سورۃ المدثر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ المدثر
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
صفتِ اِنذار:
﴿یٰۤاَیُّہَا الۡمُدَّثِّرُ ۙ﴿۱﴾ قُمۡ فَاَنۡذِرۡ ۪ۙ﴿۲﴾ وَ رَبَّکَ فَکَبِّرۡ ﴿ۙ۳﴾﴾
لحاف لپیٹنے والے! یا بڑی چادر لینے والے! آپ مستعد ہو جائیں! تیار ہو جائیں! اور لوگوں کو ڈرائیں! اپنے رب کی تکبیر بیان کریں!
قرآن کریم میں جہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات آئی ہیں انذار اور تبشیر دونوں اکٹھی آئی ہیں لیکن یہاں انذار تو ہے، تبشیر کا لفظ نہیں ہے۔ چونکہ یہ ابتدائی سورت ہے اور اس وقت مسلمان دو چار ہی تھے، باقی سارے کافر تھے تو کفار کو تو تبشیر نہیں بلکہ ان کو انذار ہوتا ہے، ڈرایا جاتا ہے، اس لیے فرمایا کہ تم ان کو ڈراؤ ۔
عقیدہ توحید پر کاربند رہنے کا حکم:
﴿وَ ثِیَابَکَ فَطَہِّرۡ ۪﴿ۙ۴﴾ وَ الرُّجۡزَ فَاہۡجُرۡ ۪﴿ۙ۵﴾﴾
اپنے کپڑوں کو صاف رکھیں! یہاں چونکہ نماز ابھی فرض نہیں تھی اس لیے نماز کی بات نہیں کی صرف اتنا فرمایا کہ اپنے کپڑے صاف رکھیں! اور گناہ اور بتوں سے دور رہیں۔
اب دیکھو! حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نبی ہیں اور نبی ہونے کے باوجود عقیدہ توحید کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ بتوں سے دور رہیں اور عقیدہ توحید پر مستحکم رہیں۔ تو جو معصوم نہیں ہے اس کو عقیدہ توحید پر کار بند رہنے کے لیے کس قدر تاکید کی ضرورت ہو گی؟! کس قدر اہمیت ہو گی اس کے لیے؟!
بدلے کا سوچ کر احسان نہ کریں!
﴿وَ لَا تَمۡنُنۡ تَسۡتَکۡثِرُ ۪﴿ۙ۶﴾﴾
اور یوں خرچ نہ کرو کہ امید رکھو کہ بعد میں مجھے زیادہ ملے گا۔ میں اس کو ہدیہ دیتا ہوں تو کل یہ بھی ہدیہ دے گا۔ ہمارے ہاں شادی کے موقع پر اس کو ”نیوتا “ کہتے ہیں کہ جب شادی ہوتی ہے تو لوگ پیسے لکھتے ہیں اور پھر جب دوسرے کی باری آتی ہے تو پھر اپنی کاپی کو دیکھتے ہیں کہ اس نے پانچ سو دیا تھا تو ہم کتنے دیں؟! تو شادی کے موقع پر بعض لوگ دوسروں کو پیسے دیتے ہیں تا کہ جب ہمارے بچے کی شادی ہو تو ہمیں پیسے اس سے زیادہ ملیں۔ ایسی حرکتیں نہ کرو ، یہ قرآن کریم کے مزاج کے خلاف ہے ۔
اسی طرح یہ سوچ کر کہ کسی کو ہدیہ دیں کہ آج وہ ہمارے پاس آئے ہیں تو ہم ان کو ہدیہ دیں اور جب ہم ان کے علاقے میں جائیں گے تو وہ بھی ہمیں ہدیہ دیں گے۔ یہ باتیں ٹھیک نہیں ہیں ۔
﴿ وَ لِرَبِّکَ فَاصۡبِرۡ ؕ﴿۷﴾ ﴾
اللہ کی ذات کے لیے برداشت کرو ۔
ولید بن مغیرہ کی اسلام دشمنی:
﴿ذَرۡنِیۡ وَ مَنۡ خَلَقۡتُ وَحِیۡدًا ﴿ۙ۱۱﴾ وَّ جَعَلۡتُ لَہٗ مَالًا مَّمۡدُوۡدًا ﴿ۙ۱۲﴾ وَّ بَنِیۡنَ شُہُوۡدًا ﴿ۙ۱۳﴾﴾
کئی روایات سے ثابت ہے کہ یہ آیات ولید بن مغیرہ کے بارے میں نازل ہوئیں۔ یہ مکہ کا سب سے مالدار آدمی تھا۔ بعض روایات میں ہے کہ اس کی سالانہ آمدنی ایک کروڑ دینار تھی۔ اس دور میں مکہ سے طائف تک اس کے باغات تھے۔ جب سورت المؤمن کی آیت
﴿حٰمٓ ۚ﴿۱﴾ تَنۡزِیۡلُ الۡکِتٰبِ مِنَ اللہِ الۡعَزِیۡزِ الۡعَلِیۡمِ ۙ﴿۲﴾ غَافِرِ الذَّنۡۢبِ وَ قَابِلِ التَّوۡبِ شَدِیۡدِ الۡعِقَابِ ۙ ذِی الطَّوۡلِ ؕ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ؕ اِلَیۡہِ الۡمَصِیۡرُ ﴿۳﴾ ﴾
نازل ہوئی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تلاوت کر رہے تھے تو ولید بن مغیرہ نے سنا اور بے ساختہ اس کی زبان سے نکلا کہ یہ کلام نہ تو کسی انسان کا ہے اور نہ کسی جن کا، اس کی خاص حلاوت ہے اور اس کی خاص رونق ہے، اس کا اعلیٰ؛ ثمر بار ہے اور اسفل؛ میٹھا پانی ہے، یہ بلند وبالا کلام ہے، اس کو کوئی مغلوب نہیں کر سکتا اور یہ کسی انسان کا کلام نہیں ہے۔
چونکہ یہ بڑا مالدار آدمی تھا تو جب یہ بات مکہ میں پھیلی تو قریب تھا کہ لوگ اسلام کی طرف آئیں۔ ابو جہل نے سوچا کہ میں اس کو میں کیسے سمجھاؤں؟ ابو جہل اس کے پاس گیا اور کہا : ولید بن مغیرہ! اگر تم نے ابو بکر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اچھی بات کہنی ہے کچھ لینے کے لیے تو ہمیں بتاؤ ہم مکہ والے پیسے جمع کر کے تمہیں دے دیتے ہیں۔ یوں اس کو عار دلائی۔ ولید بن مغیرہ نے کہا: کیسی بات کرتے ہو؟ میری دولت کا تمہیں پتا نہیں؟ تم نے یہ کیسے کہہ دیا کہ تم مجھے پیسے جمع کر کے دو گے؟
ابو جہل نے کہا کہ پھر تم ان کی تعریفیں کیوں کرتے ہو؟ اگر پیسا نہیں تو پھر اور کیا مقصد ہے؟ ولید بن مغیرہ نے کہا: تم ان کے بارے میں کہتے ہو کہ وہ مجنون ہیں، سچ بتاؤ کہ تم نے ان کو کوئی مجنونانہ کام کرتے دیکھا ہے؟ ابو جہل نے کہا نہیں۔ اس نے کہا: تم کہتے ہو کہ وہ شاعر ہیں، کیا تم نے ان کو شعر کہتے ہوئے سنا ہے؟ ابو جہل نے کہا نہیں۔ ولید بن پھر کہا: تم انہیں کذاب کہتے ہو، کیا تم نے کبھی انہیں جھوٹ بولتے سنا ہے؟ کہا نہیں۔ اس نے پھر پوچھا: تم لوگ انہیں کاہن کہتے ہو، کیا تم نے ان کا کلام کبھی کاہنوں والا سنا ہے؟ کبھی ایسی باتیں سنی ہوں جو کاہنوں کی ہوتی ہیں؟ ابو جہل نے کہا کبھی نہیں سنا۔
