بات کرنی ہے،یا لکھ کر دے دے کہ آپ کو جو میرے متعلق فلاں نے اطلاع دی ہے وہ غلط دی ہے، ایسی کوئی بات نہیں ہے، اصل معاملہ اور تھا لیکن آپ کو غلط بتایا گیا تھا، اس سے اس کو زیادہ خوشی ہوتی ہے اور موقع پر بولنا یہ تکلیف کا باعث ہوتا ہے، اس وقت خاموش رہنا چاہیے، بڑے نے تھوڑا سا ڈانٹ لیا تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑتی ہے؟!
حق پر عمل پیرا رہیں اوراسی کی دعوت دیتے رہیں!
﴿وَ لَا یَصُدُّنَّکَ عَنۡ اٰیٰتِ اللہِ بَعۡدَ اِذۡ اُنۡزِلَتۡ اِلَیۡکَ وَ ادۡعُ اِلٰی رَبِّکَ وَ لَا تَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿ۚ۸۷﴾﴾
دیکھو! کیسے خطاب ہو رہا ہے! فرمایا: جب آپ پر اللہ کی آیات نازل ہو جائیں تو یہ لوگ آپ کو ان پر عمل کرنے سے روک نہ سکیں، آپ کو چاہیے کہ آپ اپنے رب کی طرف بلاتے رہیں اور آپ نے خود مشرکین میں سے نہیں ہونا!
﴿وَ لَا تَدۡعُ مَعَ اللہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ ۘ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۟ کُلُّ شَیۡءٍ ہَالِکٌ اِلَّا وَجۡہَہٗ ؕ لَہُ الۡحُکۡمُ وَ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ ﴿٪۸۸﴾﴾
اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو مت پکارو! اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ ہرچیز تباہ ہو جائے گی لیکن اللہ کی ذات باقی رہ جائے گی۔ حکومت تو اللہ ہی کی ہے اور تمہیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر معارف القرآن میں اس آیت کے تحت لکھا ہے: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اس لیے کہ سوائے ذاتِ خداوندی کے ہر چیز اپنی ذات سے فانی اور معدوم ہے۔
حضرت نے یہاں لکھا ہے کہ ”کسی شئے کا وجود ذاتی اور خود بخود نہیں، خدا کو خدا اس لیے کہتے ہیں کہ وہ خود بخود ہے اور اس کا وجود ذاتی ہے، اس کے سوا جو چیز بھی موجود کہلاتی ہے تو اس کا وجود خدائے واجب الوجود کے سہارے سے ہے۔“
معارف القرآن : ج 6 ص 81
اللہ ہم سب کو قرآن کریم سمجھنے اور سمجھانے کی اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․