سورۃ الصف

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ الصف
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿سَبَّحَ لِلہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ۚ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۱﴾ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ ﴿۲﴾ ﴾
شانِ نزول:
حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین غزوہ احد میں تھے اور وقتی طور پر ایسی صورتحال پیدا ہوئی کہ جب اعلان ہوا کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں تو بعض صحابہ کمزور ہو گئے اور بعض ڈٹ کر لڑے۔ مزید یہ کہ رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی بن سلول اپنے تین سو افراد لے کر ایک طرف ہو گیا اور اس غزوہ میں شریک نہیں ہوا۔ تو مجموعی صورتحال سے بعض صحابہ پر بھی اثر پڑا کہ ہماری کمزوری ہے۔ تو جو کمزوری رہ گئی تھی تو اس کی تلافی کے لیے ان کا جی چاہتا تھا اور یہ باہمی مشاورت کرتے کہ اگر ہمیں پتا چلے کہ اللہ کے ہاں سب سے محبوب عمل کون سا ہے تو ہم اس پر جان ومال سب کچھ لٹا دیں گے۔ اس پر یہ سورۃ الصف نازل ہوئی۔
﴿سَبَّحَ لِلہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ۚ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۱﴾ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ ﴿۲﴾ کَبُرَ مَقۡتًا عِنۡدَ اللہِ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ ﴿۳﴾ ﴾
جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے وہ اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں۔ اللہ غالب حکمت والا ہے۔ اے ایمان والو! ایسی بات کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں ہو! اللہ کو یہ بات بالکل پسند نہیں کہ ایسی بات کرو جو کرتے نہیں ہو!
یہاں یہ بات بتانی مقصود ہے کہ آدمی کو دعوے نہیں کرنے چاہییں کہ ہم یہ کر دیں گے، وہ کر دیں گے۔ اللہ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ:
﴿وَ لَا تَقُوۡلَنَّ لِشَایۡءٍ اِنِّیۡ فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَدًا ﴿ۙ۲۳﴾ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللہُ﴾
الکہف 18: 23، 24
میرے پیغمبر! آپ بھی کوئی بات فرمائیں تو یہ نہ کہا کریں کہ میں یہ کام کروں گا بلکہ یہ فرمایا کریں کہ ان شاء اللہ کروں گا یعنی اگر اللہ چاہے تو ہو گا نہ چاہے تو نہیں ہو گا۔
تو یہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بات سمجھائی ہے کہ یہ بات نہ کرو کہ ہم جان ومال لٹا دیں گے۔ ہاں یہ کہو کہ اگر حکم شرعی ہے تو ہم ان شاء اللہ پوری کوشش کریں گے اور اس پر عمل کریں گے۔ ایسا لفظ استعمال نہ کرو کہ جس میں بظاہر تعلی ہو۔
کرۂ ارض پر بڑا عالم کون ہے؟
حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کسی نے پو چھاکہ اس وقت سب سےبڑا عالم کرۂ ارض پرکون ہے؟ فرمایاکہ میں ہوں۔ بڑے عالم تو موسیٰ علیہ السلام ہی تھےکیونکہ نبی تھے لیکن یہ لفظ بظاہر ایسا تھا کہ اس کے بجائے اگر یوں فرماتے کہ میرے علم کے مطابق تو میں ہوں شاید کوئی اور بھی ہو، یہ کہنا زیادہ مناسب تھا۔ اس پر اللہ کی طرف سے عتاب آ گیا کہ جائیں ہمارا فلاں بندہ ہے، اس سے ملاقات کریں۔ پھر آپ علیہ السلام نے ملاقات کی حضرت خضر علیہ السلام سے۔ جس کا قصہ سورۃ الکہف میں موجود ہے۔
