سورۃ سبا

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ سبا
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿اَلۡحَمۡدُ لِلہِ الَّذِیۡ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ وَ لَہُ الۡحَمۡدُ فِی الۡاٰخِرَۃِ ؕ وَ ہُوَ الۡحَکِیۡمُ الۡخَبِیۡرُ ﴿۱﴾ یَعۡلَمُ مَا یَلِجُ فِی الۡاَرۡضِ وَ مَا یَخۡرُجُ مِنۡہَا وَ مَا یَنۡزِلُ مِنَ السَّمَآءِ وَ مَا یَعۡرُجُ فِیۡہَا ؕ وَ ہُوَ الرَّحِیۡمُ الۡغَفُوۡرُ ﴿۲﴾﴾
تسبیحِ داؤدی میں پرندوں اور پہاڑوں کی شرکت:
﴿وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضۡلًا ؕ یٰجِبَالُ اَوِّبِیۡ مَعَہٗ وَ الطَّیۡرَ ۚ وَ اَلَنَّا لَہُ الۡحَدِیۡدَ ﴿ۙ۱۰﴾﴾
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت داؤد علیہ السلام کو اپنی طرف سے خاص فضیلت عطا کی تھی۔ ان میں سے ایک یہ تھی کہ ہم نے پہاڑوں کو حکم دیا تھا کہ اے پہاڑو! تم ان کے ساتھ تسبیح کرو اور پرندوں کو بھی یہی حکم دیا تھا۔
”اَوِّبِیْ“
یہ
”اَوَّبَ، یُاَوِّبُ، تَاْوِیْبًا“
سے مشتق ہے، اس کا معنی ہے دہرانا، لوٹانا۔ حضرت داؤد علیہ السلام تسبیح پڑھتے تو ان کے ساتھ پہاڑ اور پرندے بھی تسبیح کرنے لگتے تھے اور اس کو دہراتے تھے۔ اس کا معنی یہ نہیں کہ حضرت داؤد علیہ السلام جب تسبیح پڑھتے تو پہاڑوں میں گونج کی آواز پیدا ہوتی کیونکہ تاویب کا معنی گونج نہیں بلکہ مستقل دوسری آواز ہے۔ اسی طرح یہ جو پہاڑتسبیح پڑھتے تھے یہ ایسی تسبیح تھی جس کے پڑھنے کو لوگ سنتے اور محسوس بھی کرتے تھے۔ اگر مطلق تسبیح پڑھنا مقصود ہو تو پھر یہ حضرت داؤد علیہ السلام کا اعزاز نہیں ہے کیونکہ تسبیح تو ساری چیزیں پڑھتی ہیں۔ قرآن کریم میں ہے:
﴿وَ اِنۡ مِّنۡ شَیۡءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمۡدِہٖ وَ لٰکِنۡ لَّا تَفۡقَہُوۡنَ تَسۡبِیۡحَہُمۡ﴾
الاسراء 17: 44
کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو اللہ کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو لیکن تم اس کی تسبیح کو سمجھتے نہیں۔
تو سارے پہاڑ اور پرندے تسبیح تو کرتے ہیں لیکن لوگ اس تسبیح کو سمجھتے نہیں ہیں کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں اور حضرت داؤد علیہ السلام کے ساتھ جو تسبیح کرتے تھے اس سے مراد ایسی تسبیح ہے کہ جس کو لوگ سنتے او ر سمجھتے تھے کہ یہ کیا کہتے ہیں۔
اپنے بارے میں لوگوں کی آراء معلوم کرنا:
﴿وَ اَلَنَّا لَہُ الۡحَدِیۡدَ ﴿ۙ۱۰﴾﴾
حضرت داؤد علیہ السلام اپنے بارے میں لوگوں کی آراء معلوم کرتے تھے کہ لوگ مجھے کیسا سمجھتے ہیں؟ اس کا معنی یہ نہیں کہ لوگ میری تعریف کرتے ہیں بلکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ اگر میرے اندر کوئی ایسی بات ہے جو پسند نہیں ہے تو میں اسے بدلوں گا۔ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی طریقہ تھا۔ آپ اپنے بارے میں معلومات لیتے تھے کہ لوگ میرے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ تو حضرت داؤد علیہ السلام بسا اوقات بازار میں جاتے باہرسے جو لوگ شہر میں آتے جو ان کو شکل سے نہیں جانتے تھے تو حضرت داؤد علیہ السلام ان سے پوچھتے داؤد کیسا آدمی ہے؟ تو ہر بندہ ان کی تعریف کرتا۔
اللہ رب العزت نے ان کی تربیت کے لیے ایک فرشتہ بھیجا۔ اس سے پوچھاکہ داؤد کیسا آدمی ہے؟ فرشتے نے کہاکہ اپنی ذات کے لیے اور لوگوں کے لیے تو بہت اچھا ہے بس اس میں ایک تھوڑی سی کمی ہے کہ بیت المال سے وظیفہ لیتا ہے، اگر بیت المال سے نہ لے اور اپنا کما کر کھائے تو بہت اچھا آدمی ہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام آئے، اللہ کے سامنے روئے اور گڑگڑائے اور کہا کہ اے اللہ! بات تو ٹھیک ہے، مجھےایسے اسباب عطا فرما دیں کہ میں اپنا کماؤ ں اور اپنا کھاؤں اور دین کا کام کرو ں، پہلے بیت المال سے وظیفہ لیتے تھے پھر جب داؤد علیہ السلام نے دعامانگی تو اللہ تعالیٰ نے بطورِ معجزہ لوہے کو آپ کے ہاتھ پر نرم کر دیا جس طرح آدمی رسی کو موڑے تو آسانی سے مڑ جاتی ہے تو حضرت داؤد علیہ السلام بھی لوہا اپنے ہاتھ سے جدھر موڑتے وہ مڑ جاتا تھا، اس سے دا ؤد علیہ السلام محنت کرتے کمائی کرتے اور باقی وقت تبلیغ میں لگا دیتے۔
اس لیے علماء کو چاہیے کہ وہ دین کا کام کریں اور کوشش کریں کہ معاش ان کا اپنا ہو لیکن اپنا معاش ایسا نہ ہو کہ جس سے دین کا کام ختم ہوجائے۔ دونوں میں فرق سمجھیں۔ بعض لوگ تعلیم سے فراغت کے بعد اپنا مال کماتے ہیں کہ ہم لوگوں کا نہیں کھائیں گے، اپنا کما کر کھائیں گے اور دین کا کام کریں گے لیکن تجارت میں اتنا منہمک ہو جاتے ہیں کہ دین کا کام نہیں کرتے تو اس سے بہتر ہے کہ تنخوا ہ لے کر دین کا کام کرتے رہیں۔
