سورۃ الحشر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ الحشر
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿سَبَّحَ لِلہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الۡاَرۡضِ ۚ وَہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۱﴾﴾
ابتدائی آیات کا شانِ نزول:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ تشریف لائے تو مدینہ میں وہ اسباب جن سے دین مضبوط ہوتا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سارے اختیار فرمائے۔ ان میں ایک یہ تھا کہ مدینہ منورہ میں یہود بستے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے معاہدے کیے۔ ان معاہدات میں ایک بنیادی شق یہ تھی کہ اگر یہود پر کسی نے حملہ کیا تو ہم تعاون کریں گے اور ہم پر کسی دشمن نے حملہ کر دیا تو یہود ساتھ دیں گے۔ اگر یہود کے بندے سے قتل ہو گیا تو دیت میں ہم ساتھ شریک ہوں گے اور اگر ہمارے بندے سے قتل ہو گیا تو دیت میں یہود شریک ہوں گے۔ یہ معاہدہ تھا۔
بیر معونہ کا واقعہ:
اس معاہدے کے تحت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ میں تھے تو بیر معونہ کا واقعہ پیش آیا کہ ایک قبیلہ کے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے کہ کچھ معلمین بھیجیں جو ہمارے قبائل کو دین سکھائیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ستر صحابہ کو بھیجا۔ راستے میں انہوں نے عہد شکنی کی اور ان صحابہ کو شہیدکر دیا۔ ان ستر میں سے صرف ایک عمرو بن امیہ ضمری بچ گئے اور بھاگنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ واپس آ رہے تھے تو راستے میں ان کا دو کافروں سے وا سطہ پڑا۔ انہوں نے یہ سمجھ کر کہ یہ کافر ہیں، مخالف ہیں، ان پر حملہ کر کے دونوں کو قتل کر دیا۔ جب یہ دونوں کو قتل کر کے مدینہ منورہ پہنچے تو پتا چلا کہ وہ دونوں قبیلہ بنی عامر کے افراد تھے اور بنی عامر وہ قبیلہ تھا کہ جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معاہدہ تھا۔ اب معاہدے کے رو سے ان کو مارنا جائز نہیں تھا لیکن ان کوپتا نہیں تھا کہ یہ بنو عامر قبیلہ کے ہیں، انہوں نے غلطی سے مار دیا۔ تو جب غلطی سے مارا تو اب قصاص تو تھا نہیں ۔ البتہ دیت آتی تھی ۔
بنو نضیر کی عہد شکنی اور جلا وطنی:
تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ بنو نضیر کے پاس گئے جو یہودی تھے کہ چونکہ دیت ہے اور ہم سب نے مل کر ادا کرنی ہے، اس لیے کچھ رقم ہم جمع کریں اور کچھ تم جمع کرو۔ بنونضیر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ٹھیک ہے، آپ یہاں تشریف رکھیں ، ہم مال جمع کرتے ہیں، اور انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ جس مقام کے نیچے آپ تشریف فرما ہیں اوپر سے بڑا پتھر گراؤ تاکہ آپ یہیں قتل ہو جائیں اور معاملہ ختم ہو جائے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آ گئی، اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دیا تو آپ وہاں سے اٹھ کر مدینہ منورہ تشریف لے آئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جمع فرمایا اور بنو نضیر کو پیغام بھجوا دیا کہ تم نے وعدہ خلافی کر کے معاہدہ کو توڑ دیا ہے، اب ہمارا تمہارا معاہدہ ختم ہو گیا، لہذا اب تمہیں دس دنوں کی مہلت دی جاتی ہے کہ تم اپنا سامان اٹھاؤ اور یہا ں سے نکل جاؤ، ہم تمہیں کچھ نہیں کہتے۔ لیکن بنو نضیر اس کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ جب تیار نہیں ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو لے کر گئے اور باقاعدہ جہاد کا اعلان کیا کہ ان کو ختم کر دیتے ہیں۔ یہ سارے لوگ قلعہ بند ہو گئے۔ اب ان کے جو درخت تھے صحابہ کرام نے جلانے شروع کر دیے تاکہ ان کو تکلیف ہو، بعض صحابہ کرام نے نہیں جلائے کہ نبونضیر جب چلیں جائیں گے تو یہ درخت ہمارے کام آئیں گے۔ جب انہوں نے سمجھا کہ اب ہماری جان بخشی کی کوئی صورت ممکن نہیں، شاید ہم ختم ہو جائیں تو پھر ان لوگوں نے کہا کہ آپ ہمیں اجازت دیں کہ ہم مدینہ چھوڑ کے چلے جاتے ہیں۔ تو اکثر ان میں سے شام کے علاقے میں چلے گئے اور کچھ ان میں سےخیبر میں چلے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے جتنا سامان ایک بندہ ایک اونٹ پر لاد سکتا ہے لے جائے، ان لوگوں نے گھروں کے دروازے، چارپائیاں اور جو کچھ اٹھا سکتے تھے اٹھا کر وہاں سے چلے گئے۔
یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت بڑی وسعتِ ظرفی تھی کہ وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مارنا چاہتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں کہ مدینہ چھوڑ کے جہاں جانا چاہو چلے جاؤ ۔ یہ الگ بات ہے کہ اس حکمت عملی میں حکمتیں بہت زیادہ تھیں لیکن آپ نے وسعت ظرفی کا مظاہرہ فرمایا۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔
یہود کی دو مرتبہ جلا وطنی:
﴿سَبَّحَ لِلہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ۚ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۱﴾ ہُوَ الَّذِیۡۤ اَخۡرَجَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ مِنۡ دِیَارِہِمۡ لِاَوَّلِ الۡحَشۡرِ﴾
جو بھی آسمانوں اور زمین میں ہیں وہ اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور وہ غالب حکمت والا ہے۔ وہی ہے جس نے اہلِ کتاب کے کافر لوگوں کو ان کے گھروں سے پہلی مرتبہ نکالا تھا۔
”لِاَوَّلِ الۡحَشۡرِ“
یعنی پہلی مرتبہ کیوں فرمایا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے قبل یہود کے ساتھ ایسا واقعہ پیش نہیں آیا تھا کہ ان کو اپنے گھروں سے جلا وطن کیا گیا ہو۔ یہ پہلی بار ہوا تھا۔ یہاں ”پہلی بار“ کہنے میں ایک لطیف اشارہ یہ ہے کہ اب بھی نکالا ہے اور ایک وقت بعد میں بھی آئے گا کہ ان کو دوسری مرتبہ بھی ان کے گھروں سے نکالا جائے گا۔تو مدینہ سے نکل کر ان میں سے جو لوگ شام چلے گئے تھے وہ تو چلے گئے، بعض لوگ خیبر میں رک گئے تھے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں ان کو خبیر سے بھی نکا لا۔ تو یہ سارے کے سارے پھر شام میں چلے گئے تھے۔
یہود کا گمانِ باطل:
﴿مَا ظَنَنۡتُمۡ اَنۡ یَّخۡرُجُوۡا وَ ظَنُّوۡۤا اَنَّہُمۡ مَّانِعَتُہُمۡ حُصُوۡنُہُمۡ مِّنَ اللہِ فَاَتٰىہُمُ اللہُ مِنۡ حَیۡثُ لَمۡ یَحۡتَسِبُوۡا ٭ وَ قَذَفَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمُ الرُّعۡبَ﴾
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں یہاں ان کے قلعے اتنے زیادہ مضبوط تھےکہ تمہارا بھی خیال نہیں تھا کہ وہ باہر نکلیں گے اور خود ان کا بھی خیال یہی تھا کہ ان کے قلعے ان کو اللہ سے بچا لیں گے لیکن اللہ تعالی نے ان کو ایسے پکڑا کہ ان کو جہاں سے گمان بھی نہیں تھا! اور اللہ تعالی نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔
﴿یُخۡرِبُوۡنَ بُیُوۡتَہُمۡ بِاَیۡدِیۡہِمۡ وَ اَیۡدِی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ٭ فَاعۡتَبِرُوۡا یٰۤاُولِی الۡاَبۡصَارِ ﴿۲﴾﴾
وہ لوگ اپنے مکانات کو اپنے ہاتھو ں سے اور مسلمانوں کے ہاتھوں سے توڑ رہے تھے ۔ اے آنکھوں والو! اس واقعے سے عبرت حاصل کرو!