ابو جہل پریشان ہو گیا۔ پھر ابو جہل نے کہا اچھا! تم بتاؤ کہ ان کو کیا کہیں؟ ولید نے کہا کہ میرا خیال یہ ہے کہ ان کو ”ساحر“ کہوکیونکہ انہوں نے بھائی کو بھائی سے، بیٹے کو باپ سے اور خاوند کو بیوی سے الگ کر دیا ہے ،جادو کے بغیر یہ نہیں ہو سکتا۔ بس جادو گر کہہ دو! ولید بن مغیرہ کے کہنے پر سب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معاذ اللہ ساحر کہنا شروع کر دیا۔ اس پر ابو جہل بہت خوش ہوا کہ میرا وار چل گیا ہے ۔
اللہ فرماتے ہیں:
﴿ذَرۡنِیۡ وَ مَنۡ خَلَقۡتُ وَحِیۡدًا ﴿ۙ۱۱﴾ وَّ جَعَلۡتُ لَہٗ مَالًا مَّمۡدُوۡدًا ﴿ۙ۱۲﴾ وَّ بَنِیۡنَ شُہُوۡدًا ﴿ۙ۱۳﴾ ﴾
جس کو میں نے پیدا کیا ہے اس کا معاملہ مجھ پر چھوڑ دو!
یہ ولید بن مغیرہ خود بھی اکیلا تھا اور اس کا باپ بھی اکلوتا تھا۔ تو یہ کہتا تھا کہ وحید ابن الوحید ہوں اور بیٹے بہت تھے۔ اللہ نے فرمایا: چھوڑو اس کو، اس کا حساب میں لوں گا، ہم نے اس کو مال دیا ہے، بچے اس کے سامنے ہیں۔
اولاد کا سامنا ہونا نعمت ہے:
﴿وَّ بَنِیۡنَ شُہُوۡدًا﴾
اس کی اولاد اس کے سامنے ہے۔
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اولاد کا سامنے ہونا خدا کی بہت بڑی نعمت ہے۔ تعجب ہے ان پر جو پیسہ کمانے کے لیے اولاد کو دوسرے ملکوں میں بھیجتے ہیں اور کئی کئی سال تک ان کا منہ بھی نہیں دیکھ سکتے۔
﴿ثُمَّ یَطۡمَعُ اَنۡ اَزِیۡدَ ﴿٭ۙ۱۵﴾ کَلَّا ؕ اِنَّہٗ کَانَ لِاٰیٰتِنَا عَنِیۡدًا ﴿ؕ۱۶﴾ سَاُرۡہِقُہٗ صَعُوۡدًا ﴿ؕ۱۷﴾ ﴾
پھر اس کی خواہش ہے کہ میرا مال اور بڑھے۔ کہتے ہیں کہ جب ابوجہل کا اس ولید بن مغیرہ سے یہ مکالمہ ہوا تو اس کے بعد پھر اس کی دولت کبھی نہیں بڑھی۔ بس اس دولت پہ سٹاپ لگ گیا۔ اس کا جرم یہ تھا کہ یہ سرکش ہے۔ اس کی سزا یہ بتائی کہ ہم اس کو صعود پر چڑھائیں گے۔ ”صعود“ جہنم میں ایک پہاڑ ہے جس پر چڑھتے ہوئے ستر ہزار سال لگ جائیں گے، جب وہاں چڑھے گا تو پھر وہاں سے گرا دیا جائے گا، پھر چڑھے گا ،پھر گرا دیا جائے گا۔ اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔آمین
جہنم کے انیس فرشتے کیوں؟ (حضرت تھانوی کی توجیہہ):
﴿لَوَّاحَۃٌ لِّلۡبَشَرِ ﴿ۚ۲۹﴾ عَلَیۡہَا تِسۡعَۃَ عَشَرَ ﴿ؕ۳۰﴾﴾
جہنم پر انیس فرشتے متعین ہیں جو جہنم کی نگرانی کرتے ہیں۔