باقی جو ہم علماء دین کا کام کرتے ہیں اور اس پر تنخواہ لیتے ہیں تو یہ جائز ہے لیکن جائز اس نیت سے ہے کہ آدمی اس نیت سے تنخواہ لے کہ اللہ تو مجھے اسباب عطا فرما تو میں تنخواہ لینا چھوڑ دوں گا اور بغیر تنخواہ کے دین کا کام کروں گااور جب اسباب ملیں تو پھر تنخوا ہ چھوڑ دیں۔ یہ ہے عبادت! یہ نہیں کہ جب تک پیسے نہیں تھے تنخواہ کے لیے کام کرتے رہے اور جب اللہ نے اسباب دے دیے تو پڑھانا چھوڑ دیا کہ مجھے اب ضرورت ہی نہیں ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ آپ پیسوں کے لیے ہی پڑھاتے تھے۔ یہ گناہ ہے، یہ جائز نہیں ہے۔
حضرت داؤد علیہ السلام کی کاریگری:
﴿اَنِ اعۡمَلۡ سٰبِغٰتٍ وَّ قَدِّرۡ فِی السَّرۡدِ وَ اعۡمَلُوۡا صَالِحًا ؕ اِنِّیۡ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ ﴿۱۱﴾﴾
فرمایا کہ آپ اس سے زرہیں بنائیں -سر پر پہننے والی لوہے کی ٹوپی بنا ئیں جس سے تلوار سے بچا جاتا ہے، جسے خَود بھی کہتے ہیں- اور اس کی کڑیاں ٹھیک توازن اور تناسب سے جوڑیں۔
﴿وَّ قَدِّرۡ فِی السَّرۡدِ﴾․․․ ”سَرْد“
کا معنی ہوتا ہے بُنْنا اور
”قَدِّرْ “
یہ تقدیر سے مشتق ہے جس کا ایک معنی ہے کہ زرہ کی کڑیاں بنانے میں روزانہ کا ایک وقت متعین کریں کہ میں نے اتنے وقت میں بنانی ہیں، سارا وقت اس پر صَرف نہ کریں تاکہ عبادت اور دیگر امور میں خلل نہ آئے۔ تو اس سےنظم ثابت ہوتا ہے کہ کام کرنے والے عالم کو نظم وضبط کا خیا ل رکھنا چاہیے۔ کچھ وقت معاش کے لیے اور باقی وقت دین کے لیے․․․ اور
”قَدِّرْ“
کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ آپ کڑیاں خاص انداز اور تناسب سے بنائیں تا کہ ٹیڑھی میڑھی نہ ہوں سیدھی ہوں، چھوٹی بڑی نہ ہوں بلکہ ساری برابر ہوں۔ تو اس سے آرائش ثابت ہوتی ہے کہ جب آپ کوئی مکان بنائیں تو خوبصوتی کا خیال رکھیں، آپ کپڑا بنائیں تو اچھا ہو، جوتا ہو تو اچھا ہو، چیز بنائیں تو درست ہو۔
اس سےمعلوم ہوا کہ ایسی خوب صورتی شریعت میں مطلوب ہے۔ آپ مکان بناتے ہیں تو اس میں کوئی ایسی چیز بنا لیں کہ خوب صور ت لگے، رنگ آپ نے لگانا ہے تو ایسا لگائیں جو آپ کے علاقے سے میچ کرتا ہو تو اس میں حرج کی کوئی بات نہیں ہے۔ ہمارے علاقے میں پہاڑیاں نہیں ہیں، یہاں پر سبزہ کم ہوتاہے اس لیے یہاں گہرے رنگ نہیں چلتے بلکہ ہلکے چلتے ہیں۔ جب آپ کشمیر، مری اور ان علاقوں میں جائیں جہاں سبزہ بہت ہے تو وہاں ڈارک کلر چلتے ہیں، کلر میں اٹھان نہ ہو تو کلر خوب صورت نہیں لگتا، درخت گھنے ہوتے ہیں، سفیدی سیاہی کی طرح ہوتی ہے، اب سرخی خوب نہ نکلے تو مکان کھل کر سامنے نہیں آتا۔اس لیے وہاں گہرے کلر چلتے ہیں۔
﴿وَ اعۡمَلُوۡا صَالِحًا ؕ اِنِّیۡ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ﴾
آپ نیک کام کرتے رہیں، میں آپ کے کاموں کو دیکھتا ہوں۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کے اعزازات:
﴿وَ لِسُلَیۡمٰنَ الرِّیۡحَ غُدُوُّہَا شَہۡرٌ وَّ رَوَاحُہَا شَہۡرٌ ۚ وَ اَسَلۡنَا لَہٗ عَیۡنَ الۡقِطۡرِ ؕ وَ مِنَ الۡجِنِّ مَنۡ یَّعۡمَلُ بَیۡنَ یَدَیۡہِ بِاِذۡنِ رَبِّہٖ ؕ وَ مَنۡ یَّزِغۡ مِنۡہُمۡ عَنۡ اَمۡرِنَا نُذِقۡہُ مِنۡ عَذَابِ السَّعِیۡرِ ﴿۱۲﴾﴾
حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس گھوڑے بہت تھے۔ ایک دن سلیمان علیہ السلام گھوڑوں کی دیکھ بھال کر رہے تھے،آپ دیکھ بھال میں اتنے منہمک ہوئے کہ آپ کی عصر کی نماز قضا ہو گئی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کو بہت دکھ ہوا تو آپ نے سارے گھوڑے ذبح کر کے صدقہ فرما دیے۔ سلیمان علیہ السلام پر کوئی اعتراض نہیں ہے کیونکہ ان کی شریعت میں جیسے بھینس اور بکر ی کو کھانا جائز تھا ایسے ہی گھوڑے کا کھانا بھی جائز تھا تو جائز کام کیا۔ پھر ان کا اپنا مال تھا کسی اور کا نہیں تھا۔ اس لیے ذبح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اللہ رب العزت نے سلیمان علیہ السلام کی اس قربانی کو دیکھ کر گھوڑے کے بدلےمیں ہوا ان کے لیے مسخر فرما دی۔ پہلے سفر گھوڑوں پر ہوتا تھا، اب اللہ تعالی نے گھوڑوں کے بدلے میں ہوا دے دی اور ہوا ایسی تیز رفتار ہوتی تھی کہ ایک گھوڑا ایک مہینا مسلسل چلتا رہے تو جتنا سفر وہ ایک مہینے میں طے کرتا تھا اتنا سفر ہوا تخت کو لے کر صبح کے وقت طے کر لیتی تھی۔ اس لیے سلیمان علیہ السلام ایک دن میں اتنا لمبا سفر طے کرتے جتنا تیز رفتار گھوڑا مسلسل دو ماہ چلنے سے طے کرتا تھا۔اب سلیمان علیہ السلام تخت سجا دیتے، گھر والے بھی اس پر ہیں، وزرائے سلطنت بھی اس پر ہیں، اپنی جماعت کے علماء بھی ساتھ ہیں اور صبح سلیمان علیہ السلام ملک شام میں ہوتے اور دوپہر کو اصطخر -جگہ کا نام ہے- وہاں پہنچ جاتے، ادھر قیلولہ کیا کھانا کھایا اور وہاں سے تخت اڑا تو رات کابل میں گزارتے تھے۔
شاہانہ زندگی تقویٰ ےکے خلاف نہیں!
