سورۃ المزمل

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
سورۃ المزمل
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿ یٰۤاَیُّہَا الۡمُزَّمِّلُ ۙ﴿۱﴾ قُمِ الَّیۡلَ اِلَّا قَلِیۡلًا ۙ﴿۲﴾ نِّصۡفَہٗۤ اَوِ انۡقُصۡ مِنۡہُ قَلِیۡلًا ۙ﴿۳﴾﴾
شانِ نزول:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب پہلی وحی آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت گھبراہٹ کا شکار ہوئے اور یہ طبعی خوف تھا۔ ایسے جبرائیل امین کو کبھی دیکھا نہیں تھا۔ پھر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے۔ سارا واقعہ سنایا۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت تسلی دی۔ تقریباً چھ ماہ تک وحی کا سلسلہ بند رہا اور ان چھ ماہ کے دوران رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبارک خواب آتے رہے۔ اسی وجہ سے خواب کو نبوت کا چھیالیسواں حصہ کہتے ہیں کہ اعلانِ نبوت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر بنتی ہے 23 سال اور اگر 23 سال کی ششماہیاں دیکھیں تو وہ بنتی ہیں چھیالیس۔ تو ان میں سے جو پہلے چھ ماہ تھے ان میں وحی نہیں آئی بلکہ خواب آتے رہے۔ تو کہتے ہیں کہ رؤیائے صادقہ یہ وحی کا چھیالیسواں حصہ ہیں کہ چھ ماہ تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب آتے رہے اور نبی کا خواب بھی وحی ہوتا ہے۔ تو جبرائیل علیہ السلام کے ذریعہ وحی نہیں آئی بلکہ خواب کے ذریعہ وحی آتی رہی۔
تو چھ ماہ کے بعد ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ وہی شخص آسمان کے کنارے میں کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غارِ حراء میں دیکھا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک گھبراہٹ کی کیفیت سی طاری ہو گئی اور اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”زَمِّلُوْنِیْ ! زَمِّلُوْنِیْ !“
میرے اوپر چادر ڈال دو۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ پر چادر ڈال دی۔
مزمل اور مدثر کا معنی:
اللہ رب العزت نے
﴿یٰۤاَیُّہَا الۡمُزَّمِّلُ﴾
اور
﴿یٰۤاَیُّہَا الۡمُدَّثِّرُ﴾
انہی لفظوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کیا ہے۔ ان میں کوئی بہت گہرا فرق نہیں ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ مدثر؛ دثار سے ہے جسے لحاف کہتے ہیں اور مزمل؛ زمیل سے ہے جسے چادر کہتے ہیں، بس چادر اوڑھ لی یا تھوڑا سا بڑا کپڑا اوڑھ لیا تو
﴿یٰۤاَیُّہَا الۡمُزَّمِّلُ﴾
فرمایا اور
﴿یٰۤاَیُّہَا الۡمُدَّثِّرُ﴾
