سورۃ القلم

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ القلم
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿ نٓ وَ الۡقَلَمِ وَ مَا یَسۡطُرُوۡنَ ۙ﴿۱﴾ مَاۤ اَنۡتَ بِنِعۡمَۃِ رَبِّکَ بِمَجۡنُوۡنٍ ۚ﴿۲﴾﴾
”نٓ “ متَشابہات میں سے ہے، حروف مقطعات میں سے ہے جس کا معنی اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ۔
قلم سے کیا مراد ہے؟
”وَ الۡقَلَمِ“
قسم ہے قلم۔ اس سے مراد یا تو قلمِ تقدیر ہے یا مراد قلمِ خلائق ہے۔ قلمِ تقدیر سے مراد وہ قلم ہے جسے اللہ نے مخلوقات کو پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے حکم دیا تھا کہ لکھو، اللہ پاک نے جو کچھ لکھوانا تھا وہ سب کچھ لکھ دیا۔ یا اس سے مراد قلمِ خلائق ہے یعنی مخلوقات کی قلم جس سے مخلوق لکھتی ہے۔ یہاں دونوں مراد ہو سکتے ہیں، قلمِ تقدیر بھی اور قلمِ خلائق بھی لیکن سورۃ العلق میں
﴿اِقۡرَاۡ وَ رَبُّکَ الۡاَکۡرَمُ ۙ﴿۳﴾ الَّذِیۡ عَلَّمَ بِالۡقَلَمِ ۙ﴿۴﴾﴾
میں قلم سے مراد قلمِ تقدیر نہیں بلکہ قلمِ خلائق ہے یعنی مخلوق والی قلم۔ لیکن یہاں سورۃ القلم میں تو دونوں مراد ہیں۔
﴿مَاۤ اَنۡتَ بِنِعۡمَۃِ رَبِّکَ بِمَجۡنُوۡنٍ﴾
میرے پیغمبر! اللہ کا فضل ہے کہ آپ مجنون نہیں ہیں۔ یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں جو آپ کو مجنون کہتے ہیں۔
خلق عظیم کی حامل شخصیت:
﴿وَ اِنَّ لَکَ لَاَجۡرًا غَیۡرَ مَمۡنُوۡنٍ ۚ﴿۳﴾ وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیۡمٍ ﴿۴﴾﴾
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صاحبِ اخلاق تھے۔ ام المؤمنین امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کیا تھے؟ فرمایا کہ قرآن کریم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق سے بھرا ہوا ہے۔ ہمارے ہاں یہ بات جو چلائی جاتی ہے کہ اسلام اخلاق سے پھیلا ہے ،جہاد اور تلوار سے نہیں پھیلا یہ بہت بڑا جھوٹ ہے اور شریعت پر بہت بڑا بہتان اور الزام ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ تلوار کو اخلاق سے الگ کیا جا رہا ہے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کے گھر سے تلواریں ہی نکلی تھیں۔ تو نبی کے گھر سے نکلنے والی چیز اخلاق کے خلاف کیسے ہو سکتی ہے؟ اس لیے تلوار اخلاق کا جز ہے، اخلاق سے خارج نہیں ہے۔
تلوار؛ اخلاق سے خارج نہیں:
زبان سے سمجھانا چاہیے لیکن جب سمجھ میں نہ آئے تو پھر دماغ ٹھیک کرنا چاہیے۔ جس طرح کسی آدمی کو سمجھانا اخلاق ہے اسی طرح کسی بد دماغ آدمی کا دماغ ٹھیک کرنا بھی اخلاق ہے۔ تلوار اخلاق میں شامل ہے، اخلاق سے خارج نہیں ہے۔ پھر لوگ بعض مثالیں دیتے ہیں کہ سن کر بھی بندے کو شرم آتی ہے۔ کہتے ہیں کہ جی فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے دربار میں ایک شہزادہ گرفتار ہو کر آیا تو اس نے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے پانی مانگا۔ جب پانی لے لیا پینے کے لیے تو اس نے کہا کہ جی میں ڈر رہا ہوں کہ پانی پینے لگوں تو مجھے قتل نہ کر دیں۔ فرمایا: نہیں کریں گے! اس نے کہا: جب تک میں پانی نہ پیوں مجھے نہیں ماریں گے؟ فرمایا نہیں ماریں گے۔ اس نے پانی گرا دیا اور اس نے کہا کہ مجھے پتا ہے کہ مسلمان قول کے پکے ہیں، یہ مجھے نہیں ماریں گے۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جاؤ تمہیں آزادی ہے، تمہیں نہیں ماریں گے۔ اس نے اسی وقت کلمہ پڑھا اور مسلمان ہو گیا ۔ تو دیکھو! یہ تلوار سے ڈر کر نہیں ہوا تھا بلکہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے اخلاق کو دیکھ کر ہو ا تھا۔ میں نے کہا کہ یہ شخص حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے دربار میں ایسے ہی بیٹھا ہو ا تھا؟
جب یہ ایران میں تھا تو ایسی بات کیوں نہیں کرتا تھا وہاں اس کو حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے اخلاق کیوں نظر نہیں آتے تھے؟ تلوار کے سائے میں فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے دربار میں آیا، یہاں تک اس کو تلوار لائی ہے، اس کے بعد پھر اخلاق دیکھے ہیں۔ تو آپ کیسے کہتے ہیں کہ تلوار اخلاق سے خارج ہے؟! عجیب بے وقوفی کی بات ہے یہ۔ سورۃ النصر میں ہے:
﴿اِذَا جَآءَ نَصۡرُ اللہِ وَ الۡفَتۡحُ ۙ﴿۱﴾ وَ رَاَیۡتَ النَّاسَ یَدۡخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللہِ اَفۡوَاجًا ۙ﴿۲﴾﴾
جب طاقت استعمال ہوئی نا تو پھر فرد نہیں بلکہ افراد اسلام میں آئے ہیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ فتح فرمایا ہے تو بتاؤ وہ دس آدمی گئے تھے یا دس ہزار گئے تھے ؟ (دس ہزار گئے تھے۔ سامعین) خالی ہاتھ گئے تھے یا اسلحہ لے کر گئے تھے (اسلحہ لے کر گئے تھے۔ سامعین) اور جب مکہ میں داخل بھی ہوئے نا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر اسلام سے فرمایا تھا کہ ایک دوسرے سے دور دور بیٹھو اور تھوڑے تھوڑے ہو کر بیٹھو، آگ جلاؤ تاکہ پتا چلے کہ ان کی طاقت بہت ہے اور ایک ایک قبیلہ مکہ میں داخل ہو اور تکبیر کے نعرے لگاتے چلے جاؤ! مکہ والوں پر رعب بیٹھ گیا، کسی کی جرأت نہیں تھی دم مارنے کی اور پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق دیکھو کہ
” مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِيْ سُفْيَانَ فَهُوَ آمِنٌ ، وَمَنْ أَغْلَقَ بَابَهُ فَهُوَ آمِنٌ ، وَمَنْ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَهُوَ آمِنٌ“
المعجم الکبیر للطبرانی :ج4 ص194 رقم الحدیث7115
یہ کیسی جرأت سے اعلان ہو رہے ہیں؟!کہ آج جو ابو سفیان کے گھر میں چلا جائے گا تو اسے کچھ نہیں کہیں گے، جو اپنے گھر کا دروازہ بند کر لے گا تواسے بھی کچھ نہیں کہیں گے! اور جو حرم میں داخل ہو جائے گا تو اسے بھی کچھ نہیں کہیں گے!
