سورۃ الاحزاب

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ الاحزاب
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللہَ وَ لَا تُطِعِ الۡکٰفِرِیۡنَ وَ الۡمُنٰفِقِیۡنَ ؕ اِنَّ اللہَ کَانَ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا ۙ﴿۱﴾ وَّ اتَّبِعۡ مَا یُوۡحٰۤی اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ اِنَّ اللہَ کَانَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرًا ۙ﴿۲﴾﴾
غزوۂ احزاب کا واقعہ:
جنگ بدر مدینہ منورہ میں پہنچنے کے بعد سن 2 ہجری میں ہوئی۔ اس کے بعد غزوۂ احد سن 3 ہجری میں ہوا۔ پھر غزوۂ احزاب سن 4 ہجری میں پیش آیا اور بعض کہتے ہیں کہ 5 ہجری میں پیش آیا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ احد سے فارغ ہوئے۔ ادھر مدینہ منورہ سے یہود کے قبیلہ بنو نضیر اور بنو وائل سے تقریباً بیس آدمی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں سے سخت نفرت اور عداوت رکھتے تھے مکہ گئے اور ابوسفیان اور دیگر سردارانِ مکہ کو جا کر ملے اور کہا کہ ہم تمہارے ساتھ تعاون کرتے ہیں تم جا کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے مقابلہ کرو اور ان کو ان کے ساتھیوں سمیت ختم کر دو۔
قریش مکہ نے کہا کہ وہ تو ہمیں کافر سمجھتے ہیں، ہمارا اور ان کا دین و مذہب کا سخت اختلاف ہے اور تم یہودی ہو اہلِ کتاب ہو تو تم بتاؤ کہ تمہارے نزدیک ہم سچے ہیں یا وہ سچے ہیں؟ قریش مکہ نے سوچا کہ اگر ان کے ساتھ بات پکی کر لیں اور یہ بھی ہمیں غلط سمجھتے ہوں تو پھر ان کے ساتھ مل کر لڑنے کی ضرورت کیا ہے؟ یہودیوں نے جھوٹ بولا اور کہاکہ ہم ان کو غلط سمجھتے ہیں اور تمہیں درست سمجھتے ہیں۔
قریشیوں نے کہا کہ چلو پھر مسجدِ حرام میں جا کر معاہدہ کرتے ہیں۔ بیس آدمی ان یہودیوں کے تھے اور پچاس آدمی ان قریش مکہ کے تھے۔ مسجد حرام میں جا کر خانہ کعبہ کی دیواروں سے چمٹ کر معاہدہ کر رہے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ختم کرنے کے لیے اور اللہ کا حلم دیکھو کہ اللہ پھر بھی ان کو برداشت کر رہے ہیں۔ خیر ان کا معاہدہ ہو گیا۔
ان یہودیوں نے جب قریش مکہ سے معاہدہ کیا تو واپسی پر ایک جنگجو قبیلہ غطفان کے پاس گئے، انہیں اپنے اور قریش کے معاہدے کا بتایا اور ان کو بھی اس بات پر ابھارا کہ تم بھی ہمارا ساتھ دو اور اس نئے دین کو ختم کرنے میں مدد کرو تو ہم تمہیں خیبر کی ایک سال کی کھجوروں کی آمدن دیں گے۔ بعض روایات میں ہے کہ آدھی آمدن دیں گے۔ اس رشوت کی شرط پر قبیلہ غطفان کے سردار عُیَیْنہ بن حِصن نے آمادگی ظاہر کی کہ ہم تمہارا ساتھ دیں گے۔
کفر کے لشکر کی تعداد:
جب یہ معاہدے ہو گئے تو قریش مکہ کا قافلہ مکہ سے نکلا۔ انہوں نے چار ہزار بندے ساتھ لیےاور ساتھ تین سو گھوڑے اور ایک ہزار اونٹ لیے۔ ان پر سامان لادا اور مدینہ منورہ کا رخ کیا۔ پھر راستے میں ایک جگہ ”مرّ ظہران“ میں پڑاؤ ڈالا۔ یہاں اس لشکر میں کئی قبیلے شامل ہو گئے، قبیلہ اسلم، قبیلہ اشجع اور بنو مرہ، اسی طرح بنو کنانہ، بنو فزارہ اور غطفان کے سارے قبیلے جن کے ساتھ معاہدہ ہوا تھا یہ سارے کے سارے اس لشکر میں شامل ہوتے گئے تو یہ لشکر بارہ ہزار افراد تک جا پہنچا۔ یہ سارا لشکر اب مدینہ منورہ کی طرف چلا۔
مسلمانوں کی تیاری:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع مل گئی کہ یہ لوگ حملے کے لیے آ رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سےمشورہ کیا۔ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا مشورہ یہ تھا کہ یا رسول اللہ! ہمارے ہاں عجم میں جب کوئی دشمن باہر سے حملہ کرے تو ہم خندق کھود کر اپنے شہر وں کا دفاع کرتےہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ رائے ٹھیک ہے۔ چنانچہ ان کے مشورے پر عمل کیا گیا اور تقریباً ساڑھے تین میل لمبی خندق کھودنے کا فیصلہ ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اور انصار کو دس دس ساتھیوں میں تقسیم کیا اور ان دس کو حکم دیا کہ وہ چالیس گز خندق کھودیں۔ اس جہاد کے لیے انصار کا جھنڈا حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو دے دیا اور مہاجرین کا جھنڈا حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو دے دیا۔
سَلْمَانُ مِنَّا أَہْلَ الْبَیْتِ:
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ انصار کے ساتھ ہوں یا مہاجرین کے ساتھ؟! اب انصار کہتے کہ یہ ہمارے ہیں اور مہاجرین کہتے کہ ہمارے ہیں۔ تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نزاع کو ختم فرمایا، فرمایا: نہ تمہارے ہیں نہ ان کے ہیں ”سَلْمَانُ مِنَّا أَہْلَ الْبَیْتِ“ بلکہ یہ ہمارے ہیں۔ اب لڑائی ختم ہو گئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کےساتھ کچھ انصاری صحابہ ملائے کچھ مہاجر صحابہ ملائے، دس بندے ان کو بھی دے دیے کہ یہ تمہارا حصہ ہے تم کھودو! اندازہ کریں ساڑھے تین میل لمبی خندق صرف چھ دن میں کھودی گئی۔ اس خندق کی چوڑائی اور گہرائی اتنی تھی جس سے گھوڑا پھلانگ نہ سکے اور دشمن اس کو کراس نہ کر سکے۔
ایک عظیم معجزہ:
خندق کھود رہے تھے کہ اس میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ظاہر ہوا۔ خندق کھودنے کا مشورہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے دیا تھا، آپ اس فن کے ما ہر بھی تھے لیکن اللہ کی شان کہ حضرت سلمان ہی کے حصے میں جو جگہ آئی وہیں ایک بڑی چٹان آ گئی جو ان سے نہیں ٹوٹ رہی تھی۔ اب یہ ماہر بھی ہیں اور رکاوٹ بھی وہیں پیدا ہو گئی۔ دیکھو اللہ پاک کیسے تربیت فرماتے ہیں! ان کے ساتھ والے بعض صحابہ نے کہا کہ ہم سیدھی خندق کھودنے کے بجائے تھوڑا سا راستے کو موڑ لیں اور پھر اصل خندق کے ساتھ ملا لیں گے لیکن اس کا خط چونکہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کھینچا ہے کہ خندق یہاں سے کھودنی ہے اس لیے جب تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھیں گے نہیں یہ تھوڑی سی جگہ بھی موڑنی نہیں ہے۔
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے جاکر عرض کیا تو اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی خندق کھود رہے تھے اور اتنی مٹی آپ کے جسم پر گری ہوئی تھی کہ آپ کا پیٹ اور پیٹھ نظر نہیں آ رہے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود تشریف لائے، پوچھا کون سا حصہ ہے؟ عرض کیا: یہ چٹان ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کدال لی اور ایک ضرب لگائی اور یہ آیت تلاوت فرمائی: ﴿وَ تَمَّتۡ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدۡقًا وَّ عَدۡلًا﴾
سنن ابی داؤد، رقم: 4695
اس سے اس چٹان کا تیسرا حصہ ٹوٹ گیا اور ایک روشنی بھی اس چٹان سے نکلی۔ دوسری ضرب لگائی اور یہی آیت یوں پڑھی: ﴿وَ تَمَّتۡ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدۡقًا وَّ عَدۡلًا﴾ تو اس کا دو تہائی حصہ ٹوٹ گیا اور ساتھ ہی ایک روشنی بھی نکلی اور جب تیسری ضرب لگائی اور یہی آیت پھر پوری پڑھی: ﴿وَ تَمَّتۡ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدۡقًا وَّ عَدۡلًا ؕ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ﴾ تو پوری چٹان ٹوٹ گئی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم خندق سے باہر تشریف لائے اور ایک جگہ بیٹھ گئے۔ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حضور! میں نے ہر ضرب پر پتھر سے ایک روشنی نکلتے دیکھی ہے۔ فرمایا کہ کیا واقعی تم نے روشنی دیکھی ہے؟ عرض کیا جی حضور! حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو پہلی روشنی تھی اس میں خدا نے مجھے یمن اور کسریٰ کے محلات دکھائے اور جبرئیل امین نے مجھے کہا کہ آپ کی امت ان کو فتح کرے گی اور پھر جو دوسری مرتبہ روشنی نکلی ہے اس میں میں نے روم کے سرخ محلات کو دیکھا اور جبرئیل امین نے مجھے کہا کہ آپ کی امت ان شہروں کو بھی فتح کرے گی۔
منافقین مذاق اڑاتے تھے کہ کھانے کے لیے روٹی نہیں ہے ، بچنے کے لیے خندقیں کھودی جا رہی ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ روم اور کسریٰ فتح کریں گے کتنے تعجب کی بات ہے! لیکن صحابہ رضی اللہ عنہم کو پورا یقین تھا کہ ایک وقت آئے گا کہ یہ فتوحات ہوں گی۔
بنو قریظہ کی عہد شکنی:
یہ محاصرہ ایک مہینے تک چلا۔ اب بتاؤ! یہ جنگ کتنی سخت تھی بندہ اندازہ نہیں کر سکتا۔ سردی کا مہینا، سخت تیز ہوا جو خیموں تک کو اکھاڑ دے اور سارے یہودی بھی قریش کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔ یہودیوں کا ایک قبیلہ تھا بنو قریظہ جو مدینہ میں تھا ان کا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معاہدہ تھا کہ کسی لڑائی میں ایک دوسرے کے خلاف دشمن کی مدد نہیں کریں گے۔ انہوں پہلے تو قریش کا ساتھ نہیں دیا لیکن قبیلہ بنو نضیر کا سردار حییّ بن اخطب ان کے پاس آیا۔اس نے بنو قریظہ کے سردار کعب بن اسد سے کہا کہ تم ہمارے ساتھ ملو اور مسلمانوں کا خاتمہ کریں۔ بار بار یہی بات کرتا رہا۔ کعب بن اسد اپنے قلعے میں سے جواب دیتا رہا کہ ہمارا معاہدہ ہے، ہم توڑ نہیں سکتے لیکن حییّ بن اخطب نے دلائل دے کر اس کو قائل کر لیا اور اپنے ساتھ ملا لیا۔ جب یہ اطلاع ملی تو اس سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت پریشانی ہوئی کہ یہ کیا ہوا؟ باہر سے احزاب ہیں اور مدینہ میں اس قبیلہ بنو قریظہ کی بغاوت۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابہ کرام پر شفقت:
اب محاصرہ لمبا ہو گیا۔ کھانے کا سامان کم ہو گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مشقت بھی دیکھ رہے تھے تو صحابہ کی مشقت کے پیش نظر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذہن میں ایک تدبیر آئی کہ قبیلہ غطفان کے سردار عیینہ بن حصن نے یہودیوں کے کہنے پر ان مشرکین کا ساتھ اس لالچ میں دیا ہے کہ اسے خیبر کی کھجوریں ملیں گی، تو غطفان کے دو سرداروں کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قاصد بھیجا کہ تم ہمارے ساتھ معاہدہ کرو کہ تم ان مشرکین سے الگ ہو کر واپس چلے جاؤ گے تو ہم تمہیں مدینے کی کھجوروں کا ایک تہائی حصہ دیں گے۔
یہ گفتگو ابھی چل رہی تھی، اس قبیلہ کے سردار بھی راضی ہو چکے تھے لیکن ابھی معاہدہ پر دستخط نہیں ہوئے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ لیا۔ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ جو قبیلہ اوس کے سردار تھےاور حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ جو قبیلہ خزرج کے سردار تھے ان کو بلایا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے یہ صورتحال رکھی اور مشورہ لیا، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ نہیں فرمایا بلکہ معاملہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مشورے پر چھوڑ دیا۔
جب ان سے کہا تو حضرت سعد بن معاذ نے کہا: یا رسول اللہ! جب ہم نے کلمہ نہیں پڑھا تھاہم نے انہیں ایک کھجو ر کبھی نہیں دی الا یہ کہ وہ ہمارے مہمان بن کر آئیں تو ہم کھلاتے تھے یا یہ کہ وہ ہم سے خرید لیتے تھے،اب ہم نےکلمہ بھی پڑھا ہے اور سچے بھی ہیں اس لیے اب مصالحت کے لیے ان کو مدینے کی کھجور کا ایک تہائی حصہ دیں ہمیں اس مصالحت کی کوئی ضرورت نہیں، ہم اب ان کو اپنی تلواریں دیں گے! حضور! اگر آپ پر یہ وحی آئی ہے تو سر آنکھوں پر ہمیں قبول ہے، اگر آپ کی ذاتی رائے اور طبیعت کا فیصلہ ہے تب بھی قبول ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ وحی بھی نہیں آئی اور طبیعت میری بھی قبول نہیں کرتی لیکن میں تمہاری مشقت دیکھ کر یہ فیصلہ کرنا چاہ رہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ حضور! ہماری مشقت کو چھوڑ دیں ہم آپ کے ساتھ ہیں لیکن ان کو کھجور کا دانہ بھی نہیں دیں گے۔ چونکہ ابھی معاہدہ فائنل نہیں ہوا تھا اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ختم فرما دیا۔
حضرت سعدبن معاذ کا جذبہ ایمانی:
حضرت سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ قبیلہ اوس کے سردار تھے۔ بنو حارثہ کا قلعہ تھا جہاں پر مستورات کو محفوظ کیا ہوا تھا۔ حضرت سعدبن معاذ وہاں اپنی والدہ کے پاس گئے۔ امی عائشہ رضی اللہ عنہا بھی وہاں پر تھیں۔ ابھی پردے کا حکم نازل نہیں تھا امی عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نےدیکھاکہ ان کی ذرہ چھوٹی سی تھی تو میں نے ان کی والدہ سے کہاکہ ان کو ذِرہ بڑی دو تاکہ ان کو زخم نہ لگے۔ ان کی والدہ کہنے لگیں کہ کوئی مسئلہ نہیں، جو اللہ کو منظور ہو وہ ہو کر رہتا ہے۔ خیر حضرت سعد بن معاذ جب لشکر میں آئے تو ان کو بازو میں تیر لگا جس سے خون بہنے لگا۔
حضرت سعد رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ یا اللہ! میری دو خواہشیں ہیں؛ ایک تو یہ ہے کہ اگر آئندہ قریش نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی حملہ کرنا ہے تو اس وقت تک مجھے زندہ رکھ تاکہ میں ان کا مقابلہ کروں جنہوں نے حضور کو ستایا ہے، آپ کو ہجرت پر مجبور کیا ہے، آپ کو تکلیفیں دی ہیں، ایذائیں پہنچائی ہیں اور اگر آئندہ کوئی ایسا سلسلہ نہ ہو تو مجھے شہادت کی موت عطا فرما اور میری دوسری خواہش یہ ہے کہ قبیلہ بنو قریظہ نے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بد عہدی کی ہےتو میں جب تک ان کا انجام نہ دیکھ لوں مجھ پر موت نہ آئے، یہ دو میری خواہشیں ہیں۔ اللہ نے ان کی دونوں دعاؤں کو قبول فرما لیا۔
حضرت نعیم بن مسعود کا ایمان اور جنگی تدبیر:
اب ہوا یوں کہ قبیلہ غطفان جو احزاب میں ایک بڑی طاقت کا حامل قبیلہ تھا اس قبیلہ کے ایک فرد نعیم بن مسعود مسلمان ہوئے اور مدینہ منورہ آ گئے، انہوں نے کہا کہ حضور! میں نےکلمہ پڑھا ہے میرے ذمہ آپ خدمت لگائیں میں کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ تم تنہا کیا کر سکتے ہو! واپس جاؤ اور جتنا ممکن ہو سکے اسلام سے مدافعت کا کام کرو! اب اس صحابی کا ذوق دیکھو! انہوں نے کہا کہ حضور! آپ مجھے اجازت دیں کہ اگر میں وہاں جا کر جو مصلحت دیکھوں اس کے مطابق کچھ کرنا چاہوں تو کر سکوں! فرمایا: کرو تمہیں اجازت ہے۔
یہ سیدھا بنو قریظہ کے پاس گئے۔ ان کو جا کر کہا کہ تم مجھے جانتے ہو کہ میں تمہارا پرانا دوست ہوں! کہاکہ جی جانتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ قریش تو مکہ چلے جائیں گے، ہم قبیلہ غطفان والے بھی چلے جائیں گے، یہودیوں کے دوسرے قبائل بھی شکست ہوئی تو اپنے اپنے وطن واپس لوٹ جائیں گے اور تم تو مدینہ میں رہتے ہو، تمہارا مال اور تمہاری عورتیں تو یہیں مدینہ میں ہیں، اگر فتح مسلمانوں کو مل گئی تو تمہارا کیا بنے گا؟ بنو قریظہ نے کہا کہ بات تو ٹھیک ہے۔انہوں نے کہا کہ پھر میں تمہیں خیر خواہانہ مشورہ دیتا ہوں کہ تم قبیلہ غطفان سے اور قریش سے معاہدہ کرو کہ وہ اپنے پچاس سردار تمہارے پاس بطور گروی رکھیں کہ اگر تمہیں شکست ہوئی اور انہوں نے تمہارا ساتھ دیا ہو گا تو تم ان کے سردار ان کو واپس کر دو گے اور اگر ساتھ نہ دیا تو تم ان کے سرداروں کو قتل کرو گے۔ انہوں نے کہا کہ بات تمہاری بہت اچھی ہے، ہم ایسا ہی کرتے ہیں۔
وہ صحابی ان سے بات کرنے کے بعد سیدھے ابوسفیان کے پاس گئے اور ان سے کہاکہ اے ابوسفیان! جس بنوقریظہ پر تم نے اعتماد کیا ہے وہ تمہارے نہیں ہیں، انہوں نے کہا کہ کیوں نہیں ہیں؟! کہا کہ وہ تم سے معاہدہ کرنے کے بعد اپنے فیصلے پر بڑے نادم ہیں اور پریشان ہیں، انہوں نے اندرونِ خانہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیشکش کی ہے کہ ہم قریش اور غطفان کے چند سردار تمہارے حوالے کریں گے تم ان کو قتل کر دینا۔ پھر ہم آپ کے ساتھ مل کر ان سب سے جنگ کریں گے۔ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس شرط کو قبول کر لیا ہے۔ اب آپ قریش جو فیصلہ کریں سوچ سمجھ کر کریں۔
پھر یہ صحابی اپنے قبیلہ غطفان کے پاس گئے، ان کو جا کر کہا کہ قبیلہ بنو قریظہ تمہارے ساتھ نہیں ہے، تم تو باہر سے آئے ہو اور وہ مدینہ شہر میں رہتے ہیں، جن پر تم نے اعتماد کیا ہے کہ مشکل وقت میں ساتھ دیں گے وہ تمہارا ساتھ نہیں دیں گے، انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے معاہدہ کیا ہے تمہارے پچاس سردار لیں گے، ان کے حوالے کریں گے اور وہ انہیں قتل کریں گے، اس طرح تم دوڑ جاؤ گے۔ وجہ یہ ہے کہ ان کا مسلمانوں سے معاہدہ ہے، بنو قریظہ اوپر سے تو تمہارے ساتھ ہیں لیکن اندر سے مسلمانوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بات تو تمہاری ٹھیک لگتی ہے۔
ابوسفیان نے کہا: اب دیکھیں کہ نعیم بن مسعود کی بات غلط ہے یا ٹھیک ہے؟ تو ابو سفیان نے دو آدمی بنو قریظہ کے پاس بھیجے، قریش کی طرف سے عکرمہ بن ابی جہل کو اور بنو غطفان کی طرف سے ورقہ بن غطفان کو اور یہ پیغام دیا کہ کافی دن گزر گئے ہیں ہمارے پاس خوراک کم ہو گئی ہے، ہمیں تمہاری خوراک کی ضرورت ہے، کافی دن ہو گئے ہیں تیراندازی دونوں طرف سے ہو رہی ہے اسلحہ کم ہے ہمیں تمہارے اسلحہ کی ضرورت ہے، تم نے ہمارے ساتھ معاہدہ کیا تھا لہذا اسلحہ بھیجو اور جنگ میں شرکت کرو ہمارا ساتھ دو۔
جب انہوں نے بندے بھیجے تو بنو قریظہ نے کہا کہ ہم جنگ میں شرکت کریں گے لیکن ہماری ایک شرط ہے کہ تم پچاس سردار ہمارے پاس گروی رکھو ہم پھر تمہارے ساتھ چلیں گے، اگر تم چلے گئے تو ہمارا کیا بنے گا؟ اگرمسلمانوں کو فتح ہوئی تو تم ہمارا ساتھ دو گے اس لیے پچاس سردار بطور گروی ہمارے پاس رکھو۔ ابوسفیان نے کہا کہ نعیم بن مسعود ٹھیک کہتا تھا، ہم نے ان پر بھروسہ کیا لیکن یہ ہمارے مخالف ہو گئے۔ اس سے ان کا دل ٹوٹ گیا کہ اب اندر کے لوگ بھی مخالف ہو گئے ہیں۔ ابو سفیان نے بھی پیغام بھجوا دیا کہ تم نے ساتھ دینا ہے تو دو لیکن ہم اپنے سردار تمہارے پاس گروی نہیں رکھیں گے۔ اس سے بنو قریظہ نے بھی کہا کہ واقعی نعیم بن مسعود نے ہم سے ٹھیک بات کہی تھی۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کا دشمن کی خبر لانا:
اندازہ کرنا کہ یہ کس قدر مشقت کا معاملہ تھا! ادھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھی اور فرمایا کہ تم میں سے کون ہے جو ابو سفیان کے قافلے میں جائے اور آ کر مجھے حالات بتائے۔ ایک شخص بھی کھڑا نہیں ہوا۔ حالات کی کتنی سختی ہو گی! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر نماز شروع کر دی، دو رکعات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پوچھا کہ تم میں سے کون ہے جو اس لشکر کی خبر لائے گا۔ ایک بھی کھڑا نہیں ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر نماز شروع کر دی۔ پھر سلام پھیر ا اور پوچھا کہ کون خبر لائے گا؟ صحابہ پھر خاموش ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم جاؤ! حضرت حذیفہ کھڑے ہو گئے کیونکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تھا۔
سردی بہت سخت تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے کچھ دعا فرمائی، اپنا ہاتھ مبارک ان کے سر اور چہرے پر پھیرا اور ان کو رخصت کیا تو فرمایاکہ تم نے یہاں سے لے کر وہاں جانے تک پھر واپس میرے پاس آنے تک کام کچھ نہیں کرنا صرف تم نے مجھے خبر لا کر دینی ہے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب میں وہاں سے اٹھا تو میں اس طرح چل رہا تھا کہ جیسے کوئی بندہ گرم حمام میں چل رہا ہو، آج کے دور میں ایسے سمجھو جیسے ہیڑ لگا لیا جائے تو گرمائش محسوس ہوتی ہے۔ ایسے بدن گرم ہو گیا کہ ٹھنڈک اور سردی کا احساس ہی ختم ہو گیا۔ دل سے خوف بھی ختم ہو گیا اور دشمن کا رعب بھی ختم ہو گیا۔ حضرت حذیفہ رات کو جہاں مشرکین کے خیمے تھے وہاں چلے گئے۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابوسفیان میرے نشانے پر تھا، میں تیر مارتا تو وہ قتل ہو جاتا لیکن مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بات یاد آ گئی کہ تونے کرنا کچھ نہیں ہے بس مجھے آ کر اطلاع دینی ہے، اس لیے میں نے اپنے تیر کو روک دیا۔ کہتے ہیں کہ وہاں سب آگ سینک رہے تھے تو میں بھی جا کر وہاں ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔ حالات چونکہ سخت تھے کہ ہوا سے خیمے اکھڑ گئے تھے، ان کی ہانڈیاں الٹ گئی تھیں تو ابو سفیان چاہتا تھا کہ واپسی کا اعلان کریں اس لیے اس نے خاص ذمہ داروں سے بات کرنا چاہی۔
سب بیٹھے تھے تو انہوں نے کہا کہ ہمارا راز کہیں فاش نہ ہو جائے اس لیے جو بندے بیٹھے ہیں ہر بندہ ساتھ والے سے پوچھے کہ تو کون ہے؟ حضرت حذیفہ کہتے ہیں کہ میں بہت پریشان ہو گیا کہ مجھ سے پوچھا تو میں تعارف کیا کراؤں گا؟ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے ذہن میں ایک بات آئی کہ جو میرے ساتھ بیٹھا ہوا تھا میں نے پہل کی اور اس سے پوچھ لیاکہ تو کون ہے؟ اس نے کہا میں فلاں بن فلاں ہوں۔قبیلہ ہوازن کا کوئی آدمی تھا۔ جب اس نے بتایا تو میں نے کہا کہ ٹھیک ہے، مجھے اب تسلی ہے کہ بندے اپنے ہی ہیں۔ اس نے ان سے پوچھا ہی نہیں۔
اب ابوسفیان نے کہا کہ حالات بہت خراب ہیں، ہمارے پاس کمک بھی نہیں ہے، بنوقریظہ نے ہمارے ساتھ غداری کی ہے، لہذا بہتر یہی ہے کہ یہاں سے نکلو! یوں پورے لشکر میں بھگدڑ مچ گئی اور سب جانے کی تیاری کرنے لگے۔ حضرت حذیفہ رات ہی کو واپس آئے اور آکر خبر دی کہ یا رسول اللہ! وہ جا رہے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اتنے مسکرائے کہ حضرت حذیفہ کہتے ہیں کہ رات کی تاریکی میں مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دانت مبارک نظر آنے لگے۔ جب انہوں نے خبر دی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اَلْآنَ نَغْزُوْهُمْ وَلَا يَغْزُوْنَنَا نَحْنُ نَسِيْرُ إِلَيْهِمْ“
صحیح البخاری، رقم: 4110
اب مشرکین ہم پر حملہ نہیں کریں گے، جب بھی ہو گا ہم ہی حملہ کریں گے اور ان کے ملک پر چڑھائی کریں گے۔ یعنی یہ آخری معرکہ تھا جو ختم ہو گیا، اس کے بعد ہمارے اوپر کوئی حملہ نہیں کر سکتا۔
غزوہ بنو قریظہ:
خیر مشرکین چلے گئے، مسلمانوں کو فتح ہوئی۔ ابھی حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام مدینہ پہنچے ہی تھے کہ جبرائیل امین حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی صورت میں تشریف لائے، انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! آپ لوگوں نے ہتھیار اتار دیے ہیں لیکن ہم فرشتوں نے نہیں اتارے، ابھی بنوقریظہ کی طرف چلیں اور ان کی خبر لیں۔ جبرائیل امین نے کہاکہ میں آپ سے پہلے جا رہا ہوں آپ بھی آ جائیں اور ہتھیار لے کر آئیں۔ جب مسلمان وہاں پہنچے تو بنوقریظہ نے خود کو قلعہ میں بند کر لیا۔ مسلمانوں نے اس قلعے کا محاصرہ کر لیا۔ بنو قریظہ کا سردار تھا کعب بن اسد، اس نے اپنے قبیلے والوں سے کہا کہ تین باتوں میں تم کو اختیار ہے:
نمبر 1: تم سب کو معلوم ہے کہ مسلمان سچے ہیں قرآن سچاہے اس لیے کلمہ پڑھ لو اور حضور کی غلامی میں آ جاؤ! دنیا میں مال، اولاد بچا لو گے اور آخرت میں عذاب سے بچ جاؤ گے۔
نمبر 2: اپنے بچوں اور عورتوں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرو اور پھر ان سے لڑو ورنہ تمہارے بعد ان کاحشر بہت برا ہو گا۔
نمبر 3: یوم السبت یعنی ہفتے کے دن مسلمانوں پر حملہ کر دو کیونکہ مسلمان سمجھتےہیں کہ یہ دن ہمارے نزدیک بڑا مقدس دن ہے اور ہم اس دن مسلمانوں پر حملہ نہیں کریں گے۔ اس دن یہ لوگ بے خبر ہوں گے تو تم اسی دن بے خبری میں ان پر حملہ کر دو اور مسلمانوں پر فتح حاصل کر لو۔
اس کی قوم نے کہاکہ کلمہ تو ہم کبھی نہیں پڑھیں گے، تورات تو ہم چھوڑ نہیں سکتے۔ بچے اور عورتیں ذبح کرنا یہ ہمارے بس میں نہیں ہے اور ہفتے والے دن ان پر حملہ کریں تو یہ ہماری شریعت کے خلاف ہے۔ اس نے کہا کہ میں نے تمہیں تین آپشن دیے ہیں باقی تمہاری مرضی ہے۔ بالآخر سب اس پر متفق ہوئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں، جو فیصلہ حضور کریں گے وہی قبول ہو گا۔
انصار صحابہ میں سے جو اوس قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے ان کا بنو قریظہ کے ساتھ کسی زمانے میں معاہدہ رہا تھا تو ان انصار صحابہ نے کہا کہ بنو قریظہ کا معاملہ ہمارے حوالے کر دیں۔ بنو قریظہ کا بھی خیال تھا کہ اوس سے ہمارے پرانے تعلقات ہیں وہ ہمارے حق میں کوئی نرم فیصلہ کریں گے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس کا فیصلہ تمہارے ہی ایک سردار کے سپرد کر دوں تو کیا تم راضی ہو؟ ان صحابہ نے کہا جی ہاں ہم راضی ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے سپرد کر دیا۔ اس بات پر سب راضی ہوگئے۔
حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ قبیلہ اوس کے سردار تھے، زخمی تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے مسجد نبوی میں خیمہ لگوا دیا تھا تاکہ لوگ وہاں آ کر ان کی تیمارداری کریں۔ فیصلہ ان کے سپرد ہوا تو حضرت سعد نے عجیب فیصلہ کیا۔ فرمایا کہ ان کے جو مرد لڑنے کے قابل ہیں سارے ذبح کر دیے جائیں، ان کی عورتوں اور بچوں کو باندیاں اور غلام بنا لیا جائے اور ان کا سارا مال بطور غنیمت کے مسلمانوں کے حوالے کیا جائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اب تو سعد کا فیصلہ ہے، اسی پر عمل ہوا کہ بچے اور عورتیں باندیا ں اور غلام بن گئےاور جوان سارے ذبح ہو گئے اور جتنا مال تھا وہ مسلمانوں کے حوالے ہو گیا جس طرح مال غنیمت جمع ہوتا ہے۔
احسان کا بدلہ احسان:
ایک صحابی تھے حضرت ثابت بن شماس بن قیس رضی اللہ عنہ۔ زمانہ جاہلیت میں ایک جنگ ہوئی تھی جنگ بعاث اس میں حضرت ثابت بن شماس قید ہو کر بنو قریظہ کے ایک آدمی زبیر بن باطا کے قبضے میں آ گئے تھے۔ زبیر بن باطا نے ان کا سر مونڈ کر ان کو چھوڑ دیا، آزاد کر دیا اور قتل نہیں کیا۔ اب ان کا جی چاہا کہ میں اس کے احسان کا بدلہ دوں! چنانچہ انہوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ یارسول اللہ! میں فلاں جنگ میں قیدی بنا تھااس نے میرا سر مونڈ کر مجھے چھوڑ دیا تھا، مجھے قتل نہیں کیا تھا تو میرا جی چاہتا ہے کہ آپ اس کو آزاد فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آزاد فرما دیا۔ حضرت ثابت بن شماس نے اسے کہا کہ دیکھو تم نے مجھ پر احسان کیا تھا تو میں نے اس احسان کا بدلہ تمہیں دے دیا ہے۔ زبیر بن باطا نے کہا کہ اس زندگی کا کیا فائدہ جس میں بیوی اور بچے میرےساتھ نہ ہوں۔ وہ صحابی پھر گئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی بیوی اور بچے آزاد کرنے کی درخواست کی۔ فرمایا کہ اس کی بیوی اور بچے بھی آزاد ہیں۔ اس نے کہا کہ میں نے وہاں کیا جینا ہے جہاں میرا مال بھی میرے پاس نہ ہو۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے، فرمایا کہ اس کا مال بھی اس کو دے دو۔ یوں اس شخص کو اس کے احسان کا پورا پورا بدلہ دیا گیا۔
ایک کافر کی قومی حمیت:
حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ ایک مسلمان کی شرافت اور احسان شناسی ہے کہ احسان کا بدلہ احسان سے دیا۔ اب اس کافر کی غیرت کو بھی دیکھو! اس کافر نے کہاکہ ہمارے یہودیوں کے سردار ابن ابی الحُقَیْق کہاں ہیں؟ بتایا گیا کہ وہ قتل ہوگیاہے۔ اس نے پوچھا کہ بنو قریظہ کے سردار کعب بن قریظہ اور عمرو بن قریظہ کا کیا بنا؟ کہا کہ وہ بھی قتل ہو گئے ہیں۔ پھر اس نے دو جماعتوں کے متعلق پوچھا تو ان کے بارے میں بھی یہی بتایا گیا کہ وہ بھی قتل ہو گئےہیں۔ یہ سن کر زبیر بن باطا نے کہا کہ جب سارے قتل ہو گئے ہیں تو میرے زندہ رہنے کا کیا فائدہ! مجھے بھی قتل کرو! حضرت ثابت بن شماس نے کہا کہ میں تو تمہیں اپنے ہاتھ سے نہیں مار سکتا۔ کہتا ہے کہ تم نہیں مار سکتے تو کسی اور سے کہو کہ مجھے قتل کرے، میں زندہ نہیں رہنا چاہتا۔ تو کسی اور صحابی نے اس کو قتل کر دیا۔ اب دیکھو! یہ اس کافر کی غیرت تھی جس نے اپنوں کے ساتھ مرنا تو گوارا کیا لیکن غیر کے پاس زندہ رہنا گوارا نہیں کیا۔
اللہ ہم سب کو دین اور مذہب کی غیر ت عطا فرمائے۔ بہرحال یہ غزوہ احزاب کا پورا خلاصہ تھا جو میں نے آپ کی خدمت میں پیش کیا۔
کفار و منافقین کی بات نہ مانیں!
﴿یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللہَ وَ لَا تُطِعِ الۡکٰفِرِیۡنَ وَ الۡمُنٰفِقِیۡنَ ؕ اِنَّ اللہَ کَانَ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا ۙ﴿۱﴾ وَّ اتَّبِعۡ مَا یُوۡحٰۤی اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ اِنَّ اللہَ کَانَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرًا ۙ﴿۲﴾﴾
ہجرت مدینہ کے بعد مکہ مکرمہ کے کچھ مشرکین ولید بن مغیرہ اور شیبہ بن ربیعہ مدینہ منورہ آئے اور انہوں نے آ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ کمپرومائز کریں، آپ نے جو دعویٰ کیا ہے اس دعوے سے دستبردار ہو جائیں تو ہم قریش اپنی آدھی دولت آپ کو دیں گے۔ ادھر مدینہ کے یہود نے بھی کہا کہ اگر آپ اپنے دعوے اور اسلام کی دعوت سے باز نہ آئے تو ہم آپ کو قتل کر دیں گے۔ تو اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔
بعض روایات میں ہے کہ جب حدیبیہ والا واقعہ ہو چکا تھا، مسلمانوں اور مشرکین مکہ کے درمیان یہ طے ہوا تھا کہ اب ایک دوسرے کے خلاف جنگ نہیں کریں گے۔ اس زمانے میں مکہ مکرمہ سے ابو سفیان، عکرمہ بن ابی جہل اور ابو الاعور سلمی یہ مدینہ منورہ آئے اور انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ایک تو آپ ہمارے معبودوں کی برائی کرنا چھوڑ دیں اور دوسرا آپ صرف یہ کہہ دیں کہ یہ بھی نفع پہنچاتے ہیں شفاعت کرتے ہیں، بس اتنا کر لیں تو ہم آپ کو بھی کچھ نہیں کہیں گے اور آپ کے رب کو بھی چھوڑ دیں گے! ان کی یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کو بہت بری لگی تو بعض صحابہ کرام کا ذہن بنا کہ ان کو قتل کر دینا چاہیے کہ انہیں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ بات کرنے کی جرأت کیسے ہوئی؟ لیکن چونکہ حدیبیہ میں معاہدہ ہو چکا تھا اس معاہدے کی وجہ سے قتل نہیں کر سکتے تھے تو قرآن کریم نے کہا:
﴿یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللہَ وَ لَا تُطِعِ الۡکٰفِرِیۡنَ وَ الۡمُنٰفِقِیۡنَ ؕ اِنَّ اللہَ کَانَ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا ۙ﴿۱﴾﴾
یہاں خطاب اگرچہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے لیکن سنایا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو جا رہا ہے۔ اے نبی! اللہ سے ڈرو۔ کیا مطلب کہ یہ جو تم نے ان کو مارنے کا ارادہ کیا ہے اس کو ختم کرو۔ ﴿وَ لَا تُطِعِ الۡکٰفِرِیۡنَ وَ الۡمُنٰفِقِیۡنَ﴾ کفار اور منافقین کی بات کبھی نہ مانو! کفار جو مکہ سے آئے تھے یا مدینہ کے یہودی تھے اور آپ کو پیشکش کر رہے تھے تو ان کی بات ہرگز نہ مانیں اور بعض لوگ جو مدینہ کے ہیں اور اوپر سے مسلمان ہونے کے دعویدار ہیں لیکن اندر سے کافر ہیں یعنی منافق لوگ تو ان کی بات بھی نہ مانیں، ﴿اِنَّ اللہَ کَانَ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا﴾ بے شک اللہ تعالیٰ جاننے والے حکمت والے ہیں۔
اور اگر یہ خطاب حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو ہو اور سنایا بھی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو ہو تو پھر اس کا معنی یہ ہے اللہ کے نبی! اللہ سے ڈرتے تو آپ پہلے بھی ہیں اور کفار کی اطاعت تو پہلے بھی نہیں کرتے تھے لیکن اس پر پختگی سے کاربند رہیں کہ گناہ بھی نہیں کرنا اور کفار کی بات کو ماننا بھی نہیں ہے۔
نام لے کر خدا نے پکارا نہیں:
قرآن کریم میں یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاص اعزاز ہے کہ ان کا نام لے کر اللہ نے خطاب نہیں فرمایا، جب بھی خطاب کیا ہے تو کسی وصف سے کیا ہے، ﴿یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ﴾ ، ﴿یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ﴾ ، ﴿یٰۤاَیُّہَا الۡمُزَّمِّلُ﴾ ، ﴿یٰۤاَیُّہَا الۡمُدَّثِّرُ﴾ جبکہ باقی انبیاء علیہم السلام کا نام لے کر خطاب فرمایا ہے۔
تین باطل خیالات و رسوم کی تردید:
﴿مَا جَعَلَ اللہُ لِرَجُلٍ مِّنۡ قَلۡبَیۡنِ فِیۡ جَوۡفِہٖ ۚ وَ مَا جَعَلَ اَزۡوَاجَکُمُ الِّٰٓیۡٔ تُظٰہِرُوۡنَ مِنۡہُنَّ اُمَّہٰتِکُمۡ ۚ وَ مَا جَعَلَ اَدۡعِیَآءَکُمۡ اَبۡنَآءَکُمۡ ؕ ذٰلِکُمۡ قَوۡلُکُمۡ بِاَفۡوَاہِکُمۡ ؕ وَ اللہُ یَقُوۡلُ الۡحَقَّ وَ ہُوَ یَہۡدِی السَّبِیۡلَ ﴿۴﴾﴾
عرب میں تین قباحتیں رائج تھیں اور ان میں تین غلط باتیں معروف تھیں۔ ان میں ایک یہ کہ جو سمجھ دار آدمی ہوتا اور بات کی تہہ تک پہنچتا تو لوگ اس کے بارے میں کہتے کہ اس کے دو دل ہیں۔ تو اللہ نے فرمایا: ﴿مَا جَعَلَ اللہُ لِرَجُلٍ مِّنۡ قَلۡبَیۡنِ فِیۡ جَوۡفِہٖ﴾ کہ اللہ نے کسی آدمی کے پیٹ میں دو دل پیدا نہیں فرمائے، آدمی ایک ہوتا ہے تو ا س کا دل بھی ایک ہوتا ہے۔ ہما رے ہاں لوگ یہ تو نہیں کہتے کہ دل دو ہوتے ہیں لیکن باتیں ایسی کرتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دو دل کا کہہ رہے ہیں جیسے میرا ایک دل کرتا ہے کہ آج پڑھ لو ں اور ایک دل کرتا ہے کہ آج نہ پڑھوں! اس جملے سے ایسے لگتا ہے کہ اس کے دو دل ہیں حالانکہ دل تو ایک ہی ہوتا ہے، اس لیے اگر اس کے بجائے یہ کہہ دیا کریں کہ میرا ایک خیال ہے کہ پڑھ لوں اور ایک خیال آتا ہے کہ نہ پڑھوں، اب بات بالکل قرآن کریم کے مطابق ہو جائے گی۔
رسم ظِہَار:
قرآن نے ایک تو اس رسم کی تردید کی ہے اور دوسری رسم جس کی تردید کی ہے وہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو اپنی ماں کی پیٹھ کے ساتھ تشبیہ دے دیتا یا اپنے ماں کے کسی اور عضو کے ساتھ تشبیہ دے دیتا یعنی تو میرے لیے ایسے ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ، میری ماں کا پیٹ تو لوگ اس کو ہمیشہ کے لیے حقیقی ماں کی طرح حرام سمجھتے تھے۔ شریعت نے اس کی تردید کی ہے کہ ایسا کرنا ٹھیک نہیں ہے، اس کو وہ بھی ”ظِہَار“کہتے تھے اور شریعت بھی ”ظِہَار“ کہتی ہے۔ ظِہَار؛ ظَہْر سے ہے، ظَہْر پیٹھ کو کہتے ہیں۔ عام طور پر یہ کہا جاتا کہ تیری پیٹھ میرے لیے ایسے ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ۔ شریعت نے اس رسم کو ختم کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسا کہنے سے بیوی حرام تو ہو جاتی ہے لیکن ہمیشہ کے لیے نہیں بلکہ کچھ وقت کے لیے۔ اٹھائیسویں پارے کے شروع میں یہ مسئلہ بیان فرما دیا ہے، اس موقع پر تفصیل کے ساتھ آئے گا کہ اس کا کفارہ ادا کر دو، کفارہ ادا کرنےکے بعد بیوی ا پنے شوہر کے لیے پھر حلال ہوجاتی ہے۔
یہاں ایک بات سمجھیں۔ مَحْرَم یہ بہت قابل احترام رشتہ ہے۔ اگر اس کے عضو کے ساتھ بیوی کو تشبیہ دی ہے تو بیوی حرام ہوئی ہے۔ اب بیوی کے حرام ہونے کی وجہ سے یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ جو ہماری ماں ہے اس کا احترام کم ہو گیا ہے، اس سے ماں کا احترام بڑھا ہے کم نہیں ہو ا،اس سے بہن کا احترم بڑھاہے کم نہیں ہوا یعنی ماں، بہن، بیٹی، پھوپھی اتنی احترام والی ہیں کہ اگر بیوی کو ماں یا بہن یا بیٹی یا پھوپی کہہ دیا تو بیوی حرام ہو جائے گی جب تک کفارہ ادانہیں کریں گے اس کے پاس جانا حرام ہے۔ تو اس سے ماں اور بہن کی عزت بڑھی ہے یا کم ہوئی ہے؟ یقیناً بڑھی ہے۔
شاہ اسماعیل شہید پر اعتراض کا جواب:
اب اس سے اچھی طرح یہ بات سمجھیں کہ اہل بدعت نے اھل السنۃ و الجماعۃ احناف دیوبند پر جو اعتراضات کیے ہیں ان میں ایک اعتراض یہ کیا ہے کہ شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہو اور دورانِ نماز گدھے کا خیال آ جائے تو نماز نہیں ٹوٹتی اور اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال آ جائے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ وہ اعتراض یوں کرتے ہیں لوگوں کو دیوبند سے نفرت دلانے کے لیے کہ دیکھو یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخ ہیں کہ گدھے کے خیال سے نماز نہیں ٹوٹتی اور حضور کا خیال آ جائے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے۔
یہ عبارت شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ کی نہیں ہے، یہ عبارت تو سید احمد شہید کی ہے جس کو نقل شاہ محمد اسماعیل شہید نے فرمایا ہے۔ شاہ اسماعیل شہید اور سید احمد شہید رحمہما اللہ یہ بزرگ دار العلوم دیوبند بننے سے پہلے کے ہیں بعد کے نہیں ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ دیوبندی بزرگو ں نے لکھا ہے یہ بات بھی غلط ہے اور بعض لو گ نہیں سمجھتے تو حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کا نام لے کر کہتے ہیں کہ حضرت تھانوی نے لکھاہے․․․ حالانکہ عبارت حضرت تھانوی کی بھی نہیں ہے۔
اور تیسری بات یہ سمجھیں کہ یہ جو عبارت بیان کی جاتی ہے عبارت یوں نہیں ہے کہ اگر کسی کو دورانِ نماز گدھے کا خیال آ گیا تو نماز نہیں ٹوٹتی اور اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال آ گیا تو نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ یہ عبارت نقل بھی غلط ہوتی ہے۔
چوتھی بات․․․ اس کی اصل عبارت سن لیں کہ عبارت وہاں پر کیا ہے کہ عبادت خالص اللہ تعالیٰ کے لیے ہوتی ہے، اس لیے ہر ایسے عمل سے بچنا چاہیے جہاں اللہ کے بجائے غیر اللہ کی عبادت کا شبہ ہو۔ اگر نماز کے دوران حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال آ جائے تو حضور اتنے عظمت والے ہیں کہ بندے کا دل نہیں کرتا کہ خیال وہاں سے ہٹے، بندہ خیال کو جما دیتا ہے، اب ظاہر ہے کہ نماز تو اللہ کے لیے ہے اللہ کےنبی کے لیے تو نہیں ہے، اس لیے وہاں خیال کو جما نہیں دینا چاہیے بلکہ ہٹا دینا چاہیے تاکہ نماز خالص اللہ پاک کے لیے ہو جائے۔
اب آپ نماز پڑھ رہے ہیں، نماز کے دوران خیال آ جاتا ہے مدینے کا، روضے کا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا، مدینہ کی گلیوں میں چلنے کا تو بندے کا ذہن وہاں متوجہ ہوتا ہے، ادب محبت عقیدت اتنی ہوتی ہے کہ دل نہیں کرتا کہ خیال وہاں سے بدلے حالانکہ خیال نہیں آنا چاہیے، نماز خالص اللہ کے لیے ہے اور اگر نماز کے دوران گدھے کا خیال آ جائے تو گدھا اتنا مکروہ اور ناپسند ہے کہ اس کی طرف بندے کا ذہن جائے بھی تو ذہن جھٹک کر واپس آ جاتا ہے۔ اب نماز کے دوران گدھے کے خیال آ جانے سے آدمی کا ذہن کسی اور یعنی مخلوق کی طرف نہیں جاتا لیکن اگر دورانِ نماز اللہ کے نبی کا خیال آ جائے تو آدمی جھٹک کر ادھر سے ذہن کوکھینچتا نہیں ہے بلکہ ادھر ذہن رکھتا ہے۔ تو اب غیر اللہ؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مخلوق ہیں خالق تو نہیں ہیں تو نماز میں ذِہن ان کی طرف منتقل ہونا یہ مناسب نہیں ہے۔
سید احمد شہید نے یہ بات سمجھائی ہے کہ دورانِ نماز اگر گدھے کا خیال آ جائے تو ذہن اس طرف منتقل نہیں ہوتا اور منتقل کرنے کو دل بھی نہیں کرتا، اس لیے بندہ فوراً ذہن بدل کےاللہ کی طرف متوجہ ہو جاتاہے تو یہ نقصان دہ کم ہے اور اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال آ جائے تو بندہ ذہن ادھر سے جھٹکتا نہیں ہے بلکہ ادھر متوجہ رکھتا ہے اور یہ اللہ کی عبادت میں زیادہ مخل ہوتا ہے، اس لیے گدھے کا خیال آنا اتنا مخل نہیں ہے جتنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیال کا آجانا نقصان دہ ہے۔ اس کی وجہ صرف عبادت ہے اور کوئی نہیں ہے۔
اب اس پر جو بندہ اعتراض کرتا ہے اس کو ایک تو ہم نے علمی انداز میں سمجھایا ہے اور ایک طرز یوں سمجھیں۔ جب کسی بندے کو تحقیقی انداز میں بات سمجھ نہ آئے تو اس کو الزامی طور پر بات سمجھاتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ اب ان اہلِ بدعت سے پوچھو کہ اگر تمہارے گھر میں کوئی جانور آ جائے کبھی تو آپ نے کہا کہ اماں جی! پردہ کرو جانور آ گیا؟ نہیں کہتے۔ باجی! پردہ کرو جانور آ گیا! نہیں کہتے اور اگر گھر میں تمہارا کوئی بزرگ آ جائے تو کہتے ہو جی! پردہ کرو بزرگ آگئے۔ اب کوئی بندہ یہ کہے کہ کیا یہ بزرگ جانورسے بھی بد تر ہوا کہ اس کے آنے سے تو پردہ نہیں ٹوٹا لیکن اس کے آنےسے پردہ ٹوٹ گیا۔
وجہ یہ ہے کہ جانور کے آنے سے پردے کے احترام میں فرق نہیں پڑتا اور انسان اتنا معزز اور محترم ہے کہ اس کے آنے سے پردے کے احترام میں فرق پڑتا ہے۔اب جانور کے آنے سے پردے کے احترام میں فرق نہ پڑنا یہ جانور کے اعلیٰ ہونے کی نہیں بلکہ گھٹیا ہونے کی دلیل ہے اور انسان کے آنے پر فرق پڑنا یہ انسان کے گھٹیانہیں اعلیٰ ہونے کی دلیل ہے۔ اسی طرح نماز میں گدھے کا خیال آئے تو یہ گدھے کے گھٹیا ہونے کی دلیل ہے کہ اس سے نماز میں فرق نہیں پڑتا اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے خیال آنے سے نماز میں فرق پڑتا ہے یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ ہونے کی دلیل ہے۔
اب میں کفارۂ ظِہار کے حوالے سے مثال سمجھانے لگا ہوں کہ دیکھو! کوئی آدمی اپنی بیوی سے کہہ دے کہ تیری پیٹھ میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے تو بیوی حرام ہو گئی۔اگر اس نے کہا کہ تیری پیٹھ گدھے کی پیٹھ کی طرح ہے تو حرام نہیں ہوئی۔ اس کا مطلب کہ ماں گدھے سے بھی گندی ہو گئی؟ (نہیں۔ سامعین) اس لیے کہ ماں کی وجہ سے تو بیوی حرام ہوتی ہے لیکن گدھے کی وجہ سے نہیں ہوتی۔ اب اس کا مطلب کہ ماں گدھے سے بھی گئی گزری ہے؟! ہم کہتے ہیں کہ گئی گزری نہیں ہے، بیوی کو گدھی کہنے سے بیوی حرام نہیں ہوتی کیونکہ گدھی کسی کھاتے میں نہیں ہے اور بیوی کو ماں کہنے کی وجہ سے بیوی حرام ہوتی ہے کیونکہ ماں بہت بڑی عظمت والی چیز ہے۔ بات سمجھ آئی آپ کو؟ (جی ہاں۔ سامعین)
منہ بولا بیٹا بنانے کی تردید:
﴿وَ مَا جَعَلَ اَدۡعِیَآءَکُمۡ اَبۡنَآءَکُمۡ ؕ ذٰلِکُمۡ قَوۡلُکُمۡ بِاَفۡوَاہِکُمۡ﴾
تیسری رسم ان میں یہ تھی کہ جب کسی کو متبنیٰ یعنی منہ بولا بیٹا بنا لیتے تھے تو اسے حقیقی بیٹے کی طرح سمجھتے تھے، وہ وراثت میں بھی شریک ہوتا جس طرح حقیقی بیٹا وارث بنتا ہے، اس متبنیٰ کی وفات کے بعد اس کی بیوہ سے اس کا باپ نکاح نہیں کر سکتا تھا اور اگر وہ متبنیٰ اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا تو اس کے بعد بھی اس کا باپ نکاح نہیں کر سکتا تھا اس لیے کہ وہ اس کی حقیقی بہو کی طرح شمار ہوتی تھی۔ تمام معاملات حقیقی بیٹوں کی طرح تھے۔ شریعت نے اس رسم کی تردید کی ہے۔
حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کا قصہ:
لوگ حضرت زید رضی اللہ عنہ کو زید بن محمد کہتے تھے حالانکہ وہ زید بن محمد نہیں تھے بلکہ زید بن حارثہ تھے ، تو ا س آیت کے اترنے کے بعد حضرت زید کو زید بن محمد کے بجائے زید بن حارثہ کہا جانے لگا۔ حضرت زید کو کافروں نے ڈاکہ مار کر چرایا اور مکہ میں لا کر فروخت کر دیا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے انہیں خریدا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں ہدیہ پیش کر دیا۔ ان کے رشتے دار تلاش کرتے ہوئے مکہ پہنچے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ کرعرض کیا کہ یہ ہمارا بیٹا ہے، اس کی والدہ پریشان ہے، ہم اس کو لے جانا چاہتے ہیں، لہٰذا آپ جتنا پیسہ لینا چاہتے ہیں لے لیں اور ہمارا بیٹا واپس کر دیں۔ تو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں بغیر پیسوں کے بھیج دوں گا لیکن آپ خود زید سے پوچھ لیں۔
حضرت زید سے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: میں جانے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ انہوں نے کہا کہ تو یہاں رہے گا تو غلامی اختیار کرے گا۔ حضرت زید نے کہا: میں آزادی سے اس غلامی کو ترجیح دیتا ہوں، میں نہیں جاؤں گا، مجھے اس غلامی پر فخر ہے۔ تو اس کے بعد حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آزاد فرما دیا اور منہ بولا بیٹا بنا لیا۔ چونکہ حضرت زید نے اپنے حقیقی باپ کو چھوڑا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سر پر باپ والا ہاتھ رکھا تھا۔اب مکہ میں ”زید بن محمد“ مشہور ہوگیا۔ تو ان آیات کے نزول کے بعد انہیں زید بن محمد کے بجائے زید بن حارثہ کہا جانے گا۔
حضرت زید رضی اللہ عنہ کو بھی افسوس تھا کہ کہاں ”زید بن محمد“ اور کہاں ”زید بن حارثہ“ تو اللہ رب العزت نے ان کے اس دکھ کا ازالہ قرآن کریم میں ان کا نام ”زید“ لے کر فرمایا: ﴿فَلَمَّا قَضٰی زَیۡدٌ مِّنۡہَا وَطَرًا﴾ حضرت زید کا ذکر ا ن کے نام سے قرآن میں کیا۔ اس کی ایک وجہ مفسرین نے یہ لکھی ہے کہ جو ان کو دکھ ہوا تھا تو اس کا ازالہ اس سے کر دیا گیا۔ انبیاء علیہم السلام کے بعد صحابہ کرام میں سے بڑے سے بڑے صحابی کا نام قرآن میں نہیں ہے اور حضرت زید کا نام قرآن کریم میں ہے۔ بطور قرآن ان کا نام لیں تو تیس نیکیاں ملتی ہیں۔ رضی اللہ عنہ، اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ہمیشہ بہت اعزاز بخشا ہے۔ ام المؤمنین امی عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت زید کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بھی کسی جہاد کے قافلے پر بھیجا ہے تو امیر بنا کر بھیجا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک اعزاز تھا، مامور بناکر آپ ان کو کبھی نہیں بھیجتے تھے۔
کسی کو بیٹا یا بیٹی بنانے کا حکم:
﴿اُدۡعُوۡہُمۡ لِاٰبَآئِہِمۡ ہُوَ اَقۡسَطُ عِنۡدَ اللہِ﴾
متبنیٰ کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اس کو اس کے باپ کے نام سے پکارو!