اللہ نے کیسی شاہانہ زندگی عطا کی تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی عالم کی شاہانہ زندگی شریعت کے خلاف نہیں ہے۔ میں اس لیے اکثر یہ بات کہا کرتا ہوں کہ یہ جو ہمارے ہاں بات چلتی ہےکہ ہمارے شیخ صاحب بہت نیک آدمی ہیں کیونکہ پچیس سال سے صحیح بخاری پڑھانے کے لیے سائیکل پر آ رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ کہو کہ ہمارے شیخ صاحب بہت غریب آدمی ہیں پچیس سال سے سائیکل پر صحیح بخاری پڑھانے کے لیے آ رہے ہیں۔ اگر سائیکل پر آنا تقویٰ کی علامت ہوتی تو صبح جو مزدور منڈی جاتے ہیں وہ بہت متقی ہیں، کیونکہ سب سائیکل پر جاتے ہیں۔ تو سواری کا نہ ہونا یہ تقویٰ کی علامت نہیں ہے بلکہ یہ غربت کی نشانی ہے۔ اس لیے یہ جو حضرات تقویٰ کا یہ معنی بیان کرتے ہیں یہ میری سمجھ سے باہر ہے۔
اس لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں آپ کو یہ تو ملے گا کہ آپ کے گھر میں دو ما ہ تک چولہا نہیں جلا لیکن آپ کو یہ نہیں ملے گا کہ آپ کی سواری کسی اور صحابی سےکم تر ہو! اللہ کےنبی کی سواری مدینہ میں سب سے اچھی سواری ہوا کرتی تھی۔ مدینہ میں تھوڑا سا خطرہ ہوتا تو آپ گھوڑے کی پشت پر بیٹھتے اور پورے مدینے کا چکر ہوا کی طرح لگا لیتے، اچھی سواری کا ہونا یہ ہمارے پیغمبر پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، اور براق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ سواری ہے کہ جس سے تیز رفتار سواری دنیا میں نہ آج تک پیدا ہوئی ہےاور نہ ہی قیامت کی صبح تک پیدا ہو گی۔ تو تیز رفتار سواری کا ہونا تو سنت ہے۔ تو جو علماء میں خوبیاں ہوتی ہیں ہم وہی چیزیں علماء میں عیب سمجھتے ہیں۔ اس لیے کسی عالم کے پاس اچھی گاڑی دیکھو تو اس کے لیے مزید دعا کرو کہ اللہ اس کو اور اچھی گاڑی دے، عالم کے لیے اچھی گاڑی کا ہونا، اچھی سواری کا ہونا، اچھی بود وباش کا ہونا یہ سنت کے خلاف نہیں ہے۔
سفید لباس کا اہتمام:
میں آپ کو مجبور نہیں کرتا کہ آپ پگڑی باندھیں لیکن میں بہت خوش ہوتا ہوں جب آپ کی پگڑی دیکھتا ہوں اور جب آپ کا سفید کپڑا دیکھتاہوں۔ آپ طلبہ ہیں سفید کپڑا رکھنا بہت مشکل ہے، سفید کپڑا ہو پھر اسے کلف لگائیں پھر اس کو سنبھالیں یہ بہت مشکل ہے، اس لیے آپ کی مجبوری ہے لیکن پسند سفید کپڑے کریں اور جب اللہ توفیق دیں تو سفید لباس اختیا ر کریں۔اچھی پگڑی پہننا یہ عالم کی شان کے لائق ہے۔ اس کا بہت خیال کیا کریں۔
تانبے کا چشمہ:
﴿وَ اَسَلۡنَا لَہٗ عَیۡنَ الۡقِطۡرِ ؕ﴾
اور ہم نے سلیمان علیہ السلام کے لیے تانبے کا چشمہ نکال دیا تھا۔
حضرت داؤد علیہ السلام کے لیے لوہا نرم کر دیا اور ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے تانبے کا چشمہ نکال دیا اور یہ چشمہ بہتا تھا اور ٹھنڈا ہوتا تھا تاکہ اس سے برتن اور دیگر ضرورت کی اشیاء بنانے میں دقت پیش نہ آئے اور یہ چشمہ میلوں لمبا تھا۔
﴿وَ مِنَ الۡجِنِّ مَنۡ یَّعۡمَلُ بَیۡنَ یَدَیۡہِ بِاِذۡنِ رَبِّہٖ ؕ﴾
اور بعض جنات ایسے تھے رب تعالیٰ کے حکم سے حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے کام کرتے تھے۔ مثلاًسفر پر جاتے تو ہد ہد کے ذمہ تھا کہ پانی دیکھے۔ اللہ نے ہد ہد کو یہ صلاحیت دی تھی کہ وہ زمین پر کھڑا ہوتا تو اس کو پتا چل جاتا کہ پانی کتنا نیچے ہے۔ اس پانی کو جنات فوراً نکال لیتے اور تالاب بناتے اور یہ لشکر وہیں رات گزارتا تھا۔ اب بتاؤ! اتنی تیز رفتار دنیا میں کس کی سروس ہو گی جو اللہ تعالی نے سلیمان علیہ السلام کو عطا فرمائی تھی۔
تسخیر جن کا مسئلہ:
تسخیرِ جن کا مسئلہ ذہن میں رکھیں۔ جنات کو مسخر کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اس پر علامہ بدرالدین ابو عبد اللہ محمدبن عبد اللہ شبلی دمشقی حنفی رحمۃ اللہ علیہ کی ایک مستقل کتاب ”آکام المرجان فی احکام الجان“ ہے، اس میں بڑی تفصیل سے یہ مسئلہ لکھا ہے۔اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر جنات انسان کے کسی عمل دخل کے بغیر مسخر ہو جائیں تو یہ اللہ کا فضل ہے اور ان سے کام لینا جائز ہے جیسے جنات من جانب اللہ سلیمان علیہ السلام کے تابع تھے تو یہ ان کا معجزہ ہے۔ اسی طرح بعض صحابہ کرام مثلاً حضرت ابوہریرہ، حضرت زید، حضرت ابی ابن کعب، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہم اجمعین کے بارے میں بھی منقول ہے کہ جنات ان کے تابع تھے اور وہ ان سے کام لیتے تھے۔ جنات کا صحابہ کرام کے تابع ہونا بطور کرامت تھا۔