یہ انیس کیوں ہیں؟ مختلف مفسرین کی مختلف رائے ہیں۔ حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتےہیں کہ جو میرے دل کو لگتا ہے وہ یہ کہ عقائد میں بنیادی عقائد نو ہیں۔ اللہ پر ایمان لانا، یہ عقیدہ رکھنا کہ یہ عالَم حادِث ہے، فرشتوں پر ایمان لانا، آسمانی کتابوں پر ایمان لانا، تمام انبیاء علیہم السلام پر ایمان لانا، تقدیر پر ایمان لانا، قیامت کے دن پر ایمان لانا، جنت کے برحق ہونے پر ایمان لانا، جہنم کے برحق ہونے پر ایمان لانا۔ عقائد میں یہ نو چیزیں ایسی ہیں جو بنیادی ہیں اور پھر ہمارے جو اعمال ہیں ان میں سے جو کرنے والے ہیں اس میں پانچ بنیادی ہیں اور نہ کرنے والے بھی پانچ بنیادی ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں ہے۔ کرنے والے کون سے ہیں؟ کلمہ پڑھنا،نماز پڑھنا، زکوۃ دینا، روزہ رکھنا ،اور حج کرنا.... اور منہیات کہ جن سے بچنا ضروری ہے؛ چوری سے بچنا،قتل سے خصوصاً قتل اولاد سے بچنا، زنا سے بچنا، بہتان اور عصیان فی المعروف کہ جس میں ظلم ،غیبت، اکل مالِ یتامیٰ وغیرہ سب آ جاتا ہے۔ تو حضرت فرماتے ہیں اعتقادی اعتبار سے یہ کل 19 چیزیں بنیادی بنتی ہیں، اس لیے 19 کا عدد ذکر فرمایا ۔ اور ان عقائد میں سب سے بڑا عقیدہ توحید کا ہے تو ان 19 میں بڑا ایک فرشتہ متعین ہے جس کا نام مالک ہے واللہ اعلم۔
﴿وَ مَا جَعَلۡنَاۤ اَصۡحٰبَ النَّارِ اِلَّا مَلٰٓئِکَۃً ۪﴾
یہ جہنم پر جو نگران ہیں وہ فرشتے ہیں۔
ایک کافر بے ایمان نے کہا تھا کہ جہنم کے 19 فرشتے ہیں ان کو تو میں اکیلا ہی کافی ہوں ، 10 دائیں ہاتھ میں لوں گا اور 9 بائیں ہاتھ میں پکڑوں گا ۔
انیس فرشتے؛ امتحانِ کفار اور ایقانِ مومنین
﴿وَّ مَا جَعَلۡنَا عِدَّتَہُمۡ اِلَّا فِتۡنَۃً لِّلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ۙ لِیَسۡتَیۡقِنَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ وَ یَزۡدَادَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِیۡمَانًا وَّ لَا یَرۡتَابَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ۙ﴾
تو اللہ فرماتے ہیں: ہم نے یہ تعداد ان کی آزمائش و امتحان کے لیے بنائی ہے کہ یہ کیا کرتے ہیں؟ ورنہ حدیث پاک میں ہے کہ جہنم کو جب دھکیل کر لایا جائے گا تو اس کو لانے کے لیے ستر ہزار لگامیں ہوں گی اور ایک ایک لگام پر ستر ستر ہزار فرشتے ہوں گے۔ یہ 19 تو بڑے فرشتے ہیں۔ باقی ان کے ماتحت کتنے ہوں گے ؟ اللہ ہی بہتر جانتے ہیں۔
تو یہ عدد ہم نے اس لیے بنایا تاکہ کفار کا امتحان ہو اور تاکہ اہل کتاب کا یقین بڑھ جائے۔ چونکہ ان کی کتابوں میں یہ بات درج تھی تو ان کو یقین آ جائے کہ جو ہماری کتابوں میں تھا وہی بات قرآن کریم میں ہے،اور ایمان والوں کا ایمان بڑھ جائے۔
