سورۃ القیامۃ

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
سورۃ القیامۃ
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿ لَاۤ اُقۡسِمُ بِیَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ۙ﴿۱﴾ وَ لَاۤ اُقۡسِمُ بِالنَّفۡسِ اللَّوَّامَۃِ ؕ﴿۲﴾ ﴾
قسم کے شروع میں لَا زائدہ کا فائدہ:
”لَاۤ اُقۡسِمُ “
کے شروع میں لَا زائدہ ہے۔ لَا زائدہ کا معنی یہ ہے کہ یہ عملاً
اُقۡسِمُ
فعل پر رفع، نصب اور جزم نہیں دیتا۔ اسے
اُقۡسِمُ
فعل کے شروع میں اس لیے لاتے ہیں کہ پہلے مخاطب اور مخالف کے عقیدے کی نفی کرتےہیں کہ تم جو کہتے ہو کہ قیامت کو نہیں اٹھیں گے تو یہ بات نہیں ہے۔
﴿لَاۤ اُقۡسِمُ بِیَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ﴾
میں قیامت کے دن کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ تم ضرور اٹھوگے۔
تو
اُقۡسِمُ
کے شروع میں جو لَا لاتے ہیں اس سے مخاطب اور مخالف کے نظریہ کی نفی کرتے ہیں۔ اب لَا نہ لائیں تو یہ نفی کیسے سمجھ میں آئے گی؟! اس لیے لَا لایا جاتا ہے اور جب ہم زائدہ کہیں گے تو پھر اشکال ہوتاہے کہ جب لَا زائدہ ہے تو لانے کا فائدہ کیا ہے؟ تو جواب یہ ہے کہ زائدہ کامعنی محض یہ ہے کہ ما بعد فعل میں یہ عمل نہیں کرتا، باقی فائدہ ہے کہ مخاطب کے غلط نظریے کی اس سے تردید ہوتی ہے۔ تو اللہ رب العزت نے قسم کھائی ہے قیامت کے دن کی اور قسم کھائی ہے ایسے نفس کی جو ملامت کرنے والا ہے اور جوابِ قسم محذوف ہے یعنی
” لَتُبْعَثُنَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ“
کہ تم قیامت کے دن ضرور اٹھائے جاؤ گے ۔
نفس کی تین اقسام:
نفس سے مراد ہوتی ہے روح یاجان۔ اس کی تین قسمیں ہیں:
1: نفس امارۃ 2: نفس لوامۃ 3: نفس مطمئنہ
سورت یوسف میں ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے کہا تھا:
﴿ وَ مَاۤ اُبَرِّیُٔ نَفۡسِیۡ ۚ اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیۡ ﴾
یوسف12: 53
اے اللہ! جو میں بچا ہوں اس گناہ سے تو اس پر میں اپنی کوئی تعریف نہیں کرتا کہ میری خوبی ہے۔نفس کا تو کام ہی ہے گناہ کی دعوت دینا لیکن جب اللہ بچاناچاہے تو اللہ بچا لیتے ہیں۔
تو فطرتاً ہر نفس ”امارہ“ ہوتاہے۔ انسان کی فطرت میں اللہ تعالی نے گناہ کا تقاضا رکھا ہے۔ گیارہ قسمیں کھا کر اللہ تعالی نے یہ بات سمجھائی ہے:
﴿فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا ۪ۙ﴿۸﴾﴾
الشمس91: 8
کہ ہر انسان کی فطرت میں گناہ کا تقاضا ہے۔ لہذانفس فطرتاً انسان کو گناہ کی دعوت دیتا ہے۔ اس کو کہتے ہیں ”نفس امارہ“
