سورۃ النوح

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ النوح
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَا نُوۡحًا اِلٰی قَوۡمِہٖۤ اَنۡ اَنۡذِرۡ قَوۡمَکَ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّاۡتِیَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۱﴾﴾
حضرت نوح علیہ السلام کی تبلیغ:
حضرت نوح علیہ السلام کو اللہ نے ان کی قوم کی طرف بھیجا کہ جا کر اپنی قوم کو دعوت دیں۔حضرت نوح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے چالیس سال کی عمر میں نبوت دی ہے۔
﴿فَلَبِثَ فِیۡہِمۡ اَلۡفَ سَنَۃٍ اِلَّا خَمۡسِیۡنَ عَامًا﴾
العنکبوت29: 14
اور ساڑھے نو سو سال ان کی عمر ہوئی ہے۔ چالیس سال کی عمر میں نبوت ملی اور کل عمر ساڑھے نو سو سال ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ نو سو دس سال یہ مسلسل دعوت دیتے رہے اور اتنی مشکلات میں نوح علیہ السلام نے دعوت دی ہے کہ ان کی مثال انبیاء علیہم السلام میں شاید نظر نہ آئے ۔
نوح علیہ السلام کی عمر اتنی زیادہ تھی لیکن آپ کی قوم کی عمر اتنی بڑی نہیں تھی۔ یہ آپ علیہ السلام کا معجزہ تھا کہ آپ کی عمر اتنی بڑی تھی ۔ انہوں نےاپنی قوم کی کئی نسلیں دیکھی ہیں۔ بسا اوقات یہ دعوت دیتے تو ان کی قوم کے لوگ ان کو کسی کمبل میں لپیٹ کر پھینک دیتے اور اوپر سے مارتے، وہ سمجھتے کہ شاید نوح علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں، وہ چھوڑ کر چلے جاتے۔ کئی گھنٹے اس طرح گزر جاتے، پھر نوح علیہ السلام کو جب ہوش آتا تو آپ علیہ السلام اٹھتے اور اٹھ کر پھر اپنی قوم کو دعوت دیتے اور اللہ سے یہ دعا کرتے:
”رَبِّ اھْدِ قَوْمِيْ فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ“
کتاب الزہد لاحمد بن حنبل: ج1 ص82 فصل تنزیہ الانبیاء
اے اللہ! میری قوم کو ہدایت عطا فرما، یہ مجھے جانتے نہیں ہیں کہ میں ان کا کیسا خیر خواہ ہوں۔
اور بعضو ں نے لکھا ہے کہ قوم کے لوگ آپ کا گلہ گھونٹ کر چھوڑ دیتے اور سمجھتے کہ یہ فوت ہو گئے، چھوڑ کر چلے جاتے، جب ان کو ہوش آتا تو پھر ان کو دعوت دیتے۔ ایک نسل ختم ہو گئی تو آئندہ نسل کو دعوت دی کہ شاید یہ ٹھیک ہو جائے، یہ ختم ہو گئی تو اگلی نسل کو دعوت دی کہ شاید یہ ٹھیک ہو جائے۔ یوں نوح علیہ السلام نے نو سو دس سال تک اپنی قوم کو مسلسل دعوت دی اور اپنی قوم کو سمجھایا۔
﴿اَنِ اعۡبُدُوا اللہَ وَ اتَّقُوۡہُ وَ اَطِیۡعُوۡنِ ۙ﴿۳﴾﴾
فرمایا: اللہ کی عبادت کرو، اس سے ڈرو اور میری بات مانو۔
﴿یَغۡفِرۡ لَکُمۡ مِّنۡ ذُنُوۡبِکُمۡ وَ یُؤَخِّرۡکُمۡ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی ؕ اِنَّ اَجَلَ اللہِ اِذَا جَآءَ لَا یُؤَخَّرُ ۘ لَوۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۴﴾﴾