حضرت خضر علیہ السلام کو تکوینات کا علم تھا تشریعات کا علم نہیں تھا، شریعت میں پھر بھی موسیٰ علیہ السلام بڑھ کر تھے، نبی جتنا بھی بڑا ہو لیکن اللہ سے تو چھوٹاہے نا! حضرات انبیاء علیہم السلام ہم سے تو بہت بڑے ہیں لیکن اللہ سے تو چھوٹے ہیں، اس لیے اللہ رب العزت اپنے پیغمبر کوتنبیہ بھی فرماتے ہیں اور پیغمبر کا تزکیہ بھی فرماتے ہیں اور پیغمبر سے اگر خلافِ اولیٰ بات ہو تو اس پر اپنے نبی کو ہدایات بھی دیتے ہیں ۔
تو فرما یا کہ ایسی باتیں نہ کرو جو تم کر نہ سکو! اللہ کو ایسی بات پسند نہیں ہے کہ بندہ ایسا دعویٰ کرے جو کر نہ سکے۔
دعویٰ نہ کرے دعوت دیتا رہے :
یہاں دو باتیں الگ الگ ہیں؛ ایک ہے دعویٰ اور ایک ہے دعوت۔ کسی بڑے عمل کا دعویٰ نہیں کرنا چاہیے یہ اللہ کو پسند نہیں ہے لیکن اگر کوئی نیک عمل نہ کرتا ہو تو اس نیک عمل کی دعوت دینی چاہیے۔ تو یہاں دعوے کی نفی ہو رہی ہے دعوت کی نفی نہیں ہو رہی۔ اس لیے تفسیر بیان القرآن میں حضرت تھانوی رحمہ اللہ خلاصہ کے طور پر فرما ر ہے ہیں کہ اس سے وعظ بلاعمل کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایک یہ ہے کہ آدمی جو دعوت دیتا ہے خود بھی اس پر عمل کرے، اس کا حکم دوسری جگہ پر موجود ہے:
﴿اَتَاۡمُرُوۡنَ النَّاسَ بِالۡبِرِّ وَ تَنۡسَوۡنَ اَنۡفُسَکُمۡ﴾
البقرۃ 2: 44
کیا تم لوگوں کو حکم دیتے ہو اور خود کو بھول جاتے ہو!
تو یہاں پر تنبیہ ہے کہ بے عمل نہیں ہونا چاہیے بلکہ با عمل ہونا چاہیے۔
اور یہاں جو بات فرمائی ہے تو یہاں ترغیب اس بات کی دی ہے کہ صرف زبانی دعوے نہ کرو بلکہ عمل بھی کرو۔ تو اگر کوئی شخص عمل نہیں کرتا اور نیک عمل کی دعوت دیتا ہے تو اس کو ایک اجر پھر بھی ملے گا اور اگر عمل بھی کرتا ہے اور نیک عمل کی دعوت بھی دیتا ہے تو اس کو دو اجر ملیں گے اور اگر کوئی شخص نیک عمل کی دعوت نہیں دیتا صرف نیک عمل کرتا ہے تو اس کو ایک اجر ملتا ہے۔ ہا ں البتہ نیک عمل بھی کرے اور دعوت بھی دے تو وہ زیادہ مناسب ہے۔ اللہ فرماتے ہیں:
﴿وَ مَنۡ اَحۡسَنُ قَوۡلًا مِّمَّنۡ دَعَاۤ اِلَی اللہِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ﴿۳۳﴾﴾
حٰم السجدۃ 41: 33
اس شخص سے زیادہ کس کی بات اچھی ہو گی جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور کہے کہ میں بھی مسلمانوں میں سے ایک مسلمان ہوں۔
تو دعوت بھی دیں اور نیک عمل بھی ہونا چاہیے۔ بہرحال یہاں دعوت بلاعمل کی نفی نہیں ہے بلکہ ترغیب دے رہے ہیں کہ جو کہتے ہو وہ کیا بھی کرو۔
مجاہدین اسلام خدا کو محبوب ہیں:
﴿اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ صَفًّا کَاَنَّہُمۡ بُنۡیَانٌ مَّرۡصُوۡصٌ ﴿۴﴾﴾
اب اللہ نے محبوب عمل بتا دیا۔ فرمایا کہ اللہ ان لوگوں کو پسند کرتے ہیں جو میدان جہاد میں نکل کے سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹ کر لڑتے۔
حدیث پاک میں ہے :
أَیُّھَا النَّاسُ لَا تَمَنَّوْا لِقَائَ الْعَدُوِّ وَسَلُوا اللّٰہَ الْعَافِیَۃَ، فَاِذَا لَقِیْتُمُوْہُمْ فَاصْبِرُوْا وَاعْلَمُوْ ااَنَّ الْجَنَّۃَ تَحْتَ ظِلَالِ السُّیُوْفِ.
