سورۃ الجمعۃ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ الجمعۃ
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿یُسَبِّحُ لِلہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ الۡمَلِکِ الۡقُدُّوۡسِ الۡعَزِیۡزِ الۡحَکِیۡمِ ﴿۱﴾ ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ٭ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ۙ﴿۲﴾﴾
جو چیزیں آسمانوں اور زمین میں ہیں وہ اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہیں وہ اللہ جو بادشاہ ہے، ہر عیب سے پاک ہے، غالب ہے اور حکمت والا ہے۔ وہی ہے جس نے اُمیوں کے لیے انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے کتاب اللہ کی آیات پڑھ کر سناتا ہے، انہیں پاک کرتا ہے، کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ اس سے پہلے یہ لوگ واضح گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔
پیغمبر کی چار صفات:
اللہ رب العزت نے اپنے پیغمبر کی چار صفات بیان فرمائی ہیں:
[1]:
”یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ “
انہیں قرآن کریم پڑھ کر سناتے ہیں۔
[2]:
” وَ یُزَکِّیۡہِمۡ“
تزکیہ سے ہے یعنی اخلاق رذیلہ سے پاک کرتے ہیں۔ عُجب، کبر، حسد، بغض اور گندے عقائد سے پاک کرتے ہیں۔
[3]:
”وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ“
قرآن مجید کا معنی سمجھاتے ہیں۔
[4]:
”وَ الۡحِکۡمَۃَ“
اور سنت کی تعلیم دیتے ہیں۔
یہ چار کام ہیں یعنی عملاً بتاتے ہیں کہ قرآن پر عمل کیسے کرناہے؟
یہاں
”الۡاُمِّیّٖنَ “
سے مراد تو عرب ہیں۔اُمی کہتے ہیں اَنْ پڑھ شخص کو۔ اَن پڑھ کا معنی جس نے کسی آدمی سے لکھنا پڑھنا نہ سیکھا ہو۔ اس معنی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اُمی ہیں کہ آپ نے کسی آدمی سے لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا۔ اُمی کا یہ معنی کرنا کہ جسے کچھ نہ آتا ہو یہ معنی ٹھیک نہیں ہے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سے لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا تھا، براہِ راست اللہ نے اپنے پیغمبر کو تعلیم دی ہے اور حضرت جبرائیل علیہ السلام بھی آپ کے معلم نہیں ہیں، نبی کا معلم خدا ہوتا ہے اور جبرائیل علیہ السلام درمیان میں واسطہ ہیں ۔ میں سمجھانے کے لیے مثال دیتا ہوں کہ جیسے یہ پینسل ہے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ پینسل اُس طالب علم کو دے دو، تو یہ دینے والا درمیان میں واسطہ ہے۔ میں تمہیں ایک پیغام دے رہا ہو کہ فلاں بندے کو دے دو، یہ واسطہ ہے۔ اسی طرح جبرائیل علیہ السلام اللہ عز وجل اور پیغمبر کے درمیان واسطہ ہوتے ہیں۔
پیغمبر پاک کی بعثت عامہ:
﴿وَّ اٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ ؕ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۳﴾﴾
اللہ تعالی کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اُمیوں کی طرف بھی بھیجے گئے اور ان لوگوں کی طرف بھی بھیجے گئے،
﴿لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ﴾
جو ابھی ان کے ساتھ نہیں ملے۔ اللہ غالب حکمت والا ہے۔
﴿لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ﴾
کا معنی ”ابھی تک پید انہیں ہوئے “ بھی کر سکتے ہیں اور ”ابھی تک انہوں نے کلمہ نہیں پڑھا“ بھی کر سکتے ہیں، دونوں معانی ٹھیک ہیں۔
﴿ذٰلِکَ فَضۡلُ اللہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ ﴿۴﴾ ﴾