اللہ تمہارے گناہو ں کو معاف فرما دے گا اور ایک وقت تک تمہیں مہلت دے گا اور جب اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت آ جائے تو پھر اس میں مزید تاخیر نہیں ہوتی۔ اے کاش !تم اس بات کو سمجھو۔
یہاں
”یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ“
نہیں فرمایا بلکہ
”یَغۡفِرۡ لَکُمۡ مِّنۡ ذُنُوۡبِکُمۡ“
فرمایا ہے۔ یہاں مِنْ تبعیضیہ ہے۔ معنی یہ ہے کہ اللہ تمہارے بعض گناہوں کو معاف کر دے گا۔ آدمی کے ذمہ کچھ حقوق اللہ ہیں اور کچھ حقوق العباد ہیں، حقوق اللہ میں کوتاہی کی ہو تو ایمان لانے سے وہ معاف ہو جائیں گے، زمانہ کفر کے سارے گناہ معاف ہوتے ہیں لیکن حقوق العباد جو زمانہ کفر میں سلب کیے ہوں، غصب کیے ہوں تو وہ معاف نہیں ہوتے، جن کو واپس کر سکتے ہوں واپس کرنا ضروری ہے اور جس سے معاف کرا سکتے ہوں تو معاف کروانا ضروری ہے۔ مال لوٹا ہے تو واپس کرو۔ اگر گالی دی ہے تو اس کو واپس کیسے کراؤ گے؟ بس اس سے معاف کروا لو۔
تقدیر پر اشکال کا جواب:
﴿اِنَّ اَجَلَ اللہِ اِذَا جَآءَ لَا یُؤَخَّرُ﴾
جب اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت آ جائے تو پھر اس میں مزید تاخیر نہیں ہوتی۔ مطلب یہ کہ اگر تم اللہ سے ڈرو گے اور میری بات مانو گے تو اللہ رب العزت ایک وقت تک تمہیں زندہ رکھیں گے، عذاب نہیں دیں گے اور جب وقت آئے گا تو پھر تمہیں مہلت بھی نہیں ملے گی۔
بظاہر دونوں میں بات سمجھ نہیں آ رہی کہ اگر تم اللہ سے ڈرو اور میری بات مانو تو پھر
﴿یَغۡفِرۡ لَکُمۡ مِّنۡ ذُنُوۡبِکُمۡ﴾
اللہ تمہیں معاف کریں گے، تمہیں کچھ نہیں کہیں گے اور
﴿یُؤَخِّرۡکُمۡ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی﴾
ا للہ تمہیں ایک متعین وقت تک ڈھیل دیں گے، جب وقت آئے گا تو پھر
﴿لَا یُؤَخَّرُ﴾
تمہیں ڈھیل نہیں ملے گی۔ تو سوال یہ ہے کہ اس میں ایمان اور تقویٰ کو کیا دخل ہوا؟ یہ تو کافر کے ساتھ بھی ایسے ہی ہے کہ ایک وقت تک اس کو مہلت ہوتی ہے، وقت جب آ جائے تو ا س کو بھی مہلت نہیں ملتی۔
میں یہ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ پہلے تقدیر کا معنی سمجھیں، پھر تقدیر کی قسمیں سمجھیں تو یہ آیت سمجھ میں آئے گی۔ عام بندے سمجھتے ہیں کہ تقدیر صرف امر ِالہی کا نام ہے حالانکہ تقدیر صرف امر ِالہی کا نام نہیں ہے بلکہ علمِ الہی اور امر ِالہی دونوں کے مجموعے کا نام ہے۔ اللہ کے علم میں تھا کہ میں بندے کو اختیار دوں گا تو بندہ اپنے اختیار سے فلاں کام کرے گا۔ یہ ”علمِ الٰہی“ ہوا، اور اللہ نے اس کو لکھ دیا کہ بندہ فلاں کام کرے گا تو یہ ”امرِالٰہی“ ہوا۔ اب علمِ الٰہی؛ امرِ الٰہی کے خلاف ہو یا امرِ الٰہی؛ علمِ الٰہی کے خلاف ہو ایسا نہیں ہو سکتا۔ تو تقدیر صرف ”علمِ الٰہی“ کا نام نہیں بلکہ تقدیر علمِ الہی اور امرِ الہی کے مجموعے کا نام ہے۔ اور بندہ مجبور محض ہو ایسا بھی نہیں کیونکہ ہونا بندے کے اختیار کے ساتھ تھا۔ یہ ہے تقدیر کا معنی !