صحیح البخاری، رقم: 3024
اے لوگو! دشمن سے ملاقات یعنی جنگ کی تمنا نہ کرو،بلکہ اللہ سے عافیت مانگو لیکن جب جنگ آ جائے تو بس پھر ڈٹ جاؤ! پھر دوڑنا نہیں چاہیے ۔
سبب اختیار کرنا بندے کا فعل اور نتیجہ مرتب کرنا اللہ کا فعل:
﴿وَ اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِقَوۡمِہٖ یٰقَوۡمِ لِمَ تُؤۡذُوۡنَنِیۡ وَ قَدۡ تَّعۡلَمُوۡنَ اَنِّیۡ رَسُوۡلُ اللہِ اِلَیۡکُمۡ ؕ فَلَمَّا زَاغُوۡۤا اَزَاغَ اللہُ قُلُوۡبَہُمۡ ؕوَاللہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ﴿۵﴾﴾
اور جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سےفرمایا تھا کہ اے میری قوم! تم مجھے تکلیفیں کیوں دیتے ہو حالانکہ تمہیں پتا بھی ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں، جب ان لوگوں نے ٹیڑھا پن اختیار کیا تو اللہ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کر دیا۔ اللہ فاسق قوم کو ہدایت نہیں دیتے۔
یہاں یہ بات اچھی طرح سمجھو کہ ﴿فَلَمَّا زَاغُوۡۤا اَزَاغَ اللہُ قُلُوۡبَہُمۡ﴾ یا ﴿خَتَمَ اللہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ وَ عَلٰی سَمۡعِہِمۡ﴾ اس قسم کی جو آیات آتی ہیں تو ان پر کسی کو یہ شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ جب اللہ نے مہر لگا دی تو بندے کا قصور کیا ہے؟ اللہ نے ہدایت سے دور کر دیا تو بندے کا قصور کیا ہے؟
اس کا جواب سمجھیں کہ اللہ رب العزت نے ہر بندے میں فجور اور تقویٰ دونوں چیزیں رکھی ہیں، گناہ کرنے کی طاقت اور گناہ کو کنٹرول کرنے کی طاقت ، جب بندہ گناہ کرنے کی طاقت استعمال کرتا ہے اور کنٹرول کرنے کی طاقت استعمال نہیں کرتا بلکہ قصداً گناہ پہ گناہ کرتا رہتا ہے تو بالآخر اللہ ہدایت کے دروازے بند کر کے گناہ کا دروازہ اس کا کھولتے ہیں ، اللہ اس کے دل پر مہر لگاتے ہیں، پھر وہ نیک عمل نہیں کر سکتا۔ تو یہ جو اللہ مہر لگاتا ہے جس کی وجہ سے بندہ نیک عمل نہیں کر سکتا تو اللہ یہ مہر ابتدا سے نہیں لگاتا بلکہ بندے کی ضد اورعناد اور بدکرداری کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے۔ جیسے ایک بندہ فیکٹری میں ملازم ہو اور چھٹیاں کرے۔ اس کے بعد اس کا مالک کہے کہ بھائی! چھٹیاں نہ کرو، وہ پھر بھی چھٹیاں کرے۔او بھائی! چھٹیاں مت کیا کرو۔ وہ پھر بھی کرے۔ اگر تم چھٹیاں کرو گے تو ہم نکال دیں گے۔ یہ پھر بھی چھٹی کرے۔ پھر مالک اس کو نکال دے۔ اب یہ ملا زم اس کے بعد کہتا پھرے کہ میں نےکیا کیا ہے؟ مجھے تو ویسے ہی نکال دیا ہے۔ بھائی! تجھے پہلے تو رکھا ہوا تھا، نکالا اس لیے کہ تو ضد پر تھا، بات نہیں مانتا تھا تو نکال دیا تجھے ۔ نکالا اس وجہ سے نہیں کہ مالک چاہتا ہے کہ اس کو نکالوں، نکالا اس وجہ سے ہے کہ اس کی اپنی حرکتیں ایسی تھیں۔ جب اللہ مہر لگاتا ہے تو وہ ابتداءً نہیں لگاتا بلکہ جب بندہ حرکتیں ایسی کرتا ہے تو اس پر مہر لگ جاتی ہے۔
بشارتِ عیسیٰ علیہ السلام:
﴿وَ اِذۡ قَالَ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ یٰبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللہِ اِلَیۡکُمۡ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوۡرٰىۃِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوۡلٍ یَّاۡتِیۡ مِنۡۢ بَعۡدِی اسۡمُہٗۤ اَحۡمَدُ ؕ فَلَمَّا جَآءَہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ قَالُوۡا ہٰذَا سِحۡرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۶﴾﴾
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: اے بنی اسرائیل! میں تمہارے پاس اللہ کا رسول بن کر آیا ہوں، تورات کی تصدیق کرتا ہوں، بعدمیں آنے والے پیغمبر کی بشارت بھی دیتا ہوں جس کا نام احمد ہے۔ پھر جب وہ ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے تو وہ کہنے لگے کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔
ایک بات تو یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بشارت دی احمد کی۔ یہاں نام ”محمد“نہیں لیا بلکہ ”احمد“ بتایا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اہلِ عرب میں محمد نام رکھا جاتا تھا، احمد نام رکھنا متعارف نہیں تھا، اس لیے ایسا نام بتایا کہ ان کے ہاں پہلے متعارف تھا ہی نہیں، فرمایا کہ ایسے نبی کی بشارت دیتا ہو ں کہ جس کا نام احمد ہو گا۔