یہ اللہ کا فضل ہے اللہ جسے چاہتے ہیں عطا فرما دیتے ہیں۔ اللہ بہت بڑے فضل کا مالک ہے۔
یہاں ایک بات سمجھیں کہ یہ جو
”فِی الۡاُمِّیّٖنَ “
میں لفظ
”فی“
ہے یہ بمعنی ”لام“ ہے۔ معنی یہ ہے کہ وہ اللہ جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی بنا کر بھیجا
”فِی الۡاُمِّیّٖنَ “
امیوں کے لیے
”وَّ اٰخَرِیۡنَ“
اور بعد والوں کے لیے۔ اگر یہ ترجمہ نہیں کریں گے تو اشکال پیدا ہو گا کہ اُمّیِّین میں نبی بنا کر بھیجا ہے یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے اور جو موجود نہیں تھے ان میں نبی بن کر کیسے آئے؟ وہ تو موجود ہی نہیں تھے۔ اس لیے یہاں ”فی“ کا معنی ”لام“ کریں گے۔ اب اشکال ختم ہو جائے گا ۔ اور ”فی “ کا معنی ”لام“ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے بیان القران میں کیا ہے۔ میں نے کتنی مرتبہ آپ سے کہا کہ آپ کو کتنے اشکالات متن قرآن پر ہوں تو بیان القرآن کھولو، آپ دیکھنا کہ قرآن کریم کے متن کے اشکال کیسے حل ہوتے ہیں۔
امام ابو حنیفہ کی بشارت:
﴿وَّ اٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ ﴾
ایک روایت میں ہے جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بھی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ
”اٰخَرِیۡنَ“
سے مراد کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکوت فرمایا۔ پھر پوچھا گیا کہ
”اٰخَرِیۡنَ“
سے مراد کون ہیں؟ پھر سکوت فرمایا۔ پھر پوچھا گیا کہ
”اٰخَرِیۡنَ“
سےمراد کون ہیں؟ تیسری بار جب پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا:
لَوْ كَانَ الْإِيمَانُ عِنْدَ الثُّرَيَّا لَنَالَهُ رِجَالٌ أَوْ رَجُلٌ مِنْ هَؤُلَاءِ.
صحیح البخاری، رقم: 4897
کہ اگر ایمان ثریا ستارے پر بھی پہنچ گیا تو سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے قبیلے کے لوگ وہاں سے بھی لائیں گے۔
ایک روایت میں دین کا لفظ ہے
صحیح مسلم، رقم: 2546
اور ایک روایت میں علم کا لفظ ہے۔
حلیۃ الاولیاء لابی نعیم الاصبہانی: ج6 ص64، 65
امام جلال الدین حضرت سیوطی رحمہ اللہ شافعی ہونے کے باوجود لکھتے ہیں کہ اس حدیث کا مصداق حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہیں۔
تبییض الصحیفۃ ص 59، 60
اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان فارسی رضی اللہ عنہ عجم سے تھے۔ ائمہ اربعہ میں امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ میں سے کوئی بھی عجمی نہیں تھے، تنہا امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ عجمی تھے اور فارسی تھے۔ تو یہ بشارت ان کے بارے میں ہے۔
﴿ وَ اٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ ﴾ کا مصداق امام ابو حنیفہ:
اس پر پھر میرے اپنے دلائل ہیں جو میں پیش کرتا ہوں بات سمجھانےکے لیے :
[1]: دیکھو! ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اَصْحَابِیْ کَالنُّجُوْمِ“
مشکوٰۃ المصابیح: ص 554 باب مناقب الصحابۃ
میرے صحابہ نجوم ہدایت ہیں۔
ثریا ایک ستارہ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ”اٰخَرِیۡنَ“ حضرت سلمان فارسی کے قبیلے کے لوگ ہوں گے، ثریا تک جب دین ہو گا تو وہ اسے وہاں سے بھی لیں گے۔ اس کا معنی کہ آخرین میں ایسے لوگ ہوں گے جو براہِ راست صحابہ سے دین حاصل کریں گے اور وہ امام اعظم ابوحنیفہ ہیں۔ یہ ہمارا استدلال ہے۔ اب دیکھیں! نفسِ مسئلہ ٹھیک ہو تو دلائل آپ جمع کرتے جائیں۔ تو آخرین کا مصداق امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہیں۔