پھر تقدیر کی ایک قسم ہے تقدیر مُبْرَم اور ایک قسم ہے تقدیر معلق۔ مُبْرَم کا معنی ہوتا ہے قطعی اور یقینی، ایسی تقدیر کہ جو ٹل نہیں سکتی اور ایک تقدیر معلق ہے جو ایک شرط کے ساتھ ہے، اگر یو ں ہو گا تو یو ں کر دیں گے۔ اس کو معلق کہتے ہیں ۔
تو یہاں یہ فرما رہے ہیں کہ اللہ کے تو علم میں ہے کہ یہ بندہ کفر اختیار کرے گا یا یہ بندہ ایمان اختیار کرے گا۔ اگر یہ کفر اختیار کرے گا تو اس پر عذاب آئے گا اور اگر کفر اختیار نہیں کرے گا تو اس پر عذاب نہیں آئے گا بلکہ اللہ اس کو ایک وقت تک مزید زندگی ایسے دیں گے کہ جس میں عذاب نہیں ہو گا۔ تو فرمایا کہ اگر تم ایمان لاؤ گے اور تقویٰ اختیار کرو گے تو مزید ایک مدت تک اللہ تمہیں ڈھیل دیں گے، تمہیں موقع دیں گے اور تمہارے اوپر عذاب نہیں آئے گا۔ پھر جب وہ آخری وقت جو تقدیر مُبْرَم ہے موت کا وہ آئے گا تو پھر تو مہلت نہیں ملے گی، پھر تو موت ہر کسی پر آنی ہے، مؤمن پر بھی اور کافر پر بھی لیکن یہ کفر کی وجہ سے جو عذاب آنا تھا جب تم ایمان اختیار کرو گے تو عذاب نہیں آئے گا بلکہ مزید ایک مدت تک اللہ تمہیں زندہ رکھیں گے اور عذاب سے محفوظ رکھیں گے۔
جس طرح حدیث پاک میں ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
"لَا يَرُدُّ الْقَضَاءَ إِلَّا الدُّعَاءُ، وَلَا يَزِيدُ فِي الْعُمُرِ إِلَّا الْبِرُّ . "
سنن الترمذی، رقم: 2139
کہ تقدیر کو دعا ٹال دیتی ہے کہ انسان کے مقدر میں لکھا ہے کہ اگر یہ دعا کرے گا تو یہ تکلیف نہیں ہو گی، یہ دعا نہیں کرے گا تو پھر اس کو تکلیف ہو گی، اور والدین سے حسنِ سلوک کرنا عمر کو بڑھا دیتا ہے، والدین سے حسنِ سلوک کرے گا تو عمر بڑھ جائے گی اور نہیں کرے گا تو عمر نہیں بڑھے گی لیکن اللہ کے علم میں یہ دونوں چیزیں ہیں کہ یہ کرے گا یا نہیں کرے گا ۔
استغفار کرنے پر پانچ انعامات:
﴿فَقُلۡتُ اسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّکُمۡ ؕ اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا ﴿ۙ۱۰﴾ یُّرۡسِلِ السَّمَآءَ عَلَیۡکُمۡ مِّدۡرَارًا ﴿ۙ۱۱﴾ وَّ یُمۡدِدۡکُمۡ بِاَمۡوَالٍ وَّ بَنِیۡنَ وَ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ جَنّٰتٍ وَّ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ اَنۡہٰرًا ﴿ؕ۱۲﴾ ﴾
نوح علیہ السلام فرماتے ہیں میں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم رب سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو وہ معاف کرنے والاہے، وہ آسمان سے تم پر بارش برسا دیں گے، وہ تمہیں مال دیں گے، تمہیں بیٹے دیں گے، تمہیں باغات دیں گے، تمہیں نہریں دیں گے۔
یہ پانچ انعام دیں گے اگر تم استغفار کرو گے۔ سوال یہ ہے کہ دنیا میں کتنے لوگ ہیں جو استغفار کرتے ہیں لیکن ان کی اولاد بھی نہیں ہوتی، باغات بھی نہیں ہوتے، نہریں بھی نہیں ہوتی تو یہ نعمتیں پھر بھی نہیں ہوتیں۔ اس کا جواب بعض علماء فرماتے ہیں کہ یہ قاعدہ کلیہ نہیں ہے کہ جو بھی استغفار کرے گا تو اس کو یہ پانچ نعمتیں ملیں بلکہ یہ نوح علیہ السلام کی قوم کے ساتھ خاص تھا کہ اگر تم استغفار کرو گے تو اللہ تعالیٰ بارش بھی دیں گے، مال بھی دیں گے، بیٹے بھی دیں گے، باغات بھی دیں گے اور نہریں بھی دیں گے ۔
اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر اس کو قاعدہ کلیہ بھی مان لیا جائے تو اشکال پھر بھی نہیں ہے۔ یہ بڑا عجیب جواب دیا ہے حضرت نے۔ فرمایا کہ اگر کسی بندے سے کوئی وعدہ کیا جائے اور جس چیز کا وعدہ کیا ہے وہ نہ دیں بلکہ اس سے بڑھ کر دیں تو یہ تو نہیں کہتے کہ آپ نے وعدہ پورا نہیں کیا۔ مثلاً بھائی! آپ اگر دس بجے میرے پاس آؤ گے تو میں تمہیں چنے کے ساتھ ناشتہ کراؤں گا۔ وہ دس بجے آئے تو آپ نے پائے نہاری اور حلیم کھلا دی۔ تو وعدہ تو چنے کا کیا تھا اور کھلایا ہے پائے نہاری اور حلیم تو یہ ایفائے عہد ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ تو حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر یہ قاعدہ مان بھی لیا جائے کہ استغفار سے یہ تمام چیزیں ملیں گی، اگر کسی کو یہ نہ ملے اور اس سے بڑھ کر ملے تو ایفائے عہد تو پھر بھی ہے کہ اللہ اپنے بندے کو ایمان اور تقویٰ سے قلبی سکون عطا فرماتے ہیں جو اِن پانچوں چیزوں سے بڑھ کر ہے۔ اگر کسی کے ہاں بارش برسے اورنقصان ہوجائے ، اولاد ہو اور تکلیف کا ذریعہ بنے ، مال ہو اور اس کی ڈکیتی ہو جائے ،آدمی کے باغات اور کھیت ہوں لیکن ان کو نقصان ہو جائے۔ اگر اللہ ان پانچ چیزوں کے بجائے آدمی کو سکون قلبی عطا فرما دے تو وہ اس سے بھی بڑھ کر ہے ۔
اس لیے حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر قاعدہ کلیہ بھی مانا جائے اشکال تب بھی نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ یا تو یہی پانچ چیزیں دیتے ہیں یا اس سے بھی بڑھ کر دیتے ہیں۔ آپ یقین فرمائیں بیان القرآن کی تعبیرات ایسی ہوتی ہیں کہ آدمی حضرت کے علوم پر عش عش کر اٹھتا ہے ۔
قومِ نوح کے دور میں پانچ بت:
﴿ قَالَ نُوۡحٌ رَّبِّ اِنَّہُمۡ عَصَوۡنِیۡ وَ اتَّبَعُوۡا مَنۡ لَّمۡ یَزِدۡہُ مَالُہٗ وَ وَلَدُہٗۤ اِلَّا خَسَارًا ﴿ۚ۲۱﴾ وَ مَکَرُوۡا مَکۡرًا کُبَّارًا ﴿ۚ۲۲﴾ وَ قَالُوۡا لَا تَذَرُنَّ اٰلِہَتَکُمۡ وَ لَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّ لَا سُوَاعًاۙ وَّ لَا یَغُوۡثَ وَ یَعُوۡقَ وَ نَسۡرًا ﴿ۚ۲۳﴾ ﴾
نوح علیہ السلام کی قوم کے لوگ آپس میں ایک دوسرے سے کہتے کہ دیکھو! تم نے ان کی بات کو ماننا نہیں ہے۔ نوح علیہ السلام نے اپنے رب سے عرض کی: اے میرے رب! ان لوگوں نے میری نافرمانی کی ہے اور بات اس کی مانتے ہیں جس کے مال اور اولاد نے ان کونقصان میں ڈالا ہے۔ مراد اس سے قوم کے بڑے بڑے سردار ہیں۔ اور بہت بڑے بڑے مکر انہوں نے کیے۔ یہ ”کُبَّارًا“ اکبر کا مبالغہ ہے ۔ اور آپس میں ایک دوسرے سے یہ کہتے کہ اس نوح کی وجہ سے اپنے خداؤں کو چھوڑنا نہیں ہے خصوصا
﴿وَ لَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّ لَا سُوَاعًا ۙ وَّ لَا یَغُوۡثَ وَ یَعُوۡقَ وَ نَسۡرًا﴾
ان پانچ وَد، سُواع، یَغوث، یَعوق اور نَسر کو کسی صورت میں بھی نہ چھوڑنا!