حضور علیہ السلام نبی اسماعیل میں سے ہیں:
دوسری بات ﴿فَلَمَّا جَآءَہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ﴾ پر سمجھیں! آج ایک نئی بحث چلی ہے ایک گمراہ قسم کا شخص ہے شیخ محمد کے نام سے ، اس نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو نبی بن کر آ ئے تھے تو عربو ں میں نہیں تھے بلکہ یہ بنی اسرائیل میں تھے اور اس پر دلیل کے طور پر یہ آیت پیش کرتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا : ﴿مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوۡرٰىۃِ﴾ کہ میں تورات کی تصدیق کرتا ہوں، ﴿وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوۡلٍ یَّاۡتِیۡ مِنۡۢ بَعۡدِی اسۡمُہٗۤ اَحۡمَدُ﴾ اور اپنے بعد آنے والے رسول کی بشارت دیتا ہوں ۔ ﴿فَلَمَّا جَآءَہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ﴾ جب وہ احمد بنی اسرائیل کے پاس آیا تو ﴿قَالُوۡا ہٰذَا سِحۡرٌ مُّبِیۡنٌ﴾ انہوں نے کہا کہ یہ تو جادو ہے۔ شیخ محمد کہتا ہے کہ دیکھو! یہاں صاف پتا چل رہا ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنی اسرائیل میں آئے تھے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ﴿فَلَمَّا جَآءَہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ﴾ میں ”ھُوَ“ ضمیر کا مرجع احمد نہیں ہے، ”ھُوَ“ ضمیر کا مرجع حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ میں تورات کی تصدیق بھی کرتا ہوں، احمد کی بشارت بھی دیتا ہوں اور جو دلائل اور معجزات حضرت عیسیٰ علیہ السلام لے کر آئے ان کے بارے میں بنی اسرائیل نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کہا: ﴿ہٰذَا سِحۡرٌ مُّبِیۡنٌ﴾یہ تو کھلا جادو ہے۔ تو یہ بات حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بنی اسرائیل نےکہی تھی۔ اس کا تعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے ساتھ ہرگز نہیں ہے۔ سورۃ المائدۃ کی آیت نمبر110 کو دیکھیں تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے۔ اللہ فرماتے ہیں:
﴿اِذۡ قَالَ اللہُ یٰعِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ اذۡکُرۡ نِعۡمَتِیۡ عَلَیۡکَ وَ عَلٰی وَالِدَتِکَ ۘ اِذۡ اَیَّدۡتُّکَ بِرُوۡحِ الۡقُدُسِ ۟ تُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الۡمَہۡدِ وَ کہہۡلًا ۚ وَ اِذۡ عَلَّمۡتُکَ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ ۚ وَ اِذۡ تَخۡلُقُ مِنَ الطِّیۡنِ کہہیۡـَٔۃِ الطَّیۡرِ بِاِذۡنِیۡ فَتَنۡفُخُ فِیۡہَا فَتَکُوۡنُ طَیۡرًۢا بِاِذۡنِیۡ وَ تُبۡرِیُٔ الۡاَکۡمَہَ وَ الۡاَبۡرَصَ بِاِذۡنِیۡ ۚ وَ اِذۡ تُخۡرِجُ الۡمَوۡتٰی بِاِذۡنِیۡ ۚ وَ اِذۡ کَفَفۡتُ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ عَنۡکَ اِذۡ جِئۡتَہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ فَقَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡہُمۡ اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا سِحۡرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۱۱۰﴾﴾
جب عیسیٰ علیہ السلام دلائل لے کر آئے تو بنی اسرائیل نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ یہ تو جادو ہے۔ تو اس کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ہے بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سےہے ۔
یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ساحر ہونے کا طعنہ اہلِ مکہ نے دیا ہے، اہلِ مدینہ نے کبھی نہیں دیا۔ اہلِ مکہ طعنہ دیتے ہیں لیکن مدینہ میں آنے کے بعد یہود نے کبھی نہیں کہا تھا کہ آپ ساحر ہیں۔ معلوم ہوا کہ عربوں کا معاملہ الگ ہے اور بنی اسرائیل کا معاملہ الگ ہے۔ اس سے قطعاً ثابت نہیں ہوتا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنی اسرائیل میں نبی بنا کر بھیجے گئے تھے۔
ظالم کون ہے؟
﴿وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰی عَلَی اللہِ الۡکَذِبَ وَ ہُوَ یُدۡعٰۤی اِلَی الۡاِسۡلَامِ ؕ وَ اللہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۷﴾﴾
اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے جبکہ اس کو اسلام کی طرف دعوت دی جا رہی ہوتی ہے۔ اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتے!
