سورۃ الجن

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
سورۃ الجن
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿قُلۡ اُوۡحِیَ اِلَیَّ اَنَّہُ اسۡتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الۡجِنِّ فَقَالُوۡۤا اِنَّا سَمِعۡنَا قُرۡاٰنًا عَجَبًا ۙ﴿۱﴾ ﴾
شان نزول :
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں بہت دعوت دی اور مکہ والوں نے آپ کو بہت تنگ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعوت میں مدد اور تعاون کے لیے طائف تشریف لے گئے۔ طائف میں آپ نے قبیلہ بنو ثقیف کے عمیر ثقفی کے تین بیٹوں عبد یا لیل، صعود اور حبیب سے ملاقات کی۔ ان کے بارے میں معروف تھا کہ یہ اچھے لوگ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اسلام کی دعوت دی، قوم کے مظالم کا ذکر کر کے فرمایا کہ میں تم سے مدد طلب کرنے آیا ہوں۔ انہوں نے آپ کا مذاق اڑایا۔ شریر لڑکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے لگائے۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتھر مارے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں مبارک سے خون نکلا ۔ یہ وہ لوگ تھے جو سب سے اچھے لوگ شمار ہوتے تھے اور انہوں نے آپ کو یہ صلہ دیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے واپس تشریف لائے۔ طائف سے نکلنے کے بعد عتبہ اور شیبہ کے انگوروں کے باغ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ لی۔ عتبہ اور شیبہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت دیکھی تو ان کو ترس آیا۔ انہوں نے اپنے غلام عدّاس اس کا نام تھا، اس کو بھیجا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جا کر کچھ انگور دو کھانے کے لیے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگور کھانے شروع کیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھی۔ وہ عدّاس غلام عیسائی تھا۔ اس نے کہا کہ یہ آپ نے کیا پڑھا ؟فرمایا :بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اس نے کہا کہ یہ لفظ تو کھانے سے پہلے کوئی نہیں پڑھتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تم کون ہو ؟ کہا: میں عدّاس ہوں۔ پوچھا: علاقہ کون سا ہے؟ اس نے بتایا کہ میں نینوا کا رہنے والا ہوں۔ فرمایا: اس علاقے میں یونس بن متی ہوتے تھے؟ کہا: جی ہاں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ نبی تھے اور میرے بھائی تھے ، میں بھی نبی ہوں۔ اس نے کہا: آپ نبی ہیں؟ فرمایا: ہاں میں نبی ہوں۔
اس وقت عدّاس نے آپ کے ہاتھوں کو چوما اور آپ کے سر کو چوما۔ اس عمل کو عتبہ اور شیبہ دونوں نے دیکھا۔ عدّاس واپس آیا تو انہوں نے کہا: یہ تو نے کیا کیا؟ لگتا ہے تو بھی اپنا دین چھوڑ گیا ہے، اس وقت سب سے افضل دین تو تمہارا ہے یعنی نصاریٰ کا۔ اس نے کہا: نہیں، سب سے افضل دین ہمارا نہیں ہے سب سے افضل دین ان کا ہے ،جس نبی کے بارے میں ہم نے سنا تھا یہ وہ نبی ہے ۔ یہ واقعہ راستے میں پیش آیا۔
پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مقام نخلہ پر رکے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کو تہجد کی نماز پڑھی۔ مُلکِ یمن کے جنات کا ایک گروہ بھی یہیں پہنچا ہوا تھا۔ چونکہ پہلے ملائکہ کو جب اللہ پاک حکم دیتے تو ملائکہ اپنے پروں کو ہلاتے اور بہت خوش ہوتے اور جو حکم آسمان سے زمین کی طرف آتا تھا ان احکام کو دیکھ کر خوش ہوتے اور آپس میں مذاکرہ کرتے۔ملائکہ آسمان سے نیچے آتے تھے تو جنات وہاں جا کر ان باتوں کو سن لیتے اور واپس آ کر نجومیوں کو بتاتے کہ بارش ہونے والی ہے، فلاں کام ہونے والا ہے، نجومی ان میں کچھ جھوٹ ملا کر یہ باتیں قوم کو بتا دیتے تھے، اس سے ان کا کام چلتا رہتا تھا۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آنا شروع ہوئی تو پھر اللہ رب العزت نے مستقل انگارے شہاب ثاقب کی صورت میں ان کے پیچھے لگا دیے جو جنات کو مارتے تھے اور جنات اوپر نہیں جا سکتے تھے۔ اب جنات بہت پریشان تھے کہ ایسا کیا واقعہ پیش ہوا ہے کہ ہمیں اوپر جانے سے روک دیا گیا ہے۔ اس تلاش میں نکلے ہوئے مقام نخلہ پر پہنچے تو دیکھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تہجد میں تلاوت فرما رہے تھے۔
ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت سنی اور چلے گئے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ ان کے آنے کا پتا چلا، نہ تلاوت سننے کا پتا چلا، نہ ان کے ایمان کا پتا چلا۔ وحی آئی تو بذریعہ وحی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا۔
جنات ؛ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں چھ مرتبہ حاضر ہوئے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پانچ مواقع پر جنات سے گفتگو کرنا ثابت ہے اور یہ موقع ایسا ہے کہ جس میں جنات کی آمد کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتا نہیں چلا تھا، اس ملاقات میں جنات سے براہِ راست گفتگو نہیں ہوئی تھی۔
جنات کا قرآن سننا:
﴿قُلۡ اُوۡحِیَ اِلَیَّ اَنَّہُ اسۡتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الۡجِنِّ فَقَالُوۡۤا اِنَّا سَمِعۡنَا قُرۡاٰنًا عَجَبًا ۙ﴿۱﴾﴾
آپ فرما دیجیے کہ میری طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ جنات کے ایک گروہ نے قرآن کو بغور سنا اور کہنے لگے کہ ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے۔
”نَفَر“
کہتے ہیں تین سے لے کر دس تک کو اور یہ آنے والے جنات نو تھے اور ملکِ یمن کے علاقے نصیبین کے رہنے والے تھے۔
﴿وَّ اَنَّہٗ تَعٰلٰی جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَۃً وَّ لَا وَلَدًا ۙ﴿۳﴾ وَّ اَنَّہٗ کَانَ یَقُوۡلُ سَفِیۡہُنَا عَلَی اللہِ شَطَطًا ۙ﴿۴﴾﴾
یہ چونکہ ایمان لے آئے تھے اس لیے انہوں نے کہا:ہمارے رب کی شان بلند ہے، اللہ کی نہ کوئی بیوی ہے اور نہ کوئی اولاد۔ جو ہم میں بے وقوف لوگ ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں غلط باتیں کرتے ہیں۔
﴿وَّ اَنَّا ظَنَنَّاۤ اَنۡ لَّنۡ تَقُوۡلَ الۡاِنۡسُ وَ الۡجِنُّ عَلَی اللہِ کَذِبًا ۙ﴿۵﴾﴾
اور ہمارا پہلے خیال یہ تھا کہ انسان اور جن اللہ پر کبھی جھوٹ نہیں بولتے لیکن آج پتا چلا کہ ہمیں شرک کی باتیں بتانے والے جنات جھوٹ بولتے تھے۔
مشرکین کا جنات کو شریک ٹھہرانا:
﴿وَّ اَنَّہٗ کَانَ رِجَالٌ مِّنَ الۡاِنۡسِ یَعُوۡذُوۡنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الۡجِنِّ فَزَادُوۡہُمۡ رَہَقًا ۙ﴿۶﴾﴾
مشرکینِ مکہ کا ایک معمول تھا کہ جب سفر پر نکلتے اور کسی وادی میں رات کو ان کا پڑاؤ ہوتا تو وہاں یہ لوگ ایک جملہ کہا کرتے تھے:
إِنِّيْ أَعُوْذُ بِعَظِيْمِ هٰذَا الْوَادِيْ مِنْ شَرِّ سُفَهَاءِ قَوْمِهٖ.