جنات کو تابع کرنے کے لیے اگر کفریہ کلمات یا کفریہ افعال کیے جائیں تو یہ عمل کفر ہے اور اس طرح تابع کرنا بھی ناجائز اور حرام ہے کیونکہ نافرمان یعنی کافر جنوں کو تابع کرنے اور ان سے کام لینے کا مطلب یہ ہے کہ ایسے کفریہ کلمات کہے جائیں کہ جن سے شیاطین جنات خوش ہوجائیں اور خوش ہوکر اس بندے کا کام کریں تو یہ حرام نا جائز ہے۔ جیسے کسی جن کو تابع کرنے کے لیے معاذ اللہ قرآن جلانا یا العیاذ باللہ قرآن پر کھڑے ہو کر غسل کرنا یہ جائز نہیں ہے، حرام ہے۔ اسی طرح کسی فاسق جن کو تابع کرنےکے لیے گناہ کا ارتکاب کرنا یہ بھی جائز نہیں ہے، لیکن اگر کوئی شخص جنات کو تابع کرتا ہے، کلمات کفریہ کا ارتکاب بھی نہیں کرتا اسی طرح اعمال فسق کو بھی اختیار نہیں کرتا بلکہ شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے قرآنی آیات، اللہ تعالیٰ کے مبارک ناموں یا ایسے کلمات کے ذریعے تابع کرتا ہو جن کا معنی صحیح ہے تو اس طرح جنات کوتابع کرنا جائز ہے لیکن جنات کو تابع کرنا دفعِ مضرت کے لیے ہو جلبِ منفعت کے لیے نہ ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے آزاد کو غلام بنانا لازم آتا ہے۔ آپ نے اعمال کی وجہ سے جو جن تابع کیا ہے تو اسے غلام بنایا ہے اس سے کام لینے کےلیے، یہ تو جائز ہی نہیں ہے۔ ہاں کسی نقصان سے بچنے کے لیے آپ اس کو تابع رکھیں تو یہ جائز ہے۔
تو سلیمان علیہ السلام جنات سے کام لیتے تھے۔
سرکش جنات کی سزا:
﴿وَ مَنۡ یَّزِغۡ مِنۡہُمۡ عَنۡ اَمۡرِنَا نُذِقۡہُ مِنۡ عَذَابِ السَّعِیۡرِ ﴿۱۲﴾﴾
اللہ فرماتے ہیں کہ جس جن نے ہماری بات نہ مانی اور ہمارے حکم سے ہٹ کر ٹیڑھا راستہ اختیار کیا تو ہم اس کو آگ کا سخت عذاب دیں گے۔
آخرت کا عذاب تو ہو گا ہی لیکن ایک روایت میں ہے کہ دنیا میں بھی ان جنات پر ایک فرشتہ متعین تھا جس کے پاس آگ کا کوڑا ہوتا تھا، جو جن سلیمان علیہ السلام کی اطاعت میں کوتاہی کرتا تو وہ فرشتہ اس کو آگ کے اس کوڑے سے مارتا تھا۔
اب اس پر اگر کسی کے ذہن میں سوا ل ہے کہ جنات تو خود آگ سے بنے تھے تو انہیں آگ کا کوڑا مارنے سے تکلیف کیسے ہو گی؟ اس کا جواب بہت آسان ہے کہ جیسے انسان مٹی سے بنا ہے لیکن مٹی کا ڈھیلا اسے مارو تو درد ہوتا ہے اسی طرح جن اگرچہ آگ سےبنے ہیں لیکن آگ کا کوڑا لگے تو انہیں بھی تکلیف ہوتی ہے۔
جنات کی ڈیوٹیاں:
﴿یَعۡمَلُوۡنَ لَہٗ مَا یَشَآءُ مِنۡ مَّحَارِیۡبَ وَ تَمَاثِیۡلَ وَ جِفَانٍ کَالۡجَوَابِ وَ قُدُوۡرٍ رّٰسِیٰتٍ ؕ اِعۡمَلُوۡۤا اٰلَ دَاوٗدَ شُکۡرًا ؕ وَ قَلِیۡلٌ مِّنۡ عِبَادِیَ الشَّکُوۡرُ ﴿۱۳﴾﴾
جنات سلیمان علیہ السلام کے لیے وہ چیزیں بناتے جو سلیمان علیہ السلام چاہتے تھے جیسے اونچی اونچی عمارتیں، تصویریں، حوض کی طرح کے پانی بھرنے کے بڑے بڑے برتن اور ایسی بڑی بڑی دیگیں جو ایک ہی جگہ پڑی رہتی تھیں۔ اے داؤد کے خاندان والو! شکر بجا لاؤ، میرے بندوں میں سے بہت کم ہیں جو شکر ادا کرتے ہیں۔
محراب کسے کہتے ہیں؟
مَحَارِیب؛ محراب کی جمع ہے، محراب کسی مکان کے اعلیٰ اور عمدہ حصے کو کہتے ہیں، محراب اس مخصوص کمرے کو بھی کہتے ہیں جو بادشاہ اور بڑے لوگ خاص اپنے لیے بناتے ہیں جس میں حکومتی امور سرانجام دیتے ہیں۔ محراب یہ حَرب سے مشتق ہے جس کا معنی جنگ ہے، بادشاہ لوگ جب اپنا خاص کمرہ بناتے ہیں تو اس تک عام بندے کی رسائی نہیں ہوتی اور جب کوئی شخص اس کمرہ خاص تک پہنچنے کی کوشش کرے تو اس سے جنگ بھی کرتے ہیں اس لیے اس کمرے کو محراب کہتے ہیں، اور محراب مسجد کے اگلے حصے کو بھی کہتے ہیں جس میں امام کھڑا ہوتا ہے۔ تومحراب کا معنی عام کمرہ بھی ہے اور محراب کا معنی اچھی عمارت بھی ہے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں تصویر سازی:
﴿وَ تَمَاثِیۡلَ﴾
تماثیل؛ تَمثال کی یا تِمثال کی جمع ہے، اس کا معنی ہے تصویریں۔
ایک تصویر ہوتی ہے ذی روح کی اور ایک تصویر ہوتی ہے جو ذی روح کی نہ ہو اور جو ذی روح کی نہ ہو تو اس کی دو قسمیں ہیں: ایک اس چیز کی تصویر جو جامد ہو جیسے پتھر ہے اور ایک اس چیز کی تصویر جو بڑھے جیسے درخت ہے۔ یہ تین قسم کی تصاویر ہیں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی شریعت میں ذی روح کی اور غیر ذی روح کی دونوں قسموں کی تصاویر جائز تھیں اور وہ بنواتے بھی تھے۔ اس پر تو کوئی کلام نہیں ہے۔
موجود دور میں تصویر کا حکم:
ہمارے دور میں جو غیر ذی روح کی تصویر ہے جیسے درخت، پتھر اور مکانات وغیرہ اس کے جواز میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے۔ ہاں البتہ جاندار کی تصویر ہو تو احادیث میں اس پر بہت زیاد ہ وعیدیں آئی ہیں۔ایک حدیث پاک میں ہے:
"أَشَدُّ النَّاسِ عَذَابًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ الْمُصَوِّرُوْنَ․"
صحیح البخاری، رقم: 5954
کہ سخت ترین عذاب قیامت کے دن ان کو ہو گا جو تصویریں بناتے ہیں۔
اور ایک حدیث پاک میں ہے:
"کُلُّ مُصَوِّرٍ فِی النَّارِ."