[2]: میں ایک اور توجیہ پیش کرتا ہوں۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم عرب ہیں اور آپ کا دین عرب و عجم سب کے لیے ہے ۔ تو ایک ایسا شخص چاہیے کہ جو عجمی ہو اور عربی جانتا ہو، وہ باقی تینوں ائمہ میں سے کوئی امام نہیں ہے بلکہ یہ صرف امام اعظم ابوحنیفہ ہے جو عجمی اور عربی دونوں جانتے ہیں۔ کیا معنی کہ عربی پڑھیں گے اور عجمیوں کو سکھائیں گے، تو آخرین کا مصداق وہ آدمی ہے ۔
[3]: ایک ایسا شخص ہونا چاہیے کہ جو عرب وعجم کے درمیان میں ہو، عرب سے لے اور عجم کو دے ، یہ امام اعظم ابوحنیفہ ہے ۔ کیوں، اس لیے کہ امام اعظم ابوحنیفہ کوفہ میں تھے اور کوفہ عرب و عجم کے درمیان سنگم ہے، یہ شہر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بسایا تھا۔تو ضرورت ہے کہ ایسا شخص ہو جو سنگم پر بیٹھا ہو، اُدھر سے لے اور اِدھر دے ، امام مالک رحمہ اللہ ہیں ہی مدینہ میں، اُدھر سے لیں گے تو اُدھر ہی دیں گے کیونکہ دونوں طرف مدینہ ہے۔ یہ واحد امام اعظم ابوحنیفہ ہیں جو سنگم کوفہ پر بیٹھے ہیں، عرب سے لیتے ہیں اور عجم کو دیتے ہیں۔
جہاں پر بڑا کام چھوڑے وہاں سے چھوٹا شروع کرے:
آپ بڑی جرأت سے کہا کریں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ائمہ فقہاء میں پہلے فقیہ ہیں جنہوں نے علم شریعت کو مدون فرمایا ہے اور ان سے پہلے کسی نے یہ کام نہیں کیا اور پہلا شخص مکہ اور مدینہ کا نہیں بلکہ کوفہ کا ہونا چاہیے تھا.... اس کی وجہ یہ ہےکہ جہاں بڑا کام چھوڑ کر جائے تو چھوٹا وہاں سے شروع کرتا ہے، صدیق چھوٹے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے ہیں، حضور مدینہ سے گئے.... صدیق رضی اللہ عنہ مدینہ سے چلے، صدیق رضی اللہ عنہ بڑے ہیں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ چھوٹے ہیں، صدیق رضی اللہ عنہ مدینہ سے گئے ....عمر رضی اللہ عنہ مدینہ سےچلے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ بڑے ہیں اور عثمان رضی اللہ عنہ چھوٹے ہیں، عمر رضی اللہ عنہ مدینہ سے گئے ....عثمان رضی اللہ عنہ مدینہ سے چلے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بڑے ہیں اور علی رضی اللہ عنہ چھوٹے ہیں، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مدینہ سے گئے....حضرت علی رضی اللہ عنہ مدینہ سے چلے، اب حضرت علی رضی اللہ عنہ بڑے ہیں اور ان کے بعد چار فقہاء ہیں ، حضرت علی ان چاروں سے بڑے ہیں۔
اب توجہ رکھنا! خلفاء میں چار ابوبکر، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم اور فقہاء میں چار امام احمد، امام شافعی، امام مالک اور امام ابوحنیفہ ۔ اس کا معنی یہ ہے کہ خلفاء بڑے ہیں اور فقہاء چھوٹے ہیں۔ تو جہاں سب سے آخری خلیفہ گیا ہے تو سب سے پہلا فقیہ وہیں آئے گا، حضرت علی رضی اللہ عنہ مکہ سے جاتے تو پہلا امام مکہ میں آتا، حضرت علی مدینہ سے جاتے تو پہلا امام مدینہ میں آتا۔ چونکہ آخری خلیفہ کوفہ سے ہی گیا ہے لہذا پہلے امام کو کوفہ میں ہی ہونا چاہیے۔ کوفہ آخری خلیفہ کی جائے شہادت ہے اور پہلے امام کی جائے ولادت ہے! (سبحان اللہ۔ سامعین) اب دیکھو! بات کیسے کھلتی ہے! لوگوں کو بات سمجھ آتی ہے۔
باادب اور بے ادب:
بعض لوگ کہتے ہیں کہ حنفی ڈائریکٹ مدینہ کی بات نہیں کرتے بلکہ کوفہ کی بات کرتے ہیں کہ کوفہ کے ذریعے مدینے جاؤ جبکہ ہم کہتے ہیں کہ ڈائریکٹ مدینہ چلو !