فرمایا۔
فترت وحی کے بعد نازل ہونے والی پہلی سورت:
فترت وحی کے بعد پہلی کون سی سورت نازل ہوئی؟ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ سورت مزمل نازل ہوئی لیکن اس کا ابتدائی حصہ نازل ہوا اور اس کا آخری حصہ ایک سال بعد نازل ہوا۔ بعض کہتے ہیں کہ سورت مدثر نازل ہوئی اور بعض کہتے ہیں کہ دونوں اکٹھی نازل ہوئیں، الگ الگ نہیں ۔
قیام اللیل کاحکم:
﴿یٰۤاَیُّہَا الۡمُزَّمِّلُ ۙ﴿۱﴾ قُمِ الَّیۡلَ اِلَّا قَلِیۡلًا ۙ﴿۲﴾ نِّصۡفَہٗۤ اَوِ انۡقُصۡ مِنۡہُ قَلِیۡلًا ۙ﴿۳﴾ اَوۡ زِدۡ عَلَیۡہِ وَ رَتِّلِ الۡقُرۡاٰنَ تَرۡتِیۡلًا ؕ﴿۴﴾ ﴾
اس میں اللہ پاک نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی محبت کے ساتھ
”یٰۤاَیُّہَا الۡمُزَّمِّلُ“
کہہ کر خطاب فرمایا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سب پر رات کے چوتھائی حصہ سے کچھ زیادہ رات کا قیام کرنا فرض تھا ۔
فرمایا: اے چادر اوڑھنے والے! آپ رات کا کچھ حصہ چھوڑ کر باقی رات قیام کیا کریں۔ یہ قیام آدھی رات کر لیں، یا اس سے تھوڑا کم کر لیں ، یا پھر اس سے تھوڑا زیادہ کر لیں۔
اب بندے کے ذہن میں سوال آتا ہے کہ
﴿قُمِ الَّیۡلَ اِلَّا قَلِیۡلًا﴾
میں
”قَلِیۡلًا“
کی جو تشریح
”نِصۡفَہٗ “
سے کی جا رہی ہے بظاہر یہ ٹھیک نہیں ہے۔ کیوں کہ نصف تو قلیل نہیں کہلاتا!
اس کا جواب یہ ہے کہ رات تو شروع ہوتی ہے مغرب سے ، جب مغرب سے لے کر آپ صبح صادق تک چلیں گے پھر آپ دیکھیں کہ نصف کیا بنتا ہے! مثلاً آج کل ہمارے ہاں مغرب ہو رہی ہے پونے چھ بجے اور صبح صادق ہو رہی ہے پونے چھ بجے تو یہ بارہ گھنٹے بن گئے۔ تو یہ ہے پوری رات۔ اس کا نصف چھ گھنٹے ہے اور جب آپ عشاء کی نماز پڑھیں گے، سنتیں پڑھیں گے اور پھر سوئیں گے تو اس کے بعد آپ دیکھیں کہ اب نصف کیا بنے گا؟ آپ نے عشاء کی نماز پڑھی ساڑھے سات بجے، اب آپ کو سوتے سوتے ساڑھے آٹھ بج گئے۔ اب آپ ساڑھے آٹھ سے شروع کریں اورپونے چھے تک چلیں تو اب کتنے گھنٹے بنیں گے؟ اب اس کا نصف ساڑھے چار بنے گا۔
اب دیکھیں، مغرب سے لے کر صبح صادق تک اس کا نصف کیا بنتا ہے؟ اور ساڑھے آٹھ بجے کے بعد اس کا نصف کیا بنتا ہے؟ اب اگر رات کو دیکھیں تو وہ شروع ہوتی ہے پونے چھ سے لے کر صبح صادق تک لیکن جو تہجد کا معاملہ ہے اس کی رات شروع ہونی ہے سونے کے بعد ۔ کہ جب آپ کا سونے کا وقت شروع ہوتا ہے تو آپ کی رات شروع ہو گئی۔ تو جب آپ اس کا نصف دیکھیں گے تو یہ کچھ کم پوری رات بن جائے گی۔ یہ بات میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ آپ نے جو رات کو تہجد پڑھنی ہیں تو یہ جو تہجد والی رات ہے یہ سورج کے غروب ہونے سے شروع ہو گی یا عشاء کے بعد شروع ہو گی ؟ عشاء کے بعد شروع ہو گی! اور جو پوری رات ہے وہ غروب ہونے سے لے کر صبح صادق تک ہے۔ اس رات کا جو نصف ہے وہ 12 بجے ہے اور جو تہجد آپ نے پوری رات پڑھنی ہیں وہ عشاء کے فرض کے بعد ہیں، کوئی عشاء کے فرض 9 بجے پڑھتا ہے اور ہم جو عشاء پڑھتے ہیں تو وہ ساڑھے سات بجے پڑھتے ہیں ورنہ اگر مستحب وقت کے مطابق عشاء تاخیر سے پڑھیں گے تو کم از کم ساڑھےآٹھ، نو بجے ہو گی۔ اس کے بعد جو نصف ہو گا وہ کچھ کم پوری رات بن جائے گی ۔اب سمجھ میں آئی؟ (جی ہاں۔ سامعین)
تہجد کی منسوخیت کی وجوہات:
پہلے تہجد ایک سال تک فرض رہی۔ اس کے بعد معراج کی رات آپ تشریف لے گئے عرش پہ، اللہ نے پانچ نمازیں دے دیں، وہ پانچ نمازیں فرض ہو گئیں اور تہجد کی فرضیت منسوخ ہو گئی ۔ منسوخی کی تین وجوہات اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کریم میں بیان فرمائی ہیں :
[1]: پہلی وجہ
﴿اِنَّ رَبَّکَ یَعۡلَمُ اَنَّکَ تَقُوۡمُ اَدۡنٰی مِنۡ ثُلُثَیِ الَّیۡلِ وَ نِصۡفَہٗ وَ ثُلُثَہٗ وَ طَآئِفَۃٌ مِّنَ الَّذِیۡنَ مَعَکَ ؕ وَ اللہُ یُقَدِّرُ الَّیۡلَ وَ النَّہَارَ ؕ عَلِمَ اَنۡ لَّنۡ تُحۡصُوۡہُ فَتَابَ عَلَیۡکُمۡ فَاقۡرَءُوۡا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الۡقُرۡاٰنِ ؕ﴾
اللہ کے علم میں ہے کہ تم دو تہائی کے قریب یا نصف کے قریب یا ایک تہائی کے قریب رات کو کھڑے ہوتے لیکن اس کو شمار کرنا تمہارے لیے ذرا مشکل ہے۔ جب آدمی تہجد پڑھنا شروع کر دے تو اس کو اندازے کے ساتھ شمار کرنا مشکل ہے کہ اب نصف رات ہو گئی ہے اب دو تہائی رات گذر گئی ہے۔ گھڑیاں تو اس وقت نہیں ہوتی تھیں۔ اس لیے اللہ نے حکم کو منسوخ کر کے آسانی پید افرما دی کہ اب تم چاہو تو پڑھ لو، نہ چاہو تو نہ پڑھو ، لیکن پڑھ لو تو بہتر ہے۔”تُحۡصُوۡہُ“ کا دوسرا معنی یہ ہے کہ اس پر عمل کرنا تمہارے لیے کافی مشکل تھا، یہ عملِ احصاء مشکل تھا، گنتی مشکل نہیں تھی، اس لیے اللہ نے آسانی پیدا فرما دی ہے۔
[2]: دوسری وجہ
﴿عَلِمَ اَنۡ سَیَکُوۡنُ مِنۡکُمۡ مَّرۡضٰی ۙ وَ اٰخَرُوۡنَ یَضۡرِبُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ یَبۡتَغُوۡنَ مِنۡ فَضۡلِ اللہِ ۙ وَ اٰخَرُوۡنَ یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ ۫ۖفَاقۡرَءُوۡا مَا تَیَسَّرَ مِنۡہُ﴾