صحیح مسلم، رقم: 2110
کہ یہ تصویریں بنانے والے سارے جہنم میں ہوں گے۔
تو مختلف قسم کی وعیدیں احادیث میں آئی ہیں۔
اب آج کے دور میں تصویر جائز ہے یا نہیں؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ تصویر جائز ہے کیونکہ پہلے لوگ تصاویر بناتے پھر ان کا احترام کرتے، عظمت دل میں آتی اور ان کی پوجا شروع ہو جاتی تھی اس وجہ سے حرام تھی اور آج کے دور میں چونکہ یہ وجہ نہیں ہے لہذا تصویر جائز ہے۔
تصویر کے جواز اور عدم جواز کا مسئلہ الگ ہے لیکن یہ دلیل ٹھیک نہیں ہے۔
حرمتِ تصویر کی وجوہات:
تصاویر کے حرام ہونے کی چار وجوہات ہیں :
1: ایک وجہ بت پرستی ہے کہ لوگ تصویر، مورتی بنا کر اس کی پوجا کرتے تھے اس لیے حرام ہے۔
2: دوسری وجہ کہ تصویر ایسی چیز ہے جو زینت ہے لیکن زینت زائد از ضرورت ہے۔ بعض لوگ اپنے گھر میں جانداروں کی تصاویر لٹکاتے ہیں اس لیے یہ جائز نہیں ہے۔
3: تصویر پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نفرت کا اظہا ر فرمایا ہے۔ فرمایا:
”لَاتَدْخُلُ الْمَلَائِکَۃُ بَیْتًا فِیْہِ کَلْبٌ وَلَا تَصَاوِیْرُ“
صحیح البخاری، رقم: 5949
ایسے گھر میں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے جہاں کتا ہو یا تصویر ہو۔ تو تصویر کو کتے کے ساتھ شمار کیا ہے، جس طرح کتا قابل نفرت ہے اسی طرح تصویر بھی قابل نفرت ہے۔ اب کتے کی قباحت کی کیا وجہ ہے؟ جس طرح اس کی وجہ نہیں بتائی اسی طرح تصویر کے قابلِ نفرت ہونے کی وجہ بھی نہیں بتائی۔
4:
”مصور“
اللہ رب العزت کی خاص صفت ہے،
﴿ہُوَ الَّذِیۡ یُصَوِّرُکُمۡ فِی الۡاَرۡحَامِ کَیۡفَ یَشَآءُ ؕ﴾
آل عمران 3: 6
وہی اللہ ہے جو ماؤں کے پیٹ میں تمہاری تصویریں بناتا ہے۔ جوبندہ تصویریں بناتا ہے گویا وہ اللہ کی صفتِ مصوری میں خود کو شریک کرتا ہے اور قیامت کے دن اللہ فرمائیں گے کہ تم تصاویر بناتے تھے مگر روح نہیں ڈال سکتے تھے، میں تصاویر بنا تا تھا اور روح بھی ڈالتا تھا۔ اگر تم تصویر میں روح ڈال سکتے ہو تو ڈال لو! یہ نہیں ڈال سکے گا تو سخت عذاب کا مستحق ہو گا۔ اس لیے جائز نہیں ہے۔
تصویر کے بارے میں رائے:
مجھ سے کوئی بندہ بھی پوچھے تو میں کہتا ہوں کہ بھا ئی تصاویر حرام اور ناجائز ہیں، ہم تصویر کو جائز قرار دینے والوں میں شامل نہیں ہیں خواہ تصویر متحرک ہو خواہ تصویر جامد ہو۔ تصویر تصویر ہی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اگر ضرورت ہو تو آپ بنا لیں لیکن ضرورت بقدرِ ضرورت ہو اس سے زائد نہ ہو۔اتنی بات میں ضرور کہتا ہوں کہ جو لوگ تصاویر بناتے ہیں اور حرام سمجھ کر بناتے ہیں اور بقدرِ ضرورت بناتے ہیں تو ان کی ضرورت پر ہم اعتراض نہ کریں کہ جی اس کی کیا ضرورت تھی؟! کیوں بنائی ہے! بھائی! یہ ہمارا مسئلہ ہے یا بنانے والے کا مسئلہ ہے؟ (بنانے والے کا۔ سامعین) تو ہم خواہ مخواہ اعتراض کیوں کریں! میں اس لیے کہتا ہو ں کہ اپنے آپ کو مستقل ٹینشن میں مبتلا نہ کرو، خواہ مخواہ کسی کی نفرت اپنے دماغ میں مت بٹھاؤ!