مطلب کہ مؤمن بھی ان کے مکانات کو توڑ رہے تھے اور یہود خود بھی توڑ رہے تھے۔
”وَ اَیۡدِی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ “
کہ مسلمانوں کے ہاتھوں سے توڑ رہے تھے ... یہ ایسے تھا جیسے کوئی رضا مند ہوتا ہےحالانکہ اس میں بنو نضیر کی رضا مندی نہیں تھی لیکن چونکہ انہوں نے جانا تھا تو مسلمان بھی ان کے کوا ڑ توڑ توڑ کر ان کے حوالے کرتے رہے کہ یہ لو اپنا سامان اور نکل جاؤ یہاں سے! اس سے ایک تو ان کا غیظ وغضب بڑھتا اور دوسرا اس سے مسلمانوں کی طاقت کا اظہار ہوتا۔ اس وجہ سے وہ مسلمان بھی ان کے مکانات توڑتے رہے۔
دنیا میں جلا وطنی اور آخرت میں عذاب کی وجہ:
﴿وَ لَوۡ لَاۤ اَنۡ کَتَبَ اللہُ عَلَیۡہِمُ الۡجَلَآءَ لَعَذَّبَہُمۡ فِی الدُّنۡیَا ؕ وَ لَہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ عَذَابُ النَّارِ ﴿۳﴾﴾
ا گر اللہ تعالی ان کے بارے میں یہ جلا وطنی کا فیصلہ نہ فرماتے تو ان پر دنیا میں عذاب آ جاتا اور یہ ختم ہو جاتے۔تو قتل کا عذاب نہیں آیا بلکہ ان کو جلا وطن کر کے روانہ کر دیا گیا اور آخرت میں ان کے لیے پھر ایک عذاب ہو گا جہنم کا۔
﴿ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ شَآقُّوا اللہَ وَ رَسُوۡلَہٗ ۚ وَ مَنۡ یُّشَآقِّ اللہَ فَاِنَّ اللہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ ﴿۴﴾ ﴾
اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی تھی اور جو اللہ کی مخالفت کرے تو وہ سمجھ لے کہ اللہ سخت پکڑ فرماتے ہیں۔
تو دنیا میں جلا وطنی کا عذاب تھا نقضِ عہد کی وجہ سے اور آخرت میں ان کو عذاب ہو گا دنیا میں عدمِ ایمان کی وجہ سے کہ ان میں ایمان نہیں تھا۔ ایمان نہ ہونے کی اصل سزا آخرت میں ہوتی ہے اور نقضِ عہد کی سزا دنیا میں ہوتی ہے۔ تو جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی اور عہد توڑا تو اس کی سزا دنیا میں مل گئی اور پیغمبر کی مخالفت کی اور ایمان نہیں لائے تو اس کی سزا ان کو پھر آخرت میں دی جائے گی۔
صحابہ کرام کا اجتہادی اختلاف:
﴿مَا قَطَعۡتُمۡ مِّنۡ لِّیۡنَۃٍ اَوۡ تَرَکۡتُمُوۡہَا قَآئِمَۃً عَلٰۤی اُصُوۡلِہَا فَبِاِذۡنِ اللہِ وَ لِیُخۡزِیَ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿۵﴾﴾
تم نے جو درخت کاٹے یا جنہیں نہ کاٹا تو یہ اللہ کے حکم سے ہی تھا اور یہ اس لیے ہوا تاکہ اللہ فاسق اور گناہگاروں کو رسوا کرے۔
بعض مسلمانوں نے درخت کاٹ دیے اور بعضوں نے نہیں کاٹے۔ جنہوں نے کاٹے ان کا مقصد یہ تھا کہ جب ہم ان کے درخت کاٹیں گے تو یہودیوں کی تکلیف بڑھے گی اور ہماری طاقت کا اظہار ہو گا اور جنہوں نے نہیں کاٹے ان کی منشا یہ تھی کہ یہود چلے جائیں گے تو یہ درخت ہمارے کام آ جائیں گے۔ تو رائے دونوں کی اپنی جگہ پر ٹھیک ہے۔ ان میں کسی کی رائے تو غلط نہیں تھی۔ اس لیے اللہ نے فرمایا کہ جنہوں نے درخت کاٹے اور جنہوں نے چھوڑ دیے یہ سب اللہ کے حکم سے تھا۔
اجتہادی اختلاف میں مددِ خدا شامل حال ہوتی ہے:
اب دیکھو! یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجتہاد تھا درختوں کو کاٹنا اور نہ کاٹنا اور ان کے اجتہاد کو اللہ نے
”فَبِاِذۡنِ اللہِ“
فرمایا کہ یہ اللہ کا حکم ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو اجتہاد ہوتا ہے وہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے، بندے کی ذات اس میں شامل نہیں ہوتی، یہی وجہ ہے کہ اگر اجتہاد درست ہو جائے تو دو اجر ملتے ہیں اور اگر اجتہاد میں خطا ہو جائے تو ایک اجر پھر بھی ملتا ہے، اس لیے
”فَبِاِذۡنِ اللہِ“
فرمایا۔
اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ ان کا ایسا کرنا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے ساتھ تھا کہ تم چاہو تو درخت چھوڑ دو اور چاہو تو درخت کاٹ دو! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجازت دینا اور پھر اللہ تعالیٰ کا اس کو
”فَبِاِذۡنِ اللہِ“
سے تعبیر کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی احادیث پر عمل کرنا ایسا ہی ضروری ہے جس طرح قرآن کریم پر عمل کرنا ضروری ہے ۔
اکابرین کے اختلاف کی توجیہہ:
یہاں سے ایک بات جو سمجھ آتی ہے -میں نے کہیں پڑھی نہیں ہے لیکن سمجھ آتی ہے -کہ جس وقت انگریز برصغیر میں آیا اور ان کو نکالنے کی تحریک چلی تو اس وقت ہمارے اکابرین میں سے حضرت مدنی اور حضرت تھانوی رحمہما اللہ کی رائے میں اختلاف تھا۔ حضرت مدنی رحمہ اللہ کی رائے یہ تھی کہ انگریز کی فوج میں بھرتی ہونا حرام ہے، کیوں کہ اگر ان کی فوج میں مسلمان شامل ہوں گے تو مسلمان؛ مسلمانوں کو قتل کریں گے تو بہت بڑا گناہ ہو گا۔ حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی رائے یہ تھی کہ نہیں، انگریز کی فوج میں بھرتی ہونا جائز ہے، کیوں کہ یہ بات تو طے شدہ ہے کہ انگریز نے چلا جانا ہے تو اگر مسلمان فوج میں ہوں گے تو آئندہ فوج مسلمانوں کی ہو گی، اگر مسلمان شامل نہیں ہوں گے تو آئندہ فوج کافروں کی ہو گی، تو پہلے بھی کافر ہیں اور ان کے جانے کے بعد پھر کافر ہوں گے، ہم ایک کافر کو نکالیں گے تو دوسرا سوار ہو گا، اس لیے فوج میں اپنے افراد ہونے چاہییں ۔حضرت مدنی رحمہ اللہ نے بھی نفع دیکھا اور حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے بھی نفع دیکھا، دونوں کا کا اجتہاد الگ تھا۔
