سورۃ المعارج

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ المعارج
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
نضر بن حارث کی بے جا جرأت:
﴿سَاَلَ سَآئِلٌۢ بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ ۙ﴿۱﴾ لِّلۡکٰفِرِیۡنَ لَیۡسَ لَہٗ دَافِعٌ ۙ﴿۲﴾ مِّنَ اللہِ ذِی الۡمَعَارِجِ ؕ﴿۳﴾﴾
نضر بن حارث نے قرآن کو جھٹلانے میں حد درجہ جرأت سے کام لیا، اس نے کہا:
اَللّٰهُمَّ إِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِنْ السَّمَاءِ .
المستدرک علی الصحیحین:ج3 ص 329 رقم الحدیث3908
اے اللہ! اگر یہ قرآن سچا ہے اور آپ کی طرف ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسائیں۔
اللہ فرماتے ہیں کہ ایک بندے نے عذاب مانگا ہے جو کافروں پر آنے والا ہے اور اس عذاب کو کوئی ٹالنے والا نہیں ہے، یہ عذاب اللہ کی طرف سے آئے گا جو آسمانوں کا مالک ہے۔
یہاں اللہ کی صفت بیان کی ہے
﴿ذِی الۡمَعَارِجِ﴾،
معارج ؛ معراج کی جمع ہے بمعنی سیڑھیاں۔ مراد اس سے آسمان ہے۔ چونکہ اوپر جائیں تو پہلا آسمان، پھر دوسرا آسمان، پھر تیسرا آسمان، ایسے سیڑھیوں کی طرح ہے۔
قیامت کے دن کی مقدار؛ تعارض کا حل
﴿تَعۡرُجُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ الرُّوۡحُ اِلَیۡہِ فِیۡ یَوۡمٍ کَانَ مِقۡدَارُہٗ خَمۡسِیۡنَ اَلۡفَ سَنَۃٍ ۚ﴿۴﴾﴾
فرشتے اور روح ایسے دن میں اللہ کی طرف جاتے ہیں جو پچاس ہزار سال کے برابر ہے۔
اب یہاں پر یہ ہے کہ وہ دن پچاس ہزار سال کےبرابر ہے اور سورۃ السجدۃ میں ہے
﴿کَانَ مِقۡدَارُہٗۤ اَلۡفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوۡنَ﴾
کہ یہ دن ایک ہزار سال کے برابر ہے۔ اس سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ دونوں آیتوں میں تعارض ہے کہ یہاں فرمایا کہ ایک دن پچاس ہزار سال کے برابر ہے اور اکیسویں پارے میں فرمایا کہ ایک دن ایک ہزار سال کے برابر ہو گا۔
اس کا ایک تو معروف جواب ہے کہ یہ ہر آدمی کی کیفیت اور احوال کے اعتبار سے ہے۔ جو زیادہ گناہ گار ہوں گے ان کو ایسا لگے گا کہ یہ دن پچاس ہزار سال کا ہے اور جو کم گناہ گار ہوں گے، کفر میں کم ہوں گے ان کو محسوس ہو گا کہ ایک دن ایک ہزار سال کے برابر ہے اور ایمان والوں کے لیے اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”كَقَدْرِ مَا بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ“
کنز العمال: ج14 ص192 رقم 38337
کہ ظہر سے عصر کے درمیان کا جو وقت ہے قیامت کا پورا دن ایمان والوں کے لیے ایسا ہو گا۔
تفسیر مظہری میں اس کا جواب اس سے بھی زیادہ مناسب دیا گیا ہے۔ قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک دن ہے دنیا کا اور ایک دن ہے آخرت کا۔ یہ جو فرمایا کہ ایک دن پچاس ہزار سال کے برابر ہو گا تو یہ آخرت اور حشر کا دن ہے،
﴿فِیۡ یَوۡمٍ کَانَ مِقۡدَارُہٗ خَمۡسِیۡنَ اَلۡفَ سَنَۃٍ﴾
یہ آخرت کے لیے ہے، اور یہ جو دوسرے مقام پر فرمایا
