سورۃ الحاقۃ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ الحاقۃ
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
”الحاقّۃ“ قیامت کا ایک نام ہے:
﴿ اَلۡحَآقَّۃُ ۙ﴿۱﴾ مَا الۡحَآقَّۃُ ۚ﴿۲﴾ وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا الۡحَآقَّۃُ ؕ﴿۳﴾ ﴾
ثابت ہے اور تمہیں کیاخبر کہ وہ ثابت چیز کیاہے ؟
قیامت کے نامو ں میں سے ایک نام
”اَلۡحَآقَّۃُ“
بھی ہے اور اس کا معنی ہوتا ہے ثابت ہونے والی یا ثابت کرنے والی۔قیامت پر دونوں معنی صادق آتے ہیں کہ قیامت برحق ہے اور ثابت ہے،یہ ضرور ہوگی اور یہ ثابت کرنے والی بھی ہے کہ قیامت کے دن مسلمانوں کے لیے جنت کو ثابت کرے گی اور کافروں کے لیے جہنم کو ثابت کرے گی۔
﴿کَذَّبَتۡ ثَمُوۡدُ وَ عَادٌۢ بِالۡقَارِعَۃِ ﴿۴﴾ فَاَمَّا ثَمُوۡدُ فَاُہۡلِکُوۡا بِالطَّاغِیَۃِ ﴿۵﴾﴾
یہاں قومِ ثمود اور عاد کا تذکرہ کیا ہے کہ جب انہوں نے قیامت کو جھٹلایا تھا۔ یہاں قیامت کا دوسرا نام ہے
”الۡقَارِعَۃِ“
ذکر کیا ہے یعنی کھڑ کھڑا دینے والی اور قیامت ہے بھی اسی طرح۔ تو جب انہوں نے جھٹلایا تو پھر ثمود کا انجام تو یہ ہوا کہ وہ سرکش ہوا کے ذریعہ ہلاک کر دیے گئے۔
﴿وَ اَمَّا عَادٌ فَاُہۡلِکُوۡا بِرِیۡحٍ صَرۡصَرٍ عَاتِیَۃٍ ۙ﴿۶﴾ سَخَّرَہَا عَلَیۡہِمۡ سَبۡعَ لَیَالٍ وَّ ثَمٰنِیَۃَ اَیَّامٍ حُسُوۡمًا ۙ فَتَرَی الۡقَوۡمَ فِیۡہَا صَرۡعٰی ۙ کَاَنَّہُمۡ اَعۡجَازُ نَخۡلٍ خَاوِیَۃٍ ۚ﴿۷﴾﴾
”صرصر“ کا معنی ہے ٹھنڈی ہوا اور عاتیہ کا معنی ہے سرکش ہوا۔ یعنی قوم عاد پر ہوا ایسے چلی جیسے سرکش ہو، کوئی اس کو کنٹرول کرنے والا نہ ہو۔ اس ہوا نے ان کو برباد کر کے رکھ دیا۔ یہ ہوا سات راتیں اور آٹھ دن چلی تھی یعنی بدھ کے دن صبح کو چلی اور آئندہ بدھ شام کو جا کے رکی۔ تو اس طرح راتیں سات بنی ہیں اور دن آٹھ بنے ہیں۔
”حُسُوۡمًا“
کا معنی ہوتا ہے کاٹنے والی۔ تو اس ہوا نے ان کو کاٹ کے رکھ دیا اور قد ان کے لمبے تھے اور یہ لوگ ایسے پڑے ہوئے تھے کہ جیسے کھجور کے تنے کو کاٹ کر رکھ دیں۔
دو نفخوں کا بیان:
﴿ فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوۡرِ نَفۡخَۃٌ وَّاحِدَۃٌ ﴿ۙ۱۳﴾﴾
قرآن کریم میں دو نفخو ں کا ذکر ہے؛
[1]: پہلے نفخہ کا ذکر
﴿وَ نُفِخَ فِی الصُّوۡرِ فَصَعِقَ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ اِلَّا مَنۡ شَآءَ اللہُ﴾
الزمر39: 68
میں ہے۔ پہلے نفخہ کو نفخہ صعق کہتے ہیں۔ صور کی شکل سینگ کی طرح ہو گی۔ حضرت اسرافیل علیہ السلام اس میں پھونکیں گے۔ شروع میں اس کی آواز کم ہو گی لیکن آہستہ آہستہ آواز بڑھتی جائے گی، پھر اتنی تیز آواز ہو جائے گی کہ لوگوں کے کان پھٹ جائیں گےاورسب لوگ بے ہوش ہو جائیں گے ۔ یہ پہلانفخہ ہو گا۔