اب یہاں بھی دیکھو! بعض نے کہا کہ ان کے درخت کاٹ دو، کاٹیں گے تو ان کو تکلیف ہو گی ، ان کی شان وشوکت ٹوٹے گی، اسلام کا غلبہ نظر آئے گا اور بعضوں نے کہا کہ ان درختوں کو چھوڑ دو، کیوں کہ جب انہوں نے چلے جانا ہے تو ان کے درختوں سے فائدہ ہمیں ہی ہونا ہے۔
اختلاف محفوظ میں ہو تو دلیل معصوم، عام مجتہدین میں ہو تو دلیل محفوظ:
جس طرح ہمارے اکابر میں اختلاف تھا ایسے ہی حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بھی اختلاف تھا اور یہ بات یاد رکھو کہ جب اختلاف دو ماجور میں ہو تو پھر دلیل میں محفوظ کو پیش کیا جاتا ہے اور جب اختلاف دو محفوظ میں ہو تو پھر دلیل میں معصوم کو پیش کیا جاتا ہے۔ عام مجتہدین میں اختلاف ہو تو ان کا اختلاف کیسا تھا ا س میں صحابہ رضی اللہ عنہم کو پیش کرتے ہیں اور صحابہ رضی اللہ عنہم میں اختلاف تھا تو اس اختلاف کو سمجھانے کے لیے پھر دو نبیوں کو پیش کرتے ہیں جیسے حضرت سلیمان اور حضرت داؤد علیہما السلام کے درمیان اختلاف تھا،حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کے درمیان اختلاف تھا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب تشریف لے گئے تو حضرت ہارون علیہ السلام نے ان بنی اسرائیل کو قتل نہیں کیا جو شرک کرتے تھے ، اور قتل نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اگر میں ان کو قتل کرتا تو آپ کہتے کہ میرے آنے کا انتظار بھی نہیں کیا! اور مجھے آپ فرما کر گئے تھے کہ ان کو اکٹھا کر کے رکھنا، تو میں نے ان کو اکٹھا رکھا! تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ نہیں، میری رائے یہ ہے کہ جو شرک کریں ان کو مارو ۔ حضرت ابوبکر صدیق میں اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہم میں بھی اختلاف ہو رہا ہے کہ بدر کے قیدیوں کو قتل کرو اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ فرما رہے ہیں کہ نہیں، ان کو قتل نہ کرو، شاید اگلی نسل مسلمان ہو جائے۔
تو اس لیے جب دو ماجور مجتہدین میں اختلاف ہو تو پھر دلیل میں ہم محفوظ صحابہ کو پیش کرتے ہیں اور جب محفوظ صحابہ میں اختلاف ہو جائے تو ان کے اختلاف کو سمجھانے کے لیے انبیاء معصوم کو پیش کیا جائے گا ۔
یہ کلیہ یاد رکھو تو بہت ساری مثالوں کو اکٹھا کر سکتے ہو، ان کو بیان کرنے میں بہت فائدہ ہوتا ہے۔
مالِ غنیمت اور مالِ فئی کا حکم:
﴿وَ مَاۤ اَفَآءَ اللہُ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ مِنۡہُمۡ فَمَاۤ اَوۡجَفۡتُمۡ عَلَیۡہِ مِنۡ خَیۡلٍ وَّ لَا رِکَابٍ وَّ لٰکِنَّ اللہَ یُسَلِّطُ رُسُلَہٗ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۶﴾﴾
اور اللہ نے جو مال اپنے نبی کو فئی کے طور پر عطا فرماتا ہے تو یہ ایسا مال ہے جس کے لیے تم نے نہ اپنے گھوڑے دوڑائے نہ اونٹ دوڑائے، لیکن اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے غلبہ عطا فرما دیتا ہے، اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
کافر سے حاصل ہونے والا مال دو قسم کا ہوتا ہے:
ایک مال وہ ہوتا ہے کہ جنگ و جدل اور قتل و قتال کے بعد حاصل ہو اور ایک مال وہ ہے کہ جو بغیر لڑائی کے حاصل ہو۔ تو جو مال لڑائی کے بعد حاصل ہوتا ہے اس کو مالِ غنیمت کہتے ہیں اور جو مال لڑائی کے بغیر حاصل ہو جائے اس کو مالِ فئی کہتے ہیں ۔ مالِ غنیمت میں پانچواں حصہ بیت المال کا ہوتا ہے اور چار حصے جنگ لڑنے والے مجاہدین میں تقسیم ہوں گے۔ آدمی پیدل ہو تو اس کو ایک حصہ ملتا ہے اور اگر سواری ہو تو اس کو دوگنا حصہ ملتا ہے، ایک اپنا اور ایک سواری کا، اور اگر مالِ فئی ہو تو اس میں غانمین کو کوئی حصہ نہیں ملتا، وہ سارے کا سارا مال اللہ اور اس کے رسول کا ہوتا ہے۔ مالِ غنیمت کےبارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا غَنِمۡتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ فَاَنَّ لِلہِ خُمُسَہٗ وَ لِلرَّسُوۡلِ وَ لِذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ۙ﴾
الانفال8: 41
کہ مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ اللہ، رسول، قریبی رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کا حق ہے۔
اگر آپ شمار کریں تو خُمس کےان حصہ داروں کی تعداد چھ بنتی ہے اور مال فئی میں سارے کا سارا مال اللہ اور اللہ کے رسول کا ہوتا ہے۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی ہے کہ جس کو چاہیں عطا کر دیں ۔
مالِ فئی اور مالِ غنیمت میں اللہ کا حصہ ذکر کرنے کی حکمت:
﴿مَاۤ اَفَآءَ اللہُ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ مِنۡ اَہۡلِ الۡقُرٰی فَلِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوۡلِ وَ لِذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ۙ﴾
اللہ اپنے رسول کو بستیوں کا جو مال فئی کے طور پر عطا کرتا ہے تو یہ اللہ، رسول، قریبی رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کا حق ہے۔
یہاں جب مالِ فئی کے حصہ داروں کو بیان فرمایا تو تعداد چھے ہے۔ یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مالِ فئی کو اپنی ذات، قریبی رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کریں گے اس لیے ان کا ذکر یہاں ہوا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس حصہ داروں کے بیان میں ”فَلِلّٰہِ “کہنے کی کیا ضرورت تھی؟ کہ مالِ فئی اللہ کے لیے بھی ہے۔ اسی طرح جب مالِ غنیمت کے پانچویں حصے کا ذکر فرمایا تو اس میں بھی