اب یہ مسئلہ ذہن نشین فرما لیں۔ ہمارے ہاں کسی لڑکے کو یا لڑکی کو بیٹا یا بیٹی بنا لیں تو جب ان کا نام لکھتے ہیں تو جو حقیقی باپ ہے اس کا نام نہیں لکھتے حالانکہ حقیقی باپ کا نام لکھنا یونین کونسل میں ضروری ہے، نکاح نامہ میں جب کوائف لکھتے ہیں تو اس میں بیٹی کا حقیقی باپ نہیں لکھتے بلکہ جس نے بیٹی بنایا ہے اس کا نام لکھتے ہیں حالانکہ حقیقی باپ کا نام لکھنا ضروری ہے۔ اور وراثت ، پردہ وغیرہ تمام احکام میں بھی حقیقی ماں باپ کا اعتبار ہوگا، جنہوں نے لے کر پالا ہے ان کا نہیں۔
رسول خدا عزیز از جان:
﴿اَلنَّبِیُّ اَوۡلٰی بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ مِنۡ اَنۡفُسِہِمۡ وَ اَزۡوَاجُہٗۤ اُمَّہٰتُہُمۡ ؕ وَ اُولُوا الۡاَرۡحَامِ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلٰی بِبَعۡضٍ فِیۡ کِتٰبِ اللہِ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ تَفۡعَلُوۡۤا اِلٰۤی اَوۡلِیٰٓئِکُمۡ مَّعۡرُوۡفًا ؕ کَانَ ذٰلِکَ فِی الۡکِتٰبِ مَسۡطُوۡرًا ﴿۶﴾﴾
یہ فرمایا کہ پیغمبر کی ذات مؤمنین کو ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ محبوب ہے اور پیغمبر کی بیویاں مومنین کی مائیں ہیں۔
یہ مسئلہ اچھے طریقے سے سمجھیں کہ پیغمبر مؤمنین کے لیے مؤمنین کی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔ پیغمبر کی بیویاں مؤمنین کی مائیں ہیں تو اس سے یہ مسئلہ خود بخود سمجھ میں آ گیا کہ پیغمبر امت کے باپ ہیں۔ اس سے ایک شبہ پیدا ہوتا ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں امت کی مائیں ہیں تو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم امت کے باپ ہوئے۔ اب اس کا مطلب یہ ہوا کہ امتی سارے آپس میں بہن بھائیوں کی طرح ہیں، تو پھر نکاح کا مسئلہ کیا ہو گا؟ پھر ان کی وراثت کا مسئلہ کیا ہو گا؟ تو اس شبہ کو ﴿وَ اُولُوا الۡاَرۡحَامِ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلٰی بِبَعۡضٍ فِیۡ کِتٰبِ اللہِ﴾ سے دور کیا کہ پیغمبر اور امت کا یہ رشتہ جسمانی نہیں بلکہ روحانی ہے، جو تمہارے جسمانی رشتہ دار ہیں ورا ثت میں وہ تمہارے حق دار زیادہ ہیں ان کو وراثت دو! یعنی ایک بھائی روحانی بھائی ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی ہونے کی وجہ سے او ر ایک آپ کا حقیقی بھائی ہے آپ کے ماں اور باپ شریک ہونے کی وجہ سے، اب یہ جوروحانی بھائی ہے مالی معاملات میں زیادہ حق اس کا نہیں ہے بلکہ مالی معاملات میں زیادہ حق اس کا ہے جو آپ کا جسمانی اور خونی بھائی ہے۔ اس شبہ کو اس سے دور کر دیا۔
نبی کی بیوی سے نکاح کی حرمت منصوص :
یہاں ایک بات اور سمجھیں! یہ جو فرمایا: ﴿وَ اَزۡوَاجُہٗۤ اُمَّہٰتُہُمۡ﴾ کہ پیغمبر کی بیویاں یہ امت کی مائیں ہیں۔ پیغمبر کی بیوی کے ساتھ امتی کے نکاح کا حرام ہونا اس آیت سے ثابت نہیں ہوتا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات کے ساتھ امتی کا نکاح حرام ہے اس حرمت کی دلیل قرآن کریم کی دوسری آیت میں صراحتاً موجود ہے ﴿وَ مَا کَانَ لَکُمۡ اَنۡ تُؤۡذُوۡا رَسُوۡلَ اللہِ وَ لَاۤ اَنۡ تَنۡکِحُوۡۤا اَزۡوَاجَہٗ مِنۡۢ بَعۡدِہٖۤ اَبَدًا﴾ کہ پیغمبر کی بیوی سے امتی کبھی بھی نکاح نہیں کر سکتا۔ یہ مسئلہ ذراسمجھ لینا! پیغمبر کی بیوی سے امتی کا نکاح حرام ہے اور اس آیت ﴿وَ اَزۡوَاجُہٗۤ اُمَّہٰتُہُمۡ﴾ کو نبی کی بیوی کے ساتھ امتی کے نکا ح کے حرام ہونے پر بطور دلیل کے کبھی بھی پیش نہ کرنا۔
”پیغمبر کی بیوی سے امتی کا نکاح کیوں حرام ہے؟“ ہم نے کہا کہ خود اللہ نے حرام قرار دیا ہے ﴿وَ لَاۤ اَنۡ تَنۡکِحُوۡۤا اَزۡوَاجَہٗ مِنۡۢ بَعۡدِہٖۤ اَبَدًا﴾ اس لیے حرام ہے۔ اب دیکھو! ماں سے نکاح کیوں حرام ہے؟ پھوپی سے نکاح کیوں حرام ہے؟ بہن سے نکاح کیوں حرام ہے؟ بیٹی سے نکاح کیوں حرام ہے؟ اس لیے کہ اللہ نے جو محرمات بتا دیے ہیں بس وہ محرمات ہیں۔ اسی طرح اللہ نے بتا دیا ہےکہ پیغمبر کی بیوی امت کے لیے حرام ہے تو بس حرام ہے۔ نکاح حرام ہونے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ﴿وَ اَزۡوَاجُہٗۤ اُمَّہٰتُہُمۡ﴾ کہ پیغمبر کی بیویاں امت کی مائیں ہیں، کیونکہ اگر پیغمبر کی بیوی امت کی ماں ہے اور اس وجہ سے نکاح جائز نہیں تو خود پیغمبر امت کے باپ ہیں تو پھر نبی کا نکاح بھی کسی امتی کی لڑکی کے ساتھ نہیں ہونا چاہیے لیکن پیغمبر باپ ہونے کے باوجود امتی لڑکی سے نکاح کر رہے ہیں تو پھر پیغمبرکی بیوی ماں ہو اور امت کا نکاح نہ ہو․․․ حرمت کی یہ وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔
اس لیے جب مسئلہ حیات اپنی جگہ پر آئے گا تو وہاں پر میں یہ بات سمجھاؤں گا اور یہ دلیل آپ کے ذہن میں ہوگی تو بات سمجھنی بہت آسان ہو گی۔ اب دیکھو! استاد کی بیوی شاگرد کی روحانی ماں ہے لیکن شاگرد نکاح کر سکتا ہے استاد کے فوت ہونے پر استاد کے طلاق دینے پر، مرشد کی بیوی یہ مرید کی ماں ہے لیکن روحانی ہے اس کے فوت ہونے پر طلاق ہونے پر مرید نکاح کر سکتا ہے۔ پیغمبر کی بیوی روحانی ماں ہے لیکن پیغمبر کی وفات کے بعد بھی امتی نکاح نہیں کر سکتا تو معلوم ہوا کہ اس کی وجہ روحانی ماں ہونا نہیں ہے بلکہ وجہ یہ ہے کہ اللہ نے اس سے نکاح حرام قرار دے دیا ہے اور بس۔
انبیاء علیہم السلام سے عہد:
﴿وَ اِذۡ اَخَذۡنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیۡثَاقَہُمۡ وَ مِنۡکَ وَ مِنۡ نُّوۡحٍ وَّ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسَی ابۡنِ مَرۡیَمَ ۪ وَ اَخَذۡنَا مِنۡہُمۡ مِّیۡثَاقًا غَلِیۡظًا ۙ﴿۷﴾﴾
عام مفسرین کی رائے ہے کہ یہ میثاق؛ عالمِ ارواح میں لیا گیا تھا۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ہم نے تمام انبیاء سے عہد لیا تھا اور اے حضور! آپ سے بھی عہد لیا،حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ بن مریم علیہم السلام سے بھی لیا اور ہم نے ان سے مضبوط عہد لیا کہ دنیا میں جاؤ گے اور تبلیغ احکام کرو گے۔
﴿لِّیَسۡـَٔلَ الصّٰدِقِیۡنَ عَنۡ صِدۡقِہِمۡ ۚ وَ اَعَدَّ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابًا اَلِیۡمًا ٪﴿۸﴾﴾
تاکہ اللہ سچوں سے ان کی سچائی کے بارے میں پوچھے اور ہم نے کافروں کے لیے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے۔
ہم نے آپ سے وعدہ لیا تھا کہ آپ نے کام کرنا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کام کیا۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ پوچھیں گے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہیں گے کہ جی ہاں اے اللہ! جو میں نے آپ سے وعدہ کیا تھا میں نے اس کے مطابق تبلیغ کی ہے۔ یہاں فرمایا: ﴿مِنَ النَّبِیّٖنَ﴾ کہ ہم نے تمام انبیاء سے عہد لیا اور ان پانچ کا بطور خاص اللہ نے الگ ذکر فرمایا؛ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام ان کے اعزاز اور اکرام کی بنیاد پر کہ یہ حضرات تمام انبیاء میں سب سے زیادہ اولو العزم اور مرتبے والے انبیاء ہیں۔
نبی؛ روح مع الجسد کا نام ہے:
یہاں دیکھیں! عالمِ ارواح میں وعدہ ہے اور عالمِ ارواح میں اللہ تعالی نے ان انبیاء کی روحوں کو نبی فرمایا یعنی روحوں کو ﴿مِنَ النَّبِیّٖنَ﴾ کہا۔
وہ لوگ جو قبور میں انبیاء کی حیات کے منکر ہیں ان کا دعویٰ یہ ہے کہ ہم انکار نہیں کرتے ہم بھی کہتے ہیں کہ نبی زندہ ہے لیکن فرق کیا ہے؟ تم کہتے ہو کہ نبی کا جسم زندہ ہے اور ہم کہتے ہیں کہ نبی کی روح زندہ ہے اور وصفِ نبوت یہ روح کی صفت ہے، وصفِ رسالت یہ روح کی صفت ہے جسم کی نہیں ہے۔ دلیل یہ ہے ﴿وَ اِذۡ اَخَذۡنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیۡثَاقَہُمۡ﴾ عالمِ ارواح تھا وہاں اجسام نہیں تھے صرف ارواح تھیں اور اللہ نے ارواحِ انبیاء کو ”النبیین“ فرمایا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ نبی؛ روح ہوتی ہے، نبی؛ جسم نہیں ہوتا۔ تو جب وفات آئی ہے تو ہم نے وفات کے بعد بھی روح کو زندہ مانا ہے تو ہم تو وفات کے بعد نبی کو زندہ مانتے ہیں لیکن اس قبر میں جسم ہے روح نہیں ہے، روح اعلیٰ علیین میں ہے۔ لہذا نبی زندہ ہے اور اعلیٰ علیین میں زندہ ہے۔
اب دیکھیں! بظاہر کتنا عجیب شبہ ہے، بندہ سمجھتا ہے کہ بڑی مضبوط بات ہے۔ اس طرح یہ لوگ کہتے ہیں کہ حدیث پاک میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
كُنْتُ نَبِيًّا وَآدَمُ بَيْنَ الْمَاءِ وَالطِّيْنِ․
مرقاۃ المفاتیح :ج10 ص439
حضرت آدم علیہ السلام کا جسم ابھی مٹی اور گارے کے درمیان تھا میں تب بھی نبی تھا۔ اس وقت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم نہیں بنا تھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیسے نبی تھے؟ معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی روح کو اللہ نے نبی فرمایا۔ تو یہ وصفِ نبوت روح کے لیے ہے، وصفِ رسالت روح کے لیے ہے، جسم کے لیے نہیں ہے۔
ہم کہتے ہیں کہ نبی؛ روح اور جسم کے مجموعے کو کہتے ہیں، اس پر دلیل ﴿اَلنَّبِیُّ اَوۡلٰی بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ مِنۡ اَنۡفُسِہِمۡ﴾ ہے، پیغمبر کی ذات مؤمنین کے لیے ان کی جان سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ تو مؤمنین نے جس پیغمبر کی ذات کو اپنی جانوں سے عزیز مانا وہ پیغمبر پاک کا جسم بھی تھا یا صرف روح تھی؟ جسم مع الروح تھا۔ آگے ہے ﴿وَاَزۡوَاجُہٗۤ اُمَّہٰتُہُمۡ﴾ یہ”ہ“ ضمیر کا مرجع ﴿اَلنَّبِیُّ ﴾ ہے یعنی اس نبی کی بیویا ں امت کی مائیں ہیں۔ تو یہ جو بیویاں تھیں یہ جسم کی تھیں یا روح کی تھیں؟ جسم کی تھیں۔ تو قرآن تو خود بتا رہا ہے کہ وصفِ نبوت یہ پیغمبر کے جسم کے لیے ہے لیکن جسم بھی کون سا؟ جس میں روح ہو، وہ جسم نہیں جس میں روح نہیں ہے۔
توجہ سے بات سمجھنا! جب ہم کہتے ہیں کہ قبر میں جسم کو دفن کر دیا گیا تو یہ جسم نبی ہے۔ کیونکہ جسم کی نبوت تو قرآن سے ثابت ہوگئی نا ﴿اَلنَّبِیُّ اَوۡلٰی بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ مِنۡ اَنۡفُسِہِمۡ﴾ مؤمنین اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتے ہیں نبی کو، وہ نبی کی روح تھی یا جسم تھا؟ (جسم تھا۔ سامعین) جس کے لیے جانیں دی جا رہی ہیں، صحابہ کٹ رہے ہیں، سب کچھ قربان ہورہا ہے، جس کو بچانے کے لیے طلحہ رضی اللہ عنہ خود تیر کو برداشت کر رہے ہیں تو وہ نبی کا جسم تھا نا! جس کی بیویاں امت کی مائیں ہیں، ”ہ“ ضمیر کا مرجع ﴿اَلنَّبِیُّ ﴾ ہے تو یہ بیویاں جسم کی تھیں یا روح کی تھیں؟ روح کی تو نہیں تھیں نا! تو نبی جسم ہوا ہے لیکن جسم کون سا؟ مع الروح والا۔
اب منکرین حیات الانبیاء کہتے ہیں کہ وفات کے بعد نبی زندہ ہے تو سوال یہ ہے کہ وفات کس پر آئی ہے جسم پر یا روح پر؟ روح تو مرتی نہیں ہے تو وفات تب ہی ہو گی جب نبی کے جسم کو نبی مانیں گے! اگر نبی کے جسم کو نبی نہیں مانیں گے تو نبی پر وفات کیسے ہوئی؟ اگر صرف روح نبی ہے تو اس پر وفات آتی نہیں ہے، موت تو تب ہی مانیں گے جب وصفِ نبوت آپ جسم کے لیے ثابت کریں۔ پھر اس کے بعد کہتے ہیں کہ نبی زندہ ہے تو جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ وصفِ نبوت جسم کے لیے ہے تو زندہ کون ہوگا؟ جسم، اور جسم بھی کون سا کہ جس میں روح ہو۔ تو یہ مانناپڑے گا نا کہ وفات کے بعد جسم زندہ ہے اور وہ جسم زندہ ہے جس کے ساتھ روح کا تعلق موجود ہے، ایسا جسم نبی نہیں ہے کہ جس کے ساتھ روح کا تعلق نہ ہو بلکہ ایسا جسم نبی ہے جس کے ساتھ روح کا تعلق ہو۔
تو قرآن کریم سے ثابت ہو رہا ہے کہ وصفِ نبوت پیغمبر کے جسم کے لیے ہے اور وصفِ رسالت بھی پیغمبر کے جسم کے لیے ہے یہ بھی قرآن سے ثابت ہو رہا ہے، آگے بائیسویں پارے میں آ رہا ہے کہ:
﴿مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ وَ لٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ﴾
محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم میں سے کسی بالغ مرد کے باپ نہیں ہیں لیکن رسول اللہ ہیں۔ اب دیکھو! جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کسی بالغ مرد کےباپ نہیں ہیں وہی محمد اللہ کے رسول ہیں اور جس محمدسے بالغ مردوں کی نفی کی جا رہی ہے وہ محمد کی روح نہیں ہے وہ محمد کا جسم ہے- صلی اللہ علیہ وسلم- تو جس جسم سے بالغ مردوں کی نفی کی جا رہی ہے اسی جسم کے لیے رسالت کو ثابت کیا جا رہا ہے، کیونکہ ”لٰكِنْ“ عربی زبان میں استدراک کے لیے آتا ہے، استدراک کا معنی ہے کہ کلامِ سابق میں جو شبہ پیدا ہوا ”لٰكِنْ“ کے بعد والا کلام اس شبہ کو دور کرتا ہے۔ ﴿مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ﴾ حضور بالغ مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، اس میں شبہ یہ تھا کہ جب امت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جسمانی ابوت سے محروم ہوگئی جسمانی شفقت سے محروم ہوگئی تو کیا اللہ کے نبی کی روحانی ابوت اور روحانی شفقت سے بھی امت محروم ہوئی یا نہیں؟ فرمایا: ﴿وَ لٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللہِ﴾ کہ امت اگرچہ اللہ کے نبی کی جسمانی ابوّت سے محروم ہوگئی ہےلیکن روحانی ابوت باقی ہے اور جب روحانی ابوت باقی ہے تو روحانی شفقت بھی باقی ہے، ﴿وَ لٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللہِ﴾ اس لیے تمہیں یہ ٹینشن نہیں لینی چاہیے کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی بالغ مرد کے باپ نہیں ہیں تو امت شفقت سے محروم ہوگئی، فرمایا: نہیں، روحانی باپ اب بھی ہیں، اب بتاؤ! کون روحانی باپ ہیں؟ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، وہ جسم جس میں روح موجود ہے۔ تو قرآن کریم سے وصفِ نبوت بھی جسم کے لیے ثابت ہو رہی ہے اور وصفِ رسالت بھی جسم کے لیے ثابت ہو رہی ہے۔
کرے غلط تفسیر اور کہلائے شیخ القرآن!