﴿کَانَ مِقۡدَارُہٗۤ اَلۡفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوۡنَ﴾
کہ ایک دن ایک ہزار کے برابر ہو گا تویہ آخرت کا نہیں ہے بلکہ یہ دنیا کاہے۔ کیونکہ صحیح حدیث میں ہے کہ زمین سے آسمان کے درمیان کی مسافت پانچ سو سال ہے۔ اگر کوئی بندہ اوپر جائے اور حکم لے کر آئے تو اس کو ہزار سال لگے گا، پانچ سو سال جانے میں اور پانچ سو سال واپس آنے میں اور جبرائیل امین علیہ السلام ایک ہی دن میں آتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں۔ تو تمہارا کام جو ایک ہزار سال کا تھا وہ فرشتہ ایک دن میں کر لیتا ہے۔ تو یہ دنیا والا ایک دن مراد ہے۔ اب دیکھو! اس توجیہ سے تعارض ہی ختم ہو جاتا ہے۔
حضرت عزیر کے قصہ سے منکرین کا استدلال اور اس کا جواب:
اچھا یہا ں وہ نکتہ ذہن میں رکھیں کہ اگر قیامت کا دن ہو پچاس ہزار سال یا ایک ہزار سال کے برابر توا س سے انبیاء علیہم السلام کی حیات فی القبر پر جو اعتراض ہوتا ہے اس کا جواب بڑے آرام سے دیا جا سکتا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت عزیر علیہ السلام ایک تباہ شدہ بستی سے گزر رہے تھے تو فرمایا:
﴿اَنّٰی یُحۡیٖ ہٰذِہِ اللہُ بَعۡدَ مَوۡتِہَا﴾
کہ اللہ اس بستی کو کیسےزندہ کریں گے؟
﴿فَاَمَاتَہُ اللہُ مِائَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہٗ﴾
اللہ نے انہیں ایک سو سال موت دی، پھر ان کو زندہ کیا۔
تو یہ لوگ اس سے دلیل بناتے ہیں کہ قبروں میں انبیاء علیہم السلام زندہ نہیں ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ دیکھو! جب ایک سو سال کے بعد اللہ نے ان کو اٹھایا تو پوچھا:
﴿کَمۡ لَبِثۡتَ﴾
کہ آپ کتنا عرصہ رہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا:
﴿لَبِثۡتُ یَوۡمًا اَوۡ بَعۡضَ یَوۡمٍ﴾
کہ میں ایک دن یا دن کا کچھ حصہ رہ کر آیا ہوں۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ نبی قبر میں مردہ ہوتے ہیں کیو نکہ ان کو پتا نہیں چلا کہ میں کتنا عرصہ رہا ہوں۔ تو یہ دلیل ہے کہ نبی قبر میں زندہ نہیں ہوتے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ جو پوچھا:
﴿کَمۡ لَبِثۡتَ﴾
کہ آپ کتنا عرصہ ٹھہرے ہو تو انہوں نے کہا کہ دن یا دن کا بعض حصہ ، تو دنیا کا ایک ہزار سال آخرت کا ایک دن ہوتا ہے اور جب دنیا کا ایک سو سال ہو گا تو آخرت کا کچھ حصہ ہو گا، مکمل دن نہیں ہو گا۔ تو جب پوچھا کہ
﴿کَمۡ لَبِثۡتَ﴾
آپ کتنا ٹھہرے ہیں؟ آپ نے کہا:
﴿لَبِثۡتُ یَوۡمًا اَوۡ بَعۡضَ یَوۡمٍ﴾
حضرت عزیر نے اُدھر کا بتایا تھا کہ جہا ں رہ کر آئے تھے۔ اللہ فرماتے ہیں:
﴿بَلۡ لَّبِثۡتَ مِائَۃَ عَامٍ﴾
کہ آپ سو سال ٹھہرے ہیں دنیا کا۔ ہم نے یہاں کا پوچھا ہے وہا ں کا نہیں پوچھا! تو انہوں نے وہاں کا بتایا جو بعض دن بنتاہے اور اللہ نے یہاں کا بتایا جو ایک سو سال بنتا ہے۔ تو اس سے تو نبی کا علم ثابت ہوتا ہے، لا علمی ثابت نہیں ہوتی۔
اور اگر مان بھی لیا جائے کہ حضرت عزیر کو پتا نہیں چلا تھا۔ تو پتا نہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ نبی قبر میں زندہ نہیں ہوتا۔ دیکھو! اصحاب کہف سوئے ہوئے تھے اور قرآن کریم میں