اور جب انسان گناہ نہیں کرتا اور اپنے نفس کو کنٹرول کرتا ہے تو اس کے بعد نفس ”لوامۃ“ بنتا ہے یعنی ملامت کرتا ہے کہ تجھے گناہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اس نے توبہ کی تو نفس لوامہ بن جاتاہے۔ تو ابتداءً اور طبعاً ہر نفس امارہ ہے اور جب گناہ کر کے توبہ کرتا ہے تو نفس لوامہ بنتا ہے اور جب گناہ چھوڑ کر نیکی اس کی طبیعت بن جاتی ہے تو پھر نفس ”مطمئنہ“ بن جاتا ہے۔ یہاں نفسِ لوامہ کی قسم کھائی ہے۔
بعث بعد الموت کا اثبات:
﴿اَیَحۡسَبُ الۡاِنۡسَانُ اَلَّنۡ نَّجۡمَعَ عِظَامَہٗ ؕ﴿۳﴾ بَلٰی قٰدِرِیۡنَ عَلٰۤی اَنۡ نُّسَوِّیَ بَنَانَہٗ ﴿۴﴾ ﴾
انسان کا خیال ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کوجمع نہیں کریں گے۔
اصل تو مقصود ہے کہ پورے انسان کو اٹھائیں گے لیکن پورے انسان کے بجائے ہڈیوں کا ذکر کیو ں کیا ہے ؟ اس لیے کہ اس جسم میں مدار ہڈیو ں پر ہوتا ہے۔ جسم سے ہڈی نکال دو تو گوشت کیا کر سکتا ہے لیکن کسی کی پنڈلی پر گوشت نہ ہو صرف ہڈی ہو انسان پھر بھی چل سکتا ہے۔ زندہ پھر بھی رہتا ہے لیکن اگر ہڈیوں کو نکال دو تو صرف گوشت سے کام نہیں ہوتا۔ چونکہ بنیاد ہڈی ہے اس لیے ہڈیوں کا ذکر کیا ہے۔ فرمایا: تم پورے انسان کی بات کرتے ہو ہم تو اس کی انگلیوں کے پور تک ٹھیک ٹھیک بنا سکتے ہیں۔
یہاں پوروں کا ذکر کیو ں کیاہے؟ اصل میں یہ محاورہ ہے۔ محاورات میں پورے کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جب آدمی نے پورے جسم کی راحت یا تکلیف بتانی ہو تو محاورات میں پورے بتاتے ہیں کہ میرے انگ انگ میں درد ہے ، میراپور پور دُکھتا ہے، لیکن مراد پورا جسم ہوتا ہے۔ تو یہاں محاورہ استعمال کیا ہے۔
اور یہاں
”بَنَان“
کا لفظ اس لیے استعمال کیا کہ ایک ہیں انسان کے بڑے اعضاء اور ایک ہیں چھوٹے چھوٹے اعضاء۔ عام طور پر بڑے اعضاء کو بنانا آسان ہوتا ہے اور چھوٹے چھوٹے اعضاء کو بنانا مشکل ہوتا ہے۔ مثلاً آپ بس لے لیں ،گاڑی لے لیں، عمارت لے لیں تو بڑی بڑی چیزیں بنانا تو آسان ہوتا ہے لیکن چھوٹی چھوٹی چیزیں بنانا مشکل ہوتا ہے۔ تو اللہ فرماتے ہیں کہ جو تمہارے چھوٹے چھوٹے پورے ہیں ہم ان کو بھی بنا سکتے ہیں تو باقی بڑا جسم ہمارے لیے بنانا کیا مشکل ہے؟ یا اس لیے پورے کا ذکر بطورِ خاص کیا ہے کہ انسان کے پورے میں خطوط ہیں، لائنیں ہیں، یہ دنیا میں کسی انسان کی انگلی کے نشان دوسرے کے مشابہ نہیں ہیں ۔ اللہ رب العزت نے فرمایا کہ تم پورے جسم کی بات کرتے ہو ہم تو تمہارے پور بھی بنائیں گے۔ پوروں کی جو لائنیں ہیں جیسی اب ہیں ایسی ہو تب بھی گی، ان میں بھی فرق نہیں ہو گا اور تم پورے جسم کی بات کرتے ہو کہ کیسے بنائیں گے؟
﴿بَلۡ یُرِیۡدُ الۡاِنۡسَانُ لِیَفۡجُرَ اَمَامَہٗ ۚ﴿۵﴾ یَسۡـَٔلُ اَیَّانَ یَوۡمُ الۡقِیٰمَۃِ ؕ﴿۶﴾﴾
انسان چاہتا ہے کہ بس آئندہ بھی گناہ کرتا رہے، گناہ پر گناہ کرتا رہے اور پھر پوچھتا ہے کہ قیامت کب آئے گی؟