﴿فَاَنَّ لِلہِ خُمُسَہٗ﴾
فرمایا کہ پانچویں حصے میں بھی اللہ کا حصہ ہے۔
جواب یہ ہے کہ یہاں
”فَلِلّٰہِ “
اور سورۃ الانفال میں ﴿فَاَنَّ لِلہِ خُمُسَہٗ﴾ کہہ کر یہ بات سمجھانی مقصود ہے کہ ممکن ہے کسی کو شبہ ہو کہ یہ مال کافروں کا ہے اور ناپاک ہے، اور ناپاک مال سے بچنا چاہیے۔ تو اس شبہ کو دور کرنے کے لیے اللہ کا نام شروع میں لیا، اس میں اشارہ ہے کہ دنیا کے سارے مال کے حقیقی مالک اللہ تعالیٰ ہیں اور عارضی ملکیت اللہ بندوں کو دے دیتے ہیں لیکن جب بندہ کفر کر کے اللہ سے بغاوت کرتا ہے تو پھر مال بندے کی عارضی ملکیت سے نکل کر حقیقی مالک اللہ کی ملکیت میں واپس آ جاتا ہے۔ اب یہ مال خالص اللہ کی ملکیت ہے، بندوں کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے۔ جن مستحقین کو اب یہ مال دیا جائے گا تو وہ خالص اللہ کی ملکیت سے دیا جائے گا اس لیے ان کے لیے حلال اور پاک ہو گا، اس میں کسی قسم کا شبہ نہ ہو گا کہ یہ کافروں کی ملکیت تھا۔ بھائی جب یہ اللہ کی مِلک سے مل رہا ہے تو پاکیزہ ہی ہو گا۔ اسی لیے اللہ نے فرمایا:
﴿فَکُلُوۡا مِمَّا غَنِمۡتُمۡ حَلٰلًا طَیِّبًا﴾
الانفال8: 69
کہ یہ مال حلال بھی ہے اور پاک بھی ہے ۔
یہ بالکل ایسے ہی ہےکہ جیسے زمین سے اللہ پانی کا چشمہ نکالیں اور بندہ اس سے پانی پی لے تو یہ پانی پاکیزہ بھی ہے اور حلال بھی ہے۔ تو یہ جو کفار کا مال ہے یہ کفار کی مِلک سے نکل گیا ہے بغاوت کرنے کی وجہ سے، اس لیے یہ مال اب خالص اللہ تعالیٰ کا ہے۔خیر یہ بات سمجھانے کے لیے شروع میں اللہ کا نام لیا ہے۔
یہ جو
”وَ لِذِی الۡقُرۡبٰی“
ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار ان کو جو مال دیا جاتا ہے مالِ غنیمت کے پانچویں حصے میں سے یا مال فئی میں سے تو اس کی دو وجہیں تھی؛ ایک وجہ کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار ہیں اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دینی معاملات میں مدد کی ہےاس لیے ان کا حق بنتا ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ مستحق ہیں، لہذا ان کو بھی دینا چاہیے جس طرح کہ یتیم مستحق ہے، مسکین مستحق ہے، مسافر مستحق ہے اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار بھی مستحق ہیں، تو ان کو بھی دینا چاہیے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد اب یہ تو شق ختم ہو گئی کہ انہوں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی ہے، اللہ کے نبی تو دنیا میں نہیں ہیں اس لیے اب دوسری شق رہ گئی ہے۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رشتہ دار ہو اور مستحق ہو تو اس کو بھی مالِ غنیمت اور مالِ فئی میں سے دیا جا سکتا ہے، پیغمبر کے دور میں اختیار نبی کا تھا اور اس کے بعد دور خلفاء کا ہے اور آج کے دور میں جو امیر ہو گا اس کا اختیار ہو گا، وہ جس کو جتنا چاہے دے دے، یہ اس کی صوابدید پر ہے۔
مالِ فئی کے مصارف بیان کرنے کی حکمت:
﴿کَیۡ لَا یَکُوۡنَ دُوۡلَۃًۢ بَیۡنَ الۡاَغۡنِیَآءِ مِنۡکُمۡ﴾
مالِ فئی کے یہ مصارف کیوں بتائے ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کے آنے سے پہلے رواج یہ تھا کہ جو کمانڈر ہوتا یا حاکم ہوتا غنیمت یا فئی کا مال سارا اسی کا سمجھا جاتا تھا۔ تو فرمایا کہ ایسا نہیں ہے کہ مال صرف اغنیاء اور بڑوں کے درمیان رہے بلکہ اس میں غرباء اور یتیموں کا حصہ بھی رکھا ہے کہ ان کے پاس بھی مال جائے۔
دین کا خلاصہ؛ اوامر اور نواہی:
﴿وَ مَاۤ اٰتٰىکُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوۡہُ ٭ وَ مَا نَہٰىکُمۡ عَنۡہُ فَانۡتَہُوۡا ۚ وَ اتَّقُوا اللہَ ؕ اِنَّ اللہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ ۘ﴿۷﴾﴾
اصل تو یہ ہے کہ مالِ غنیمت میں سے جو خمس ہے اس میں سے اور مالِ فئی میں سے جتنا اللہ کے نبی دیں وہ تم لے لو اور جو نہ دیں تو اس کی وجہ سے تمہارے دلوں میں کدورت نہیں آنی چاہیے ،چونکہ پیغمبر کا صوابدیدی اختیار ہے لیکن یہاں مفسرین نے لکھا ہے کہ اس کا تعلق صرف مالِ فئی کےسا تھ نہیں ہے بلکہ تمام احکامِ شریعت کے ساتھ ہے۔ یہاں
”اٰتٰی“
بمعنی اَمَرَ ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ آگے آ رہا ہے
”نَہٰىکُمۡ “...
نہی کے مقابلے میں امر آتا ہے۔ تو اس کا معنی یہ ہے کہ جس بات کا پیغمبر حکم دیں اس پر عمل کرو اور جس کام سے منع کریں اس سے رک جاؤ۔ تو نہی یہ امر کے مقابلے میں آتی ہے۔
میں آپ سے بارہا کہتا ہوں کہ جب غیر مقلد آپ سے کہتے ہیں کہ تم ایک حدیث پیش کرو کہ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع الیدین سے منع کیا ہو... تو ہم کہتے ہیں کہ تم ان غیر مقلدین سے کہو کہ تم ایک حدیث پیش کرو کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع الیدین کا حکم دیا ہو! کیوں کہ منع کے مقابلے میں حکم آتا ہے اور جب وہ کہیں گے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع الیدین کیا ہے... تو ہم پیش کریں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑا ہے! فعل کے مقابلے میں ترک آتا ہے اور حکم کے مقابلے میں منع آتا ہے۔ تو جب تم روایت حکم والی پیش کرو تو پھر ہم سے منع کا مطالبہ کرو اور جب تم صرف فعل والی پیش کرو گے تو ہم سے منع نہیں بلکہ صرف ترک کا مطالبہ کرو!