حضرت آدم علیہ السلام کے بعد اور حضرت نوح علیہ السلام سے پہلے یہ پانچ بزرگ تھے۔ لوگ ان کو بڑی عقیدت سے دیکھتے۔ یہ دنیا سے چلے گئے تو لوگ ان کے نقش قدم پر چلتے رہے۔ شیطان نے ان کے دلوں میں ڈالا کہ یہ نیک آدمی تھے ، ان کی تصویریں بنا کر گھر میں رکھ لو، ان کے دیکھنے سے اللہ یاد آئے گا، آخرت یاد آئے گی۔ کچھ عرصہ ایسے ہی رہا۔ اگلی نسل آئی تو شیطان نے انہیں کہا کہ یہ اللہ کے بہت نیک بندے ہیں تم ان کو سجدے کرو گے تو اس سے اللہ بہت خوش ہو گا کہ یہ میرے نیک بندوں کو پوجتے ہیں۔ لوگ ان کو پوجنا شروع ہو گئے۔ انہوں نے آپس میں کہا کہ تم نے اپنے ان خداؤں کو نہیں چھوڑنا! اسے کہتے ہیں تخصیص بعد التعمیم کہ پہلےتمام خداؤں کے بارے میں کہا کہ اپنے معبودوں کو نہیں چھوڑنا، پھر کہا کہ فلا ں فلاں خاص خاص کو تو کبھی بھی نہیں چھوڑنا! یہ تخصیص بعد التعمیم ہے ۔
حضرت نوح علیہ السلام کی بد دعا کی وجہ:
﴿ وَ قَدۡ اَضَلُّوۡا کَثِیۡرًاۚ وَ لَا تَزِدِ الظّٰلِمِیۡنَ اِلَّا ضَلٰلًا ﴿۲۴﴾ ﴾
حضرت نوح علیہ السلام اللہ سے دعا مانگتے ہیں: اے اللہ! ان ظالموں کو اور گمراہ کر دے، ان کی گمراہی میں اضافہ کر دے ۔
یہاں اعتراض یہ ہے کہ نبی جب بھی دعا مانگتے ہیں تو ہدایت کی مانگتے ہیں اور نوح علیہ السلام تو گمراہی کی دعا مانگ رہے ہیں۔ اس کی وجہ دراصل یہ تھی کہ نوح علیہ السلام پر وحی آ گئی تھی کہ ان میں سے مزید آپ پر کوئی ایمان لا نے والانہیں ہے ،جو ایمان لا چکے ہیں بس یہی ہیں، آئندہ آپ کی قوم میں سے کوئی ایمان لانے والا نہیں ہے۔ تو جب ایمان نہیں لائیں گے تو ان کو عذاب ہونا چاہیے۔
اسی لیے نوح علیہ السلام نے عرض کیا کہ اے اللہ! جب انہوں نے ایمان لانا نہیں ہے تو جتنی گمراہی ان کے مقدر میں ہے وہ ساری گمراہی ان کو دے دے تاکہ عذاب آئے اور ان سے زمین پاک ہو جائے۔ تو بظاہر گمراہی کی دعا کی ہے لیکن حقیقت میں استحقاقِ عذاب کی دعا کی ہے کہ یا اللہ! آپ نے ان کو جتنا گمراہ کرنا ہے آپ کر دیں تاکہ یہ مستحقِ عذاب ہو جائیں ۔
﴿ مِمَّا خَطِیۡٓــٰٔتِہِمۡ اُغۡرِقُوۡا فَاُدۡخِلُوۡا نَارًا فَلَمۡ یَجِدُوۡا لَہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ اَنۡصَارًا ﴿۲۵﴾ ﴾
یہ لوگ اپنے گناہو ں کی وجہ سے پہلے تو پانی میں غرق ہوئے اور موت کے بعد برزخ کی آگ میں چلے گئے ۔ ان کو دو قسم کا متضاد عذاب ہوا۔ اب پانی اور آگ میں تضاد ہے۔ پانی اور آگ کا آپس میں کوئی جوڑ نہیں ہے، ادھر پانی کا عذاب اور پانی کے عذاب سے نکلیں تو پھر آگ کا عذاب ہو گا۔
﴿وَ قَالَ نُوۡحٌ رَّبِّ لَا تَذَرۡ عَلَی الۡاَرۡضِ مِنَ الۡکٰفِرِیۡنَ دَیَّارًا ﴿۲۶﴾ اِنَّکَ اِنۡ تَذَرۡہُمۡ یُضِلُّوۡا عِبَادَکَ وَ لَا یَلِدُوۡۤا اِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًا ﴿۲۷﴾﴾
حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ سے دعا کی: اے میرے رب! ان کافروں میں سے ایک بندہ بھی زمین پر باقی نہ رکھنا! اگر آپ نے ان کو چھوڑ دیا تو یہ آپ کے بندوں کو اور گمراہ کریں گے اور ان سے جو نسل پیدا ہو گی وہ بھی کافروں کی پیدا ہو گی، اس لیے ان کو تباہ کر دیں اور ساتھ ہی پھر یہ دعا بھی کر دی:
﴿رَبِّ اغۡفِرۡ لِیۡ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِمَنۡ دَخَلَ بَیۡتِیَ مُؤۡمِنًا وَّ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ ؕ وَ لَا تَزِدِ الظّٰلِمِیۡنَ اِلَّا تَبَارًا ﴿٪۲۸﴾﴾
اے میرے رب! مجھے بخش دے، میرے والدین کو بخش دے اور ہر اس بندے کو بخش دے جو میرے گھر میں ایمان کی حالت میں داخل ہوا، اسی طرح تمام ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کو بخش دے اور ظالموں کو تباہ و برباد فرما۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ باتیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․