سورۃ فاطر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ فاطر
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿اَلۡحَمۡدُ لِلہِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ جَاعِلِ الۡمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا اُولِیۡۤ اَجۡنِحَۃٍ مَّثۡنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ ؕ یَزِیۡدُ فِی الۡخَلۡقِ مَا یَشَآءُ ؕ اِنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۱﴾﴾
ملائکہ اللہ کے قاصد ہیں:
ملائکہ کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا کہ اللہ رب العزت نے ملائکہ کو اپنا قاصد بنا کر بھیجا ہے۔ قاصدکا معنی کہ اللہ اور اللہ کےرسول کے درمیان فرشتے واسطہ ہوتے ہیں۔ یہ فرشتے کیسے ہیں؟ فرمایا: کسی کے دو پر ہیں، کسی کے تین پر ہیں، کسی کے چار پر ہیں، یہ دو تین چار میں حصر نہیں ہے کہ اس سے زائد پر نہیں ہیں کیونکہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے بارے میں روایت میں ہے کہ ان کے چھ سو پر ہیں۔
صحیح البخاری، رقم: 4857
یہاں بتانا مقصود ہے کہ یہ پروں والے ہیں، دو دو، تین تین، چار چار اور اس سے بھی زائد پروں والے۔
حضرت عمر کے قبولِ اسلام کی دعا:
﴿اَفَمَنۡ زُیِّنَ لَہٗ سُوۡٓءُ عَمَلِہٖ فَرَاٰہُ حَسَنًا ؕ فَاِنَّ اللہَ یُضِلُّ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ۫ فَلَا تَذۡہَبۡ نَفۡسُکَ عَلَیۡہِمۡ حَسَرٰتٍ ؕ﴾
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ رب العزت سے دعا مانگی:
"اَللّٰهُمَّ أَعِزَّ الْإِسْلَامَ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَوْ بِأَبِيْ جَهْلِ بْنِ هِشَامٍ."
المستدرک علی الصحیحین: ج4 ص35 رقم الحدیث 4542
یا اللہ! عمر بن خطاب یاعمرو بن ہشام جسے ابوجہل کہتے ہیں ان دونوں میں سے کسی ایک کی وجہ سے دین کو عزت دے دے۔
دونوں جرنیل ہیں، مضبوط ہیں،بہادر ہیں، ان میں سے کوئی ایک شخص کلمہ پڑھے گا تو اسلام کو ان کی شجاعت کی وجہ سے تقویت بہت ملےگی۔اللہ رب العزت نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے مقدر میں لکھا تھا تو انہوں نے کلمہ پڑھا۔ ان کے آنے سے اسلام بہت بلند ہوا۔ تو اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی
﴿فَاِنَّ اللہَ یُضِلُّ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ﴾
کہ اللہ جسے چاہتے ہیں ہدایت عطا فرما دیتے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں گمراہ فرما دیتے ہیں۔
اس پر بظاہر شبہ ہوتا ہے کہ جب گمراہ اللہ کرتے ہیں تو گمراہی میں بندے کے اختیار کو تو دخل نہ ہوا پھر بندے کو عذاب کیوں ہوتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ رب العزت جو گمراہ کرتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ اسبابِ ضلالت بندہ خود اختیار کرتا ہے، جیسے اسباب بندہ اختیار کرتا ہے اللہ ویسا نتیجہ عطا فرما دیتے ہیں۔
عزتوں کا مالک اللہ ہے:
﴿مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ الۡعِزَّۃَ فَلِلّٰہِ الۡعِزَّۃُ جَمِیۡعًا﴾
دنیا میں کوئی شخص عزت حاصل کرنا چاہتا ہے مال کی وجہ سے، کوئی عزت حاصل کرنا چاہتا ہے اولاد کی وجہ سے، کوئی عزت حاصل کرنا چاہتا ہے لیڈر بن کر تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ عزت دینے والا تو میں ہوں، میری طرف سے جو عزت ملتی ہے وہ خالص عزت ہوتی ہے، باقی عزتوں میں ذلت ہوتی ہے وہ صرف دھوکہ ہوتا ہے۔
کلمات طیبات کا مصداق اور ان کی اہمیت:
﴿اِلَیۡہِ یَصۡعَدُ الۡکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الۡعَمَلُ الصَّالِحُ یَرۡفَعُہٗ﴾
اللہ رب العزت کی طرف پاک کلمات جاتے ہیں -پاک کلمات سے مراد کلمہ توحید اور اللہ کی ذات اور صفات کا علم ہے- اور نیک اعمال ان کو اوپر اٹھاتے ہیں۔یہ ترجمہ اس صورت میں ہے کہ جب
﴿یَرۡفَعُہٗ﴾
میں ھُوَضمیر
﴿الۡعَمَلُ الصَّالِحُ﴾
کی طرف ہو اور
”ہٗ“
ضمیر یہ
﴿الۡکَلِمُ الطَّیِّبُ﴾
کی طرف ہو، معنی ہو گا کہ کلمات طیبات اللہ کی طرف جاتے ہیں اور اعمال صالحہ ان کلمات طیبات کو اوپر اٹھاتے ہیں یعنی اعمال صالحہ کی وجہ سے کلمات طیبات قبول ہوتے ہیں۔ اعمال صالحہ کے بغیر کلمات طیبات خواہ کلمہ توحید ہو یا کوئی اور ذکر و اذکار ہوں اللہ تعالی کے ہاں قبول نہیں ہوں گے۔
اب اس کو ذرا سمجھیں! یہاں پر بہت سارے حضرات نے لکھا ہے کہ عمل صالح کو تھوڑا سا وسیع کیا جائے تو اس میں تصدیقِ قلبی بھی آ جاتی ہے اور دیگر اعمال مثلاً نماز روزہ حج زکوٰۃ وغیرہ بھی آ جاتے ہیں۔ اب یہ جو کہا کہ اعمال صالحہ کے بغیر کلمات طیبات قبول نہیں تو عمل صالح سے مراد اگر تصدیق قلبی ہو یعنی دل سے انسان اللہ کی ذات پر اللہ کی صفات پر ایمان لائے تو یہ بات ٹھیک ہے کیونکہ اگر کوئی شخص زبان سے تو