یہ جو فرمایا:
﴿لِیَسۡتَیۡقِنَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ﴾
کہ اہلِ کتاب کو یقین ہو۔ یہ یقین شرعی نہیں بلکہ یقین لغوی ہے ۔ یقین شرعی ہو تو پھر مسلمان ہو جائیں، مراد یقین لغوی ہے کہ ان کو یقین آ جائے کہ جیسے وہاں پر تھا ایسےہی یہاں پر ہے۔
﴿وَ یَزۡدَادَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِیۡمَانًا﴾
اور اس سے ایمان والوں کا ایمان بڑھتا ہے۔ ایمان والوں کا ایمان کماً بھی بڑھتا ہےاور کیفاً بھی بڑھتا ہے۔ ایمان کی کیفیت بڑھتی ہے اور کمیت بھی۔ کمیت کیوں بڑھتی ہے؟ ایک اور چیز ایسی آئی جس پر ایمان لانا ضروری ہے تو ایمان کی مقدار بڑھ گئی ہے اور کیفیت کیوں بڑھتی ہے؟ کہ وہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے قرآن کی یہ بات ایسی ہے کہ جس کو یہودی بھی مانتے ہیں، اس سے بندے کی ایمانی کیفیت بڑھ جاتی ہے۔ تو کماً اور کیفا ًدونوں طرح ان کا ایمان بڑھتا ہے۔
﴿وَّ لَا یَرۡتَابَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ﴾
یہ تاکید ہے کہ اہلِ کتاب اور مؤمن اس میں ذرہ بھی شک نہ کریں۔ اسی وجہ سے دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ
”اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ“
الگ لائے اور مؤمنین کے لیے
”وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ“
کا لفظ الگ لائے۔ کیوں کہ مؤمن کا تو ایمان شرعی ہے، یقین شرعی ہے، اس میں شک نہیں کریں گے اور اہلِ کتا ب کا یقین شرعی نہیں ہے بلکہ یقین لغوی ہے۔
﴿وَ لِیَقُوۡلَ الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ وَّ الۡکٰفِرُوۡنَ مَاذَاۤ اَرَادَ اللہُ بِہٰذَا مَثَلًا ؕ کَذٰلِکَ یُضِلُّ اللہُ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ﴾
اور جن کے دلوں میں مرض ہے یعنی منافق لوگ اور کافر لوگ یہ سارے مل کر کہیں گے کہ اللہ کیا چاہتے ہیں ایسی مثالیں بیان کرکے؟ ایسی مثالیں کیوں دیتے ہیں ؟ تو فرمایا: اس لیے مثالیں بیان کرتے ہیں تا کہ تم اس کے ذریعہ گمراہ ہو جاؤ اور ایمان والوں کو اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ ہدایت نصیب فرمائے۔
یہ جواب ان کو تہدیداً ہے، یہ ڈانٹنے والا جواب ہے ۔ یہ ڈانٹ کر ان کو سمجھایا جا رہا ہے ۔
﴿اِنَّہَا لَاِحۡدَی الۡکُبَرِ ﴿ۙ۳۵﴾﴾
یہ جو فرمایا ہے کہ جہنم اتنی سخت ہو گی تو یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ کُبَر یہ کُبریٰ کی جمع ہے۔