﴿فَاِذَا بَرِقَ الۡبَصَرُ ۙ﴿۷﴾ وَ خَسَفَ الۡقَمَرُ ۙ﴿۸﴾ وَ جُمِعَ الشَّمۡسُ وَ الۡقَمَرُ ۙ﴿۹﴾﴾
فرمایا: جب ایسا وقت آئے گا تو آنکھیں حیرت زدہ رہ جائیں گی، دیکھیں گی لیکن کچھ نظر نہیں آئے گا، سورج اور چاند دونوں بے نور ہو جائیں گے، دونوں ایک حالت پر ہوں گے ۔ بعض روایات میں ہے کہ جب قیامت آ جائے گی تو سورج اور چاند دونوں ایک طرف سے طلوع ہوں گے۔
﴿یَقُوۡلُ الۡاِنۡسَانُ یَوۡمَئِذٍ اَیۡنَ الۡمَفَرُّ ﴿ۚ۱۰﴾ کَلَّا لَا وَزَرَ ﴿ؕ۱۱﴾ اِلٰی رَبِّکَ یَوۡمَئِذِۣ الۡمُسۡتَقَرُّ ﴿ؕ۱۲﴾ ﴾
اس وقت انسان کہے گا کہ میں دوڑ کر کہاں جاؤں؟ اب کہیں بھی نہیں جا سکے گا۔ اب تو اللہ تک ہی پہنچے گا۔
﴿ بَلِ الۡاِنۡسَانُ عَلٰی نَفۡسِہٖ بَصِیۡرَۃٌ ﴿ۙ۱۴﴾﴾
قیامت کےدن انسان کے خلاف گواہ ملائکہ بھی ہوں گے، اعمال والے رجسٹر بھی ہوں گے، زمین بھی ہو گی لیکن خود انسان اپنی ذات کے خلاف گواہ بنے گا یعنی جب انسان جھوٹ بولنا چاہے گا تو اس کے اپنے اعضاء اس کے خلاف بولیں گے۔ باہر سے گواہ لانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
﴿ وَّ لَوۡ اَلۡقٰی مَعَاذِیۡرَہٗ ﴿ؕ۱۵﴾﴾
مَعَاذِير.... مِعْذَار
کی جمع ہے جو معذرت سے ہے۔ تو انسان قیامت کے دن عذر بنائے گا لیکن اس کا عذر کام نہیں دے گا۔ کہے گا کہ ہم تو مشرک نہیں تھے لیکن اس کا یہ جھوٹ چل نہیں سکے گا۔ اعضاء خود بول پڑیں گے کہ یہ جھوٹ بولتا ہے، وہ کہیں گے کہ ہم تو شرک کرتے تھے۔
﴿لَا تُحَرِّکۡ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعۡجَلَ بِہٖ ﴿ؕ۱۶﴾اِنَّ عَلَیۡنَا جَمۡعَہٗ وَ قُرۡاٰنَہٗ ﴿ۚ۱۷﴾﴾
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آتی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک تو یہ کوشش فرماتے کہ جبرائیل علیہ السلام جب پڑھیں تو ساتھ ساتھ آپ بھی پڑھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو ساتھ ساتھ یاد کرتے تاکہ آئندہ مشکل نہ ہو۔ اللہ رب العزت نے فرمایا کہ آپ جبرائیل کے ساتھ جلدی جلدی نہ پڑھیں، آپ کے دل میں قرآن مجید کو جمع کرنا ہماری ذمہ داری ہے،
”وَ قُرۡاٰنَہٗ“
اور آپ کی زبان سے پڑھانا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔
﴿ فَاِذَا قَرَاۡنٰہُ فَاتَّبِعۡ قُرۡاٰنَہٗ ﴿ۚ۱۸﴾ ثُمَّ اِنَّ عَلَیۡنَا بَیَانَہٗ ﴿ؕ۱۹﴾ ﴾
اور جب ہماری طرف سے فرشتہ پڑھے تو آپ اس کی اتباع فرمائیں، سنتے رہیں، پھر ہم آپ کی زبان پر اس کا بیان بھی جاری کرا دیں گے۔
تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی ہے کہ آپ اتنی مشقت برداشت نہ کریں، بس آپ خاموشی سے سنیں، ہم یاد بھی کرا دیں گے اور آپ کی زبان پر جاری بھی کرا دیں گے ۔
ترک قرأت خلف الامام کی دلیل:
﴿فَاِذَا قَرَاۡنٰہُ فَاتَّبِعۡ قُرۡاٰنَہٗ ﴿ۚ۱۸﴾﴾