ہم نے کہا کہ یہ ترغیب تو احادیث میں ہے ۔ المستدرک علی الصحیحین میں روایت موجود ہے:
"أَنَا مَدِيْنَةُ الْعِلْمِ وَعَلِيٌّ بَابُهَا، فَمَنْ أَرَادَ الْمَدِينَةَ فَلْيَأْتِ الْبَابَ. "
المستدرک علی الصحیحین: ج4 ص 96 رقم ا لحدیث4693
میں نبی علم کا شہر ہوں اور علی شہر علم کا دروازہ ہے۔ جو شہر علم میں آنا چاہتا ہے وہ دروازے سے ہو کر آئے۔
میں سمجھانے کے لیے کہتا ہوں کہ مسجد کا امام اعلان کرتا ہے کہ صفِ اول میں نماز پڑھو اس کا اجر بہت ملتا ہے۔ ایک شخص وہ ہے جو دروازے سے گزر کر صفِ اول میں جائے ، یہ با ادب نمازی ہے، ایک شخص وہ ہے جو دروازہ پھلانگ کر صفِ اول میں جائے ،یہ بے ادب نمازی ہے۔ تو جوشخص کوفہ کراس کر کے جائے تو یہ بے ادب ہے اور جو کوفہ سے ہو کر مدینہ جائے یہ با ادب ہے۔
یہ تعلیم تو ہمیں احادیث سے ملی ہے کہ اول کوفہ جانا چاہیے۔ یہ باتیں سمجھاؤ! پھر دیکھو کہ عوام کیسے ساتھ ملتی ہے؟!
ہم عاشقِ مدینہ ہیں:
پھر سوال کرتے ہیں کہ جی امام بخاری رحمہ اللہ کتنے بڑے آدمی ہیں! آپ لوگ امام بخاری کی تقلید نہیں کرتے ، امام ابو حنیفہ کی تقلید کرتے ہو، امیر المؤمنین فی الحدیث کو چھوڑ کر آپ نے امام اعظم ابوحنیفہ کی تقلید کی ہے۔
ہم نے کہا کہ ہم عاشقِ مدینہ ہیں اور عاشق کی خواہش ہوتی ہے کہ اپنے معشوق کے پاس جلدی پہنچے۔ امام بخاری سے کہیں کہ مدینہ جانا ہے، امام بخاری سٹاپ بہت کرتے ہیں، مثلاً ”وَبِہٖ قَالَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَشْكَابَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ“ لو جی مدینہ آ گیا۔
اور جب امام ابوحنیفہ سےکہیں کہ مدینہ جانا ہے تووہ کیا کہتے ہیں....
عَنْ اَبِیْ حَنِیْفَۃَ عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِک قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ
عَنْ اَبِیْ حَنِیْفَۃَ عَنْ وَاثِلَۃَ بْنِ الْاَثْقَعِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ
عَنْ اَبِیْ حَنِیْفَۃَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ اَبِیْ اَوْفٰی قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ
دیکھو! فوراً سٹاپ آتا ہے۔ ہم نے کہا کہ امام بخاری کی رفتار بہت تھوڑی ہے، امام ابو حنیفہ نان سٹاپ چلتے ہیں۔ اس لیے ہم ان کے مقلد بنتے ہیں۔
اور یہ بات الگ ہے کہ علم حدیث امام بخاری کے پاس زیادہ تھا یا امام ابو حنیفہ کے پاس زیادہ تھا؟یہ مستقل بحث ہے ۔ حضرت امام صاحب نے اپنے بیٹے حماد کو وصیت کی ہے۔ وصایا میں انیسویں نمبر پر یہ وصیت ہے کہ میرا بیٹا! میرے پاس پانچ لاکھ احادیث ہیں، ان میں سے پانچ حدیثیں تجھے دے رہا ہو ں، ان پر عمل کرنا!