تم میں سے بعض مریض ہیں تو فرض ادا کرنا مشکل ہو گا، بعض دن بھر روزی کمانے میں مصروف رہتے ہیں تو رات کو فرض ادا کرنا مشکل ہو گا، بعض اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہیں تو فرض ادا کرنا مشکل ہو گا اس لیے اللہ پاک نے اس کی فرضیت کو منسوخ فرما دیا۔
[3]: تیسری وجہ
پیچھے گزر چکا ہے کہ
﴿ اِنَّ لَکَ فِی النَّہَارِ سَبۡحًا طَوِیۡلًا ؕ﴿۷﴾﴾
کہ آپ کی دن میں مشغولیت بھی بہت زیادہ تھی، ذاتی کام بھی اور دینی کام بھی، پھر رات کو کھڑا ہونا مشکل تھا۔ ان تین عذروں کے پیشِ نظر اللہ نے فرضیتِ تہجد کو ختم کر دیا اور یہ فرمایا کہ اب فرض نہیں ہے، اب نفل ہے، پڑھ لو تو بہتر ہے اور نہ پڑھو تو کوئی گناہ نہیں ہے۔
لیکن تہجد کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اہتمام فرماتے تھے، کسی وجہ سے رات کو رہ جاتے تو سورج نکلنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھ لیتے تھے ۔ ہمارے اوپر قضا تو نہیں لیکن پڑھنا ضرور چاہیے اور عالم کو تو اس کا بہت اہتمام کرنا چاہیے۔
قیامِ لیل کی حکمت:
یہاں جو رات میں اٹھنے کا فرمایا ہے اس کی وجہ
﴿اِنَّا سَنُلۡقِیۡ عَلَیۡکَ قَوۡلًا ثَقِیۡلًا﴾
ہے کہ یہ وحی کی ابتدا ہے اور آئندہ پورا قرآن نازل ہونا ہے جو بہت وزنی اور بوجھ والا ہے تو اٹھانا مشکل ہو گا۔ اس لیے اللہ نے حکم دیا کہ تم ابھی سے ترتیل کے ساتھ قرآن پڑھو۔ رات کو اٹھنے کی عادت ڈالو۔ جب مشقت برداشت کرنا شروع کریں گے توآپ کے لیے مشقت والا کام کرنا آسان ہو جائے گا ۔
رات کو قیام کی وجہ:
اور یہ حکم رات کا کیوں دیا ہے؟ اس کی تین وجہیں بیان فرمائی ہیں:
[1]:
”اِنَّ نَاشِئَۃَ الَّیۡلِ ہِیَ اَشَدُّ وَطۡاً“
رات کو جب آدمی اٹھتا ہے تو اس سے نفس کی اصلاح بہت زیادہ ہوتی ہے۔ آدمی رات کو سوئے اور پھر اٹھے تو گرمی میں رات چھوٹی ہے اور سردی میں سردی بہت زیادہ ہے۔ تو رات کا اٹھنا یہ نفس کے لیے بہت زیادہ اصلاح کا سبب ہے اور یہ نفس کو روندتا ہے۔
[2]:
”وَ اَقۡوَمُ قِیۡلًا“
اور اس میں آدمی چونکہ اکیلا ہو تا ہے تو اکیلا آدمی بات دل سے کرتا ہے،
اَقۡوَمُ قِیۡلًا
کا معنی یہ نہیں کہ بات سچی کرتا ہے بلکہ آدمی بات بڑی دل جمعی سے کرتا ہے، قرآن دل جمعی سے پڑھتا ہے ،مناجات دل جمعی سے کرتا ہے، خلوت ہوتی ہے، ساتھ بندہ کوئی نہیں ہوتا ۔
[3]:
” اِنَّ لَکَ فِی النَّہَارِ سَبۡحًا طَوِیۡلًا“
رات کو کوئی اور تمہاری مشغولیت نہیں ہے جبکہ دن کو مشغولیات بہت زیادہ ہوتی ہیں، اس لیے ہم نے کہا کہ رات کو اٹھا کرو! بہتر تو یہی ہے کہ آدمی سوئے اور پھر اٹھے لیکن نہ سوئے اور پھر بھی تہجد پڑھے تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