کفار احکام کے مکلف ہیں یا نہیں؟
﴿ مَا سَلَکَکُمۡ فِیۡ سَقَرَ ﴿۴۲﴾ قَالُوۡا لَمۡ نَکُ مِنَ الۡمُصَلِّیۡنَ ﴿ۙ۴۳﴾ وَ لَمۡ نَکُ نُطۡعِمُ الۡمِسۡکِیۡنَ ﴿ۙ۴۴﴾ وَ کُنَّا نَخُوۡضُ مَعَ الۡخَآئِضِیۡنَ ﴿ۙ۴۵﴾ وَ کُنَّا نُکَذِّبُ بِیَوۡمِ الدِّیۡنِ ﴿ۙ۴۶﴾ ﴾
اصحاب الیمین جب جہنمیوں سے پوچھیں گے کہ تم جہنم میں کیوں آئے ہو؟ وہ اپنے جرم یہ بتائیں گے:
[1]:
” لَمۡ نَکُ مِنَ الۡمُصَلِّیۡنَ “
ہم نماز نہیں پڑھتے تھے ۔
[2]:
” وَ لَمۡ نَکُ نُطۡعِمُ الۡمِسۡکِیۡنَ “
ہم مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے، یعنی یہ جو حق واجب تھا ہم ادا نہیں کرتے تھے۔
[3]:
”وَ کُنَّا نَخُوۡضُ مَعَ الۡخَآئِضِیۡنَ“
اسلام کے خلاف ہم گپیں ہانکتے تھے۔
[4]:
”وَ کُنَّا نُکَذِّبُ بِیَوۡمِ الدِّیۡنِ“
اور ہم قیامت کا انکار کرتے تھے ۔
یہ چار جرم بیان کیے۔ پھر
﴿حَتّٰۤی اَتٰىنَا الۡیَقِیۡنُ ﴿ؕ۴۷﴾ فَمَا تَنۡفَعُہُمۡ شَفَاعَۃُ الشّٰفِعِیۡنَ ﴿ؕ۴۸﴾﴾
موت آ گئی اب کسی سفارش کرنے والے کی سفارش ان کفار کے حق میں معتبر نہیں ہو گی ۔ اب دیکھیں یہاں جرم بتائے؛ نماز نہ پڑھنا ،مسکین کو کھانا نہ کھلانا، اسلام کا مذاق اڑانا اور قیامت کو جھٹلانا ۔
سوال یہ ہے کہ قیامت کے دن جہنم میں کافر کو جو عذاب ہو گا وہ تو احکام کا مکلف ہی نہیں ہے، نماز کا مکلف نہیں ہے، صدقات کا مکلف نہیں ہے۔ جب ان چیزوں کا مکلف ہی نہیں ہے تو یہ چیزیں وجہ ِعذاب کیسے ہو سکتی ہیں؟ جس چیز کا بندہ مکلف ہو اگر اس پر عمل نہ کرے تو پھرعذاب ہو گا جیسے ایمان کے مکلف ہیں، ایمان نہ لائے تو پھر عذاب ہو گا لیکن نماز کے مکلف نہیں ہیں ، مسکین کو کھانا کھلانے کے مکلف نہیں ہیں تو ان دو کاموں کے نہ کرنے پر عذاب کیوں ہو رہا ہے؟
نفسِ عذاب اور اشتدادِ عذاب:
حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے اس کا بہت پیارا جواب دیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ایک ہوتا ہے نفسِ عذاب اور ایک ہوتا ہے اشتدادِ عذاب۔ نفسِ عذاب کی بنیاد تو کفر ہے اور اشتدادِ عذاب کی بنیاد نماز نہ پڑھنا اور صدقہ نہ دینا ہے۔تو کفر کی وجہ سے عذاب ہو گا اور نماز نہ پڑھنے اور صدقہ نہ دینے کی وجہ سے عذاب میں اضافہ ہو گا۔