لوگ کہتے ہیں کہ جی دیکھو! حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے معاف کر دیا۔ ہم نے کہا: ٹھیک ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاف فرما دیا ہے لیکن یہ تو دیکھو کہ کب معاف فرمایا؟ معاف فرمایا ہے جب یہ لوگ تلوار کے نیچے تھے تبھی معاف فرمایا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں بھی معاف کرتے رہے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت نہیں کی تھی تو اس وقت بھی معاف فرماتے رہے لیکن اس وقت تو کوئی مسلمان نہیں ہو رہا تھا اور اب معاف کیا تو اب گروہ در گروہ مسلمان ہو رہے ہیں۔ کیوں کہ اب طاقت والے ہو کر معاف کر رہے ہیں۔بات سمجھ میں آئی ہے؟ (جی ہاں۔ سامعین)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے لیے رات کو چھپ کر نکلے تھے جب طاقت نہیں تھی لیکن جب واپس آئے تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار کا قافلہ لے کر آئے۔
طاقت کی اہمیت کا انکار کبھی نہ کرنا:
اس لیے طاقت کا انکار کبھی نہیں کرنا! ہاں یہ اقرار کرو کہ ہمارے پاس طاقت نہیں ہے! اپنے پاس طاقت نہ ہو اور بندہ طاقت کا انکار کر دے تو یہ درست نہیں ہے! اپنے پاس دولت نہیں ہے تو دولت کا انکار کر دے کہ جی دولت سے کیا ہوتا ہے! یہ بات درست نہیں ۔ کیونکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے تیس اونٹنیوں کی مالیت کے برابر کپڑے بھی پہنے ہیں۔ مدینہ میں سب سے قیمتی گھوڑا حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ہوتا تھا، قیمتی تلوار اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہوتی تھی ۔ تمہارے پاس اگر یہ چیزیں نہیں ہیں تو ایسی باتیں کیوں کرتے ہو؟! میں اس لیے کہتا ہوں کہ شریعت کے مزاج کو سمجھو! بس مزاجِ شریعت سمجھ میں آ جائے تو مزہ آتا ہے ۔
مداہنت سے احترازکرو!
﴿فَلَا تُطِعِ الۡمُکَذِّبِیۡنَ ﴿۸﴾ وَدُّوۡا لَوۡ تُدۡہِنُ فَیُدۡہِنُوۡنَ ﴿۹﴾﴾
یہ عام کفار کے بارے میں بھی ہے اور بطورِ خاص ولید بن مغیرہ کے بارے میں ہے۔ نو اوصاف اللہ نے اس کے ذکر فرمائے ہیں کہ یہ کتنا گندہ انسان ہے! اگر اس کے پاس دولت ہے تو پھر کیا ہوا؟ اس کی گندگی دیکھو اور ایسے بندے کی بات نہ مانو۔
فرمایا: آپ جھٹلانے والوں کی بات کبھی نہ مانیں۔ یہ کافر چاہتے ہیں کہ تم مداہنت اختیار کرو، دین میں کمزوری اختیار کرو،
”فَیُدۡہِنُوۡنَ“
وہ بھی مداہن بن جائیں گے اور تمہاری مخالفت کم کریں گے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: اس آیت کا معنی یہ ہے کہ مشرکین اور کفار چاہتے ہیں کہ تم ان کے مقابلے میں توحید بیان کرنا کم کر دو تو وہ تمہاری مخالفت میں کمی کر دیں گے۔
مداہنت فی الدین حرام ہے:
اور اس آیت کے تحت تفسیر مظہری اور معارف القرآن میں ہےکہ کفار کی رعایت میں ان کی مخالفت کم کرنا یہ مداہنت فی الدین اور حرام ہے، اضطرار کی صورت اس سے الگ ہے لیکن بغیر کسی اضطراری کیفیت کے ایسا کرناجائز نہیں۔