”اَلَّیْلُ کُلُّہَا نَاشِئَۃٌ“
یہ پوری رات ہی اٹھنا ہے، جب بھی تہجد پڑھے وہ تہجد ہی شمار ہو گی۔
التفسیر المظہری: ج10 ص108
اس کا ہم سب کو بہت زیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔ اللہ مجھے بھی توفیق عطا فرمائے، اللہ آپ کو بھی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
ذکرِ اسمِ ذات کا ثبوت:
﴿وَ اذۡکُرِ اسۡمَ رَبِّکَ وَ تَبَتَّلۡ اِلَیۡہِ تَبۡتِیۡلًا ؕ﴿۸﴾﴾
آج کل ایک بات دنیا میں چل رہی ہے کہ اللہ... اللہ... اللہ... یہ جو ذکرِ اسمِ ذات اکیلا کرتے ہیں تو بعض لوگ اس پر کہتے ہیں کہ اسمِ ذات کا اکیلا ذکر کرنا یہ بدعت ہے، کیو نکہ یہ کہیں سے ثابت نہیں۔
قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ تفسیر مظہری میں فرماتے ہیں کہ اس آیت سے اسم ذات کا اکیلا ذکر کرنا ثابت ہو رہا ہے، کیوں کہ اللہ نے یہ نہیں فرمایا
”وَ اذۡکُرْ رَبَّکَ“
کہ اپنے رب کو یاد کرو بلکہ یہ فرمایا
”وَ اذۡکُرِ اسۡمَ رَبِّکَ“
کہ اپنے رب کا نام لو، اور رب کا نام کیا ہے؟ اللہ! اس لیے اللہ... اللہ... کہنا یہ قرآن کی اس آیت سے ثابت ہے۔ اس لیے اسے بدعت نہیں کہہ سکتے۔
التفسیر المظہری: ج10 ص 111
اور حدیث پاک میں ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتّٰى لَا يُقَالَ فِي الْأَرْضِ اَللّه اَللّہ.
جامع الترمذی، رقم: 2207
جب تک اللہ اللہ کہنے والے لوگ ہوں گے تب تک زمین میں قیامت نہیں آئے گی۔
میں اگلی بات اس سے بڑھ کر کہتا ہوں کہ سلسلہ چشتیہ کے حضرات اسم ذات دو ضربی
اَللہُ اَللہْ
[پہلے لفظ اللہ کی ھا پر پیش اور دوسرے لفظ اللہ کی ھا پر سکون کے ساتھ] الگ کراتے ہیں اور اسم ذات یک ضربی اللہ الگ کراتے ہیں۔ اسم ذات یک ضربی تو قرآن سے ثابت ہو گیا
﴿وَ اذۡکُرِ اسۡمَ رَبِّکَ﴾
سے کہ اپنے رب کا نام لو اور اسم ذات دو ضربی اس حدیث میں آ گیا
”لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتّٰى لَا يُقَالَ فِي الْأَرْضِ اَللّه اَللّہ“
اور یہاں لفظ اللہ ایک بار نہیں بلکہ دو بار فرمایا ہے، اس لیے اسمِ ذات دو ضربی بھی ثابت ہے۔ جب یہ بات صاف صاف ہے تو اس کو بدعت کہنے کی ضرورت کیا ہے ؟! اللہ ہم سب کی اصلاح فرمائے ۔آمین
سات مقاماتِ سلوک کا تذکرہ:
یہاں سلوک کے سات مقامات کوبیان فرمایاہے:
[1]:
”قُمِ الَّیۡلَ اِلَّا قَلِیۡلًا“
رات کو عبادت کرنا۔ اس سے سلوک کس سے طے ہوتا ہے؟ ملا علی قاری رحمہ اللہ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں:
مَنْ لَّا يَقُوْمُ اللَّيْلَ لَيْسَ مِنَ الصَّالِحِيْنَ الْكَامِلِيْنَ.
مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح: ج3 ص275 باب التحریض علی قیام اللیل
وہ شخص صالح کامل ہو ہی نہیں سکتا جو رات کو قیام نہیں کرتا ۔
[2]:
”وَ رَتِّلِ الۡقُرۡاٰنَ تَرۡتِیۡلًا“
قرآن کریم کو ترتیل کے ساتھ پڑھو! ترتیل کا معنی ہوتا ہے مخارج بھی صحیح ہوں اور حسن صوت بھی ہو، جس حد تک اللہ نے آواز دی ہو اس حد تک اپنی آواز کو خوبصورت بنا کے قرآن کریم کو پڑھے ۔
[3]:
”وَ اذۡکُرِ اسۡمَ رَبِّکَ“
اللہ اللہ بھی کر ے۔
[4]:
”وَ تَبَتَّلۡ اِلَیۡہِ تَبۡتِیۡلًا“
لوگوں سے الگ تھلگ بھی رہے یعنی کچھ وقت خلوت میں بھی گزارے۔ مستقل نہیں لیکن کچھ وقت خلوت میں بھی گزارے ۔
[5]:
”فَاتَّخِذۡہُ وَکِیۡلًا“
کہ اللہ تعالیٰ ہی پر توکل کرے۔
[6]:
”وَ اصۡبِرۡ عَلٰی مَا یَقُوۡلُوۡنَ“
لوگوں کی باتوں پر صبر کرے۔
[7]:
”وَ اہۡجُرۡہُمۡ ہَجۡرًا جَمِیۡلًا“
اور اگر لوگ تنگ کریں، تکلیف دیں اور آپ کے خلاف باتیں شروع کریں اور ان سے الگ ہونا پڑے تو خوبصورتی کے ساتھ ان سے الگ ہو جائیں۔
”ہَجۡرًا جَمِیۡلًا“
معنی یہ ہے کہ جب آپ کسی سے علیحدگی اختیار کریں تو اس کا برے لفظوں میں تذکرہ نہ کیا کریں۔ بس اس کا خیال فرمایا کریں۔ آپ کسی ادارے کے ساتھ چل رہے تھے اور اب نہیں چل سکتے اور الگ ہو گئے تو اب ان کا برا تذکرہ نہ کریں، غیبت نہ کریں، ان کے عیوب نہ بیان کریں، بس چھوڑ دیا تو چھوڑ دیا۔ آپ کسی جماعت میں تھے اور الگ ہو گئے تو بس اب ان کے خلاف کچھ نہ کہیں۔ گھر والی تھی اس کو طلاق دے دی تو اب اس کے غلط تذکرے نہ کریں، اس کے عیوب بیان نہ کریں۔ ان چیزوں میں انسان کو بہت زیادہ احتیاط کرنی چاہیے، اس کا بہت زیادہ خیال کرنا چاہیے۔
امام، مقتدی اور منفرد کے لیے الگ الگ آیات:
﴿فَاقۡرَءُوۡا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الۡقُرۡاٰنِ﴾
ایک نمازی منفرد ہے، ایک نمازی مقتدی ہے اور ایک نمازی امام ہے۔ تینوں کے لیے الگ الگ آیات اللہ نے قرآن کریم میں نازل فرمائی ہیں۔ یہ جو آیت ہے
”فَاقۡرَءُوۡا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الۡقُرۡاٰنِ“
یہ منفرد کے لیے ہے، مقتدی اور امام کے لیے نہیں کیونکہ تہجد کی جماعت نہیں ہوتی بلکہ تہجد انفرادی ہوتی ہے، اس لیے منفرد کو حکم ہے
”فَاقۡرَءُوۡا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الۡقُرۡاٰنِ“
کہ جہاں سے قرآن آسان لگے تم وہاں سے قرآن کریم کو پڑھو۔
اور امام کے لیے سورۃ بنی اسرائیل میں آیت ہے
﴿وَ لَا تَجۡہَرۡ بِصَلَاتِکَ وَ لَا تُخَافِتۡ بِہَا وَ ابۡتَغِ بَیۡنَ ذٰلِکَ سَبِیۡلًا﴾
بنی سرائیل17: 110