اب بتاؤ! قرآن کتنی واضح بات کر رہا ہے۔ لوگ ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ جی ماشاء اللہ انہیں بہت قرآن آتاہے۔ میں نے کہا: عجیب بات ہے کہ یہ غلط قرآن پڑھے تو شیخ القرآن بنتا ہے اور غلط تفسیر کرے تو شیخ التفسیر بنتا ہے، یعنی جتنا زیادہ قرآن غلط پڑھے اتنا زیادہ شیخ القرآن بنتا ہے، ارے بابا! غلط قرآن پڑھنے سے بندہ شیخ القرآن تھوڑا بنتا ہے؟! میں ایک بات کہتا ہوں کہ ہمارے ہاں اہلِ باطل نے اس قدر محنت کی ہے کہ اپنے بارے میں مشہور کرا دیا ہے کہ جی یہ قرآن بہت جانتے ہیں اور ایک آپ لوگ ہیں کہ آپ یہاں سے جائیں گے صحیح عقیدہ اور صیح تفسیر پڑھ کر جائیں گے لیکن مجال ہے کہ آپ واپس جا کر یہ کہیں کہ ہمارے استاد جی کو قرآن بہت زیادہ آتا ہے! تفسیر کرتے ہیں تو بہت مزا آتا ہے! یہ آپ کبھی نہیں کہیں گے اور وہ پوری دنیا میں پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ جی ہمارے ہاں دورہ ہوتا ہے، قرآن وہاں پہ کھلتا ہے، قرآن کی خدمت بہت ہورہی ہے۔ اب اس کا نتیجہ کیا نکلتاہے؟ کہ ہمارے اہلِ حق بزرگ بھی اپنی زبانوں سے کہہ دیتے ہیں کہ جی عقیدے میں ان سے اختلاف ہے لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ قرآن کی خدمت اس نے کی ہے۔ میں نے کہا یہ جو ہم نماز ِ فجر سے پہلے تفسیر پڑھ رہے ہیں یہ قرآن کی خدمت نہیں ہے؟ (خدمت ہے۔ سامعین) فرق صرف یہ ہے کہ ہم خدمت میں شبہات کو رفع کرتے ہیں اور ان کی خدمت یہ ہے کہ قرآن میں شبہات کو پیدا کر رہے ہیں، شر جلدی پھیلتا ہے اور خیر دیر سے پھیلتی ہے، یہ امت کا مزاج ہے۔
میں اس لیے کہتا ہوں کہ قرآن مجید کو سمجھو! اب دیکھو بات کیسے کھل رہی ہے! بندے کا ضمیر کہتا ہے کہ وصفِ نبوت یہ جسم کے لیے ہے۔ راولپنڈی کے ایک عالم تھے، انہوں نےمجھ سے بات کی۔ میں نے ان سے کہا کہ وہ لوگ جنہوں نے اُن کے پاس قرآن پڑھا ہے انہیں کہنا کہ کبھی ہمارے استاذ کے پاس بھی پڑھنا! پھر آپ دیکھنا کہ شبہات ختم کیسے ہوتےہیں؟! اب دیکھو بندے کا دل مانتاہے، ضمیر مانتاہےکہ قرآن کیا کہتاہے! اللہ ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
امہات المؤمنین کا مطالبہ اور خدائی تنبیہ:
﴿یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلۡ لِّاَزۡوَاجِکَ اِنۡ کُنۡـتُنَّ تُرِدۡنَ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا وَ زِیۡنَتَہَا فَتَعَالَیۡنَ اُمَتِّعۡکُنَّ وَ اُسَرِّحۡکُنَّ سَرَاحًا جَمِیۡلًا ﴿۲۸﴾﴾
غزوۂ احزاب کے بعد بنو نضیر اس کے بعد بنو قریظہ کی فتوحات کے دروازے کھلے تو ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یارسول اللہ! قیصر اور کسریٰ بادشاہ ہیں ان کی بیگمات سونے سے لدی ہوئی ہیں، ان کی خدمت پر کنیزیں مامور ہیں، ہم اتنا تو نہیں مانگتیں لیکن اب جو وسعت پیدا ہو گئی ہے تو ہمارے خرچے میں بھی وسعت ہونی چاہیے، ہم ان کی طرح نہیں مانگتیں لیکن آپ بھی وسعت فرما دیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواجِ مطہرات کا یہ مطالبہ سنا تو آپ کو بہت رنج ہوا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت ناز ل ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بلایا، حضرت عائشہ سے پیار بھی سب سے زیادہ تھا۔ فرمایا کہ عائشہ! میں ایک بات کہنے لگا ہوں لیکن اس کا جواب جلدی نہ دینا، ماں باپ سے مشورہ کر کے دینا۔ عرض کیا: حضور فرمائیں! فرمایا کہ دیکھو! اگر تم دنیا چاہتی ہو تو میں طلاق دیتا ہوں اور ساتھ تمہیں دنیا دے کر رخصت کر دیتا ہوں اور اگر مجھے چاہتی ہو تو پھر دنیا کی وسعت نہیں ملے گی اسی فقر کے ساتھ رہنا پڑے گا۔
حضرت عائشہ نے کہا کہ حضور! اس پر بھی کوئی والدین کے ساتھ مشورہ کرنے کی ضرورت ہے؟ اس پر بھی میں ماں باپ سے مشورہ کروں گی؟ میں سب کچھ قربان کرتی ہوں آپ کی ذات پر، آپ کی ذات مل جائے تو ہمیں اور کیا چاہیے؟ یہی بات جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری ازواجِ مطہرات سے کی تو سب نے یہی جواب دیا لیکن امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مجھے فخر اس بات پر ہے کہ سب سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ مجھ سے کیا۔ اسے تخییر طلاق کا مسئلہ کہتے ہیں۔ تخییر طلاق دوطرح سے ہوتی ہے :
نمبر 1: خاوند اپنی بیوی سے کہے کہ اگر تم یہ چیز چاہتی ہو، تم اس چیز کو پسند کرتی ہو تو میں تجھے طلاق دے کر یہ چیز دے دیتا ہوں۔
نمبر 2: اگر تم یہ چاہتی ہو کہ تمہیں یہ چیز ملے تو میری طرف سے تمہیں اختیار ہے کہ خود کو طلاق دینا چاہو تو دے لو۔
دونوں صورتیں ٹھیک ہیں۔ پہلی یہ کہ تم یہ چیز لینا چاہتی ہو تو کہو میں تمہیں یہ چیز بھی دے دوں اور تمہیں طلاق بھی دے دوں! وہ کہتی ہے کہ مجھے منظور ہے۔ اب شوہر طلاق دے دیتا ہے اور دوسری صورت یہ کہ بیوی خود اپنے آپ کو طلاق دینا چاہے تو بھی ٹھیک ہے کیونکہ خاوند نے اختیار دیا ہے کہ اگر چاہو تو اپنے آپ کو طلاق دے لو تمہیں طلاق کا اختیار ہے اور یہ چیز بھی لے لو اور بیوی کہتی ہے میں خود کو طلاق دیتی ہوں تو اسے طلاق ہوجائے گی۔
امہات المؤمنین کا مقام:
﴿یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ مَنۡ یَّاۡتِ مِنۡکُنَّ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ یُّضٰعَفۡ لَہَا الۡعَذَابُ ضِعۡفَیۡنِ﴾
اے پیغمبر کی بیویو! اگر تم نے گناہ کیا تو تمہیں دوگنا عذاب ملے گا۔
یہاں بات سمجھنا! ” فاحشہ“ سے مراد زنا نہیں ہے، اس کی وجہ کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضور صلی للہ علیہ وسلم تک کسی نبی کے نکاح میں ایسی عورت نہیں آئی جس میں زنا کا عیب موجود ہو۔ ہاں ایسی بیوی آئی ہے کہ جس میں کفر ہو لیکن ایسی نہیں آئی جس میں زنا کا عیب ہو۔ آپ کو تعجب تو ہو گا کہ کفر برداشت کیا ہے لیکن زنا کو برداشت کیوں نہیں کیا؟ ایک ہوتا ہے عیبِ شرعی اور ایک ہوتا ہے عیبِ عرفی۔ شرعی عیب تو مسلمانوں میں عیب شمار ہو گا اور عرفی عیب مسلمان اور کافر دونوں میں عیب شمار ہو گا۔ کفر؛ یہ انسان میں عیب ہے لیکن یہ عیبِ شرعی ہے، عیب عرفی نہیں ہے۔ بات سمجھ آرہی ہے؟ (جی ہاں۔ سامعین) معاشرے میں کسی بندے کا کافر ہونا یہ عیب نہیں ہوتا، انسان ہے اس کی مرضی ہے مسلمان ہو اس کی مرضی ہے کافر ہو، شریعت نے اسے پورا اختیار دیا ہے کہ جو چاہے اختیار کرے لیکن زنا یہ عرفی عیب ہے، معاشرے میں اس کو گندا سمجھا جاتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی بیوی میں وہ عیب نہیں رکھتے جس کو معاشرے میں گندا سمجھا جاتا ہو۔
دوسری دلیل یہ ہےکہ یہاں فرمایا ﴿بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ﴾ یعنی کھلی ہوئی بے حیائی۔ یہ جو زنا ہوتا ہے یہ علانیہ نہیں ہوتا، یہ چھپ کر ہوتا ہے اور ”فاحشہ“ کو ”مبینہ“ فرمایا گیا تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں زنا مراد نہیں ہے بلکہ اس سے مراد عام گناہ ہے۔ بس پیغمبر کی بیوی اگر گناہ کرے گی تو عذاب ڈبل ہو گا اور اگر نیکی کرے گی تو اس کو اجر بھی دوہرا دیا جائے گا جس کا ذکر ”مَرَّتَیۡنِ“ میں آگے آ رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ کہ یہ پیغمبر کی بیوی ہے۔
اس سے بعض علما نے یہ مسئلہ لکھا ہے کہ یہی حال عالم کا ہے جو نبی کا وارث ہے، یہ نیک عمل کرے گا تو اس کے عمل پر دوہرا اجر ملے گا اور اگر یہ گناہ کرے گا تو اس کے گناہ پر عذاب بھی دوہرا ہو گا کیونکہ یہ نبی پاک کا وارث ہے، اس کو یہ کام نہیں کرنا چاہیے تھا۔
آگے ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے لیے فرمایا : ﴿نُّؤۡتِہَاۤ اَجۡرَہَا مَرَّتَیۡنِ﴾ اس پر پہلے بات ہو چکی ہے کہ انہیں ان کے نیک اعمال پر دوہرا اجر ملے گا، یہ نہیں کہ دو عملوں پر دو اجر ملیں گے۔
ازواجِ مطہرات کو پانچ ہدایات:
﴿یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسۡتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیۡتُنَّ فَلَا تَخۡضَعۡنَ بِالۡقَوۡلِ فَیَطۡمَعَ الَّذِیۡ فِیۡ قَلۡبِہٖ مَرَضٌ وَّ قُلۡنَ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا ﴿ۚ۳۲﴾﴾
اس آیت میں اللہ پاک نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کی عظمت بیان فرمائی ہے کہ دنیا جہاں کی عورتوں سے یہ افضل ہیں اور ان کے افضل ہونےکی وجہ ان کے اعمال نہیں، افضل ہونے کی وجہ نبی کی بیوی ہونا ہے، پیغمبر کی بیوی ہونا اتنا بڑا شرف ہے جو کسی اور عورت کو نہیں ملتا۔ لہذا ان سے کوئی عورت افضل نہیں ہے۔ یہاں ازواجِ مطہرات کو اللہ نے پانچ ہدایات دی ہیں:
ہدایت نمبر 1: اگر کوئی بندہ آئے، کوئی مسئلہ پوچھے، کو ئی جائز بات کرے تو بات کرنے کی تو گنجائش ہے لیکن ﴿فَلَا تَخۡضَعۡنَ بِالۡقَوۡلِ﴾ عورت کی فطرت میں جو نزاکت ہے اس فطری نزاکت کو تم نے استعمال نہیں کرنا، تم نے تکلف کر کے اس فطری نزاکت کو ختم کر کے تھوڑی سی ترش بات کہنی ہے۔ ﴿فَیَطۡمَعَ الَّذِیۡ فِیۡ قَلۡبِہٖ مَرَضٌ﴾ عورت کی فطری نزاکت والی بات کرو گی تو وہ شخص جس کے دل میں مرض ہے اس کے دل میں طمع پیدا ہو گا، تم اس طمع کے دروازے کو بھی بند کر دو۔ ﴿وَّ قُلۡنَ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا﴾ اور جو عفت کا تقاضا ہے اس کے مطابق بات کیا کرو۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بہت پیاری بات لکھی ہے،﴿وَّ قُلۡنَ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا﴾ کا ترجمہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”اور قاعدہ کے موافق بات کرو!“ لفظ قاعدہ کے بعد قوسین میں لفظ ”عفت“ بڑھا دیا ہے، قاعدۂ عفت کے موافق بات کرو یعنی پاکدامن عورتیں جس طرح بات کرتی ہیں اس طرح بات کرو۔
بیان القرآن: ج 3ص169
حضر ت عائشہ رضی اللہ عنہا پر اشکال کا جواب:
آگے فرمایا: ﴿وَ قَرۡنَ فِیۡ بُیُوۡتِکُنَّ﴾ بلاضرورت گھر سے باہر نہ نکلو بلکہ گھر ہی ٹھہرا کرو۔ ام المؤمنین امی عائشہ رضی اللہ عنہا مکہ سے بصرہ گئی ہیں۔ اس پر روافض بہت چیختے ہیں کہ یہ ﴿وَ قَرۡنَ فِیۡ بُیُوۡتِکُنَّ﴾ کے خلاف ہے کہ اللہ کا حکم ہے نبی کی بیویاں گھر میں ٹھہریں اور حضرت عائشہ مکہ سےبصرہ چلی گئی ہیں تو قرآن کے حکم کی خلاف ورزی کی ہے، حالانکہ یہ خلاف ورزی نہیں ہے، ﴿وَ قَرۡنَ فِیۡ بُیُوۡتِکُنَّ﴾ کا حکم عام حالات میں ہے اور اگر خاص ضرورت ہو تو نکلنا جائز ہے۔ حضرت امی عائشہ رضی اللہ عنہا مدینہ سے مکہ گئی ہیں اس پر اعتراض کیوں نہیں کیا؟یہ بھی تو ﴿وَ قَرۡنَ فِیۡ بُیُوۡتِکُنَّ﴾ کے خلاف ہے؟! امی عائشہ جب گھر سے نکلی ہیں تو مدینہ سے مکہ پھر مکہ سے بصرہ گئی ہیں، اگر گھر سے نکلنا ﴿وَ قَرۡنَ فِیۡ بُیُوۡتِکُنَّ﴾ کے خلاف ہوتا تو اعتراض پھر مدینہ سے مکہ جانے پر بھی ہونا چاہیے تھا۔
کہتے ہیں : نہیں جی! مدینہ سے مکہ جانا ٹھیک تھا چونکہ حج مقصود تھا اور مکہ سے بصرہ کیوں گئی ہیں وہاں مقصود کیا تھا؟ ہم کہتے ہیں کہ وہاں بھی تو شرعی تقاضا مقصود تھا کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں شہید کر دیا گیا تھا تو حضرت زبیر، حضرت طلحہ، حضرت نعمان بن بشیر،حضرت کعب بن حجرہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین مدینہ سے مکہ پہنچے اور وہاں آ کر امی عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ حضرت عثمان تو شہید ہوگئے ہیں اور قاتلانِ عثمان حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حلقے میں ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مجبوری ہے کہ ان سے قصاص نہیں لے سکتے اور اگر ہم مدینہ جائیں گے تو آپ ہمیں بتائیں کہ ہم کیا کریں؟ ہمیں خدشہ ہے کہ لوگ ہمیں بھی مار دیں گے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مشورہ دیا کہ تم فی الحال مدینہ نہ جاؤ تم مکہ سے بصرہ چلے جاؤ، وہاں مسلمانوں کی مستحکم حکومت ہے اور تمہیں تحفظ ملے گا، کچھ نہیں ہوگا، جب حالات سازگار ہو جائیں گے، حضرت علی رضی اللہ عنہ کا باغیوں پر کنٹرول ہو جائے گا، مزید قتل وغارت کی ان کو ہمت نہیں ہو گی تو مدینہ چلے آنا! انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ پھر انہوں نے کہا کہ آپ ہماری والدہ ہیں، آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں۔ اب یہ کون ہیں؟ امی عائشہ رضی اللہ عنہا کے رشتہ دار ہیں، عام آدمی نہیں ہیں، حضرت عبداللہ بن زبیر یہ امی عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے ہیں اور امی عائشہ ان کی خالہ ہیں،یہ آپ کے محرم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ بھی چلیں تو اپنے بھانجے کے ساتھ گئی ہیں، محرم کےساتھ سفر کرنا گناہ بھی نہیں ہے، پھر ہودج پر پردے لٹکائے ہیں، پردے کےساتھ گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ بھی کچھ عرصہ وہاں ٹھہریں، ماحول ساز گا ر ہو گا توآپ بھی تشریف لے آئیں۔ تو جس طرح ان کا شرعی تقاضا مدینہ سے مکہ جانے کا تھا ایسا ہی شرعی تقاضا مکہ سے بصرہ جانے کا بھی تھا۔ اس لیے اعتراض بالکل فضول ہے۔
ہدایت نمبر 2: ﴿وَ لَا تَبَرَّجۡنَ تَبَرُّجَ الۡجَاہِلِیَّۃِ الۡاُوۡلٰی﴾
اور قدیم جاہلیت کی طرح بناؤ سنگھار نہ دکھاتی پھرو! جاہلیت اولیٰ سے مراد وہ جاہلیت ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سےقبل دنیا میں پھیلی ہوئی تھی۔ اس زمانہ کی عورتیں بے حیائی اور بے شرمی کے ساتھ بلا جھجک بازاروں، میلوں،گلی کوچوں میں بے پردہ ہوکر پھراکرتی تھی۔ جب باہر نکلتیں تو بن ٹھن کر نکلتیں۔ اپنے پرائے کا امتیاز تھا نہ غیرمحرموں سے بچنے کی فکر، اور ایک ہوتی ہے جاہلیت اُخریٰ یعنی اسلام لانے کے بعد آدمی اگر شریعت پر عمل نہ کرے اس کو بھی جاہلیت کہتے ہیں لیکن یہ اخریٰ ہوتی ہے۔ تو فرمایا کہ جس طرح زمانہ جاہلیت میں عورتیں بغیر پردے کے نکلتی تھیں تم ایسا کبھی نہیں کرنا۔
ہدایت نمبر 3: ﴿وَ اَقِمۡنَ الصَّلٰوۃَ﴾ نماز کی پابندی کیا کرو۔
ہدایت نمبر 4: ﴿وَ اٰتِیۡنَ الزَّکٰوۃَ ﴾ زکوٰۃ ادا کیا کرو۔
ہدایت نمبر 5: ﴿وَ اَطِعۡنَ اللہَ وَ رَسُوۡلَہٗ﴾ اللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت کیا کرو۔
یہ پانچ ہدایات ازواج مطہرات کو دی ہیں لیکن اس کا خطاب تمام عورتوں کے لیے ہے، سب اس کےاندر شامل ہیں۔
اہلِ بیت کا مصداق کون؟
﴿اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ تَطۡہِیۡرًا ﴿ۚ۳۳﴾﴾
اے اہلِ بیت! اللہ رب العزت چاہتے ہیں کہ تم سے گندگی کو دور کریں اور تمہیں پاک صاف رکھیں۔
یہاں ایک مسئلہ تو یہ سمجھیں کہ اہلِ بیت کا مصداق کون ہے؟ اھل السنۃ والجماعۃ کا اجماعی عقیدہ ہے کہ اہلِ بیت میں پہلے پیغمبر کی بیویاں، پھر پیغمبر کی اولاد، پھر اولاد کی اولاد اور پھر داماد شامل ہیں۔ اہلِ بیت کا اولین مصداق ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن ہیں۔ یہ جو آیت کریمہ ہے یہ ازواج مطہرات کے حق میں ناز ل ہوئی۔ آپ اس کے پیچھے دیکھیں ﴿یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ مَنۡ یَّاۡتِ مِنۡکُنَّ﴾ خطاب نبی کی بیویوں کو ہے، اس کے بعد آپ دیکھیں ﴿یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسۡتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ﴾ یہاں بھی خطاب نبی کی بیویوں کو ہے، پھر اسی آیت کے آگے دیکھیں ﴿وَ اذۡکُرۡنَ مَا یُتۡلٰی فِیۡ بُیُوۡتِکُنَّ﴾ یہاں بھی خطاب نبی کی بیویوں کو ہے۔ تو اس آیت سے پہلے اور بعد میں ازواج مطہرات کا تذکرہ ہے اور انہی کو خطاب ہو رہا ہے، لہذا درمیانی آیت سے مراد بھی ازواج مطہرات ہی ہیں۔ اس لیے اہل بیت کا مصداق ازواج مطہرات ہیں۔
اہل بیت کا آپ لغوی مفہوم دیکھیں تب بھی پیغمبر کی بیویاں ہی ہیں۔ لفظ ”اہل بیت“ میں ”بیت“ کسے کہتے ہیں؟ یہ لفظ ”بَاتَ، یَبِیْتُ، بَیْتًا“ سے ہے بمعنی رات گزارنا، ”اَلْبَیْتُ“ اس کمرے کو کہتے ہیں جہاں آدمی رات گزارے اور اہل بیت اسے کہتے ہیں کہ جو رات کمرے میں آپ کے ساتھ رہے۔ آدمی کی بیوی رات کو آدمی کے ساتھ کمرے میں ہوتی ہے۔ بیٹا اور بیٹی ایک وقت تک تو ہوتے ہیں لیکن اس کے بعد ان کے سونے کی جگہ الگ ہو جاتی ہے، جو ہمیشہ کے لیے خاوند کے ساتھ کمرے میں آرام کرے یہ بیوی ہوتی ہے، اس لیے اہل بیت سے مراد پیغمبر کی بیویاں ہیں۔
ہمارے عرف میں بھی جب ”گھر والے“ کہا جائے تو گھر والوں سے مراد بیویاں ہوتی ہیں اولاد وغیرہ بعد میں ہے۔ آپ اپنے شاگرد کے پاس جانا چاہتے ہیں اور وہ کہے کہ استاد جی! جب آپ آئیں تو گھر والو ں کو بھی ساتھ لائیں ۔ اب استاد جائے تو ساتھ بیٹی ہو، ساتھ داماد ہو تو شاگرد پوچھے گا کہ گھر والے آئے ہیں؟ آپ کہتے ہیں کہ نہیں، گھر والے بیمار تھے نہیں آسکتے البتہ بیٹی میرے ساتھ آئی ہے۔ اب ہر بندہ سمجھتا ہے کہ بیٹی اہل بیت نہیں ہے، داماد اہل بیت نہیں ہے، بندہ یہ کہتا ہے کہ گھر والے تو نہیں آ سکے البتہ میں بچے اپنے ساتھ لایا ہو ں۔ تو عرف میں بھی اہل بیت سے مراد بیوی ہوتی ہے۔
روافض کہتے ہیں کہ اہلِ بیت سے مراد ازواجِ مطہرات نہیں ہیں۔ ان کی ایک دلیل یہ ہے ﴿لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ﴾ کہ دیکھو! اللہ رب العزت نے ”کُمْ“ ضمیر کا استعمال کیا ہے، ازواج مطہرات تو ساری عورتیں ہیں، چلو کچھ عورتیں اور کچھ مرد ہوں تو ”کُمْ“ کہہ سکتے ہیں۔ یہ تو مذکر کی ضمیر ہےمؤنث کی تو نہیں ہے، اس میں تو حضرت علی، حسن، حسین رضی اللہ عنہم ہیں، پھر حضرت فاطمہ ہیں۔ تو ان کے ساتھ تین مرد ہیں اور ایک عورت ہے تو ”کُمْ“ لائے ہیں تغلیباً جو ایک عورت کو بھی شامل ہے۔ اگر ازواج ِمطہرات ہی اہل بیت کا اصل مصداق ہیں تو پھر”کُمْ“کیوں فرمایا؟
ہم کہتے ہیں کہ اس کا جواب تو خود قرآن مجید میں موجودہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاں فرشتے آئے اور ان کی بوڑھی بیوی کو بچے کی بشارت دی تو ان کو بڑا تعجب ہوا۔ فرشتوں نے کہا:
﴿اَتَعۡجَبِیۡنَ مِنۡ اَمۡرِ اللہِ رَحۡمَتُ اللہِ وَ بَرَکٰتُہٗ عَلَیۡکُمۡ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ﴾
ھود11: 73
کیا آپ اللہ کےحکم پر تعجب کا اظہار کر رہی ہیں؟! اے اہلِ بیت تم پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں ہیں!