کتاب الوصیۃ لابی حنیفۃ: ص78 رقم الوصیۃ 19
پانچ لاکھ احادیث میں سے پانچ دی ہیں اپنے بیٹے کو تو آپ کیسے کہتے ہیں کہ ان کے پاس تھوڑی احادیث تھیں! اللہ ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
گدھے کی مثال:
﴿مَثَلُ الَّذِیۡنَ حُمِّلُوا التَّوۡرٰىۃَ ثُمَّ لَمۡ یَحۡمِلُوۡہَا کَمَثَلِ الۡحِمَارِ یَحۡمِلُ اَسۡفَارًا ؕ بِئۡسَ مَثَلُ الۡقَوۡمِ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِ اللہِ ؕ وَ اللہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۵﴾﴾
اور فرمایا کہ ان یہود کی مثال ایسی ہے جیسے گدھا ہو اور اس پر کتابیں لاد دی گئی ہوں۔ یہ ان کتابوں سے فائدہ حاصل نہیں کر سکتا۔
یہ ”اسفار“ سِفْر کی جمع ہے، سِفْر بڑی کتاب کو کہتے ہیں۔ بڑی بڑی کتابیں گدھے پر لادو تو وہ عمل نہیں کرتا ۔ اللہ ہمیں گدھا بننے سے محفوظ فرمائیں ۔ جانوروں میں گدھا ایسا جانور ہے کہ جب حماقت میں مثال دینی ہو تو گدھے کی مثال دیتے ہیں۔ اس لیے یہاں ان کی بات فرمائی ہے۔
اب یہاں ذرا حسنِ ترتیب کو دیکھیں کہ بہت عجیب ہے۔
﴿ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا﴾
میں پہلے رسول کی بات کی ہے، اس کے بعد
﴿یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ﴾
میں صحابہ کی بات کی ہے ،
﴿وَّ اٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ﴾
میں پھر فقہاء مجتہدین کی بات کی ہے اور اس کے بعد
﴿مَثَلُ الَّذِیۡنَ حُمِّلُوا التَّوۡرٰىۃَ﴾
میں پھر گدھوں کی بات کی ہے۔ کیسی ترتیب اللہ نے قائم فرمائی! پہلے نبی ، پھر صحابہ، پھر مجتہد اور بعد میں گدھے جو کتابیں اٹھا کر پھرتے ہیں اور بات سمجھتے نہیں ہیں۔ ان کی آواز بھی گدھے کی طرح ہے۔ قرآن کریم میں ہے کہ سب سے بد ترین آواز گدھے کی ہے۔
گدھے پر بوجھ ہو تو ٹانگیں چوڑی ہو جاتی ہیں:
اور ہمارا واسطہ گدھوں سے پڑا ہے۔ میں بتایا کرتا ہوں کہ یہ گدھے کی علامت ہے کہ گدھے کی کمر پر پانچ من گندم رکھو تو وہ اٹھا لے گا لیکن سر پر ایک چھٹانک کا کپڑا رکھو تو نہیں اٹھائے گا۔ یہ کمر پر بوجھ اٹھا لیں گے اور جب سر پر جالی کی ٹوپی بھی رکھو گے تو یہ نہیں اٹھا سکتے! یہ گدھے کا کام ہے۔ عام حالت میں گدھا بالکل صحیح کھڑا ہو گا اور جب آپ اس پر بوجھ لا دو گے تو اس کی ٹانگیں چوڑی ہو جائیں گی۔ یہ گدھے کی نشانی ہے۔ میں سمجھانے کے لیے کہتا ہوں کہ قرآن کریم میں ہے:
﴿قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ۙ﴿۱﴾ الَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ صَلَاتِہِمۡ خٰشِعُوۡنَ ۙ﴿۲﴾﴾
المؤمنون23: 1، 2
کہ وہ مومن کامیاب ہیں جو نماز میں خشوع کرتے ہیں۔
اور خشوع والے کون ہیں؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
وَلَا یَرْفَعُوْنَ اَیْدِیَہُمْ فِی الصَّلَاۃِ.
تفسیر ابن عباس :ص212
کہ ترک رفع یدین والی نماز یہ خشوع والی ہے اور ترک رفع یدین نہ ہو تو پھر خشو ع نہیں ہوتا۔ اور قرآن میں ہے:
﴿وَ اِنَّہَا لَکَبِیۡرَۃٌ اِلَّا عَلَی الۡخٰشِعِیۡنَ﴾
البقرۃ 2: 45
تو ترک رفع الیدین خشوع ہے اور جہاں ترک رفع الیدین ختم ہو گیا تو نماز بھاری ہو گئی ، بوجھ پڑا تو پھر فوراً ٹانگیں کھل جاتی ہیں۔ یہ گدھے کا کام ہے کہ جب تک کھڑا ہو ٹھیک ٹھاک ہوتا ہے اور جب اس پر بوجھ ڈالو تو اس کی ٹانگیں کھل جاتی ہیں، یہ بھی بالکل ٹھیک ٹھیک کھڑے ہوتے ہیں، جونہی بوجھ ڈالو فوراً ٹانگیں کھول دیتے ہیں ۔
شیطان کے لیے محفوظ گزر گاہ:
اور پھر ان کے دماغ دیکھو اور استدلال دیکھو۔ جماعت کے ساتھ نماز ہو رہی ہے، ساتھ ساتھ نمازی ہیں۔ اب کہتے ہیں کہ پاؤں سے پاؤں ملاؤ! ٹانگیں کھلی کرو! میں نے کہا کہ بھائی! پاؤں سے پاؤں کیوں ملاتے ہو؟ کہتے ہیں کہ ہم پاؤں سے پاؤں ملاتے ہیں تاکہ شیطان درمیان میں نہ گزرے۔ میں نے کہا کہ پاؤں سے پاؤں چپکا کر نہ رکھو بلکہ درمیان میں جگہ رکھو تاکہ شیطان یہاں سے گزرے، اس کو یہاں سے جانے دو، لیکن یہ لوگ پاؤں سے پاؤں ملاتے ہیں اور ٹانگیں کھول دیتے ہیں تاکہ شیطان وہاں سے نہ آئے یہاں سے آئے، شیطان کو راستہ دینا ہے لیکن خطرناک راستہ دینا ہے۔ تو ہے نا گدھوں والا دماغ ؟ حماقت ہے یا نہیں؟
سچے ہو تو موت کی تمنا کرو!