تو یہاں
”اٰتٰی“
بمعنی اَمَرَ ہے، دلیل
”نَہٰىکُمۡ “
ہے۔ اسی طرح میں نے آپ سے کہا تھا کہ قرآن کریم میں ہے
﴿یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡخَمۡرِ وَ الۡمَیۡسِرِؕ قُلۡ فِیۡہِمَاۤ اِثۡمٌ کَبِیۡرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ﴾
یہاں اثم سے مراد گناہ نہیں ہے بلکہ اثم سے مراد ضرر ہے، اس کی دلیل
﴿وَ اِثۡمُہُمَاۤ اَکۡبَرُ مِنۡ نَّفۡعِہِمَا﴾
ہے کہ یہاں اثم کے مقابلے میں نفع آ رہا ہے۔ تو جب یہاں نفع ہے تو مقابلے میں کیا ہو گا؟ ضرر! ہاں اگر نفع سے مراد ثواب ہوتا تو پھر اثم سے مراد گناہ ہوتا۔ اسی طرح
”اٰتٰی“
بمعنی اَمَرَ ہے اس لیے کہ اس کے مقابلے میں نہی آ رہا ہے۔
مالِ فئی کے حق دار:
﴿لِلۡفُقَرَآءِ الۡمُہٰجِرِیۡنَ الَّذِیۡنَ اُخۡرِجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمۡ وَ اَمۡوَالِہِمۡ یَبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللہِ وَ رِضۡوَانًا وَّ یَنۡصُرُوۡنَ اللہَ وَ رَسُوۡلَہٗ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوۡنَ ۚ﴿۸﴾﴾
یہ جو فرمایا تھا کہ تم مال رشتہ داروں کو، یتیموں کو، مسکینوں کو اور مسافروں کو دو! جب مستحقین کی بات کی ہے تو اب بطور خاص فرمایا کہ مستحقین میں ان فقراء کو دو جنہوں نے اپنا گھر چھوڑا اللہ کے لیے، ان کی دنیاوی کوئی غرض نہیں ہے،اللہ کی مدد کرتے ہیں اور اللہ کے رسول کی مدد کرتے ہیں اور بہت سچے لوگ ہیں، اس لیے ان کو دو۔
انصار صحابہ کا ایثار:
﴿وَ الَّذِیۡنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَ الۡاِیۡمَانَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ یُحِبُّوۡنَ مَنۡ ہَاجَرَ اِلَیۡہِمۡ وَ لَا یَجِدُوۡنَ فِیۡ صُدُوۡرِہِمۡ حَاجَۃً مِّمَّاۤ اُوۡتُوۡا﴾
اور اسی طرح یہ مال ان انصار کو دو جو پہلے سے ہی دار الاسلام میں رہتے ہیں یعنی مدینہ منورہ میں رہائش پذیر ہیں۔ جو کوئی ان کے پاس ہجرت کر کے آتا ہے تو یہ اس کے ساتھ محبت کرتے ہیں۔ اور ان کو جو مال فئی میں سے ملتا ہے تو ان کو تکلیف نہیں ہوتی بلکہ انصار خوش ہوتے ہیں کہ ہمارے مہاجر بھائیوں کو ملا ہے۔
حدیث پاک میں ہے کہ جب نبو نضیر کا مالِ فئی مسلمانوں کو حاصل ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصارِ مدینہ کے سردار حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ انصار کو میرے پاس بلاؤ۔ جب سب انصارِ مدینہ آ گئے تو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خطبہ دیا جس میں انصارِ مدینہ کی مدح فرمائی کہ انہوں نے مہاجرین کے ساتھ حسنِ سلوک سے کام لیا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دیکھو! یہ مہاجر مکہ سے مدینہ آئے ہیں اور ان کےپاس مکانات نہیں تھے، تم نے ان کو مکانات دیے ہیں، یہ تمہارے مکانوں میں رہتے ہیں۔ اب جو بنو نضیر کا مال فئی ملا ہے تو اگر یہ ہم مہاجرین کو دے دیں تاکہ یہ لوگ تمہارے مکانوں کے بجائے اپنے مکانوں میں ٹھہریں تو تمہاری کیا رائے ہے؟ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو پورا اختیار تھا لیکن پھر بھی مشورہ کیا۔ یہ بات سن کر انصار کے دو بڑے سردار حضرت سعد بن معاذ اور حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہم کھڑے ہوئے ۔ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! ہم یہ چاہتے ہیں کہ مال فئی سارا مہاجرین کو دے دیں اور جو ہمارے مکانوں میں رہتے تھے ان کو ہمارے مکانوں میں بھی رہنے دیا جائے۔ کیا قربانی ہے صحابہ کی رضی اللہ عنہم اجمعین! فتوحات کے دور شروع ہوئے ہیں اور کیا تقریر کر رہے ہیں ان کے سردار کہ حضور! ہماری خواہش ہے کہ جو مالِ فئی ہے بنو نضیر والا وہ سارا ان کو دے دیں اور جو ہمارے مکان ہیں ہم ان سے واپس نہیں لیتے! دنیا میں کوئی ایسی مثالیں تلاش کرنا چاہے تو نہیں کر سکتا جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قائم کیں ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر سارا مال مہاجرین کو دے دیا۔ باقی انصار میں سے سہل بن حنیف اور ابو دجانہ رضی اللہ عنہم یہ دو بہت غریب تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو بھی کچھ عطا فرما دیا۔
خود پر دوسروں کو ترجیح:
﴿وَ یُؤۡثِرُوۡنَ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ وَ لَوۡ کَانَ بِہِمۡ خَصَاصَۃٌ وَ مَنۡ یُّوۡقَ شُحَّ نَفۡسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ۚ﴿۹﴾ ﴾
اور خود فاقہ اور تنگی میں ہوں تب بھی اپنے مہاجر بھائیوں کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں، اور وہ آدمی جس کو بخل سے اللہ بچا لیں بس وہی بندہ کامیاب ہے۔
”بخل“ یہ چھوٹا ہوتا ہے اور”شُح“ یہ بخل کا اعلیٰ درجہ ہوتا ہے۔ اصل میں انسان کی طبیعت میں بخل ہے۔ مال سمیٹنا اور مال سنبھالنا یہ اس کی عام عادت ہے۔ ہاں اگر اللہ کسی کو اس طبیعت کے خلاف کرنے کی توفیق عطا فرما دیں تو بس کیا ہی کہنے! وہ تو بہت کامیاب ہے۔
مالِ فئی میں آئندہ کس کا حصہ ہو گا؟
﴿وَ الَّذِیۡنَ جَآءُوۡ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا اغۡفِرۡ لَنَا وَ لِاِخۡوَانِنَا الَّذِیۡنَ سَبَقُوۡنَا بِالۡاِیۡمَانِ وَ لَا تَجۡعَلۡ فِیۡ قُلُوۡبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا رَبَّنَاۤ اِنَّکَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ ﴿٪۱۰﴾﴾
اور یہ مالِ فئی ان لوگوں کو بھی ملے گا جو اِن صحابہ کے بعد آئیں گے، جو یہ دعا کریں گے کہ اے ہمارے رب! ہماری مغفرت فرما اور ہمارے ان بھائیوں کی بھی مغفرت فرما جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں اور ہمارے دلوں میں ان ایمان والوں کے لیے کینہ نہ آئے۔ بے شک آپ شفقت کرنے والے مہربان ہیں۔
”وَ الَّذِیۡنَ جَآءُوۡ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ“