[2]: دوسرے نفخہ کا ذکر
﴿ثُمَّ نُفِخَ فِیۡہِ اُخۡرٰی فَاِذَا ہُمۡ قِیَامٌ یَّنۡظُرُوۡنَ﴾
الزمر39: 68
میں ہے کہ جب دوسری مرتبہ صور پھونکا جائے گا تو سارے اٹھ کر میدان میں آ جائیں گے ۔ اس نفخہ کو نفخہ بعث بھی کہا جاتا ہے۔
اور بعض روایات میں ہے کہ ان دو کے علاوہ ایک اور نفخہ بھی ہے، اس کو نفخۃ فزع یعنی گھبراہٹ کا نفخہ کہتے ہیں۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ یہ تینوں ممکن ہیں ، اس طرح کہ جو سب سے پہلے صور پھونکا جائے تو اس میں آدمی پر گھبراہٹ طاری ہوگی، پھر دوسرے میں بے ہوشی طاری ہوگی، پھر تیسرے میں سارے اٹھا دیے جائیں گے۔ تو یہ تین مرتبہ صور کو پھونکا جائے گا۔
﴿وَّ الۡمَلَکُ عَلٰۤی اَرۡجَآئِہَا ؕ وَ یَحۡمِلُ عَرۡشَ رَبِّکَ فَوۡقَہُمۡ یَوۡمَئِذٍ ثَمٰنِیَۃٌ ﴿ؕ۱۷﴾﴾
اس وقت اللہ کےعرش کو چار فرشتوں نے اٹھایا ہے۔ قیامت کے دن چار اور ہوں گے اور یوں آٹھ فرشتے عرش کو اٹھائیں گے۔ اس کی حکمت کیا ہے؟ یہ اللہ ہی بہتر جانتے ہیں۔
دائیں ہاتھ والے، بائیں ہاتھ والے:
﴿فَاَمَّا مَنۡ اُوۡتِیَ کِتٰبَہٗ بِیَمِیۡنِہٖ ۙ فَیَقُوۡلُ ہَآؤُمُ اقۡرَءُوۡا کِتٰبِیَہۡ﴿ۚ۱۹﴾ اِنِّیۡ ظَنَنۡتُ اَنِّیۡ مُلٰقٍ حِسَابِیَہۡ ﴿ۚ۲۰﴾ ﴾
جن کو نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں ملے گا تو وہ لوگوں کو بلائیں گے کہ دیکھو! میرے اعمال نامے کو پڑھو۔ مجھے دنیا میں یقین تھا کہ میرا حساب ہو گا۔ یہ شخص جنتی ہے۔ اس کو اونچے اونچے باغات ملیں گے جس کے پھل جھکے ہوئے ہوں گے۔
﴿وَ اَمَّا مَنۡ اُوۡتِیَ کِتٰبَہٗ بِشِمَالِہٖ ۬ۙ فَیَقُوۡلُ یٰلَیۡتَنِیۡ لَمۡ اُوۡتَ کِتٰبِیَہۡ﴿ۚ۲۵﴾ وَ لَمۡ اَدۡرِ مَا حِسَابِیَہۡ ﴿ۚ۲۶﴾ یٰلَیۡتَہَا کَانَتِ الۡقَاضِیَۃَ ﴿ۚ۲۷﴾ مَاۤ اَغۡنٰی عَنِّیۡ مَالِیَہۡ ﴿ۚ۲۸﴾ ہَلَکَ عَنِّیۡ سُلۡطٰنِیَہۡ ﴿ۚ۲۹﴾﴾
اور جس کو نامہ اعمال بائیں ہاتھ میں ملے گا تو وہ کہے گا کہ کاش! مجھے اعمال نامہ نہ ہی ملتا! اور مجھے پتا ہی نہ چلتا کہ میرا حساب کیا ہے؟ کاش مجھے اس سے پہلے موت ہی آ جاتی! میرا مال بھی میرے کچھ کام نہ آیا اور میری طاقت وسلطنت بھی خاک میں مل گئی۔
جہنمیوں کا انجام:
﴿خُذُوۡہُ فَغُلُّوۡہُ ﴿ۙ۳۰﴾ ثُمَّ الۡجَحِیۡمَ صَلُّوۡہُ ﴿ۙ۳۱﴾ ثُمَّ فِیۡ سِلۡسِلَۃٍ ذَرۡعُہَا سَبۡعُوۡنَ ذِرَاعًا فَاسۡلُکُوۡہُ ﴿ؕ۳۲﴾﴾
حکم ہو گا: اس کو پکڑو اور جہنم میں پھینکو ۔ سات ہاتھ لمبی زنجیر ہوگی جس میں ڈال کر جہنم میں پھینکاجائے گا۔بعض روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ زنجیر ایسی ہو گی جسے آدمی کے جسم میں ایک طرف ڈال کر دوسری جانب سے نکالا جائے گا جس طرح تسبیح کے دانے سے دھاگہ گزارا جاتا ہے۔ اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائیں۔