﴿قُلۡ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ ہَادُوۡۤا اِنۡ زَعَمۡتُمۡ اَنَّکُمۡ اَوۡلِیَآءُ لِلہِ مِنۡ دُوۡنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الۡمَوۡتَ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۶﴾ وَ لَا یَتَمَنَّوۡنَہٗۤ اَبَدًۢا بِمَا قَدَّمَتۡ اَیۡدِیۡہِمۡ ؕ وَ اللہُ عَلِیۡمٌۢ بِالظّٰلِمِیۡنَ ﴿۷﴾﴾
یہود کہتے تھے کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اللہ کے دوست ہیں ۔ فرمایا کہ تمہارا دعویٰ ہے کہ تم اللہ کے دوست ہو تو دوست تو دوست سے ملنے کی بہت چاہت کرتا ہے، کیوں کہ
”اَلْمَوْتُ جَسْرٌ یُوْصِلُ الْحَبِیْبَ اِلَی الْحَبِیْبِ“
التذکرہ للقرطبی:ص 13
موت تو ایسا پل ہے کہ دوست کو دوست سے ملاتا ہے۔ تو فرمایا کہ اللہ کے محبوب ہو تو پھر موت مانگو! لیکن یہ موت نہیں مانگتے ۔ اللہ فرماتے ہیں:
﴿وَ لَا یَتَمَنَّوۡنَہٗۤ اَبَدًۢا بِمَا قَدَّمَتۡ اَیۡدِیۡہِمۡ﴾
یہ لوگ کبھی موت نہیں مانگیں گے، اس لیے کہ ان کو اپنے کرتوتوں کا پتا ہے کہ مرنے کے بعد ہمارے ساتھ کیا ہونا ہے!
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر ان میں سے کوئی ایک موت کی دعا مانگتا تو فوراً مر جاتا۔
جمعۃ المبارک:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۹﴾﴾
اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جانے کا اہتمام کرو اور خرید و فروخت چھوڑ دو۔ اگر تم سمجھو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔
کعب بن لوئی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اجداد میں سے ہیں انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا میں آنے سے پانچ سو ساٹھ سال قبل جمعہ شروع کیا تھا، وہ توحید پر تھے، جب جمعہ کا دن آتا تو لوگوں کو جمع کرتے، خطبہ دیتے اور اللہ کی توحید بیان کرتے تھے ۔ انصارِ مدینہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے پہلے جمعہ کے دن کا اجتماع شروع کر دیا تھا۔ اللہ کو جمعہ کا اجتماع پسند تھا تو شریعت نے باضابطہ جمعہ کا دن دیا ہے۔
جمعہ کی دوسری اذان سنت ہے:
جمعہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک اذان ہوتی تھی جو مؤذن خطبہ کے وقت امام کے سامنے کھڑے ہو کر دیتا تھا۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بھی ایسے تھا، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بھی ایسے ہی معاملہ رہا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے دوسری اذان شروع کروائی۔ ایک اذان تو امام کے سامنے ہوتی ہے یہ تو پہلے سے تھی اور ایک اذان اس سے پہلے والی حضرت عثمان نے شروع کروائی۔ دوسری اذان کا معنی یہ نہیں کہ امام کے منبر کے سامنے جو اذان دی جاتی ہے اس کے بعد والی اذان ہو، ایسا نہیں بلکہ دوسری کا معنی یہ ہے کہ پہلے ایک اذان تھی اور اب دو اذانیں ہیں۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں ایک اذان مقام زوراء پر دی جاتی جس کی آواز پورے مدینے میں پہنچتی تھی اور دوسری اذان سابقہ معمول کے مطابق منبر کے سامنے ہوتی تھی۔ صحیح بخاری میں روایت موجود ہے:
أَنَّ التَّأْذِيْنَ الثَّانِيَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَمَرَ بِهٖ عُثْمَانُ حِيْنَ كَثُرَ أَهْلُ الْمَسْجِدِ وَكَانَ التَّأْذِيْنُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ حِيْنَ يَجْلِسُ الْإِمَامُ.