سے مراد یا تو وہ لوگ ہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد مدینہ منورہ میں آئیں گے... یا مراد وہ ہیں جو صحابہ کے بعد ایمان قبول کریں گے... یا بعد سے مراد کہ دنیا میں ان صحابہ کے بعد آئیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ مالِ فئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے،آپ کےرشتہ داروں کا ہے،یتیموں کا ہے، مساکین کا ہے،مسافروں کا ہے اور مہاجرین صحابہ کاہے ،انصار صحابہ کا ہے اور ان کے بعد جو اہلِ ایمان آنے والے ہیں ان کا بھی ہے۔یہ ہمیشہ کے لیے مالِ فئی کا ضابطہ ہے، یہ صرف اس دور کا نہیں تھا۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اللہ نے بعد والے مؤمنین کو پابند کیا ہے کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے استغفار اور دعائیں کریں۔
اور یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے لیے بُری رائے اپنے ذہن میں رکھنا جائز نہیں ہے بلکہ تمام مؤمنین ؛ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے دعا کرنے کے پابند ہیں ۔
منافقین کی وعدہ خلافی:
﴿اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ نَافَقُوۡا یَقُوۡلُوۡنَ لِاِخۡوَانِہِمُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ لَئِنۡ اُخۡرِجۡتُمۡ لَنَخۡرُجَنَّ مَعَکُمۡ وَ لَا نُطِیۡعُ فِیۡکُمۡ اَحَدًا اَبَدًا ۙ وَّ اِنۡ قُوۡتِلۡتُمۡ لَنَنۡصُرَنَّکُمۡ ؕ وَ اللہُ یَشۡہَدُ اِنَّہُمۡ لَکٰذِبُوۡنَ ﴿۱۱﴾﴾
کیا آپ نے ان منافقین کو نہیں دیکھا جو اپنے اہلِ کتاب بھائیوں سے کہتے ہیں کہ اگر تمہیں نکالا گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ نکلیں گے اور تمہاے بارے میں ہم کسی کی بات نہیں مانیں گے۔ اگر تم سے جنگ کی گئی تو ہم تمہاری مدد کریں گے۔ اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں۔
یہ عبداللہ ابن ابی ابن سلول منافق اور اس کے ساتھی تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جنوں نے یہود سے معاہدے کر رکھے تھے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں، تم فکر نہ کرو! اگر تمہیں مدینہ سے نکالا گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ نکلیں گے،تمہارے ساتھ جنگ ہوئی تو ہم تمہارا ساتھ دیں گے۔ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں، جب یہود کو یہاں سے نکالنے کا موقع آئے گا تو یہ منافق نکلیں گے نہیں ،جب ان سے قتال کی باری آئے گی تو دوڑ جائیں گے،یہ لوگ ان کا ساتھ پھر بھی نہیں دیں گے۔ اور ایسا ہی ہوا۔ بنو نضیر کو جب نکالا گیا تو عبد اللہ ابن ابی کا ایک فرد بھی ساتھ نہیں نکلا۔ جب ان کے قلعے کا محاصرہ کیا گیا تو ایک فرد بھی ان کے ساتھ نہیں نکلا۔ بنو قینقاع کے لوگ تھے، غزوہ بدر کے بعد جب ان کا محاصرہ کیا گیا اور پندرہ دن تک محاصرہ جاری رہا، ان کے دل میں اللہ نے رعب ڈال دیا اور ان کی بس ہو گئی تو پھر عبداللہ ابن ابی نے منتیں کی کہ حضور! ان کی جان بخشی کر دیں اور ان کو یہاں سے نکال دیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ٹھیک ہے، یہ مدینہ چھوڑ کر چلے جائیں، ہم ان کو کچھ نہیں کہتے۔ تو ان کی جان بخشی ہوئی اور وہ وہاں سے چلے گئے تھے۔
تو اللہ رب العزت نے فرمایا کہ ان منافقین کو دیکھو کہ کیسے معاہدے کرتے ہیں لیکن جب وقت آئے گا تو یہ دوڑ جائیں گے۔
منافقین کی بزدلی کا عالَم:
﴿لَا یُقَاتِلُوۡنَکُمۡ جَمِیۡعًا اِلَّا فِیۡ قُرًی مُّحَصَّنَۃٍ اَوۡ مِنۡ وَّرَآءِ جُدُرٍ ؕ﴾
یہ لوگ اتنے بزدل ہیں کہ سارے مل کر بھی تم سے نہیں لڑ سکتے، ہاں قلعہ بند ہو کے لڑیں تو لڑیں کھلا نہیں لڑ سکتے، یا شہر کی حفاظت کے لیے جو بڑی دیوار ہوتی ہے اس کے پیچھے ہو کر تو لڑ سکتے ہیں سامنے دو بدو لڑ ہی نہیں سکتے، ان میں جرأت نہیں ہے۔
اور آپ یقین فرمائیں کہ آج بھی کسی میں جرأت نہیں ہے، اگر جرأت ہے تو وہ ہماری بزدلی کی وجہ سے ہے، ہمارے اندر غیرت ہو تو کسی کی کیا جرأت ہے کہ ہمیں ہاتھ بھی لگائے!
﴿بَاۡسُہُمۡ بَیۡنَہُمۡ شَدِیۡدٌ ؕ تَحۡسَبُہُمۡ جَمِیۡعًا وَّ قُلُوۡبُہُمۡ شَتّٰی ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ قَوۡمٌ لَّا یَعۡقِلُوۡنَ ﴿ۚ۱۴﴾﴾
فرمایا کہ یہ اکٹھے ہو کر بھی تم سے نہیں لڑ سکتے کیوں کہ ان کی آپس کی جنگ ہے۔ یہ اللہ فرما رہے ہیں۔ تمہارا خیال ہے کہ یہ اکٹھے بیٹھے ہیں، یہ اکٹھے نہیں ہیں ان کے دل آپس میں پھٹے ہوئے ہیں، ہر کسی کا اپنا عقیدہ ہے، یہ نافہم قسم کی قوم ہے، دین کو سمجھتی نہیں ہے تو تم ان کے اتحاد سے پریشان نہ ہو۔
﴿کَمَثَلِ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ قَرِیۡبًا ذَاقُوۡا وَبَالَ اَمۡرِہِمۡ ۚ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿ۚ۱۵﴾﴾
بنو نضیرکی مثال تو ان لوگوں کی ہے جو کچھ عرصہ پہلے اپنے کیے کا بدلہ چکھ چکے ہیں، ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
اس سے مراد بنو قینقاع کے یہودی ہیں۔ انہوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے امن کا معاہدہ کیا تھا لیکن خود ہی اس کی خلاف ورزی کر ڈالی۔ ان کو بھی جلا وطن کیا گیا تھا۔
شیطان کا دھوکہ:
﴿کَمَثَلِ الشَّیۡطٰنِ اِذۡ قَالَ لِلۡاِنۡسَانِ اکۡفُرۡ ۚ فَلَمَّا کَفَرَ قَالَ اِنِّیۡ بَرِیۡٓءٌ مِّنۡکَ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اللہَ رَبَّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۶﴾﴾
ان کی مثال تو ایسے ہے جیسے شیطان ہے کہ وہ انسان سے کہتا ہے کہ کافر ہو جا! بندہ جب کافر ہو جاتا ہے تو پھر شیطان کہتا ہے کہ میں تجھ سے بری ہوں۔ میں اللہ سے ڈرتا ہوں جو تمام جہانوں کا رب ہے۔
یہاں منافقین کی مثال بیان کی ہے کہ عبد اللہ ابن ابی اور اس کی جماعت کے کرتوتوں کو سمجھنا ہو تو شیطان کو دیکھو۔ جنگ بدر میں شیطان انسانی شکل میں آیا تھا اور ابوجہل اور اس کے ساتھیوں سے کہا تھا کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں لیکن جب اس نے آسمان سے فرشتے اترتے دیکھے تو کہا کہ میں تم سے بری ہوں، تم جانو اور یہ جانیں، میں جا رہا ہوں۔ پھر وہاں سے دوڑ گیا۔ تو فرمایا کہ عبد اللہ ابن ابی بھی اسی طرح ہے۔ ابھی یہ ان سے کہتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں لیکن جونہی آسمانی مدد آئے گی تو یہ شیطان کی طرح انہیں چھوڑ کر دوڑ جائے گا۔اللہ ہم سب کو شیطان سے محفوظ رکھیں ۔ اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائیں۔ (آمین)
فکرِ آخرت کیجیے!