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ
کہہ رہا ہے لیکن دل سے تصدیق نہیں کرتا بلکہ دل سے انکار کرتا ہے تو اس کا یہ کلمہ قبول نہیں ہو گا۔
اور اگر اعمال صالحہ سے مراد نماز روزہ حج زکوٰۃ ہو تو اب مطلب یہ ہو گا کہ اعمالِ صالحہ کے بغیر کلمات طیبات قبول تو ہیں لیکن قبولیتِ تامہ کے لیے اعمال شرط ہیں۔ علماء کی زبان میں اسے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ کلمات کی نفسِ قبولیت کے لیے تو اعمال شرط نہیں لیکن قبولیتِ تامہ کے لیے اعمال شرط ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک بندہ کلمہ بھی پڑھتا ہے، دل سے مانتا اور تصدیق بھی کرتا ہے لیکن اعمال نہیں کرتا۔ اب قیامت کے دن اس کا ایمان لانا قابلِ قبول تو ہو گا کہ اسے ہمیشہ ہمیشہ کے عذاب سے نجات ملے گی لیکن چونکہ عمل میں کوتاہی کر چکا ہے اس لیے اپنے گناہوں کی بقدر سزا بھگتنے کے بعد جنت میں جائے گا۔
اور ایک صورت یہ ہے کہ
﴿یَرۡفَعُہٗ﴾
میں
ھُوَ
ضمیر
﴿الۡکَلِمُ الطَّیِّبُ﴾
کی طرف ہو اور
”ہٗ“
ضمیر یہ
﴿الۡعَمَلُ الصَّالِحُ﴾
کی طرف ہو۔ اب معنی بالکل برعکس بنے گا کہ کلمات طیبات اللہ کی طرف جاتے ہیں اور اعمال صالحہ کو یہ کلمات طیبات اٹھاتے ہیں یعنی کلمات طیبات کی وجہ سے اعمال صالحہ قبول ہوتے ہیں۔ مفسرین اس صورت میں معنی یہ کرتے ہیں کہ بندہ عمل صالح کرے لیکن ساتھ ساتھ ذکر اللہ کا بھی کثرت سے اہتمام کرے تو اس سے اس کے اعمال صالحہ مزین ہو جاتے ہیں اور اللہ کے ہاں جلد شرفِ قبولیت پا لیتے ہیں۔
ہر شخص کی عمر متعین ہے:
﴿وَ مَا یُعَمَّرُ مِنۡ مُّعَمَّرٍ وَّ لَا یُنۡقَصُ مِنۡ عُمُرِہٖۤ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ﴾
کسی آدمی کو جو بھی عمر دی جاتی ہے یا اس کی عمر میں جو کمی ہوتی ہے تو وہ سب ایک کتاب میں لکھی ہوئی ہے۔
عمر کم ہونے کا معنی یہ نہیں کسی کی عمر دس سال ہے تو گھٹا کر نو سال کر دیں بلکہ کم ہونے کا معنی یہ ہے کہ جب عمر کا کچھ حصہ گزر جاتا ہے تو بندے کی کل عمر میں سے اتنی عمر کم ہو جاتی ہے مثلاً ایک بندے کی ٹوٹل عمر انیس سال ہے، نو سال اس نے گزار لیے اور دس سال باقی ہیں۔ تو گویا اس کی کل عمر میں سے جو نو سال کم ہو گئے ہیں یہ بھی اللہ کے علم میں ہیں اور جو دس سال باقی ہیں یہ بھی اللہ کے علم میں ہیں۔
عمر متعین ہے تو صلہ رحمی سے بڑھے گی کیسے؟
باقی جو حدیث پاک میں رسول اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُبْسَطَ لَهُ فِيْ رِزْقِهِ وَيُنْسَأَ لَهُ فِي أَثَرِهِ “
کہ جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کے رزق کو بڑھا دیا جائے اور اس کی زندگی لمبی کر دی جائے تو
”فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ“
وہ رشتہ داروں کا خیال کرے، ان کے ساتھ نیک سلوک کرے۔
صحیح البخاری ، رقم: 5986
تو بظاہر اس حدیث میں اور دیگر آیات میں تعارض ہے جن میں ہے کہ بندے کی عمر متعین ہے۔ سورۃ النحل میں ہے:
﴿فَاِذَا جَآءَ اَجَلُہُمۡ لَا یَسۡتَاۡخِرُوۡنَ سَاعَۃً وَّ لَا یَسۡتَقۡدِمُوۡنَ ﴿۶۱﴾﴾
النحل 16: 61
جب ان کی موت کا وقت آ پہنچے گا تو وہ ایک گھڑی بھی نہ اس وقت سے آگے ہو سکیں گے نہ پیچھے۔
تو عمر تو بندے کی متعین ہے، پھر اگر آدمی صلہ رحمی کرے گا تو عمر بڑھے گی کیسے؟ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: بندے کی عمر تو متعین ہوتی ہے، جب مدت پوری ہوتی ہے تو اسے ایک گھڑی بھی مہلت نہیں دی جاتی لیکن عمر بڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اس بندے کو اولاد دیں گے جو اس کے لیے دعائیں کرے گی تو انسان اپنی عمر میں جو نیک اعمال کرنا چاہتا تھا اس کی عمر تو نہیں بڑھی لیکن اس کی اولاد کی دعاؤں کا فائدہ اس کو پہنچے گا۔گویا جس طرح زندہ رہنے سے انسان کو فائدہ ہوتا ہے اسی طرح اس کو موت کے بعد بھی فائدہ ملتا رہے گا۔ یہی مطلب ہے کہ اس کی عمر بڑھ گئی ہے۔
میٹھا اور کڑوا پانی:
﴿وَ مَا یَسۡتَوِی الۡبَحۡرٰنِ ٭ۖ ہٰذَا عَذۡبٌ فُرَاتٌ سَآئِغٌ شَرَابُہٗ وَ ہٰذَا مِلۡحٌ اُجَاجٌ ؕ وَ مِنۡ کُلٍّ تَاۡکُلُوۡنَ لَحۡمًا طَرِیًّا وَّ تَسۡتَخۡرِجُوۡنَ حِلۡیَۃً تَلۡبَسُوۡنَہَا ۚ وَ تَرَی الۡفُلۡکَ فِیۡہِ مَوَاخِرَ لِتَبۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِہٖ وَ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ ﴿۱۲﴾﴾
آگے بات سمجھائی ہے کہ دیکھو! دو دریا ہیں، دونوں برابر نہیں ہیں؛ ایک میٹھا ہے اس سے پیاس بجھتی ہے اور دوسرا کڑوا نمکین ہے۔ میٹھاحلق سے جلدی اترتا ہے اور کڑوا حلق سے جلدی نہیں اترتا۔
حدیث پاک میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب پانی پیتے تو پانی پینے کے بعد یہ دعا فرماتے تھے:
"اَلْحَمْدُ لِلهِ الَّذِيْ سَقَانَا عَذْبًا فُرَاتًا بِرَحْمَتِهٖ وَلَمْ يَجْعَلْهٗ مِلْحًا أُجَاجًا بِذُنُوْبِنَا."