اب دیکھو! یہاں تنہا ابراہیم علیہ السلام کی بیوی ہے تو فرشتوں نے ان کے لیے ”کُمْ“ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ تو ”کُمْ“ کی اصل وضع تومردوں کے لیے ہے لیکن جب ایسے صیغے ہوں سلام وغیرہ کے تو اس قسم کے صیغوں میں ”کُمْ“ کا لفظ عورتوں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اب دیکھو! یہاں تو صرف ایک بیوی پر”کُمْ“ کا اطلاق ہو رہا ہے تو یہاں نو بیویوں کے لیے ”کُمْ“ کا استعمال کیوں نہیں ہوسکتا؟
اور دوسرا یہ سمجھیں کہ جب ہم کہتے ہیں کہ اہلِ بیت کا اولین مصداق پیغمبر کی بیویاں ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم پیغمبر علیہ السلام کے داماد اور نواسوں کو اس سے خارج کرتے ہیں بلکہ ان کو بھی اہلِ بیت میں شامل مانتے ہیں۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد اور نواسے شامل ہوں گے تو پھر”کُمْ“کے لفظ پر کوئی اعترا ض ہی نہیں رہتا، وہ بھی اہل بیت ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں بھی اہل بیت ہیں۔
تطہیر ِتکوینی اور تطہیرِ تشریعی:
ہاں البتہ اس سے روافض یہ استدلال کرتے ہیں کہ پیغمبر پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی، داماد اور حسنین کریمین اہل بیت بھی ہیں اور معصوم بھی ہیں۔ معصوم ہونے کی دلیل ﴿لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ﴾ ہے کہ دیکھو! اللہ فرما رہے ہیں کہ ہم ”رجس“ کو آپ کے قریب بھی نہیں آنے دیں گے اور ”رجس“ سے مراد گناہ ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ گنا ہ اللہ نے ان سے دور کر دیے ہیں۔ لہذا وہ معصوم ہو گئے۔
یہ بات یاد رکھنا! ایک ہے تطہیر ِتکوینی اور ایک ہے تطہیرِ تشریعی، تطہیرِ تشریعی کا معنی ہے کہ کوئی بندہ گناہ نہ کرے یہ شرعاً پاک ہے اور تطہیرِ تکوینی کا معنی ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک بندے کا مقدر ایسا فرما دیں کہ وہ گنا ہ کرے گا ہی نہیں۔ انبیاء اور ملائکہ کی تطہیر تکوینی ہے۔ اب اس کا معنی یہ نہیں کہ کسی اور بندے کی تطہیر ہو ہی نہیں سکتی، ہوسکتی ہے لیکن وہ تشریعی ہو گی تکوینی نہیں ہو گی اور تکوینی ہونے پر مستقل دلیل چاہیے۔
اب اس کو دوسرے لفظوں میں سمجھنا! ہم کہتے ہیں کہ نبی ہو گا اور معصوم ضرور ہو گا، فرشتہ ہو گا اور معصوم ضرور ہو گا۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ فرشتے کی طبیعت میں گناہ کا میلان رکھا ہی نہیں ہے اس لیے وہ معصوم ہے اور پیغمبر چونکہ انسان ہے گناہ کا میلان ہو گا لیکن پیغمبر کو تکویناً گناہ سے ہمیشہ خدا بچائیں گے۔ تو فرشتے اور انبیاء کی تطہیر تکوینی ہے کہ ان سے کبھی گناہ ہوگا ہی نہیں! اور انبیاء کے علاوہ جو امت ہے ان میں کسی کے بارے میں یہ فیصلہ نہیں ہے کہ یہ گناہ کرے گا نہیں! ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ امت کا ایسا فرد ہو جو گناہ نہ کرے۔ معصوم کا معنی یہ نہیں کہ بندہ گناہ نہ کرے بلکہ معصوم کا معنی یہ ہے کہ اللہ اس کو تمام گناہوں سے پاک رکھیں گے، لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی امتی بندہ ہو اور گناہ کبھی نہ کرے تو یہ عصمتِ نبوت کے خلاف نہیں ہے۔ لہذا تکوینی تطہیر الگ ہے اور تشریعی تطہیر الگ ہے۔
مؤمنات کی صفات:
﴿اِنَّ الۡمُسۡلِمِیۡنَ وَ الۡمُسۡلِمٰتِ وَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ وَ الۡقٰنِتِیۡنَ وَ الۡقٰنِتٰتِ وَ الصّٰدِقِیۡنَ وَ الصّٰدِقٰتِ وَ الصّٰبِرِیۡنَ وَ الصّٰبِرٰتِ وَ الۡخٰشِعِیۡنَ وَ الۡخٰشِعٰتِ وَ الۡمُتَصَدِّقِیۡنَ وَ الۡمُتَصَدِّقٰتِ وَ الصَّآئِمِیۡنَ وَ الصّٰٓئِمٰتِ وَ الۡحٰفِظِیۡنَ فُرُوۡجَہُمۡ وَ الۡحٰفِظٰتِ وَ الذّٰکِرِیۡنَ اللہَ کَثِیۡرًا وَّ الذّٰکِرٰتِ ۙ اَعَدَّ اللہُ لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃً وَّ اَجۡرًا عَظِیۡمًا ﴿۳۵﴾﴾
بے شک فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں، ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں، عبادت گزار مرد اور عبادت گزار عورتیں، سچے مرد اور سچی عورتیں، صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں، دل سے عاجزی کرنے والے مرد اوردل سے عاجزی کرنے والی عورتیں،صدقہ کرنے والے مرد اور صدقہ کرنے والی عورتیں، روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور اللہ تعالیٰ کا کثرت سے ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں، ان سب کے لیے اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور عظیم الشان اجر تیار کر رکھا ہے۔
قرآن کریم میں اکثر مقامات پر جب خطاب کیا ہے تو مردوں کو کیا ہےجبکہ شریعت کی مکلف خواتین بھی ہیں، اس بناپر بعض صحابیات رضی اللہ عنہن نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمیں تو ڈر لگتاہے کہ ہماری عبادات اللہ کے ہاں قبول بھی ہیں یا نہیں۔کیونکہ ہمیں اللہ نے قرآن میں کبھی خطاب نہیں کیا اور نہ براہ راست ہمیں کوئی حکم دیا ہے۔ تو اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ ان میں جس طرح مردوں کو خطاب ہے اسی طرح خواتین کو بھی ہے۔
کثرتِ ذکر اللہ کا معمول بنائیے!
﴿وَ الذّٰکِرِیۡنَ اللہَ کَثِیۡرًا وَّ الذّٰکِرٰتِ﴾
میں نے جمعرات خانقاہی اجتماع میں بھی عرض کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ہم سے صرف ذکر کا مطالبہ نہیں کرتے بلکہ کثرتِ ذکر کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہاں ﴿وَ الذّٰکِرِیۡنَ اللہَ کَثِیۡرًا وَّ الذّٰکِرٰتِ﴾ میں بھی کثر تِ ذکر کی بات کی ہے۔ اس لیے میں اس پر بہت زیادہ زور دیتا ہو ں کہ علماء اور طلبہ کو کثرت سے ذکر کرنا چاہیے۔ عموماً ہم ذکر میں بہت کوتاہی سے کام لیتے ہیں اور عام طور پر علماء کا ذہن یہ ہوتا ہے کہ ہم مطالعہ کریں، پڑھیں، بیان کریں، سبق پڑھائیں لیکن ذکر پر توجہ نہیں دیتے حالانکہ ذکر کرنے کے ساتھ کام میں برکت ہوتی ہے، جو کام آپ کا دو سال میں ہونا ہے وہ ایک سال میں ہو گا، جو کام کم بڑھنا ہے ذکر کی وجہ سے زیادہ بڑھے گا، تو ذکر ایندھن ہے عالم کے کام کے لیے، اس لیے اس پر بہت زیادہ توجہ دینی چاہیے خصوصاً قرآن کریم کی تلاوت اور اللہ کے نام کا ذکر جس حد تک ممکن ہو کریں۔ ہمارے اکابر اس کا بہت زیادہ اہتمام فرمایا کرتے تھے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سرِ تسلیمِ خم:
﴿وَ مَا کَانَ لِمُؤۡمِنٍ وَّ لَا مُؤۡمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللہُ وَ رَسُوۡلُہٗۤ اَمۡرًا اَنۡ یَّکُوۡنَ لَہُمُ الۡخِیَرَۃُ مِنۡ اَمۡرِہِمۡ﴾
حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ غلام تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد فرمایا اور اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا۔ لوگ بھی ان کو زید بن محمد کہہ کر پکارتے تھے۔ جب یہ آیات نازل ہوئیں کہ منہ بولے بیٹے کو اس شخص کا بیٹا کہہ کر نہ پکارا جائے بلکہ ان کو ان کے اصلی باپ کی نسبت سے پکارا جائے تو ان کو زید بن محمد کے بجائے اصلی باپ کی طرف منسوب کر کے پکارا جانے لگا۔ واقعہ پہلے میں نے بیان کر دیا ہے۔
حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ جب جوان ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی کی بیٹی تھیں حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا، قریشی تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید کا نکاح ان سے کرنا چاہا۔ زینب بنت جحش کو حضرت زید کے نکاح کا پیغام بھیجا۔ حضرت زینب بنت جحش اور ان کے بھائی عبد اللہ بن جحش اس نکاح پر آمادہ نہیں ہوئے، کیونکہ حضرت زید رضی اللہ عنہ میں ایک عرفی عیب تھا، عرفی عیب کا مطلب کہ جو شریعت میں عیب شمار نہیں ہوتا اور معاشرے میں عیب شمار ہوتا ہے، ان کا عرفی عیب یہ تھا کہ وہ غلام تھے پھر آزاد ہوئے اور قریش بڑا خاندان ہے اس بنیاد پر وہ نکاح تیار نہیں ہوئے۔ تو قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی کہ جب اللہ اور اللہ کا رسول کوئی فیصلہ کر دے تو پھر مؤمن مرد اور مؤمن عورت کا اختیار ختم ہو جاتا ہے۔ حضرت زینت بنت جحش رضی اللہ عنہا کا کمالِ ایمان دیکھیں کہ آپ فوراً نکاح کے لیے راضی ہو گئیں اور ان کےبھائی بھی راضی ہو گئے۔ تو زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کا نکاح منعقد ہو گیا۔ شریعت نے کفو کا خیال بھی کیا ہے لیکن یہ بات اچھی طرح سمجھیں کہ اعلیٰ اور ادنیٰ ہونے کی بنیاد کفو نہیں ہے بلکہ اس کی بنیاد ایمان اور تقویٰ ہے۔ اللہ فرماتے ہیں:
﴿یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ وَّ اُنۡثٰی وَ جَعَلۡنٰکُمۡ شُعُوۡبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا ؕ اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللہِ اَتۡقٰکُمۡ﴾
الحجرات 49: 13
اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں مختلف قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو، بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سے افضل وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہو!
تو افضلیت کی بنیاد تو ایمان اور اعمال ہیں ہاں البتہ معاشرے میں شریعت نے کفو اور برابری کا خیال کیا ہے، خاندانوں کا خیال کیاہے، معاشرت میں اس چیز کا خیال کیاہے۔
کفو کی تین اقسام:
اور کفو تین قسم کی ہوتی ہے؛ ایک کفو شرعی ہے، ایک کفو نسبی ہے اور ایک کفو مالی ہے۔ توشریعت نے ان تینوں کا خیال رکھا ہے۔
نمبر 1: کفوِ شرعی کا معنی کہ مسلمان؛ کافر سے اعلیٰ ہے برابر نہیں ہے، اسلام اورکفر میں برابری نہیں ہے، اس لیے مسلمان لڑکی کا نکاح کافر لڑکے سے نہیں ہو سکتا کیونکہ عورت اعلیٰ ہے اور یہ مرد ادنیٰ ہے۔ شریعت نے یہ تو کہا ہے کہ مرد مسلمان ہو اور عورت کتابی ہو تو اس کی گنجائش ہے لیکن عورت مسلمان ہو اور مرد کتابی ہو اس کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ شرعی کفو ہے۔ اس میں کسی مسلمان کو کوئی حق حاصل نہیں ہے کہ دخل اندازی کرے۔
نمبر 2: کفو نسبی یعنی خاندان کی جو برابری ہے یہ لڑکی کا بھی حق ہے اور خاندان کا بھی حق ہے۔ لہذا لڑکی اپنی مرضی سے اپنے سے ادنیٰ خاندان میں نکاح کرنا چاہے تو والدین کو حق حاصل ہے کہ وہ نکاح کو رکوا دیں باوجود اس کے کہ بالغ لڑکی اپنے اختیار سے نکاح کرسکتی ہے لیکن یہ کفو؛ خاندان کا بھی حق ہے اور لڑکی کا بھی حق ہے۔
نمبر 3: مالی کفو یعنی مال میں برابر ہونا، یہ لڑکی کا حق ہے خاندان کا نہیں ہے یعنی اگر کفو نسبی میں برابری ہے اور لڑکا مال کے اعتبار سے کمزور ہے اور بالغ لڑکی نکاح کرنا چاہے تو اب والدین اور خاندان لڑکی کو روک نہیں سکتے کہ کفو میں برابر نہیں ہے۔
آپ نے اس کا حال اپنے علاقے میں، اپنے گاؤں میں دیکھا ہو گا کہ بعض لوگ کم مالدار ہوتے ہیں لیکن خاندانی لوگ ہوتے ہیں اور بعضوں کے پاس مال بہت ہوتا ہے لیکن خاندان کے اعتبار سے وہ چھوٹے لوگ ہوتے ہیں، اس لیے اگر مال تھوڑا ہواور خاندان میں برابری ہو تو یہ مالی کفو لڑکی کا حق ہے، یہ اپنا حق چھوڑنا چاہے تو اس کو شریعت نے اجازت دی ہے۔ کفو میں تینوں چیزوں کا خیال رکھیں۔
حضرت زید کا نکاح اور طلاق:
﴿وَ اِذۡ تَقُوۡلُ لِلَّذِیۡۤ اَنۡعَمَ اللہُ عَلَیۡہِ وَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِ اَمۡسِکۡ عَلَیۡکَ زَوۡجَکَ وَ اتَّقِ اللہَ وَ تُخۡفِیۡ فِیۡ نَفۡسِکَ مَا اللہُ مُبۡدِیۡہِ وَ تَخۡشَی النَّاسَ ۚ وَ اللہُ اَحَقُّ اَنۡ تَخۡشٰہُ﴾
حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کا نکاح ہوگیا لیکن یہ نکاح زیادہ عرصہ تک چلا نہیں۔ نکاح تو قبول کرلیا لیکن حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا مزاج کچھ تیز تھا، پھر خاندان بھی بڑا تھا اور حضرت زید آزاد کردہ غلام تھے، اس لیے اِن کے دل میں اُن کی وہ اہمیت نہ آ سکی جو شوہر اور بیوی کے درمیان ہونی چاہیے۔ بالآخر نوبت طلاق تک پہنچ گئی۔ پھر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات وحی کے ذریعے بتا دی گئی کہ زید انہیں طلاق دے دیں گے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں گی۔ اب ایک دن ایسا ہوا کہ حضرت زید نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ یا رسول اللہ! ہمارا نباہ نہیں ہوتا، میں آزاد کردہ غلام ہوں اور وہ قریش کی لڑکی ہے، اس کے مزاج میں کچھ تیزی ہے جومجھ سے برداشت نہیں ہوتی۔ تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اوراس سے رکو! اللہ سے ڈرو کا معنی کہ اگرچہ طلاق دینا مباح ہے لیکن ”أَبْغَضُ الْمُبَاحَات“ ہے کہ جائز چیزوں میں سے سب سے زیادہ اللہ کو ناپسندیدہ ہے، اللہ سے ڈرو اور اس کا ارتکاب نہ کرو۔
اب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اگر انہوں نے طلاق دے دی اور میں نکاح کرتا ہوں تو لوگ اس کو معیوب سمجھیں گے کہ دیکھو اپنے منہ بولے بیٹے کی بیوی سے نکاح کر لیا اور عرب منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹے کا درجہ دیتے تھے، اس کی بیوی کے ساتھ باپ کبھی بھی نکاح نہیں کرتا تھا تو لوگ تو طعنے دیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ خوف محسوس کرتے تھے ا س لیے آپ ان سے فرماتے تھے کہ انہیں طلاق نہ دو! لیکن حضرت زید رضی اللہ عنہ کا نباہ نہیں ہوا۔ بالآخر انہوں نے طلاق دے دی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح حضرت زینب بنت جحش سے ہو گیا۔
پیغمبر تبلیغِ دین میں خوف نہیں کھاتے:
یہاں ایک بات تو یہ سمجھیں کہ قرآن کریم میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
﴿الَّذِیۡنَ یُبَلِّغُوۡنَ رِسٰلٰتِ اللہِ وَ یَخۡشَوۡنَہٗ وَ لَا یَخۡشَوۡنَ اَحَدًا اِلَّا اللہَ﴾
انبیاء اور رسل وہ لوگ ہیں جو اللہ کا پیغام بندوں تک پہنچاتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے خوف نہیں کھاتے۔
اور یہاں اللہ پاک فرماتے ہیں:
﴿وَ تُخۡفِیۡ فِیۡ نَفۡسِکَ مَا اللہُ مُبۡدِیۡہِ وَ تَخۡشَی النَّاسَ ۚ وَ اللہُ اَحَقُّ اَنۡ تَخۡشٰہُ﴾
کہ آپ دل میں ایک بات چھپا رہے تھے، اس کا اظہار نہیں کر رہے اور اللہ اس بات کو ظاہر کرنے والا تھا، آپ کے دل میں تھا کہ زید طلاق دے گا تو بحکمِ خداوندی نکاح آپ کریں گے تو آپ اس کا اظہار کیوں نہیں کر رہے تھے اور حضرت زید کو طلاق نہ دینے کی نصیحت کیوں فرما رہے تھے، آپ لوگوں سے ڈرتے ہیں کہ لوگ تہمت لگائیں گے، لوگ الزام لگائیں گے، لوگ برا کہیں گے حالانکہ آپ کو اللہ سے ڈرنا چاہیے!
تو قرآن کی ایک آیت سے معلوم ہوتا ہےکہ انبیاء علیہم السلام نہیں ڈرتے اور ایک سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام ڈرتے ہیں۔ دونوں میں فرق کیا ہے؟ یہ بات اچھی طرح سمجھیں کہ جہاں فرمایا کہ نہیں ڈرتے تو اس کا معنی یہ ہے انبیاء اور رسل عوام سے نہیں ڈرتے تبلیغ، دعوت اور شریعت کے معاملے میں کہ جب اللہ فرمائیں کہ یہ حکم شریعت ہے اسے بیان کرو تو پھر وہ نہیں ڈرتے کہ لوگ کیا کہیں گے! کیا الزام لگائیں گے! کیا بہتان لگائیں گے! بلکہ انبیاء علیہم السلام فریضہ نبوت کو ادا کرتے ہیں، اور یہاں جو فرمایا کہ آپ لوگوں سے ڈرتے تھے تو اس کا معنی یہ ہے کہ یہ نکاح بظاہر ایک دنیاوی معاملہ ہے، بظاہر تبلیغ ورسالت سےاس کا کوئی تعلق نہیں ہے کہ فلاں سے نکاح کرو! بظاہر یہ دنیاوی معاملہ تھا، اس لیے آپ کو خوف محسوس ہوا کہ اہلِ دنیا اس پر اعتراض کریں گے۔ تو وہاں خوف نہیں کرتے دینی اور شرعی امور کے بیان کرنے میں اور یہاں خوف کیا ہے دنیوی امور میں، تو اُس کی وجہ اور ہے اور اِس کی وجہ اور ہے۔ لہذا دونوں میں کوئی تعارض نہیں ہے۔
لیکن جب آپ کو یہ بات بتا دی گئی کہ متبنیٰ کی بیوی سے والد نکاح کر سکتا ہے اور آپ نے نکاح کرنا ہے۔ ایک ہے زبان سے مسئلہ بتانا اور ایک ہے عمل سے مسئلہ بتانا، یہ شریعت کا وہ حکم ہے جو آپ نے عمل سے بتانا ہے اور زبان سے بتانے سے وہ اثر نہیں ہوگا جو آپ کے عمل سے ہوگا، تو جب یہ وحی آگئی اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوف محسوس نہیں کیا بلکہ حضرت زینب سے نکاح فرمایا ہے۔
حضرت زینب کا نکاح کس نے کرایا؟
﴿فَلَمَّا قَضٰی زَیۡدٌ مِّنۡہَا وَطَرًا زَوَّجۡنٰکَہَا﴾
حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح کس نے کیا؟ اب قرآن مجید میں تو ہے ﴿زَوَّجۡنٰکَہَا﴾ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم نے آپ کا نکاح زینب کے ساتھ کیا ہے۔ اس بنیاد پر حضرت زینب رضی اللہ عنہا یہ بات فرمایا کرتی تھیں کہ تمام ازواجِ مطہرات میں سے یہ مجھے شرف حاصل ہے کہ میرا نکاح کسی انسان نے نہیں اللہ نے خود پڑھایا ہے اور بعض حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا ہے لیکن چونکہ اللہ کے حکم سے تھا اس لیے اللہ فرماتے ہیں کہ ہم نے کیا ہے لیکن زیادہ بہتر رائے یہ ہے کہ حضرت زینب کا نکاح دنیا میں کسی نے نہیں پڑھا اللہ نے خود پڑھایا ہے، یہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا بہت بڑا اعزاز تھا۔
حضرت زید بن حارثہ کا اعزاز:
حضرت زینب اور حضرت زید کے درمیان جدائی ہو گئی۔ اس جدائی کا حضرت زینب کو نقصان نہیں ہوا، کیونکہ حضرت زید کے نکاح سے نکلیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں چلی گئیں، حضرت زینب کا تو طلاق کے بعد اعزاز بڑھ گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آ گئی ہیں۔ اب حضرت زید کا کیا ہو گا! یہ بات بڑی سمجھنے کی ہے کہ حضرت زید جو قریشی خاندان کے داماد تھے جب ان کا نکاح ختم ہو گیا تو قریشی خاندان کی دامادی ختم ہو گئی تو ان کا مقام بظاہر بڑھا نہیں بلکہ کم ہوا۔ تو اللہ رب العزت نے حضرت زید کو یہ اعزاز دیا ﴿فَلَمَّا قَضٰی زَیۡدٌ مِّنۡہَا وَطَرًا زَوَّجۡنٰکَہَا﴾ کہ حضرت زینب کو طلاق کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح دے دیا اور حضرت زید طلاق کے بعد قرآن کریم کےا ندر آ گئے اور یہ ایسا اعزاز ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے بعد کسی صحابی کو یہ اعزاز نہیں ملا، تنہا حضرت زید کا اعزاز ہے کہ جن کا نام اللہ نے قرآن میں لیا ہے۔ اب ظاہر ہے اس طلاق کے بعد حضرت زید کا دل تو ٹوٹنا تھا اور دل ٹوٹنے کا خدا نے ازالہ کیسے کیا کہ حضرت زید رضی اللہ عنہ کا ذکر قرآن میں کردیا، اب اگر یہ کہا جائے گا کہ حضرت زینب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہیں تو یہ بھی کہا جائے گا کہ حضرت زید کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے۔
متبنیٰ کی مطلقہ سے نکاح کی حکمت:
﴿لِکَیۡ لَا یَکُوۡنَ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ حَرَجٌ فِیۡۤ اَزۡوَاجِ اَدۡعِیَآئِہِمۡ اِذَا قَضَوۡا مِنۡہُنَّ وَطَرًا﴾
ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عملاً فیصلہ اس لیے کروایا تاکہ آئندہ ایمان والوں پر حرج نہ ہو اور مسئلہ کھل جائے کہ اگر کوئی شخص اپنے متبنیٰ کی بیوی سے نکاح کرنا چاہے تو کر سکتا ہے، اس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔
﴿مَا کَانَ عَلَی النَّبِیِّ مِنۡ حَرَجٍ فِیۡمَا فَرَضَ اللہُ لَہٗ ؕ سُنَّۃَ اللہِ فِی الَّذِیۡنَ خَلَوۡا مِنۡ قَبۡلُ ؕ وَ کَانَ اَمۡرُ اللہِ قَدَرًا مَّقۡدُوۡرَۨا ﴿۫ۙ۳۸﴾﴾
اللہ فرماتے ہیں کہ یہ معاملہ آپ کے ساتھ نہیں ہے بلکہ آپ سے گزشتہ انبیاء علیہم السلام کو بھی جو ہم نے حکم دیا اس پر انہوں نے عمل فرمایا ہے، اور جو اللہ کا فیصلہ ہوتا ہے اس نے ہو کر رہنا ہوتا ہے۔ اس لیے ہم نے جو حکم دیا آپ نے عمل کیا اسی طرح پہلے انبیاء علیہم السلام بھی عمل فرماتے رہے ہیں۔