نظم الدرر فی تناسب الآیات والسور: ج8 ص186
اس وادی کے سردار جن کی قوم کے بے وقوف شریر جنات کے شر سے بچنے کے لیے میں اس سردار کی پناہ میں آتا ہوں۔
یہ ان کا معمول تھا کہ ایسے کہا کرتے تھے۔ یہاں یہ ذکر فرمایا کہ لوگوں میں کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو جنات کی پناہ میں آتے ہیں
﴿فَزَادُوۡہُمۡ رَہَقًا﴾
اور یہ بات جنات کو مزید گمراہ کرتی ہے، اکڑ میں مبتلا کرتی ہے کہ دیکھو! انسان بھی ہم سے مدد مانگتے ہیں۔
رافع بن عمیر رضی اللہ عنہ کا واقعہ:
رافع بن عمیر رضی اللہ عنہ صحابی ہیں۔ اپنے اسلام لانے کا واقعہ خود بیان کرتے ہیں کہ میں ریگستان کے علاقے میں سفر کر رہا تھا۔ اچانک مجھ پر نیند کا غلبہ ہوا تو وہیں اونٹنی سے اترا اور سو گیا اور یہی جملہ
”أَعُوْذُ بِعَظِيْمِ هٰذَا الْوَادِيْ مِنَ الْجِنِّ“
میں نے بھی کہہ کر وہاں کے جنات سے پناہ مانگی ۔ جب میں سویا تو خواب میں دیکھا کہ ایک شخص آیا اور میری اونٹنی کا گلا کاٹنے لگا ۔ میں اٹھا تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ میں پھر سو گیا اور دیکھا کہ اونٹنی کا کوئی گلا کاٹ رہا ہے۔ میں اٹھا تو کوئی بھی نہیں تھا البتہ اونٹنی گھبراہٹ کا شکا ر تھی، حرکت کر رہی تھی۔ میں پھر سو گیا۔ تیسری بار خواب میں میں نے پھر یہی واقعہ دیکھا۔
پھر میں جب میں نیند سے بیدار ہوا تو دیکھا کہ میری اونٹنی تڑپ رہی ہے اور وہی شخص جس کو میں نے خواب میں اپنی اونٹنی پر حملہ کرتے دیکھا تھا کھڑا ہے اور اس کے ہاتھ میں ایک ہتھیار ہے۔ ساتھ ہی ایک بوڑھے کو بھی دیکھا جو اس نوجوان کا ہاتھ پکڑےہوئے ہے اور اونٹنی پر حملہ کرنے سے اسے روک رہا ہے۔ اسی دوران تین وحشی گائے وہاں سے گزریں تو اس بوڑھے نے اس نوجوان سے کہا کہ اس اونٹنی کو چھوڑ دو اور ان تین میں سے کوئی ایک لے لو ۔
اس نوجوان نے ایک وحشی گائے لے لی اور چلا گیا۔ وہ بوڑھا پھر میری طرف متوجہ ہوا اور مجھے اس نے کہا کہ وہ دور گزر گیا جب جنات سے پناہ لی جاتی تھی، اب تم یہ نہ کہا کرو بلکہ اب تم یہ کہو
” أَعُوْذُ بِاللهِ رَبِّ مُحَمَّدٍ مِنْ هَوْلِ هٰذَا الْوَادِيْ“
میں اس اللہ کی پناہ میں آتا ہوں جو محمد کا رب ہے اس وادی کے خوف اور شرور سے۔ تو میں نے پوچھا کہ وہ کون ہیں؟ تو اس بوڑھے نے کہا کہ وہ نبی ہیں جو یثرب میں ہیں۔ میں اسی وقت نکلا اور سیدھا مدینہ منورہ آیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملتے ہی جو واقعہ میرے ساتھ پیش آیا تھا مجھے سارا بتا دیا۔ تو میں کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا۔
التفسیر المظہری: ج10 ص89
”مساجد اللہ کی ہیں“ کا معنی:
﴿وَّ اَنَّ الۡمَسٰجِدَ لِلہِ فَلَا تَدۡعُوۡا مَعَ اللہِ اَحَدًا ﴿ۙ۱۸﴾﴾
یا تو
”الۡمَسٰجِدَ“
حقیقی معنی میں ہے کہ سجدہ کی جگہیں کہ مساجد ساری اللہ کے لیے ہیں،انسان کو چاہیے کہ مساجد میں جا کر اللہ کے علاوہ کسی اور کو مدد کے لیے نہ پکارے۔
یا یہ
”الۡمَسٰجِدَ“
مَسْجَد کی جمع ہے اور مصدر میمی ہے جس کا معنی ہے سجدہ کرنا۔ اب آیت کا معنی یہ ہو گا کہ ہر قسم کے سجدے تعظیمی ہوں یا عبادت کے ہوں سارے اللہ کے لیے ہیں اور اللہ کے ساتھ کسی کو سجدے میں شریک نہیں کرنا چاہیے ۔
علمِ غیب کی تعریف:
﴿قُلۡ اِنۡ اَدۡرِیۡۤ اَقَرِیۡبٌ مَّا تُوۡعَدُوۡنَ اَمۡ یَجۡعَلُ لَہٗ رَبِّیۡۤ اَمَدًا ﴿۲۵﴾ عٰلِمُ الۡغَیۡبِ فَلَا یُظۡہِرُ عَلٰی غَیۡبِہٖۤ اَحَدًا ﴿ۙ۲۶﴾﴾
”عالم الغیب“ کا لفظ اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کسی اور پر استعمال کرنا ہرگز جائز نہیں، کیونکہ غیب اسے کہتے ہیں جس پر کوئی دلیل نہ ہو اور اس تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہ ہو۔مطلق غیب اسے کہتے ہیں:
”إِنَّ الْغَيْبَ الْمُطْلَقَ فِي الْإِطْلَاقَاتِ الشَّرْعِيَّةِ مَا لَمْ يَقُمْ عَلَيْهِ دَلِيْلٌ وَّ لَا إِلٰى دَرْکِهٖ وَ سِيْلَةٌ وَّ سَبِيْلٌ “
کہ جس تک پہنچنے کی کوئی دلیل اور راستہ نہ ہو ۔
المہند علی لمفند: ص88
اور جب اس تک آپ پہنچ گئے تو پھر غیب غیب نہیں رہتا، وہ مشاہد بن جاتا ہے ، ظہور ہو جاتا ہے اس کا ۔ اللہ رب العزت عالم الغیب ہیں، اللہ کے پاس وہ علوم ہیں جن تک رسائی کسی بندے کے بس میں نہیں ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہی عالم الغیب ہے:
﴿فَلَا یُظۡہِرُ عَلٰی غَیۡبِہٖۤ اَحَدًا ﴿ۙ۲۶﴾ اِلَّا مَنِ ارۡتَضٰی مِنۡ رَّسُوۡلٍ فَاِنَّہٗ یَسۡلُکُ مِنۡۢ بَیۡنِ یَدَیۡہِ وَ مِنۡ خَلۡفِہٖ رَصَدًا ﴿ۙ۲۷﴾﴾
اللہ اپنے غیب پر مطلع کرتے ہیں اپنے بندوں میں سے جس کو منتخب فرماتے ہیں۔ یہ جو
”اِلَّا مَنِ ارۡتَضٰی“
کا استثناء ہے یہ استثناء منقطع ہے۔
”عٰلِمُ الۡغَیۡبِ“
سے مراد کہ اللہ تعالی کا جو علم ہے وہ ہر قسم کا ہے اور
”اِلَّا مَنِ ارۡتَضٰی مِنۡ رَّسُوۡلٍ“
کہ جس غیب پر اللہ کسی کو مطلع فرماتے ہیں یہ وہ غیب ہے جس کا تعلق رسالت کے علوم سے ہے، یہ عام غیب نہیں ہے۔ تو یہ مستثنیٰ منقطع ہے۔
حفظ الایمان کی عبارت کی وضاحت:
اللہ کی ذات کے علاوہ کسی اور کے لیے عالم الغیب کا لفظ استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی کتاب ”حفظ الایمان“ میں جو عبارت ہے اس پر اہلِ بدعت اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جتنا غیب اللہ کے نبی کے پاس ہے العیاذ باللہ اتناغیب تو عام آدمی کے پاس بھی ہے، مجنون کے پاس بھی ہے اور حتی کہ جانوروں کے پاس بھی ہے۔ تو حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی ہے۔
حالانکہ بات یہ نہیں ہے۔ حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی ذات کے علاوہ کسی اور پر ”عالم الغیب“ کا لفظ استعمال کرنا جائز نہیں۔ کیوں کہ جب تم اللہ کے علاوہ اللہ کے رسول کو ”عالم الغیب“ کہتے ہو تو تمہاری مراد کیا ہے؟ اگر تم کہتے ہو کہ اس علمِ غیب سے تمام علوم یعنی
”جمیع ما کان وما یکون“
مراد ہے تو اس کی تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے، اور اگر آپ کہتے ہو کہ اس سے مراد تمام نہیں بلکہ بعض ہیں تو بعض ہونا یہ پیغمبر کا کمال نہیں ہے۔ کمال وہ ہوتا ہے جو صاحبِ کمال میں ہو اور دوسرے میں نہ ہو۔
تو بعض ہونا یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال نہیں ہے کیوں کہ بعض وہ باتیں جو ایک بندے کو معلوم ہوں اور دوسرے کو نہ ہوں تو یہ مجنون کے پاس بھی ہوتا ہے۔ ایک مجنون ہے وہ اپنی جیب میں کو ئی مٹی کا ڈھیلا ڈال لیتا ہے اور کہتا ہے کہ میری جیب میں کیا ہے؟ ہمیں معلوم نہیں کہ اس کی جیب میں کیا ہے لیکن اس کو پتا ہے کہ جیب میں مٹی کا ڈھیلا ہے، اور ایسی باتیں تو بعض صبی اور بچوں کو بھی معلوم ہوتی ہیں جو بڑے کو معلوم نہیں ہوتیں اور اسی طرح بعض چیزیں جانوروں کو معلوم ہوتی ہیں جو انسانوں کو معلوم نہیں ہوتیں۔ مثلاً کسی جگہ گھی پڑا ہوا ہے تو چیونٹی سونگھ لیتی ہے لیکن ہمیں نہیں پتا چلتا، اسی طرح پانی نیچے ہوتا ہے اور ہدہد پرندہ معلوم کر لیتا ہے لیکن ہمیں نہیں پتا چلتا۔