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا:
﴿یُرِیۡدُوۡنَ لِیُطۡفِـُٔوۡا نُوۡرَ اللہِ بِاَفۡوَاہِہِمۡ وَ اللہُ مُتِمُّ نُوۡرِہٖ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ ﴿۸﴾ ﴾
یہ لوگ اپنے منہ سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں جبکہ اللہ اپنے نور کو مکمل کریں گے اگرچہ کافروں کو یہ بات جتنی بھی برے لگے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اپنےمنہ سے اس دین کو ختم کرنا چاہتے ہیں یعنی یہ ان کے زبانی دعوے ہیں کہ ہم دین کو مٹا دیں گے لیکن یہ دین ان کے دعوؤں سے مٹ نہیں سکتا۔ ایک معنی تو یہ ہے۔ دوسرا مطلب یہ کہ واقعتاً جیسے اللہ کے نور کو کوئی بندہ اپنے منہ کے پھونکوں سے بجھانا چاہے تو ایسے ہی ہے کہ جیسے اللہ کے دین کو کوئی بندہ اپنی طاقت سے ختم کرنا چاہے، جس طرح اللہ کے نور کے مقابلے میں انسان کی پھونک کی کوئی حیثیت نہیں ہے اسی طرح اللہ کے دین کے مقابلےمیں ان کی پوری طاقت کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
غلبہ عملی اور غلبہ برہانی:
﴿ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ ٪﴿۹﴾﴾
وہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت یعنی قرآن کریم دے کر بھیجا اور دین ِ حق یعنی دین اسلام دے کر بھیجا ہےتاکہ اللہ کا دین تمام ادیان پر غالب آ جائے، اور مشرک جتنا بھی چاہے بالآخر یہ دین غالب ہو کر ہی رہے گا۔
بظاہر اس پر اشکال یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنا تئیس سالہ دورِ نبوت گزار کر چلے گئے لیکن دین تمام ادیان پر غالب نہیں آیا بلکہ جزیرہ عرب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم رہے اور تھوڑا سا باہر نکلے اور یہ غالب تو بعد کے ادوار میں ہوا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں بھی پوری دنیا پر دین غالب نہیں آیا تھا۔ بہت سارے خطے ایسے تھے جہاں دین نہیں پہنچا۔ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دور آئے گا تو پھر دین اسلام تمام ادیان پر غالب آئے گا اور ایک شخص بھی ایسا نہیں ہو گا جو کلمہ پڑھ کر مسلمان نہ ہو بلکہ سب کے سب موت سے پہلے پہلے کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جائیں گے۔ تو اس کا مطلب کیا ہوا کہ اللہ نے اپنے نبی کو بھیجا تاکہ تمام ادیان پر غالب فرما دیں ؟
اس کا جواب سمجھ لیں کہ غلبہ کی دو قسمیں ہیں؛ ایک ہے غلبہ عملی اور ایک ہے غلبہ برہانی۔ جو غلبہ برہانی ہے وہ تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہو گیا تھا، کوئی بھی ایسا کافر اور کوئی بھی ایسا بے دین نہیں ہے کہ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ہو گفتگو کے لیے اور دلیل میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس پر غالب نہ آئے ہوں، کیونکہ دلیل قر آن کریم ہے اور وہ تمام دلائل پر غالب ہے ، اور ایک ہے غلبہ عملی وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں ہوا اور جو ہر شخص کا کلمہ پڑھنا ہے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دور میں ہو جائے گا اور عیسیٰ علیہ السلام بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی بن کر دین کے نفاذ کی بات فرمائیں گے۔