عقیدہ ختمِ نبوت:
﴿مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ وَ لٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ؕ وَ کَانَ اللہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا ﴿٪۴۰﴾﴾
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تم میں سے کسی بالغ مرد کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں۔ اور اللہ ہر چیز کو جاننے والے ہیں۔
یہ بات یہاں پر کیوں ذکر فرمائی؟ اس لیے کہ جب حضرت زید نے حضرت زینب کو طلاق دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح فرمایا تو اعتراض ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کیا ہے۔ اللہ فرماتے ہیں: ﴿مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ﴾ کہ حضور تم میں سے کسی بالغ مرد کے باپ نہیں ہیں، جب زید حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا ہی نہیں تو تم کیسے کہتے ہو کہ زید حضور کا بیٹا ہے؟ وہ بیٹا جو خونی رشتے سے ہو اس کے بیٹے کی مطلقہ سے تو نکاح جائز نہیں ہوتا، یہ زید بن محمد نہیں ہے یہ زید بن حارثہ ہے، اس لیے تمہیں یہ اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ نے یہاں یہ نہیں فرمایا کہ ”مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْكُمْ“ بلکہ ”مِنْ رِّجَالِكُمْ“ فرمایا، اگر ”مِنْکُمْ“ فرماتے تو یہ اشکال رہتا کہ حضور کے تو تین بیٹے تھے، حضور کی چار بیٹیاں بھی ہیں، پھر یہ کیسے فرمادیا! تو ”مِنْ رِّجَالِكُمْ“ کہہ کر فرمایا کہ حضور باپ تو ہیں لیکن رجال کے باپ نہیں۔ ”رجل “ کہتے ہیں جو نرینہ بھی ہو اور بالغ بھی ہو۔ تو حضور کسی رجل کےباپ نہیں ہیں، نہ زید حضور کے سگے بیٹے ہیں اس لیےان کی طلاق یافتہ سے نکاح کرنے پر حضور پر اعتراض کرنا غلط ہے۔
حضور علیہ السلام کی ابوتِ روحانی:
جب یہ بات فرمائی ﴿مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ﴾ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم میں سے کسی بالغ مرد کے باپ نہیں ہیں۔ اب اس پر ایک شبہ پیدا ہوا۔ وہ شبہ یہ ہے کہ یہ امت پیغمبر کی اَبُوَّت؛ باپ والی شفقت سے تو ہمیشہ کے لیے محروم ہو گئی تو کیا جو روحانی شفقت تھی وہ بھی ختم ہوگئی؟ ”اَبُوَّت“ کی نفی تو ہو گئی ہے لیکن کیا نبوت کی نفی بھی ہے؟ فرمایا ﴿وَ لٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللہِ﴾ کہ ہم نے اَبُوَّت کی نفی کی ہے نبوت کی نفی نہیں کی، تو پیغمبر جو اَبُوَّت کی وجہ سے جسمانی باپ تھا اس شفقت سے تم محروم ہو لیکن نبوت کی وجہ سے جو روحانی باپ ہے وہ شفقت اب بھی باقی ہے۔ ”لٰكِنْ“ عربی میں استدراک کے لیے آتا ہے، استدراک کا معنی ہوتا ہے کہ ”لٰكِنْ“ سے پہلے والی عبارت میں جوشبہ پیدا ہوا ”لٰكِنْ“ کا ما بعد اس شبہ کو ختم کر دیتا ہے۔ ﴿وَ لٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللہِ﴾ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور صرف رسول ہی نہیں، فرمایا: ﴿وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ﴾ یہ آخری نبی ہیں، ایسا نہیں کہ آج تو امت کو روحانی شفقت ملی ہے لیکن جو تمہارے بعد آئیں گے ان کے لیے کوئی اور نبی آئے گا، فرمایا نہیں نہیں! ان کے لیے بھی یہی نبی ہوں گے اور ان کو باپ والی روحانی شفقت بھی یہیں سے ملے گی۔ ﴿وَ کَانَ اللہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا ﴿٪۴۰﴾﴾ اور اللہ ہر چیز کو جاننے والے ہیں۔
روحانی بیٹے قیامت تک ہوں گے:
یہاں پر جس طرح ایک رسم بد کا رد ہوا ہے اسی طرح مشرکین مکہ کے ایک اعتراض کا جواب بھی ہواہے۔ اعتراض کیا تھا کہ حضور اقد س صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے حضرت قاسم جب فوت ہوئے تو مشرکینِ مکہ نے اس بات پر کہ ان کی نرینہ اولاد فوت ہوگئی ہے خوشیاں منائیں تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی : ﴿مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ﴾ کہ تمہاری یہ بات تو ٹھیک ہے کہ میرے محمدکی نرینہ اولاد فوت ہو گئی ہے لیکن تمہیں خوش نہیں ہونا چاہیے۔
مشرکینِ مکہ کی خوشی یہ تھی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جانے کے بعد ہم سے لڑائی ان کی اولاد نے کرنی ہے، جب ان کی اولا د ختم ہو گئی تو ان کا مشن ختم ہو گا، اب ہم سے لڑائی کون لڑے گا؟! اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَ لٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللہِ﴾ کہ تمہاری لڑائی محمد بن عبداللہ سے نہیں محمد بن عبداللہ رسول اللہ سےہے، اگر صرف محمدبن عبداللہ سے ہوتی اور رسالت کی حیثیت نہ ہوتی تو ان کے جانے کے بعد ان کے بیٹے لڑائی لڑتے لیکن ان کا مسئلہ محمد بن عبداللہ کانہیں ہے محمد رسول اللہ کا ہے، لہذا ان کے جانے کے بعد ان کے جسمانی بیٹے نہیں لیکن ان کے روحانی بیٹے جنگ لڑیں گے اور وہ موجود ہیں اور وہ تھوڑے سے نہیں ہیں بلکہ ایک لاکھ چوبیس ہزار ہیں۔
اب ان مشرکین کے ذہن میں پھر ایک خوشی آ سکتی تھی کہ چلو ایک لاکھ چوبیس ہزار بھی فوت ہو جائیں گے تو پھر بھی ان کا مشن مٹ جائے گا، فرمایا کہ یہ صرف رسول اللہ نہیں ہیں بلکہ یہ خاتم النبیین بھی ہے۔ اگر صرف اللہ کے رسول ہوتے تو جو ان کے کلمہ گو تھے ایک لاکھ چوبیس ہزار وہی لڑتے، یہ رسول بھی ہیں اور آخری بھی ہیں اس لیے ان کے بعد قیامت تک آنے والی امت ان کی روحانی اولاد ہے، تمہاری جسمانی اولاد ہو گی یا نہیں لیکن ان کی روحانی اولاد قیامت تک چلتی رہے گی، اس لیے حضور کی اولاد بھی رہے گی اور حضور کا مشن بھی رہے گا۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔
عقیدہ ختم نبوت اور حضرت نانوتوی کی تعبیر:
اور ایک اس سے بھی اہم نکتہ سمجھیں۔ حجۃ الاسلام بانی دار العلوم دیوبند مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: خاتمیت ایک جنس ہے جس کی دو نوعیں ہے؛ ایک ہےخاتمیتِ زمانیہ اور ایک ہے خاتمیتِ ذاتیہ۔ خاتمیتِ زمانیہ کا مطلب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تمام نبیوں سے آخر کا ہے۔ فرمایا : ہم یہ بھی مانتے ہیں لیکن یہ حضور کا کوئی زیادہ اعزاز نہیں ہے کیونکہ تقدم اور تأخر بالذات میں کوئی وجہ فضیلت نہیں ہے یعنی کسی کا اول ہونا یا آخر ہونا اس میں ذاتی طور پر کوئی فضیلت نہیں ہے۔ حضرت ابوبکر خلیفہ اول ہیں، حضرت علی خلیفہ آخر ہیں لیکن حضرت ابوبکر افضل ہیں، حضرت علی افضل نہیں ہیں۔ اگر صرف آخری ہونا افضیلت کی دلیل ہوتی تو آخری خلیفہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے اعلیٰ ہوتے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ ہمارے چاروں ائمہ میں سے حضرت امام اعظم ابو حنیفہ اول ہیں اور امام احمد بن حنبل چوتھے نمبر پہ ہیں۔ اب امام احمد بن حنبل آخر ہونے کی وجہ سے امام ابو حنیفہ سے افضل تو نہیں ہیں۔ با جماعت نماز ہوتی ہے، ایک صفِ اول ہے اور ایک صفِ آخر ہے، اب صف ِ آخر یہ صفِ اول سے افضل تو نہیں ہے۔
حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ عجیب تشریح فرماتے ہیں، فرمایا کہ تقدم اور تاخر بالذات میں کوئی وجہ فضیلت نہیں ہے تو خاتم النبیین ہونا یہ افضیلت کی دلیل کیسے ہے؟ تو حضرت فرماتے ہیں کہ ایک ہے خاتمیتِ زمانیہ اور ایک ہے خاتمیتِ ذاتیہ، خاتمیتِ ذاتیہ کا معنی یہ ہوتا ہے کہ یہ چیز اسی سے شروع ہے اور اسی پر ختم ہے، اسے کہتے ہے خاتمیتِ ذاتیہ یعنی یہ چیز اس کو بالذات ملی ہے اور دوسروں کو اس کے واسطے سے ملی ہے، اور اس کا ضابطہ یہ ہے کہ ایک چیز کسی کو بلا واسطہ ملے تو اسے کہتے ہیں ”بالذات“ اور اگر وہی چیز دوسرے کو بالواسطہ ملے تو اسے کہتے ہیں ”بالعرض“ ۔
جیسے سورج جب طلوع ہوتا ہے تو اس کی روشنی دیوار پر پڑتی ہے، سورج کی روشنی بلا واسطہ ہے اور دیوار کی روشنی سورج کے واسطہ سے ہے، سورج ہوگا تو یہ روشنی ہو گی سورج نہیں ہو گا تو یہ روشنی بھی نہیں ہو گی لیکن جب سورج غروب ہوتا ہے تو یہ روشنی کہاں جاتی ہے؟ یہ واپس سورج میں چلی جاتی ہے۔ جیسے آپ ٹارچ چلائیں تو روشنی سامنے دیوار پر چلی جاتی ہے، جب بند کریں تو روشنی دوبارہ ٹارچ میں آ جاتی ہے۔ تو فرمایا کہ سورج کی روشنی ”بالذات“ ہے اور دیوار کی روشنی ”بالعرض “ہے۔ اسے کہتے ہیں ختم نبوت ذاتی یعنی اللہ کے نبی کی جو ختم نبوت ہے یہ ذاتی ہے، کیامعنی کہ اسی سے نبوت شروع ہو گی اور اسی پر نبوت ختم ہو گی۔ خاتمیتِ ذاتیہ کا مقصد ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت بالذات ہے؛ شروع بھی یہاں سے ہے اور ختم بھی یہاں پر ہے۔ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں جس کا معنی یہ ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام کو نبوت بالعرض ملی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت بالذات ملی ہے۔
ایمانِ اصل اور ایمانِ نسل:
اب اس کا فائدہ کیا ہو گا؟ بات توجہ سے سمجھنا! جب اللہ نے قرآن کریم میں ﴿وَ اَزۡوَاجُہٗۤ اُمَّہٰتُہُمۡ﴾ فرمایا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں مؤمنین کی مائیں ہیں، اس کامعنی کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم مؤمنین کے باپ ہیں، حضور باپ ہو ں گے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں مائیں بنیں گی۔ اگر یہ باپ نہیں ہوں گے تو ان کی بیویاں مائیں کیسے بنیں گی؟ اب یہ پیغمبر باپ کیوں ہیں؟ اس لیے کہ ایک وہ شخص ہے جو ایمان لاتا ہے اور ایک وہ شخص ہے جس پر ایمان لایا جاتا ہے، تو جو ایمان لایا یہ بھی ایمان والاہے اور جس پر ایمان لایا وہ بھی ایمان والا ہے، دونوں کے ایمانوں میں فرق کیا ہے کہ جس پر ایمان لایا جائے اس کا ایمان ”اصل“ ہوتا ہے اور جو ایمان لاتا ہے اس کا ایمان ”نسل“ ہوتا ہے، اصل کو باپ کہتے ہیں اور نسل کو اولاد کہتے ہیں۔ تو پیغمبر کا ایمان دیگر کے ایمان کے لیے مثل باپ کے ہے اور دیگر کا ایمان نبی کے ایمان کی نسبت مثل اولادکے ہے۔ تو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ؛ صاحبِ ایمانِ اصل ہے اور باقی سارے صاحبِ ایمانِ نسل ہیں، تو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم باپ ہیں اورباقی اولاد ہیں۔
اب توجہ فرمائیں! حضرت آدم سے لے کر حضرت عیسی ٰ علیہم السلام تک یہ تمام انبیاء علیہم السلام حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے ہیں ﴿لَتُؤۡمِنُنَّ بِہٖ﴾، تو حضور کا ایمان اصل ہوا اور ان سب کا ایمان نسل ہوا، نسل ایمان والا بیٹا ہے اور اصل ایمان والا باپ ہوتا ہے۔ مولانا نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ مشرکینِ مکہ خوش ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد چلی گئی، فرمایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو ایسے صاحبِ اولاد ہیں کہ جب دنیا میں نہیں تھے ان کی اولاد تب بھی تھی اور جب دنیا میں نہیں ہوں گے ان کی اولاد تب بھی ہو گی۔ (سبحان اللہ۔ سامعین) ایسا باپ دنیا میں کوئی ہو گا کہ جب نہیں تھے اولاد تب بھی تھی اور جب نہیں ہوں گے اولاد تب بھی ہوگی۔ اس لیے تم اس پیغمبر کی ذات کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
اب دیکھو! ایسی عمدہ تعبیر اور تشریح ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کو ہم پڑھتے ہیں لیکن سمجھتے نہیں اور جب سمجھتے نہیں تو کہتے ہیں کہ یہ ان کا تفرد ہے! ان کی بات ٹھیک نہیں ہے! میں کہتا ہوں کہ بھائی! تفرد کا معنی یہ ہے کہ کسی نص کےخلاف تو ہو، جب کسی نص کے خلاف نہیں ہے تو آپ نے تفر د کیسے کہہ دیا؟!
ختمِ نبوت ذاتی اور ختمِ نبوت زمانی:
اس لیے حضرت ناناتوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک ہے حضور کی ختمِ نبوت ذاتی اور ایک ہے ختمِ نبوت زمانی، ہم زمانی بھی مانتے ہیں لیکن وجہِ فضیلت زمانی نہیں بلکہ وجہِ فضیلت ذاتی ہے۔ توجہ رکھنا! اب حضرت فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں، ان کے بعد کوئی اور نبی آ بھی جائے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ختمِ نبوت پر فرق پھر بھی نہیں پڑتا! یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ختمِ نبوت ذاتی پر فرق نہیں پڑتا! یہ تحذیرالناس کی دوسری عبارت ہے جس پر اہلِ بدعت نے اعتراض کیا ہے کہ مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے نبوت کا دروازہ کھولا ہے اور مرزا قادیانی اس دروازے سے نبی بن کر آ گیا ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ مولانا قاسم نانوتوی فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین ہیں، اگر آپ کے بعد کوئی نبی آ بھی جائے تو ختم نبوت پر فرق نہیں پڑتا، یہ قضیہ شرطیہ ہے ”لَوْ“ والا اور ”لَوْ“ استعمال ہوتا ہے انتفائے ثانی کے لیے بوجہ انتفائے اول کے۔ جیسے قرآن میں ہے:
﴿لَوۡ کَانَ فِیۡہِمَاۤ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللہُ لَفَسَدَتَا﴾
الانبیاء21: 22
اگر زمین وآسمان میں کئی خداہوتے تو زمین وآسمان میں فساد آجاتا۔
لیکن فساد نہیں آیا کیونکہ کئی خدا نہیں ہیں۔ تو ﴿لَفَسَدَتَا﴾ ثانی ہے اور ﴿کَانَ فِیۡہِمَا﴾ اول ہے، تو ”لَوْ“ آتا ہے انتفائے ثانی کے لیے بوجہ انتفائے اول کے۔ اب اعتراض سمجھنا! یہ لوگ کہتے ہیں کہ مولانا قاسم نانوتوی فرماتے ہیں کہ حضور خاتم النبیین ہیں، ”اگر آپ کے بعد کوئی نبی آ جائے“ یہ اول ہے، ”تو بھی ختمِ نبوت پر فرق نہیں پڑتا“ یہ ثانی ہے۔ اب دیکھو! ”اگر آپ کے بعد کوئی نبی آ جائے“ اس کا انتفاء ہے ”اگر آپ کے بعد کوئی نبی نہ آئے“ اور ”ختمِ نبوت پر فرق نہیں پڑتا“ اس کا انتفاء ہے ”تو ختمِ نبوت پر فرق پڑتا ہے“ اب وہ کہتے ہیں کہ حضرت نانوتوی کی عبارت کا مطلب یہ ہوا کہ حضور کے بعد نبی کا آنا ضروری ہے، تو مرزا کہتا ہے کہ لو میں آگیا ہوں، تویہ دروازہ مولانا قاسم نانوتوی نے کھولا تھا، مرزا اس سے نکل کر آ گیا۔
اب جواب سمجھیں! ہم کہتے ہیں کہ ”لَوْ“ ہمیشہ انتفائے ثانی کے لیے بوجہ انتفائے اول کے نہیں آتا۔ شرح جامی میں ہے:”وَلَہَا اسْتِعْمَالٌ ثَالِثٌ“ کہ ”لَوْ“ کا ایک استعمال اور بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ ”لَوْ“ آتا ہے تاکیدِ ثانی کے لیے بوجہ انتفائے اول کے، جب پہلے کی نفی ہو گی تو دوسرا جملہ مزید مضبوط ہو گا۔مثلاً میں کہتا ہوں ”لَوْ اَھَنْتَنِیْ لَاَکْرَمْتُکَ“ کہ اگر تو میری توہین کرے گا تو میں تب بھی تیری عزت کروں گا! اب اس کی نفی یہ ہے کہ اگر تو مجھے گالی نہیں دے گا پھر تو بطریقِ اولیٰ میں تیری عزت کروں گا۔ اب حضرت کی عبارت کا معنی یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اگر آپ کے بعد کوئی نبی آ جائے تو ختم نبوت پر فرق نہیں پڑتا اور اگر نہ آئے تو پھر یقیناً ختم نبوت پر فرق نہیں پڑتا۔ اب دیکھو! مولانا نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کی نحو کتنی مضبو ط ہے۔ میں اس لیے کہتا ہوں کہ تمہیں نحو آدھی آتی ہے اور حضرت نانوتوی کو پوری آتی ہے۔
علم پورا تو عقیدہ پورا:
میرا کراچی کا ایک سفر تھا تومیں نے وہاں ایک مدرسے میں پورے دو گھنٹے طلبہ میں اسی موضوع پر بیان کیا کہ جب علم ادھورا ہو تو عقیدہ ادھورا ہوتا ہے اور اگر علم پورا ہو تو عقیدہ پورا ہوتاہے۔
آج بھی اٹک سے چند طلبہ ملنے کے لیے آئے تھے میرے شاگرد سے فون کروا کے، تو ہم نے انہیں پکوڑے کھلائے، حلوا کھلایا، مٹھائی کھلائی، بسکٹ کھلائے، انڈے کھلائے اور چائے پلائی۔میں نے ان سے پوچھا آپ کیوں آئے ہیں؟ کہا کہ ہم کراچی میں پڑھتے ہیں، وہاں ہمارے ساتھ مماتی لڑکے پڑھتے ہیں، وہ ہمیں بہت تنگ کرتے ہیں کہ مولانا الیاس گھمن صاحب سے کہو کہ چیلنج لکھ کر دیں ہمارے فلاں مناظر نے مناظرہ کرنا ہے۔ میں نے کہا کہ صدقے جاؤں! یہ تو اس طرح ہے کہ میں کہوں کہ میں نے تم سے کُشتی کرنی ہے اور چیلنج لکھ کر تم دو! بہت عجیب بات ہے، بھائی! جس کو کُشتی کا شوق ہے چیلنج لکھ کر بھی وہی دے گا نا! آپ نے اتنا لمبا سفر کیا ہے وہ مناظر چیلنج لکھ کر دے دیتا کہ جی میں مناظرہ کرنا چاہتا ہوں، پھر آپ مجھے کہتے کہ جی آپ بھی کرنا چاہتے ہیں یا نہیں؟ مناظرہ اس نے کرنا ہے اور چیلنج لکھ کر میں دوں؟میں نے کہا کہ بیٹا یہ ترتیب تو غلط ہے، اور دوسری بات یہ ہے کہ نہ میں آپ کا باپ جانتا ہوں، نہ خاندان جانتا ہوں، نہ میں آپ کا گھر جانتا ہوں تو آپ کے نام پر میں لیٹر پیڈ پر مناظرہ لکھ دوں گا؟ کم ازکم یہ بات تو سوچو! کہا: جی وہ ہمیں بہت تنگ کرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ وہ تمہیں اس لیے تنگ کرتے ہیں کہ تم ہمارے پاس نہیں پڑھتے، ہمارے پاس پڑھو پھر تمہیں کوئی تنگ نہیں کرے گا، میں یہ تو نہیں کہتاکہ تم تنگ کروگے لیکن تمہیں تنگ کوئی نہیں کرے گا!
آپ ٹینشن دیتے ہیں، لیتے نہیں!
میں ایک دفعہ جامعۃ الرشید کراچی میں تھا تو مفتی عبدالرحیم صاحب جو جامعہ کے مہتمم ہیں اور میرے استاذ ہیں، میں نے ثالثہ والے سال ان سے پہلے تین پاروں کی ترکیب پڑھی ہے، مجھے استادجی فرمانے لگے کہ تمہاری تین بیویاں ہیں تو تمہیں پریشانی نہیں ہوتی؟ میں نے کہا کہ استاذ جی! پریشانی اس کو بنتی ہے جس کو ٹینشن ہو، میں ٹینشن فری آدمی ہوں مجھے کوئی بھی پریشانی نہیں ہوتی۔ تو استادجی فرمانے لگے: یہ مسئلہ نہیں ہے بلکہ مسئلہ اور ہے۔ میں نے کہا: وہ کیا؟ فرمایا: ایک بندہ ہوتا ہے جو ٹینشن نہ لے اور ایک ہوتا ہے جو ٹینشن دے، تو تمہاری عادت ہے کہ تم دوسرو ں کو ٹینشن دیتے ہو اور پھر خود سکون سے سوتے ہو، یہ نہیں کہ تم ٹینشن لیتے نہیں ہو بلکہ تم نے پوری دنیا کو ٹینشن دی ہوئی ہے، لوگ پریشان ہیں اور تم سکون سے سوتے ہو، پھر تمہیں پریشانی کہاں سے ہونی ہے؟
طلبہ کو نصیحت:
اور یہی وجہ ہے -آپ یقین کریں- کہ ہمیں کوئی ٹینشن نہیں ہے الحمد للہ، بڑے سکون سے سوتے ہیں، یہ اللہ کا خاص کرم ہے، اللہ یہ سکون اور اطمینان آپ کو بھی نصیب فرمائے۔ (آمین۔ سامعین) گناہ چھوڑ دیں، تعلق مع اللہ مضبوط کریں، ذکر والی زندگی بنائیں اور کسی کے معاملات میں دخل اندازی نہ کریں، پھر دیکھیں کہ کیسے ٹینشن فری زندگی آپ کو ملتی ہے! آپ کےساتھ ایک ساتھی بیٹھا ہے، اس کا میسیج آئے تو اسے پڑھنے دو، وہ غلط ہےیا ٹھیک ہے تمہارا اس سے تعلق نہیں ہے، اگرایک مرتبہ شک پڑا کہ غلط میسیج ہے تو پھر پیچھے پڑجائیں گے، چھوڑو ان باتو ں کو اور اپنے کام سے کام رکھو! بدگمانی کر کے خوامخواہ گناہ اپنے ذمہ ضرور لینا ہے؟! میں اس لیے کہتا ہوں کہ گناہ چھوڑو! تعلق مع اللہ بناؤ اور اپنے کام سے کام رکھو! آپ کو کبھی تکلیف نہیں ہو گی۔ دنیا جہاں کی تکلیفیں آپ اپنے سر لے کر پھرتے ہیں اور اپنی فکر نہیں ہوتی۔ یہ کس درد کے ساتھ یہ بات میں آپ کو سمجھاؤں! بطورِ خاص تخصص والوں سے کہتا ہوں کہ یہاں تمہارے اب بہت تھوڑے دن باقی ہیں، صرف اپنے کام سے کام رکھو، اپنے قریبی ساتھی کو بھی بھول جاؤ تم زندگی بھر مجھے دعائیں دو گے اور اگر یہ چار مہینے تم نے دوستی میں اور کھانے پینے اور گپ شپ میں گزار دیے تو زندگی بھر تم پچھتاؤ گے لیکن اس وقت پچھتانے کا کچھ فائدہ نہیں ہو گا۔ لہذا وقت کو قیمتی بناتے ہوئے حدیثیں یاد کرو، عقائد یاد رکھو، مسائل یاد کرو اور ہر روز نمازوں کے بعد جو بیان کرتے ہو اس کی سخت پابندی کرو، جمعرات کو خطابت کی پابندی کرو، بیانات اپنی زبان پر بار بار کہو اپنی زبان پر جاری کرو، پھر ان شاء اللہ ثم ان شاء اللہ جب موقع آئے گا پھر تمہیں اندازہ ہو گا کہ ہم نے کتنا اچھا کام کیا ہے۔
کثرت ذکر کا اہتمام کیجیے!
﴿یٰۤاَیُّہَاالَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اذۡکُرُوا اللہَ ذِکۡرًا کَثِیۡرًا﴿ۙ۴۱﴾﴾
ا ے ایمان والو! اللہ کا ذکر کرو۔ اللہ تعالیٰ بار بار ذکر کا نہیں بلکہ کثرت ذکر کا حکم فرما رہے ہیں۔ ہماری اس طرح کی آیات کی طرف توجہ نہیں ہوتی، تو ذکر کی طرف ذہن نہیں جاتا اس لیے علماء اور طلبہ کو ذکر کا خوب اہتمام کرنا چاہیے۔
حضور علیہ السلام کی پانچ صفات کا تذکرہ:
﴿یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیۡرًا ﴿ۙ۴۵﴾ وَّ دَاعِیًا اِلَی اللہِ بِاِذۡنِہٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیۡرًا ﴿۴۶﴾﴾
یہاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پانچ صفتیں بیان فرمائی ہیں:
1: ﴿شَاہِدًا﴾․․․․ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن اپنی امت یا دیگر انبیاء علیہم السلام کی امتوں پر گواہی دیں گے جب گزشتہ امتیں اپنے نبیوں کی تکذیب کریں گی کہ انہوں نے ہمیں دین کی دعوت نہیں دی، ان کے خلاف امت محمدیہ گواہی دے گی کہ اللہ! یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں، ان کے پیغمبر نے ان کو دعوت دی تھی، اللہ تعالی پوچھیں گے کہ تمہیں کیسے پتا ہے؟ تم تو اس وقت نہیں تھے۔ وہ کہیں گے کہ ہمیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم گواہی دیں گے کہ میری امت بالکل ٹھیک کہتی ہے، ان کو میں نے بتایا تھا۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بطور سرکاری گواہ کے قیامت کے دن پیش ہوں گے۔ حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے بین القوسین میں ”شَاهِدًا“ کا معنی سرکاری گواہ کیا ہے۔
یہاں شاھداً کا معنی ہے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر روزانہ یا ہفتے میں دو مرتبہ امت کے اعمال اجمالاً پیش ہوتے ہیں، ان اعمال کے پیش ہونے کی وجہ سے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کل قیامت کے دن امت کے حق میں گواہی دیں گے۔
2: ﴿وَّ مُبَشِّرًا﴾ ․․․․ بشارت دینے والے۔
3: ﴿وَّ نَذِیۡرًا﴾ ․․․․ اور ڈرانے والے۔
4: ﴿وَّ دَاعِیًا اِلَی اللہِ بِاِذۡنِہٖ﴾ ․․․․ اور اللہ کے حکم سےاللہ کی طرف بلانے والے۔
5: ﴿وَ سِرَاجًا مُّنِیۡرًا﴾ اور ایسے چراغ ہیں جو امت کو روشنی دیتے ہیں۔
عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم:
آپ حیران ہوں گے کہ بظاہر اس آیت کا عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کے تحت بھی عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم بیان کیا ہے کہ ”تمام انبیاء خصوصا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے گزرنے کے بعد بھی اپنی قبروں میں زندہ ہیں“
معارف القرآن: ج7 ص177 ، 178
اور بعض حضرات کا تو کہنا یہ ہے جیسا کہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جس طرح دنیا میں سورج کی روشنی سے پوری انسانیت منور ہوتی ہے اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلبِ اطہر کی روشنی سے تمام اہلِ ایمان کے قلوب معطر اور منورہوتے ہیں۔اس لیے جتنا حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق گہرا ہو گا اتنا انسان اپنے دل میں نورانیت کو محسوس کرے گا۔
رخصتی سے قبل طلاق کا حکم:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نَکَحۡتُمُ الۡمُؤۡمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقۡتُمُوۡہُنَّ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ تَمَسُّوۡہُنَّ فَمَا لَکُمۡ عَلَیۡہِنَّ مِنۡ عِدَّۃٍ تَعۡتَدُّوۡنَہَا ۚ فَمَتِّعُوۡہُنَّ وَ سَرِّحُوۡہُنَّ سَرَاحًا جَمِیۡلًا ﴿۴۹﴾﴾
یہاں اس عورت کامسئلہ بیان کیا جس کا نکاح ہوا ہو اور بغیر خلوت صیحہ کےاس کو طلاق ہوجائے، خلوت صحیحہ کی ایک صورت جماع ہے اورایک صورت یہ ہے کہ ایسی جگہ میسر ہو جائے جہاں شوہر ہمبستری پر قادر ہو تو اس کو بھی جماع کے قائم مقام سمجھا جائے گا۔ فرماتے ہیں کہ اس عورت کی کوئی عدت نہیں ہے۔ طلاق کے فوراً بعد کہیں نکاح کرنا چاہے تو کر سکتی ہے، ﴿فَمَتِّعُوۡہُنَّ﴾ اس کو کچھ نفع دو، بہترین سا جوڑا تحفہ میں دو ۔شلوار، قمیص، دوپٹہ اور اوپر چادر بھی ہو، ﴿سَرِّحُوۡہُنَّ﴾ اور عزت کے ساتھ انہیں رخصت کرو۔
پیغمبر پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی چند خصوصیات:
﴿یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَحۡلَلۡنَا لَکَ اَزۡوَاجَکَ الّٰتِیۡۤ اٰتَیۡتَ اُجُوۡرَہُنَّ وَ مَا مَلَکَتۡ یَمِیۡنُکَ مِمَّاۤ اَفَآءَ اللہُ عَلَیۡکَ وَ بَنٰتِ عَمِّکَ وَ بَنٰتِ عَمّٰتِکَ وَ بَنٰتِ خَالِکَ وَ بَنٰتِ خٰلٰتِکَ الّٰتِیۡ ہَاجَرۡنَ مَعَکَ ۫ وَ امۡرَاَۃً مُّؤۡمِنَۃً اِنۡ وَّہَبَتۡ نَفۡسَہَا لِلنَّبِیِّ اِنۡ اَرَادَ النَّبِیُّ اَنۡ یَّسۡتَنۡکِحَہَا ٭ خَالِصَۃً لَّکَ مِنۡ دُوۡنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴾
یہاں پر اللہ رب العزت نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کچھ اعزاز بیان فرمائے ہیں :
1: چار سے زائد بیویاں
﴿یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَحۡلَلۡنَا لَکَ اَزۡوَاجَکَ الّٰتِیۡۤ اٰتَیۡتَ اُجُوۡرَہُنَّ﴾
اے پیغمبر! ہم نے آپ کے لیے وہ بیویاں بھی حلال کیں جن کا آپ نے حق مہر اد ا کر دیا ہے۔ اس پر سوال یہ ہے کہ حق مہر پیغمبر ادا کریں تو بیوی حلال ہو جاتی ہے اور جب حق مہر امتی ادا کرے تو اس کے لیے بھی تو حلال ہو جاتی ہے، پھر یہ پیغمبر کی خصوصیت کیسے ہے؟
جواب یہ ہے کہ یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت اس طرح ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ کے نکاح میں چار سے زائد بیویاں تھیں، اس کا مطلب یہ تھا کہ چارسے زائد بیویاں جن کا آپ نے حق مہر ادا کر دیا ہے وہ آپ کے لیے حلال ہیں اور باقی امت کے لیے چار سے زائد حلال نہیں ہیں۔
2: مالِ فئی میں اعزاز
﴿وَ مَا مَلَکَتۡ یَمِیۡنُکَ مِمَّاۤ اَفَآءَ اللہُ عَلَیۡکَ﴾
جو مالِ فئی اللہ نے آپ کو دیاہے اس میں سے جو باندی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت میں آ چکی ہے وہ بھی آپ کے لیے حلال ہے۔
ایک ہوتا ہے مالِ غنیمت اور ایک ہوتا ہے مالِ فئی۔ کفر سے جنگ ہو اور مال ملے یہ مالِ غنیمت ہے، بغیر جنگ کے فتح ہو اور مال ملے تو یہ مال ِفئی ہے لیکن عام طور پر مالِ غنیمت اور مالِ فئی دونوں کو مال فئی کہا جاتا ہے، اس لیے یہاں پر دونوں شامل ہیں، حتی کہ اگر کوئی باندی آئے اور اس کو خرید اجائے تو وہ بھی اس میں شامل ہے۔ مقصود صرف باندی ہے۔ تو فرمایا: او ر جو آپ کی باندیاں ہیں وہ بھی آپ کے لیے حلال ہیں۔ اب اس پر بھی وہی سوال ہے کہ باندی تو امتی کے لیے بھی حلال ہے تو یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اعزاز اور خصوصیت کیسے ہے؟ اس کا جواب سمجھیں کہ اس معاملے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اعزار تین طرح سے ہے:
(۱): ایک اعزاز تو یہ ہے کہ جو باندی میدانِ جنگ میں آئے وہ تقسیم ہونے سے پہلے سپہ سالار یا امیر نہیں لے سکتا جبکہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حق حاصل تھا کہ مالِ غنیمت تقسیم ہونے سے پہلے آپ جو چاہیں لے لیں، آپ کسی باندی کا انتخاب کریں تو آپ کے لیے جائز ہے جس طرح حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو آپ نے اپنے لیے مخصوص فرما لیا تھا، یہ نبی کا اعزاز ہے۔
(۲): اسی طرح اگر کوئی غیر مسلم بادشاہ کسی مسلمان امیر المؤمنین کو ہدیہ بھیجے تو وہ امیر المؤمنین کا ذاتی مال نہیں ہوتا بلکہ وہ بیت المال میں جمع ہوتا ہے لیکن پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا اعزاز یہ تھا کہ اگر آپ کو غیر مسلم بادشاہ براہ راست کوئی ہدیہ بھیجے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حق حاصل تھا کہ خود لیں اور مال بیت المال میں جمع نہ کریں جس طرح مقوقس بادشاہ نے حضور کی خدمت میں حضر ت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا بھیجی ہیں اور آپ نے ان کو اپنے حرم میں رکھاہے تو یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اعزاز ہے۔
(۳): اور تیسرا آپ کا اعزاز اس طرح ہے کہ امتی کی باندی ہو اور امتی کی وفات ہو جائے یا وہ طلا ق دے دے تو اس کے بعد اس باندی سے نکاح کرنا جائز ہوتا ہے لیکن پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی باندی کا معاملہ اس طرح نہیں ہے، جس طرح پیغمبر کی وفات کے بعد ان کی بیوی سے امتی کا نکاح نہیں ہوتا اسی طرح پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پیغمبر کی باندی سے بھی کسی امتی کا نکاح نہیں ہوتا۔ تو یہ تین اعزاز ﴿وَ مَا مَلَکَتۡ یَمِیۡنُک﴾ میں شامل ہیں۔
3: خاندان کی عورتوں سے نکاح
﴿وَ بَنٰتِ عَمِّکَ وَ بَنٰتِ عَمّٰتِکَ وَ بَنٰتِ خَالِکَ وَ بَنٰتِ خٰلٰتِکَ الّٰتِیۡ ہَاجَرۡنَ مَعَکَ﴾
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے چچا کی بیٹیاں،پھوپی کی بیٹیاں، ماموں کی بیٹیاں اور خالہ کی بیٹیاں حلال کر دی گئیں لیکن ان کے لیے ایک شرط ہے﴿الّٰتِیۡ ہَاجَرۡنَ مَعَکَ﴾ کہ انہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہو۔ اب اس پر بھی سوال ہے کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اعزاز کیسے ہے؟ چچا، پھوپی، ماموں، خالہ کی بیٹیاں تو ہر مسلمان صحابی کے لیے حلال تھیں؟
یاد رکھنا! یہاں پر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا اعزاز یہ ہے کہ عام مسلمان کے لیے ان رشتہ داروں سے نکاح کرنا جائز تھا چاہے انہوں نے ہجرت کی ہو یا نہ کی ہو لیکن حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کی جو عورتیں تھیں ان کے ساتھ نکاح کرنا تب حلال تھا جب وہ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آئیں۔ حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا آپ کے چچا ابو طالب کی بیٹی خود فرماتی ہیں کہ میرا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کیوں نہیں ہو سکتا؟ اس لیےکہ میں نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت نہیں کی اور طُلَقَاء میں شامل ہوں، طُلَقَاء وہ لوگ ہیں کہ جب فتح مکہ ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نہ قتل کیا نہ غلام بنایا بلکہ ویسے چھوڑ دیا۔ تو یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اعزاز ہے۔
4: بغیر مہر کے نکاح
﴿وَ امۡرَاَۃً مُّؤۡمِنَۃً اِنۡ وَّہَبَتۡ نَفۡسَہَا لِلنَّبِیِّ اِنۡ اَرَادَ النَّبِیُّ اَنۡ یَّسۡتَنۡکِحَہَا﴾
ایمان والی عورت جو اپنے آپ کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہدیہ کرے بغیر حق مہر کے اور پیغمبر پاک اس سے نکاح کرنا چاہیں تو نکاح ہو سکتا ہے۔ اب یہ اعزاز تو بڑا واضح ہے کہ امتی کے نکاح میں حق مہر شرط ہے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اعزاز یہ ہے کہ بغیر حق مہر کے آپ کسی سے نکاح کرنا چاہیں تو آپ کو اجازت ہے۔ ہاں ﴿وَ امۡرَاَۃً مُّؤۡمِنَۃً﴾ یہ مؤمنہ کی قید اللہ کے نبی کے لیے ہے، کتابیہ عورت سے امتی کا نکاح ہو سکتا ہے لیکن کتابیہ عورت سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح جائز نہیں ہے۔ ﴿خَالِصَۃً لَّکَ مِنۡ دُوۡنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴾ یہ اعزازات اور خصوصیات خالص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہیں، دوسرے ایمان والوں کے لیے نہیں ہیں۔
﴿قَدۡ عَلِمۡنَا مَا فَرَضۡنَا عَلَیۡہِمۡ فِیۡۤ اَزۡوَاجِہِمۡ وَ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُمۡ﴾ ہم نے ایمان والوں کے لیے جو احکامات ان کی بیویوں اور کنیزوں کے بارے میں ان پر مقرر کیے ہیں وہ ہمارے علم میں ہیں، لیکن آپ کو عام مسلمانوں کے ان احکامات سے مستثنیٰ قرار دیا ہے کیوں؟ ﴿لِکَیۡلَا یَکُوۡنَ عَلَیۡکَ حَرَجٌ﴾ یہ سب اس لیے ہے تاکہ اس میں پیغمبر کے لیے حرج نہ ہو بلکہ پیغمبر کے لیے راحت ہی راحت ہو جائے۔
حضور علیہ السلام پر باری مقرر کرنا واجب نہیں:
﴿تُرۡجِیۡ مَنۡ تَشَآءُ مِنۡہُنَّ وَ تُــٔۡوِیۡۤ اِلَیۡکَ مَنۡ تَشَآءُ ؕ وَ مَنِ ابۡتَغَیۡتَ مِمَّنۡ عَزَلۡتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡکَ ؕ ذٰلِکَ اَدۡنٰۤی اَنۡ تَقَرَّ اَعۡیُنُہُنَّ وَ لَا یَحۡزَنَّ وَ یَرۡضَیۡنَ بِمَاۤ اٰتَیۡتَہُنَّ کُلُّہُنَّ ؕ وَ اللہُ یَعۡلَمُ مَا فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ ؕ وَ کَانَ اللہُ عَلِیۡمًا حَلِیۡمًا ﴿۵۱﴾﴾
یہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اعزاز ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر باری مقرر کرنے کی پابندی نہیں ہے، آپ جس بیوی کے پاس رات گزارنا چاہیں آپ کی مرضی، نہ گزارنا چاہیں آپ کی مرضی۔
لیکن رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کے نازل ہونے کے بعد اور اس اجازت کے ملنے کے باوجود بھی ازواج مطہرات میں ہمیشہ برابری قائم رکھی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود فرماتے ہیں:
اَللّٰہُمَّ ھٰذَا قَسْمِیْ فِیْمَا أَمْلِکُ فَلَا تَلُمْنِیْ فِیْمَا تَمْلِكُ وَلَا أَمْلِکُ.
سنن ابی داؤد، رقم: 2134
اے اللہ! جس چیز میں میرا اختیار ہے اس میں تو میں نے تمام بیویوں میں برابری سے کام لیا ہے، دل تیرے اختیار میں ہے، یہ میرے اختیار میں نہیں ہے، اللہ! اس پر میرا مواخذہ نہ فرمانا! دل کی محبت کسی سے کم ہو کسی سے زیادہ ہو تو اس پر مواخذہ نہ فرمانا!
ہاں امتی کے لیے باری مقرر کرنا واجب ہے۔ ایک بات یاد رکھنا! اگر ایک سے زائد نکاح ہوں تو مرد کے ذمہ باری مقرر کرنا تو ہے کہ ایک رات ایک کے پاس، دوسری رات دوسری کےپاس گزارے لیکن ہمبستری میں باری ضروری نہیں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مباشرت کا تعلق بندے کے قلبی میلان کے ساتھ ہوتا ہے اور دل کا میلان ہر ایک کی طرف نہیں ہوتا۔ اس لیے اس میں برابری نہیں ہوتی۔
اچھا اسی طرح باری مقرر کرنا حضر میں تو شرط ہے لیکن سفر میں شرط نہیں ہے۔ ہردفعہ شوہر ایک ہی بیوی کو سفر میں لے کر جائے اور دوسری کو نہ لے کر جائے تو اس کی بھی اجازت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سفر میں بنیادی چیز ہے راحت، اس راحت کی وجہ سے روزہ بھی معاف ہے کہ بعدمیں رکھ لو، نماز مکمل نہیں بلکہ قصر ہے، اس کی بنیادی وجہ راحت ہے تو جس بیوی سے آدمی کا مزاج نہیں ملتا، اگر اس کو سفر میں رکھے گا تو راحت کے بجائے مشقت ہو گی۔ تو شریعت نے سفر میں باری کی پابندی ہی ختم فرما دی۔
میں اس لیے کہتا ہو ں کہ لوگ یہ تو کہتے ہیں کہ عدل بہت مشکل ہے، عدل بہت مشکل ہے لیکن جو سہولتیں شریعت نے دی ہیں ان کی طرف کسی کی نظر نہیں جاتی، دیکھو! ہمبستری بھی شرط نہیں ہے، سفر میں باری بھی شرط نہیں ہے، باقی رہا کھانا پینا وہ تو آپ نے برابر دینا ہی ہے، رات گزارنے میں برابری تو آپ نے کرنی ہی ہے، اب بتاؤ اس میں عدل کرنا کون سا مشکل کام ہے؟
﴿وَ مَنِ ابۡتَغَیۡتَ مِمَّنۡ عَزَلۡتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡکَ﴾
آپ نے کسی بیوی کو الگ کیا ہوا ہو،اس سے اجتناب کا ارادہ کر لیا ہو اور پھر واپس بلانا چاہیں تو بلا سکتے ہیں، آپ پر کوئی گناہ نہیں ہے۔
ازواجِ مطہرات کی خوشی:
﴿ذٰلِکَ اَدۡنٰۤی اَنۡ تَقَرَّ اَعۡیُنُہُنَّ وَ لَا یَحۡزَنَّ وَ یَرۡضَیۡنَ بِمَاۤ اٰتَیۡتَہُنَّ کُلُّہُنَّ﴾
اللہ فرماتے ہیں کہ یہ ایسی چیز ہے کہ جس سے ازواجِ مطہرات کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی، وہ غمزدہ نہیں ہوں گی او رجو کچھ آپ دیں گے اس پر خوش ہو جائیں گی۔
اب یہاں ایک بات سمجھیں! آپ جس کو چاہیں باری دیں جس کوچاہیں باری نہ دیں اس سے اُن کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی۔ اس کی وجہ یہ ہے اللہ رب العزت نے اپنے نبی کو اختیار دیا ہے کہ آپ کسی بیوی کو رات دیں یا نہ دیں آپ کی مرضی، تو جب ان باری اُن کا حق ہی نہیں ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی ہے، چاہیں تو باری دیں چاہیں تو نہ دیں۔ دکھ تو تب ہوتا ہے جب استحقاق ہو اور نہ ملے جبکہ یہاں تو استحقاق والا معاملہ ہی نہیں۔ دونوں صورتوں میں ازواجِ مطہرات کی آنکھیں ٹھنڈی ہی ٹھنڈی ہیں۔
نکاح کے متعلق ایک اور حکم:
﴿لَا یَحِلُّ لَکَ النِّسَآءُ مِنۡۢ بَعۡدُ وَ لَاۤ اَنۡ تَبَدَّلَ بِہِنَّ مِنۡ اَزۡوَاجٍ وَّ لَوۡ اَعۡجَبَکَ حُسۡنُہُنَّ اِلَّا مَا مَلَکَتۡ یَمِیۡنُکَ ؕ وَ کَانَ اللہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ رَّقِیۡبًا ﴿۵۲﴾﴾
اس آیت کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواجِ مطہرات کو بلایا اور فرمایا کہ اگرتم دنیا چاہتی ہو تومیں تمہیں دنیا دے کر رخصت کر دیتا ہوں اور اگر دنیا چھوڑ کر میرے پاس رہنا چاہتی ہو تو میرے نکاح میں رہو! انہوں نے کہا کہ حضور! ہم آپ کے پاس رہنے کے لیے تیار ہیں۔ جب ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن نے یہ قربانی دی تو اللہ نے ان کو پھر اعزاز یہ بخشا کہ اپنے نبی سے فرمایا : ﴿لَا یَحِلُّ لَکَ النِّسَآءُ مِنۡۢ بَعۡدُ وَ لَاۤ اَنۡ تَبَدَّلَ بِہِنَّ مِنۡ اَزۡوَاجٍ﴾ اے پیغمبر! جو ابھی آپ کی نو بیویاں نکاح میں ہیں ان کے بعد دسویں سے آپ نکا ح نہیں کر سکتے کیونکہ انہوں نے قربانی دی ہے اور آپ یہ بھی نہیں کر سکتے کہ ان میں سے کسی کو طلاق دے دیں اور اس کی جگہ کسی اور سے نکاح کر لیں کہ نو کا عدد پورا ہو جائے، اور اسی طرح ازواج مطہرات کو بھی پابند کیا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تم بھی کسی سے نکاح نہیں کر سکتی، تو یہ دونوں کے لیے اعزاز ہے۔
اور بعض حضرات نے اس کا معنی یہ بیان کیا ہے کہ جو رشتے ہم نے آپ کو بتائے ہیں ان کے علاوہ کسی اور جگہ آپ نکاح نہیں کرسکتے۔ کیا مطلب کہ اگر آپ اپنی کسی رشتہ دار عورت سے نکاح کرنا چاہیں تو اس کے لیے مہاجرہ ہونا شرط ہے، اگر رشتہ دار عورتوں کے علاوہ کسی اور عورت سے نکاح کرنا چاہیں تو اس کے لیے مؤمنہ ہونا شرط ہے، رشتہ دار ہو اور غیر مہاجرہ ہو تو آپ نکاح نہیں کر سکتے، عام عورت ہو اور مؤمنہ نہ ہو تو آپ اس سے بھی نکاح نہیں کر سکتے، یہ پابندی تھی۔ اب اس کا مطلب یہ ہے کہ جو پہلے آپ کے لیے نکاح کامسئلہ بیان فرمایا گیا ہے یہ حکم اس کے لیے مزید توضیح اور تاکید ہے، یہ نہیں کہ کسی اور نکاح پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ تو بعضوں نے اس کو ترجیح دی ہے اور یہ بھی ٹھیک ہے۔
کھانے کی دعوت کے آداب:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَدۡخُلُوۡا بُیُوۡتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنۡ یُّؤۡذَنَ لَکُمۡ اِلٰی طَعَامٍ غَیۡرَ نٰظِرِیۡنَ اِنٰىہُ ۙ وَ لٰکِنۡ اِذَا دُعِیۡتُمۡ فَادۡخُلُوۡا فَاِذَا طَعِمۡتُمۡ فَانۡتَشِرُوۡا وَ لَا مُسۡتَاۡنِسِیۡنَ لِحَدِیۡثٍ﴾
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح ہوا۔ آپ نے ولیمہ کیا اور لوگوں کو بلایا تو بعض احباب کھانا تیار ہونے سے پہلے آ گئے۔ اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر تو چھوٹا سا تھا، بٹھانے کی جگہ نہیں تھی تو حضرت زینب دیوار کی طرف رخ کرکے بیٹھ گئیں۔ کھانا کھا لیا گیا لیکن بعض لوگ نہیں اٹھے اور وہیں پر باتیں کرنے کے لیے جم کر بیٹھ گئے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ناگوار گزرا تو آپ اٹھ کر باہر تشریف لے گئے۔ آپ جب واپس آئے تو دیکھا کہ لوگ پھر بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ اس سے آپ کو ناگواری ہوئی تو ان لوگوں کو احساس ہوا ور وہ اٹھ کر چلے گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر بعد گھر سے باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ یہ آیت ابھی نازل ہوئی ہے ﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَدۡخُلُوۡا بُیُوۡتَ النَّبِیِّ ﴾
ہمیشہ کے لیے یہ باتیں یاد رکھیں:
1: جن کو کھانے پر بلایا جائے کھانے پر صرف وہ آئیں۔
2: کھانے سے پہلے جا کر نہ بیٹھیں، اس سے میزبان کو مشغول ہونا پڑتا ہے۔
3: کھانا کھا کر چلے جایا کریں، وہاں بیٹھے نہ رہیں۔
ان تین آداب کا خیال رکھیں لیکن یہ اس وقت ہے کہ جب آپس میں بے تکلفی نہ ہو ، بیٹھنے کی اور جگہ نہ ہو اور عرف یہ ہو کہ کھانا کھانے کے بعد چلا جانا چاہیے لیکن جس طرح آج کل ہمارے ہاں شادی ہالوں میں ٹینٹ لگے ہوتے ہیں، شادی ہال بُک ہوتے ہیں، گیارہ بجے تک بکنگ ہوتی ہے اب آپ بیٹھے رہیں نہ ٹینٹ لگانے والوں کو ٹینشن ہے نہ آپ کو ٹینشن ہے۔ تو یہ معاملہ اس سے مستثنیٰ ہے۔ بس اس کا خیال کیا کریں۔
﴿اِنَّ ذٰلِکُمۡ کَانَ یُؤۡذِی النَّبِیَّ فَیَسۡتَحۡیٖ مِنۡکُمۡ﴾
اس سے حضور کو تکلیف ہوتی ہے لیکن اللہ کے نبی حیا محسوس فرماتے ہیں تمہیں زبان سے کہتے نہیں، ا س لیے تم خود خیال کیا کرو!