یہ دلیل ہے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی کہ امام کے پیچھے قرأت نہیں کرنی چاہیے اور امام کے پیچھے قرأت میں فاتحہ بھی شامل ہے کہ فاتحہ نہیں پڑھنی چاہیے۔ دلیل ذرا سمجھیں کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿فَاِذَا قَرَاۡنٰہُ فَاتَّبِعۡ قُرۡاٰنَہٗ﴾
کہ جب فرشتہ قرآن پڑھے تو آپ فرشتے کی اتباع کریں اور اتباع کا معنی یہ نہیں ہے کہ اس کے پیچھے پیچھے پڑھیں، بس اتباع کا معنی یہ ہے کہ آپ خاموش رہیں۔ تو قرأتِ قرآن کی اتباع کو اللہ تعالیٰ نے خاموش ہونے سے تعبیر فرمایا ہے اور سنن ابن ماجہ وغیرہ میں روایت موجود ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهٖ ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوْا ، وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوْا وَإِذَا قَالَ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّيْنَ فَقُوْلُوْا اٰمِيْنَ.
سنن ابن ماجۃ، رقم: 846
کہ امام اس لیے بنایا جاتا ہے تاکہ اس کی اتباع کی جائے۔ پھر اس کی تفصیل بتائی کہ
”فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوْا“
کہ جب امام تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو،
”وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوْا“
جب وہ پڑھے تو تم خاموش ہو جاؤ،
”وَإِذَا قَالَ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّيْنَ فَقُوْلُوْا اٰمِيْنَ“
اور جب امام
”غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّيْنَ“
پڑھے تو تم آمین کہو!
اب دیکھو! یہاں
”وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوْا“
ہے کہ جب امام پڑھے تو تم خاموش رہو اور قرآن کریم میں بھی ہے کہ
﴿فَاِذَا قَرَاۡنٰہُ فَاتَّبِعۡ قُرۡاٰنَہٗ﴾
کہ جب فرشتہ قرآن پڑھے تو آپ اس کی اتباع کریں، اتباع کا معنی کہ خاموش رہیں اور اس کی دلیل
﴿لَا تُحَرِّکۡ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعۡجَلَ بِہٖ﴾
ہے۔ آیت میں اتباعِ قرآن کو خاموشی فرمایا اور حدیث پاک میں اتباعِ امام کو خاموشی فرمایا۔ جب قرآن اور حدیث دونوں فرما رہے ہیں کہ اتباع امام کا معنی خاموشی ہے تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ جب امام پڑھے تو مقتدی کو خاموش رہنا چاہیے۔
یہ امام صاحب کی قوی اور مضبوط دلیل ہے قرآن سے ترک قرأت خلف الامام پر۔
ترکِ قرأت خلف الامام پر گفتگو کا طریقہ:
یہاں یہ بات ذہن میں رکھیں کہ اگر کسی شخص سے اس موضوع پر گفتگو کرنا پڑے تو اس کا طریقہ سمجھ لیں۔ اگر کوئی یہ کہے کہ امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنی چاہیے! تو آپ دلائل اس پر نہ دیں کہ امام کےپیچھے فاتحہ نہیں پڑھنی چاہیے بلکہ پہلی بات یہ طے کر لیں کہ فاتحہ پڑھنا قرأت کہلاتاہے یا نہیں ؟ فاتحہ کا پڑھنا؛ اس کو قرآن کا پڑھنا کہتے ہیں یا نہیں؟ پہلے یہ طے کر لیں۔ اگر قرأتِ فاتحہ کو قرأتِ قرآن آپ ثابت کر لیں گے تو اگلی بات بہت آسان ہے۔ کیونکہ ہمارا مؤقف یہ نہیں ہے کہ امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھنی چاہیے بلکہ ہمارا مؤقف ہے کہ امام کے پیچھے قرآن کی کوئی سورت بھی نہیں پڑھنی چاہیے جبکہ غیر مقلدین کے ہاں فرق ہے کہ امام کے پیچھے 113 سورتیں نہ پڑھے ، بلکہ ایک سورت فاتحہ پڑھے اور ہمارا مؤقف ہے کہ 114 سورتوں میں سے کوئی ایک بھی نہ پڑھے۔
اب سوال یہ ہے کہ 113 سورتوں کو تم قرأتِ قرآن کہتے ہو تو کیا فاتحہ کو بھی قرأتِ قرآن کہتے ہو یا نہیں؟ آپ یہ ثابت کریں اور یہ ثابت کرنا بہت آسان ہے کہ فاتحہ کا پڑھنا بھی قرآن کا پڑھنا ہے۔ اس پر دلیل خود صحیح بخاری میں ہے ۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللّهُ عَنْهُمَا كَانُوْا يَفْتَتِحُوْنَ الصَّلَاةَ بالْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ.
صحیح البخاری، رقم: 743
کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما نماز کو الحمد للہ رب ا لعالمین سے شروع کرتے تھے۔ اس کا معنی ہے کہ قرأت الحمد للہ رب ا لعالمین سے شروع ہوتی ہے اور الحمد للہ رب ا لعالمین سورت الفاتحہ ہے۔
”فاتحہ قرآن ہے“ پر دلیل:
فاتحہ قرآن ہے اس پر ایک اور دلیل سمجھ لیں۔ کسی غیر مقلد سے پوچھو کہ جب تم نماز شروع کرتے ہو تو کہتے ہو:
”اَللہُ اَکْبَرُ“....
پھر
”سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمَدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ“ ....
آگے
”اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“ ....
آگے
”اَلۡحَمۡدُ لِلہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۱﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۲﴾مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۳﴾اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۴﴾اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۵﴾صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۙ۬ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾ “ آمِیْن ....
آگے
” بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾ ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ فِیۡہِ“
اب بات سمجھنا کہ اگر قرآن مجید
الٓـمّٓ
سے شروع ہو رہا ہے تو اعوذ باللہ یہ
اَلۡحَمۡدُ لِلہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ
کے شروع میں نہ ہوتا بلکہ الٓـمّٓ کے شروع میں ہوتا۔ اور اللہ کا فرمان ہے:
﴿فَاِذَا قَرَاۡتَ الۡقُرۡاٰنَ فَاسۡتَعِذۡ بِاللہِ مِنَ الشَّیۡطٰنِ الرَّجِیۡمِ ﴿۹۸﴾﴾
النحل16: 98