کنزالعمال: ج7 ص42 رقم الحدیث 18222
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں اپنی رحمت سے میٹھا پانی پلایا جس سے ہماری پیاس بجھ گئی اور ہماری بداعمالیوں کی وجہ سے اس پانی کو کڑوا نہیں بنایا۔
منکرین حیات کی جہالت:
﴿وَ مَا یَسۡتَوِی الۡاَعۡمٰی وَ الۡبَصِیۡرُ ﴿ۙ۱۹﴾ وَ لَا الظُّلُمٰتُ وَ لَا النُّوۡرُ ﴿ۙ۲۰﴾ وَ لَا الظِّلُّ وَ لَا الۡحَرُوۡرُ ﴿ۚ۲۱﴾ وَ مَا یَسۡتَوِی الۡاَحۡیَآءُ وَ لَا الۡاَمۡوَاتُ ؕ اِنَّ اللہَ یُسۡمِعُ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ مَاۤ اَنۡتَ بِمُسۡمِعٍ مَّنۡ فِی الۡقُبُوۡرِ ﴿۲۲﴾ اِنۡ اَنۡتَ اِلَّا نَذِیۡرٌ ﴿۲۳﴾﴾
اللہ نے یہاں کفر اور اسلام، شرک اور توحید اور مؤمن اور مشرک میں فرق بیان فرمایا ہے۔ فرمایا: اندھا اور دیکھنے والا برابر نہیں، ظلمات یعنی اندھیرے اور روشنی برابر نہیں، زندہ اور مردہ برابر نہیں۔ اللہ جس کو چاہتے ہیں سنا دیتے ہیں اور آپ نہیں سنا سکتے ان کو جو قبروں میں ہیں۔ آپ کا کام ڈرانا ہے۔
اب دیکھو! ان آیات سے یہ ثابت کرنا کہ انبیاء علیہم السلام نہیں سنتے یہ سراسر جہالت ہے، اس لیے کہ اس آیت میں قطعاً یہ نہیں ہے کہ میت سنتی نہیں ہے، اس میں تو یہ ہے کہ آپ سنا نہیں سکتے۔ ایک ہے کہ مردہ سنتا نہیں اور ایک ہے کہ آپ قبر والوں کو سنا نہیں سکتے۔ تو یہاں اِسماع کی نفی ہے سماع کی نفی نہیں ہے، سنانے کی نفی ہے سننے کی نفی نہیں ہے۔ اس لیے اس آیت کا سماعِ موتیٰ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ بعض لوگ خواہ مخواہ کی بحث یہاں چھیڑ دیتے ہیں۔ میں نے آپ سے وعدہ کیا تھا وہاں سورت النمل کے درس میں کہ آگے سورت فاطر میں ایک آیت آئے گی اور اس کی وہ حضرات عموماً غلط تشریح کرتے ہیں جو انبیاء علیہم السلام کے سماع کے قائل نہیں ہیں۔
چونکہ میری خود ان کے ایک مناظر سے -جو ابھی بھی زندہ ہیں- ملاقات اور بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ آپ کا جو عقیدہ ہے کہ قبور میں انبیاء علیہم السلام سنتے ہیں یہ اکابر کاعقیدہ نہیں ہے، کیونکہ اکابر کی عبارات سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ قبر والا مردہ نہیں سنتا۔ دلیل یہ آیت ہے:
﴿وَ مَاۤ اَنۡتَ بِمُسۡمِعٍ مَّنۡ فِی الۡقُبُوۡرِ﴾
کہ اس آیت کے نیچے شاہ صاحب لکھتے ہیں: -یہ تفسیر عثمانی ہے موضح القرآن کا حوالہ دیا ہے؛
”تو نہیں سنانے والا قبر میں پڑے ہوؤں کو، حدیث میں آیا کہ مردوں سے سلام علیک کرو اور بہت جگہ مردوں کو خطاب کیا ہے، اس کی حقیقت یہ ہے کہ مردے کی روح سنتی ہے اور قبر میں پڑا ہے دھڑ، وہ نہیں سنتا“۔
تفسیر عثمانی: ج3 ص193
اب دیکھیں بظاہر یہ عبارت ہمارے خلاف ہے کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ قبر میں جو دھڑ ہے وہ سنتاہے اور شاہ صاحب کہتے ہیں کہ وہ نہیں سنتا۔
ہمارا ارادہ ہے ان شاء اللہ کہ دورہ تربیۃ العلماء میں اس قسم کی عبارات بھی پیش کریں اور اس قسم کی عبارات سمجھائیں جن سے دھوکہ دیا جاتا ہے۔
میں نے ان سے کہا کہ اس کا جو مطلب آپ سمجھے ہیں وہ آپ بیان کریں، اس پر میں سوال کرتا ہوں اور جو میں سمجھا ہوں اس کو میں بیان کرتا ہوں اور اس پر آپ سوال کریں۔ اس نے کہا ہم تو یہ سمجھے ہیں کہ قبر والے نہیں سنتے، روح سنتی ہے اور وہ علیین میں ہے۔ میں نے کہا اس پر میراسوال یہ ہے کہ مثال کے طور پر ہم یہاں پر ہیں، میرے والد صاحب کی قبر یہاں سے ایک ایکڑ کے فاصلے پر ہے، اس میں پڑا ہے دھڑ جس میں روح نہیں ہے روح علیین میں ہے، اب دیکھیں! علیین کا فاصلہ یہاں سے اور والد صاحب کی قبر سے برابر ہے، کوئی فر ق نہیں ہے۔ علیین کدھر ہے؟ اوپر۔ اب والد صاحب کی قبر یہاں سے دس کلو میڑ کے فاصلے پر بھی ہو تو فاصلہ علیین تک تو برابر ہے نا،فاصلے میں تو فرق نہیں ہے۔