تو نبی کے لیے ”عالم الغیب“ لفظ کا کیسے استعمال کریں گے؟جب آپ نبی کے لیے ”عالم الغیب“ کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اگر آپ کی مراد تمام علوم ہیں تو اس پر دلیل نہیں ہے اور اگر بعض علوم ہیں تو بعض ایسی باتیں ایک کو معلوم ہوں اور دوسرے کو معلوم نہ ہوں تو یہ عام انسان بھی جانتا ہے ،جانور بھی جانتا ہے، صبی بھی جانتا ہے ، مجنون بھی جانتا ہے تو یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اختصاص کیسے ہوا؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا آپ نے کون سا کمال ثابت کیا ؟
دوسری بات سمجھیں۔ حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر آپ لوگ کہتے ہیں کہ ہم جو عالم الغیب کہتے ہیں تو یہ ہماری خاص اصطلاح ہے اور جب ہم کہتے ہیں کہ حضور عالم الغیب ہیں تو ہمارا مطلب یہ ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بعض باتیں ایسی معلوم ہیں جو دوسروں کو معلوم نہیں ہیں ۔ فرمایا کہ اگر تمہاری یہ اصطلاح مان لی جائے کہ عالم الغیب کا لفظ جس طرح اللہ پر بولا جاتا ہے تو نبی پر بھی بولا جائے تو پھر اس تاویل سے تو خالق، مالک، رازق اور معبود کا لفظ بھی اللہ کے علاوہ مخلوق پر استعمال کرنا ہو گا۔ کوئی بندہ کہتا ہے میں اپنے مالک کو رازق کہتا ہوں اور میرے ہاں رازق کا معنی یہ ہے کہ جو تنخواہ دے ، یہ میری اصطلاح ہے۔ کوئی بندہ اپنے والد کو خالق کہے کہ میرے ہاں خالق کا معنی ہے کہ جس کی وجہ سے بچہ پیدا ہو۔ تو اگر اس طرح تاویلات کرتے جائیں تو پھر اللہ کی کون سی صفت بچے گی ؟
آگے حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے اس سے بھی باریک بات فرمائی ہے۔ فرماتے ہیں: اگر یوں تاویل کر لی جائے تو اس طرح تو تاویل کر کے اللہ پر عالم الغیب کا لفظ استعمال کرنا جائز نہیں ہو گا کیوں کہ ایک بندہ کہتا ہے کہ میرے ہاں عالم الغیب کا معنی یہ ہے کہ ایسا بندہ جو سب نہ جانتا ہو بلکہ کچھ جانتا ہو اور چونکہ اللہ سب کچھ جانتے ہیں لہذا اللہ کو عالم الغیب نہیں کہہ سکتے۔ بات سمجھ آ رہی ہے؟ (جی ہاں۔ سامعین)
اگر آپ عالم الغیب کا لفظ اللہ کے علاوہ نبی پر تاویل کر کے بولتے ہیں تو کوئی بندہ یہی تاویل کرے گا تو اللہ پر یہ لفظ استعمال کرنا جائز نہیں ہو گا۔ کوئی کہے گا کہ اللہ عالم الغیب نہیں ہے کیوں کہ میرے ہاں عالم الغیب کا معنی یہ ہے کہ جس کو کچھ معلوم ہو اور کچھ معلوم نہ ہو، لہذا یہ لفظ اللہ کے لیے استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ تو ایسی تاویلات نہ کرو جس سے شریعت کا چہرہ مسخ ہو جائے ۔
یہ ہے حفظ الایمان کی پوری عبارت کا خلاصہ۔ اب آپ بتائیں اس میں توہین کا پہلو کون سا بنتا ہے؟ (کوئی نہیں۔ سامعین)
اللہ تعالیٰ ہمیں بات سمجھنے کی اور آگے سمجھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․