اب اگر ہم کسی جگہ پر غالب آتے ہیں تو ہمارا یہ غلبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے ہے، حضور کا دین ہے، حضور کی لائی ہوئی ہدایت ہے، اسی کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام چلیں گے اور غالب آئیں گے تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرنے کی وجہ سے غالب آئیں گے تو غلبہ بظاہر کسی کا بھی ہو درحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ہے۔ تو یہاں غلبہ برہانی مراد ہے۔
نفع بخش تجارت جہاد فی سبیل اللہ:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ہَلۡ اَدُلُّکُمۡ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنۡجِیۡکُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿۱۰﴾ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ بِاَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾ ﴾
یہاں جہاد کی بات کی ہے کہ ہم تمہیں ایسی تجارت بتائیں کہ جس کے دو نفعے ہیں؛ ایک آخرت کا اور ایک دنیا کا۔ آخرت کا نفع یہ ہے کہ ﴿تُنۡجِیۡکُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ﴾ اللہ تعالیٰ تمہیں درد ناک عذاب سے بچائیں گے ، اور دنیا کا نفع کیا ہے؛ ﴿نَصۡرٌ مِّنَ اللہِ وَ فَتۡحٌ قَرِیۡبٌ﴾ کہ اللہ کی مدد ملتی ہے اور فتح بھی عنقریب ملے گی۔
مومن کے ہاں دنیا کا نفع اصل نہیں ہوتا بلکہ آخرت کا نفع اصل ہوتا ہے، اس لیے اللہ نے آخرت کے نفع کو مقدم کیا ہے۔
فرمایا: وہ تجارت جو تمہیں نفع دے وہ یہ ہے کہ تم اللہ اور اللہ کے رسول پر ایمان لاؤ، اور اپنی جان و مال کےساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کرو۔ یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم سمجھو تو۔
﴿یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ وَ یُدۡخِلۡکُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ وَ مَسٰکِنَ طَیِّبَۃً فِیۡ جَنّٰتِ عَدۡنٍ ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿ۙ۱۲﴾﴾
اللہ تمہارے گناہوں کو معاف کریں گے اور تمہیں ایسے باغات میں بھیجیں گے جہاں نہریں جاری ہوں گی اور ہمیشہ رہنے والے باغات اور اچھے اچھے مکانات بھی ہوں گے۔ یہ بڑی کامیابی ہے۔
﴿وَ اُخۡرٰی تُحِبُّوۡنَہَا ؕ نَصۡرٌ مِّنَ اللہِ وَ فَتۡحٌ قَرِیۡبٌ ؕ وَ بَشِّرِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۳﴾﴾
اس کے علاوہ اللہ تمہیں ایک اور چیز بھی دے گا اور وہ تمہیں پسند بھی ہے، وہ ہے اللہ کی مدد اور عنقریب ملنے والی فتح ۔اور مؤمنین کو خوشخبری سنا دیں۔
اس سے مراد فتح مکہ ہو یا فتحِ خیبر ہو جو بھی فتوحات ہیں وہ سب اس میں شامل ہیں اور قیامت تک آنے والی فتوحات بھی اس میں شامل ہیں۔ چونکہ انسان کی فطرت ہے کہ یہ جلدی کو پسند کرتا ہے اس لیے اللہ نے جلدی نفع دنیا والا ان کو دیا اور دینے کا وعدہ فرمایا۔
جہاد کا معنی قتال ہے:
یہاں یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور شریعت میں جو اصطلاح ہے جہاد، شرعاً جہاد کا معنی متعین ہے یعنی اللہ کے راستے میں قتال کرنا اللہ کے دین کو سر بلند کرنے کے لیے۔
مَنْ قَاتَلَ لِتَكُوْنَ كَلِمَةُ اللّهِ هِىَ الْعُلْيَا فَهُوَ فِىْ سَبِيْلِ اللّهِ.