تو میں نے کہا کہ ہم ہیں اپنے گاؤں میں اور والد صاحب کی قبر ہے قبرستان میں اور علیین اوپر ہے۔ اب آپ کا موقف یہ ہے کہ قبر میں پڑا ہے دھڑ وہ نہیں سنتا روح سنتی ہے۔ بتاؤ روح کہاں پر ہے؟ کہا جی علیین میں۔ میں نے کہا: آپ جو قبرستان میں قبر پر جا کر کہتے ہیں
”اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ يَا أَهْلَ الْقُبُوْرِ“
وہ تو نہیں سنتا کیونکہ سننا تو روح نے ہے۔ تو آپ قبرستان جانے کے بجائے یہیں سے اوپر منہ کر کے کہا کریں
”اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ يَا أَهْلَ الْقُبُوْرِ“
لوگ پوچھیں گے کہ یہ کیوں؟ تو آپ کہو کہ روح سنتی ہے اور وہ علیین میں ہے، قبرستان میں دھڑ پڑا ہے جو نہیں سنتا تو قبرستان میں جا کر مجھے سلام کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ اس لیے میں یہیں سے سلام کر رہا ہوں۔
میں نے کہا کہ ہمیں یہ بات سمجھائیں کہ روح اوپر ہے اور روح کا دنیا میں ہر جگہ سے فاصلہ مساوی ہے تو پھر اس کا معنی یہ ہوا کہ روح خاص جگہ سے سننے کے بجائے ہر جگہ سے سنے گی۔ تو میں نے کہا: آپ کا یہی عقیدہ ہے کہ روح ہر جگہ سے سنتی ہے؟ ادھر اگر اہلِ بدعت کہہ دیں کہ یہاں سے ہم صلوٰۃ پڑھیں تو حضور مدینہ میں سنتے ہیں تو آپ لوگ کہتے ہیں کہ یہ شرک ہے، حضور اتنی دور سے کیسے سن لیتے ہیں! اور یہاں سے مدینے کا سفر کم ہے اور علیین کا سفر زیادہ ہے اور آپ کہتے ہیں دور سے مخلوق نہیں سنتی خالق کی صفت ہے دورسے سننا تو روح بھی تو مخلوق ہے یہ دورسے کیسے سنتی ہے؟! تو آپ جو معنی کرتے ہیں کہ روح سنتی ہے تو دنیا میں آپ کس کو سناتے ہیں؟ علیین کو سناتے ہیں؟ اگر علیین میں موجود روح کو سنائیں گے تو قبر پر کیوں جاتے ہیں؟، پھر گھر پر بیٹھ کر سلام کریں!کیونکہ سنانا جو علیین کو ہے۔
اور اگر آپ کہیں کہ ہم جو سلام کرتے ہیں اس کا معنی دعا ہے تو سوال یہ ہے کہ دعا کے لیے آپ قبرستان کیوں جاتے ہیں؟ وہاں تو وہ جسم ہے جسے آپ کے عقیدے کے مطابق نہ ثواب ہوتا ہے نہ اس کو عذاب ہوتا ہے اور آپ کے عقیدے کے مطابق نہ وہ سنتا ہے تو وہاں جا کر سلام کس کو کرتے ہیں؟ وہ دھڑ تو سنتے بھی نہیں ہیں تو ان کو دعا دینے کا بھی فائدہ نہیں ہے۔ ہم اھل السنۃ والجماعۃ کے عقیدے کے مطابق تو جسم کو ثواب اور عذاب ہوتا ہے لیکن آپ کے عقیدے میں تو جسم کو ثواب اور عذاب نہیں ہوتا تو اس کو جا کر کیا دعا دیتے ہیں ؟ دعا روح کو دینی چاہیے تو وہ گھر سے بیٹھ کر دے لیں، قبرستان جانے کی ضرورت کیا ہے؟
میں نے کہا کہ حضرت شاہ صاحب کی عبارت کا معنی اب میں کرتا ہوں، اس پر آپ سوال کریں۔ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ دنیامیں احوال اَصالتاً اور اَصلاً جسم پر آتے ہیں اور تبعاً اور ضمناً روح پر آتے ہیں۔ دنیا میں کان سنتا ہے جو کہ جسم ہے اور کان کے واسطہ سے روح سنتی ہے، اسی طریقے سے دنیا میں زبان چکھتی ہے جو کہ جسم ہے اور زبان کے واسطہ سے روح مزے لیتی ہے، اور موت کے بعد احوال آتے ہیں اَصالتاً اور اَصلاً روح پر اور تبعاً اور ضمناً آتے ہیں جسم پر۔
اب اس کا معنی یہ ہے کہ جب آدمی دنیا میں زندہ ہوتا ہے تو جسم سنتاہے اور جسم کے واسطہ سے روح سنتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی کے کان کاٹ دو تو روح نہیں سنتی، آنکھیں نکال دو تو روح نہیں دیکھتی تو اس کا معنی ہے کہ دنیا میں اصل جسم نے سننا ہے اور جسم کے واسطہ سے روح نے سننا ہے، اور موت کے بعد احوال براہِ راست روح پر آتے ہیں اور روح کے واسطہ سے جسم پر آتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ جو شاہ صاحب کا جملہ ہے کہ”حقیقت یہ ہے کہ مردے کی روح سنتی ہے“ تو روح تو زمین پر نہیں ہے بلکہ وہ علیین میں ہے، اب یہ روح سنے گی کیسے؟ روح اس وقت سنے گی جب اس چیز کو سناؤ گے جس کا روح سے تعلق ہے اور وہ جسم ہے، ”اور قبر میں پڑا ہے دھڑ، وہ نہیں سنتا“ کیا معنی کہ اَصالتاً جسم نہیں سنتا بلکہ اَصالتاً روح سنتی ہے اور تبعاً جسم سنتا ہے۔