﴿وَ تَحۡسَبُہُمۡ اَیۡقَاظًا وَّ ہُمۡ رُقُوۡدٌ﴾
کہ تم سمجھتے ہو کہ اصحابِ کہف جاگ رہے ہیں حالانکہ وہ سوئے ہوئے ہیں۔ تو سونے والے بندے تو مردہ نہیں ہوتے۔ جب یہ اٹھے ہیں تو آپس میں پوچھا:
﴿کَمۡ لَبِثۡتُمۡ﴾
کہ کتنا عرصہ ٹھہرے ہو؟ کہا:
﴿لَبِثۡنَا یَوۡمًا اَوۡ بَعۡضَ یَوۡمٍ﴾
ہم دن یا دن کا کچھ حصہ سوئے ہیں۔ تو یہ تو زندہ تھے، مرے ہوئے نہیں تھے۔ ثابت ہوا کہ عدمِ علم؛ عدمِ حیات پر دلیل نہیں ہے۔ اس لیے اس کو عدمِ حیات پر دلیل بنانا درست نہیں ہے۔ اللہ تعالی بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائیں۔
قیامت کی ہولناکی:
﴿یَوۡمَ تَکُوۡنُ السَّمَآءُ کَالۡمُہۡلِ ۙ﴿۸﴾ وَ تَکُوۡنُ الۡجِبَالُ کَالۡعِہۡنِ ۙ﴿۹﴾﴾
قیامت کے دن آسمان کیسے ہوں گے؟ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ سیاہ ہوں گے۔ مُھل کہتے ہیں تلچھٹ کو، یہ جو گاڑی کا آئل چینج کرتے ہیں وہ سیاہ رنگ کا ہوتا ہے اور دوسرے مقام پر ہے:
”کَالدِّہَانِ“
کہ یہ آسمان سرخ ہو گا تپتی ہوئی آگ کی طرح۔ تو بظاہر تعارض لگتا ہے حالانکہ تعارض نہیں ہےکیونکہ یہ ہو سکتا ہے کہ شروع میں سیاہ ہو اور بعد میں سرخ ہو جائے، یا یہ ہو کہ کبھی سیاہ ہو جائے اور کبھی سرخ ہو جائے۔ دونوں چیزیں موجود ہیں ، اس لیے ان میں تعارض نہیں ہے۔
﴿نَزَّاعَۃً لِّلشَّوٰی ﴿ۚ۱۶﴾تَدۡعُوۡا مَنۡ اَدۡبَرَ وَ تَوَلّٰی ﴿ۙ۱۷﴾﴾
یہ آگ کی صفت بیان کی ہے۔
”نَزَّاعَۃً “
ایک شعلہ ہے،
”لِّلشَّوٰی “
یہ شواۃ کی جمع ہے ۔ یہ سر کی کھال کوبھی کہتے ہیں اور باقی جسم کی کھال کو بھی۔ تو فرمایا کہ یہ آگ ایسی ہو گی جو انسان کی کھال کو تباہ کر کے رکھ دے گی۔
انسان کی بے صبری:
﴿اِنَّ الۡاِنۡسَانَ خُلِقَ ہَلُوۡعًا ﴿ۙ۱۹﴾ اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوۡعًا ﴿ۙ۲۰﴾ وَّ اِذَا مَسَّہُ الۡخَیۡرُ مَنُوۡعًا ﴿ۙ۲۱﴾﴾
انسان کی فطرت بیان کی ہے کہ انسان بہت بے صبرا اور کم ہمت ہے ۔ جب اس کو تکلیف پہنچے تو حد سے تجاوز کر کے گڑ گڑاتا ہے اور جب اس کو مال ملے تو پھر حق ادا نہیں کرتا بلکہ بخل کرتا ہے۔
اب اس پر سوال یہ ہےکہ جب انسان کی فطرت میں شامل ہے گڑ گڑانا اور بخل کرنا تو پھر گڑ گڑانے پرا عتراض کیو ں ہے؟ اور بخل کرنا جرم کیوں ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ بعض چیزیں انسان کی فطر ت میں ہوتی ہیں اور اسی پر امتحان ہوتا ہے کہ یہ کام نہیں کرنا! امتحان تو اسی چیز کا نام ہے کہ اللہ نے انسان کی طبیعت میں رکھا ہے کہ جب آدمی کے سامنے پانی آئے تو پینے کو جی چاہے، اب روزہ رکھا ہو گرمی کا تو فطرت ہے کہ پیاس لگتی ہے مگر انسان اس فطرت پر عمل نہیں کرتا۔ اگر اس فطری تقاضے پر عمل کرے گا تو گناہ ہو گا، عمل نہیں کرے گا تو تقویٰ ہو گا۔ یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ انسان کی فطرت میں یہ بات شامل ہے لیکن اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ انسان اس پر عمل شروع کر دے بلکہ اس پر عمل نہ کر کے اس سے بچنا چاہیے ۔