صحیح البخاری، رقم: 915
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے دوسری اذان شروع فرمائی تھی اور تمام صحابہ رضی اللہ عنہ کا اتفاق تھا کہ ٹھیک ہے۔ میں نے آپ لوگوں کو بتایا تھاکہ اجماعِ صحابہ نبوت کی طرح معصوم ہوتا ہے۔
پھر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا کہ میں دنیا میں نہیں ہوں گا ”فَاِ نَّہٗ مَنْ یَّعِشْ مِنْکُمْ بَعْدِیْ فَسَیَرَی اخْتِلَافًا کَثِیْرًا فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الْمَھْدِیِّیْنَ الرَّاشِدِیْنَ “
سنن ابی داؤد، رقم: 4607
تو پھر خلفاء راشدین کی سنت پر عمل کرنا۔
اذانِ اول کے بعد خرید وفروخت ممنوع ہے:
اور اس بات پر بھی امت کا اجماع ہے کہ یہ جو قرآن کریم میں ہے:
﴿اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ﴾
کہ جب جمعہ کے لیے بلایا جائے تو اس وقت تم کاروبار وغیرہ چھوڑ دو، اس سے مراد پہلی اذان ہے ۔ پہلی اذان کےبعد یہاں تک لکھا ہے کہ عالم کو مطالعہ کرنا بھی چھوڑ دینا چاہیے ، اب صرف اور صرف جمعہ کی تیاری ہو۔
سعی الی الجمعہ کا اہتمام کیجیے!
میں اس لیے گزارش کرتا ہوں کہ اس پر میں اور آپ عمل کی کو شش کریں۔ اللہ کے لیے یو ں نہ کریں کہ ہم علماء نے جب جمعہ پڑھانا ہو تو پھر جلدی آئیں اور جب جمعہ پڑھنا ہو تو پھر دیر سے آئیں ۔ جمعہ سے متعلقہ چیزیں تو ہو سکتی ہیں مثلاً جمعہ کی تیاری ہے لیکن جو چیزیں جمعہ کی تیاری کے علاوہ ہیں اس سے ہم بچنے کی کوشش کریں۔ مجھے اور آپ کو اپنی کوتاہی پر توبہ کرنی چاہیے اور اس کا بھر پور اہتمام کرنا چاہیے۔
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ﴾
”فَاسۡعَوۡا“
کا معنی آپ نے دوڑنا نہیں کرنا کہ ”دوڑو!“ بلکہ
”فَاسۡعَوۡا“
کا معنی ہے کہ ”اہتمام کرو“۔ جب جمعہ کی پہلی اذان ہو تو اللہ کے ذکر کی طرف جانے کا اہتمام کرو!
سعی کا معنی ہمیشہ دوڑنا نہیں ہوتا ۔ دیکھو! صفا اور مروہ کے درمیان سعی ہوتی ہے تواس کا معنی دوڑناہے؟ نہیں بلکہ اہتمام سے چلو۔ تھوڑی دوڑ تو مخصوص جگہ پر ہے، باقی کو اہتمام کے ساتھ کرو۔ تو سعی کا معنی ہمیشہ دوڑنا نہیں ہوتا بلکہ اس کا معنی اہتمام کرنا ہے۔
دیہات اور جمعہ کی ادائیگی:
﴿وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ﴾
امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک جمعہ شہر میں ہوتا ہے، ”الۡبَیۡعَ“ اس کی ایک دلیل ہے اور امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ چالیس شخص عاقل بالغ ایک جگہ پر اکٹھے ہو جائیں تو جمعہ فرض ہے۔ امام صاحب فرماتے ہیں کہ عاقل بالغ تو بے شک دو ہی ہوں جنہوں نے جمعہ پڑھنا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ شہر ہو یا قصبہ ہو ، بازار ہو، قاضی ہو یہ جمعہ کی شرائط میں سے ہیں۔
اذانِ اول کے بعد کوئی بھی کام کریں تو یہ ممنوع ہے۔ جس طرح اذان اول کے بعد تجارت کرنی ٹھیک نہیں ہے اسی طرح کوئی اور کام بھی ٹھیک نہیں ہے لیکن شہروں میں عموماً تجارت ہوتی ہے اس لیے لفظ
”وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ“