اس لیے ہم گھر سے
”اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ يَا أَهْلَ الْقُبُوْرِ“
نہیں کہتے بلکہ قبر کے پاس جا کر کہتے ہیں، کیونکہ سننا تو روح نے ہے اور روح علیین میں ہے، اتنی دور سے ہماری آواز سن نہیں سکتی تو ہم قبر پر جا کر مردے کو سلام کہیں گے جس کے ساتھ روح کا تعلق ہے تو روح اصلاً سنے گی اور مردہ تبعاً سنے گا۔
میں نے کہا: اس پر آپ اعتراض کریں اور اکابرین کی عبارات کو ہماری کسی بات کے خلاف ثابت کریں، اب اکابر کی عبارت ہمارے خلاف نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اکابر کی عبارات کی توضیح کی جائے تاکہ مطلب سمجھ میں آئے۔
نعمتِ باری تعالیٰ کا بیان:
﴿اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللہَ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً ۚ فَاَخۡرَجۡنَا بِہٖ ثَمَرٰتٍ مُّخۡتَلِفًا اَلۡوَانُہَا ؕ وَ مِنَ الۡجِبَالِ جُدَدٌۢ بِیۡضٌ وَّ حُمۡرٌ مُّخۡتَلِفٌ اَلۡوَانُہَا وَ غَرَابِیۡبُ سُوۡدٌ ﴿۲۷﴾ وَ مِنَ النَّاسِ وَ الدَّوَآبِّ وَ الۡاَنۡعَامِ مُخۡتَلِفٌ اَلۡوَانُہٗ کَذٰلِکَ ؕ اِنَّمَا یَخۡشَی اللہَ مِنۡ عِبَادِہِ الۡعُلَمٰٓؤُا ؕ اِنَّ اللہَ عَزِیۡزٌ غَفُوۡرٌ ﴿۲۸﴾﴾
فرمایا کہ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کے ذریعے مختلف رنگوں کے پھل اگائے اور پہاڑوں کے بھی مختلف رنگ ہیں سفید بھی ہیں، سرخ بھی ہیں، سخت سیاہ بھی ہیں اور اسی طرح انسانوں، جانوروں اور مویشیوں میں بھی ایسے ہیں جن کے رنگ بھی مختلف ہیں۔ اللہ سے اس کے نیک بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں، علماء ہیں۔ بے شک اللہ تعالیٰ غالب ہے اور مغفرت کرنے والا ہے۔
﴿اِنَّمَا یَخۡشَی اللہَ مِنۡ عِبَادِہِ الۡعُلَمٰٓؤُا﴾
اس جگہ
”کَذٰلِکَ“
کا تعلق یا
”اِنَّمَا“
کے ساتھ ہے کہ جس طرح پھلوں کے، پہاڑوں کے، انسانوں کے اور جانوروں کے رنگ مختلف ہیں اسی طرح علماء بھی اللہ سے ڈرنے میں مختلف ہیں، بعض کم ڈرتے ہیں بعض زیادہ ڈرتے ہیں۔ یا
”کَذٰلِکَ“
کاتعلق
﴿وَ مِنَ النَّاسِ وَ الدَّوَآبِّ وَ الۡاَنۡعَامِ مُخۡتَلِفٌ اَلۡوَانُہٗ﴾
کے ساتھ ہے یعنی جس طرح پھلوں کے رنگ مختلف ہیں، پہاڑوں کے رنگ مختلف ہیں اسی طرح انسانوں، جانوروں اور مویشیوں کے رنگ بھی مختلف ہیں۔
خشیت کی بنیاد علم پر ہے، جتنا بڑا عالم ہو گا اتنی زیادہ اس کے دل میں خشیت الہیہ ہو گی۔
﴿اِنَّمَا یَخۡشَی اللہَ مِنۡ عِبَادِہِ الۡعُلَمٰٓؤُا﴾
یہ مستقل بات ہے۔ پیچھے اللہ تعالیٰ نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا تھا:
﴿اِنَّمَا تُنۡذِرُ الَّذِیۡنَ یَخۡشَوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَیۡبِ﴾
کہ آپ کے ڈرانے کا نفع ان لوگوں کو ہوتا ہے جو اللہ سے بِن دیکھے ڈرتے ہیں، اب اسی مناسبت سے فرمایا کہ بن دیکھے وہی لوگ ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں، جن کا علم صحیح ہو وہ ڈرتے ہیں، باقی بندے ڈرنے والے نہیں ہیں۔
خشیتِ الہیہ عالم کی خصوصیت:
یہ جو
﴿اِنَّمَا﴾
کلمۂ حصر فرمایا تو بظاہر اس سے شبہ یہ ہوتا ہے کہ صرف علماء اللہ سے ڈرتے ہیں اور غیر علماء اللہ سے نہیں ڈرتے! حالانکہ علماء بھی ڈرتے ہیں اور غیر علماء بھی ڈرتے ہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ
﴿اِنَّمَا﴾
ہمیشہ حصر کے لیے نہیں آتا، بسا اوقات خصوصیت کے لیے بھی آتاہے۔ تو یہاں یہ حصر کے لیے نہیں ہے بلکہ خصوصیت کے لیے ہے کہ اہلِ علم کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ اللہ سے ضرور ڈرتے ہیں، اب غیر علماء ڈریں تو ڈریں ، نہ ڈریں تو نہ ڈریں لیکن عالم ضرور ڈرتا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ عالم ہو اور نہ ڈرے۔ اس کو ذہن میں رکھیں!