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَ لۡتَنۡظُرۡ نَفۡسٌ مَّا قَدَّمَتۡ لِغَدٍ ۚ وَ اتَّقُوا اللہَ ؕ اِنَّ اللہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۸﴾﴾
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا اعمال آگے بھیجے ہیں؟! اللہ سے ڈرو۔ بے شک اللہ تمہارے اعمال سے با خبر ہے۔
تم نے کفر کا انجام دیکھا ہے اس لیے اب ذرا اپنا خیال کرو، طاعات کرو، آگے نیک اعمال بھیجو گے تو وہی تمہارے کام آئیں گے۔
پہلے
”اتَّقُوا اللہَ“
سے مراد ہے کہ طاعات اختیار کرو اور دوسرے
”اتَّقُوا اللہَ“
سے مراد ہے کہ گناہوں سے بچو! اب یہ تکرار نہیں ہو گا، ہر ایک کا معنی الگ الگ ہو جائے گا... یا پہلے
”اتَّقُوا اللہَ“
سے مراد ہے کہ نیک اعمال کرو اور دوسرے
”اتَّقُوا اللہَ“
سے مراد ہے کہ اخلاص کا بھی خیال رکھو ! اب بھی کوئی تکرار نہیں ہے کیونکہ اب دونوں کا معنی الگ الگ ہے۔
﴿وَ لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ نَسُوا اللہَ فَاَنۡسٰہُمۡ اَنۡفُسَہُمۡ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ﴿۱۹﴾ لَا یَسۡتَوِیۡۤ اَصۡحٰبُ النَّارِ وَ اَصۡحٰبُ الۡجَنَّۃِ ؕ اَصۡحٰبُ الۡجَنَّۃِ ہُمُ الۡفَآئِزُوۡنَ ﴿۲۰﴾﴾
ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے انہیں ایسا کر دیا کہ وہ خود اپنے آپ کو بھول گئے۔ یہی لوگ فاسق ہیں، گنہگار ہیں اور فاسق لوگ اصحاب النار ہوتے ہیں اور متقی لوگ اصحاب الجنۃ ہوتے ہیں۔ اس لیے فرمایا: جنتی اور جہنمی کبھی برابر نہیں ہو سکتے، جنتی لوگ ہی کامیاب ہیں۔
﴿فَاَنۡسٰہُمۡ اَنۡفُسَہُمۡ﴾...
کیا مطلب کہ ان کو پتا ہی نہیں کہ ہمارے نفع کی کیا چیز ہے اور نقصان کی کیا چیز ہے؟ یہ لوگ گناہوں میں ایسے ڈوبے ہوئے ہیں کہ اپنی جان سے بھی بے پروا ہو گئے ۔
قرآن پہاڑ پر نازل کرتے تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتا:
﴿لَوۡ اَنۡزَلۡنَا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیۡتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنۡ خَشۡیَۃِ اللہِ ؕ وَ تِلۡکَ الۡاَمۡثَالُ نَضۡرِبُہَا لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمۡ یَتَفَکَّرُوۡنَ ﴿۲۱﴾﴾
اللہ تعالی نے لوگوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے قرآن اتارا۔ فرمایا: اگر ہم اس قرآن مجید کو پہاڑ پر اتارتے تو پہاڑ اللہ کے خوف سے دب جاتا اور اس کے ریزے ریزے ہوجاتے۔ ہم یہ مثالیں اس لیے بیان کرتے ہیں تاکہ تم کچھ غور وفکر کیا کرو۔
تو پہاڑ بھی اس کے نازل ہونے کی وجہ سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا اور ایک تمہارے دل ہیں کہ قرآن کا تم پر اثر ہی نہیں ہو رہا۔ اس قرآن کو سمجھو۔
میں کئی بار بیانات میں عرض کرتا ہوں کہ حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ دار العلوم دیوبند کے مہتمم نے بہت پیاری بات فرمائی ہے۔ حضرت قاری طیب صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اگر براہِ راست قرآن کو پہاڑ پر اتارتے تو پہاڑ پھٹ جاتے۔ سوال یہ ہےکہ آٹھ سال کا بچہ قرآن کو اپنے سینے میں رکھ لیتا ہے تو وہ کیوں نہیں پھٹتا؟ اگر قرآن اتنا بوجھ والا ہے کہ پہاڑ پھٹ جاتا ہے تو پھر چھوٹا بچہ کس طرح قرآن کو سینے میں اٹھا لیتا ہے؟ اور قرآن اگر چھوٹا بچہ بھی اٹھا سکتا ہے تو پھر پہاڑ کیوں نہیں اٹھا سکتا؟ حضرت فرماتے ہیں کہ وجہ یہ ہے کہ جس طرح سورج منیر ہوتا ہے اور چاند مستنیر ہوتا ہے، چاند؛ سورج سے روشنی لیتا ہے، جسم براہ راست سورج کی تپش کو برداشت نہیں کر سکتا کیونکہ سورج جلالی ہے اور اس کی تپش بھی جلالی ہے، براہ راست سورج کی روشنی آنکھیں نہیں برداشت کر سکتیں لیکن جب بدر چودھویں کا چاند نکلتا ہے تو سورج کی تپش اس چاند سے گزرتی ہے اور پھر برودت میں بدلتی ہے تو جسم کو مزا آتا ہے۔ یہ سورج جلالی ہے اور اس کی تپش بھی جلالی ہے لیکن جب چاند سے گزرتی ہے تو چاند جمالی ہے، یہ حرارت؛ برودت میں بدل جاتی ہے چاند کے جمال کی وجہ سے اور یہ ضیاء نور میں بدل جاتی ہے چاند کے جمال کی وجہ سے تو پھر جسم کو بھی لطف آتا ہے اور آنکھ کو بھی مزا آتا ہے چاند کی وجہ سے۔ اسی طرح اللہ پاک جلالی ہے اور اس کا کلام بھی جلالی ہے، جلالی کلام اگر براہِ راست پہاڑ پر اترتا تو پہاڑ برداشت نہ کرتا، اللہ اپنے جلالی کلام کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جمالی سینہ پر اتارتے ہیں، پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جمالی ہونٹوں سے باہر نکالتے ہیں تو جس قرآن کو پہاڑ نہیں اٹھا سکتا تھا یہ حضور کے جمال کی برکت ہے کہ آٹھ سال کا بچہ بھی اٹھا لیتا ہے۔ (سبحان اللہ۔ سامعین)