معارف القرآن: ج8 ص533
میں کہتا ہوں کہ تم کون سی اضطراری صورت میں ہو کہ کبھی ان کی رعایت ہے،کبھی منکرین حیات کی رعایت ہے، کبھی اہلِ بدعت کی رعایت ہے، کبھی فلاں کی رعایت ہے! تم کون سی اضطراری کیفیت میں ہو؟ میں نے ایک جگہ عرض کیا، میں نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر تم کفر کو پیغام دینا چاہتے ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر ہم اکٹھے ہیں تو ٹھیک ہےتم ان کو بھی ساتھ بٹھا ؤ، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن گلی گلی محلہ محلہ ان کو کیوں ساتھ بٹھاتے ہو! ہر جگہ پر اپنا مذہبی اور دینی تشخص خراب کرتے ہو ۔ مداہنت فی الدین حرام ہے ۔
اکابر کے کلام سے توافق پر خوشی:
مفتی محمدشفیع صاحب نے معارف القرآن میں اور قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ تفسیر مظہری میں یہ لکھا ہے۔ اس لیے اس کا بہت زیادہ خیال فرمایا کریں۔ میں نے آپ سے کہا تھا کہ میں یہ باتیں اپنے ذوق سے کہتا ہوں لیکن جب مجھے حوالہ ملتا ہے تو اپنے دل کی خوشی پھر میں ہی جانتا ہوں کہ مجھے کتنی خوشی ہوتی ہے۔ میں ہمیشہ کہتا تھا کہ وزنِ اعمال کا مدار کیفیت ہے کمیت نہیں لیکن میرے پاس حوالہ نہیں تھا۔ رات دورانِ مطالعہ میرے پاس یہ حوالہ آ گیا تو میں بہت خوش ہوا۔ حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ
”اَحۡسَنُ عَمَلًا“
سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن اعمال گنے نہیں جائیں گے بلکہ تولے جائیں گے تو اعمال کی بنیاد کمیت نہیں ہے کیفیت ہے۔
”اَحۡسَنُ عَمَلًا“
فرمایا
”اَکْثَرُ عَمَلًا
نہیں فرمایا۔ میرا دل کتنا خوش ہوا یہ میں ہی جانتا ہوں۔ میں اللہ کا بہت شکر ادا کرتا ہوں۔ میں نے کئی بار کہا کہ میں اصولِ شریعت سے شریعت کے مسائل بیان کرتا ہوں اور جزئیات میرے پاس نہیں ہوتیں لیکن دورانِ مطالعہ پھر جزئیات آتی ہیں۔ ہاں البتہ میں نظائر پیش کرتا رہتا ہوں ۔
موقع پر باطل کی وضاحت ضروری ہے:
﴿وَ لَا تُطِعۡ کُلَّ حَلَّافٍ مَّہِیۡنٍ ﴿ۙ۱۰﴾﴾
یہ اس کے اوصاف بیان کیے ہیں کہ یہ شخص جھوٹی قسمیں کھاتا ہے،
”مَّہِیۡنٍ“
یہ شخص ذلیل اور کمینہ ہے،
”ہَمَّازٍ“
طعنہ بہت دینے والا ہے،
”مَّشَّآءٍۭ بِنَمِیۡمٍ“
چغل خور ہے،
”مَّنَّاعٍ لِّلۡخَیۡرِ“
خیر سے روکتا ہے،
”مُعۡتَدٍ“
حد سے تجاوز کرتا ہے،
”اَثِیۡمٍ“
گناہ گار ہے،
”عُتُلٍّ“
مزاج کا سخت ہے اور پھر
”بَعۡدَ ذٰلِکَ زَنِیۡمٍ“
بدنام بھی ہے، ولد الزنا اور حرام کی اولاد ہے،
”اَنۡ کَانَ ذَا مَالٍ وَّ بَنِیۡنَ“
وجہ صرف یہ ہے کہ اس کے پاس بہت مال ہے اور اولاد ہے۔
دیکھو! قرآن کتنے سخت الفاظ استعمال کرتا ہے ایک کافر کے بارے میں اور ہم نے کیا ڈرامہ رچا رکھا ہے کہ جی ایسی بات نہیں کہنی چاہیے ! ارے بھائی! قرآن کریم تو کھل کھل کر اس بدمعاش کے اوصاف بیان کر رہا ہے ۔