پھر خشیت دو قسم کی ہے؛ ایک ہے خشیتِ اعتقادی اور ایک ہے خشیتِ حالی۔ خشیتِ اعتقادی کا معنی کہ بندے کا اعتقاد ہے کہ نہ مانیں تو اللہ سزا دیتے ہیں اور مانیں تو اللہ اچھی جزا دیتے ہیں، جو اعتقادی خشیت ہوتی ہے اس کے ساتھ عبادات تکلفاً ہوتی ہیں، جبراً ہوتی ہیں، شوق سے نہیں ہوتیں، رغبت سے نہیں ہوتیں اور جب خشیت صرف اعتقادی نہ ہو بلکہ خشیت حالی بھی ہو یعنی یہ خشیت آدمی کے دل میں یوں پختہ اور غالب آ جائے کہ انسان کی حالت اور کیفیت بن جائے، اس وقت آدمی جو عبادات کرتا ہے تو وہ صرف تکلفا نہیں ہوتیں بلکہ تقاضائے طبیعت بن جاتی ہیں۔
میں اس کی چھوٹی سی مثال دیتا ہوں کہ جیسے کوئی انسان دوا کھائے اور اس کا ذہن ہو کہ اس دوا کھانے سے بندے کو صحت ملتی ہے تو دوا پسند نہیں ہوتی کھاتا پھر بھی ہے اور اگر ایسی دوا ہو کہ بندے کا ذہن بھی ہو کہ اس سے شفا ملتی ہے اور وہ دوا بندے کو مرغوب بھی ہو تو پھر جب بندہ کھائے گا تو کھانے کا انداز اور ہو گا، اب مجبوراً نہیں کھائے گا بلکہ شوق اور رغبت سے کھائے گا۔ تو اللہ سے ڈرنا اگر صرف اعتقاداً ہو تو عبادت پھر تکلفاً ہوتی ہے اور اگر آدمی اللہ سے ڈرے اور صرف اعتقادا نہیں بلکہ حالاً بھی ڈرے تو پھر عبادت اس کا تقاضۂ بشریت بن جاتی ہے۔
امت کے تین قسم کے افراد:
﴿ثُمَّ اَوۡرَثۡنَا الۡکِتٰبَ الَّذِیۡنَ اصۡطَفَیۡنَا مِنۡ عِبَادِنَا ۚ فَمِنۡہُمۡ ظَالِمٌ لِّنَفۡسِہٖ ۚ وَ مِنۡہُمۡ مُّقۡتَصِدٌ ۚ وَ مِنۡہُمۡ سَابِقٌۢ بِالۡخَیۡرٰتِ بِاِذۡنِ اللہِ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَضۡلُ الۡکَبِیۡرُ ﴿ؕ۳۲﴾﴾
اللہ نے اس امت کی خصوصیت بیان فرمائی ہے۔ فرمایا کہ ہم نے اس کتاب قرآن مجید کا وارث ان لوگوں کو بنایا ہے جن کو ہم نے چن لیا تھا لیکن اس امت کی پھر قسمیں ہیں ؛ بعض ان میں ظالم ہیں، بعض ان میں معتدل ہیں او ربعض نیکیوں میں بہت آگے بڑھے ہوئے ہیں اور یہ بہت بڑا فضل ہے۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے یہ بات ثابت ہے کہ ظالم، معتدل اور سابق بالخیرات یہ تینوں امت محمدیہ کے منتخب افراد ہیں، اللہ نے اس کتاب کے لیے امت محمدیہ کو چنا ہے۔ جن کو چنا ہے ان میں ظالم بھی ہیں، ان میں معتدل بھی ہیں اور ان میں بہت اچھے بھی ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اس امت کا جو سابق بالخیرات ہے یعنی ہروقت نیک اعمال میں آگے بڑھنے والا ہے
”یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ بِغَیْرِحِسَابٍ“
وہ بغیر حساب کے جنت میں داخل ہو گا، اور ان میں جو مقتصد یعنی معتدل ہے
” یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ بِرَحْمَۃِ اللہِ“
وہ اللہ کی رحمت سے جنت میں داخل ہو گا اور اس امت کے ظالم اور اصحاب اعراف
”یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ بِشَفَاعَۃِ مُحَمَّدٍ“
یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کی وجہ سے جنت میں جائیں گے۔
تفسیر ابن کثیر: ج5 ص285
ظالم، معتدل اور سابق بالخیرات کی تعریف:
ظالم، معتدل اور سابق بالخیرات کی تفصیل یہ لکھی ہے کہ․․․

ظالم وہ ہے جو نیکیاں کرے اور گناہوں سے نہ بچے، حلال کام بھی کرتاہے اورحرام بھی کرتاہے۔

اور معتدل وہ ہے جو حلال کا م کرتاہے اور حرام سے بچتاہے لیکن مکروہات سے نہیں بچتا اور مستحبات کو نہیں کرتا۔

اور سابق بالخیرات وہ ہے جو حلال کام کرتاہے اور حرام سے بچتا ہے، مستحبات اپناتا ہے اور مکروہات سے بچتاہے لیکن اس کے باوجود بعض مباح چیزیں جن کے کرنے کی اجازت ہے وہ عبادت میں حد درجہ انہماک یا شبہات کی وجہ سے چھوڑ دیتا ہے۔
جنتی مردوں کا کنگن پہننا:
﴿جَنّٰتُ عَدۡنٍ یَّدۡخُلُوۡنَہَا یُحَلَّوۡنَ فِیۡہَا مِنۡ اَسَاوِرَ مِنۡ ذَہَبٍ وَّ لُؤۡلُؤًا ۚ وَ لِبَاسُہُمۡ فِیۡہَا حَرِیۡرٌ ﴿۳۳﴾﴾
یہ جو ہمیشہ رہنے والے باغات ہیں ان میں مذکورہ لوگ داخل ہوں گے اور وہاں ان کو سونے کے کنگن اور موتیوں سے مزین کیا جائے گااور ان باغات میں ان کا لباس ریشم ہو گا۔
بعض روایات میں ہے کہ دائیں ہاتھ میں سونے کے کنگن ہوں گے او ر بائیں ہاتھ میں موتیوں اور جواہرات کے کنگن ہوں گے۔ یہ کبھی ذہن میں نہ لانا کہ زیورات پہننا تو عورتوں کا کام ہے تو جنت میں مرد زیور کیوں پہنیں گے؟ اس لیے کہ موت کے بعد جنت کے احوال الگ ہیں اور دنیاکے احوال الگ ہیں، اس لیے جنت والے معاملات کودنیا پر قیاس کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ آدمی دنیا میں شراب پیتا ہے تو بالکل حرام ہے او رجب جنت میں شراب پیے گا تو بالکل حلال اور پاکیزہ ہے۔