﴿اِنَّہٗ کَانَ لَا یُؤۡمِنُ بِاللہِ الۡعَظِیۡمِ ﴿ۙ۳۳﴾ وَ لَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الۡمِسۡکِیۡنِ ﴿ؕ۳۴﴾﴾
یہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین نہیں رکھتا تھا اور مسکینوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا تھا۔
بڑا جرم کفر ہے یعنی اللہ رب العزت پر ایمان نہ لانا اور اس کے بعد بڑا جرم مسکین کو کھانا نہ کھلانا ہے۔ اس اسلوب سے معلوم ہوتا ہے کہ مسکین کو کھانا نہ کھلانا اور مستحق کو نہ دینا یہ بہت بڑا جرم ہے۔
﴿فَلَیۡسَ لَہُ الۡیَوۡمَ ہٰہُنَا حَمِیۡمٌ ﴿ۙ۳۵﴾ وَّ لَا طَعَامٌ اِلَّا مِنۡ غِسۡلِیۡنٍ ﴿ۙ۳۶﴾ لَّا یَاۡکُلُہٗۤ اِلَّا الۡخَاطِـُٔوۡنَ ﴿٪۳۷﴾﴾
آج ان جہنمیوں کا وہاں پہ کوئی دوست نہیں ہو گا اور غسلین کے علاوہ کوئی کھانا نہیں ہو گا! اسے مجرم لوگوں کے سوا کوئی نہیں کھائے گا۔ یہی گناہگار لوگ اسے کھائیں گے۔
”غِسۡلِیۡنٍ“
اس پانی کو کہتے ہیں جس سے پیپ کو دھویا جائے۔ تو یہ پانی ان جہنمیوں کو پینے کے لیے دیا جائے گا۔
﴿فَلَاۤ اُقۡسِمُ بِمَا تُبۡصِرُوۡنَ ﴿ۙ۳۸﴾ وَ مَا لَا تُبۡصِرُوۡنَ ﴿ۙ۳۹﴾﴾
میں قسم کھاتا ہوں ان چیزوں کی جن کو تم دیکھتےہو اور ان چیزوں کی بھی جن کو تم نہیں دیکھتے ۔ جسے تم دیکھتے ہو یعنی تمام مخلوقات جسے بندے دیکھتے ہیں مثلاً چاند، سورج، پہاڑ وغیرہ اور جو نظر نہیں آتیں جیسے عالمِ بالا کی مخلوقات ہیں۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ
”وَ مَا لَا تُبۡصِرُوۡنَ“
سے مراد حضرت جبرئیل علیہ السلام ہیں۔
قرآن شعر نہیں:
﴿ اِنَّہٗ لَقَوۡلُ رَسُوۡلٍ کَرِیۡمٍ ﴿ۚ۴۰﴾ وَّ مَا ہُوَ بِقَوۡلِ شَاعِرٍ ؕ قَلِیۡلًا مَّا تُؤۡمِنُوۡنَ ﴿ۙ۴۱﴾ ﴾
یہ رسول کی بات ہے اور شاعر کی بات نہیں ہے۔ اس پر پہلے بات ہو چکی ہے کہ وہ لوگ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو شاعر کہتے تھے تو اللہ نے جواب دیا کہ میرا رسول شاعر نہیں ہے۔
پیغمبر اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کرتا:
﴿وَ لَوۡ تَقَوَّلَ عَلَیۡنَا بَعۡضَ الۡاَقَاوِیۡلِ ﴿ۙ۴۴﴾ لَاَخَذۡنَا مِنۡہُ بِالۡیَمِیۡنِ﴿ۙ۴۵﴾ ثُمَّ لَقَطَعۡنَا مِنۡہُ الۡوَتِیۡنَ ﴿۫۴۶﴾﴾
یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہتے تھے کہ یہ اپنی طرف سے باتیں کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر یہ پیغمبر کوئی اپنی طرف سے کوئی بات ہماری طرف منسوب کر کے کہتے تو ہم ان کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے ، پھر ہم ان کی شہ رگ کو کاٹ کے رکھ دیتے!