حضور علیہ السلام کو تکلیف دینا جائز نہیں:
﴿وَ مَا کَانَ لَکُمۡ اَنۡ تُؤۡذُوۡا رَسُوۡلَ اللہِ وَ لَاۤ اَنۡ تَنۡکِحُوۡۤا اَزۡوَاجَہٗ مِنۡۢ بَعۡدِہٖۤ اَبَدًا﴾
تمہارے لیے یہ بات جائز نہیں کہ تم اللہ کے رسول کو تکلیف دو اور نہ یہ جائز ہے کہ پیغمبر کے جانے کے بعد ان کی بیوی سے کبھی بھی نکاح کرو۔
میں نے آپ سے عرض کیا تھا کہ ﴿وَ اَزۡوَاجُہٗۤ اُمَّہٰتُہُمۡ﴾ سے ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں امت کی مائیں ہیں لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہے کہ ان سے نکاح کرنا حرام ہے۔ اس کی وجہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی اگر امت کی ماں ہے تو حضور امت کے باپ ہیں، اگر اس بنیاد پر نکاح حرام ہوتا تو امتیوں کا باپ ہونے کی بنیاد پر خود حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح حرام ہوتا امت کی لڑکیوں سے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح جائز ہے۔ تو بنیاد وہ نہیں ہے بلکہ بنیاد یہ آیت ہے کہ پیغمبر کی بیوی سے نکاح نہ کرو اور نکاح نہ کرنے کی علت یہ ہے؟ ﴿وَ مَا کَانَ لَکُمۡ اَنۡ تُؤۡذُوۡا رَسُوۡلَ اللہِ﴾ یہ طبعی اور فطری بات ہے کہ جو غیور آدمی ہے وہ اپنی منکوحہ کو خواہ طلاق دے دے کسی اور کو اس کا شوہر بننا اسے طبعاً ناگوار گزرتا ہے، تو عام بندے کی طبعی ناگواری کا خیال نہیں رکھا گیا لیکن پیغمبر پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طبعی تقاضے کا اللہ تعالیٰ نے خیال فرمایا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اعزاز دیا ہے، فرمایا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی سے کبھی نکاح نہ کرنا کہ اس سے نبی کو طبعاً ناگواری محسوس ہو گی۔
پردے کا حکم:
﴿یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلۡ لِّاَزۡوَاجِکَ وَ بَنٰتِکَ وَ نِسَآءِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ یُدۡنِیۡنَ عَلَیۡہِنَّ مِنۡ جَلَابِیۡبِہِنَّ ؕ ذٰلِکَ اَدۡنٰۤی اَنۡ یُّعۡرَفۡنَ فَلَا یُؤۡذَیۡنَ ؕ وَ کَانَ اللہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿۵۹﴾﴾
یہاں پردے کی بات فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا: اپنی بیویوں سے فرماؤ، اپنی بیٹیوں سے فرماؤ اور ایمان والی عورتوں سے فرماؤ! اس سے معلوم ہوا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی بھی ایک نہیں بلکہ ایک سے زائد ہیں کیونکہ ”اَزۡوَاجِکَ“ فرمایا اور آپ کی بیٹیاں بھی ایک نہیں بلکہ ایک سے زائد ہیں کیونکہ ”بَنٰتِکَ“ فرمایا۔ اب یہ جو بعض لوگ کہتے ہیں کہ ”بَنٰتِکَ“ سے مراد پیغمبر کی حقیقی بیٹیاں نہیں بلکہ پیغمبر کی کلمہ گو بیٹیاں یعنی امتی عورتیں ہیں، تو یہ بات ٹھیک نہیں ہے اس لیے کہ آگے ان کے لیے ﴿وَ نِسَآءِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴾ مستقل الفاظ موجود ہیں، اگر ﴿وَ نِسَآءِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴾ نہ ہوتا تو پھر تو ان لوگوں کو کچھ اعتراض کی گنجائش تھی، جب ﴿وَ نِسَآءِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴾ کا لفظ آ گیا تو اب اعتراض کی گنجائش موجود نہیں۔
آیتِ مباہلہ کا صحیح مفہوم:
یہاں لفظ ”نِسَاۗءِ“ ہے۔ مجھے اس پر ایک واقعہ یاد آیا۔ اس گزشتہ جمعرات کو جو ہمارے ہاں طلبہ آئے تھے تو ان میں سے ایک طالب علم نے مجھ سے ایک سوال کیا کہ قرآن کریم سورۃ آل عمران میں ہے:
﴿فَقُلۡ تَعَالَوۡا نَدۡعُ اَبۡنَآءَنَا وَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَکُمۡ وَ اَنۡفُسَنَا وَ اَنۡفُسَکُمۡ﴾
آل عمران 3: 61
کہ آپ ان سے کہہ دیں کہ ہم اپنے بیٹوں کو لائیں اور تم اپنے بیٹوں کو لاؤ! ہم اپنی بیویوں کو لائیں اور تم اپنی بیویوں کو لاؤ اور ہم خود آئیں اور تم خود بھی آؤ!
پھر اس میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بیوی ساتھ نہیں لائے کیونکہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا تو پہلے فوت ہو گئی تھیں، اس کا معنی یہ ہے کہ حضرت خدیجہ کے علاوہ کوئی آپ کی بیوی تھی ہی نہیں! پھر اس میں حضرت علی، حضرت حسن، حضرت حسین اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہم کو لائے، کسی اور بیٹی کو بھی نہیں لائے، اگر آپ کی کوئی اور بیٹی ہوتی تو اسے بھی لاتے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی کوئی اور بیٹی تھی ہی نہیں!
میں نے کہا کہ قرآن کریم کی آیت پڑھو ذرا! آیت ہے:﴿فَقُلۡ تَعَالَوۡا نَدۡعُ اَبۡنَآءَنَا وَ اَبۡنَآءَکُمۡ﴾ کہ ہم اپنے بیٹے لائیں اور تم اپنے بیٹے لاؤ! تو بتاؤ اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بیٹا لائے تھے؟ کہا جی نہیں! میں نے کہا: حضور نے بیٹے مانگے یا بیٹیاں؟ تقاضا بیٹوں کا تھا یا بیٹیوں کا؟ کہا: جی بیٹوں کا تھا۔ تو میں نے کہا کہ آپ تو کہتے ہیں کہ ”اگر آپ کی کوئی اور بیٹی ہوتی تو اسے بھی لاتے“ مباہلے میں تو بیٹیوں کا تقاضا ہی نہیں کیا تو لاتے کیوں؟
اہلِ رفض کا استدلال تو یہی ہے نا! وہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیٹی ہے، کیونکہ جب آیتِ مباہلہ نازل ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک بیٹی کو لائے تھے اور بیٹیاں ہوتیں تو ان کو بھی لاتے۔ میں نے کہا کہ اور بیٹیاں تب لاتے جب بیٹیوں کا تقاضا ہوتا، یہاں تو ”ابناء“ کا لفظ ہے کہ بیٹے لاؤ! بیٹیوں کا تو مطالبہ ہی نہیں ہے تو پھر کیوں لاتے؟ تو پھر ایک کیوں آئی؟ اس لیے کہ موقع پر ایک موجود تھی تو اسے لے آئے، کیونکہ تقاضا تو تھا ہی نہیں۔
﴿وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَکُمۡ﴾ اب یہ سوال کہ ”اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت خدیجہ کے علاوہ اور بیویاں ہوتیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم لاتے“ یہ سوال تب تھا جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مباہلہ کے لیے آئے ہوں، نہ مباہلہ کا چیلنج ان عیسائیوں نے قبول کیا نہ دونوں طرف سے خود کو، بیٹوں کواور بیویوں کو آنا پڑا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تھوڑا کہا تھا کہ میں بھی لے آیا ہوں تم بھی لے آؤ! بلکہ یہ کہا تھا کہ اگر تم مباہلہ کرتے ہو تو تم بھی لاؤ میں بھی لاؤں گا، وہ تو اتفاقاً اس موقع پر حضرت علی، حضرات حسنین کریمین اور حضرت زہرا رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھے تو انہی کے نورانی چہروں کو دیکھ کر وہ لوگ دوڑ گئے۔
﴿وَ اَنۡفُسَنَا وَ اَنۡفُسَکُمۡ﴾ میں نے کہا کہ یہاں ﴿وَاَنۡفُسَنَا﴾ ہے ”نَفْسَنَا“ تو نہیں ہے، پھر بتاؤ حضو ر کتنے نفوس لے کر گئے تھے؟ کہتا ہے: جی چار لے کر گئے تھے۔ تو میں نے کہا: پھر ﴿اَبۡنَآءَنَا﴾ میں کون ہے؟ ﴿نِسَآءَنَا﴾ میں کون ہے؟ پھر تو ﴿اَنۡفُسَنَا﴾ کہنا کافی تھا، باقی کی ضرورت کیا تھی؟!
سترِ ِعورت اور حجابِ نساء میں فرق:
یہاں حجاب کے متعلق سمجھیں! ایک ہوتاہے سترِ عورت اور ایک ہوتا ہے حجابِ نساء۔ ستر عورت الگ ہے اور حجاب نساء الگ ہے۔ ستر عور ت کامعنی ہوتا ہے اپنے جسم کے پوشیدہ حصوں کو چھپانا، یہ مرد کے لیے بھی ہے اور عورت کے لیے بھی ہے۔ ناف سے لے کر گھٹنے تک یہ مرد کا ستر ہے اس کو چھپانا ضروری ہے اور یہ جلوت میں بھی ہے اور خلوت میں بھی ہے، جس طرح لوگوں کے سامنے جائز نہیں ہے اسی طرح بغیر ضرورت آدمی تنہا ہو تب بھی کھولنا جائز نہیں ہے۔اسی طرح عورت کا ستر ہے۔ایک ہے عورت کا ستر عورتوں سے اور ایک ہے عورتوں کا پردہ نامحرموں سے، یہ دو چیزیں بالکل الگ الگ ہیں۔ اب کتنا حصہ عورت کو چھپانا ضروری ہے؟ تو عورت کا عورت سے وہی ستر ہے جو مرد کا مرد سے ہے اور اگر محرم ہو تو پھر عورت کا ستر الگ ہے، پھر فرق پڑ جاتا ہے۔میں یہ اس لیے سمجھا رہا ہو ں کہ ستر عورت الگ چیز ہے اور حجاب نساء الگ چیز ہے۔
اور عورت کا حجاب تین قسم کا ہے؛
(۱): ایک ہوتا ہے حجاب بالبیوت کہ عورت گھر میں رہے، پردہ کرے اور بالکل باہر نہ نکلے، ﴿وَ قَرۡنَ فِیۡ بُیُوۡتِکُنَّ﴾ یہ حکم ہے۔
(۲): اور ایک ہوتاہے عورت کا حجاب بالبرقعہ یعنی عورت ایک لمبی چادر لے جس سے اس کا پوراجسم چھپ جائے۔
(۳): اور ایک ہوتاہے عورت کا حجابِ شرعی کہ عورت کا پردہ کیا ہے؟!
یہ تو طے شدہ ہے کہ عورت کو پورے جسم کا پردہ کرنا چاہیے۔ چہرے اور ہتھیلیوں کو بھی امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ ستر کا حصہ مانتے ہیں، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ﴿اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنۡہَا﴾
النور24: 31
میں شامل کر کے فرماتے ہیں کہ فتنے کا اندیشہ نہ ہوتو چہرہ، ہتھیلیاں اور پاؤں کا اوپر والا حصہ کھول سکتی ہے، فتنے کا ا ندیشہ ہو تو پھر کھولنا جائز نہیں ہے، اور آج کےدور سے زیادہ فتنہ کس دور میں ہو گا؟اس لیے عورت کا پورا جسم ستر ہے۔ اللہ ہمیں یہ بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
مقتدا کی شرائط؛ عقل اور ہدایت
﴿وَ قَالُوۡا رَبَّنَاۤ اِنَّاۤ اَطَعۡنَا سَادَتَنَا وَ کُبَرَآءَنَا فَاَضَلُّوۡنَا السَّبِیۡلَا ﴿۶۷﴾﴾
کفار اور مشرکین یہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب! ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کی بات مانی اور انہوں نے ہمیں سیدھے راستے سے بھٹکا دیا۔
اس آیت کا تعلق کفار اور مشرکین کےسا تھ ہے اور غیر مقلدین اسے فِٹ کرتے ہیں اکابرین پر۔ یاد رکھنا! جہاں قرآن کریم نے آباء و اجداد کی بات ماننے سے منع کیاہے ساتھ ایک جملہ ہے:
﴿اَوَ لَوۡ کَانَ اٰبَآؤُہُمۡ لَا یَعۡقِلُوۡنَ شَیۡئًا وَّ لَا یَہۡتَدُوۡنَ ﴿۱۷۰﴾﴾
البقرۃ2: 170
کہ اگر آباء و اجداد میں عقل بھی نہ ہو اور وہ ہدایت پر بھی نہ ہوں تو پھر بھی ان کی بات مانو گے؟
اس سے معلوم ہوا کہ اگر عقل اور ہدایت موجود ہو تو پھر ان کی بات مان لینی چاہیے۔ یہ دو شرطیں ذہن میں رکھیں اور جن کی ہم بات مانتے ہیں ان میں عقل بھی ہے اور ان میں ہدایت بھی ہے۔
بنی اسرائیل کا الزام اور موسیٰ علیہ السلام کی براءت:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ اٰذَوۡا مُوۡسٰی فَبَرَّاَہُ اللہُ مِمَّا قَالُوۡا ؕ وَ کَانَ عِنۡدَ اللہِ وَجِیۡہًا ﴿ؕ۶۹﴾﴾
صحیح البخاری میں روایت موجود ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنی اسرائیل کی عادت یہ تھی کہ ان کے مرد سب کے سامنے ننگے ہو کر نہاتے تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نبی بھی ہیں، معصوم بھی ہیں، حیابھی ہے تو آپ اس طرح نہیں کرتے تھے۔ بنی اسرائیل نے ان پر تہمت لگائی کہ حضر ت موسیٰ علیہ السلام میں کوئی جنسی بیماری ہے۔ بعض نے کہا کہ ان کے خصیتین بہت بڑھے ہوئے ہیں، کسی نے کہا کہ ان کا جو عضو ہے اس میں کوئی بیماری ہے، یہ الزام لگاتے اور مذاق بھی اڑاتے تھے۔ ایک بار حضرت موسیٰ علیہ السلام نے نہانے کے لیے کپڑے اتار کر ایک پتھر پر رکھ دیے۔ معجزتاً وہ پتھر وہاں سے چل پڑا۔
موسیٰ علیہ السلام غسل کے بعد پتھر کے پیچھے پیچھے چلتے گئے اور یہ کہہ رہے تھے کہ ”ثَوْبِیْ حَجَر، ثَوْبِیْ حَجَر“ اے پتھر! میرے کپڑے دے دو، اے پتھر! میرے کپڑے دے دو! جہاں بنی اسرائیل کے لوگوں کا ایک بڑا مجمع تھا یہ پتھر وہاں آ کر رک گیا۔ تو اس وقت لوگوں نے موسیٰ علیہ السلام کے مبارک جسم کو دیکھا تو ان پر کوئی عیب موجود نہیں تھا۔ موسیٰ علیہ السلام جلالی نبی تھے۔ آپ نے کپڑے پہنے اور آپ کے ہاتھ میں جو لاٹھی تھی پتھر کو تین چار مار دیں تو پتھر پر نشان پڑ گئے جیسے بندے کو مارنے پر پڑتے ہیں۔تو موسیٰ علیہ السلام کا وہاں پر بے عیب ہونا واضح ہو گیا۔
فرمایا ”يٰٓاَيُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰی“ کہ اے ایمان والو! تم ان لوگوں کی طرح نہ بننا جنہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو تکلیف دی تھی، میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی بھی تکلیف نہ دینا۔
صحیح البخاری، رقم: 3404
قولِ سدید اور قولِ صواب میں فرق:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَ قُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِیۡدًا ﴿ۙ۷۰﴾ یُّصۡلِحۡ لَکُمۡ اَعۡمَالَکُمۡ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ ؕ وَ مَنۡ یُّطِعِ اللہَ وَ رَسُوۡلَہٗ فَقَدۡ فَازَ فَوۡزًا عَظِیۡمًا ﴿۷۱﴾﴾
ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور درست بات کرو۔ تقویٰ اور درست بات کی وجہ سے اللہ تمہارے اعمال کی اصلاح فرما دیں گے کہ اعمال میں جو کمی رہ جائے گی اللہ اپنے کرم سے معاف فرما دیں گے۔
ایک ہوتاہے قول سدید اور ایک ہوتاہے قول صواب، دونوں میں فرق ہے۔ قولِ سدید اس قول کو کہتے ہیں جس میں کذب نہ ہو اور قولِ صواب اس قول کو کہتے ہیں جس میں خطا نہ ہو۔اس لیے اجتہاد میں صواب اور خطا ایک دوسرے کے مقابلے میں آتے ہیں، صواب او ر کذب مقابلےمیں نہیں آتے۔
انسان؛ بارِ امانت کا حامل
﴿اِنَّا عَرَضۡنَا الۡاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ الۡجِبَالِ فَاَبَیۡنَ اَنۡ یَّحۡمِلۡنَہَا وَ اَشۡفَقۡنَ مِنۡہَا وَ حَمَلَہَا الۡاِنۡسَانُ ؕ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوۡمًا جَہُوۡلًا ﴿ۙ۷۲﴾﴾
”امانت“ سے مراد شریعت ہے۔ اللہ رب العزت نے امانت یعنی عقائد اور اعمال دونوں پیش فرمائے آسمانوں پر، زمین پر اور پہاڑوں پر اور ساتھ اختیار دیا کہ تم چاہو تو لے لو اور تم چاہو تو نہ لو۔ اگر لو گے اور ان پر عمل کرو گے تو ہم تمہیں ثواب دیں گے اور اگر تم ان کو لے لو لیکن پھر اپنا نہ سکو تو تمہیں عذاب ہو گا۔ ﴿فَاَبَیۡنَ اَنۡ یَّحۡمِلۡنَہَا﴾ تو آسمانوں، زمین اور پہاڑوں نے اس بار کواٹھانے سے انکار کر دیا، ﴿وَ اَشۡفَقۡنَ مِنۡہَا﴾ اور ڈر گئے، ﴿وَ حَمَلَہَا الۡاِنۡسَانُ﴾ اور نوع انسانی نے اس کو اٹھا لیا، فردِ بشر نے نہیں بلکہ نوعِ انسانی نے اس کو اٹھا لیا، ﴿اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوۡمًا جَہُوۡلًا﴾ اس میں دو کوتاہیاں بیان کی ہیں: ایک علمی اور ایک عملی۔ عملی کوتاہی یہ ہے کہ یہ ظلوم ہے اور علمی کوتاہی یہ ہے کہ یہ جہول ہے۔ دونوں کوتاہیاں ہیں۔ عمل میں کمی کرتاہے یعنی زیادتی کرتا ہے تو ظالم ہے اور علم کمزور ہے یعنی اعتقادات ٹھیک نہیں ہوتے تو جاہل ہے، اور یہ ہر ہر انسان کے بارے میں نہیں ہے بلکہ یہ اکثر نوع بشر کے حوالے سے ہے کہ عموماً ان میں سے اکثر ظالم اور جاہل ہی نکلے ہیں، سب نے اس امانت کو اٹھایا نہیں ہے۔
یہاں بات سمجھیں! اس آیت سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ آسمان اور زمین اور پہاڑ انہوں نے انکار کیا ہے۔ انکار کرنا عیب نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالی نے اختیار دیا تھا جس طرح حضرت لقمان کے بارے میں میں نے عرض کیا تھا کہ اللہ تعالی نے انہیں اختیار دیا تھا کہ نبوت چاہیے یا حکمت؟ عرض کیا کہ حکمت۔ نبوت کیوں نہیں؟ کہا: خود اللہ تعالی دیتے تو میں لے لیتا، اب مجھے اختیار دیا ہے، جب میرے اختیار سے ملے گی تو ہو سکتا ہے کہ میں نباہ نہ سکوں۔تو ان کو بھی اختیار دیا تھا اور انہوں نے انکار کردیا۔ جبکہ قرآن کریم کے چوبیسویں پارے میں ہے:
﴿فَقَالَ لَہَا وَ لِلۡاَرۡضِ ائۡتِیَا طَوۡعًا اَوۡ کَرۡہًا ؕ قَالَتَاۤ اَتَیۡنَا طَآئِعِیۡنَ﴾
حٰم السجدۃ11: 11
اللہ نے آسمان اور زمین سے فرمایا تھا کہ جبراً ہو یا خوشی سے تم نے ہماری بات ماننی ہے تو آسمان اور زمین نے کہا کہ ہم خوشی سے مانتے ہیں۔
توسورۃ حٰم السجدۃ سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمان اور زمین نے بات لی ہے اور یہاں سورۃ الاحزاب سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے بات نہیں لی۔ بظاہر دونوں میں تعارض ہے۔ جواب یہ ہے کہ تعارض نہیں ہے کیونکہ یہ جو سورۃ حٰم السجدۃ میں ہے اس سے امور تشریعی نہیں بلکہ امور تکوینی مرادہیں کہ جو تمہارے ذمہ کام ہے تم نے کرنا ہے۔ خوشی سے کرو یا مجبور ہو کر کرو، تم نے کرنے ہیں۔ تو ان دونوں نے کہا کہ ہم خوشی سے کریں گے، اور یہاں جو فرمایا کہ ہم نے امانت پیش کی اور انہوں نے انکار کر دیا تو یہ امور تکوینیہ نہیں بلکہ امور تشریعیہ ہیں، کہا کہ امور تشریعیہ ہمارے بس میں نہیں ہیں، ہم اس پر معذرت کرتے ہیں، ہم کمزورہیں، ہاں تکوینی امور ہم کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ اب ان میں کوئی تعارض نہیں ہے۔
ایمان اور کفر کا انجام:
﴿لِّیُعَذِّبَ اللہُ الۡمُنٰفِقِیۡنَ وَ الۡمُنٰفِقٰتِ وَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ وَ الۡمُشۡرِکٰتِ وَ یَتُوۡبَ اللہُ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ ؕ وَ کَانَ اللہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿٪۷۳﴾﴾
نوعِ انسانی نے جو امانت کا بار اٹھایا تھا تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ انسانوں کے دو گروہ بن جائیں گے، ایک اس امانت کا پاس رکھنے والے اور دوسرے اس امانت کو ضائع کرنے والے۔ امانت کا پاس رکھنے والے اور اس کے تقاضے پر عمل کرنے والے مومنین ہیں اور اس کو ضائع کرنے والے منافقین اور مشرکین ہیں۔ تو فرمایا کہ اس امانت کو ضائع کرنے والے منافق مردوں اور منافق عورتوں کو اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو اللہ عذاب دے گا اور مومن مردوں اور مومن عورتوں پر اللہ متوجہ ہو گا، ان کی توبہ کو قبول کرے گا۔اور اللہ تعالیٰ توبہ کو کیوں قبول کرتے ہیں؟ فرمایا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ غفور اور رحیم ہے، ”غفوراً“ صفت اول ہے اور ”رحیماً“ صفت ثانی ہے۔
عام طور پر قرآن کریم میں جب اللہ تعالیٰ دوصفتیں اس طرح جمع فرمائیں تو اس میں صفتِ اول دعویٰ ہوتی ہے اور صفت ثانی دلیل ہوتی ہے۔ تو” غفوراً “ دعویٰ ہے اور ”رحیماً“ اس کی دلیل ہے۔ یہ کیوں فرمایا؟ تاکہ کوئی بندہ یہ نہ سمجھے کہ چونکہ میں نے توبہ کی ہے تو اللہ کے ذمہ ہے میری توبہ کو قبول کرنا، فرمایا کہ جب تم توبہ کرتے ہو تو ہم قبول کر لیتے ہیں لیکن قبول کرنا ہمارے ذمے نہیں ہے بلکہ قبول اس لیے کرتے ہیں کہ ہم رحیم ہیں اور ہماری رحمت کا تقاضا ہے کہ تمہاری توبہ کو قبول کر لیں۔
اللہ سب کوبات سمجھنے کی توفیق عطافرمائے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․