کافر کے عذاب میں تخفیف نہیں ہو گی:
﴿وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَہُمۡ نَارُ جَہَنَّمَ ۚ لَا یُقۡضٰی عَلَیۡہِمۡ فَیَمُوۡتُوۡا وَ لَا یُخَفَّفُ عَنۡہُمۡ مِّنۡ عَذَابِہَا ؕ کَذٰلِکَ نَجۡزِیۡ کُلَّ کَفُوۡرٍ ﴿ۚ۳۶﴾﴾
جو لوگ کافر ہیں ان کا ٹھکانا جہنم کی آگ ہے اور جہنم میں ایسا نہیں ہو گا کہ ان کا فیصلہ ہی کر دیا جائے کہ وہ مر جائیں یعنی ان پر موت نہیں آئے گی اور نہ ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا۔ ہم اسی طرح بدلہ دیتے ہیں ہر کافر کو۔
اس پر اعتراض یہ ہے کہ صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ ابوطالب جہنم میں جائیں گے اور ان کے عذاب میں تخفیف ہو گی کہ صرف ان کو آگ کے جوتے پہنا دیے جائیں گے جن کی وجہ سے ان کا دماغ ہنڈیا کی طرح ابلے گا۔ قرآن کریم کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ عذاب میں کمی نہیں ہو گی اور بخاری کی حدیث سے پتا چلتا ہے کہ عذاب میں تخفیف ہو گی۔ تو بظاہر یہ حدیث قرآن کریم کے خلاف ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ جو فرمایا :
﴿وَ لَا یُخَفَّفُ عَنۡہُمۡ مِّنۡ عَذَابِہَا﴾
کہ ان کفار کے عذاب میں تخفیف نہیں ہو گی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جس قدر عذاب کے وہ مستحق ہوں گے اس میں تخفیف نہیں ہو گی۔ ابو طالب نے چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بہت ساتھ دیا ہے اس لیے ان کے لیے اتنا عذاب ہے کہ ان کے پاؤں میں آگ کے جوتے ڈال دیے جائیں گے، وہ اسی کے مستحق ہیں۔ ان کا عذاب اس سے کم نہیں ہو گا۔ اس میں پھر تخفیف کا لفظ کیوں استعمال ہوا ہے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا عذاب چونکہ عام کافروں کی نسبت کم ہے تو اس کمی پر صورت تخفیف کی تھی اس لیے وہاں تخفیف کا لفظ استعمال ہواہے۔ اب اشکال ختم ہو جائے گا۔
کافر اور مؤمن کی سزا میں فرق:
﴿کَذٰلِکَ نَجۡزِیۡ کُلَّ کَفُوۡرٍ ﴿ۚ۳۶﴾﴾
ہم اسی طرح بدلہ دیتے ہیں ہر کافر کو۔
اس سے پچھلی سورۃسبا میں تھا :
﴿وَ ہَلۡ نُجٰزِیۡۤ اِلَّا الۡکَفُوۡرَ ﴿۱۷﴾﴾
سبا 34: 17
کہ ہم صرف کافر ہی کو بدلہ دیتے ہیں۔
اب ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف کافر کو کفر کی سزا دیں گے باقی کسی اور کو سزا نہیں دیں گے حالانکہ مؤمن بھی اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے جہنم میں جائے گا۔ تو مؤمنوں کو بھی تو سزا ہو گی صرف کافروں کو تو نہیں ہو گی!
اس کا جواب اچھی طرح سمجھیں! ایک جواب تو یہ ہے کہ اللہ مؤمن کو ایسا عذاب نہیں دیتے جیسے قوم سبا کافر کو دیا ہے کہ ان کو تباہ وبرباد کر کے صفحۂ ہستی سے مٹا دیا تھا، تو اس طرح کا عذاب اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو نہیں دیتے۔
اور دوسرا جواب یہ ہے کہ اللہ کافر کو تو عذاب دیتے ہیں لیکن مؤمن کو جو سزا دیتے ہیں اس کو ”عذاب“ نہیں کہا جاتا کیونکہ عذاب کہتے ہیں
”إِیْلَامُ الْحَیِّ عَلٰی سَبِیْلِ الْھَوَانِ“
کہ زندہ آدمی کو تکلیف دینا ذلیل کرنے کے لیے۔ کافر کو اللہ جہنم میں بھیج کر تکلیف دیں گے ذلیل کرنےکے لیے اور مؤمن کو اللہ جہنم میں بھیجیں گے تو وہ ذلیل کرنے کے لیے نہیں بلکہ پاک کرنے کے لیے بھیجیں گے کیونکہ اس نے جنت میں جانا ہے اور جنت میں ناپاک آدمی نہیں جاتا۔
اس بات کو
﴿وَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ﴿۹۰﴾﴾
البقرۃ2: 90
کے تحت حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر عثمانی میں لکھاہے۔
تفسیر عثمانی: ج3 ص95
، ﴿وَ یَخۡلُدۡ فِیۡہٖ مُہَانًا﴿٭ۖ۶۹﴾﴾
الفرقان25: 69
کے تحت حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان القرآن میں لکھاہے
بیان القرآن: ج3 ص23
اور سورۃ سبا کی اس آیت
﴿وَ ہَلۡ نُجٰزِیۡۤ اِلَّا الۡکَفُوۡرَ ﴿۱۷﴾﴾
کے تحت مفتی محمد شفیع صاحب نے معارف القرآن میں لکھاہے۔
معارف القرآن: ج7 ص284
یہ جو بات میں کہہ رہاہوں کہ کافر کو جہنم میں سزا ہو گی ذلیل کرنے کے لیے اور اہانت کے لیے اور اگر مسلمان کو جہنم میں بھیجا بھی گیا تو پاک کرنے کے لیے بھیجا جائے گا اگر اس کے خلاف اکابر کا کوئی حوالہ آپ کو ملے تواس میں آپ کو تاویل کرنی پڑے گی۔ مثلاً سورۃ آل عمران میں ہے:
﴿رَبَّنَاۤ اِنَّکَ مَنۡ تُدۡخِلِ النَّارَ فَقَدۡ اَخۡزَیۡتَہٗ﴾
آل عمران 3: 192
یہاں اس آیت کے تحت تفسیر عثمانی میں علامہ عثمانی بھی لکھتے ہیں کہ
”جو شخص جتنی دیر دوزخ میں رہے گا اسی قدر رسوائی سمجھو۔ اس قاعدہ سے دائمی رسوائی صرف کفار کے لیے ہے۔ جن آیات میں عامۂ مومنین سے خِزی (رسوائی) کی نفی کی گئی ہے وہاں یہ ہی معنی سمجھنے چاہییں۔
تفسیر عثمانی: ج1 ص359
تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ حقیقتاً رسوا کرنے کے لیے نہیں ہو گا بلکہ صورتاً رسوائی ہو گی، اس لیے صورتاً رسوائی کی وجہ سے اس پر لفظ
”خزی“
کا اطلاق کر دیاگیا۔
بری تدبیر کا نتیجہ خود پر لَوٹتا ہے:
﴿وَ لَا یَحِیۡقُ الۡمَکۡرُ السَّیِّیُٔ اِلَّا بِاَہۡلِہٖ﴾
جو شخص کسی دوسرے کے بارے میں بری تدبیرکرتا ہے تو بری تدبیر کا نتیجہ خود اسی کو بھگتنا پڑتا ہے، دوسرے کا نقصان نہیں ہوتا۔ اس لیے کسی اپنے کے خلاف کبھی بھی کوئی بری تدبیر اختیار نہ کریں۔
اس پر سوال ہوتا ہے کہ بسا اوقات کوئی انسان کسی کے خلاف بری تدبیر کرتا ہے اور جس کے خلاف بری تدبیر کرتا ہے اس کو نقصان بھی ہوتا ہے، تو اس کا کیا معنی کہ نقصان اسی کا ہوتاہے جو کسی دوسرے کا نقصان سوچتا ہے حالانکہ جس کے خلاف تدبیر کی ہے نقصان تو اس کا بھی ہوتا ہے۔اس کا جواب یہ ہے کہ جس شخص کے خلاف تدبیر کی ہے اس کا نقصان یقینی نہیں ہوتا، کبھی دنیا کا نقصان ہو گا کبھی نہیں ہوگا اور جس نے نقصان کیا اور دوسرے کے خلاف تدبیر کی اس کا اخروی نقصان یقینی ہے۔
اور دوسرا جواب یہ ہے کہ جس نے تدبیر کی ہے اس کا بہت بڑا نقصان ہو گا جہنم میں اور جس کے خلاف تدبیر کی اگر اس کا کچھ نقصان ہو بھی گیا تو اس کے جہنم کے نقصان کے مقابلے میں اس کا دنیوی نقصان اتنا چھوٹا ہو گا کہ اس کو نقصان کہنا ہی نہیں چاہیے۔
اور تیسرا جواب یہ ہے کہ جس کے خلاف تدبیر کی ہے اور اس کا کچھ نقصان بھی ہو گیا تو اس کا یہ نقصان بہت کم ہے، اس ظاہری نقصان کےبدلے میں اس کو جنت میں جو نعمتیں ملیں گی، جو اس کو راحت ملے گی تو اس کو نقصان نہیں کہنا چاہیے۔ جیسے دنیا میں کسی شخص پر بیماری آ جائے اور اس کے بدلے میں جنت کی نعمتیں ملیں تو یہ بیماری راحت اور رحمت بن جاتی ہے۔ اسی طرح اس شخص کا بظاہر نقصان ہے لیکن جب اس کا انعام ملے گا تو یہ نقصان بھی اس کو رحمت نظر آئے گا۔
کافر کے عذاب کے ساتھ جانوروں کی ہلاکت کیوں؟
﴿وَ لَوۡ یُؤَاخِذُ اللہُ النَّاسَ بِمَا کَسَبُوۡا مَا تَرَکَ عَلٰی ظَہۡرِہَا مِنۡ دَآبَّۃٍ﴾
یہاں
﴿النَّاسَ﴾
سے مراد کافر ہے اور
﴿بِمَا کَسَبُوۡا﴾
سے مراد کفر ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ اعمالِ کفریہ کی وجہ سے سزا دیں تو اس زمین پر کسی ذی روح کو نہ چھوڑیں، چاہے وہ جانور ہو یا انسان ہو۔
اس پر سوال یہ ہے کہ کافر کو اعمالِ کفر کی وجہ سے اگر سزا دی جائے تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن اس کو سزا دیں اور کسی ذی روح کو بھی زندہ نہ چھوڑیں تو ذی روح کا کیا قصور ہے؟ اگر ذی روح مؤمن ہے تو اس کو تو سزا نہیں دینی چاہیے اور اگر جانور ہے تو وہ احکام کا مکلف ہی نہیں تو پھر اس کو سزا کیوں؟
اس کا جواب سمجھیں! جب اہل کفر بڑھ جائیں گےاور ایمان والے کم ہو جائیں گے تو پھر یوں سمجھو کہ دنیا کی بقاء کا مقصد ختم ہو گیا۔ دنیا کے پیدا کرنے کا مقصد تو یہ تھا کہ بندوں کا امتحان ہو، اللہ نے خیر کو بھی پیدا فرمایا اور شر کو بھی پیدا فرمایا، اب کوئی شر کو اختیار کرے گا اور کوئی خیر کو اختیار کرے گا تو یہ ان کا امتحان ہو گا۔ جب شر بہت غالب ہو گا اور خیر بالکل مغلوب ہو کر رہ جائے گی اب دنیا کو ختم کر دینا چاہیے کہ دنیا کا مقصد ہی ختم ہو گیا۔
اور دوسری بات یہ ہے کہ یہ جو مؤمن کو ختم کریں گے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ کافر کو کفر کی وجہ سے جو عذاب ہوا ہے مؤمن بھی اسی عذاب کی وجہ سے ختم ہو گا بلکہ بات یہ ہے کہ ختم مؤمن بھی ہو گا لیکن اس کے ختم ہونے کا سبب کوئی اور ہوگا کافر کو ملنے والا عذاب اس کا سبب نہیں ہوگا، اور یہ جو جانور زندہ نہیں رہیں گے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جانور انسانوں کے لیے ہیں، جب انسانوں کو نہیں رکھنا تو جانور کو رکھنے کا کچھ بھی فائدہ نہیں۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