کہ جب آپ قرآن پڑھنے لگیں تو اعوذ باللہ پڑھ لیا کریں! تو اس تعوذکا الحمد للہ رب العالمین سے پہلے ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ الحمد للہ رب العالمین قرآن ہے ۔
یہ ہمارے دلائل ہیں۔ تو پہلے یہ بات طے کر لو کہ فاتحہ کا پڑھنا قرآن کا پڑھنا ہے یا نہیں؟ مناظرہ ہوتا ہے تو ہو ؛نہیں ہوتا تو نہ ہو لیکن جب تک بنیاد نہ ہو گفتگو نہ کریں۔ دس گھنٹے لگ جائیں یا تین گھنٹے لگ جائیں یا تین دن گزر جائیں، گفتگو نہیں ہوتی تو نہ ہو لیکن بنیاد ضرور بنائیں۔ میدان اپنی پسند کا سجائیں، پھر میدان میں اتریں۔ مخالف کی پسند کے میدان میں کبھی نہ اتریں۔
قیامت کے دن دیدارِ باری تعالیٰ:
﴿ وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ ﴿ۙ۲۲﴾ اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ ﴿ۚ۲۳﴾ ﴾
قیامت کے دن بعض چہرے تر وتازہ ہوں گے اور اپنےرب کو دیکھنے والے ہوں گے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قیامت کے دن اللہ کا دیدار بندے کو ہو گا ۔
اور اھل السنۃ والجماعۃ کے تمام مذاہب اور افراد قیامت کے دن رؤیتِ باری تعالیٰ کے قائل ہیں سوائے معتزلہ اور خوارج کے، یہ دو فرقے قیامت کے دن بھی رؤیت باری تعالیٰ کے قائل نہیں ہیں ۔ ان کے پاس نقلی دلیل تو کوئی نہیں ہے البتہ ان کے پاس صرف عقلی دلائل ہیں کہ رؤیت تب ہوتی ہے کہ جب رائی اور مرئی کے درمیان فاصلہ ہو اور اللہ اور بندے کے درمیان تو فاصلہ نہیں ہے تو رؤیت کیسے ہو گی؟ مثلاً آپ آنکھ سے اس چیز کو دیکھیں گےکہ آنکھ اور اس چیز کے درمیان فاصلہ ہو ۔ تو رؤیت تب ہو گی جب رائی اور مرئی کے درمیان فاصلہ ہو۔ اگر فاصلہ نہیں تو اللہ کو دیکھیں گے کیسے؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نہیں دیکھ سکتے ۔ یہ صرف عقلی دلیل ہے ان کے پاس۔
ہم نےکہا کہ جب اللہ کی رؤیت پرنص قطعی آ جائے تو پھر رؤیت
کَمَایَلِیْقُ بِشَاْنِہٖ
(جیسی اللہ کی شان ہے، اسی کے مطابق ) ہو گی، اس پر عقلی دلائل پھر ختم ہو جاتے ہیں۔
مجرمین کی رسوائی:
﴿وَ وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍۭ بَاسِرَۃٌ ﴿ۙ۲۴﴾ تَظُنُّ اَنۡ یُّفۡعَلَ بِہَا فَاقِرَۃٌ ﴿ؕ۲۵﴾ کَلَّاۤ اِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِیَ ﴿ۙ۲۶﴾ وَ قِیۡلَ مَنۡ ٜ رَاقٍ ﴿ۙ۲۷﴾ ﴾
اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ بعض چہرے قیامت کے دن بےرونق ہوں گے،ان کو خدشہ ہو گا کہ ابھی مرے اور جب ان کی روح گلے تک آئے گی تو اس وقت کہا جائے گا کہ بلاؤ کسی علاج کرنے والے کو۔ رَاقٍ سے مراد صرف دم کرنے والا نہیں ہے، اس وقت عرب میں چونکہ رواج اس بات کا تھا کہ لوگ جھاڑ پھونک اور دم کرتے تھے، اس لیے یہاں رَاقٍ فرمایا ورنہ مراد دوا دارو ہے کہ جب انسان کی روح نکلنے لگتی ہے تو پھر کہتے ہیں کہ کسی ڈاکٹر کو بلاؤ!