پھر بھی بندے کے ذہن میں کسی درجے میں سوال رہ جاتا ہے کہ جب نماز کا مکلف نہیں تو نماز نہ پڑھنے پر عذاب کا اضافہ کیوں ہو گا؟ حضرت رحمہ اللہ اس کی توجیہ فرماتے ہیں کہ جب آدمی ایمان لائے گا تو نماز بھی پڑھے گا، ایمان لائے گا تو روزہ بھی رکھے گا۔ تو جس طرح ایمان کے بعد نماز ہے ،ایمان کے بعد روزہ ہے۔ تو اگر ایمان نہیں لایا تو عذاب ہو گا اور اگر ایمان لاتا تو جنت ملتی اور ایمان کے بعد نماز بھی تھی تو جس طرح ایمان کی فرع نماز ہے اسی طرح عذاب کی فرع اشتدادِ عذاب ہے۔ تو نفس عذاب ؛ نفس کفر یعنی ایمان نہ لانے پرہے اور اشتداد عذاب جو عذاب کی فرع ہے یہ فرع نماز نہ پڑھنےپر ہے۔
یہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی بہت پیاری توجیہ ہے جو انہوں نے بیان القرآن میں ذکر فرمائی ہے۔ میں اس لیے گزارش کرتا ہوں کہ بیان القرآن پڑھنے کا اہتمام کیا کریں۔
کفار گدھوں کی مانند ہیں:
﴿فَمَا لَہُمۡ عَنِ التَّذۡکِرَۃِ مُعۡرِضِیۡنَ ﴿ۙ۴۹﴾ کَاَنَّہُمۡ حُمُرٌ مُّسۡتَنۡفِرَۃٌ ﴿ۙ۵۰﴾ فَرَّتۡ مِنۡ قَسۡوَرَۃٍ ﴿ؕ۵۱﴾﴾
ان کو کیا ہوا کہ نصیحت سے اعراض کرتے ہیں! یہ ایسے ہیں جیسے گدھے ہوں اور گدھے بھی جنگلی جو شیر کو دیکھ کر دوڑتے ہیں۔
پہلی بات تو فرمائی کہ یہ گدھے ہیں۔ یہ تشبیہ اس لیے دی کہ جس طرح گدھا بیوقوف ہے یہ بھی بیوقوف لوگ ہیں کہ اپنی آخرت اور دین کو سمجھتے نہیں ہیں اور جنگلی گدھا کیوں کہا؟ اس لیے کہ جو گدھا گھر میں پالتو ہوتا ہے وہ ہر چیز سے نہیں دوڑتا، کسی کسی چیز سے دوڑتا ہے اور جنگلی گدھا ؛ جن سے نہیں دوڑنا چاہیے ان سے بھی دوڑتا ہے۔ فرمایا: یہ گدھے جنگلی ہیں اور شیر کو دیکھ کر تو سپیڈ لگا دیتے ہیں۔ اسی طرح یہ کفار بھی ایمان اور توحید کا نام سن کر ایسے دوڑتے ہیں جیسے جنگلی گدھا شیر سے دوڑتا ہے ۔
﴿بَلۡ یُرِیۡدُ کُلُّ امۡرِیًٔ مِّنۡہُمۡ اَنۡ یُّؤۡتٰی صُحُفًا مُّنَشَّرَۃً ﴿ۙ۵۲﴾ کَلَّا ؕ بَلۡ لَّا یَخَافُوۡنَ الۡاٰخِرَۃَ ﴿ؕ۵۳﴾ کَلَّاۤ اِنَّہٗ تَذۡکِرَۃٌ ﴿ۚ۵۴﴾ فَمَنۡ شَآءَ ذَکَرَہٗ ﴿ؕ۵۵﴾ ﴾
اور پھر یہ کافر کہتے ہیں کہ اگر تم برحق ہو تو پھر تم جو قرآن لاتے ہو تو ہمارے نام پر صحیفے ہمارے ہاتھ پر لاؤ! اللہ فرماتے ہیں: ہرگز ایسی باتیں نہیں ہیں، بس ان کو آخرت کا خوف نہیں ہے۔ یہ قرآن ہم نے رسول صلی اللہ علیہ سلم پر نازل کیا ہے، اس سے جو چاہے نصیحت حاصل کرے ۔
﴿وَ مَا یَذۡکُرُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللہُ ؕ ہُوَ اَہۡلُ التَّقۡوٰی وَ اَہۡلُ الۡمَغۡفِرَۃِ ﴿٪۵۶﴾﴾
لیکن اصل تو وہی نصیحت حاصل کرے گاجس کے بارے میں اللہ چاہے۔ اللہ ہی سے ڈرنا چاہیے اور اللہ ہی معاف فرمانے والے ہیں ۔
اللہ ہم سب کو تقویٰ کی نعمت عطا فرمائے۔ آمین
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․