یہ ہے قاری طیب صاحب کا علم! میں کہتا ہوں کہ ایسے ایسے لوگ موجود ہیں تمہیں کیا پڑی ہے کسی اور کو دیکھنے کی؟ اپنے اکابر کو پڑھو اور اپنے اکابر کی تعریفیں کرو! اپنے بیانات میں اپنے اکابر کا تذکرہ کرو! اکابر کا نام لو اور اگلی نسلوں میں منتقل کرو! میری گزارش سمجھ آ رہی ہے؟ (جی ہاں۔ سامعین)
اسمائے حسنیٰ:
﴿ہُوَ اللہُ الَّذِیۡ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۚ عٰلِمُ الۡغَیۡبِ وَ الشَّہَادَۃِ ۚ ہُوَ الرَّحۡمٰنُ الرَّحِیۡمُ ﴿۲۲﴾ ہُوَ اللہُ الَّذِیۡ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۚ اَلۡمَلِکُ الۡقُدُّوۡسُ السَّلٰمُ الۡمُؤۡمِنُ الۡمُہَیۡمِنُ الۡعَزِیۡزُ الۡجَبَّارُ الۡمُتَکَبِّرُ ؕ سُبۡحٰنَ اللہِ عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ ﴿۲۳﴾﴾
وہی اللہ ہے جس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ چھپی ہوئی باتوں کو بھی جانتا ہے اور کھلی ہوئی باتوں کو بھی، وہ بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے، وہی اللہ ہے جس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں۔
آگے اللہ کے صفاتی نام ہیں۔ وہ مَلِک ہے یعنی بادشاہ ہے، قدوس ہے۔ تفسیر کبیر میں ہے کہ قدوس؛ اسے کہتے ہیں جو زمانہ ماضی میں عیوب سے پاک ہو۔ سلام؛ جو زمانہ مستقبل میں پاک ہو۔ مؤمن ؛ جو آدمی کو امن دینے والا ہو، آدمی پر تکلیف نہ آنے دے۔ مھیمن؛ نگرانی کرنے والا کہ اگر تکلیف آ جائے تو اس کو رفع کر دے۔ عزیز یعنی غالب ہے۔ جبار اگر جبروت سے ہو تو معنی طاقت ور ہے اور اگر جبر سے ہو تو معنی اصلاح کرنے والا ہے۔ جس طرح جبیرہ وہ لکڑی ہوتی ہے جو بازو ٹوٹنے کے بعد باندھتے ہیں کہ بازو کو ٹھیک کر دے، تو جبار کا معنی ہے اصلاح کرنے والا۔ متکبر... کِبْر اللہ کی خاص صفت ہےاور یہ صفت اللہ کو زیب بھی دیتی ہے۔
﴿ہُوَ اللہُ الۡخَالِقُ الۡبَارِئُ الۡمُصَوِّرُ لَہُ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰی ؕ یُسَبِّحُ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿٪۲۴﴾﴾
اللہ تعالی خالق ہیں، باری ہیں یعنی حکمتوں کے ساتھ پیدا کرتے ہیں، مصور ہیں کہ جس کو پیدا کرتے ہیں اسے شکل وصورت دیتے ہیں، اللہ کے نام بھی بہت اچھے ہیں۔جو آسمانوں اور زمینوں میں ہیں وہ سب اللہ تعالی کی تسبیح بیان کرتے ہیں۔ اللہ غالب حکمت والا ہے۔
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص صبح کے وقت تین بار
” أَعُوْذُ بِاللهِ السَّمِيْعِ الْعَلِيْمِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ“
پڑھ لے اور اس کے بعد سورۃ الحشر کی آخری تین آیتیں پڑھ لے تو ستر ہزار فرشتے اس کے لیے شام تک مغفرت کی دعا کرتے ہیں اور اگر یہ شخص شام سے پہلے فوت ہو جائے تو اللہ اسے شہیدوں میں شامل فرماتے ہیں اور اگر یہ شام کو پڑھ لیں تو صبح تک ستر ہزار فرشتے اس کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں اور اگر یہ فوت ہو گیا تو اللہ اس کو شہداء میں شامل فرمائیں گے ۔
سنن الترمذی، رقم: 2922
آپ بھی اس کا معمول بنائیں۔ میرا اپنا خیال ہے کہ کم ازکم انیس سال ہو گئے ہیں یہ اسی طرح میرے معمول میں شامل ہے۔ بہت ساری ایسی دعائیں ہیں کہ الحمداللہ میں اپنے معمولات میں رکھتا ہوں۔ بعض ایسی بھی ہیں جو میرے درجہ اولیٰ والے سال سے چل رہی ہیں ۔
دعائے مستجاب کا مجرَّب طریقہ :
ایک تو اس کے پڑھنے کا اہتمام کریں اور دوسرا یہ میرا اپنا مجرب نسخہ ہے، اور میں یہ سنی سنائی بات نہیں کر رہا اپنا تجربہ بتا رہا ہوں کہ کسی عنوان پر کبھی دعا مانگنی ہو تو اس کا طریقہ یہ ہےکہ پہلے درود شریف پڑھیں۔ پھر سورۃ الحشر کے آخری رکوع
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَ لۡتَنۡظُرۡ نَفۡسٌ مَّا قَدَّمَتۡ لِغَدٍ ۚ وَ اتَّقُوا اللہَ﴾
سے تلاوت شروع کریں اور جب یہاں پہنچیں
﴿لَوۡ اَنۡزَلۡنَا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیۡتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنۡ خَشۡیَۃِ اللہِ﴾
تو یہاں تلاوت روک دیں، پھر یہاں دعا کریں کہ اے اللہ! میری یہ ضرورت، میری مصیبت، میری تکلیف، میرے لیے پہاڑ ہے، آپ کی قدر ت و طاقت کے سامنے اس کی کیا حیثیت ہے؟ اللہ! میری اس حاجت کو پورا فرما دیں! اس کے بعد پھر آگے تلاوت شروع کریں۔ پھر جب آپ پہنچیں
﴿لَہُ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰی﴾
پر تو اللہ تعالیٰ کے ننانوے اسمائے حسنیٰ کو پڑھ لیں۔ اسمائے حسنیٰ پڑھتے ہوئےدل میں اپنی مراد کا تصور کریں۔ جب یہ اسماء مکمل ہو جائیں تو پھر تلاوت شروع کر دیں اور رکوع کے اختتام پر گیارہ بار درود شریف پڑھ لیں اور آخر میں جو آپ کی ضرورت ہے وہ مانگیں۔ ان شاء اللہ دعائیں قبول ہوں گی ۔
اللہ رب العزت ہماری جائز حاجات کو پورا فرمائے، ہماری دعاؤں کو قبول فرمائے۔ آمین
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․