﴿سَنَسِمُہٗ عَلَی الۡخُرۡطُوۡمِ ﴿۱۶﴾﴾
ہم قیامت کے دن اس کی ناک پر داغ لگائیں گے۔ دور سے پتا چلے گا کہ یہ بدبخت آ رہا ہے ۔
باغ والوں کا انجام:
﴿اِنَّا بَلَوۡنٰہُمۡ کَمَا بَلَوۡنَاۤ اَصۡحٰبَ الۡجَنَّۃِ ۚ اِذۡ اَقۡسَمُوۡا لَیَصۡرِمُنَّہَا مُصۡبِحِیۡنَ ﴿ۙ۱۷﴾﴾
یہ اصحاب الجنۃ کون تھے؟ یہ یمن کے شہر صنعاء سے چھ میل باہر ایک آدمی کا باغ تھا اور کھیتی بھی تھی۔ اس کا معمول تھا کہ جو پھل درختوں سے گرتا فقراء کو دیتا تھا اور جب کھیتی کاشت کرتا تو بھوسے کے ساتھ جو دانے اڑتے وہ بھی فقراء کو دیتا۔ اس کے علاوہ بھی دیتا رہتا تھا۔ وہ فوت ہو گیا تو اولاد نے چاہا کہ یہ مال غریبوں کو نہیں ملنا چاہیے، لہذا ہم صبح صبح جلدی جلدی جائیں اور غریبوں کے آنے سے پہلے ہی کھیتی توڑ لیں۔ جب یہ لوگ گئے تو اللہ نے ان کے کھیت کو جلا کے راکھ کر دیا ۔
﴿فَاَصۡبَحَتۡ کَالصَّرِیۡمِ ﴿ۙ۲۰﴾﴾
صریم کا معنی ہوتا ہے مقطوع، کاٹا ہوا۔ تو یہ باغ بھی ایسے ہو گیا جیسے کٹی ہوئی کھیتی ہوتی ہے کہ زمین بالکل صاف ہو گئی، اور صریم؛ رات کو بھی کہتے ہیں ۔ اس صورت میں معنی ہو گا کہ یہ کھیت جل کر ایسے سیاہ ہو گیا جیسے راکھ ہوتی ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ ہم راستہ بھول گئے، ہمارا باغ ادھر تو نہیں تھا ۔ پھر کہا کہ نہیں، ادھر ہی تھا۔ جو ہم نے حرکت کی کہ کوئی مسکین ہمارا مال نہ کھائے یہ اس کی سزا ملی ہے۔ اب اللہ سے معافی مانگو! انہوں نے معافی مانگی، توبہ کی۔ بعض روایات میں ہے کہ اللہ نے پھر ان کو یہ باغ عطا فرما دیا تھا۔
تجلی ساق کا ظہور:
﴿یَوۡمَ یُکۡشَفُ عَنۡ سَاقٍ وَّ یُدۡعَوۡنَ اِلَی السُّجُوۡدِ فَلَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ﴿ۙ۴۲﴾ خَاشِعَۃً اَبۡصَارُہُمۡ تَرۡہَقُہُمۡ ذِلَّۃٌ ؕ وَ قَدۡ کَانُوۡا یُدۡعَوۡنَ اِلَی السُّجُوۡدِ وَ ہُمۡ سٰلِمُوۡنَ ﴿۴۳﴾﴾
قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جب ساق کی تجلی فرمائیں گے اور ان کافروں کو سجدے کی طرف بلایا جائے گا تو کافر سجدہ نہیں کرسکیں گے۔ ان کی آنکھیں جھکی ہوں گی، ذلت ان پر سوار ہو گی کیوں کہ دنیا میں سجدے کی طرف بلایا جاتا تو یہ لوگ صحیح سالم ہونے کے باوجود سجدہ نہیں کرتے تھے۔ لہذا اب قیامت کے دن بھی ان کو سجدے کی توفیق نہیں ہو گی۔
”ساق“ اللہ تعالی کی ایک خاص تجلی ہے جس کا اظہار قیامت کے دن ہو گا اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ جو لوگ دنیا میں سجدہ کرتے تھے وہ تو از خود سجدے میں گر جائیں گے اور جو دنیا میں سجدہ نہیں کرتے تھے ان کو قیامت کے دن بھی سجدے کی تو فیق نہیں ہو گی۔ بہت سارےمفسرین یہاں ساق کا لغوی معنی پنڈلی کر دیتے ہیں جس سے عام بندے کو شبہ پڑ جاتا ہےکہ شاید اللہ کی پنڈلی ہے حالانکہ اللہ رب العزت جس طرح جسم سے پاک ہے اسی طرح اعضائے جسم سے بھی پاک ہیں۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ بیان القرآن میں ساق کامعنی پنڈلی نہیں فرماتے بلکہ ساق کا معنی ساق ہی فرماتے ہیں۔ اس لیے اسلم اور احوط طریقہ یہی ہے کہ ساق کا معنی پنڈلی کے بجائےساق ہی کیا جائے ، ید کا معنی ہاتھ کے بجائے ید ہی کیا جائے تو اس میں عوام کو بات سمجھانی بہت آسان ہو جاتی ہے۔