کہ نہ تو امام اتنا اونچا قرآن پڑھے کہ مقتدی تھوڑے ہیں اور اس کی آواز زیادہ ہو اور نہ اتنی آہستہ پڑھے کہ مقتدی زیادہ ہوں اور آواز کم پڑ جائے، بلکہ درمیانہ راستہ اختیار کرے۔ اور مقتدی کے متعلق سورۃ الاعراف میں ہے:
﴿وَ اِذَا قُرِیَٔ الۡقُرۡاٰنُ فَاسۡتَمِعُوۡا لَہٗ وَ اَنۡصِتُوۡا لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ﴾
کہ جب قرآن پڑھا جاتا ہے تو پھر سنو اور توجہ دواور خاموشی اختیار کرو۔
توبہ کا معنی و مفہوم:
﴿عَلِمَ اَنۡ لَّنۡ تُحۡصُوۡہُ فَتَابَ عَلَیۡکُمۡ ﴾
اس آیت کا معنی یہ نہیں ہے کہ تم نے گناہ کیا اور تم نے توبہ کی تو اللہ تعالی نے تمہاری توبہ قبول کر لی۔ تو بہ کا معنی ہوتا ہے ”رجوع کرنا“ یہاں
﴿فَتَابَ عَلَیۡکُمۡ﴾
کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالی نے پہلے والے حکم سے رجوع کر لیا۔ پہلے حکم یہ تھا کہ تہجد فرض ہے اور اب حکم یہ دیا کہ تہجد فرض نہیں بلکہ نفل ہے۔ تو رجوع ہو گیا ۔ جب بندہ گناہ کو چھوڑتا ہے تو کہتے ہیں کہ اس نے توبہ کی یعنی وہ بھی ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف چلا جاتا ہے۔ تو یہاں
﴿فَتَابَ عَلَیۡکُمۡ﴾
کا معنی یہ نہیں ہے کہ اللہ نے ان کے گناہ کو معاف کر دیا تھا، گناہ توتھا ہی نہیں تو معاف کیا کیا! اس لیے معنی یہ ہے کہ پہلے والے حکم کو واپس لے لیا۔
﴿وَ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ ﴾
یہ آیت چونکہ مکی ہے تو یہاں زکوٰۃ ادا کرو کا معنی کیا ہے؟ بعض مفسرین کی رائے یہ ہے کہ پوری سورت مکی ہے لیکن یہ آیت مدنی ہے، اور بعض کی رائے یہ ہے کہ نہیں، جس طرح نماز فرض مکہ میں تھی اور بہت ساری تفصیلات مدینہ منورہ میں آئیں اسی طرح نفسِ زکوۃ تو مکہ مکرمہ میں فرض ہو گئی تھی البتہ اس کی تفصیلات مدینہ منورہ میں آئیں۔
﴿وَ مَا تُقَدِّمُوۡا لِاَنۡفُسِکُمۡ مِّنۡ خَیۡرٍ تَجِدُوۡہُ عِنۡدَ اللہِ ہُوَ خَیۡرًا وَّ اَعۡظَمَ اَجۡرًا ؕ﴾
تم جو بھی مال آگے بھیجو گے اسے اللہ کے ہاں ضرور پاؤ گے۔ اللہ کے پاس پہنچ کر یہ مال پہلے سے کہیں بہتر ہو جائے گا اور اس کا ثواب بھی بہت زیادہ ہو جائے گا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ایک بار پوچھا: ایک مال تمہارے پاس ہے اور ایک مال تمہارے ورثاء کے پاس ہے، تمہیں کون سا مال اچھا لگتا ہے؟ جو تمہارے پاس ہے وہ یا جو تمہارے ورثاء کے پاس ہے؟ عرض کیا گیا کہ حضور! ہمیں تو وہ مال پسند ہے جو ہمارے پاس ہے! فرمایا: سوچ کر جواب دو! عرض کیا حضور! یہی جواب ذہن میں آتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا مال وہ ہے جو تم نے اللہ کے راستے میں خرچ کر دیا اور جو مال رہ گیا وہ تمہارا نہیں بلکہ تمہارے وارثوں کا ہے۔
اللہ ہمیں دین کے احکامات پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․