مسئلہ عمومی بیان کریں لیکن فتویٰ نہ لگائیں:
میں نے آپ کو بتایا تھا کہ حضرت مولانا پیر ذو الفقار احمد نقشبندی صاحب دامت برکاتہم جب ہندوستا ن کے دورے پر تشریف لے گئے، میں ان کہ ہاں معہد الفقیر جھنگ گیا تو مجھے مولانا حبیب اللہ صاحب نے کہا: ہمیں دوباتوں پر بہت تعجب ہوا؛ ایک یہ کہ ہم مظاہر العلوم یا دیوبند جہاں بھی گئے ہیں مشائخ پوچھتے کہ مولانا الیاس گھمن صاحب کا کیا حال ہے؟ ہمارے ہاں آپ کی حیثیت ایک خطیب کی ہے اور بس! لیکن وہاں جا کر ہمیں احساس ہوا کہ آپ کی علمی حیثیت کیا ہے؟! دوسرا ایک جگہ ہم گاڑی پر جا رہے تھے تو مشائخ میں تصویر کی بات چلی تو سب نے کہا کہ نا جائز ہے، ان کا کہنا یہ تھا کہ مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے متحرک ڈیجیٹل تصویر پر دلائل پیش کیے تو ہم نے اس کا جواب انہیں بھجوا دیا ہے،مولانا حبیب اللہ صاحب کہتے ہیں کہ میں نے خود کہا کہ مولانا گھمن صاحب تو بناتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی بات نہ کریں ان کو چھوڑیں۔
تو مشائخ کا ذہن ہے کہ عمومی مسئلہ بیان کریں، فرد پر فتویٰ نہ لگائیں۔
جنوں کی کاریگری بڑی بڑی دیگیں:
﴿وَ جِفَانٍ کَالۡجَوَابِ وَ قُدُوۡرٍ رّٰسِیٰتٍ ؕ﴾
اور جنات پانی کے لیے بڑے بڑے برتن بناتے جیسے بڑے بڑے حوض ہوتے ہیں تالاب کی طرح کے اور دیگیں بناتے جو ایک جگہ پر جمی ہوتیں۔ اتنی بڑی دیگ ہوتی کہ اس کو اٹھانا مشکل ہوتا۔ ظاہر ہے کہ جنا ت اس کو بناتے تھے، جنات اس کو پکاتے تھے، عام بندہ اس کو کیسے اٹھا سکتا تھا۔تو یہ بڑی بڑی دیگیں ہوتی تھیں جس میں کھانے پکاتے تھے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات:
﴿فَلَمَّا قَضَیۡنَا عَلَیۡہِ الۡمَوۡتَ مَا دَلَّہُمۡ عَلٰی مَوۡتِہٖۤ اِلَّا دَآبَّۃُ الۡاَرۡضِ تَاۡکُلُ مِنۡسَاَتَہٗ ۚ فَلَمَّا خَرَّ تَبَیَّنَتِ الۡجِنُّ اَنۡ لَّوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ الۡغَیۡبَ مَا لَبِثُوۡا فِی الۡعَذَابِ الۡمُہِیۡنِ ﴿ؕ۱۴﴾﴾
حضرت سلیمان علیہ السلام نے بیت المقدس کی تعمیر کا کام شروع کیا اور بیت المقدس کا جو بنیادی کام ہے وہ مکمل ہو گیا تھا۔ بنیادی کام کےمکمل ہونے کی دلیل یہ ہے کہ سلیمان علیہ السلام نے بیت المقدس کی تعمیر ہونے کے بعد اللہ سے دعائیں مانگیں:
حضرت سلیمان علیہ السلام کی دعائیں:

یا اللہ! جو گناہ گار مسجدِ اقصیٰ میں آ کر توبہ کرے تو آپ اس کی توبہ کو قبول فرما لیں۔

اگر کوئی بے امن شخص خوف اور خطرہ سے بچنے کے لیے اس مسجد میں آئے تو اس کو امن عطا فرما دیں۔

جو مریض اس مسجد میں داخل ہو تو اس کو شفا عطا فرما دیں۔

اگر کوئی فقیر اس مسجد میں آئے تو اس کو غنی فرما دیں۔

جو اس مسجد میں داخل ہو جب تک وہ اس میں رہے آپ اس پر نظر کرم اور نظر رحمت فرما دیں سوائے اس شخص کے جو کسی بے دینی کے کام میں مشغول ہو یا کسی ظلم و ستم کا کام کر رہا ہو۔
یہ پانچ دعائیں سلیمان علیہ السلام نے مانگیں ہر اس بندے کے لیے جو بیت المقدس میں داخل ہو۔ تو تعمیر مکمل ہوئی تب ہی تو دعائیں مانگی ہیں۔
جیسے ہمارے مرکز اھل السنۃ والجماعۃ سرگودھا کی مسجد کے ہال کی تعمیر مکمل ہے، اب ہم چاہتے ہیں کہ پیسے ہوں تو اس کی سیلنگ کروائیں، پیسے ہوں تو اس کو رنگ کروائیں، پیسے ہوں تو اے سی لگوائیں۔اب دیکھیں اصل کام تو مکمل ہو چکا ہے لیکن تھوڑا بہت کام جو اصل کام سے زائد ہے وہ باقی ہے۔ اسی طریقے سے بیت المقدس کا بنیادی کام تو مکمل تھا البتہ کچھ کام باقی تھا، اس پر تقریباً ایک سال لگنا تھا۔ اب سلیمان علیہ السلام کو اللہ کی طرف سے وحی آئی کہ آپ کا دنیا سے جانے کا وقت آ گیا ہے اور ان جنات سے کام بھی لینا ہے۔ تو بحکمِ خداوندی سلیمان علیہ السلام نے شیشے کا ایک کمرہ بنایا۔ باہر سے بندہ اندر دیکھے اور اندر سے باہر دیکھے تو سب چیزیں نظر آتی تھیں۔ وہاں بیٹھ کر آپ علیہ السلام نگرانی کرتے رہے اور جنات بھی دیکھ رہے تھے کہ سلیمان علیہ السلام نگرانی فرما رہے ہیں۔
سلیمان علیہ السلام نے ایک دن مصلیٰ بچھایا اور اپنے ساتھ ایک عصا لے کر کھڑے ہو گئے۔ جنات دیکھ رہے تھے کہ آپ اب بھی ہماری نگرانی کر رہے ہیں اور اسی دوران ملک الموت نے باذن اللہ آپ کی روح قبض کرلی، آپ فوت ہوگئے لیکن دیکھنے والے یہی سمجھتے تھے کہ سلیمان علیہ السلام زندہ ہیں اور نگرانی کر رہے ہیں۔ ایک سال تک جنات اپنے کام میں لگے رہے۔ جب تعمیر کا کام مکمل ہوا اللہ نے دیمک کے کیڑے کو بھیجا،اس نے سلیمان علیہ السلام کے عصا کو کھایا، عصا گرا تو سلیمان علیہ السلام زمین پر گر گئے۔ پھر جنات کو پتا چلا کہ سلیمان علیہ السلام کو فوت ہوئے ایک سال گزر گیا ہے اور ہم کام میں لگے ہیں۔ ایسا کیوں کیا تھا؟ اس سے دو باتیں مقصود تھیں:
نمبر 1: بیت المقدس کا باقی ماندہ کام مکمل ہو جائے۔
نمبر2: لوگوں کو اس بات کا پتا چل جائے کہ جنات عالم الغیب نہیں ہیں، یہ بے خبر اور بے بس ہیں، یہ اس لیے تاکہ میرے جانے کے بعد یہ لوگوں سے اپنی پوجا شروع نہ کروا دیں کہ ہم بڑے طاقت ور ہیں۔
منکرین حیات الانبیاء کے ایک شبہ کا جواب:
بعض لوگ اس سے استدلال کرتے ہیں کہ پیغمبر وفات کے بعد زندہ نہیں ہوتے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ جب لاٹھی گری تو سلیمان علیہ السلام فوراً گر گئے، اگر زندہ ہوتے تو نہ گرتے۔
ہم کہتے ہیں کہ لاٹھی کے گر جانے سے سلیمان علیہ السلام کا گر جانا اگر یہ دلیل ہو موت کی تو جب بندہ ٹیک لگا کر سو جائے اور ٹیک کو ہٹائیں تو بندہ گر جاتا ہے، یہ مردہ ہے یا زندہ ہے؟ (زندہ۔ سامعین) تو ٹیک کے گرنے سے بندے کا گرنا اگر اس کی موت کی دلیل ہو تو سونے والے سارے مردے ہوتے کوئی بھی زندہ نہ ہوتا! اسی طرح ایک بندہ کمزور ہے جو لاٹھی کے سہارے پر چلتاہے آپ اس کی لاٹھی کھینچیں تو وہ گر جاتا ہے، اب بتاؤ وہ زندہ ہے یا مردہ ہے؟ (زندہ ہے۔ سامعین) اس کو تو کوئی مردہ نہیں کہتا! ایک سلیمان علیہ السلام ملے ہیں جن کو تم نے مردہ کہناہے العیاذ باللہ۔
میں صرف یہ بتا رہا ہوں کہ ان لوگوں کی دلیل میں ضعف کتنا زیادہ ہے اور لوگ کہتے ہیں کہ ماشاءاللہ یہ بہت قرآن بیان کرتے ہیں، ایسا اشکال پیش کیا کہ مزا آ گیا! میں نے کہا کہ گھر میں بیٹھ کر اشکال پیش کرنا کیا مشکل ہے! ان کے اپنے شاگرد ہیں، اپنے متبعین ہیں، واہ واہ لگی ہوئی ہے اور ان کو کیا چاہیے؟!