﴿فَذَرۡنِیۡ وَ مَنۡ یُّکَذِّبُ بِہٰذَا الۡحَدِیۡثِ سَنَسۡتَدۡرِجُہُمۡ مِّنۡ حَیۡثُ لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴾
یہ جو
فَذَرۡنِیۡ وَ مَنۡ یُّکَذِّبُ
ہے یہ محاورہ ہے۔ جیسے ہمارے ہاں کہتے ہیں: تم مجھے اور اسے چھوڑو، میں جانوں اور یہ جانیں! یہ محاورات ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے پیغمبر! جو ہماری باتوں کی تکذیب کرتا اسے مجھ پر چھوڑ دو! میں اس کو ڈھیل دے کے وہاں پہنچا دوں گا جہاں یہ سوچ بھی نہیں سکے گا، جہنم میں جائے گا سیدھا، چھوڑو ان کو، میں جانوں اور یہ جانیں۔ تو اللہ نے یہ محاورہ استعمال کیا ہے ۔
حضرت یونس علیہ السلام کا اجتہاد:
﴿فَاصۡبِرۡ لِحُکۡمِ رَبِّکَ وَ لَا تَکُنۡ کَصَاحِبِ الۡحُوۡتِ ۘ اِذۡ نَادٰی وَ ہُوَ مَکۡظُوۡمٌ ﴿ؕ۴۸﴾﴾
میرے پیغمبر! آپ صبر کریں، وقت پر ان پر عذاب آئے گا، آپ ہمت سے کام لیں، اپنے کام میں لگے رہیں اور حضرت یونس علیہ السلام کی طرح آپ نہ کریں۔ یونس علیہ السلام نے اپنی قوم کو بہت سمجھایا۔ قوم نے ان کی نہیں مانی۔ تو انہوں نے قوم سے کہا کہ تین دن میں عذاب آنے والا ہے۔ یہ کہا اور چلے گئے۔ ابھی عذاب کے وہ آثار نہیں تھے کہ جن کے آنے پر انسان کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔ چنانچہ قوم جنگل میں نکلی، معافیاں مانگیں تو اللہ نے ان سے عذاب کو ٹال دیا۔ یونس علیہ السلام بستی کو چھوڑ کر جا چکے تھے۔ یہ ان کا اجتہاد تھا کہ عذاب آ رہا ہے ، آثارِ عذاب دیکھے لیکن ابھی وہ آثار نہیں تھے جن میں توبہ قبول نہیں ہوتی۔ انہوں نے سمجھا کہ عذاب آ رہا ہے۔ تو ان کا اجتہاد تھا اس لیے وہ چلے گئے۔
پھر سوچا کہ واپس جاؤں گا تو قوم مجھے جھٹلا دے گی کہ یہ نبی ہے؟ اس نے کہا تھا کہ عذاب آ رہا ہے اور عذاب تو آ یا نہیں ۔ پھر آپ دریا کی طرف گئے اور کشتی میں بیٹھے اور کسی اور شہر جانے لگے۔ آگے کشتی والا واقعہ آپ کے علم میں ہے کہ کشتی بھنور میں پھنسی اور ملاح نے کہا کہ کوئی بھاگا ہوا غلام ہے۔ فرمایا: وہ تو میں ہوں۔ قرعہ نکالا تو ان کا نام نکلا ۔ انہوں نے دریا میں چھلانگ لگا دی۔ مچھلی نے منہ میں لیا۔ چالیس دن مچھلی کے پیٹ میں رہے۔ پھر باہر آئے۔ وہاں پر کدو کی بیل لگی ہوئی تھی۔ ایک ہرنی آئی، وہ دودھ پلاتی تھی۔ حضرت یونس علیہ السلام صحت مند ہوئے اور واپس آ گئے۔
تو فرمایا:
﴿وَ لَا تَکُنۡ کَصَاحِبِ الۡحُوۡتِ﴾
کہ آپ یونس علیہ السلام کی طرح نہ ہونا! حضرت یونس تھوڑی جلدی کر گئے تھے، آپ جلدی نہ کرنا، آپ صبر کریں، ہم وقت پر ان سے نمٹ لیں گے۔ یا تو دنیا میں انہیں عذاب دیں گے یا موت کے بعد .