استعمال فرمایا۔ ایک بات یہ بھی یاد رکھیں کہ یہاں لفظ ”بیع“ میں خریدنا بھی شامل ہے، صرف فروخت اس میں شامل نہیں ہے۔ مطلب یہ کہ خرید وفروخت کو چھوڑو اور جمعہ کی تیاری کرو۔
صحابہ کرام کے خطبہ چھوڑ کر جانے کی وجہ:
﴿وَ اِذَا رَاَوۡا تِجَارَۃً اَوۡ لَہۡوَۨا انۡفَضُّوۡۤا اِلَیۡہَا وَ تَرَکُوۡکَ قَآئِمًاؕ﴾
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن جمعہ کے فرض کے بعد خطبہ دیتے تھے جیسے ہمارے ہاں عیدین کا خطبہ ہوتا ہے۔ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض پڑھا لیے اور خطبہ دے رہے تھے کہ ندا آئی کہ قافلہ آ گیا ہے۔ یہ قافلہ تھادحیہ بن خلف کلبی کا۔ یہ قافلہ شام سے آیا تھا۔ ان کا قافلہ جب بھی آتا تو ضروریاتِ زندگی کا سارا سامان اس میں ہوتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بہت بڑی تعداد تجارت کے لیے چلی گئی۔ کچھ رہ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر سارے چلے جاتے تو مدینہ کی وادی آگ کے عذاب سے بھر جاتی۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں اور سمجھایا گیا کہ جب کوئی تجارت ہو، کوئی مشغولیت کی چیز ہو تو خطبہ کو چھوڑ کر جانا جائز نہیں ہے۔ اللہ کےپاس جو چیز ہے وہ تجارت کی ان چیزوں سے بہتر ہے۔ تو تجارت کی وجہ سے دنیاوی اسباب پر بھروسہ نہ کرو بلکہ اللہ کی جو چیز یں ہیں وہ اس سےبہتر ہیں، ان پر اعتماد کرو ۔
اب اس پر شبہ ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر چلے گئے تو یہ بہت بڑا گناہ تھا حالانکہ حقیقت یہ نہیں ہے، کیوں کہ خطبہ تھا جمعہ کے بعد اور ضروریاتِ زندگی کی ان کو ضرورت تھی ۔ اب قافلہ آ گیا اور آواز ایسی لگی کہ عورتوں اور مردو ں کو جانا پڑا۔ عورتوں پر تو جمعہ فرض نہیں ہے اس لیے وہ چلی گئیں اور بعض ایسے تھے کہ جن کی اہلیہ چلی گئی اور شوہر یہاں پر ہے تو ضروریات زندگی تو دونوں کو معلوم ہوتی ہیں اس لیے وہ بھی چلے گئے اور ایسےموقع پر جب کچھ حضرات یہیں پر موجود ہیں اور کچھ چلے گئے ہیں تو اس طرف ذہن نہیں جاتا کہ ہم کو رہنا چاہیے تھا، بلکہ ذہن میں تھا کہ ہم جائیں گے تو ضرورت کی چیزیں ختم ہو جائیں گی۔
بسا اوقات انسان اپنا ایک اجتہاد کر لیتا ہے کہ میں جاؤں گا تو ضرورت کی چیزیں ختم ہو گئی ہوں گی تو مجھے ذرا دقت پیش آئے گی۔ اس لیےمیں جا کر ضروری چیزیں حاصل کر لوں۔ یہ ایسے ہے جس طرح ہمارے ہاں جماعت کھڑی ہو اور بندہ کہے کہ میں تھوڑا سا کام کر لوں پھر جماعت میں پہنچوں گا ، اسی دوران ایک رکعت چلی جاتی ہے۔ توجس طرح اس بندے کا اجتہاد ہوتا ہے نا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا بھی یہ اجتہاد تھا لیکن یہ چونکہ اللہ کو پسند نہیں آیا اس لیے اس پر تنبیہ آ گئی ہے کہ ایسا نہ کیا کرو، عبادات کے وقت عبادات پر توجہ دیا کرو اور یہ کام تو بعد میں بھی ہو جائیں گے۔ یوں تنبیہ فرمائی ۔
اس واقعےکے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کا خطبہ نماز سے پہلے دینا شروع فرما دیا ورنہ پہلے فرض نماز پڑھی جاتی تھی اور بعد میں خطبہ ہوتا تھا۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․