﴿وَ الۡتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ ﴿ۙ۲۹﴾ اِلٰی رَبِّکَ یَوۡمَئِذِۣ الۡمَسَاقُ ﴿ؕ٪۳۰﴾﴾
پنڈلی پنڈلی پر چڑھ جاتی ہے۔ اس کا ایک معنی تو یہ ہے کہ آدمی بےچینی اور اضطراب کی وجہ سے ٹانگ کو ٹانگ پر رکھ دیتا ہے اور دوسرا معنی یہ ہے کہ انسان کمزور اتنا ہوتا ہے کہ پنڈلی دوسری پنڈلی پر چڑھ جائے تو اس کو اتارنے کی بھی ہمت نہیں ہوتی، اتنا لاغر اور بے بس ہو جاتا ہے۔
﴿فَلَا صَدَّقَ وَ لَا صَلّٰی ﴿ۙ۳۱﴾ وَ لٰکِنۡ کَذَّبَ وَ تَوَلّٰی ﴿ۙ۳۲﴾ ثُمَّ ذَہَبَ اِلٰۤی اَہۡلِہٖ یَتَمَطّٰی ﴿ؕ۳۳﴾ ﴾
نہ اس نے توحید کی تصدیق کی ہے اور نہ نماز پڑھی ہے بلکہ اس نےتو حید کی تکذیب کی ہے اور پھر واپس چلا گیا ہے اور واپس بھی کیسے جاتاہے ”یَتَمَطّٰی“فخر کرتے ہوئے کہ میں نے بہت بڑا کام کیا کہ میں نے اہل حق کو نہیں مانا ۔
﴿ اَوۡلٰی لَکَ فَاَوۡلٰی ﴿ۙ۳۴﴾ ثُمَّ اَوۡلٰی لَکَ فَاَوۡلٰی ﴿ؕ۳۵﴾﴾
یہ جو لفظ ہے
”اَوۡلٰی“
یہ اصل میں
وَیْلٌ
کا مقلوب ہے۔ لفظ
”اَوۡلٰی“
یہاں چار مرتبہ فرمایا۔ تباہی ہے تباہی ہے تباہی ہے تباہی ہے۔ یہ چار مرتبہ کیو ں فرمایا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک بربادی ہے جب اس پر موت آئے ، پھر بربادی ہے جب یہ قبر میں ہوگا، پھر بربادی ہے جب یہ حشر میں اٹھے گا، پھر بربادی ہے جب یہ جہنم میں ہو گا۔ تو چونکہ بربادی کے مقامات چار تھے اس لیے چار مرتبہ یہ لفظ فرمایا۔ اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ چار بار تکرار ہوا ،تکرار نہیں ہوا بلکہ ہرمقام کی تباہی الگ بتائی ہے۔
﴿ اَیَحۡسَبُ الۡاِنۡسَانُ اَنۡ یُّتۡرَکَ سُدًی ﴿ؕ۳۶﴾اَلَمۡ یَکُ نُطۡفَۃً مِّنۡ مَّنِیٍّ یُّمۡنٰی﴿ۙ۳۷﴾ ثُمَّ کَانَ عَلَقَۃً فَخَلَقَ فَسَوّٰی ﴿ۙ۳۸﴾﴾
کیا آدمی یہ سمجھتا ہے کہ اسے یونہی فضول چھوڑ دیا جائے گا؟ کیا یہ نطفہ نہیں تھا جسے رحمِ مادر میں ٹپکایا جاتا ہے، پھر بعد میں وہ گوشت کا لوتھڑا بنتا ہے، اللہ اسے پیدا کرتے ہیں، پھر اس کو برابر کرتے ہیں۔
﴿ فَجَعَلَ مِنۡہُ الزَّوۡجَیۡنِ الذَّکَرَ وَ الۡاُنۡثٰی ﴿ؕ۳۹﴾ اَلَیۡسَ ذٰلِکَ بِقٰدِرٍ عَلٰۤی اَنۡ یُّحۡیَِۧ الۡمَوۡتٰی ﴿٪۴۰﴾ ﴾
پھر اس سے کسی کو مرد بناتے ہیں اور کسی کو عورت بناتے ہیں ۔ کیا اللہ اس بات پر قادر نہیں کہ مردوں کو دوبارہ زندہ کرے؟!
حدیث پاک میں ہے کہ جب یہ آیت پڑھیں
”اَلَیۡسَ ذٰلِکَ بِقٰدِرٍ عَلٰۤی اَنۡ یُّحۡیَِۧ الۡمَوۡتٰی“
تو یہاں یہ پڑھا کریں :
”بَلٰى وَأَنَا عَلٰى ذٰلِكَ مِنَ الشَّاهِدِيْنَ“
شرح السنۃ : ج1 ص157 باب النہی عن القراۃ فی الرکوع
لیکن یہ شرط ہے کہ فرض نماز نہ ہو، نفل نماز ہو تب بھی گنجائش ہے اور نماز کے علاوہ ہو تب بھی ہے ۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․