صحیح البخاری، رقم: 2810
جو شخص اس لیے قتال کرے کہ اللہ کا دین بلند ہو تو یہ شخص واقعتاً اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والاہے۔
احکامِ شریعت میں جتنے بھی احکامات ہیں تو ان میں ایک معنی لغوی ہوتا ہے اور ایک معنی اصطلاحی ہوتا ہے۔ تو یہ لغوی معنی معتبر نہیں ہوتا بلکہ اصطلاحی معنی معتبر ہوتا ہے۔ جس طرح صلوٰۃ حکمِ شرعی ہے، اس کا لغوی معنی ہے تحریک الالیتین ، اپنے سرین کوحرکت دینا لیکن یہاں صلوٰۃ کا معنی شریعت میں سرین کو حرکت دینے والا نہیں ہے بلکہ اس سے مراد ارکان مخصوصہ کااوقات مخصوصہ میں اذکار مخصوصہ کے ساتھ ہونا یہ نماز ہوتی ہے۔ اذان لغت میں”ھُوَ الْاِعْلَامُ“ ہے کہ اعلان کرنا اور شریعت میں عام اعلان مراد نہیں ہے بلکہ مخصوص اعلان مراد ہے مخصوص کلمات کے ساتھ مخصوص اوقات میں۔ اسی طرح حج کا لغوی معنی ہے ”ارادہ“ لیکن شریعت میں ہر ارادے کو حج نہیں کہتے بلکہ عملاً انسان مخصوص اوقات اور مخصوص جگہ میں مخصوص افعال ادا کرے تو اس کا نام حج ہے۔ اسی طرح صوم کا لغوی معنی ہے ”اَلاِمساک“ یعنی مطلقاً رکنا روز ہ ہے لیکن شریعت میں صوم کہتے ہیں صبح سے لے کر شام تک رکنا کھانے، پینے اور جماع سے نیت کے ساتھ ۔ بالکل اسی طرح جہاد کا لغوی معنی ہے مشقت اور اصطلاحِ شریعت میں ہر مشقت والے کام کو جہاد نہیں کہتے بلکہ جہاد کا معنی متعین ہے جس کو کہتے ہیں قتال فی سبیل اللہ ۔ آپ تفاسیر اٹھا لیں آپ کو یہی معنی ملے گا اور تمام کتب احادیث اٹھا لیں جہاں بھی کتاب الجہاد ہو گا اس کے ساتھ صرف اور صرف قتال کا مسئلہ ہو گا، کوئی اور نہیں ہو گا اور جہاں بھی فقہ میں کتاب الجہاد ہو گا تو وہاں صرف جہاد کے مسائل ہوں گے اور کوئی مسئلہ وہاں پر زیر بحث نہیں آئے گا۔
آیات جہاد میں تحریف کا حکم:
اس لیے میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ آپ جہاد نہیں کر سکتے تو نہ کریں، جہاد نہ کرنا تو گناہ ہے لیکن آیاتِ جہاد میں تحریف کرنا یہ کفر ہے ۔ فسق؛ اللہ تعالیٰ کے ہاں قابلِ معافی ہے لیکن کفر قابلِ معافی نہیں ہوتا، اپنی جان چھڑانے کے لیے ہم تحریفات شروع کر دیتے ہیں، یہ قطعاً جائز نہیں ہے۔ اس لیے اپنے ایمان کی ہمیں بہت زیادہ فکر کرنی چاہیے ۔
اس لیے میں شرح صدر کے ساتھ کہتا ہوں کہ جہاد کا معنی قتال فی سبیل اللہ ہے، یہ امت پر فرض عین ہے، اس کا منکر کافر ہے اور اس کا تارک فاسق ہے۔ ایک تو جہاد کا معنی ٹھیک کریں ،جہاد کا حکم ٹھیک بتائیں اور اس کے بعد آپ نہیں کر سکتے تو اپنے فسق کو تسلیم کریں کہ بھائی! میں مانتا ہوں کہ میں فاسق ہوں ، میں عملاً جہاد نہیں کر رہا لیکن اس کا یہ معنی کہ میں تاویل کروں.... یہ ہمارے بس میں نہیں ہے۔ مسئلہ ہمیشہ ٹھیک بتائیں، کمی بیشی نہ کریں ۔ اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائیں۔
مثال کے ذریعے وضاحت:
اب آپ بتائیں! ہم یہاں پر بیٹھے ہیں اور باہر سے کسی مدرسے کے مہتمم صاحب آ جائیں یا کسی مدرسے کا مدرس آ جائے جو تھوڑی تنخواہ پر زیادہ پڑھاتے ہوں اور مشقت بہت برداشت کرتے ہوں تو آپ کیا کہیں گے کہ استاد جی! آپ کو ملنے کے لیے فلاں مدرسے کے مجاہد صاحب آئے ہیں یا یہ کہیں گے کہ فلاں مدرسے کے مدرس یا مہتمم صاحب آئے ہیں؟ سارے یہی کہیں گے کہ مدرس یا مہتمم آیا ہے۔ اگر کوئی شخص ایسا ہو جس کے دور دراز علاقے میں خانقاہ ہو، پانی نہ ملتا ہو، ضروریاتِ زندگی میسر نہ ہوں ، مشقت کے ساتھ اللہ اللہ کرتا ہو اور وہ ملنے کے لیے آئے تو آپ کیا کہیں گے کہ استاد جی! فلاں خانقاہ کے شیخ آئے ہیں یا یہ کہیں گے کہ فلاں خانقاہ کے مجاہد آئے ہیں؟ (فلاں خانقاہ کے شیخ آئے ہیں۔سامعین) اسی طرح اگر کوئی تبلیغی جماعت آئی ہو اور مشقت کے ساتھ تبلیغ کرتے ہوں، ہمیں ملنے کے لیے آ جائیں تو آپ کیا کہیں گے کہ استاد جی ! چند تبلیغ والے آئے ہیں یا مجاہدین آئے ہیں؟ (تبلیغ والے آئے ہیں۔ سامعین) اور جب یہ کہیں کہ ایک مجاہد ملنےکے لیے آیا ہے تو اب معنی یہ ہو گا کہ جہاد کرنے والا مجاہد آیا ہے۔ دیکھو! ہمارے عرف میں بھی جہاد کا معنی متعین ہے۔ پھر کیوں ہم جھوٹ بولتے ہیں، کیوں دھوکہ دیتے ہیں اور اپنے ایمان کو کیوں تباہ کرتے ہیں؟ بھائی! پڑھانے پر فضائل موجود ہیں، تزکیہ پر فضائل موجود ہیں، دعوت وتبلیغ پر فضائل موجود ہیں تو جہاد کے فضائل کیوں مروڑتے ہو ؟
خدا کے لیے تحریفیں کر کے دین کو مت بگاڑو! دین کو خراب مت کرو! اللہ ہمیں یہ بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
دین کے مددگار بنو!
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡۤا اَنۡصَارَ اللہِ کَمَا قَالَ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ لِلۡحَوَارِیّٖنَ مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللہِ ؕ قَالَ الۡحَوَارِیُّوۡنَ نَحۡنُ اَنۡصَارُ اللہِ فَاٰمَنَتۡ طَّآئِفَۃٌ مِّنۡۢ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ وَ کَفَرَتۡ طَّآئِفَۃٌ ۚ فَاَیَّدۡنَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا عَلٰی عَدُوِّہِمۡ فَاَصۡبَحُوۡا ظٰہِرِیۡنَ ﴿٪۱۴﴾﴾
فرمایا کہ اے ایمان والو! اللہ کے مددگار بنو جیسے عیسیٰ ابن مریم نے حواریوں سے کہا تھا کہ کون ہے جو اللہ کے واسطے میری مدد کرے؟ حواریوں نے کہا کہ ہم مدد کریں گے۔ پھر یہ ہوا کہ بنی اسرائیل کا ایک گروہ ایمان لایا اور ایک نے کفر کیا۔ اللہ نے ایمان والوں کی مدد کی ان کے دشمنوں کے خلاف اور بالآخر ایمان والے غالب آ گئے ۔
حوای کی تعریف:
حواریین جمع ہےحواری کی۔ حواری کہتے ہیں ایسے مخلص دوست کو جس میں عیب نہ ہو۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا نے ایسے بارہ دوست دیے تھے جن میں عیب نہیں تھے۔ عیب دو قسم کا ہوتا ہے؛ ایک عیب ہوتا ہے لازمی اور ایک عیب ہوتا ہے متعدی۔ کچھ کمزوریاں ہوتی ہیں کہ جن کا نقصان انسان کی ذات کو ہوتا ہے اور کچھ کمزوریاں ایسی ہوتی ہیں کہ جن کا نقصان انسان کی ذات کو نہیں بلکہ پورے معاشرے کو ہوتا ہے۔ یہ جو لازمی عیب ہے اس کا کفارہ ہو جاتا ہے اور جو متعدی عیوب ہوتے ہیں ان کی تلافی بڑی مشکل ہوتی ہے۔ اس لیے اپنے مزاج میں یہ چیز شامل کریں کہ متعدی گناہ کبھی نہ کرو۔ لازمی بھی نہیں کرنا چاہیے لیکن متعدی گناہ بہت خطرناک ہوتے ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نصاریٰ کے تین فرقے تھے؛ ایک فرقہ یہ کہتا تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام خدا ہیں لہذا اوپر چلے گئے ہیں۔ بعض کہتے کہ خدا کے بیٹے تھے لہذا خدا نے اپنے پاس بلا لیا اور بعض کہتے کہ خدا کے بندے تھے، اللہ نے ان کو محفوظ کرنے کے لیے اوپر بلا لیا۔ تو تین قسم کے فرقے ان میں ہو گئے تھے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․