خشوع خضوع کے ساتھ نماز کی پابندی:
﴿ اِلَّا الۡمُصَلِّیۡنَ ﴿ۙ۲۲﴾ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَلٰی صَلَاتِہِمۡ دَآئِمُوۡنَ ﴿۪ۙ۲۳﴾﴾
یہاں دیکھیں! دو صفتیں بیان کی ہیں: کہ یہ لوگ نماز کی پابندی کرتے ہیں۔ آگے ہے:
﴿وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَلٰی صَلَاتِہِمۡ یُحَافِظُوۡنَ﴾
کہ یہ لوگ اپنی نماز کی حفاظت کرتے ہیں۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ دونوں میں تکرارہے کہ نماز کی پابندی کرتے ہیں اور نماز کی حفاظت کرتے ہیں۔ بات تو ایک ہوئی ۔ جواب یہ ہے کہ یہ تکرار نہیں ہے، یہ جو فرمایا:
﴿عَلٰی صَلَاتِہِمۡ دَآئِمُوۡنَ﴾
اس کا معنی یہ ہے کہ نماز کے اول سے لے کر نماز کے آخر تک ہمیشہ نماز کے آداب کی رعایت کرتے ہیں اور یہ جو فرمایا:
﴿وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَلٰی صَلَاتِہِمۡ یُحَافِظُوۡنَ﴾
تو اس کا معنی یہ ہے کہ یہ لوگ نماز میں ہمیشہ خشوع اختیار کرتے ہیں۔ تو پہلے سے مراد ہے اول تا آخر اور اس سےمراد ہے ہمیشہ ، لہذا اس میں کوئی تکرار نہیں ہے ۔
﴿کَلَّا ؕ اِنَّا خَلَقۡنٰہُمۡ مِّمَّا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۳۹﴾﴾
مشرکین کے بارے میں فرمایا کہ یہ لوگ بہت اچھے طریقےسے جانتے ہیں کہ ہم نے ان کو کس چیز سے پیدا کیا۔ یہ دلیل اس بات پہ دی ہے کہ مشرکین کا خیال یہ تھا کہ جب ہم مر جائیں گے، ہڈیاں ہو جائیں گے، ریزہ ریزہ بنیں گے تو دوبارہ کیسے اٹھائے جائیں گے ؟ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ تو تم جانتے ہو کہ ہم نے تمہیں کس چیز سے پیدا کیا ہے؟ پانی کے ایک قطرے سے ہم نے پورا جسم بنایا۔ پانی کے قطرے سے پورا جسم بنانا یہ زیادہ مشکل ہے اور جب انسان پیدا ہو اور مر جائے تو اس انسان کو دوبارہ بنائیں تو یہ آسان ہے ۔ تو جو کام مشکل تھا تم اس کو مانتے ہو، تو اس سے آسان کام کرنا کیا یہ ہمارے بس میں نہیں ہے؟
﴿ فَلَاۤ اُقۡسِمُ بِرَبِّ الۡمَشٰرِقِ وَ الۡمَغٰرِبِ اِنَّا لَقٰدِرُوۡنَ ﴿ۙ۴۰﴾ عَلٰۤی اَنۡ نُّبَدِّلَ خَیۡرًا مِّنۡہُمۡ ۙ وَ مَا نَحۡنُ بِمَسۡبُوۡقِیۡنَ ﴿۴۱﴾﴾
میرے پیغمبر! ہم تو اس بات پر قادر ہیں کہ ان کی جگہ ان سے بہتر لوگ لے آئیں اور یہ ہمیں مغلوب نہیں کر سکتے!
﴿فَذَرۡہُمۡ یَخُوۡضُوۡا وَ یَلۡعَبُوۡا حَتّٰی یُلٰقُوۡا یَوۡمَہُمُ الَّذِیۡ یُوۡعَدُوۡنَ﴿ۙ۴۲﴾ یَوۡمَ یَخۡرُجُوۡنَ مِنَ الۡاَجۡدَاثِ سِرَاعًا کَاَنَّہُمۡ اِلٰی نُصُبٍ یُّوۡفِضُوۡنَ ﴿ۙ۴۳﴾ ﴾
ان کو چھوڑو، ان کو گپیں لگانے دو، جھوٹ بولنے دو، ایک وقت آئے گا کہ جب یہ اس دن سے جا ملیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔ مراد اس سے قیامت کا دن ہے۔ اس دن یہ لوگ قبرو ں سے دوڑتے ہوئے نکلیں گے جیسے عبادت کے لیے کسی بت کی طرف دوڑتے ہیں، تو یوں آئیں گے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین
  وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․