﴿فَلَمَّا خَرَّ تَبَیَّنَتِ الۡجِنُّ اَنۡ لَّوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ الۡغَیۡبَ مَا لَبِثُوۡا فِی الۡعَذَابِ الۡمُہِیۡنِ ﴿ؕ۱۴﴾﴾
جب سلیمان علیہ السلام گرے تو اس وقت جنوں کو معلوم ہوا کہ اگر ان کو غیب کا علم معلوم ہوتا تو وہ اس مشقت میں مبتلا نہ رہتے۔
﴿الۡمُہِیۡنِ﴾
کامعنی مشقت ہے، اس میں بہت سارے جنات ایسے تھے جو شوق سے کا م نہیں کرتے تھے تبھی تو عذاب مھین فرمایا، اگر سارے شوق سے کام کرتے ہوتے تو ان کے لیے عذاب مھین نہ کہا جاتا۔ بہت سارے لوگ ہوتے ہیں جو دل سے کام کرنا نہیں چاہتے، مجبور ہوتے ہیں کہ بس اب پھنسے ہوئے ہیں تو کام کرنا ہی ہے۔
قوم سبا کا قصہ:
﴿لَقَدۡ کَانَ لِسَبَاٍ فِیۡ مَسۡکَنِہِمۡ اٰیَۃٌ ۚ جَنَّتٰنِ عَنۡ یَّمِیۡنٍ وَّ شِمَالٍ﴾
”سبا“ کسے کہتے ہیں؟ ایک حدیث پاک میں ہے کہ یمن میں ایک آدمی تھا جس کانام سبا تھا، اس کے دس بیٹے تھے، چھ یمن میں رہے اور چار شام میں چلے گئے، ان کے آگے پھر ان کے بیٹوں کے ناموں ہی سے قبیلے چلے اور آگے نسل چلی۔
اور بعض کہتے ہیں کہ سبا؛ یمن کے بادشاہ اور اس ملک کے باشندوں کا لقب تھا۔
قوم سبا کے رہنے کی جگہ میں اللہ تعالی نے برکت عطا فرمائی تھی۔ ملک یمن کے دار الحکومت کا نام ہے
”صنعاء“
اس سے تین منزل کے فاصلے پر ایک شہر تھا
”مآرب“
اس میں یہ قوم آباد تھی۔ یہ ایک بہت خوبصورت جگہ تھی۔ ان کی سڑکوں کے دونوں طرف پھل دار باغات کے سلسلے تھے جو دور دراز تک چلے گئے تھے۔ پہاڑوں کے درمیان ایک وادی میں یہ شہر آباد تھا۔ یہاں کے بادشاہوں نے پہاڑوں کے درمیان میں ایک مضبوط ڈیم بنا دیا تھا جس میں پانی کا ایک بڑا ذخیرہ محفوظ کر لیا جاتا تھا۔ پہاڑوں سے آنے والا پانی اور بارشوں کا پانی اس میں ذخیرہ ہوتا تھا۔ اس بند میں تین دروازے رکھے گئے تھے۔ ایک دروازہ اوپر تھا پھر نیچے، پھر نیچے۔ پہلے اوپر کا دروازہ کھولتے تو پانی آتا جس سے وہ لوگ اپنے استعمال کا پانی ل ےلیتے، کھیتوں کے لیے، اپنے استعمال کے لیے، جب اوپر کا پانی ختم ہو جاتا تو نیچے والا دروازہ کھولتے اور پانی استعمال کرتے اور اگر وہ بھی ختم ہو جاتا تو پھر نیچے والا دروازہ کھولتے تھے۔ اس ڈیم کے نیچے ایک تالاب بنا کر اس کے بارہ راستے بنا کر نہریں بنائی گئی تھی جن کے ذریعے شہر میں مختلف جگہوں پر پانی فراہم کیا جاتا تھا۔ ملکہ بلقیس جن کا واقعہ سورۃ النمل میں گزر چکا ہے تو وہ ملکہ بلقیس بھی اسی قوم میں سے تھیں۔
خیر میں خلاصہ عرض کر رہا ہوں کہ شہر کے دائیں بائیں جو دو پہاڑ تھے ان کے کناروں کی سڑکوں پر جو باغات لگائے گئے تھے ان میں پھل اتنی کثرت سے تھے کہ عورت خالی ٹوکری لے کر باغ میں داخل ہو تی تو پھل درختوں سے ٹوٹ کر خود بخود ٹوکری میں گرتے اور ٹوکری بھر جاتی۔ جب انہوں نے اللہ کی اس عظیم نعمت کی ناقدری کی تو اللہ نے ان کے بند کو توڑا، ان کو برباد کر دیا اور بند توڑنے کے لیے اس میں چوہے بھیجے، ان چوہوں نے بنیادوں کو کاٹا اور اس طرح ان کا وہ بند ٹوٹ گیا اور تباہی وبربادی ہو گئی۔ ان باغات کے بدلے میں اللہ نے ان کو اور باغات دیے، ان میں کیکر اور بیری کے درخت تھے۔ بعض بیری کے درخت اچھے ہوتے ہیں جن پر اچھا پھل لگتاہے اور بعض کانٹے دار درخت ہوتے ہیں جن کا پھل بھی اچھا نہیں ہوتا۔
یمن سے لے کر شام تک ان کی بستیاں ملی ہوئی تھیں۔ جب یہ سفر کر تے تو ہر جگہ ان کو اچھا اسٹاپ ملتا لیکن بربادی کے بعد تو ایسے لگتا تھا کہ یہاں پر کوئی آبادی ہی نہیں تھی۔ اللہ ہمیں اپنی نعمتوں کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
رزق کی فراوانی قدرت کا انعام ہے:
﴿قُلۡ اِنَّ رَبِّیۡ یَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ یَّشَآءُ وَ یَقۡدِرُ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿٪۳۶﴾﴾
آپ فرمائیں کہ میرا رب رزق کو پھیلاتاہے جس کے لیے چاہتا ہے اور کم کرتا ہے جس کے لیے چاہتاہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