اصل میں
”الْوَتِیْنَ“
کہتے ہیں ایسی رگ کو جو دل سےنکلتی ہے اور اس کے ذریعے روح پورے بدن میں پھیلتی ہے، وہ رگ کٹے تو آدمی فوراً مر جاتا ہے۔تو فرمایا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی بات کرتے تو ہم ختم کر کے رکھ دیتے۔
یہاں اچھی طرح یہ بات سمجھیں کہ اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ جو بھی نبوت کا جھوٹادعوی ٰ کرے گا اس کی سزا یہ ہو گی کہ دنیا میں اللہ اس کو ہلاک کر دیں گے۔یہاں قانون نہیں بیان کیا۔ یہاں صرف حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بات کی ہے کہ تم کہتے ہو کہ یہ اپنی طرف سے بات کہتے ہیں، اگر یہ اپنی طرف سے کوئی بات کرتے تو ہم ایسا کرتے، جب ہم نے ایسا نہیں کیا تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ پیغمبر ہماری بات کرتے ہیں، اپنی طرف سے کوئی بات نہیں فرماتے۔
﴿وَ اِنَّا لَنَعۡلَمُ اَنَّ مِنۡکُمۡ مُّکَذِّبِیۡنَ ﴿۴۹﴾ وَ اِنَّہٗ لَحَسۡرَۃٌ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۵۰﴾ وَ اِنَّہٗ لَحَقُّ الۡیَقِیۡنِ ﴿۵۱﴾﴾
یہاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی ہے اور کام کرنے والوں کو طریقہ بتایا ہے کہ یہ آپ کی تکذیب کرتے ہیں، یہ آپ کو جھٹلاتے ہیں، اس کا حل کیا ہے؟ فرمایا:
﴿فَسَبِّحۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الۡعَظِیۡمِ ﴿٪۵۲﴾﴾
آدمی عبادات میں مشغول ہو جائے، آدمی جب اس میں مشغول ہو جائے تو پھر لوگوں کی مخالفت اس پر اثر نہیں کرتی۔ دوسرے مقام پر ہے :
﴿وَ لَقَدۡ نَعۡلَمُ اَنَّکَ یَضِیۡقُ صَدۡرُکَ بِمَا یَقُوۡلُوۡنَ ﴿ۙ۹۷﴾ فَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّکَ وَ کُنۡ مِّنَ السّٰجِدِیۡنَ ﴿ۙ۹۸﴾﴾
الزمر39: 68
اے پیغمبر! ہم جانتے ہیں کہ ان کی باتوں کی وجہ سے آپ کا دل گھٹتا ہے، آپ کا دل تنگ ہوتا ہے۔ جب ایسا معاملہ ہو تو آپ سجدہ کریں اور تسبیح کریں۔
یہ جس طرح پیغمبر پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تھا اسی طرح پیغمبر کے ورثاء علماء کرام کے لیے بھی ہے کہ جب لوگ مخالفت کریں، لوگ تردیدکریں، لوگ تکذیب کریں اور مخالف دکھ دینے پر اتر آئے تو اس کا حل یہ نہیں ہے کہ جواب میں گالیاں دو بلکہ اس کا حل یہ ہےکہ سجدے کرو، تسبیح کرو، عبادات میں مشغول ہو جاؤ! اس سے اللہ رب العزت انسان کے دل کو تسلی عطا فرما دیتے ہیں۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․