یہ حضرت یونس علیہ السلام کا اجتہاد تھا۔ دیکھو! اجتہاد مجتہد امتی سے بھی ہوتا ہے اور اجتہاد مجتہد نبی سے بھی ہوتا ہے اور خطا کبھی مجتہد امتی کے اجتہاد میں ہوتی ہے اور کبھی مجتہد نبی کے اجتہادمیں ہوتی ہے۔ لیکن دونوں میں فرق ہے۔ چونکہ مجتہد امتی پر وحی نہیں آتی اس لیے ممکن ہے کہ وہ اپنی خطائے اجتہادی پر موت تک قائم رہے اور اسی طرح دنیا سے چلا جائے لیکن اس پر بھی ایک اجر کا وعدہ ہے۔ لہذا اس کو ثواب ملے گا، اور مجتہد نبی اجتہاد کرے اور خطا ہو جائے تو اس پر وحی آ جاتی ہے اور وحی کے بعد خطائے اجتہادی ختم کر کے نص دے دی جاتی ہے اور پیغمبر کی خطائے اجتہادی کی حیثیت یہی ہوتی ہے جیسے پہلے ایک نص ہو اور اس کو منسوخ کر کے اس کے بدلے میں نئی نص کو لا یا جائے۔ اس لیے پیغمبر پر اعتراض بھی نہیں ہوتا ۔
حضور علیہ السلام کی حفاظت:
﴿وَ اِنۡ یَّکَادُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَیُزۡلِقُوۡنَکَ بِاَبۡصَارِہِمۡ لَمَّا سَمِعُوا الذِّکۡرَ وَ یَقُوۡلُوۡنَ اِنَّہٗ لَمَجۡنُوۡنٌ ﴿ۘ۵۱﴾﴾
اللہ فرماتے ہیں کہ ان کافروں کو جب نصیحت کی جا رہی ہوتی ہے تو یہ نبی کو ایسے گھور کے دیکھتے ہیں جیسے اپنی آنکھوں سے پھسلا دیں گے، راہِ حق سے ہٹا دیں گے۔ یہ بھی محاورہ ہے جیسے ہمارے ہاں محاورات میں ہوتا ہے کہ تو مجھے دیکھتا ایسے ہے جیسے کھا جائے گا۔تو یہاں بھی محاورہ استعمال کیا گیا ہے کہ کافر لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے دیکھتے ہیں جیسے حق سے پھسلا دیں گے۔ البتہ بعض روایات میں ہے کہ مکہ میں ایک شخص تھا جو نظر لگانے میں معروف تھا۔ مکہ والوں نے اس کو بلایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نظر بدلگاؤ۔ اس نے بہت تاڑ تاڑ کے دیکھا لیکن اس کی نظر بد سے بھی اللہ نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو محفوظ فرما لیا۔
نظر بد کا علاج:
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے تھے: اگر کسی شخص کو نظر لگ جائے تو یہ آیات پڑھ کر دم کرے تو اللہ شفا دیتے ہیں۔یہ آیات
﴿وَ اِنۡ یَّکَادُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَیُزۡلِقُوۡنَکَ﴾
سے لے کر آخر سورت تک پڑھنی ہیں۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․