اسی سورت کی آیت نمبر 39 میں ہے:
﴿قُلۡ اِنَّ رَبِّیۡ یَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖ وَ یَقۡدِرُ لَہٗ﴾
بظاہر معلوم ہوتاہےکہ یہ تکرار ہے، وہی آیت پہلے ہے اور وہی آیت بعد میں ہے۔
اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ یہ تکرار نہیں ہے۔ یہ جو پہلی آیت ہے اس کا تعلق کفار کے ساتھ ہے، کیونکہ اس سے پہلے ہے:
﴿وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا فِیۡ قَرۡیَۃٍ مِّنۡ نَّذِیۡرٍ اِلَّا قَالَ مُتۡرَفُوۡہَاۤ ۙ اِنَّا بِمَاۤ اُرۡسِلۡتُمۡ بِہٖ کٰفِرُوۡنَ﴿۳۴﴾ وَ قَالُوۡا نَحۡنُ اَکۡثَرُ اَمۡوَالًا وَّ اَوۡلَادًا ۙ وَّ مَا نَحۡنُ بِمُعَذَّبِیۡنَ ﴿۳۵﴾﴾
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جس بستی میں ہم نے اپنا کوئی پیغمبر بھیجا تو اس بستی والوں میں سے خوشحال اور مال والے لوگوں نے کہا: ہم اس پیغام کا انکار کرتے ہیں جو تم لائے ہو! اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارا مال بھی تم سے زیادہ ہے اور ہماری اولاد بھی تم سے زیادہ ہے اور ہمیں عذاب بھی نہیں ہو گا!
کیونکہ اگر ہم اللہ کے پسندیدہ بندے نہ ہوتے تو اللہ دنیا میں ہمیں دولت نہ دیتا، جب دنیا میں دی ہے تو موت کے بعد ہمیں عذاب کیوں دے گا؟! تو اللہ فرماتے ہیں کہ ان کو سمجھاؤ کہ رزق اللہ جس کو چاہتے ہیں زیادہ دیتے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں کم دیتے ہیں۔ تو مال اور اولاد کا زیادہ ہونا اللہ کے محبوب ہونے کی نشانی نہیں ہے۔ اس آیت کا تعلق کفار کے ساتھ ہے۔
اگلی آیت نمبر 39 کے الفاظ بتاتے ہیں کہ یہ حکم اللہ نے اپنے خاص بندوں یعنی مؤمنین سے فرمایا ہے کہ دیکھو! تم ایمان والے ہو، تقویٰ والے ہو، تمہارا خدا پر اعتقاد ہے، اس لیے اگر مال مل جائے تو مال کی محبت کی وجہ سے کہیں ایسا نہ ہو کہ تم صدقہ کرنا کم کر دو، مال زیادہ ملے تو خرچ کرنا کم کر دو بلکہ اللہ کی راہ میں خرچ کروکیونکہ میں جس کو چاہتا ہوں رزق زیادہ دیتا ہوں، جس کو چاہتا ہو ں کم دیتا ہوں،
﴿وَ مَاۤ اَنۡفَقۡتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ فَہُوَ یُخۡلِفُہٗ ۚ وَ ہُوَ خَیۡرُ الرّٰزِقِیۡنَ ﴿۳۹﴾﴾
اگر تم نے مال راہِ خدا میں دے دیا تو مال کم نہیں ہوگا میں اس کے بدلے میں تمہیں اور مال دوں گا۔
تو پہلی آیت کا تعلق کفار کے ساتھ ہے اور دوسری کا تعلق مؤمنین کے ساتھ۔
اس کا ایک جواب یہ بھی ہے کہ پہلی آیت کا تعلق مختلف لوگوں کے ساتھ ہے کہ ہم نے بعض لوگوں کو رزق میں فراخی عطا فرمائی ہے اور بعض لوگوں کو رزق کی کمی دی ہے اور اس دوسری آیت کا تعلق ایک ہی بندے کے ساتھ ہے لیکن احوال کا فرق ہے۔ ایک بندہ ہے کبھی اس پر مال کی وسعت ہوتی ہے اور وہی بندہ ہے کہ کبھی اس پر مال کی تنگی ہوتی ہے۔ تو سمجھایا کہ اگر مال کی وسعت ہو تو وہ بھی ہماری طرف سے ہے اور کبھی مال کی تنگی ہو تو وہ بھی ہماری طرف سے ہے۔ اب کوئی تکرار نہیں۔
مال خرچ کرنے کی عادت ڈالیں!
﴿وَ مَاۤ اَنۡفَقۡتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ فَہُوَ یُخۡلِفُہٗ﴾
تم جو چیز بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے تو اللہ اس کا بدل تمہیں عطا فرماتا ہے۔
حدیث پاک میں ہے کہ ہر روز صبح کے وقت دو فرشتے آسمان سے اترتے ہیں، ایک فرشتہ کہتا ہے:
”اَللّٰهُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا“
کہ اے اللہ! جس نے مال خرچ کیا ہے اس کو اس کے بدلے میں اور مال عطا فرما ، اور دوسرا فرشتہ کہتا ہے:
” اَللّٰهُمَّ أَعْطِ مُمْسِكًا تَلَفًا“
کہ اے اللہ! جو شخص مال خرچ نہیں کرتا اور بخل کرتا ہے اس کے مال کو ہلاک کر دے۔
صحیح البخاری، رقم: 1442
تو مال خر چ کرنے سے مال بڑھتا ہے، مال خرچ کرنے سے مال کبھی کم نہیں ہوتا۔ میں نے پرسوں بھی عرض کیا تھا آج پھر عرض کر تا ہوں کہ طلبہ بھی مال خرچ کرنے کی عادت ڈالیں، اللہ وسعت دیں گے اور آپ کا مال کم نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․